حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ صَالِحٌ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ سُوَيْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱ (۶۴۱۲) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۵ (۴۱۷۰) (تحفة الأشراف : ۵۶۶۶) ، و مسند احمد (۱/۲۵۸، ۳۴۴) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۲ (۲۷۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ فَرَفَعُوهُ، وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کو کئی اور لوگوں نے عبداللہ بن سعید بن ابی ہند سے مرفوعاً ہی روایت کیا ہے، جب کہ کچھ لوگوں نے عبداللہ بن سعید ہی کے واسطے سے (ابن عباس سے) موقوفاً روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي طَارِقٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ ؟ " فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا، وَقَالَ: " اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَالْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا هَكَذَا، رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ النَّاجِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے"، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا: "تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہو جاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں، ۳- اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ۴- ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۴۷) ، و مسند احمد (۲/۳۱۰) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ حسن بصری ‘‘ کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، نیز ’’ ابو طارق ‘‘ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ ۹۳۰)
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ مُحْرَّرِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تَنْتَظِرُونَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْ غِنًى مُطْغِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ، وَقَدْ رَوَى بِشْرُ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَمَّنْ سَمِعَ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَقَالَ: تَنْتَظِرُونَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرز بن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- بشر بن عمر اور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرز بن ہارون سے روایت کیا ہے، ۴- معمر نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس نے بسند «سعيدا المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں «هل تنتظرون» کی بجائے «تنتظرون» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۳۹۵۱) (ضعیف) (سند میں ’’ محرر -یا محرز- بن ہارون ‘‘ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ "، يَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۳ (۱۸۲۵) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۱ (۴۲۵۸) (تحفة الأشراف : ۱۵۰۸۰) ، و مسند احمد (۲/۲۹۳) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : موت کی یاد اور اس کا تصور انسان کو دنیاوی مشاغل سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے ، اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ هَانِئًا مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ.
ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں؟ تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے"، عثمان رضی الله عنہ نے مزید کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۲ (۴۲۶۷) (تحفة الأشراف : ۹۸۳۹) ، و مسند احمد (۱/۶۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : عثمان رضی الله عنہ کا یہ حال کہ قبر کے عذاب کا اتنا خوف اور ڈر لاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں باوجود یہ کہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے ، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى، قَالَ: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ کی حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ام المؤمنین عائشہ، انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۰۶۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نسائی کتاب الجنائز باب رقم ۱۰ ، حدیث رقم ۱۸۳۸ میں ہے : ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ موت کے وقت کا معاملہ ہے جب بینائی چھن جائے ، جاں کنی کا عالم ہو اور رونگٹے کھڑے ہو جائیں تو جس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بشارت دی جائے اس وقت جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جس کو اللہ کے عذاب کی وارننگ دی جائے وہ اللہ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ، یعنی مومن کو اللہ سے ملنے میں خوشی اور کافر کو گھبراہٹ اور ڈر لاحق ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، " إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ!، اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع و نقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- ان میں سے بعض نے اسی طرح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اور بعض نے «عن هشام عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور «عن عائشة» کا ذکر نہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۸۹ (۲۰۵) ، سنن النسائی/الوصایا ۶ (۳۶۷۸) ویأتي عند المؤلف برقم ۳۱۸۴ (تحفة الأشراف : ۱۷۲۳۷) ، و مسند احمد (۶/۱۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تںہی عذاب دینا چاہے تو میں تمہیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ، کیونکہ میں کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں ، البتہ دنیاوی وسائل جو مجھے اللہ کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں سے جو چاہو تم لوگ مانگ سکتے ہو ، میں دینے کے لیے تیار ہوں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جا سکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۳۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہو گا اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں ڈالا جائے گا ، اسی طرح راہ جہاد میں نکلنے والا بھی جہنم میں نہیں جا سکتا ، کیونکہ جہاد مجاہد کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے ، معلوم ہوا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن یہ ثواب اس مجاہد کے لیے ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہو۔ معلوم ہو جائے تو بہت کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْمُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے"، (اور ابوذر رضی الله عنہ) فرمایا کرتے تھے کہ "کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے: "کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے"، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۹ (۴۱۹۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۹۸۶) (حسن) (حدیث میں ’’ لوددت … ‘‘ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ جان لیتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۰۴۹) ، وانظر مسند احمد (۲/۲۵۷، ۳۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۷، ۶۴۷۸) ، صحیح مسلم/الزہد ۶ (۲۹۸۸) (تحفة الأشراف : ۱۴۲۸۳) ، و مسند احمد (۲/۲۳۶، ۳۵۵، ۳۷۹) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطر اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے ، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لائق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزا کا مستحق ہوتا ہے ، معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہیئے جو گناہ کی بات ہو اور باعث عذاب ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "تباہی و بربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتا ہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۸۸ (۴۹۹۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۳۸۱) ، و مسند احمد (۵/۳) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۶۶ (۲۷۴۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے ، لیکن بات اگر سچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھار ہنسی کی فضا ہموار کرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے ، جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی ، اسی طرح عمر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ہنسے پر مجبور کر دیا جب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہو گئی، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بےفائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۹۳) (صحیح) (امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفة الأشراف میں ہے، نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفة الأشراف) لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا: حديث حسن صحیح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواة ثقات ہیں، دوسرے طرق اور شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب ۲۸۸۲، ۲۸۸۳، وتراجع الألبانی ۵۱۱)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کو ابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۲ (۳۹۷۶) (تحفة الأشراف : ۱۵۲۳۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جو باتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی جن سے دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے ان کی ٹوہ میں نہ لگا رہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلًا، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح «عن الزهري عن علي بن حسين عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے، ۲- ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎، ۳-علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (۱۹۱۳۴) (صحیح) (علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : اصل حدیث ثابت ہے ، اس کی بحث «زهد وكيع» رقم ۳۶۴ میں دیکھئیے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَال: سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّصَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ هَذَا، قَالُوا: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَدِّهِ.
صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن جده عن بلال بن الحارث» کی سند سے، ۳- اس حدیث کو مالک نے «عن محمد بن عمرو عن أبيه عن بلال بن الحارث» کی سند سے روایت کیا ہے لیکن اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے، ۴- اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۲ (۳۹۶۹) (تحفة الأشراف : ۲۰۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے ، اور کوشش کرنی چاہیئے کہ حسب ضرورت مفید اور سچ بات زبان سے نکلے ، بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظر رہے ، کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اور فضول ہو گی وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہو گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۱۰) (تحفة الأشراف : ۴۶۹۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیر چیز ہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا ، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو دیتا ہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کو وہ چیز دے جو اس کے نزدیک قدر و قیمت والی ہو ، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھا گیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے ، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے ، معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک دنیا اور اس کے مال و اسباب کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے ، لہٰذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِينَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَيِّتَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا "، قَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُسْتَوْرِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
مستورد بن شداد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیر اور بے قیمت ہو گیا" تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیاد ہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے، آپ نے فرمایا: "دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیر اور بے وقعت ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مستورد رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۱۱) (تحفة الأشراف : ۱۱۲۵۸) وانظر مسند احمد (۴/۲۲۹، ۲۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ قُرَّةَ، قَال، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ضَمْرَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۱۲) (تحفة الأشراف : ۱۳۵۷۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یاد سے غافل کر دینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں ، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکر الٰہی سے غافل کر دینے والی ہوں ، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اور لذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں ، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے ، بصورت دیگر یہی مال برا اور لعنت کے قابل ہے ، وہ علم بھی اچھا ہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کر دے بصورت دیگر یہ بھی برا ہے ، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِهْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَاذَا يَرْجِعُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ يُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَوَالِدُ قَيْسٍ أَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَوْفٍ، وَهُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ.
مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کی انگلی سمندر کا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ۳- قیس کے والد ابوحازم کا نام عبد بن عوف ہے اور یہ صحابی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/صفة الجنة ۱۴ (۲۸۵۸) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۰۸) (تحفة الأشراف : ۱۱۲۵۵) ، و مسند احمد (۴/۲۲۹، ۲۳۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدر و قیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے ، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندر کے پانی کے درمیان تناسب ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۵۶) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۱۳) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۵۵) ، و مسند احمد (۲/۳۲۳، ۳۸۹، ۴۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قید خانہ کا قیدی اس کے قواعد و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قید خانہ کی مثل ہے ، اس میں مومن شہوات و خواہشات نفس سے بچتا ہوا مومنانہ و متقیانہ زندگی گزارتا ہے ، اس کے برعکس کافر ہر طرح سے آزاد رہ کر خواہشات و شہوات کی لذتوں میں مست رہتا ہے گویا دنیا اس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ، عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيّ، أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: " مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ، وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عِزًّا، وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) " وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ، يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو"، "کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے)، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے (دوسری بات ہے)، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے"۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو:"یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے ۱؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ۲؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد ۲۶ (۴۲۲۸) (تحفة الأشراف : ۱۲۱۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتا ہے اور اعزہ و اقرباء کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ۲؎ : یعنی فریضہ زکاۃ کی ادائیگی کرتا ہے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو کچھ اس پر واجب ہوتا ہے خرچ کرتا ہے اور اس میں سے عام صدقات و خیرات بھی کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيل، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْطَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللَّهِ فَيُوشِكُ اللَّهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے ۱؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الزکاة ۲۹ (۱۶۴۵) (تحفة الأشراف : ۹۳۱۹) ، و مسند احمد (۱/۳۸۹) (صحیح) ’’ بموت عاجل أو غني عاجل ‘‘) کے لفظ سے صحیح ہے، صحیح سنن ابی داود ۱۴۵۲، الصحیحة ۲۸۸۷)
وضاحت: ۱؎ : یعنی لوگوں سے اپنی محتاجی اور لاچاری کا تذکرہ کر کے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے تو ایسے شخص کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہو گی ، اور اگر وقتی طور پر پوری ہو بھی گئی تو پھر اس سے زیادہ سخت دوسری ضرورتیں اس کے سامنے آئیں گی جن سے نمٹنا اس کے لیے آسان نہ ہو گا۔ ۲؎ : چونکہ اس نے صبر سے کام لیا ، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں رزق عطا فرمائے گا ، یا آخرت میں اسے ثواب سے نوازے گا ، معلوم ہوا کہ حاجت و ضرورت کے وقت انسانوں کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ مُعَاوِيَةُ إِلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ، فَقَالَ: يَا خَالُ، مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَى الدُّنْيَا، قَالَ: كُلٌّ لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا لَمْ آخُذْ بِهِ، قَالَ: " إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، وَأَجِدُنِي الْيَوْمَ قَدْ جَمَعْتُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْمَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى أَبِي هَاشِمٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیز آپ کو رلا رہی ہے؟ کسی درد سے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستا رہی ہے، ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کر سکا۔ آپ نے فرمایا تھا: "تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے، جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کر لیا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے «عن منصور عن أبي وائل عن سمرة بن سهم» کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانند حدیث ذکر کی ۲- اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۱۱۹ (۵۳۷۴) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱ (۴۱۰۳) (تحفة الأشراف : ۱۲۱۷۸) و مسند احمد (۵/۲۹۰) (حسن)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَعْدِ بْنِ الْأَخْرَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جائیداد ۱؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہو جائے گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۲۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث میں ضیعہ آیا ہے ، اس سے مراد ایسی جائدادیں ہیں جو غیر منقولہ ہوں مثلاً باغ ، کھیت اور گاؤں وغیرہ ، کچھ لوگ کہتے ہیں : اس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن پر انسان کی معاشی زندگی کا دارومدار ہو ، اگر یہ چیزیں انسان کو ذکر الٰہی سے غافل کر دینے والی ہوں اور انسان آخرت کو بھول بیٹھے اور اس کے دل میں پورے طورے پر دنیا کی رغبت پیدا ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرے اور خشیت الٰہی کو اپنائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ خَيْرُ النَّاسِ ؟ قَالَ: " مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۱۹۷) ، مسند احمد (۴/۱۸۸، ۱۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عمر لمبی ہو گی اور عمل اچھا ہو گا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی ، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے ، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہو گا ، «أعاذنا الله منه»۔
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ ؟ قَالَ: " مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ " قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ ؟ قَالَ: " مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو"، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۶۸۹) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : ایک تاجر کی نگاہ میں راس المال اور سرمایہ کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت اور مقام وقت کا ہے ، تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے ، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہیئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزاریں ، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمند تاجر اکثر نفع کماتا ہے ، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُمْرُ أُمَّتِي مِنْ سِتِّينَ سَنَةً إِلَى سَبْعِينَ سَنَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہو گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۷ (۴۲۳۶) ، ویأتي عند المؤلف في الدعوات ۱۰۲ (۳۵۵۰) (تحفة الأشراف : ۱۲۸۷۶) (حسن صحیح) (یہ حدیث ’’ أعمار أمتي مابین … ‘‘ کے لفظ سے صحیح ہے)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ، وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ هُوَ أَخُو يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہو جائے گا ۱؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہو جائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی) کے برابر ہو جائے گا اور ایک ساعت(گھڑی) آگ سے پیدا ہونے والی چنگاری کے برابر ہو جائے گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : زمانہ قریب ہو جائے گا اس کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو اس کی برکتیں کم ہو جائیں گی اور فائدہ کی بجائے نقصانات زیادہ ہوں گے یا اس طرف اشارہ ہے کہ لوگ دنیاوی مشاغل میں اس قدر منہمک و مشغول ہوں گے کہ انہیں دن اور رات کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہو گا (دوسرے ٹکڑے سے متعلق حدیث اگلے باب میں آ رہی ہے)۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي بِمِنْكَبِي، فَقَالَ: " كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ "، فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا: "تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو"۔ مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کر لو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اعمش نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عمر رضی الله عنہما سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۳ (۶۴۱۶) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۱۴) (تحفة الأشراف : ۷۳۸۶) ، و مسند احمد (۲/۲۴، ۱۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی اور دنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کا بیان ہے ، مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافر دوران سفر کچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتا ہے ، تم دنیا کو اپنے لیے ایسا ہی سمجھو ، بلکہ اپنا شمار قبر والوں میں کرو ، گویا تم دنیا سے جا چکے ، اسی لیے آگے فرمایا : صبح پا لینے کے بعد شام کا انتظار مت کرو اور شام پا لینے کے بعد صبح کا انتظار مت کرو بلکہ اپنی صحت و تندرستی کے وقت مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لو ، کیونکہ تمہیں کچھ خبر نہیں کہ کل تمہارا شمار مردوں میں ہو گا یا زندوں میں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا ابْنُ آدَمَ وَهَذَا أَجَلُهُ " وَوَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ قَفَاهُ ثُمَّ بَسَطَهَا، فَقَالَ: " وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے"، اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا: "یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۷ (۴۲۳۲) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصر ہے ، موت اس سے قریب ہے ، لیکن اس کی خواہشیں اور آرزوئیں لامحدود ہیں ، اس لیے آدمی کو چاہیئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصر زندگی کو پیش نظر رکھے ، اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکر کرے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: " مَا هَذَا ؟ " فَقُلْنَا: قَدْ وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: " مَا أَرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ، وَيُقَالُ: ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپر کا مکان درست کر رہے تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہو چکا ہے، لہٰذا ہم اس کو ٹھیک کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا: "میں تو معاملے (موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہا ہوں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۶۹ (۵۲۳۵) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۳ (۴۱۶۰) (تحفة الأشراف : ۸۶۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپا پوتی اور اس کی اصلاح و مرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاد دہانی ہے ، تاکہ موت ہر وقت انسان کے سامنے رہے اور کسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
کعب بن عیاض رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۱۱۱۲۹) ، و مسند احمد (۴/۱۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : فتنہ سے مراد آزمائش ہے ، اس حدیث میں اس امت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ مال کی محبت میں اعتدال سے کام لے ، ورنہ وہ اس آزمائش میں ناکام ہو سکتی ہے اور یہ مال جو اللہ کی نعمت ہے اس کے لیے شدید عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ ذَهَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَهُ ثَانِيًا، وَلَا يَمْلَأُ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَبِي وَاقِدٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہو گی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس سے توبہ کرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابی بن کعب، ابو سعید خدری، عائشہ، ابن زبیر، ابوواقد، جابر، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۰ (۶۴۳۹) ، صحیح مسلم/الزکاة ۳۹ (۱۰۴۸) (تحفة الأشراف : ۱۵۰۸) ، و مسند احمد (۳/۱۲۲، ۱۷۶، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۳۸، ۲۷۲) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۶۲ (۲۸۲۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ ابن آدم کے اندر دنیاوی حرص اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ اس کے پاس مال کی بہتات ہو پھر بھی اسے آسودگی نہیں ہوتی یہاں تک کہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے پھر قبر کی مٹی سے ہی وہ آسودہ ہوتا ہے ، لیکن اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں دنیا سے بے رغبتی ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی حرص سے محفوظ رکھتا ہے ، اور قناعت کی دولت سے وہ سب مالا مال ہوتے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولُ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةُ الْمَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان رہتا ہے: لمبی زندگی کی محبت، دوسرے مال کی محبت" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۷ (۴۲۳۳) (تحفة الأشراف : ۱۲۸۶۹) ، و مسند احمد (۲/۳۱۷، ۳۳۵، ۳۳۸، ۳۳۹، ۳۵۸، ۳۷۹، ۳۹۴، ۴۴۳، ۴۴۷) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ بوڑھے کا دل لمبی عمر کی خواہش اور کثرت مال کی محبت سے سرشار ہوتا ہے ، یعنی بوڑھا ہونے کے باوجود اس کے اندر مال کی ہوس اور عمر کی زیادتی کی تمنا یہ دونوں خواہشیں جوان ہوتی ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۳۹ (۱۰۴۷) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۷ (۴۲۳۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۴) ، و مسند احمد (۳/۱۱۵، ۱۱۹، ۱۶۹، ۱۹۲، ۲۵۶، ۲۷۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَيِ اللَّهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
ابوذر غفاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے اور مال کو برباد کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہو کہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو خواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱ (۴۱۰۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۹۲۵) (ضعیف جداً) (سند میں عمرو بن واقد متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ، قَال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي: لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کر سکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کر سکے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے، ۳- میں نے ابوداؤد سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا: «جلف الخبز» کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۷۹۰) ، وانظر مسند احمد (۱/۶۲) (ضعیف) (سند میں حریث وہم کے شکار ہو جایا کرتے تھے، اسی لیے اسرائیلی روایات کو انہوں نے مرفوع سمجھ کر روایت کر دیا ہے، دیکھیے: الضعیفة رقم ۱۰۶۳)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ سورة التكاثر آية 1، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ، أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ «ألهاكم التكاثر» کی تلاوت کر رہے تھے تو آپ نے فرمایا: "ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ تمہارا مال صرف وہ ہے جو تم نے صدقہ کر دیا اور اسے آگے چلا دیا ۱؎، اور کھایا اور اسے ختم کر دیا یا پہنا اور اسے پرانا کر دیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۵۹) ، سنن النسائی/الوصایا ۱ (۳۶۴۳) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر ’’ التکاثر ‘‘ (۳۳۴۹) (تحفة الأشراف : ۵۳۴۶) ، و مسند احمد (۴/۲۴، ۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنا مال سمجھتا ہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطر اس نے صدقہ کر دیا ، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑا ہے ، باقی مال کھا پی کر اسے ختم کر دیا یا پہن کر اسے بوسیدا اور پرانا کر دیا ، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا ، اس حدیث میں مستحقین پر اور اللہ کی پسندیدہ راہوں پر خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ هُوَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلِ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ، وَلَا تُلَامُ عَلَى كَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَشَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُكْنَى: أَبَا عَمَّارٍ.
ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا تو یہ تیرے لیے بہتر ہو گا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہو گا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ و خیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے، اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۳۲ (۱۰۳۶) (تحفة الأشراف : ۴۸۷۹) ، و مسند احمد (۵/۲۶۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اس سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت کا خیال رکھو اور ضرورت سے زائد مال حاجتمندوں اور مستحقین کے درمیان تقسیم کر دو کیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ صحیح نہیں ، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ، اور آخرت میں بخل کا جو انجام ہے وہ بالکل واضح ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۴ (۴۱۶۴) (تحفة الأشراف : ۱۰۵۸۶) ، و مسند احمد (۱/۳۰، ۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ مومن کی زندگی رزق و معیشت کی فکر سے خالی ہونی چاہیئے ، اور اس کا دل پرندوں کی طرح ہونا چاہیئے جو اپنے لیے کچھ جمع کر کے نہیں رکھتے بلکہ ہر روز صبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر لوٹتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ، فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت و مزدوری کرتا تھا، محنت و مزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: "شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : محنت مزدوری کرنے والے نے یہ شکایت کی کہ یہ کمانے میں میرا تعاون نہیں کرتا اور میرے ساتھ کھاتا ہے ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت کرنے والے کی یہ فہمائش کی کہ وہ علم دین سیکھنے کے لیے میرے پاس رہتا ہے ، اس لیے یہ سمجھو کہ تم کو جو تمہاری کمائی سے روزی ملتی ہے اس میں اس کی برکت بھی شامل ہے ، اس لیے تم گھمنڈ میں مت مبتلا ہو جاؤ ، واضح رہے کہ دوسرا بھائی یونہی بیکار نہیں بیٹھا رہتا تھا ، یا یونہی کام چوری نہیں کرتا تھا ، علم دین کی تحصیل میں مشغول رہتا تھا ، اس لیے اس حدیث سے بے کاری اور کام چوری کی دلیل نہیں نکالی جا سکتی ، بلکہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں لگنے والوں کی تائید اور معاونت دیگر اہل خانہ کیا کریں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَحِيزَتْ: جُمِعَتْ.
عبیداللہ بن محصن خطمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور «حيزت» کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۹ (۴۱۴۱) (تحفة الأشراف : ۹۷۳۹) (حسن)
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَهُ، وفي الباب عن أَبِي الدَّرْدَاءِ.
اس سند سے بھی عبیداللہ بن محصن خطمی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس باب میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
وضاحت: ؎ : مفہوم یہ ہے کہ امن و صحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہتر ہے جو امن و صحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال و دولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگنا چاہئے بلکہ صبر و قناعت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ امن و سکون اور راحت و آسائش اسی میں ہے۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ نَفَضَ بِيَدِهِ، فَقَالَ: عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ قَلَّتْ بَوَاكِيهِ قَلَّ تُرَاثُهُ ".
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اور اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، نماز میں جسے راحت ملتی ہو، اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو، اور خلوت میں بھی اس کا مطیع و فرماں بردار رہا ہو، لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہا ہو کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا، اور اس کا رزق بقدر «کفاف» ہو پھر بھی اس پر صابر رہے، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور فرمایا: "جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۹۰۹) (ضعیف) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، عبیداللہ بن زحرعن علی بن یزید عن القاسم سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی ۳۶۴)
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي لِيَجْعَلَ لِي بَطْحَاءَ مَكَّةَ ذَهَبًا، قُلْتُ: لَا يَا رَبِّ وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا وَأَجُوعُ يَوْمًا، أَوْ قَالَ ثَلَاثًا أَوْ نَحْوَ هَذَا، فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ، وَإِذَا شَبِعْتُ شَكَرْتُكَ وَحَمِدْتُكَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وفي الباب عن فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَالْقَاسِمُ هَذَا هُوَ: ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَيُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَيُقَالُ أَيْضًا: يُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْمَلِكِ، وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَهُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْمَلِكِ.
اسی سند سے مزید روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے رب نے مجھ پر اس بات کو پیش کیا کہ مکہ کی کنکریلی زمین کو سونا بنا دے لیکن میں نے کہا: نہیں اے میرے رب! میں تو چاہتا ہوں کہ ایک دن آسودہ رہوں اور ایک دن بھوکا"، یا فرمایا: "تین دن"، یا اسی کے مانند کچھ اور فرمایا: "پس جب میں بھوکا رہوں گا تو تیرے لیے عاجزی اور مسکنت ظاہر کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب آسودہ رہوں گا تو تیرا شکر ادا کروں گا اور تیری حمد بجا لاؤں گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے، اور قاسم یہ قاسم بن عبدالرحمٰن ہیں جن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے، یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، شامی ہیں، ثقہ ہیں، ۳- علی بن یزید حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر «كفاف» اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئیے ہوئے پر) «قانع» بنا دیا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۴۳ (۱۰۵۴) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۹ (۴۱۳۸) (تحفة الأشراف : ۸۸۴۸) ، و مسند احمد (۲/۱۶۸، ۱۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آخرت کی کامیابی کا دارومدار صرف اور صرف اسلام ہے ، اگر بدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہا تو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتے ، اسی طرح بقدر ضرورت اور برابر سرابر والی زندگی میں جو امن و سکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ، گویا بقدر کفاف روزی کے ساتھ قناعت و استغنا کامل جانا امن و سکون کی ضمانت ہے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّأَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " طُوبَى لِمَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا وَقَنَعَ "، قَالَ: وَأَبُو هَانِئٍ اسْمُهُ: حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر «کفاف» روزی ملی پھر وہ اسی پر قانع و مطمئن رہا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوہانی کا نام حمید بن ہانی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۱۱۰۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: " انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ " قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: " انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ " قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: " إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ ".
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: "جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو"، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: "جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو"، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا: "اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر و محتاجی کا ٹاٹ تیار رکھو اس لیے کہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۶۴۷) (ضعیف) (سند میں ’’ جابر بن عمرو ابو الوازع ‘‘ وہم کے شکار ہو جایا کرتے تھے، اور اسی لیے یہ منکر حدیث روایت کر دی، دیکھیے الضعیفہ رقم: ۱۶۸۱)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي طَلْحَةَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْوَازِعِ الرَّاسِبِيُّ اسْمُهُ: جَابِرُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ بَصْرِيٌّ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوالوازع راسبی کا نام جابر بن عمرو ہے اور یہ بصریٰ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِخَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ "، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہاجر فقراء جنت میں مالدار مہاجر سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۶ (۴۱۲۳) (تحفة الأشراف : ۴۲۰۷) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہ اس لیے کہ غریب مہاجر کے پاس چونکہ مال کم تھا ، اس لیے انہیں حساب و کتاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہو گی ، جب کہ مالدار مہاجرین کو مال کے حساب میں بہت تاخیر ہو گی ، اس سے غریب کی فضیلت معلوم ہوئی۔ آخرت کا آدھا دن دنیا کے پانچ سو سال کے برابر ہو گا ، اس لحاظ سے جس حدیث میں آدھے دن کا ذکر ہے اس سے آخرت کا آدھا دن مراد ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَابِدُ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: «اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساكين يوم القيامة» "یااللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا"، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے دریافت کیا اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ نے فرمایا: "اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہٰذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان سے قربت اختیار کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم کو روز قیامت اپنے سے قریب کرے گا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۲؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے اور کبر و نخوت سے دور رہنے کی ترغیب ہے ، ساتھ ہی فقراء مساکین سے محبت اور ان سے قربت اختیار کرنے کی تعلیم ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِخَمْسِ مِائَةِ عَامٍ نِصْفِ يَوْمٍ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فقراء جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہوں گے اور یہ قیامت کے آدھا دن کے برابر ہو گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۶ (۴۱۲۲) (تحفة الأشراف : ۱۵۰۲۹) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے ، جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے ، مدت میں فرق فقراء کے درجات و مراتب میں فرق کے لحاظ سے ہے ، معلوم ہوا کہ کچھ فقراء اپنے مراتب و درجات کے لحاظ سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے جب کہ کچھ فقراء چالیس سال پہلے جائیں گے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ "، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھا دن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۱۵۰۳۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۵۰۳) ، وانظر مسند احمد (۳/۳۲۴) (صحیح) (فقراء المہاجرین کے لفظ سے صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِي، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَىعَائِشَةَ فَدَعَتْ لِي بِطَعَامٍ، وَقَالَتْ: " مَا أَشْبَعُ مِنْ طَعَامٍ فَأَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ إِلَّا بَكَيْتُ، قَالَ: قُلْتُ: لِمَ ؟ قَالَتْ: أَذْكُرُ الْحَالَ الَّتِي فَارَقَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدُّنْيَا وَاللَّهِ مَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ مَرَّتَيْنِ فِي يَوْمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔ میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي بعدہ (تحفة الأشراف : ۱۷۶۲۷) (ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، اگلی روایت صحیح ہے جس کا سیاق اس حدیث کے سیاق سے قدرے مختلف ہے)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَيُحَدِّثُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا شَبِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ شَعِيرٍ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ حَتَّى قُبِضَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روز متواتر جو کی روٹی کبھی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۷۰) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۴۹ (۳۳۴۶) (تحفة الأشراف : ۱۶۰۱۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ العَلاءِ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " مَا شَبِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ ثَلَاثًا تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل خانہ نے مسلسل تین دن تک گیہوں کی روٹی سیر ہو کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ رحلت فرما گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأطعمة ۲۳ (۵۴۱۴) نحوہ) ، صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۷۶) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۴۸ (۳۳۴۳) (تحفة الأشراف : ۱۳۴۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: " مَا كَانَ يَفْضُلُ عَنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزُ الشَّعِيرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ هَذَا كُوفِيٌّ، وَأَبُو بُكَيْرٍ وَالِدُ يَحْيَى رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ مِصْرِيٌّ صَاحِبُ اللَّيْثِ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے جو کی روٹی (اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں، ابوبکیر جو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۸۷۰) ، وانظر مسند احمد (۵/۲۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی گھر میں آٹے کی مقدار اتنی کم ہوتی تھی کہ اس سے بمشکل آپ کے گھر والوں کی ضرورت پوری ہوتی ، کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو ہمیشہ اپنے پر ترجیح دیتے تھے اور «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» (الحشر : ۹)کا کامل نمونہ تھے ، بقدر کفاف زندگی گزارنا پسند کرتے تھے ، اسی لیے جو کی روٹی بھی ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَبِيتُ اللَّيَالِي الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۴۹ (۳۳۴۷) (تحفة الأشراف : ۶۲۳۳) (حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» "اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۷ (۶۴۶۰) ، صحیح مسلم/الزکاة ۴۳ (۱۰۵۵) ، والزہد ۱ (۱۰۵۵/۱۸) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۹ (۴۱۳۶) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۹۸) ، و مسند احمد (۲/۲۳۲، ۴۴۶، ۴۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی زندگی گزارنا پسند کرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اور آرام و آسائش سے پاک ہو ، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں ، مشاغل اور زیب و زینت سے ہٹا کر آخرت کی طرف متوجہ کریں ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی ، آپ کی اس دعا سے علماء اور داعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرنا چاہیئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اور دنیاوی تکلفات سے پاک ہو ، اگر اللہ ہمیں مال و دولت سے نوازے تو مالدار صحابہ کرام کا کردار ہمارے پیش نظر ہونا چاہیئے تاہم مال و دولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیئے اور نہ اس کے لیے ہر قسم کا حربہ و ہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہیئے خواہ اس حربے اور ہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑ میں ہی کیوں نہ ہو۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث «عن جعفر بن سليمان عن ثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلا بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " مَا أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خِوَانٍ، وَلَا أَكَلَ خُبْزًا مُرَقَّقًا حَتَّى مَاتَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوکی (یا میز) پر کھانا کبھی نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی باریک آٹے کی روٹی کھائی یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سعید بن ابی عروبہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۷۸۸ (تحفة الأشراف : ۱۱۷۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: " أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ " يَعْنِي الْحُوَّارَى، فَقَالَ سَهْلٌ: مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، فَقِيلَ لَهُ: هَلْ كَانَتْ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ، قِيلَ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ ؟ قَالَ: كُنَّا نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ ثُمَّ نُثَرِّيهِ فَنَعْجِنُهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدہ کی روٹی کھائی ہے؟ سہل نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدہ کی روٹی دیکھی بھی نہیں یہاں تک کہ رحلت فرما گئے۔ پھر ان سے پوچھا گیا: کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوی میں چھلنی تھی؟ کہا ہم لوگوں کے پاس چھلنی نہیں تھی۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ جو کے آٹے کو کیسے صاف کرتے تھے؟ تو کہا: پہلے ہم اس میں پھونکیں مارتے تھے تو جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا تھا پھر ہم اس میں پانی ڈال کر اسے گوندھ لیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو مالک بن انس نے بھی ابوحازم سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأطعمة ۲۳ (۵۴۱۳) (وانظر أیضا: ۵۴۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۴۴ (۳۳۳۵) (تحفة الأشراف : ۴۷۰۴) ، و مسند احمد (۵/۳۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ: " إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ أَهْرَاقَ دَمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَإِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَغْزُو فِي الْعِصَابَةِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا نَأْكُلُ إِلَّا وَرَقَ الشَّجَرِ وَالْحُبُلَةِ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ أَوِ الْبَعِيرُ وَأَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا (یعنی کافر کو قتل کیا) اور میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا، میں نے اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے دیکھا ہے، کھانے کے لیے ہم درختوں کے پتے اور«حبلہ» (خاردار درخت کے پھل) کے علاوہ اور کچھ نہیں پاتے تھے، یہاں تک کہ ہم لوگ بکریوں اور اونٹوں کی طرح قضائے حاجت میں مینگنیاں نکالتے تھے، اور قبیلہ بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں طعن و تشنیع کرتے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے تمام اعمال ضائع و برباد ہو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل الصحابة ۱۵ (۳۸۲۸) ، والأطعمة ۲۳ (۵۴۱۲) ، والرقاق ۱۷ (۶۴۵۳) ، صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۶) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۱ (۱۳۱) (تحفة الأشراف : ۳۹۱۳) ، و مسند احمد (۱/۱۷۴، ۱۸۱، ۱۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سعد رضی الله عنہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب بعض جاہل لوگوں نے آپ پر چند الزامات لگائے تھے ، ان الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ کو ٹھیک سے نماز پڑھنا نہیں آتی ، یہ آپ کے کوفہ کے گورنری کے وقت کی بات ہے ، اور شکایت خلیفہ وقت عمر فاروق رضی الله عنہ سے کی گئی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: " إِنِّي أَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الْحُبُلَةَ وَهَذَا السَّمُرَ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ.
سعد بن مالک (ابی وقاص) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عرب کا پہلا شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا، اور ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے وقت دیکھا ہے کہ ہمارے پاس خاردار درختوں کے پھل اور کیکر کے درخت کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم لوگ قضائے حاجت میں بکریوں کی طرح مینگنیاں نکالا کرتے تھے ۱؎، اور اب قبیلہ بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں ملامت کرنے لگے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے اعمال ضائع ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عتبہ بن غزوان سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ جہاد جیسے افضل عمل کو انجام دیتے وقت ہماری تنگی کا یہ حال تھا کہ ہم جنگلی درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو جاتے تھے ، کیونکہ وسائل کی کمی کے باعث اتنا سامان خوراک ساتھ نہیں ہوتا تھا جو اختتام تک کفایت کرتا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ فَتَمَخَّطَ فِي أَحَدِهِمَا، ثُمَّ قَالَ: " بَخٍ بَخٍ يَتَمَخَّطُ أَبُو هُرَيْرَةَ فِي الْكَتَّانِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مِنَ الْجُوعِ مَغْشِيًّا عَلَيَّ فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي يَرَى أَنَّ بِيَ الْجُنُونَ وَمَا بِي جُنُونٌ وَمَا هُوَ إِلَّا الْجُوعُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ رضی الله عنہ کی خدمت میں موجود تھے، آپ کے پاس گیرو سے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے، انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا: واہ واہ، ابوہریرہ! کتان میں ناک پونچھتا ہے، حالانکہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، اور حجرہ عائشہ رضی الله عنہا کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو کر گر پڑتا تو کوئی آنے والا آتا اور میری گردن پر اپنا پاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں، حالانکہ میں پاگل نہیں ہوتا تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اور اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتصام ۱۶ (۷۳۲۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۴۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ انتہائی تنگی کی زندگی گزارنے کے باوجود صحابہ کرام بے انتہا خوددار ، صابر اور قانع تھے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ يَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ قَامَتِهِمْ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الْخَصَاصَةِ وَهُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ، حَتَّى يَقُولَ الْأَعْرَابُ: هَؤُلَاءِ مَجَانِينُ أَوْ مَجَانُونَ، فَإِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: " لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ لَأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً، قَالَ فَضَالَةُ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کو نماز پڑھاتے تو صف میں کھڑے بہت سے لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے گر پڑتے تھے، یہ لوگ اصحاب صفہ تھے، یہاں تک کہ اعراب (دیہاتی لوگ) کہتے کہ یہ سب پاگل اور مجنون ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اگر تم لوگوں کو اللہ کے نزدیک اپنا مرتبہ معلوم ہو جائے تو تم اس سے کہیں زیادہ فقر و فاقہ اور حاجت کو پسند کرتے"۱؎، فضالہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۰۳۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب صفہ کس قدر تنگی اور فقر و فاقہ کی حالت میں تھے ، پھر بھی ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے صبر و قناعت کی زندگی گزارتے تھے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ دینی علوم کے سیکھنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرنا چاہیئے جہاں تعلیمی و تربیتی معیار اچھا ہو چاہے کھانے پینے کی سہولتوں کی کمی ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اصحاب صفہ کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: " مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ " فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: " مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ ؟ " قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ فَانْطَلَقُوا إِلَى مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الْأَنْصَارِيِّ "، وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ، فَقَالُوا لِامْرَأَتِهِ: أَيْنَ صَاحِبُكِ ؟ فَقَالَتْ: انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ، فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا، فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَى حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى نَخْلَةٍ، فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا، أَوْ قَالَ: تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنَ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ظِلٌّ بَارِدٌ، وَرُطَبٌ طَيِّبٌ، وَمَاءٌ بَارِدٌ &qquot;، فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ "، قَالَ: فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا، فَأَكَلُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ خَادِمٌ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا "، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْتَرْ مِنْهُمَا "، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اخْتَرْ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا "، فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنْ تَعْتِقَهُ، قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی الله عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی الله عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: "مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ۱؎، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا:"ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کر لیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی"، پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: "دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا"، چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نر بچہ ذبح کیا اور اسے پکا کر ان حضرات کے سامنے پیش کیا، ان سبھوں نے اسے کھایا اور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا: "جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا"، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا، ابوالھیثم بھی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کر لو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ خود ہمارے لیے پسند کر دیجئیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بیشک جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ لہٰذا تم اس کو لے لو (ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کیونکہ ہم نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھا سلوک کرنا"، پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے اسے باخبر کیا، ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو پورا نہ کر سکو گے مگر یہ کہ اس غلام کو آزاد کر دو، اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کر دیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دو راز دار ساتھی ہوتے ہیں، ایک اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا، پس جسے برے ساتھی سے بچا لیا گیا گویا وہ بڑی آفت سے نجات پا گیا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۳ (۵۱۲۸) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۷ (۳۷۴۵) (وکلاہما بقولہ: ’’ المستشار مؤتمن ‘‘) ویأتي عند المؤلف في الأدب ۵۷ (۲۸۲۲) (تحفة الأشراف : ۱۴۹۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کتاب الزہد اور اس باب سے اس حدیث کی مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے ، مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ بھی کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے اور بھوک سے دو چار ہوتے تھے۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کس قدر تنگ دستی کی زندگی گزار رہے تھے ، ایسے احباب کے پاس طلب ضیافت کے لیے جانا جائز ہے جن کی بابت علم ہو کہ وہ اس سے خوش ہوں گے ، اس حدیث میں مہمان کی عزت افزائی اور اس کی آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب ہے ، اسی طرح گھر پر شوہر کی عدم موجودگی میں اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو عورت اپنے شوہر کے مہمانوں کا استقبال کر سکتی ، اور انہیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ فَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ، وَأَطْوَلُ، وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَهُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے (مرسل) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما گھر سے نکلے، اس کے بعد راوی نے مذکورہ حدیث جیسی حدیث بیان کی، لیکن اس میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا، شیبان کی (سابقہ) حدیث ابو عوانہ کی (اس) حدیث سے زیادہ مکمل اور زیادہ طویل ہے، شیبان محدثین کے نزدیک ثقہ اور صاحب کتاب ہیں ۱؎، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے، اور یہ حدیث ابن عباس سے بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان کے پاس احادیث کا لکھا ہوا مجموعہ بھی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ " فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَرَيْنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے (جنگ خندق کے دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا سو آپ نے اپنے مبارک پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۷۷۳) (ضعیف) (سند میں سیار بن حاتم وہم کے شکار ہو جایا کرتے تھے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ ؟ " لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ ردی کھجوریں بھی اس مقدار میں آپ کو میسر نہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۷۷) (تحفة الأشراف : ۱۱۶۲۱) (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ عُمَرَ.
ابو عوانہ اور ان کے علاوہ کئی لوگوں نے سماک بن حرب سے ابوالاحوص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے، شعبہ نے یہ حدیث «عن سماك عن النعمان بن بشير عن عمر» کی سند سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مالداری ساز و سامان کی کثرت کا نام نہیں ہے، بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۵ (۶۴۴۶) ، صحیح مسلم/الزکاة ۴۰ (۱۰۵۱) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۹ (۴۱۳۷) (تحفة الأشراف : ۱۲۸۴۵) ، وحإ (۲/۲۴۳، ۲۶۱، ۳۱۵، ۳۹۰، ۴۳۸، ۴۴۳، ۵۳۹، ۵۴۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : انسان کے پاس جو کچھ ہے اسی پر صابر و قانع رہ کر دوسروں سے بے نیاز رہنا اور ان سے کچھ نہ طلب کرنا درحقیقت یہی نفس کی مالداری ہے ، گویا بندہ اللہ کی تقسیم پر راضی رہے ، دوسروں کے مال و دولت کو للچائی ہوئی نظر سے نہ دیکھے اور زیادتی کی حرص نہ رکھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، قَال: سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَهُ بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَاءَتْ بِهِ نَفْسُهُ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَيْسَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا النَّارُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُهُ: عُبَيْدُ سَنُوطَا.
حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ۱؎ جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کے لیے اس میں برکت ہو گی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام و ناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ تیار ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۸۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مال سے مراد دنیا ہے ، یعنی دنیا بے انتہا میٹھی ، ہری بھری ، اور دل کو لبھانے والی ہے ، زبان اور نگاہ سب کی لذت کی جامع ہے ، اس لیے اس کے حصول کے لیے حرام طریقہ سے بچ کر صرف حلال طریقہ اپنانا چاہیئے ، کیونکہ حلال طریقہ اپنانے والے کے لیے جنت اور حرام طریقہ اپنانے والے کے لیے جہنم ہے۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لُعِنَ عَبْدُ الدِّينَارِ لُعِنَ عَبْدُ الدِّرْهَمِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيث مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دینار کا بندہ ملعون ہے، درہم کا بندہ ملعون ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث اس سند کے علاوہ «عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مروی ہے اور یہ بھی سند اس سے زیادہ مکمل اور طویل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۴۸) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں، اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ان کا سماع بھی نہیں ہے، اور روایت عنعنہ سے ہے)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَى فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا نقصان آدمی کے مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۱۳۶) ، وانظر: مسند احمد (۳/۴۵۶، ۴۶۰) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۲۱ (۲۷۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و جاہ کی محبت اور حرص جس کے اندر آ گئی وہ ہلاکتوں سے اپنا دامن نہیں بچا سکتا ، بدقسمتی سے آج امت اسی فتنہ سے دو چار ہے اور اس کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ جس انتشار اور شدید اختلافات کا یہ امت اور اس کی دینی جماعتیں شکار ہیں ان کے اسباب میں بھی مال وجاہ کی محبت سر فہرست ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْإِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ، فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ: " مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا "، قَالَ: وفي الباب عن ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سو گئے، نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑ گیا تھا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنا دیں تو بہتر ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے، میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے، پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳ (۴۱۰۹) (تحفة الأشراف : ۹۴۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، وَأَبُو دَاوُدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۹ (۴۸۳۳) (تحفة الأشراف : ۱۴۶۲۵) ، و مسند احمد (۲/۳۰۳، ۳۳۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اچھے انسان کی صحبت سے اچھائی اور برے انسان کی صحبت سے برائی حاصل ہوتی ہے ، اس لیے کسی سے دوستی کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ دوست دیندار ہو ورنہ بری صحبت تباہی کا باعث ہو گی۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى وَاحِدٌ، يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ، وَيَبْقَى عَمَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردے کے ساتھ قبر تک تین چیزیں جاتی ہیں، پھر دو چیزیں لوٹ آتی ہیں اور ساتھ میں ایک باقی رہ جاتی ہے، اس کے رشتہ دار، اس کا مال اور اس کے اعمال ساتھ میں جاتے ہیں پھر رشتہ دار، اور مال لوٹ آتے ہیں اور صرف اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۴۲ (۶۵۱۴) ، صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۰) ، سنن النسائی/الجنائز ۵۲ (۱۹۳۹) (تحفة الأشراف : ۹۵۰) ، و مسند احمد (۳/۱۱۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْحِمْصِيُّ،وَحَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ ".
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۵۰ (۳۳۴۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۵۷۵) ، و مسند احمد (۴/۱۳۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں زیادہ کھانے کی ممانعت ہے اور کم کھانے کی ترغیب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں اور حکماء و اطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ کم خوری صحت کے لیے مفید ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ نَحْوَهُ، وَقَالَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِ يكَرِبَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس حدیث کو ہم سے حسن بن عرفہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے اسماعیل بن عیاش نے اسی جیسی حدیث بیان کی، اور سند یوں بیان کی «لمقدام بن معدي كرب عن النبي صلى الله عليه وسلم» اس میں انہوں نے «سمعت النبي صلى الله عليه وسلم» کا ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يُرَاءِ يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمْهُ اللَّهُ "، وفي الباب عن جُنْدَبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ریاکاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا، اور جو اللہ کی عبادت شہرت کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا و ذلیل کرے گا"، فرمایا: "جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جندب اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۱ (۴۲۰۶) (تحفة الأشراف : ۴۲۲۰) ، و مسند احمد (۳/۴۰) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ أَبُو عُثْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ شُفَيًّا الْأَصْبَحِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا ؟ فَقَالُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ، فَلَمَّا سَكَتَ وَخَلَا قُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتَهُ وَعَلِمْتَهُ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتُهُ وَعَلِمْتُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً فَمَكَثَ قَلِيلًا، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ، فَقَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ وَمَسَحَ وَجْهَهُ، فَقَالَ: أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً شَدِيدَةً، ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَى وَجْهِهِ فَأَسْنَدْتُهُ عَلَيَّ طَوِيلًا، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَى الْعِبَادِ لِيَقْضِيَ بَيْنَهُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ، وَرَجُلٌ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لِلْقَارِئِ: أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِي ؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ ؟ قَالَ: كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: إِنَّ فُلَانًا قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ ؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ ؟ قَالَ: كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: فِي مَاذَا قُتِلْتَ ؟ فَيَقُولُ: أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتِي، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، وَقَالَ الْوَلِيدُ أَبُو عُثْمَانَ: فَأَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَنَّ شُفَيًّا هُوَ الَّذِي دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ، وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، أَنَّهُ كَانَ سَيَّافًا لِمُعَاوِيَةَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ فُعِلَ بِهَؤُلَاءِ هَذَا، فَكَيْفَ بِمَنْ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ ثُمَّ بَكَى مُعَاوِيَةُ بُكَاءً شَدِيدًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ هَالِكٌ، وَقُلْنَا: قَدْ جَاءَنَا هَذَا الرَّجُلُ بِشَرٍّ، ثُمَّ أَفَاقَ مُعَاوِيَةُ وَمَسَحَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ 15 أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 16 سورة هود آية 15-16، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے، اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا: یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہیں، شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب وہ حدیث بیان کر چکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا: میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، یقیناً میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اور میں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔ پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، تھوڑی دیر بعد جب افاقہ ہوا تو فرمایا: یقیناً میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کیا تھا جہاں میرے سوا کوئی نہیں تھا، پھر دوبارہ ابوہریرہ نے چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، پھر جب افاقہ ہوا تو اپنے چہرے کو پونچھا اور فرمایا: ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، اپنے چہرے کو پونچھا اور پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا: ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گر پڑے، میں نے بڑی دیر تک انہیں اپنا سہارا دیئے رکھا پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے: "قیامت کے دن جب ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا، پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہو گا، دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا، اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا: کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقیناً اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے راتوں دن تیری عبادت کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، سو تجھے کہا گیا، پھر صاحب مال کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی، یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقیناً میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھے جو چیزیں دی تھیں اس میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہا جائے، سو تمہیں سخی کہا گیا، اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیا گیا؟ وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا چنانچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تو نے جھوٹ کہا، فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ولید ابوعثمان کہتے ہیں: عقبہ بن مسلم نے مجھے خبر دی کہ شفیا اصبحی ہی نے معاویہ رضی الله عنہ کے پاس جا کر انہیں اس حدیث سے باخبر کیا تھا۔ ابوعثمان کہتے ہیں: علاء بن ابی حکیم نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ معاویہ رضی الله عنہ کے جلاد تھے، پھر معاویہ کے پاس ایک آدمی پہنچا اور ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے اس حدیث سے انہیں باخبر کیا تو معاویہ نے کہا: ان تینوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا، یہ کہہ کر معاویہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے، اور ہم لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ شخص شر لے کر آیا ہے، پھر جب معاویہ رضی الله عنہ کو افاقہ ہوا تو انہوں نے اپنے چہرے کو صاف کیا اور فرمایا: "یقیناً اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی «من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون» "جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے، یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہو گئے" (سورۃ ہود: ۱۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۳۴۹۳) ، وأخرج نحوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۴۳ (۱۹۰۵) ، سنن النسائی/الجھاد ۲۲ (۳۱۳۹) ، و مسند احمد (۲/۳۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنِي الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَيْفٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِي مُعَانٍ الْبَصْرِيِّ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ، قَالَ: " وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَدْخُلُهُ، قَالَ: " الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «جب الحزن» (غم کی وادی) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «جب الحزن» کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: "جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے"، پھر صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: "ریاکار قراء (اس میں داخل ہوں گے)"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۲۳ (۲۵۶) (تحفة الأشراف : ۱۴۵۸۶) (ضعیف) (سند میں ’’ ابو معان ‘‘ یا ’’ ابو معاذ ‘‘ مجہول راوی ہے، اور ’’ عمار بن سیف ‘‘ ضعیف الحدیث، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس کا دوسرا طریق بھی ضعیف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: ۵۰۲۳، و ۵۱۵۲)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ فَيُسِرُّهُ فَإِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ أَعْجَبَهُ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَهُ أَجْرَانِ أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلَانِيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُالْأَعْمَشُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَصْحَابُ الْأَعْمَشِ لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ فَأَعْجَبَهُ فَإِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنْ يُعْجِبَهُ ثَنَاءُ النَّاسِ عَلَيْهِ بِالْخَيْرِ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ فَيُعْجِبُهُ ثَنَاءُ النَّاسِ عَلَيْهِ، لِهَذَا لِمَا يَرْجُو بِثَنَاءِ النَّاسِ عَلَيْهِ فَأَمَّا إِذَا أَعْجَبَهُ لِيَعْلَمَ النَّاسُ مِنْهُ الْخَيْرَ، لِيُكْرَمَ عَلَى ذَلِكَ وَيُعَظَّمَ عَلَيْهِ فَهَذَا رِيَاءٌ "، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْهِ فَأَعْجَبَهُ رَجَاءَ أَنْ يَعْمَلَ بِعَمَلِهِ فَيَكُونُ لَهُ مِثْلُ أُجُورِهِمْ، فَهَذَا لَهُ مَذْهَبٌ أَيْضًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آدمی نیک عمل کرتا ہے پھر اسے چھپاتا ہے لیکن جب لوگوں کو اس کی اطلاع ہو جاتی ہے تو وہ اسے پسند کرتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے لیے دو اجر ہیں ایک نیکی کے چھپانے کا اور دوسرا اس کے ظاہر ہو جانے کا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ۲- اعمش وغیرہ نے اس حدیث کو «حبيب بن أبي ثابت عن أبي صالح عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور اعمش کے شاگردوں نے اس میں «عن أبي هريرة» کا ذکر نہیں کیا، ۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے نیک عمل کے ظاہر ہو جانے پر لوگوں کے پسند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی تعریف اور ثناء خیر کو وہ پسند کرتا ہے اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو"، یقیناً اسے لوگوں کی تعریف پسند آتی ہے کیونکہ اسے لوگوں کی تعریف سے آخرت کے خیر کی امید ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی لوگوں کے جان جانے پر اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کے نیک عمل کو جان کر لوگ اس کی تعظیم و تکریم کریں گے تو یہ ریا و نمود میں داخل ہو جائے گا، ۴- اور بعض اہل علم نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ لوگوں کے جان جانے پر وہ اس لیے خوش ہوتا ہے کہ نیک عمل میں لوگ اس کی اقتداء کریں گے اور اسے بھی ان کے اعمال میں اجر ملے گا تو یہ خوشی بھی مناسب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۵ (۴۲۲۶) (تحفة الأشراف : ۱۲۳۱۱) (ضعیف) (سند میں سعید بن سنان حافظہ کے کمزور ہیں، اس لیے مرسل روایت کو مرفوع ومتصل بنا دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: ۴۳۴۴)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ قِيَامِ السَّاعَةِ ؟ " فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟ " قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِيرَ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ "، فَمَا رَأَيْتُ فَرِحَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحَهُمْ بِهَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: "قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟" اس آدمی نے کہا: میں موجود ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے"، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کوئی زیادہ صوم و صلاۃ اکٹھا نہیں کی ہے (یعنی نوافل وغیرہ) مگر یہ بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے، اور تم بھی اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو"۔ انس کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس قول سے وہ سب خوش نظر آ رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل الصحابة ۶ (۳۶۸۸) ، والأدب ۹۵ (۶۱۶۷) ، و ۹۶ (۶۱۷۱) ، والأحکام ۱۰ (۷۱۵۳) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۵۰ (۳۶۳۹) (تحفة الأشراف : ۵۸۵) ، و مسند احمد (۳/۱۰۴، ۱۱۰، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۷، ۱۶۸، ۱۷۳، ۱۷۸، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۰۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَهُ مَا اكْتَسَبَ "، وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے حسن غریب ہے، اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، صفوان بن عسال، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۵۳۰) (صحیح) (’’ أنت مع من أحببت ولک ما اکتسبت ‘‘ کے سیاق سے صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَهْوَرِيُّ الصَّوْتِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے محمد! ایک آدمی قوم سے محبت کرتا ہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۹۵۲) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَحْمُودٍ.
اس سند سے بھی صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے محمود بن غیلان کی حدیث جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الدعاء والذکر ۶ (۲۶۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۲۱) (وراجع أیضا: صحیح البخاری/التوحید ۱۵ (۷۴۰۵) ، و ۳۵ (۵۵۳۷) ، وصحیح مسلم/التوبة ۱ (۲۶۷۵) ، وماعند المؤلف في الدعوات برقم ۳۶۰۳) ، وسنن ابن ماجہ/الأدب ۵۸ (۳۸۲۲) ، و مسند احمد (۲/۲۵۱) ، ۳۹۱، ۴۱۳، ۴۴۵، ۴۸۰، ۴۸۲، ۵۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی ترغیب ہے ، لیکن عمل کے بغیر کسی بھی چیز کی امید نہیں کی جا سکتی ہے ، گویا اللہ کا معاملہ بندوں کے ساتھ ان کے عمل کے مطابق ہو گا ، بندے کا عمل اگر اچھا ہے تو اس کے ساتھ اچھا معاملہ اور برے عمل کی صورت میں اس کے ساتھ برا معاملہ ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ ".
نواس بن سمعان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور بدی کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے اور لوگوں کا مطلع ہونا تم اس پر ناگوار گزرے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۵ (۲۵۵۳) (تحفة الأشراف : ۱۱۷۱۲) ، و مسند احمد (۴/۱۸۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اسلام میں اچھے اخلاق کا درجہ بہت اونچا ہے ، دوسروں کے کام آنا ، ہر اچھے کام میں لوگوں کا تعاون کرنا ، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا یہ سب ایسی اخلاقی خوبیاں ہیں جو اسلام کی نظر میں نیکیاں ہیں ، اس حدیث میں گناہ کی دو علامتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک علامت یہ ہے کہ گناہ وہ ہے جو انسان کے دل میں کھٹکے اور دوسری علامت یہ ہے کہ دوسروں کے اس سے باخبر ہونے کو وہ ناپسند کرے ، گویا انسانی فطرت صحیح بات کی طرف انسان کو رہنمائی کرتی ہے ، اور برائیوں سے روکتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی نواس بن سمعان رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن اس میں «سأل رسول الله» کی بجائے «سألت رسول الله» ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ، حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاءُ "، وفي الباب عن أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثُوَبَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور (روشنی) کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو الدرداء، ابن مسعود، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ اور ابو مالک اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۲۵) ، وانظر: مسند احمد (۵/۲۲۹، ۲۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی عظمت و بزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کا مقام و مرتبہ اس قدر اونچا ہو گا کہ انبیاء و شہداء باوجود یہ کہ سب سے اونچے مراتب پر فائز ہوں گے اگر دوسروں کے حال پر قیامت کے دن رشک کرتے تو ایسے لوگوں کے مراتب پر ضرور رشک کرتے۔
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَأَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ فَاجْتَمَعَا عَلَى ذَلِكَ وَتَفَرَّقَا، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ مِثْلَ هَذَا وَشَكَّ فِيهِ، وَقَالَ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، رَوَاهُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ، يَقُولُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ یا ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے(عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حکمراں ہے، دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ۱؎، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو ۲؎ چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں ۳؎، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث امام مالک بن انس سے اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی اسی کے مثل مروی ہے، ان میں بھی راوی نے شک کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے «عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد» اور عبیداللہ بن عمر عمری نے اس حدیث کو خبیب بن عبدالرحمٰن سے بغیر شک کے روایت کیا ہے، اس میں انہوں نے صرف «عن أبي هريرة» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۳۶ (۶۶۰) ، والزکاة ۱۶ (۱۴۲۳) ، والرقاق ۲۴ (۶۴۷۹) ، والحدود ۱۹ (۶۸۰۶) ، صحیح مسلم/الزکاة ۳۰ (۱۰۳۱) ، سنن النسائی/القضاة ۲ (۵۳۸۲) (تحفة الأشراف : ۱۲۲۶۴، و ۳۹۹۶) ، وط/الشعر ۵ (۱۴) ، و مسند احمد (۲/۴۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی بچپن سے ہی اس کی تربیت اسلامی خطوط پر ہوئی اور جوانی کی آنکھیں کھولتے ہی وہ اللہ کی عبادت کو سمجھتا تھا اور پھر وہ اس پر کاربند رہا۔ ۲؎ : یعنی وہ اس انتظار میں رہے کہ کب اذان ہو اور وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جائے۔ ۳؎ : یعنی ان کے اکٹھا ہونے اور جدا ہونے کی بنیاد دین ہے ، گویا دین کی پابندی انہیں ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے اور دین سے انحراف انہیں باہم جدا کر دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنِي خُبَيْبٌ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ بِمَعْنَاهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ، وَقَالَ: ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں انہوں نے «مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ» کی بجائے «مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ» اور «ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ» کی بجائے «ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ» کہا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُعْلِمْهُ إِيَّاهُ "، وفي الباب عن أَبِي ذَرٍّ، وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمِقْدَامِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْمِقْدَامُ يُكْنَى: أَبَا كَرِيمَةَ.
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت کرے تو وہ اپنی اس محبت سے آگاہ کر دے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مقدام کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۲ (۵۱۲۴) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۷۸ (۲۰۶) (تحفة الأشراف : ۱۱۵۵۲) ، و مسند احمد (۴/۱۳۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ جب دونوں ایک دوسرے کی محبت سے آگاہ اور باخبر ہو جائیں گے تو لازمی طور پر ان میں باہمی محبت پیدا ہو گی اور دو اسلامی بھائیوں کے دلوں سے کدورت و اختلاف سے متعلق ساری چیزیں دور ہو جائیں گی۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَصِيرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلْمَانَ، عَنْيَزِيدَ بْنِ نُعَامَةَ الضَّبِّيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا آخَى الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلْيَسْأَلْهُ عَنِ اسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ وَمِمَّنْ هُوَ، فَإِنَّهُ أَوْصَلُ لِلْمَوَدَّةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُ لِيَزِيدَ بْنِ نُعَامَةَ سَمَاعًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ.
یزید بن نعامہ ضبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص کسی سے بھائی چارہ کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ اس کا نام اس کے باپ کا نام اور اس کے قبیلے کا نام پوچھ لے کیونکہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ہم نہیں جانتے کہ یزید بن نعامہ کا سماع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ۳- ابن عمر رضی الله عنہما نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۸۳۳) (ضعیف) (سند میں یزید بن نعامہ لین الحدیث راوی ہیں، اور تابعی ہیں، اس لیے یہ روایت ضعیف اور مرسل ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَأَثْنَى عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ "، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ أَصَحُّ، وَأَبُو مَعْمَرٍ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ هُوَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو الْكِنْدِيُّ وَيُكْنَى: أَبَا مَعْبَدٍ وَإِنَّمَا نُسِبَ إِلَى الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ لِأَنَّهُ كَانَ قَدْ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ.
ابومعمر عبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر ایک امیر کی تعریف شروع کی تو مقداد بن عمرو کندی رضی الله عنہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے یہ حدیث مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کی ہے حالانکہ مجاہد کی روایت جو ابومعمر سے ہے وہ زیادہ صحیح ہے، ۳- ابومعمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور مقداد بن اسود مقداد بن عمرو الکندی ہیں، جن کی کنیت ابو معبد ہے۔ اسود بن عبدیغوث کی طرف ان کی نسبت اس لیے کی گئی کیونکہ انہوں نے مقداد کو لڑکپن میں اپنا متبنی بیٹا بنا لیا تھا، ۴- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱۴ (۳۰۰۲) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۰ (۴۸۰۴) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۶ (۳۷۴۲) (تحفة الأشراف : ۱۱۵۴۵) ، و مسند احمد (۶/۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مٹی ڈالنے کا حکم شاید اس لیے ہے کہ جب کسی کی تعریف اس کے منہ پر کی جائے گی تو اس کے اندر کبر و غرور پیدا ہونے کا احتمال ہے اور اپنے عیب کو ہنر اور دوسرے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھنے کا خدشہ ہے ، اس لیے تعریف کرنے والا کسی کی بے جا تعریف سے اور جس سے مذکورہ خطرہ محسوس ہو اپنے آپ کو بچائے کیونکہ اسے محرومی کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سَالِمٍ الْخَيَّاطِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثُوَ فِي أَفْوَاهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بے جا تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت سے غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۴۹) (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ غَيْلَانَ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ التُّجِيبِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ سَالِمٌ، أَوْ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۹ (۴۸۳۲) (تحفة الأشراف : ۴۰۴۹ و ۴۳۹۹) ، و مسند احمد (۳/۳۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے ، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو متقی و پرہیزگار ہوں ، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی پرہیزگار شخص سے ہو۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ۱؎، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۴۹) (حسن صحیح)
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑا ثواب بڑی بلا (آزمائش) کے ساتھ ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے پس جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو اللہ کی تقدیر سے ناراض ہو تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ اسے مشکلات سے دو چار کرتا ہے ، اور مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کر اس کا امتحان لیتا ہے ، گویا دنیا کی آزمائشیں مومن کے لیے نعمت ہیں ، یہ گناہوں کی بخشش اور ثواب میں اضافہ کا باعث ہیں ، شرف و فضیلت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر آزمائش و تکلیف میں صبر و رضا کا پیکر ہو۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا رَأَيْتُ الْوَجَعَ عَلَى أَحَدٍ أَشَدَّ مِنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المرضی ۳ (۵۶۴۶) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس سے مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو چار ہوئے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: " الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انبیاء و رسل پر پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں پھر جو ان کے بعد میں ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۲۳ (۴۰۲۳) (تحفة الأشراف : ۳۹۳۴) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۶۷ (۲۸۲۵) ، و مسند احمد (۱/۱۷۲، ۱۷۴، ۱۸۰، ۱۸۵) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ جو بندہ اپنے ایمان میں جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر اس کی ابتلاء و آزمائش بھی ہو گی ، لیکن اس ابتلاء و آزمائش میں اس کے لیے ایک بھلائی کا بھی پہلو ہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے ، اور بندہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۱۱۴) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن ہمیشہ آزمائش سے دو چار رہے گا ، لیکن یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں گی ، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن پکڑے رہے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو ظِلَالٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: " إِذَا أَخَذْتُ كَرِيمَتَيْ عَبْدِي فِي الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ جَزَاءٌ عِنْدِي إِلَّا الْجَنَّةَ "، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو ظِلَالٍ اسْمُهُ: هِلَالٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المرضی ۷ (تعلیقا عقب حدیث رقم ۵۶۵۳، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفة الأشراف : ۱۶۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : انسان کو جو نعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں ، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے ، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر و رضا سے کام لیتا ہے تو اسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیز سے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " مَنْ أَذْهَبْتُ حَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ أَرْضَ لَهُ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ "، وفي الباب عن عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۳۸۶) ، و مسند احمد (۲/۲۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ أَبُو زُهَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَى أَهْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَهُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ "، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَوْلَهُ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کا کچھ حصہ «عن الأعمش عن طلحة بن مصرف عن مسروق» کی سند مسروق کے قول سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۷۷۳) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ابتلاء و آزمائش کا کس قدر عظیم ثواب ہے کہ قیامت کے دن عافیت اور امن و امان میں رہنے والے لوگ اس عظیم ثواب کی تمنا کریں گے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ إِلَّا نَدِمَ "، قَالُوا: وَمَا نَدَامَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ ازْدَادَ، وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ نَزَعَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ، وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی مرتا ہے وہ نادم و شرمندہ ہوتا ہے"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شرم و ندامت کی کیا وجہ ہے؟" آپ نے فرمایا: "اگر وہ شخص نیک ہے تو اسے اس بات پر ندامت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکی نہ کر سکا، اور اگر وہ بد ہے تو نادم ہوتا ہے کہ میں نے بدی سے اپنے آپ کو نکالا کیوں نہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- یحییٰ بن عبیداللہ کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے، اور یہ یحییٰ بن عبیداللہ بن موہب مدنی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۱۲۳) (ضعیف جداً) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنَ اللِّينِ، أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ السُّكَّرِ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ، فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا "، وفي الباب عن ابْنِ عُمَرَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے، وہ لوگوں کو اپنی سادگی اور نرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرات کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۱۲۲) (ضعیف جداً) (سند میں یحییٰ بن عبید اللہ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: " لَقَدْ خَلَقْتُ خَلْقًا أَلْسِنَتُهُمْ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ وَقُلُوبُهُمْ أَمَرُّ مِنَ الصَّبْرِ، فَبِي حَلَفْتُ لَأُتِيحَنَّهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا، فَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہیں اور ان کے دل ایلوا کے پھل سے بھی زیادہ کڑوے ہیں، میں اپنی ذات کی قسم کھاتا ہوں! کہ ضرور میں ان کے درمیان ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمند آدمی بھی حیران رہ جائے گا، پھر بھی یہ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا جرات کرتے ہیں؟"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۱۴۸) (ضعیف) (سند میں حمزہ بن أبی محمد ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، ح وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا النَّجَاةُ ؟ قَالَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: "اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۹۲۸) ، وانظر مسند احمد (۴/۱۴۸) ، و (۵/۲۵۹) (صحیح) (یہ سند مشہور ضعیف اسانید میں سے ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے الصحیحة رقم: ۸۹۰)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں زبان کی حفاظت کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ، کیونکہ اسے کنٹرول میں نہ رکھنے کی صورت میں اس سے بکثرت گناہ صادر ہوتے ہیں ، اس لیے لایعنی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور کوشش یہ ہو کہ ہمیشہ زبان سے خیر ہی نکلے ، ایسے لوگوں اور مجالس سے دور رہنا چاہیئے جن سے شر کا خطرہ ہو ، بحیثیت انسان غلطیاں ضرور ہوں گی ان کی تلافی کے لیے رب العالمین کے سامنے عاجزی کا اظہار کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّهْبَاءِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَهُ، قَالَ: " إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ، فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ، فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۰۳۷) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں زبان کو سارے اعضاء کے سدھار کا مرکز بتایا گیا ہے ، حالانکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا مرکز دل ہے ، توفیق کی صورت یہ ہے کہ زبان کو جسم کے ترجمان کی حیثیت حاصل ہے ، اس لیے مجازا اسے سارے اعضاء کا مرکز کہا گیا ، ورنہ مرکز دل ہے نہ کہ زبان۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
اس سند سے ابو سعید خدری سے موقوفا اسی جیسی حدیث مروی ہے اور یہ روایت محمد بن موسیٰ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف حماد بن زید کی روایت سے جانتے ہیں اس حدیث کو حماد بن زید سے کئی راویوں نے روایت کیا ہے، لیکن یہ ساری روایتیں غیر مرفوع ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الصَّهْبَاءِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَحْسِبُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
اس سند سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، مگر صالح بن عبداللہ نے شک کے ساتھ روایت کی ہے کہ شاید ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے، پھر اسی طرح سے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: * تخريج (م۲) : انظر رقم ۲۴۰۷ (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَتَكَفَّلُ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، أَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ "، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مجھ سے اپنی دونوں ڈاڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سہل بن سعد کی روایت سے حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۴) ، والحدود ۱۹ (۶۸۰۷) (تحفة الأشراف : ۴۷۳۶) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : چونکہ زبان اور شرمگاہ گناہوں کے صدور کا اصل مرکز ہیں ، اسی لیے ان کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے ، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی حفاظت کی ضمانت دینے والوں کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَقَاهُ اللَّهُ شَرَّ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَشَرَّ مَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ اسْمُهُ: سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاهِدُ مَدَنِيٌّ وَاسْمُهُ: سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شر و فساد سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے، یہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اور سہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۳۴۲۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ، عَنْسُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ، قَالَ: " قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ.
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، آپ نے فرمایا: "کہو: میرا رب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: "اسی کا زیادہ خوف ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۱۴ (۳۸) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۲ (۳۹۷۲) (تحفة الأشراف : ۴۴۷۸) ، و مسند احمد (۳/۴۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي ثَلْجٍ الْبَغْدَادِيُّ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنا دیتا ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۱۲۳) (ضعیف) (سند میں ابراہیم میں قدرے کلام ہے، یہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال میں سے ہے جس کو ابراہیم نے حدیث رسول بنا دیا ہے، دیکھیے الضعیفة: ۹۰۸، و ۹۲۰)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاطِبٍ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابراہیم بن عبداللہ بن حاطب ہی کی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۱۲۳) (ضعیف) (سند میں ابراہیم میں قدرے کلام ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ، إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ، أَوْ ذِكْرُ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ.
ام المؤمنین حبیبہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اور کا ثواب نہیں ملے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۲ (۳۹۷۴) (تحفة الأشراف : ۱۵۸۷۷) (ضعیف) (سند میں ’’ محمد بن یزید بن خنیس ‘‘ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً ؟ قَالَتْ: إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَرَّبَ إِلَيْهِ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِيَقُومَ، فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ، فَقَالَ لَهُ: نَمْ، فَنَامَ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَهُ سَلْمَانُ: قُمِ الْآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا، فَقَالَ: " إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ "، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَا ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ: صَدَقَ سَلْمَانُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُهُ: عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابو الدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی الله عنہ کی زیارت کی، دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں، چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیا وجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابو الدرداء گھر آئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی الله عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج روزے سے ہوں۔ سلمان رضی الله عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔ چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔ پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی الله عنہ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، تو سلمان نے ان سے کہا: سو جاؤ وہ سو گئے۔ پھر تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے، پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلمان نے ان سے کہا: "تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو"، اس کے بعد دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: "سلمان نے سچ کہا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۵ (۱۹۶۸) ، والأدب ۸۶ (۶۱۳۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۸۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں بہت سارے فوائد ہیں : ایک بھائی کا دوسرے بھائی کی زیارت کرنا تاکہ اس کے حالات سے آگاہی ہو ، عبادت کا وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو مسنون ہے تاکہ دوسروں کے حقوق کی پامالی نہ ہو ، زیارت کے وقت اپنے بھائی کو اچھی باتوں کی نصیحت کرنا اور اس کی کوتاہیوں سے اسے باخبر کرنا ، کسی پریشان حال کی پریشانی کی بابت اس سے معلومات حاصل کرنا ، رات کی عبادت کا اہتمام کرنا وغیرہ۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ الْوَرْدِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنِ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيهِ وَلَا تُكْثِرِي عَلَيَّ، فَكَتَبَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى مُعَاوِيَةَ سَلَامٌ عَلَيْكَ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنِ الْتَمَسَ رِضَاءَ اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاهُ اللَّهُ مُؤْنَةَ النَّاسِ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَاءِ النَّاسِ بِسَخَطِ اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَى النَّاسِ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ "،
عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا: معاویہ رضی الله عنہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھئیے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔ چنانچہ عائشہ رضی الله عنہا نے معاویہ رضی الله عنہ کے پاس خط لکھا: دعا و سلام کے بعد معلوم ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہو گا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کر دے گا"، (والسلام علیک تم پر اللہ کی سلامتی نازل ہو) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۸۱۵) (صحیح) (سند میں ایک راوی ’’ رجل من أھل المدینة ‘‘ مبہم ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: ۲۳۱۱)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا مندی ہر چیز پر مقدم ہے ، اس لیے اگر کوئی ایسا امر پیش ہو جسے انجام دینے سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہو گی لیکن لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا تو لوگوں کو نظر انداز کر کے اللہ کی رضا مندی کا طالب بنے ، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اللہ کی نصرت و تائید حاصل رہے گی ، اور اگر بندوں کے غیض و غضب سے خائف ہو کر اللہ کی رضا کو بھول بیٹھا تو ایسا شخص رب العالمین کی نصرت و تائید سے محروم رہے گا ، ساتھ ہی اسے انہی بندوں کے ذریعہ ایسی ایذا اور تکلیف پہنچائے گا جو اس کے لیے باعث ندامت ہو گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا كَتَبَتْ إِلَى مُعَاوِيَةَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
اس سند سے بھی عائشہ رضی الله عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، لیکن یہ مرفوع نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۹۲۰) (صحیح) (موقوف یعنی عائشہ رضی الله عنہا کے قول سے صحیح ہے)