وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ فَأَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ فرمایا: ”پانچ ٹوکروں سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم میں۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ،
عمرو بن یحییٰ نے اس اسناد سے گزشتہ حدیث کے مثل روایت کی۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِيهِ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَفِّهِ بِخَمْسِ أَصَابِعِهِ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
یحییٰ نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ انگلیوں سے اشارہ فرما کے وہی حدیث فرماتے تھے جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں اور نہ پانچ اوقیہ سے کم میں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسَاقٍ مِنْ تَمْرٍ، وَلَا حَبٍّ صَدَقَةٌ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ وسق (یعنی ٹوکرا یا گونی) سے کم کھجور میں زکوٰۃ نہیں اور نہ اس سے کم غلہ میں زکوٰۃ ہے۔“
وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ فِي حَبٍّ وَلَا تَمْرٍ صَدَقَةٌ حَتَّى يَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلہ اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں جب تک کہ پانچ وسق تک نہ ہو اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں۔“
وحَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَهْدِيٍّ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، وَمَعْمَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مَهْدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنِ آدَمَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ بَدَلَ " التَّمْرِ ": " ثَمَرٍ ".
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزرا مگر اس میں «تمر» کی جگہ «ثمر» کا لفظ ہے یعنی پھلوں میں زکوٰۃ نہیں جب تک پانچ سوق نہ ہوں۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ ".
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزرا اور اس میں پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زکوٰۃ نہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وعمرو بن سواد ، والوليد بن شجاع ، كلهم، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فِيمَا سَقَتِ الْأَنْهَارُ وَالْغَيْمُ الْعُشُورُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس میں نہروں سے اور مینہ سے پانی دیا جائے اس میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جو اونٹ لگا کر سینچی جائے اس میں بیسواں حصہ۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليس على الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فَرَسِهِ صَدَقَةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے غلام اور گھوڑے پر زکوٰۃ نہیں۔“
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ عَمْرٌو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ زُهَيْرٌ يَبْلُغُ بِهِ: " لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فَرَسِهِ صَدَقَةٌ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے کی زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، كُلُّهُمْ، عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وأحمد بن عيسى ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ فِي الْعَبْدِ صَدَقَةٌ، إِلَّا صَدَقَةُ الْفِطْرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام کی زکوٰۃ نہیں مگر صدقہ فطر ہے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقِيلَ: مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَالْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا، قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ، وَأَعْتَادَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ فَهِيَ عَلَيَّ، وَمِثْلُهَا مَعَهَا، ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ أَمَا شَعَرْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ان صاحبوں نے زکوٰۃ نہیں دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن جمیل تو اس کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ محتاج تھا اور اللہ نے اس کو امیر کر دیا اور خالد پر تم زیادتی کرتے ہو اس لیے کہ اس نے تو زرہیں اور ہتھیار تک اللہ کی راہ میں دے دئیے ہیں (یعنی پھر زکوٰۃ کیوں نہ دے گا) اور رہے عباس سو ان کی زکوٰۃ اور اتنی ہی اور میرے ذمہ ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے عمر! جچا تو باپ کے برابر ہے۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى النَّاسِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر رمضان کے بعد لوگوں پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے ہر آزاد اور غلام مرد و عورت پر جو مسلمان ہو۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ حُرٍّ، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مقرر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو، ہر غلام اور آزاد اور چھوٹے اور بڑے پر۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " فَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ رَمَضَانَ عَلَى الْحُرِّ وَالْعَبْدِ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ "، قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ ہر آزاد، غلام، مذکر اور مؤنث پر ایک صاع کھجور یا جَو سے فرض کیا۔ سیدنا نافع نے کہا: پھر لوگوں نے تجویز کر لیا اس کو آدھا صاع گیہوں کے برابر۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعٍ مِنْ شَعِيرٍ "، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَجَعَلَ النَّاسُ عَدْلَهُ مُدَّيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ.
نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا صدقہ فطر کا ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع جَو کا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر لوگوں نے تجویز کیا کہ دو مد گیہوں کے (جو قیمت میں اس کے برابر ہوتے ہیں)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، أَوْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا صدقہ فطر کا رمضان کے بعد ہر ایک مسلمان پر آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا ایک صاع کھجور کا یا ایک صاع جَو کا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: " كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صدقہ فطر نکالتے تھے (یعنی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) ایک صاع طعام کا (یعنی گیہوں کا) یا ایک صاع جَو کا یا کھجور کا یا پنیر کا یا انگور کا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ قَيْسٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " كُنَّا نُخْرِجُ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ، عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ "، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، فَكَلَّمَ النَّاسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ، أَنْ قَالَ: إِنِّي أَرَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ أَبَدًا مَا عِشْتُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام کی طرف سے ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا جَو یا کھجور یا انگور نکالتے تھے پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ حج کو یا عمرہ کو آئے تو لوگوں میں منبر پر وعظ کیا اور اس میں کہا کہ میں جانتا ہوں کہ دو مد (یعنی نصف صاع) شام کے سرخ گیہوں کا برابر ہوتا ہے ایک صاح کھجور کے (یعنی قیمت میں) سو لوگوں نے اس کو لے لیا اور ابوسعید نے کہا: میں تو وہی نکالے جاؤں گا جو نکالتا تھا (یعنی ایک صاع) جب تک جیوں گا (سبحان اللہ! یہ اتباع تھا حدیث کا اور نفرت تھی رائے اور قیاس سے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: " كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ حُرٍّ وَمَمْلُوكٍ، مِنْ ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ: صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ "، فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ كَذَلِكَ، حَتَّى كَانَ مُعَاوِيَةُ فَرَأَى أَنَّ مُدَّيْنِ مِنْ بُرٍّ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَذَلِكَ.
ترجمہ وہ جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ: الْأَقِطِ، وَالتَّمْرِ، وَالشَّعِيرِ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم صدقہ فطر دیتے تھے پنیر، کھجور اور جَو سے۔
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ لَمَّا جَعَلَ نِصْفَ الصَّاعِ مِنَ الْحِنْطَةِ عَدْلَ صَاعٍ مِنْ تَمْرٍ، أَنْكَرَ ذَلِكَ أَبُو سَعِيدٍ وَقَالَ: " لَا أُخْرِجُ فِيهَا إِلَّا الَّذِي كُنْتُ أُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نصف صاع کھجور کو ایک صاع گیہوں کے برابر مقرر کیا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے انکار کیا اور کہا میں تو وہی دوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیتا تھا ایک صاع کھجور یا انگور یا جَو یا پنیر۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر ادا کیا جائے نماز کو نکلنے سے پہلے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ بِإِخْرَاجِ زَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر ادا کر دیا جائے لوگوں کے نماز کو جانے سے پہلے۔
وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ؟، قَالَ: الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ، إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ، وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ، وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ، وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟، قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ { 7 } وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ { 8 } سورة الزلزلة آية 7-8 "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی چاندی سونے کا مالک ایسا نہیں کہ اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ اس کی چاندی، سونے کے تختے بنائے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ میں گرم کیے جائیں گے پھر اس کا ماتھا اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی اور اس کی پیٹھ اور جب وہ ٹھنڈے ہو جائیں گے پھر گرم کیے جائیں گے پچاس ہزار برس کے دن پھر اس کو یہی عذاب ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو اور بندوں کا اور اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف۔“ ان سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! پھر اونٹوں کا کیا حال ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق نہیں دیتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دوہے جس دن ان کو پانی پلائے (عرب کا معمول تھا کہ تیسرے یا چوتھے دن اونٹوں کو پانی پلانے لے جاتے وہاں مسکین جمع رہتے اونٹوں کے مالک ان کو دودھ دوھ کر پلاتے حالانکہ یہ واجب نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹوں کا ایک حق اس کو بھی قرار دیا) جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک برابر زمین پر اوروہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹین گے پھر جب ان میں سے پہلا جانور روندتا چلا جائے گا پچھلا آ جائے گا۔ یوں یہ عذاب ہوتا رہے گا سارا دن کہ پچاس ہزار برس کا ہو گا یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی کچھ راہ نکلے جنت یا دوزخ کی طرف۔“ پھر عرض کی اے اللہ کے رسول! اور گائے بکری کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہو گا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک پٹ پر صاف زمین پر اور ان گائے بکریوں میں سب آئیں گی کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی، نہ بے سینگ کی، نہ سینگ ٹوٹی اور آ کر اس کو ماریں گی اپنے سینگوں سے اور روندیں گی اپنے کھروں سے جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی پچھلی پھر آئے گی یہی عذاب ہو گا اس پر پچاس ہزار برس کے دن پھر یہاں تک کہ فیصلہ ہو جائے بندوں کا پھر اس کی راہ کی جائے جنت یا دوزخ کی طرف۔“ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اور گھوڑے؟ آپ نے فرمایا: ”گھوڑے تین طرح پر ہیں ایک اپنے مالک پر بار ہے یعنی بال ہے۔ دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھاپنے والا ہے۔ تیسرا اپنے مالک کے ثواب کا سامان ہے، اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو باندھا ہے اس لیے کہ لوگوں کو دکھلائے اور لوگوں میں بڑ مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لئے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا وہ گھوڑا ہے کہ باندھا اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لئے کسی چراگاہ یا باغ میں پھر اس نے جو کھایا اس پر چراگاہ یا باغ سے اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لئے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا، تب بھی اس کے لئے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پیئے ہیں۔“ (یہ ثواب تو بے ارادہ پانی پی لینے میں ہے پھر جب پانی پلانے کے ارادہ سے لے جائے تو کیا کچھ ثواب نہ پائے گا) پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اور گدھے کا حال فرمائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھوں کے بارہ میں فرمایا: ”میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا بجز اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے «فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ»یعنی جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا۔“
وحَدَّثَنِييُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ مَيْسَرَةَ إِلَى آخِرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا " وَلَمْ يَقُلْ: " مِنْهَا حَقَّهَا "، وَذَكَرَ فِيهِ: " لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا "، وَقَالَ: " يُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبْهَتُهُ وَظَهْرُهُ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی اونٹوں والا نہیں ہے جو اس کا حق ادا نہ کرتا ہو۔“ اور نہیں کہا کہ اس کا حق اس سے۔ اور اس میں ذکر کیا کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور کہا کہ داغی جائیں گی اس کے ساتھ اس کی دونوں کروٹیں اور پیشانی اور پشت۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا أُحْمِيَ عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُجْعَلُ صَفَائِحَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبَاهُ وَجَبِينُهُ، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، كَأَوْفَرِ مَا كَانَتْ، فَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ، كُلَّمَا مَضَى عَلَيْهِ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ، ثُمَّ يَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قَالَ سُهَيْلٌ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الْبَقَرَ أَمْ لَا؟، قَالُوا: فَالْخَيْلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْخَيْلُ فِي نَوَاصِيهَا، أَوَ قَالَ: الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا، قَالَ سُهَيْلٌ: أَنَا أَشُكُّ الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: فَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَلِرَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَيُعِدُّهَا لَهُ، فَلَا تُغَيِّبُ شَيْئًا فِي بُطُونِهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا، وَلَوْ رَعَاهَا فِي مَرْجٍ مَا أَكَلَتْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَجْرًا، وَلَوْ سَقَاهَا مِنْ نَهْرٍ كَانَ لَهُ بِكُلِّ قَطْرَةٍ تُغَيِّبُهَا فِي بُطُونِهَا أَجْرٌ، حَتَّى ذَكَرَ الْأَجْرَ فِي أَبْوَالِهَا وَأَرْوَاثِهَا، وَلَوِ اسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ تَخْطُوهَا أَجْرٌ، وَأَمَّا الَّذِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَالرَّجُلُ يَتَّخِذُهَا تَكَرُّمًا وَتَجَمُّلًا، وَلَا يَنْسَى حَقَّ ظُهُورِهَا وَبُطُونِهَا فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، وَأَمَّا الَّذِي عَلَيْهِ وِزْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا أَشَرًا وَبَطَرًا وَبَذَخًا وَرِيَاءَ النَّاسِ، فَذَاكَ الَّذِي هِيَ عَلَيْهِ وِزْرٌ، قَالُوا: فَالْحُمُرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْجَامِعَةَ الْفَاذَّةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ { 7 } وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ { 8 } سورة الزلزلة آية 7-8 "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی صاحب کنز (یعنی خزانہ والا) ایسا نہیں ہے جو زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر گرم کیا جائے گا وہ خزانہ اس جہنم کی آگ میں اور اس کے تختے بنائے جائیں گے پھر داغی جائیں گی اس سے ان کی دونوں کروٹیں اور ماتھا جب تک کہ فیصلہ کرے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اتنے بڑے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے پھر اس کی راہ نکلے جنت کو جانے کی یا دوزخ کو اور جو اونٹ والا ایسا ہو کہ ان کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو وہ لٹایا جائے گا ایک پٹ پر زمین برابر میں اور وہ اونٹ آئیں گے فربہ ہو کر جیسے دنیا میں بہت فربہی کے وقت تھے اور وہ اس کو روندیں گے اور جب ان میں کا پچھلا اس پر سے نکل جائے گا اگلا پھر لوٹ آئے گا (یہی صحیح ہے اور اوپر کی روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب ان میں کا پہلا روندتا چلا جائے گا پچھلا آئے گا یہ راوی کی غلطی ہے اس لئے کہ اس میں معنی صحیح نہیں ہوتے نووی) یہاں تک کہ فیصلہ کرے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا اتنے بڑے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے، پھر اس کی راہ نکلے جنت میں جانے کی یا دوزخ میں، جو بکری والا ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ لٹایا جائے گا ایک پٹ پر برابر زمین میں اور وہ آئیں گی بہت موٹی ہو کر جیسی دنیا میں تھیں اور اس کو روندیں گی اپنے کھروں سے اور کونچیں گی اپنے سینگوں سے کہ ان میں کوئی سینگ مڑی ہوئی اور بے سینگ والی نہ ہو گی، جب اس پر سے پچھلی گزر جائے گی اگلی پھر آ جائے گی یہی عذاب ہوتا رہے گا، جب تک اللہ فیصلہ کرے اپنے بندوں کا ایسے دن میں جس کا اندازہ پچاس ہزار برس ہے تمہاری زندگی کے حساب سے پھر اس کی راہ نکالی جائے گی جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔“ سہیل نے کہا: اور میں نہیں جانتا کہ گائے کا ذکر بھی آپ نے کیا یا نہیں؟ پھر عرض کی اور گھوڑے اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں بہتری یا فرمایا: گھوڑے کی پیشانی میں بہتری بندھی ہے۔“ سہیل نے کہا: مجھے اس میں شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں بہتری ہے قیامت کے دن تک“ (یعنی جہاد کا بڑا سامان گھوڑا ہے اور بہتری دین و دنیا کی جہاد میں ہے)پھر فرمایا: ”گھوڑے تین قسم میں ہیں ایک تو آدمی کے لیے ثواب ہے، دوسرا پردہ ہے(اس کے عیبوں کا)، تیرا وبال و عذاب ہے۔ سو جو ثواب ہے تو وہ اس شخص کے لئے ہے جس نے گھوڑا باندھا اللہ کی راہ میں اور تیار رکھا اسی واسطے (یعنی جہاد کو) سو وہ جو غائب کرتا ہے اپنے پیٹ میں اللہ اس کے مالک کے لئے ثواب لکھتا ہے (یعنی اس کا دانہ چارہ سب موجب ثواب ہے) اور اگر اس کو کسی چراگاہ میں چرایا تو جو کچھ اس نے کھایا اللہ نے اسے ثواب میں لکھا یا جس نہر سے اس نے پانی پلایا اس کے ہر قطرہ پر جو اس نے پیٹ میں اٹھایا ایک ثواب ہے یہاں تک کہ اس کے پیشاب اور لید میں ثواب کا ذکر فرمایا اور اگر ایک دو ٹیلے پر کود گیا تو ہر قدم پر جو اس نے رکھا ایک ثواب لکھا گیا اور جو مالک کا پردہ ہے وہ اس کا گھوڑا ہے جس نے احسان کرنے کو اور اپنی خوبی کے لئے باندھا اور اس کی سواری کا حق نہ بھولا (یعنی دوستوں کو مانگے کبھی کبھی غرباء کو چڑھا لیا) اور نہ اس کے پیٹ کا (یعنی دانے چارے پانی مصالحے کی خبر رکھے) اس کی تکلیف اور آرام میں اور جو وبال و عذاب ہے وہ اس کا گھوڑا ہے جس سے اترانے اور سرکشی اور شرارت کے لئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے باندھا، سو وہ اس پر وبال ہے۔“ پھر عرض کی کہ گدھے کا حال فرمائیے، اے اللہ کے رسول! فرمایا:”اللہ نے مجھ پر اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں اتارا مگر یہ آیت جامع بے مثل «فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» ۔
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
سہیل ہی سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ بَدَلَ " عَقْصَاءُ ": " عَضْبَاءُ "، وَقَالَ: " فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَظَهْرُهُ "، وَلَمْ يَذْكُر: " جَبِينُهُ "،
سہیل سے تیسری سند سے یہی روایت آئی ہے اور اس میں «عضباء» کا لفظ ہے اور پیشانی کے داغ کا ذکر نہیں۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا لَمْ يُؤَدِّ الْمَرْءُ حَقَّ اللَّهِ أَوِ الصَّدَقَةَ فِي إِبِلِهِ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی روایت مروی ہے جو سہیل نے اپنے باپ سے اوپر روایت کی۔
حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مُنْكَسِرٌ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَأْتَهُ فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنْ لَا بُدَّ مِنْهُ سَلَكَ يَدَهُ فِي فِيهِ، فَيَقْضَمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟، قَالَ: " حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے: ”جو اونٹ والا حق نہ ادا کرے، وہ قیامت کے دن آئے گا اور وہ اونٹ بھی بہت سے بہت ہو کر آئیں گے اور مالک ان کا ایک پٹ پر زمین پر بٹھایا جائے گا اور وہ اس پر اپنے پیروں اور کھروں سے کودیں گے اور جو گائے والا اس کا حق نہ ادا کرے گا وہ قیامت کے دن آئیں گی بہت سے بہت اور اس کو بٹھا کر ایک پٹ پر زمین میں اپنے سینگوں سے کوچیں گی اور پیروں سے روندیں گی اور جو بکری والا اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ بھی قیامت کے دن بہت سے بہت ہو کر آئیں گی اور اس کو ایک پٹ پر زمین میں بٹھا کر اپنے سینگوں سے کوچیں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی اور ان میں بے سینگ کی کوئی نہ ہو گی اور نہ کوئی سینگ ٹوٹی۔ اور جو خزانہ والا ایسا ہے کہ اس کا حق ادا نہیں کرتا وہ قیامت کے دن آئے گا ایک گنجا اژدہا بن کر (یعنی جس کے زہر کی تیزی سے اس کے خود بال جھڑ جاتے ہیں اور اپنی دم پر اتنا کھڑا ہو جاتا ہے کہ سوار کے سر تک اس کا منہ پہنچ جاتا ہے) اور اس کے پیچھے لگے گا منہ کھول کر جب اس کے پاس آئے گا تو مالک اس سے بھاگے گا اور وہ پکارے گا کہ لے اپنا خزانہ تو نے چھپا رکھا تھا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے شاید یہ ندا اللہ کی طرف سے ہو گی، پھر جب وہ دیکھے گا مر کر یہ بھی نہیں چھوڑتا تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اسے ایسا چبائے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔“ ابوالزبیر نے کہا: ہم نے سنا عبید بن عمیر سے وہ یہی بات کہتے تھے، پھر ہم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو وہ بھی بولے مثل عبید بن عمیر کے، اور ابوالزبیر نے کہا: سنا میں نے عبید بن عمیر سے کہ ایک شخص نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اونٹ کا کیا حق ہے؟ فرمایا: ”اس کو پانی پر دودھ لینا (کہ اس میں جانوروں کو آرام ہوتا ہے اور فقیروں کو کچھ دودھ مل جاتا ہے) اور اس کا ڈول مانگے کو دینا (یعنی پانی پلانے کا) اور اس کے نر کو نطفہ لینے کے لئے مانگے دینا اور اس کو اللہ کی راہ میں سواری میں دینا۔“ (یعنی جہاد میں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ: إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ مَالٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا تَحَوَّلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ حَيْثُمَا ذَهَبَ، وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ، وَيُقَالُ: هَذَا مَالُكَ الَّذِي كُنْتَ تَبْخَلُ بِهِ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ، أَدْخَلَ يَدَهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ يَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اونٹ والا اور گائے والا اور بکری والا اس کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ قیامت کے دن بٹھایا جائے گا، ایک پٹ پر زمیں پر اور کھروں والا جانور اس کو اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں والا اپنے سینگوں سے کونچے گا اس دن کوئی جانور بے سینگ کا نہ ہوگا نہ کوئی سینگ ٹوٹا۔“ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا ہے حق ان کا؟ فرمایا: ”اس کے نر کو نطفہ کے لئے دینا اور اس کے ڈول کو مانگے دینا اور اس کو دودھ پینے کے لئے مانگے دینا اور جب پانی پلا دیں اس کو دوھ لینا (اونٹوں کو چوتھے پانچویں دن پانی پلانے کو لاتے ہیں اور وہاں فقراء جمع ہوتے ہیں پھر وہاں دوہنے میں بھی جانوروں کو آرام ہوتا ہے اور فقراء کو بھی دودھ مل جاتا ہے) اور اللہ کی راہ میں سواری اور بوجھ لادنے والے کو دینا اور جو صاحب مال اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا وہ مال اس کا قیامت کے دن ایک اژدہا گنجا بن جائے گا اور اپنے مالک کے پیچھے دوڑے گا، جدھر وہ بھاگے گا، اور وہ اس سے بھاگے گا، پھر کہا جائے گا کہ یہ وہی مال ہے جس میں تو بخیلی کرتا تھا (یعنی زکوٰۃ نہ دیتا تھا، صدقہ فطر نہ ادا کرتا تھا) پھر جب وہ دیکھے گا کہ یہ میرا پیچھا نہ چھوڑے گا تو اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دے گا اور وہ اژدھا اس کا ہاتھ ایسا چبا ڈالے گا جیسے اونٹ چباتا ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هِلَالٍ الْعَبْسِيُّ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُصَدِّقِينَ يَأْتُونَنَا فَيَظْلِمُونَنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ "، قَالَ جَرِيرٌ: مَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ مُنْذُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا وَهُوَ عَنِّي رَاضٍ،
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا چند لوگ گاؤں کے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اور عرض کی بعضے تحصیلددار ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ ہم پر زیادتی کرتے ہیں (یعنی جانور اچھے سے اچھا لیتے ہیں حالانکہ متوسط لینا چاہیئے) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم راضی کر دیا کرو اپنے تحصیل داروں کو۔“ (یعنی اگرچہ وہ تم پر زیادتی بھی کریں) سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے یہ سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تب سے کوئی تحصیل دار میرے پاس سے نہیں گیا مگر خوش ہو کر۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، كُلُّهُمْ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَاعِيلَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: " هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ "، قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟، قَالَ: " هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ، لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ "،
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب مجھ کو دیکھا تو فرمایا:”رب کعبہ کی قسم! وہی نقصان والے ہیں۔“ تب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا اور نہ ٹھہر سکا کہ کھڑا ہو گیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بہت مال والے ہیں مگر جس نے خرچ کیا ادھر اور ادھر اور جدھر مناسب ہوا اور دیا آگے سے اور پیچھے سے اور داہنے سے اور بائیں سے اور ایسے لوگ تھوڑے ہیں (یعنی جہاں دین کی تائید اور اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی دیکھے وہاں بے تکلف خرچ کیا) اور جو اونٹ والا، گائے والا، بکری والا کہ ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا قیامت کے دن آئیں گے وہ جانور ان سب دنوں سے موٹے ہو کر اور چربیلے جیسے دنیا میں تھے اور اپنے سینگ سے اس کو کوچیں گے اور اپنے کھروں سے اس کو روندیں گے جب پچھلا ان کا گزر جائے گا اگلا پھر اس پر آ جائے گا۔ یہی عذاب ہوتا رہے گا جب تک کہ فیصلہ ہو بندوں کا۔“
وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ الْمَعْرُورِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ وَكِيعٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ رَجُلٌ يَمُوتُ، فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا أَوْ غَنَمًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے دوسری سند سے وہی روایت مروی ہے مگر اس میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے، جو زمین پر مر جائے اور اونٹ اور گائے اور بکری چھوڑ جائے اور اس کی زکوٰۃ نہ دے۔“ آگے وہی حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبًا تَأْتِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ، وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارٌ أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ عَلَيَّ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ آرزو نہیں کہ یہ احد کا پہاڑ میرے لئے سونا ہو جائے اور تین دن سے زیادہ میرے پاس ایک دینار بھی باقی رہے مگر وہ دینار کہ وہ اپنے کسی قرض خواہ کو دینے کے لئے اٹھا رکھوں۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً، وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبٌ أَمْسَى ثَالِثَةً، عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا حَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَهَكَذَا عَنْ شِمَالِهِ "، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا "، مِثْلَ مَا صَنَعَ فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: سَمِعْتُ لَغَطًا وَسَمِعْتُ صَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُرِضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَّبِعَهُ، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ، قَالَ: فَانْتَظَرْتُهُ فَلَمَّا جَاءَ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: فَقَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا مدینہ کی کنکریلی زمین میں بعد دوپہر کے اور ہم احد کو دیکھ رہے تھے، تب مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر!“ میں نے عرض کی حاضر ہوں اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں چاہتا کہ یہ احد میرے پاس سونا ہو کر تیں دن بھی اس میں سے ایک دینار میرے پاس بچے مگر وہ دینار کہ میں کسی قرض کے سبب سے اٹھا رکھوں اور اگر یہ سونا ہو جائے تو میں اللہ کے بندوں میں یوں بانٹوں اور آپ نے اپنے آگے ایک لپ بھر کر اشارہ کیا اور اسی طرح داہنے اور بائیں اشارہ کیا“سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر!“ میں نے عرض کی حاضر ہوں اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت مال والے وہی ثواب کم پانے والے ہیں قیامت کے دن (یعنی زہد کے درجات عالیہ سے محروم رہنے والے) مگر جس نے خرچ کیا ادھر ادھر اور جدھر مناسب ہوا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایسا ہی اشارہ کیا جیسے پہلے کیا تھا پھر ہم چلے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم یونہی رہنا جیسے اب ہو (یعنی یہاں سے کہیں جانا نہیں) جب تک کہ میں نہ آؤں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے غائب ہو گئے۔ پھر میں نے کچھ گنگناہٹ اور آواز سنی اور دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشمن ملا ہو اور میں نے ارادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاؤں اتنے میں یاد آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہیں رہنا جب تک میں نہ آؤں تمہارے پاس۔“ غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منتظر رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے اس آواز کا جو سنی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرئیل علیہ السلام تھے (ان کے اوپر سلامتی ہو) اور وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے فرمایا: جو مرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اور شریک نہ کیا ہو اس نے اللہ کا کسی چیز کو (یعنی پنجہ، شدہ، جھنڈے، نیزے، گرو چیلے، نبی و بھوت و پری کو) وہ جنت میں جائے گا (یعنی اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد یا انبیاء و اولیاء کی شفاعت یا ارحم الراحمین کی رحمت کاملہ کے سبب سے بخشے جانے کے بعد) میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، جبرائیل نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری بھی کی ہو۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ رُفَيْعٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ لَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ الْقَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ "، فَقُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: " يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا "، قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: " اجْلِسْ هَا هُنَا "، قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: " اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ "، قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الْحَرَّةِ حَتَّى لَا أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللَّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى "، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ؟ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الْحَرَّةِ، فَقَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ وَإِنْ زَنَى، قَالَ: نَعَمْ وَإِنْ شَرِبَ الْخَمْرَ ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نکلا ایک رات اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے جا رہے تھے۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں، تو میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منظور ہے کہ کوئی ساتھ نہ آئے (ورنہ صحابہ کب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑتے تھے) تو میں یہ سمجھ کر چاندنی کے سایہ میں چلنے لگا(تاکہ آپ ان کو نہ دیکھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کی ابوذر اللہ مجھ کو آپ پر فدا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذر آؤ!“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں چلا، تھوڑی دیر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ دنیا میں بہت مال والے ہیں وہ کم درجہ والے ہیں قیامت کے دن مگر جسے اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ پھونک پر اڑا دے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے اور کرے اس مال سے بہت خوبیاں۔“ پھر انہوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھوڑی دیر ٹہلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بیٹھو۔“ (اور مجھے ایک صاف زمین پر بٹھا دیا کہ اس کے گرد کالے پتھر تھے) اور مجھ سے فرمایا: ”تم یہیں بیٹھے رہو جب تک میں لوٹ کر آؤں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے ان پتھروں میں یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھتا تھا اور وہاں بہت دیر تک ٹھہرے رہے، پھر میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکہتے چلے آ رہے تھے کہ ”اگر چوری کرے اور زنا کرے؟“ پھر آئے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے (سبحان اللہ! یہ کمال محبت کا فقرہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زباں زد رہتا تھا) کون تھا ان کالے پتھروں میں؟ میں نے تو کسی کو نہ دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل علیہ السلام تھے کہ وہ میرے آگے آئے ان پتھروں میں اور فرمایا: بشارت دو اپنی امت کو کہ جو مرا اور اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: ”اے جبرائیل! اگرچہ وہ چوری کرے اور زنا کرے؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے دوبارہ پھر کہا: ”اگرچہ وہ چوری کرے اور زنا کرے؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے تیسری بار پھر کہا: ”اگرچہ وہ چوری اور زنا کرے؟“انہوں نے کہا: ہاں اگرچہ وہ شراب بھی پیئے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَيْنَا أَنَا فِي حَلْقَةٍ فِيهَا مَلَأٌ مِنْ قُرَيْشٍ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ أَخْشَنُ الثِّيَابِ، أَخْشَنُ الْجَسَدِ، أَخْشَنُ الْوَجْهِ فَقَامَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِرَضْفٍ يُحْمَى عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُوضَعُ عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِ أَحَدِهِمْ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ نُغْضِ كَتِفَيْهِ، وَيُوضَعُ عَلَى نُغْضِ كَتِفَيْهِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ حَلَمَةِ ثَدْيَيْهِ يَتَزَلْزَلُ، قَالَ: فَوَضَعَ الْقَوْمُ رُءُوسَهُمْ، فَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْهُمْ رَجَعَ إِلَيْهِ شَيْئًا، قَالَ: فَأَدْبَرَ، وَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ هَؤُلَاءِ إِلَّا كَرِهُوا قُلْتَ لَهُمْ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا، إِنَّ خَلِيلِي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي فَأَجَبْتُهُ، فَقَالَ " أَتَرَى أُحُدًا "، فَنَظَرْتُ مَا عَلَيَّ مِنَ الشَّمْسِ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ يَبْعَثُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَقُلْتُ: أَرَاهُ، فَقَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مِثْلَهُ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ، إِلَّا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ، ثُمَّ هَؤُلَاءِ يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا "، قَالَ: قُلْتُ: مَا لَكَ وَلِإِخْوَتِكَ مِنْ قُرَيْشٍ، لَا تَعْتَرِيهِمْ وَتُصِيبُ مِنْهُمْ، قَالَ: لَا وَرَبِّكَ لَا أَسْأَلُهُمْ عَنْ دُنْيَا، وَلَا أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ حَتَّى أَلْحَقَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ.
سیدنا احنف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مدینہ میں آیا اور ایک حلقہ میں بیٹھا تھا کہ اس میں قریش کے سردار تھے کہ ایک شخص آیا موٹے کپڑے پہنے ہوئے سخت جسم والا اور سخت چہرے والا اور ان کے پاس کھڑا ہوا اور کہا کہ خوشخبری دے مال جمع کرنے والوں کو گرم پتھر کی جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی نوک پر رکھا جائے گا یہاں تک کہ شانے کی ہڈی سے پھوٹ نکلے گا اور شانے کی ہڈی پر رکھا جائے گا تو چھاتیوں کی نوک سے پھوٹ نکلے گا، وہ پتھر ایسا ہی ہلتا ہوا آرپار ہوتا رہے گا۔ کہا راوی نے پھر جھکا لیے لوگوں نے سر اور میں نے ان میں سے کسی کو نہ دیکھا کہ ان کو کچھ جواب دیتا اور پھر وہ پھرے اور میں ان کے پیچھے ہوا (کیوں نہ ہوں یہ طالب حدیث ہیں) یہاں کہ ایک کھمبے کے پاس پہنچ گئے اور میں نے کہا کہ میں تو یہی خیال کرتا ہوں۔۔۔ کہ آپ نے جو کچھ کہا ان کو بہت برا لگا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کچھ عقل نہیں رکھتے (یعنی دین کی) اور میرے دوست ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور میں گیا اور فرمایا: ”کہ تم ... احد کو دیکھتے ہو؟۔“ میں نے اپنے اوپر کی دھوپ کو دیکھا اور یہ سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے کسی کام کیلئے وہاں بھیجنا چاہتے ہیں اور میں نے عرض کیا کہ ہاں دیکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ نہیں چاہتا کہ اس پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اگر ہو بھی تو میں خرچ کر دوں مگر تین دینار (یعنی تین جن کا اوپر ذکر ہوا کہ قرض کے لئے رکھوں) پر یہ لوگ دنیا جمع کرتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔“ پھر میں نے ان نے کہا کہ تمہارا اپنے بھائیوں قریش کے ساتھ کیا حال ہے؟ کہ تم ان کے پاس کسی ضرورت کے لیے نہیں جاتے اور نہ ان سے کچھ لیتے ہو انہوں نے کہا: مجھے قسم ہے تمہارے رب کی کہ نہ میں ان سے دنیا مانگوں گا، نہ دین میں کچھ پوچھوں گا (اس لئے کہ میں ان سے زیادہ جانتا ہوں)یہاں تک کہ ملوں گا میں اللہ سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ ابْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَمَرَّ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: " بَشِّرِ الْكَانِزِينَ بِكَيٍّ فِي ظُهُورِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جُنُوبِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ، يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ "، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى، فَقَعَدَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، قَالُوا: هَذَا أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تَقُولُ قُبَيْلُ، قَالَ: " مَا قُلْتُ إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟، قَالَ: " خُذْهُ فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ ".
سیدنا احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں قریش کے چند لوگوں ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ابوذر آئے اور فرمانے لگے: بشارت دو کنز جمع کرنے والوں کو ایسے داغ سے جو ان کے پیٹ پر لگائے جائیں گے اور ان کی کروٹوں سے نکل جائیں گے اور ان کی گدیوں میں لگائے جائیں گے تو ان کی پیشانیوں سے نکل آئیں گے پھر وہ کنارے ہو گئے اور میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں اور میں ان کی طرف کھڑا ہوا اور میں نے کہا: یہ کیا تھا جو میں نے ابھی سنا کہ آپ ابھی کہہ رہے تھے۔ انہوں نے کہا: میں وہ ہی کہہ رہا تھا جو سنا میں نے ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں اس عطا میں (یعنی جو مال غنیمت سے امرا مسلمانوں کو دیا کرتے ہیں) انہوں نے فرمایا: تم اس کو لیتے رہو کہ اس میں مدد خرچ ہے، پھر جب یہ تمہارے دین کی قیمت ہو جائے تب چھوڑ دینا (یعنی دینے والے تم سے مداہنت فی الدین چاہیں تو نہ لینا)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ "، وَقَالَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اے آدم کے بیٹے خرچ کر کہ میں بھی تیرے اوپر خرچ کروں۔“ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن کے خرچ کرنے سے کچھ کم نہیں ہوتا۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِي أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى، لَا يَغِيضُهَا سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِهِ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْقَبْضَ، يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ”تم لوگوں پر خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا۔“ اور فرمایا کہ”اللہ کا سیدھا ہاتھ بھرا ہوا ہے کم نہیں ہوتا رات دن کے خرچ کرنے میں، بھلا غور تو کرو کہ کیا کچھ خرچ کیا ہو گا جب سے آسمان اور زمین کو بنایا تو اب تک ذرا بھی کم نہیں ہوا جو اس کے سیدھے ہاتھ میں ہے۔“ فرمایا: ”اور عرش کا اس کا پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں موت ہے اور جس کو چاہتا ہے بلند کرتا ہے جس کو چاہتا ہے پست کرتا ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ : حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: وَبَدَأَ بِالْعِيَالِ، ثُمَّ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: وَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ صِغَارٍ، يُعِفُّهُمْ أَوْ يَنْفَعُهُمُ اللَّهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمْ.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر اشرفی جس کو آدمی خرچ کرتا ہے وہ ہے جسے اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے (اس لیے کہ بعض ان میں سے ایسے ہیں جن کا نفقہ فرض ہے جیسے بیوی، صغیر اولاد) اور اسی طرح وہ اشرفی جس کو اپنے جانور پر خرچ کرتا ہے، اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) اور وہ اشرفی جس کو خرچ کرتا ہے اپنے رفیقوں پر، اللہ کی راہ میں۔“ اور ابوقلابہ نے کہا: شروع کیا عیال سے پھر کہا ابوقلابہ نے کہ اس سے بڑھ کر کس کا ثواب ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے یا نفع دے ان کو اللہ پاک اس کے سبب سے اور بے پروا کر دے ان کو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک اشرفی تم نے اللہ کی راہ میں دی اور ایک اپنے غلام پر خرچ کی (یا کسی غلام کے آزاد ہونے میں دی) اور ایک مسکین کو دی اور ایک اپنے گھر والوں پر خرچ کی تو ثواب کی رُو سے بڑی وہی اشرفی ہے جو اپنے گھر والوں پر خرچ کی۔“
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ الْكِنَانِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، إِذْ جَاءَهُ قَهْرَمَانٌ لَهُ، فَدَخَلَ، فَقَالَ: أَعْطَيْتَ الرَّقِيقَ قُوتَهُمْ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَأَعْطِهِمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ ".
سیدنا خیثمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کا داروغہ آیا اور انہوں نے پوچھا کہ تم نے غلاموں کو خرچ دے دیا؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: دے دو، اس لیے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کو خرچ دیتا ہے اس کا خرچ روک رکھے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عُذْرَةَ عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَكَ مَالٌ غَيْرُهُ؟ "، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ: " مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟ " فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيُّ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَجَاءَ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " ابْدَأْ بِنَفْسِكَ فَتَصَدَّقْ عَلَيْهَا، فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ فَلِأَهْلِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ أَهْلِكَ شَيْءٌ فَلِذِي قَرَابَتِكَ، فَإِنْ فَضَلَ عَنْ ذِي قَرَابَتِكَ شَيْءٌ، فَهَكَذَا وَهَكَذَا يَقُولُ، فَبَيْنَ يَدَيْكَ وَعَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ "،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص نے ایک غلام آزاد کیا اپنے مرنے کے بعد(یعنی کہا کہ تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے) اور اس کی خبر پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیرے پاس اور مال ہے اس کے سوا؟“اس نے کہا: نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون خریدتا ہے اس کو مجھ سے؟“ تو نعیم نے اس کو آٹھ سو درہم میں خرید لیا اور درہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک غلام کو دے دیئے اور فرمایا: ”پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو پھر اگر بچے تو اپنے گھر والوں پر، پھر بچے تو اپنے ناتے والوں پر، پھر بچے تو ادھر اُدھر۔“ اور اشارہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور داہنے اور بائیں۔
وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَذْكُورٍ، أَعْتَقَ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ يُقَالُ لَهُ يَعْقُوبُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ اللَّيْثِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے دوسری سند مذکور ہے اور اس سے بھی یہی روایت مروی ہوئی۔ اتنی بات زیادہ ہے کہ اس مالک کا نام ابومذکور تھا اور غلام کا یعقوب۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ إسحاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرَحَى، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرَحَى، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَخْ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ "، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ میں بہت مالدار تھے اور بہت محبوب مال ان کا بیرحاء ایک باغ تھا۔ مسجد نبوی کے آگے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اس میں جاتے تھے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت اتری «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ» یعنی”نہ پہنچو گے تم نیکی کی حد کو جب تک نہ خرچ کرو گے اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں“(۳-آل عمران:۹۲) تو ابوطلحہ نے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ تم نیکی کی حد کو نہ پہنچو گے جب تک اپنے محبوب مال نہ خرچو۔ اور میرے سب مالوں سے زیادہ محبوب بیرحاء ہے اور وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے اور میں اس کے ثواب کا اور اس کے آخرت میں جمع ہو جانے کا اللہ کے پاس امیدوار ہوں سو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں چاہیں رکھ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کیا خوب! یہ تو بڑے نفع کا مال ہے، یہ تو بڑے نفع کا مال ہے۔ میں نے سنا جو تم نے کہا اور میں مناسب جانتا ہوں کہ تم اسے اپنے عزیزوں میں بانٹ دو۔“ پھر اس کو سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عزیزوں اور چچا زاد بھائیوں میں بانٹ دیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَرَى رَبَّنَا يَسْأَلُنَا مِنْ أَمْوَالِنَا، فَأُشْهِدُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ أَرْضِي بَرِيحَا لِلَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اجْعَلْهَا فِي قَرَابَتِكَ "، قَالَ: فَجَعَلَهَا فِي حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب آیت مذکورہ «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ»(۳-آل عمران:۹۲) اتری۔ سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پالنے والا، رزق دینے والا، ہمارے مال طلب فرماتا ہے۔ (اور ہم کو نہایت فخر کی جگہ ہے کہ شہنشاہ عالی جاہ بے پروا ادنیٰ غلام سے کوئی شے طلب فرمائے زہے و زہے قسمت) سو میں گواہ کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اے اللہ کے رسول! کہ میں نے اپنی زمین جس کا نام بیرحاء ہے اللہ کی نذر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اپنے قرابت والوں کو دے دو۔“ سو انہوں نے حسان اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کو بانٹ دیا۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ ، أَنَّهَا أَعْتَقَتْ وَلِيدَةً فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَوْ أَعْطَيْتِهَا أَخْوَالَكِ كَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِكِ ".
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور اس کا ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کو اپنے ماموں کے دے دیتیں تو بڑا ثواب ہوتا۔“
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ "، قَالَتْ: فَرَجَعْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ رَجُلٌ خَفِيفُ ذَاتِ الْيَدِ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ، فَأْتِهِ فَاسْأَلْهُ فَإِنْ كَانَ ذَلِكَ يَجْزِي عَنِّي، وَإِلَّا صَرَفْتُهَا إِلَى غَيْرِكُمْ، قَالَتْ: فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ: بَلِ ائْتِيهِ أَنْتِ، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِبَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَاجَتِي حَاجَتُهَا، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُلْقِيَتْ عَلَيْهِ الْمَهَابَةُ، قَالَتْ: فَخَرَجَ عَلَيْنَا بِلَالٌ، فَقُلْنَا لَهُ: ائْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ بِالْبَابِ تَسْأَلَانِكَ أَتُجْزِئُ الصَّدَقَةُ عَنْهُمَا عَلَى أَزْوَاجِهِمَا، وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حُجُورِهِمَا؟، وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ، قَالَتْ: فَدَخَلَ بِلَالٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ هُمَا؟ " فَقَالَ: امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَزَيْنَبُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ "، قَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ "،
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بی بی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں کے گروہ! صدقہ دو اگرچہ اپنے زیور سے ہو۔“ انہوں نے کہا: پھر میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے شوہر کے پاس آئی اور میں نے کہا: تم مفلس، خالی ہاتھ آدمی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم لوگ صدقہ دیں سو تم جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو کہ اگر میں تم کو دے دوں اور صدقہ ادا ہو جائے تو خیر ورنہ اور کسی کو دے دوں۔ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا تم ہی جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو پھر میں آئی اور ایک عورت انصار کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کھڑی تھی اس کا بھی کام تھا جو میرا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب بہت تھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نکلے تو ہم نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان کو خبر دو کہ دو عورتیں دروازے پر پوچھتی ہیں کہ اگر اپنے شوہروں کو صدقہ دیں تو ادا ہو جائے گا یا نہیں۔ یا ان یتیموں کو دیں جن کو وہ پالتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر نہ دینا کہ ہم لوگ کون ہیں؟ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کون ہیں؟“ تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ایک عورت ہے انصار کی اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون سی زینب ہیں؟“ انہوں نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بی بی۔ تب آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”ان کو اس میں دوہرا ثواب ہے ایک ثواب تو قرابت والوں سے سلوک کرنے کا دوسرا صدقہ کا۔“
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي شَقِيقٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: فَذَكَرْتُلِإِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَنِي، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ سَوَاءً، قَالَ: قَالَتْ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے دوسری سند سے وہی مضمون مروی ہے اس میں یہ بات زیادہ ہے کہ میں مسجد میں تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمایا:”صدقہ دو اگرچہ اپنے زیور میں سے ہو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ لِي أَجْرٌ فِي بَنِي أَبِي سَلَمَةَ؟، أُنْفِقُ عَلَيْهِمْ وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ، فَقَالَ: " نَعَمْ لَكِ فِيهِمْ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ "،
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا مجھے ابوسلمہ کے بیٹوں پر خرچ کرنے سے ثواب ہے؟ اور میں ان کو چھوڑنے والی نہیں کہ ادھر ادھر پریشان ہو جائیں، اس لیے کہ وہ میرے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جو تم ان پر خرچ کرتی ہو اس میں ثواب ہے۔“
وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَاه إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةً وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً "،
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خرچ کرتا ہے مسلمان اپنے گھر والوں پر اور اس میں ثواب کی امید رکھتا ہے تو وہ صدقہ ہے اس کے لیے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ، وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَوْ رَاهِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟، قَالَ: " نَعَمْ ".
سیدہ اسماء ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے بیزار ہے (دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ مشرکہ ہے)۔ کیا میں اس سے سلوک اور احسان کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ إِذْ عَاهَدَهُمْ، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُ أُمِّي؟، قَالَ: " نَعَمْ صِلِي أُمَّكِ ".
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کی میری ماں آئی ہے اور مشرکہ ہے جس زمانہ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے صلح کی تھی پھر کیا میں اس سے احسان کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں احسان کرو اپنی ماں سے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟، قَالَ: " نَعَمْ "،
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے میری ماں فوراً مر گئی اور وصیت نہ کرنے پائی۔ اگر بولتی تو صدقہ دیتی، میں صدقہ دوں تو اسے ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إسحاق ، كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ وَلَمْ تُوصِ، كَمَا قَالَ ابْنُ بِشْرٍ وَلَمْ يَقُلْ ذَلِكَ الْبَاقُونَ.
ہشام نے دوسری اسناد سے یہی روایت کی اور ابواسامہ کی روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے وصیت نہیں کی جیسے ابن بشر کی روایت میں ہے اور راویوں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نیکی صدقہ ہے۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: " أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ، إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ، وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟، قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ، فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ ".
ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چند اصحاب رضی اللہ عنہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول! مال والے سب مال لوٹ لے گئے، اس لیے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اپنے زائد مالوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بھی تو اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا سامان کر دیا ہے کہ ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر تکبیر صدقہ ہے اور ہر تحمید صدقہ ہے اور ہر بار لا الہ الااللہ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات سکھانا صدقہ ہے اور بری بات سے روکنا صدقہ ہے اور ہر شخص کے بدن کے ٹکڑے میں صدقہ ہے۔“لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص اپنے بدن سے اپنی شہوت نکالتا ہے (یعنی اپنی بی بی سے صحبت کرتا ہے) تو کیا اس میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں دیکھو تو اگر اسے حرام میں صرف کر لے تو وبال ہوا کہ نہیں؟ اسی طرح جب حلال میں صرف کرتا ہے تو ثواب ہوتا ہے۔“
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ ، عَنْ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ فَرُّوخَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّهُ خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلَى سِتِّينَ وَثَلَاثِ مِائَةِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ كَبَّرَ اللَّهَ، وَحَمِدَ اللَّهَ، وَهَلَّلَ اللَّهَ، وَسَبَّحَ اللَّهَ، وَاسْتَغْفَرَ اللَّهَ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْكَةً، أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهَى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ تِلْكَ السِّتِّينَ وَالثَّلَاثِ مِائَةِ السُّلَامَى، فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ " ، قَالَ أَبُو تَوْبَةَ: وَرُبَّمَا قَالَ: " يُمْسِي "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ سو جس نے اللہ کی بڑائی کی اور اللہ کی حمد کی اور لا الہ الا اللہ کہا اور سبحان اللہ کہا اور استغفراللہ کہا اور پتھر لوگوں کی راہ سے ہٹا دیا یا کوئی کانٹا یا ہڈی راہ سے ہٹا دی یا اچھی بات سکھائی یا بری بات سے روکا اس تین سو ساٹھ جوڑوں کی گنتی کے برابر وہ اس دن چل رہا ہے اور ہٹ گیا اپنی جان کو لے کر دوزخ سے۔“ ابو توبہ نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ شام کرتا ہے وہ اسی حال میں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ ، أَخْبَرَنِي أَخِي زَيْدٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " أَوْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ "، وَقَالَ: " فَإِنَّهُ يُمْسِي يَوْمَئِذٍ "،
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کی دوسری اسناد سے اسی کی مثل صرف اتنا ہے کہ «أَوْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ» کہا یعنی واوَ عطف کی جگہ اور کہا کہ ”وہ اس دن شام کرتا ہے۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ فَرُّوخَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ "، بِنَحْوِ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ زَيْدٍ، وَقَالَ: " فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت مروی ہوئی دوسری سند سے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ "، قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَجِدْ؟، قَالَ: يَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ، قَالَ: قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ؟، قَالَ: يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ "، قَالَ: قِيلَ لَهُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ؟، قَالَ: يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ أَوِ الْخَيْرِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟، قَالَ: يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ "،
سعید بن ابوبردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ دادا سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ ”ہر مسلمان کے اوپر صدقہ ہے۔“ پھر عرض کی کہ اگر نہ ہو سکے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کمائے اور اپنی جان کو نفع دے اور صدقہ بھی دے۔“ پھر عرض کی: بھلا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حاجت والے کو جو حسرت و افسوس کر رہا ہے مدد کرے۔“ پھر عرض کی: بھلا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دستور کی اور نیک بات سکھا دے۔“ پھر عرض کی: بھلا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو فرمایا: ”شر سے باز رہے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ "، قَالَ: تَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، وَتُعِينُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ فَتَحْمِلُهُ عَلَيْهَا، أَوْ تَرْفَعُ لَهُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، قَالَ: وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ خُطْوَةٍ تَمْشِيهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَتُمِيطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت راویتیں کیں انہی میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آدمی کے ایک ایک جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے ہر روز جب آفتاب نکلتا ہے تو دو آدمیوں میں انصاف کر دینا یہ بھی ایک صدقہ ہے، کسی کی مدد کر دینا اتنی بھی کہ اسے سواری پر چڑھا دیا، یا اس کا مال لاد دیا یہ بھی ایک صدقہ ہے۔“ اور فرمایا ”عمدہ بات، یہ بھی ایک صدقہ ہے اور ہر قدم جو وہ مسجد کو جاتے ہوئے رکھتا ہے نماز کیلئے یہ بھی ایک صدقہ ہے اور تکلیف کی چیز راہ سے ہٹا دینا یہ بھی ایک صدقہ ہے۔“
وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي مُزَرِّدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ: أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس وقت بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے اترتے ہیں ایک تو یہ کہتا ہے کہ یا اللہ! خرچ کرنے والے کو اور دے، اور دوسرا کہتا ہے کہ یا اللہ! بخیل کو تباہ کر۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تَصَدَّقُوا فَيُوشِكُ الرَّجُلُ يَمْشِي بِصَدَقَتِهِ، فَيَقُولُ الَّذِي أُعْطِيَهَا لَوْ جِئْتَنَا بِهَا بِالْأَمْسِ قَبِلْتُهَا، فَأَمَّا الْآنَ فَلَا حَاجَةَ لِي بِهَا، فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا ".
سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے تھے: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ فرماتے تھے: ”صدقہ دو قریب ہے کہ ایسا وقت آ جائے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا اور جس کو دینے لگے گا وہ کہے گا اگر تم کل لاتے تو میں لے لیتا مگر آج تو مجھے حاجت نہیں ہے غرض کوئی نہ ملے گا جو اسے قبول کر لے۔“
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَطُوفُ الرَّجُلُ فِيهِ بِالصَّدَقَةِ مِنَ الذَّهَبِ، ثُمَّ لَا يَجِدُ أَحَدًا يَأْخُذُهَا مِنْهُ، وَيُرَى الرَّجُلُ الْوَاحِدُ يَتْبَعُهُ أَرْبَعُونَ امْرَأَةً، يَلُذْنَ بِهِ مِنْ قِلَّةِ الرِّجَالِ وَكَثْرَةِ النِّسَاءِ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ بَرَّادٍ: " وَتَرَى الرَّجُلَ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے سونے کا صدقہ لے کر پھرے گا اور کوئی نہ ملے گا کہ اس کو قبول کر لے اور ایک ایک آدمی کو دیکھنے والا دیکھے گا کہ اس کے پیچھے چالیس چالیس عورتیں لگی ہوں گی اور پناہ پکڑیں گی اس کی مردوں کے کم ہونے سے عورتوں کے زیادہ ہونے سے۔“ اور ابن براد کی روایت میں ہے کہ ”دیکھے گا تو۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ وَيَفِيضَ، حَتَّى يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَكَاةِ مَالِهِ، فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهَا مِنْهُ، وَحَتَّى تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت نہ آئے گی جب تک کہ مال بہت نہ ہو جائے اور بہہ نہ نکلے یہاں تک کہ اپنی زکوٰۃ لے کر آدمی نکلے اور کسی کو نہ پائے گا جو اس کو قبول کر لے یہاں تک کہ زمین عرب کی چراگاہ اور نہریں ہو جائیں گی۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ الْمَالُ فَيَفِيضَ، حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ الْمَالِ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ صَدَقَةً، وَيُدْعَى إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: لَا أَرَبَ لِي فِيهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”قیامت نہ آئے گی جب تک مال بہت ہو کر بہہ نہ نکلے اور یہاں تک کثرت ہو کہ مال والا سوچے کہ اس کا صدقہ کون لے گا اور آدمی صدقہ لینے کو بلایا جائے گو وہ کہے گا کہ مجھے تو اس کی حاجت نہیں ہے۔“
وحَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ ، واللفظ لواصل، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَقِيءُ الْأَرْضُ أَفْلَاذَ كَبِدِهَا أَمْثَالَ الْأُسْطُوَانِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، فَيَجِيءُ الْقَاتِلُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قَتَلْتُ، وَيَجِيءُ الْقَاطِعُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قَطَعْتُ رَحِمِي، وَيَجِيءُ السَّارِقُ فَيَقُولُ: فِي هَذَا قُطِعَتْ يَدِي، ثُمَّ يَدَعُونَهُ فَلَا يَأْخُذُونَ مِنْهُ شَيْئًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو قے کر دے گی جیسے بڑے کھمبے ہوتے ہیں سونے سے اور چاندی سے اور خونی آئے گا اور کہے گا اسی کے لئے میں نے خون کیا تھا اور ناتوں کا کاٹنے والا آئے گا اور کہے گا کہ اسی کے لئے میں نے اپنے ناتے والوں کا حق کاٹ لیا اور چور آئے گا اور کہے گا کہ اسی کے واسطے میرا ہاتھ کاٹا گیا پھر سب کے سب اسے چھوڑ دیں گے اور کوئی اس میں سے کچھ نہ لے گا۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً، فَتَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص صدقہ دیتا ہے پاک مال سے اور اللہ قبول نہیں کرتا مگر پاک مال کو(یعنی حلال کو) پھر جب کوئی پاک مال سے صدقہ دیتا ہے تو رحمٰن اپنے داہنے ہاتھ میں اس کو لیتا ہے اگرچہ وہ ایک کھجور بھی ہو (عرب میں اس سے حقیر کوئی شئے نہیں) اور وہ رحمٰن کی ہتھیلی میں بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے جیسے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کو پالتا ہے یا اونٹ کے بچے کو۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، إِلَّا أَخَذَهَا اللَّهُ بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ قَلُوصَهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہی مضمون روایت کیا ہے دوسری سند سے مگر اس میں اونٹ کے بچے کی جگہ جوان اونٹنی مذکور ہے۔
وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ . ح وحَدَّثَنِيهِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي حَدِيثِ رَوْحٍ " مِنَ الْكَسْبِ الطَّيِّبِ، فَيَضَعُهَا فِي حَقِّهَا "، وَفِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: " فَيَضَعُهَا فِي مَوْضِعِهَا "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا، مگر اس میں پاک «كسب» کا ذکر ہے اور یہ زیادہ ہے کہ”اس صدقہ کو اپنے حق کی جگہ میں خرچ کرے۔“
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ يَعْقُوبَ، عَنْ سُهَيْلٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة المؤمنون آية 51، وَقَالَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ سورة البقرة آية 172، ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے لوگو! اللہ تعالیٰ پاک ہے (یعنی صفات حدوث اور سمات نقص و زوال سے) اور نہیں قبول کرتا مگر پاک مال کو (یعنی حلال کو) اور اللہ پاک نے مؤمنوں کو وہی حکم کیا جو مرسلین کو حکم کیا اور فرمایا: اے رسولو! کھاؤ پاکیزہ چیزیں اور نیک عمل کرو میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ اور فرمایا: اے ایمان والو! کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو دیں، پھر ذکر کیا ایسے مرد کا جو کہ لمبے لمبے سفر کرتا ہے اور گرد و غبار میں بھرا ہے اور پھر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے رب! اے رب! حالانکہ کھانا اس کا حرام ہے اور پینا اس کا حرام ہے اور لباس اس کا حرام ہے اور غذا اس کی حرام ہے پھر اس کی دعا کیونکر قبول ہو۔“
حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ سَلَّامٍ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ أَبِي إسحاق ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَتِرَ مِنَ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ ".
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے: ” جو کر سکے تم میں سے کہ بچے آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا بھی دے کر ہو، تو بھی کر گزرے۔“
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ اللَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ "، زَادَ ابْنُ حُجْرٍ، قَالَ الْأَعْمَشُ: وَحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ خَيْثَمَةَمِثْلَهُ، وَزَادَ فِيهِ: " وَلَوْ بِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، وقَالَ إسحاق: قَالَ الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ خَيْثَمَةَ .
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرمایا: تم میں سے ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے بات کرنا ہو گی اس طرح کہ اللہ اور اس کے بیچ میں کوئی ترجمہ کرنے والا نہ ہو گا اور آدمی داہنی طرف دیکھے گا تو اس کے اگلے پچھلے عمل نظر آئیں گے اور بائیں طرف دیکھے گا تو وہی نظر آئیں گے اور آگے دیکھے گا تو کچھ نہ سوجھے گا سوا دوزخ کے جو اس کے منہ کے سامنے ہو گی۔ سو بچو آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر بھی ہو۔“ اور دوسری روایت میں یہ زیادہ ہے کہ ”اگرچہ ایک پاکیزہ بات بھی کہہ کر ہو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّارَ فَأَعْرَضَ وَأَشَاحَ، ثُمَّ قَالَ: " اتَّقُوا النَّارَ "، ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: " اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ " وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو كُرَيْبٍ كَأَنَّمَا، وَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ.
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کا ذکر کیا اور منہ پھیر لیا اور بہت منہ پھیرا اور فرمایا: ”بچو تم دوزخ سے۔“ پھر منہ پھیرا اور بہت منہ پھیرا یہاں تک کہ گمان کیا ہم نے کہ گویا وہ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ”بچو تم دوزخ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور یہ بھی نہ پائے تو اچھی سی کوئی بات کہہ کر سہی۔“ اور ابوکریب کی روایت میں گویا کا لفظ نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ النَّارَ، فَتَعَوَّذَ مِنْهَا وَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَالَ: " اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ ".
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کا ذکر کیا اور اس سے پناہ مانگی اور تین بار منہ پھیرا اور فرمایا: ”بچو تم آگ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور اگر وہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کہہ کر۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ: فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: " يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ سورة النساء آية 1 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1 وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ سورة الحشر آية 18 تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ، حَتَّى قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ "، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ "،
سیدنا منذر بن جریر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے دن کے شروع میں، سو کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئی اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آئے (یعنی پریشان ہو گئے۔ سبحان اللہ! کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو اور تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» ”اے لوگو! ڈرو اللہ سے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے“ (یہ اس لیے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) «َ(إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا» تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ» ”اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لیے کیا بھیج رکھا ہے جو کل کام آئے۔“ (پھر تو صدقات کا بازار گرم ہوا) اور کسی نے اشرفی دی اور کسی نے درہم، کسی نے ایک صاع گیہوں، کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو۔“(جب بھی لاؤ) پھر انصار میں سے ایک شخص توڑا لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا، پھر تو لوگوں نے تار باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے اور یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا تھا، جیسے کندن، پھر فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”جس نے اسلام میں آ کر نیک بات (یعنی کتاب و سنت کی بات) جاری کی اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ گھٹے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُنْذِرَ بْنَ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَ النَّهَارِ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ جَعْفَرٍ، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُعَاذٍ مِنَ الزِّيَادَةِ، قَالَ: " ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ خَطَبَ "،
وہی ترجمہ جو اوپر گزرا اس روایت میں بس اتنی بات زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ قَوْمٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ، وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَفِيهِ: فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ صَعِدَ مِنْبَرًا صَغِيرًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ فِي كِتَابِهِ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ سورة النساء آية 1 " الْآيَةَ،
منذر بن جریر نے اپنے باپ سے وہی روایت کی اتنی بات زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی اور چھوٹے منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور «أَمَّا بَعْدُ» کہا اور فرمایا: «فَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ فِى كِتَابِهِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ» ”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اتارا ہے۔“ آخر حدیث تک۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، وأبي الضحى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ الصُّوفُ، فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ، فَذَكَرَ بِمَعْنَى حَدِيثِهِمْ.
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: چند لوگ گاؤں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے کہ ان پر کپڑے تھے اون کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا برا حال دیکھا کہ محتاج ہیں پھر ذکر کی ساری حدیث۔
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِيهِ بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ: " أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ، قَالَ: كُنَّا نُحَامِلُ، قَالَ: فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، قَالَ: وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَيْءٍ أَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: " إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِيَاءً، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79، وَلَمْ يَلْفِظْ بِشْرٌ بِالْمُطَّوِّعِينَ،
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم کو حکم ہوا صدقہ کا اور ہم بوجھ ڈھویا کرتے تھے اور صدقہ دیا ابوعقیل نے آدھا صاع (یعنی دو سیر) اور ایک شخص نے کچھ اس سے زیادہ دیا تو منافق کہنے لگے: اللہ کو اس کے صدقہ کی کچھ پروا نہیں ہے اور اس دوسرے نے تو صرف دکھانے ہی کو صدقہ دیا ہے پھر یہ آیت اتری «الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِى الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لاَ يَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ» ”جو لوگ طعن کرتے ہیں۔ خوشی سے صدقہ دینے والے مؤمنوں کو اور ان لوگوں کو جو نہیں پاتے ہیں مگر اپنی مزدوری۔“ اور بشر کی روایت میں «مطوعين» کا لفظ نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ . ح وحَدَّثَنِيهِ إسحاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: " كُنَّا نُحَامِلُ عَلَى ظُهُورِنَا ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں ہے کہ ہم اپنی کمروں پر بوجھ اٹھاتے تھے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ: " أَلَا رَجُلٌ يَمْنَحُ أَهْلَ بَيْتٍ نَاقَةً تَغْدُو بِعُسٍّ وَتَرُوحُ بِعُسٍّ إِنَّ أَجْرَهَا لَعَظِيمٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ”بے شک جو کسی گھر والوں کو ایک اونٹنی ایسی دیتا ہے جو صبح اور شام ایک گھڑا بھر دودھ دیتی ہے تو اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ نَهَى فَذَكَرَ خِصَالًا، وَقَالَ: " مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةً، غَدَتْ بِصَدَقَةٍ، وَرَاحَتْ بِصَدَقَةٍ صَبُوحِهَا وَغَبُوقِهَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی باتوں سے منع فرمایا تھا اور فرمایا: ”جس نے منیحہ دیا، اس کے لئے ایک صدقہ کا ثواب صبح کو ہوا اور ایک شام کو، صبح کا صبح کے پینے سے، اور شام کا شام کے دودھ پینے سے۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَمْرٌو : وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ الْمُنْفِقِ وَالْمُتَصَدِّقِ كَمَثَلِ رَجُلٍ عَلَيْهِ جُبَّتَانِ أَوْ جُنَّتَانِ مِنْ لَدُنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَإِذَا أَرَادَ الْمُنْفِقُ، وَقَالَ الْآخَرُ: فَإِذَا أَرَادَ الْمُتَصَدِّقُ أَنْ يَتَصَدَّقَ سَبَغَتْ عَلَيْهِ أَوْ مَرَّتْ، وَإِذَا أَرَادَ الْبَخِيلُ أَنْ يُنْفِقَ قَلَصَتْ عَلَيْهِ وَأَخَذَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَوْضِعَهَا، حَتَّى تُجِنَّ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ "، قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: " يُوَسِّعُهَا فَلَا تَتَّسِعُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ فرمایا:”مثال خرچ کرنے والے کی اور صدقہ دینے والے کی (یہاں راوی سے غلطی ہوئی اور صحیح یہ ہے کہ مثال بخیل کی اور صدقہ دینے والے کی) مانند اس شخص کی ہے کہ اس کے اوپر دو کرتے ہوں یا دو زرہیں (راوی کو شک ہے مگر دو زرہیں صحیح ہے) ان دونوں کی چھاتی سے گلے تک پھر جب خرچ کرنے والا چاہے اور دوسرے راوی نے کہا کہ جب صدقہ دینے والا صدقہ دینا چاہے تو وہ زرہ کشادہ ہو جائے اور اس کے سارے بدن پر پھیل جائے (یعنی اسی طرح صدقہ دینے والے کا دل کشادہ ہو جاتا ہے) اور جی کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور جب بخیل خرچ کرنا چاہے تو وہ زرہ اس پر تنگ ہو جائے اور ہر حلقہ اپنی جگہ پر کس جائے یہاں تک کہ ڈھانپ لے اس کے پورں تک کو اور مٹا دے اس کے قدموں کے نشان کو جو زمین پر ہوں۔“ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ اس کو کشادہ کرنا چاہتا ہے مگر کشادہ نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ يَعْنِي الْعَقَدِيَّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلَ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، قَدِ اضْطُرَّتْ أَيْدِيهِمَا إِلَى ثُدِيِّهِمَا وَتَرَاقِيهِمَا، فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ كُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ انْبَسَطَتْ عَنْهُ، حَتَّى تُغَشِّيَ أَنَامِلَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَجَعَلَ الْبَخِيلُ كُلَّمَا هَمَّ بِصَدَقَةٍ، قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا "، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِإِصْبَعِهِ فِي جَيْبِهِ: " فَلَوْ رَأَيْتَهُ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَوَسَّعُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان فرمائی کہ ”ان کی مثال دو آدمیوں کی سی ہے کہ ان دونوں پر دو زرہیں ہوں لوہے کی کہ ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں میں بندھے ہوں اور ان کے گلوں میں پھر صدقہ دینے والا جب ارادہ کر لے صدقہ دینے کا تو وہ زرہ اس کی کشادہ ہو جائے یہاں تک کہ اس کے پوروں کو ڈھانپ لے (اور اس کے ہاتھ بھی کھل جائیں اس کے کشادہ ہونے سے) اور اس کے قدم کے نشان جو زمین پر ہوں اس کو بھی مٹا دے (یعنی سخی کے عیب سخاوت سے ڈھک جاتے ہیں یا گناہ معاف ہو جاتے ہیں) اور وہ زرہ گویا زمین پر لٹکتی ہے کہ اس کے قدموں کے نشانون کو مٹاتی ہے اور بخیل کا حال ایسا ہے کہ جب ارادہ کرتا ہے صدقہ کا زرہ اس کی تنگ ہو جاتی ہے اور ہر حلقہ اس کا اپنی جگہ پر پھنس جاتا ہے۔“ اور کہا راوی نے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اپنے گریبان میں ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے (تاکہ سامعین کے ذہن میں اس کے تنگ ہونے کی تصویر بن جائے) اور اگر تم ان کو دیکھتے تو وہ کہتے کہ کشادہ کرنا چاہتے تھے اور زرہ کشادہ نہ ہوتی تھی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إسحاق الْحَضْرَمِيُّ ، عَنْ وُهَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، مَثَلُ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، إِذَا هَمَّ الْمُتَصَدِّقُ بِصَدَقَةٍ، اتَّسَعَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تُعَفِّيَ أَثَرَهُ، وَإِذَا هَمَّ الْبَخِيلُ بِصَدَقَةٍ، تَقَلَّصَتْ عَلَيْهِ وَانْضَمَّتْ يَدَاهُ إِلَى تَرَاقِيهِ، وَانْقَبَضَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ إِلَى صَاحِبَتِهَا "، قَالَ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فَيَجْهَدُ أَنْ يُوَسِّعَهَا فَلَا يَسْتَطِيعُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسی ہے جیسے دو آدمی کہ ان پر زرہ ہو لوہے کی پھر جب سخی نے چاہا صدقہ دے زرہ اس کی کشادہ ہو گئی یہاں تک کہ اس کے قدموں کا اثر مٹانے لگی اور جب بخیل نے چاہا کہ صدقہ دے، وہ تنگ ہو گئی اور اس کا ہاتھ اس کے گلے میں پھنس گیا اور ہر حلقہ اپنے دوسرے حلقہ میں کس گیا۔“ راوی نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے: ”پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ کشادہ ہو مگر نہیں ہوتی۔“
حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى غَنِيٍّ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِيٍّ وَعَلَى سَارِقٍ، فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ قُبِلَتْ، أَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا تَسْتَعِفُّ بِهَا عَنْ زِنَاهَا، وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ، وَلَعَلَّ السَّارِقَ يَسْتَعِفُّ بِهَا عَنْ سَرِقَتِهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے کہا کہ میں آج کی رات کچھ صدقہ دوں گا اور وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا (یہ صدقہ کو چھپانا منظور تھا کہ رات کو لے کر نکلا) اور ایک زناکار عورت کے ہاتھ دے دیا پھر صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کی رات ایک شخص زناکار کے ہاتھ صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا: یا اللہ! تیرے لئے ہیں سب خوبیاں کہ میرا صدقہ زناکار کو جا پڑا اور پھر اس نے کہا کہ آج اور صدقہ دوں گا پھر نکلا اور ایک غنی مالدار کو دے دیا اور لوگ صبح چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی مالدار کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا: یا اللہ! تیرے لئے ہیں سب خوبیاں میرا صدقہ مالدار کے ہاتھ جا پڑا۔ تیسرے دن پھر اس نے کہا کہ میں صدقہ دوں گا اور وہ نکلا اور صدقہ ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا اور صبح کو لوگ چرچا کرنے لگے کہ آج کوئی چور کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا: تجھی کو ہیں سب خوبیاں میرا صدقہ زناکار عورت اور مالدار مرد اور چور کے ہاتھ میں جا پڑا پھر اس کے پاس ایک شخص آیا (یعنی فرشتہ یا نبی اس زمانہ کے علیہ السلام) اور اس نے کہا کہ تیرے سب صدقے قبول ہو گئے زناکار عورت کا تو اس نظر سے کہ شاید وہ اس دن زنا سے باز رہی ہو اس لئے کہ پیٹ کے لئے زنا کرتی تھی، رہا غنی اس کا اس لیے قبول ہوا کہ شاید اسے شرم آئے اور عبرت ہو کہ اور لوگ صدقہ دیتے ہیں لاؤ میں بھی دوں اور وہ خرچ کرے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے اور چور کا صدقہ اس لیے کہ شاید وہ اس شب کو چوری نہ کرے۔“ (اس لیے کہ آج کا خرچ تو آ گیا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْخَازِنَ الْمُسْلِمَ الْأَمِينَ الَّذِي يُنْفِذُ، وَرُبَّمَا قَالَ: يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ فَيُعْطِيهِ كَامِلًا مُوَفَّرًا، طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ، فَيَدْفَعُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو خزانچی مسلمان امانت دار ہو جو خرچ کرتا ہو اور کبھی فرما دیتا ہو جس کا حکم ہوا ہو اور پوری رقم دیتا ہو (یعنی تحریر بٹہ رشوت نہ کاٹتا ہو) اور پوری خیرات دیتا ہو اپنے دل کی خوشی کے ساتھ اور جس کو حکم ہوا ہو اس کو پہنچائے وہ بھی ایک صدقہ دینے والا ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے گھر کے اناج سے خرچ کرے بغیر فساد کے (یعنی جتنا دستور ہے جیسے فقیر کو ٹکڑا یا سائل کو ایک مٹھی جس میں شوہر کی رضا عادت سے معلوم ہوتی ہے) تو ہو گا اس کو ثواب اس کے خرچ کرنے کا اور شوہر کو اس کے کمانے کا اور خزانچی کو بھی اسی کی مثل کہ ایک کے ثواب سے دوسرے کا ثواب نہ گھٹے گا (یعنی ہر ایک کو اللہ تعالیٰ ایک ثواب دے گا نہ کہ ایک کے ثواب سے دوسرے کو شریک کر دے)۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " مِنْ طَعَامِ زَوْجِهَا ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ ”اپنے خاوند کے اناج سے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا، وَلَهُ مِثْلُهُ بِمَا اكْتَسَبَ، وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرے بغیر فساد کے تو ہو گا واسطے عورت کے اجر اس کا اور واسطے خاوند کے مثل اس کی بہ سبب اس کے کمانے کے اور واسطے عورت کے بہ سبب اس کے خرچ کرنے کے اور خزانچی کو بھی مثل اس کی سوا اس بات کے کہ کم کیا جائے اجر ان کے سے کوئی چیز۔“
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: كُنْتُ مَمْلُوكًا، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَتَصَدَّقُ مِنْ مَالِ مَوَالِيَّ بِشَيْءٍ؟، قَالَ: " نَعَمْ وَالْأَجْرُ بَيْنَكُمَا نِصْفَانِ ".
عمیر جو غلام آزاد ہیں آبی اللحم رضی اللہ عنہ کے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے پوچھا کہ میں اپنے مالکوں کے مال سے کچھ صدقہ دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”ہاں اور ثواب اس کا تم دونوں کو ہے آدھا آدھا۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: أَمَرَنِي مَوْلَايَ أَنْ أُقَدِّدَ لَحْمًا، فَجَاءَنِي مِسْكِينٌ فَأَطْعَمْتُهُ مِنْهُ، فَعَلِمَ بِذَلِكَ مَوْلَايَ فَضَرَبَنِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: " لِمَ ضَرَبْتَهُ "، فَقَالَ: يُعْطِي طَعَامِي بِغَيْرِ أَنْ آمُرَهُ، فَقَالَ: " الْأَجْرُ بَيْنَكُمَا ".
سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ نے جو غلام آزاد ہیں ابی اللحم کے، انہوں نے کہا: مجھے حکم دیا میرے مالک نے کہ گوشت سکھاؤں اور ایک فقیر آ گیا سو میں نے اسے کھانے کے موافق دے دیا۔ اور جب مالک کو خبر ہوئی تو مجھے مارا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا (سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم امان تھے یتیموں اور بیواؤں اور مظلوموں کے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا: ”اس کو کیوں تم نے مارا؟“۔ انہوں نے عرض کی کہ یہ میرا کھانا میرے بغیر حکم کے دے دیتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثواب تم دونوں کو ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَصُمْ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلَا تَأْذَنْ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَمَا أَنْفَقَتْ مِنْ كَسْبِهِ مِنْ غَيْرِ أَمْرِهِ، فَإِنَّ نِصْفَ أَجْرِهِ لَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور کئی حدیثیں ذکر کیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی عورت روزہ (نفل) نہ رکھے اور شوہر اس کا حاضر ہو مگر اس کے حکم سے اور نہ اس کے گھر میں کسی(اپنے محرم کو) آنے دے جب وہ حاضر ہو مگر اس کے حکم سے (پھر جب وہ حاضر نہ ہو تو بدرجہ اولیٰ اس کے بغیر حکم اور رضا کے جو پہلے سے معلوم نہ ہو چکی ہو کسی کو آنے نہ دینا چاہیے) اور جو خرچ کرتی ہے اس کی کمائی سے بغیر اس کے حکم (خاص) کے (اگرچہ حکم عرفی موجود ہے) تو اس میں بھی اس کے مرد کو آدھا ثواب ہے۔“ (یعنی مرد کو کمانے کا عورت کو دینے کا)۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، واللفظ لأبي الطاهر، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے خرچ کیا ایک جوڑا (یعنی دو پیسے یا دو روپیہ یا دو اشرفی) اپنے مال سے اللہ کی راہ میں پکارا جائے گا جنت میں، اے اللہ کے بندے! یہاں آ تیرے لئے یہاں خیر و خوبی ہے پھر جو نماز پڑھنے والوں میں سے ہو گا وہ نماز کے دروازہ سے پکارا جائے گا۔ اور جو جہاد کرنے والوں میں سے ہو گا وہ جہاد کے دروازہ سے اور جو صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا وہ صدقہ کے دروازہ سے اور جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہو گا وہ روزے کے دروازے سے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول! جو سب دروازوں سے پکارا جائے گا۔ اس کو کیا کام کرنا ضروری ہے؟ کیا کوئی ایسا ہو گا جو سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور میں(اللہ کے فضل سے) امید رکھتا ہوں کہ تم انہی میں سے ہو گے۔“
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِ يُونُسَ وَمَعْنَى حَدِيثِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، دَعَاهُ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ كُلُّ خَزَنَةِ بَابٍ، أَيْ فُلُ هَلُمَّ "، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَلِكَ الَّذِي لَا تَوَى عَلَيْهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے ایک جوڑا خرچ کیا اللہ کی راہ میں، بلاتے ہیں اس کو سب خزانچی جنت کے، ہر دروازے سے اور کہتے ہیں کہ اے فلانے! آؤ۔“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایسے شخص پر تو پھر کوئی خرابی نہیں آنے کی یا ایسے شخص کو تو کچھ مشکل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں امید رکھتا ہوں کہ تم بھی ان میں ہو گے۔“ (یعنی جنت کے سب دروازوں سے پکارے جاؤ گے)۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کون تم میں سے آج روزہ دار ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون جنازہ کے ساتھ گیا ہے؟۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس نے مسکین کو آج کھانا کھلایا ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ فرمایا: ”کون آج مریض کی عیادت کو گیا تھا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یہ سب کام ایک شخص میں جمع ہوتے ہیں تو وہ ضرور جنت میں جاتا ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْفِقِي أَوِ انْضَحِي أَوِ انْفَحِي، وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ".
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرچ کر اور گن گن کر نہ رکھ ورنہ اللہ بھی تجھے گن کر دے گا۔“ (یعنی کم دے گا)۔
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ ، وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْفَحِي أَوِ انْضَحِي أَوْ أَنْفِقِي، وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ "،
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزرا اتنی بات زیادہ ہے کہ ”نہ سینت رکھ نہیں تو اللہ تجھ پر سینت رکھے گا۔“ (یعنی نہ دے گا)۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حَمْزَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَيْسَ لِي شَيْءٌ، إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَرْضَخَ مِمَّا يُدْخِلُ عَلَيَّ؟، فَقَالَ: " ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ، وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ".
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی آئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے پاس تو کچھ بھی نہیں مگر جو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ مجھے دیتے ہیں تو کیا گناہ ہو گا اگر میں اس میں سے کچھ صدقہ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جتنا تم دے سکو، اتنا دو اور سینت کر نہ رکھو نہیں تو اللہ بھی تمہیں نہ دے گا سینت کر رکھے گا۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ، لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتو! کوئی تم میں سے اپنے ہمسائے کو حقیر نہ جانے اگرچہ ایک بکری کا کھر ہی دے۔“ (یعنی نہ لینے والا اس کو حقیر سمجھ کر انکار کرے، نہ دینے والا شرمندہ ہو کر دینے سے باز رہے)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى جميعا، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ يَمِينُهُ مَا تُنْفِقُ شِمَالُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سات شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا (یعنی عرش کے نیچے)جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا ایک حاکم منصف (جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرے خواہ بادشاہ ہو خواہ کوتوال وغیرہ) دوسرے وہ جوان جو اللہ کی راہ عبادت کے ساتھ بڑھا ہو، تیسرے وہ شخص جو مسجد سے نکلے اور دل اس کا مسجد میں لگا رہے، چوتھے وہ دو شخص کہ محبت کریں آپس میں اللہ کے واسطے اسی کے لئے ملیں اور اسی کے لئے جدا ہوں، پانچویں جو مرد ایسا متقی ہو کہ اسے کوئی عورت حسب و نسب والی مالدار، زنا کے لئے بلائے اور وہ کہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں (اور زنا سے باز رہے) چھٹے جو صدقہ دے ایسا چھپا کر کہ داہنے کہ نہ خبر ہو کہ بائیں ہاتھ نے خرچ کیا (اور یہ تصحیف ہے صحیح یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ داہنا کیا خرچ کرتا ہے) ساتویں جو اللہ کو اکیلے میں یاد کرے اور اس کے آنسو ٹپک پڑیں۔“ (یعنی اللہ کی محبت یا خوف سے)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَوْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: " وَرَجُلٌ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ، إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی روایت ہے جو دوسری سند سے مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ ”جو شخص نکلے مسجد سے اور دل اس کا مسجد میں لگا ہو جب تک پھر لوٹ کر نہ جائے۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ؟، فَقَالَ: " أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ "، قُلْتَ لِفُلَانٍ: كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَا، أَلَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کی اے اللہ کے رسول! افضل اور ثواب میں بڑا صدقہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو صدقہ دے اور تو تندرست ہو اور حریص ہو اور خوف کرتا ہو محتاجی کا اور امید رکھتا ہو امیری کی، وہ افضل ہے اور یہاں تک صدقہ دینے میں دیر نہ کرے کہ جب جان حلق میں آ جائے تو کہنے لگے: یہ فلانے کا ہے، یہ مال فلانے کو دو اور وہ تو خود اب فلانے کا ہو چکا۔“ (یعنی تیرے مرتے ہی وارث لوگ لے لیں گے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟، فَقَالَ: " أَمَا وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّهُ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْبَقَاءَ، وَلَا تُمْهِلَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ "، قُلْتَ: لِفُلَانٍ كَذَا، وَلِفُلَانٍ كَذَا، وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ،
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزرا، اتنا فرق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو قسم ہے تیرے باپ کی۔“ باقی حدیث وہی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ جَرِيرٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں ہے کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ، وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ: " الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالسُّفْلَى السَّائِلَةُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر صدقہ کا ذکر کرتے تھے اور کسی سے سوال نہ کرنے کا اور فرمایا: ”اوپر کا ہاتھ بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے اور اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ جميعا، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ ، قَالَ ابْنُ بَشَّارٍ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ يُحَدِّثُ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَوْ خَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد صدقہ دینے والا غنی رہے (یعنی یہ نہیں کہ سب مال لٹا کر آپ فقیر ہو بیٹھے) اور اوپر کا ہاتھ بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے اور صدقہ پہلے اس کو دے جس کا نان نفقہ اپنے ذمہ ہے۔“ (جیسے لونڈی، غلام، نوکر، چاکر)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، وَسَعِيدٍ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى " .
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، میں نے پھر مانگا پھر دیا، پھر مانگا پھر دیا، پھر فرمایا: ”یہ مال ہرا ہرا میٹھا ہے جو جس نے لیا اس کو بغیر مانگے پا لیا دینے والے کی خوشی سے نہ آپ زبردستی تقاضہ کر کے اس میں برکت ہوتی ہے اور جس نے اپنے نفس کو ذلیل کر کے لیا (یعنی سوال کر کے لجاجت کر کے) اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کا حال ایسا ہوتا ہے کہ کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا اور اوپر کا ہاتھ عمدہ ہے نیچے کے ہاتھ سے۔“
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، وَأَنْ تُمْسِكَهُ شَرٌّ لَكَ، وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے آدم کے بیٹے! تو جو چیز ضرورت سے زیادہ ہو اس کو خرچ کرتا رہ یہ بہتر ہے تیرے لیے اور اگر اس کو بھی روک رکھے جیسے ضرورت کے موافق کو روکتا ہے تو برائی ہے تیرے حق میں اور تجھ پر ملامت نہیں ضروری خرچ کے موافق رکھنے میں اور صدقہ پہلے اس کو دے جس کا خرچہ تیرے ذمہ ہو اور اوپر کا ہاتھ بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ الْيَحْصَبِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَأَحَادِيثَ إِلَّا حَدِيثًا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ، فَإِنَّ عُمَرَ كَانَ يُخِيفُ النَّاسَ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ". (حديث مرفوع) وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا: " أَنَا خَازِنٌ فَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ، فَيُبَارَكُ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَعْطَيْتُهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ وَشَرَهٍ، كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بچو تم حدیث کی روایت سے مگر وہ حدیثیں جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھیں، اسی لیے کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے اللہ پاک سے اور سنا ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے۔“اور سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”میں تو فقط خزانچی ہوں پھر جس کو میں دل کی خوشی سے دوں (یعنی بغیر سوال اور لجاجت سائل کے) تو اس میں اس کو برکت ہوتی ہے اور جس کو میں مانگنے سے اور اس کے ستانے سے دوں اس کا حال ایسا ہے کہ گویا کھاتا ہے اور پیٹ نہیں بھرتا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَخِيهِ هَمَّامٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُلْحِفُوا فِي الْمَسْأَلَةِ، فَوَاللَّهِ لَا يَسْأَلُنِي أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا، فَتُخْرِجَ لَهُ مَسْأَلَتُهُ مِنِّي شَيْئًا، وَأَنَا لَهُ كَارِهٌ فَيُبَارَكَ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتُهُ "،
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سوال میں ہٹ نہ کیا کرو اس لیے کہ اللہ کی قسم! مجھ سے جو مانگتا ہے کوئی چیز اور اس کے سوال کے سبب سے میرے پاس سے چیز خرچ ہوتی ہے اور میں اس کو برا جانتا ہوں تو اس میں برکت کیونکر ہو گی۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ ، وَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فِي دَارِهِ بِصَنْعَاءَ فَأَطْعَمَنِي مِنْ جَوْزَةٍ فِي دَارِهِ، عَنْ أَخِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
عمرو بن دینار نے وہب بن منبہ سے روایت کی اور کہا کہ میں ان کے گھر گیا صنعاء میں اور مجھے انہوں نے اپنے احاطہ کے جوز کھلائے اور ان کے بھائی نے روایت کی کہ میں نے سنا سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر روایت بیان کی مثل اس کے جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ يَخْطُبُ يَقُولُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللَّهُ " .
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خطبہ پڑھتے تھے اور روایت کی کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جس کی اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ دیتا ہے اور میں بانٹنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ، فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””مسکین وہ نہیں جو گھومتا رہتا ہے اور لوگوں کے گرد رہتا ہے اور ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جاتا ہے۔“ پھر لوگوں نے عرض کی کہ مسکین کون ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو اتنا خرچ نہیں ملتا جو اس کی ضرورت بشری کی کفایت کرتا ہو اور نہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي شَرِيكٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِالَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَا اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، إِنَّمَا الْمِسْكِينُ الْمُتَعَفِّفُ، اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا سورة البقرة آية 273 "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسکین وہ نہیں ہے جو ایک دو کھجور یا ایک دو لقمہ لے کر لوٹ جاتا ہے مسکین وہ ہے جو سوال نہیں کرتا تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا» ”وہ لوگوں سے مانگتے نہیں لپٹ کر۔“ (۲-البقرۃ:۲۷۳)
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إسحاق ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي شَرِيكٌ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، أنهما سمعا أبا هريرة ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَزَالُ الْمَسْأَلَةُ بِأَحَدِكُمْ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ، وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ " ،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہمیشہ تم میں کا آدمی مانگتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ سے ملے گا اور اس کے منہ پر ایک ٹکڑا بھی گوشت کا نہ ہو گا۔“ (یعنی حشر میں)۔
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَخِي الزُّهْرِيِّ هَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ " مُزْعَةُ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں «مُزْعَةُ» کا لفظ نہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ ".
حمزہ نے اپنے باپ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی ہمیشہ لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کے منہ پر ایک بوٹی گوشت کی نہ ہو گی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا، فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں سے مانگتا رہتا ہے اپنے مال کے بڑھانے کو (یعنی نہ ضرورت اور کفایت کے لئے) تو وہ چنگاریاں مانگتا ہے پھر چاہے کم لے یا زیادہ لے۔“
حَدَّثَنِي هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَتَصَدَّقَ بِهِ وَيَسْتَغْنِيَ بِهِ مِنَ النَّاسِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ذَلِكَ، فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فرماتے تھے: ”اگر کوئی صبح کو جا کر ایک گٹھا لکڑی کا اپنی پیٹھ پر لادے اور اس سے صدقہ دے «» اور اپنا کام بھی نکالے کہ لوگوں کا محتاج نہ ہو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ وہ دیں یا نہ دیں اور بلاشبہ اوپر کا ہاتھ افضل ہے نیچے کے ہاتھ سے اور پہلے صدقہ اس کو دے جو تیرے سر روٹی کھاتا ہے۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَقَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاللَّهِ لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهُ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ بَيَانٍ.
قیس نے کہا: ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر کوئی صبح کو جائے اور پیٹھ پر لکڑیاں لادے اور بیچے۔“ آگے وہی روایت کی جو اوپر گزری ہے۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ يَحْتَزِمَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً مِنْ حَطَبٍ، فَيَحْمِلَهَا عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا يُعْطِيهِ أَوْ يَمْنَعُهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی لکڑی کا گٹھا لادے اپنی پیٹھ پر اور اس کو بیچے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے سوال کرنے سے کسی شخص سے کہ معلوم نہیں کہ وہ دے یا نہ دے۔“
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، قَالَ سَلَمَةُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الدَّارِمِيُّ: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ، أَمَّا هُوَ فَحَبِيبٌ إِلَيَّ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، قَالَ: فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟ قَالَ: " عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَتُطِيعُوا، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ، يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ ".
ابی ادریس خولانی، ابومسلم خولانی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ روایت کی مجھ سے ایک دوست امانتدار نے بیشک وہ میرے دوست اور میرے نزدیک امانتدار ہیں۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے نو یا آٹھ یا سات آدمی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم بیعت نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔“ اور ہم ان دنوں بیعت کر چکے تھے تو ہم نے عرض کی ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں اے اللہ کے رسول، ہھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بیعت نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔“ ہم نے عرض کی: کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: ”تم بیعت نہیں کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔“ پھر ہم نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور عرض کیا کہ ہم تو بیعت اول کر چکے ہیں۔ اب کس بات کی بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبادت کرو اللہ کی اور نہ شرک کرو اس کے ساتھ کسی کو اور نمازوں کی پنجگانہ اور اللہ کی فرمانبرداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ مانگو۔“ تو میں نے اس میں سے بعض کو دیکھا کہ ان کا کوڑا گر پڑتا تھا (یعنی اونٹ پر سے) تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ اٹھا دے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ ، حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ: " أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا "، قَالَ: ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا، يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا ".
سیدنا قبیصہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں قرضدار ہو گیا تھا ایک بڑی رقم کا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لئے یا کسی اور امر خیر کے واسطے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے تو ہم اس میں کچھ تم کو دیں۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو حلال ہو جاتا ہے اس کو سوال یہاں تک کہ مل جائے اس کو اتنا مال کہ درست ہو جائے اس کی گزران پھر سوال سے باز رہے، دوسرے وہ شخص کہ پہنچی ہو آفت اس کے مال میں کہ ضائع ہو گیا ہو مال اس کا تو حلال ہو جاتا ہے سوال اس کو یہاں تک کہ مل جائے اس کو اتنی رقم کہ درست ہو جائے اس کی گزران (راوی کو شک ہے کہ «قوام» فرمایا یا «سداد» معنی دونوں کے ایک ہیں)، تیسرا وہ کہ پہنچا ہو اس کو فاقہ اور تین شخص عقل والوں میں سے اس کی قوم کے گواہی دیں کہ اس کو بیشک فاقہ پہنچا ہے اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے اور سوا ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے اور سوا ان کے جو سوال کرنے والا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔“
وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ ".
سالم نے اپنے باپ سے، انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ مال دیا کرتے تھے اور میں کہتا تھا کہ جو مجھ سے زیادہ احتیاج رکھتا ہو اس کو عنایت کیجئیے یہاں تک کہ ایک بار مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال دیا اور میں نے عرض کیا کہ جسے مجھ سے زیادہ حاجت ہو اسے عنایت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لے لو اور اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر لالچ کے اور بغیر مانگے آئے اس کو لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے اس کو خیال بھی نہ کرو۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ: أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ "، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ،
سیدنا سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کچھ مال دیا کرتے تھے اور وہ عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ! کسی ایسے شخص کو عنایت کیجئیے جو مجھ سے زیادہ احتیاج رکھتا ہو، تو ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مال لے لو اور اپنے پاس رکھو خواہ صدقہ دے دو اور جو اس قسم کے مال سے تمہارے پاس آئے اور تم نے اس کی خواہش نہ کی ہو اور نہ مانگا ہو تو اس کو لے لیا کرو اپنے دل سے خواہش نہ کیا کرو۔“ سالم نے کہا: اسی سبب سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی دیتا تھا تو واپس نہ کرتے تھے۔
وحَدَّثَنِيأَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ عَمْرٌو ، وَحَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ بِمِثْلِ ذَلِكَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ، أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي، فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ فَكُلْ وَتَصَدَّقْ "،
ابن ساعدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ کا عامل کیا، جب میں فارغ ہوا اور صدقہ کا مال ان کو لا کر دے دیا تو مجھے کچھ لینے کا حکم کیا۔ میں نے کہا: میں نے تو اللہ کے واسطے یہ کام کیا ہے اور مزدوری میری اللہ پر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں جو دیتا ہوں لے لو ایک بار میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ اکھٹا کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے بھی کچھ اجرت دی اور میں نے ایسا ہی کہا جیسے تم نے کہا، سو مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بغیر مانگے تمہیں کچھ ملے تو کھاؤ اور صدقہ دو۔“
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّعْدِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ.
ابن سعدی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صدقہ کا عامل کیا۔ لیث کی حدیث کی مثل ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: حُبِّ الْعَيْشِ، وَالْمَالِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بوڑھے کے دل میں جینے کی اور مال کی حرص جوان ہے۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولُ الْحَيَاةِ، وَحُبُّ الْمَالِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بوڑھے آدمی کے دل میں جینے کی اور مال کی حرص جوان ہے۔“
وحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلهم، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَتَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””ابن آدم بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کے بڑھنے کی حرض۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِمِثْلِهِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ، لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر آدمی کے وہ جنگل ہوں مال کے تو بھی وہ تیسرا ڈھونڈتا رہے اور پیٹ نہیں بھرتی آدمی کا مگر مٹی، اور رجوع ہوتا ہے اللہ کا اس پر جو توبہ کرے۔“ (یعنی جو دنیا کی حرص سے باز آئے اسے گنج قناعت فرماتا ہے)۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فَلَا أَدْرِي أَشَيْءٌ أُنْزِلَ أَمْ شَيْءٌ كَانَ يَقُولُهُ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: یہ مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات اتری تھی یا خود فرماتے تھے، پھر بیان کی روایت ابوعوانہ کی جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادٍ مِنْ ذَهَبٍ، أَحَبَّ أَنَّ لَهُ وَادِيًا آخَرَ، وَلَنْ يَمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَاللَّهُ يَتُوبُ عَلَى مَنْ تَابَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ فرمایا: ”اگر آدمی کا ایک جنگل سونے کا ہو تو بھی آرزو کرے کہ دوسرا ہو اور اس کا منہ نہیں بھرتی مگر مٹی (قبر کی) اور اللہ رجوع کرتا ہے اس کی طرف جو توبہ کرے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ مِلْءَ وَادٍ مَالًا، لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ إِلَيْهِ مِثْلُهُ، وَلَا يَمْلَأُ نَفْسَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَاللَّهُ يَتُوبُ عَلَى مَنْ تَابَ "، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْقُرْآنِ هُوَ أَمْ لَا، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْقُرْآنِ، لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ ”اگر آدمی کا ایک میدان مال سے بھرا ہو تو بھی چاہے گا کہ اسی کے برابر اور ہو اور آدمی کا جی کسی چیز سے نہیں بھرتا سوا مٹی کے اور رجوع ہوتا ہے اللہ کا اس پر جو توبہ کرے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نہیں جانتا کہ یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں اور زہیر کی روایت میں یہ ہے کہ میں نہیں جانتا قرآن میں سے ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نام نہیں لیا۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ إِلَى قُرَّاءِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثَلَاثُ مِائَةِ رَجُلٍ، قَدْ قَرَءُوا الْقُرْآنَ، فَقَالَ " أَنْتُمْ خِيَارُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ وَقُرَّاؤُهُمْ فَاتْلُوهُ، وَلَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الْأَمَدُ، فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ كَمَا قَسَتْ قُلُوبُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا فِي الطُّولِ وَالشِّدَّةِ بِبَرَاءَةَ فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي قَدْ حَفِظْتُ مِنْهَا لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَكُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا بِإِحْدَى الْمُسَبِّحَاتِ فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْهَا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ سورة الصف آية 2 فَتُكْتَبُ شَهَادَةً فِي أَعْنَاقِكُمْ فَتُسْأَلُونَ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ابوالاسود نے کہا: سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوا بھیجا اور وہ سب تین سو قاری ان کے پاس آئے اور انہوں نے قرآن پڑھا اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم بصرہ کے سب لوگوں سے بہتر ہو اور وہاں کے قاری ہو، سو قرآن پڑھتے رہو اور بہت مدت گزر جانے سے سست نہ ہو جاؤ کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں جیسے تم سے اگلوں کے دل سخت ہو گئے اور ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول میں اور سخت وعیدوں میں برأۃ کے برابر تھی پھر میں اسے بھول گیا مگر اتنی یاد رہی کہ اگر آدمی کے دو میدان ہوتے ہیں مال کے تب بھی تیسرا ڈھونڈتا رہتا اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے اور اس کو مسبحات میں کی ایک سورت کے برابر جانتے تھے میں وہ بھی بھول گیا مگر اس میں سے یہ آیت یاد ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ» (۶۱:الصف:۲)”اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو وہ بات جو کرتے نہیں“، اور جو بات ایسی کہتے ہو کہ کرتے نہیں وہ تمہاری گردنوں میں لکھ دی جاتی ہے گواہی کے طور پر کہ اس کا سوال ہو گا تم سے قیامت کے دن۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ ".
روایت ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”امیری سامان بہت ہونے سے نہیں ہے بلکہ امیری دل سے ہے۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " لَا وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَّا مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ قُلْتَ "، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ أَوَ خَيْرٌ هُوَ، إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ ثَلَطَتْ أَوْ بَالَتْ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ، فَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ، فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں میں وعظ کہا اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اے لوگو! میں تمہارے لئے کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ہوں مگر اس سے جو اللہ تعالیٰ نکالتا ہے تمہارے لئے دنیا کی زینت۔“ تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ (یعنی دنیا کی دولت اور حکومت آنا اور اسلام کی ترقی ہونا تو خیر ہے اس کا نتیجہ برا کیوں کر ہو گا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے تھوڑی دیر۔ پھر فرمایا: ”تم نے کیا کہا؟“ (پھر اس کے سوال کو پوچھ لیا کہ کہیں بھول نہ گیا ہو تو مطابقت جواب کی سوال کے ساتھ اس کی سمجھ میں نہ آئے) اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں خیر کا نتیجہ تو خیر ہی ہوتا ہے مگر اتنی بات ہے کہ بہار کے دنوں جو سبزہ اگتا ہے (اور اسے تم خیر بھی جانتے ہو) وہ نہیں مارتا ہے ہیضہ سے اور نہ قریب المرگ کرتا ہے مگر ہرا چرنے والے کو کہ وہ کھا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی کوکھیں پھول جاتی ہیں اور سورج کے سامنے ہو کر پتلا ہگنے لگتا ہے یا موتنے لگتا ہے پھر جگالی کرنے لگتا ہے اور پھر چرنے جاتا ہے (یہاں تک کہ اسی لوٹ پوٹ میں مر جاتا ہے) یہی حال اس مال کا ہے جو اس کو حق کے ساتھ لیتا ہے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو ناحق طور پر لیتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے کہ کھا جاتا ہے اور پیٹ نہیں بھرتا۔“ (جیسے اس ہری چرنے والے کا)۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، قَالُوا: وَمَا زَهْرَةُ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " بَرَكَاتُ الْأَرْضِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ قَالَ: " لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا تَأْكُلُ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ وَبَالَتْ وَثَلَطَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
وہی روایت دوسری سند سے مروی ہوئی اتنی بات زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”خیر کا نتیجہ خیر ہی ہوتا ہے۔“ اور آخر میں فرمایا: ”جس نے اس کو(یعنی مال کو) حق کی راہ سے لیا اور راہ حق میں رکھا تو کیا خوب مدد اس سے ملتی ہے۔“ (یعنی درجات عالیہ، صدقات و خیرات اور مبرات کے اس کو عنایت ہوتے ہیں) (باقی مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا)۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ: " إِنَّ مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ؟، قَالَ: وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، وَقَالَ: " إِنَّ هَذَا السَّائِلَ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ "، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ، لِمَنْ أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلَ "، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے وہی روایت بیان کی مگر یہ بات زیادہ ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی مضمون فرمایا دینا کی زینت کا۔ تب ایک شخص نے عرض کی کہ کیا خیر کا نتیجہ شر ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے۔ لوگوں نے اس شخص سے کہا: تو نے کیوں ایسی بات کہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے بات نہ کی اور ہم کو خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی ہے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ پونچھا اور فرمایا: ”اس سائل نے اچھی بات کہی۔“ پھر آپ نے وہی مثال سبزہ چرنے والی کی بیان کی اور فرمایا: ”یہ مال ہرا ہے، میٹھا ہے، اور بہت اچھا رفیق ہے اس مسلمان کا جو مسکین کو اور یتیم کو اور مسافر کو دے دیا اور کچھ فرمایا، اخیر میں یہ فرمایا: ”کہ وہ مال اس پر قیامت کے دن گواہ ہو گا۔“باقی مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ، قَالَ: " مَا يَكُنْ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ، وَمَنْ يَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِنْ عَطَاءٍ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ "،
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: انصار کے چند لوگوں نے کچھ مانگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا۔ انہوں نے پھر مانگا پھر دیا یہاں تک کہ جب تمام ہو گیا جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جو مال ہوتا ہے تو میں تم سے دریغ نہیں کرتا اور جو سوال سے بچے اللہ اسے بچاتا ہے اور جو اپنے دل کو بے پرواہ رکھے اللہ اس کو بے پرواہ کر دیتا ہے اور جو صبر کی عادت ڈالے اس پر صبر آسان کر دیتا ہے اور کوئی عطائے الٰہی بہتر اور کشادگی والی صبر سے زیادہ نہیں۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ وَهُوَ ابْنُ شَرِيكٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مراد کو پہنچا اور چھٹکارا پایا اس نے جو اسلام لایا اور موافق ضرورت کے رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ كِلَاهُمَا، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا» ”یا اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل کی روزی موافق ضرورت کے رکھ۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، قَالَ إسحاق أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ كَانَ أَحَقَّ بِهِ مِنْهُمْ، قَالَ: " إِنَّهُمْ خَيَّرُونِي أَنْ يَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ، أَوْ يُبَخِّلُونِي، فَلَسْتُ بِبَاخِلٍ ".
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صدقہ کا مال تقسیم فرمایا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! اس کے مستحق اور لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے مجھے مجبور کیا دو باتوں میں کہ یا تو مجھ سے بےحیائی سے مانگیں یا ان کے آگے بخیل ٹھہروں۔ سو میں بخل کرنے والا نہیں ہوں۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا . ح وحَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ إسحاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ رِدَاءٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ جَبْذَةً شَدِيدَةً نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عُنُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَثَّرَتْ بِهَا حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَبْذَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا چاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران (شہر کا نام ہے) کی چادر اوڑھی ہوئی تھی جس کا کنارہ موٹا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گاؤں کا آدمی ملا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سمیت کھینچا بہت زور سے کہ میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن کے موہرے پر چادر کی نشان بن گیا اور اس کا حاشیہ گڑ گیا۔ اس کے زور سے کھینچنے کے سبب سے، پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! حکم کرو میرے لئے اس مال میں سے کچھ دینے کا جو اللہ کا دیا آپ کے پاس ہے۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسے اور حکم کیا اس کو کچھ دینے کا۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ . ح وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، كُلُّهُمْ، عَنْ إسحاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَفِي حَدِيثِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ مِنَ الزِّيَادَةِ، قَالَ: " ثُمَّ جَبَذَهُ إِلَيْهِ جَبْذَةً، رَجَعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ الْأَعْرَابِيِّ "، وَفِي حَدِيثِ هَمَّامٍ: " فَجَاذَبَهُ حَتَّى انْشَقَّ الْبُرْدُ، وَحَتَّى بَقِيَتْ حَاشِيَتُهُ فِي عُنُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
اسحٰق سے بذریعہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے وہی روایت مروی ہے اور عکرمہ بن عمار کی روایت میں یہ مضمون زیادہ ہے کہ اس اعرابی نے ایسا گھسیٹا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی کے گلے سے لگ گئے اور ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ ایسا کھینچا کہ چادر مبارک پھٹ گئی اور کنارہ اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں رہ گیا۔ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةً وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا، فَقَالَ مَخْرَمَةُ: يَا بُنَيَّ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، قَالَ: ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي، قَالَ: فَدَعَوْتُهُ لَهُ فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ قَبَاءٌ مِنْهَا، فَقَالَ: " خَبَأْتُ هَذَا لَكَ " قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " رَضِيَ مَخْرَمَةُ ".
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تقسیم کیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائیں اور مخرمہ کو کوئی نہ دی، تب مخرمہ نے کہا: اے میرے بیٹے! میرے ساتھ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ سو میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے کہا: تم گھر میں جا کر انہیں بلاؤ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنکلے اس میں کی ایک قبا اوڑھی اور فرمایا: ”یہ میں نے تمہارے واسطے رکھ چھوڑی تھی۔“ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخرمہ کو دیکھا اور فرمایا: ”مخرمہ خوش ہو گئے؟“
حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْحَسَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ أَبُو صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةٌ، فَقَالَ لِي أَبِي مَخْرَمَةُ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَيْهِ عَسَى أَنْ يُعْطِيَنَا مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: فَقَامَ أَبِي عَلَى الْبَابِ فَتَكَلَّمَ، فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ، فَخَرَجَ وَمَعَهُ قَبَاءٌ وَهُوَ يُرِيهِ مَحَاسِنَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: " خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، خَبَأْتُ هَذَا لَكَ ".
سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قبائیں آئیں اور مجھ سے میرے باپ سیدنا مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے، میرے ساتھ چلو شاید ہم کو بھی اس میں سے کچھ دیں، غرض میرے باپ دروازے پر کھڑے رہے اور بات کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز پہچانی اور نکلے اور آپ کے پاس ایک قبا تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پھول بوٹوں کی طرف نظر کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”یہ میں نے تمہارے لیے اٹھا رکھی تھی، یہ میں نے تمہارے لیے اٹھا رکھی تھی۔“
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا " فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟، قَالَ: " أَوْ مُسْلِمًا "، قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ "، وَفِي حَدِيثِ الْحُلْوَانِيِّ تَكْرِيرُ الْقَوْلِ مَرَّتَيْنِ،
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ مال دیا اور میں بھی ان میں ایک بیٹھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو چھوڑ دیا جو میرے نزدیک ان سب سے اچھا تھا، سو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اس کو مؤمن سمجھتا ہوں، آپ اس کو کیوں نہیں دیتے، میں اسے اللہ کی قسم! مؤمن جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید مسلم ہو۔“ پھر میں تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر اس کی خوبی نے جو مجھے معلوم تھی غلبہ کیا اور میں نے پھر عرض کی کہ یارسول اللہ! آپ اسے کیوں نہیں دیتے، اس کو اللہ کی قسم! میں مؤمن جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید مسلم ہو۔“ پھر میں چپ ہو رہا اور پھر اس کی خوبی نے جو مجھے معلوم تھی مجھ پر غلبہ کیا اور میں نے پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ اسے کیوں نہیں دیتے، اللہ کی قسم! میں اسے مؤمن جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید مسلم ہو۔“ پھر تیسری بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”میں اکثر ایک کو دیتا ہوں اور دوسرا میرے نزدیک اس سے اچھا ہوتا ہے اس خیال سے کہ اگر میں اسے نہ دوں گا تو یہ اوندھے منہ دوزخ میں چلا جائے گا۔“ اور حلوانی کی روایت میں وہ قول جو تین بار مروی ہوا دو ہی بار ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنَاه إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، كُلُّهُمْ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَلَى مَعْنَى حَدِيثِ صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ الَّذِي ذَكَرْنَا، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: " أَقِتَالًا أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ ".
سیدنا محمد بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہی روایت زہری کی مروی ہوئی۔ اس میں اتنی بات زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور شانے کے بیچ میں ہاتھ مارا اور فرمایا: ”کیا لڑتے ہو اے سعد!۔“ پھر آگے وہی بات فرمائی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے محبت سے فرمایا کہ کیا تم ہم سے لڑتے ہو حالانکہ ان کی کیا مجال تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑتے)۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ الْأنْصَارِ قَالُوا يَوْمَ حُنَيْنٍ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُنَا، وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: فَحُدِّثَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ " فَقَالَ لَهُ فُقَهَاءُ الْأَنْصَارِ: أَمَّا ذَوُو رَأْيِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ قَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِهِ يُعْطِي قُرَيْشًا، وَيَتْرُكُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثِي عَهْدٍ بِكُفْرٍ أَتَأَلَّفُهُمْ، أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَرْجِعُونَ إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ "، فَقَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، قَالَ: " فَإِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَثَرَةً شَدِيدَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنِّي عَلَى الْحَوْضِ "، قَالُوا: سَنَصْبِرُ،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: انصار کے چند لوگوں نے حنین کے دن کہا، جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اموال ہوازن میں سے کچھ مال بغیر لڑے بھڑے دلوا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کو قریش میں سے سو اونٹ دئیے تو انصار کے لوگ کہنے لگے: اللہ اپنے رسول کہ بخشے کہ وہ قریش کو دیتے ہیں ہمیں چھوڑ کر اور ہماری تلواریں ابھی تک قریش کا خون ٹپکا رہی ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے انصار کو بلا بھیجا اور ان کو چمڑے کے خیمے میں جمع کیا پھر جب سب جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہارے طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ تب ان میں سے سمجھ دار لوگوں نے کہا کہ جو ہم میں فہمیدہ لوگ ہیں یارسول اللہ انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا، کم سن لوگ ہم میں سے بولے کہ اللہ بخشے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ قریش کو دیتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے اور ہماری تلواریں ان کے خون ابھی تک ٹپکا رہی ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جو ابھی کافر تھے ان کا دل خوش کرنے کو اور تم لوگ خوش نہیں ہوتے اس سے کہ لوگ تو مال لے کر اپنے گھر چلے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔ سو البتہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی تم جو لے کر گھر جاؤ گے وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے کر گھر جائیں گے۔“ (البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن ساری دنیا سے بہتر ہے) پھر سب انصار نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! ہم راضی ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے تم پر بہت لوگ مقدم کیئے جائیں گے۔(یعنی تمہیں چھوڑ کر اوروں کو دیں گے) تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ ملاقات کرو تم اللہ سے اور اس کے رسول سے کہ میں حوض (کوثر) پر ہوں گا۔“ انہوں نے کہا: اب ہم صبر کریں گے۔ «بعون الله و قوته»
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مَا أَفَاءَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ "، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ، وَقَالَ: " فَأَمَّا أُنَاسٌ حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وہی روایت دوسرے سند سے مروی ہوئی اسی روایت کی مثل جو گزری اس میں اتنا زیادہ ہے کہ انس نے کہا: پھر ہم لوگ صبر نہ کر سکے اور «أُنَاسٌ منا» میں «منا» کا لفظ نہیں کہا باقی مضمون وہی ہے کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے زہیر بن حرب نے، ان سے یعقوب نے، ان سے ابن شہاب کے بھتیجے نے، ان سے ان کے چچا نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور روایت کی حدیث مثل اس کی (جو گزری) اور اس میں بھی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم صبر نہ کر سکے جیسے روایت یونس کی ہے زہری سے (جو اس کے اوپر گزری)۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بمثله، إلا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: قَالُوا: نَصْبِرُ، كَرِوَايَةِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انہوں نے کہا: ہم صبر کریں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارَ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ؟، فَقَالُوا: لَا إِلَّا ابْنُ أُخْتٍ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ، وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَهُمْ وَأَتَأَلَّفَهُمْ، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا: ”تم میں کوئی غیر ہے؟“ انہوں نے کہا: نہیں مگر ایک ہماری بہن کا لڑکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہن کا لڑکا قوم میں داخل ہے۔“ پھر فرمایا:”قریش نے ابھی جاہلیت کو چھوڑا ہے اور ابھی مصیبت سے نجات پائی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کی فریاد رسی کروں اور ان کی دلجوئی کروں اور کیا تم خوش نہیں ہوتے ہو کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ (باقی رہی میری محبت اور رفاقت تمہارے ساتھ وہ تو ایسی ہی ہے) کہ اگر سب لوگ ایک میدان کی راہ لیں اور انصار ایک گھاٹی کی (جو دو پہاڑوں کے بیچ میں ہو) تو میں انصار ہی کی گھاڑی میں جاؤں۔“ (اور ان کا ساتھ کبھی نہ چھوڑوں)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ، قَسَمَ الْغَنَائِمَ فِي قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، وَإِنَّ غَنَائِمَنَا تُرَدُّ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَهُمْ، فَقَالَ: " مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ "، قَالُوا: هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ، وَكَانُوا لَا يَكْذِبُونَ، قَالَ: " أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا إِلَى بُيُوتِهِمْ، وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى بُيُوتِكُمْ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ، أَوْ شِعْبَ الْأَنْصَارِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مکہ فتح ہوا تو غنیمت قریش میں بانٹی گئی اور انصار نے کہا: یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ ہماری تو تلواریں خون بہائیں اور غنیمت یہ لوگ لے جائیں اور یہ خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اکھٹا کیا اور فرمایا: ”یہ کیا بات ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے؟“ انہوں نے غرض کی کہ جی ہاں وہی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور وہ لوگ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کو خوشی نہیں ہوتی کہ اور لوگ دنیا لے کر اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ اور میرا حال تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک میدان کی راہ لیں یا گھاٹی کی اور انصار ایک وادی یا گھاٹی کی تو میں انصار کی وادی میں چلوں یا انہی کی گھاٹی میں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ ، يزيد أحدهما على الآخر الحرف بعد الحرف، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِذَرَارِيِّهِمْ وَنَعَمِهِمْ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمَعَهُ الطُّلَقَاءُ، فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ، قَالَ: فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، قَالَ: فَالْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ، قَالَ: وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ، فَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ كَثِيرَةً، فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ، وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: إِذَا كَانَتِ الشِّدَّةُ فَنَحْنُ نُدْعَى وَتُعْطَى الْغَنَائِمُ غَيْرَنَا، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ؟ فَسَكَتُوا، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا، وَتَذْهَبُونَ بِمُحَمَّدٍ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ رَضِينَا، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا، لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ "، قَالَ هِشَامٌ: فَقُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ أَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ؟، قَالَ: وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ،
سيدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حنین کا دن ہوا ہوازن اور غطفان اور قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ بھی جن کو طلقاء کہتے ہیں پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے دئیے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے اور اس دن دو آوزیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا پہلے داہنی طرف منہ کیا اور پکارا: ”اے انصار کے گروہ!“ تو انصار نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا ”اے گروہ انصار کے!“ تو انہوں نے پھر جواب دیا اور کہا کہ ہم حاضر ہیں اے اللہ کے رسول! آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے۔ اس سے اتر پڑے اور فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں، شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت خاص ہے انبیاء کے واسطے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ! اللہ کا بندہ ہونا کتنی بڑی نعمت ہے کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے۔ ؎ داغ غلامیت کز و پایہ خسر و بلند صد ر ولایت شود بندہ کہ سلطان خرید) اور اس کا رسول، اور شکست کھا گئے مشرک لوگ۔“اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت لوٹ کا مال ہاتھ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور مکہ کے لوگوں میں اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ کٹھن گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر لگی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا: ”اے انصار کے گروہ! یہ کیا بات ہے جو مجھ کو تم سے پہنچی ہے۔“ تب وہ چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کے گروہ! کیا تم خوش نہیں ہوتے ہو اس پر کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں گے اور تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو لے جا کر اپنے گھر میں محفوظ رکھ لو۔“ انہوں نے کہا: بیشک اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری میں تو میں تو انصار کی گھاٹی کی راہ لوں۔“ ہشام نے کہا: میں نے کہا: اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ انہوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي السُّمَيْطُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: افْتَتَحْنَا مَكَّةَ، ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَيْنًا، فَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَيْتُ، قَالَ: فَصُفَّتِ الْخَيْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَةُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ ذَلِكَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ كَثِيرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّةَ آلَافٍ، وَعَلَى مُجَنِّبَةِ خَيْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خَيْلُنَا تَلْوِي خَلْفَ ظُهُورِنَا، فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْكَشَفَتْ خَيْلُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ فَنَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا لَلْمُهَاجِرِينَ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا لَلْأَنْصَارِ يَا لَلْأَنْصَارِ "، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: هَذَا حَدِيثُ عِمِّيَّةٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَايْمُ اللَّهِ مَا أَتَيْنَاهُمْ حَتَّى هَزَمَهُمُ اللَّهُ "، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذَلِكَ الْمَالَ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاهُمْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى مَكَّةَ فَنَزَلْنَا، قَالَ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الرَّجُلَ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، ثُمَّ ذَكَرَ بَاقِيَ الْحَدِيثِ كَنَحْوِ حَدِيثِ قَتَادَةَ، وَأَبِي التَّيَّاحِ، وَهِشَامِ بْنِ زَيْدٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے مکہ فتح کیا پھر جہاد کیا حنین پر اور مشرک خوب صفیں باندھ کر آئے جو میں نے دیکھیں اور پہلے گھوڑوں نے صف باندھی (یعنی سواروں نے) پھر لڑنے والے لوگوں نے، پھر عورتوں نے، ان کے پیچھے پھر صف باندھی بکریوں نے، پھر چار پایوں نے اور ہم بہت لوگ تھے کہ پہنچ گئے تھے چھ ہزار کو (اور یہ راوی کی غلطی ہے حقیقت میں اس دن بارہ ہزار آدمی تھے جیسا اوپر کی روایت میں گزرا) اور ہماری ایک جانب کے سواروں پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسالدار تھے اور ایک بارگی ہمارے گھوڑے پیٹھ کی طرف جھکنے لگے اور ہم نہ ٹھہرے یہاں تک کہ ننگے ہوئے گھوڑے ہمارے اور گاؤں کے لوگ بھاگنے لگے اور جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا کہ ”ہاں اے مہاجرین!“ ہاں اے مہاجرین! پھر پکارا کہ ”اے انصار! اے انصار!“ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث ایک جماعت کی ہے یا کہا: یہ حدیث میرے چچاؤں کی ہے پھر ہم نے کہا: حاضر ہیں ہم اے اللہ کے رسول، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور کہا سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اللہ کی قسم! کہ ہم پہنچے نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور ہم نے ان سب کا مال لے لیا پھر ہم طائف کی طرف چلے اور ان کو چالیس روز تک گھیرا پھر مکہ لوٹ آئے اور نزول فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمانے لگے پھر آگے باقی حدیث ذکر کی جیسے روایت قتادہ اور ابوالتیاح اور ہشام بن زید کی اوپر گزری۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ، وَصَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ، وَالْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ دُونَ ذَلِكَ، فَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ مِرْدَاسٍ: أنجْعَلُ نَهْبِي وَنَهْبَ الْعُبَيْدِ بَيْنَ عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعِ فَمَا كَانَ بَدْرٌ وَلَا حَابِسٌ يَفُوقَانِ مِرْدَاسَ فِي الْمَجْمَعِ وَمَا كُنْتُ دُونَ امْرِئٍ مِنْهُمَا وَمَنْ تَخْفِضْ الْيَوْمَ لَا يُرْفَعِ، قَالَ: فَأَتَمَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً،
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور صفوان اور عیینہ اور اقرع ان سب کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس بن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباس نے یہ اشعار کہے۔ جو اوپر مذکور ہوئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کردئیے۔ ترجمہ اشعار: آپ میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عینیہ اور اقراع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے یعنی مجھ سے کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہوئی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے سو اونٹ پورے کر دئیے۔
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ، فَأَعْطَى أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ، وَزَادَ وَأَعْطَى عَلْقَمَةَ بْنَ عُلَاثَةَ مِائَةً،
عمر بن سعید مسروق نے دوسری اسناد سے یہی روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم حنین تقسیم کیے اور ابوسفیان کو سو اونٹ دئیے اور حدیث بیان کی مانند اس کی اور اتنی بات زیادہ بیان کی کہ علقمہ بن علاثہ کو سو دئیے۔
وحَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ عَلْقَمَةَ بْنَ عُلَاثَةَ، وَلَا صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الشِّعْرَ فِي حَدِيثِهِ.
عمر بن سعید سے اس سند سے یہی روایت مروی ہوئی اور اس میں علقمہ بن علاثہ اور صفوان بن امیہ کا ذکر نہیں نہ شعروں کا۔
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا فَتَحَ حُنَيْنًا قَسَمَ الْغَنَائِمَ، فَأَعْطَى الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ الْأَنْصَارَ يُحِبُّونَ أَنْ يُصِيبُوا مَا أَصَابَ النَّاسُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَهُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا فَهَدَاكُمُ اللَّهُ بِي، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمُ اللَّهُ بِي، وَمُتَفَرِّقِينَ فَجَمَعَكُمُ اللَّهُ بِي، وَيَقُولُونَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، فَقَالَ: أَلَا تُجِيبُونِي "، فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ شِئْتُمْ أَنْ تَقُولُوا كَذَا وَكَذَا، وَكَانَ مِنَ الْأَمْرِ كَذَا وَكَذَا لِأَشْيَاءَ عَدَّدَهَا " زَعَمَ عَمْرٌ وَأَنْ لَا يَحْفَظُهَا، فَقَالَ: " أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاءِ وَالْإِبِلِ، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى رِحَالِكُمْ الْأَنْصَارُ شِعَارٌ، وَالنَّاسُ دِثَارٌ وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَلَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهُمْ، إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ ".
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حنین فتح کیا اور غنیمت تقسیم کی اور مؤلفتہ القلوب کو مال دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی کہ انصار چاہتے ہیں کہ جیسا اور لوگوں کو حصہ ملا ہے ویسا ہی ہم کو بھی ملے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: ”اے انصار کے گروہ! کیا میں نے تم کو گمراہ نہیں پایا پھر اللہ نے تم کو ہدایت کی میرے سبب سے اور کیا میں نے محتاج نہیں پایا تم کو، پھر اللہ نے میرے سبب سے تم کو امیر کیا اور کیا میں نے تم کو متفرق نہیں پایا، پھر اللہ نے اکٹھا کر دیا تم کو۔“ (انصار میں دو قبیلے بہت بڑے تھے ایک اوس، دوسرے خزرج ان میں سو برس سے برابر لڑائی چلی آتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اسے دور کیا) اور وہ کہتے تھے: اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ان پر بہت احسان ہے (یعنی جو آپ نے کیا وہی حق ہے ہم اس پر راضی ہیں) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے جواب نہیں دیتے۔“انہوں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت احسان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو کہ ایسا ایسا ہو۔“ کئی چیزوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ذکر کیا کہ عمرو کہتے ہیں: میں انہیں بھول گیا (تو یہ نہیں ہو سکتا) پھر فرمایا: ”تم اس سے خوشی نہیں ہوتے کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر اپنے گھر جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھر جاؤ۔“ پھر فرمایا: ”انصار استر ہیں (یعنی بدن سے ہمارے لگے ہوئے ہیں جیسے استر لگا ہوتا ہے) اور باقی لوگ ابرہ ہیں (یعنی بہ نسبت انصار کے ہم سے دور ہیں جیسے ابرہ بند سے دور ہوتا ہے) اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ایک آدمی ہوتا اور اگر لوگ ایک میدان اور گھاٹی میں جائیں تو میں انصار کی وادی اور گھاٹی میں جاؤں اور میرے بعد لوگ تم کو پیچھے ڈالیں گے (یعنی تم کو نہ دے کر اوروں کو دیں گے) تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ ملنا مجھ سے حوض پر۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، قَالَ إسحاق أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، آثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا فِي الْقِسْمَةِ، فَأَعْطَى الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ الْعَرَبِ، وَآثَرَهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْقِسْمَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا عُدِلَ فِيهَا، وَمَا أُرِيدَ فِيهَا وَجْهُ اللَّهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ، قَالَ: فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ حَتَّى كَانَ كَالصِّرْفِ، ثُمَّ قَالَ: " فَمَنْ يَعْدِلُ إِنْ لَمْ يَعْدِلِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ "، قَالَ: قُلْتُ: لَا جَرَمَ، لَا أَرْفَعُ إِلَيْهِ بَعْدَهَا حَدِيثًا.
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب حنین کا دن ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو غنیمت کا مال زیادہ دیا چنانچہ اقرع بن حابس کو سو اونٹ دیے اور عیینہ کو بھی ایسے ہی اور چند آدمیوں کو سردارانِ عرب سے ایسا ہی کچھ دیا اور لوگوں سے ان کو مقدم کیا تقسیم میں۔ سو ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ تقسیم ایسی ہے کہ اس میں عدل نہیں ہے اور اس میں اللہ کی رضا مندی مقصود نہیں۔ تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کی خبر دوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدل گیا جیسے خون ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون عدل کرے گا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہ کرے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رحم کرے موسیٰ علیہ السلام پر کہ ان کو اس سے زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا۔“ اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج سے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو کسی بات کی خبر نہ دوں گا (اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں تکلیف ہوتی ہے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّهَا لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ غَضَبًا شَدِيدًا وَاحْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَذْكُرْهُ لَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " قَدْ أَوُذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال بانٹا اور ایک شخص نے کہا کہ یہ تقسیم ایسی ہے کہ اللہ کی رضا مندی اس سے مقصود نہیں پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر چپکے سے کہہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمبہت غصہ ہوئے اور چہرہ آپ کا لال ہو گیا اور میں نے آرزو کی کہ کاش اس کا ذکر نہ کیا ہوتا تو خوب ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام کو اس سے زیادہ ستایا اور انہوں نے صبر کیا (موسیٰ علیہ السلام پردہ میں چھپ کر نہاتے تھے جاہلوں نے کہا: ان کے انثیین بڑے ہیں ایک بار پتھر پر کپڑے رکھ دئیے وہ بھاگا۔ آپ اس کے پیچھے دوڑے لوگوں نے دیکھ لیا کہ کچھ عیب نہیں اور جب ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا ان کا جنازہ آسمان پر ملائکہ لے گئے۔ جاہلوں نے کہا: انہوں نے ان کو حسد سے مار ڈالا آخر وہ ایک تخت پر آسمان سے ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام نے مجھے نہیں مارا۔ غرض اس طرح ہمیشہ جاہل لوگ انبیاء، علماء کو بدنام کرتے چلے آئے ہیں خدام حدیث اور وارثان علم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صبر کرتے رہے ہیں)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ مُنْصَرَفَهُ مِنْ حُنَيْنٍ، وَفِي ثَوْبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبِضُ مِنْهَا يُعْطِي النَّاسَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ اعْدِلْ، قَالَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ لَقَدْ خِبْتَ وَخَسِرْتَ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِلُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَقْتُلَ هَذَا الْمُنَافِقَ، فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنْهُ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "،
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے جب حنین سے لوٹے تھے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں کچھ چاندی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مٹھی سے لے لے کر بانٹتے تھے اور لوگوں کو دیتے تھے تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا: عدل کرو اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون عدل کرے گا اگر میں عدل نہ کروں اور تو تو بڑا بدنصیب اور بڑا نقصان والا ہو گیا اگر میں عدل نہ کروں۔“ (یعنی تو مجھے نبی سمجھ کر ایمان لایا اور جب میں ظالم ٹھہرا تو تیرا کہاں ٹھکانا لگے گا) اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مجھے فرمائیے کہ میں اس منافق کو مار ڈالوں اللہ کے رسول۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی پناہ لوگ کہیں گے کہ میں اپنے رفیقوں کو مارتا ہوں۔(معلوم ہوا کہ زبان خلق سے بچنا چاہیے) اور یہ شخص اور اس کے یار قرآن کو پڑھیں گے اور قرآن ان کے گلوں سے نہ اترے گا (یعنی دل میں اثر نہ کرے گا) اور قرآن سے نکل جائیں گے جیسے تیر نکل جاتا ہے شکار سے۔“ (بعض وقت زور سے تیر مارو تو پار ہو جاتا ہے اور اس میں خون نہیں بھرتا)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنِي قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْسِمُ مَغَانِمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِالْيَمَنِ، بِذَهَبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيُّ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِي كِلَابٍ، وَزَيْدُ الْخَيْرِ الطَّائِيُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِي نَبْهَانَ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ، فَقَالُوا: أَتُعْطِي صَنَادِيدَ نَجْدٍ وَتَدَعُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي إِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِأَتَأَلَّفَهُمْ "، فَجَاءَ رَجُلٌ كَثُّ اللِّحْيَةِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِنْ عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي "، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فِي قَتْلِهِ، يُرَوْنَ أَنَّهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا بھیجا مٹی میں ملا ہو (یعنی کان سے جیسا نکلا تھا ویسا ہی تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں بانٹا، اقرع بن حابس اور عیینہ بن بدر اور علقمہ بن علاثہ عامری اور ایک شخص بنی نبھان سے اور اس پر قریش بہت جلے اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان کو اس لئے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہو۔“ اتنے میں ایک شخص آیا کہ اس کی داڑھی گھنی تھی، گال پھولے ہوئے تھے آنکھیں گڑھے میں گھسی ہوئی تھیں ماتھا اونچا تھا سر منڈا ہوا تھا اور اس نے آ کر کہا: اللہ سے ڈر اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں نافرمانی کروں گا تو پھر اللہ تعالیٰ کی کون اطاعت کرے گا (معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام سے بڑھ کر کسی کا درجہ نہیں) اور اللہ تعالیٰ نے مجھے زمین والوں پر امانتدار مقرر فرمایا اور تم لوگ امانتدار نہیں جانتے۔“ پھر وہ آدمی پیٹھ موڑ کر چلا گیا اور ایک شخص نے اجازت مانگی قوم میں سے اس کے قتل کی لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اس کی اصل میں سے ایک قوم ہے کہ وہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا اور اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیتے ہیں، اسلام سے ایسا نکل جاتے ہیں جیسے تیر نکل جاتا ہے شکار سے اگر میں ان کو پاتا تو ایسا قتل کرتا جیسے عاد قتل ہوئے ہیں۔“(یعنی جڑ پیر سے اڑا دیتا جیسے عاد کو باد نے برباد کیا)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ بِذَهَبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ حِصْنٍ، وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ، وَزَيْدِ الْخَيْلِ، وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَلَا تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً "، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاشِزُ الْجَبْهَةِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ: " وَيْلَكَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ "، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟، فَقَالَ: " لَا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي "، قَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ "، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: " إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ، كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا ایک چمڑے میں جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور مٹی بھی جدا نہیں ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں بانٹا۔ عیینہ بن بدر اور اقرع بن حابس اور زید خیل میں اور چوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل تو ایک شخص نے آپ کے اصحاب میں سے کہا کہ ہم اس کے زیادہ حقدار تھے ان لوگوں سے اور یہ خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے امانتدار نہیں جانتے اور میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمان کے اوپر ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے نہ جیسا ملا عین جہمیہ جو مفسدانِ دین ہیں خیال کرتے ہیں اور برق و بجلی کی طرح اہل سنت پر کڑکتے ہیں کہ ذات مقدس ہر جگہ ہے «معاذ الله من ذلك» اور یہ ملاعین بیہودہ عقائد جہمیہ کو جان جہان جانتے ہیں اور عقیدہ انبیاء کو وہم و گمان سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر بشر کو محفوظ رکھے) آتی ہے مجھے خبر آسمان کی صبح اور شام۔“پھر ایک شخص کھڑا ہوا جس کی دونوں آنکھیں گھڑے میں گھسی ہوئی تھیں، دونوں گال پھولے ہوئے تھے، پیشانی ابھری ہوئی تھی، سر منڈا ہوا تھا، تہہ بند اٹھائے ہوئے کہنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ سے ڈر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرابی ہے تیری تو کیا سب زمین والوں سے بڑھ کر مستحق نہیں۔ اللہ سے ڈرنے کا۔“ (یعنی سب سے زیادہ تو تو ہے مستحق اس سے ڈرنے کا اس لئے کہ اس کے رسول سے بے ادبی کرتا ہے) پھر وہ شخص چلا اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ ماروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں شاید یہ نماز پڑھتا ہو۔“(معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھا ورنہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت نماز پڑھنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آپ اپنی زبان سے وہ باتیں کرتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ حکم نہیں ہوا کہ کسی کا دل چیر کر دیکھوں، نہ یہ کہ کسی کیا پیٹ پھاڑوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی اصل سے ایسے لوگ نکلیں گے کہ وہ اللہ کی کتاب آسانی سے پڑھیں گے مگر گلے سے نیچے نہیں اترے گی (یہی حال ہے اہل بدعت کا یک شنبہ قرآن پرھیں گے مگر عقیدہ یہ رکھیں گے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے آدمی گمراہ ہو جاتا ہے پھر قرآن کا مضمون کیونکر گلے اترے) نکل جائیں گے دین سے جیسے تیر نکل جاتا ہے شکار سے۔“ (یعنی تمام اعمال صالحہ خیر و صدقات صلوٰۃ و زکوٰۃ حج و صیام سب کچھ بجا لاتے ہیں مگر شرک و بدعت کی شومی سے جو ان کے عقائد و اعمال میں گھسی ہوئی ہے کوئی نیکی قبول نہیں جیسے تیر نکل گیا تو اس میں خون بھی نہیں بھرتا) راوی نے کہا: میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اگر میں ان کو پاؤں تو ثمود کی طرح قتل کروں۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ وَعَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَامِرَ بْنَ الطُّفَيْلِ، وَقَالَ: " نَاتِئُ الْجَبْهَةِ "، وَلَمْ يَقُلْ: " نَاشِزُ "، وَزَادَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ، قَالَ: " لَا "، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَهُ، قَالَ: " لَا "، فَقَالَ: " إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ لَيِّنًا رَطْبًا "، وَقَالَ: قَالَ عُمَارَةُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ "،
یہ حدیث سابقہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس میں یہ وضاحت ہے کہ اس آدمی کو قتل کرنے کی اجازت پہلے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مانگی پھر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مانگی۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ " بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: زَيْدُ الْخَيْرِ، وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ عُلَاثَةَ أَوْ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ "، وَقَالَ: " نَاشِزُ الْجَبْهَةِ " كَرِوَايَةِ عَبْدِ الْوَاحِدِ، وَقَالَ: " إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ " وَلَمْ يَذْكُرْ: " لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ ".
یہ حدیث بھی سابقہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے لیکن اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نہیں ہے کہ ”اگر میں نے ان کو پایا تو میں ان کو قتل کروں گا ثمود کے قتل کرنے کی طرح۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، أنهما أتيا أبا سعيد الخدري فسألاه عَنْ الْحَرُورِيَّةِ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهَا؟، قَالَ: لَا أَدْرِي مَنْ الْحَرُورِيَّةُ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَكُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ، فَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَيَنْظُرُ الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رِصَافِهِ، فَيَتَمَارَى فِي الْفُوقَةِ هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنَ الدَّمِ شَيْءٌ ".
ابوسلمہ اور عطاء دونوں، ابوسعید کے پاس آئے اور کہا کہ حروریہ کے باب میں تم نے کچھ سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا کچھ ذکر کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: میں نہیں جانتا کہ حروریہ کون لوگ ہیں مگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے: ”اس امت میں ایک قوم نکلے گی اور یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ہو گی غرض وہ ایسے ہوں گے کہ حقیر جانو گے تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے آگے اور قرآن پڑھیں گے کہ ان کے حلقوں سے یا فرمایا گلوں سے نیچے نہ اترے گا دین سے ایسے نکل جائیں گے۔ جیسے تیر شکار سے کہ شکاری دیکھتا ہے اپنے تیر کی لکڑی کو اور اس کی پھال کو اور اس کے پر کو اور غور کرتا ہے اس کے کنارہ اخیر کو جو اس کی چٹکیوں میں تھا کہ کہیں اس کی کسی چیز میں کچھ خون بھرا ہے۔“ (تو دیکھتا ہے کہ کہیں بھی نہیں بھرا)۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَالضَّحَّاكُ الْهَمْدَانِيُّ ، أن أبا سعيد الخدري ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْسِمُ قَسْمًا، أَتَاهُ ذُو الْخُوَيْصِرَةِ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْدِلْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلَكَ وَمَنْ يَعْدِلُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ، قَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِيهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ إِلَى نَصْلِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى رِصَافِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى نَضِيِّهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ وَهُوَ الْقِدْحُ، ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيهِ شَيْءٌ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ آيَتُهُمْ رَجُلٌ أَسْوَدُ إِحْدَى عَضُدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَتَدَرْدَرُ، يَخْرُجُونَ عَلَى حِينِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ "، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَوُجِدَ، فَأُتِيَ بِهِ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بانٹ رہے تھے کہ ذوالخویصرہ آیا ایک شخص بنی تمیم کا اور اس نے کہا کہ اے رسول اللہ کے! عدل کرو۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرابی ہے تیری جب میں عدل نہ کروں گا تو کون کرے گا؟ اور تو بالکل بدنصیب اور محروم ہو گیا اگر میں نے عدل نہ کیا۔“ اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس کی گردن مار وں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانے دو اس لیے کہ اس کے چند یار ہوں گے کہ تم حقیر سمجھو گے اپنی نماز کو ان کی نماز کے آگے، اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے آگے، قرآن پڑھیں گے کہ گلوں سے نہ اترے گا اسلام سے ایسے نکل جائیں گے کہ جیسے تیر شکار سے کہ دیکھتا ہے تیر انداز اس کے پیکان کو تو اس میں کچھ بھرا نہیں ہے، پھر دیکھتا ہے اس کی پیکان کی جڑ کو تو اس میں کچھ نہیں، پھر دیکھتا ہے اس کی لکڑی کو تو اس میں بھی کچھ نہیں، پھر دیکھتا ہے اس کے پر کو تو اس میں بھی کچھ نہیں اور تیر اس شکار کی بیٹ اور خون سے نکل گیا اور نشانی اس گروہ کی یہ ہے کہ ان میں ایک کالا آدمی ہے کہ ایک شانہ اس کا عورت کے پستان کا سا ہو گا یا فرمایا جیسے گوشت کا لوتھڑا تلتھلاتا ہوا اور وہ گروہ اس وقت نکلے گا جب لوگوں میں پھوٹ ہو گی۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سنا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان سے لڑے اور میں آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا اس کے ڈھونڈنے کا اور وہ ملا اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا اور میں نے اس کو دیکھا کہ جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی تھا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ قَوْمًا، يَكُونُونَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُونَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ: " هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ أَوْ مِنْ أَشَرِّ الْخَلْقِ، يَقْتُلُهُمْ أَدْنَى الطَّائِفَتَيْنِ إِلَى الْحَقِّ "، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ مَثَلًا، أَوَ قَالَ: قَوْلًا الرَّجُلُ يَرْمِي الرَّمِيَّةَ، أَوَ قَالَ الْغَرَضَ فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، وَيَنْظُرُ فِي الْفُوقِ فَلَا يَرَى بَصِيرَةً، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَأَنْتُمْ قَتَلْتُمُوهُمْ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہو گی اور وہ لوگ نکلیں گے جبکہ لوگوں میں پھوٹ ہو گی اور نشانی ان کی سر منڈانا ہو گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ وہ بدترین خلق ہیں قتل کریں گے ان کو وہ لوگ دونوں گروہوں میں سے جو نزدیک ہوں گے حق کے۔“ (اور وہ گروہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا تھا) اور ان کی ایک مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی یا ایک بات کہی ”کہ آدمی جب تیر مارتا ہے شکار کو یا فرمایا: نشانہ کو اور نظر کرتا ہے بھال کو تو اس میں کچھ اثر نہیں دیکھتا اور نظر کرتا ہے تیر کی لکڑی میں تو کچھ اثر نہیں دیکھتا اور نظر کرتا ہے تیر کی لکڑی میں چٹکی میں رہتا ہے تو کچھ اثر نہیں پاتا ہے۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عراق والو! تم ہی نے تو ان کو قتل کیا ہے (یعنی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو کر)۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ وَهُوَ ابْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایک فرقہ جدا ہو جائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہو گی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہو گا دونوں گروہوں میں حق سے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَكُونُ فِي أُمَّتِي فِرْقَتَانِ، فَتَخْرُجُ مِنْ بَيْنِهِمَا مَارِقَةٌ، يَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَاهُمْ بِالْحَقِّ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت میں دو گروہ ہو جائیں گے اور ان دونوں میں ایک فرقہ جدا ہو جائے گا اور ان کو قتل کرے گا وہ گروہ جو حق سے قریب ہو گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَمْرُقُ مَارِقَةٌ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ، فَيَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ الضَّحَّاكِ الْمِشْرَقِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ ذَكَرَ فِيهِ: " قَوْمًا يَخْرُجُونَ عَلَى فُرْقَةٍ مُخْتَلِفَةٍ يَقْتُلُهُمْ أَقْرَبُ الطَّائِفَتَيْنِ مِنَ الْحَقِّ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ الْأَشَجُّ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ : إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ، فَإِنَّ الْحَرْبَ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "،
سوید بن غفلہ نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب میں تم سے روایت کروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اگر میں آسمان سے گر پڑوں تو اس سے بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ بات باندھوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی اور جب میں تمہارے اور اپنے بیچ میں کچھ بات کروں تو جان لو کہ لڑائی میں حیلہ اور فریب روا (جائز) ہے اب سنو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اخیر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی کہ ان کے لوگ کمسن ہوں گے اور کم عقل بات سب مخلوقات سے اچھی کہیں گے اور قرآن ایسا پڑھیں گے کہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا اور دین سے ایسا نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پھر جب تم ان سے ملو تو ان کو مارو اس لیے کہ ان کے مارنے سے تم کو قیامت کے دن اللہ کے پاس سے ثواب ملے گا۔“
حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ،
اعمش سے اس سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث کی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا " يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ".
اعمش سے اس سند سے وہی روایت مروی ہے اور اس میں یہ مضمون نہیں ہے کہ ”وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُمَا، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْمُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: ذَكَرَ الْخَوَارِجَ، فَقَالَ: " فِيهِمْ رَجُلٌ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مُودَنُ الْيَدِ أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، لَوْلَا أَنْ تَبْطَرُوا لَحَدَّثْتُكُمْ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: قُلْتُ: " آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ " قَالَ: " إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ "،
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا خوارج کا اور فرمایا: ”ان میں ایک شخص ہو گا جس کا ہاتھ ناقص ہو گا یا پستان زن کے برابر ہو گا اور کہا: اگر تم فخر نہ کرو تو میں بیان کروں جس کا وعدہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا: تم نے سنا ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے؟ انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے رب کعبہ کی! ہاں قسم ہے رب کعبہ کی! ہاں قسم ہے رب کعبہ کی!۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، قَالَ: لَا أُحَدِّثُكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ مِنْهُ فَذَكَرَ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ مَرْفُوعًا.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ، مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاتَّكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ، وَلَيْسَ لَهُ ذِرَاعٌ عَلَى رَأْسِ عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ، فَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ، وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ "، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا، حَتَّى قَالَ: مَرَرْنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ فَلَمَّا الْتَقَيْنَا، وَعَلَى الْخَوَارِجِ يَوْمَئِذٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا سُيُوفَكُمْ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، فَرَجَعُوا فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ وَسَلُّوا السُّيُوفَ وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَالْتَمَسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا، قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: أَخِّرُوهُمْ فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، قَالَ: فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلِلَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا وَهُوَ يَحْلِفُ لَهُ.
زید سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں تھے جو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج پر گیا تھا انہوں نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ایک قوم نکلے گی میری امت سے کہ قرآن پڑھیں گے ایسا کہ تمہارا پڑھنا ان کے آگے کچھ نہ ہو گا اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے آگے کچھ ہو گی اور نہ تمہارا روزہ ان کے روزوں کے آگے کچھ ہو گا قرآن پڑھ کو وہ سمجھیں گے کہ ہمارا اس میں فائدہ ہے اور وہ ان کا ضرر ہو گا نماز ان کے گلوں سے نہ اترے گی، نکل جائیں گے اسلام سے جیسے تیر شکار سے۔“ اگر وہ لشکر جو ان پر جائے گا جان لے اس بشارت کو جس کا بیان فرمایا گیا ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر تو بھروسا کرے اسی عمل پر(یہ سمجھ لے کہ اب عمل کی حاجت نہیں اتنا ثواب ان کے قتل میں ہے) اور نشانی ان کی یہ ہے کہ ان میں آدمی ہے کہ اس کے شانے کے سر پر عورت کے سر پستان کی مثل ہے۔ اور اس پر بال ہیں سفید رنگ کے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جاتے ہو معاویہ کی طرف اہل شام پر اور ان کو چھوڑے جاتے ہو کہ یہ تمہارے پیچھے تمہاری اولاد اور اموال کو ایذا دیں اور میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ یہ وہی قوم ہے کہ اس لیے کہ انہوں نے خون بہایا حرام اور لوٹ لیا مواشی کو لوگوں کے سوا ان پر چلو اللہ کا نام لے کر۔ سلمہ بن کہیل نے کہا پھر بیان کیا مجھ سے زید نے ایک ایک منزل کا یہاں تک کہ کہا انہوں نے کہ گزرے ہم ایک پل پر (اور وہ پل تھا دبر خان کا چنانچہ نسائی کی روایت میں وارد ہوا ہے) پھر جب دونوں لشکر ملے اس دن خوارج کا سپہ سالار عبداللہ بن وہب راسبی تھا اور اس نے حکم دیا ان کو کہ اپنے نیزے پھینک دو اور تلواریں میان سے نکال لو اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ یہ لوگ تم پر ویسی بوچھاڑ نہ کریں جیسی حرورا کے دن کی تھی سو وہ پھرے اور اپنے نیزے پھینک دئیے اور تلواریں میان سے نکال لیں اور لوگ ان سے جا ملے اور ان کو اپنے نیزوں سے کونچ لیا اور ایک پھر دوسرا مقتول ہوا اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لشکر سے صرف دو آدمی کام آئے پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ڈھونڈو اس میں «مخدج» کو اور اس کو ڈھونڈا اور نہ پایا پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ خود کھڑے ہوئے اور ان مقتولوں کے پاس گئے جو ایک دوسرے پر پڑے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ان کو ہٹاؤ پھر اس کو پایا زمین سے لگا ہوا اور آپ نے کہا: اللہ اکبر! پھر فرمایا کہ سچا ہے اللہ تعالیٰ اور پیغام پہنچایا اس کے رسول نے۔ کہا راوی نے کہ پھر کھڑے ہوئے عبیدہ سلمانی اور عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آپ نے سنا ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں قسم ہے اللہ پاک کی کہ نہیں معبود ہے کوئی سوا اس کے یہاں تک کہ تین بار اس نے آپ کو قسم دی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی اس پر کہ سنا ہے میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالُوا: لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ، قَالَ عَلِيٌّ : كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ، يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا مِنْهُمْ، وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيْهِ، مِنْهُمْ أَسْوَدُ إِحْدَى يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْيٍ، فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: انْظُرُوا فَنَظَرُوا، فَلَمْ يَجِدُوا شَيْئًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ وَجَدُوهُ فِي خَرِبَةٍ، فَأَتَوْا بِهِ حَتَّى وَضَعُوهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِهِمْ، وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ، زَادَ يُونُسُ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ بُكَيْرٌ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ ابْنِ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ قَالَ: رَأَيْتُ ذَلِكَ الْأَسْوَدَ.
سیدنا عبیداللہ رضی اللہ عنہ جو مولیٰ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے روایت ہے کہ حروریہ جب نکلے اور جب وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے تو حروریہ نے کہا «لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّه» یعنی حکم نہیں کسی کا سوا اللہ کے تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کلمہ ایسا ہے کہ حق ہے مگر ارادہ ان کا اس سے باطل ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا تھا ان لوگوں کا کہ ”میں ان کا حال بخوبی جانتا ہوں اور ان کی نشانیاں ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں اور وہ اپنی زبانوں سے حق کہتے ہیں مگر وہ اس سے تجاوز نہیں کرتا ہے۔ اور اشارہ کیا اپنے حلق کی طرف(یعنی حق بات حلق سے نیچے نہیں اترتی) اور اللہ کی مخلوق میں بڑے دشمن اللہ کے یہی ہیں ان میں ایک شخص اسود ہے کہ ایک ہاتھ اس کا ایسا ہے کہ جیسے چوچے بکری كے یا سر پستان۔“ فرمایا پھر جب قتل کیا ان کو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا: دیکھو، پھر دیکھا تو وہ نہ ملا، پھر فرمایا انہوں نے کہ پھر جاؤ سو قسم ہے اللہ پاک کی کہ میں نے جھوٹ نہیں کہا اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جھوٹ نہیں فرمایا نہ میں نے تم سے جھوٹ کہا) دو بار یا تین بار یہی کہا، پھر پایا اس کو ایک کھنڈر میں اور لائے اس کو یہاں تک کہ رکھ دیا لاشہ اس کا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے آگے اور عبیداللہ نے کہا کہ میں حاضر تھا اس جگہ جب انہوں نے یہ کام کیا اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں یہ فرمایا اور یونس کی روایت میں اتنی بات زیادہ ہے کہ بکیر نے کہا اور روایت کی مجھ سے ایک شخص نے ابن حنین سے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے اسود کو۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي، أَوْ سَيَكُونُ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي، قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَلَاقِيمَهُمْ، يَخْرُجُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ "، فَقَالَ ابْنُ الصَّامِتِ: فَلَقِيتُ رَافِعَ بْنَ عَمْرٍو الْغِفَارِيَّ أَخَا الْحَكَمِ الْغِفَارِيِّ، قُلْتُ: مَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي ذَرٍّ كَذَا وَكَذَا، فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعد میرے میری امت سے یا فرمایا: اب ہو گی بعد میرے میری امت میں وہ قوم کہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے حلقون میں سے نیچے نہ اترے گا دین سے وہ ایسا نکل جائیں گے جیسے کہ تیر نکلتا ہے شکار سے اور پھر نہ آئیں گے وہ دین میں وہ ساری مخلوق سے بدتر ہیں۔ ابن صامت نے کہا کہ پھر میں ملا رافع بن عمرو غفاری سے جو حکم غفاری کے بھائی ہیں اور میں نے کہا: وہ کیا حدیث ہے جو میں نے سنی ہے ابوذر رضی اللہ عنہ سے ایسے ایسے؟ اور ذکر کی میں نے یہ حدیث تو انہوں نے کہا: میں نے سنی ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْخَوَارِجَ؟، فَقَالَ: " سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ، لَا يَعْدُو تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "،
سہیل نے کہا: سنا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ذکر کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوارج کا اور کہا انہوں نے کہ سنا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اشارہ کرتے تھے مشرق کی طرف اور فرماتے تھے: ”وہ ایسی قوم ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں اپنی زبانوں سے اور اترتا نہیں ہے ان کے گلوں سے، نکل جاتے ہیں وہ دین سے جیسے نکل جاتا ہے تیر شکار سے۔“
وحَدَّثَنَاه أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " يَخْرُجُ مِنْهُ أَقْوَامٌ ".
اور یہ روایت کی ہم سے ابوکامل نے، انہوں نے عبدالواحد سے، انہوں نے سلیمان سے اسی اسناد سے اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکلیں گی ان سے کئی قومیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ ، جَمِيعًا، عَنْ يَزِيدَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو إسحاق الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَتِيهُ قَوْمٌ قِبَلَ الْمَشْرِقِ، مُحَلَّقَةٌ رُءُوسُهُمْ ".
سھل بن حنیف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک قوم نکلے گی مشرق کی طرف سے سر منڈائے ہوئے۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ، فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كِخْ كِخْ ارْمِ بِهَا أَمَا عَلِمْتَ أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ایک کھجور صدقہ کی اپنے منہ میں لے کر ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تھو تھو پھینک دے اس کو کیا تو نہیں جانتا کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھاتے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ وَكِيعٍ ، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " أَنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ "،
شعبہ سے یہی روایت آتی ہے اور اس میں یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو صدقہ حلال نہیں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، كَمَا قَالَ ابْنُ مُعَاذٍ: " أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ ".
شعبہ سے اس روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم صدقہ نہیں کھاتے۔“
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، ثُمَّ أَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، فَأُلْقِيهَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں اپنے گھر جاتا ہوں اور اپنے بچھونے پر کھجور پڑی پاتا ہوں اور اٹھاتا ہوں کہ کھاؤں پھر ڈرتا ہوں کہ صدقہ کی نہ ہو اور پھینک دیتا ہوں۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، أَوْ فِي بَيْتِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، أَوْ مِنَ الصَّدَقَةِ فَأُلْقِيهَا ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ تَمْرَةً، فَقَالَ: " لَوْلَا أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ لَأَكَلْتُهَا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر صدقہ کی نہ ہوتی تو میں کھا لیتا۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِتَمْرَةٍ بِالطَّرِيقِ، فَقَالَ: " لَوْلَا أَنْ تَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ لَأَكَلْتُهَا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں پڑی ہوئی کھجور کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ تَمْرَةً، فَقَالَ: " لَوْلَا أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً لَأَكَلْتُهَا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور پائی تو فرمایا: ”اگر یہ صدقہ کی نہ ہوتی تو میں اسے کھا لیتا۔“
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَهُ، قَالَ: اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، وَالْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَا: وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ، قَالَا لِي: وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَاهُ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ، وَأَصَابَا مِمَّا يُصِيبُ النَّاسُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمَا فَذَكَرَا لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: لَا تَفْعَلَا فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ، فَانْتَحَاهُ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا تَصْنَعُ هَذَا إِلَّا نَفَاسَةً مِنْكَ عَلَيْنَا، فَوَاللَّهِ لَقَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا نَفِسْنَاهُ عَلَيْكَ، قَالَ عَلِيٌّ: أَرْسِلُوهُمَا فَانْطَلَقَا وَاضْطَجَعَ عَلِيٌّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ، فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى جَاءَ، فَأَخَذَ بِآذَانِنَا، ثُمَّ قَالَ: " أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ "، ثُمَّ دَخَلَ وَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَ: فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ، ثُمَّ تَكَلَّمَ أَحَدُنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْتَ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ، وَقَدْ بَلَغْنَا النِّكَاحَ فَجِئْنَا لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى بَعْضِ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ، فَنُؤَدِّيَ إِلَيْكَ كَمَا يُؤَدِّي النَّاسُ وَنُصِيبَ كَمَا يُصِيبُونَ، قَالَ: فَسَكَتَ طَوِيلًا حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ، قَالَ: وَجَعَلَتْ زَيْنَبُ تُلْمِعُ عَلَيْنَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ أَنْ لَا تُكَلِّمَاهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ، إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ، وَكَانَ عَلَى الْخُمُسِ، وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ "، قَالَ: فَجَاءَاهُ، فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ: " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ لِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ "، فَأَنْكَحَهُ، وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ: " أَنْكِحْ هَذَا الْغُلَامَ ابْنَتَكَ لِي "، فَأَنْكَحَنِي، وَقَالَ لِمَحْمِيَةَ: " أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ وَلَمْ يُسَمِّهِ لِي،
عبدالمطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ جمع ہوئے ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب اور دونوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہم بھیج دیں ان دونوں لڑکوں کو یعنی مجھ کو اور فضل بن عباس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تحصدیلدار بنا دیں ان زکوٰتوں پر اور یہ دونوں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور کچھ ان کو مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے آگے کھڑے ہوئے ان دونوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مت بھیجو اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ایسا نہیں کرنے والے (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں پر حرام ہے) پس برا کہنے لگے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ربیعہ بن حارث اور کہا کہ اللہ کی قسم! تم ہمارے ساتھ یہ جو کرتے ہو تو حسد سے اور قسم ہے اللہ پاک کی کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا تو ہم تم سے کچھ حسد نہیں کرتے تب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا ان دونوں کو روانہ کرو۔ اور ہم دونوں گئے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ لیٹ رہے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور کھڑے ہوئے حجرے کے پاس یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ شفقت اور ملاعبت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظاہر کرو جو تم دل میں گھڑے باندھ لائے ہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی اور اس دن آپ ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے پھر ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ تم بولو غرض ایک نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحم کرنے والے ہیں اور سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں قرابت والوں سے اور ہم نکاح کو پہنچ گئے ہیں (یعنی جوان ہو گئے ہیں) پھر ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہم کو ان زکوٰتوں پر تحصیلدار بنا دیں کہ ہم بھی آپ کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہم کو بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر نبیصلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے بڑی دیر تک یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں اور ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زکوٰۃ آل محمد کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) مگر تم میرے پاس محمیہ کو بلا لاؤ (یہ نام تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا) اور وہ خمس کے اوپر مقرر تھے اور بلا لاؤ نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو۔“ کہا راوی نے کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ سے فرمایا: ”تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو۔“ اور نوفل بن حارث سے فرمایا: ”تم اپنی لڑکی اس لڑکے سے بیاہ دو۔“ یعنی مجھ سے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے جو راوی حدیث ہیں) غرض میرا نکاح کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور محمیہ سے فرمایا: ان دونوں کا مہر خمس سے ادا کر دو اتنا اتنا۔“ زہری نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عبداللہ میرے شیخ نے تعداد مہر کی نہیں فرمائی۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَقَالَ فِيهِ: فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ، وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ مَكَانِي حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِحَوْرِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ قَالَ لَنَا: " إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ "، وَقَالَ أَيْضًا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادْعُوَا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ.
عبدالمطلب بن ربیعہ نے کہا کہ ان کے باپ ربیعہ اور عباس بن عبدالمطلب دونوں نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس سے کہا کہ تم دونوں جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور حدیث بیان کی جیسے اوپر گزری اور اس میں یوں ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھائی اور لیٹ رہے اور کہا کہ میں باپ ہوں حسن رضی اللہ عنہ کا اور سید ہوں قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اس جگہ سے نہ جاؤں گا جب تک تمہارے بیٹے نہ لوٹیں تمہاری بات کا جواب لے کر جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہلا بھیجی ہے، پھر ہمارے لیے یہ فرمایا: ”یہ میل ہے لوگوں کی اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز نہیں۔“ اور فرمایا: ”بلاؤ میرے پاس محمیہ بن جزء کو۔“ اور وہ ایک آدمی تھے قبیلہ بنی اسد کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحصیلدار کیا تھا خمسوں پر۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ بْنَ السَّبَّاقِ ، قَالَ: إِنَّ جُوَيْرِيَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: " هَلْ مِنْ طَعَامٍ؟، قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عِنْدَنَا طَعَامٌ، إِلَّا عَظْمٌ مِنْ شَاةٍ أُعْطِيَتْهُ مَوْلَاتِي مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ: قَرِّبِيهِ فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا "،
سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ نے خبر دی کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے اور فرمایا: ”کچھ کھانا ہے؟“ تو انہوں نے عرض کی کہ نہیں۔ قسم ہے اللہ کی! اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس کچھ کھانا نہیں ہے مگر چند ہڈیاں بکری کو جو میری آزاد لونڈی کو صدقہ میں ملی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لاؤ اس لیے کہ صدقہ تو اپنی جگہ تک پہنچ گیا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
زہری سے ان اسناد کے ساتھ گزشتہ حدیث کی طرح روایت مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَاشُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: أَهْدَتْ بَرِيرَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمًا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَيْهَا، فَقَال: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہدیہ دیا سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ گوشت کہ اس کو کسی نے صدقہ دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا اور فرمایا: ”ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقِيلَ: هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: " هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ گائے کا گوشت لائے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کسی نے کہا: یہ گوشت صدقہ کا ہے جو سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو ملا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان پر صدقہ ہے اور ہم کو ہدیہ۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَتْ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ، كَانَ النَّاسُ يَتَصَدَّقُونَ عَلَيْهَا وَتُهْدِي لَنَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَكُمْ هَدِيَّةٌ فَكُلُوهُ "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ سے تین حکم شرعی ثابت ہوئے لوگ اس کو صدقہ دیتے اور وہ ہم کو ہدیہ دیتی تو ذکر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس پر صدقہ ہے اور تم پر ہدیہ ہے سو تم کھاؤ۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذَلِكَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، عَنْ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ ذَلِكَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " وَهُوَ لَنَا مِنْهَا هَدِيَّةٌ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: بَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَبَعَثْتُ إِلَى عَائِشَةَ مِنْهَا بِشَيْءٍ، فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، قَالَ: " هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟، قَالَتْ: لَا إِلَّا أَنَّ نُسَيْبَةَ بَعَثَتْ إِلَيْنَا مِنَ الشَّاةِ الَّتِي بَعَثْتُمْ بِهَا إِلَيْهَا، قَالَ: إِنَّهَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا ".
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: بھیجا میرے پاس رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کو صدقہ کی تو میں نے اس میں سے تھوڑا گوشت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں مگر نسیبہ نے (یعنی ام عطیہ نے) ہمارے پاس کچھ گوشت بھیجا ہے اس بکری میں سے جو آپ نے ان کے پاس بھیجی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی جگہ پہنچ گئی۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ سَأَلَ عَنْهُ، فَإِنْ قِيلَ هَدِيَّةٌ أَكَلَ مِنْهَا، وَإِنْ قِيلَ صَدَقَةٌ لَمْ يَأْكُلْ مِنْهَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کھانا آتا پوچھ لیتے اگر ہدیہ ہوتا تو کھاتے اور صدقہ ہوتا تو نہ کھاتے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ مُرَّةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ، فَأَتَاهُ أَبِي أَبُو أَوْفَى بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى ".
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی قوم صدقہ لاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے (دعا)فرماتے تھے: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ» ”یا اللہ! رحمت کر ان کے اوپر۔“ پھر آئے باپ ابو اوفیٰ کے صدقہ لے کر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِى أَوْفَى» ”یا اللہ! رحمت کر ابو اوفیٰ کی آل پر۔“
ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " صَلِّ عَلَيْهِمْ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر رحمت کی دعا کی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وعبد الأعلى ، كلهم عَنْ دَاوُدَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَتَاكُمُ الْمُصَدِّقُ، فَلْيَصْدُرْ عَنْكُمْ وَهُوَ عَنْكُمْ رَاضٍ ".
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زکوٰۃ لینے والا تمہارے پاس آئے تو چاہیے کہ راضی جائے۔“