اس باب میں منتر و افسوں اور جھاڑ پھونک وغیرہ کے متعلق احکام و مسائل بیان ہوئے ہیں اب جب کہ باب ختم ہو رہا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مناسبت سے سحر و جادو کے احکام و اقسام کے سلسلے میں کچھ تفصیل بیان کر دی جائے اس مقصد کے لئے خاص طور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے منقولات کو منتخب کیا گیا ہے جو انہوں نے آیت کریمہ (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ) 2۔ البقرۃ:102) کے تحت سحر کے اقسام و احکام کی وضاحت میں بیان کئے ہیں ان معقولات و فرمودات کا ترجمہ و خلاصہ اور اس کی روشنی میں چند دوسری باتیں نقل کی جاتی ہیں۔
جاننا چاہئے کہ سحر کے حکم کی مختلف صورتیں ہیں اگر سحر کرنے والے نے کوئی ایسا قول و فعل اختیار کیا جو کفر کا موجب ہو جیسے بتوں، دیوی، دیوتاؤں اور ارواح خبیثہ کا نام ایسی تعظیم و صفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہو جو صرف رب العزت ہی کے شایان شان ہے مثلاً ان بتوں وغیرہ کے لئے عموم علم، قدرت و تصرف اور غیب دانی و مشکل کشائی وغیرہ ثابت کی گئی ہو، یا غیر اللہ کے لئے ذبح کیا گیا ہو، غیر اللہ کے لئے سجدہ کیا گیا ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسا سحر بلا شبہ کفر ہو گا اور اس سحر کو کرنے والا مرتد قرار پائے گا اسی طرح جس شخص نے اپنے کسی مطلب کے حصول کے لئے اس طرح کا سحر دیدہ دانتسہ کرایا ہو گا تو وہ بھی کافر ہو جائے گا اور اس پر ارتداد کے احکام نافذ ہوں گے، اگر وہ مرد ہے تو پہلے اس کو تین دن کی مہلت دینی چاہئے اگر تین دن کے بعد اس نے صحیح توبہ نہ کی تو اس کو مار ڈالا جائے اور اس کی لاش کو پھینک دیا جائے نہ مسلمان میت کی طرح اس کی تجہیز وتکفین کی جائے نہ اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ فاتحہ و درود و صدقات کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے، اور اگر وہ عورت ہے تو حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق اس کو بھی مردوں کی طرح تین دن کی مہلت کے بعد قتل کر دیا جائے، اور جب کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک عورت کو ہمیشہ کے لئے قید میں ڈال دیا جائے جب تک کہ وہ توبہ نصوح نہ کرے۔
اور اگر سحر میں کوئی ایسا قول و فعل نہ ہو ارتداد و کفر کا موجب ہوتا ہے، لیکن سحر کرنے والا اس بات کا دعوی کرے کہ میں اپنے اس جادو کے زور سے وہ کام کر سکتا ہوں جو خدا کرتا ہے۔ مثلاً میں انسان کو جانور کی صورت میں تبدیل کر سکتا ہوں یا لکڑی کو پتھر اور پتھر کو لکڑی بنا سکتا ہوں یا ایسے کام کر سکتا ہوں جو پیغمبر کر سکتے ہیں اور ان معجزات کی طرح میں بھی معجزہ دکھا سکتا ہوں مثلاً میں ہوا میں اڑ سکتا ہوں یا ایک مہینے کی مسافت ایک لمحے میں طے کر سکتا ہوں تو اس کو بھی اس دعوے کی وجہ سے مرتد و کافر قرار دیا جا سکتا ہے نہ کہ نفس سحر کے سبب۔ اگر وہ یوں کہے کہ میرے عملیات میں ایک خاصیت ہے اور وہ یہ کہ میں اپنے عمل جادو کے ذریعہ کسی جاندار کو جان سے مار سکتا ہوں، یا کسی تندرست کو بیمار اور بیمار کو تندرست کر سکتا ہوں یا میں لوگوں کے خیالات تک کو اچھا یا برا بنا سکتا ہوں تو اس کا یہ سحر جھوٹ بولنے اور فسق اختیار کرنے کے حکم میں ہو گا اور وہ (سحر کرنے والا) فاسق و کاذب قرار پائے گا اور وہ اپنے اس عمل (سحر) کے ذریعہ کسی بے گناہ کو ہلاک کر ڈالے تو اس کو قزاق اور قاتل کی طرح سزائے موت دے کر مار ڈالا جائے کیونکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ فتنہ و فساد پھیلانے اور بے گناہوں کو ہلاکت میں ڈالنے کا مجرم قرار پائے گا۔ اس بارے میں ساحر اور ساحرہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔
ایک روایت میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے یہ منقول ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ سحر کرتا ہے اور اقرار و تنبیہ کے ذریعہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو اس کو مار ڈالنا چاہئے اس سے توبہ کا مطالبہ کرنے یا مہلت دینے کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ کہے کہ میں سحر کو ترک کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تو اس کی بات کو قبول نہ کرنا چاہئے۔ہاں اگر وہ یوں کہے کہ میں پہلے تو بیشک سحر کرتا تھا مگر ایک مدت سے اپنے فعل سے باز آ گیا ہوں تو اس کے اس قول کو قبول کر لیا جائے اور اس کو معاف کر دیا جائے۔
حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سحر کیا اور اس کے سحر کی وجہ سے سحر زدہ مر گیا تو ساحر سے جواب طلب کرنا چاہئے اگر وہ اقرار کرے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر اکثر اوقات جان لے لیتا ہے تو اس پر قصاص واجب ہو گا اور اگر یہ کہے کہ میں نے اس شخص پر سحر کیا تھا اور میرا سحر کبھی جان لے لیتا ہے اور کبھی جان نہیں لیتا ہے تو یہ قتل عمد کے حکم میں ہو گا اور اس پر شبہ عمد کے احکام نافذ ہوں گے اور اگر وہ یوں کہے کہ سحر تو میں نے کسی دوسرے شخص کے لئے سحر کیا گیا تھا اور اس وجہ سے اس کا اثر اس شخص پر ہو گیا اور یہ ہلاک ہو گیا تو یہ قتل خطاء کے حکم میں ہو گا اور اس (ساحر) پر قتل خطاء کے احکام نافذ ہوں گے
اس موقع پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے جو اکثر ذہنوں میں خلجان پیدا کر سکتا ہے اور وہ یہ کر خرق عادت افعال کہ جو محض قدرت الہی سے صادر ہوتے ہیں اکثر اولیاء اللہ کے ذریعہ ظہور میں آتے ہیں جیسے تقلیب اعیان یا تبدیلی صورت یا اسی طرح کے وہ افعال جو پیغبروں کے معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں جیسے مردہ کو زندہ کر دینا یا دور دراز کے سفر کو ایک لمحہ میں طے کر لینا علاوہ ازیں اولیاء اللہ سے اسی طرح کی اور بہت سی چیزوں کا صادر ہونا ثابت جن کو ان اولیاء اللہ کے مستند سوائح نگاروں نے ان کے مناقب و کرامت کے ضمن میں لکھا ہے۔ لہٰذا اگر افعال الٰہی کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے تو ان اولیاء اللہ سے صادر ہونے والے خرق عادت افعال کی صورت میں بھی کفر لازم آنا چاہئے اور اگر یہ کہا جائے کہ اولیاء اللہ سے جو خرق عادت فعل ہونے کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ان پر کفر کا اطلاق نہیں ہوتا تو پھر ساحروں کے حق میں کفر کا حکم کیوں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی ان افعال کے صادر ہونے کا ظاہری سبب و ذریعہ ہی تو ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی فاعل بلکہ علاوہ ازیں دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین کہ جو اپنے کہ جو اپنے عملیات اور دعاؤں کے ذریعہ ساحروں کی طرح کتنے ہی محیر العقول کارنامہ انجام دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی گویا پوری طرح ساحروں کے مشابہ ہوتے ہیں تو ان کے افعال پر بھی کفر کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا اور ان کے اور ساحروں کے درمیان فرق کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ خرق عادت افعال خواہ وہ معجزات کے مشابہ ہوتے ہیں اور خواہ کسی اور طرح کے ہوں سب اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی ارادہ و حکم سے اور اسی کے پیدا کرنے سے صادر و ظاہر ہوتے ہیں اس اعتبار سے اولیاء اللہ سے جو چیزیں (کرامت کی صورت میں) صادر ہوتی ہیں وہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ سے ظہور میں آتی ہیں اور جو چیزیں ساحروں سے صادر ہوتی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم و ارادہ ہی سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے اور جس فرق کی وجہ سے کفر اور عدم کفر کا حکم لگتا ہے وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ یا دعا تعویذ کرنے والے اور عاملین ان افعال کی نسبت غیر اللہ کی طرف نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت یا اس کے اسماء پاک کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے ان پر کفر و شرک کا اطلاق نہیں ہوتا، جب کہ ساحر ان افعال کو غیر اللہ، یعنی ارواح خبیثہ،دیوی دیوتاؤں، بتوں کے نام اور منتروں کے خواص کی طرف کرتے ہیں اسی لئے وہ ان افعال کو اپنے قبضہ و قابو اور اپنے زیر حکم جانتے ہیں اور ان افعال کے عوض اجرت لیتے ہیں، بھینٹ چاہتے ہیں، ان دیوی دیوتاؤں اور بتوں کے نام پر نذر کرنے اور قربانی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے یہ چیزیں شرک و کفر لازم کرتی ہیں، اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی کو بچہ عطا ہونا، رزق میں وسعت وفراخی ملنا اور مریض کا شفایاب ہونا وغیرہ امور اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں اور اسی کے حکم و ارادہ کے تحت ہیں لیکن گمراہ لوگ ان کی نسبت ارواح خبیثہ، دیوی، دیوتاؤں اور پیروں فقیروں وغیرہ کی طرف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں دیوی دیوتا سے بچہ مانگا تھا تو اس نے ہمیں بچہ دیا ہم نے فلاں کی روح کے نام پر بھینٹ چڑھائی تھی تو اس نے ہمیں رزق میں وسعت دی اور ہم نے فلاں بزرگ و فقیر سے درخواست کی تھی اور اس مقصد کے لئے ان کے مزار پر نذرانے چڑھائے تھے تو انہوں نے ہمیں شفا دی۔گویا ان کے نزدیک ان چیزوں کا دینے والا اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ غیر اللہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگ کافر ہو جاتے ہیں اس کے برخلاف خدا کو ماننے والے اور اس کے احکام پر عمل کرنے والے لوگ اگر ان چیزوں کے لئے جائز ذرائع و اسباب، جیسے دعا، تعویذ، جھاڑ پھونک یا علاج معالجہ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوتی ہے تو ان امور کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں جو چیز ملی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملی ہے البتہ اس کے حصول میں اسماء الٰہی دعاؤں اور تعویذ گنڈے کی تاثیر یا دوا کے خواص ایک ظاہری سبب و ذریعہ کا درجہ رکھتے ہیں اس بناء پر ان کے ایمان میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ سحر کی تعریف و حقیقت کیا ہے اور یہ سحر کی کونسی قسم موجب کفر ہے کونسی موجب فسق ہے اور کونسی قسم مباح ہے یعنی شریعت میں جائز ہے؟ اس کی تفصیل اگرچہ بہت طویل ہے لیکن اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ سحر کی حقیقت و تعریف یہ ہے دعاؤں اور اسماء الٰہی کے عملیات وغیرہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طاقت حاصل کرنے کی بجائے خفیہ اسباب کی مزاولت (یعنی مخفی طاقتوں کی پرستش وجہیہ سائی اور ان کی تسخیر) کے ذریعہ خوارق عادات اور افعال عجیبیہ پر قدرت حاصل کرنا اور ان خوارق عادات اور افعال عجیبیہ کی نسبت قادر مطلق پروردگار عالم کی طرف کرنے کی بجائے غیر اللہ یعنی ان مخفی طاقتوں یا اپنی ذات کی طرف کرنا۔ اور چونکہ عالم میں اسباب خفیہ کئی طرح کے ہیں اس لئے سحر کی قسمیں بھی متعدد ہیں جن کو منضبط طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ خفیہ سبب یا تو روحانیت کی تاثیر ہے، یا جسمانیت کی تاثیر پھر روحانیت یا تو کلیہ مطلق ہیں جیسے کواکب و افلاک یا عناصر کی روحانیت، یا وہ روحانیت جزیہ خاصہ ہیں جیسے امراض اور جن و شیاطین کی روحانیات اور وہ ارواح جو جسم انسانی سے نکل کر جاتی ہیں اور جن کو مسخر کر کے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں تک جسمانیات کا تعلق ہے تو وہ جسمانیات یا تو ترکیب اور اجتماع کیفیات کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں جس سے عجیب و غریب باتیں ظہور میں آتی ہیں یا خواص کے سبب سے تاثیر کرتے ہیں یعنی ان کی صورت نوعیہ کسی ترکیب اور اجتماع کیفیات کے توسط کے بغیر خود بخود تاثیر کرتی ہے جس طرح کہ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے۔
رہی یہ بات کہ ان روحانیات یعنی ان پوشیدہ و مخفی طاقتوں سے مناسبت کیونکر حاصل ہوتی ہے اور ان کی تاثیر کو کس طرح مائل کیا جاتا ہے تو اس کے مختلف طریقے ہیں، بعض لوگ چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان روحانیت کا نام جپتے ہیں، اور حصول مقصد کے لئے ان سے ملتجی ہوتے ہیں بعض لوگ ان کی تصویر بنا کر اس کے سامنے نذر بھینٹ چڑھاتے ہیں اور وہ کام کرتے ہیں جو ان کو مرغوب ہو سکتے ہیں، یا مخصوص طریقہ اور مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ حروف و الفاظ بلا لحاظ ترکیب پڑھتے ہیں جن کے ذریعہ وہ ارواح میں سے کسی روح کی بڑائی کی طرف یا ایسے عجیب و غریب فعل کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس سے کبھی سرزد ہوا تھا اور جس کی وجہ سے عام وخاص اس کی مدح و ثناء میں رطب اللسان ہوئے تھے، غرضیکہ سحر کرنے کی مختلف عملیات اور مختلف صورتیں ہیں اور ان عملیات اور صورتوں کے نتیجہ میں سحر کی متعدد اور کثیر قسمیں سامنے آتی ہیں، لیکن جو قسمیں زیادہ مشہور ہیں وہ چند ہیں اور ان میں پہلی قسم جو سب سے بڑی قسم سمجھی جاتی ہے کلدانیوں اور بابل کا سحر ہے اور اسی کو باطل کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اس سحر کے علم کی اصل ہاروت و ماروت سے چلی ہے کہا جاتا ہے کہ بابل کے لوگ ہاروت و ماروت سے اس سحر کا علم اور طریقہ سیکھتے تھے اور پھر اس کے ذریعہ اپنے مقصد حاصل کیا کرتے تھے، نیز انہوں اس میں مختلف تحقیق و تجربے کئے تھے اور اس کے علم کو بہت وسیع و ہمہ گیر بنایا، اسی طرح کلدانیین، جو بابل میں سکونت رکھتے تھے اس علم کے حصول کے لئے مختلف محنت و جستجو میں لگے رہتے تھے اور اس کے ذریعہ نت نئی چیزیں پیدا کرتے تھے۔
تاریخ کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ بابل کے حکماء اور اس فن کے ماہرین نے نمرود کے زمانہ میں اپنے شہر بابل میں کہ جو نمرود کا دارالسلطنت تھا اس سحر کے ذریعہ ایسے چھ ہوشربا اور محیر العقول طلسمات بنا رکھے تھے، جن کی حقیقت و کیفیت جاننے سے انسان کی عقل و ذہانت عاجز رہتی تھی۔
اول یہ کہ انہوں نے تانبے کی ایک بطخ بنا رکھی تھی جو شہر میں ناپسندیدہ اور مضر افراد کے داخل ہونے کی خبر دیتی تھی، چنانچہ اگر کسی دوسرے ملک سے کوئی جاسوس یا دشمن یا کوئی چور وغیرہ شہر میں داخل ہوتا تو اس بطخ میں سے مخصوص آواز نکلنے لگتی تھی، شہر کے تمام لوگ اس آواز کو سن کر اس کا مقصد جان لیتے تھے۔ اور اس طرح وہ اس جاسوس اور چور کو پکڑ لیتے تھے،
دوسرے یہ کہ انہوں نے ایک نقارہ بنا رکھا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ شہر میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہو جاتی تو وہ اس نقارہ پر چوٹ مارتا، جس کے نتیجے میں اس سے یہ آواز نکلتی کہ تمہاری فلاں چیز فلاں جگہ ہے، چنانچہ تلاش کرنے کے بعد وہ اسی جگہ سے ملتی۔
تیسرے یہ کہ انہوں نے گم شدہ لوگوں کو دریافت کرنے کے لئے ایک آئینہ بنا رکھا تھا۔ جب شہر میں کسی کے گھر کا کوئی فرد غائب ہو جاتا تو وہ اس آئینے کے پاس آتا اور اس میں اپنے گمشدہ فرد کو حال دیکھ لیتا وہ گمشدہ خواہ کسی شہر میں ہوتا، خواہ جنگل میں اور خواہ کسی کشتی وغیرہ میں سفر کرتے ہوئے یا کسی پہاڑ پر، اسی طرح خواہ وہ بیمار ہوتا یا تندرست، خواہ مفلس و قلاش ہوتا یا مال دار اور خواہ زخمی ہوتا یا مقتول، غرضیکہ وہ جس جگہ اور جس حالت میں ہوتا اسی جگہ اور اسی حالت کے ساتھ اس آئینہ میں نمودار ہو جاتا۔
چوتھا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے ایک حوض بنایا تھا جس کے کنارے وہ سال بھر میں ایک دن جشن مناتے تھے چنانچہ شہر کے تمام سردار اور معززین اپنی پسند کے مشروب لے کر اس حوض کے کنارے جمع ہوتے اور جو شخص اپنے ساتھ جو مشروب لاتا اس کو اس حوض میں ڈال دیتا، پھر جب ساقی کا فرض انجام دینے والے لوگ اس کے کنارے کھڑے ہو کر لوگوں کو پلانا شروع کرتے اور اس حوض میں سے نکال نکال کر دیتے تو ہر شخص اس کو وہی پسندیدہ مشروب ملتا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔
پانچواں طلسم یہ تھا کہ انہوں نے لوگوں کے لڑائی جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے ایک تالاب بنایا تھا اگر دو آدمیوں کا آپس میں کوئی تنازعہ ہوتا اور یہ ثابت نہ ہو پاتا کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر۔تو دونوں فریق اس تالاب کے کنارے آتے اور پھر اس میں اتر جاتے چنانچہ جو شخص حق پر ہوتا اس تالاب کا پانی اس کے ناف کے نیچے رہتا اور وہ غرق نہ ہوتا اور جو شخص حق پر نہ ہوتا اس کے سر سے اوپر چلا جاتا اور اس کو ڈبو دیتا ہاں اگر وہ فریق مخالف کے حق کو مان لیتا اور اپنے دعوے کو ترک کر دیتا تو پھر غرقابی سے نجات پاتا۔
اور چھٹا طلسم یہ تھا کہ انہوں نے نمرود کے محل کے میدان میں ایک درخت لگا رکھا تھا، جس کے سایہ میں درباری بیٹھتے تھے لوگوں کی تعداد جس قدر بڑھتی رہتی اسی قدر اس کا سایہ بھی بڑھتا رہتا تھا یہاں تک کہ اگر تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی تو سایہ بھی اسی اعتبار سے زیادہ ہو جاتا تھا مگر جب اس عدد سے ایک آدمی بھی زیادہ ہو جاتا تو پھر سایہ بالکل ختم ہو جاتا تھا اور تمام لوگ دھوپ میں بیٹھے رہ جاتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں بابل کے لوگ ہی شغف و دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا بادشاہ نمرود بھی بہت زیادہ غلو رکھتا تھا اور اس علم کی پوری طرح سرپرستی کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سحر کی یہ قسم سب سے زیادہ سخت اور مشکل ہے لیکن اگر کوئی شخص سخت ترین ریاض و محنت اور مسلسل جدوجہد اس کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے اور اس فن کو جان لیتا ہے اور پھر اس کی اتنی زبردست طاقت و قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ کہ وہ انسانی عادت مخالف امور کو ظاہر کرنے اور انسانی عادات کے موافق امور کو روک دینے پر قادر ہو جاتا۔
جیسے وہ ان امراض کا علاج بھی کر سکتا ہے جس کے معالجہ سے دنیا بھر کے طبیب عاجز ہو گئے ہوں مثلاً برص اور جذام وغیرہ کیونکہ ایسا شخص روحانیات یعنی طاقتوں (جیسے جن و شیاطین) کے ذریعہ تدبیر و عمل کرتا ہے جب کہ طبیب جسمانیت (دواؤں) کے ذریعہ تدبیر کرتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر اجسام و ارواح کے ساری حقیقتیں منکشف کر دیں اور انہوں نے ہر جسم اور ہر روح کو قادر مطلق کے دست قدرت کے تحت مجبور و بیکس دیکھا تو سب سے منہ پھیر کر ذات واحد حقیقی کی طرف متوجہ ہو گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ انعام میں فرمایا۔ آیت (وکذلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوٰت والا رض تا وما انامن المشرکین) یعنی ہم نے ایسے طور پر ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھلائیں تاکہ وہ عارف ہو جائیں اور کامل یقین کرنے والوں سے ہو جائیں پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہی میرا رب ہے سو جب وہ غروب ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ جب سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ تو سب سے بڑا ہے سو جب وہ غروب ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم !بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔
واضح رہے کہ اوپر سحر کی جو قسم ذکر کی گئی ہے وہ خالص کفر اور شرک محض ہے کیونکہ اس سحر کے علم کا حصول جن، پندرہ شرائط کی پابندی پر موقوف ہے ان میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ ارواح کو عالم الغیب اور احوال قلب پر مطلع مانا جائے۔ اور ان کے تئیں عجز و جہل کا گمان ہرگز نہ کیا جائے ورنہ وہ ارواح اس کا کہنا بالکل نہیں مانیں گی اور اس کے مقصد تک نہیں پہنچائیں گی۔۔
کواکب و سیارات کی روحانیات یعنی ان کی قوتوں سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جو طریقہ بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے روحانیات قمر کی تاثیر کو ان الفاظ کے ورد کے ذریعہ متوجہ کرتے ہیں۔ ایہا الملک الکریم والسید الرحیم مرسل الرحمۃ ومنزل النعمۃ اور عطارد کی تاثیر کو متوجہ اور اپنے زیر اثر کے لئے ان الفاظ کا ورد کیا جاتا ہے۔ کل ماحصل لی من السحر فہو منک وکل ما یندفع من الشر منی فہو منک دیگر کواکب وسیارات سے استمداد کرنے اور ان کی تاثیر کو متوجہ کرنے کے لئے جن الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہو گا ان کو بھی انہی پر قیاس کیا جا سکتا ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کا عقیدہ رکھنا جو ان الفاظ سے آشکار ہوتے ہیں اور اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالنا عقیدہ توحید، تعلیمات اسلامی اور ملت حنفی کے سراسر منافی ہے۔
سحر کی دوسری قسم وہ ہے جس میں جنات و شیاطین کو مسخر کیا جاتا ہے اور ان سے امداد و اعانت طلب کر کے مقصد حاصل کیا جاتا ہے یہ قسم سہل الحصول بھی ہے اور کثیر ارواج بھی ہے، جنات و شیاطین کی اس تسخیر میں جن چیزوں کا اختیار کرتا ضروری ہوتا ہے ان میں بعض مخصوص الفاظ و اعمال کے ذریعہ ان سے تعلق پیدا کرنے کے علاوہ ان کی جہیہ سائی کرنا ان کے نام پر نذریں چڑھانا، بھینٹ دینا، ان کی پسندیدہ خوشبو وغیرہ ان کے آنے کی جگہوں پر رکھنا اور بسانا، جس جگہ ان کے آنے کا تصور ہو وہاں ہاتھ جوڑ کر بیٹھنا اور ان کو اپنے سامنے موجود جانتے ہوئے رونا گڑگڑانا، منت خوشامد کرنا اور ان سے حاجت براری کی التجا کرنا وغیرہ وغیرہ خاص عمل ہیں اور ان سب چیزوں سے صریح کفر لازم آتا ہے۔
سحر کی تیسری قسم وہ ہے۔ جس میں ارواح کو مسخر کیا جاتا ہے جو جسم چھوڑ چکی ہوتی ہیں، اس قسم کو اختیار کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی ایسے مرے ہوئے انسان کا پتہ لگایا جائے جو قوی القلب رہا ہو، پھر بعض مخصوص عملیات اور مخصوص الفاظ کے ورد کے ذریعہ کہ جو بڑے بڑے جنات و شیاطین کے ذکر اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کے مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں ان ارواح کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔چنانچہ ان الفاظ و عملیات کے زور سے اور نذرانے و بھینٹ چڑھانے کے ذریعہ اس روح کو اس طرح اپنے قابو و اختیار میں کر لیا جاتا ہے کہ غلام و نوکر کی طرح اس کو جو کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کو وہ انجام دیتی ہے یہ عمل بھی کفر کو لازم کرتا ہے یا کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے، نیز اغلب یہ ہے کہ اس طرح کی ارواح کہ جو ان سفلی و شہوانی عملیات کے ذریعہ متوجہ ہوتی ہیں دراصل ان انسانوں کی ارواح ہوتی ہیں۔ جو کفر و شرک و فسق و خبث کی حالت میں مر جاتے ہیں لہٰذا اس عمل سحر میں خباثت کی مخالفت بھی لازم آتی ہے،
سحر کی چوتھی قسم وہ ہے جس میں بعض جنات کی ارواح کے ذریعہ کسی شخص کے خیالات و تصورات میں خلل ڈالتے اور اس کے ذہن کو فاسد کر دیتے ہیں کہ اس کو حقیقت کے خلاف کچھ کا کچھ نظر آنے لگتا ہے یا وہ اپنی ہی صورت ہائلہ متخلیہ سے ڈرنے لگتا ہے اور یا غیر واقعی چیزوں کو واقعی سمجھنے لگتا ہے، سحر کی اس قسم کو نظر بندی یا خیال بندی کہتے ہیں اور بعض مفسرین نے آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20۔طہ:66) کے تحت کہا ہے کہ فرعون کے ساحروں کا سحر اسی قسم کا تھا جس سے حضرت موسی علیہ السلام کو واسطہ پڑا تھا، چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کے خیال میں وہ سب لکڑیاں اور رسیاں سانپ بن کر نظر آنے لگی تھیں جو فرعون کے جادوگروں نے ان کو ڈرانے کے لئے ان کے سامنے ڈال دی تھیں، اس طرح کا سحر اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اس کے مقابلہ پر ہو گا کہ اس کی نبوت کی دلیل و شہادت کو ختم کر دیا جائے یا کسی ولی یا بزرگ کی حیثیت کو مجروح کرنے کے لئے اس کے مقابلہ پر پیش کیا جائے، تو حرام اور گناہ کبیرہ کے حکم میں ہو گا اور اگر اس کی نظر بندی کا مقصد کسی شخص کو دھوکا و فریب میں مبتلا کرنا یا کسی شخص کی عزت و آبرو یا اس کے مال میں خیانت کرنا ہو تو گناہ کبیرہ کے حکم میں ہو گا اس سے معلوم ہوا کہ سحر کی یہ قسم بنفسہ کفر نہیں ہے لیکن کسی شخص کے خیالات و تصورات پر اثر انداز ہونے کے لئے یا یوں کہا جائے کہ اس نظر بندی یا شعبدہ بازی کو کامیاب کرنے کے لئے چونکہ جنات کی ارواح سے استمداد کرنا یا جنات کے ارواح کو جپنا ضروری ہوتا ہے اس لئے کفر لازم آتا ہے، بشرطیکہ اس استمداد اور اسماء کو جپنے میں ان جنات کی اتنی زیادہ تعظیم و توقیر کا اظہار کیا جائے جو عقیدہ توحید کے منافی ہو۔
سحر کی پانچویں قسم وہ ہے جس میں انسان خود اپنے دھیان اور حواس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے کمال یکسوئی پیدا کر کے ایک ایسی قوت و قدرت حاصل کر لیتا ہے اس کے ذریعہ وہ اس خیال کو جو اس کی قوت متخلیہ میں ہوتا ہے (اور جس کو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے) مشکل کر کے سامنے لے آتا ہے، جسمانی طول، عرض عمق کی حدود و قیود سے آزادی حاصل کرتے ہوئے مسمریزم کی طاقت سے شعبدے دکھلاتا ہے اور نظر ایک سے دو متصل چیزوں کو متصل کر دکھاتا ہے۔ اور دو علیحدہ علیحدہ چیزوں کو ملا کر دکھلا دیتا ہے۔سحر کی اس قسم کا اب نام و نشان بھی موجود نہیں ہے، لیکن پچھلے زمانہ میں ہندوستان کی بعض قدیم اقوام میں یہ قسم بہت رائج تھی اس قسم کے حصول کے لئے جہاں اور بھی شرائط ہیں، انہیں میں دو سب سے زیادہ اہم اور ضروری شرط کھانے پینے میں بالکل کمی اور لوگوں سے گوشہ نشینی اختیار کر لینا ہے اس کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اس کے ذریعہ کسی مباح چیز کا حصول مقصود ہو جیسے دو زنا کاروں کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی ظالم کو مار ڈالنا تو سحر کی یہ قسم جائز ہو گی اور اگر کسی ممنوع چیز کا حصول مقصود ہو جیسے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا یا کسی معصوم انسان کو ہلاک کر دینا تو پھر یہ قسم بھی حرام ہو گی۔
سحر کی چھٹی قسم وہ ہے جس میں دواؤں یا اشیاء کے مخفی خواص معلوم کر کے ان کے ذریعہ عجیب و غریب کرشمے دکھائے جاتے ہیں اور چونکہ عام لوگ اس مخفی خواص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اس لئے اکثر دنیا اور پیر و فقیر اور جوگی اپنی حیلہ سازیوں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ میں لوگوں پر اپنی کرامت ظاہر کرنے کے لئے اپنی انگلیوں کو روشن کر دوں تو اس کا طریقہ اختیار کیا سکتا ہے کہ تھوڑا سا نورہ کابلی سرکہ میں بھگو کر اس میں تھوڑا سا کف دریا ملا دیا جائے اور پھر انگلی پر اس کا لیپ کیا جائے اور جس جگہ لیپ کیا جائے وہاں رال ٹپکا دی اب لوگوں کی کسی ایسی مجلس میں کہ جہاں شمع یا چراغ جلتا ہو اس انگلی کو چراغ کے سامنے کر دیا وہ انگلی روشن ہو جائے گی اور جلے گی نہیں۔
سحر کی ساتویں قسم وہ ہے جس میں ایجاد کئے گئے عجیب و غریب آلات کی مدد سے بعض چیزوں کو ترکیب دے کر حیرت انگیز امور انجام دیئے جائیں ! ان آلات کو ایجاد کرنا عام طور پر مختلف علوم و فنون میں تعمق اور تحقیق و جستجو پر منحصر ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ فرعون کے ساحروں کی جادو گری نظر بندی اور شعبدہ بازی کے ساتھ اس طرح کی جنی مہارت کا بھی پر تو تھی، آج کل کی سائنسی ایجادات کی بھی اس قسم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
سحر کی اٹھویں قسم وہ ہے جس میں ہاتھ کی صفائی کے ذریعہ مختلف شعبدے دکھلا کر لوگوں کو متحیر کیا جاتا ہے سحر کی اس قسم میں ہاتھ کا سرعت کے ساتھ چند مخصوص پوشیدہ حرکات اور تبدیل امثال کر دینا ہے خفیہ سبب ہوتا ہے۔
سحر کی یہ تینوں آخری قسمیں نہ تو کفر ہیں اور نہ حرام، ہاں اگر ان کو کسی حرام چیز کے حصول یا کسی حرام کام کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے تو اس بنا پر ان پر حرمت کا حکم ثابت ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ سحر کی جو آٹھ قسمیں بیان کی گئی ہیں یہ صرف لفظی اعتبار سے ہیں، کیونکہ عربی زبان میں سحر یعنی جادو ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو محیر العقول ہو اور جس کا سبب و ذریعہ نظروں سے پوشیدہ ہو اگر سحر یا جادو کے اصطلاحی و حرفی مفہوم اور اس کی مشہور و تعریف و حقیقت کا اعتبار کیا جائے تو اصولی طور پر سحر کی تین ہی قسمیں ہونی چاہئیں ایک تو وہ سحر جس میں کواکب و سیارات کی قوتوں سے استمداد کر کے ہوشربا کرشمے اور محیر العقول طلسمات ظاہر کئے جائیں۔ دوسرا وہ سحر جس میں جنات و شیاطین اور مردہ انسانوں کی ارواح کو مسخر کر کے حاجت روائی کی جائے۔ اور تیسرا وہ سحر جس میں اپنے دھیان اور حواس خمسہ کی قوتوں کو دماغ میں مجتمع کرتے ہوئے نظر بندی اور شعبدہ بازی کا کمال حاصل کیا جائے۔
اس بات کو بھی جاننا ضروری ہے کہ اس امت کے اذکیاء و عارفین نے سحر کی مذکورہ بالا قسموں میں سے اکثر کی اصطلاح کر کے اور اس کی بنیاد سے کفر و شرک کی غلاظتوں کو دور کر کے ان کو عملیات کی صورت میں پیش کیا ہے جس سے مختلف قسم کے روحانی اور جسمانی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں، چنانچہ سحر کی پہلی قسم کی اصلاح دعوت علوی ہے یہ وہ عمل ہے جس میں ملائکہ علویہ کو اسماء الٰہی اور آیات قرآنی کی استعانت سے مسخر کیا جاتا ہے، دوسری قسم کی اصلاح عزائم اور دعوت سفلی ہے، اس عمل میں زمین کے موکلات اور جنات کو مسخر کیا جاتا ہے، لیکن اس تسخیر میں بھی کفر و شرک کی آمیزش ہوتی ہے اور غیر اللہ کی تعظیم و توقیر، بلکہ ان جنات و شیاطین کو حکم و استیلاء کے ذریعہ مسخر کیا جاتا ہے، تیسری قسم کی اصلاح وہ عملیات ہیں جن کے ذریعہ صلحاء اور اولیاء اللہ کی ارواح طیبہ سے ربط و تعلق پیدا کیا جاتا ہے اور عام طور اویسی مشرب بزرگ ان عملیات کو اختیار کر کے اپنے اور مخلوق خدا کے مقاصد و حوائج میں فائدہ حاصل کرتے ہیں ان عملیات کی بنیاد، طہارت و پاکیزگی، تلاوت قرآن اور وظائف اور ان ارواح کو صدقات و خیرات کا ثواب پہنچانے پر ہوتی ہے پانچویں قسم کی اصلاح عقد ہمت ہے جو اونچے درجے کے مشائخ اور صوفیاء کرام حل مشکلات کے لئے اختیار کرتے ہیں جس میں دنیاوی امور سے کامل بے خبری پیدا کر کے اور اپنے دھیان و اپنے خیالات کو یکسو کر کے اسماء الٰہی میں سے کسی اسم پاک کے غور و فکر میں استغراق کا درجہ حاصل کیا جاتا ہے اور چھٹی قسم کی اصلاح وہ عملیات ہیں جن میں آیات قرآن اور اسماء الٰہی کے خواص میں تعمق و جستجو کر کے ان کو مخصوص ترکیب و شرائط کے ساتھ یا ان کے اعداد کی صورت میں نقش و تعویذات لکھے جاتے ہیں، یا دعاؤں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جاتی ہے جیسا کہ نقش و تعویذات اوراد و عملیات کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوتی ہے۔
حاصل یہ کہ سحر میں جو برائی ہے وہ محض اس وجہ سے کہ اس کی بنیاد کفر و شرک، نیز کواکب و سیارات، جنات و شیاطین اور ارواح خبیثہ کی تاثیر کی اعتقاد پر ہوتی ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرنا اس پر موقوف ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے رد و اعانت کی التجا کی جائے، ان کو حاجت روا مانا جائے اور اسباب و ذرائع پر اس طرح اعتماد کیا جائے کہ سبب یعنی حق تعالیٰ کی قدرت سے بالکل صرف نظر کر لیا جائے اور جب برائی کی یہ وجہ بالکل دور ہو جائے تو پھر اصل حرمت و حلت کا مدار غرض و مقاصد پر ہو گا کہ اگر کوئی نیک و مباح مقصد پیش نظر ہے تو سحر و عملیات کی طاقت سے فائدہ اٹھانا جائز ہو گا اور اگر غرض و مقصد کسی بری چیز اور ناجائز امور سے متعلق ہو تو اس صورت میں بھی سحر کی طاقت سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہو گا۔
مولانا شاہ عبد العزیز آیت کریمہ (يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي) 20۔طہ:66) کے اس ٹکڑے آیت (وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ) 2۔ البقرۃ:102) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہودی ان دونوں طرح کے سحر سیکھنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے۔ جو انتہائی مذموم و قبیح ہیں بلکہ وہ اپنے اوقات اور اپنی صلاحیتوں کو دوسرے ایسے علوم کے حصول میں بھی صرف کرتے تھے جو علم شریعت اور وحی الٰہی سے دور کر دینے کا ذریعہ اور موجب بنتے ہیں، چنانچہ وہ اس طرح کے علوم سیکھتے تھے جو ان کے لئے نقصان دہ ہوتے تھے گو دوسروں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں اور ان سے خود ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا، گو اوروں کو فائدہ پہنچتا ہو، لہٰذا عقلمندی، سمجھداری کا تقاضہ یہی ہے کہ انسان ہر اس علم وفن سے احتراز کرے جو نفع بخش ہونے کی بجائے کسی طرح کا نقصان پہنچانے والا ہو۔ مگر واضح رہے کہ کسی شخص کے حق میں کسی علم کا مذموم و معیوب ہونا ان تینوں جہتوں میں سے کسی ایک جہت کے سبب سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ اس علم سے خود اپنے کو یا دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو، جیسے سحر و طلسمات کا علم نجوم کا علم بھی اسی میں شامل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ اکثر لوگ عقیدہ کی گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنا اخروی نقصان کرتے ہیں، چنانچہ جب وہ زمین اور کواکب سیارات کا باہم ربط دیکھتے ہیں اور علم نجوم ان کو بتاتا ہے کہ کرہ ارضی پر رونما ہونے والے تغیرات و واقعات اجرام فلکی کی حرکت و سکون اور سیارگان کی چال کے زیر اثر ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ عالم میں جو بھی حادثہ و تغیر وقوع پذیر ہوا ہو وہ فلاں ستارے فلاں برج اور فلاں درجے کی تاثیر کے سبب سے ہے، اس طرح وہ اپنے مقاصد کے حصول کی امید یا مقاصد کے فوت ہو جانے کے خوف کو ستاروں اور ان کے بروج و منازل سے وابستہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر فلاں ستارہ فلاں برج اور فلاں منزل میں ہو گا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل ہو گا اور اگر فلاں ستارہ فلاں برج و منتری میں داخل ہو گا تو ہمارا فلاں مطلب حاصل نہیں ہو گا گویا ان کی توجہ ذات حق جل مجدہ کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔ جو نفع و نقصان کا حقیقی مالک ہے اور ان کے دل پر ایسا پردہ پڑ جاتا ہے جو ان کو نظر الی اللہ سے روک دیتا ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ علم اگرچہ بذات خود نقصان پہنچانے والا نہ ہو لیکن اس کو حاصل کرنے کا دعویدار اس کے حقائق و نکات اور اس کے باریک و مخفی گوشوں تک اپنی عدم صلاحیت اور عدم استعداد کی وجہ سے نہ پہنچ سکتا ہو، ظاہر ہے کہ ایسا شخص جو علم کے حقائق و دقائق تک رسائی ہی نہ حاصل کر سکا ہو اس علم کا فاضل و ماہر تو ہونے سے رہا، البتہ جہل مرکب میں ضرور مبتلا ہو جائے گا، اسی لئے بے صلاحیت لوگوں کا اسرار و رموز الٰہیہ احکام شرعیہ کے بارے میں بحث و تمحیص کرنا، اکثر و بیشتر فلسفیانہ علوم میں جان کھپانا، قضا و قدر اور صبر و اختیار کے مسئلے میں تحقیق و جستجو کرنا مسئلہ توحید وجودی و شہودی کی راہ پر لگنا، اور بعض صحابہ کے درمیان آپسی نزاعات و خصومات کی جو صورتیں پیدا ہو گئی تھیں ان کو علم و تحقیق کے نام پر اچھالنا یا ان کی کھوج کرید کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو مذکورہ بالا علم کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح شعر و شاعری کے فن کو بھی کچھ اچھا علم نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ شعر و شاعر کی بنیاد زیادہ تر حسن و عشق کے مضامین اور غیر پاکیزہ خیالات و تصورات پر ہوئی ہے اور یہ چیز عوام کے حق میں کہ جن کے دل و دماغ نفسانی خواہشات اور جنسی جذبات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں زہر جیسی تاثیر رکھتی ہے اور تمام امور میں تخیل پردازی و مبالغہ آرائی کا ملکہ پیدا کرتی ہے۔
اور تیسرے یہ کہ شریعت سے متعلق علوم محمودہ میں بے جا فکر اور تعمق کیا جائے اور اس میں افراط و تفریط سے کام لیا جائے، جیسے عقائد و توحید کے علوم میں فلسفیانہ موشگافیاں اور دیگر شرعی علوم و قواعد میں عقل و منطق کی غیر موزوں اور غیر ضروری نکتہ آفرینیاں کی جائیں، اور فقہی احکام و مسائل میں کھوج کرید کر کے بے اصل حیلوں اور نادر روایات و اقوال کو بیان کیا جائے اسی طرح سلوک و ریاضت کے علم میں ایسے اصول و قواعد اور اعمال و اشغال داخل کرنا جو جوگیوں وغیرہ کا طریقہ ہے۔ یا دعوت اسماء الٰہی اور دوسرے عملیات دعا تعویذ اور جھاڑ پھونک میں سحر و طلسمات کے اصول و قواعد کو شامل کرنا، یا انبیاء علیہ السلام کے قصص و حالات میں یہود و روافض جیسے معاندین حق کے بیان کردہ جھوٹے قصے اور روایات کو سننا ان کو بیان کرنا کہ جن سے عقائد وغیرہ بھی اسی حکم میں شامل ہیں۔
غرضیکہ علم کی یہ جو قسمیں بیان کی گئی ہیں ان کے متوقع فوائد لوگوں کو نہیں پہنچتے بلکہ ان کے حق میں نقصان دہ ہوتے ہیں، یہودی عام طور پر انہی جیسے لاحاصل، بے مقصد اور غیر نفع بخش علوم میں مشغول و مصروف رہتے تھے اور اصل علوم محمودہ سے اعراض کرتے تھے۔
فال اصل میں تو مطلق شگون کو کہتے ہیں، لیکن عام طور پر اس لفظ کا استعمال نیک شگون یا اچھی فال کے معنی میں ہوتا ہے۔ نیک شگون یا اچھی فال کا مطلب ہے کسی اچھی بات کو سننا یا کسی اچھی چیز کو دیکھنا جس سے اپنی مراد حاصل ہونے کی توقع پیدا ہو، مثلاً کوئی شخص بیمار ہو اور اس بات کے تردد اندیشہ میں ہو کہ صحت پاؤں گا یا نہیں اور اس حالت میں وہ سنے کہ کوئی کہہ رہا ہے۔ یا سالم یا کوئی شخص میدان جنگ رہا تھا کہ ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔ جس کا نام ظفر خاں یا فتح علی تھا، اور مثلاً کوئی شخص کسی چیز کا طالب ہو یا اس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو اور وہ اس کو تلاش کر رہا ہو، اور اسی اثناء میں اس کے کان میں یا واجد کی آواز آئے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کبھی لفظ فال برائی کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز کا واقع ہونا بری فال ہے۔ یا زبان سے بری بات نکالنا بدفالی ہے۔۔
طیرۃ نظیر (یعنی بدفالی لینا) کا مصدر ہے جیسا کہ خیرہ تخیرہ کا مصدر ہے ان دونوں لفظوں کے سوا پر مطلق فال یعنی شگوں کے معنی میں بھی ہوتا ہے جو وہ فال اچھی ہو یا بری۔
تطیر کی اصل اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب عام طور پر اس طرح شگون لیتے تھے کہ جب وہ کوئی کام کرتے یا کسی سفر پر جانے کا ارادہ کرتے تو کسی پرندے یا ہرن کو چھچھکار دیتے اگر وہ داہنی سمت میں اڑ جاتا یا دائیں طرف کو بھاگتا تو اس کو مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور پھر اس کام کو شروع کرتے یا سفر پر روانہ ہوتے، اور اگر وہ پرندہ یا ہرن بائیں سمت میں اڑ جاتا یا بائیں طرف کا بھاگتا تو اس کو نجس جانتے اور اس کام سے باز رہتے۔
واضح رہے کہ شکار کے اس جانور کو سنوح یا سانع کہتے ہیں جو سامنے سے نمودار ہو کر بائیں طرف سے دائیں طرف کو جا رہا ہو اور شکار کا جو جانور دائیں طرف سے بائیں طرف کو جا رہا ہو اس کو بروح یا بارح کہتے ہیں عرب کے لوگ سنوح کو مبارک اور بروح کو منحوس سمجھتے تھے چنانچہ بعض مواقع پر سوانح اور بوارح اور ان کے ذریعہ شگون لینے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے یہی معنی ہیں۔
یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ نیک فال لینا محمود و مستحسن بلکہ مستحب ہے جب کہ تطیر یعنی بری فال لینا مذموم و ممنوع ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کثرت کے ساتھ اور خاص طور پر لوگوں کے ناموں اور جگہوں کے ذریعہ اچھی فال لیتے تھے ان دونوں میں فرق و امتیاز اس بنا پر ہے کہ نیک فال میں اول اول تو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی امید آوری ہوتی ہے۔ نیز دل میں اچھائی اور بھلائی ہی کا خیال آتا ہے اور یہ آمید آوری اور یہ خیال ہر حالت میں بندے کے لئے بہتر ہے گو اس کی مراد پوری نہ ہو، اور بد فالی اس لئے ممنوع و مذموم ہے کہ اس میں خواہ مخواہ رنج اور تردد پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے قطع امید ہوتی ہے اور ناامیدی و نامرادی کا احساس اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں شرعاً مذموم و ممنوع بھی ہیں اور عقل و دانش کے منافی بھی ہیں جب کہ بہر صورت ہو گا وہی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے۔
بہر حال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو فال وطیرہ سے متعلق اور جن کی تحقیق اوپر بیان کی گئی نیز مؤلف مشکوٰۃ نے اس باب میں وہ احادیث نقل کی ہیں، جن میں عدویٰ، ہامہ، اور ان جیسی دوسری اور چیزوں کا ذکر ہے اور یہ سب بھی تطیر یعنی بد فالی کے مفہوم کی حامل اور اسی کے حکم میں داخل ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ۔ بد شگونی بے حقیقت ہے اس سے بہتر تو اچھی فال ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اور فال کیا چیز ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ اچھا کلمہ جس کو تم میں سے کوئی شخص سنے اور اس سے اپنی مراد پانے کی توقع پیدا کرے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
بد شگونی بے حقیقت ہے کا مطلب یہ ہے کہ حصول منفعت یا دفع مضرت میں بدفالی لینے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور نہ شریعت نے اس کو سبب اعتبار قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اعتقاد و اعتبار نہ کرنا چاہئے۔چونکہ ہو گا وہی جو قادر مطلق (اللہ تعالیٰ) کی مرضی ہو گی اس لئے بد فالی لے کر اپنے آپ کو خواہ مخواہ خوف و اندیشہ اور نا امیدی میں کیوں مبتلا کیا جائے۔طیرہ یعنی بد فالی کی نفی کرنے اور اس کی ممانعت کو ظاہر کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فال کی تعریف کی اور یہ فرمایا کہ طیرہ کی بہترین صورت اچھی فال ہے۔گویا حدیث میں طیرہ ' مطلق فال لینے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ حدیث کی عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھی فال لینا بہتر ہے۔ اور بدفالی لینا بھی کسی نہ کسی درجہ میں اچھی چیز ہے حالانکہ حقیقت میں بدفالی اچھی چیز نہیں ہے۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس عبارت میں لفظ خیر اصل میں بہ کے مفہوم میں ہے نہ کہ بہتر کے معنی میں جیسا کہ یہ جملہ ہے۔ آیت (والاخرۃ خیر وابقی)۔ واصحاب الجنۃ خیر۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم دراصل اہل عرب کے گمان و اعتقاد پر مبنی ہے کہ وہ بدفالی کو بھی پسندیدہ چیز سمجھتے تھے یا یہ کہ اس عبارت کی بنیاد یہ ہے کہ اگر طیرہ کا اچھا ہونا بالفرض ممکن بھی ہوتا تو فال اس سے بہتر چیز ہوتی۔
وہ اچھا کلمہ ..........کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو کوئی ایسا جملہ سنائی دے جس سے اس کے دل میں اپنے مطلوب و مقصود کے حاصل ہو جانے کی امید پیدا ہو جائے اور وہ اس لفظ یا جملے کو اپنے حق میں گویا اچھی پیشگوئی سمجھے جیسے کوئی شخص اپنی کسی گمشدہ چیز کو تلاش کر رہا ہو کہ وہ یہ آواز سنے یا واجد یا کوئی شخص راستہ بھول گیا ہو اور اس کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا ہو کہ اس کے کان میں کسی طرف سے یہ آواز آئے۔ یا راشدا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا بد شگونی ہامہ، اور صفریہ سب چیزیں بے حقیقت ہیں (البتہ) تم جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔ (بخاری)
تشریح
یہ خیال کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو لگ جاتی ہے، زمانہ جاہلیت کی یادگار ہے، چنانچہ اہل عرب کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص بیمار کے پہلو میں بیٹھ جائے یا اس کے ساتھ کھائے پئے تو وہ بیماری اس میں بھی سرایت کر جائے گی، علماء لکھتے ہیں کہ عام طور پر اطباء کے نزدیک سات بیماریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کو لگتی ہیں (١) جذام (٢) خارش (٣) چیچک (٤) آبلے جو بدن پر پڑ جاتے ہیں (٥) گندہ دہنی (٧) وبائی امراض۔
لہذا شارع علیہ السلام نے اس اعتقاد خیال کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ مرض کا ایک سے دوسرے میں سرایت کرنا اور اڑ کر لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق نظام قدرت اور قادر مطلق کی مشیت سے ہے کہ جس طرح پہلا شخص بیمار ہوا ہے اسی طرح دوسرا شخص بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ جب تمام امراض کے ہی بارے میں چھوت کے اعتقاد و نظریہ کی تردید کی گئی ہے تو پھر جذامی سے بھاگنے کا حکم کیوں دیا گیا اور اس طرح خود اس حدیث کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے تو اس کا جواب انشاء اللہ فصل کے آخر میں نقل کیا جائے گا۔
بد شگونی کے بارے میں تو او پر بیان کیا جا چکا ہے ! ھاما کے اصل میں معنی سر کے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے ایک خاص جانور مراد ہے جو عربوں کے گمان کے مطابق میت کے استخوان سے پیدا ہو کر اڑتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے تو اس مقتول کے سر سے ایک جانور جس کو ہامہ کہتے ہیں باہر نکلتا ہے اور ہر وقت یہ فریاد کرتا رہتا ہے کہ مجھے پانی دو، پانی دو، یا وہ قاتل سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب قاتل (خود اپنی موت سے یا کسی کے قتل کر دینے سے) مر جاتا ہے تو وہ جانور اڑ کر غائب ہو جاتا۔
بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے خود مقتول کی روح اس جانور کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور فریاد کرتی ہے تاکہ قاتل سے بدلہ لے سکے جب اس کو قاتل سے بدلہ مل جاتا ہے تو اڑ کر غائب ہو جاتا ہے۔شارع علیہ السلام نے اس اعتقاد کو بھی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہامہ سے مراد الو ہے کہ جب وہ کسی گھر پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ گھر ویران ہو جاتا ہے۔ یا اس گھر کا کوئی فرد مر جاتا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس عقیدہ کو بالکل مہمل قرار دیا اور واضح رہے فرمایا کہ تطیر یعنی پرندہ کے ذریعہ بدفالی لینے کے حکم میں ہے جو ایک ممنوع چیز ہے۔
صفر کی وضاحت میں متعدد اقوال بیان کئے جاتے ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے تیرہ تیزی کا مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے اور جس کو صفر کہتے ہیں، چونکہ کمزور عقیدہ لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مہینے میں آفات و بلاء اور حوادث و مصائب کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس ارشاد کے ذریعہ اس عقیدے کو باطل و بے اصل قرار دیا گیا۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اہل عرب یہ کہا کرتے تھے کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے۔ جس کو صفر کہا جاتا ہے ان کے گمان کے مطابق جب پیٹ خالی ہوتا ہے اور بھوک لگتی ہے تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ بھوک کے وقت پیٹ میں جو ایک قسم کی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اسی سانپ کے سبب سے ہوتی ہے اور اس کے اثرات ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں، نووی نے شرح مسلم میں یہ لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے گمان کے مطابق صفر ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو پیٹ میں ہوتے ہیں اور بھوک کے وقت کاٹتے ہیں۔ بسا اوقات ان کے سبب سے آدمی زرد رنگ کا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہلاک بھی ہو جاتا ہے۔ یہ سب بے اصل باتیں ہیں جن کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی بیماری کا ایک دوسرے کو اڑ کر لگنا ، ہامہ اور صفر، اس سب کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (ایک دیہاتی نے کہ جو اپنے ناقص مشاہدے و تجربہ کی بنا پر خارش کو متعدی بیماری سمجھتا تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! تو پھر ان اونٹوں کے بارے میں کہا جائے گا (جو اپنی تندرستی اور اپنی کھال کی صفائی ستھرائی کے اعتبار سے) ہرن کی مانند ریگستان میں دوڑے پھرتے ہیں، لیکن جب کوئی خارشی اونٹ ان میں مل جاتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی خارش زدہ بنا دیتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اچھا تو یہ بتاؤ) پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ بنایا ؟ یعنی خارش پیدا ہونے کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی سے اڑ کر لگے لہٰذا جس طرح ان تندرست اونٹوں میں آ ملنے والے خارش زدہ اونٹ میں خارش کا پیدا ہونا بتقدیر الٰہی ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے اونٹوں کا خارش زدہ ہونا جانا بھی حکم الہی کے تحت اور نظام قدرت کے مطابق ہوتا ہے (مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک دوسرے کو بیماری لگنا ہامہ نوء اور صفر کی حقیقت نہیں ہے (مسلم)
تشریح
نوء کا مطلب ہے کہ ایک ستارہ کا غروب ہونا اور دوسرے کا طلوع ہونا اہل عرب کے خیال میں بارش کا ہونا یا نہ ہونا ستاروں کے اسی طلوع و غروب کے زیر اثر ہے جیسا کہ علم نجوم پر اعتقاد رکھنے والے لوگ کہا کرتے ہیں کہ بارش کا تعلق پخھتروں سے ہے کہ فلاں فلاں پنھتر اگر فلاں فلاں تاریخ میں پڑ جائیں اور ان تاریخوں میں بارش ہو جائے تو آگے چل کر برسات کے مہینوں میں فلاں فلاں تاریخوں میں بارش ہو گی
نہل میں لکھا ہے کہ نوء کی جمع انواء ہے جس کے معنی قمر کے ہیں منازل یعنی نچھتروں کے ہیں اور وہ منازل اٹھائیس ہیں قرآن کریم کی آیت کریمہ (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ) 36۔یس:39) میں ان ہی منازل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ اہل عرب نزول باراں کو انہی منازل کی طرف منسوب کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ جب چاند ان سے فلاں فلاں منازل میں آتا ہے تو بارش یقیناً ہوتی ہے گویا ان کے نزدیک چاند کا ان منازل میں آنا بارش ہونے کی علت اور مؤثر حقیقی کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ شارع علیہ السلام نے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے اور واضح کیا کہ بارش کا ہونا محض حکم الٰہی پر منحصر ہے نہ کہ کسی سبب اور علت سے متعلق ہے لیکن واضح رہے کہ اس نفی و ابطال کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ تاثیر علت کا اعتقاد ہو ہاں منازل میں چاند کے آنے کو نزول باراں کا ایک ظاہری سبب سمجھا جائے۔ یعنی یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بارش برساتا ہے جب کہ چاند اپنی اپنی فلاں منزل میں آتا ہے اور وہ وقت علت کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ محض ایک ظاہری سبب کا درجہ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اس وقت سے پہلے یا اس کے بعد بارش برسائے اور اگر چاہے تو اس وقت بھی نہ برسائے تو یہ عقیدہ نہ کفر کے دائرے میں آئے گا اور نہ اس کو باطل کہا جائے گا۔ اگرچہ امام نووی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ بھی کفر کا سبب ہے کیونکہ نزول باراں کو چاند اور اس کے منازل سے کسی بھی طرح متعلق کرنا اول تو اہل کفر کا شعار ہے دوسرے مذکورہ صورت (اگرچہ علیت کے عقیدہ کو ظاہر نہیں کرتی مگر موہم علیت تو یقیناً ہے، اس بارے میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ حدیث مذکورہ ممانعت مطلق (بلا استثناء) ہے کہ اس کا تعلق علیت کے عقیدے سے بھی ہے اور اس صورت سے بھی ہے جس میں چاند اور اس کی منازل کو محض ایک ظاہری سبب سمجھا جائے، کیونکہ اول تو اس ارشاد کا مقصود عقیدے کی گمراہی و فساد کا سد باب ہے دوسری ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے اس کا جواز کسی بھی صورت میں ثابت ہو۔ حاصل یہ کہ جب بارش ہو، اس طرح نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوئی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بارش ہوئی ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ۔ ایک سے دوسرے کو بیماری کا لگنا، صفر اور غول کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (مسلم)
تشریح
غول جس کی جمع غیلان ہے جنات و شیاطین کی ایک قسم و جنس ہے، اہل عرب کا خیال تھا کہ جنگلات میں غول مختلف صورتوں اور شکلوں میں لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں اور ان کو راستہ بھلا دیتے ہیں اور ہلاک کر ڈالتے ہیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خیال کو باطل قرار دیا اور فرمایا کہ غول کوئی چیز نہیں ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم میں غول کے وجود کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان (غول) کا مختلف صورتوں میں ظاہر ہونا اور لوگوں کو گمراہ و ہلاک کر دینا ایک بے حقیقت بات ہے یعنی ان کو اتنی قدرت و طاقت حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر مسافروں کو راستہ بھلا دیں اور ان کو ہلاک کر ڈالیں۔
اور حضرت عمرو بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ ثقیف کے لوگوں کا جو وفد (دربار رسالت میں) آیا تھا اس میں ایک جذامی تھا (جب اس نے بیعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے پاس ایک آدمی بھیج کر کہلا دیا کہ ہم نے (تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بغیر) تم سے (زبانی) بیعت لے لی ہے تم لوٹ جاؤ (گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سامنے نہیں بلایا تاکہ حاضرین مجلس کو کراہت محسوس نہ ہو) (مسلم)۔
تشریح
جذامی سے ملنے جلنے میں اجتناب و احتراز کے بارے میں ایک تو یہ حدیث ہے، دوسری حدیث وہ ہے جو پیچھے گزری ہے اور جس میں فرمایا گیا کہ جذامی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو ان دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جذامی کی صحبت و مجالست سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے، جب کہ وہ احادیث ان کے برعکس ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں بالکل متضاد ہیں، اس تضاد کو دور کرنے کے لئے اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء کے متعدد اقوال منقول ہیں، حضرت شیخ ابن عسقلانی نے شرح نخبہ میں لکھا ہے کہ احادیث کے اس باہمی تضاد کو دور کرنے کے لئے سب سے بہتر قول یہ ہے کہ جن احادیث میں عدویٰ یعنی چھوت کی نفی کی گئی ہے ان کا حکم اپنے عموم و اطلاق کے ساتھ قائم و باقی ہے اور ان لوگوں کی مخالطت و مجالست جو جذام جیسے امراض میں مبتلا ہوں ان کی بیماری لگنے کا سبب ہرگز نہیں ہوتا اور جہاں تک احادیث کا تعلق ہے جو جذامی سے اجتناب و پرہیز کو ظاہر کرتی ہیں تو ان کا مقصد محض اوہام و وساوس کا سد باب ہے کہ کوئی شخص شرک کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔ اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اختیار کی، یعنی ان کے ساتھ بیٹھا اٹھا اور اس کے ساتھ ملنا جلنا جاری رکھا، اور پھر اسی دوران اللہ کا یہ حکم ہوا کہ وہ شخص بھی جذام میں مبتلا ہو گیا تو بعید نہیں کہ وہ اس وہم و اعتقاد میں مبتلا ہو جائے کہ میں اس جذامی کی مخالطت و مجالست ہی کی وجہ سے اس مرض میں گرفتار ہوا ہوں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس وہم و اعتقاد سے بچانے کے لئے جو کفر و شرک کی حد تک پہنچاتا ہے، جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم دیا، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنی ذات کو حکم سے مستثنیٰ رکھا کیونکہ آپ توکل و اعتقاد علی اللہ کے مرتبہ اعلیٰ پر فائز تھے اس کی بنا پر مذکورہ وہم و گمان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبتلا ہونے کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لائے اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، حاصل یہ کہ جذامی سے اجتناب و پرہیز کرنے کا حکم اس شخص کے لئے ہے جو اپنے صدق و یقین کی طاقت نہ رکھے اور اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ کسی جذامی کی مخالطت و مجالست کے دوران خود اس مرض میں مبتلا ہو گیا تو اس وہم و اعتقاد کا شکار ہو کر شرک خفی کے گرداب میں پھنس جائے گا۔
کرمانی نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ بیماری کے چھوت کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو جذام کی بیماری اس سے مستثنیٰ ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ جذام میں ایک خاص قسم کی بد بو ہوتی ہے اگر کوئی شخص کسی جذامی کے ساتھ مخالطت و مجالست اور ہم خوری وہم بستری میں زیادتی اختیار کرے تو وہ بو اس کو متاثر کرتی ہے اور بیمار کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص ایسا کھانا کھا لے یا ایسی بو میں پھنس جائے جو اس کے مزاج و طبیعت کے موافق نہ ہو یا اس کا مضر ہونا ظاہر ہو تو اس شخص سے متاثر ہوتا ہے اور مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اگرچہ یہ چیزیں محض ایک ظاہری ذریعہ و سبب بنتی ہے حقیقت میں وہ بیماری اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے لاحق ہوتی ہے اس اعتبار سے جذامی سے پرہیز طبی نقطہ نظر اور حصول حفظان صحت کی رو سے ہو گا نہ کہ اس کو چھوت سمجھنے کی وجہ سے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (اچھی فال لیتے تھے اور شگون بد نہیں لیتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم اچھے ناموں کے ذریعہ فال لینے کو) پسند فرماتے تھے۔ (شرح السنتہ)
اور حضرت قطن بن قبیصہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ عیافہ، طرق، اور شگون بد لینا یہ سب چیزیں جبت میں سے ہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
عیفۃ تطیر یعنی پرندوں کے ذریعہ فال لینے کی ایک صورت ہے جس میں پرندے کو خاص طور پر اڑا کر یا اس کو خود بخود اڑنے، اور اس کی آواز کے ذریعہ نیک فالی یا بدفالی لی جاتی ہے پہلے زمانہ کے عربوں میں اس کا بہت زیادہ رواج تھا اور عیافت دانی ایک باقاعدہ فن سمجھا جاتا تھا اس میں عام طور پر پرندوں کے نام کا اعتبار کیا جاتا ہے، مثلاً عقاب کے ذریعہ عقوبت، غراب کوے کے ذریعہ عربت اور ہد ہد کے ذریعہ ہدایت کی فال لی جاتی تھی۔ طیرہ اور عیافہ میں فرق یہ ہے کہ طیرہ کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ خواہ کسی پرندے کے ذریعہ شگون بد لیا جائے یا کسی اور جانور کے ذریعے جبکہ عیافہ کا استعمال خاص طور پر کسی پرندے کی آواز کے ذریعہ نیک یا بد فالی لینے کے مفہوم میں ہوتا ہے، نہایہ میں لکھا ہے کہ عیافہ کے معنی ہیں ڈلے مار کر یا ہشکا کر کسی پرندے کو اڑانا اور اس کے نام، اس کی آواز اور اس کے اڑنے و گزرنے کے ذریعہ فال لینا۔
طرق (کنکریاں) مارنے کو کہتے ہیں، فال لینے کی یہ بھی ایک صورت تھی، چنانچہ پہلے زمانہ میں خاص طور پر عرب عورتیں فال لیتے وقت کنکریاں مارتی تھیں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ریت پر خطوط اور لکیریں کھینچنے کو طرق کہتے ہیں جیسا کہ رمل جاننے والے ریت پر مختلف طرح کے ہندسے اور خطوط وغیرہ کھینچتے ہیں اور ان کے ذریعہ غیب کی باتیں دریافت کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔
جبت سحر و کہانت کے معنی میں ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جبت کے معنی ہیں ہر وہ چیز جس میں بھلائی نہ ہو، یا وہ چیز جو اللہ کے سوا پوجی جائے، یعنی شرک، اور بعض حضرات کے نزدیک جبت شیطان کے کام کو کہتے ہیں۔۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں یعنی شگون بد لینا، پرندوں کی آواز کے گزرنے کے ذریعہ اور کنکریاں مار کر فال لینا، یا رمل و زائچہ وغیرہ کھینچ کر آئندہ کے حالات بتلانا، سحر و کہانت کے حکم میں داخل ہیں، یہ سب شرک کے کام ہیں اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ سب چیزیں شیطان کے کام ہیں۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ شگون بد لینا شرک ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (زیادہ سے زیادہ) اہمیت ظاہر کرنے کے لئے) یہ بات تین مرتبہ فرمائی تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں اور ہم میں سے جو بھی شخص ایسا ہوتا ہے (کہ جس کے دل میں کبھی بد شگونی کے ذریعہ تردد و خلجان پیدا ہو جاتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو اس پر بھروسہ و اعتماد کرنے سے روک دیتا ہے یعنی یہ ایمان کا تقاضہ ہے کہ کسی کام و سفر کے قصد و ارادہ کے وقت کوئی ایسی چیز ظاہر ہو جائے جس سے بتقاضائے بشریت دل و دماغ میں کوئی وہم اور تردد پیدا ہو تو اس وہم پر قطعاً بھروسہ و اعتماد نہ کیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل و یقین رکھتے ہوئے اس کام کو کیا جائے یا اس سفر پر چلا جائے۔ (ابوداؤد، ترمذی،
اور ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام بخاری سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میرے استاد و شیخ حضرت سلمان بن حرب اس حدیث کے بارے میں فرماتے تھے کہ حدیث کی یہ عبارت وما منا الاّ والکن اللہ یذہبہ بالتوکل میرے نزدیک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے (نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے)۔
تشریح
شگون بد لینا شرک ہے ۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز مشرکین کے طور طریقوں اور ان کی عادات میں سے ہے اور شرک خفی کی موجب ہے۔ ہاں اگر جزما یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یونہی ہو گا تو وہ شگون بلا شک و شبہ کفر کے حکم میں ہو گا۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو کھانے کے پیالہ میں اپنے ساتھ شریک کیا اور فرمایا کہ کھاؤ، میرا اللہ پر اعتماد و بھروسہ ہے اور میں اسی کی ذات پر توکل کرتا ہوں۔ (ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ توکل و یقین کا مرتبہ حاصل ہو جانے کے بعد جذامی سے بھاگنا اور اس کو اپنے سے الگ رکھنا ضروری نہیں ہے۔
اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ ہامہ کوئی چیز ہے نہ ایک سے دوسرے کو بیماری کا لگنا کوئی حقیقت رکھتا ہے اور نہ شگون بد میں کوئی حقیقت ہے، اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے اور عورت میں ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
طیرہ یعنی بد شگونی اور نحوست کے سلسلے میں مختلف احادیث منقول ہیں، جن احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے طیرہ کے اثرات کی نفی اور اس کا اعتبار کرنے یا اس پر اعتقاد رکھنے کی نہی و ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ زیادہ ہیں، بعض احادیث سے عورت، گھوڑے اور گھر میں طیرہ کا ثبوت یقینی الفاظ کے ذریعہ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی روایت ہے۔ انما الشوم فی ثلث الفرس ولمرأۃ والدار یعنی اس میں کوئی شک نہیں کہ تین چیزوں میں نحوست ہے، گھر، گھوڑے اور عورت میں ایک روایت میں وہ تین چیزیں زمین، خادم اور گھوڑا بیان کی گئی ہیں۔ بعض احادیث سے ان تین چیزوں میں طیرہ کا ثبوت الفاظ شرط کے ساتھ مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی حدیث یا اسی طرح دوسری حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر بد شگونی اور نحوست کوئی چیز ہوتی تو ان چیزوں میں پائی جاتی، بعض احادیث سے دوسری تمام چیزوں کی طرح ان تین چیزوں میں بھی نحوست کے پائے جانے کا انکار مفہوم ہوتا ہے، جیسا کہ ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جس کو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے اور بعض احادیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان چیزوں میں نحوست کے پائے جانے کا اعتقاد زمانہ جاہلیت کے بے سروپا اعتقادات و خیالات سے ہے۔غرضکہ اس بارے میں مختلف مفہوم کی روایتیں منقول ہیں لہٰذا ان سب کے درمیان وجہ مطابقت اور ان سب کا حاصل مقصد یہ ہے کہ تطیر یعنی شگون بد لینا اور کسی چیز کو منحوس سمجھنا بالکل بے اصل بات ہے اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ کچھ چیزوں میں نحوست ہوتی ہے تو جو چیزیں ایسی ہیں جو اپنی بعض حیثیتوں اور مآل کار کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان میں نحوست کا ہونا گمان کیا جا سکتا ہے اور ان کو نحوست کا موقع ومحل قرار دیا سکتا ہے۔ یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ اس روایت میں فرمایا گیا ہے۔ لوکان شی سابق القدر لسبقۃ العین یعنی اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہو تو وہ نظر بد ہوتی۔
قاضی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں پہلے تو طیرہ کا انکار کرنا اور اس کے بعد یہ شرطیہ جملہ (کہ اگر کسی چیز میں شگون بد ہوتا تو گھر میں گھوڑے میں ایک عورت میں ہوتا) لانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تطیر یعنی بد شگونی کی نحوست کا انکار اس مفہوم میں ہے اگر نحوست کا کوئی وجود ثبوت ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا کیونکہ یہی تین چیزیں نحوست کا موقع و محل ہو سکتی ہیں، لیکن جب ان چیزوں میں بھی نحوست کا کوئی وجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نحوست سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتی۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر ان چیزوں میں نحوست کا کوئی وجود مفہوم ہوتا ہے تو اس معنی میں کہ اگر عورت زبان دراز، بے حیا اور بد کار ہو یا اس کی کوکھ سے بچہ جنم نہ لیتا ہو یا اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہو اور یا مکروہ صورت و بدشکل ہو تو اس اعتبار سے اس کو منحوس کہا جاتا ہے گھر میں نحوست کا ہونا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر تنگ و تاریک ہو اس کا پڑوس برے ہمسایوں پر مشتمل ہو اور اس کی آب و ہوا ناموافق ہو، اسی طرح گھوڑے میں نحوست کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گھوڑا سرکش و شریر ہو، کھانے میں تو تیز ہو لیکن چلنے میں مٹھا ہو، خصوصیات کے اعتبار سے کم تر ہو لیکن قیمت کے اعتبار سے گراں ہو اور مالک کی ضرورت و مصالح کو پورا نہ کرتا ہو، گھوڑے ہی پر خادم کو قیاس کیا جا سکتا ہے،
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نحوست سے شرعی وطبعی کراہت و ناپسندیدگی مرادہے اس اعتبار سے شوم و تطیر کی نفی تو عموم و حقیقت پر محمول ہو گی یعنی حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔ جس میں نحوست کا کوئی وجود ہو لیکن جن احادیث سے بعض چیزوں میں نحوست کا ہونا مفہوم ہوتا ہے ان میں نحوست سے مراد ان چیزوں کا طبعی طور پر یا کسی شرعی قباحت کی بنا پر ناپسندیدہ ہونا ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی کام کے لئے باہر نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اچھا معلوم ہوتا کہ کسی کی زبان سے یہ سنیں اے راشد اے نجیح یعنی کسی کام کے لئے جاتے وقت اس طرح کے نام و الفاظ سننا نیک فال ہے۔ (ترمذی
اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کسی چیز سے شگون بد نہ لیتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی عامل (کارکن کو کہیں) روانہ کرنے لگتے تو اس کا نام دریافت فرماتے، اگر اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشی سے ظاہر ہوتی (یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے نام کو کسی اچھے نام سے بدل دیتے) اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام پوچھتے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا نام اچھا معلوم ہوتا تو اس سے خوش ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ناگواری آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوتی (ابوداؤد)
تشریح
کسی برے نام کو سن کر ناگواری ہونا تطیر (یعنی شگون بد لینا) نہیں ہے تطیر تو اس صورت میں ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم برے نام کو سن کر اپنے کام یا اپنے سفر کو ترک کر دیتے جیسا کہ شگون بد لینے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم کسی شخص یا آبادی کا برا اور بھدا نام سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نمایاں ہوتے تھے کیونکہ طبیعت کا اچھائی وبرائی سے متاثر ہونا اور اس کے نتیجے میں خوشی یا ناخوشی کا ظاہر ہونا تفاؤل وتطیر سے قطع نظر ایک فطری بات ہے۔
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد یا اپنے خادم کے لئے اچھے نام کو اختیار کرنا سنت ہے، کیونکہ بسا اوقات برے نام تقدیر کے موافق ہو جاتے ہیں اور اس کے نتائج دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پر خود وہ شخص یا اس کا وہ بیٹا تقدیر الٰہی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اس کا خسارہ مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی صحبت وہم نشینی تک سے احتراز کرنے لگیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن بارگاہ رسالت میں ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے ہم ایک مکان میں رہا کرتے تھے جس میں ہمارے افراد کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی بہت تھا، پھر ہم ایک دوسرے مکان میں منتقل ہو گئے تو اس میں ہمارے آدمیوں کی تعداد بھی کم ہو گئی اور ہمارے مال بھی تھوڑا رہ گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اس مکان کو چھوڑ دو جو برا ہے۔ (ابوداؤد)۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس مکان کو چھوڑ دینے کا حکم اس مکان کو منحوس سمجھنے کی بنا پر نہیں تھا۔ بلکہ اس مکان کی آب و ہوا اور اس کی سکونت چونکہ مکینوں کو راس نہیں آئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہتر یہی سمجھا کہ وہ مکان کو چھوڑ دیں۔
خطابی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو مکان چھوڑ دینے کا حکم اس مصلحت کے پیش نظر دیا کہ ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ سارے نقصان اور ساری جڑ مکان ہے اگر ہم اس مکان میں نہ رہتے تو نہ ہمارے آدمیوں میں کمی آتی اور نہ ہمارے مال و اسباب کا نقصان ہوتا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مکان چھوڑ دینے کا حکم ہی بہتر سمجھا۔تاکہ ان کے غلط خیال اور واہمہ کی جڑ ہی کٹ جائے اور یہ شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنسیں۔
اور حضرت یحییٰ بن عبداللہ بن بحیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے بیان کیا کہ جس نے حضرت فردہ رضی اللہ عنہ بن مسیک سے یہ روایت سنی کہ انہوں نے یعنی فروہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ہمارے پاس ایک زمین ہے جس کو ابین کہا جاتا ہے اور وہ ہماری زراعت اور غلے کی زمین ہے یعنی وہ غلہ منڈی ہے، جہاں تجارت کے لئے دوسری جگہوں سے غلہ لا کر جمع کیا جاتا ہے اور دوسرے شہروں میں بھیجا جاتا ہے لیکن اس زمین کی وبا سخت ہے یعنی وہاں وبائی امراض زیادہ رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو (یعنی وہاں رہنا اور آنا جانا ترک کر دو کیونکہ وہ طاعون زدہ آبادی کے حکم میں ہے) اور وبا (بیماری) کا قرب ہلاکت اور اتلاف کا باعث ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ اس زمین کو چھوڑنے کا حکم عدویٰ یعنی چھوت کے نقطہ نظر سے نہیں تھا بلکہ اصول طب اور حفظان صحت کے پیش نظر تھا کیونکہ وہاں کی آب و ہوا غیر موافق تھی اور یہ ظاہر ہے کہ آب و ہوا کا اچھا و صاف اور موافق ہونا حفظان صحت کی بنیاد اور جسم و بدن کی تندرستی و سلامتی کے لئے ضروری اسباب میں سے ہے اس کے برعکس آب و ہوا کا خراب و ناموافق ہونا صحت و تندرستی کے لئے انتہائی مضر اور بیماری و ہلاکت کا سبب ہوتا ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ وبا کی جگہ سے بھاگ جانا جاہئے وہ شاید اسی حدیث کے مضمون سے استدلال کرتے ہیں، ان حضرات کے مطابق اس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے وبا کی شکایت کی کہ اس زمین میں وبائیں پھیلتی ہیں لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس زمین کو چھوڑ دو اور وہاں سے نکل جاؤ، کیونکہ وبائی امراض کی قربت و مخالطت ہلاکت کا باعث ہوتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں اس حدیث سے مذکورہ استدلال قطعاً غیر موزوں ہے کیونکہ یہ حدیث اس صورت سے متعلق نہیں ہے کہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں سے بھاگ جانے کو جائز رکھا بلکہ اس شخص کی شکایت کا تعلق دراصل اس بات سے تھا کہ وہ زمین ایسی ہے۔ جہاں وبائیں پھیلتی رہتی ہیں۔گویا اس شخص نے اس زمین کو منحوس و مکروہ جانا، چنانچہ اس کے باطنی احوال کی کمزوری کی بنا پر اس کو یہ اجازت دینا ہی بہتر سمجھا گیا کہ وہ اس زمین کو چھوڑ دے اور وہاں آنا جانا ترک کر دے تاکہ وہ ان وباؤں کو اس زمین کو نحوست سمجھ کر بے بنیاد عقیدے کا شکار نہ ہو جائے اور شرک خفی کے گرداب میں نہ پھنس جائے۔
ویسے وبا کی جگہ کی مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال و مباحث ہیں مگر جس صورت کو علماء نے زیادہ بہتر قرار دیا ہے اور جس پر عمل کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ پیش از وقوع تو احتراز و اجتناب کیا جائے اور بعد از وقوع صبر و رضا کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ اگر کسی شہر و آبادی میں کوئی وبائی مرض پھیل جائے تو وہاں پہلے سے موجود لوگوں کو اس شہر و آبادی سے بھاگنا ناروا ہے بلکہ وہاں رہتے ہوئے توبہ استغفار کیا جائے اور اس وبا کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا و تضرع کیا جائے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، چنانچہ بخاری و مسلم، وغیرہما میں وہ احادیث موجود ہیں جن میں وبا زدہ آبادی سے نکلنے اور وبا سے ڈر کر بھاگنے کی ممانعت نیز ایسے مواقع پر صبر و اثبات کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب و تعریف منقول ہے۔
واضح رہے کہ وبا سے بھاگنے کو جائز قرار دینے والے حضرات کا اس حدیث سے استدلال کرنا یوں بھی غیر مناسب ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے جب کہ جو احادیث بھاگنے کی ممانعت کو ثابت کرتی ہیں ان کو بخاری و مسلم، نے نقل کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا لہٰذا یہ حدیث بخاری، و مسلم، کی احادیث کے معارض نہیں ہو سکتی علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ علماء و محققین کے مطابق فروہ رضی اللہ عنہ بن مسیک کوئی کثیر الروایت صحابی نہیں ہیں بلکہ ان سے ایک دو ہی حدیثیں نقل کی گئی ہیں اور وہ بھی ایک ایسے راوی نے روایت کی ہیں جو بالکل مجہول غیر معروف ہیں یہاں تک کہ ان کا نام تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ خود یحییٰ ابن عبداللہ ابن بحیر کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا یہ کوئی ثقہ راوی ہیں بھی یا نہیں ؟
حاصل یہ کہ وبا سے ڈر کر بھاگنا بلا شک و شبہ ممنوع اور معصیت ہے اور اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ بھاگے کہ یہاں موجود رہا اور صبر و اثبات کی راہ اختیار کی تو یقیناً وبا کا شکار ہو کر مر جاؤں گا اور اگر یہاں سے نکل بھاگا تو بچ جاؤں گا تو ایسا شخص نہ صرف بھاگنے کی معصیت ہی کا مرتکب ہو گا بلکہ اس فاسد اعتقاد کی بنا پر کافر ہو جائے گا اس اعتقاد کے بغیر بھاگنے والا معاصی ہو گا۔ وبا سے ڈر کر بھاگنے کو، زلزلہ آ جانے یا آگ لگ جانے کی صورت میں گھر سے نکل بھاگنے پر قیاس کرنا بھی ایک مہمل بات ہے کیونکہ اول تو یہ قیاس نص کے خلاف ہے، دوسرے زلزلہ آ جانے، گھر کے گر پڑنے اور مکان میں آگ لگ جانے کی صورت میں گھر میں موجود رہنا یقینی طور پر ہلاکت و تباہی کا موجب ہے، جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے اس کے برخلاف وباء سے نہ بھاگنے کی صورت میں مر جانا یقینی نہیں ہوتا بلکہ مشکوک و موہوم ہوتا ہے۔
حضرت عروہ بن عامر تابعی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بد شگونی کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کی بہترین صورت اچھی فال ہے اور یاد رکھو کسی مسلمان کو شگون بد (اس کے مقصد و ارادہ سے) باز نہ رکھے (یعنی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرے اور پھر کسی چیز کو بد شگونی سمجھ کر اس کام سے باز رہے) اور جب تم میں کوئی شخص ایسی چیز کو دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہے یعنی ایسی چیز جس کے ذریعہ شگون بد لیا جاتا ہے اور جو دل و دماغ میں وہم و خلجان پیدا کرتی ہے تو چاہئے کہ یہ دعا پڑھے (اللہم لایاتی بالحسنات الاّ والا یدفع السیات الاّ انت ولا حول ولاقوۃ الاّ باللہ) اے اللہ ! اچھائیوں اور برائیوں کا لانے والا صرف تو ہے اور صرف تو ہی برائیوں اور خرابیوں کو دور کرنے والا ہے اور برائی سے منہ موڑنے اور نیکی کی طرف آنے کی توفیق و طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ اس روایت کو ابوداؤد نے بطریق روایت نقل کیا ہے۔
صراح میں لکھا ہے کہ کہانت فال گوئی کو کہتے ہیں اور اس (فال گوئی) کے پیشہ و ہنر کو کہانت کہا جاتا ہے اسی طرح فال گو کاہن کہتے ہیں طیبی کہتے ہیں کہ کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آئندہ پیش آنے والے واقعات و حوادث کی خبر دے اور علم غیب و معرفت اسرار کا دعوی کرے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے عرب میں کہانت کا بڑا رواج تھا اہل عرب کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد بھروسہ کرتے تھے ان میں سے بعض کاہن یہ دعوی کرتے تھے کہ جو جنات آسمان پر جاتے ہیں وہ وہاں کی باتیں ہم کو بتا دیتے ہیں یہ بات تو روایت سے بھی ثابت ہے کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے شیاطین چوری چھپے آسمان پر جاتے وہاں دنیا میں آئندہ پیش آنے والے واقعات جن کا تذکرہ فرشتوں میں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو جو احکام دیئے جاتے وہ شیاطین ان کو ادھر ادھر چھپ کر سن لیتے تھے اور پھر زمین پر آ کر ان میں اپنی من پسند باتوں کا اضافہ کر کے اور جھوٹ ملا کر اپنے متبعین کو بتا دیتے وہ لوگ ان سب باتوں کو صحیح مان کر تسلیم کرتے اور ان کے ذریعہ اہل عرب پر اپنی غیب دانی کا سکہ جماتے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد جب شیاطین کو آسمان پر جانے سے روک دیا گیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔تو کہانت کا کام بھی تمام ہو گیا۔
کہانت ہی کی طرح کی ایک چیز عرافت بھی تھی کچھ لوگ بعض مخصوص چیزوں اور کچھ علامات و مقدمات کے ذریعہ پوشیدہ چیزوں کی خبر دیتے تھے، جیسے رمل جاننے والوں کی طرح وہ بھی بتا دیتے تھے کہ چوری کا مال کہاں موجود ہے۔ یا گمشدہ شخص کس جگہ ہے وغیرہ وغیرہ ایسے لوگوں کو عراف کہا جاتا تھا بعض مواقع پر کاہن کا اطلاق عراف اور منجم پر بھی ہوتا ہے علماء لکھتے ہیں کہ کہانت، عرافت، اور رمل و نجوم کا علم حرام ہے کہ ان کا سیکھنا اور ان پر عمل کرنا شریعت نے قطعاً روا نہیں رکھا ہے اسی لئے ان علوم کے ذریعہ کمایا ہوا مال بھی حرام ہوتا ہے، لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں جو لوگ دنیاوی طور پر یا دینی طور پر مخلوق خدا کی دیکھ بھال اور ان کی ہدایت و راہنمائی پر مامور ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو ان چیزوں میں پڑنے سے روکیں اور جو لوگ ان میں مبتلا ہیں ان کو تادیب و تنبیہ کریں
حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ و سلم) ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے (اور ان سے غیب کی باتیں پوچھا کرتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم شگون بد لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے کوئی اپنے دل میں محسوس کر سکتا ہے لیکن یہ (یعنی دل میں اس طرح کا خیال آنا) تم کو کسی کام سے نہ روکے (یعنی اگر تم میں سے کوئی شخص بتقاضائے بشریت شگون بد کا خیال بھی لائے تو اس سے متاثر ہو کر اپنے قصد و ارادہ سے باز نہ رہے کیونکہ بد شگونی وہم محض سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں اور خطوط کھینچتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،۔ انبیاء میں سے ایک نبی گزرے ہیں جو (اللہ تعالیٰ کے حکم سے یا اپنے علم لدنی کے ذریعہ) لکیریں اور خطوط کھینچا کرتے تھے لہٰذا جس شخص کا خط ان کے موافق ہو وہ مباح ہو گا (ورنہ ناجائز)۔ (مسلم)
تشریح
حدیث میں جن نبی کا ذکر کیا گیا ہے ان سے حضرت دانیال علیہ السلام یا بعض حضرات کے قول کے مطابق حضرت ادریس علیہ السلام مراد ہیں۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ لکیریں اور خطوط کھینچنے کا علم کہ جس کو رمل کہا جاتا ہے اصل میں ان نبی سے چلا تھا جو اب اپنے حقیقی اصول و قواعد کے اعتبار سے معدوم ہو چکا ہے، اگر اب بھی کوئی شخص اس علم کو انہی خصوصیات و شرائط کے ساتھ جانتا ہو جو ان نبی علیہ السلام نے وضع فرمائے تھے اور اس کا لکیریں اور خطوط کھینچنا بالکل اسی طرح ہو جس طرح نبی کھینچتے تھے تو اس صورت میں اس علم سے فائدہ اٹھانا مباح ہو گا، لیکن یہ بات چونکہ متحقق ہے کہ یہ علم اپنے اصل کے اعتبار سے دنیا سے اٹھ گیا ہے اور کوئی شخص یہ جاننے پر قادر نہیں ہے کہ وہ نبی کس طرح لکیریں اور خطوط کھینچا کرتے تھے اس لئے اب اس علم کو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا حرام و ممنوع ہوا اس کی وضاحت باب مالا یجوز من العمل فی الصلوۃ گزر چکی ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا (کہ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ وہ کچھ نہیں ہیں یعنی وہ جن باتوں کا دعوی کرتے ہیں وہ بے بنیاد ہوتی ہیں اس لئے ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتماد بھروسہ مت کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بعض دفعہ وہ ایسی بات بتاتے ہیں یا ایسی خبر دیتے ہیں۔ جو سچ ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بات حق ہوتی ہے جس کو جن (یعنی شیطان) اچک لیتا ہے اور اپنے دوست (کاہن) کے کان میں اس طرح ڈال دیتا ہے۔ جس طرح مرغ کوئی دوسرے مرغ کو دانہ لینے کے لئے بلاتا ہے پھر وہ کاہن اس بات میں سو سے زیادہ جھوٹی باتیں ملا دیتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
وہ بات حق ہوتی ہے جس کو جن اچک لیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ کاہنوں کی جو باتیں یا بعض چیزیں صحیح ثابت ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب ذات حق جل مجدہ سے کوئی حکم بذریعہ وحی فرشتوں تک آتا ہے یا لوح محفوظ کی کوئی بات فرشتوں پر منکشف ہوتی ہے تو کسی طرح سے جنات و شیاطین ان فرشتوں سے اس بات یا حکم کو سن لیتے ہیں اور اس کو ان لوگوں کے کان میں پھونک دیتے ہیں جو ان جنات اور شیاطین کے پیروکار ہوتے ہیں (یعنی وہ کاہن) اور پھر وہ کاہن اس ایک بات میں سینکڑوں جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔
بعض حضرات نے لفظ یقرہا فی اذن ولیہ قر الدجاجۃ کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ جس طرح مرغ اپنی مرغی سے جفتی کے وقت اس طرح منی ڈالتا ہے کہ کسی آدمی کو معلوم نہیں ہوتا اسی طرح وہ جن اس آسمانی بات کو اپنے پیروکار کے کان میں اس طور سے ڈالتا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوتا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ فرشتوں کی کوئی جماعت جب عنان یعنی ابر میں اترتی ہے اور (آپس میں) ان باتوں اور ان امور کا تذکرہ کرتیں ہیں جو آسمان میں خدا کے ہاں مقدر ہوئے ہیں اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہیں جب وہ کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو کاہنوں کے پاس پہنچا دیتے ہیں اور وہ کاہن شیاطین سے سنی ہوئی۔ اس بات میں اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا لیتے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کاہن جو باتیں بیان کرتے ہیں ان میں وہ بات نہیں ہوتی ہے جو ان شیاطین کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شیاطین اس بات کو فرشتوں سے چوری چھپے سن لیتے ہیں اور چونکہ وہ بات بہر صورت وقوع پذیر ہوتی ہے اس طرح کاہنوں کی بعض باتیں حقیقت و واقعہ کے مطابق ہو جاتی ہیں لیکن یہ چیز بہر حال ملحوظ رکھنے کی ہے کہ وہ کاہن چونکہ اس بات میں اپنی طرف سے سینکڑوں جھوٹی باتیں بھی ملا دیتے ہیں اور ان کی بتائی ہوئی باتوں اور چیزوں پر جھوٹ غالب رہتا ہے اس لئے شریعت نے ان کاہنوں سے استفادہ کرنے اور ان کی باتوں پر دھیان دینے سے سرے سے روک دیا اور فرمایا ان کی باتیں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔
اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھنے یعنی غیب کی باتیں دریافت کرے ) تو اس کی چالیس دن رات کی نمازیں قبول نہیں کی جاتی۔ (مسلم)
تشریح
یہ چیز گویا ایسے شخص کے حق میں سخت نقصان دہ اور انتہائی بدبختی کی علامت ہے کہ اس کی نماز جو عبادات میں سے سب سے افضل اور بزرگ ترین عمل ہے، نا مقبول ہو جائے یا یہ مراد ہے کہ اس شخص کی جب نماز ہی قبول نہیں ہوتی تو دوسرے اعمال بطریق اولی قبول نہیں ہوں گے، نیز نماز قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ان نمازوں کا ثواب نہیں ملتا اگرچہ اس کے ذمہ سے فرض ادا ہو جاتا ہے اور اس پر ان نمازوں کی قضا واجب نہیں ہوتی۔
حدیث میں اگرچہ اربعین لیلۃ کے الفاظ ہیں یعنی صرف رات کا ذکر کیا گیا ہے مگر حقیقت میں رات اور دن دونوں مراد ہیں کیونکہ اہل عرب کے کلام کا یہ بھی اسلوب ہے کہ الفاظ میں تو ذکر صرف دن یا صرف رات کا ہوتا ہے۔ مگر مراد رات اور دن دونوں ہوتے ہیں۔
حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی جب کہ رات میں بارش ہو چکی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے اس وقت کیا فرمایا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد کیا کہ ابھی مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے) صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میرے بندوں نے آج اس حال میں صبح کی کہ بعض تو مجھ پر ایمان لائے اور بعض نے کفر کی، چنانچہ جس شخص نے یہ کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے تو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کے ساتھ کیا (یعنی ستاروں کے اثر کا منکر ہیں) اور جس شخص نے کہا کہ فلاں ستارے کے طلوع ہونے اور فلاں ستارے کے غروب ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بارش ہونے میں ستاروں کی تاثیر کا دخل ہوتا ہے یعنی ستارے ہی بارش برساتے ہیں یا ستارے ہی ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں جن سے پانی برستا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عقیدہ ہوتا ہے تو ایسا شخص کافر ہو جائے گا۔ہاں اگر اعتقاد کی نوعیت یہ ہو کہ بارش اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اور اس کے فضل و کرم سے ہوتی ہے۔ اور ستاروں کا طلوع و غروب اور نچھتر وغیرہ کی ایک علامت ہے۔ اور ان چیزوں کی بنیاد پر بارش ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے تو یہ کفر نہیں لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کا خیال و عقیدہ رکھنا بھی مکروہ تنزیہی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب بھی اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی برکت نازل کرتا ہے تو انسانوں کی کوئی نہ کوئی جماعت اس کے ذریعہ کفر میں مبتلا ہو جاتی ہے یعنی کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس برکت کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع و اسباب کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے تو بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی ہے۔ (مسلم)
تشریح
اگرچہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ برکت سے مراد بارش ہے اور یہ عبارت وینزل الغیث (اللہ تعالیٰ برساتا ہے الخ) ماقبل عبارت اور لفظ برکت کی توضیح ہے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ برکت سے عام یعنی ہر طرح کی برکت مراد ہو اور وینزل الغیث الخ کے ذریعہ نزول برکت کی ایک مثال اور اس کی ایک خاص صورت کو بیان کرنا مقصود ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص سواری پر ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے آدمی زیادہ تعداد والے آدمیوں کو سلام کریں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو شخص سواری پر ہو....الخ۔ یہ حکم اصل میں تواضع و انکساری کی طرف راغب کرنے کے لیے ہے کہ کیونکہ جو شخص سواری پر ہے اس کو گویا اللہ نے پیدل چلنے والے پر برتری و فوقیت عطا فرمائی ہے لہذا اس کو فروتنی ہی اختیار کرنی چاہیے اسی طرح جو لوگ کم تعداد میں ہوں اور وہ لوگ ایسے لوگوں کو ملیں جو تعداد میں ان سے زیادہ ہوں تو ان کو بھی چاہیے کہ تواضع و انکساری کی بنا پر اور اکثریت کے احترام کے پیش نظر سلام کرنے میں ابتداء کریں۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں سے ملے اور یہ چاہے کہ ان سب کو سلام کرنے کے بجائے ان میں سے چند کو سلام کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ سلام کا اصل مقصد آپس میں موانست و الفت کو فروغ دینا ہے جب کہ بعض دوسرے مخصوص لوگوں کو سلام کرنا گویا باقی لوگوں کو وحشت و اجنبیت میں مبتلا کرنا ہے اور یہ چیز اکثر اوقات نفرت و عداوت کا بھی سبب بن جاتی ہے۔ لیکن بازار اور شارع عام کا حکم اس سے الگ ہے کہ اگر بازار میں یا شارع عام پر بہت سے لوگ آ رہے ہوں تو وہاں بعض لوگوں کو سلام کرنا کافی ہو گا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بازار میں شارع عام پر ملنے والے ہر شخص کو سلام کرنے لگے تو وہ اسی کام کا ہو کر رہ جائے گا اور اپنے امور کی انجام دہی سے باز رہے گا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چھوٹا بڑے کو گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ (بخاری)
تشریح
علماء نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ بالا حکم سر راہ ملاقات کے وقت کا ہے مثلاً ایک شخص ادھر سے آ رہا ہے اور دوسرا ادھر سے جا رہا ہو اور دونوں آپس میں ملیں تو اس صورت کے لیے یہ حکم ہے کہ ان دونوں میں جو شخص چھوٹا ہو وہ بڑے کو سلام کرے لیکن وارد ہونے یعنی کسی کے پاس یا مجلس میں جانے کی صورت میں سلام کی ابتداء وارد کو کرنی چاہیے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اور خواہ وہ کم تعداد والے لوگ ہوں یا زیادہ تعداد والے لوگ۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کچھ لڑکوں کے پاس گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔
تشریح
آنحضرت کا یہ عمل مبارک کہ آپ نے بچوں کو سلام کیا درحقیقت آپ کے وصف تواضع و انکساری اور دنیا والوں کو تئیں کمال شفقت و محبت کا مظہر ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو اور جب تم راستے میں ان میں سے کسی سے ملو تو ان کو تنگ ترین راستے پر چلے جانے پر مجبور کرو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تم ان کو السلام علیکم نہ کہو کیونکہ سلام میں پہل کرنا درحقیقت اسلامی تہذیب کا بخشا ہوا ایک اعزاز ہے جس کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کے پیرو ہوں اور مسلمان ہیں اس اعزاز کا استحقاق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا جو دین دشمن اور خدا کے باغی ہیں اسی طرح ان باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلام اور اس جیسی دوسری چیزوں کے ذریعہ الفت و محبت کے مراسم کو قائم کرنا بھی جائز نہیں ہیں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے۔آیت (لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ)۔ترجمہ۔ آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں۔
ہاں اگر وہ لوگ سلام میں خود پہل کریں اور السلام علیک یا السلام علیکم کہیں تو اس کے جواب میں صرف علیک یا علیکم کہہ دیا جائے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ غیر مسلم کے جواب میں ھداک اللہ کہا جائے نیز بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی ضرورت و مجبوری کی بناء پر یہود و نصاریٰ کے ساتھ سلام میں پہل کرنی جائز ہے اور یہی حکم ان مسلمانوں کا بھی ہے جو بدعت اور فسق میں مبتلا ہوں۔
اسلامی سلطنت میں رہنے والے کسی مسلمان نے کسی اجنبی کو سلام کیا اور پھر معلوم ہوا کہ وہ ذمی ہے تو اس صورت میں مستحب یہ ہے کہ اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرے یعنی یوں کہے کہ اسرجعت سلامی میں اپنے سلام کو واپس کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ جو دین کے دشمن ہیں اور اپنے مکر و فریب کی طاقتوں کے ذریعہ خدا کے جھنڈے کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں اس سلوک کے مستحق ہیں کہ جب وہ راستہ میں ملیں تو ان پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ یکسو ہو کر گزرنے پر مجبور ہو جائیں اور ان پر راستہ تنگ ہو جائے تاکہ اسلام کی عظمت و شوکت اور مسلمانوں کا دبدبہ ظاہر ہر۔ مشکوٰۃ کے بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے کہ ان کو یہ حکم دو کہ وہ ایک طرف ہو جائیں اور کنارے پر چلیں تاکہ راستے کا درمیانی حصہ مسلمانوں کی آمد و رفت کے لیے مخصوص رہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جب یہودی تمہیں سلام کرتے ہیں تو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ السام علیک۔ (یعنی تمہیں موت آئے) لہذا تم ان کے جواب میں یہ کہو و علیک(یعنی تمہیں موت آئے) (بخاری و مسلم)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب اہل کتاب یعنی یہود و نصاری تمہیں سلام کریں تو تم ان کے جواب میں کہو وعلیکم۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
پہلی روایت میں لفظ فقل اور وعلیک بصیغہ مفرد ہے اور اس روایت میں فقولوا اور وعلیکم بصیغہ جمع ہے اسی طرح اور روایتوں میں وعلیک اور وعلیکم واؤ کے ساتھ اور بغیر واؤ کے دونوں طرح منقول ہے مشکوٰۃ کے مؤلف نے یہاں جو روایت نقل کی ہے اس میں ان دونوں کو واؤ کے ساتھ نقل کیا ہے موطا کی روایت میں علیک بغیر واؤ کے اور دارقطنی کی روایت میں علیکم بغیر واؤ کے منقول ہے اور علماء نے لکھا ہے کہ زیادہ صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلام کے جواب میں یہ لفظ بغیر واؤ کے یعنی علیک یا علیکم ہی کہا جائے تاکہ اس چیز میں مشارکت لازم نہ آئے جو ان کی زبان سے ادا ہوتی ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مطلب یہ ہو گا کہ جس موت کو برا سمجھ کر گویا ہمیں اسکی بد دعا دے رہے ہو اس میں ہم اور تم برابر ہیں کہ ہم سب ہی کو موت یعنی مرنا ہے۔ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ حرف واؤ یہاں مشارکت کے نہیں ہے بلکہ استیناف کے لیے ہے اس صورت میں یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے اس جملہ کا قائم مقام ہو گا کہ وعلیکم ما تستحقونہ من الذم۔ اور تجھ پر وہ برائی پڑے جس کا تو مستحق ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ یہ لفظ احادیث میں چونکہ دونوں طرح منقول ہے کہ بعض روایتوں میں واؤ کے ساتھ اور بعض روایتوں میں بغیر واؤ کے، اس لیے اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ دونوں طرح کہنا جائز ہے۔
نووی کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اہل کتاب کے سلام کا جواب دیا جائے لیکن وعلیکم السلام نہ کہا جائے یعنی جواب دینے والا نہ تو علیکم السلام کہے اور نہ علیک السلام بلکہ صرف وعلیکم یا علیک کہے بلکہ وعلیکم بھی اس صورت میں کہے جب وہ ایک سے زائد ہوں اگر ایک ہی ہو تو علیکم نہ کہے۔ کیوں کہ اس طرح اسکی تعظیم و توقیر لازم آئے گی۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن یہودی کی ایک جماعت نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی چنانچہ ان کو اجازت دے دی گئی اور جب وہ آپ کے پاس آئے تو کہا کہ بلکہ تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو آنحضرت نے فرمایا عائشہ! اللہ تعالیٰ محبت و نرمی کرنے والا ہے اور ہر کام میں محبت و نرمی کو پسند کرتا ہے میں نے عرض کیا کیا آپ نے سنا نہیں انہوں نے سلام کے بجائے کیا لفظ کہا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا بیشک میں نے سنا ہے اور میں نے ان کے جواب میں کہا ہے کہ وعلیکم اور ایک روایت میں یہ لفظ علیکم ہے یعنی واؤ کا ذکر نہیں ہے (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ایک دن کچھ یہودی نبی کریم کے پاس آئے اور انہوں نے السلام علیکم کہنے کے بجائے یہ کہا کہ السام علیکم آنحضرت نے ان کے جواب میں فرمایا وعلیکم۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کی یہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہ ہوئی اور میں نے ان کے جواب میں کہا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو، اور تم پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔
آنحضرت نے جب میری زبان سے ایسے الفاظ سنے تو فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رک جاؤ! تمہیں نرمی اختیار کرنی چاہیے نیز سخت گوئی اور لچر باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا لفظ کہا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے میں نے اس پر کیا جواب دیا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں میری دعا یا بددعا تو قبول ہوتی ہے لیکن میرے حق میں ان کی دعا یا بددعا قبول نہیں ہوتی اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عائشہ رضی اللہ عنہا تم لچر باتیں کرنے والی مت بنو کیونکہ اللہ تعالی لچر باتوں کو اور بہ تکلف لچر باتیں بنانے کو پسند نہیں کرتا۔
اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرکین باہم بیٹھے ہوئے تھے اور مشرکین میں بت پرست بھی تھے اور یہودی بھی، چنانچہ آپ نے مجلس والوں کو سلام کیا۔
تشریح
نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی ایسی جماعت کے پاس سے گزرے یا کسی ایسی مجلس میں پہنچے جس میں مسلمان بھی ہوں اور غیر مسلم بھی، اور مسلمان خواہ ایک ہی ہو یا کئی ہوں تو مسنون یہ ہے کہ مسلمانوں یا مسلمان کا قصد کر کے پوری جماعت کو سلام کرے نیز علماء نے لکھا ہے کہ اس صورت میں چاہے تو السلام علیکم کہے اور نیت یہ رکھے کہ اس سلام کے اصل مخاطب مسلمان ہیں اور چاہے یوں کہے۔ آیت (السلام علی من اتبع الھدی)، نیز علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر کسی مشرک و غیر مسلم کو خط لکھا جائے تو مسنون یہ ہے کہ مکتوب الیہ کو السلام علیکم لکھنے کی بجائے وہی الفاظ لکھے جو آنحضرت نے ہرقل روم کے بادشاہ کو لکھے تھے۔آیت (سلام علی من اتبع الھدی)۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو۔ یہ سن بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ (یعنی راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ہمارے پاس چوں کہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ہم اپنی مجلس رکھا کریں اس لیے جب ہم چند لوگ کہیں مل جاتے ہیں تو وہیں راستہ میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے دینی و دنیاوی امور کے بارے میں باہمی رائے اور مشورہ اور مذاکرات کرتے ہیں ایک دوسرے کی حالت دریافت کرتے ہیں اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے لیے علاج معالجہ تجویر کرتے ہیں اگر آپ میں کوئی رنجش و عناد ہوتا ہے تو صلح و صفائی کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو طے کرنے کی تدبیر پر غور کرتے ہیں) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم مجبوری کی بناء پر بیٹھنے کے علاوہ دوسری صورت سے انکار کرتے ہو پھر راستہ کو اس کا حق ادا کرو۔ یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ راستے میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا تمہارے لیے ممکن نہ ہو اور تمہیں ایسی جگہ بیٹھنا پڑے جو راستہ پر واقع ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ راستے کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا آنکھوں کا بند کرنا یعنی حرام چیزوں پر نظر ڈالنا، ایذا رسانی سے باز رہنا یعنی تنگ راستہ کر دینے یا کسی اور طرح گزرنے والوں کو ایذاء نہ پہنچانا، سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
سلام کا جواب دینا یہاں سلام کرنے کا حکم دینے کے بجائے سلام کو جواب دینے کی ہدایت کرنا اس مسنون امر کے پیش نظر ہے کہ چلنے اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم سے اس مضمون کے سلسلے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص راستہ بھول جائے یا جو شخص راستہ نہ جانتا ہو اس کو راستہ بتانا بھی ایک حق ہے اس روایت کو ابوداؤد نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعد اسی طرح نقل کیا ہے جیسا کہ صاحب مصابیح نے اور ان کی اتباع میں صاحب مشکوٰۃ نے یہاں نقل کیا ہے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مضمون کے سلسلے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک حق یہ بھی ہے کہ مظلوم کی فریاد رسی کی جائے اور گم کردہ راہ کو راستہ بتایا جائے۔ اس روایت کو حضرت ابوداؤد نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بعد اسی طرح نقل کیا ہے اور میں نے ان دونوں حدیثوں کو صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں نہیں پایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حقوق ہیں جو حسن سلوک سے متعلق ہیں جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرنا جب کوئی مسلمان کھانے کے لیے یا کسی اور غرض سے بلائے تو اس کو قبول کرنا جب کوئی مسلمان چھینکے تو اس پر یرحمک اللہ کہنا جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کرنا،جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا اور مسلمان کے لیے اس چیز کو پسند کرنا جس کو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (ترمذی،دارمی)
اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ایک شخص آیا اور کہا السلام علیکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کے جواب دیا پھر وہ شخص بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس شخص کے لیے دس نیکیاں لکھی گئی ہیں پھر ایک شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا بھی جواب دیا اور جب وہ بیٹھ گیا تو فرمایا کہ اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی گئی ہیں اس کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اس کے لیے تیس نیکیاں لکھی گئی ہیں۔ (ترمذی، ابوداؤد)۔
تشریح
مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا تعلق سلام کرنے والے کے ساتھ ہے اگر سلام کرنے والا السلام علیکم کہے اور جس کو سلام کیا گیا ہے وہ اس کے جواب میں و رحمۃ اللہ کے لفظ کا اضافہ کرے یعنی وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ کہے یا سلام کرنے والا السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہے اور جواب دینے والا و برکاتہ کے لفظ کے اضافہ کرے یعنی یوں کہے وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اضافہ ثواب کے سلسلے میں اس کا حکم بھی یہی ہو گا اور یہی حکم مغفرتہ کے اضافہ کا بھی ہے جیسا کہ آگے آنے والی حدیث میں مذکور ہے۔
اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اوپر کی حدیث کے ہم معنی روایت نقل کی ہے جس میں معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں پھر ایک اور شخص یعنی چوتھا شخص آیا اور کہا کہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ و مغفرتہ۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اس کے لیے چالیس نیکیاں لکھی گئی ہیں۔ نیز یہ فرمایا کہ اسی طرح سے ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یعنی سلام کرنے والا جس قدر الفاظ بڑھاتا جائے گا اسی قدر اس کے ثواب میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ (ابوداؤد
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ سلام کرنے کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا یوں کہے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یعنی جمع کی ضمیر علیکم استعمال کی جائے اگرچہ جس کو سلام کیا جا رہا ہے وہ ایک ہی شخص کیوں نہ ہو اسی طرح جس شخص کو سلام کیا گیا ہے وہ جواب میں یوں کہے وعلیکم السلام یعنی وہ بھی جمع کی ضمیر استعمال کرے اور واؤ لگائے۔ واضح رہے کہ سلام کا ادنی درجہ السلام علیکم کہنا ہے اور اگر السلام علیک کہا جائے تو بھی کافی ہو گا اور جواب میں ادنی درجہ و علیک السلام اور وعلیکم السلام ہے اور اگر واؤ نہ لگایا جائے تو بھی کافی ہو گا۔علماء کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اگر جواب میں صرف علیکم کہا جائے تو جواب پورا نہیں ہو گا اور اگر جواب میں وعلیکم کہا جائے یعنی واؤ لگایا جائے تو اس صورت میں دونوں قول ہیں۔
اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک تر وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔
تشریح
اس فضیلت کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو راستہ میں ایک دوسرے سے ملیں کیوں کہ اس صورت میں سلام کرنے کے حق کے سلسلے میں وہ برابر کی حیثیت رکھیں گے لہذا ان میں سے جو شخص پہلے سلام کرے گا وہ مذکورہ فضیلت کا مستحق ہو گا اس کے برخلاف اگر یہ صورت ہو کہ ایک شخص تو کہیں بیٹھا ہوا ہو اور دوسرا شخص اس کے پاس آئے تو سلام کرنے کا حق اس دوسرے شخص پر ہو گا جو آیا ہے لہذا اگر وہ آنے والا سلام کرنے میں پہل کرے تو وہ فضیلت کا مخاطب نہیں ہو گا کیوں کہ اس نے سلام کرنے میں پہل کر کے درحقیقت اس حق کو ادا کیا ہے جو اس کے ذمہ تھا، ہاں اگر سلام کرنے میں وہ شخص پہل کرے جو بیٹھا ہوا تھا تو اس فضیلت کا وہ مستحق ہو گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کو اختیار کرنے سے مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے تئیں اخلاص و محبت کے جذبات کو فروغ دیتا ہے ایک تو ملاقات کے وقت سلام میں پہل کرنا دوسرے کسی مسلمان کو اس کے نام کے ذریعہ مخاطب کرنا اور پکارنا جس کو وہ پسند کرتا ہے تیسرے یہ کہ جب وہ مجلس میں آئے تو اس کو عزت و احترام کے ساتھ جگہ دینا۔
اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو سلام کیا۔ (احمد)
تشریح
یہ بات آنحضرت کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص تھی کیونکہ کسی فتنہ و شر میں آنحضرت کے مبتلا ہونے کا کوئی خوف و خطرہ نہ تھا اس لیے آپ کے لیے عورتوں کو بھی سلام کرنا روا تھا لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کے لیے یہ مکروہ ہے کہ وہ اجنبی عورت کو سلام کرے ہاں اگر کوئی عورت اتنی عمر رسیدہ ہو کہ اس کے تئیں کسی فتنہ و شر میں مبتلا ہونے کا کوئی امکان نہ ہو اور نہ اس کو سلام کرنا دوسروں کی نظروں میں کسی بدگمانی کا سبب بن سکتا ہو تو اس کو سلام کرنا جائز ہو گا۔
اور حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کچھ لوگ گزر رہے ہوں تو ان میں سے کسی ایک کا سلام لینا ان سب کی طرف سے کافی ہو گا اسی طرح جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان میں سے کسی ایک کا جواب دینا ان سب کی طرف سے کافی ہو گا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق مرفوع نقل کیا ہے (یعنی بیہقی کی روایت کے مطابق یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے نہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا قول ہے) اور ابوداؤد نے اس روایت کو بطریق موقوف نقل کیا ہے نیز انہوں نے اپنی سند بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس روایت کو حسن ابن علی نے مرفوع بیان کیا ہے اور یہ حسن ابن علی (امام حسن ابن علی ابن ابی طالب نہیں بلکہ) وہ حسن ہیں جو ابوداؤد کے استاد وشیخ ہیں۔ (حاصل یہ کہ اس روایت کو بیہقی نے تو مرفوع نقل کیا ہے اور ابوداؤد نے بھی حسن ابن علی کی سند سے مرفوع نقل کیا ہے لیکن دوسری سند سے موقوف نقل کیا ہے۔)۔
تشریح
گزر رہے ہوں اس حکم میں وہ صورت بھی داخل ہے جب کہ وہ کچھ لوگ کسی ایسی جگہ جائیں یا کسی ایسی جگہ رکیں جہاں پہلے سے کچھ لوگ بیٹھے ہوں، یا ایک ہی شخص ہو، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنا سنت کفایہ ہے اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جن لوگوں کو سلام میں پہل کرنی چاہیے یا جن لوگوں کو سلام کا جواب دینا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک شخص سلام کرے یا کوئی ایک شخص سلام کا جواب دیدے تو وہ سلام یا جواب میں ان سب لوگوں کی طرف سے کافی ہو گا اور وہ سب بری الذمہ ہو جائیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک کا سلام کرنا یا ہر ایک کا جواب دینا افضل ہو گا۔
اور حضرت عمر بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہمارے غیروں کے ساتھ مشابہت کرے گا یعنی ہماری امت کے لوگوں کے برعکس دوسرے مذاہب کے لوگوں کے طریقہ پر عمل کرے گا اور وہ ہم میں سے نہیں ہے تم نہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت کرو اور نہ عیسائیوں کے ساتھ، یہودیوں کا سلام کرنا انگلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے اور عیسائیوں کا سلام کرنا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے کسی بھی فعل و طریقہ اور خاص طور پر سلام کرنے کے ان دونوں طریقوں کی مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی سلام کرنے یا سلام کرنے کا جواب دینے کے لیے اور یا دونوں محض مذکورہ اشاروں ہی پر اکتفا کر لیتے تھے، سلام کا لفظ نہیں کہتے تھے۔ جو حضرت آدم اور ان کی ذریت میں سے انبیاء و اولیاء کی سنت و طریقہ ہے چنانچہ نبی کو گویا مکاشفہ ہوا کہ میری امت کے کچھ لوگ بے راہ روی کا شکار ہو کر سلام کرنے کا وہ طریقہ اختیار کریں گے جو یہودیوں، عیسائیوں اور دوسری غیر اقوام کا ہے جیسے انگلیوں یا ہتھیلیوں کے ذریعہ اشارہ کرنا ہاتھ جوڑ لینا، کمر یا سر کو جھکانا اور صرف سلام کرنے پر اکتفا کر لینا وغیرہ وغیرہ۔ لہذا آپ نے پوری امت کو مخاطب کرتے ہوئے اس بارے میں تنبیہ بیان فرمائی اور یہ وعید بیان کی کہ جو شخص سلام کے ان رسوم و رواج کو اپنائے گا جو اسلامی شریعت اور ہماری سنت کے خلاف ہیں تو اس کو سمجھ لینا چاہیے، کہ اس کا شمار ہماری امت کے لوگوں میں نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ اس حدیث کی اسناد کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے لیکن یہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی منقول ہے اور وہ ضعیف نہیں ہے جس کو جامع صغیر میں نقل کیا گیا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کرے تو چاہیے کہ پہلے اس کو سلام کرے اور اس کے بعد اگر دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا بڑا پتھر حائل ہوا اور پھر اس سے ملاقات ہو تو اس کو دوبارہ سلام کرے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اتنے معمولی وقفہ کی جدائی و مفارقت کے بعد بھی سلام کرنا مستحب ہے چہ جائیکہ زیادہ عرصہ کے بعد ملاقات ہو، گویا یہ حدیث سلام کے استحباب اور ہر موقع پر اس ادب کے ملحوظ رکھنے کو مبالغہ کے طور پر بیان کرتی ہے، واضح رہے کہ سلام کی اہمیت کے باوجود بعض صورتیں ایسی ہیں جو سلام کرنے سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً اگر کوئی شخص پیشاب کر رہا ہے یا پاخانہ میں ہو، یا جماع میں مصروف ہو یا اسی طرح کوئی حالت ہو اور اس وقت اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے اور جواب دینا اس پر واجب نہیں ہو گا اسی طرح اگر کوئی شخص سو رہا یا اونگھ رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو یا اذان دے رہا ہو یا حمام میں ہو یا کھانا کھا رہا ہو اور نوالہ اس کے منہ میں ہو اور ان صورتوں میں اس کو کوئی سلام کرے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہو گا نیز خطبہ کے وقت نہ تو سلام کرنا چاہیے اور نہ سلام کو جواب دینا چاہیے جو شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اس کو بھی سلام نہ کیا جائے اگر کوئی سلام کرے تو تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ تلاوت روک کر سلام کا جواب دے اور پھر اعوذ پڑھ کر تلاوت شروع کر دے۔
اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم گھر میں گھسو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو، اور جب گھر سے باہر نکلو تو اپنے گھر والوں کو سلام کے ذریعہ رخصت کرو، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
تشریح
اگر گھر میں کوئی فرد نہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس طرح کہے السلام علینا وعباداللہ الصالحین تاکہ وہاں جو فرشتے ہوں ان کو سلام پہنچے۔
حدیث کے الفاظ فاو دعو اھلہ بسلام میں ایداع اصل میں تودیع کے معنی میں ہے جو وداع سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گھر سے باہر جاتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کے ذریعہ وداع کہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس رخصتی سلام کو جواب واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیوں کہ یہ سلام اصل میں دعا اور وداع ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی یہ فرماتے ہیں کہ لفظ اودعو ایداع سے ہے بایں معنی کہ اپنے اہل و عیال کے پاس سلام کو ودیعت امانت رکھو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب تم نے رخصت ہوتے وقت اپنے اہل و عیال کو سلام کیا تو گویا تم نے سلام کی خیر و برکت کو اپنے اہل و عیال کے پاس امانت رکھا جس کو تم آخرت میں واپس لو گے جیسا کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کے پاس امانت رکھتا ہے اور پھر اس کو واپس لے لیتا ہے یحییٰ کے مطابق مطلب یہ ہے کہ تم سلام کو اپنے گھر والوں کی ودیعت امانت و سپردگی میں دے دو تاکہ لوٹ کر ان کے پاس آؤ تو اپنی ودیعت امانت کو واپس لو جیسا کہ امانتیں واپس لی جاتیں ہیں یہ بات گویا اس امر کی نیک فال لینے کے مترادف ہے کہ گھر سے رخصت ہونے والا سلامتی کے ساتھ لوٹ کر آئے گا اسے دوبارہ سلام کرنے کا موقع نصیب ہو گا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میرے بیٹے جب تم اپنے گھر والوں سے ملو تو سلام کرو، وہ سلام تم پر اور تمہارے گھر والوں پر خیر و برکت کے نزول کا باعث ہو گا۔ (ترمذی)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سلام کا کلام سے پہلے یعنی ملاقات کے وقت پہلے سلام کرنا چاہیے اور اس کے بعد بات چیت کرنی چاہیے سلام کرنے سے پہلے بات چیت شروع کر دینا اچھا نہیں۔ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں ملاقات کے وقت یہ کہا کرتے تھے انعم اللہ بک علینا وانعم صباحا یعنی خدا تمہاری وجہ سے آنکھوں کو ٹھنڈا رکھے اور تم ہر صبح نعمتوں میں داخل ہو، پھر جب اسلام کا زمانہ آیا تو ہمیں یہ کہنے سے منع کر دیا گیا۔ ابوداؤد)
تشریح
پہلا لفظ انعم نعومۃ سے ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں نرمی، تازگی اور شادمانی اس عبات انعم اللہ بک علینا کے دو مطلب ہو سکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ بک میں حرف با سبب کے معنی میں ہے اور یہ جملہ اس مفہوم کا حامل ہے کہ خدا تمہاری وجہ سے تمہارے دوستوں اور عزیزوں کی آنکھوں کو تر و تازہ اور روشن رکھے یہ گویا مخاطب کی خوش حالی سے کنایہ ہے کہ وہ خوش حال و شادمان رہے تاکہ اس کے دوست اس کی خوش حالی و شادمانی دیکھ کر خوش ہو، دوسرے یہ کہ حرف با زائد ہے اور اس سے تاکید تعدیہ مراد ہے اس صورت میں یہ جملہ اس مفہوم کا حامل ہو گا کہ خدا تمہیں اس چیز کو دیکھنے کا موقع دے کر خوش و خرم رکھے جس کو تم پسند کرتے ہو اور اس کی طلب رکھتے ہو۔
دوسرا لفظ انعم امر کا صیغہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری صبح تمہارے لیے تر و تازگی و خوشحالی و مسرت کا باعث بنیں یا یہ کہ صبح کے وقت تم تر و تازہ اور خوش خرم رہو، یہ بھی خوشی و فراغت کے ساتھ وقت گزارنے سے کنایہ ہے اور صبح کے وقت کی تخصیص اس سبب سے ہے کہ دن کی ابتداء صبح سے ہوتی ہے اگر صبح کا وقت کسی حادثہ کو اپنے ساتھ لاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پورا دن بے چینی و بے اطمینانی اور سخت روی کے ساتھ گزرے گا خاص طور پر اس زمانہ میں غارت گری اور لوٹ مار کا جو معمول بنا ہوا تھا کہ اس کی ابتداء عام طور سے صبح ہی کے وقت ہوتی تھی لہذا اس دور میں جس شخص کی صبح خیر و عافیت اور امن کے ساتھ گزر جاتی تھی اس کا پورا وقت اطمینان و چین کے ساتھ گزرتا تھا۔
اور حضرت غالب کہتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت حسن بصری کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ نے اور ان سے ان کے باپ یعنی میرے دادا نے بیان کیا کہ مجھ کو میرے باپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجتے ہوئے کہا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ اور آپ کو سلام عرض کرو میرے دادا نے بیان کیا کہ اپنے باپ کے حکم پر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے باپ نے آپ کو سلام عرض کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم اور تمہارے باپ پر سلامتی ہو۔ ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے سلام پہنچائے تو مسنون یہ ہے کہ سلام پہنچانے والے پر بھی سلام بھیجا جائے اور جس کی طرف سے جس نے سلام پہنچایا ہے اس پر بھی یعنی جب کوئی شخص کسی کی طرف سے سلام پہنچائے تو جواب میں یوں کہا جائے علیک وعلی فلاں السلام یا وعلیک و علیہ السلام چنانچہ نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بعینہ منقول ہیں۔
اور حضرت ابوالعلاء حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علاء حضرمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے عامل مقرر تھے جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خط لکھتے تو اپنی طرف سے شروع کرتے۔ ابوداؤد)
تشریح
ابوالعلاء رضی اللہ عنہ کا اصل نام یزید ابن عبد ہے۔ مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں اس روایت کے راوی کا نام ابوالعلاء ہی لکھا ہے یعنی یوں ہے عن ابی العلاء حضرمی ان العلاء الحضرمی اور بعض نسخوں میں مصابیح کے بعض نسخوں کے مطابق ابن علاء لکھا ہے یعنی یوں ہے۔عن ابن العلاء الحضرمی ان العلاء الحضرمی، حضرمی اصل میں مشہور شہر حضرت موت کی طرف نسبت ہے کیونکہ حضرت علاء حضر موت کے رہنے والے تھے اور مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں آگے کی عبارت ان العلاء الحضرمی ہے لیکن ایک نسخہ میں ان العلاء الحضرمی لکھا ہوا ہے۔
تقریب میں لکھا ہے کہ حضرت علاء بنو امیہ کے حلیف تھے یہ ایک جلیل القدر اور بزرگ صحابی ہیں۔ نبی کریم نے ان کو بحرین کا عامل مقرر کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور خلافت میں ان کو وہاں کا عامل باقی رہا اور اسی عہدے پر ان کا انتقال ہوا۔
اپنی طرف سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خط کی ابتداء ان الفاظ سے کرتے، من العلاء الحضرمی الی رسول اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ (یعنی علاء حضرمی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ) اس عبارت کے بعد خط کا مضمون ہوتا اور حضرمی خط لکھنے کا یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع میں اختیار کرتے تھے کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مکتوبات گرامی کی ابتداء اسی طرح ہوتی تھی۔ من محمد رسول اللہ الی فلاں اس عبارت کے بعد سلام کے الفاظ ہوتے تھے اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو اس کا مخاطب خاص طور پر اسی کو بنایا جاتا یعنی سلام علیک جیسے الفاظ ہوتے اور اگر مکتوب الیہ مسلمان ہوتا تو پھر علی العموم سلام کے الفاظ ہوتے یعنی یوں لکھتے سلام علی من اتبع الھدی۔ (جو شخص راہ راست کی پیروی کرے اس پر سلامتی ہو) سلام کے بعد اصل مضمون ہوتا چنانچہ نبی نے ہرقل کو جو مکتوب ارسال کیا تھا وہ اسی ترتیب کے ساتھ لکھا گیا نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کی تعزیت میں جو خط بھیجا تھا اس کے ابتدائی الفاظ یوں تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، من محمد رسول اللہ الی معاذ بن جبل سلام علیک فانی احمد الیک اللہ الذی لاالہ الاھو، اما بعد۔ الخ۔ یہ حدیث جو یہاں نقل کی گئی ہے بظاہر باب کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتی لیکن یہ حدیث چونکہ سلام کے مقد کی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس لیے یہ اس باب میں نقل کی گئی ہے اسی طرح آگے جو تین حدیثیں آ رہی ہیں جن میں خط سے متعلق کچھ باتیں بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کا تعلق بھی بایں اعتبار سلام سے ہے کہ سلام جس طرح زبانی پیش کیا جاتا ہے اسی طرح وہ خط میں بھی لکھا جاتا ہے لہذا ان حدیثوں کو بھی اس باب میں نقل کیا گیا ہے اور مشکوٰۃ کے مولف کا یہ محمول بھی ہے کہ وہ فصل کے آخر میں ان احادیث کو بھی نقل کرتے ہیں جو اگرچہ براہ راست باب سے تعلق نہیں رکھتیں لیکن باب اور اس کے موضوع کے مناسب اور بالواسطہ طور پر تعلق رکھنے والی ضرور ہوتی ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو خط لکھے تو چاہیے کہ وہ خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دے یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے کیونکہ یہ چیز حاجت براری کے لیے بہت کارآمد ہے ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تشریح
کاغذ وغیرہ پر لکھنے کے بعد مٹی چھڑکنا بڑا قدیم طریقہ ہے اور عام طور پر اس کا مقصد روشنائی کو خشک کرنا سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ حاجت براری کے لیے ایک مخصوص تاثیر رکھتا ہے اور یہ تاثیر بلخاصیت ہے کہ اس کا سبب شارع کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہیں ہے تاہم بعض عارفین نے پہلے معنی یعنی مٹی ڈال دے کی وضاحت میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا دراصل اپنے لکھے ہوئے پر خاک ڈالنے کے مفہوم کے مترادف ہے بایں طور کہ اس فعل سے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اپنے مقصد و حاجت کے لیے نہ تو اپنے اس مکتوب پر اعتبار ہے اور نہ مکتوب الیہ کو حقیقی حاجت روا کا درجہ دینا مقصود ہے بلکہ حقیقی اعتماد اللہ تعالی کی ذات پر ہے کہ وہی مقصد کو پورا کرنے اور حاجت بر لانے والا ہے لہذا یہ مکتوب محض اظہار حال کا ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالیٰ سے ہے۔
یا مٹی چھڑک کر جھاڑ دے یہ فلیتربہ کا دوسرا ترجمہ ہے اور یہ ترجمہ اس اعتبار سے ہے کہ مٹی ڈالنے کی صورت میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مٹی کسی دوسرے کی ملکیت سے متعلق ہو اور اس طرح مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو صرف کرنا لازم آئے جب کہ مٹی چھڑ کر جھاڑ دینے میں اس طرح کی کوئی بات لازم نہیں آتی چنانچہ اس دوسرے ترجمہ کی تائید اور اس قصے سے بھی ہوتی ہے جس کو امام غزالی نے منہاج العابدین میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے جو کسی کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر تھا ایک پرچہ لکھا پھر جب اس نے یہ چاہا کہ مکان کی دیوار سے تھوڑی سے مٹی لے کر پرچہ پر ڈالے تو اس کو خیال ہوا کہ یہ مکان کرایہ کا ہے اور اس کی دیوار سے مٹی لے کر صرف کرنا غیر مناسب ہے لیکن معاً دل میں دوسرا خیال یہ بھی آیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ اس نے مٹی لے کر پرچہ پر ڈال دی اس کے اس نے یہ غیبی ندا سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے اس مٹی کو حلال جاننے والا جلدی ہی اس چیز کو جان لے گا جو کل کے دن یعنی روز حشر طویل حساب کے سبب اس کو پیش آنے والی ہے۔ یہ حدیث راویوں کے اعتبار سے منکر ہے اس کے مضمون میں کوئی کلام نہیں ہے چنانچہ طبرانی نے اوسط میں بطریق مرفوع حضرت ابوداؤد سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اذا کتب احدکم الی انسان فلیدا بنفسہ واذا کتب فلیترب کتابہ فھو انجح۔ یعنی جب تم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو خط لکھے تو چاہیے کہ اس کو اپنی طرف سے شروع کرے اور جب اس خط کو لکھ لے تو اس پر مٹی چھڑک دے کیوں کہ یہ چیز حاجت براری کے لیے بہت کارآمد ہے۔حقیقی درخواست تو صرف اللہ تعالی سے ہے۔
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کے سامنے ایک خط لکھنے والا بیٹھا ہوا تھا میں نے آپ کو لکھنے والے سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قلم کو اپنے کان پر رکھ لو کیونکہ یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
یہ چیز مطلب کو بہت یاد دلاتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مقصد اور مفہوم کو بیان کرنے کے لیے عبارت والفاظ کی آمد ہونے لگتی ہے اور لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا ہے اس میں پوری طرح کامیاب رہتا ہے یہ چیز بھی بالخاصیت ہے یعنی ایسا کس طرح ہوتا ہے؟اس کا علم شارع ہی کو ہے تاہم بعض علماء نے اس کی تاویل و توجہیہ بیان کی ہے۔ یحییٰ نے لکھا ہے کہ قلم ایک طرح سے زبان کا حکم رکھتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے القلم احدالسانین اور زبان قلب و ذہن کی ترجمان ہوتی ہے لہذا قلم کو کان پر رکھنا گویا زبان کو کان پر جو کہ سننے کی جگہ ہے رکھنے کے مترادف ہے تاکہ زبان، قلم قلب و ذہن کے قریب ہو جائے اور قلب و ذہن جو کچھ کہنے کا ارادہ کریں اور وہ مفہوم کو جس اعلیٰ عبارت و پیرایہ بیان اور جس عمدہ الفاظ اور اسلوب میں ادا کرنے کا تقاضہ کریں ان کو کلام و بیان کی اسی مناسبت و موزو نیت کے ساتھ بصورت تحریر بیان کرے۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے کا مطلب یہ ہے کہ روایت متن یا سند کے اعتبار سے غریب ہے اور اپنے بعض راویوں کے ضعف کے سبب ضعیف ہے تاہم یہ بات اس روایت کے صحیح ہونے کے منافی نہیں ہے نیز اس کی تائید ابن عساکر کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ اذاکتبت قضع قلمک علی اذنک فانہ اذکرلک اسی طرح جامع صغیر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع ترمذی کی یہ روایت منقول ہے کہ ضع القلم علی اذنک فانہ ذکر للملیٰ۔
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو یہ حکم دیا کہ میں سریانی زبان کو سیکھوں اور ایک روایت میں یوں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو حکم دیا کہ میں یہودیوں سے خط و کتابت کرنا سیکھ لوں نیز آپ نے فرمایا کہ خط و کتابت کے معاملہ میں مجھے یہودیوں پر اطمینان نہیں ہوتا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کے بعد آدھا مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ میں نے یہودیوں کی زبان اور ان سے خط و کتابت کرنا سیکھ لیا چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہودیوں کو کوئی مکتوب بھیجنا چاہتے تو اس کو میں ہی لکھتا اور جب یہودی آپ کے پاس کوئی مکتوب بھیجتے تو اس کو آپ کی خدمت میں ہی پڑھتا۔ (ترمذی
تشریح
سریانی دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک زبان ہے جس میں تورات نازل ہوئی تھی لیکن اکثر محققین کا قول یہ ہے کہ تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی اور سریانی اور عبرانی زبان دونوں ملتی جلتی ہیں۔
مجھے یہودیوں پر اطمینان نہیں ہوتا کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے جو یہودیوں کی زبان جانتا ہو اس لیے یہودیوں کے ساتھ خط و کتابت کے لیے مجھے کسی یہودی ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس صورت میں مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر یہودیوں کے نام اپنا کوئی خط کسی یہودی سے لکھواؤں تو وہ اس میں اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی نہ کر دے، اسی طرح اگر یہودیوں کی طرف سے میرے پاس کوئی خط آئے اور میں اس کو کسی یہودی سے پڑھواؤں تو وہ اس میں اپنی طرف سے کم یا زیادہ کر کے نہ پڑھ دے اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے تحت غیر مسلم اقوام کی زبان سیکھنا جائز ہے بلا ضرورت سیکھنا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں غیر مسلم کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا لازم آتا ہے اور یہ چیز ممنوع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آیت (من تشبہ بقوم فھو منھم)۔ جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی قوم میں شمار ہو گا بلکہ یحییٰ نے بلا ضرورت سیکھنے کو حرام لکھا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو پہلے سلام کرے اور پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے، نیز جب (مجلس سے چلنے کے لیے) کھڑا ہو تو اس وقت بھی سلام کرے کیونکہ پہلا سلام کرنا دوسرا سلام کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے۔
تشریح
جب کھڑا ہو کا مطلب یہ ہے کہ مجلس میں بیٹھنے کے بعد جب وہاں سے واپس ہونے کے لیے کھڑا ہو اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہاں سے چلنے کا ارادہ کرے خواہ مجلس میں بیٹھا ہو یا نہ بیٹھا ہو بہرحال حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رخصت ہوتے وقت بھی سلام کرنا سنت ہے جیسا کہ ملاقات کے وقت کا سلام سنت ہے اسی طرح ان دونوں ہی سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن بعض محققین نے لکھا ہے کہ رخصت ہوتے وقت کا سلام اور اس کا جواب مستحب ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا راستوں پر بیٹھنا کوئی اچھا کام نہیں ہے ہاں جو شخص راستہ بھولے ہوئے یا اندھے کو راستہ بتلائے سلام کا جواب دے، حرام چیزوں کو دیکھنے سے آنکھوں کو بند رکھے اور اس شخص کی مدد کرے جو بوجھ لادے ہوئے ہو تو ایسے شخص کا راستہ پر بیٹھنا گوارا ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح
حمولہ حاء کے پیش کے ساتھ ہے لیکن مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں یہ لفظ حاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے شارحین نے لکھا ہے کہ حمولہ حا کے زبر کے ساتھ اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس پر بوجھ لادا جاتا ہے اس شخص کی مدد کرے جو بوجھ لادے ہوئے ہو کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بار برداری کے جانور کی پیٹھ پر لادنے کے لیے یا خود اپنے سر پر یا اپنی پیٹھ پر رکھنے کے لیے کوئی بوجھ اٹھانا چاہتا ہو تو اس بوجھ کے اٹھانے سے اس کی مدد کرے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کو بنایا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا اس طرح انہوں نے اللہ تعالی کی توفیق و اجازت سے خدا کی حمد کی اللہ نے ان کی حمد کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ اور پھر فرمایا آدم فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ جو وہاں بیٹھی ہوئی ہے اور کہو کہ السلام علیکم(چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام ان فرشتوں کی جماعت کے پاس گئے اور ان کو سلام کیا) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ علیک السلام ورحمۃ اللہ۔ اس کے بعد حضرت آدم اپنے پروردگار کے پاس آئے یعنی اس جگہ لوٹ کر آئے جہاں پروردگار نے ان سے کلام کیا تھا اللہ نے ان سے یہ فرمایا (یعنی السلام علیکم و رحمۃ اللہ) تمہاری اور تمہاری اولاد کی دعا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کو دیں گے پھر اللہ تعالی نے ان سے فرمایا،درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے کہ ان دونوں ہاتھوں میں سے جس کو چاہو پسند کر لو۔ حضرت آدم نے کہا کہ میں نے اپنے پروردگار کے داہنے ہاتھ کو پسند کر لیا۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے برکت ہیں اللہ نے اس ہاتھ کو کھولا تو حضرت آدم نے کیا دیکھا کہ اس میں آدم اور آدم کی اولاد کی صورتیں دیکھیں انہوں نے پوچھا کہ پروردگار یہ کون ہیں؟پروردگار نے فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے حضرت آدم نے یہ بھی دیکھا کہ ہر مسلمان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی ہے پھر ان کی نظر ایک ایسے انسان پر پڑی جو سب سے زیادہ روشن تھا جو ان کے روشن ترین لوگوں میں سے ایک تھا حضرت آدم نے اس انسان کو دیکھ کر پوچھا کہ میرے پروردگار یہ کون ہے؟پروردگار نے فرمایا یہ تمہارا بیٹا داؤد ہے اور میں اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اس کی عمر کچھ اور بڑھا دے پروردگار نے فرمایا یہ وہ چیز ہے جس کو میں اس کے حق میں لکھ چکا ہوں حضرت آدم نے کہا کہ پروردگار اگر اس کی عمر لکھی جا چکی ہے تو میں اپنی عمر سے ساٹھ سال اس کو دیتا ہوں پروردگار نے فرمایا تم جانو اور تمہارا کام جانے یعنی اس معاملہ میں تم مختار ہو۔ رسول اکرم فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت آدم جنت میں رہے جب تک کہ اللہ نے چاہا اور پھر ان کو جنت سے زمین پر اتارا گیا اور حضرت آدم برابر اپنی عمر کے سالوں کو گنتے رہے یہاں تک کہ ان کی عمر نو سو چالیس سال ہوئی تو موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کے لیے ان کے پاس آیا حضرت آدم نے ان سے کہا کہ تم نے جلدی کی میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے فرشتے نے کہا کہ یہ صحیح ہے لیکن آپ نے اپنی عمر کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دیے ہیں حضرت آدم نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے نیز حضرت آدم اس ممانعت کو بھول گئے تھے جو حق تعالی کی طرف سے مشہور درخت کا پھل کھانے سے متعلق تھی اور ان کی اولاد بھی بھولی تھی آنحضرت نے فرمایا اس دن سے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ (ترمذی)
تشریح
درآنحالیکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ان الفاظ سے اس ہیبت کذائی کو بیان کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے ہاتھوں میں کوئی چیز بند کر کے اس کو چھپا لیتا ہے۔ اور میرے پروردگار کے دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں، یہ جملہ یا تو حضرت آدم نے فرمایا تھا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نقل کی یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا کلام ہے بہر صورت حق تعالی کی طرف ہاتھ اور داہنے ہاتھ کی نسبت کرنا متشابہات میں سے ہے البتہ علماء نے ان الفاظ کے کئی معنی اور تاویلات بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالی کے لیے ید ہاتھ کی صفت تو ثابت ہے لیکن ظاہری و جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ اللہ کے لیے جسمانی ہاتھ ثابت نہیں ہے لہذا مذکورہ عبارت جسمانی ہاتھ کی نفی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حق تعالی کے لیے جسمانی ہاتھ ثابت ہوتے تو یمین و شمال دایاں اور بایاں بھی ہوتا اور دونوں ہاتھ داہنے بابرکت ہیں سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہاں خیر و برکت کا وجود مراد ہے جو ید یمین داہنے ہاتھ اور لفظ یمین کے مادہ اشتقاق یمن معنی برکت کا تقاضا ہے۔
دوسرے یہ کہ جس طرح قوت اور گرفت میں مخلوقات کا بایاں ہاتھ کمزور اور ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالی کے ہاتھ میں کوئی کمزوری نہیں ہے بلکہ اس کے دونوں ہاتھ یکساں زور و قوت رکھتے ہیں اس اعتبار سے اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہوئے یہ بات اس طرح گویا سمجھانے کے لیے بیان کی گئی ہے ورنہ اس عبارت کی اصل مراد یہ بیان کرنا ہے کہ حق تعالی کی کسی صفت میں کسی طرح کی کوئی کمزوری اور نقص نہیں اور اس کی تمام صفات کامل ہیں۔
اور تیسرے یہ کہ ان الفاظ کا مقصد حق تعالی کے جو دو کرم اور احسان و انعام کی صفت کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے چنانچہ اہل عرب جب کسی ایسے شخص کی توصیف کرنا چاہتے تو بہت زیادہ نفع پہنچانے والا ہوتا تو اس کے حق میں یہ کہتے کہ کلتا یدیہ یمین یعنی اس شخص کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔
جو سب سے زیادہ روشن تھا اس عبارت سے ذہن میں ایک خلجان پیدا ہوتا ہے اور یہ کہ اس سے تمام انبیاء پر حضرت داؤد کی فضیلت لازم آتی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس موقع پر حق تعالی نے حضرت آدم کے سامنے حضرت داؤد کو ایک طرح کی امتیازی شکل و صورت میں ظاہر کیا تاکہ اس کی وجہ سے حضرت آدم ان کے بارے میں سوال کریں اور اس سوال پر وہ صورت حال مرتب ہو جو آگے پیش آئی یعنی حضرت آدم کا حضرت داؤد کو اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دینا اور پھر ملک الموت کے آنے پر اس سے انکار کرنا اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ حضرت داؤد کے روشن ترین ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تمام صفات کمالیہ میں سب سے ترجیح رکھتے تھے لہذا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا مصلحت کے پیش نظر اس عالم میں حق تعالی نے حضرت داؤد کی شکل و صورت میں ایک طرح کی خاص نوانیت ودیعت فرمائی ہو اور بلکہ وہ اس عالم میں بھی اس نورانیت سے متصف رہے ہوں، چنانچہ پیغمبروں میں سے ہر ایک نبی کسی نہ کسی خاص صفت سے موصوف رہا ہے اور اس صفت میں ان کو امتیازی حیثیت و خصوصیت حاصل رہی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ محض اس خاص صفت کی بناء اس نبی کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت و فوقیت کا درجہ حاصل ہو۔
میری عمر تو ایک ہزار سال مقرر کی گئی ہے ظاہر ہے کہ حضرت آدم نے یہ بات بالکل صحیح کہی تھی کیونکہ واقعۃً حق تعالی نے ان کی عمر ایک ہزار سال مقرر کی تھی البتہ اس بات کے ضمن میں ان کا مذکورہ انکار پوشیدہ تھا انہوں نے صریحاً یہ بات نہیں کہی کہ میں نے اپنی عمر سے داؤد کو کچھ نہیں دیا ہے اور صریحاً انکار ممکن بھی نہیں تھا کیوں کہ انبیاء کی زبان سے کوئی جھوٹ قصداً اور صریحاً صادر نہیں ہوتا لہذا کہا جائے گا کہ حضرت آدم کا یہ انکار بطور تعریض تھا جیسا کہ اس طرح کی بعض صورتیں دیگر انبیاء سے بھی صادر ہوتی ہیں یا یہ کہا جائے کہ حضرت آدم کا مذکورہ بطریق نسیان تھا یعنی انہیں یہ یاد نہیں رہا تھا کہ وہ اپنی عمر میں سے ساٹھ سال داؤد کو دے چکے ہیں اس لیے انہوں نے ملک الموت کے سامنے سے اس کا انکار کر دیا۔
اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہم عورتوں کے پاس سے گزرے جب کہ ہم کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں تو آپ نے ہمیں یعنی وہاں موجود تمام عورتوں کو سلام کیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ،دارمی)
تشریح
عورتوں کو سلام کرنے کی اجازت آنحضرت کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص تھی، کسی دوسرے مسلمان کے لیے جائز نہ تھی اور نہیں ہے کہ وہ اجنبی عورتوں کو سلام کرے جیسا کہ دوسری فصل کی حدیث کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے۔
اور حضرت طفیل بن ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور پھر صبح کے وقت ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے۔ حضرت طفیل کہتے ہیں کہ جب ہم صبح کے وقت بازار میں جاتے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جس بساطی جس بیچنے والے جس مسکین اور جس کسی شخص کے پاس سے بھی گزرتے اس کو سلام کرتے حضرت طفیل کہتے ہیں کہ ایک دن معمول کے مطابق میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ مجھ کو اپنے ہمراہ بازار لے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ بازار جا کر کیا کریں گے آپ نہ تو کسی خرید و فروخت کی جگہ ٹھہرتے ہیں اور نہ کسی بیچی جانے والی چیز کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ نہ تو مول تول اور کوئی سودا کرتے ہیں اور نہ بازار کی کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں لہذا بازار جانے سے اچھا تو یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ یہیں بیٹھتے تاکہ کچھ باتیں ہی کریں حضرت طفیل کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر مجھ سے کہا کہ اے بڑے پیٹ والے راوی کا بیان ہے کہ طفیل کا پیٹ بڑا تھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم خرید و فروخت کرنے یا کسی اور غرض سے بازار جایا کرتے ہیں نہیں بلکہ ہم صرف سلام کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو سلام کرتے ہیں جو ہم کو ملتا ہے اور اس طرح ہم بازار جا کر ثواب حاصل کرتے ہیں۔ (مالک، بیہقی)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے باغ میں فلاں شخص کا کھجور کا درخت ہے اور صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس درخت کے ہونے سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ وہ شخص اپنے اس درخت کی وجہ سے وقت بے وقت میرے باغ میں آتا جاتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو اس شخص کے پاس بھیجا تاکہ اس کو بلائے جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنا کھجور کا درخت میرے ہاتھ فروخت کر دو، اس نے کہا کہ میں فروخت نہیں کرتا، آپ نے فرمایا کہ اگر اس درخت کو بیچنے میں تمہیں کوئی عار محسوس ہوتا ہے تو اس کو میرے نام ہبہ کر دو۔ اس نے کہا میں ہبہ بھی نہیں کرتا آپ نے فرمایا اچھا اس درخت کو تم میرے ہاتھ کھجور کے ایسے درخت کے عوض فروخت کر دو جو تمہیں جنت میں ملے اس نے کہا میں اس طرح بھی فروخت نہیں کرتا آپ نے فرمایا میں نے تم سے بڑا بخیل کسی شخص کو نہیں دیکھا علاوہ اس شخص کے جو سلام کرنے میں بخل کرتا یعنی سلام کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا شخص تم سے بھی بڑا بخیل ہے کہ وہ اتنا ذرا سا کام کر کے بھی زیادہ ثواب حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ (احمد، بیہقی)
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ نبی نے اس شخص سے جو کچھ فرمایا بطریق سفارش تھا حکم کے طور پر نہیں تھا اگر آپ حکم کے طور پر فرماتے تو وہ انکار کرنے کی ہرگز جرات نہ کرتا کیونکہ وہ بہرحال مسلمان تھا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی حکم سے برملا انکار کسی صورت میں نہیں کر سکتا تھا، ہاں اگر وہ مسلمان نہ ہوتا تو حکم نبوی سے اس کا انکار کرنا کوئی تعجب خیز نہ ہوتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ تم اس درخت کو جنت کے کھجور کے درخت کے بدلے میرے ہاتھ فروخت کر دو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یقیناً مسلمان تھا تاہم سختی طبع سے خالی نہیں تھا۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے پاک ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب کہیں آتے جاتے وہ شخص آپس میں ملیں اور دونوں کی حیثیت یکساں نوعیت کی ہو جیسے دونوں پیدل ہوں یا دونوں سوار ہوں تو ان میں سے جو شخص پہلے سلام کرے گا وہ گویا یہ ظاہر کرے گا کہ خدا نے اس کو تکبر و غرور سے پاک رکھا ہے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا فرض ہے اگر کوئی شخص مجلس میں آئے اور وہاں سلام کرے تو مجلس والوں پر اس کے سلام کا جواب دینا فرض ہو گا۔ اور اگر وہ شخص دوبارہ اسی مجلس میں آئے اور پھر سلام کرے تو اب اس کے سلام کا جواب دینا ان پر فرض نہیں ہو گا البتہ مستحب ہو گا۔ سلام اور اس کا جواب، دونوں کے الفاظ بصیغہ جمع ہونے چاہئیں اگرچہ مخاطب فرد واحد ہو تاکہ ملائکہ جو ہر شخص کے ساتھ ہوتے ہیں سلام میں مخاطب کے ساتھ وہ بھی شریک ہوں۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ ایک شخص سرخ کپڑے پہنے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص سلام کرتے وقت کسی نامشروع امر کا مرتکب ہو وہ سلام کے جواب کا مستحق نہیں ہو گا۔