دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارنے کے بعد منیٰ ہی میں ہدی ذبح کی جاتی ہے اس کے بعد سر منڈا کر یا بال کتروا کر احرام کھول دیا جاتا ہے اس طرح رفث (عورت سے جماع وغیرہ) کے علاوہ ہر وہ چیز جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی، جائز ہو جاتی ہے، چنانچہ اس باب میں سر منڈوانے اور بال کتروانے دونوں چیزوں کا ذکر ہے، اگرچہ مؤلف مشکوٰۃ نے عنوان میں صرف سر منڈوانے کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے کیونکہ احرام سے نکلنے کے لئے بال کتروانے کی بہ نسبت سر منڈانا افضل ہے، اس بارے میں تفصیل انشاء اللہ حسب موقع بیان ہو گی۔
یہ بات جان لیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں یہ کہیں ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج و عمرہ کے علاوہ اور کبھی سر منڈایا ہو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈایا اور صحابہ میں سے کچھ نے تو اپنے سر منڈائے اور کچھ نے اپنے بال کتروائے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے سر منڈائے انہوں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع کے جذبے اور حصول افضلیت کو پیش نظر رکھا اور جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے بال کتروانے پر اکتفاء کیا (انہوں نے گویا جواز پر عمل کیا کہ بال کتروانا بھی جائز ہے)۔ صحیحین وغیرہم میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرۃ القضاء میں سر منڈانے کی بجائے بال کتروائے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ دونوں چیزیں ثابت ہیں لیکن افضل سر منڈانا ہی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر کے بال مروہ کے قریب تیر کی پیکان سے کترے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مشقص کے معنی ہیں تیر کی پیکان لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ مشقص بڑی قینچی کو کہتے ہیں اور یہ معنی زیادہ مناسب اور زیادہ صحیح ہیں۔
احادیث سے چونکہ یہ بات ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے حج میں سر کے بال کتروائے نہیں بلکہ منڈوائے تھے اس لئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان کا تعلق حج سے نہیں بلکہ عمرے سے ہے، چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ عند المروۃ (مروہ کے قریب) بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال حج میں کترتے تو مروہ کے قریب نہ کہتے بلکہ یہ کہتے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر کے بال منیٰ میں کترے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا۔ اے اللہ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بال کتروانے والوں کے لئے دعاء رحمت کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے اللہ! سر منڈانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ نے جب پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعاء رحمت کیجئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (اے اللہ) اور بال کتروانے والوں پر بھی رحم فرما۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس بات سے سر منڈانے کی افضلیت ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر منڈانے والوں کے لئے تو کئی بار دعاء رحمت کی اور بال کتروانے والوں کے لئے کئی بار کے بعد ایک ہی مرتبہ دعاء رحمت کی۔
٭٭ حضرت یحییٰ بن حصین (تابعی) اپنی دادی محترمہ سے (کہ جن کی کنیت ام الحصین ہے) نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سر منڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ اور بال کتروانے والوں کے لئے آخر میں ایک مرتبہ دعا کرتے سنا۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے پہلے بخاری و مسلم کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر منڈانے والوں کے لئے تو دو مرتبہ دعا کی اور تیسری مرتبہ میں بال کتروانے والوں کو بھی شامل فرمایا، نیز بخاری و مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوتھی مرتبہ میں بال کتروانے والوں کو شامل فرمایا، جب کہ مسلم کی یہ روایت بتار ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر منڈانے والوں کے لئے تو تین مرتبہ دعا کی اور بال کتروانے والوں کے لئے ایک مرتبہ، اب چاہے تو ان کو تو تیسری ہی مرتبہ میں شامل کیا ہو، چاہے چوتھی مرتبہ ان کے لئے علیحدہ سے دعا کی۔
بہرکیف ان تمام روایتوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا کئی مجلسوں میں کی ہو گی، چنانچہ کسی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر منڈانے والوں کے لئے دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ میں بال کتروانے والوں کے لئے دعا کی اور کسی مجلس میں تین مرتبہ سر منڈانے والوں کے لئے اور چوتھی مرتبہ بال کتروانے والوں کے لئے دعا کی ہو گی، یا پھر یہ کہ جس راوی نے جو سنا اور اس پر جو حقیقت ظاہر ہوئی اس نے اسی کو ذکر کیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منیٰ میں آنے کے بعد جمرہ عقبہ کے پاس تشریف لائے اور وہاں کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور اپنی ہدی کے جانوروں کو ذبح کیا، اس کے بعد سر مونڈنے والے کو (جس کا نام معمر بن عبداللہ تھا) بلایا اور اپنے سر کا دایاں حصہ اس کے سامنے کیا، چنانچہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر (کے اس داہنے حصہ) کو مونڈا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو اپنے وہ مونڈے ہوئے بال دئیے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے سر کا بایاں حصہ مونڈنے والے کی طرف کر کے فرمایا کہ اب اسے مونڈو، چنانچہ اس نے مونڈ دیا، یہ بال بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو دے دئیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سر منڈانے میں دائیں طرف سے ابتداء کرنا سنت ہے، نیز اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دائیں طرف میں منڈوانے والے کا اعتبار ہے کہ وہ اپنے سر کو دائیں طرف سے منڈوانا شروع کرے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مونڈنے والے کی دائیں طرف کا اعتبار ہے یعنی مونڈنے والا اپنی دائیں طرف سے سر مونڈنا شروع کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگاتی تھی (احرام خواہ حج کا ہوتا خواہ عمرہ کا اور خواہ دونوں کا) اور میں نحر (قربانی) کے دن بھی خانہ کعبہ کے طواف سے پہلے (سر منڈانے اور کپڑے پہننے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خوشبو لگاتی تھی، اور خوشبو بھی وہ جس میں مشک ہوتا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
علماء لکھتے ہیں کہ جن مواقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو لگانے کا ذکر کیا ہے یعنی احرام باندھنے سے پہلے اور نحر کے دن طواف خانہ کعبہ سے قبل، اگر ان اوقات میں خوشبو لگائی جائے تو مشک اور گلاب کی خوشبو لگانا سب سے بہتر اور اولیٰ ہے کیونکہ ان دونوں میں صرف خوشبو ہوتی ہے رنگ نہیں ہوتا۔
نحر (قربانی کے دن) یعنی دسویں ذی الحجہ کو سر منڈانے کے بعد حاجی احرام سے باہر ہو جاتے ہیں یعنی وہ چیزیں جو احرام کی وجہ سے ان پر حرام تھیں اس دن سب حلال ہو جاتی ہیں علاوہ رفث کے اور جب طواف زیارت سے فراغت ہو جاتی ہے تو رفث بھی حلال ہو جاتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نحر کے دن (رمی اور قربانی سے فارغ ہو کر) مکہ تشریف لائے اور چاشت کے وقت طواف فرض کیا پھر (اس روز) وہاں سے واپس ہوئے اور ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھی جب کہ باب حجۃ الوداع میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن ظہر کی نماز مکہ میں ادا فرمائی؟ چنانچہ دونوں روایتوں کے اس ظاہری تضاد کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی تشریح میں رفع کیا جا چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز تو مکہ ہی میں ادا کی تھی البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں نفل نماز پڑھی جس کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز گمان کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کو اپنا سر منڈوانے سے منع فرمایا ہے۔ (ترمذی)
تشریح
اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب احرام سے باہر آئیں تو سر منڈانا ان پر واجب نہیں ہے بلکہ ان کے لئے حرام ہے ہاں بال کتروانا ان پر واجب ہے، بخلاف مردوں کے کہ ان پر دونوں چیزوں میں سے کوئی ایک واجب ہے کہ چاہے تو سر منڈائیں چاہے صرف بال کتروا لیں البتہ سر منڈانا افضل ہے۔
حنفیہ کے ہاں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ سر منڈانے کے سلسلہ میں صرف چوتھائی سر کا منڈنا واجب ہے اور پورے سر کا منڈانا افضل ہے، ہاں بال کتروانے کے سلسلہ میں واجب صرف چوتھائی سر کے بال کو ایک انگلی پور کے برابر کتروانا ہے اور پورے سر کے بال کتروانے مستحب ہیں، لیکن علامہ ابن ہمام نے اس قول کو اختیار کیا ہے جو حضرت امام مالک کا مسلک ہے کہ پورے سر کو منڈوانا یا پورے سر کے بال کتروانا ہی واجب ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ یہی صواب ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع کے موقع پر جب منیٰ میں ٹھہرے تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسائل دریافت کریں تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ ناواقفیت کی وجہ سے میں نے ذبح کرنے سے پہلے اپنا سر منڈا لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب ذبح کر لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے ناواقفیت کی بناء پر کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جس فعل کی بھی تقدیم یا تاخیر کے بارے میں سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے خانہ کعبہ کا فرض طواف کنکریاں مارنے سے پہلے کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔
تشریح
اس روایت میں ان افعال حج کی تقدیم و تاخیر کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے اور سائلین کے جواب دئیے گئے ہیں جو قربانی کے دن یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کئے جاتے ہیں، چنانچہ اس دن چار چیزیں ہوتی ہیں جن کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے منیٰ میں پہنچ کر جمرہ عقبہ پر جو ایک مینار ہے سات کنکریاں ماری جائیں، پھر جانور کہ جن کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے ذبح کئے جائیں اس کے بعد سر منڈایا جائے یا بال کتروائے جائیں اور پھر مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے، اس ترتیب کے ساتھ ان افعال کی ادائیگی اکثر علماء کے نزدیک مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں سنت ہے چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک اگر ان افعال کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو بطور جزاء (اس کے بدلہ میں) دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب نہیں ہوتا۔ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب واجب ہے۔ حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک بھی اس جماعت کے ساتھ ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ ارشاد گرامی اس میں کوئی حرج نہیں ہے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ تقدیم و تاخیر چونکہ ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن جزاء کے طور پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو گا۔ لہٰذا ان حضرات کے مسلک کے مطابق ان چاروں چیزوں میں سے کوئی چیز اگر مقدم یا مؤخر ہو گئی تو بطور جزاء ایک بکری یا اس کے مانند کوئی جانور ذبح کرنا ضروری ہو گا۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ نے ایسی ہی ایک حدیث روایت کی ہے جب کہ خود انہوں نے مذکورہ افعال کی تقدیم و تاخیر کے سلسلہ میں دم واجب کیا ہے اگر وہ حدیث کے وہ معنی نہ سمجھتے جو حضرت امام اعظم اور ان کے ہمنواء علماء نے سمجھے ہیں تو وہ خود دم واجب کیوں کرتے؟
٭٭ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قربانی کے دن منیٰ میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے (تقدیم و تاخیر کے سلسلہ میں) مسائل دریافت کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جواب میں یہی فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میں نے شام ہونے کے بعد کنکریاں ماری ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ (بخاری)
تشریح
دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے دن کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے تو اس پر دم واجب ہو گا، چنانچہ ان کے نزدیک حدیث میں شام کے بعد سے مراد بعد عصر ہے۔
حنفیہ کے ہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ دسویں ذی الحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت کنکریاں مارنے کے لئے وقت جواز ہے مگر اساء ۃ کے ساتھ، یعنی اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد ہی کنکریاں مارے تو یہ جائز ہو جائے گا مگر یہ اچھا نہیں ہو گا۔ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک کا وقت، وقت مسنون ہے۔ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت، وقت جواز ہے مگر بغیر اساء ۃ کے یعنی اگر کوئی شخص زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کے کسی حصہ میں کنکریاں مارے تو یہ جائز بھی ہو گا اور اس کے بارے میں یہ بھی نہیں کہیں گے کہ اس نے اچھا نہیں کیا۔ البتہ وقت مسنون کی سعادت اسے حاصل نہیں ہو گی۔ اور غروب آفتاب کے بعد یعنی رات کا وقت، وقت جواز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔
مگر اتنی بات ذہن میں رہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص بلا عذر اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب بھی غروب ہو جائے اور پھر وہ رات میں کنکریاں مارے، چنانچہ اگر چروا ہے یا ان کے مانند وہ لوگ جو کسی عذر کی بناء پر رات ہی میں کنکریاں مار سکتے ہوں تو ان کے حق میں کراہت نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمانا کہ کوئی حرج نہیں ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سائل کوئی چرواہا ہو گا جس نے شام کے بعد یعنی رات میں کنکریاں ماریں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا کہ تم چونکہ دن میں کنکریاں مارنے سے معذور تھے اس لئے رات میں کنکریاں مارنے کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر رمی کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ صبح ہو جائے تو وہ رمی کرے گا مگر اس پر بطور جزاء دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو جائے گا، یہ حضرت امام اعظم کا قول ہے صاحبین کا اس سے اختلاف ہے۔
یوم نحر کے بعد کے دو دنوں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں مارنے کا وقت مسنون زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک مکروہ ہے، لہٰذا فجر طلوع ہوتے ہی حضرت امام اعظم کے نزدیک وقت ادا ختم ہو جاتا ہے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وقت ادا طلوع فجر کے بعد بھی باقی رہتا ہے، گویا رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد بالاتفاق باقی رہتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کی رمی حضرت امام اعظم کے ہاں وقت قضا میں ہو گی اور صاحبین کے ہاں وقت ادا ہی میں! اور چوتھے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوتے ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک رمی کا وقت ادا بھی فوت ہو جاتا ہے اور وقت قضا بھی۔
٭٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے طواف افاضہ یعنی فرض طواف سر منڈانے سے پہلے کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب سر منڈا لو یا بال کتروا لو۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ترمذی)
٭٭ حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ادائیگی حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے چنانچہ حج کے دوران جو لوگ مسائل پوچھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آتے تھے، ان میں کوئی یہ کہتا کہ یا رسول اللہ! میں نے طواف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے یا افعال منیٰ میں سے یہ کام میں نے پہلے کر لیا یا یہ کام میں نے بعد میں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے فرماتے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ گناہ اس شخص پر ہے جو ظالم ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کی آبروریزی کرے پس یہ وہ شخص ہے جو گنہگار ہے اور ہلاک ہوا۔ (ابوداؤد)
تشریح
اگر احرام باندھنے اور طواف قدوم یا طواف نفل سے پہلے سعی کر لی جائے تو صحیح نہیں ہو گی یعنی طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ سعی، احرام اور طواف کے بعد ہو خواہ نفل ہی طواف ہو۔
اس لئے میں طوف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ سائل اگر آفاقی (یعنی غیر مکی) تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف قدوم کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے۔ اور اگر سائل مکی تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف نفل کے بعد طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر افعال منیٰ میں نادانستگی کی وجہ سے کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دراصل گناہگار تو وہ شخص ہے جو از راہ ظلم و ایذاء رسانی ناحق کسی کی آبروریزی کرے مثلاً کسی کی اہانت کرے یا کسی کی غیبت کرے۔ گویا وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں رہا جو دین کی خاطر کسی کی آبروریزی کرے چنانچہ ایسا شخص گنہگار نہیں ہوتا۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن ہمارے سامنے خطبہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا۔ لوگو! یعنی سال کی گردش پوری ہو گئی اپنی اس وضع کے موافق جس پر کہ وہ اس روز تھا جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا (یعنی سال اپنی وضع کے مطابق بارے مہینے کا پورا ہو گیا ہے) سال بارے مہینے کا ہوتا ہے جس میں سے چار مہینے باحرمت ہیں تین تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چھوتا مضر کا رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ! زیادہ جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مہینہ کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا بے شک ذی الحجہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شہر کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپ نے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ کا ایک نام ہے) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ بے شک ! بلدہ ہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہ یوم نحر (قربانی کا دن) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ بے شک یہ یوم نحر ہی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں تم پر ہمیشہ کے لئے اسی طرح حرام ہیں جس طرح کہ تمہارے اس دن میں، تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں! اور اے لوگو! تم عنقریب اپنے پروردگار سے ملو گے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا! خبردار! میری وفات کے بعد تم ضلالت کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو! آگاہ! کیا میں نے (احکام خداوندی کا پہنچانے کا) اپنا فرض ادا کر دیا؟ ہم نے عرض کیا بے شک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ پروردگار تو (ان لوگوں کے اس اقرار پر) گواہ رہ (تاکہ یہ قیامت کے دن اپنے اس اقرار کا انکار نہ کریں) پھر (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ) جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، کیونکہ بعض وہ لوگ جنہیں کوئی بات پہنچائی جائے اس بات کو سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
شافعیہ کے نزدیک ایام نحر کے پہلے دن یعنی دسویں ذی الحجہ کو خطبہ پڑھنا مستحب ہے، جب کہ حنفیہ کے ہاں نحر کے دوسرے دن یعنی گیارہویں ذی الحجہ کو مستحب ہے، چنانچہ حنفی مسلک کے مطابق ایک خطبہ تو ذی الحجہ کی ساتویں کو، ایک خطبہ نویں کو اور ایک خطبہ گیارہویں کو پڑھا جاتا ہے اور ان خطبات میں حج کے احکام بیان کئے جاتے ہیں جن احادیث صحیحہ میں دوسرے دن (یعنی گیارہویں) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حنفی مسلک کی مؤید ہیں لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور تذکیر و نصیحت یہ خطبہ دیا ہو گا اور اصل خطبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے ہی دن ارشاد فرمایا تھا۔
ارشاد گرامی کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے سال کے جو بارے مہینے مقرر فرمائے تھے اس کے مطابق بارہ مہینے کا یہ سال پورا ہو گیا، چنانچہ قرآن کریم میں سال کے بارے مہینوں کے سلسلہ میں یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (ان عدۃ الشہور عنداللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم) الخ۔ یقیناً شمار مہینوں کا کتاب الٰہی میں اللہ کے نزدیک بارے مہینے ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں اہل عرب نے سال کے مہینوں میں تغیر کر دیا تھا جس کی صورت یہ تھی کہ وہ ایک سال کو بارے مہینے کا رکھتے تو ایک سال کو تیرہ مہینوں کا، اس طرح وہ حج کی ادائیگی کو ہر دو برس بعد ایک مہینہ مؤخر کر دیتے تھے، مثلاً ایک سال وہ کسی مہینہ میں حج کرتے پھر دوسرے سال کو تیرہ مہینے کا قرار دے کر اس مہینہ میں حج کرتے جو پہلے سال کے ماہ حج کے بعد آتا۔ اس صورت میں نہ صرف یہ کہ حج کا مہینہ بدلتا رہتا تھا بلکہ جو مہینے اشہر حرام ہوتے ان کو تو وہ اشہر حلال قرار دے لیتے اور جو مہینے اشہر حلال ہوتے ان کو اشہر حرام بنا لیتے تھے، مثلاً جن مہینوں میں جنگ و جدل حرام نہ ہوتا، اس میں تو وہ جنگ و جدل سے اجتناب کرتے اور ان مہینوں کی خوب تعظیم کرتے اور جن مہینوں میں جنگ و جدال حرام ہوتا اس میں پوری طرح جنگ و جدال کرتے، گویا جو مہینہ واقعۃً محرم کا مہینہ ہوتا اسے وہ احمق اپنے حساب کی رو سے محرم کا مہینہ نہ سمجھتے نتیجہ اس میں خوب لڑتے مرتے، اسی طرح صفر یا کسی دوسرے مہینے کو اپنے حساب سے حرام ٹھہرا لیتے اور اس میں لڑنے مرنے سے باز رہتے، چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کے اس احمقانہ طرز عمل کے بارے میں یہ حکم فرمایا۔ آیت (انما النسیء زیادۃ فی الکفر)۔ اور ان کی طرف سے مہینوں میں یہ تبدیلی ان کے کفر میں زیادتی ہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے حساب کو باطل قرار دیا اور سال کے ہر مہینے کو اس کی اصل پر برقرار رکھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس سال حجۃ الوداع کیا ہے اس سال ذی الحجہ کا مہینہ اپنی اصل پر تھا، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان الزمان قد استدار کہیئۃ (سال کی گردش اپنی وضع کے موافق پوری ہو گئی) ارشاد فرما کر لوگوں کو آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ مہینہ ماہ ذی الحجہ ہے اور حج کا یہی مہینہ ہے، لہٰذا اس مہینہ کو یاد رکھو، اسی مہینہ میں حج کیا کرو اور آئندہ ایک مہینہ کو دوسرے مہینہ سے تبدیل نہ کرو۔
مشہور مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں اہل عرب کا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جب ماہ حرام آتا اور ان کو اس مہینہ میں لڑنا منظور ہوتا تو وہ اس ماہ حرام کو حلال قرار دے لیتے اور اس کے بعد کسی اور حلال مہینہ کو ماہ حرام بنا لیتے اس طرح مہینوں کی جو اصل خصوصیت تھی اسے تو انہوں نے ترک کر دیا تھا صرف عدد کا اعتبار رکھا تھا۔
حدیث کے الفاظ۔ السنۃ اثنا عشر شہرا۔ جملہ مستانفہ ہے یعنی علیحدہ ایک جملہ ہے جو ماقبل جملہ کا بیان اور اس کی وضاحت ہے۔
منہا اربعۃ حرم (جس میں چار مہینے با حرمت ہیں) جیسا کہ حدیث نے ان چار مہینوں کی وضاحت کی ہے وہ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ان مہینوں میں قتل و قتال اور جنگ و جدل ممنوع ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ آیت (فَلَا تَظْلِمُوْا فِیهِنَّ اَنْفُسَكُمْ) 9۔ التوبہ:36)۔ پس ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
لیکن علماء کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ ان مہینوں میں قتل و قتال اور جنگ و جدل کی حرمت منسوخ ہے، ان کے نزدیک مذکورہ بالا آیت میں ظلم سے مراد ارتکاب معاصی ہے۔ اس طرح آیت بالا کا مطلب یہ ہو گا کہ ان مہینوں میں گناہ کر کے اپنے نقصان مت کرو کیونکہ جس طرح حرم میں اور حالت احرام میں گناہ کرنا بہت ہی برا ہے اسی طرح ان مہینوں میں ارتکاب معاصی بھی بہت بری بات ہے، ان علماء کے اس قول کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شوال اور ذی قعدہ کے مہینوں میں طائف کا محاصرہ اور قبیلہ ہوزن کے ساتھ غزوہ کیا تھا۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان مہینوں میں حرمت قتل کا حکم اب بھی باقی ہے۔
مضر عرب کے ایک قبیلہ کا نام تھا، یہ قبیلہ ماہ رجب کی بہت زیادہ تعظیم کرتا تھا، اسی وجہ سے رجب کی نسبت اس قبیلہ کی طرف کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجب مضر (مضر کا رجب) فرمایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے مہینہ، دن اور شہر کا نام اس لئے پوچھا تاکہ لوگوں کے ذہن و قلوب میں اس مہینہ دن اور شہر کی حرمت پوری طرح جاگزیں ہو اور اس طرح وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرنے کا پورا عزم و یقین پیدا کریں جسے بعد میں بیان کرنا مقصود تھا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوال پر لوگوں کا جواب میں یہ کہنا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ نہ صرف از راہ ادب تھا بلکہ اس سے یہ جاننا بھی مقصود تھا کہ اس سوال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غرض کیا ہے۔
بعض احادیث میں فلا ترجعوا بعدی ضلالا (میری وفات کے بعد تم ضلالت کی طرف نہ لوٹ جانا) میں لفظ ضلالا کی بجائے لفظ کفارا ذکر کیا گیا ہے اس صورت میں اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ میری وفات کے بعد اعمال میں کافروں کے مشابہ نہ ہو جانا کہ ان کافروں کی طرح تم بھی ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
حضرت وبرہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میں (گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو) رمی جمار کس وقت کروں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام رمی کرے، اسی وقت تم بھی رمی کرو (یعنی رمی میں اس شخص کی پیروی کرو جو رمی کے وقت کے بارے میں تم سے زیادہ جانتا ہو) میں نے ان کے سامنے پھر یہ مسئلہ رکھا (یعنی میں نے ان سے رمی کے وقت کی مزید وضاحت چاہی) انہوں نے فرمایا ہم رمی کے وقت کا انتظار کرتے تاآنکہ جب دوپہر ڈھلتی تو ہم کنکریاں مارتے۔ (بخاری)
حضرت سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (یعنی ابن عمر) نزدیک کے جمرہ یعنی جمرہ اولیٰ پر سات کنکریاں مارنے اور ہر کنکری کے بعد اللہ اکبر کہتے پھر آگے بڑھتے یہاں تک کہ جب نرم زمین پر پہنچتے تو دیر تک (یعنی بقدر تلاوت سورہ بقرہ) قبلہ رو کھڑے رہتے اور دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جمرہ وسطی پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے، پھر بائیں جانب کو بڑھتے اور نرم زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور دیر تک کھڑے رہتے، پھر وہ وہاں سے واپس ہوتے اور کہتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (بخاری)
تشریح
مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق رمی اگرچہ حنفیہ کے ہاں سنت ہے لیکن احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس ترتیب کو ترک نہ کیا جائے کیونکہ یہ ترتیب حضرت امام شافعی وغیرہ کے نزدیک واجب ہے! موالات یعنی تمام جمرات پر پے در پے رمی بھی سنت ہے جب کہ یہ حضرت امام مالک کے مسلک میں واجب ہے۔
من بطن الوادی (بطن وادی سے) یہ بات معلوم ہوئی کہ رمی جمرہ عقبہ، بطن وادی سے (یعنی نشیبی حصہ میں کھڑے ہو کر) کی جائے چنانچہ نشیب میں کھڑے ہو کر رمی کرنا مسنون ہے۔ لیکن ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر اوپر کی جانب سے جمرہ عقبہ پر کنکریاں پھینکی جائیں تو اس طرح بھی رمی ہو جائے گی مگر یہ خلاف سنت ہے۔
جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کے پاس ٹھہرنا اور حمد و صلوٰۃ اور وہاں دعا میں مشغول ہونا تو ثابت ہے لیکن تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبی کے پاس ٹھہرنا اور دعا مانگنا ثابت نہیں ہے اور اس کی کوئی وجہ علت منقول نہیں ہے اگرچہ بعض علماء نے اس بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کی درخواست کی کہ جن راتوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے ان میں انہیں سبیل زمزم کی خدمت کے لئے مکہ رہنے کی اجازت دے دی جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
طواف افاضہ کے بعد آب زمزم پینا مستحب ہے چنانچہ اس زمانہ میں زمزم کے کنوئیں کے قریب ہی کئی حوض زمزم کے پانی سے بھرے رہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص اژدحام وغیرہ کی وجہ سے کنوئیں سے پانی نہ پی سکے تو وہ ان حوضوں میں سے پی لے، سبیل زمزم کی نگرانی کی سعادت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو حاصل تھی، اس طرح زمزم کا پانی پلانے کی اس عظیم السعادت خدمت کو وہ اپنے کئی مددگاروں کے ذریعہ انجام دیتے تھے! چنانچہ جن راتوں میں حاجی منیٰ میں قیام کرتے ہیں انہیں راتوں میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں ان راتوں میں مکہ میں رہوں تاکہ سبیل زمزم کی جو مقدس خدمت میرے سپرد ہے اسے انجام دے سکوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔
اب مسئلہ کی طرف آئیے، جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں ان میں منیٰ میں قیام اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں ان راتوں میں منیٰ میں رہنا سنت ہے، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔
اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رہے کہ رات کے قیام کے سلسلہ میں رات کے اکثر حصہ یعنی آدھی رات سے زیادہ کے قیام کا اعتبار ہے اور یہی حکم ان راتوں کا بھی ہے جن میں عبادت وغیرہ کے لئے شب بیداری مستحب ہے مثلاً لیلۃ القدر وغیرہ کہ ان راتوں کے اکثر حصہ کی شب بیداری کا اعتبار ہے۔
بہرکیف جن علماء کے نزدیک منیٰ میں رات کا قیام سنت ہے جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ اگر منیٰ میں رات میں قیام واجب ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ان راتوں میں مکہ میں رہنے کی اجازت کیسے دیتے۔
بعض حنفی علماء کہتے ہیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرح جس شخص کے سپرد زمزم کا پانی پلانے کی خدمت ہو یا جس کو کوئی شدید عذر لاحق ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ جو راتیں منیٰ میں گزاری جاتی ہیں وہ ان میں منیٰ کا قیام ترک کر دے، گویا اس سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ بلا عذر سنت کو ترک کرنا جائز نہیں ہے اور یہ کہ کسی عذر کی بناء پر سنت کو ترک کرنے میں اساء ۃ بھی نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سبیل پر تشریف لائے اور زمزم کا پانی مانگا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے کہا کہ فضل! اپنی والدہ کے پاس جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان سے (زمزم کا وہ) پانی مانگ لاؤ جو ان کے پاس رکھا ہوا ہے اور ابھی استعمال نہیں ہوا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم تو مجھے اسی سبیل سے پانی پلا دو۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ہے مجھے اسی میں سے پلا دو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پانی میں سے پیا اور پھر زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لائے جہاں لوگ(یعنی عبدالمطلب کے خاندان والے) لوگوں کو پانی پلا رہے تھے اور اس خدمت میں پوری طرح مصروف تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا اپنا کام کئے جاؤ، کیونکہ تم ایک نیک کام میں لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غلبہ پا لیں گے تو میں اپنی اونٹنی پر سے اترتا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار تھے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب کے سامنے رہیں اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کے عملی احکام سیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مونڈھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رسی اس پر رکھتا (یعنی اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری سنت کی اتباع میں پانی کھینچنے لگیں گے اور اس سعادت کے حصول کے لئے اتنا اژدحام کریں گے کہ وہ تم پر غالب آ جائیں گے اور تمہیں پانی نہ کھینچنے دیں گے جس کی وجہ سے یہ مقدس خدمت تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے گی تو میں بھی اپنی اونٹنی سے اتر کر اس کنویں سے پانی کھینچتا۔ (بخاری)
تشریح
لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اس بات سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ یہاں پانی پینے والوں کا اژدحام رہتا ہے اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ صاف ستھرے نہیں ہوتے اور وہ پانی پینے کے لئے اس حوض میں اپنے ہاتھ ڈالتے رہتے ہیں اس لئے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اس پانی میں سے منگایا ہے جو بالکل الگ رکھا ہوا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے منظور نہیں کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تم تو مجھے اسی حوض میں سے پانی پلا دو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی حوض سے پانی پیا گویا یہ بات اس روایت کی مانند ہے جس میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچا ہوا پانی از راہ تبرک پینا پسند فرماتے تھے! نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی) نقل کیا ہے کہ یہ چیز تواضع میں داخل ہے کہ انسان اپنے (کسی) بھائی کا جھوٹا پئے۔ لیکن لوگوں میں جو یہ حدیث مشہور ہے کہ سورہ المؤمنین شفاء (مومنین کا جھوٹا شفا ہے) تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ حدیث غیر معروف ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
مذکورہ بالا روایت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمزم کے کنوئیں سے پانی کھینچنے اور پینے کے لئے اونٹنی سے اترے نہیں، جب کہ ایک اور روایت میں جو حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب طواف افاضہ کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمزم کے کنویں سے ڈول (میں پانی کھینچا اور اس کھینچنے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے پیا اور ڈول میں جو پانی بچ گیا اسے کنویں میں ڈال دیا۔
ان دونوں روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھیڑ کی وجہ سے اونٹنی سے نہ اترے ہوں گے پھر دوبارہ تشریف لائے تو بھیڑ دیکھ کر پانی کھینچا اور پیا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کا تعلق پہلی مرتبہ سے ہے اور حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق دوسری مرتبہ سے ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو منیٰ سے روانہ ہو کر محصب میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور وہیں کچھ دیر تک سو رہے پھر خانہ کعبہ کے لئے سوار ہوئے اور وہاں پہنچ کر طواف (طواف وداعی) کیا۔ (بخاری)
تشریح
محصب اصل میں تو اس زمین کو کہتے ہیں جہاں بہت زیادہ کنکریاں ہوں، لیکن یہ ایک خاص جگہ کا نام بھی ہے جو مکہ و مدینہ کے درمیان منیٰ کے قریب واقع ہے اور چونکہ اس جگہ کو محصب کے علاوہ ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں، اسی لئے راوی نے یہاں تو یہ کہا کہ آپ نے محصب میں نماز پڑھی اور دوسری روایت میں یہ کہا گیا کہ ابطح میں نماز پڑھی۔
حضرت عبدالعزیز بن رفیع (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق اس بارے میں جو کچھ جانتے ہیں مجھے بتائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ترویہ کے دن (یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو) ظہر کی نماز کہاں پڑھی ؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ منیٰ میں عبدالعزیز کہتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفر کے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابطح میں۔ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اسی طرح کرو جس طرح تمہارے سردار کرتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو اسی طرح کیا تھا لیکن تم اس بارے میں اپنے سردار اور اپنے امیر کی پیروی و اتباع کرو کہ جس طرح وہ کریں اسی طرح تم کرو تاکہ ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے کوئی فتنہ انگیزی نہ ہو اور ویسے یہ کوئی ضروری بات بھی نہیں ہے کہ ترویہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہاں ظہر کی نماز اور نفر کے دن جہاں عصر کی نماز پڑھی ہے وہیں تم بھی پڑھو۔
پہلی روایت سے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفر کے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو ظہر کی نماز محصب میں پڑھی تھی جب کہ یہ حدیث اس سلسلہ میں خاموش ہے چنانچہ ان دونوں روایتوں میں بایں معنی کوئی تضاد نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز محصب ہی میں پڑھی تھی جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی پہلی روایت سے معلوم ہوا مگر اس موقع پر چونکہ حضرت عبدالعزیز نے اس دن کی ظہر کی نماز کے بارے میں دریافت نہیں کیا اس لئے اس دوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابطح میں اترنا یعنی ٹھہرنا سنت نہیں ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو وہاں صرف اس لئے اترے تھے کہ مکہ سے چلنے میں آسانی ہو جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے واپس ہوئے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تیرہویں ذی الحجہ کو منیٰ سے لوٹے تو ابطح یعنی محصب میں صرف اس غرض سے ٹھہر گئے تھے تاکہ وہاں اپنا سامان وغیرہ چھوڑ کر مکہ جائیں اور وہاں طواف الوداع کریں اور جب مکہ سے مدینہ واپس ہوں تو اس وقت سامان وغیرہ ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے آسانی ہو۔
اس بارے میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ تحصب یعنی محصب میں ٹھہرنا سنت ہے اور افعال حج کا ایک تتمہ ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے، ان کے نزدیک قیام محصب کے مسنون ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں فرمایا تھا کہ کل ہم انشاء اللہ خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں ٹھہریں گے، اور اس کا سبب یہ تھا کہ خیف بنی کنانہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مکی زندگی میں باہم یہ عہد و پیمان کیا تھا اور یہ قسم کھائی تھی کہ ہم بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب یعنی ان دونوں خاندانوں کے لوگوں سے میل جول، نکاح بیاہ، خرید و فروخت اور ان میں اٹھنا بیٹھنا اس وقت تک چھوڑے رہیں گے جب تک یہ لوگ محمد کو ہمارے سپرد نہ کر دیں گے گویا اس مقام پر انہوں نے ان خاندانوں سے مکمل مقاطعہ اور بائیکاٹ کا اعلان کر کے شعائر کفر کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی قوت کو غالب فرمایا اور کفر و شرک کا پھیلاؤ دور ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ سے مکہ کو واپس ہوتے ہوئے یہ چاہا کہ اس جگہ یعنی خیف بنی کنانہ (محصب) میں ٹھہر کر شعائر اسلام کو ظاہر کریں جہاں کچھ ہی سال پیشتر کفار نے شعائر کفر کو ظاہر کیا تھا اور اس طرح وہاں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جو اس نے اسلام کو غلبہ اور عظمت دے کر عطا فرمائی تھیں۔
طبرانی نے اوسط میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یوم النفر کی رات میں ابطح میں ٹھہرنا منجملہ سنت ہے، نیز یہ کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کو اس رات میں ابطح میں ٹھہرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔
فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابطح میں اس مقصد سے قیام فرماتے تھے کہ مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی قدرت دکھائیں کہ کل جس جگہ انہوں نے مکمل مقاطعہ کا عہد و پیمان کر کے اپنی برتری کا اظہار کیا تھا آج وہی جگہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کے زیر تسلط ہے، چنانچہ اس جگہ رات میں قیام سنت ہے۔
اس کے برخلاف، بعض حضرات کہتے ہیں کہ محصب میں قیام سنت نہیں ہے کہ کیونکہ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قیام محض اتفاقی طور پر ہو گیا تھا جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامان سفر کے نگران تھے اپنی رائے سے اور اتفاقی طور پر وہاں رک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خیمہ نصب کر دیا، اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کوئی حکم نہیں تھا۔ قیام محصب کو سنت نہ کہنے والوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا۔
بہرکیف اس بارے میں بہتر بات یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا محصب میں ٹھہرنا منقول ہے چاہے وہ ٹھہرنا اتفاقی طور پر ہی کیوں نہ رہا ہو تو اچھا یہی ہے کہ وہاں قیام کر لیا جائے جیسا کہ دیگر صحابہ اور خلفاء راشدین بھی اس پر عمل کرتے تھے اور اگر کوئی شخص وہاں نہ ٹھہرے تو اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عمرہ کے لئے تنعیم سے احرام باندھا اور مکہ میں داخل ہوئی اور پھر میں نے اپنا وہ عمرہ ادا کیا جو ایام شروع ہو جانے کی وجہ سے رہ گیا تھا اور جس کی قضا مجھے کرنی تھی، اس کی تفصیل باب قصۃ حجۃ الوداع میں گزر چکی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابطح میں میرے انتظار میں رہے، یہاں تک کہ جب میں افعال عمرہ سے فارغ ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو روانگی کا حکم دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابطح سے روانہ ہو کر خانہ کعبہ تشریف لائے اور نماز فجر سے پہلے اس کا طواف یعنی طواف وداع کیا پھر نماز فجر سے پہلے ہی یا نماز فجر پڑھنے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ مؤلف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بخاری و مسلم میں سے کسی کی روایت کے ساتھ نہیں ملی۔ بلکہ اس حدیث کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے وہ بھی آخر میں کس قدر مختلف ہے۔
تشریح
مؤلف مشکوٰۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق اس روایت کو نہ تو بخاری نے نقل کیا ہے اور نہ مسلم نے، بلکہ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے مزید کہ ابوداؤد کی روایت اور صاحب مصابیح کی نقل کردہ اس روایت کے آخری جزء میں کچھ اختلاف بھی ہے، گویا اس جملہ کے ذریعہ مؤلف مشکوٰۃ نے صاحب مصابیح پر ایک اعتراض تو یہ کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو فصل اول میں نقل کیا ہے جب کہ فصل اول میں صرف بخاری و مسلم ہی کی روایت نقل کی جاتی ہے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ نقل حدیث میں راوی یعنی ابوداؤد کی مخالفت کی بایں طور کہ حدیث کا آخری جزو بعینہٖ نقل نہیں کیا جو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ افعال حج کی ادائیگی کے بعد طواف وداع کئے بغیر ہر طرف یعنی اپنے اپنے وطن کو روانہ ہو رہے تھے یعنی لوگ اس بات کی پابندی نہیں کر رہے تھے کہ افعال حج کے بعد مکہ آ کر طواف وداع کرتے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی یعنی آفاقی روانہ نہ ہو جب تک کہ سفر حج کا آخری مرحلہ بیت اللہ کو قرار نہ دے لے یعنی کوئی بھی آفاقی طواف وداع کئے بغیر اپنے وطن کو واپس نہ ہو، ہاں یہ طواف حیض و نفاس والی عورت کے لئے موقوف ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
افعال حج سے فراغت کے بعد اور مکہ سے اپنے وطن کو روانہ ہونے سے پہلے جو طواف کیا جاتا ہے اسے طواف وداع کہتے ہیں اور اس کا ایک نام طواف صدر بھی ہے، یہ طواف آفاقی پر واجب ہے اگرچہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ اس طواف کے بعد جتنے دن چاہیں مکہ میں مقیم رہا جائے لیکن افضل یہی ہے کہ مکہ سے روانگی کے وقت ہی یہ طواف کیا جائے چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص دن کے کسی حصہ میں طواف وداع کرے اور پھر عشاء تک مکہ میں مقیم رہے تو میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ بات یہی ہے کہ وہ مکہ سے روانگی کے وقت دوسرا طواف کر لے۔
یہ طواف نہ تو اہل مکہ پر واجب ہے نہ اس شخص پر جو میقات کے اندر رہتا ہو اور نہ اس شخص پر واجب ہے جو مکہ میں آ کر رہ گیا ہو اور پھر وہ وہاں سے چلے جانے کا ارادہ رکھتا ہو، اسی طرح یہ طواف نہ تو اس شخص پر واجب ہے جس کا حج فوت ہو گیا ہو اور نہ عمرہ کرنے والے پر واجب ہے نیز اس طواف میں نہ رمل (یعنی اکڑ کر چلنا) ہوتا ہے اور نہ اس کے بعد سعی کی جاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یوم نفر کی رات میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ایام شروع ہو گئے تو وہ کہنے لگیں کہ میرا خیال ہے میں آپ لوگوں کو مدینہ کی روانگی سے روکوں گی کیونکہ میرے ایام شروع ہو گئے ہیں اور میں نے طواف وداع کیا ہی نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے کیا اس نے نحر کے دن طواف طواف زیارۃ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ پھر رکنے کی ضرورت نہیں ہے، چلو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یوم نفر کی رات سے مراد وہی رات ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محصب میں قیام فرمایا تھا، یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی رات، مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حج کے بیان میں رات کی نسبت روز گزشتہ کی طرف کی جاتی ہے نہ کہ روز آئندہ کی طرف، لہٰذا یوم نفر (تیرہویں ذی الحجہ) کی رات سے وہ رات مراد ہوتی ہے جو تیرہویں کے دن کے بعد آتی ہے۔
بہر کیف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ گمان کیا کہ جس طرح طواف زیارۃ عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا اسی طرح عذر کے سبب طواف وداع کا ترک بھی جائز نہیں اس لئے انہوں نے کہا کہ اب میں جب تک پاک نہ ہو جاؤں اور طواف نہ کر لوں اس وقت تک سب کو ٹھہرنا پڑے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ سمجھے کہ انہوں نے طواف زیارۃ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اب ٹھہرنا پڑے گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جملہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے، مگر جب آپ کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات طواف زیارۃ کے لئے نہیں کہی بلکہ طواف وداع کے لئے کہی ہے تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ طواف وداع کے بغیر ہی مدینہ روانہ ہو جاؤ کیونکہ عذر کی بناء پر طواف کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر طواف زیارۃ ابھی نہ ہوا ہوتا تو پھر اس کی وجہ سے رکنا پڑتا۔
اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے یہ جملہ اگرچہ بد دعائیہ ہے مگر یہ بد دعا کے ارادہ سے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اہل عرب کی عادت ہے کہ وہ ایسے جملے از راہ پیار استعمال کرتے ہیں۔
حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو صحابہ کو مخاطب کر تے ہوئے) فرمایا جانتے بھی ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں حج اکبر کا دن ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن اور تمہارے اس شہر میں ! خبردار! ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے یعنی جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہوتا ہے کہ وہی ماخوذ ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ ظلم کوئی کرے اور پکڑا کوئی جائے یاد رکھو! کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ پر ظلم کرتا ہے، جان لو! شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ تمہارے اس شہر مکہ میں اس کی پرستش کی جائے۔ ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہو گی جنہیں تم حقیر سمجھو گے، چنانچہ وہ ان گناہوں سے خوش ہو گا جن کو تم حقیر سمجھو گے۔
تشریح
حج اکبر مطلق حج کو کہتے ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (واذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشرکین ورسولہ)۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج کے دن عام لوگوں کے سامنے اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول، مشرکوں کو امن دینے سے دست بردار ہوتے ہیں۔
اور حج کو صفت اکبر کے ساتھ موصوف اس لئے کیا جاتا ہے کہ عمرہ حج اصغر کہلاتا ہے اس مناسبت سے حج کو حج اکبر سے موسوم کیا گیا۔ مشہور مفسر بیضاوی کہتے ہیں کہ یوم بقر عید یعنی دسویں ذی الحجہ کا دن یوم حج اکبر کہلاتا ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اسی دن حج مکمل ہوتا ہے بلکہ حج کے تمام بڑے بڑے افعال اسی دن میں ادا کئے جاتے ہیں چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع میں قربانی بقر عید کے دن جمرات کے قریب کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔
پچھلے صفحات میں اسی مضمون کی جو حدیث گزری ہے اس میں تو یہ ذکر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب صحابہ سے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے جب کہ یہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے، بظاہر ان دونوں میں تضاد نظر آتا ہے حالانکہ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بعض صحابہ نے تو وہ جواب دیا ہو اور بعض نے یہ، لہٰذا جس راوی نے جو جواب سنا وہ ذکر کر دیا۔
فان دماء کم الخ (اور تمہارے خون الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم لوگ اس مبارک دن اور اس مقدس شہر میں ایک دوسرے کا خون بہانے، ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے اور ایک دوسرے کی بے آبروئی کو حرام اور برا سمجھتے ہو اسی طرح یہ چیزیں ہر جگہ اور ہر وقت حرام وبری ہیں۔
کوئی ظالم اپنے بیٹے پر ظلم نہیں کرتا الخ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ جملہ، نفی کو ظاہر کر رہا ہے یعنی اگر کسی کا بیٹا کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا باپ کسی پر ظلم کرتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے ظلم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتے، یہ نہیں ہوتا کہ کسی پر ظلم تو کرے بیٹا اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے باپ، یا کسی پر ظلم کرے باپ اور اس کی وجہ سے پکڑا جائے بیٹا، بلکہ جو ظلم کرتا ہے وہی پکڑا جاتا ہے، چنانچہ یہ ارشاد گرامی اس آیت کی مانند ہے کہ۔ (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35۔ فاطر:18)۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا اور یہ بات صرف باپ بیٹے ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر کوئی بھی شخص کسی دوسرے کے ظلم و جرم کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوتا۔
چنانچہ یہاں باپ بیٹے کو بطور خاص محض اس مقصد سے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں سب سے زیادہ قریبی اقرباء ہیں جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے فعل کی وجہ سے ماخوذ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اس طرح یہ جملہ ما قبل کی عبارت لایجنی جان الخ ظلم کرنے والا صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کی تاکید کے طور پر ہو گا۔
بعض شارحیں نے اس جملہ لایجنی الا علی نفسہ میں لفظ الا نقل نہیں کیا ہے اور لکھا ہے یہ جملہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی اس جملہ کے ذریعہ منع کیا جا رہا ہے کہ کوئی ظالم اپنے نفس پر ظلم نہ کرے جس سے مراد یہ ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے کیونکہ جو شخص کسی پر ظلم کرتا ہے وہ درحقیقت اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بایں طور کہ وہ کسی پر ظلم کر کے اپنے کو سزا اور عذاب کا مستحق بنا لیتا ہے۔
وان الشیطان قد ایس الخ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ اس شہر مکہ میں غیراللہ کی عبادت کے ذریعہ اس کی فرمانبرداری ہو۔ لہٰذا یہاں اب کبھی بھی کوئی شخص شیطان کے فریب میں آ کر غیراللہ کی عبادت و پرستش کھلم کھلا نہیں کرے گا۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ مقدس شہر ہمیشہ کے لئے کفر و شرک کی غلاظت سے پاک کر دیا گیا ہے، اور اب کبھی بھی اس پاک سرزمین پر کسی غیر مسلم کو قدم رکھنے کی اجازت نہ ہو گی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی غیر مسلم چوری چھپے اس شہر میں آ جائے اور وہ خفیہ طور پر غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔
ہاں تمہارے ان اعمال میں شیطان کی فرمانبرداری ہو گی میں اعمال سے مراد گناہ کے اعمال ہیں جیسے ناحق قتل کرنا، کسی کا مال لوٹنا یا اسی قسم کے دوسرے اعمال بد اور صغیرہ گناہوں کو اہمیت نہ دینا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال بد میں مبتلا ہونے والا جب ان کو حقیر سمجھتا ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ ان اعمال سے اجتناب نہیں کرتا تو گویا وہ شیطان کی اطاعت کرتا ہے کیونکہ شیطان ان باتوں سے خوش ہوتا ہے اور پھر وہی اعمال بڑے فتنہ و فساد کا باعث بن جاتے ہیں۔
٭٭ حضرت رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ مزنی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منیٰ میں قربانی کے دن چاشت کے وقت لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے خچر پر سوار تھے جس کے بال اوپر کی جانب سے سرخ اور اندر کی جانب سفید تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے بیان کر رہے تھے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کچھ فرماتے حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے دہراتے تھے تاکہ دور کے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات سن لیں) اور لوگوں میں سے کچھ تو کھڑے تھے اور کچھ بیٹھے تھے۔ (ابوداؤد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف زیارۃ میں قربانی کے دن رات تک تاخیر کی۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کے لئے یا یہ کہ سب ہی کے لئے طواف زیارت میں قربانی کے دن رات تک تاخیر کو جائز قرار دیا۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے طواف زیارت میں رات تک تاخیر کی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں تو یہ صراحت کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے وقت طواف زیارۃ کیا اور اس کے بعد مکہ میں یا منیٰ میں ظہر کی نماز پڑھی۔
طیبی کہتے ہیں کہ طواف زیارۃ کا وقت امام شافعی کے نزدیک بقر عید کی آدھی رات کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے جب کہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کا وقت بقر عید کے دن طلوع فجر کے بعد شروع ہوتا ہے اور آخری وقت کا کوئی تعین نہیں ہے جب بھی کیا جائے گا جائز ہو جائے گا لیکن امام ابوحنیفہ کے ہاں طواف زیارت کی ادائیگی ایام نحر میں واجب ہے لہٰذا اگر کوئی شخص اتنی تاخیر کرے کہ ایام نحر پورے گزر جائیں گے اور پھر وہ بعد میں طواف زیارۃ کرے تو اس پر دم یعنی بطور جزاء جانور ذبح کرنا واجب ہو گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف زیارت میں رمل نہیں کیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ شانہ ہلاتے ہوئے چھاتی نکال کر کچھ تیزی کے ساتھ چلنا رمل کہلاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف زیارۃ میں جو کہ فرض ہے رمل نہیں کیا کیونکہ طواف قدوم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کر چکے تھے۔
اس بارے میں مسئلہ بھی یہی ہے جو شخص طواف قدوم میں رمل و سعی کر چکا ہو وہ طواف زیارۃ میں نہ تو رمل کرے اور نہ طواف کے بعد سعی کرے اور جو شخص طواف قدوم میں یہ دونوں چیزیں نہ کر چکا ہو تو پھر وہ طواف زیارت میں رمل بھی کرے اور اس کے بعد سعی بھی کرے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی رمی جمرہ عقبہ سے فارغ ہو جاتا ہے اور سر منڈوا لیتا ہے یا بال کتروا لیتا ہے تو اس کے لئے عورت کے علاوہ ہر چیز حلال ہو جاتی ہے یعنی بیوی کے ساتھ جماع ان چیزوں کے بعد بھی حلال نہیں ہوتا، بلکہ یہ طواف زیارت سے فراغت کے بعد ہی حلال ہوتا ہے اس روایت کو صاحب مصابیح نے شرح السنہ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد ضعیف ہے۔ اور احمد و نسائی نے اس روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے رمی جمرہ عقبہ کر لی تو سر منڈوانے یا بال کتروانے کے بعد اس کے لئے عورت کے علاوہ ہر چیز حلال ہو جاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کے دن آخری حصہ میں اس وقت فرض طواف کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد منیٰ میں واپس آ گئے اور منیٰ میں ایام تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں) کی راتیں بسر کیں، ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمروں پر اس وقت کنکریاں مارتے جب دوپہر ڈھل جاتی ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے اور پہلے دوسرے جمرہ (یعنی جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی) دعا و اذکار کے لئے دیر تک ٹھہرتے اور اس وقت مختلف دعاؤں اور عرض حاجات کے لئے تضرع اختیار کرتے اور پھر جب تیسرے جمرہ یعنی جمرہ عقبہ پر کنکریاں مارتے تو اس کے پاس نہ ٹھہرتے۔ (ابوداؤد)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دسویں ذی الحجہ کو ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی منیٰ میں نہیں پڑھی تھی۔
فلا یقف عندہا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمرہ عقبہ کے پاس یا اس کے بعد ذکر و دعا نہیں کرتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ اولیٰ اور جمرہ وسطی کے پاس دیر تک کھڑے رہتے تھے اس طرح دعا و اذکار کے لئے جمرہ عقبہ کے پاس کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہاں چلتے چلتے ہی دعا وغیرہ کر لیا کرتے تھے۔
حضرت ابوالبداح بن عاصم بن عدی (تابعی) اپنے والد مکرم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت دے دی تھی کہ وہ منیٰ میں شب باشی نہ کریں اور یہ کہ نحر کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ پر) کنکریاں ماریں اور پھر دونوں کی رمی جمرات کو یوم نحر کے بعد ایک ساتھ کریں اس طرح دونوں دن کی رمی جمرات ان میں سے کسی ایک دن کریں۔ (مالک، ترمذی، نسائی) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چرواہوں کو یہ اجازت عطا فرما دی تھی کہ وہ ایام تشریق کی راتوں میں منیٰ میں نہ رہیں کیونکہ وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے چرانے وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، نیز انہیں اس بات کی بھی اجازت دے دی کہ وہ صرف بقر عید کے دن جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اس کے بعد دوسرے دن یعنی گیارہویں کو رمی جمرات نہ کریں بلکہ تیسرے دن یعنی بارہویں کو دونوں دن کی ایک ساتھ رمی کریں اس طرح گیارہویں کی رمی تو بطور قضا ہو گی اور بارہویں کی ادا ہی ہو گی۔
اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ائمہ کے نزدیک عید کے دوسرے دن کی رمی کی تقدیم جائز نہیں ہے یعنی اگر کوئی عید کے دوسرے دن یعنی گیارہویں کو اس دن کی رمی کے ساتھ تیسرے دن یعنی بارہویں کی رمی بھی کرے تو یہ درست نہیں ہو گا ہاں تاخیر درست ہے کہ دوسرے دن کی رمی بھی تیسرے دن کی رمی کے ساتھ کی جا سکتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔