مشکوٰة شر یف

زکوٰۃ کا بیان

کتاب الزکوٰۃ

زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں طہارت و برکت اور بڑھنا  اصطلاح شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں اپنے مال کی مقدار متعین کے اس حصہ کو جو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی مستحق کو مالک بنا دینا  زکوٰۃ کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی دونوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھ لیجیے کہ یہ فعل یعنی اپنے مال کی مقدار متعین کے ایک حصہ کا کسی مستحق کو مالک بنا دینا) مال کے باقی ماندہ حصے کو پاک کر دیتا ہے اس میں حق تعالیٰ کی طرف سے برکت عنایت فرمائی جاتی ہے اور اس کا وہ مال نہ صرف یہ کہ دنیا میں بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے بلکہ اخروی طور پر اللہ تعالیٰ اس کے ثواب میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے مالک کو گناہوں اور دیگر بری خصلتوں مثلاً بخل وغیرہ سے پاک و صاف کرتا ہے اس لیے اس فعل کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔

  زکوٰۃ کو صدقہ بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ فعل اپنے مال کا ایک حصہ نکالنے والے کے دعویٰ ایمان کی صحت و صداقت پر دلیل ہوتا ہے۔

 

زکوٰۃ کب فرض ہوئی؟

صدقہ فطر ٢ہجری میں واجب کیا گیا تھا زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں اگرچہ علماء کے یہاں اختلافی اقوال ہیں مگر صحیح قول یہ ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو گیا تھا مگر اس حکم کا نفاذ مدینہ میں ہجرت کے دوسرے سال رمضان کی پہلی تاریخ کو ہوا ہے گویا زکوٰۃ یکم رمضان ٢ ہجری میں فرض قرار دی گئی اور اس کا اعلان کیا گیا۔

 

زکوٰۃ تمام امتوں پر فرض تھی

اجتماعی طور پر یہ مسئلہ ہے کہ زکوٰۃ انبیاء کرام پر فرض و واجب نہیں ہے البتہ جس طرح سابقہ تمام امتوں پر نماز فرض تھی اسی طرح امت محمدی سے پہلے ہر امت پر زکوٰۃ فرض تھی ہاں زکوٰۃ کی مقدار اور مال کی تحدید میں اختلاف ضرور رہا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں اسلامی شریعت کے احکام بہت آسان اور سہل ہیں جب کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں اتنی آسانی نہیں تھی۔

 

زکوٰۃ کی اہمیت اور اس کی تاکید

قرآن مجید میں بتیس جگہ زکوٰۃ کا ذکر نماز کے ساتھ فرمایا گیا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ نماز روزہ اور زکوٰۃ دونوں کے کمال اتصال کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ زکوٰۃ کی فضیلت و تاکید کی دلیل بھی ہے پھر یہ کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوٰۃ کا علیحدہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے خداوند قدوس نے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو دنیاوی و اخروی اجر و ثواب اور سعادت و نیک بختی کے دل کش و سچے وعدوں سے سرفراز فرمایا ہے اور اس کی ادائیگی سے باز رہنے والوں کو جیسے سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے کہ خدا شاہد اہل ایمان کے قلوب ان کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں کیسے بد بخت ہیں وہ لوگ جو اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے باز رہتے ہیں اور ان عذابوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

 چونکہ زکوٰۃ اسلام کا ایک بڑا رکن ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے اس لیے زکوٰۃ کا انکار کرنے والا کافر اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا فاسق اور شدید ترین گنہگار ہوتا ہے بلکہ علماء لکھتے ہیں کہ زکوٰۃ نہ دینے والا اس قابل ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے (محیط السرخسی)

 مال پر ایک سال کامل گزر جانے کے بعد صاحب نصاب پر علی الفور زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی ادائیگی میں تاخیر گناہ گار بناتی ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ سال پورا ہو جانے پر علی الفور زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ علی التراخی واجب ہوتی ہے یہاں تک کہ موت کے وقت گناہ گار ہوتا ہے۔

 

 

زکوٰۃ کن لوگوں پر فرض ہے

 ہر اس آزاد عاقل اور بالغ مسلمان پر زکوٰۃ فرض ہے جو نصاب (یعنی مال کی وہ خاص مقدار جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے) کا مالک ہو اور مال کامل ایک سال تک اس کی ملکیت میں رہا ہو نیز وہ مال دین یعنی قرض اور ضرورت اصلیت سے فارغ ہو اور نامی (یعنی بڑھنے والا ہو) خواہ حقیقۃ خواہ تقدیراً اسی طرح مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔

 کافر، غلام دیوانے اور نابالغ لڑکے پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور نہ اس مالک نصاب پر زکوٰۃ واجب ہے جس کے نصاب پر پورا ایک سال نہ گزرا ہو، ہاں اگر کوئی شخص سال کی ابتدائی اور آخری حصوں میں مالک نصاب رہے اور درمیان مالک نصاب نہ رہے تو اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی کیونکہ یہ بھی پورے ایک سال ہی کے حکم میں ہو گا۔

 قرض دار پر اس کے بقدر فرض مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں جو مال قرض سے زائد ہو اور وہ حد نصاب کو پہنچتا ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہو گئی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ قرض زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہے جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، چنانچہ نذر، کفارات فطرہ اور ان جیسے دوسرے مطالبات جن کا تعلق صرف اللہ جل شانہ کی ذات سے ہے اور کسی بندے کو ان کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب نہیں ہیں۔ ہاں ایسے قرض جن کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مگر ان کے مطالبہ وصول کرنے کا حق بندوں کو پہنچتا ہے جیسے زکوٰۃ عشر، خراج وغیرہ کہ امام وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے تو یہ بھی زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہیں مگر امام وقت اور حاکم مال ظاہر میں مطالبہ کر سکتا ہے مثلاً مویشی وہ مال تجارت جو شہر میں لایا جائے یا شہر سے باہر لے جایا جائے اور نقدی لیکن وہ مال جس کی تجارت صرف شہر کے اندر اندر ہی محدود ہو اس میں حاکم کا مطالبہ اور اگر بیوی مہر کا تقاضا کرتی ہو تو اس کے مہر کے بقدر مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی۔

 بحرالرائق میں ہے کہ معتمد مسلک یہ ہے کہ فرض زکوٰۃ اور صدقہ فطر کے لیے مانع وجوب ہے نیز مطلقاً قرض مانع ہے خواہ معجل ہو یا موجل، اگرچہ بیوی کا مہر موجل ہی کیوں نہ ہو جس کی مدت تاجیل طلاق یا موت پر ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ مہر موجل زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب نہیں ہے کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں ہوا کرتا بخلاف مہر معجل کے کہ اس کا مطالبہ ہوتا ہے مگر بعض علماء نے اس بارے میں یہ لکھا ہے کہ اگر خاوند ادائیگی مہر کا ارادہ رکھتا ہو تو مہر موجل زکوٰۃ کے لیے مانع وجوب ہے ورنہ نہیں کیونکہ اس کا شمار قرض میں نہیں ہوتا۔

 حضرت امام اعظم ابوحنیفہ صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند تونگر یعنی مالدار ہو تو وہ اپنے مہر کی وجہ سے (کہ جو اس کے خاوند کے ذمہ باقی ہے) غنیہ سمجھی جائے گی یا نہیں؟ صاحبین کا مسلک تو یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر ہو گی یعنی مستحق زکوٰۃ نہیں ہو گی حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا آخری قول یہ ہے کہ وہ غنیہ معتبر نہیں ہو گی، لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف صرف مہر معجل کے بارے میں ہے مہر موجل کی صورت میں تینوں حضرات کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ ایسی عورت غنیہ معتبر نہیں ہو گی۔

 

ضرورت اصلیہ کا مطلب

ضرورت اصلیہ سے مراد یہ چیزیں ہیں رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے خانہ داری کے اسباب سواری کی چیزیں مثلاً گھوڑا گاڑی موٹر سائیکل وغیرہ خدمت کے غلام استعمال کے ہتھیار، اہل علم کے لیے ان کی کتابیں کاریگر کے واسطے اس کے پیشہ کے اوزار وغیرہ، لہٰذا مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے کوئی مکان تجارت کی نیت سے لیا اور وہ مکان اس کی رہائش سے فارغ بھی ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہو گی اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے اگر مکان و غلام وغیرہ اپنی ضرورت و حاجت سے فارغ ہوں اور ان کی تجارت کی نیت نہ ہو تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی۔

 

کامل ملکیت

ابھی پہلے زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے یہ شرط بھی بیان کی گئی تھی کہ مال میں اس کی ملکیت پوری طرح اور کامل ہو۔ لہٰذا اس کامل ملکیت سے مراد یہ ہے کہ مال کا اصل مالک بھی ہو اور وہ مال اس کے قبضہ و قدرت میں بھی ہو جو مالک ملک اور قبضہ میں نہ ہو یا ملک میں ہو قبضے میں نہ ہو یا قبضہ میں ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ لہٰذا مکاتب کے کے کمائے ہوئے مال میں زکوٰۃ نہیں نہ خود مکاتب پر نہ اس کے مولیٰ پر اس لیے کہ وہ مال مکاتب کی ملکیت میں نہیں گو اس کے قبضہ میں ہے اسی طرح مولی کے قبضہ میں نہیں ہے گو ملک میں ہے۔

 اسی طرح ضمار میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ وہ مال ملکیت میں تو ہوتا ہے مگر قبضہ میں نہیں ہوتا۔ مال ضمار اس کو کہتے ہیں جو اپنی رسائی سے باہر ہو اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں (١) وہ مال جو جاتا رہے یعنی گم ہو جائے (٢) وہ مال جو جنگل میں دفن کر دیا گیا ہو مگر وہ جگہ کہ جہاں اسے دفن کیا گیا تھا بھول جائے (٣) وہ مال جو دریا میں غرق ہو گیا، (٤) وہ مال جسے کوئی شخص زبردستی چھین لے مگر اس کا کوئی گواہ نہ ہو (٥) وہ مال جو کسی ظالم نے ڈنڈے کے زور پر لے لیا۔ (٦) وہ مال جو کسی نے بطور قرض لیا اور بعد میں قرضدار قرض کا منکر ہو گیا اور کوئی تمسک یا گواہی اس کی نہ ہو۔

 پس مال ضمار کی یہ دو قسمیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی مال ہاتھ لگ جائے تو اس مال میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی ہاں اگر وہ مال ہاتھ لگ جائے جو جنگل میں بلکہ گھر میں دفن کر کے اس کی جگہ بھول گیا تھا تو جب بھی وہ مال نکلے گا اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب ہو گی۔ اسی طرح قرض کے اس مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی جس سے قرض دار انکار نہ کرتا ہو خواہ وہ قرضدار تونگر ہو یا مفلس اور یا اگر انکار کرتا ہو تو کوئی تمسک یا گواہی ہو یا خود قاضی یہ جانتا ہو کہ اس نے اتنا مال قرض لیا تھا لیکن اس مال میں زکوٰۃ اس تفصیل کے ساتھ واجب ہو گی کہ۔

 (١) اگر وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں ہو تو جب نصاب کا پانچواں حصہ وصول ہو جائے تو پچھلے دنوں زکوٰۃ ادا کرے (٢) اگ وہ قرض مال تجارت کے بدلہ میں نہ ہو مثلاً گھر کے پہننے کے کپڑے فروخت کیے یا خدمت کا غلام فروخت کیا یا رہائش کا مکان فروخت کیا اور ان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ قرض رہی تو اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ بقدر نصاب وصول ہو جائے (٣) اگر قرض اس چیز کے بدلہ میں ہو جو مال نہیں ہے جیسے مہر، وصیت اور بدل خلع وغیرہ تو اس میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ بقدر نصاب وصول ہو جائے اور اس پر پورا ایک سال گزر جائے یعنی اس میں پچھلے دنوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی بلکہ صرف اسی سال کی زکوٰۃ واجب ہو گی جس میں کہ وہ مال پر قابض رہا لیکن یہ حکم اسی شخص کے بارے میں ہے جو پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو اگر پہلے سے صاحب نصاب ہو گا تو یہ مال اس کے حق میں بمنزلہ مال مستفاد کے ہو گا، پہلے مال کے ساتھ اس مال کی بھی زکوٰۃ واجب ہو گی اور ایک سال کا گزرنا شرط نہیں ہو گا۔

 

ادائیگی زکوٰۃ کے لیے نیت شرط ہے

 ادائیگی زکوٰۃ کے لیے یہ شرط ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ دیتے وقت نیت کرے یعنی دل میں یہ ارادہ کرے کہ  میرے اوپر جس قدر مال کا دینا فرض تھا میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دیتا ہوں یا جس وقت اپنے مال میں سے زکوٰۃ کا حصہ نکالے اسی وقت زکوٰۃ کی نیت کرے کہ میں اس قدر جو زکوٰۃ دینے کے لیے ہے نکالتا ہوں۔

 اگر کوئی شخص اپنا تمام مال خدا کی راہ میں خیرات کر دے اور زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس کے ذمہ زکوٰۃ ساقط ہو جاتی ہے یعنی اس پر زکوٰۃ کا مطالبہ باقی نہیں رہتا بشرطیکہ اس نے وہ مال کسی اور واجب کی نیت سے نہ دیا ہو وہاں اگر کسی شخص نے پورا مال تو نہیں بلکہ تھوڑا سا بغیر نیت زکوٰۃ خدا کی راہ میں خیرات کر دیا تو حضرت امام محمد رحمۃ اللہ کے نزدیک اس مال کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی مگر حضرت امام ابو یوسف کے ہاں اس مال کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا بھی یہی قول منقول ہے اور اسی قول پر فتویٰ بھی ہے۔

 زکوٰۃ کو ساقط کرنے کے لیے حیلہ کرنا مکروہ ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ مال زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اور اس کی صورت یہ کرے کہ جب سال پورا ہونے کو ہو تو کچھ دن پہلے اپنا مال دوسرے کو ہبہ کر کے اسے قابض کر دے اور اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ جائے اگرچہ اس صورت سے زکوٰۃ تو ساقط ہو جاتی ہے مگر یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے۔

 اگر کسی شخص نے کوئی غلام تجارت کے لیے خریدا مگر بعد میں اس سے خدمت لینے کی نیت ہو گئی تو وہ غلام تجارت کے لیے نہیں رہے گا بلکہ خدمت ہی کے لیے ہو جائے گا اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی غلام خدمت کی نیت سے خریدا پھر بعد میں اس نے تجارت کی نیت کر لی تو وہ غلام اس وقت تک تجارت کے حکم میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ شخص اسے فروخت نہ کرے۔ فراختگی کے بعد اس کی قیمت میں زکوٰۃ واجب ہو جائے گی۔

 

 نصاب کی تعریف

 نصاب زکوٰۃ مال کی اس خاص مقدار کو کہتے ہیں جس پر شریعت نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور جس مقدار سے کم مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مثلاً اونٹ کے لیے پانچ اور پچیس وغیرہ کا عدد، بکری کے لیے چالیس اور ایک اکیس وغیرہ کا عدد اور چاندی کے لیے دو سو درہم اور سونے کے لیے بیس مثقال۔

 

نصاب کی قسمیں

 نصاب کی دو قسمیں ہیں۔ نامی یعنی بڑھنے والا مال اور غیر نامی یعنی نہ بڑھنے والا مال پھر نامی کی دو قسمیں ہیں حقیقی اور تقدیری حقیق کا اطلاق تو تجارت کے مال اور جانور پر ہوتا ہے کیونکہ تجارت کا مال نفع سے بڑھتا ہے اور جانور بچوں کی پیدائش سے بڑھتے ہیں۔ تقدیری کا اطلاق سونے چاندی پر ہوتا ہے کہ یہ چیزیں بظاہر تو نہیں بڑھتیں لیکن بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں نصاب غیر نامی کا اطلاق مکانات اور خانہ داری کے ان اسباب پر ہوتا ہے جو ضرورت اصلیہ کے علاوہ ہوں۔

 

نصابی اور غیر نصابی میں فرق

 نصاب نامی اور غیر نامی میں فرق یہ ہے کہ نصاب نامی کے مالک پر تو زکوٰۃ فرض ہوتی ہے نیز اس کے لیے دوسرے زکوٰۃ، نذر اور صدقات واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا اور اس کے لیے صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔ نصاب غیر نامی کے مالک پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی مگر اس کے لیے بھی زکوٰۃ نذر اور صدقہ واجبہ کا مال لینا درست نہیں ہوتا نیز اس پر بھی صدقہ فطر دینا اور قربانی کرنا واجب ہوتا ہے۔

زکوٰۃ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو (امیر یا قاضی بنا کر) یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو لہٰذا (پہلے تو تم) انہیں اس بات کی گواہی دینے کی دعوت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ دعوت کو قبول کر لیں تو پھر تم انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ اسے مان جائیں تو پھر اس کے بعد انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے (یعنی ان لوگوں سے جو مالک نصاب ہوں) لی جائے گی اور ان کے فقراء کو دے دی جائے گی۔ اگر وہ اسے مان جائیں تم یہ یاد رکھنا کہ ان سے زکوٰۃ میں اچھا مال لینے سے پرہیز کرنا یعنی چھانٹ کر اچھا مال نہ لینا بلکہ ان کے مال کو تین حصوں میں تقسیم کرنا اچھا، برا، درمیانہ لہٰذا زکوٰۃ میں درمیانہ مال لینا نیز تم (زکوٰۃ لینے میں غیر قانونی سختی کر کے یا ان سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کر کے جو ان پر واجب نہ ہوں اور یا انہیں زبان یا ہاتھ سے ایذاء پہنچا کر) ان کی بد دعا نہ لینا کیونکہ مظلوم کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس دعا کی قبولیت کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اگرچہ یمن میں مشرک اور ذمی کافر بھی تھے مگر چونکہ تمام اقوام میں اہل کتاب ہی کی اکثریت تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت معاذ کو یمن بیجتے ہوئے وہاں کے لوگوں میں بطور خاص اہل کتاب ہی کا ذکر فرمایا۔

اعلان جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے

ابن مالک فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کفار کے مقابلہ پر اعلان جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ کفار کو اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اور انہیں خدا کے آخری دین کی طرف پہلے سے نہ بلایا گیا ہو اگر صورت حال یہ ہو کہ ان کے پاس اسلام کی دعوت پہلے سے پہنچ چکی ہو تو اب جنگ سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہو گا۔

مانعین زکوٰۃ پر عذاب کی تفصیل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص سونے اور چاندی (کے نصاب) کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کے تختے بنائے جائیں گے (یعنی تختے تو سونے اور چاندی کے ہوں گے مگر انہیں آگ میں اس قدر گرم کیا جائے گا کہ گویا وہ آگ ہی کے تختے ہوں گے اسی لئے آپ نے آگے فرمایا کہ وہ تختے دوزخ کی آگ میں گرم کیے جائیں گے اور ان تختوں سے اس شخص کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی پھر ان تختوں کو (اس بدن سے) جدا کیا جائے اور آگ میں گرم کر کے پھر لایا جائے گا (یعنی جب وہ تختے ٹھنڈے ہو جائیں گے تو انہیں دوبارہ گرم کرنے کے لیے آگ میں ڈالا جائے گا اور وہاں سے نکال کر اس شخص کے بدن کو داغا جائے گا) اور اس دن کی مقدار کہ جس میں یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب ختم ہو جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ عذاب تو نقدی یعنی سونے چاندی کے بارے میں ہو گا اونٹ کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کا کیا حشر ہو گا؟ آپ نے فرمایا جو شخص اونٹ کا مالک ہو اور اس کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے، اور اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ جس روز انہیں پانی پلایا جائے ان کا دودھ دوہا جائے تو قیامت کے دن اس شخص کو اونٹوں کے سامنے ہموار میدان میں منہ کے بل اوندھا ڈال دیا جائے گا اور اس کے سارے اونٹ گنتی اور مٹاپے میں پورے ہوں گے مالک ان میں سے ایک بچہ بھی کم نہ پائے گا یعنی اس شخص کے سب اونٹ وہاں موجود ہوں گے۔ حتی کہ اونٹوں کے سب بچے بھی ان کے ساتھ ہوں گے پھر یہ کہ وہ اونٹ خوب فربہ اور موٹے تازے ہوں گے تاکہ اپنے مالک کو روندتے وقت خوب تکلیف پہنچائیں چنانچہ وہ اونٹ اس شخص کو اپنے پیروں سے کچلیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے جب ان اونٹوں کی جماعت روند کچل اور کاٹ کر چلی جائے تو دوسری جماعت آئے گی یعنی اونٹوں کی قطار روند کچل کر چلی جائے گی تو اس کے پیچھے دوسری قطار آئے گی اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جس دن یہ ہو گا اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کر دیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! گائے اور بکریوں کے مالک کا کیا حل ہو گا؟ آپ نے فرمایا جو شخص گائیوں اور بکریوں کا مالک ہو اور ان کا حق یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اسے ہموار میدان میں اوندھے منہ ڈال دیا جائے گا اور اس کی گایوں اور بکریوں کو وہاں لایا جائے گا جن میں سے کچھ کم نہیں ہو گا ان میں سے کسی گائے بکری کے سینگ نہ مڑے ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور نہ وہ منڈی یعنی بلا سینگ ہوں گی یعنی ان سب کے سروں پر سینگ ہوں گے نہ ٹوٹے ہوں گے اور سالم ہوں گے۔ تاکہ وہ اپنے سینگوں سے خوب مار سکیں چنانچہ وہ گائیں اور بکریاں اپنے سینگوں سے اپنے مالک کو ماریں گی اور اپنے کھروں سے کچلیں گی اور جب ایک قطار اسے مار کچل کر چلی جائے گی تو دوسری قطار آئے گی اور اپنا کام شروع کر دے گی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور جس دن یہ ہو گا اس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی یہاں تک کہ بندوں کا حساب کتاب کیا جائے گا اور وہ شخص جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! گھوڑوں کے بارے میں کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ گھوڑے جو آدمی کے لیے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے جنہیں اس کے مالک اظہار فخر و غرور اور مال دار اور ریاء کے لیے اور مسلمانوں سے دشمنی کے واسطے باندھے چنانچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لیے گناہ کا سبب بنتے ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لیے پردہ ہوتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں اس کے مالک نے خدا کی راہ میں کام لینے کے لیے باندھا اور ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارے میں وہ خدا کے حق کو نہیں بھولا چنانچہ وہ گھوڑے اپنے مالک کے لیے پردہ ہیں اور وہ گھوڑے جو آدمی کے لیے ثواب کا سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس شخص کے گھوڑے ہیں جنہیں ان کا مالک خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے مسلمانوں کے واسطے باندھے اور چراگاہ و سبزہ میں رکھے چنانچہ جب وہ گھوڑے چراگاہ و سبزہ سے کچھ کھاتے ہیں تو جو کچھ انہوں نے کھایا یعنی گھاس وغیرہ کی تعداد کے بقدر اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہاں تک کہ ان گھوڑوں کی لید اور ان کے پیشاب کے بقدر بھی اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں کیونکہ لید اور پیشاب بھی گھوڑے کی زندگی کا باعث ہیں اور گھوڑے رسی توڑ کر ایک یا دو میدان دوڑتے پھرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے قدموں کے نشانات اور ان کی لید جو وہ اس دوڑنے کی حالت میں کرتے ہیں کی تعداد کے برابر اس شخص کے لیے نیکیاں لکھتا ہے اور جب وہ شخص ان گھوڑوں کو نہر پر پانی پلانے کے لیے لے جاتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو، اللہ تعالیٰ گھوڑوں کے پانی پینے کے بقدر اس شخص کے لیے نیکیاں لکھتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں ہوا لیکن تمام نیکیوں اور اعمال کے بارے میں یہ آیت جامع ہے (فَمَنْ یعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یرَهٗ               ۝ۭ  وَمَنْ یعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یرَهٗ              ۝ۧ) 99۔ الزلزلۃ:7۔ 8) یعنی جو شخص ایک ذرہ کے برابر نیکی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا اور جو شخص ایک ذرہ کے برابر برائی کا عمل کرے گا اسے دیکھے گا۔ (یعنی مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو نیک کام کے لیے جانے کے واسطے اپنا گدھا دے گا تو ثواب پائے گا اور اگر برے کام کے لیے دے گا تو گناہگار ہو گا) مسلم۔

 

تشریح

 

 قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر بتائی گئی ہے لیکن اس کا تعلق کافروں کے ساتھ ہے یعنی قیامت کا دن کافروں کو پچاس ہزار سال کے بقدر دراز معلوم ہو گا بقیہ گناہگاروں کو ان کے گناہ کے بقدر دراز محسوس ہو گا اگر کسی کے گناہ کم اور ہلکے ہوں گے تو اسے وہ دن اسی اعتبار سے کم دراز محسوس ہو گا اور اگر کسی کے گناہ زیادہ اور شدید نوعیت کے ہوں گے تو اسے وہ دن بھی اس کی اعتبار سے دراز محسوس ہو گا یہاں تک کہ خدا کے نیک بندوں یعنی مومنین و کاملین کو وہ پورا دن صرف دو رکعت نماز کے بقدر معلوم ہو گا گویا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے انہیں وہ دن صرف اتنے عرصہ کے بقدر محسوس ہو گا۔

 فیری سبیلہ اما الی الجنۃ الخ اور وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنی راہ دیکھے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس شخص کے نامہ اعمال میں اس ترک زکوٰۃ کے گناہ کے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں ہو گا اور مذکورہ عذاب کہ جس میں اسے مبتلا کیا جائے گا اس کے اس گناہ کو دور کر دے گا تو اس کے بعد وہ جنت میں چلا جائے گا اور خدا نخواستہ اگر اس کا نامہ اعمال میں ترک زکوٰۃ کے علاوہ اور گناہ بھی ہوں گے یا یہ کہ مذکورہ عذاب کے بعد بھی ترک زکوٰۃ کا گناہ اس سے دور نہیں ہو گا تو پھر وہ دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔

 حتی یقضی بین العباد میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن میدان حشر میں دوسری مخلوق خدا تو حساب کتاب میں مشغول ہو گی مگر وہ لوگ جنہوں نے زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

 ومن حقہا حلبہا یوم وردہا اونٹوں کا ایک حق یہ بھی ہے الخ۔ اونٹ والوں کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو تیسرے دن یا چوتھے دن پانی کی جگہ پانی پلانے لے جاتے ہیں چنانچہ عرب میں ایک یہ معمول بھی تھا کہ جس جگہ پانی پلانے کے لیے اونٹ لائے جاتے تھے وہاں لوگ جمع ہو جاتے تھے اونٹ والے اپنے اونٹوں کو وہاں پانی پلانے لاتے اور وہیں اونٹوں کا دودھ نکال کر وہاں جمع لوگوں کو پلا دیا کرتے چنانچہ اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگرچہ اونٹوں کا واجب حق تو صرف یہی ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا کی جائے مگر ان کے اور دوسرے حقوق میں سے ایک مستحب حق یہ بھی ہے کہ جس دن اونٹ پانی پینے جائیں اس دن کا دودھ وہ غرباء و مساکین کو پلایا جائے لہٰذا یہ فعل اگرچہ مستحب ہے لیکن از راہ مروت و ہمدردی اور بربنائے ادائے شکر حق گویا واجب کا حکم رکھتا ہے اسی لیے اس کے بارے میں اتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا چنانچہ حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حق کی عدم ادائیگی کی صورت میں عذاب بھی ہو سکتا ہے۔

 ولایرید ان یسقیہا (اگرچہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہ ہو) مطلب یہ ہے کہ مالک گھوڑے کو پانی پلانے کا ارادہ نہ رکھے بلکہ اس کے ارادہ و قصد کے بغیر گھوڑا پانی پیے تو اس کے بارے میں مذکورہ ثواب بیان کی گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر مالک خود ارادہ و قصد کر کے گھوڑے کو پانی پلائے گا تو اس کا کیا کچھ ثواب اسے ملے گا گھوڑوں کے بارے میں صحابہ کے سوال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو جواب دیا اس کا اسلوب پہلے جوابات کے اسلوب سے مختلف ہے اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب کا جو اسلوب اختیار فرمایا ہے اسے جواب علی اسلوب الحکیم کہتے ہیں گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سوال کرنے والے صحابہ سے فرمایا کہ گھوڑوں کا جو حق واجب ہے یعنی زکوٰۃ وغیرہ صرف اس کے بارے میں مت پوچھو کہ ان گھوڑوں کی وجہ سے ان کے پالنے والے سعادت و نیک بختی اور بھلائی کے کیسے کیسے مقام حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان گھوڑوں سے کیا نفع پہنچتا ہے اسی طرح دوسرا پہلو بھی کہ ان پالنے والوں کو کیسے کیسے گناہ ملتے ہیں اور انہیں کیا نقصان پہنچتا ہے۔

 اسی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھوڑوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ (١) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لیے گناہ کا سبب ہوتے ہیں اس کی تشریح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اظہار فخر اور ریاء کے لیے باندھ رکھا ہو یعنی گھوڑے رکھنے سے اس کی غرض صرف یہ ہو کہ لوگ باگ اس کی حشمت و ثروت دیکھیں اور جانیں کہ یہ مجاہد ہے حالانکہ واقعہ میں وہ مجاہد نہیں ہے نیز فخر یہی مراد ہے کہ وہ گھوڑا اس نیت سے پالے کہ میں اپنے سے کمتر لوگوں پر اپنی بڑائی جتاؤں اور ان کے سامنے فخر کا اظہار کروں (٢) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لیے پردہ ہوتے ہیں اس کی وضاحت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جنہیں ان کے مالک نے اس لیے باندھا ہے تاکہ وہ خدا کی راہ میں کام آئیں یہاں خدا کی راہ سے مراد جہاد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ گھوڑوں کو رکھنے اور باندھنے کا مقصد اظہار فخر و غرور اور ریاء نہ ہو بلکہ انہیں اچھی و نیک نیت سے رکھے مثلاً گھوڑے اس مقصد کے لیے پالے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اچھے و نیک مقاصد کے لیے کام آئیں یا ان سے اپنی سواری مقصود ہو کہ اپنی مشروع و مباح ضرورتوں کے وقت ان پر سوار ہو سکے نیز یہ کہ اپنے فقر و احتیاج کی پردہ پوشی کرے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے کہ ربطہا تغنبا وتعففا یعنی دوسروں سے مستغنی رہنے اور دوسروں کے آگے اپنی احتیاج و ضرورت کے اظہار سے بچنے کے لیے گھوڑا رکھنا چاہیے مثلاً تجارتی مقصد کے لیے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کے یہاں جانے کے لیے کھیت کھلیان میں آنے جانے کے واسطے یا اسی قسم کے دوسرے مقاصد کے وقت اگر گھوڑے کی ضرورت ہو تو کسی دوسرے کی طرف دیکھنا نہ پڑے بلکہ اپنا گھوڑا ہو تو وہ کام آئے اور غیروں کے آگے اظہار ضرورت کی شرمندگی سے بچائے۔ اسی لیے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھوڑے کو اپنے مالک کے لیے پردہ قرار دیا ہے کہ ایک طرف تو گھوڑا اپنے مالک کے فقر و احتیاج کے لیے پردہ پوش ہوتا ہے بایں طور کہ گھوڑے کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں اس کے مالک کا وقار اور برہم قائم رہتا ہے اور اس کی عزت بنی رہتی ہے۔ دوسری طرف گھوڑی کا مالک اپنی ضرورت و حاجت کے وقت کسی دوسرے شخص کے آگے اظہار حاجت اور دس سوال دراز کرنے سے بچا رہتا ہے۔

 اس موقع پر راہ خدا سے یہ مفہوم اس لیے مراد لیا گیا ہے تاکہ ایک ہی عبارت میں تکرار لازم نہ آئے کیونکہ تیسری قسم کے ضمن میں مذکورہ راہ خدا سے مراد جہاد ہی ہے۔

 اسی ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھوڑے کے مالک کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کی پیٹھ اور ان کی گردن کے بارے میں وہ خدا کے حق کو نہیں بھولا۔

 چنانچہ اس ارشاد گرامی میں پیٹھ کے بارے میں اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس گھوڑے پر اچھے اور نیک کاموں کی خاطر سوار ہوا اور اگر کسی نے اس سے اپنی سواری کے لیے یا گھوڑیوں پر چھوڑنے کے لیے اس کا گھوڑا مانگا تو اس نے اس کی ضرورت پوری کی۔ اسی طرح گردن کے بارے میں حق یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا کی۔ مگر حضرات شوافع کی طرف سے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مالک نے اپنے گھوڑے کی خبر گیری کی بایں طور کہ ان کے گھاس دانہ میں کوئی کمی نہیں کی انہیں ان کی پوری خوراک مہیا کی اور انہیں اگر کوئی مرض لاحق ہو یا کوئی تکلیف ہوئی تو اسے فوراً دور کیا۔

 

گھوڑوں میں زکوٰۃ ہے یا نہیں؟

 دراصل اس عبارت کے مفہوم کے تعین میں یہ اختلاف اس لیے واقع ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جو جنگل میں چرتے ہیں پھر گھوڑے کا مالک اس بارے میں مختار ہے کہ چاہے تو وہ ان کی زکوٰۃ میں ہر گھوڑے پیچھے ایک دینار دے چاہے ان کی قیمت متعین کر کے ہر دو سو درہم میں سے پانچ درہم زکوٰۃ ادا کرے جیسا کہ زکوٰۃ کا حساب ہے۔

 حضرت امام شافعی اور صاحبین کے ہاں گھوڑوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ ان حضرات کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمانوں پر ان کے گھوڑے اور غلام میں صدقہ واجب نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ کی طرف سے دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ ہر گھوڑے پیچھے کہ جو جنگل میں چرے ایک دینار ہے۔

 جہاں تک تعین قیمت پر زکوٰۃ کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت عمر فاروق سے منقول ہے حضرت شافعی بطور دلیل جو حدیث پیش کرتے ہیں اس کے بارے میں حضرت امام اعظم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق غازی و مجاہد کے گھوڑے سے ہے اسی طرح غلام سے مراد غلام ہے جو خدمت کے لیے رکھ چھوڑا ہو۔

 (٣) وہ گھوڑے جو اپنے مالک کے لیے ثواب کا ذریعہ بنتے ہیں اس کی تشریح آپ نے یہ فرمائی کہ اس سے وہ گھوڑے مراد ہیں جسے اس کے مالک نے مسلمانوں کے لیے خدا کی راہ میں باندھا ہے یہاں راہ خدا سے مراد جہاد ہی ہے یعنی اس نے اس مقصد کے لیے گھوڑے پال رکھے ہیں تاکہ جب جہاد کا وقت آئے تو اس پر سوار ہو کر دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہو یا بوقت ضرورت دوسرے مسلمانوں کو دے تاکہ وہ اس پر سوار ہو کر جہاد کریں۔

مانعین زکوٰۃ پر عذاب کی تفصیل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال و زر گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل کیا جائے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے پھر وہ سانپ اس شخص کے گلے میں بطور طوق ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اس شخص کی دونوں باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی (وَلَا یحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُوْنَ) 3۔ آل عمران:180) وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں یہ گمان نہ کریں الی آخر الآیہ (بخاری)

 

تشریح

 

 گنجے سانپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سر پر بال نہیں ہوں گے اور یہ گنجا پن سانپ کے بہت زیادہ زہریلا اور دراز عمر ہونے کی علامت ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد گرامی کے بعد بطور استدلال آیت کریمہ کی تلاوت فرما کر آگاہ فرمایا کہ خوب اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی ارشاد فرماتا ہے چنانچہ پوری آیت یہ ہے (وَلَا یحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَیراً لَّھُمْ ۭ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ۭ سَیطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یوْمَ الْقِیٰمَةِ) 3۔ آل عمران:180) جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں تو وہ اپنے اس مال کے بارے میں یہ گمان نہ کریں کہ وہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہ مال تو ان کے حق میں سراسر وبال جان ہے اور یاد رکھو وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب قیامت کے دن وہ اس مال کا کہ جس میں بخل کرتے ہیں طوق پہنائے جائیں یعنی ان کا مال طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔

 

 

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس شخص کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق یعنی زکوٰۃ نہ دے تو کل قیامت کے دن اس کے وہ مویشی اس حال میں لائے جائیں گے کہ بہت بڑے بڑے اور فربہ شکل میں ہوں گے اور پھر وہ اس شخص کو اپنے پیروں سے روندیں کچلیں گے اور اپنے سینگوں سے ماریں گے جب اسے مار کر کچل کر آخری جماعت چلی جائے گی تو پھر پہلی جماعت لائی جائے گی یعنی اسی طرح سب جانور پھر پلٹ کر روندیں گے اور ماریں گے یہ سلسلہ ایسے ہی وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ لوگوں کا حساب کتاب لے کر ان کا فیصلہ نہ کر دیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

عاملین کو خوش پوش واپس کرو

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب (امام وقت کی طرف سے) زکوٰۃ وصول کرنے والا (کہ جسے اصطلاح شریعت میں ساعی اور عامل کہتے ہیں) آئے تو وہ زکوٰۃ وصول کر کے تمہارے پاس سے اس حال میں واپس جائے کہ وہ تم سے راضی و خوش ہو۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب امام وقت یا اسلامی اداروں کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے والے آئیں تو ان کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا جائے اور انہیں پوری پوری زکوٰۃ ادا کی جائے تاکہ وہ راضی اور خوش ہو کر واپس لوٹیں۔

زکوٰۃ لانے والوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعائے رحمت

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کر آتی تاکہ آپ انہیں مستحقین میں تقسیم فرما دیں تو فرماتے اللہم صل علی الی فلاں اے اللہ! فلاں شخص کے خاندان پر رحمت نازل فرما چنانچہ جب میرے والد مکرم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہم صلی علی آل ابی اوفیٰ اے اللہ! اوفیٰ کے خاندان پر رحمت نازل فرما (بخاری و مسلم) ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتا تو آپ فرماتے کہ اے اللہ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرما۔

 

تشریح

 

 کسی شخص کے بارے میں تنہا اس کے لیے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا کرنا یعنی اس طرح کہنا کہ اللہم صل علی آل فلاں درست نہیں ہے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا صرف انبیاء کرام کے لیے مخصوص ہے ہاں اگر کسی شخص کو انبیاء کے ساتھ متعلق کر کے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا کی جائے تو درست ہے جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کا تعلق ہے کہ آپ زکوٰۃ لانے والوں کے لیے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعائے رحمت کرتے تھے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خصائص میں سے ہے کسی اور کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔

 

زکوٰۃ لانے والوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعائے رحمت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے مقرر فرمایا کسی شخص نے آ کر خبر دی کہ ابن جمیل خالد ابن ولید اور حضرت عباس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ابن جمیل نے تو زکوٰۃ دینے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ پہلے مفلس و قلاش تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنا دیا خالد بن ولید کی بات یہ ہے کہ ان پر تم لوگ ظلم کر رہے ہو کہ اصل میں ان پر زکوٰۃ واجب ہی نہیں ہے۔ مگر تم ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے خواہشمند ہو کیونکہ انہوں نے تو اپنی زرہیں اور سامان جنگ یعنی ہتھیار، جانور اور جنگ کا دوسرا سامان خدا کی راہ میں یعنی جہاد کے لیے وقف کر رکھا ہے لہٰذا تم جو ان کے مال و اسباب کو تجارت کا مال سمجھتے ہو وہ غلط ہے اور جہاں تک حضرت ابن عباس کا تعلق ہے تو بات یہ ہے کہ ان کی زکوٰۃ مجھ پر ہے اور نہ صرف اسی سال کی بلکہ اس کے مثل اور آئندہ سال کی بھی۔ پھر فرمایا کہ عمر! کیا تم نہیں جانتے کہ کسی شخص کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے لہٰذا تم لوگ عباس کو میرے باپ کی جگہ سمجھو ان کی تعظیم و توقیر کرو اور انہیں کسی بھی طرح رنج و تکلیف نہ پہنچاؤ۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ابن جمیل پہلے منافق تھے پھر بعد میں مسلمان ہو گئے یہ بہت زیادہ تنگ دست و محتاج تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر درخواست کی کہ میرے لیے ثروت و دولت کی دعا فرمائیں میں خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کروں گا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور یہ صاحب ثروت ہو گئے لہٰذا ان کا فرض تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے ان کی تنگدستی و محتاجی کو مال و دولت میں تبدیل کر دیا تو خدا کا شکر ادا کرتے مگر انہوں نے کفران نعمت کیا یہاں تک کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھی انکار کیا اسی لیے اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے بارے میں بطور زجر و تنبیہ مذکورہ کلمات کا ارشاد فرمایا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد گرامی، اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے اسے دولت مند بنا دیا ہے، میں ابن جمیل کو دولت مند بنانے کی نسبت اپنی طرف اس اعتبار سے کی کہ آپ نے اس مقصد کے لیے بارگاہ الوہیت میں دعا فرمائی تھی اور آپ ہی کی دعا کی وجہ سے ابن جمیل دولت مند بنے۔

 یہ سب ہی جانتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرامی قدر چچا تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی زکوٰۃ کو اپنے ذمہ اس لیے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے دو سالوں کی ایک ہی مرتبہ پہلے ہی سے وصول کر لی تھی یعنی ان کی طرف سے سال رواں کی زکوٰۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آ چکی تھی کہ جس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور آئندہ سال کی زکوٰۃ بھی لے لی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد گرامی و مثلہا معہا کے ذریعہ واضح بھی فرمایا۔

عامل کسی سے ہدیہ وت حفہ قبول نہ کرے

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو کہ جس کا نام ابن لتیبہ تھا زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چنانچہ جب وہ شخص زکوٰۃ وصول کر کے مدینہ واپس آیا تو مسلمانوں سے کہنے لگا کہ اتنا مال تو تمہارا ہے یعنی یہ مال زکوٰۃ میں وصول ہوا ہے اس کے مستحق تم ہو اور یہ اتنا مال تحفہ کے طور پر مجھے دیا گیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو آپ نے خدا کی حمد و ثنا بیان کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بعد ازاں! میں تم سے چند آدمیوں کو ان امور کے لیے مقرر کرتا ہوں جن کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے حاکم بنایا چنانچہ تم میں سے ایک شخص جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا ہے اپنا کام کر کے آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تمہارے لیے ہے اور یہ مال مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے اور اس سے پوچھو تو وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ تحفہ دینے والے اسے گھر ہی بیٹھے تحفہ بھیج دیتے تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یانہیں؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! یاد رکھو تم میں سے جو شخص کوئی بھی چیز لے گا اسے وہ قیامت کے دن رسوائی و زلت کے طور پر اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اگر وہ اونٹ ہو گا کہ جس کو اس نے بغیر استحقاق لیا ہو گا تو اس کی آواز ہو گی اگر وہ بیل ہو گا تو اس کی آواز ہو گی اور اگر وہ بکری ہو گی تو اس کی آواز ہو گی یعنی وہ دنیا میں جو بھی چیز بغیر استحقاق کے لے گا وہی چیز قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہو گی اور بولتی ہو گی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں دست مبارک اتنے اونچے اٹھائے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے پروردگار! تو نے جو کچھ فرمایا میں نے لوگوں تک پہنچا دیا ہے اے پروردگار میں نے لوگوں تک پہنچا دیا۔ (بخاری و مسلم) اور خطابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا اور تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں؟ کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام کام کے لیے جس چیز کو وسیلہ بنایا جائے گا تو وہ وسیلہ بھی حرام ہو گا نیز اگر کسی ایک عقد (معاملہ) کو دوسرے عقد (مثلاً خرید و فروخت، ہبہ اور نکاح وغیرہ) سے متعلق کیا جائے تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ آیا ان معاملوں کا علیحدہ علیحدہ حکم ان کے ایک ساتھ متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں ! اگر ہے تو درست ہو گا اور اگر نہیں ہے تو درست نہیں ہو گا۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

 ارشاد گرامی  وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو تحفہ تحائف کی پیش کش اس کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے ہے اگر وہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنے گھر بیٹھا رہتا ہے تو اسے کوئی تحفہ کیوں دیتا؟

اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر عامل کو اس کا کوئی عزیز و دوست تحفہ دے تو دیکھا جائے کہ اگر اس کے لیے اس تحفہ کی پیش کش اس کے عامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلقات اور دیرینہ مراسم کی وجہ سے ہے اور یہ ہمیشہ کا معمول ہے تو وہ تحفہ اس کے لیے جائز ہو گا اور اگر تحفہ کی پیش کش محض اس کے عہدے کی وجہ سے ہو گی تو وہ تحفہ اس کے لئے جائز نہیں ہو گا جیسا کہ قاضی و دیگر حکام کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی قاضی و حاکم کی دعوت کی جائے یا اسے کوئی تحفہ دیا جائے تو وہ اسے اس وقت قبول کر سکتا ہے جب کہ وہ یہ جانے کہ یہ پیش کش میرے موجود عہدہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے اور ہمیشہ کے معمول کے مطابق ہے۔

 مگر ابن ملک یہ فرماتے ہیں کہ عامل (حاکم) کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کا تحفہ قبول کرے کیونکہ تحفہ کی پیش کش کا واحد پس منظر اس کی یہ خواہش ہی ہوتی ہے کہ عامل زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ چھوڑ دے (اور حاکم اس کے ساتھ غیر قانونی رعایت کا معاملہ کرے) اور یہ مطلقاً جائز نہیں ہے۔

 خطابی رحمۃ اللہ اس حدیث سے دو قاعدے اور شرعی اصول ثابت کر رہے ہیں پہلا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اگر کسی حرام چیز کے حصول کی خاطر کسی مباح اور جائز چیز کو وسیلہ اور ذریعہ بنایا جائے گا تو وہ مباح و جائز چیز بھی ایک حرام مقصد کا وسیلہ ہونے کی وجہ سے حرام ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کوئی شخص ناجائز نفع اور سود حاصل کرنے کے لیے کسی شخص کو قرض دیتا ہے ظاہر ہے کہ قرض دینا ایک جائز فعل ہے مگر چونکہ قرض دینے والے نے سود حاصل کرنے کے لیے قرض دیا ہے اس لیے اس کا قرض دینا بھی حرام ہو جائے گا، اسی طرح گھر ہے کہ کوئی شخص اسے اس لیے بطور رہن و گروی لے کہ اس میں بغیر کرایہ کے سکونت اختیار کرے یا جانور کہ اسے رہن لیا جائے اور پھر بغیر معاوضہ کے اس پر سواری کرے یا اس سے دوسرا فائدہ حاصل کرے۔

 دوسرا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دو الگ الگ عقد (معاملوں) کو ایک دوسرے کے ساتھ متعلق کیا جائے تو اس وقت یہ دیکھا جائے گا کہ ان دونوں معاملوں کے ایک متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔ یعنی اگر وہ معاملے الگ الگ جائز ہو سکتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی جائز رہیں گے اور اگر دونوں معاملے الگ الگ درست نہیں ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی درست نہیں ہوں گے مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے کو دس روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کرے تاکہ وہ اسے ایک ہزار روپیہ قرض دے اور اس قرض کا نفع(سود) اس چیز کی قیمت کے طور پر وصول کرے یعنی جیسے اس صورت میں نو روپے قرض دینے والے کو مل گئے جو اس کے قرض کا نفع ہو گیا یہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اگر وہ دس روپیے کی چیز سو روپیہ کی بیچتا اور خریدار کو قرض کا لالچ نہ ہوتا تو وہ ہر گز اتنی زائد قیمت پر نہ لیتا۔

 اور جہاں دو معاملے ایسے ہوں کہ اگر ایک کو دوسرے سے الگ کر دیں تو بھی جائز اور درست ہوں جیسے اس صورت مذکورہ میں دس روپے کی چیز دس ہی روپے میں بیچی جاتی اور ایک ہزار روپے قرض بھی دیتا تو چونکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ جائز ہوئے اس لیے ایک دوسرے سے متعلق یک جا ہو کر بھی درست ہوں گے۔

 خطابی نے حدیث سے جو یہ دو قاعدے مستنبط کیے ہیں ان میں سے پہلا قاعدہ تو بلا اختلاف سب کے ہاں قابل قبول ہے اس لیے کہ تمام ائمہ کے مسلک میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ وسائل و ذرائع چونکہ مقاصد ہی کے حکم میں ہوتے ہیں اس لیے نیکی کا وسیلہ بھی نیکی ہی ہو گا اور برائی کا وسیلہ بھی برائی ہو گا۔

 لیکن دوسرا قاعدہ امام مالک اور امام احمد کے ہاں تو قابل قبول ہے کیونکہ وہ ہر اس حیلہ (تدبیر) کو ناجائز قرار دیتے ہیں جس کے ذریعہ سے ربوا (سود) وغیرہ کی حرمت سے بچ جائے گا مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اس دوسرے قاعدہ کو نہیں مانتے کیونکہ ان حضرات کے ہاں حیلہ مباح ہے۔ تاہم اتنی بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ امام اعظم ابوحنیفہ اس قاعدہ کے قائل نہیں ہیں لیکن اس قاعدہ کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ صورت امام صاحب کے نزدیک بھی ایک دوسرے شرعی قاعدہ کے مطابق جائز نہیں ہے چونکہ امام صاحب کے نزدیک حیلہ کی بعض صورتیں درست ہیں اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ وہ خطابی کے ذکر کردہ دوسرے قاعدہ کے قائل نہیں ہیں۔

عامل زکوٰۃ میں خیانت نہ کرے

حضرت عدی بن عمیرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم تم میں سے جس کسی کو کسی کام (یعنی زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنے) پر مقرر کریں اور وہ شخص ہم سے سوئی کے برابر یا اس سے کم و بیش چیز کو چھپائے تو یہ خیانت میں شمار ہو گا جو اسے روز قیامت رسوا کر کے لائے گا۔ (مسلم)

مانعین زکوٰۃ کو قرآن کی تنبیہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ (وَالَّذِینَ یكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ) 9۔ التوبہ:34) اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں (آخر تک) نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم بڑے متفکر ہوئے ان کی حالت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے اس فکر کو ابھی دور کیے دیتا ہوں چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی! یہ آیت تو آپ کے صحابہ پر بڑا بار ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو اسی لئے فرض کیا ہے تاکہ وہ تمہارے باقی مال کو پاک کر دے نیز اللہ تعالیٰ نے میراث کو اس لیے مقرر کیا ہے اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کلمہ ذکر فرمایا کہ جو لوگ تمہارے بعد رہ جائیں وہ ان کا حق ہو جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس جوش مسرت سے کہ ایک مشکل آسان ہو گئی اللہ اکبر کہا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی بہترین چیز نہ بتا دوں جسے انسان اپنے پاس رکھ کر خوش ہو اور وہ نیک بخت عورت ہے کہ اس کی طرف مرد دیکھے تو اس کی طبیعت خوش ہو جب وہ اسے کوئی حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کے بچوں کی حفاظت کرے۔ (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 قرآن حکیم نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو انتباہ فرمایا ہے وہ پوری آیت یوں ہے (وَالَّذِینَ یكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا ینْفِقُوْنَهَا فِی سَبِیلِ اللّٰهِ  ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیمٍ) 9۔ التوبہ:34) جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور پھر اس میں سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے۔

 یعنی جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں اور اس مال کا حق نہیں نکالتے بایں طور کہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تو انہیں آگاہ کر دیجئے کہ عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب انہیں اس جرم کی سزا ملے گی اور وہ دردناک عذاب میں مبتلا کیے جائیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان کے مال کو دوزخ کی آگ میں تپاتپا کر اس سے ان مالداروں کی پیشانیوں اور ان کے پہلو داغے جائیں گے۔ (جیسا کہ پہلے ایک حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے) ہے۔

 جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ بڑے متفکر ہوئے اور انہیں بڑا خوف معلوم ہوا کیونکہ وہ آیت کے ظاہری مفہوم سے یہ سمجھے کہ مطلقاً مال جمع کرنا شریعت کی نظر میں بڑا سخت جرم ہے جس کے بارے میں یہ آیت آگاہ کر رہی ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی یہ کیفیت دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں عرض کیا اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ تو اسی لیے فرض کی گئی ہے کہ اس کی ادائیگی سے بقیہ مال پاک ہو جائے جب مال میں سے زکوٰۃ ادا کر دی جائے گی تو جو مال باقی رہ گیا ہے وہ پاک ہو جائے گا اب اگر وہ مال جمع کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لہٰذا آیت کریمہ میں جو وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ مطلقاً مال جمع کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ وہ اس صورت کے لیے ہے کہ مال جمع کیا ہے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے، اگر کوئی شخص زکوٰۃ نکال کر مال جمع کرے تو اس کے لیے کوئی وعید نہیں ہے۔

 وذکر کلمۃً(اور اس کے بعد آپ نے ایک اور کلمہ کا ذکر کیا) یہ جملہ حدیث کے راوی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے یعنی حضرت ابن عباس اس موقع پر یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وانما فرض المواریث کے بعد ایک جملہ اور ارشاد فرمایا تھا مگر وہ جملہ کیا تھا؟ اب مجھے یاد نہیں رہا، اب تو مجھے صرف اسی قدر یاد ہے کہ آپ نے یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میراث کو اسی لیے فرض قرار دیا ہے تاکہ وہ تمہارا مال تمہارے بعد والوں یعنی تمہارے وارثوں کا حق ہو جائے۔ گویا اس بات سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر مطلقاً مال جمع کرنا شریعت کی نظر میں قابل نفریں فعل ہوتا تو اللہ تعالیٰ نہ زکوٰۃ کو فرض قرار دیتا اور نہ میراث فرض قرار پاتی زکوٰۃ اور میراث کا فرض ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جائز طریقوں سے جمع کرنا برا نہیں ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس مال کا حق یعنی زکوٰۃ و صدقہ ادا ہوتا رہنا چاہئے۔

 جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو بتایا کہ جب تک زکوٰۃ ادا ہوتی رہے مال جمع کرنا ممنوع نہیں ہے اور صحابہ نے ایک الجھن اور خوف سے نکل کر اطمینان و خوشی محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی کیفیت کے پیش نظر ان کو اس چیز کی طرف رغبت دلائی جو مال سے بہر صورت بہتر ہے یعنی عورت۔ گویا اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ نیک بخت و خوبصورت بیوی مال سے بدرجہا بہتر اور افضل ہے کیونکہ روپیہ پیسہ اور سونا چاندی کسی کے پاس ٹھہرنے والی چیز نہیں ہے پھر یہ کہ سونے چاندی کو جمع کر کے اپنے خزانہ میں محفوظ رکھو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نہ اس سے کوئی نفع اور نہ راحت۔ ہاں جب اپنی کسی ضرورت کے تحت اسے خرچ کرو اور وہ تمہارے سے جائے تو صرف اس وقت وہ تمہارے کام آئے بخلاف بیوی کے وہ جب تک تمہارے ساتھ ہے تمہاری رفیق حیات اور باعث راحت بنی رہتی ہے۔ جب تم اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہو تو تمہاری طبیعت خوش ہو جاتی ہے تمہیں کوئی ضرورت ہوتی ہے تو وہ فوراً اسے پورا کرتی ہے جب تم اسے کوئی حکم کرتے ہو تو فوراً اطاعت کرتی ہے ہر وقت تمہاری نفسیاتی تسکین و راحت کا ذریعہ بنی رہتی ہے جب تم گھر سے باہر نکلتے ہو تو تمہارے بچوں اور تمہارے مال و اسباب کی نگہبان ہوتی ہے اور اس سے تمہاری اولاد پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف یہ کہ زندگی میں تمہاری قوت بازو بنتی ہے بلکہ مرنے کے بعد تمہاری جانشین ہو کر خاندان کا نام زندہ و روشن رکھتی ہے۔ اس طرح عورت سے بہت زیادہ منفعت اور راحت حاصل ہوتی ہے پھر یہ کہ بیوی نہ صرف یہ کہ اپنے شوہر کی دنیاوی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشی و مسرت کے سدا بہار پھول کھلاتی ہے بلکہ اخروی طور پر اس کو بہت برے افعال اور برے کاموں سے روکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مرفوع روایت میں یہ منقول ہے کہ جس شخص نے نکاح کیا اس نے اپنا دو تہائی ایمان و دین مضبوط کر لیا۔

عاملین کو خوش رکھو

حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تمہارے پاس ایک چھوٹا سا قافلہ آئے گا (یعنی زکوٰۃ وصول کرنے کے عامل آئیں گے) جو مبغوض ہوں گے (یعن طبعی طور پر تم ان سے متنفر ہوں گے کیونکہ وہ ان کا مال لینے آئیں گے) لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں مرحبا کہو اور ان کی خدمت میں زکوٰۃ کا مال حاضر کر دو گویا ان کے اور ان کی طلب کردہ چیز یعنی زکوٰۃ کے درمیان کوئی چیز حائل و مانع نہ رکھو۔ لہٰذا اگر وہ زکوٰۃ لینے کے بارے میں عدل سے کام لیں گے تو یہ اپنے لیے کریں گے کہ عدل کا ثواب پائیں گے اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے تو اس کا وبال ان پر ہو گا تم تو زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو اور جان لو کہ تمہاری طرف سے پوری زکوٰۃ کی ادائیگی ہی ان کی رضا مندی ہے نیز حائل وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 وان ظلموا اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے۔ کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے کے معاملہ میں اگرچہ تم اپنے گمان و طبیعت کے مطابق یہی کیوں نہ جانو کہ عامل تمہارے ساتھ ظلم کر رہا ہے پھر بھی ان کو راضی کرو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال وہ ظلم بھی کریں تو تم ان کی رضا کا پھر بھی خیال کرو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ جملہ بطور مبالغہ کے ارشاد فرمایا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عامل کو راضی کرنے کی کتنی اہمیت ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقۃً اور واقعۃً ظلم ہی کرے تو اس کو راضی کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔

 وارضوھم کا مطلب جیسا کہ خود حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ تم زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو خوش و راضی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو بایں طور کہ زکوٰۃ کا جو مال تم پر شرعی طور پر واجب ہے اس کی ادائیگی میں خیانت اور کوتاہی کا معاملہ نہ کرو بلکہ انہیں پوری زکوٰۃ ادا کرو۔

 اگرچہ ادائیگی زکوٰۃ کا اصل فریضہ مال ادا کرتے ہی پورا ہو جاتا ہے پھر بھی زکوٰۃ وصول کرنے والے کو خوش کرنا ادائیگی زکوٰۃ کا جزو کمال ہے لہٰذا اس بارے میں بھی احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔

 جو شخص زکوٰۃ وصول کرنے جائے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ زکوٰۃ دینے والے کے حق میں رحمت و برکت اور خیر و بھلائی کی دعا کرے۔

 

                   عاملین کو خوش رکھو

 

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دیہات کے کچھ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کچھ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کرتے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگرچہ وہ ہم پر ظلم ہی کیوں نہ کریں؟ آپ نے فرمایا تم تو زکوٰۃ وصول کرنے والوں کو راضی ہی کرو اگرچہ تمہارے ساتھ ظالم ہی کا معاملہ کیوں نہ کیا جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 نفسیاتی بات یہ ہے کہ جس شخص کے پاس سے مال جاتا ہے اس کے دل میں کچھ نہ کچھ تنگی ہوتی ہے اسی لیے زکوٰۃ وصول کرنے والوں کی طرف سے بھی زکوٰۃ دینے والوں کے دل میں کچھ اچھے خیالات نہیں ہوتے۔ اسی لیے آپ نے ان دیہاتیوں سے فرمایا کہ اپنے مال سے نفسیاتی اور طبعی طور پر محبت ہونے کی وجہ سے اگرچہ تم یہی سمجھو اور تمہارا گمان یہی ہو کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کر رہے ہیں مگر تم اس صورت میں بھی انہیں راضی اور خوش کرنے کی کو شش کرو۔

زکوٰۃ کا کچھ حصہ چھپانا یا روکنا ناجائز ہے

بشیر بن خصاصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ زکوٰۃ لینے والے ہمارے اوپر زیاتی کرتے ہیں یعنی مقدار واجب سے زیادہ لیتے ہیں تو کیا ہم اپنے مال میں سے اتنا حصہ چھپالیں جتنا کہ وہ ہم سے زائد وصول کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اپنے زکوٰۃ کے مال میں سے کسی قدر چھپانے یا روکنے کی اجازت اس لیے عطا نہیں فرمائی کہ غالباً وہ لوگ تو اپنے گمان کے مطابق یہی سمجھتے تھے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے ان سے مقدار واجب سے بھی زیادہ زکوٰۃ وصول کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔

عامل کا اجر

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حق کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا عامل خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی طرح ہے جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ آئے۔

 

تشریح

 

 حق کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ عامل چونکہ طلب ثواب اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے اس لیے اس کے صدق و اخلاص کی بناء پر اسے غازی کے ثواب کی مانند ثواب عنایت فرمایا جاتا ہے۔

زکوٰۃ لینے والوں کے لیے ایک ہدایت

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ کے لیے مویشیوں کو نہ کھینچ منگوائے اور نہ مویشیوں کا ملک دور چلا جائے نیز مویشیوں کی زکوٰۃ ان کے مکان ہی میں لی جائے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 جلب کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والوں کے مکانوں سے دور کسی مقام پر مقیم ہو اور زکوٰۃ لینے کے لیے مویشیوں کو وہاں منگا بھیجے۔

 جنب کا مطلب یہ ہے کہ مویشیوں کا مالک اپنے مکان سے دور چلا جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ لینے کے لیے تکالیف و پریشانیاں برداشت کر کے وہاں پہنچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں باتوں سے منع کیا ہے کیونکہ پہلی صورت میں زکوٰۃ دینے والے کو تکالیف و پریشانی ہوتی ہے اور دوسری صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے حدیث کا آخری جملہ اس ممانعت کی تاکید کے طور پر استعمال فرمایا گیا ہے گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ نہ زکوٰۃ دینے والے دور چلے جائیں اور نہ زکوٰۃ وصول کرنے والے دور کسی مقام پر قیام کریں بلکہ زکوٰۃ دینے والوں کے قریب ہی اترتے اور ان کے گھروں میں باری باری جا کر زکوٰۃ لے لیا کریں۔

مال مستفاد کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس کسی کو مال حاصل ہوا تو اس پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ایک سال نہ گزر جائے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ایک جماعت کے بارے میں کہا ہے کہ اس نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے یعنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی نہیں ہے بلکہ خود حضرت ابن عمر کا قول ہے۔

 

تشریح

 

 پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ  مال مستفاد کسے کہتے ہیں؟ فرض کیجیے کہ آپ کے پاس اسی بکریاں موجود ہیں جن پر ابھی سال پورا نہیں ہے اسی درمیان میں اکتالیس بکریاں اور آپ کو حاصل ہو جاتی ہیں خواہ وہ میراث میں حاصل ہوئی ہوں یا تجارت سے منافع کی صورت میں اور خواہ کسی نے آپ کو ہبہ کر دی ہوں بہر حال اس طرح بکریوں کی تعداد اسی کی بجائے ایک سو اکیس ہو گئی چنانچہ یہ اکتالیس بکریاں جو آپ کو درمیان سال حاصل ہوئی ہیں  مال مستفاد کہلائیں گی۔ گویا مال مستفاد کی تعریف یہ ہوئی کہ وہ مال کی جنس سے ہو اور درمیان سال حاصل ہوا ہو۔

 اب اس حدیث کی طرف آئیے ابن مالک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر مال کی وجہ سے زکوٰۃ فرض ہو اور سال کے درمیان اسے کچھ مزید مال پہلے سے موجود مال ہی کی جنس سے (مثلاً پہلے سے بکریاں موجود ہوں تو بکریاں ہی یا پہلے سے گائیں موجود ہوں تو گائیں) ملے تو بعد میں حاصل ہونے والے اس مال پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی جب کہ اس مال پر پورا سال نہ گزر جائے چنانچہ حضرت امام شافع کا یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اصل (پہلے سے موجود) مال ہی پر پورا سال گزر جانا کافی ہے بعد میں حاصل ہونے والے مال پورا سال گزرے یا نہ گزرے زکوٰۃ مجموعہ مال پر واجب ہو جائے گی۔

 اس اختلاف کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس اسی بکریاں ہیں جن پر ابھی چھ مہیینے ہی گزرے تھے کہ پھر اسے اکتالیس بکریاں حاصل ہو گئیں چاہے تو انہیں اس نے خریدا ہو چاہے اسے وراثت میں ملی ہوں یا کسی اور طرح اس نے حاصل کی ہوں تو ان بعد میں ملنے والی اکتالیس بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی۔ ہاں اگر ان بکریوں پر بھی ان کو خریدنے یا وراثت میں حاصل ہونے کے وقت سے ایک سال پورا ہو جائے گا تو زکوٰۃ واجب ہو گی حضرت امام شافعی اور ان کے ساتھ ہی حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھ حضرت امام مالک کے نزدیک وہ مال مستفاد (جو بعد میں حاصل ہوا ہے) اصل (یعنی پہلے سے موجود) مال کے تابع ہو گا، جب پہلے سے موجود اسی بکریوں پر ایک سال گزر جائے گا تو مجموعہ بکریوں پر زکوٰۃ میں دو بکریاں نکالنا واجب ہو جائے گا کیونکہ بکریوں کی زکوٰۃ کا نصاب چالیس ہے یعنی چالیس سے کم بکریوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔ بلکہ چالیس سے ایک سو بیس کی تعداد پر ایک بکری واجب ہوتی ہے۔ جب تعداد ایک سو اکیس ہو جاتی ہے تو دو بکریاں واجب ہو جاتی ہیں لہٰذا مذکورہ بالا صورت میں پہلے اور بعد کی بکریوں کی مجموعی تعداد چونکہ ایک سو اکیس ہو گئی اس لیے دو بکریاں واجب ہوں گی۔

 اب رہ گئی یہ بات کہ حدیث سے تو بظاہر حضرت امام شافعی ہی کے مسلک کی تائید ہو رہی ہے تو اس بارے میں حنفی علماء کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کے وہ معنی ہیں ہی نہیں جو شافعی حضرات بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا تو مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ابتدائی طور پر مال پائے اور حاصل کرے تو اس پر زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ مال پر ایک سال گزر جائے لہٰذا حدیث میں مال سے مستفاد مراد نہیں ہے۔

سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ ادا کر دینا جائز ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عباس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ جلدی ادا کر دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 حنفیہ اور اکثر ائمہ کے نزدیک یہ بات جائز اور درست ہے کہ مال پر سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ ادا کر دی جائے بشرطیکہ زکوٰۃ دینے والا نصاب شرعی کا مالک ہو۔

نابالغ کے مال کی زکوٰۃ کا مسئلہ

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے (یعنی شعیب سے) اور وہ اپنے دادا (یعنی حضرت عبداللہ) سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔  خبردار! جو شخص کسی یتیم کا نگہبان ہو اور وہ یتیم بقدر نصاب مال کا مالک ہو تو اس نگہبان کو چاہئے کہ وہ اس مال سے تجارت کرے بغیر تجارت اس مال کو نہ رکھ چھوڑے کہ اسے زکوٰۃ ہی کھا جائے (یعنی زکوٰۃ دیتے ہوئے پورا مال ہی صاف ہو جائے) اس روایت کو ابوداؤد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد میں کلام کیا گیا ہے کیونکہ روایت کے ایک راوی  مثنی بن صباح ضعیف ہیں۔

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ کا مسلک تو یہ ہے کہ نابالغ کے مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ نابالغ خواہ یتیم نہ بہر صورت اس کے مال میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے کیونکہ ایک دوسری روایت میں یہ ارشاد گرامی ہے کہ تین اشخاص کو مکلف کرنے سے قلم روک لیا گیا (یعنی ان تینوں کو شریعت نے مکلف قرار نہیں دیا ہے) ایک تو سونے والا شخص جب تک کہ وہ جاگے نہیں۔ دوسرا نابالغ جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور تیسرا دیوانہ جب تک کہ اس کی دیوانگی ختم نہ ہو جائے۔ اس روایت کو ابوداؤد و نسائی اور حاکم نے نقل کیا ہے نیز حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

مانعین زکوٰۃ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اقدام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے تو اہل عرب میں جنہیں کافر ہو گئے یعنی زکوٰۃ کے منکر ہو گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں یعنی اہل ایمان سے کیونکہ جنگ کریں گے۔ جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں (یعنی اسلام لے آئیں) لہٰذا جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا یعنی اسلام قبول کر لیا اس نے مجھ سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کر لیا سوائے اسلام کے حق اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم میں اس شخص سے ضرور جنگ کروں جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ جس طرح جان کا حق نماز ہے اسی طرح بلاشبہ مال کا حق زکوٰۃ ہے اور اللہ کی قسم اگر وہ لوگ جو منکر زکوٰۃ ہو رہے ہیں مجھے بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیتے تھے تو میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے خدا کی قسم اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہ میں نے جان لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے لیے الہام کے ذریعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دل کھول دیا ہے یعنی پر یقین کر دیا ہے لہٰذا مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہی یعنی منکرین زکوٰۃ سے جنگ ہی حق اور درست ہے۔

 

تشریح

 

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول قرار پائے تو کچھ نئے فتنوں نے سر ابھارنا چاہا۔ اس بارے میں ہم نے دسویں قسط میں تذکرہ صدیق کے تحت کچھ روشنی ڈالی تھی اور وہاں ان فتنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت سے فتنہ ارتداد کا ذکر کیا تھا جس کے متلعق بتایا تھا کہ اس عظیم فتنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتنی جرات اور تدبر کے ساتھ ختم کیا اور وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔

 مذکورہ بالا حدیث میں اسی قسم کے ایک اور فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی صورت یہ ہوئی کہ کچھ قبائل مثلاً غطفان اور بنی سلیم وغیرہ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اس طرح انہوں نے اسلام کے اس اہم اور بنیادی فریضہ کا انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ کسی فریضہ پر عمل نہ کرنا اور بات ہے مگر اس فریضہ کا سرے سے انکار ہی کر دینا ایک دوسرے معنی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ منکرین زکوٰۃ کے بارے میں کفر حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے ویسے اس لفظ کے بارے میں تفصیل یہ کی جاتی ہے کہ یا تو ان لوگوں کے بارے میں لفظ  کفر (وہ کافر ہو گئے) حقیقی معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے کیونکہ زکوٰۃ کی فرضیت قطعی ہے اور فرضیت زکوٰۃ سے انکار کفر ہے یا یہ کہ ان لوگوں کو کافر اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا لہٰذاان کے اس سخت جرم پر بطریق تغلیظ و تشدید کفر کا اطلاق کیا گیا۔

 بہرحال جو معنی بھی متعین کیے جائیں ان کا یہ جرم اتنا سخت تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ان لوگوں کے ظاہر احوال کے مطابق کہ وہ لوگ بظاہر تو مسلمان کہلاتے ہی تھے ان کے کفر میں تامل کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ پر اعتراض کیا مگر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں حقیقت حال بتائی تو نہ صرف یہ کہ وہ بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے ہمنوا ہو گئے بلکہ انہیں یقین کامل بھی ہو گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست ایمانی اور ان کے تدبر نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔

 بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنے سے منع کی اور کہا کہ عہد خلافت کا ابتدائی دور ہے مخالف بہت زیادہ ہیں ایسا نہ ہو کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑے اور اسلام کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے اس لیے اس معاملے میں ابھی توقف کرنا چاہئے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت جرات اور بہادری کے ساتھ انہیں یہ جواب دیا کہ اگر اس معاملے میں تمام لوگ ایک طرف ہو جائیں اور میں تنہا رہ جاؤں تو پھر بھی اپنے فیصلے میں کوئی لچک نہیں دکھاؤں گا اور شعائر دین کی حفاظ اور اسلام کے نظریات و اعمال کے تحفظ کے لیے میں نے جو قدم اٹھایا ہے اس میں لغزش نہیں آئے گی اور میں پوری قوم سے تن تنہا جنگ کروں گا اس سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصابت رائے، جرات اور شجاعت و بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی جس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا، میں لاالہ الا اللہ سے مراد پورا کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ہے کیونکہ اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لیے صرف لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہی معتبر نہیں ہے بلکہ خدا کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا اقرار بھی ضروری ہے۔

 الا بحقہ (سوائے اسلام حق کے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس پر دیت لازم ہو گی یا اور کسی قسم کا کوئی حق اس کے ذمے ہو گا تو اس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہو گی اسی طرح قصاص وغیرہ میں اسے قتل کیا جا سکے گا۔

 و حسابہ علی اللہ (ا ور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے گا اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے گا تو ہم اس کے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیں گے اور اس سے جنگ نہیں کریں گے اور نہ ہم اس کے باطن کی تحقیق و تفتیش کریں گے کہ آیا وہ اپنے ایمان و اسلام میں مخلص و صادق ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے باطن کا حال اللہ کے سپرد کر دیں گے اگر وہ صرف ظاہر طور پر مسلمان ہوا ہو گا اور دل سے ایمان نہیں لایا ہو گا جیسا کہ منافقین کا حال ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ اس سے نمٹ لے گا۔

 من فرق بین الصلوۃ والزکاۃ (جو شخص نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا) یعنی نماز کے وجوب کا تو قائل ہو مگر زکوٰۃ کے وجوب کا منکر ہو یا نماز پڑھتا ہو مگر زکوٰۃ ادا نہ کرے۔

 عناق بکری کے اس بچہ کو کہتے ہیں جو ایک برس سے کم عمر کا ہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ارشاد میں بکری کا بچہ فرض اور واجب حق کے طلب کرنے کا سلسلہ میں بطور مبالغہ فرمایا ہے۔ یہاں یہ حقیقت پر محمول نہیں ہے کیونکہ نہ تو بکری کا وہ بچہ جو ایک سال سے کم ہو زکوٰۃ ہی میں لیا جاتا ہے اور نہ بکری کے ایسے بچوں میں زکوٰۃ ہی واجب ہوتی ہے زکوٰۃ میں لینے کے لیے ادنی درجہ مسنہ ہے (یعنی وہ بچہ جو ایک سال کا ہو) اگر بچے بکریوں کے ساتھ ہوں گے تو پھر ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی لیکن بہر صورت زکوٰۃ میں مسنہ ہی دیا جائے گا یہی حکم گائے اور اونٹوں کا ہے کہ زکوٰۃ کے طور پر بھی مسنہ ہی دیا جائے گا پچھلی قسط میں غالباً بتایا جا چکا ہے کہ بکریوں کا مسنہ تو وہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو اور گائے کا مسنہ وہ ہے جس کی عمر دو سال ہو اور اونٹ کا مسنہ وہ ہے جو پانچ سال کا ہو۔

 اب آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ میں ان کے اس انکار کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا، تو ابھی اوپر  کفر کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی تھی اسی طرح اس قول کے بارے میں بھی یہ تفصیل ہو گی کہ وہ وجوب زکوٰۃ کے منکر ہو گئے ہیں تو میں ان کے کفر اور ان کے ارتداد کی وجہ سے ان سے جنگ کروں گا اور اگر وہ منکر زکوٰۃ تو نہ ہوئے ہوں بلکہ زکوٰۃ ادا نہ کر رہے ہوں تو پھر ان سے میری جنگ شعائر اسلام کی حفاظت اور اس فتنہ کے سد باب کے لیے ہو گی۔

بغیر زکوٰۃ جمع کیا ہوا خزانہ روز قیامت وبال جان ہو گا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا خزانہ قیامت کے دن گنجے سانپ کی صورت میں ہو گا مالک اس سے بھاگے گا اور وہ اسے ڈھونڈھتا پھرے گا یہاں تک کہ وہ سانپ مالک کو کھا جائے گا اور اس کی انگلیوں کو لقمہ بنائے گا۔ (احمد)

 

تشریح

 

 خزانہ سے مراد وہ مال ہے جسے اس کا مالک جمع کر کے رکھے اور اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرے یہی حکم ان تمام مالوں کا ہے جو ناجائز اور حرام طریقے سے جمع کیے گئے ہیں۔

 حدیث کے آخری جملے حتی یلقمہ اصابعہ کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہی معنی جو ترجمہ میں ظاہر کیے گئے ہیں وہ سانپ مالک کی انگلیوں کو لقمہ بنائے گا کیونکہ اس نے ہاتھوں ہی سے مال کما کر جمع کیا تھا اور اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی اس صورت میں لفظ اصابعہ ضمیر کا بدل ہو گا۔

 دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ مالک مال خود اپنی انگلیاں لقمہ کے طور پر سانپ کے منہ میں دے دے گا جیسا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سانپ وغیرہ سے انتہائی خوف کے وقت بے اختیار اپنی انگلیاں اس کے منہ میں داخل کر دیتے ہیں لیکن دوسرے معنی نہ صرف یہ کہ کچھ دل کو نہیں لگتے بلکہ اس میں اشکال و اعتراضات بھی پیدا ہو سکتے ہیں اسی لیے زیادہ صحیح پہلے ہی معنی ہیں۔

بغیر زکوٰۃ جمع کیا ہوا خزانہ روز قیامت وبال جان ہو گا

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی گردن میں ایک سانپ لٹکائے گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی جو پہلی فصل کی ایک حدیث میں پوری نقل کی جا چکی ہے آیت (وَلَا یحْسَبَنَّ الَّذِینَ یبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھ) 3۔ آل عمران:180) اور وہ لوگ جنہیں خدا نے اپنے فضل سے مال عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں یہ گمان نہ کریں۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

حلال مال میں حرام مال کو ملانا مال کو ضائع کر دینا ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ رل مل جاتی ہے وہ مال ضائع ہو جاتا ہے۔ (شافعی، بخاری، حمیدی) حمید نے یہ مزید نقل کیا (یعنی حدیث کی وضاحت بیان کی ہے کہ) بخاری نے فرمایا کہ جب تم پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اور تم زکوٰۃ نہیں نکالتے تو وہ زکوٰۃ مال میں رلی ملی ہوتی ہے لہٰذا حرام مال حلال مال کو ضائع کر دیتا ہے جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ عین مال سے متعلق ہے نہ کہ ذمہ سے تو انہوں نے اسی حدیث کو بخاری کی مذکورہ بالا وضاحت کے ساتھ اپنی دلیل قرار دیا ہے (منتقی، بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو امام احمد بن حنبل سے حضرت عائشہ تک سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے چنانچہ امام احمد نے حدیث کے لفظ  خالطت کے معنی یا اس کی تاویل) کے سلسلے میں یہ وضاحت کی ہے کہ (مثلاً ایک شخص مالدار اور یا غنی ہے مگر اس کے باوجود وہ زکوٰۃ لیتا ہے حالانکہ زکوٰۃ تو صرف فقراء اور مساکین اور مستحقین کے لیے جائز ہے۔

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں حضرت امام بخاری تو اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ مثلاً ایک شخص صاحب نصاب ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہے مگر وہ اپنے مال میں سے وہ حصہ نہیں نکالتا جو بطور زکوٰۃ اس پر نکالنا واجب ہے اس طرح مال وہ حصہ جو زکوٰۃ کے طور پر اسے نکالنا چاہئے تھا اور اب نہ نکالنے کی صورت میں وہ اس کے حق میں حرام مال ہے اس کے اصل میں مال مخلوط رہے۔

 بہرحال ان میں سے کوئی بھی معنی متعین کر لیے جائیں دونوں اقوال کے پیش نظر حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حرام مال خواہ وہ مال میں سے بقدر واجب نہ نکالا جانے والا حصہ ہو خواہ صاحب نصاب کا کسی دوسرے سے زکوٰۃ میں حاصل کیا ہوا مال ہو، اصل اور حال مال کو شائع اور تباہ کر دیتا ہے بایں طور کہ اس حرام مال کے ملنے کی وجہ سے پورا مال کسی نہ کسی طرح ضائع ہو جاتا ہے یا اس میں کوئی نقصان واقع ہو جاتا ہے یا مال میں سے برکت اٹھ جاتی ہے اور یا مال ناقابل انتفاع جاتا ہے کیونکہ حرام مال سے نفع اٹھانا شرعاً جائز نہیں ہے۔

 

ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یا ذمہ سے ہے

 روایت کے آخر میں ایک اختلافی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ادائیگی زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے؟ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھیے کہ مثلاً ایک شخص مالدار یعنی صاحب نصاب ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہے اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال اسی مال میں سے نکال کر دے جو اس کے پاس ہے یا یہ کہ اگر وہ اسی مال میں زکوٰۃ کے بقدر حصہ نہ نکالے بلکہ اس کی قیمت ادا کرے تو اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی اور دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ زکوٰۃ کا تعلق عین مال سے ہے یعنی جس مال پر زکوٰۃ واجب ہے اسی مال میں بقدر واجب مال نکال کر زکوٰۃ ادا کرے اور یہ بات انہوں نے حدیث کے لفظ  خالطت سے مستنبط کی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کا تعلق ذمہ ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب نصاب اسی مال سے کہ جس پر زکوٰۃ واجب ہے زکوٰۃ کے طور پر بقدر واجب مال نہ نکالے بلکہ اتنے ہی مال کی قیمت زکوٰۃ میں ادا کرے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے اور وہ بری الذمہ ہو جائے گا۔

 مگر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیر کے مذکورہ مسلک کی دلیل اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ حدیث انہیں معنی کو حدیث کا اصل مفہوم قرار دیا جائے جو حضرت امام بخاری کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں۔

 حنفی مسلک کی دلیلیں ملا علی قاری نے مرقات میں اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اشعۃ اللمعات میں بڑی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ طوالت کی وجہ سے انہیں یہاں نقل نہیں کیا گیا ہے۔ اہل علم ان کتابوں سے مراجعت کر سکتے ہیں۔