حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا قید خانہ ہے مومن کے لیے اور جنت ہے کافر کے لیے۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِيَةِ، وَالنَّاسُ كَنَفَتَهُ فَمَرَّ بِجَدْيٍ أَسَكَّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنَّ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ "، فَقَالُوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ، قَالَ: " أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟ "، قَالُوا: وَاللَّهِ لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا فِيهِ لِأَنَّهُ أَسَكُّ، فَكَيْفَ وَهُوَ مَيِّتٌ؟، فَقَالَ: " فَوَاللَّهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ "،
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمبازار میں سے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آ رہے تھے کسی عالیہ کی طرف سے (عالیہ وہ گاؤں ہیں جو مدینہ کے باہر بلندی پر واقع ہیں) اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طرف یا دونوں طرف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بھیڑ کا بچہ چھوٹے کان والا مردہ دیکھا، اس کا کان پکڑا پھر فرمایا: ”تم میں سے کون یہ لیتا ہے ایک درہم کو؟“ لوگوں نے عرض کیا: ہم ایک درہم سے کم میں بھی اس کو لینا نہیں چاہتے (یعنی کسی چیز کے بدلے) اور ہم اس کو کیا کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چاہتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کہ کان اس کے بہت چھوٹے ہیں پھر مرنے پر اس کو کون لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! دنیا اللہ جل جلالہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسے یہ تمہارے نزدیک۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِيَانِ الثَّقَفِيَّ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ الثَّقَفِيِّ: فَلَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ هَذَا السَّكَكُ بِهِ عَيْبًا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ قَالَ: يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: " مَالِي مَالِي، قَالَ: وَهَلْ لَكَ يَابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا أَكَلْتَ، فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ، فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ، فَأَمْضَيْتَ "،
مطرف سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے، وہ کہتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم «أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ»پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کہتا ہے مال میرا، مال میرا اور اے آدمی! تیرا مال کیا ہے؟ تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھایا اور فنا کیا یا پہنا اور پرانا کیا یا صدقہ دیا اور چھٹی کی۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَقَالَا جَمِيعًا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كُلُّهُمْ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ هَمَّامٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ مَا أَكَلَ، فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى، فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ، فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ کہتا ہے مال میرا، مال میرا، حالانکہ اس کا مال تین چیزیں ہیں: جو کھایا اور فنا کیا اور جو پہنا اور پرانا کیا اور جو اللہ کی راہ میں دیا اور جمع کیا۔ اس کے سوا تو وہ جانے والا ہے اور چھوڑ جانے والا ہے لوگوں کے لیے۔“
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
علاء بن عبدالرحمٰن سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ، فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ، فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلُهُ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مردے کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں پھر دو لوٹ آتی ہیں اور ایک رہ جاتی ہے اس کے ساتھ، اس کے گھر والے اور مال اور عمل، تو گھر والے اور مال تو لوٹ جاتے ہیں اور عمل اس کے ساتھ رہ جاتا ہے۔“ (پس رفاقت پوری عمل کرتا ہے اسی کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے اور لڑکے، بالے بچے، مال و دولت یہ سب زندگی کے ساتھی ہیں مرنے کے بعد کچھ کام نہیں ان میں دل لگانا بے عقلی ہے)۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيَّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ: " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ؟، فَقَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ "،
سیدنا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ جنگ بدر میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف بھیجا وہاں کا جزیہ لانے کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کر لی تھی بحرین والوں سے اور ان پر حاکم کیا تھا علاء بن حضرمی کو، پھر ابوعبیدہ وہ مال لے کر آئے بحرین سے، یہ خبر انصار کو پہنچی۔ انہوں نے فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا پھر فرمایا: ”میں سمجھتا ہوں تم نے سنا کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ مال لے کر آئے ہیں۔“ (اور تم اسی خیال سے آج جمع ہوئے کہ مال ملے گا)۔ انہوں نے کہا: بے شک یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ اور امید رکھو اس بات کی جس سے خوش ہو گے تم، تو اللہ کی قسم! فقیری کا مجھے تم پر ڈر نہیں لیکن مجھے اس کا ڈر ہے کہ کہیں دنیا تم پر کشادہ ہو جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ ہوئی تھی پھر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو جیسے پہلے لوگوں نے حسد کیا تھا اور ہلاک کر دے تم کو جیسے ان کو ہلاک کیا تھا۔“
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِ يُونُسَ، وَمِثْلِ حَدِيثِهِ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ، وَتُلْهِيَكُمْ كَمَا أَلْهَتْهُمْ.
زہری سے یونس کی سند کے مطابق روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ ”غافل کر دے تم کو جیسے پہلے لوگوں کو غافل کر دیا تھا۔“
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ رَبَاحٍ هُوَ أَبُو فِرَاسٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا فُتِحَتْ عَلَيْكُمْ فَارِسُ وَالرُّومُ أَيُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ نَقُولُ: كَمَا أَمَرَنَا اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ تَتَنَافَسُونَ ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ ثُمَّ تَنْطَلِقُونَ فِي مَسَاكِينِ الْمُهَاجِرِينَ، فَتَجْعَلُونَ بَعْضَهُمْ عَلَى رِقَابِ بَعْضٍ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب فارس اور روم فتح ہو جائیں گے تو تم کیا کہو گے؟“ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم کیا (یعنی اس کا شکر کریں گے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کچھ نہیں کہتے، رشک کرو گے پھر حسد کرو گے پھر بگاڑو گے دوستوں سے پھر دشمنی کرو گے دوستوں سے پھر دشمنی کرو گے۔“یا ایسا ہی کچھ فرمایا ”پھر مسکین مہاجرین کے پاس ہو جاؤ گے اور ایک کو دوسروں کا حکم بناؤ گے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا، وقَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ مِمَّنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے دوسرے کو دیکھے جو اپنے سے زیادہ ہو مال اور صورت میں تو اس کو دیکھے جو اپنے سے کم ہو مال اور صورت میں۔“ (تاکہ اللہ کا شکر پیدا ہو اور علم اور تقویٰ میں اس کو دیکھے جو اپنے سے زیادہ ہو)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ سَوَاءً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ، فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: عَلَيْكُمْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کو دیکھو جو تم سے کم ہے (مال اور دولت میں اور حسن و جمال میں اور بال بچوں میں) اور اس کو مت دیکھو جو تم سے زیادہ ہے۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے اپنے اوپر۔“
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى، فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا، فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ، وَجِلْدٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ، فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْإِبِلُ أَوَ قَالَ: الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَاقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوِ الْأَقْرَعَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ: الْبَقَرُ، قَالَ: فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ، وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْبَقَرُ، فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا، قَالَ: فَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟، قَالَ: الْغَنَمُ، فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا، فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا، قَالَ: فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْبَقَرِ، وَلِهَذَا وَادٍ مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ: قَدِ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا، أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ، أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا، فَأَعْطَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا، عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا، وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا، فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ، قَالَ: وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي، فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً، أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي؟، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي، فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ، فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ، فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا، تیسرا اندھا، سو اللہ نے چاہا کہ ان کو آزمائے تو ان کے پاس فرشتہ بھیجا سو وہ سفید داغ والے کے پاس آیا پھر اس نے کہا: کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پیاری ہے؟ اس نے کہا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری دور ہو جائے جس کے سبب لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی گھن دور ہو گئی اور اس کو اچھا رنگ اور اچھی کھال دی گئی۔ فرشتہ نے کہا: کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا گائے۔“ اسحاق بن عبداللہ اس حدیث کے ایک راوی کو شک پڑ گیا کہ اس نے اونٹ مانگا یا گائے، لیکن سفید داغ والے یا گنجے نے ان میں سے ایک نے اونٹ کہا، دوسرے نے گائے، سو اس کو دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی۔ پھر کہا: اللہ تعالیٰ تیرے واسطے اس میں برکت دے۔“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتہ پھر گنجے کے پاس آیا سو کہا: کون سی چیز تجھ کو بہت پسند آتی ہے؟ اس نے کہا: اچھے بال اور یہ بیماری جاتی رہے جس کے سبب سے لوگ مجھ سے گھناتے ہیں۔ پھر اس نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کو اچھے بال ملے۔ فرشتہ نے کہا: کہ کون سا مال تجھ کو بھاتا ہے۔ اس نے کہا کہ گائے؟ سو اس کو گابھن گائے ملی۔ فرشتہ نے کہا: اللہ تیرے مال میں برکت دے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا سو کہا کہ تجھ کو کون سی چیز بہت پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھ میں روشنی دے تو میں اس کے سبب لوگوں کو دیکھوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر فرشتہ نے اس پر ہاتھ ملا سو اس کو اللہ تعالیٰ نے روشنی دی۔ فرشتہ نے کہا کہ کون سا مال تجھ کو بہت پسند ہے؟ اس نے کہا: بھیڑ بکری۔ تو اس کو گابھن بکری ملی۔ پھر اونٹنی اور گائے اور بکری بھی جنی۔ پھر ہوتے ہوتے سفید داغ والے کے جنگل بھر اونٹ ہو گئے اور گنجے کے جنگل بھر گائے بیل ہو گئے اور اندھے کے جنگل بھر بکریاں ہو گئیں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعد مدت کے وہی فرشتہ سفید داغ والے کے پاس اپنی اگلی صورت اور شکل میں آیا، سو اس نے کہا کہ میں محتاج آدمی ہوں سفر میں میرے تمام اسباب کٹ گئے (یعنی تدبیریں جاتی رہیں اور مال اور اسباب نہ رہا) سو آج منزل پر پہنچنا مجھ کو ممکن نہیں بدوں اللہ کی مدد کے پھر بدوں تیرے کرم کے۔ میں تجھ سے مانگتا ہوں اسی کے نام پر جس نے تجھ کو ستھرا رنگ اور ستھری کھال اور مال اونٹ دئیے، ایک اونٹ دے جو میرے سفر میں کام آئے۔ اس نے اس سے کہا: لوگوں کے حق مجھ پر بہت ہیں (یعنی قرضدار ہوں یا گھربار کے خرچ سے مال زیادہ نہیں جو تجھ کو دوں)۔ پھر فرشتہ نے کہا: البتہ میں تجھ کو پہچانتا ہوں بھلا کیا تو محتاج کوڑھی نہ تھا کہ تجھ سے لوگ گھناتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تجھ کو یہ مال دیا۔ اس نے جواب دیا: کہ میں نے تو یہ مال اپنے باپ دادا سے پایا ہے جو کئی پشت سے بڑے آدمی تھے۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اسی اپنی صورت اور شکل میں پھر اس سے کہا: جیسا سفید داغ والے سے کہا تھا۔ اس نے وہی جواب دیا جو سفید داغ والے نے دیا تھا۔ فرشتہ نے کہا: اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تجھ کو ویسا ہی کر ڈالے جیسا تو تھا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور فرشتہ اندھے کے پاس گیا اپنی اسی صورت اور شکل میں پھر فرشتہ نے کہا: میں محتاج آدمی اور مسافر ہوں میرے سفر میں سب وسیلے اور تدبیریں کٹ گئیں سو مجھ کو آج منزل پر پہنچنا بغیر اللہ کی مدد اور تیرے کرم کے مشکل ہے۔ سو میں تجھ سے اس اللہ کے نام پر جس نے تجھ کو آنکھ دی ایک بکری مانگتا ہوں کہ میرے سفر میں وہ کام آئے۔ اس نے کہا: بے شک میں اندھا تھا اللہ نے مجھ کو آنکھ دی تو لے جا ان بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے اور چھوڑ جا بکریوں میں سے جتنا تیرا جی چاہے۔ اللہ کی قسم! آج جو چیز تو اللہ کی راہ میں لے گا میں تجھ کو مشکل میں نہیں ڈالوں گا (یعنی تیرا ہاتھ نہ پکڑوں گا) سو فرشتہ نے کہا: اپنا مال رہنے دے تم تینوں آدمی صرف آزمائے گئے تھے۔ سو تجھ سے تو البتہ اللہ راضی ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوا۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ ، وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، قَالَ عَبَّاسٌ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فِي إِبِلِهِ، فَجَاءَهُ ابْنُهُ عُمَرُ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لَهُ: أَنَزَلْتَ فِي إِبِلِكَ وَغَنَمِكَ وَتَرَكْتَ النَّاسَ يَتَنَازَعُونَ الْمُلْكَ بَيْنَهُمْ، فَضَرَبَ سَعْدٌ فِي صَدْرِهِ، فَقَالَ اسْكُتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ ".
عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں تھے اتنے میں ان کا بیٹا عمر آیا (یہ عمر بن سعد وہی ہے جو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے لڑا اور جس نے دنیا کے لیے اپنی آخرت برباد کی) جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا تو کہا: پناہ مانگتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کی اس سوار کے شر سے۔ پھر وہ اترا اور بولا: تم اپنے اونٹوں اور بکریوں میں اترے ہو اور لوگوں کو چھوڑ دیا وہ سلطنت کے لیے جھگڑ رہے ہیں(یعنی خلافت اور حکومت کے لیے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر مارا اور کہا: چپ رہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ دوست رکھتا ہے اس بندہ کو جو پرہیز گار ہے، مالدار ہے۔ چھپا بیٹھا ہے ایک کونے میں (فساد اور فتنے کے وقت) اور دنیا کے لیے اپنا ایمان نہیں بگاڑتا۔“ (افسوس ہے کہ عمر بن سعد نے اپنے باپ کی نصیحت کو فراموش کیا اور دنیا کی طمع میں آخر ت بھی خراب کی۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: مالدار سے یہ مراد ہے کہ دل اس کا غنی ہو اور قاضی رحمہ اللہ نے کہا: مالدار سے ظاہری معنی مراد ہے۔)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَابْنُ بِشْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، يَقُولُ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَقَدْ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقُ الْحُبْلَةِ، وَهَذَا السَّمُرُ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي عَلَى الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ نُمَيْرٍ إِذًا "،
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے تھے: قسم اللہ کی میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیر مارا اللہ کی راہ میں اور ہم جہاد کرتے تھے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر پتے حبلہ اور سمر کے (یہ دونوں جنگلی درخت ہیں) یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی ایسا پاخانہ پھرتا جیسے بکری پھرتی ہے۔ پھر آج بنو اسد کے لوگ (یعنی زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد) مجھ کو دین کی باتیں سکھلاتے ہیں یا دین کے لیے تنبیہ کرتے ہیں یا سزا دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو بالکل نقصان میں پڑا اور میری محنت ضائع ہو گئی۔
وحَدَّثَنَاه يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: حَتَّى إِنْ كَانَ أَحَدُنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الْعَنْزُ مَا يَخْلِطُهُ بِشَيْءٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی پاخانہ پھرتا جیسے بکری پھرتی ہے اس میں کچھ نہ ملا ہوتا (یعنی خالص پتے ہوتے)۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الدُّنْيَا قَدْ آذَنَتْ بِصَرْمٍ، وَوَلَّتْ حَذَّاءَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ يَتَصَابُّهَا صَاحِبُهَا، وَإِنَّكُمْ مُنْتَقِلُونَ مِنْهَا إِلَى دَارٍ لَا زَوَالَ لَهَا، فَانْتَقِلُوا بِخَيْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ قَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ يُلْقَى مِنْ شَفَةِ جَهَنَّمَ فَيَهْوِي فِيهَا سَبْعِينَ عَامًا لَا يُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا، وَوَاللَّهِ لَتُمْلَأَنَّ أَفَعَجِبْتُمْ وَلَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ مَسِيرَةُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَيْهَا يَوْمٌ وَهُوَ كَظِيظٌ مِنَ الزِّحَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا، فَالْتَقَطْتُ بُرْدَةً فَشَقَقْتُهَا بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَاتَّزَرْتُ بِنِصْفِهَا وَاتَّزَرَ سَعْدٌ بِنِصْفِهَا، فَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا أَصْبَحَ أَمِيرًا عَلَى مِصْرٍ مِنَ الْأَمْصَارِ، وَإِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ فِي نَفْسِي عَظِيمًا وَعِنْدَ اللَّهِ صَغِيرًا، وَإِنَّهَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَنَاسَخَتْ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَاقِبَتِهَا مُلْكًا، فَسَتَخْبُرُونَ وَتُجَرِّبُونَ الْأُمَرَاءَ بَعْدَنَا "،
خالد بن عمیر عدوی سے روایت ہے، عتبہ بن عروان نے (جو امیر تھے بصرہ کے) ہم کو خطبہ سنایا تو اللہ تعالیٰ کی ثنا کی پھر کہا بعد حمد وصلوۃ کے۔ معلوم ہو کہ دینا نے خبر دی ختم ہونے کی اور دنیا میں سے کچھ باقی نہ رہا مگر جیسے برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے جس کو اس کا صاحب بچا رکھتا ہے اور تم دنیا سے ایسے گھر کو جانے والے ہو جس کو زوال نہیں تو اپنے ساتھ نیکی کر کے لے جاؤ اس لیے کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ پتھر ایک کنارے سے جہنم کے ڈالا جائے گا اور ستر برس تک اس میں اترتا جائے گا۔ اور اس کی تہہ کو نہ پہنچے گا۔ اللہ کی قسم! جہنم بھری جائے گی، کیا تم تعجب کرتے ہو اور ہم سے بیان کیا گیا کہ جنت کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک چالیس برس کی راہ ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جنت لوگوں کے ہجوم سے بھری ہو گی اور تو نے دیکھا ہوتا میں ساتواں تھا سات شخصوں میں سے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے درخت کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئی (بوجہ پتوں کی حرارت اور سختی کے) میں نے ایک چادر پائی اور اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کئے۔ ایک ٹکڑے کا میں نے تہبند بنایا اور دوسرے ٹکڑے کا سعد بن مالک نے۔ اب آج کے رواز کوئی ہم میں سے ایسا نہیں ہے کہ کسی شہر کا حاکم نہ ہو اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی، اس بات سے کہ میں اپنے تئیں بڑا سمجھوں اور اللہ کے نزدیک چھوٹا ہوں اور بے شک کسی پیغمبر کی نبوت (دنیا میں) ہمیشہ نہیں رہی بلکہ نبوت کا اثر (تھوڑی مدت میں) جاتا رہا یہاں تک کہ آخری انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ سلطنت ہو گئی تو تم قریب پاؤ گے اور تجربہ کرو گے ان امیروں کا جو ہمارے بعد آئیں گے (کہ ان میں دین کی باتیں جو نبوت کا اثر ہے نہ رہیں گی اور وہ بالکل دنیا دار ہو جائیں گے)۔
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ ، حَدَّثَنَاسُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وَقَدْ أَدْرَكَ الْجَاهِلِيَّةَ، قَالَ: خَطَبَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ وَكَانَ أَمِيرًا عَلَى الْبَصْرَةِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ شَيْبَانَ.
سیدنا خالد بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے جاہلیت کا زمانہ پایا تھا وہ حاکم تھے بصرہ کے، پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُتْبَةَ بْنَ غَزْوَانَ يَقُولُ: " لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا طَعَامُنَا إِلَّا وَرَقُ الْحُبْلَةِ حَتَّى، قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا " .
سیدنا خالد بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا عتبہ بن غزوان سے، وہ کہتے تھے: تو مجھے دیکھتا میں ساتواں شخص تھا سات آدمیوں کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمارا کھانا کچھ نہ تھا سوائے حبلہ (ایک درخت ہے) کے پتوں کے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، قَالَ: " هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ "، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا "، قَالَ: " فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ، أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ثُمَّ يَلْقَى الثَّانِيَ، فَيَقُولُ أَيْ فُلْ: أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى أَيْ رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي، ثُمَّ يَلْقَى الثَّالِثَ، فَيَقُولُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ آمَنْتُ بِكَ وَبِكِتَابِكَ وَبِرُسُلِكَ، وَصَلَّيْتُ وَصُمْتُ وَتَصَدَّقْتُ، وَيُثْنِي بِخَيْرٍ مَا اسْتَطَاعَ، فَيَقُولُ: هَاهُنَا إِذًا قَالَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ، فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَلَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ، وَذَلِكَ الَّذِي يَسْخَطُ اللَّهُ عَلَيْهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے قیامت کے دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کو شک پڑتا ہے آفتاب کے دیکھنے میں ٹھیک دوپہر کو جب کہ بدلی نہ ہو؟“ اصحاب نے کہا: کہ نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”سو کیا تم کو تردد ہوتا ہے چاند کے دیکھنے میں چودہویں رات کو جب کہ بدلی نہ ہو؟“ اصحاب نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سو قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم کو اپنے رب کے دیدار میں کچھ شبہ اور اختلاف نہ ہو گا مگر جیسے سورج یا چاند کے دیکھنے میں۔“ (یعنی جیسے چاند سورج کی رؤیت میں اشتباہ نہیں ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی رؤیت میں اشتباہ نہ ہو گا) ”پھر حق تعالیٰ حساب کرے گا بندے سے، سو کہے گا: اے فلاں بندے! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں کیا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حق تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ سو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھ کو بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھ کو عذاب سے نہ بچایئں گے) جیسے تو ہم کو بھولا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا: اے فلاں! بھلا میں نے تجھ کو عزت نہیں دی اور تجھ کو سردار نہیں بنایا اور تجھ کو تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا اور تجھ کو چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی ریاست کرتا تھا اور چوتھائی حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا: سچ ہے اے میرے رب! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بھلا تجھ کو معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ تو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: سو مقرر میں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھ کو دنیا میں بھولا تھا۔ پھر تیسرے بندے سے حساب کرے گا اس سے بھی اسی طرح کہے گا۔ بندہ کہے گا: اے رب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا، صدقہ دیا اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا: دیکھ یہیں تیرا جھوٹ کھل جاتا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”پھر حکم ہو گا اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں۔ بندہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا۔ پھر اس کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور حکم ہو گا اس کی ران سے کہ بول، تو اس کی ران کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اس کا عذر باقی نہ رہے، اسی کی ذات کی گواہی سے اور یہ شخص منافق یعنی جھوٹا مسلمان ہو گا اور اسی پر اللہ تعالیٰ غصہ کرے گا (اور پہلے دونوں کافر تھے۔ معاذ اللہ جب تک دل سے خالص اللہ کے لیے عبادت نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نماز یا روزہ ادا کرنا وبال ہے اس سے نہ کرنا بہتر ہے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدٍ الْمُكْتِبِ ، عَنْ فُضَيْلٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَكُ؟، قَالَ: قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ، يَقُولُ يَا رَبِّ: أَلَمْ تُجِرْنِي مِنَ الظُّلْمِ؟، قَالَ: يَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أُجِيزُ عَلَى نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِنِّي، قَالَ: فَيَقُولُ: كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيدًا، وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِينَ شُهُودًا، قَالَ: فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِي، قَالَ: فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ، قَالَ: ثُمَّ يُخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ، قَالَ: فَيَقُولُ: بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا، فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو میں کسی واسطے ہنستا ہوں؟“ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ہنستا ہوں بندے کی گفتگو پر جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا: اے مالک میرے! کیا تو مجھ کو پناہ نہیں دے چکا ہے ظلم سے۔“ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا)؟“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جواب دے گا: ہاں ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بندہ کہے گا کہ میں جائز نہیں رکھتا کسی کی گواہی اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کی گواہی کے۔ پروردگار فرمائے گا: اچھا تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے اور کراماً کاتبین کی گواہی۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر مہر لگ جائے گی بندہ کے منہ پر اور اس کے ہاتھ پاؤں سے کہا جائے گا، تم بولو! وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کیا جازت دی جائے گی، بندہ اپنے ہاتھ پاؤں سے کہے گا: چلو دور ہو جاؤ اللہ کی مار تم پر میں تو تمہارے لیے جھگڑا کرتا تھا۔“ (یعنی تمہارا ہی بچانا دوزخ سے مجھ کو منظور تھا سو تم آپ ہی گناہ کا اقرار کر چکے ہو اب دوزخ میں جاؤ)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا» ”یا اللہ! محمد(صلى الله عليه وسلم) کی آل کو بقدر کفاف روزی دے۔“ (یعنی بہت زیادہ دنیا نہ دے، ضرورت کے موافق دے تاکہ وہ تیری یاد سے غافل نہ ہو جائیں)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا "، وَفِي رِوَايَةِ عَمْرٍو: اللَّهُمَّ ارْزُقْ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ عمرو کی روایت میں «اللَّهُمَّ اجْعَلْ» کی بجائے«اللَّهُمَّ ارْزُقْ» ہے۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ ذَكَرَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: كَفَافًا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قُبِضَ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے کبھی تین دن برابر گہیوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے وفات پائی (باوجود اس کے دین اور دنیا کی بادشاہت آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو حاصل تھی اگر اللہ چاہتا تو تمام دنیا کی دولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل جاتی)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا شَبِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ بُرٍّ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ شَعِيرٍ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ دو دن تک برابر جو کی روٹی سے سیر نہ ہوئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ فَوْقَ ثَلَاثٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ مگر اس میں ہے کہ تین دن سے زیادہ گہیوں کی روٹی سے سیر نہ ہوئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ " مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ ثَلَاثًا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ، إِلَّا وَأَحَدُهُمَا تَمْرٌ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلمکی آل دو دن تک گہیوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئی مگر ایک دن صرف کھجور ملی۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: وَيَحْيَى بْنُ يَمَانٍ حَدَّثَنَا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ، إِنْ هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ مہینہ مہینہ بھر تک آگ نہ سلگاتے، صرف کھجور اور پانی پر گزارا کرتے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، إِنْ كُنَّا لَنَمْكُثُ، وَلَمْ يَذْكُرْ آلَ مُحَمَّدٍ وَزَادَ أَبُو كُرَيْبٍ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ ابْنِ نُمَيْرٍ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَنَا اللُّحَيْمُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے مگر جب گوشت ہمارے پاس آتا تو آگ سلگاتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا فِي رَفِّي مِنْ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ، ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَطْرُ شَعِيرٍ فِي رَفٍّ لِي، فَأَكَلْتُ مِنْهُ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ، فَكِلْتُهُ فَفَنِيَ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اور میرے دانوں کے برتن میں تھوڑی جَو تھی اور میں اسی کو کھایا کرتی یہاں تک کہ بہت دن گزر گئے میں نے ان کو ماپا تو وہ ختم ہو گئے (معلوم ہوا کہ مجہول اور مبہم شئے میں برکت زیادہ ہوتی ہے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ " وَاللَّهِ يَا ابْنَ أُخْتِي إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ، ثُمَّ الْهِلَالِ، ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوقِدَ فِي أَبْيَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ، قَالَ: قُلْتُ يَا خَالَةُ: فَمَا كَانَ يُعَيِّشُكُمْ؟، قَالَتِ الْأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالْمَاءُ، إِلَّا أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَكَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ، فَكَانُوا يُرْسِلُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَلْبَانِهَا فَيَسْقِينَاهُ ".
عروہ سے روایت ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: قسم اللہ کی! اے بھانجے میرے! ہم ایک چاند دیکھتے، دوسرا دیکھتے، تیسرا۔ دو مہینے میں تین چاند دیکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اس مدت تک آگ نہ جلتی۔ میں نے کہا: اے خالہ! پھر آپ کیا کھاتیں؟ انہوں نے کہا: کھجور اور پانی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ہمسائے تھے، ان کے جانور دودھ والے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ بھیجتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وہ دودھ پلاتے۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ . ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " لَقَدْ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَزَيْتٍ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر نہیں ہوئے روٹی اور زیتون سے ایک دن میں دو بار۔ (یعنی صبح اور شام دونوں وقت سیر ہو کر نہیں کھایا)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَكِّيُّ الْعَطَّارُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَجَبِيُّ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ شَبِعَ النَّاسُ مِنَ الْأَسْوَدَيْنِ التَّمْرِ وَالْمَاءِ " .
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ہم سیر ہوئے تھے پانی اور کھجور سے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَبِعْنَا مِنَ الْأَسْوَدَيْنِ الْمَاءِ وَالتَّمْرِ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ . ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ كِلَاهُمَا، عَنْ سُفْيَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمَا، عَنْ سُفْيَانَ: وَمَا شَبِعْنَا مِنَ الْأَسْوَدَيْنِ.
سفیان سے اسی سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ ہم سیر نہیں ہوئے کھجور اور پانی سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِيَانِ الْفَزَارِيَّ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، وقَالَ ابْنُ عَبَّادٍ " وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ مَا أَشْبَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا، مِنْ خُبْزِ حِنْطَةٍ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو سیر نہیں کیا تین دن پے در پے گہیوں کی روٹی سے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے دنیا سے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ مِرَارًا، يَقُولُ: " وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ، مَا شَبِعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَهْلُهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ حِنْطَةٍ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا ".
ابوحازم سے روایت ہے، میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے بار بار اور کہتے: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے کبھی تین دن پے در پے گیہوں کی روٹی سے سیر نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے دنیا سے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ، يَقُولُ: " أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟، لَقَدْ رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ "، وَقُتَيْبَةُ لَمْ يَذْكُرْ بِهِ،
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: کیا تم نہیں کھاتے اور پیتے جو چاہتے ہو، میں نے تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ان کو خراب کھجور بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ . ح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ كِلَاهُمَا، عَنْ سِمَاكٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ زُهَيْرٍ: وَمَا تَرْضَوْنَ دُونَ أَلْوَانِ التَّمْرِ وَالزُّبْدِ.
سماک سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور زہیر کی روایت میں یہ ہے کہ تم بغیر کھجور اور مکھن کے طرح طرح کے کھانوں کے راضی نہیں ہوتے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يَخْطُبُ، قَالَ: ذَكَرَ عُمَرُ مَا أَصَابَ النَّاسُ مِنَ الدُّنْيَا، فَقَالَ " لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَظَلُّ الْيَوْمَ يَلْتَوِي مَا يَجِدُ دَقَلًا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ ".
سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے سنا سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کو خطبہ پڑھتے ہوئے وہ کہتے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا دنیا کا جو لوگوں نے حاصل کی پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپصلی اللہ علیہ وسلم سارا دن بے قرار رہتے بھوک سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراب کھجور نہ ملتی جس سے اپنا پیٹ بھریں۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ ، سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ " أَلَسْنَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ؟، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: " أَلَكَ امْرَأَةٌ تَأْوِي إِلَيْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَلَكَ مَسْكَنٌ تَسْكُنُهُ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْتَ مِنَ الْأَغْنِيَاءِ، قَالَ: فَإِنَّ لِي خَادِمًا، قَالَ: فَأَنْتَ مِنَ الْمُلُوكِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا: کیا ہم مہاجرین فقیروں میں سے ہیں؟ عبداللہ نے کہا: تیری جورو ہے جس کے پاس تو رہاتا ہے؟ وہ بولا: ہاں۔ عبداللہ نے کہا: تیرا گھر ہے۔ جس میں تو رہتا ہے۔ وہ بولا: ہاں۔ عبداللہ نے کہا: تو امیروں میں سے ہے۔ وہ بولا: میرے پاس ایک خادم بھی ہے۔ عبداللہ نے کہا: پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔
(حديث موقوف) قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : وَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالُوا يَا أَبَا مُحَمَّدٍ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، لَا نَفَقَةٍ، وَلَا دَابَّةٍ، وَلَا مَتَاعٍ، فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا، فَأَعْطَيْنَاكُمْ مَا يَسَّرَ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَكَرْنَا أَمْرَكُمْ لِلسُّلْطَانِ، وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَسْبِقُونَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا "، قَالُوا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا.
ابوعبدالرحمن نے کہا: تین آدمی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، میں ان کے پاس موجود تھا۔ وہ کہنے لگے، اے ابومحمد! اللہ کی قسم! ہم کو کوئی چیز میسر نہیں، نہ خرچ ہے، نہ سواری، نہ اسباب۔ عبداللہ نے کہا: تم جو چاہو میں کروں اگر چاہتے ہو تو ہمارے پاس چلے آؤ ہم تم کو وہ دیں گے جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھا ہے اور اگر کہو تو ہم تمہارا ذکر بادشاہ سے کریں اور جو چاہو تو صبر کرو اس لیے کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مہاجرین محتاج مالداروں سے چالیس برس پہلے (جنت میں) جائیں گے۔“ وہ بولے: ہم صبر کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانگتے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جميعا، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ: " لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر (یعنی ثمود کے لوگ جو سب کے سب فرشتہ کی چیخ سے ہلاک ہو گئے) کی شان میں فرمایا: (غزوہ تبوک میں اس قوم کے گھر ادھر ہی تھے) مت جاؤ ان عذاب والے لوگوں پر (یعنی ان کے گھروں میں) مگر روتے ہوئے (اللہ کے خوف سے اور پناہ مانگتے ہوئے اس کے عذاب سے)۔ اگر تم روتے نہیں ہو تو وہاں مت جاؤ ایسا نہ ہو کہ تم کو وہ عذاب آ لگے جو ان پر آیا تھا۔“
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَهُوَ يَذْكُرُ الْحِجْرَ مَسَاكِنَ ثَمُودَ، قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: مَرَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحِجْرِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَدْخُلُوا مَسَاكِنَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ، إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ حَذَرًا أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ، ثُمَّ زَجَرَ فَأَسْرَعَ حَتَّى خَلَّفَهَا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجر پر سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت جاؤ ظالموں کے گھروں میں مگر روتے ہوئے اور بچو کہیں تم کو بھی وہ عذاب نہ ہو جو ان کو ہوا تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کو ڈانٹا اور جلدی چلایا یہاں تک کہ حجر پیچھے رہ گیا۔
حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى أَبُو صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحِجْرِ أَرْضِ ثَمُودَ، فَاسْتَقَوْا مِنْ آبَارِهَا، وَعَجَنُوا بِهِ الْعَجِينَ، " فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُهَرِيقُوا مَا اسْتَقَوْا، وَيَعْلِفُوا الْإِبِلَ الْعَجِينَ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَقُوا مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي كَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اترے حجر میں۔ (یعنی ثمود کے ملک میں) انہوں نے وہاں کے کنوؤں کا پانی لیا پینے کے لیے اور اس پانی سے آٹا گوندھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا اس پانی کے بہا دینے کا جو پینے کے لیے لیا تھا اور آٹے کو حکم دیا کہ اونٹوں کو کھلا دیں اور حکم دیا کہ پینے کا پانی اس کنویں سے لیں جس پر اونٹنی آتی تھی صالح علیہ السلام کی۔
وحَدَّثَنَا إِسْحاَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئَارِهَا وَاعْتَجَنُوا بِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَكَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بیواؤں کے لیے کمائی اور محنت کرے یا مسکین کے لیے اس کے لیے ایسا درجہ ہے جیسے جہاد کرنے والے کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں۔“اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی فرمایا: ”جیسے اس کا جو نماز کے لیے کھڑا رہے اور نہ تھکے اور جیسے اس روزہ دار کا جو روزہ کا ناغہ نہ کرے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْغَيْثِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَافِلُ الْيَتِيمِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ أَنَا وَهُوَ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ "، وَأَشَارَ مَالِكٌ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اور یتیم کی خبر گیری کرنے والا خواہ اس کا عزیز ہو یا غیر ہو جنت میں اس طرح سے ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔“ اور مالک نے اشارہ کیا کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، أَنَّ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ الْخَوْلَانِيَّ ، يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ عِنْدَ قَوْلِ النَّاسِ فِيهِ حِينَ بَنَى مَسْجِدَ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّكُمْ قَدْ أَكْثَرْتُمْ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ بَنَى مَسْجِدًا، قَالَ بُكَيْرٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ "، وَفِي رِوَايَةِ هَارُونَ: بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ ".
عبیداللہ خولانی سے روایت ہے، جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کو توڑ کر بنایا تو لوگوں نے ان کے حق میں باتیں کیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے بہت باتیں بنائیں اور میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص بنائے ایک مسجد خالص اللہ تعالیٰ کے لیے (نہ نام کے لیے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنا نام اس پر کندہ نہ کرائے اور اگر پرانی مسجد موجود ہو تو اسی کی تعمیر کرے نئی نہ بنائے کہ دونوں مسجدیں اجاڑ ہوں) اللہ اس کے لیے ویسا ہی ایک گھر بنا دے گا جنت میں۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى كلاهما، عَنْ الضَّحَّاكِ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَرَادَ بِنَاءَ الْمَسْجِدِ، فَكَرِهَ النَّاسُ ذَلِكَ وَأَحَبُّوا أَنْ يَدَعَهُ عَلَى هَيْئَتِهِ، فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ "،
محمود بن لبید سے روایت ہے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کے بنانے کا ارادہ کیا۔ لوگوں نے اس کو برا جانا اور یہ پسند کیا کہ وہ مسجد اسی شکل میں رہے (جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی)۔ انہوں نے کہا: میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔“
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ كلاهما، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمَا: بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ، فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ، فَأَفْرَغَ مَاءَهُ فِي حَرَّةٍ، فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ، فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ، قَالَ: فُلَانٌ لِلِاسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي؟، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هَذَا مَاؤُهُ، يَقُولُ: اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِكَ فَمَا تَصْنَعُ فِيهَا، قَالَ: أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا، فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ، وَآكُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار ایک مرد تھا میدان میں اس نے بادل میں ایک آواز سنی فلاں کے باغ کو سینچ دیں (اس آواز کے بعد) بادل ایک طرف چلا اور ایک پتھریلی زمین میں پانی برسایا۔ ایک نالی وہاں کی نالیوں میں سے بالکل لباب ہو گئی سو وہ شخص برستے پانی کے پیچھے پیچھے گیا۔ ناگاہ ایک مرد کو دیکھا کہ اپنے باغ میں کھڑا پانی کو اپنے پھاوڑے سے ادھر اُدھر کرتا ہے۔ سو اس نے باغ والے مرد سے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: فلانا نام ہے، وہی نام جو بادل میں سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے کہا: اے اللہ کے بندے! تو نے میرا نام کیوں پوچھا:؟ وہ بولا: میں نے بادل میں ایک آواز سنی جس کا یہ پانی ہے کوئی کہتا ہے فلانے کے باغ کو سینچ دے تیرا نام لے کر، سو تو اس باغ میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی کیا شکر گزاری کرے گا؟ باغ والے نے کہا: جب کہ تو نے یہ کہا: تو اب میں البتہ دیکھتا رہوں گا س کو جو اس باغ سے پیدا ہو گا۔ ایک تہائی اس کی خیرات کروں گا اور ایک تہائی میں اور میرے بال بچے کھائیں گے اور ایک تہائی اس باغ کی مرمت میں خرچ کروں گا۔“ (حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کا تہائی حصہ اللہ کی راہ میں صرف کرنا بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق پانی برساتے ہیں ایک ہی مقام میں ایک جگہ زیادہ اور ایک جگہ کم برستا ہے)۔
وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: وَأَجْعَلُ ثُلُثَهُ فِي الْمَسَاكِينِ وَالسَّائِلِينَ وَابْنِ السَّبِيلِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ایک تہائی میں مسکینوں اور سائلوں اور مسافر میں صرف کروں گا۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں بہ نسبت اور شریکوں کے محض بے پرواہ ہوں ساجھی سے، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے ساتھ میرے غیر کو ملایا اور ساجھی کیا تو میں اس کو اور اس کے ساجھی کے کام کو چھوڑ دیتا ہوں۔“ (یعنی جو عبادت اور عمل دکھانے اور شہرت کے واسطے ہو وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں مردود ہے۔ اللہ اسی عبادت اور عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ ہی کے واسطے خالص ہو۔ اور دوسرے کا اس میں کچھ لگاؤ نہ ہو)۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ سُمَيْعٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ رَاءَى رَاءَى اللَّهُ بِهِ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی ذلت لوگوں کو سنا دے گا اور جو شخص ریا کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کو دکھلائے گا۔“ (یعنی صرف ثواب دکھلائے گا پر ملے گا کچھ نہیں تاکہ صرف حسرت ہی حسرت ہو)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبًا الْعَلَقِيَّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَاءِ يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ "،
سیدنا جندب علقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جو شخص لوگوں کو اپنی نیکی سنانا چاہے گا اللہ تعالیٰ اس کی برائی یا اس کا عذاب لوگوں کو سنائے گا اور جو شخص دکھانے کے لیے عبادت کرے گا اللہ بھی اس کو دکھلائے گا۔“ (یعنی قیامت کے دن اس کے عیب لوگوں کو دکھائے گا یا صرف ثواب لوگوں کو دکھلائے گا اور ملے گا کچھ نہیں سوائے خاک کے)۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَاالْمُلَائِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا غَيْرَهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
سفیان سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی سند سے مروی ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ سَعِيدٌ: أَظُنُّهُ، قَالَ: ابْنُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبًا وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بِمِثْلِ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الصَّدُوقُ الْأَمِينُ الْوَلِيدُ بْنُ حَرْبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ولید بن حرب سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ يَنْزِلُ بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ ایسی بات کہہ بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے آگ میں اتنا اترتا جاتا ہے جیسے مشرق سے مغرب تک۔“ (جیسے کسی مسلمان کی شکایت یا مخبری حاکم وقت کے سامنے یا تہمت یا گالی یا کفر کا کلمہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمیا قرآن یا شریعت کے ساتھ۔ پس انسان کو چاہیے کہ زبان کو قابو میں رکھے بے ضرورت بات نہ کرے۔)
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مَا يَتَبَيَّنُ مَا فِيهَا، يَهْوِي بِهَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ ایک بات کہتا ہے اور نہیں جانتا اس میں کتنا نقصان ہے اس کے سبب سے آگ میں گرے گا اتنی دور تک جیسے مشرق سے مغرب۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ يَحْيَى، وَإِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: أَلَا تَدْخُلُ عَلَى عُثْمَانَ فَتُكَلِّمَهُ، فَقَالَ: أَتَرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ، مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ، وَلَا أَقُولُ لِأَحَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ أَمِيرًا، إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ، فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَى، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ أَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ يَا فُلَانُ: مَا لَكَ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ "،
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ان سے کہا گیا: تم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس نہیں جاتے اور ان سے گفتگو نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا: کیا تم سمجھے ہو کہ میں ان سے گفتگو نہیں کرتا۔ میں تم کو سناؤں، اللہ کی قسم! میں ان سے باتیں کر چکا جو مجھ کو اپنے اور ان کے بیچ میں کرنا تھیں البتہ میں نے یہ نہیں چاہا کہ وہ بات کھولوں جس کا کھولنے والا پہلے میں ہی ہوں اور میں کسی کو جو مجھ پر حاکم ہو یہ نہیں کہتا کہ وہ سب لوگوں میں بہتر ہے۔ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا پھر وہ جہنم میں ڈالا جائے گا اس کے پیٹ کی آنتیں باہر نکل آئیں گی۔ وہ ان کو لیے ہوئے گدھے کی طرح جو چکی پیستا ہے چکر لگائے گا اور جہنم والے اس کے پاس اکھٹا ہوں گے اس سے پوچھیں گے، اے فلانے! کیا تو اچھی بات کا حکم نہیں کرتا تھا اور بری بات سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا میں ایسا کرتا تھا لیکن دوسروں کو اچھی بات کا حکم کرتا اور خود نہ کرتا اور دوسروں کی بری بات سے منع کرتا اور خود اس سے باز نہ رہتا۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَدْخُلَ عَلَى عُثْمَانَ فَتُكَلِّمَهُ فِيمَا يَصْنَعُ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ وَعَبْدُ بْنُ حميدٍ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كُلُّ أُمَّتِي مُعَافَاةٌ إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْإِجْهَارِ أَنْ يَعْمَلَ الْعَبْدُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحُ قَدْ سَتَرَهُ رَبُّهُ، فَيَقُولُ يَا فُلَانُ: قَدْ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، فَيَبِيتُ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ "، قَالَ زُهَيْرٌ: وَإِنَّ مِنَ الْهِجَارِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے: ”میری تمام امت کے گناہ بخشے جائیں گے مگر ان لوگوں کے جو اپنے گناہوں کو فاش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آدمی رات کو ایک گناہ کا کام کرے، پھر صبح ہو اور پروردگار نے اس کا گناہ پوشیدہ رکھا ہو وہ دوسرے سے کہے: اے فلانے! میں نے گزشتہ رات کو ایسا ایسا کام کیا، رات کو تو پروردگار نے اس کو چھپایا اور رات بھر چھپاتا رہا، صبح کو اس نے پردہ کھول دیا۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ وَهُوَ ابْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: عَطَسَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقَالَ: الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ عَطَسَ فُلَانٌ فَشَمَّتَّهُ وَعَطَسْتُ أَنَا فَلَمْ تُشَمِّتْنِي، قَالَ: " إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا جواب دیا اور دوسرے کا جواب نہ دیا۔ جس کو جواب نہ دیا وہ بولا: کہ اس نے چھینکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا لیکن میں نے چھینکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے (یعنی جس کا جواب دیا) اللہ کا شکر کیا اور تو نے اللہ کا شکر نہ کیا۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ فِي بَيْتِ بِنْتِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَعَطَسْتُ فَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى أُمِّي، فَأَخْبَرْتُهَا فَلَمَّا جَاءَهَا، قَالَتْ: عَطَسَ عِنْدَكَ ابْنِي فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ فَلَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَحَمِدَتِ اللَّهَ، فَشَمَّتُّهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَشَمِّتُوهُ فَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلَا تُشَمِّتُوهُ ".
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا وہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے گھر میں تھے (ام کلثوم ان کا نام تھا پہلے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جب انہوں نے طلاق دے دی تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا) میں چھینکا تو ابوموسٰی نے جواب نہ دیا (یعنی «يرحمك الله» نہ کہا:) پھر وہ چھینکیں تو ان کو جواب دیا۔ میں اپنی ماں کے پاس گیا اور ان سے یہ حال بیان کیا۔ جب ابوموسٰی رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو میری ماں نے ان سے کہا: میرا بیٹا چھینکا تو تم نے جواب نہ دیا اور وہ عورت چھینکی تو تم نے جواب دیا ابوموسٰی نے کہا: تیرا بیٹا چھینکا تو اس نے «الحمد لله» نہیں کہا: اس لیے میں نے جواب نہیں دیا اور وہ عورت چھینکی اس نے «الحمد لله» کہا: تو میں نے جواب دیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”جب تم میں سے کوئی چھینکے پھر اللہ کا شکر کرے (یعنی «الحمد لله» کہے)تو اس کو جواب دو جو «الحمد لله» نہ کہے اس کو جواب مت دو۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: " يَرْحَمُكَ اللَّهُ "، ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الرَّجُلُ مَزْكُومٌ ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چھینکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «يَرْحَمُكَ اللَّهُ» ۔“ پھر وہ چھینکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو زکام ہو گیا۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " التَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمائی شیطان کی طرف سے ہے (کیونکہ وہ سستی اور ثقل کی نشانی ہے اور امتلاء بدن کی) پھر جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو روکے جہاں تک ہو سکے۔“ (یعنی منہ پر ہاتھ رکھے)۔
حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ مَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنًا لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ يُحَدِّثُ أَبِي، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَثَاوَبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُمْسِكْ بِيَدِهِ عَلَى فِيهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھے اس لیے کہ شیطان (مکھی یا کیڑا وغیرہ بعض وقت) اندر گھس جاتا ہے۔“ (یا درحقیقت شیطان گھستا ہے اور یہی صحیح ہے)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا تَثَاوَبَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُمْسِكْ بِيَدِهِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَثَاوَبَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اس کو روکے جہاں تک ہو سکے اس لیے کہ شیطان اندر گھستا ہے۔“ (دل میں وسوسہ ڈالنے کے لیے اور نماز بھلانے کے لیے)۔
وحَدَّثَنَاه عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَعَنْ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ بِشْرٍ وَعَبْدِ الْعَزِيزِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ بْنُ حميدٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے نور سے بنائے گئے اور جن آگ کی لو سے اور سیدنا آدم علیہ السلام اس سے جو قرآن میں بیان ہوا یعنی مٹی سے۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، ومحمد بن عبد الله الرزي جميعا، عَنْ الثَّقَفِيِّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَلَا أُرَاهَا إِلَّا الْفَأْرَ أَلَا تَرَوْنَهَا إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الْإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْهُ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْهُ "، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ كَعْبًا، فَقَالَ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ذَلِكَ مِرَارًا، قُلْتُ: أَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ، وقَالَ إِسْحَاقُ فِي رِوَايَتِهِ: لَا نَدْرِي مَا فَعَلَتْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرایئل کا ایک گروہ گم ہو گیا تھا، معلوم نہ ہوا وہ کہاں گیا۔ میں سمجھتا ہوں وہ گروہ چوہے ہیں (مسخ ہو گئے) کیا تم نہیں دیکھتے جب چوہوں کے لیے اونٹ کا دودھ رکھو تو وہ نہیں پیتے اور جب بکری کا دودھ رکھو تو پی لیتے ہیں۔“ (گویا یہ قرینہ ہے کہ چوہے وہ بنی اسرائیل کے لوگ ہوں جو مسخ ہوئے تھے اگرچہ وہ زندہ نہ رہے ہوں اس لیے کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں اونٹ کا گوشت اور اونٹ کا دودھ حرام تھا)۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث میں نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے بیان کی، انہوں نے کہا: تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟ میں نے کہا: ہاں۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کئی بار پوچھا: میں نے کہا: کیا میں تورات پڑھتا ہوں؟ (جو اس میں دیکھ کر یہ روایت میں نے حاصل کی ہو گی۔ میرا تو سارا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے)۔
وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " الْفَأْرَةُ مَسْخٌ وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّهُ يُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهَا لَبَنُ الْغَنَمِ، فَتَشْرَبُهُ وَيُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهَا لَبَنُ الْإِبِلِ، فَلَا تَذُوقُهُ، فَقَالَ لَهُ كَعْبٌ: أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: أَفَأُنْزِلَتْ عَلَيَّ التَّوْرَاةُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: چوہا آدمی ہے جو مسخ ہو گیا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ چوہے کے سامنے بکری کا دودھ رکھو تو پی لیتا ہے اور اونٹ کا رکھو تو چکھتا تک نہیں۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر نہیں تو کیا مجھ پر تورات اتری تھی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈنگ نہیں لگتا۔ (یعنی مومن کو ہوشیاری لازم ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی معاملہ میں ایک بار خطا اٹھائے تو دوبارہ اس کو نہ کرے «من جرب المجرب به الندامة» کا یہی مضمون ہے اور بعضوں نے کہا: یہ حدیث آخرت کے کاموں میں ہے اور یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی جب ایک شاعر کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا قید کیا، پھر احسان رکھ کر اس کو مفت چھوڑ دیا اس شرط سے کہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ستائے لیکن اس نے رہائی کے بعد پھر وہی شرارت شروع کی پھر پکڑا گیا اس نے پھر درخواست کی مفت چھوڑ دینے کی۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی۔ اس شاعرہ کا نام باغرہ تھا۔)
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَاابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ جَمِيعًا، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَاللَّفْظُ لِشَيْبَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ ".
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا بھی عجب حال ہے اس کا ثواب کہیں نہیں گیا۔ یہ بات کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: " وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا صَاحِبَهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ فُلَانًا وَاللَّهُ حَسِيبُهُ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا أَحْسِبُهُ، إِنْ كَانَ يَعْلَمُ ذَاكَ كَذَا وَكَذَا ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے ایک شخص کی تعریف کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹی، اپنے بھائی کی گردن کاٹی۔“ کئی بار! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی تم سے اپنے بھائی کی خواہ مخواہ تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے: میں سمجھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور میں دل کا حال نہیں جانتا یا عاقبت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا ہے اگر اس بات کو جانتا ہو۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَبَلَةَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنَا غُنْدَرٌ ، قَالَ: شُعْبَةُ حَدَّثَنَا، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مِنْ رَجُلٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْهُ فِي كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا، يَقُولُ ذَلِكَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُ فُلَانًا، إِنْ كَانَ يُرَى أَنَّهُ كَذَلِكَ وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا " ,
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! اللہ کے رسول کے بعد کوئی شخص اس سے بہتر نہیں فلاں فلاں کام میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر افسوس! تو نے اپنے صاحب کی گردن کاٹی۔“ کئی بار یہ فرمایا پھر فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے ضرور بالضرور تو یوں کہے: میں خیال کرتا ہوں (اگر وہ واقعی ایسا ہو) کہ وہ ایسا ہے اس پر بھی میں اللہ کے سامنے کسی کی اچھا نہیں کہتا۔“ (یعنی معلوم نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک کیسا ہے کیونکہ یہ علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں یا جس کو اللہ بتلائے۔)
وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ . ح وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا مِنْ رَجُلٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْهُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے بعد اس سے کوئی بہتر نہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُثْنِي عَلَى رَجُلٍ وَيُطْرِيهِ فِي الْمِدْحَةِ، فَقَالَ: " لَقَدْ أَهْلَكْتُمْ أَوْ قَطَعْتُمْ ظَهْرَ الرَّجُلِ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ایک شخص کو تعریف کرتے ہوئے ایک شخص کی جو مبالغہ کر رہا تھا اس کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ہلاک کیا یا کاٹا اس شخص کی پیٹھ کو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ يُثْنِي عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُيَحْثِي عَلَيْهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثِيَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ ".
سیدنا ابومعمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص کسی امیر کی امیروں میں سے تعریف کر رہا تھا۔ سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ نے اس پر مٹی ڈالنا شروع کی اور کہا: حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ پر مٹی ڈالو (مراد حقیقتاً مٹی ڈالنا ہے جیسے مقداد سمجھے یا ناامید کرنا ہے یا کچھ نہ دینا یا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے منہ پر مٹی ڈالو یعنی عاجزی اور اپنی ذلت بیان کرو مغرور نہ ہو)۔
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ رَجُلًا جَعَلَ يَمْدَحُ عُثْمَانَ، فَعَمِدَ الْمِقْدَادُ ، فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَكَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، فَجَعَلَ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ الْحَصْبَاءَ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ: مَا شَأْنُكَ؟، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَدَّاحِينَ فَاحْثُوا فِي وُجُوهِهِمُ التُّرَابَ "،
ہمام بن حارث سے روایت ہے، ایک شخص سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف کرنے لگا، سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اور وہ موٹے آدمی تھے اور تعریف کرنے والے کے منہ پر کنکریاں ڈالنے لگے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے مقداد! تم کو کیا ہوا؟ وہ بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر خاک ڈالو۔“
وَحَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ . ح وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، وَمَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ الْمِقْدَادِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ يَعْنِي ابْنَ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَآنِي فِي الْمَنَامِ أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ، فَجَذَبَنِي رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الْآخَرِ، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الْأَصْغَرَ مِنْهُمَا، فَقِيلَ لِي كَبِّرْ فَدَفَعْتُهُ إِلَى الْأَكْبَرِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جب خواب میں دیکھا میں مسواک کر رہا ہوں تو دو شخصوں نے مجھ کو کھینچا ایک بڑا تھا اور دوسرا چھوٹا۔ میں نے چھوٹے کو مسواک دی مجھ سے کہا: گیا بڑے کو دے۔“ (معلوم ہوا کہ بڑے کی عظمت کرنی چاہیے اور یہ ادب میں داخل ہے۔)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا بِهِ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، وَيَقُولُ " اسْمَعِي يَا رَبَّةَ الْحُجْرَةِ، اسْمَعِي يَا رَبَّةَ الْحُجْرَةِ، وَعَائِشَةُ تُصَلِّي، فَلَمَّا قَضَتْ صَلَاتَهَا، قَالَتْ لِعُرْوَةَ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذَا؟، وَمَقَالَتِهِ آنِفًا، إِنَّمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ عَدَّهُ الْعَادُّ لَأَحْصَاهُ ".
عروہ سے روایت ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے تھے: اور کہتے تھے سن اے حجرہ والی! سن اے حجرہ والی! اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھتی تھیں۔ جب نماز پڑھ چکیں تو انہوں نے عروہ سے کہا: تم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی باتیں سنیں (اتنی دیر میں انہوں نے کتنی حدیثیں بیان کیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے بات کرتے تھے کہ گننے والا اس کو چاہتا تو گن لیتا (یعنی ٹھہر ٹھہر کر آہستہ سے اور یہی تہذیب ہے اور جلدی جلدی باتیں کرنا عقلمندی اور دانائی کا شیوہ نہیں۔)
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَكْتُبُوا عَنِّي، وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ، فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي، وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ "، قَالَ هَمَّامٌ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مت لکھو میرا کلام اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا دے مگر قرآن کو نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔“
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَ مَلِكٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَكَانَ لَهُ سَاحِرٌ، فَلَمَّا كَبِرَ، قَالَ لِلْمَلِكِ: إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ، فَابْعَثْ إِلَيَّ غُلَامًا أُعَلِّمْهُ السِّحْرَ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ غُلَامًا يُعَلِّمُهُ، فَكَانَ فِي طَرِيقِهِ إِذَا سَلَكَ رَاهِبٌ، فَقَعَدَ إِلَيْهِ وَسَمِعَ كَلَامَهُ، فَأَعْجَبَهُ، فَكَانَ إِذَا أَتَى السَّاحِرَ مَرَّ بِالرَّاهِبِ، وَقَعَدَ إِلَيْهِ، فَإِذَا أَتَى السَّاحِرَ ضَرَبَهُ، فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى الرَّاهِبِ، فَقَالَ: إِذَا خَشِيتَ السَّاحِرَ، فَقُلْ حَبَسَنِي أَهْلِي، وَإِذَا خَشِيتَ أَهْلَكَ، فَقُلْ حَبَسَنِي السَّاحِرُ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَتَى عَلَى دَابَّةٍ عَظِيمَةٍ قَدْ حَبَسَتِ النَّاسَ، فَقَالَ: الْيَوْمَ أَعْلَمُ آلسَّاحِرُ أَفْضَلُ أَمْ الرَّاهِبُ أَفْضَلُ، فَأَخَذَ حَجَرًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَمْرُ الرَّاهِبِ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ أَمْرِ السَّاحِرِ، فَاقْتُلْ هَذِهِ الدَّابَّةَ حَتَّى يَمْضِيَ النَّاسُ، فَرَمَاهَا فَقَتَلَهَا، وَمَضَى النَّاسُ، فَأَتَى الرَّاهِبَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: أَيْ بُنَيَّ أَنْتَ الْيَوْمَ أَفْضَلُ مِنِّي قَدْ بَلَغَ مِنْ أَمْرِكَ مَا أَرَى، وَإِنَّكَ سَتُبْتَلَى فَإِنِ ابْتُلِيتَ فَلَا تَدُلَّ عَلَيَّ، وَكَانَ الْغُلَامُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ، وَيُدَاوِي النَّاسَ مِنْ سَائِرِ الْأَدْوَاءِ، فَسَمِعَ جَلِيسٌ لِلْمَلِكِ كَانَ قَدْ عَمِيَ، فَأَتَاهُ بِهَدَايَا كَثِيرَةٍ، فَقَالَ: مَا هَاهُنَا لَكَ أَجْمَعُ إِنْ أَنْتَ شَفَيْتَنِي، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ، فَإِنْ أَنْتَ آمَنْتَ بِاللَّهِ دَعَوْتُ اللَّهَ فَشَفَاكَ، فَآمَنَ بِاللَّهِ فَشَفَاهُ اللَّهُ، فَأَتَى الْمَلِكَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ كَمَا كَانَ يَجْلِسُ، فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: مَنْ رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ؟، قَالَ: رَبِّي، قَالَ: وَلَكَ رَبٌّ غَيْرِي؟، قَالَ: رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ، فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الْغُلَامِ، فَجِيءَ بِالْغُلَامِ، فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: أَيْ بُنَيَّ قَدْ بَلَغَ مِنْ سِحْرِكَ مَا تُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ، وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَشْفِي أَحَدًا إِنَّمَا يَشْفِي اللَّهُ، فَأَخَذَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُعَذِّبُهُ حَتَّى دَلَّ عَلَى الرَّاهِبِ، فَجِيءَ بِالرَّاهِبِ، فَقِيلَ لَهُ: ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، فَأَبَى فَدَعَا بِالْمِئْشَارِ، فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، فَشَقَّهُ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ ثُمَّ جِيءَ بِجَلِيسِ الْمَلِكِ، فَقِيلَ لَهُ: ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، فَأَبَى فَوَضَعَ الْمِئْشَارَ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، فَشَقَّهُ بِهِ حَتَّى وَقَعَ شِقَّاهُ، ثُمَّ جِيءَ بِالْغُلَامِ، فَقِيلَ لَهُ: ارْجِعْ عَنْ دِينِكَ، فَأَبَى فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا، فَاصْعَدُوا بِهِ الْجَبَلَ، فَإِذَا بَلَغْتُمْ ذُرْوَتَهُ، فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ وَإِلَّا فَاطْرَحُوهُ، فَذَهَبُوا بِهِ فَصَعِدُوا بِهِ الْجَبَلَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَرَجَفَ بِهِمُ الْجَبَلُ، فَسَقَطُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ لَهُ الْمَلِكُ: مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟، قَالَ: كَفَانِيهِمُ اللَّهُ، فَدَفَعَهُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اذْهَبُوا بِهِ، فَاحْمِلُوهُ فِي قُرْقُورٍ، فَتَوَسَّطُوا بِهِ الْبَحْرَ، فَإِنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ، وَإِلَّا فَاقْذِفُوهُ، فَذَهَبُوا بِهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ، فَانْكَفَأَتْ بِهِمُ السَّفِينَةُ، فَغَرِقُوا وَجَاءَ يَمْشِي إِلَى الْمَلِكِ، فَقَالَ لَهُ: الْمَلِكُ مَا فَعَلَ أَصْحَابُكَ؟، قَالَ: كَفَانِيهِمُ اللَّهُ، فَقَالَ لِلْمَلِكِ: إِنَّكَ لَسْتَ بِقَاتِلِي حَتَّى تَفْعَلَ مَا آمُرُكَ بِهِ، قَالَ: وَمَا هُوَ؟، قَالَ: تَجْمَعُ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، وَتَصْلُبُنِي عَلَى جِذْعٍ ثُمَّ خُذْ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِي، ثُمَّ ضَعِ السَّهْمَ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ، ثُمَّ قُلْ: بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ، ثُمَّ ارْمِنِي، فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ قَتَلْتَنِي، فَجَمَعَ النَّاسَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ وَصَلَبَهُ عَلَى جِذْعٍ، ثُمَّ أَخَذَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، ثُمَّ وَضَعَ السَّهْمَ فِي كَبْدِ الْقَوْسِ، ثُمَّ قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ثُمَّ رَمَاهُ، فَوَقَعَ السَّهْمُ فِي صُدْغِهِ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي صُدْغِهِ فِي مَوْضِعِ السَّهْمِ، فَمَاتَ، فَقَالَ: النَّاسُ آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، آمَنَّا بِرَبِّ الْغُلَامِ، فَأُتِيَ الْمَلِكُ، فَقِيلَ لَهُ: أَرَأَيْتَ مَا كُنْتَ تَحْذَرُ، قَدْ وَاللَّهِ نَزَلَ بِكَ حَذَرُكَ قَدْ آمَنَ النَّاسُ، فَأَمَرَ بِالْأُخْدُودِ فِي أَفْوَاهِ السِّكَكِ، فَخُدَّتْ وَأَضْرَمَ النِّيرَانَ، وَقَالَ: مَنْ لَمْ يَرْجِعْ عَنْ دِينِهِ، فَأَحْمُوهُ فِيهَا أَوْ قِيلَ لَهُ اقْتَحِمْ، فَفَعَلُوا حَتَّى جَاءَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، فَتَقَاعَسَتْ أَنْ تَقَعَ فِيهَا، فَقَالَ لَهَا: الْغُلَامُ يَا أُمَّهْ اصْبِرِي، فَإِنَّكِ عَلَى الْحَقِّ ".
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو بادشاہ سے بولا: میں بوڑھا ہو گیا ہوں میرے پاس کوئی لڑکا بھیج میں اس کو جادو سکھلاؤں۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا، وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا (نصرانی درویش یعنی پادری تارک الدنیا) وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھتا اور اس کا کلام سنتا۔ اس کو بھلا معلوم ہوتا۔ جب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو مارتا۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا۔ راہب نے کہا: جب تو جادوگر سے ڈرے تو یہ کہہ دیا کر میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھ کو روک رکھا تھا۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ ناگاہ ایک بڑے قد کے جانور پر گزرا جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک دیا تھا۔ لڑکے نے کہا کہ آج دریافت کرتا ہوں جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے۔ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا: الہیٰ! اگر راہب کا طریقہ تجھ کو پسند ہو جادوگر کے طریقہ سے تو اس جانور کو قتل کر تاکہ لوگ چلیں پھریں۔ پھر اس کو مارا اس پتھر سے وہ جانور مر گیا اور لوگ چلنے پھرنے لگے۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا۔ وہ بولا: بیٹا! تو مجھ سے بڑھ گیا مقرر تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو قریب آزمایا جائے گا پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا۔ یہ حال بادشاہ کے ایک مصاحب نے سنا وہ اندھا ہو گیا تھا وہ بہت سے تحفے لے کر لڑکے کے پاس آیا اور کہنے لگا: یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھ کو اچھا کر دے۔ لڑکے نے کہا: میں کسی کو اچھا نہیں کرتا، اچھا کرنا تو اللہ کا کام ہے۔ اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں وہ تجھ کو اچھا کر دے گا۔ وہ مصاحب اللہ پر ایمان لایا۔ اللہ نے اس کو اچھا کر دیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے کہا: تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ مصاحب بولا: میرے مالک نے۔ بادشاہ نے کہا: میرے سوا تیرا کون مالک ہے؟ مصاحب نے کہا: میرا اور تیرا دونوں کا مالک اللہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارنا شروع کیا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لیا۔ وہ لڑکا بلایا گیا بادشاہ نے اس سے کہا: اے بیٹا! تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہے اور بڑے بڑے کام کرتا ہے؟ وہ بولا: میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا، اللہ اچھا کرتا ہے۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور مارتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتلایا۔ وہ راہب پکڑا ہوا آیا۔ اس سے کہا گیا: اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے نہ مانا، بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی چندیا پر رکھا اور اس کو چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ مصاحب بلایا گیا اس سے کہا گیا: تو اپنے دین سے پھر جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ اس کی چندیا پر بھی آرہ رکھا اور چیز ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گرا۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا۔ اس سے کہا: اپنے دین سے پلٹ جا۔ اس نے بھی نہ مانا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ۔ جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو: اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر نہیں تو اس کو دھکیل دو۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے دعا کی الہٰی! تو جس طرح سے چاہے مجھے ان کے شر سے بچا۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا۔ بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھی کدھر گئے؟ اس نے کہا: اللہ نے مجھ کو ان کے شر سے بچایا۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند مصاحبوں کے حوالے کیا اور کہا: اس کو لے جاؤ ایک ناؤ پر چڑھاؤ اور دریا کے اندر لے جاؤ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دو۔ وہ لوگ اس کو لے گئے لڑکے نے کہا: الہٰی! تو مجھ کو جس طرح چاہے ان کے شر سے بچائے۔ وہ ناؤ اوندھی ہو گئی اور لڑکے کے ساتھی سب ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا: تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا: اللہ تعالیٰ نے ان سے مجھ کو بچایا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھ کو نہ مار سکے گا یہاں تک کہ میں جو بتلاؤں وہ کرے۔ بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس نے کہا: تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر اور ایک لکڑی پر مجھ کو سولی دے، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے اور کمان کے اندر رکھ پھر کہہ اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا مالک ہے مارتا ہوں، پھر تیر مار۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھ کو قتل کرے گا۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا اور اس لڑکے کو ایک لکڑی پر سولی دی، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندررکھ کر کہا: اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے اور تیر مارا۔ وہ لڑکے کی کنپٹی پر لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا، اور لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا: ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے۔ کسی نے بادشاہ سے کہا: جس چیز سے تو ڈرتا تھا اللہ کی قسم وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے۔ بادشاہ نے حکم دیا راہوں کے ناکوں پر خندقیں کھودنے کا۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان کے اندر خوب آگ بھڑکائی اور کہا: جو شخص اس دین سے (یعنی لڑکے کے دین سے) نہ پھرے اس کو ان خندقوں میں دھکیل دو یا اس سے کہو کہ ان خندقوں میں گرے۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت آگ میں گرنے سے جھجکی (پیچھے ہٹی) بچے نے کہا: اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔“ (تو مرنے کے بعد پھر چین ہی چین ہے پھر تو دنیا کی مصیبت سے کیوں ڈرتی ہے۔)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، وَالسِّيَاقُ لِهَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُجَاهِدٍ أَبِي حَزْرَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: " خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي نَطْلُبُ الْعِلْمَ فِي هَذَا الْحَيِّ مِنْ الْأَنْصَارِ قَبْلَ أَنْ يَهْلِكُوا، فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ لَقِينَا أَبَا الْيَسَرِ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غُلَامٌ لَهُ مَعَهُ ضِمَامَةٌ مِنْ صُحُفٍ، وَعَلَى أَبِي الْيَسَرِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيَّ وَعَلَى غُلَامِهِ بُرْدَةٌ وَمَعَافِرِيَّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: يَا عَمِّ إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِكَ سَفْعَةً مِنْ غَضَبٍ؟، قَالَ: أَجَلْ كَانَ لِي عَلَى فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ الْحَرَامِيِّ مَالٌ، فَأَتَيْتُ أَهْلَهُ، فَسَلَّمْتُ، فَقُلْتُ: ثَمَّ هُوَ، قَالُوا: لَا فَخَرَجَ عَلَيَّ ابْنٌ لَهُ جَفْرٌ، فَقُلْتُ لَهُ: أَيْنَ أَبُوكَ؟، قَالَ: سَمِعَ صَوْتَكَ فَدَخَلَ أَرِيكَةَ أُمِّي، فَقُلْتُ: اخْرُجْ إِلَيَّ فَقَدْ عَلِمْتُ أَيْنَ أَنْتَ فَخَرَجَ، فَقُلْتُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى أَنِ اخْتَبَأْتَ مِنِّي؟، قَالَ: أَنَا وَاللَّهِ أُحَدِّثُكَ، ثُمَّ لَا أَكْذِبُكَ خَشِيتُ وَاللَّهِ أَنْ أُحَدِّثَكَ فَأَكْذِبَكَ، وَأَنْ أَعِدَكَ فَأُخْلِفَكَ وَكُنْتَ صَاحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ وَاللَّهِ مُعْسِرًا، قَالَ: قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قُلْتُ: آللَّهِ، قَالَ: اللَّهِ، قَالَ: فَأَتَى بِصَحِيفَتِهِ، فَمَحَاهَا بِيَدِهِ، فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتَ قَضَاءً، فَاقْضِنِي وَإِلَّا أَنْتَ فِي حِلٍّ، فَأَشْهَدُ بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى عَيْنَيْهِ وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ وَوَعَاهُ قَلْبِي هَذَا، وَأَشَارَ إِلَى مَنَاطِ قَلْبِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ،
عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں اور میرا باپ دونوں نکلے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے انصار کے قبیلہ میں قبل اس کے کہ وہ مر جائیں۔ (یعنی انصار سے صحابہ کی حدیث سننے کے لیے) تو سب پہلے ہم ابوالیسر سے ملے جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی تھا جو کتابوں (خطوں) کا یک گھٹا لیے ہوئے تھا اور ابوالیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک کپڑا تھا معافری (معافر ایک گاؤں ہے وہاں کا کپڑا اس کو معافری کہتے ہیں یا معافر ایک قبیلہ ہے) ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک کپڑا تھا معافری (یعنی میاں اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے تھے) میں نے ان سے کہا: اے چچا! تمہارا چہرہ رنج کا نشان معلوم ہوتا ہے۔ وہ بولے: ہاں میرا قرض آتا تھا فلاں پر جو فلانے کا بیٹا ہے بنی حرام کے قبیلہ میں سے۔ میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا اور سلام کیا اور پوچھا: وہ شخص کہاں ہے؟ اس کا ایک بیٹا جو جوانی کے قریب تھا باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا: تیرا باپ کہاں ہے؟ وہ بولا: تمہاری آواز سن کر میری ماں کے چھپر کھٹ میں گھس گیا۔ تب تو میں نے آواز دی اور کہا: اے فلانے! باہر نکل میں نے جان لیا تو جہاں ہے۔ یہ سن کر وہ نکلا۔ میں نے کہا: تو مجھ سے چھپ کیوں گیا؟ وہ بولا: اللہ کی قسم! میں جو تم سے کہوں گا جھوٹ نہیں کہوں گا میں ڈرا اللہ کی قسم کہ تم سے جھوٹ بات کروں یا تم سے وعدہ کروں اور خلاف کروں اور تم صحابی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور میں قسم اللہ کی محتاج ہوں۔ میں نے کہا: سچ اللہ کی قسم تو محتاج ہے؟ وہ بولا: قسم اللہ کی۔ میں نے کہا: قسم اللہ کی۔ وہ بولا: قسم اللہ کی۔ میں نے کہا: قسم اللہ کی۔ وہ بولا: قسم اللہ کی۔ پھر اس کا تمسک لایا گیا۔ ابوالیسر نے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا: اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا نہیں تو تو آزاد ہے تو میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابوالیسر نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابوالیسر نے اشارہ کیا اپنے دل کی رگ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔“
قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَنَا يَا عَمِّ لَوْ أَنَّكَ أَخَذْتَ بُرْدَةَ غُلَامِكَ وَأَعْطَيْتَهُ مَعَافِرِيَّكَ، وَأَخَذْتَ مَعَافِرِيَّهُ وَأَعْطَيْتَهُ بُرْدَتَكَ، فَكَانَتْ عَلَيْكَ حُلَّةٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِ يَا ابْنَ أَخِي بَصَرُ عَيْنَيَّ هَاتَيْنِ، وَسَمْعُ أُذُنَيَّ هَاتَيْنِ، وَوَعَاهُ قَلْبِي هَذَا وَأَشَارَ إِلَى مَنَاطِ قَلْبِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَكَانَ أَنْ أَعْطَيْتُهُ مِنْ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
عبادہ نے کہا: میں نے ان سے کہا: اے چچا! تم اگر اپنے غلام کی چادر لے لو اور اپنا معافری اس کو دے دو تو تمہارے پاس بھی ایک جوڑا پورا ہو جائے گا اور اس کے پاس بھی ایک جوڑا ہو جائے گا۔ ابوالیسر نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: یا اللہ! برکت دے اس لڑکے کو۔ اے بھتیجے میرے! میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا اور اشارہ کیا اپنے دل کی رگ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”لونڈی اور غلام کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔“ پھر اگر میں اس کو دنیا کا سامان دے دوں تو وہ آسان ہے میرے نزدیک اس سے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔
(حديث موقوف) ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى أَتَيْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي مَسْجِدِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُشْتَمِلًا بِهِ، فَتَخَطَّيْتُ الْقَوْمَ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ أَتُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَرِدَاؤُكَ إِلَى جَنْبِكَ؟، قَالَ: فَقَالَ: بِيَدِهِ فِي صَدْرِي هَكَذَا، وَفَرَّقَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، وَقَوَّسَهَا أَرَدْتُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَيَّ الْأَحْمَقُ مِثْلُكَ، فَيَرَانِي كَيْفَ أَصْنَعُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ، أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِنَا هَذَا وَفِي يَدِهِ عُرْجُونُ ابْنِ طَابٍ، فَرَأَى فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ نُخَامَةً، فَحَكَّهَا بِالْعُرْجُونِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَخَشَعْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ؟، قَالَ: فَخَشَعْنَا، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يُعْرِضَ اللَّهُ عَنْهُ؟، قُلْنَا: لَا أَيُّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ يُصَلِّي، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلَا يَبْصُقَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ تَحْتَ رِجْلِهِ الْيُسْرَى، فَإِنْ عَجِلَتْ بِهِ بَادِرَةٌ، فَلْيَقُلْ بِثَوْبِهِ هَكَذَا ثُمَّ طَوَى ثَوْبَهُ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَرُونِي عَبِيرًا، فَقَامَ فَتًى مِنَ الْحَيِّ يَشْتَدُّ إِلَى أَهْلِهِ، فَجَاءَ بِخَلُوقٍ فِي رَاحَتِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَهُ عَلَى رَأْسِ الْعُرْجُونِ ثُمَّ لَطَخَ بِهِ عَلَى أَثَرِ النُّخَامَةِ، فَقَالَ جَابِرٌ: فَمِنْ هُنَاكَ جَعَلْتُمُ الْخَلُوقَ فِي مَسَاجِدِكُمْ
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مسجد میں آئے، وہ ایک کپڑے کو لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کی گردنوں پر سے گزرا یہاں تک کہ ان کے اور قبلہ کے بیچ میں بیٹھا۔ میں نے کہا: اللہ تم پر رحم کرے کیا تم ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہو اور تمہاری چادر پہلو میں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے سینہ پر اس طرح سے اشارہ کیا انگلیوں کو کشادہ رکھا اور ان کو کمان کی طرح خم کیا اور کہا: میں نے یہ چاہا کہ تیری مانند کوئی احمق میرے پاس آئے پھر وہ مجھے دیکھے جو میں کرتا ہوں اور ویسا ہی کرے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس مسجد میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ڈالی تھی ابن طاب کی (جو ایک کھجور ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم دیکھا (کسی نے تھوکا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کو لکڑی سے کھرچ ڈالا، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تم میں سے کون یہ بات چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟“، ہم یہ سن کر ڈر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟“ ہم یہ سن کر ڈر گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے؟“ ہم نے کہا: کوئی نہیں یہ چاہتا یا رسول اللہ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے نماز میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہے۔“ (نووی رحمہ اللہ نے کہا: یعنی جہت جس کو اللہ نے عظمت دی یا کعبہ) تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف بلکہ بائیں طرف پاؤں کے تلے۔ اگر بلغم جلدی نکلنا چاہے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر ایسا کر لے۔“ پھر اپنے کپڑے کو تہہ بہ تہہ لپیٹا۔ بعد اس کے فرمایا: ”میرے پاس خوشبو لاؤ۔“ ایک جوان ہمارے قبیلہ میں سے لپکا اور اپنے گھر والوں میں دوڑا گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خوشبو کو لکڑی کی نوک پر لگایا اور جہاں بلغم کا نشان مسجد پر تھا وہاں لگا دی۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس حدیث سے تم اپنی مسجدوں میں خوشبو رکھتے ہو۔
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَطْنِ بُوَاطٍ وَهُوَ يَطْلُبُ الْمَجْدِيَّ بْنَ عَمْرٍو الْجُهَنِيَّ، وَكَانَ النَّاضِحُ يَعْقُبُهُ مِنَّا الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ وَالسَّبْعَةُ، فَدَارَتْ عُقْبَةُ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى نَاضِحٍ لَهُ، فَأَنَاخَهُ فَرَكِبَهُ ثُمَّ بَعَثَهُ، فَتَلَدَّنَ عَلَيْهِ بَعْضَ التَّلَدُّنِ، فَقَالَ لَهُ: شَأْ لَعَنَكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا اللَّاعِنُ بَعِيرَهُ؟، قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ انْزِلْ عَنْهُ، فَلَا تَصْحَبْنَا بِمَلْعُونٍ لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَوْلَادِكُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللَّهِ سَاعَةً، يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاءٌ، فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے بطن بواط کی لڑائی میں (وہ ایک پہاڑ ہے جہینہ کے پہاڑوں میں سے) اور آپصلی اللہ علیہ وسلم تلاش میں تھے مجدی بن عمرو جہنی کے (جو ایک کافر تھا)اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا جس پر باری باری سوار ہوتے تو ایک انصاری کی باری آئی چڑھنے کی، اس نے اونٹ کو بٹھایا اس پر چڑھا پھر اس کو اٹھایا تو وہ کچھ اڑا۔ وہ انصاری بولا: شاء (یہ کلمہ ہے اونٹ کے ڈانٹنے کا) اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے جو لعنت کرتا ہے اپنے اونٹ پر؟“ وہ انصاری بولا: میں ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اونٹ پر سے اتر جا اور ہمارے ساتھ وہ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ مت بددعا کرو جانوں کے لیے اور مت بددعا کرو اپنی اولاد کے لیے اور مت بددعا کرو اپنے مالوں کے لیے۔ ایسا نہ ہو یہ بددعا اس ساعت میں نکلے جب اللہ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کرتا ہے۔“ (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آئے)۔
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ عُشَيْشِيَةٌ، وَدَنَوْنَا مَاءً مِنْ مِيَاهِ الْعَرَبِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ يَتَقَدَّمُنَا، فَيَمْدُرُ الْحَوْضَ، فَيَشْرَبُ وَيَسْقِينَا، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: هَذَا رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ رَجُلٍ مَعَ جَابِرٍ، فَقَامَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْبِئْرِ، فَنَزَعْنَا فِي الْحَوْضِ سَجْلًا أَوْ سَجْلَيْنِ، ثُمَّ مَدَرْنَاهُ ثُمَّ نَزَعْنَا فِيهِ حَتَّى أَفْهَقْنَاهُ، فَكَانَ أَوَّلَ طَالِعٍ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَأْذَنَانِ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشْرَعَ نَاقَتَهُ، فَشَرِبَتْ شَنَقَ لَهَا، فَشَجَتْ فَبَالَتْ ثُمَّ عَدَلَ بِهَا، فَأَنَاخَهَا ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحَوْضِ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ قُمْتُ، فَتَوَضَّأْتُ مِنْ مُتَوَضَّإِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ ذَهَبْتُ أَنْ أُخَالِفَ بَيْنَ طَرَفَيْهَا، فَلَمْ تَبْلُغْ لِي وَكَانَتْ لَهَا ذَبَاذِبُ، فَنَكَّسْتُهَا ثُمَّ خَالَفْتُ بَيْنَ طَرَفَيْهَا ثُمَّ تَوَاقَصْتُ عَلَيْهَا ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى قُمْتُ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ جَاءَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ جَاءَ فَقَامَ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْنَا جَمِيعًا، فَدَفَعَنَا حَتَّى أَقَامَنَا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمُقُنِي وَأَنَا لَا أَشْعُرُ، ثُمَّ فَطِنْتُ بِهِ، فَقَالَ: هَكَذَا بِيَدِهِ يَعْنِي شُدَّ وَسَطَكَ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا جَابِرُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِذَا كَانَ وَاسِعًا، فَخَالِفْ بَيْنَ طَرَفَيْهِ، وَإِذَا كَانَ ضَيِّقًا، فَاشْدُدْهُ عَلَى حَقْوِكَ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جب شام ہوئی اور عرب کے ایک پانی سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون شخص ہم لوگوں سے اگے بڑھ کر حوض کو درست کر رکھے گا؟ آپ بھی پئے اور ہم کو بھی پلائے گا“۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یہ شخص آگے جائے گا یا رسول اللہ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کون شخص جابر کے ساتھ جاتا ہے؟“ تو جبار بن صخر اٹھے۔ خبر ہم دونوں آدمی کنویں کی طرف چلے اور حوض میں ایک یا دو ڈول ڈالے پھر اس پر مٹی لگائی، بعد اس کے اس میں پانی بھرنا شروع کیا یہاں تک کہ لبالب بھر دیا۔ سب سے پہلے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمدکھلائی دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں شخص اجازت دیتے ہو (مجھ کو پانی پلانے کی اپنے جانور کو)؟“ ہم نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا، اس نے پانی پیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باگ کھینچی اس نے پانی پینا موقوف کیا اور پیشاب کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو الگ لے گئے اور بٹھا دیا۔ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حوض کی طرف آئے اور وضو کیا۔ اس میں سے، میں بھی کھڑا ہوا اور جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا میں نے بھی وضو کیا۔ جبار بن صخر حاجت کے لیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے، میرے بدن پر ایک چادر تھی، میں اس کے دونوں کناروں کو الٹنے لگا وہ چھوٹی ہوئی۔ اس میں پھندے لگے تھے۔ آخر میں نے اس کو اوندھا کیا پھر اس کے دونوں کنارے الٹے کیے پھر اس کو باندھا اپنی گردن سے۔ اس کے بعد میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھمایا اور داہنی طرف کھڑا کیا، پھر جبار بن صخر آئے، انہوں نے بھی وضو کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور پیچھے ہٹایا یہاں تک کہ ہم کو کھڑا کیا اپنے پیچھے(معلوم ہوا کہ اتنا عمل نماز میں درست ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو گھورنا شروع کیا اور مجھ کو خبر نہیں۔ بعد اس کے خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے کہ اپنی کمر باندھ لے (تاکہ ستر نہ کھلے)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو کہا: ”اے جابر!“ میں نے عرض کیا: حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کنارے الٹ لے اور جب تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لے۔“
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قُوتُ كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا فِي كُلِّ يَوْمٍ تَمْرَةً، فَكَانَ يَمَصُّهَا ثُمَّ يَصُرُّهَا فِي ثَوْبِهِ وَكُنَّا نَخْتَبِطُ بِقِسِيِّنَا، وَنَأْكُلُ حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا، فَأُقْسِمُ أُخْطِئَهَا رَجُلٌ مِنَّا يَوْمًا، فَانْطَلَقْنَا بِهِ نَنْعَشُهُ، فَشَهِدْنَا أَنَّهُ لَمْ يُعْطَهَا، فَأُعْطِيَهَا، فَقَامَ فَأَخَذَهَا
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو خوراک کے لیے ہر روز ایک کھجور ملتی تھی وہ اس کو چوس لیتا تھا، پھر اس کو پھراتا اپنے دانتوں میں اور ہم اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑتے اور ان کو کھاتے یہاں تک کہ ہماری باچھیں زخمی ہو گئیں (پتے کھاتے کھاتے اس کی گرمی اور خشکی سے)، پھر کھجور کا بانٹنے والا ایک دن ہم میں سے ایک شخص کو بھول گیا۔ ہم اس شخص کو اٹھا کر لے گئے اور گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں ملی۔ بانٹنے والے نے اس کو کھجور دی وہ کھڑا ہو گیا اور کھجور لے لی۔
سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلْنَا وَادِيًا أَفْيَحَ، فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُ بِهِ، فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِئِ الْوَادِي، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى إِحْدَاهُمَا، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَالْبَعِيرِ الْمَخْشُوشِ الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ حَتَّى أَتَى الشَّجَرَةَ الْأُخْرَى، فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَانْقَادَتْ مَعَهُ كَذَلِكَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْمَنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا لَأَمَ بَيْنَهُمَا يَعْنِي جَمَعَهُمَا، فَقَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اللَّهِ، فَالْتَأَمَتَا، قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ أُحْضِرُ مَخَافَةَ أَنْ يُحِسَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُرْبِي فَيَبْتَعِدَ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ: فَيَتَبَعَّدَ فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي، فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَةٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا، فَقَامَتْ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَى سَاقٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ وَقْفَةً، فَقَالَ بِرَأْسِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ أَبُو إِسْمَاعِيلَ بِرَأْسِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا ثُمَّ أَقْبَلَ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَيَّ، قَالَ: يَا جَابِرُ هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟، قُلْتُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَى الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، فَأَقْبِلْ بِهِمَا حَتَّى إِذَا قُمْتَ مَقَامِي، فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِينِكَ وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِكَ، قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا، فَكَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ فَانْذَلَقَ لِي، فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتَّى قُمْتُ مَقَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِينِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ، فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَعَمَّ ذَاكَ، قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ بِشَفَاعَتِي أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ،
پھر ہم چلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں اترے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت کو تشریف لے چلے۔ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوا ایک ڈول پانی کا لے کر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آڑ نہ پائی، دیکھا تو دو درخت وادی کے کنارے پر لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس گئے اور اس کی ڈالی پکڑی، پھر فرمایا: ”میرا تابعدار ہو جا اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔“ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابعدار ہو گیا جیسے وہ اونٹ جس کی ناک میں لکڑی دی جاتی ہے تابعدار ہو جاتا ہے اپنے کھینچنے والے کا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی بھی ایک ڈالی پکڑی، پھر فرمایا: ”میرا تابعدار ہو جا اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔“ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا اسی طرح یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیچا بیچ میں ان درختوں کے پہنچے تو ان کو ایک ساتھ رکھ دیا اور فرمایا: ”دونوں جڑ جاؤ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔“ وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نکلا دوڑتا ہوا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور تشریف لے جائیں۔ میں بیٹھا اپنے دل میں باتیں کرتا ہوا ایک ہی بار، جو میں نے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے تشریف لا رہے ہیں اور دونوں درخت جدا ہو کر اپنی اپنی جڑ پر کھڑے ہو گئے۔ میں نے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر تک کھڑے ہوئے اور سر سے اشارہ کیا اس طرح دائیں اور بائیں پھر سامنے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا: ”اے جابر! میں جہاں کھڑا تھا تو نے دیکھا؟“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان دونوں درختوں کے پاس جا اور ہر ایک میں سے ایک ڈالی کاٹ اور ان کو لے آ۔ جب اس جگہ پہنچے جہاں میں کھڑا تھا تو ایک ڈالی اپنی داہنی طرف ڈال دے اور ایک ڈالی بائیں طرف۔“سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کھڑا ہوا اور ایک پتھر لیا اس کو توڑا اور تیز کیا، وہ تیز ہو گیا، پھر ان دونوں درختوں کے پاس آیا اور ہر ایک میں سے ایک ایک ڈالی کاٹی، پھر میں ان ڈالیوں کو کھینچتا ہوا آیا اس جگہ پر جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے تھے اور ایک ڈالی داہنی طرف ڈال دی اور ایک بائیں طرف۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل گیا اور عرض کیا: جو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ میں نے کیا لیکن اس کی وجہ کیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا وہاں دو قبریں ہیں۔ ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے تو میں نے چاہا ان کی سفارش کروں شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو جب تک یہ شاخیں ہری رہیں۔“
قَالَ: فَأَتَيْنَا الْعَسْكَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا جَابِرُ نَادِ بِوَضُوءٍ، فَقُلْتُ: أَلَا وَضُوءَ أَلَا وَضُوءَ أَلَا وَضُوءَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا وَجَدْتُ فِي الرَّكْبِ مِنْ قَطْرَةٍ، وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُبَرِّدُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَاءَ فِي أَشْجَابٍ لَهُ عَلَى حِمَارَةٍ مِنْ جَرِيدٍ، قَالَ: فَقَالَ لِيَ: انْطَلِقْ إِلَى فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ الْأَنْصَارِيِّ، فَانْظُرْ هَلْ فِي أَشْجَابِهِ مِنْ شَيْءٍ؟، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ، فَنَظَرْتُ فِيهَا فَلَمْ أَجِدْ فِيهَا إِلَّا قَطْرَةً فِي عَزْلَاءِ شَجْبٍ مِنْهَا لَوْ أَنِّي أُفْرِغُهُ لَشَرِبَهُ يَابِسُهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَجِدْ فِيهَا إِلَّا قَطْرَةً فِي عَزْلَاءِ شَجْبٍ مِنْهَا لَوْ أَنِّي أُفْرِغُهُ لَشَرِبَهُ يَابِسُهُ، قَالَ: اذْهَبْ، فَأْتِنِي بِهِ، فَأَتَيْتُهُ بِهِ، فَأَخَذَهُ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ بِشَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا هُوَ وَيَغْمِزُهُ بِيَدَيْهِ ثُمَّ أَعْطَانِيهِ، فَقَالَ يَا جَابِرُ: نَادِ بِجَفْنَةٍ، فَقُلْتُ: يَا جَفْنَةَ الرَّكْبِ، فَأُتِيتُ بِهَا تُحْمَلُ، فَوَضَعْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فِي الْجَفْنَةِ هَكَذَا، فَبَسَطَهَا وَفَرَّقَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ وَضَعَهَا فِي قَعْرِ الْجَفْنَةِ، وَقَالَ: خُذْ يَا جَابِرُ فَصُبَّ عَلَيَّ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: بِاسْمِ اللَّهِ، فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَفُورُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ فَارَتِ الْجَفْنَةُ وَدَارَتْ حَتَّى امْتَلَأَتْ، فَقَالَ يَا جَابِرُ: نَادِ مَنْ كَانَ لَهُ حَاجَةٌ بِمَاءٍ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ، فَاسْتَقَوْا حَتَّى رَوُوا، قَالَ: فَقُلْتُ: هَلْ بَقِيَ أَحَدٌ لَهُ حَاجَةٌ؟، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الْجَفْنَةِ وَهِيَ مَلْأَى،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم لشکر میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر! لوگوں میں پکارو، وضو کریں۔ میں نے آواز دی، وضو کرو، وضو کرو، وضو کرو۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قافلہ میں ایک قطرہ پانی کا نہیں ہے اور ایک انصاری مرد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا ایک پرانی مشک میں جو لکڑی کی شاخوں پر لٹکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مرد انصاری کے پاس جا اور دیکھ اس کی مشک میں کچھ پانی ہے۔“ میں گیا دیکھا تو مشک میں پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ پانی ہے اس کے منہ میں۔ اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس مشک میں تو پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ ہے اس کے منہ میں اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اور اس مشک کو میرے پاس لے آ۔“ میں اس مشک کو لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا پھر زبان مبارک سے کچھ فرمانے لگے جس کو میں نہ سمجھا اور مشک کو اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے، پھر وہ مشک میرے حوالے کی اور فرمایا: ”اے جابر! آواز دے کہ قافلہ کا گڑھا لاؤ۔“ (یعنی بڑا ظروف پانی کا)، میں نے آواز دی، وہ لایا گیا، لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کو رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس گڑھے میں پھرایا اس طرح سے پھیلا کر اور انگلیوں کو کشادہ کیا پھر اپنا ہاتھ اس کی تہہ میں رکھ دیا اور فرمایا: ”اے جابر! وہ مشک لے اور میرے ہاتھ پر ڈال دے اور بسم اللہ کہہ کے ڈالنا۔“ میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ پانی ڈال دیا، پھر میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جوش مار رہا تھا یہاں تک کہ گڑھے نے جوش مارا اور گھوما اور بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر! آواز دے جس کو پانی کی حاجت ہو۔(وہ آئے)“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ آئے اور پانی لیا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ میں نے کہا: کوئی ایسا بھی رہا جس کو پانی کی احتیاج ہو؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ گڑھے میں سے اٹھا لیا اور وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔
وَشَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُوعَ، فَقَالَ: عَسَى اللَّهُ أَنْ يُطْعِمَكُمْ، فَأَتَيْنَا سِيفَ الْبَحْرِ، فَزَخَرَ الْبَحْرُ زَخْرَةً، فَأَلْقَى دَابَّةً فَأَوْرَيْنَا عَلَى شِقِّهَا النَّارَ، فَاطَّبَخْنَا وَاشْتَوَيْنَا وَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا، قَالَ جَابِرٌ: فَدَخَلْتُ أَنَا وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ حَتَّى عَدَّ خَمْسَةً فِي حِجَاجِ عَيْنِهَا مَا يَرَانَا أَحَدٌ حَتَّى خَرَجْنَا، فَأَخَذْنَا ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَقَوَّسْنَاهُ ثُمَّ دَعَوْنَا بِأَعْظَمِ رَجُلٍ فِي الرَّكْبِ، وَأَعْظَمِ جَمَلٍ فِي الرَّكْبِ، وَأَعْظَمِ كِفْلٍ فِي الرَّكْبِ فَدَخَلَ تَحْتَهُ مَا يُطَأْطِئُ رَأْسَهُ ".
اور لوگوں نے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ اللہ تم کو کھلا دے۔“ پھر ہم دریا کے کنارے پر آئے (یعنی سمندر کے) اور دریا نے موج ماری اور ایک جانور باہر ڈالا۔ ہم نے اس کے کنارے پر آگ سلگائی اور اس جانور کا گوشت پکایا اور بھونا اور کھایا اور سیر ہوئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں اور فلاں اور فلاں پانچ آدمی اس کی آنکھ کے حلقے میں گھس گئے ہم کو کوئی نہ دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے (اتنا بڑا جانور تھا)، پھر ہم نے اس کی پسلی لی پسلیوں میں سے اور قافلہ میں سے اس شخص کو بلایا جو سب میں بڑا تھا اور سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا اور سب سے بڑا زین اس پر تھا وہ پسلی کے نیچے سے چلا گیا اپنا سر نہیں جھکایا (اتنی اونچی اس جانور کی پسلی تھی)۔
حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، يَقُولُ: جَاءَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ، فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا، فَقَالَ لِعَازِبٍ: ابْعَثْ مَعِيَ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي إِلَى مَنْزِلِي، فَقَالَ لِي أَبِي: احْمِلْهُ فَحَمَلْتُهُ وَخَرَجَ أَبِي مَعَهُ يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي " يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا لَيْلَةَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا كُلَّهَا حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، وَخَلَا الطَّرِيقُ، فَلَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ حَتَّى رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ بَعْدُ، فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا، فَأَتَيْتُ الصَّخْرَةَ، فَسَوَّيْتُ بِيَدِي مَكَانًا يَنَامُ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّهَا ثُمَّ بَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً، ثُمَّ قُلْتُ: نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ، فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا، فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ؟، فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قُلْتُ: أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَفَتَحْلُبُ لِي، قَالَ: نَعَمْ، فَأَخَذَ شَاةً، فَقُلْتُ لَهُ: انْفُضْ الضَّرْعَ مِنَ الشَّعَرِ وَالتُّرَابِ وَالْقَذَى، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ، فَحَلَبَ لِي فِي قَعْبٍ مَعَهُ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، قَالَ: وَمَعِي إِدَاوَةٌ أَرْتَوِي فِيهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْرَبَ مِنْهَا وَيَتَوَضَّأَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ مِنْ نَوْمِهِ، فَوَافَقْتُهُ اسْتَيْقَظَ، فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ مِنَ الْمَاءِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْرَبْ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، قَالَ: فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ؟، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: وَنَحْنُ فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُتِينَا، فَقَالَ: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا، فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ، فَادْعُوَا لِي، فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ، فَدَعَا اللَّهَ، فَنَجَا فَرَجَعَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا، قَالَ: قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هَاهُنَا، فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ، قَالَ: وَوَفَى لَنَا "،
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے باپ (عازب کے) مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور عازب سے بولے: تم اپنے بیٹے سے کہو یہ کجاوہ اٹھا کر میرے ساتھ چلے میرے مکان تک۔ میرے باپ نے بھی مجھ سے کہا: کجاوہ اٹھا لے، میں نے اٹھا لیا اور میرے باپ بھی نکلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو۔ میرے باپ نے کہا: اے ابوبکر! مجھ سے بیان کرو تم نے کیا کیا اس رات کو جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مدینہ کی طرف چلے مکہ سے)؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! ہم ساری رات چلے یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا اور راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا، ہم کو سامنے ایک لمبا پتھر دکھائی دیا۔ اس کا سایہ تھا ز میں پر اور اب تک وہاں دھوپ نہ آئی تھی، ہم اس کے پاس اترے میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرمائیں اس کے سایہ میں، پھر میں نے وہاں کملی بچھائی۔ بعد اس کے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ سو رہئیے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا، پھر میں نے ایک چرواہا دیکھا بکریوں کا جو اپنی بکریاں لیے ہوئے اسی پتھر کی طرف آ رہا ہے اور وہی چاہتا ہے جو ہم نے چاہا (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا)میں اس سے ملا اور پوچھا: اے لڑکے! تو کس کا غلام ہے؟ وہ بولا: میں مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مراد مدینہ سے شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے) میں نے کہا: تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ وہ بولا: ہاں ہے۔ میں نے کہا: تو دودھ دوہئے گا ہم کو؟ وہ بولا: ہاں۔ پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا، میں نے کہا: اس کا تھن صاف کر لے بالوں اور مٹی اور کوڑے سے تا کہ دودھ میں یہ چیزیں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا:) میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے تھے، جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے دودھ دوھا لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا دودھ اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا جس میں پانی رکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا اور مجھے برا معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا لیکن میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود جاگ اٹھے ہیں۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ دودھ پیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوچ کا وقت نہیں آیا؟“ میں نے کہا: آ گیا۔ پھر ہم چلے آفتاب ڈھلنے کے بعد اور ہمارا پیچھا کیا سراقہ بن مالک نے (وہ کافر تھا)۔ اس زمین پر ہم تھے جو سخت تھی۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم کو تو کافروں نے پا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت فکر کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ پر بددعا کی اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا (حالانکہ وہاں کی زمین سخت تھی)۔ وہ بولا: میں جانتا ہوں تم دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تم دونوں کی تلاش میں جو آئے اس کو پھیر دوں گا تم میرے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اس عذاب سے چھڑا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی۔ وہ چھٹ گیا اور لوٹ گیا۔ جو کوئی (کافر) اس کو ملتا تو وہ کہہ دیتا ادھر میں سب دیکھ آیا ہوں۔ غرض جو کوئی ملتا سراقہ اس کو پھیر دیتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سراقہ نے اپنی بات پوری کی۔
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ . ح وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ كِلَاهُمَا، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ مِنْ أَبِي رَحْلًا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وقَالَ فِي حَدِيثِهِ: مِنْ رِوَايَةِ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ، فَلَمَّا دَنَا دَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَاخَ فَرَسُهُ فِي الْأَرْضِ إِلَى بَطْنِهِ وَوَثَبَ عَنْهُ، وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا عَمَلُكَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُخَلِّصَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ، وَلَكَ عَلَيَّ لَأُعَمِّيَنَّ عَلَى مَنْ وَرَائِي، وَهَذِهِ كِنَانَتِي، فَخُذْ سَهْمًا مِنْهَا، فَإِنَّكَ سَتَمُرُّ عَلَى إِبِلِي وَغِلْمَانِي بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا، فَخُذْ مِنْهَا حَاجَتَكَ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِي إِبِلِكَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ لَيْلًا، فَتَنَازَعُوا أَيُّهُمْ يَنْزِلُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَنْزِلُ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُكْرِمُهُمْ بِذَلِكَ، فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ، فَوْقَ الْبُيُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ، وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا مُحَمَّدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ جب سراقہ بن مالک نزدیک آ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے بددعا کی، اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ وہ اس پر سے کود گیا اور کہنے لگا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! میں جانتا ہوں یہ تمہارا کام ہے، تم اللہ سے دعا کرو وہ مجھ کو نجات دے اس آفت سے اور آپ سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں آپ کا حال چھپا دوں گا ان لوگوں سے جو میرے پیچھے آتے ہیں اور یہ میرا ترکش ہے۔ اس میں سے ایک تیر آپ لیتے جائیے اور آپ کو تھوڑی دور پر میرے اونٹ اور غلام ملیں گے۔ آپ کو جو چاہت ہو ان میں سے لیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تیرے اونٹوں کی احتیاج نہیں ہے۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رات کو ہم مدینہ میں پہنچے۔ لوگ جھگڑنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں اتریں (ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اتریں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بنی نجار کے پاس اتروں گا۔“ وہ عبدالمطلب کے ننھیال کے لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عزت دی ان کے پاس اتر کر۔ پھر مرد چڑھے اور عورتیں گھروں پر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) اور لڑکے اور غلام راستہ میں جدا جدا ہو گئے پکارتے جاتے تھے: یا محمد! یا رسول اللہ! یامحمد! یا رسول اللہ!۔