مشکوٰة شر یف

سترہ کا بیان

سترہ کا بیان

یہاں سترہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے نمازی کے سامنے کھڑا کیا جائے جیسے دیوار، ستون، یا لکٹری لوہا وغیرہ۔ نماز کے آگے سترہ اس لیے کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے سجود کی جگہ متمیز ہو جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے والا آدمی گنہگار نہ ہو۔ سترے کہ لمبائی کم سے کم ایک ہاتھ اور موٹائی کم از کم ایک انگشت ہونا ضروری ہے۔

مقتدیوں کے لیے امام کا سترہ کافی ہے یعنی اگر امام کے آگے سترہ کھڑا ہو تو مقتدیوں کے آگے سے گزرنا جائز ہے اگرچہ ان کے سامنے کوئی چیز حائل نہ ہو۔

امام اور سترہ کے درمیان سے گزر جانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ کوئی نمازی پیچھے سے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ پچھلی صفوں کے سامنے سے گزرتا ہوا پہلی صف میں خالی جگہ پہنچ کر کھڑا ہو جائے کیونکہ یہ پچھلی صف والوں کا قصور ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر پہلی صف میں جگہ کو پر کیوں نہ کیا۔ سترے کے مفصل احکام آگے احادیث کی تشریح کے ضمن میں آئیں گے۔

سترہ کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم صبح کے وقت عیدگاہ تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے آگے ایک نیزہ (بھی) لے جایا جاتا جو عیدگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے کھڑا کر دیا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

سترہ کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول

تشریح

 

معمول یہ تھا کہ سترہ کرنے اور ڈھیلے وغیرہ توڑنے کے لیے اکثر اوقات خدام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ایک نیزہ لے کر چلتے تھے چنانچہ عید گاہ میں سامنے چونکہ کوئی دیوار وغیرہ نہیں تھی بلکہ میدان ہی میدان تھا اس لیے وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نیزہ جاتا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سامنے کھڑا کر دیتے تھے۔

 

اللہ کی تعریف اور سترے کے سامنے سے گزرنے کا حکم

اور حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ابطح کے مقام پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو سرخ چمڑے کے ایک خیمے میں دیکھا اور میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لیتے ہوئے دیکھا اور دوسرے لوگوں کو (بھی) میں نے دیکھا کہ وہ پانی حاصل کرنے میں بڑی عجلت کر رہے تھے۔ چنانچہ جس آدمی کو اس پانی میں سے کچھ مل گیا اس نے (برکت حاصل کرنے کے لیے) اسے (اپنے بدن اور منہ پر) مل لیا اور جس آدمی کو کچھ نہ ملا اس نے ساتھ والے کے ہاتھ کی تری (ہی) لے کر مل لی پھر میں نے بلال کو دیکھا کہ انہوں نے نیزہ لے کر اسے گاڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سرخ دھاری دار جوڑا پہنے اور دامن اٹھائے (خیمے سے) نکلے اور نیزے کی طرف کھڑے ہو کر صحابہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ آدمی اور چوپائے نیزہ کے سامنے آ جا رہے تھے۔ (صحیح مسلم، صحیح البخاری)

 

اللہ کی تعریف اور سترے کے سامنے سے گزرنے کا حکم

ابطح ایک نالہ کا نام ہے جو منیٰ کے راستہ میں مکہ کے قریب ہی واقع ہے اس نالے کو محصب اور بطحا بھی کہتے ہیں۔ ابطح کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس نالہ میں سنگریزے ہیں۔

 حلہ دو کپڑوں یعنی لنگی اور چادر کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو حلہ زیب تن فرما رکھا تھا وہ سرخ دھاری دار تھا پورا کپڑا سرخ نہیں تھا جو مردوں کو پہننا مکروہ تحریمی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ سترے کے سامنے سے آدمیوں اور چوپاؤں کا گزرنا درست ہے۔