حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ، وَلَا فِي إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنْ الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِنْكَ بِمَا فِي يَدِ اللَّهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أُصِبْتَ بِهَا، أَرْغَبَ مِنْكَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ"، قَال هِشَامٌ: كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، يَقُولُ: مِثْلُ هَذَا الْحَدِيثِ فِي الْأَحَادِيثِ كَمِثْلِ الْإِبْرِيزِ فِي الذَّهَبِ.
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا میں زہد آدمی کے حلال کو حرام کر لینے، اور مال کو ضائع کرنے میں نہیں ہے، بلکہ دنیا میں زہد (دنیا سے بے رغبتی) یہ ہے کہ جو مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دنیا میں جو مصیبت تم پر آئے تو تم اس پر خوش ہو بہ نسبت اس کے کہ مصیبت نہ آئے، اور آخرت کے لیے اٹھا رکھی جائے"۔ ہشام کہتے ہیں: کہ ابوادریس خولانی کہتے تھے کہ حدیثوں میں یہ حدیث ایسی ہے جیسے سونے میں کندن۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۲۹ (۲۳۴۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۳۵)(ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن واقد متروک ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي خَلَّادٍ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي الدُّنْيَا، وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ، فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ".
ابوخلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا کی طرف سے بے رغبت ہے، اور کم گو بھی تو اس سے قربت اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۸۹۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۱)(ضعیف) (سند میں ابوفروہ یزید بن سنان جزری ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو الْقُرَشِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ، وَأَحَبَّنِي النَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۶۸۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۲)(صحیح) (سند میں خالد بن عمرو کو ابن معین نے جھوٹ سے متہم کیا ہے، اور صالح جزرہ وغیرہ نے اس کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۹۴۴)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ، رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: نَزَلْتُ عَلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ طَعِينٌ، فَأَتَاهُ مُعَاوِيَةُ يَعُودُهُ، فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا يُبْكِيكَ؟ أَيْ خَالِ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ، أَمْ عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ ذَهَبَ صَفْوُهَا، قَالَ: عَلَى كُلٍّ لَا، وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَبِعْتُهُ، قَالَ: "إِنَّكَ لَعَلَّكَ تُدْرِكُ أَمْوَالًا تُقْسَمُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَأَدْرَكْتُ فَجَمَعْتُ.
سمرہ بن سہم کہتے ہیں کہ میں ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، وہ برچھی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو آئے تو ابوہاشم رضی اللہ عنہ رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ماموں جان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا درد کی شدت سے رو رہے ہیں یا دنیا کی کسی اور وجہ سے؟ دنیا کا تو بہترین حصہ گزر چکا ہے، ابوہاشم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، کاش! میں اس پر عمل کئے ہوتا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "شاید تم ایسا زمانہ پاؤ، جب لوگوں کے درمیان مال تقسیم کیا جائے، تو تمہارے لیے اس میں سے ایک خادم اور راہ جہاد کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا، اور جمع کیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزہد ۱۹ (۲۳۲۷)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ (۵۳۷۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۱۷۸)، وقد أخرجہ:(حم ۵/۲۹۰)(حسن) (سند میں سمرہ بن سہم مجہول ہیں، لیکن شواہد سے تقو یت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة:۵۱۸۵ وصحیح الترغیب)
وضاحت: ۱؎: تو اس پر روتا ہوں کہ آپ ﷺ کی نصیحت پر عمل نہ کر سکا، دوسری روایت میں ہے کہ دنیا میں سے تم کو ایک خادم، ایک سواری اور ایک گھر کافی ہے، اس سے زیادہ جمع کر کے رکھنا ضروری نہیں، دوسرے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دے دے، خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے، یتیموں بیواؤں کی پرورش کرے، مفید عام کاموں میں صرف کرے جیسے مدارس و مساجد بنانے میں، یتیم خانہ اور مسافر خانہ کی تعمیر میں، کنویں اور سڑک کی تعمیر میں، دینی اور اسلامی کتابیں چھاپنے، اور تقسیم کرنے میں، مگر ہزاروں لاکھوں میں کوئی ایسا بندہ ہوتا ہے جو دنیا کو بالکل جمع نہیں کرتا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: اشْتَكَى سَلْمَانُ، فَعَادَهُ سَعْدٌ فَرَآهُ يَبْكِي، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَخِي، أَلَيْسَ قَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَيْسَ أَلَيْسَ، قَالَ سَلْمَانُ: مَا أَبْكِي وَاحِدَةً مِنَ اثْنَتَيْنِ، مَا أَبْكِي ضِنًّا لِلدُّنْيَا، وَلَا كَرَاهِيَةً لِلْآخِرَةِ، وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَمَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ، قَالَ: وَمَا عَهِدَ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ يَكْفِي أَحَدَكُمْ مِثْلُ زَادِ الرَّاكِبِ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ تَعَدَّيْتُ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا سَعْدُ، فَاتَّقِ اللَّهَ عِنْدَ حُكْمِكَ إِذَا حَكَمْتَ، وَعِنْدَ قَسْمِكَ إِذَا قَسَمْتَ، وَعِنْدَ هَمِّكَ إِذَا هَمَمْتَ"، قَالَ ثَابِتٌ: فَبَلَغَنِي أَنَّهُ مَا تَرَكَ إِلَّا بِضْعَةً وَعِشْرِينَ دِرْهَمًا، مِنْ نَفَقَةٍ كَانَتْ عِنْدَهُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لیے آئے اور ان کو روتا ہوا پایا، سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میرے بھائی آپ کس لیے رو رہے ہیں؟ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض نہیں اٹھایا؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان دونوں میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، نہ تو دنیا کی حرص کی وجہ سے اور نہ اس وجہ سے کہ آخرت کو ناپسند کرتا ہوں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، جہاں تک میرا خیال ہے میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا نصیحت تھی؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "تم میں سے کسی کے لیے بھی دنیا میں اتنا ہی کافی ہے جتنا کہ مسافر کا توشہ، لیکن میں نے اس سلسلے میں زیادتی کی ہے، اے سعد! جب آپ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جب کچھ تقسیم کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اور جب کسی کام کا قصد کرنا تو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کرنا۔ ثابت (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ مجھے پتہ چلا کہ سلمان رضی اللہ عنہ نے بیس سے چند زائد درہم کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا، وہ بھی اپنے خرچ میں سے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۴۸۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۳)(صحیح)(ملاحظہ ہو: الصحیحة:۱۷۱۵)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ، قُلْتُ: مَا بَعَثَ إِلَيْهِ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَ عَنْهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْنَاهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ، فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ، وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ، جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ".
ابان بن عثمان بن عفان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے، میں نے کہا: اس وقت مروان نے ان کو ضرور کچھ پوچھنے کے لیے بلایا ہو گا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: مروان نے ہم سے کچھ ایسی چیزوں کے متعلق پوچھا جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: "جس کو دنیا کی فکر لگی ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو پراگندہ کر دے گا، اور محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دے گا، جب اس کو دنیا سے صرف وہی ملے گا جو اس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کا مقصود آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو ٹھیک کر دے گا، اس کے دل کو بے نیازی عطا کرے گا، اور دنیا اس کے پاس ناک رگڑتی ہوئی آئے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۶۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْنَهْشَلٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ الْمَعَادِ، كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ، وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا، لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهِ هَلَكَ".
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے تمہارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لیے کافی ہے، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۱۶۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۵)(حسن) (سند میں نہشل متروک راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَدْ رَفَعَهُ، قَالَ: "يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: يَا ابْنَ آدَمَ، تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى، وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ، مَلَأْتُ صَدْرَكَ شُغْلًا، وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یک سو ہو جا تو میں تیرا سینہ بے نیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کر دوں گا، اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیتوں سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۳۰ (۲۴۶۶)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۸۱)، وقد أخرجہ:(حم ۲/۳۵۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُسْتَوْرِدَ أَخَا بَنِي فِهْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا مَثَلُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ، إِلَّا مَثَلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ".
مستورد رضی اللہ عنہ (جو بنی فہر کے ایک فرد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، اور پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں واپس آتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجنة ۱۵ (۲۵۵۸)، سنن الترمذی/الزہد ۱۸ (۲۳۲۳)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۵۵)، وقد أخرجہ:(حم ۴/۲۲۸،۲۲۹،۲۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: اضْطَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَصِيرٍ فَأَثَّرَ فِي جِلْدِهِ، فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ آذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَكَ عَلَيْهِ شَيْئًا يَقِيكَ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَنَا وَالدُّنْيَا، إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْيَا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے تو آپ کے بدن مبارک پر اس کا نشان پڑ گیا، میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے اس پر کچھ بچھا دیتے، آپ اس تکلیف سے بچ جاتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تو دنیا میں ایسے ہی ہوں جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے میں آرام کرے، پھر اس کو چھوڑ کر وہاں سے چل دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۴۴ (۲۳۷۷)،(تحفة الأشراف:۹۴۴۳)، وقد أخرجہ:(حم ۱/۳۹۱،۴۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، وَمُحَمَّدٌ الصَّبَّاحُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَإِذَا هُوَ بِشَاةٍ مَيِّتَةٍ شَائِلَةٍ بِرِجْلِهَا، فَقَالَ: "أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَيِّنَةً عَلَى صَاحِبِهَا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى صَاحِبِهَا، وَلَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا قَطْرَةً أَبَدًا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذو الحلیفہ میں تھے کہ وہاں ایک مردہ بکری اپنے پاؤں اٹھائے ہوئے پڑی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو کیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک ذلیل و بے وقعت ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک بے قیمت ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ بے وقعت ہے، اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس سے کافر کو ایک قطرہ بھی نہ چکھاتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۶۷۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۶)، وقد أخرجہ:(حم۱/۳۹۱،۴۴۱)(صحیح) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۶۸۶- ۹۴۳- ۳۴۸۲)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُسْتَوْرِدُ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: إِنِّي لَفِي الرَّكْبِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَى عَلَى سَخْلَةٍ مَنْبُوذَةٍ، قَالَ: فَقَالَ: "أَتُرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا؟"، قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: "فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا".
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک قافلے میں تھا کہ آپ بکری کے ایک پڑے ہوئے مردہ بچے کے پاس آئے، اور فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ یہ اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے"؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کی بے وقعتی ہی کی وجہ سے اس کو یہاں ڈالا گیا ہے، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل و حقیر ہے جتنی یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر و بے وقعت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزہد ۱۳ (۲۳۲۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۵۸)، وقد أخرجہ:(حم ۴/۲۲۹،۲۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خُلَيْدٍ عُتْبَةُ بْنُ حَمَّادٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ قُرَّةَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: "الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ، مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرَ اللَّهِ، وَمَا وَالَاهُ أَوْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کی یاد کے، اور اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، یا عالم کے یا متعلم کے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۱۴ (۲۳۲۲)،(تحفة الأشراف:۱۳۵۷۲)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مومن کا جیل اور کافر کی جنت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزہد (۲۹۵۶)، سنن الترمذی/الزھد ۱۶ (۲۳۲۴)، مسند احمد (۲/۳۲۳،۳۸۹،۴۸۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ جَسَدِي، فَقَالَ: "يَا عَبْدَ اللَّهِ، كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ كَأَنَّكَ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کا بعض حصہ (کندھا) تھاما اور فرمایا: "عبداللہ! دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر، اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۱۵ (۲۳۳۳)،(تحفة الأشراف:۷۳۸۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۳ (۶۴۱۸)، من طریق محمد بن عبد الرحمن الطفاوی عن الأعمش عن مجاہد بن جبر ابن عمر، مسند احمد (۲/۲۴،۱۳۲)(صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں، اسے لئے «وعد نفسك من أهل القبور» کا جملہ ضعیف ہے، لیکن بقیہ حدیث صحیح ہے، کمافی التخریج)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أُخْبِرُكَ عَنْ مُلُوكِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: "رَجُلٌ ضَعِيفٌ مُسْتَضْعِفٌ ذُو طِمْرَيْنِ، لَا يُؤْبَهُ لَهُ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو جنت کے بادشاہوں کے بارے میں نہ بتا دوں"؟ میں نے کہا: جی ہاں، بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کمزور و ناتواں شخص دو پرانے کپڑے پہنے ہو جس کو کوئی اہمیت نہ دی جائے، اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا لے تو وہ اس کی قسم ضرور پوری کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۲۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۷)(ضعیف) (سند میں سوید بن عبد العزیز ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۷۴۱)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ، كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ، أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ، كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ".
حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں اہل جنت کے بارے میں نہ بتاؤں"؟ ہر وہ کمزور اور بے حال شخص جس کو لوگ کمزور سمجھیں، کیا میں تمہیں اہل جہنم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر وہ سخت مزاج، پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھنے، اور تکبر کرنے والا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن (سورةن والقلم)۱ (۴۹۱۸)، الأیمان النذور ۹ (۶۶۵۷)، صحیح مسلم/الجنة ۱۳ (۲۸۵۳)، سنن الترمذی/صفة جہنم ۱۳ (۲۶۰۵)،(تحفة الأشراف:۳۲۸۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۰۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ أَغْبَطَ النَّاسِ عِنْدِي، مُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنْ صَلَاةٍ، غَامِضٌ فِي النَّاسِ لَا يُؤْبَهُ لَهُ، كَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا وَصَبَرَ عَلَيْهِ، عَجِلَتْ مَنِيَّتُهُ، وَقَلَّ تُرَاثُهُ، وَقَلَّتْ بَوَاكِيهِ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مومن ہے، جو مال و دولت آل و اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، جس کو نماز میں راحت ملتی ہو، لوگوں میں گم نام ہو، اور لوگ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوں، اس کا رزق بس گزر بسر کے لیے کافی ہو، وہ اس پر صبر کرے، اس کی موت جلدی آ جائے، اس کی میراث کم ہو، اور اس پر رونے والے کم ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۸۵۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد ۳۵،(۲۳۴۷)، مسند احمد (۵/۲۵۲،۲۵۵)(ضعیف) (ایوب بن سلیمان اور صدقہ بن عبد اللہ ضعیف ہیں، تراجع الألبانی: رقم:۳۶۴)
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ الْحَارِثِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَذَاذَةُ مِنَ الْإِيمَان"، قَالَ: الْبَذَاذَةُ الْقَشَافَةُ يَعْنِي: التَّقَشُّفَ.
ابوامامہ حارثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے" ایمان کا ایک حصہ ہے، سادگی بے جا تکلف کے معنی میں ہے، یعنی زیب و زینت و آرائش سے گریز کرنا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۱ (۴۱۶۱)،(تحفة الأشراف:۱۷۴۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟"، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "خِيَارُكُمُ الَّذِينَ إِذَا رُءُوا، ذُكِرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کیا میں تم کو یہ نہ بتا دوں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں"؟ لوگوں نے عرض کیا: ضرور، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر اللہ یاد آئے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۷۷۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۵۹)(صحیح) (سند میں سوید و شہر بن حوشب ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۶۴۶)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: مَرَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟"، قَالُوا: رَأْيَكَ فِي هَذَا، نَقُولُ: هَذَا مِنْ أَشْرَفِ النَّاسِ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُخَطَّبَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ، أَنْ يُسْمَعَ لِقَوْلِهِ، فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَرَّ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا تَقُولُونَ فِي هَذَا"، قَالُوا: نَقُولُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذَا مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ، هَذَا حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ لَمْ يُنْكَحْ، وَإِنْ شَفَعَ لَا يُشَفَّعْ، وَإِنْ قَالَ لَا يُسْمَعْ لِقَوْلِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَهَذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْءِ الْأَرْضِ مِثْلَ هَذَا".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے"؟ لوگوں نے کہا: جو آپ کی رائے ہے وہی ہماری رائے ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ شریف لوگوں میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اسے قبول کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے، اگر کوئی بات کہے تو اس کی بات سنی جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر ایک دوسرا شخص گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! یہ تو مسلمانوں کے فقراء میں سے ہے، یہ اس لائق ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام دے تو اس کا پیغام قبول نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے، اور اگر کچھ کہے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اس پہلے جیسے زمین بھر آدمیوں سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/النکاح ۱۵ (۵۰۹۱)،(تحفة الأشراف:۴۷۲۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مِهْرَانَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ عَبْدَهُ الْمُؤْمِن، الْفَقِيرَ، الْمُتَعَفِّفَ أَبَا الْعِيَالِ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ اپنے مومن، فقیر (محتاج)، سوال سے بچنے والے اور اہل و عیال والے بندے کو محبوب رکھتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۸۳۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۹)(ضعیف) (حماد و موسیٰ بن عبیدہ دونوں ضعیف ہیں، اور قاسم بن مہران مجہول، بالخصوص قاسم کا عمران رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ، بِنِصْفِ يَوْمٍ خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومنوں میں سے محتاج اور غریب لوگ مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آخرت کا آدھا دن (دنیا کے) پانچ سو سال کے برابر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۱۰۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد ۳۷ (۲۳۵۴)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ، بِمِقْدَارِ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فقیر مہاجرین، مالدار مہاجرین سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، تحفة الأشراف:۴۲۳۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزھد ۳۷ (۲۳۵۱)(حسن) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف و مضطرب الحدیث راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، تراجع الألبانی رقم:۴۹۰)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو غَسَّانَ بَهْلُولٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: اشْتَكَى فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ عَلَيْهِمْ أَغْنِيَاءَهُمْ، فَقَالَ: "يَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ، أَلَا أُبَشِّرُكُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِينَ، يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ، خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ"، ثُمَّ تَلَا مُوسَى هَذِهِ الْآيَةَ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ سورة الحج آية 47.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالداروں کو ان پر فضیلت دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے فقراء کی جماعت! کیا میں تم کو یہ خوشخبری نہ سنا دوں کہ غریب مومن، مالدار مومن سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے، (پانچ سو سال پہلے) پھر موسیٰ بن عبیدہ نے یہ آیت تلاوت کی: «وإن يوما عند ربك كألف سنة مما تعدون» "اور بیشک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے جسے تم شمار کرتے ہو" (سورۃ الحج: ۱۴۷)۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۲۵۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۰)(ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ أَبُو يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ أَبُو إِسْحَاق الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ، وَيُحَدِّثُهُمْ وَيُحَدِّثُونَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْنِيهِ: "أَبَا الْمَسَاكِينِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مسکینوں سے محبت کرتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھتے، اور ان سے باتیں کیا کرتے تھے، اور وہ لوگ بھی ان سے باتیں کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوالمساکین رکھی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۹۴۳)(ضعیف جدا) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم ضعیف ہیں، ابراہیم المخزومی متروک)۔ یہ حدیث اس سند سے گرچہ ضعیف ہے، لیکن جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول صحیح بخاری میں ہے کہ جعفر مسکینوں اور فقیروں کے حق میں بہت اچھے تھے، وہ ہمیں اپنے گھر میں موجود کھانا کھلاتے تھے، حتی کہ کپّی نکال کر ہمارے پاس لاتے، جس میں کچھ نہ ہوتا، تو ہم اس کو پھاڑ کر چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری/الأطعمة ۳۲ (۵۴۳۲)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَبِي الْمُبَارَكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَحِبُّوا الْمَسَاكِينَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: "اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا، وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسکینوں اور فقیروں سے محبت کرو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دعا میں کہتے ہوئے سنا ہے: " «اللهم أحيني مسكينا وأمتني مسكينا واحشرني في زمرة المساكين» اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین بنا کر فوت کر، اور میرا حشر مسکینوں کے زمرے میں کر"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۴۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۱)(صحیح) (سند میں یزید بن سنان ضعیف، اور ابو المبارک مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۳۰۸و الإرواء:۸۶۱)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ، عَنْالسُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ، وَكَانَ قَارِئَ الْأَزْدِ، عَنْ أَبِي الْكَنُودِ، عَنْ خَبَّابٍ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: "وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِلَى قَوْلِهِ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52، قَالَ: جَاءَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ، فَوَجَدَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ صُهَيْبٍ، وَبِلَالٍ، وَعَمَّارٍ، وَخَبَّابٍ، قَاعِدًا فِي نَاسٍ مِنَ الضُّعَفَاءِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا رَأَوْهُمْ حَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقَرُوهُمْ، فَأَتَوْهُ فَخَلَوْا بِهِ، وَقَالُوا: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ تَجْعَلَ لَنَا مِنْكَ مَجْلِسًا تَعْرِفُ لَنَا بِهِ الْعَرَبُ فَضْلَنَا، فَإِنَّ وُفُودَ الْعَرَبِ تَأْتِيكَ، فَنَسْتَحْيِي أَنْ تَرَانَا الْعَرَبُ مَعَ هَذِهِ الْأَعْبُدِ، فَإِذَا نَحْنُ جِئْنَاكَ فَأَقِمْهُمْ عَنْكَ، فَإِذَا نَحْنُ فَرَغْنَا فَاقْعُدْ مَعَهُمْ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: "نَعَمْ"، قَالُوا: فَاكْتُبْ لَنَا عَلَيْكَ كِتَابًا، قَالَ: فَدَعَا بِصَحِيفَةٍ وَدَعَا عَلِيًّا لِيَكْتُبَ وَنَحْنُ قُعُودٌ فِي نَاحِيَةٍ، فَنَزَلَ جِبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52 ثُمَّ ذَكَرَ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ، وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ، فَقَالَ: وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ سورة الأنعام آية 53 ثُمَّ قَالَ: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ سورة الأنعام آية 54، قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْهُ حَتَّى وَضَعْنَا رُكَبَنَا عَلَى رُكْبَتِهِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ قَامَ وَتَرَ كَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ سورة الكهف آية 28 وَلَا تُجَالِسْ الْأَشْرَافَ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا يَعْنِي: عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعَ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا سورة الكهف آية 27 ـ 28، قَالَ: هَلَاكًا، قَالَ: أَمْرُ عُيَيْنَةَ، وَالْأَقْرَعِ، ثُمَّ ضَرَبَ لَهُمْ مَثَلَ الرَّجُلَيْنِ، وَمَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا"، قَالَ خَبَّابٌ: فَكُنَّا نَقْعُدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا بَلَغْنَا السَّاعَةَ الَّتِي يَقُومُ فِيهَا قُمْنَا وَتَرَكْنَاهُ حَتَّى يَقُومَ".
خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ «ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي» سے «فتكون من الظالمين» "اور ان لوگوں کو اپنے پاس سے مت نکال جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں ..." (سورة الأنعام: 52) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صہیب، بلال، عمار، اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے کمزور حال مسلمانوں کے ساتھ بیٹھا ہوا پایا، جب انہوں نے ان لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف دیکھا تو ان کو حقیر جانا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تنہائی میں ملے، اور کہنے لگے: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایک الگ مجلس مقرر کریں تاکہ عرب کو ہماری بزرگی اور بڑائی معلوم ہو، آپ کے پاس عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اگر وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیں گے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے، جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ ان مسکینوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئیے، جب ہم چلے جائیں تو آپ چاہیں تو پھر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھیک ہے" ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس سلسلے میں ایک تحریر لکھ دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کاغذ منگوایا اور علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کے لیے بلایا، ہم ایک طرف بیٹھے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے: «ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابك عليهم من شيء فتطردهم فتكون من الظالمين» "اور ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، ان کے حساب کی کوئی ذمے داری تمہارے اوپر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی کوئی ذمے داری ان پر ہے (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے) پھر اللہ تعالیٰ نے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہما کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «وكذلك فتنا بعضهم ببعض ليقولوا أهؤلاء من الله عليهم من بيننا أليس الله بأعلم بالشاكرين» "اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے آزمایا تاکہ وہ کہیں: کیا اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے انہیں پر احسان کیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو نہیں جانتا، (سورۃ الأنعام: ۵۳) پھر فرمایا: «وإذا جاءك الذين يؤمنون بآياتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة» "جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہو: تم پر سلامتی ہو، تمہارے رب نے اپنے اوپر رحم کو واجب کر لیا ہے"(سورة الأنعام: 54)۔ خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (اس آیت کے نزول کے بعد) ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے اپنا گھٹنا، آپ کے گھٹنے پر رکھ دیا اور آپ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، اور جب اٹھنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے، اور ہم کو چھوڑ دیتے (اس سلسلے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ولا تعد عيناك عنهم» "روکے رکھو اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو یاد کرتے ہیں صبح اور شام، اور اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں، اور اپنی نگاہیں ان کی طرف سے مت پھیرو" (سورة الكهف: 28) -یعنی مالداروں کے ساتھ مت بیٹھو، تم دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہو، مت کہا مانو ان لوگوں کا جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دئیے) اس سے مراد اقرع و عیینہ ہیں«واتبع هواه وكان أمره فرطا» "انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور ان کا معاملہ تباہ ہو گیا" (سورة الكهف: 28)، یہاں «فرطا» کا معنی بیان کرتے ہوئے خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «هلاكا» اقرع اور عیینہ میں سے ہر ایک کا معاملہ تباہ ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کی مثال اور دنیوی زندگی کی مثال بیان فرمائی، خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھتے تو جب آپ کے کھڑے ہونے کا وقت آتا تو پہلے ہم اٹھتے تب آپ اٹھتے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۵۲۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا سِتَّةٍ فِيَّ وَفِي ابْنِ مَسْعُودٍ، وَصُهَيْبٍ، وَعَمَّارٍ، وَالْمِقْدَادِ، وَبِلَالٍ، قَالَ: قَالَتْ قُرَيْشٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّا لَا نَرْضَى أَنْ نَكُونَ أَتْبَاعًا لَهُمْ فَاطْرُدْهُمْ عَنْكَ، قَالَ: فَدَخَلَ قَلْبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْخُلَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ سورة الأنعام آية 52.
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت «ولا تطرد» ہم چھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی: میرے، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں، قریش کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے، آپ ان لوگوں کو اپنے پاس سے نکال دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں وہ بات داخل ہو گئی جو اللہ تعالیٰ کی مشیت میں تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه» "اور ان لوگوں کو مت نکالئے جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں" (سورۃ الأنعام: ۵۲)۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۵ (۲۴۱۳)،(تحفة الأشراف:۳۸۶۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "وَيْلٌ لِلْمُكْثِرِينَ، إِلَّا مَنْ قَالَ: بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَهَكَذَا وَهَكَذَا"أَرْبَعٌ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ قُدَّامِهِ، وَمِنْ وَرَائِهِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تباہی ہے زیادہ مال والوں کے لیے سوائے اس کے جو مال اپنے اس طرف، اس طرف، اس طرف اور اس طرف خرچ کرے، دائیں، بائیں، اور اپنے آگے اور پیچھے چاروں طرف خرچ کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۴۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۳)، وقد أخرجہ:(حم۳/۳۱،۵۲)(حسن) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ دونوں ضعیف ہیں، شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۴۱۲)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْأَكْثَرُونَ هُمُ الْأَسْفَلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ: هَكَذَا وَهَكَذَا، وَكَسَبَهُ مِنْ طَيِّبٍ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زیادہ مال والے لوگ قیامت کے دن سب سے کمتر درجہ والے ہوں گے، مگر جو مال کو اس طرح اور اس طرح کرے اور اسے حلال طریقے سے کمائے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف:۱۱۹۷۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۳ (۶۴۴۳)، مسند احمد (۵/۱۵۲،۱۵۷)(حسن صحیح) «وكسبه من طيب» کا جملہ شاذ ہے، تراجع الألبانی: رقم:۱۶۹)
وضاحت: ۱؎: یعنی کثرت سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْأَكْثَرُونَ هُمُ الْأَسْفَلُونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا"، ثَلَاثًا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زیادہ مال والے ہی سب سے نیچے درجے والے ہوں گے مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے اور اس طرح کرے، (یعنی کثرت سے صدقہ و خیرات کرے) تین بار اشارہ فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۱۵۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۴۰،۴۲۸)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا عِنْدِي ذَهَبًا، فَتَأْتِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ، وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْءٌ أَرْصُدُهُ فِي قَضَاءِ دَيْنٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۳۴۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستقراض ۳ (۲۳۸۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۸ (۹۹۱)، مسند احمد (۲/۴۱۹،۴۵۴،۵۰۶)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: باقی سب فقراء اور مساکین میں تقسیم کر دوں، مال کا جوڑ رکھنا آپ ﷺ کو نہایت ناپسند تھا چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن آپ ﷺ عصر پڑھتے ہی لوگوں کی گردنوں پر سے پھاندتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے پاس تشریف لے گئے، جب آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: کچھ مال میرے پاس بھول کر رہ گیا تھا، وہ یاد آیا تو میں نے اس کے تقسیم کر دینے کے لیے اس قدر جلدی کی، نبی اکرم ﷺ کی نبوت پر سخاوت بھی عمدہ دلیل ہے کیونکہ غیر نبی میں ایسے سارے عمدہ اخلاق ہرگز جمع نہیں ہو سکتے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدِ اللَّهِ مُسْلِمِ بْنِ مِشْكَمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَيْلَانَ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ مَنْ آمَنَ بِي وَصَدَّقَنِي، وَعَلِمَ أَنَّ مَا جِئْتُ بِهِ هُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَقْلِلْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِ لِقَاءَكَ، وَعَجِّلْ لَهُ الْقَضَاءَ، وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِي وَلَمْ يُصَدِّقْنِي، وَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ مَا جِئْتُ بِهِ هُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَأَطِلْ عُمُرَهُ".
عمرو بن غیلان ثقفی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! جو مجھ پر ایمان لائے، میری تصدیق کرے، اور اس بات پر یقین رکھے کہ جو کچھ میں لایا ہوں وہی حق ہے، اور وہ تیری جانب سے ہے تو اس کے مال اور اولاد میں کمی کر، اپنی ملاقات کو اس کے لیے محبوب بنا دے، اس کی موت میں جلدی کر، اور جو مجھ پر ایمان نہ لائے، میری تصدیق نہ کرے، اور نہ اس بات پر یقین رکھے کہ جو میں لے کر آیا ہوں وہی حق ہے، تیری جانب سے اترا ہے، تو اس کے مال اور اولاد میں اضافہ کر دے، اور اس کی عمر لمبی کر"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۷۸۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۷)(ضعیف) (سند ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ عمرو بن غیلان کی صحبت ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ بُرْزِينَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ بُرْزِينَ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ، عَنْ الْبَرَاءِ السَّلِيطِيِّ، عَنْ نُقَادَةَ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ يَسْتَمْنِحُهُ نَاقَةً، فَرَدَّهُ، ثُمَّ بَعَثَنِي إِلَى رَجُلٍ آخَرَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ بِنَاقَةٍ، فَلَمَّا أَبْصَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهَا وَفِيمَنْ بَعَثَ بِهَا"، قَالَ نُقَادَةُ: فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَفِيمَنْ جَاءَ بِهَا؟ قَالَ: "وَفِيمَنْ جَاءَ بِهَا"، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُلِبَتْ فَدَرَّتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَ فُلَانٍ"، لِلْمَانِعِ الْأَوَّلِ،"وَاجْعَلْ رِزْقَ فُلَانٍ يَوْمًا بِيَوْمٍ"لِلَّذِي بَعَثَ بِالنَّاقَةِ.
نقادہ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک شخص کے پاس اونٹنی مانگنے کے لیے بھیجا، لیکن اس نے انکار کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیجا تو اس نے ایک اونٹنی بھیج دی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے اور جس نے اس کو بھیجا ہے اس میں بھی برکت عطا کرے"۔ نقادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ بھی دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی برکت دے جو اسے لے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں جو اسے لایا ہے اس کو بھی برکت دے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کا دودھ دوہا گیا، اس نے بہت دودھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! (پہلے اونٹنی نہ دینے والا شخص) کا مال زیادہ کر دے، اور جس نے اونٹنی بھیجی ہے اس کو رزق یومیہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۷۰۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۷۷)(ضعیف) (سند میں براء سلیطی مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْقَطِيفَةِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وَإِنْ لَمْ يُعْطَ لَمْ يَفِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہلاک ہوا دینار و درہم کا بندہ اور چادر اور شال کا بندہ، اگر اس کو یہ چیزیں دے دی جائیں تو خوش رہے، اور اگر نہ دی جائیں تو (اپنا عہد) پورا نہ کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۷۰ (۲۸۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۲۸۴۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ، وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ، وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ، تَعِسَ وَانْتَكَسَ، وَإِذَا شِيكَ فَلَا انْتَقَشَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہلاک ہوا دینار کا بندہ، درہم کا بندہ اور شال کا بندہ، وہ ہلاک ہو اور (جہنم میں) اوندھے منہ گرے، اگر اس کو کوئی کانٹا چبھ جائے تو کبھی نہ نکلے"۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظر ماقبلہ،(تحفة الأشراف:۱۲۸۲۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مالداری دنیاوی ساز و سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل مالداری تو دل کی بے نیازی اور آسودگی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزکاة ۴۰ (۱۰۵۱)،(تحفة الأشراف:۱۳۶۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۵ (۶۴۴۶)، سنن الترمذی/الزھد ۴۰ (۲۳۷۳)، مسند احمد (۲/۲۴۳،۲۶۱،۳۱۵،۴۳۸،۴۴۳،۵۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، وَحُمَيْدِ بْنِ هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، يُخْبِرُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَرُزِقَ الْكَفَافَ وَقَنَعَ بِهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کامیاب ہو گیا وہ شخص جس کو اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی، اور ضرورت کے مطابق روزی ملی، اور اس نے اس پر قناعت کی"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزکاة ۴۳ (۱۰۵۴)، سنن الترمذی/الزھد ۳۵ (۲۳۴۸)،(تحفة الأشراف:۸۸۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۸،۱۷۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! آل محمد کو بہ قدر ضرورت روزی دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۱۷ (۶۴۶۰)، صحیح مسلم/الزکاة ۴۳ (۱۰۵۵)، سنن الترمذی/الزھد ۳۸ (۲۳۶۱)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۲،۴۴۶،۴۸۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَيَعْلَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ نُفَيْعٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ غَنِيٍّ وَلَا فَقِيرٍ إِلَّا وَدَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّهُ أُتِيَ مِنَ الدُّنْيَا قُوتًا.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن کوئی مالدار یا فقیر ایسا نہ ہو گا جو یہ تمنا نہ کرے کہ اس کو دنیا میں بہ قدر ضرورت روزی ملی ہوتی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۷،۱۶۷)(ضعیف جدا) (سند میں نفیع متروک راوی ہے، ابن معین نے اس کی تکذیب کی ہے)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، آمِنًا فِي سِرْبِهِ، عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا".
عبیداللہ بن محصن انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہو گئی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الز ھد ۳۴ (۲۳۴۶)،(تحفة الأشراف:۹۷۳۹)(حسن) (سند میں سلمہ بن عبید اللہ مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۳۱۸)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ"، قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: "عَلَيْكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے"۔ ابومعاویہ نے «فوقكم» کی جگہ «عليكم» کا لفظ استعمال کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزھد (۲۹۶۳)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۵۸ (۵۲۱۳)،(تحفة الأشراف:۱۲۴۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۴،۴۸۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ إِنَّمَا يَنْظُرُ إِلَى أَعْمَالِكُمْ وَقُلُوبِكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البر والصلة۱۰ (۲۵۶۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۸۴،۵۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نُوقِدُ فِيهِ بِنَارٍ، مَا هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ"، إِلَّا أَنَّ ابْنَ نُمَيْرٍ قَالَ: نَلْبَثُ شَهْرًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ ایسے گزارتے تھے کہ ہمارے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، سوائے کھجور اور پانی کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ابن نمیر نے «نمكث شهرا» کے بجائے «نلبث شهرا» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد ۲۸ (۲۹۷۲)،(تحفةالأشراف:۱۶۸۲۳،۱۶۸۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الھبة ۱ (۲۵۶۷)، الرقاق ۱۶ (۶۴۵۸)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۳۴ (۲۴۷۱)، مسند احمد (۶/۱۸۲،۳۳۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الشَّهْرُ مَا يُرَى فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِهِ الدُّخَانُ"، قُلْتُ: فَمَا كَانَ طَعَامُهُمْ؟ قَالَتْ: "الْأَسْوَدَانِ، التَّمْرُ وَالْمَاءُ، غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ لَنَا جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ جِيرَانُ صِدْقٍ، وَكَانَتْ لَهُمْ رَبَائِبُ، فَكَانُوا يَبْعَثُونَ إِلَيْهِ أَلْبَانَهَا"، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَكَانُوا تِسْعَةَ أَبْيَاتٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی کبھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا مہینہ ایسا گزر جاتا تھا کہ ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں دھواں نہ دیکھا جاتا تھا، ابوسلمہ نے پوچھا: پھر وہ کیا کھاتے تھے؟ کہا: دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی، البتہ ہمارے کچھ انصاری پڑوسی تھے، جو صحیح معنوں میں پڑوسی تھے، ان کی کچھ پالتو بکریاں تھیں، وہ آپ کو ان کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو گھر تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۷۶۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۸۲،۴۳۷)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَلْتَوِي فِي الْيَوْمِ مِنَ الْجُوعِ، مَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دن میں بھوک سے کروٹیں بدلتے رہتے تھے، آپ کو خراب اور ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزھد (۲۹۷۸)، سنن الترمذی/الزھد ۳۹ (۲۳۷۲)،(تحفة الأشراف:۱۰۶۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴،۵۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: نو بیبیوں میں سے سب کا یہی حال تھا کہ ایک ایک مہینے تک ان کے یہاں چولہا ٹھنڈا رہتا، کھجور پانی پر گزر بسر کرتے، کبھی پڑوسی دودھ بھیجتے تو آپ ﷺ دودھ پی لیتے، اللہ اللہ جو بادشاہ ہو تمام دنیا کا اور سارے زمانے کے دنیا دار بادشاہ اور رئیس اس کے غلام کے غلام ہوں وہ اس طرح سے گزارا کرے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مِرَارًا: "وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا أَصْبَحَ عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ صَاعُ حَبٍّ وَلَا صَاعُ تَمْرٍ"، وَإِنَّ لَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَ نِسْوَةٍ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار فرماتے سنا ہے: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا، اور ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۰۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۴ (۲۰۶۹)، سنن الترمذی/البیوع ۷ (۱۲۱۵)، مسند احمد (۳/۱۳۳،۱۸۰،۲۰۸،۲۱۱،۲۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ، عَنْأَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ، أَوْ: "مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ سے زیادہ نہیں رہا، یا آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ نہیں رہا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۴۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۲)(صحیح) (سند میں انقطاع ہے، ابو عبیدہ نے اپنے والد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۴۰۴)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْأَكْرَمِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، قَالَ: "أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثْنَا ثَلَاثَ لَيَالٍ، لَا نَقْدِرُ أَوْ لَا يَقْدِرُ عَلَى طَعَامٍ".
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، اور ہم تین دن تک ٹھہرے رہے مگر ہمیں کھانا نہ ملا جو ہم آپ کو کھلاتے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۵۷۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۳)(ضعیف) (سند میں عبدالاکرم ضعیف راوی ہے، اور ان کے والد تابعی مبہم ہیں)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِطَعَامٍ سُخْنٍ، فَأَكَلَ فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا دَخَلَ بَطْنِي طَعَامٌ سُخْنٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تازہ گرم کھانا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا، جب فارغ ہوئے تو فرمایا:"الحمدللہ میرے پیٹ میں اتنے اور اتنے دن سے گرم تازہ کھانا نہیں گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۴۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۴)(ضعیف) (سند میں سوید ضعیف راوی ہے، اور اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو خَالِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ ضِجَاعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدَمًا حَشْوُهُ لِيفٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا چمڑے کا تھا، اور اس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «حدیث أبي خالد أخرجہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۵ (۴۱۴۶)،(تحفة الأشراف:۱۶۹۵۱)، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس ۱۷ (۲۰۸۲)،(تحفة الأشراف:۱۶۹۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۱۶ (۶۴۵۶)، سنن الترمذی/اللباس ۲۷ (۱۷۶۱)، صفة القیامة ۳۲ (۲۴۶۹)، مسند احمد (۶/۴۸،۵۶،۷۳،۱۰۸،۲۰۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَى عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ وَهُمَا فِي خَمِيلٍ لَهُمَا، وَالْخَمِيلُ: الْقَطِيفَةُ الْبَيْضَاءُ مِنَ الصُّوفِ، قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِهَا، وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اور فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، وہ دونوں اپنی «خمیل» (سفید اونی چادر کو کہتے ہیں)اوڑھے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہ چادر تھی، اذخر کی گھاس بھرا ایک تکیہ اور پانی رکھنے کی ایک مشک شادی کے وقت دی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/النکاح ۸۱ (۳۳۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۰۱۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۴،۹۳،۱۰۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِيعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى حَصِيرٍ، قَالَ: فَجَلَسْتُ، فَإِذَا عَلَيْهِ إِزَارٌ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ، وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبهِ، وَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ، وَقَرَظٍ فِي نَاحِيَةٍ فِي الْغُرْفَةِ، وَإِذَا إِهَابٌ مُعَلَّقٌ فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ، فَقَالَ: "مَا يُبْكِيكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَمَالِي لَا أَبْكِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِيهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَلِكَ كِسْرَى وَقَيْصَرُ فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ، وَأَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ، قَالَ: "يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْيَا؟"، قُلْتُ: بَلَى.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے ہیں، یہ آپ کا اثاثہ (پونجی) ہے جس میں بس یہ یہ چیزیں نظر آ رہی ہیں، اور وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں آرام سے رہ رہے ہیں، آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں، اور یہ آپ کی سارا اثاثہ (پونجی) ہے"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے ابن خطاب! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ آخرت میں ہو، اور ان کے لیے دنیا میں"؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۵۰۰)(حسن)
وضاحت: ۱؎: راضی ہوں، یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی اور تشفی ہو گئی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: "أُهْدِيَتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ، فَمَا كَانَ فِرَاشُنَا، لَيْلَةَ أُهْدِيَتْ، إِلَّا مَسْكَ كَبْشٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (فاطمہ) میرے پاس رخصت کی گئیں تو رخصتی کی رات ہمارا بستر صرف بھیڑ کی ایک کھال تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۰۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۵)(ضعیف) (سند میں حارث اعور اور مجالد دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ، فَيَنْطَلِقُ أَحَدُنَا يَتَحَامَلُ حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ، وَإِنَّ لِأَحَدِهِمُ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ"، قَالَ شَقِيقٌ: كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ.
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا،(اور صدقہ کر دیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابووائل شقیق کہتے ہیں: گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الزکاة ۹ (۱۴۱۵،۱۴۱۶)، الإجارة ۱۳ (۲۲۷۳)، تفسیر التوبة ۱۱ (۴۶۶۸،۴۶۶۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۱ (۱۰۱۸)، سنن النسائی/الزکاة ۴۹ (۲۵۳۰)،(تحفة الأشراف:۹۹۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ، سَمِعَهُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ، عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: "لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ، حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا".
خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں منبر پر خطبہ سنایا اور کہا: میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب میں ان سات آدمیوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ (اس کے پتے کھانے سے) ہمارے مسوڑھے زخمی ہو جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد ۲۹۶۷)، سنن الترمذی/صفة جہنم ۲ (۲۵۷۵)،(تحفة الأشراف:۹۷۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۷۴،۵/۶۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُمْ أَصَابَهُمْ جُوعٌ وَهُمْ سَبْعَةٌ، قَالَ: "فَأَعْطَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ تَمَرَاتٍ، لِكُلِّ إِنْسَانٍ تَمْرَةٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو بھوک لگی اور وہ سات آدمی تھے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات کھجوریں دیں، ہر ایک کے لیے ایک ایک کھجور تھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأطعمة ۲۳ (۵۴۱۱)، سنن الترمذی/صفة جہنم ۳۴ (۲۴۷۷)،(تحفة الأشراف:۲۴۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۸،۳۵۳،۴۱۵)(صحیح) (حدیث میں لكل «إنسان تمرة» کا لفظ شاذ ہے، اس لئے کہ صحیح حدیث میں «فأعطاني لكل إنسان سبع تمرات» آیا ہے کمافی صحیح البخاری)
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ہے کہ سب کو سات سات کھجوریں دیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ سورة التكاثر آية 8، قَالَ الزُّبَيْرُ: "وَأَيُّ نَعِيمٍ نُسْأَلُ عَنْهُ، وَإِنَّمَا هُوَ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ"، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ.
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» "پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا" (سورة اتكاثر: 8) نازل ہوئی، تو انہوں نے کہا: کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ یہاں تو صرف دو کالی چیزیں: پانی اور کھجور ہی میسر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب نعمتیں حاصل ہوں گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۸۸ (۳۳۵۶)،(تحفة الأشراف:۳۶۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۶۳)(حسن)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ، نَحْمِلُ أَزْوَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ أَزْوَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا تَمْرَةٌ، فَقِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الشرکة ۱ (۲۴۸۳)، الجہاد ۱۲۴ (۲۹۸۳)، المغازي ۶۵ (۴۳۶۰)، الصید ۱۲ (۱۹۴۹۳)، صحیح مسلم/الصید ۴ (۱۹۳۵)، سنن النسائی/الصید ۳۵ (۴۳۵۶)،(تحفة الأشراف:۳۱۲۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القیامة ۳۴ (۲۴۷۵)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ۱۰ (۲۴)، سنن الدارمی/الصید ۶ (۲۰۵۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور موٹے تازے ہو گئے، مچھلی اتنی بڑی تھی کہ اس کی پیٹھ کی دونوں ہڈیوں میں سے اونٹ نکل جاتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مدینہ لوٹ کر آئے تو رسول اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: " یہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کھانا بھیجا تھا "۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟"، فَقُلْتُ: خُصٌّ لَنَا وَهَى، نَحْنُ نُصْلِحُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أُرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے اس وقت ہم اپنی ایک جھونپڑی درست کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: "یہ کیا ہے"؟ میں نے کہا: یہ ہماری جھونپڑی ہے، ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے خیال میں موت اس سے بھی جلد آ سکتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۶۹ (۵۲۳۵،۵۲۳۶)، سنن الترمذی/الزہد ۲۵ (۲۳۳۵)،(تحفة الأشراف:۸۶۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، حَدَّثَنِيإِسْحَاق بْنُ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبَّةٍ عَلَى بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: "مَا هَذِهِ؟"، قَالُوا: قُبَّةٌ بَنَاهَا فُلَانٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ مَالٍ يَكُونُ هَكَذَا، فَهُوَ وَبَالٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَبَلَغَ الْأَنْصَارِيَّ ذَلِكَ فَوَضَعَهَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَلَمْ يَرَهَا، فَسَأَلَ عَنْهَا، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ وَضَعَهَا لِمَا بَلَغَهُ عَنْكَ، فَقَالَ: "يَرْحَمُهُ اللَّهُ! يَرْحَمُهُ اللَّهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے دروازے پر بنے گنبد پر سے گزرے، تو سوال کیا: "یہ کیا ہے"؟ لوگوں نے کہا: یہ گول گھر ہے، اس کو فلاں نے بنایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مال اس طرح خرچ ہو گا، وہ اپنے مالک کے لیے روز قیامت وبال ہو گا، انصاری کو اس کی خبر پہنچی، تو اس نے اس گھر کو ڈھا دیا، جب دوبارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے، تو دیکھا کہ وہاں وہ بنگلہ نہیں ہے، تو اس کے بارے میں سوال فرمایا تو بتایا گیا کہ جب اس کو آپ کی کہی ہوئی بات کی خبر پہنچی، تو اس نے اسے ڈھا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے، اللہ اس پر رحم کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ۱۶۹ (۵۲۳۷)مطولاً (صحیح) (سند میں عیسیٰ بن عبد الاعلی مجہول ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۸۳۰، سنن ابی داود: میں «يرحمه الله» کا لفظ نہیں ہے اس کی جگہ پر یہ الفاظ ہیں: «كل بناء وبال على صاحبه إلا مالاً» یعنی«إلا ما لا بد منه»)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سَعِيدِ بِنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَنَيْتُ بَيْتًا يُكِنُّنِي مِنَ الْمَطَرِ، وَيُكِنُّنِي مِنَ الشَّمْسِ، مَا أَعَانَنِي عَلَيْهِ خَلْقُ اللَّهِ تَعَالَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا کہ میں نے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش اور دھوپ سے بچائے، اور اللہ کی مخلوق نے میری اس میں (گھر بنانے میں) کوئی مدد نہیں کی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الاستئذان ۵۳ (۶۳۰۲)،(تحفة الأشراف:۷۰۷۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ، فَقَالَ: لَقَدْ طَالَ سَقْمِي وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ لَتَمَنَّيْتُهُ، وَقَالَ: "إِنَّ الْعَبْدَ لَيُؤْجَرُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا فِي التُّرَابِ، أَوْ قَالَ: "فِي الْبِنَاءِ".
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے آئے، تو آپ کہنے لگے کہ میرا مرض طویل ہو گیا ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ "تم موت کی تمنا نہ کرو" تو میں ضرور اس کی آرزو کرتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندے کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے"، یا فرمایا: "عمارت میں خرچ کرنے کا ثواب نہیں ملتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الجنائز ۳ (۹۷۰)، صفة القیامة ۴۰ (۲۸۸۳)،(تحفة الأشراف:۳۵۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰۹،۱۱۰،۱۱۱،۶/۳۹۵)(صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱ ۲۸۳)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ ابْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل(بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۳۳ (۲۳۴۴)،(تحفة الأشراف:۱۰۵۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۰،۵۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَلَّامِ بْنِ شُرَحْبِيلَ أَبِي شُرَحْبِيلَ، عَنْ حَبَّةَ، وَسَوَاءٍ ابْنَيْ خَالِدٍ، قَالَا: دَخَلْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُعَالِجُ شَيْئًا فَأَعَنَّاهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "لَا تَيْأَسَا مِنَ الرِّزْقِ مَا تَهَزَّزَتْ رُءُوسُكُمَا، فَإِنَّ الْإِنْسَانَ تَلِدُهُ أُمُّهُ أَحْمَرَ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرٌ، ثُمَّ يَرْزُقُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابنائے خالد حبہ اور سواء رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ کچھ مرمت کا کام کر رہے تھے تو ہم نے اس میں آپ کی مدد کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم روزی کی طرف سے مایوس نہ ہونا جب تک تمہارے سر ہلتے رہیں، بیشک انسان کی ماں اس کو لال جنتی ہے، اس پر کھال نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اس کو رزق دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۹۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۶۹)(ضعیف) (سلام بن شرحبیل لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو شُعَيْبٍ صَالِحُ بْنُ زُرَيْقٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ، عَنْمُوسَى بْنِ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنْ قَلْبِ ابْنِ آدَمَ بِكُلِّ وَادٍ شُعْبَةً، فَمَنِ اتَّبَعَ قَلْبُهُ الشُّعَبَ كُلَّهَا، لَمْ يُبَالِ اللَّهُ بِأَيِّ وَادٍ أَهْلَكَهُ، وَمَنْ تَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ كَفَاهُ التَّشَعُّبَ".
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کے دل میں دنیا کی ہر چیز کی خواہش ہوتی ہے، جس نے اپنا دل تمام خواہشات کے پیچھے لگا دیا، تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ اس کو کس وادی میں ہلاک کرے، اور جس نے اللہ پر بھروسہ کر لیا تو ہر طرح کی خواہش کی فکر اس سے جاتی رہے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۷۴۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۸)(ضعیف) (سند میں صالح بن زریق مجہول ہیں، اور ان کی حدیث منکر ہے، قالہ الذہبی، اور سعید بن عبدالرحمن ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَمُوتَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان (حسن ظن) رکھتا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ۱۹ (۲۸۷۷)، سنن ابی داود/الجنائز ۱۷ (۳۱۱۳)،(تحفة الأشراف:۲۲۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۳،۳۲۵،۳۳۰،۳۳۴،۳۹۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَلَا تَعْجِزْ، فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ، فَإِنَّ اللَّوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طاقتور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور و ناتواں مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں بھلائی ہے، تم اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں فائدہ پہنچائے، اور عاجز نہ بنو، اگر مغلوب ہو جاؤ تو کہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے، جو اس نے چاہا کیا، اور لفظ "اگر مگر"سے گریز کرو، کیونکہ "اگر مگر" شیطان کے کام کا دروازہ کھولتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۹۵۲)، قد أخرجہ: صحیح مسلم/القدر ۸ (۲۶۶۴)، مسند احمد (۲/۳۶۶،۳۷۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ، حَيْثُمَا وَجَدَهَا، فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حکمت و دانائی کی بات مومن کا گمشدہ سرمایہ ہے، جہاں بھی اس کو پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/العلم ۱۹ (۳۶۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۲۹۴۰)(ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن الفضل ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی بہ نسبت کافر کے مسلمان کو حکمت حاصل کرنے کا زیادہ شوق ہونا چاہئے، افسوس ہے کہ ایک مدت دراز سے مسلمانوں کو حکمت کا شوق جاتا رہا نہ دنیا کی حکمت سیکھتے ہیں نہ دین کی، اور کفار حکمت یعنی دنیاوی علوم اور سائنس وغیرہ سیکھ کر ان پر غالب ہو گئے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں: صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت (کے ایام)" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۱ (۶۴۱۲)، سنن الترمذی/الزہد ۱ تعلیقا (۲۳۰۴)،(تحفة الأشراف:۵۶۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵۸،۲۴۴)، سنن الدارمی/الرقاق ۲ (۲۷۴۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی قدر نہیں کرتے اور یوں ہی ضائع کرتے ہیں۔ اور جب دونوں نعمتیں اللہ تعالیٰ دے تو جلدی خوب عبادت کر لے، علم حاصل کرے، ایسا نہ ہو کہ یہ وقت گزر جائے اور فکر اور بیماری میں گرفتار ہو پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي وَأَوْجِزْ، قَالَ: "إِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ، فَصَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّعٍ، وَلَا تَكَلَّمْ بِكَلَامٍ تَعْتَذِرُ مِنْهُ، وَأَجْمِعِ الْيَأْسَ عَمَّا فِي أَيْدِي النَّاسِ".
ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آ کر کہا: اللہ کے رسول! مجھے کچھ بتائیے، اور مختصر نصیحت کیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو ایسی نماز پڑھو گویا کہ دنیا سے جا رہے ہو، اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالو جس کے لیے آئندہ عذر کرنا پڑے، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے پوری طرح مایوس ہو جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۴۷۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۱۲)(حسن) (سند میں عثمان بن جبیر مقبول عند المتابعہ ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۴۰۰)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الَّذِي يَجْلِسُ يَسْمَعُ الْحِكْمَةَ، ثُمَّ لَا يُحَدِّثُ عَنْ صَاحِبِهِ إِلَّا بِشَرِّ مَا يَسْمَعُ، كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى رَاعِيًا، فَقَالَ: يَا رَاعِي، أَجْزِرْنِي شَاةً مِنْ غَنَمِكَ، قَالَ: اذْهَبْ فَخُذْ بِأُذُنِ خَيْرِهَا، فَذَهَبَ فَأَخَذَ بِأُذُنِ كَلْبِ الْغَنَمِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی مجلس میں بیٹھ کر حکمت کی باتیں سنے، پھر اپنے ساتھی سے صرف بری بات بیان کرے، تو اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کسی چرواہے کے پاس جائے، اور کہے: اے چرواہے! مجھے اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ذبح کرنے کے لیے دو، چرواہا کہے: جاؤ اور ان میں سب سے اچھی بکری کا کان پکڑ کر لے جاؤ، تو وہ جائے اور بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۲۰۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۵۳،۴۰۵،۵۰۸)(ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں)
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَاهُ إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُوسَى.، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَقَالَ فِيهِ: "بِأُذُنِ خَيْرِهَا شَاةً".
اس سند سے بھی حماد نے اسی طرح روایت کی ہے، اس میں «بأذن خيرها» کے بجائے «بأذن خيرها شاة» کا لفظ ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ جَمِيعًا، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں نہیں داخل ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر و غرور ہو گا اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث (رقم:۵۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: تو معلوم ہوا کہ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی آدمی میں ایمان ہو گا تو وہ تکبر و غرور نہ کرے گا اور جب وہ غرور کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ذرہ برابر بھی اس میں ایمان نہیں ہے، اور اس کا جنت میں جانا مشکل ہے، اس لیے آدمی کو اس سے ممکن طور پر دور رہنا چاہئے، اور اللہ تعالیٰ سے اس سے چھٹکارا پانے کی دعا کرنی چاہئے، تاکہ آدمی صاف دل اور متواضع طبیعت کے ساتھ دنیا سے جائے، اور ایمان اور عمل صالح کی برکت سے اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور جنت اس کا آخری ٹھکانہ ہو۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، مَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَلْقَيْتُهُ فِي جَهَنَّمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بڑائی (کبریائی) میری چادر ہے، اور عظمت میرا تہہ بند، جو ان دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی مجھ سے جھگڑے، (یعنی ان میں سے کسی ایک کا بھی دعویٰ کرے) میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۲۹ (۴۰۹۰)،(تحفة الأشراف:۱۲۱۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البروالصلة ۳۸ (۲۶۲۰)، مسند احمد (۲/۲۴۸،۳۷۶،۴۱۴ھ ۴۲۷،۴۴۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَهَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَلْقَيْتُهُ فِي النَّارِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے، اور عظمت میرا تہہ بند ہے، جو ان دونوں میں سے ایک کے لیے بھی مجھ سے جھگڑا کرے گا، میں اس کو آگ میں ڈال دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۵۷۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۱)(صحیح) (سند میں عطاء بن السائب ہیں، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، کما تقدم، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۵۴۱)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ دَرَّاجًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ يَتَوَاضَعُ لِلَّهِ سُبْحَانَهُ دَرَجَةً، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً، وَمَنْ يَتَكَبَّرُ عَلَى اللَّهِ دَرَجَةً، يَضَعُهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً، حَتَّى يَجْعَلَهُ فِي أَسْفَلِ السَّافِلِينَ".
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے ایک درجہ تواضع کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا، اور جو اللہ تعالیٰ پر ایک درجہ تکبر اختیار کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے کر دے گا، یہاں تک کہ اس کو تمام لوگوں سے نیچے درجہ میں کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۶۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۷۶)(ضعیف) (سند میں دراج ہیں، جو ابو الہیثم سے روایت حدیث میں ضعیف ہیں، لیکن پہلا جملہ صحیح مسلم میں آیا ہے، لفظ «درجة» کے بغیر، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۳۲۸)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، وَسَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنْ كَانَتِ الْأَمَةُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"فَمَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهَا حَتَّى تَذْهَبَ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ مِنْ الْمَدِينَةِ فِي حَاجَتِهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر اہل مدینہ میں سے کوئی ایک باندی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے، یہاں تک کہ وہ آپ کو اپنی ضرورت کے لیے جہاں چاہتی لے جاتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۰۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۷۴،۲۱۵)(صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ آپ کے تواضع کا حال تھا کہ ایک لونڈی کے ساتھ تشریف لے جاتے، اور اس کا کام کر دیتے حالانکہ تمام مخلوقات میں آپ افضل اور اعلیٰ تھے، اور بڑے بڑے دنیا کے بادشاہ درجہ میں آپ کے غلام کے غلام سے بھی کم تھے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيُشَيِّعُ الْجِنَازَةَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْمَمْلُوكِ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ، وَكَانَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، وَالنَّضِيرِ عَلَى حِمَارٍ، وَيَوْمَ خَيْبَرَ عَلَى حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِرَسَنٍ مِنْ لِيفٍ، وَتَحْتَهُ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی عیادت کرتے، جنازے کے پیچھے جاتے، غلام کی دعوت قبول کر لیتے، گدھے کی سواری کرتے، جس دن بنو قریظہ اور بنو نضیر کا واقعہ ہوا، آپ گدھے پر سوار تھے، خیبر کے دن بھی ایک ایسے گدھے پر سوار تھے جس کی رسی کھجور کی چھال کی تھی، اور آپ کے نیچے کھجور کی چھال کا زین تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الجنائز ۳۲ (۱۰۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۸)(ضعیف) (سند میں مسلم الاعور ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَطَبَهُمْ، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحَى إِلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ".
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: "بیشک اللہ عزوجل نے میری طرف وحی کی ہے کہ تم تواضع و فروتنی اختیار کرو، یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۴۸ (۴۸۹۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۰۱۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنةوصفة نعیمہا ۱۶ (۲۸۶۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عُتْبَةَ مَوْلًى لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَشَدَّ حَيَاءً مِنْ عَذْرَاءَ فِي خِدْرِهَا، وَكَانَ إِذَا كَرِهَ شَيْئًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے تھے، اور جب آپ کو کوئی چیز ناگوار لگتی تو آپ کے چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہو جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۶۲،۳۵۶۳)، صحیح مسلم/الفضائل ۱۶ (۲۳۲۰)،(تحفة الأشراف:۴۱۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۷۱،۷۹،۸۸،۹۱،۹۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۴)(حسن) (سند میں معاویہ بن یحییٰ صدفی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۹۴۰)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِكُلِّ دِينٍ خُلُقًا، وَإِنَّ خُلُقَ الْإِسْلَامِ الْحَيَاءُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے، اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۴۵۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۵)(حسن) (صالح بن حسان متروک اور سعید الوراق ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۹۴۰)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى، إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ".
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گزشتہ کلام نبوت میں سے جو باتیں لوگوں کو ملی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۸۳)، سنن ابی داود/الأدب ۷ (۴۷۹۷)،(تحفة الأشراف:۹۹۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۱،۱۲۲،۵/۲۷۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حیاء ایمان سے ہے، اور ایمان کا بدلہ جنت ہے، اور فحش گوئی «جفا» (ظلم و زیادتی) ہے اور «جفا» (ظلم زیادتی) کا بدلہ جہنم ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۶۷۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۶)(صحیح) (سند میں حسن بصری ہیں، جن کا سماع ابو بکرة رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۴۹۵)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا زَانَهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بےحیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البروالصلة ۴۷ (۱۹۷۴)،(تحفة الأشراف:۴۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُنْفِذَهُ، دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ".
معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے غصے پر قابو پا لیا اس حال میں کہ وہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گا، اور اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے اپنے لیے چن لے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۳ (۴۷۷۷)، سنن الترمذی/البروالصلة ۷۴ (۲۰۲۱)، وصفة القیامة ۴۸ (۲۴۹۳)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۳۸،۴۴۰)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عُمَارَةَ الْعَبْدِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَتَتْكُمْ وُفُودُ عَبْدِ الْقَيْسِ"، وَمَا يَرَى أَحَدٌ فِينَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءُوا فَنَزَلُوا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَقِيَ الْأَشَجُّ الْعَصَرِيُّ، فَجَاءَ بَعْدُ فَنَزَلَ مَنْزِلًا، فَأَنَاخَ رَاحِلَتَهُ وَوَضَعَ ثِيَابَهُ جَانِبًا، ثُمَّ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَشَجُّ، إِنَّ فِيكَ لَخَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمَ وَالتُّؤَدَةَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَشَيْءٌ جُبِلْتُ عَلَيْهِ أَمْ شَيْءٌ حَدَثَ لِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَلْ شَيْءٌ جُبِلْتَ عَلَيْهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس قبیلہ عبدالقیس کے وفود آئے ہیں، اور کوئی اس وقت نظر نہیں آ رہا تھا، ہم اسی حال میں تھے کہ وہ آ پہنچے، اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، اشج عصری رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے، وہ بعد میں آئے، ایک مقام پر اترے، اپنی اونٹنی کو بٹھایا، اپنے کپڑے ایک طرف رکھے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اشج! تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے: ایک تو حلم و بردباری، دوسری طمانینت و سہولت، اشج رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ صفات میری خلقت میں ہے یا نئی پیدا ہوئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، یہ پیدائشی ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۶۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۷)(ضعیف جدا) (سند میں عمارہ بن جوین متروک ہے)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حلم اور وقار انسان میں فطری ہوتا ہے، اسی طرح غصہ اور جلد بازی بھی پیدائشی فطری ہوتے ہیں، لیکن اگر آدمی محنت کرے اور نفس پر بار ڈالے تو بری صفات اور برے اخلاق دور ہو سکتے ہیں، یا کم ہو سکتے ہیں،محققین علماء کا یہی قول ہے، اور اگر برے اخلاق کا علاج ممکن نہ ہوتا تو تعلیم اخلاق،محنت و ریاضت اور مجاہدہ کا کچھ فائدہ ہی نہ ہوتا، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ فطری عیوب بہت مشکل سے جاتے ہیں، یا کم ہوتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلْأَشَجِّ الْعَصَرِيِّ: "إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ: الْحِلْمَ وَالْحَيَاءَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عصری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "تم میں دو خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں: ایک حلم اور دوسری حیاء"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۵۳۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البروالصلة ۶۶ (۲۰۱۱)(صحیح) (سند میں عباس بن فضل انصاری متروک ہے، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، لیکن لفظ «الاناة» کے ساتھ)
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ جُرْعَةٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللَّهِ، مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ كَظَمَهَا عَبْدٌ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی گھونٹ پینے کا ثواب اللہ تعالیٰ کے یہاں اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غصہ کا گھونٹ پینے کا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۶۹۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۲۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، إِنَّ السَّمَاءَ أَطَّتْ وَحَقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ، مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ، إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشَاتِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے، بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، اس میں چار انگل کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور سجدے میں رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، اور تم بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوتے، اور تم میدانوں کی طرف نکل جاتے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے"، اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۸۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزھد ۹ (۲۳۱۲)، مسند احمد (۳/۱۷۳)(حسن) («واللہ لوددت» کے بغیر حدیث حسن ہے، یہ ابوذر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جیسا کہ مسند احمد میں بصراحت آیا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۷۲۲)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو ہنستے کم اور روتے زیادہ"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۲۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۲۵ (۴۲۶)، مسند احمد (۳/۱۰۲،۱۲۶،۱۵۴،۱۹۳،۲۱۰،۲۱۷،۲۴۰،۲۴۵،۲۵۱،۲۶۸،۲۹۰)، سنن الدارمی/الرقاق ۲۶ (۲۷۷۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّعَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ"لَمْ يَكُنْ بَيْنَ إِسْلَامِهِمْ، وَبَيْنَ أَنْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، يُعَاتِبُهُمُ اللَّهُ بِهَا، إِلَّا أَرْبَعُ سِنِينَ: وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ سورة الحديد آية 16.
عامر بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ان کے اسلام اور اس آیت «ولا يكونوا كالذين أوتوا الكتاب من قبل فطال عليهم الأمد فقست قلوبهم وكثير منهم فاسقون» "اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جن کو ان سے پہلے کتاب عطا کی گئی، ان پر مدت طویل ہو گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں" (سورة الحديد: 16) کے نزول کے درمیان جس میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا ہے صرف چار سال کا وقفہ ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۲۶۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۰)(حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان لوگوں کی طرح نہ ہو جن کو اگلے زمانہ میں کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر مدت دراز گزری تو ان کے دل سخت ہو گئے ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بشْرِ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُكْثِرُوا الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زیادہ نہ ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۱۸۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَال لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْرَأْ عَلَيَّ"، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ بِسُورَةِ النِّسَاءِ، حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا عَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "میرے سامنے قرآن کی تلاوت کرو"، تو میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» "تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور پھر ہم تم کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے" (سورة النساء: 41) پر پہنچا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیرالقرآن ۵ (۳۰۲۴)،(تحفة الأشراف:۹۴۲۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۹ (۴۵۸۲)، فضائل القرآن ۳۲ (۵۰۴۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۴۰ (۸۰۰)، سنن ابی داود/العلم ۱۳ (۳۶۶۸)، مسند احمد (۱/۳۰۸،۴۳۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اپنی امت کے برے اعمال کا خیال کر کے اور اس پر کہ مجھے ان پر گواہی دینی پڑے گی، اے مسلمانو! رسول اکرم ﷺ سے شرم کرو اور کوشش کرو کہ رسول اکرم ﷺ تمہارے نیک اعمال کے گواہ ہوں، اور برے اعمال کر کے آپ کو رنج مت دو، اور ضد نفسانیت اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو، جو طریقہ حق ہے یعنی اتباع قرآن اور حدیث اس کو اختیار کرو تمہارے نبی تم سے راضی رہیں گے۔
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةٍ، فَجَلَسَ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ فَبَكَى حَتَّى بَلَّ الثَّرَى، ثُمَّ قَالَ: "يَا إِخْوَانِي، لِمِثْلِ هَذَا فَأَعِدُّوا".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے میں تھے، آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے، اور رونے لگے یہاں تک کہ مٹی گیلی ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے بھائیو! اس جیسی کے لیے تیاری کر لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۱۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۹۴)(حسن)(تراجع الألبانی: رقم:۵۲۷)
وضاحت: ۱؎: تم اس طرح ایک دن تنگ و تاریک قبر میں ڈالے جاؤ گے، نہ کوئی یار ہو گا، نہ مددگار، نئی راہ اور راہ بتانے والا کوئی نہیں، نہ رفیق صرف اپنے نیک اعمال رفیق ہوں گے، باقی سب چھٹ جائیں گے، مال متاع آل و اولاد، وغیرہ سب یہیں رہ جائیں گے، اور مرنے کے بعد تم کو مٹی میں دبا کے لوٹ کر عیش کریں گے، جب یہ حال ہے تو تم ان کی محبت میں اللہ تعالی کو مت بھولو، نیک اعمال کو ہرگز نہ چھوڑو، اس کو اپنا محبوب اور رفیق سمجھو، جو رشتہ داروں، دوستوں اور بیوی بچوں سے ہزار درجہ بہتر ہے، وہ تمہارا ساتھ کبھی نہ چھوڑے گا، جب نبی اکرم ﷺ دیکھ کر اتنا روئے کہ زمین تر ہو گئی حالانکہ آپ کو اپنی نجات کا یقین تھا، تو ہم اگر آنسوؤں کی ندی بہا دیں بلکہ ساری عمر رویا کریں تو زیبا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہاں ہمارا کیا حال ہو گا۔ «اللهم اغفر لنا وارحمنا»، آمين۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم رویا کرو، اگر رونا نہ آئے تو تکلف کر کے رؤو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۹۰۰، و مصباح الزجاجة:)(ضعیف) (سند میں ابو رافع اور عبد الرحمن بن سائب دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوع، وَإِنْ كَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ، مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، ثُمَّ تُصِيبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس مومن کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے آنسو بہہ نکلیں، خواہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، پھر وہ اس کے رخساروں پر بہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم پر حرام کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۳۴۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۳)(ضعیف) (سند میں حماد بن ابی حمید الزرقی ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ سورة المؤمنون آية 60، أَهُوَ يُضَافُ الرَّجُلُ الَّذِي يَزْنِي وَيَسْرِقُ وَيَشْرَبُ الْخَمْرَ، قَالَ: "لَا، يَا بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، أَوْ يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ، وَلَكِنَّهُ الرَّجُلُ يَصُومُ وَيَتَصَدَّقُ وَيُصَلِّي، وَهُوَ يَخَافُ أَنْ لَا يُتَقَبَّلَ مِنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! «والذين يؤتون ما آتوا وقلوبهم وجلة» (سورة الومنون: 60) سے کیا وہ لوگ مراد ہیں جو زنا کرتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں: ابوبکر کی بیٹی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدیق کی بیٹی! اس سے مراد وہ شخص ہے جو روزے رکھتا ہے، صدقہ دیتا ہے، اور نماز پڑھتا ہے، اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کا یہ عمل قبول نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۲۴ (۳۱۷۵)،(تحفة الأشراف:۱۶۳۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۵۹،۲۰۵)(حسن)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ عِمْرَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ رَبٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ كَالْوِعَاءِ، إِذَا طَابَ أَسْفَلُهُ طَابَ أَعْلَاهُ، وَإِذَا فَسَدَ أَسْفَلُهُ فَسَدَ أَعْلَاهُ".
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اعمال برتن کی طرح ہیں، جب اس میں نیچے اچھا ہو گا تو اوپر بھی اچھا ہو گا، اور جب نیچے خراب ہو گا تو اوپر بھی خراب ہو گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۴۵۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۹۴)(صحیح)(سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۷۳۴)
وضاحت: ۱؎: پس جو اعمال خلوص اور صدق دل سے کئے جائیں ان کی تاثیر آدمی پر پڑتی ہے، اور لوگ خواہ مخواہ ایسے شخص کو اچھا سمجھتے ہیں، لیکن جو اعمال ریا کی نیت سے کئے جائیں اس کے کرنے والے پر نور نہیں ہوتا، اور تامل سے اس کا خبیث باطن عاقل آدمی کو ظاہر ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ذَكْوَانَ أَبُو الزِّنَادِ، عَنْالْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا صَلَّى فِي الْعَلَانِيَةِ فَأَحْسَنَ، وَصَلَّى فِي السِّرِّ فَأَحْسَنَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَذَا عَبْدِي حَقًّا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک جب بندہ سب کے سامنے نماز پڑھتا ہے تو اچھی طرح پڑھتا ہے، اور تنہائی میں نماز پڑھتا ہے تو بھی اچھی طرح پڑھتا ہے، (ایسے ہی بندے کے متعلق) اللہ عزوجل فرماتا ہے: یہ حقیقت میں میرا بندہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۹۳۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۳۷)(ضعیف) (سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَارِبُوا وَسَدِّدُوا، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمُنْجِيهِ عَمَلُهُ"، قَالُوا: وَلَا أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میانہ روی اختیار کرو، اور سیدھے راستے پر رہو، کیونکہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: "اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور مجھے بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے مجھے ڈھانپ لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۳۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۶)(صحیح)(سندمیں شریک بن عبداللہ القاضی متفق علیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۶۰۲)
وضاحت: ۱؎: «قاربوا» اور «سددوا» دونوں کے معنی قریب ہی کے ہیں، یعنی عبادت میں اعتدال کرو اور میانہ روی پر مضبوطی سے رہو، جہاں تک خوشی سے ہو سکے عبادت کرو، جب دل اکتا جائے تو عبادت بند کر دو، بعضوں نے کہا: «قاربوا» کا یہ معنی ہے کہ عبادت سے اللہ تعالی کی قربت چاہو، بعضوں نے کہا: کثرت عبادت سے قرب حاصل کرو لیکن صحیح وہی ترجمہ ہے جو اوپر لکھا گیا اور وہی مناسب ہے اس عبادت کے، کسی کو اس کے اعمال نجات نہیں دیں گے، اس حدیث سے فخر اور تکبر کی جڑ کٹ گئی، اگر کوئی عابد اور زہد ہو تو بھی اپنی عبادت پر گھمنڈ نہ کرے، اور گناہگاروں کو ذلیل نہ سمجھے اس لئے کہ نجات فضل اور رحمت الہی پر موقوف ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ اعمال صالحہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی رحمت و رأفت کا قرینہ ہیں، اور ان سے نجات کی امید قوی ہوئی ہے باقی اختیار مالک کو ہے «اللہم اغفرلنا وارحمنا»۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، فَمَنْ عَمِلَ لِي عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ، غَيْرِي فَأَنَا مِنْهُ بَرِيءٌ وَهُوَ لِلَّذِي أَشْرَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی اور بے نیاز ہوں، جس نے کوئی عمل کیا، اور اس میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کیا، تو میں اس سے بری ہوں، اور وہ اسی کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۷)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزھد ۵ (۲۹۸۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِينَاءَ، عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ ليَوْمَ الْقِيَامَةِ، لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ، نَادَى مُنَادٍ: مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ، فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّ اللَّهَ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ".
سعد بن ابی فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ (صحابی تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا، اس دن جس میں کوئی شک نہیں ہے، تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے کوئی کام اللہ تعالیٰ کے لیے کیا، اور اس میں کسی کو شریک کیا، تو وہ اپنا بدلہ شرکاء سے طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام شریکوں کی شرکت سے بے نیاز ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۱۹ (۳۱۵۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۰۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۱۵،۳/۴۶۶)(حسن) (سند میں زیاد بن میناء ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة:۵۳۱۸)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ رُبَيْحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنْ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ"، قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، فَقَالَ: "الشِّرْكُ الْخَفِيُّ، أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلِّي فَيُزَيِّنُ صَلَاتَهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نکل کر آئے، ہم مسیح دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے"؟ ہم نے عرض کیا: "کیوں نہیں"؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۲۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۰)(حسن) (سند میں کیثر بن زید اور ربیح بن عبد الرحمن میں ضعف ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور جب کوئی شخص نہ ہو تو جلدی جلدی پڑھ لے، معاذ اللہ، ریا کتنی بری بلا ہے اس کو شرک فرمایا جسے بخشا نہ جائے گا، ایسے ہی ریا کا عمل کبھی قبول نہ ہو گا: «فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرك بعبادة ربه أحدا» (سورة الكهف: 110) اس آیت میں شرک سے ریا ہی مراد ہے اور عمل صالح وہی ہے جو خالص اللہ کی رضامندی کے لئے ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اللہ کی رضا حاصل کrنے کے لیے ہر طرح کے اعمال شرک سے بچتے ہوئے سنت صحیحہ کے مطابق زندگی گزارے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو قبول فرمائے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُولُ يَعْبُدُونَ شَمْسًا وَلَا قَمَرًا وَلَا وَثَنًا، وَلَكِنْ أَعْمَالًا لِغَيْرِ اللَّهِ وَشَهْوَةً خَفِيَّةً".
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک سب سے زیادہ خطرناک چیز جس کا مجھ کو اپنی امت کے بارے میں ڈر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند یا بتوں کی پوجا کریں گے، بلکہ وہ غیر اللہ کے لیے عمل کریں گے، اور دوسری چیز مخفی شہوت ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۸۲۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۳،۱۲۴) (ضعیف)(سند میں عامر بن عبد اللہ مجہول ہیں، اور الحسن بن ذکوان مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: مخفی شہوت یہ ہے کہ آدمی ظاہر میں تو یہ کہے کہ اسے عورتوں کا بالکل خیال نہیں ہے، اور جب تنہائی میں عورت مل جائے تو اس سے حرام کا ارتکاب کرے، اور بعض نے کہا کہ شہوت خفیہ ہر اس گناہ کو شامل ہے جس کی دل میں آرزو ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُرَاءِ يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوگوں میں شہرت و ناموری کے لیے کوئی نیک کام کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ذلیل و رسوا کرے گا، اور جس نے ریاکاری کی تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کر دکھائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۴۱، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۰)(صحیح) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد کی حدیث جندب سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ يُرَاءِ يُرَاءِ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعِ اللَّهُ بِهِ".
جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ریاکاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری لوگوں کے سامنے نمایاں اور ظاہر کرے گا، اور جو شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رسوا اور ذلیل کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۳۴ (۶۴۹۹)، صحیح مسلم/الزھد ۵ (۲۹۸۷)،(تحفة الأشراف:۳۲۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَمُحَمَّدُ ابْنُ بِشْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم ۱۵ (۷۳)، الزکاة ۵ (۱۴۰۹)، الأحکام ۳ (۱۷۴۱)، الاعتصام بالکتاب ۱۳ (۷۳۱۶)، صحیح مسلم/المسافرین ۴۷ (۸۱۶)،(تحفة الأشراف:۹۵۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۵،۴۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا، تو وہ اسے دن رات پڑھتا ہے، دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، تو وہ اسے دن رات (نیک کاموں میں) خرچ کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التوحید ۴۵ (۷۵۲۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۴۷ (۸۱۵)، سنن الترمذی/البروالصلة ۲۴ (۱۹۳۶)،(تحفة الأشراف:۶۸۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۶،۸۸،۱۵۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَر، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الْحَنَّاطِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْحَسَدُ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ، كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَالصَّلَاةُ نُورُ الْمُؤْمِنِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو، اور صدقہ و خیرات گناہوں کو اسی طرح بجھاتا ہے جس طرح پانی آگ کو، نماز مومن کا نور ہے اور روزہ آگ سے ڈھال ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۴۲، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۱)(ضعیف) (سند میں عیسیٰ الحناط ضعیف ہیں، لیکن «والصيام جنة من النار» کا جملہ متعدد احادیث میں ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۹۰۱ - ۱۹۰۲)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کے کرنے پر آخرت کے عذاب کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تیار کر رکھا ہے دنیا میں بھی سزا دینی زیادہ لائق ہو سوائے بغاوت اور قطع رحمی کے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۵۱ (۴۹۰۲)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۵۷ (۲۵۱۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۶،۳۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی امام برحق کی اطاعت نہ کرنا اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مستعد ہونا، اور بعضوں نے کہا بغی سے یہاں ظلم مراد ہے یعنی لوگوں کو ستانا اور ان کی حق تلفی کرنا۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسْرَعُ الْخَيْرِ ثَوَابًا، الْبِرُّ وَصِلَةُ الرَّحِمِ، وَأَسْرَعُ الشَّرِّ عُقُوبَةً، الْبَغْيُ وَقَطِيعَةُ الرَّحِمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے جلدی جن نیکیوں کا ثواب ملتا ہے وہ نیکی اور صلہ رحمی ہے، اور سب سے جلدی جن برائیوں پر عذاب آتا ہے وہ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۸۲، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۲)(ضعیف جدا) (سند میں صالح بن موسیٰ متروک راوی ہے، اور اسے ہی سوید میں کلام ہے)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى 61 بَنِي عَامِرٍ 61، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شر سے آدمی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کی تحقیر کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البروالصلة ۱۰ (۲۵۶۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ۴۰ (۳۸۸۲)، سنن الترمذی/البروالصلة ۱۸ (۱۹۲۷)، مسند احمد (۲/۲۷۷،۳۱۱،۳۶۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْسِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ: أَنْ تَوَاضَعُوا، وَلَا يَبْغِي بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ "تم تواضع اختیار کرو، اور تم ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۵۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِيرَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ، حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ".
عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ جو (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی مضائقہ نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے جس میں برائی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۹ (۲۴۵۱)،(تحفة الأشراف:۹۹۰۲)(ضعیف) (ترمذی نے اس کی تحسین فرمائی ہے، اور حافظ نے صحیح الاسناد کہا ہے، سند میں عبداللہ بن یزید مجہول راوی ہیں، جن کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، اور ان کی مجہول کی توثیق کو علماء نے قبول نہیں کیا ہے، اس لئے یہ سند ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيثُ بْنُ سُمَيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ صَدُوقِ اللِّسَانِ"، قَالُوا: صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ، قَالَ: "هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لَا إِثْمَ فِيهِ، وَلَا بَغْيَ، وَلَا غِلَّ، وَلَا حَسَدَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر صاف دل، زبان کا سچا" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: زبان کے سچے کو تو ہم سمجھتے ہیں، صاف دل کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پرہیزگار صاف دل جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۹۳۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۴)(صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۵۷۰)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، كُنْ وَرِعًا تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَأَقِلَّ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ! ورع و تقویٰ والے بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے، قانع بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہو جاؤ گے، اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن ہو جاؤ گے، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو، مسلمان ہو جاؤ گے، اور کم ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۸۰۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد ۲ (۲۳۰۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ الْمَاضِي بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا عَقْلَ كَالتَّدْبِيرِ، وَلَا وَرَعَ كَالْكَفِّ، وَلَا حَسَبَ كَحُسْنِ الْخُلُقِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تدبیر جیسی کوئی عقل نہیں ہے، اور (حرام سے) رک جانے جیسی کوئی پرہیزگاری نہیں ہے، اور اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی عالیٰ نسبی (حسب و نسب والا ہونا) نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۶)(ضعیف) (سند میں قاسم بن محمد اور ماضی بن محمد دونوں راوی ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْحَسَبُ الْمَالُ وَالْكَرَمُ التَّقْوَى".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عالیٰ نسبی (اچھے حسب و نسب والا ہونا) مال ہے، اور کرم (جود و سخا اور فیاضی)تقویٰ ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۴۹ (۳۲۷۱)،(تحفة الأشراف:۴۵۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْأَبِي السَّلِيلِ ضُرَيْبِ بْنِ نُقيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَعْرِفُ كَلِمَةً، وَقَالَ عُثْمَانُ: آيَةً، لَوْ أَخَذَ النَّاسُ كُلُّهُمْ بِهَا لَكَفَتْهُمْ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَّةُ آيَةٍ؟ قَالَ: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سورة الطلاق آية 2.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں، (راوی عثمان بن ابی شیبہ نے کلمہ کی جگہ "آیت "کہا) اگر تمام لوگ اس کو اختیار کر لیں تو وہ ان کے لیے کافی ہے"، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! کون سی آیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ومن يتق الله يجعل له مخرجا» "اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نجات کا راستہ نکال دے گا" (سورۃ الطلاق: ۲ - ۳)۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۲۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۷۸، سنن الدارمی/الرقاق ۱۷ (۲۷۶۷)(ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، کیونکہ ابوالسلیل کی ملاقات ابوذر رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّبَا أَوْ الْنَبَاوَةِ، قَالَ: وَالنَّبَاوَةُ مِنْ الطَّائِفِ، قَالَ: "يُوشِكُ أَنْ تَعْرِفُوا أَهْلَ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"، قَالُوا: بِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "بِالثَّنَاءِ الْحَسَنِ، وَالثَّنَاءِ السَّيِّئِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ".
ابوزہیر ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نباوہ یا بناوہ (طائف کے قریب ایک مقام ہے) میں خطبہ دیا، اور فرمایا: "تم جلد ہی جنت والوں کو جہنم والوں سے تمیز کر لو گے"، لوگوں نے سوال کیا: کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھی تعریف اور بری تعریف کرنے سے تم ایک دوسرے کے اوپر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۰۴۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۱۶،۴۶۶)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۷ (۲۷۶۷)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ كُلْثُومٍ الْخُزَاعِيِّ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ أَنِّي قَدْ أَحْسَنْتُ، وَإِذَا أَسَأْتُ أَنِّي قَدْ أَسَأْتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا قَالَ جِيرَانُكَ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا قَالُوا إِنَّكَ قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ".
کلثوم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں اچھا کام کروں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے اچھا کام کیا، اور جب برا کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے برا کام کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: "جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کیا ہے، اور جب وہ کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۱۶۶، ومصباح الزجاجة:۱۵۰۹)(صحیح) (سند میں کلثوم بن علقمہ الخزاعی ثقہ ہیں، اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو شرف صحبت رسول حاصل ہے، آنے والی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کی تصحیح حاکم ابن حبان نے کی ہے، اور نسائی کے یہاں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة:۱۳۲۷)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ وَإِذَا أَسَأْتُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَمِعْتَ جِيرَانَكَ يَقُولُونَ: أَنْ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: جب میں کوئی اچھا کام کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے اچھا کام کیا ہے؟ اور جب برا کام کروں تو کیسے جانوں کہ میں نے برا کام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اپنے پڑوسیوں کو کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے، اور جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے، تو سمجھ لو کہ تم نے برا کام کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۳۱۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۰۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ أَبِي ثُبَيْتٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْ مَلَأَ اللَّهَ أُذُنَيْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ خَيْرًا، وَهُوَ يَسْمَعُ، وَأَهْلُ النَّارِ مَنْ مَلَأَ أُذُنَيْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ شَرًّا، وَهُوَ يَسْمَعُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنتی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی اچھی تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو، اور جہنمی وہ ہے جس کے کان اللہ تعالیٰ لوگوں کی بری تعریف سے بھر دے، اور وہ اسے سنتا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۳۶۸، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۱)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ لِلَّهِ، فَيُحِبُّهُ النَّاسُ عَلَيْهِ؟، قَالَ: "ذَلِكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ایک شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام کرتا ہے تو کیا اس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تو مومن کے لیے نقد (جلد ملنے والی) خوشخبری (بشارت) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البروالصلة ۵۱ (۲۶۴۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۵۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۵۶،۱۶۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْأَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَعْمَلُ الْعَمَلَ فَيُطَّلَعُ عَلَيْهِ فَيُعْجِبُنِي، قَالَ: "لَكَ أَجْرَانِ، أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلَانِيَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں کوئی عمل کرتا ہوں، لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے، تو وہ میری تعریف کرتے ہیں، تو مجھے اچھا لگتا ہے، (اس کے بارے میں فرمائیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے دو اجر ہیں: پوشیدہ عمل کرنے کا اجر اور اعلانیہ کرنے کا اجر"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۴۹ (۲۳۸۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۳۱۱)(ضعیف) (سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اور سعید صدوق راوی ہیں، لیکن صاحب أوہام ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِوَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے، تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہی ہو گی، اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الوحي ۱ (۱)، الإیمان ۴۱ (۵۴)، العتق ۶ (۲۵۲۹)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۸)، النکاح ۵ (۵۰۷۰)، الأیمان والنذور ۲۳ (۶۶۸۹)، الحیل ۱ (۶۹۵۳)، صحیح مسلم/الإمارة ۴۵ (۹۰۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۱ (۲۲۰۱)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۱۶ (۱۶۴۷)، سنن النسائی/الطہارة ۶۰ (۷۵)، الطلاق ۲۴ (۳۴۶۷)، الأیمان والنذور ۱۹ (۳۸۲۵)،(تحفة الأشراف:۱۰۶۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵،۴۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرنے کا اس کو ثواب حاصل نہ ہو گا، یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے، اور فقہائے نے اس سے سیکڑوں مسائل نکالے ہیں، اور یہ حدیث ایک بڑی اصل ہے دین کے اصول میں سے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْأَبِي كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ كَمَثَلِ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَعِلْمًا، فَهُوَ يَعْمَلُ بِعِلْمِهِ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي حَقِّهِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ عِلْمًا وَلَمْ يُؤْتِهِ مَالًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَهُمَا فِي الْأَجْرِ سَوَاءٌ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يُؤْتِهِ عِلْمًا، فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ يُنْفِقُهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ، وَرَجُلٌ لَمْ يُؤْتِهِ اللَّهُ عِلْمًا وَلَا مَالًا، فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ مَالِ هَذَا عَمِلْتُ فِيهِ مِثْلَ الَّذِي يَعْمَلُ"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَهُمَا فِي الْوِزْرِ سَوَاءٌ".
ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس امت کی مثال چار لوگوں جیسی ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال اور علم عطا کیا، تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے، اور اس کو حق کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ایک وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا اور مال نہ دیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسے یہ کرتا ہے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یہ دونوں اجر میں برابر ہیں، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا لیکن علم نہیں، دیا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، ناحق خرچ کرتا ہے، اور ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے نہ علم دیا اور نہ مال، تو وہ کہتا ہے: کاش میرے پاس اس آدمی کے جیسا مال ہوتا تو میں اس (تیسرے) شخص کی طرح کرتا یعنی ناحق خرچ کرتا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۱۴۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد ۱۷ (۲۳۲۵)، مسند احمد (۴/۲۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سَمُرَةَ، حَدَّثَنَاأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُفَضَّلٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ان دونوں سندوں سے بھی ابوکبشہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا يُبْعَثُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۵۳۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۹۲)(صحیح) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن جابر رضی اللہ عنہ کی آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اگرچہ بری اور فاسق جماعت کے ساتھ اس پر بھی دنیا کا عذاب آ جائے لیکن آخرت میں ہر شخص اپنی نیت پر اٹھے گا جیسے اوپر ایک طویل حدیث میں گزرا۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ اپنی اپنی نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ۱۹ (۲۸۷۸)،(تحفة الأشراف:۲۳۰۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ خَطَّ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطًّا وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخُطُوطًا إِلَى جَانِبِ الْخَطِّ الَّذِي وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخَطًّا خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، فَقَالَ: "أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "هَذَا الْإِنْسَانُ الْخَطُّ الْأَوْسَطُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ إِلَى جَنْبِهِ الْأَعْرَاضُ تَنْهَشُهُ أَوْ تَنْهَسُهُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا أَصَابَهُ هَذَا، وَالْخَطُّ الْمُرَبَّعُ الْأَجَلُ الْمُحِيطُ، وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا: "کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے"؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا ہو جاتا ہے، چوکور لکیر اس کی عمر ہے، جس نے احاطہٰ کر رکھا ہے اور باہر والی لکیر اس کی آرزو ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۴ (۶۴۱۷)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۲ (۲۴۵۴)،(تحفة الأشراف ۹۲۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۵)، سنن الدارمی/الرقاق ۲۰ (۲۷۷۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: آدمی اپنی عمر سے زیادہ آرزو کرتا ہے، اور ایسے بندوبست کرتا اور ایسی عمارت بناتا ہے جن کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا ابْنُ آدَمَ وَهَذَا أَجَلُهُ عِنْدَ قَفَاهُ"، وَبَسَطَ يَدَهُ أَمَامَهُ، ثُمَّ قَالَ: "وَثَمَّ أَمَلُهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ابن آدم (انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے، اس کی گردن کے پاس، پھر اپنا ہاتھ آگے پھیلا کر فرمایا: "اور یہاں تک اس کی آرزوئیں اور خواہشات بڑھی ہوئی ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۲ (۲۳۳۴)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۴ (۶۴۱۸)، مسند احمد (۳/۱۲۳،۱۳۵،۱۴۲،۲۵۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ نے قد آدم تک اشارہ کیا کہ یہ آدمی ہے پھر ذرا کم کر کے بتلایا کہ یہ اس کی عمر ہے پھر اس سے بڑھا کر بتلایا کہ یہ آرزو ہے، یعنی اس کی عمر سے بہت بڑھی ہوئی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ فِي حُبِّ اثْنَتَيْنِ، فِي حُبِّ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةِ الْمَالِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہوتا ہے: زندگی کی محبت اور مال کی زیادتی کی محبت میں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۸، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۵ (۶۴۲۱)، سنن الترمذی/الزھد ۲۸ (۲۳۳۸)، مسند احمد (۲/۳۵۸،۳۹۴،۴۴۳،۴۴۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم (انسان) بوڑھا ہو جاتا ہے، اور اس کی دو خواہشیں جوان ہو جاتی ہیں: مال کی ہوس، اور عمر کی زیادتی کی تمنا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزکاة ۳۸ (۱۰۴۷)، سنن الترمذی/الزھد ۲۸ (۲۳۳۹)،(تحفة لأشراف:۱۴۳۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۵ (۶۴۲۱)، مسند احمد (۳/۱۱۵،۱۱۹،۱۶۹،۱۹۲،۲۵۶،۲۷۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ، لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، وَلَا يَمْلَأُ نَفْسَهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر ابن آدم (انسان) کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ یہ تمنا کرے گا کہ ایک تیسری وادی اور ہو، مٹی کے علاوہ اس کے نفس کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اس کی توبہ قبول کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى السَّبْعِينَ، وَأَقَلُّهُمْ مَنْ يَجُوزُ ذَلِكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سال سے ستر کے درمیان ہو گی، اور بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۲۳ (۲۳۳۱)، الدعوات ۱۰۲ (۳۵۵۰)،(تحغة الأشراف:۱۵۰۳۷)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "وَالَّذِي ذَهَبَ بِنَفْسِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ، وَكَانَ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَيْهِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ، الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ الْعَبْدُ وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس (اللہ) کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (دنیا سے) لے گیا! آپ جب فوت ہوئے تو آپ زیادہ نماز (تہجد)بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ اور آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ نیک عمل تھا جس پر بندہ ہمیشگی کرے اگرچہ تھوڑا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم:(۱۲۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جو کام ہمیشہ کیا جائے گرچہ وہ روزانہ تھوڑا ہی ہو وہی بہت ہو جاتا ہے، اور جو بہت کیا جائے لیکن ہمیشہ نہ کیا جائے وہ تھوڑا ہی رہتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ عِنْدِي امْرَأَةٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَنْ هَذِهِ؟"، قُلْتُ: فُلَانَةُ لَا تَنَامُ تَذْكُرُ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا"، قَالَتْ: وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينَ إِلَيْهِ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: "یہ کون ہے"؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ"۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین ۳۲ (۷۸۵)،(تحفة الأشراف:۱۶۸۲۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۳ (۴۳)، التہجد ۱۸ (۱۱۵۱)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۳)، الإیمان ۲۹ (۵۰۳۸)،، موطا امام مالک/قصرالصلاة ۲۴ (۹۰)مسند احمد (۶/۵۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْحَنْظَلَةَ الْكَاتِبِ التَّمِيمِيِّ الْأُسَيِّدِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْنَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، حَتَّى كَأَنَّا رَأْيَ الْعَيْنِ، فَقُمْتُ إِلَى أَهْلِي وَوَلَدِي فَضَحِكْتُ وَلَعِبْتُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ الَّذِي كُنَّا فِيهِ، فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: نَافَقْتُ نَافَقْتُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّا لَنَفْعَلُهُ، فَذَهَبَ حَنْظَلَةُ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا حَنْظَلَةُ، لَوْ كُنْتُمْ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ أَوْ عَلَى طُرُقِكُمْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً".
حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور ہم نے جنت اور جہنم کا ذکر اس طرح کیا گویا ہم اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں، پھر میں اپنے اہل و عیال کے پاس چلا گیا، اور ان کے ساتھ ہنسا کھیلا، پھر مجھے وہ کیفیت یاد آئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، میں گھر سے نکلا، راستے میں مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے، میں نے کہا: میں منافق ہو گیا، میں منافق ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی ہمارا بھی حال ہے، حنظلہ رضی اللہ عنہ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے حنظلہ! اگر (اہل و عیال کے ساتھ) تمہاری وہی کیفیت رہے جیسی میرے پاس ہوتی ہے تو فرشتے تمہارے بستروں (یا راستوں) میں تم سے مصافحہ کریں، حنظلہ! یہ ایک گھڑی ہے، وہ ایک گھڑی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/التوبة ۳ (۲۷۵۰)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۰ (۲۴۵۲)،(تحفة الأشراف:۳۴۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۷۸ا،۳۴۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ خَيْرَ الْعَمَلِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم خود کو اتنے ہی کام کا مکلف کرو جتنے کی تم میں طاقت ہو، کیونکہ بہترین عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے، خواہ وہ کم ہی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۹۴۲، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۵۰)(صحیح) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، اور ولید بن مسلم تدلیس التسویہ کرتے ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى صَخْرَةٍ، فَأَتَى نَاحِيَةَ مَكَّةَ فَمَكَثَ مَلِيًّا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَوَجَدَ الرَّجُلَ يُصَلِّي عَلَى حَالِهِ فَقَامَ فَجَمَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالْقَصْدِ"، ثَلَاثًا،"فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو ایک چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا، آپ مکہ کے ایک جانب گئے، اور کچھ دیر ٹھہرے، پھر واپس آئے، تو اس شخص کو اسی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھوں کو ملایا، پھر فرمایا:"لوگو! تم میانہ روی اختیار کرو"، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے (ثواب دینے سے) یہاں تک کہ تم خود ہی (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۵۷۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنت کی متابعت بہتر ہے، یعنی اسی قدر نماز اور روزہ اور وظائف پر مداومت کرنا جس قدر رسول اکرم ﷺ سے ثابت اور منقول ہے، اور اس میں شک نہیں کہ سنت کی پیروی ہر حال میں بہتر اور باعث برکت اور نور ہے، اور بہتر طریقہ وہی ہے جو وظاف و اوراد اور نوافل میں رسول اکرم ﷺ سے منقول ہے، انہی و ظائف واوراد پر قناعت کرے اور اہل و عیال اور دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی مشغول رہے جیسے رسول اکرم ﷺ کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَأَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا كُنَّا نَعْمَلُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم سے ان گناہوں کا بھی مواخذہ کیا جائے گا، جو ہم نے (زمانہ) جاہلیت میں کئے تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے عہد اسلام میں نیک کام کئے (دل سے اسلام لے آیا) اس سے جاہلیت کے کاموں پر مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اسلام لا کر بھی برے کام کئے، (کفر پر قائم رہا ہے) تو اس سے اول و آخر دونوں برے اعمال پر مواخذہ کیا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/استتابة المرتدین ۱ (۶۹۲۱)، صحیح مسلم/الإیمان ۵۳ (۱۲۰)،(تحفة الأشراف:۹۲۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۹،۴۲۹،۴۳۱،۴۶۲)، سنن الدارمی/المقدمة ۱ (۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ بَانَكَ، سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا عَائِشَةُ، إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "حقیر و معمولی گناہوں سے بچو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۴۲۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۷۰،۱۵۱)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۷ (۲۷۶۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْالْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ، فَإِنْ زَادَ زَادَتْ، فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ سورة المطففين آية 14".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے: «كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون» "ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں" (سورة المطففين: 14)"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۷۴ (۳۳۳۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۸۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۷)(حسن)
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ بْنِ خَدِيجٍ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ أَرْطَاةَ بْنِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْأَلْهَانِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا"، قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ، قَالَ: "أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو فضا میں اڑتے ہوئے ذرے کی طرح بنا دے گا"، ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمائیے اور کھول کر بیان فرمایئے تاکہ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان میں سے نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جان لو کہ وہ تمہارے بھائیوں میں سے ہی ہیں، اور تمہاری قوم میں سے ہیں، وہ بھی راتوں کو اسی طرح عبادت کریں گے، جیسے تم عبادت کرتے ہو، لیکن وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب تنہائی میں ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۰۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ، وَعَمِّهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: "التَّقْوَى وَحُسْنُ الْخُلُقِ"وَسُئِلَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ، قَالَ: "الْأَجْوَفَانِ: الْفَمُ وَالْفَرْجُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سے کام لوگوں کو زیادہ تر جنت میں داخل کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تقویٰ (اللہ تعالیٰ کا خوف) اور حسن خلق (اچھے اخلاق)"، اور پوچھا گیا: کون سے کام زیادہ تر آدمی کو جہنم میں لے جائیں گے؟ فرمایا: "دو کھوکھلی چیزیں: منہ اور شرمگاہ"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البر۶۲ (۲۰۰۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۱،۳۹۲،۴۴۲)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْهُ بِضَالَّتِهِ، إِذَا وَجَدَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۹۳۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات ۹۹ (۳۵۳۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ الْمَدِينِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَوْ أَخْطَأْتُمْ حَتَّى تَبْلُغَ خَطَايَاكُمُ السَّمَاءَ، ثُمَّ تُبْتُمْ لَتَابَ عَلَيْكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم گناہ کرو یہاں تک کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم توبہ کرو تو (اللہ تعالیٰ)ضرور تمہاری توبہ قبول کرے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۸۳۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۱۹)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ بندہ کے گناہ چاہے وہ جتنے زیادہ ہوں، ان کی مغفرت کے لئے کی جانے والی توبہ کو اللہ تعالی ضرور قبول کرے گا، بشرطیکہ یہ توبہ خلوص دل سے ہو، اس حدیث سے یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ گناہ کثرت سے کئے جائیں اور پھر توبہ کر لی جائے، کیونکہ حدیث میں توبہ کی اہمیت بتائی گئی ہے، نہ کہ بکثرت گناہ کرنے کی۔
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ أَضَلَّ رَاحِلَتَهُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَالْتَمَسَهَا، حَتَّى إِذَا أَعْيَى تَسَجَّى بِثَوْبِهِ، فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعَ وَجْبَةَ الرَّاحِلَةِ حَيْثُ فَقَدَهَا، فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا هُوَ بِرَاحِلَتِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے ایسے ہی خوش ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کی سواری چٹیل میدان میں کھو جائے، وہ اس کو تلاش کرے یہاں تک کہ جب وہ تھک جائے تو کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک کر لیٹ جائے، اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کے قدموں کی چاپ وہاں سے آتی سنے جہاں اسے کھویا تھا، وہ اپنے چہرے سے اپنا کپڑا اٹھائے تو دیکھے کہ اس کی سواری موجود ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۳۱، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۸۳) (منکر)(سند میں سفیان بن وکیع متروک اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں، ثقہ راویوں کی روایات اس کے برخلاف ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْعَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۶۱۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۱)(حسن) (سند میں ابوعبیدہ کا سماع اپنے والد سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۶۱۵- ۶۱۶)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سارے بنی آدم (انسان) گناہ گار ہیں اور بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۴۹ (۲۴۹۹)،(تحفة الأشراف:۱۳۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۹۸، سنن الدارمی/الرقاق ۱۸ (۲۷۶۹)(حسن)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ابْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "النَّدَمُ تَوْبَةٌ"، فَقَالَ لَهُ أَبِي: أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "النَّدَمُ تَوْبَةٌ"؟ قَالَ: نَعَمْ.
عبداللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ندامت (شرمندگی) توبہ ہے"، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ندامت توبہ ہے؟ انہوں نے کہا: "ہاں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفةالأشراف:۹۳۵۱، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۶،۴۲۲،۴۲۳،۴۳۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آ جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۶۷۴،۸۶۱۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات ۹۹ (۳۵۳۷)، مسند احمد (۲/۱۳۲،۱۵۳)(حسن) (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: مزی کہتے ہیں کہ ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو آیا ہے، جو وہم ہے، صحیح عبداللہ بن عمر بن الخطاب ہے)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، سَمِعْتُ أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ كَفَّارَتِهَا، فَلَمْ يَقُلْ لَهُ شَيْئًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِي هَذِهِ، فَقَالَ: "هِيَ لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بتایا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے، وہ اس کا کفارہ پوچھنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں کہا تو اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» "نماز قائم کرو دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے ایک حصے میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ذکر کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے" (سورۃ ہود: ۱۱۴)، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ (خاص) میرے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ میری امت میں سے ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت ۴ (۵۲۶)، تفسیر القرآن ۶ (۴۶۸۷)، صحیح مسلم/التوبة ۷ (۲۷۶۳)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۱۲ (۳۱۱۴)،(تحفة الأشراف:۹۳۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۵،۴۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَلَا أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ؟ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْصَى بَنِيهِ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي، ثُمَّ اسْحَقُونِي، ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبُنِي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا، قَالَ: فَفَعَلُوا بِهِ ذَلِكَ، فَقَالَ لِلْأَرْضِ: أَدِّي مَا أَخَذْتِ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ لَهُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ، قَالَ: خَشْيَتُكَ أَوْ مَخَافَتُكَ يَا رَبِّ، فَغَفَرَ لَهُ لِذَلِكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی نے اپنے اوپر بہت زیادتی کی تھی، (یعنی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، پھر مجھے پیس کر سمندر کی ہوا میں اڑا دینا، اللہ کی قسم! اگر میرا رب میرے اوپر قادر ہو گا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو کسی کو نہ دیا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے زمین سے کہا کہ جو تو نے لیا ہے اسے حاضر کر، اتنے میں وہ کھڑا ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: تجھے اس کام پر کس نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر اور خوف نے اے رب! تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی وجہ سے معاف کر دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۸۱)، التوحید ۳۵ (۷۵۰۸)، صحیح مسلم/التوبة ۴ (۲۷۵۶)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۸۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۲۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶۹)(صحیح)
(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَحَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلَا يَيْأَسَ رَجُلٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک عورت اس بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جس کو اس نے باندھ رکھا تھا، وہ نہ اس کو کھانا دیتی تھی، اور نہ چھوڑتی ہی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے یہاں تک کہ وہ مر گئی"۔ زہری کہتے ہیں: (ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ)کوئی آدمی نہ اپنے عمل پر بھروسہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/السلام ۴۰ (۲۲۴۳)،(تحفة الأشراف:۱۲۲۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۱۷،۱۲۲۸۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ الْمُسَيَّبِ الثَّقَفِيِّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، يَقُولُ: يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ، فَسَلُونِي الْمَغْفِرَةَ فَأَغْفِرَ لَكُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ، فَاسْتَغْفَرَنِي بِقُدْرَتِي غَفَرْتُ لَهُ، وَكُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُ، فَسَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ، وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ، فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا، فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَتْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي لَمْ، يَزِدْ فِي مُلْكِي جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوِ اجْتَمَعُوا فَكَانُوا عَلَى قَلْبِ أَشْقَى عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي، لَمْ يَنْقُصْ مِنْ مُلْكِي جَنَاحُ بَعُوضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ حَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ، وَأَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا، فَسَأَلَ كُلُّ سَائِلٍ مِنْهُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ، مَا نَقَصَ مِنْ مُلْكِي إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِشَفَةِ الْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيهَا إِبْرَةً ثُمَّ نَزَعَهَا، ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ عَطَائِي كَلَامٌ، إِذَا أَرَدْتُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندو! تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچائے رکھوں، تو تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا، اور تم میں سے جو جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور وہ میری قدرت کی وجہ سے معافی چاہتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں، تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں غنی (مالدار) کر دوں، تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں روزی دوں گا، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہو جائیں، اور میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہ ہو گا، اور اگر یہ سب مل کر میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہو گی، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہو جائیں، اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں، تو میری سلطنت میں کوئی فرق واقع نہ ہو گا، مگر اس قدر جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے پر سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا ہے، میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو کہتا ہوں "ہو جا" اور وہ ہو جاتی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۴۸ (۲۴۹۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۶۴)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۷۷)، مسند احمد (۵/۱۵۴،۱۷۷)(ضعیف) (سند شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم میں حدیث کے اکثر جملے ثابت ہیں)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ"يَعْنِي: الْمَوْتَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۴ (۲۳۰۷)، سنن النسائی/الجنائز ۳ (۱۸۲۵)،(تحفة الأشراف:۱۵۰۸۰،۱۵۰۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۳)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: موت کی یاد سے دنیا کی بے ثباتی ذہن میں جمتے ہی آخرت کا خیال پیدا ہوتا ہے، یہی فائدہ قبروں کی زیارت کا بھی ہے، نبی اکرم ﷺ نے موت کو لذتوں کو مٹانے والی کہا یعنی موت کی یاد آدمی کے دل و دماغ کو دنیا کی لذتوں سے دور کر دیتے ہیں، یا موت کے آتے ہی آدمی کا تعلق دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے، امام قرطبی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا مختصر جملہ ہے، جو تذکیر و نصیحت میں بلیغ اور جامع ہے، کیونکہ جس نے صحیح معنوں میں موت کو یاد کیا تو اس سے اس پر دنیاوی لذت کرکری ہو جاتی ہے، اور مستقبل میں اس کی تمنا اور آرزو کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، اور جن نعمتوں کے بارے میں وہ سوچتا تھا، اس میں بڑی کمی آ جاتی ہے، لیکن غافل دل اور ٹھہری ہوئی طبیعتیں لمبے چوڑے وعظ و نصیحت اور تفنن کلام کی محتاج ہوتی ہیں، ورنہ حدیث رسول: لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، اور آیت کریمہ: «كل نفس ذائقة الموت» " ہر نفس کو موت کا مزا چکنا ہے " (سورة الأنبياء: 35) ہی سامع کے لیے کافی ہے، اور دیکھنے والے کو مشغول کر دینے والی ہے، نیز کہتے ہیں: موت کی یاد کے نتیجے میں اس دار فانی سے بے رغبتی کا شعور و احساس پیدا ہوتا ہے، اور ہر لحظہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف توجہ ہو جاتی ہے، تو انسان دو حالات میں گھر کر رہ جاتا ہے، ایک تنگی اور وسعت کی حالت اور دوسری نعمت و ابتلاء کی حالت تو تنگی اور ابتلاء کی صورت میں موت کی یاد سے یہ صورت حال اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے کہ یہ حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی نہیں ہے، بلکہ موت اس سے زیادہ سخت ہے، اور نعمت اور وسعت کی حالت میں موت کی یاد اس کو دنیاوی نعمتوں اور وسعتوں سے دھوکہ کھانے اور اس سے سکون حاصل کرنے سے روک دیتی ہے،اور موت انسان کو ان چیزوں سے دور کر دیتی ہے، موت کی کوئی معلوم عمر نہیں ہے، اور نہ اس کا زمانہ ہی معلوم ہے اور نہ اس کی بیماری ہی معلوم ہے، تو آدمی کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ملاحظہ ہو: التذکرۃ بأحوال الموتیٰ وأمورالآخرۃ (الفریوائی)
حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ فَرْوَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا"، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟ قَالَ: "أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا، وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُولَئِكَ الْأَكْيَاسُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ آپ کے پاس ایک انصاری شخص آیا، اس نے آپ کو سلام کیا، پھر کہنے لگا: اللہ کے رسول! مومنوں میں سے کون سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے"، اس نے کہا: ان میں سب سے عقلمند کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ان میں موت کو سب سے زیادہ یاد کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے، وہی عقلمند ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۳۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۴)(حسن) (سند میں فروہ بن قیس اور نافع بن عبد اللہ مجہول ہیں، لیکن حدیث دوسرے شواہد سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۳۸۴)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْأَبِي يَعْلَى شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ،، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا، ثُمَّ تَمَنَّى عَلَى اللَّهِ".
ابو یعلیٰ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۵ (۲۴۵۹)، تحفة الأشراف:(۴۸۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۴)(ضعیف) (سند میں بقیہ مدلس اور ابن ابی مریم ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ: "كَيْفَ تَجِدُكَ"، قَالَ: أَرْجُو اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَخَافُ ذُنُوبِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا يَرْجُو، وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس آئے جو مرض الموت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "تم اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو"؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کی امید کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس بندے کے دل میں ایسے وقت میں یہ دونوں کیفیتیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دے گا جس کی وہ امید کرتا ہے، اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس سے محفوظ رکھے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الجنائز ۱۱ (۹۸۳)،(تحفة الأشراف:۲۶۲)(حسن) (سند میں سیار بن حاتم ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۰۵۱)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا، قَالُوا: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَيُفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، ادْخُلِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوءُ، قَالَ: اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، اخْرُجِي ذَمِيمَةً، وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ، ثُمَّ يُعْرَجُ بِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَلَا يُفْتَحُ لَهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: فُلَانٌ، فَيُقَالُ: لَا مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الْخَبِيثَةِ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ، ارْجِعِي ذَمِيمَةً، فَإِنَّهَا لَا تُفْتَحُ لَكِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَيُرْسَلُ بِهَا مِنَ السَّمَاءِ ثُمَّ، تَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں، اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں: نکل اے پاک جان! جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، نکل، تو لائق تعریف ہے، اور خوش ہو جا، اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناراض نہیں ہے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل پڑتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: خوش آمدید! پاک جان جو کہ ایک پاک جسم میں تھی، تو داخل ہو جا، تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت و ریحان (خوشبو) سے، اور ایسے رب سے جو تجھ سے ناخوش نہیں، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس کے اوپر اللہ عزوجل ہے، اور جب کوئی برا شخص ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: نکل اے ناپاک نفس، جو ایک ناپاک بدن میں تھی، نکل تو بری حالت میں ہے، خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ سے، اور اس جیسی دوسری چیزوں سے، اس سے برابر یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نکل جاتی ہے، پھر اس کو آسمان کی طرف چڑھا کر لے جایا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب ملتا ہے: یہ فلاں ہے، کہا جاتا ہے: ناپاک روح کے لیے کوئی خوش آمدید نہیں، جو کہ ناپاک بدن میں تھی، لوٹ جا اپنی بری حالت میں، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اس کو آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر وہ قبر میں آ جاتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۳۸۷، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کا آسمان کے اوپر بلندی میں ہونا ثابت ہے، فاسد عقائد والے اس کا انکار کرتے ہیں، اور اہل حدیث اور اہل حق کو مشبہہ اور مجسمہ کہتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے آسمان کے اوپر بلندی میں ہونے کے عقیدے پر کتاب و سنت کے بے شمار دلائل ہیں، اور صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے، اور یہ چیز انسان کی فطرت میں ہے کہ اپنے خالق و مالک کو پکارتے ہی اس کے ہاتھ اوپر اٹھ جاتے ہیں، اور نگاہیں اوپر دیکھنے لگتی ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَعُمَرُ بْنُ شَبَّةَ بْنِ عَبِيدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا كَانَ أَجَلُ أَحَدِكُمْ بِأَرْضٍ، أَوْثَبَتْهُ إِلَيْهَا الْحَاجَةُ، فَإِذَا بَلَغَ أَقْصَى أَثَرِهِ، قَبَضَهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ، فَتَقُولُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَبِّ هَذَا مَا اسْتَوْدَعْتَنِي".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کی موت کسی زمین میں لکھی ہوتی ہے تو ضرورت اس کو وہاں لے جاتی ہے، جب وہ اپنے آخری نقش قدم کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر لیتا ہے، زمین قیامت کے دن کہے گی: اے رب! یہ تیری امانت ہے جو تو نے میرے سپرد کی تھی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۹۴۱، ومصباح الزجاجة:۹۵۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ، أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَرَاهِيَةُ لِقَاءِ اللَّهِ فِي كَرَاهِيَةِ لِقَاءِ الْمَوْتِ، فَكُلُّنَا يَكْرَهُ الْمَوْتَ، قَالَ: "لَا إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ مَوْتِهِ، إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ وَمَغْفِرَتِهِ، أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ، فَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَإِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللَّهِ، كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے"، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اور جب اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے نہیں ملنا چاہتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۴۱ (۶۵۰۷،۶۵۰۸ تعلیقاً)، صحیح مسلم/الذکروالدعاء (۲۶۸۴)، سنن الترمذی/الجنائز ۶۸ (۱۰۶۷)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰ (۱۸۳۹)،(تحفة الأشراف:۱۶۱۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۴،۵۵،۲۰۷،۲۱۸،۲۳۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِّيًا الْمَوْتَ فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجنائز ۱۳ (۳۱۰۸)،(تحفة الأشراف:۱۰۳۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المرضی ۱۹ (۵۶۷۲)، الدعوات ۳۰ (۶۳۵۱)، صحیح مسلم/الذکر ۴ (۲۶۸۰)، سنن الترمذی/الجنائز ۳ (۹۷۱)، سنن النسائی/الجنائز ۲ (۱۸۲۲)، مسند احمد (۳/۱۰۱،۱۰۴،۱۶۳،۱۷۱،۱۹۵،۲۰۸،۲۴۷،۲۸۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا يَبْلَى، إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا، وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۵۵۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر الزمر ۴ (۴۸۱۴)، تفسیر النبأ ۱ (۴۹۳۵)، صحیح مسلم/الفتن ۲۸ (۲۹۵۵)، سنن ابی داود/السنة ۲۴ (۴۷۴۳)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۷۹)، موطا امام مالک/الجنائز ۱۶ (۴۸)، مسند احمد (۲/۳۱۵،۳۲۲،۴۲۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: «ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا» " انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہو جائے گی " اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: «إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا: أي عظم هو قال: عظم الذنب» " انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہو گی، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ دم کی ہڈی ہے " مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «قيل: يارسول الله! ما عجب الذنب؟ قال: مثل حبة خردل» " کہا گیا: اللہ کے رسول! دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رائی کے دانے کے برابر "۔ «عجب»: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو «عجم» بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا: اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہو گا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ «ويبلى كل شئ من الإنسان» " انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہو جائے گی " تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہو جانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہو جائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہو جائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہو گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہو گی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہو گا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ ہر آدمی کو مٹی کھا لے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں «إلا عجب ذنبه» ہے یعنی " انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی " جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہو گی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ «إلا» یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہو جائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ «واو» «إلا» کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے: «منہ خلق» اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث: «إن أول ما خلق من آدم رأسه» نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہو گی کہ یہ آدم علیہ السلام کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری ۸/۵۵۲-۵۵۳، حدیث نمبر۴۸۱۴)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ هَانِئٍمَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ يَبْكِي حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تَذْكُرُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ"، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ".
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں"، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی چیز نہیں دیکھی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزھد ۵ (۲۳۰۸)،(تحفة الأشراف:۹۸۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۶۳)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الْمَيِّتَ يَصِيرُ إِلَى الْقَبْرِ، فَيُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فِي قَبْرِهِ غَيْرَ فَزِعٍ، وَلَا مَشْعُوفٍ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ فِي الْإِسْلَامِ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ فَصَدَّقْنَاهُ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ رَأَيْتَ اللَّهَ؟ فَيَقُولُ: مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَرَى اللَّهَ، فَيُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا وَقَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، وَيُقَالُ لَهُ عَلَى الْيَقِينِ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَيُجْلَسُ الرَّجُلُ السُّوءُ فِي قَبْرِهِ فَزِعًا، مَشْعُوفًا، فَيُقَالُ لَهُ: فِيمَ كُنْتَ، فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُ: سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ قَوْلًا فَقُلْتُهُ، فَيُفْرَجُ لَهُ قِبَلَ الْجَنَّةِ، فَيَنْظُرُ إِلَى زَهْرَتِهَا وَمَا فِيهَا، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا صَرَفَ اللَّهُ عَنْكَ، ثُمَّ يُفْرَجُ لَهُ فُرْجَةٌ قِبَلَ النَّارِ، فَيَنْظُرُ إِلَيْهَا يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، عَلَى الشَّكِّ كُنْتَ، وَعَلَيْهِ مُتَّ، وَعَلَيْهِ تُبْعَثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مرنے والا قبر میں جاتا ہے، نیک آدمی تو اپنی قبر میں بیٹھ جاتا ہے، نہ کوئی خوف ہوتا ہے نہ دل پریشان ہوتا ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں اسلام پر تھا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ وہ کہتا ہے: یہ محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ جواب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھلا کون دیکھ سکتا ہے؟ پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جہنم کی جانب کھولی جاتی ہے، وہ اس کی شدت اشتعال کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے: دیکھ، اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اس سے بچا لیا ہے، پھر ایک دوسرا دریچہ جنت کی طرف کھولا جاتا ہے، وہ اس کی تازگی اور لطافت کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، اور اس سے کہا جاتا ہے کہ تو یقین پر تھا، یقین پر ہی مرا، اور یقین پر ہی اٹھے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور برا آدمی اپنی قبر میں پریشان اور گھبرایا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو کس دین پر تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، پھر پوچھا جاتا ہے کہ یہ شخص کون ہیں؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو میں نے بھی وہی کہا، اس کے لیے جنت کا ایک دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی لطافت و تازگی کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ دیکھ! اس سے اللہ تعالیٰ نے تجھے محروم کیا، پھر جہنم کا دریچہ کھولا جاتا ہے، وہ اس کی شدت اور ہولناکی کو دیکھتا ہے، اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا ٹھکانا ہے، تو شک پر تھا، شک پر ہی مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۳۸۷، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۴۰،۳۶۴،۶/۱۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ سورة إبراهيم آية 27، قَالَ: نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، يُقَالُ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، وَنَبِيِّي مُحَمَّدٌ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة إبراهيم آية 27".
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت» عذاب قبر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، اس (مردے) سے پوچھا جائے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، یہی مراد ہے اس آیت: «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» "اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول پر ثابت رکھتا ہے دنیوی زندگی میں بھی آخرت میں بھی "(سورة ابراهيم: 72) سے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز ۸۶ (۱۳۶۹)، التفسیرسورة ابراہیم ۲ (۴۶۹۹)، صحیح مسلم/الجنة ۱۷ (۲۸۷۱)، سنن ابی داود/السنة ۲۷ (۴۷۵۰ سنن الترمذی/تفسیرالقران سورة ٕابراہیم ۱۵ (۳۱۲۰)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۴ (۲۰۵۹)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۲،۲۹۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ عُرِضَ عَلَى مَقْعَدِهِ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، يُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ، حَتَّى تُبْعَثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۰۱۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز ۸۹ (۱۳۷۹)، بدء الخلق ۸ (۳۲۴۰)، الرقاق ۴۲ (۶۵۱۵)، صحیح مسلم/الجنة ۱۷ (۲۸۶۶)، سنن الترمذی/الجنائز ۷۰ (۱۰۷۲)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۶ (۲۰۷۲)، موطا امام مالک/الجنائز ۱۶ (۴۷)، مسند احمد (۲/۱۶،۵۱،۱۱۳،۱۲۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّأَبَاهُ كَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يُبْعَثُ".
کعب رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درخت میں لٹکتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں لوٹ جائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۱۳ (۱۶۴۱)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۷۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۴۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۱۶ (۴۹)، مسند احمد (۳/۴۵۵،۴۵۶،۴۶۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ حَفْصٍ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا دَخَلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مُثِّلَتِ الشَّمْسُ لَهُ عِنْدَ غُرُوبِهَا، فَيَجْلِسُ يَمْسَحُ عَيْنَيْهِ، وَيَقُولُ: دَعُونِي أُصَلِّي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ سورج ڈوبنے کا وقت قریب ہے، وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے، اور کہتا ہے: مجھے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۳۳۴، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۸)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ صَاحِبَيِ الصُّورِ بِأَيْدِيهِمَا أَوْ فِي أَيْدِيهِمَا قَرْنَانِ، يُلَاحِظَانِ النَّظَرَ مَتَى يُؤْمَرَانِ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک «صور» والے دونوں فرشتے اپنے ہاتھوں میں «صور» ۱؎ لیے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۲۹)(منکر) (سند میں حجاج بن ارطاہ وعطیہ العوفی ضعیف ہیں، اور حجاج نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اس لئے یہ لفظ منکر ہے، محفوظ حدیث «صاحب القرن» ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۰۷۹)
وضاحت: ۱؎: «صور» کی جمع «اصوار» یعنی نرسنگا، اور بگل۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَلَطَمَهُ، قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى، فَقَدْ كَذَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا: تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» "اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے" (سورۃ الزمر: ۶۸)، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا ہے، اور جس نے یہ کہا: میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۰۷۶، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل ۴۲ (۲۳۷۳)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یونس علیہ السلام سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا تھا، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: "يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ بِيَدِهِ، وَقَبَضَ يَدَهُ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْجَبَّارُ، أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟"، قَالَ: وَيَتَمَايَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ، أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: "جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا: میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر؟ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/صفة القیامة نحوہ (۲۷۸۸)،(تحفة الأشراف:۷۳۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۷۲،۸۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْالْقَاسِمِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: "حُفَاةً عُرَاةً"، قُلْتُ: وَالنِّسَاءُ؟ قَالَ: "وَالنِّسَاءُ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا يُسْتَحْيَا، قَالَ: "يَا عَائِشَةُ، الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ يَنْظُرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگ قیامت کے دن کیسے اٹھائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ننگے پاؤں، ننگے بدن"، میں نے کہا: عورتیں بھی اسی طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتیں بھی"، میں نے کہا: اللہ کے رسول! پھر شرم نہیں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ! معاملہ اتنا سخت ہو گا کہ (کوئی) ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۴۵ (۶۵۲۷)، صحیح مسلم/الجنة ۱۴ (۲۸۵۹)، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۸ (۲۰۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۷۴۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵۳،۹۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اپنی جان بچانے کی فکر ہو گی ایسے وقت میں بدنظری کیسی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرَضَاتٍ: فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي، فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے اور تیسری بار میں اعمال نامے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور کوئی بائیں ہاتھ میں پکڑے ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۹۸۶، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۱۴)(ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابوموسیٰ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6، قَالَ: "يَقُومُ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «يوم يقوم الناس لرب العالمين» "جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے" (سورۃ المطففین: ۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: "لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۸۳ (۴۹۳۸)، الرقاق ۴۷ (۶۵۳۱)، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ۱۵ (۲۸۶۲)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۲ (۲۴۲۲)، التفسیر ۷۴ (۳۳۳۶)،(تحفة الأشراف:۷۷۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۳،۳۱،۳۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عن قَوْلةِ: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ سورة إبراهيم آية 48، سورة إبراهيم آية 48 فَأَيْنَ تَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: "عَلَى الصِّرَاطِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «يوم تبدل الأرض غير الأرض والسموات» "جس دن زمین اور آسمان بدل دئیے جائیں گے" (سورة إبراهيم: 48) سے متعلق پوچھا کہ لوگ اس وقت کہاں ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پل صراط پر"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/صفة القیامة ۲ (۲۷۹۱)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۱۵ (۳۱۲۱)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد۶/۳۵)، سنن الدارمی/الرقاق ۸۸ (۲۸۵۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ بْنِ الْعُتْوَارِيِّ أَحَدِ بَنِي لَيْثٍ، قَالَ: وَكَانَ فِي حَجْرِ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَعْنِي: أَبَا سَعِيدٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "يُوضَعُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، عَلَى حَسَكٍ كَحَسَكِ السَّعْدَانِ، ثُمَّ يَسْتَجِيزُ النَّاسُ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَمَخْدُوجٌ بِهِ، ثُمَّ نَاجٍ وَمُحْتَبَسٌ بِهِ، وَمَنْكُوسٌ فِيهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پل صراط جہنم کے دونوں کناروں پر رکھا جائے گا، اس پر سعدان کے کانٹوں کی طرح کانٹے ہوں گے، پھر لوگ اس پر سے گزرنا شروع کریں گے، تو بعض لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، بعض کے کچھ اعضاء کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے، پھر نجات پائیں گے، بعض اسی پر اٹکے رہیں گے، اور بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۶۸، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۰)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان ۸۱ (۲۸۳)، مسند احمد (۲/۲۹۳،۳/۱۱،۱۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَيْبِيَةَ"، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا سورة مريم آية 71، قَالَ: "أَلَمْ تَسْمَعِيهِ، يَقُولُ: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، «إ ن شاء اللہ» اگر اللہ نے چاہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے: «وإن منكم إلا واردها كان على ربك حتما مقضيا» "تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے" (سورة مريم: 71)؟، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: «ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا» "پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے" (سورة مريم: 72"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۸۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد۶/۲۸۵)(صحیح)(سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۴۰۵)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنَ الْوُضُوءِ سِيمَاءُ أُمَّتِي، لَيْسَ لِأَحَدٍ غَيْرِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس آؤ گے اس حال میں کہ وضو کی وجہ سے تمہارے ہاتھ پاؤں اور پیشانیاں روشن ہوں گی، یہ میری امت کا نشان ہو گا، اور کسی امت کا یہ نشان نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الطہارة ۱۲ (۲۴۷)،(تحفة الأشراف:۱۳۳۹۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ: "أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: "أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ، إِلَّا كَالشَّعَرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمے میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اس پر راضی اور خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے چوتھائی ہو"، ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم خوش ہو گے کہ تمہاری تعداد جنت والوں کے ایک تہائی ہو"، ہم نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تمہاری تعداد تمام اہل جنت کا نصف ہو گی، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا، اور مشرکین کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کالے بیل کی جلد پر سفید بال یا سرخ بیل کی جلد پر کالا بال"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۴۵ (۶۵۲۶)، صحیح مسلم/الإیمان ۹۵ (۲۲۱)، سنن الترمذی/صفة الجنة ۱۳ (۲۵۴۷)،(تحفة الأشراف:۹۴۸۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصرالصلاة ۲۴ (۸۸)، مسند احمد (۱/۳۸۶،۴۳۷،۴۴۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَجِيءُ النَّبِيُّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَعَهُ الرجل، يَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلَانِ، وَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ، وَأَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ وَأَقَلُّ، فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ بَلَّغْتَ قَوْمَكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ فَيُدْعَى قَوْمُهُ، فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: لَا، فَيُقَالُ: مَنْ يَشْهَدُ لَكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَتُدْعَى أُمَّةُ مُحَمَّدٍ، فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: وَمَا عِلْمُكُمْ بِذَلِكَ؟ فَيَقُولُونَ: أَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا بِذَلِكَ، أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ بَلَّغُوا فَصَدَّقْنَاهُ، قَالَ: فَذَلِكُمْ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(قیامت کے دن) ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو ہی آدمی ہوں گے، اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے، اور کسی نبی کے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے، کسی کے ساتھ کم، اس نبی سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا؟ وہ کہے گا: "جی ہاں" پھر اس کی قوم بلائی جائے گی اور پوچھا جائے گا: کیا اس نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: "نہیں" نبی سے پوچھا جائے گا: تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہے گا: محمد اور ان کی امت، پھر محمد کی امت بلائی جائے گی اور کہا جائے گا: کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہے گی: "جی ہاں" اس سے پوچھا جائے گا: تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ جواب دے گی کہ ہمارے نبی نے ہم کو یہ بتایا کہ رسولوں نے پیغام پہنچا دیا ہے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہی اللہ تعالیٰ کے قول: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا» "اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر اور رسول گواہ رہیں تمہارے اوپر" (سورة البقرة: 143) کا مطلب ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۳ (۳۳۳۹)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۳ (۲۹۶۱)،(تحفة الأشراف:۴۰۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۹،۳۲،۵۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: صَدَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِمَا مِنْ عَبْدٍ يُؤْمِنُ ثُمَّ يُسَدِّدُ، إِلَّا سُلِكَ بِهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلُوهَا حَتَّى تَبَوَّءُوا أَنْتُمْ، وَمَنْ صَلَحَ مِنْ ذَرَارِيِّكُمْ مَسَاكِنَ فِي الْجَنَّةِ، وَلَقَدْ وَعَدَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابِ".
رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، کوئی بندہ ایسا نہیں ہے، جو ایمان لائے، پھر اس پر جما رہے مگر وہ اس کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس میں داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم اور تمہاری اولاد میں جو لوگ نیک ہوئے جنت کے مکانات میں ٹھکانا نہ بنا لیں، اور مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۶۱۱، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "وَعَدَنِي رَبِّي سُبْحَانَهُ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا، لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ، مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میرے رب (سبحانہ و تعالیٰ) نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہو گا، اور نہ ان پر کوئی عذاب، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب عزوجل کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۲ (۲۴۳۷)،(تحفة الأشراف:۴۹۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۶۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النَّحَّاسِ الرَّمْلِيُّ، وَأَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ شَوْذَبٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نُكْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أُمَّةً، نَحْنُ آخِرُهَا وَخَيْرُهَا".
معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم قیامت کے دن ستر امتوں کا تکملہ ہوں گے، اور ہم ان سب سے آخری اور بہتر امت ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۴ (۳۰۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۳۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴۴۷۴،۵/۳،۵)، سنن الدارمی/الرقاق ۴۷ (۲۸۰۲)(حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّكُمْ وَفَّيْتُمْ سَبْعِينَ أُمَّةً، أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ".
معاویہ بن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تمہیں لے کر ستر امتیں پوری ہوئیں، اور تم ان میں سب سے بہتر ہو، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاق الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ حَفْصٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَهْلُ الْجَنَّةِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ، صَفٍّ ثَمَانُونَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، وَأَرْبَعُونَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت والوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، ان میں سے اسی صفیں اس امت کے لوگوں کی ہوں گی، اور چالیس صفیں اور امتوں میں سے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة الجنة ۱۳ (۲۵۴۶)،(تحفة الأشراف:۱۹۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۴۷،۳۵۵،۳۶۱)سنن الدارمی/الرقاق ۱۱۱ (۲۸۷۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ يُحَاسَبُ، يُقَالُ: أَيْنَ الْأُمَّةُ الْأُمِّيَّةُ وَنَبِيُّهَا؟ فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم آخری امت ہیں اور سب سے پہلے حساب کے لیے بلائے جائیں گے، کہا جائے گا: امت اور اس کے نبی کہاں ہیں؟ تو ہم اول بھی ہیں اور آخر بھی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۵۰۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْخَلَائِقَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أُذِنَ لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ فِي السُّجُودِ فَيَسْجُدُونَ لَهُ طَوِيلًا، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعُوا رُءُوسَكُمْ قَدْ جَعَلْنَا عِدَّتَكُمْ فِدَاءَكُمْ مِنَ النَّارِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مخلوق کو جمع کرے گا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو سجدے کا حکم دے گا، وہ بڑی دیر تک اس کو سجدہ کرتے رہیں گے، پھر حکم ہو گا اپنے سروں کو اٹھاؤ ہم نے تمہاری تعداد کے مطابق تمہارے فدئیے جہنم سے کر دئیے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجة،(تحفة الأشراف:۹۱۱۱، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۶)(ضعیف جدا) (جبارہ بن المغلس ضعیف اور عبد الاعلی بن ابی المساور متروک راوی ہیں)
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ مَرْحُومَةٌ عَذَابُهَا بِأَيْدِيهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دُفِعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَيُقَالُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک یہ امت امت مرحومہ ہے (یعنی اس پر رحمت نازل کی گئی ہے)، اس کا عذاب اسی کے ہاتھوں میں ہے، جب قیامت کا دن ہو گا تو ہر مسلمان کے حوالے ایک مشرک کیا جائے گا، اور کہا جائے گا: یہ تیرا فدیہ ہے جہنم سے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۴۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۷)(صحیح) (سند میں جبارہ و کثیر ضعیف ہیں لیکن صحیح مسلم میں ابو موسیٰ اشعری کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ، قَسَمَ مِنْهَا رَحْمَةً بَيْنَ جَمِيعِ الْخَلَائِقِ، فَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ، وَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى أَوْلَادِهَا، وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت کو تمام مخلوقات کے درمیان تقسیم کر دیا ہے، اسی کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم اور شفقت کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے وحشی جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں محفوظ کر رکھی ہیں، ان کے ذریعے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/التوبة ۴ (۲۷۵۲)،(تحفة الأشراف:۱۴۱۸۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۹ (۶۰۰۰)، الرقاق ۱۹ (۶۴۶۹)سنن الترمذی/الدعوات ۱۰۰ (۳۵۴۱)، مسند احمد (۲/۴۳۴)، سنن الدارمی/الرقاق ۶۹ (۲۸۲۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَجَعَلَ فِي الْأَرْضِ مِنْهَا رَحْمَةً، فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا، وَالْبَهَائِمُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ، وَالطَّيْرُ، وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، أَكْمَلَهَا اللَّهُ بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سو رحمتیں پیدا کیں، زمین میں ان سو رحمتوں میں سے ایک رحمت بھیجی، اسی کی وجہ سے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے، اور چرند و پرند جانور بھی ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں، اور ننانوے رحمتوں کو اس نے قیامت کے دن کے لیے اٹھا رکھا ہے، جب قیامت کا دن ہو گا، تو اللہ تعالیٰ ان رحمتوں کو پورا کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۲۴، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۵۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، لَمَّا خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ بِيَدِهِ عَلَى نَفْسِهِ، إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ عزوجل نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر یہ لکھا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث (رقم:۱۸۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ، فَقَالَ: "يَا مُعَاذُ، هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گزرے اور میں ایک گدھے پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے"؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو وہ ان کو عذاب نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد ۴۶ (۲۸۵۶)، صحیح مسلم/الإیمان ۱۰ (۳۰)، سنن ابی داود/الجہاد ۵۳ (۲۵۵۹)، سنن الترمذی/الإیمان ۱۸ (۲۶۴۳)، مسند احمد (۵/۲۲۸،۲۳۰،۲۳۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ يَحْيَى الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ غَزَوَاتِهِ، فَمَرَّ بِقَوْمٍ، فَقَالَ: "مَنِ الْقَوْمُ"، فَقَالُوا: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ، وَامْرَأَةٌ تَحْصِبُ تَنُّورَهَا، وَمَعَهَا ابْنٌ لَهَا، فَإِذَا ارْتَفَعَ وَهَجُ التَّنُّورِ، تَنَحَّتْ بِهِ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: "نَعَمْ"، قَالَتْ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمِ الرَّاحِمِينَ؟ قَالَ: "بَلَى"، قَالَتْ: أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَرْحَمَ بِعِبَادِهِ مِنَ الْأُمِّ بِوَلَدِهَا؟ قَالَ: "بَلَى"، قَالَتْ: فَإِنَّ الْأُمَّ لَا تُلْقِي وَلَدَهَا فِي النَّارِ، فَأَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا الْمَارِدَ الْمُتَمَرِّدَ، الَّذِي يَتَمَرَّدُ عَلَى اللَّهِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں شریک تھے کہ آپ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو پوچھا:"تم کون لوگ ہو"؟ انہوں نے کہا: ہم مسلمان ہیں، ان میں ایک عورت تنور میں ایندھن جھوک رہی تھی، اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، جب تنور کی آگ بھڑک اٹھی وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہٹ گئی، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"عورت نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا اللہ سارے رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں" وہ بولی: کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم نہیں کرے گا جتنا ماں اپنے بچے پر کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں"؟ اس نے کہا: ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر جھکا دیا، اور روتے رہے پھر اپنا سر اٹھایا، اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے انہی بندوں کو عذاب دے گا جو بہت سرکش و شریر ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے باغی ہوتے ہیں اور «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۷۳۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۳۹)(موضوع) (سند میں اسماعیل بن یحییٰ متہم بالکذب ہے، اور عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْسَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِلَّا شَقِيٌّ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنِ الشَّقِيُّ؟ قَالَ: "مَنْ لَمْ يَعْمَلْ لِلَّهِ بِطَاعَةٍ وَلَمْ يَتْرُكْ لَهُ مَعْصِيَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم میں کوئی نہیں جائے گا سوائے بدبخت کے" لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! بدبخت کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کبھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کی، اور کوئی گناہ نہ چھوڑا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۹۷۴، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۴۹)(ضعیف) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَخُو حَزْمٍ الْقُطَعِيِّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَرَأَ أَوْ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56، فَقَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى، فَلَا يُجْعَلْ مَعِي إِلَهٌ آخَرُ، فَمَنِ اتَّقَى أَنْ يَجْعَلَ مَعِي إِلَهًا آخَرَ، فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ"، قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ: حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي حَزْمٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ رَبُّكُمْ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى فَلَا يُشْرَكَ بِي غَيْرِي، وَأَنَا أَهْلٌ لِمَنِ اتَّقَى أَنْ يُشْرِكَ بِي أَنْ أَغْفِرَ لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» یعنی "اللہ ہی سے ڈرنا چاہیئے اور وہی گناہ بخشنے کا اہل ہے" (سورۃ المدثر: ۵۶) تلاوت فرمائی، اور فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے میں اس کے لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، اور میرے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنایا جائے، تو جو میرے ساتھ کوئی دوسرا معبود بنانے سے بچے تو میں ہی اس کا اہل ہوں کہ اس کو بخش دوں" دوسری سند اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت: «هو أهل التقوى وأهل المغفرة» کے بارے میں کہ تمہارے رب نے فرمایا: "میں ہی اس بات کا اہل ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کیا جائے، اور جو میرے ساتھ شریک کرنے سے بچے میں اہل ہوں اس بات کا کہ اسے بخش دوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۷۰ (۳۳۲۸)،(تحفة الأشراف:۴۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۴۲،۲۴۳)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۶ (۲۷۶۶)(ضعیف)(سند میں سہیل بن عبد اللہ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُصَاحُ بِرَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ، فَيُنْشَرُ لَهُ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ سِجِلًّا، كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ تُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا، فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَظَلَمَتْكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَلَكَ عُذْرًا؟ أَلَكَ عنْ ذَلِكَ حَسَنَةٌ؟ فَيُهَابُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَاتٍ، وَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ، فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كِفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كِفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: الْبِطَاقَةُ الرُّقْعَةُ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ لِلرُّقْعَةِ: بِطَاقَةً.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج کے دن تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله» لکھا ہو گا، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، پھر وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، وہ سارے دفتر ہلکے پڑ جائیں گے اور پرچہ بھاری ہو گا ۱؎۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں:«بطاقہ» پرچے کو کہتے ہیں، اہل مصر رقعہ کو «بطاقہ» کہتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الایمان ۱۷ (۲۶۳۹)،(تحفة الأشراف:۸۸۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱۳،۲۲۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث حدیث بطاقہ» کے نام سے مشہور ہے، اور اس میں گنہگار مسلمانوں کے لئے بڑی امید ہے، شرط یہ ہے کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ لِي حَوْضًا مَا بَيْنَ الْكَعْبَةِ، وَبَيْتِ الْمَقْدِسِ، أَبْيَضَ مِثْلَ اللَّبَنِ، آنِيَتُهُ عَدَدُ النُّجُومِ، وَإِنِّي لَأَكْثَرُ الْأَنْبِيَاءِ تَبَعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا ایک حوض ہے، کعبہ سے لے کر بیت المقدس تک، دودھ جیسا سفید ہے، اس کے برتن آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہیں، اور قیامت کے دن میرے پیروکار اور متبعین تمام انبیاء کے پیروکاروں اور متبعین سے زیادہ ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۹۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۱)(صحیح) (سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۳۹۴۹، تراجع الألبانی: رقم:۴۸۹)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ سَعْدِ بْنِ طَارِقٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ حَوْضِي لَأَبْعَدُ مِنْ أَيْلَةَ إِلَى عَدَنَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ النُّجُومِ، وَلَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَذُودُ عَنْهُ الرِّجَالَ كَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ الْإِبِلَ الْغَرِيبَةَ عَنْ حَوْضِهِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ، لَيْسَتْ لِأَحَدٍ غَيْرِكُمْ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا حوض ایلہ سے عدن تک کے فاصلے سے بھی زیادہ بڑا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کے برتن ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس حوض سے کچھ لوگوں کو ایسے ہی دھتکاروں اور بھگاؤں گا جیسے کوئی آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے حوض سے دھتکارتا اور بھگاتا ہے"، سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، تم میرے پاس اس حالت میں آؤ گے کہ تمہارے ہاتھ اور منہ وضو کے نشان سے روشن ہوں گے، اور یہ نشان تمہارے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الطہارة ۱۲ (۲۴۸)،(تحفة الأشراف:۳۳۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۳،۴۰۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ سَالِمٍ الدِّمَشْقِيُّ، نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الْحَبَشِيِّ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَأَتَيْتُهُ عَلَى بَرِيدٍ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: لَقَدْ شَقَقْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا سَلَّامٍ فِي مَرْكَبِكَ، قَالَ: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ الْمَشَقَّةَ عَلَيْكَ، وَلَكِنْ حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَوْضِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ: فَقُلْتُ: حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ حَوْضِي مَا بَيْنَ عَدَنَ إِلَى أَيْلَةَ، أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، أَوانيِهُ كَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، وَأَوَّلُ مَنْ يَرِدُهُ عَلَيَّ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ، الدُّنْسُ ثِيَابًا وَالشُّعْثُ رُءُوسًا، الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُنَعَّمَاتِ، وَلَا يُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ"، قَالَ: فَبَكَى عُمَرُ حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ، ثُمَّ قَالَ: لَكِنِّي قَدْ نَكَحْتُ الْمُنَعَّمَاتِ، وَفُتِحَتْ لِي السُّدَدُ، لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي عَلَى جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ، وَلَا أَدْهُنُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ.
ابوسلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے مجھ کو بلا بھیجا، میں ان کے پاس ڈاک کے گھوڑے پر بیٹھ کر آیا، جب میں پہنچا تو انہوں نے کہا: اے ابو سلام! ہم نے آپ کو زحمت دی کہ آپ کو تیز سواری سے آنا پڑا، میں نے کہا: بیشک، اللہ کی قسم! اے امیر المؤمنین! (ہاں واقعی تکلیف ہوئی ہے)، انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا، لیکن مجھے پتا چلا کہ آپ ثوبان رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام) سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ یہ حدیث براہ راست آپ سے سن لوں، تو میں نے کہا کہ مجھ سے ثوبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے ایلہ تک کا فاصلہ، دودھ سے زیادہ سفید، اور شہد سے زیادہ میٹھا، اس کی پیالیاں آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، جو شخص اس میں سے ایک گھونٹ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا، اور سب سے پہلے جو لوگ میرے پاس آئیں گے (پانی پینے) وہ میلے کچیلے کپڑوں اور پراگندہ بالوں والے فقراء مہاجرین ہوں گے، جو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لیے دروازے کھولے جاتے"۔ ابو سلام کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی، پھر بولے: میں نے تو ناز و نعم والی عورتوں سے نکاح بھی کیا، اور میرے لیے دروازے بھی کھلے، اب میں جو کپڑا پہنوں گا، اس کو ہرگز نہ دھووں گا، جب تک وہ میلا نہ ہو جائے، اور اپنے سر میں تیل نہ ڈالوں گا جب تک کہ وہ پراگندہ نہ ہو جائے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۵ (۲۴۴۴)،(تحفة الأشراف:۲۱۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۵)(صحیح) (عباس بن سالم اور ابو سلام کے مابین انقطاع کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث دوسرے طریق سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۰۸۲، السنة لابن ابی عاصم:۷۰۷ - ۷۰۸)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا بَيْنَ نَاحِيَتَيْ حَوْضِي كَمَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَالْمَدِينَةِ، أَوْ كَمَا بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَعُمَانَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے حوض کے دونوں کناروں کا فاصلہ اتنا ہے جتنا صنعاء اور مدینہ میں یا مدینہ و عمان میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفضائل ۱۰ (۲۳۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۳۷۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۵۳ (۶۵۹۱)، مسند احمد (۳/۱۳۳،۲۱۶،۲۱۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُرَى فِيهِ أَبَارِيقُ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ كَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حوض کوثر پر چاندی اور سونے کے جگ آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفضائل ۹ (۲۳۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۳۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ أَتَى الْمَقْبَرَةَ فَسَلَّمَ عَلَى الْمَقْبَرَةِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى بِكُمْ لَاحِقُونَ"، ثُمَّ قَالَ: "لَوَدِدْتُ أَنَّا قَدْ رَأَيْنَا إِخْوَانَنَا"، قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَوَلَسْنَا إِخْوَانَكَ؟ قَالَ: "أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَإِخْوَانِي، الَّذِينَ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِي، وَأَنَا فَرَطُهُمْ عَلَى الْحَوْضِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَمْ يَأْتِ مِنْ أُمَّتِكَ، قَالَ: "أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَهُ خَيْلٌ غُرٌّ مُحَجَّلَةٌ، بَيْنَ ظَهْرَانَيْ خَيْلٍ دُهْمٍ بُهْمٍ، أَلَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهَا"، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: "فَإِنَّهُمْ يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا، مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَارِ الْوُضُوءِ"، قَالَ: "أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْض"، ثُمَّ قَالَ: "لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ، فَأُنَادِيهِمْ أَلَا هَلُمُّوا"، فَيُقَالُ: إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ وَلَمْ يَزَالُوا يَرْجِعُونَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، فَأَقُولُ: "أَلَا سُحْقًا سُحْقًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں آئے، اور قبر والوں کو سلام کرتے ہوئے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله تعالى بكم لاحقون» "اے مومن قوم کے گھر والو! آپ پر سلامتی ہو، ان شاءاللہ ہم آپ لوگوں سے جلد ہی ملنے والے ہیں"، پھر فرمایا: "میری آرزو ہے کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں"، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ فرمایا: "تم سب میرے اصحاب ہو، میرے بھائی وہ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، اور میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا"، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کی امت میں سے جو لوگ ابھی نہیں آئے ہیں آپ ان کو کیسے پہچانیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا وہ آدمی جس کے گھوڑے سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں خالص کالے گھوڑوں کے بیچ میں ان کو نہیں پہچانے گا"؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے اخوان قیامت کے دن وضو کے نشانات سے (اسی طرح) سفید پیشانی، اور سفید ہاتھ پاؤں ہو کر آئیں گے"، پھر فرمایا: "میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا کچھ لوگ میرے حوض سے بھولے بھٹکے اونٹ کی طرح ہانک دئیے جائیں گے، میں انہیں پکاروں گا کہ ادھر آؤ، تو کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارے بعد دین کو بدل دیا، اور وہ الٹے پاؤں لوٹ جائیں گے، میں کہوں گا: خبردار! دور ہٹو، دور ہٹو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۰،۳۷۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، فَهِيَ نَائِلَةٌ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر نبی کی (اپنی امت کے سلسلے میں) ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، تو ہر نبی نے جلدی سے دنیا ہی میں اپنی دعا پوری کر لی، اور میں نے اپنی دعا کو چھپا کر اپنی امت کی شفاعت کے لیے رکھ چھوڑا ہے، تو میری شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہو گی جو اس حال میں مرا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا رہا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۸۶ (۱۹۹)، سنن الترمذی/الدعوات ۱۳۱ (۳۶۰۲)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۱۲)، وقدأخرجہ: صحیح البخاری/الدعوات ۱ (۶۳۰۴)، مسند احمد (۲/۲۷۵)، موطا امام مالک/القرآن ۸ (۲۶)، سنن الدارمی/الرقاق ۸۵ (۲۸۴۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی عقیدہ توحید پر موت ہو، اگر شرک میں مبتلا رہ کر مرا تو نبی اکرم ﷺ کی شفاعت سے محروم رہے گا، دوسری روایت میں ہے کہ میری شفاعت میری امت میں سے ان لوگوں کے لئے ہو گی جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، وَأَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ، وَلِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یہ فخریہ نہیں کہتا، قیامت کے دن زمین سب سے پہلے میرے لیے پھٹے گی، اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا، میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی، اور میں فخریہ نہیں کہتا، حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہو گا، اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۱۸ (۳۱۴۸)، المناقب ۱ (۳۶۱۵)،(تحفة الأشراف:۴۳۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْأَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا، فأنهم لا يَمُوتُونَ فِيهَا وَلَا يَحْيَوْنَ، وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمْ نَارٌ بِذُنُوبِهِمْ أَوْ بِخَطَايَاهُمْ، فَأَمَاتَتْهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا، أُذِنَ لَهُمْ فِي الشَّفَاعَةِ، فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ، فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَقِيلَ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ، تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ"، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: كَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ فِي الْبَادِيَةِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم والے جن کا ٹھکانا جہنم ہی ہے، وہ اس میں نہ مریں گے نہ جئیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی آگ پکڑ لے گی، اور ان کو مار ڈالے گی یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہو جائیں گے، تو ان کی شفاعت کا حکم ہو گا، پھر وہ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے، کہا جائے گا: اے جنتیو! ان پر پانی ڈالو تو وہ نالی میں دانے کے اگنے کی طرح اگیں گے"، راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادیہ (دیہات) میں بھی رہ چکے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۸۲ (۱۸۵)،(تحفة الأشراف:۴۳۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۵،۱۱،۲۰،۷۸)، سنن الدارمی/الرقاق ۹۶ (۲۸۵۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۱ (۲۴۳۶)،(تحفة الأشراف:۲۶۰۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَكْفَى، أَتُرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِينَ لَا، وَلَكِنَّهَا لِلْمُذْنِبِينَ الْخَطَّائِينَ الْمُتَلَوِّثِينَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اختیار دیا گیا کہ شفاعت اور آدھی امت کے جنت میں داخل ہونے میں سے ایک چیز چن لوں، تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا، کیونکہ وہ عام ہو گی اور کافی ہو گی، کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ شفاعت متقیوں کے لیے ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایسے گناہگاروں کے لیے ہے جو غلطی کرنے والے اور گناہوں سے آلودہ ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۹۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۲)(ضعیف) (سند میں اضطراب کی وجہ سے یہ سیاق ضعیف ہے، اول حدیث «خيرت بين الشفاعة» دوسرے طریق سے صحیح ہے لیکن «لأنها أعم الخ» ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۳۵۸۵ و السنة لابن أبی عاصم:۸۹۱)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يَجْتَمِعُ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلْهَمُونَ أَوْ يَهُمُّونَ، شَكَّ سَعِيدٌ، فَيَقُولُونَ: لَوْ تَشَفَّعْنَا إِلَى رَبِّنَا فَأَرَاحَنَا مِنْ مَكَانِنَا، فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ آدَمُ أَبُو النَّاسِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، فَاشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ يُرِحْنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ وَيَشْكُو إِلَيْهِمْ ذَنْبَهُ الَّذِي أَصَابَ فَيَسْتَحْيِي مِنْ ذَلِكَ، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا فَإِنَّهُ أَوَّلُ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ سُؤَالَهُ رَبَّهُ مَا لَيْسَ لَهُ بِهِ عِلْمٌ، وَيَسْتَحْيِي مِنْ ذَلِكَ، وَلَكِنْ ائْتُوا خَلِيلَ الرَّحْمَنِ إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَهُ: فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَبْدًا كَلَّمَهُ اللَّهُ، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ قَتْلَهُ النَّفْسَ بِغَيْرِ النَّفْسِ، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى عَبْدَ اللَّهِ وَرَسُولَهُ وَكَلِمَةَ اللَّهِ وَرُوحَهُ، فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا عَبْدًا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: فَيَأْتُونِي فَأَنْطَلِقُ"، قَالَ: فَذَكَرَ هَذَا الْحَرْفَ عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "فَأَمْشِي بَيْنَ السِّمَاطَيْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ"، قَالَ: ثُمَّ عَادَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ، قَالَ: "فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ يَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ تُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الثَّانِيَةَ، فَإِذَا رَأَيْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: لِي ارْفَعْ مُحَمَّدُ قُلْ تُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الثَّالِثَةَ، فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ قُلْ تُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَحْمَدُهُ بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ الرَّابِعَةَ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ". (حديث موقوف) (حديث قدسي) قَالَ: يَقُولُ قَتَادَةُ: عَلَى أَثَرِ هَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ، وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن قیامت کے دن جمع ہوں گے اور ان کے دلوں میں ڈال دیا جائے گا، یا وہ سوچنے لگیں گے، (یہ شک راوی حدیث سعید کو ہوا ہے)، تو وہ کہیں گے: اگر ہم کسی کی سفارش اپنے رب کے پاس لے جاتے تو وہ ہمیں اس حالت سے راحت دے دیتا، وہ سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدم ہیں، سارے انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنے فرشتوں سے آپ کا سجدہ کرایا، تو آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئیے کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نجات دیدے، آپ فرمائیں گے: میں اس قابل نہیں ہوں - آپ اپنے کئے ہوئے گناہ کو یاد کر کے اس کا شکوہ ان لوگوں کے سامنے کریں گے، اور اس بات سے شرمندہ ہوں گے، پھر فرمائیں گے: لیکن تم سب نوح کے پاس جاؤ اس لیے کہ وہ پہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کے پاس بھیجا، وہ سب نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، تو آپ ان سے کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ اللہ کے حضور جاؤں، اور آپ اپنے اس سوال کو یاد کر کے شرمندہ ہوں گے جو آپ نے اپنے رب سے اس چیز کے بارے میں کیا تھا جس کا آپ کو علم نہیں تھا - پھر کہیں گے کہ لیکن تم سب ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ، وہ سب ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، تو آپ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، لیکن تم سب موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ ایسے بندے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کی، اور ان کو تورات عطا کی، وہ سب ان کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں (وہ اپنا وہ قتل یاد کریں گے جو ان سے بغیر کسی خون کے مقابل ہو گیا تھا)، لیکن تم سب عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، جو اللہ کے بندے، اس کے رسول، اور اس کا کلمہ و روح ہیں، وہ سب ان کے پاس آئیں گے، تو وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، لیکن تم سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، جو اللہ کے ایسے بندے ہیں جن کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر وہ میرے پاس آئیں گے تو میں چلوں گا (حسن کی روایت کے مطابق مومنوں کی دونوں صفوں کے درمیان چلوں گا) میں اپنے رب سے اجازت مانگوں گا، تو مجھے اجازت دے دی جائے گی، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا، تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر حکم ہو گا: اے محمد! سر اٹھاؤ، اور کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، میں اس کی حمد بیان کروں گا جس طرح وہ مجھے سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی، اللہ تعالیٰ ان سب کو جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں دوبارہ لوٹوں گا، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا، تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا، جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اے محمد! سر اٹھاؤ، تم کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو دیا جائے گا، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اس کی تعریف کروں گا، جس طرح وہ مجھے سکھائے گا، پھر میں شفاعت کروں گا، تو میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی، اور وہ ان کو جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں تیسری بار لوٹوں گا، جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا، میں اس کے آگے سجدے میں اس وقت تک رہوں گا، جب تک وہ اس حالت میں مجھے چھوڑے رکھے گا، پھر حکم ہو گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا، اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اس کے سکھائے ہوئے طریقے سے اس کی حمد کروں گا، پھر میں شفاعت کروں گا، میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی، پھر ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کر دے گا، پھر میں چوتھی بار لوٹوں گا، اور کہوں گا: اے میرے رب! اب تو کوئی باقی نہیں ہے، سوائے اس کے جس کو قرآن نے روکا ہے یعنی جو قرآن کی تعلیمات کی رو سے جہنم کے لائق ہے، قتادہ کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے «لا إله إلا الله» کہا، اور اس کے دل میں جو کے برابر بھی نیکی ہو گی، اور وہ شخص بھی نکلے گا جس نے «لا إله إلا الله» کہا، اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ برابر نیکی ہو گی، اور وہ شخص بھی نکلے گا جس نے «لا إله إلا الله» کہا، اور اس کے دل میں ذرہ برابر نیکی ہو گی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۱ (۴۴۷۶)، صحیح مسلم/الإیمان ۸۴ (۱۹۳)،(تحفة الأشراف:۱۱۷۱،۱۱۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۶،۲۴۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: غرض اللہ تعالی کے فضل سے اور رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے بڑی امید ہے کہ کوئی موحد بھی جس کے دل میں رتی برابر ایمان ہو ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلَّاقِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْعُلَمَاءُ، ثُمَّ الشُّهَدَاءُ".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن تین طرح کے لوگ شفاعت کر سکیں گے: انبیاء، علماء پھر شہداء"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۷۸۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۳)(موضوع) (سند میں عنبسہ وضع حدیث میں متہم ہے، اور علاق مجہول، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۹۷۸)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب قیامت کا دن ہو گا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب مقرر ہوں گا، اور ان کی سفارش کرنے والا ہوں گا، میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہہ رہا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/المناقب ۱ (۳۶۱۳)،(تحفة الأشراف:۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۳۷،۱۳۸)(حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنَ النَّارِ بِشَفَاعَتِي، يُسَمَّوْنَ الْجَهَنَّمِيِّينَ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم میں سے ایک گروہ میری شفاعت کی وجہ سے باہر آئے گا، ان کا نام جہنمی ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۵۱ (۶۵۶۶)، سنن ابی داود/السنة ۲۳ (۴۷۴۰)، سنن الترمذی/صفة جہنم ۱۰ (۲۶۰۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۸۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْجَدْعَاءِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سِوَاكَ، قَالَ: "سِوَايَ"، قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ.
عبداللہ بن ابی الجدعا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میری امت کے ایک شخص کی شفاعت کے نتیجہ میں بنو تمیم سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کے علاوہ (یعنی وہ شخص آپ کے علاوہ کوئی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"، میرے علاوہ، ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی الجدعا رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے آپ ہی سے سنی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۲ (۲۴۳۸)،(تحفة الأشراف:۵۲۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۶۹،۴۷۰،۵/۳۶۶)سنن الدارمی/الرقاق ۸۷ (۲۸۵۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُعَوْفَ بْنَ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَدْرُونَ مَا خَيَّرَنِي رَبِّيَ اللَّيْلَةَ؟"، قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: "فَإِنَّهُ خَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يَدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ: "هِيَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم جانتے ہو کہ آج رات میرے رب نے مجھے کس بات کا اختیار دیا ہے"؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا شفاعت کروں تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا"، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں بھی شفاعت والوں میں بنائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شفاعت ہر مسلمان کو شامل ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۹۰۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة القیامة ۱۳ (۲۴۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَيَعْلَى، قَالَا، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ نُفَيْعٍ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ نَارَكُمْ هَذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، وَلَوْلَا أَنَّهَا أُطْفِئَتْ بِالْمَاءِ مَرَّتَيْنِ مَا انْتَفَعْتُمْ بِهَا، وَإِنَّهَا لَتَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُعِيدَهَا فِيهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک تمہاری یہ آگ جہنم کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، اور اگر یہ دو مرتبہ پانی سے نہ بجھائی جاتی تو تم اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، اور یہ آگ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے کہ دوبارہ اس کو جہنم میں نہ ڈالا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۲۷، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۴)(ضعیف جدا) (سند میں نفیع ابوداود متروک راوی ہے، لیکن صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ثابت ہے، آخری ٹکڑا «وإنها لتدعو الله عز وجل أن لا يعيدها فيها» ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ، أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَجَعَلَ لَهَا نَفَسَيْنِ نَفَسٌ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٌ فِي الصَّيْفِ، فَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْبَرْدِ مِنْ زَمْهَرِيرِهَا، وَشِدَّةُ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ مِنْ سَمُومِهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہا: اے میرے رب! میرے بعض حصہ نے بعض حصے کو کھا لیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دو سانسیں عطا کیں: ایک سانس سردی میں، دوسری گرمی میں، تو سردی کی جو شدت تم پاتے ہو وہ اسی کی سخت سردی کی وجہ سے ہے، اور جو تم گرمی کی شدت پاتے ہو یہ اس کی گرم ہوا سے ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۱۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت ۹ (۵۳۶)، صحیح مسلم/المساجد ۳۲ (۶۱۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۴ (۴۰۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۷ (۱۵۷)، سنن النسائی/المواقیت ۴ (۵۰۱)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة ۷ (۲۹)، مسند احمد (۲/۲۲۹،۲۳۸،۲۵۶،۲۶۶،۲۴۸،۳۷۷،۳۹۳،۴۰۰،۴۱۱،۴۶۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴ (۱۲۴۳)، الرقاق ۱۱۹ (۲۸۸۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أُوقِدَتِ النَّارُ أَلْفَ سَنَةٍ فَابْيَضَّتْ، ثُمَّ أُوقِدَتْ أَلْفَ سَنَةٍ فَاحْمَرَّتْ، ثُمَّ أُوقِدَتْ أَلْفَ سَنَةٍ فَاسْوَدَّتْ، فَهِيَ سَوْدَاءُ كَاللَّيْلِ الْمُظْلِمِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم ہزار برس تک بھڑکائی گئی تو اس کی آگ سفید ہو گئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سرخ ہو گئی، پھر ہزار برس بھڑکائی گئی تو وہ سیاہ ہو گئی، اب وہ تاریک رات کی طرح سیاہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة جہنم (۲۵۹۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۸۰۷)(ضعیف) (سند میں شریک ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنَ الْكُفَّارِ، فَيُقَالُ: اغْمِسُوهُ فِي النَّارِ غَمْسَةً، فَيُغْمَسُ فِيهَا، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: أَيْ فُلَانُ، هَلْ أَصَابَكَ نَعِيمٌ قَطُّ، فَيَقُولُ: لَا مَا أَصَابَنِي نَعِيمٌ قَطُّ، وَيُؤْتَى بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِينَ ضُرًّا وَبَلَاءً، فَيُقَالُ: اغْمِسُوهُ غَمْسَةً فِي الْجَنَّةِ: فَيُغْمَسُ فِيهَا غَمْسَةً، فَيُقَالُ لَهُ: أَيْ فُلَانُ، هَلْ أَصَابَكَ ضُرٌّ قَطُّ أَوْ بَلَاءٌ، فَيَقُولُ: مَا أَصَابَنِي قَطُّ ضُرٌّ وَلَا بَلَاءٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن کافروں میں سے وہ شخص لایا جائے گا، جس نے دنیا میں بہت عیش کیا ہو گا، اور کہا جائے گا: اس کو جہنم میں ایک غوطہٰ دو، اس کو ایک غوطہٰ جہنم میں دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے فلاں! کیا تم نے کبھی راحت بھی دیکھی ہے؟ وہ کہے گا: نہیں، میں نے کبھی کوئی راحت نہیں دیکھی اور مومنوں میں سے ایک ایسے مومن کو لایا جائے گا، جو سخت تکلیف اور مصیبت میں رہا ہو گا، اس کو جنت کا ایک غوطہٰ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے کبھی کوئی تکلیف یا پریشانی دیکھی؟ وہ کہے گا: مجھے کبھی بھی کوئی مصیبت یا تکلیف نہیں پہنچی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْكَافِرَ لَيَعْظُمُ حَتَّى إِنَّ ضِرْسَهُ لَأَعْظَمُ مِنْ أُحُدٍ، فَضِيلَةُ جَسَدِهِ عَلَى ضِرْسِهِ، كَفَضِيلَةِ جَسَدِ أَحَدِكُمْ عَلَى ضِرْسِهِ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کافر جہنم میں اتنا بھاری بھر کم ہو گا کہ اس کا دانت احد پہاڑ سے بڑا ہو جائے گا، اور اس کا باقی بدن دانت سے اتنا ہی بڑا ہو گا جتنا تمہارا بدن دانت سے بڑا ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۴۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۵)(ضعیف) (عطیہ العوفی اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن پہلا ٹکڑا ثابت ہے، «وفضيلة جسده» الخ ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي بُرْدَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا الْحَارِثُ بْنُ أُقَيْشٍ، فَحَدَّثَنَا الْحَارِثُ لَيْلَتَئِذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِهِ أَكْثَرُ مِنْ مُضَرَ، وَإِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَعْظُمُ لِلنَّارِ حَتَّى يَكُونَ أَحَدَ زَوَايَاهَا".
عبداللہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں ایک رات ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، تو ہمارے پاس حارث بن اقیش رضی اللہ عنہ آئے، اس رات حارث نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں ایسا شخص بھی ہو گا جس کی شفاعت سے مضر قبیلے سے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے، اور میری امت میں سے ایسا شخص ہو گا جو جہنم کے لیے اتنا بڑا ہو جائے گا کہ وہ جہنم کا ایک کونہ ہو جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۷۳، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۱۲)(ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن قیس مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا «إن من أمتي من يدخل الجنة بشفاعته أكثر من مضر» صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۴۸۲۳ و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۱۷۸)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُرْسَلُ الْبُكَاءُ عَلَى أَهْلِ النَّارِ، فَيَبْكُونَ حَتَّى يَنْقَطِعَ الدُّمُوعُ، ثُمَّ يَبْكُونَ الدَّمَ حَتَّى يَصِيرَ فِي وُجُوهِهِمْ كَهَيْئَةِ الْأُخْدُودِ، لَوْ أُرْسِلَتْ فِيهَا السُّفُنُ لَجَرَتْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنمیوں پر رونا آزاد چھوڑ دیا جائے گا، وہ روئیں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر وہ خون روئیں گے یہاں تک کہ ان کے چہروں پر گڑھے بن جائیں گے، اگر ان میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو وہ تیرنے لگیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۹۰، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۷)(ضعیف) (سند میں یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں، لیکن مختصرا یہ حدیث مستدرک الحاکم میں عبد اللہ بن قیس سے ثابت ہے، «ثم يبكون الدم حتى يصير في وجوههم كهيئة» (۴/۶۰۵)کا لفظ ثابت نہیں ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102، وَلَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قَطَرَتْ فِي الْأَرْضِ، لَأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعِيشَتَهُمْ، فَكَيْفَ بِمَنْ لَيْسَ لَهُ طَعَامٌ غَيْرُهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت: «يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو" (آل عمران: ۱۰۲) تلاوت کی اور فرمایا: "زقوم (تھوہڑ) کا ایک قطرہ (جہنمیوں کی خوراک) زمین پر ٹپک جائے، تو ساری دنیا والوں کی زندگی تباہ کر دے، تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے پاس اس کے سوا کوئی کھانا نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة جہنم ۴ (۲۵۸۴)،(تحفة الأشراف:۶۳۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۰۱،۳۳۸)(ضعیف) (سلیمان الأعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۷۸۲ وضعیف الترغیب و الترھیب:۲۱۵۹)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْعَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "تَأْكُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ، حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم کی آگ ابن آدم کے سارے بدن کو کھائے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، اللہ تعالیٰ نے آگ پر یہ حرام کیا ہے کہ وہ سجدوں کے نشان کو کھائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۲۱۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲۹ (۸۰۶)، الرقاق ۵۲ (۶۵۷۳)، التوحید ۲۶ (۷۴۳۷)، صحیح مسلم/الإیمان ۸۱ (۱۸۲)، مسند احمد (۲/۲۷۶،۲۹۳،۵۳۴،۳/۹۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُؤْتَى بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُوقَفُ عَلَى الصِّرَاطِ، فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ وَجِلِينَ أَنْ يُخْرَجُوا مِنْ مَكَانِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَهْلَ النَّارِ، فَيَطَّلِعُونَ مُسْتَبْشِرِينَ فَرِحِينَ أَنْ يُخْرَجُوا مِنْ مَكَانِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ، فَيُقَالُ: هَلْ تَعْرِفُونَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، هَذَا الْمَوْتُ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُذْبَحُ عَلَى الصِّرَاطِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْفَرِيقَيْنِ كِلَاهُمَا: خُلُودٌ فِيمَا تَجِدُونَ، لَا مَوْتَ فِيهَا أَبَدًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا، اور پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: اے جنت والو! تو وہ خوف زدہ اور ڈرے ہوئے اوپر چڑھیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو ان کے مقام سے نکال دیا جائے، پھر پکارا جائے گا: اے جہنم والو! تو وہ خوش خوش اوپر آئیں گے کہ وہ اپنے مقام سے نکالے جا رہے ہیں، پھر کہا جائے گا: کیا تم اس کو جانتے ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، یہ موت ہے، فرمایا: پھر حکم ہو گا تو وہ پل صراط پر ذبح کر دی جائے گی، پھر دونوں گروہوں سے کہا جائے گا: اب دونوں گروہ اپنے اپنے مقام میں ہمیشہ رہیں گے، اور موت کبھی نہیں آئے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۱۰۲، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۵۰ (۶۵۴۵)، مسند احمد (۲/۲۶۱،۳۷۷،۵۱۳)، سنن الدارمی/الرقاق ۹۰ (۲۸۵۳)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَمِنْ بَلْهَ مَا قَدْ أَطْلَعَكُمُ اللَّهُ عَلَيْهِ، اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17، قَالَ وَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقْرَؤُهَا مِنْ قُرَّاتِ أَعْيُنٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمت تیار کر رکھی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی آدمی کے دل میں اس کا خیال آیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان نعمتوں کے علاوہ جو تم کو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور بھی نعمتیں ہیں، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» "کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ بدلہ ہے اس کے نیک اعمال کا" (سورۃ السجدۃ: ۱۷)۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کو «قرآت أعين»(یعنی جمع کا صیغہ) پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۴)، صحیح مسلم/الجنة (۲۸۲۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۰۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۳۳ (۳۱۹۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَشِبْرٌ فِي الْجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایک بالشت کی جگہ زمین یا زمین پر موجود تمام چیزوں میں یعنی «دنيا وما فيها» سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۹۲، ومصباح الزجاجة:۱۵۴۹)(ضعیف) (سند میں حجاج اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایک کوڑے کی جگہ «دنيا وما فيها» سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف:۴۶۷۴، ومصباح الزجاجة:۱۵۵۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد ۷۳ (۲۸۹۲)، بدء الخلق ۸ (۳۲۵۰)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۱۷ (۱۶۴۸)(صحیح) (سند میں زکریا ضعیف ہیں لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کما فی التخریج)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الْجَنَّةُ مِائَةُ دَرَجَةٍ، كُلُّ دَرَجَةٍ مِنْهَا مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَإِنَّ أَعْلَاهَا الْفِرْدَوْسُ، وَإِنَّ أَوْسَطَهَا الْفِرْدَوْسُ، وَإِنَّ الْعَرْشَ عَلَى الْفِرْدَوْسِ، مِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ، فَإِذَا مَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جنت کے سو درجے ہیں، ہر درجے کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے، اور اس کا سب سے اونچا درجہ فردوس ہے، اور سب سے عمدہ بھی فردوس ہے اور عرش بھی فردوس پر ہے، اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں، تو جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو فردوس مانگو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۵۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة الجنة ۴ (۲۵۳۰)، مسند احمد (۵/۲۳۲،۲۴۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِيالضَّحَّاكُ الْمَعَافِرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ لِأَصْحَابِهِ: "أَلَا مُشَمِّرٌ لِلْجَنَّةِ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ لَا خَطَرَ لَهَا، هِيَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ نُورٌ يَتَلَأْلَأُ، وَرَيْحَانَةٌ تَهْتَزُّ، وَقَصْرٌ مَشِيدٌ، وَنَهَرٌ مُطَّرِدٌ، وَفَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ، نَضِيجَةٌ وَزَوْجَةٌ، حَسْنَاءُ جَمِيلَةٌ، وَحُلَلٌ كَثِيرَةٌ فِي مَقَامٍ أَبَدًا، فِي حَبْرَةٍ وَنَضْرَةٍ فِي دُارٍ عَالِيَةٍ سَلِيمَةٍ بَهِيَّةٍ"، قَالُوا: نَحْنُ الْمُشَمِّرُونَ لَهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "قُولُوا: إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، ثُمَّ ذَكَرَ الْجِهَادَ وَحَضَّ عَلَيْهِ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا: "کیا کوئی جنت کے لیے کمر نہیں باندھتا؟ اس لیے کہ جنت جیسی کوئی اور چیز نہیں ہے، رب کعبہ کی قسم، وہ چمکتا ہوا نور ہے، خوشبودار پھول ہے جو جھوم رہا ہے، مضبوط محل ہے، بہتی نہر ہے، وہاں بہت سارے پکے ہوئے میوے اور تیار پھل ہیں، خوبصورت اور خوش اخلاق بیویاں ہیں، کپڑوں کے بہت سارے جوڑے ہیں، ہمیشگی کا مقام ہے، جہاں سدا بہار اور تازگی ہے، اونچا، محفوظ اور روشن محل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اس کے لیے کمر باندھتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "کہو، ان شاءاللہ، پھر جہاد کا ذکر کیا، اور اس کی رغبت دلائی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۸، ومصباح الزجاجة:۱۵۵۱)(ضعیف) (سند میں ضحاک معافری لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ، عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى ضَوْءِ أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً، لَا يَبُولُونَ، وَلَا يَتَغَوَّطُونَ، وَلَا يَمْتَخِطُونَ، وَلَا يَتْفُلُونَ، أَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَمَجَامِرُهُمُ الْأَلُوَّةُ، أَزْوَاجُهُمُ الْحُورُ الْعِينُ، أَخْلَاقُهُمْ عَلَى خُلُقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گی، پھر جو لوگ ان کے بعد آئیں گے آسمان میں سب سے زیادہ روشن تارے کی طرح چمکتے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ وہ ناک صاف کریں گے نہ تھوکیں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ مشک کا ہو گا، ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی، ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سارے جنتیوں کی عادت ایک شخص جیسی ہو گی، سب اپنے والد آدم علیہ السلام کی شکل و صورت پر ہوں گے، ساٹھ ہاتھ کے لمبے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۸ (۳۳۲۷)، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ۶ (۲۸۳۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۰۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة الجنة ۷ (۲۵۳۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے عمارہ کی حدیث کے مثل مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا ۶ (۲۸۳۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۱،۲۵۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْكَوْثَرُ نَهَرٌ فِي الْجَنَّةِ، حَافَّتَاهُ مِنْ ذَهَبٍ، مَجْرَاهُ عَلَى الْيَاقُوتِ وَالدُّرِّ، تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ، وَمَاؤُهُ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ الثَّلْجِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوثر جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اور اس کی پانی بہنے کی نالی یا قوت و موتی پر ہو گی، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۸۹ (۳۳۶۱)،(تحفة الأشراف:۷۴۱۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: وَظِلٍّ مَمْدُودٍ 30 وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ 31 سورة الواقعة آية 30-31.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «وظل ممدود» "جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے" (سورة الواقعة: 3)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۰۳۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۵۶ (۴۸۸۱)، صحیح مسلم/الجنة ۱ (۲۸۲۶)، سنن الترمذی/صفة الجنة ۱ (۲۵۲۳)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۱۴ (۲۸۸۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ، قَالَ سَعِيدٌ: أَوَ فِيهَا سُوقٌ، قَالَ: نَعَمْ، أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ، فَيُؤْذَنُ لَهُمْ فِي مِقْدَارِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا، فَيَزُورُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَيُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ، وَيَتَبَدَّى لَهُمْ فِي رَوْضَةٍ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، فَتُوضَعُ لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ لُؤْلُؤٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ يَاقُوتٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ زَبَرْجَدٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنَابِرُ مِنْ فِضَّةٍ، وَيَجْلِسُ أَدْنَاهُمْ وَمَا فِيهِمْ دَنِيءٌ عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ وَالْكَافُورِ، مَا يُرَوْنَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَرَاسِيِّ بِأَفْضَلَ مِنْهُمْ مَجْلِسًا"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ"، قُلْنَا: لَا، قَالَ: "كَذَلِكَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا يَبْقَى فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ أَحَدٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُحَاضَرَةً، حَتَّى إِنَّهُ يَقُولُ لِلرَّجُلِ مِنْكُمْ: أَلَا تَذْكُرُ يَا فُلَانُ يَوْمَ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا، يُذَكِّرُهُ بَعْضَ غَدَرَاتِهِ فِي الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، أَفَلَمْ تَغْفِرْ لِي، فَيَقُولُ: بَلَى، فَبِسَعَةِ مَغْفِرَتِي بَلَغْتَ مَنْزِلَتَكَ هَذِهِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، غَشِيَتْهُمْ سَحَابَةٌ مِنْ فَوْقِهِمْ، فَأَمْطَرَتْ عَلَيْهِمْ طِيبًا لَمْ يَجِدُوا مِثْلَ رِيحِهِ شَيْئًا قَطُّ، ثُمَّ يَقُولُ: قُومُوا إِلَى مَا أَعْدَدْتُ لَكُمْ مِنَ الْكَرَامَةِ، فَخُذُوا مَا اشْتَهَيْتُمْ، قَالَ: فَنَأْتِي سُوقًا قَدْ حُفَّتْ بِهِ الْمَلَائِكَةُ، فِيهِ مَا لَمْ تَنْظُرِ الْعُيُونُ إِلَى مِثْلِهِ، وَلَمْ تَسْمَعِ الْأَذَانُ، وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى الْقُلُوبِ، قَالَ: فَيُحْمَلُ لَنَا مَا اشْتَهَيْنَا، لَيْسَ يُبَاعُ فِيهِ شَيْءٌ، وَلَا يُشْتَرَى، وَفِي ذَلِكَ السُّوقِ يَلْقَى أَهْلُ الْجَنَّةِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَيُقْبِلُ الرَّجُلُ ذُو الْمَنْزِلَةِ الْمُرْتَفِعَةِ فَيَلْقَى مَنْ هُوَ دُونَهُ، وَمَا فِيهِمْ دَنِيءٌ، فَيَرُوعُهُ مَا يَرَى عَلَيْهِ مِنَ اللِّبَاسِ، فَمَا يَنْقَضِي آخِرُ حَدِيثِهِ حَتَّى يَتَمَثَّلَ لَهُ عَلَيْهِ أَحْسَنُ مِنْهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَحْزَنَ فِيهَا، قَالَ: ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَى مَنَازِلِنَا، فَتَلْقَانَا أَزْوَاجُنَا فَيَقُلْنَ مَرْحَبًا وَأَهْلًا، لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِكَ مِنَ الْجَمَالِ وَالطِّيبِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ، فَنَقُولُ: إِنَّا جَالَسْنَا الْيَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَحِقُّنَا أَنْ نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا".
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو انہوں نے کہا: میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور تمہیں جنت کے بازار میں ملا دے، سعید بن مسیب نے کہا: کیا وہاں بازار بھی ہو گا؟ فرمایا: ہاں، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ "اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے مراتب اعمال کے مطابق ان کو جگہ ملے گی، پھر ان کو دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر اجازت دی جائے گی، وہ اللہ عزوجل کی زیارت کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا، اور ان کے سامنے جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں جلوہ افروز ہو گا، ان کے لیے منبر رکھے جائیں گے، نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زبرجد کے منبر، سونے اور چاندی کے منبر اور ان میں سے کم تر درجے والا (حالانکہ ان میں کم تر کوئی نہ ہو گا) مشک و کافور کے ٹیلوں پر بیٹھے گا، اور ان کو یہ خیال نہ ہو گا کہ کرسیوں والے ان سے زیادہ اچھی جگہ بیٹھے ہیں"۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ فرمایا: "ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں جھگڑتے ہو"؟ ہم نے کہا: نہیں، فرمایا: "اسی طرح تم اپنے رب عزوجل کو دیکھنے میں جھگڑا نہیں کرو گے اور اس مجلس میں کوئی شخص نہیں بچے گا مگر اللہ تعالیٰ ہر شخص سے گفتگو کرے گا، یہاں تک کہ وہ ان میں سے ایک شخص سے کہے گا: اے فلاں! کیا تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے ایسا ایسا کیا تھا؟ (اس کو دنیا کی بعض غلطیاں یاد دلائے گا) تو وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تم نے مجھے معاف نہیں کیا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیوں نہیں، میری وسیع مغفرت ہی کی وجہ سے تو اس درجے کو پہنچا ہے، وہ سب اسی حالت میں ہوں گے کہ ان کو اوپر سے ایک بادل ڈھانپ لے گا، اور ایسی خوشبو برسائے گا جو انہوں نے کبھی نہ سونگھی ہو گی، پھر فرمائے گا: اب اٹھو اور جو کچھ تمہاری مہمان نوازی کے لیے میں نے تیار کیا ہے اس میں سے جو چاہو لے لو، فرمایا: پھر ہم ایک بازار میں آئیں گے جس کو فرشتوں نے گھیر رکھا ہو گا، اس میں وہ چیزیں ہوں گی جن کے مثل نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، اور نہ دلوں نے سوچا،(فرمایا) ہم جو چاہیں گے ہمارے لیے پیش کر دیا جائے گا، اس میں کسی چیز کی خرید و فروخت نہ ہو گی، اس بازار میں اہل جنت ایک دوسرے سے ملیں گے، ایک اونچے مرتبے والا شخص آگے بڑھے گا اور اپنے سے نیچے درجے والے سے ملے گا (حالانکہ ان میں کوئی کم درجے کا نہ ہو گا) وہ اس کے لباس کو دیکھ کر مرعوب ہو گا، لیکن یہ دوسرا شخص اپنی گفتگو پوری نہ کر پائے گا کہ اس پر اس سے بہتر لباس آ جائے گا، ایسا اس لیے ہے کہ جنت میں کسی کو کسی چیز کا غم نہ رہے"۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے، تو ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی، اور خوش آمدید کہیں گی، اور کہیں گی کہ تم آ گئے اور تمہاری خوبصورتی اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس میں تم ہمیں چھوڑ کر گئے تھے، تو ہم کہیں گے: آج ہم اپنے رب کے پاس بیٹھے، اور یہ ضروری تھا کہ ہم اسی حال میں لوٹتے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة الجنة ۱۵ (۲۵۴۹)،(تحفة الأشراف:۱۳۰۹۱)(ضعیف) (سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۷۲۲)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ أَبُو مَرْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ أَحَدٍ يُدْخِلُهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، إِلَّا زَوَّجَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً، ثِنْتَيْنِ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَسَبْعِينَ مِنْ مِيرَاثِهِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، مَا مِنْهُنَّ وَاحِدَةٌ إِلَّا وَلَهَا قُبُلٌ شَهِيٌّ، وَلَهُ ذَكَرٌ لَا يَنْثَنِي"، قَالَ هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ: "مِنْ مِيرَاثِهِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ"يَعْنِي: رِجَالًا دَخَلُوا النَّارَ فَوَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ نِسَاءَهُمْ، كَمَا وُرِثَتِ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی جنت میں جائے گا اللہ تعالیٰ بہتر (۷۲) بیویوں سے اس کی شادی کر دے گا، دو بڑی آنکھوں والی حوریں اور ستر (۷۰) اہل جہنم کی میراث میں سے ہوں گی، ان میں سے ہر ایک کی شرمگاہ خوب شہوت والی ہو گی، اور اس کا ذکر ایسا ہو گا جس میں کبھی کجی نہیں ہو گی"، ہشام بن خالد نے کہا: اہل جہنم کی میراث سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ جہنم میں جائیں گے اہل جنت ان کی بیویوں کے وارث ہو جائیں گے مثلا ً فرعون کی بیوی کے وارث جنتی ہوں گے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۸۵۹، ومصباح الزجاجة:۱۵۵۲)(ضعیف جدا) (سند میں خالد بن یزید ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُؤْمِنُ إِذَا اشْتَهَى الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ، كَانَ حَمْلُهُ وَوَضْعُهُ فِي سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ كَمَا يَشْتَهِي".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن جب جنت میں اولاد کی خواہش کرے گا، تو حمل اور وضع حمل اس کی خواہش کے موافق سب ایک گھڑی میں ہو جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة الجنة ۲۳ (۲۵۶۳)،(تحفة الأشراف:۳۹۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۸۰۰۹)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۱۰ (۲۸۷۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ حَبْوًا، فَيُقَالُ لَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللَّهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا، فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَيَرْجِعُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ إِنَّهَا مَلْأَى، فَيَقُولُ اللَّهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا، أَوْ إِنَّ لَكَ مِثْلَ عَشَرَةِ أَمْثَالِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَتَسْخَرُ بِي أَوْ أَتَضْحَكُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، فَكَانَ يُقَالُ: هَذَا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جانتا ہوں اس کو جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، اور جنت میں سب سے آخر میں داخل ہو گا، وہ شخص جہنم سے گھسٹتا ہوا نکلے گا، اس سے کہا جائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ وہ جنت تک آئے گا تو اس کو لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے، وہ لوٹ جائے گا اس پر کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو بھری ہوئی پایا، اللہ فرمائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ جنت تک آئے گا تو اس کو بھری ہوئی سمجھ کر پھر واپس چلا جائے گا، لوٹ کر کہے گا: اے میرے رب! وہ تو بھری ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، تمہارے لیے دنیا اور اس کے مثل دس دنیاؤں کی جگہ (جنت میں) ہے، وہ کہے گا: کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے؟، یہ حدیث بیان کرتے ہوئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اتنا ہنسے کہ آپ کے اخیر کے دانت ظاہر ہو گئے، (یعنی کھل کھلا کر ہنس پڑے) کہا جاتا ہے کہ یہ شخص جنتیوں میں سب سے کم درجے والا ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۵۱ (۶۵۷۱)، التوحید ۳۶ (۷۵۱۱)، صحیح مسلم/الإیمان ۸۳ (۱۸۶)، سنن الترمذی/صفة جھنم ۱۰ (۲۵۹۵)،(تحفة الأشراف:۹۴۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۰،۳۷۶،۳۷۸،۴۶۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَأَلَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَتِ الْجَنَّةُ: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَتِ النَّارُ: اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنَ النَّارِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے تین بار جنت مانگی تو جنت نے کہا: اے اللہ! اسے جنت میں داخل فرما، اور جس نے تین بار جہنم سے پناہ مانگی تو جہنم نے کہا: اے اللہ! اس کو جہنم سے پناہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة الجنة ۲۷ (۲۵۷۲)، سنن النسائی/ الاستعاذة ۵۵ (۵۵۲۳)،(تحفة الأشراف:۲۴۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا لَهُ مَنْزِلَانِ، مَنْزِلٌ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْزِلٌ فِي النَّارِ، فَإِذَا مَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ، وَرِثَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنْزِلَهُ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ سورة المؤمنون آية 10".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک کے دو ٹھکانے ہیں: ایک ٹھکانا جنت میں اور ایک ٹھکانا جہنم میں، جب وہ مرتا ہے اور جہنم میں چلا جاتا ہے تو جنت والے اس کے حصے کو لاوارث سمجھ کر لے لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے قول: «أولئك هم الوارثون» "یہی لوگ وارث ہوں گے" (سورة المومنون: 1) کا یہی مطلب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۵۴۵، ومصباح الزجاجة:۱۵۵۳)(صحیح)