مشکوٰة شر یف

سود کا بیان

سود کا بیان

سود ایک معاشرتی لعنت و عفریت ہے جس کی اقتصادی تباہ کاریوں نے ہمیشہ ہی غربت کے لہو سے سرمایہ داری کی آبیاری کی ہے اور غریب کے سسکتے وجود سے سرمایہ دار کی ہوس کو غذا بخشی ہے چنانچہ اس لعنت میں مبتلا ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یوں تنبیہ کی ہے

آیت (فان لم تفغلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ)

پھر اگر تم اس سود خوری چھوڑنے کے حکم پر عمل نہ کرو تو پس اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو

اسلام نے تجارت اور قرض دونوں میں سود کو حرام قرار دیا ہے اور اس کا ارتکاب گناہ کبیرہ بتایا ہے جو مسلمان سود کے حرام ہونے کا قائل نہ ہو اسلامی قانون کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے۔

یہ لعنت بہت پرانی ہے اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا طریقہ رائج تھا چنانچہ قریش مکہ اور یہود مدینہ میں اس کا عام رواج تھا اور ان میں صرف شخصی ضرورتوں مثلاً قرض وغیرہ ہی کے لئے نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لئے بھی سود کا لین دین جاری تھا۔ اسی طرح سود کی تباہ کاریاں بھی ہمیشہ ہی تسلیم شدہ رہی ہیں اور اس کو اختیار کرنے والے بھی کبھی اس کے مضر اثرات سے منکر نہیں رہے ہیں البتہ ایک نئی بات یہ ضرور ہوئی ہے کہ جب سے یورپ کے دلال دنیا کی مسند اقتدار و تجارت پر چھائے ہیں انہوں نے مہاجنوں اور یہودیوں کے اس خاص کاروبار کو نئی نئی شکلیں اور نئے نئے نام دے کر اس کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا ہے کہ وہی سود جو پہلے انسان کی معاشرتی زندگی کا ایک گھن سمجھا جاتا تھا آج معاشیات اقتصادیات اور تجارت کے لئے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جانے لگا ہے اور سطحی ذہن و فکر رکھنے والوں کو یقین ہو گیا ہے کہ آج کوئی تجارت یا صنعت یا اور کوئی معاشی نظام سود کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اگرچہ آج بھی اہل یورپ ہی میں سے وہ لوگ جو تقلید محض اور عصبیت سے بلند ہو کر وسیع نظر سے معاملات کا جائزہ لیتے ہیں اور جو معاشیات (ECONOMICS) کا وسیع علم ہی نہیں رکھتے بلکہ اس کے عملی پہلوؤں پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں خود ان کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ سود معاشیات اور اقتصادی زندگی کے لئے ریڑھ کی ہڈی نہیں بلکہ ایک ایسا کیڑا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں لگ گیا ہے اور جب تک اس کیڑے کو نہ نکالا جائے گا دنیا کی معیشت جو جو اضطراب و ہیجان ہے وہ ختم نہیں ہو گا۔

اس میں شبہ نہیں کہ آج دنیا میں سود کا لین دین جتنا وسیع ہو گیا ہے اور دنیا کے اس کونے سے لے کر اس کونے تک تمام ہی تجارتوں میں اس کا جال جس طرح بچھا دیا گیا ہے افراد و اشخاص کی کیا حیثیت اگر کوئی پورا طبقہ و جماعت بلکہ کوئی پورا ملک بھی اس سے نکلنا چاہے تو اس کو اس کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہو گا کہ یا تو اپنی تجارت ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے یا نقصان برداشت کرتا رہے یہی وجہ ہے کہ اب تو عام مسلمان تاجر الگ رہے وہ دیندار و پرہیزگار مسلمان تاجر جن کی اعتقادی و عملی زندگی بڑی پاکیزہ اور مثالی ہے اب انہوں نے بھی یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ سود جو حرام ترین چیز اور بدترین سرمایہ ہے اس سے کس طرح نجات حاصل کریں جس کا نیجہ  یہ ہے ان دیندار اور پابند شریعت مسلمانوں اور ایک خالص دیندار مہاجن میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

لہذا سود کی ہمہ گیری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اس عام مجبوری کا سہارا لے کر اتنی بڑی لعنت سے بالکل بے پرواہ ہو کر بیٹھ جائیں اور ان کے دل میں ذرہ برابر کھٹک بھی پیدا نہ ہو کہ وہ کتنی بڑی حرام چیز میں مبتلا ہیں آج سود کے بارے میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں یا اس کو جو نئی نئی شکلیں دی جاتی ہیں یاد رکھئے وہ سب اسی درجے میں حرام ہیں جس درجے میں خود سود کی حرمت ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی معاملات کو اس انداز میں استوار کریں جس سے حتی الامکان اس لعنت سے نجات مل سکے اگر موجودہ معاشی نظام میں اس حد تک تبدیلی ان کے بس میں نہیں ہے کہہ جس میں سود کا دخل نہ ہو تو کم سے کم اپنی زندگی اور نجی معاملات ہی کو درست کریں تاکہ سود کی لعنت سے اگر بالکل نجات نہ ملے تو کم از کم اس میں کمی ہی ہو جائے اور مسلمان ہونے کا یہ ادنی تقاضہ تو پورا ہو کہ وہ حتی الامکان حرام سے بچنے کی فکر میں رہے۔

بہرکیف اس باب میں اسی موضوع سے متعلق احادیث ذکر ہوں گی جن کے ضمن میں حسب موقع سود کے احکام و مسائل بیان کئے جائیں گے لیکن یہ ضروری ہے کہ پہلے اس موضوع سے متعلق چند بنیادی باتیں بتا دی جائیں

 

 ربا کی تعریف

 لغت کے اعتبار سے ربا کے معنی زیادتی بڑھوتری بلندی کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں ایسی زیادتی کو ربا کہتے ہیں جو کسی مالی معاوضہ کے بغیر حاصل ہو

 

ربا اور سود میں فرق

 قرآن کریم میں جس چیز کو لفظ ربا کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے اس کا ترجمہ اردو میں عام طور پر سود کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عموماً لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ربا اور مروجہ سود دونوں عربی اور اردو میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یعنی جس چیز کو عربی میں ربا کہتے ہیں اسی کو اردو میں سود کہا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ربا ایک عام اور وسیع مفہوم کا حامل ہے جبکہ مروجہ سود ربا کی ایک قسم یا اس کی ایک شاخ ہے کیونکہ مروجہ سود کے معنی ہیں روپیہ کی ایک متعین مقدار ایک متعین میعاد کے لئے قرض دے کر متعین شرح کے ساتھ نفع یا زیادتی لینا۔ بلاشبہ یہ بھی ربا کی تعریف میں داخل ہے مگر صرف اسی ایک صورت یعنی قرض و ادھار پر نفع و زیادتی لینے کا نام ربا نہیں ہے بلکہ ربا کا مفہوم اس سے بھی وسیع ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی الہی کی روشنی میں ربا کے مفہوم کو وسعت دے کر لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات کی بعض ایسی صورتیں بھی بیان فرمائی ہیں جن میں چیزوں کے باہم لین دین یا ان کی باہمی خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنا بھی ربا ہے اور ان میں ادھار لین دین کرنا بھی ربا ہے اگرچہ اس ادھار میں اصل مقدار پر کوئی زیادتی نہ ہو بلکہ برابر سرابر لیا دیا جائے۔

 

ربا کی قسمیں اور ان کے احکام

ربا کے مذکورہ بالا وسیع مفہوم کے مطابق فقہا نے ربا کی جو قسمیں مرتب کی ہیں ان میں سے عام طور پر یہ پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہیں

 1 رباء قرض

2 رباء رہن

3 رباء شراکت

4 رباء نسیہ

5 رباء فضل

 

رباء قرض

 کا مطلب ہے قرض خواہ قرض دار سے بحسب شرط متعینہ میعاد کے بعد اپنے اصل مال پر کچھ زائد مقدار لینا اس کی مثال مروجہ سود کی صورت ہے یعنی ایک شخص کسی کو اپنے روپیہ کی ایک متعین مقدار ایک متعین میعاد کے لئے اس شرط پر قرض دیتا ہے کہ اتنا روپیہ اس کا ماہوار سود کے حساب سے دینا ہو گا اور اصل روپیہ بدستور باقی رہے گا ربا کی یہ صورت کلیۃً حرام ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

 

رباء رہن

 کا مطلب ہے بلا کسی مالی معاوضہ کے وہ نفع جو مرتہن کو راہن سے یا شے مرہونہ سے حاصل ہو اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص(یعنی راہن) اپنی کوئی ملکیت مثلاً زیور یا مکان کسی دوسرے شخص(یعنی مرتہن) کے پاس بطور ضمانت رکھ کر اس سے کچھ روپیہ قرض لے اور وہ مرتہن اس رہن کی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھائے مثلاً اس مکان میں رہے یا اسے کرایہ پر چلائے اور یا یہ کہ اس رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ نہ اٹھائے بلکہ راہن سے نفع حاصل کرے بایں طور کہ قرض دی ہوئی رقم پر سود حاصل کرے رہن کی یہ دونوں ہی صورتیں حرام ہیں۔

 

رباء شراکت

 کا مطلب ہے کسی مشترک کاروبار میں ایک شریک اپنے دوسرے شریک کا نفع متعین کر دے اور جملہ نقصانوں اور فائدوں کا خود مستحق بن جائے یہ بھی حرام ہے۔

 

رباء نسیہ

 کا مطلب ہے دو چیزوں کے باہم لین دین یا دو چیزوں کے باہم خرید و فروخت میں ادھار کرنا خواہ اس ادھار میں اصل مال پر زیادتی لی جائے مثلاً ایک شخص کسی دوسرے کو ایک من گیہوں دے اور دوسرا شخص اس کے بدلہ میں اسے ایک ہی من گیہوں دے مگر ایک دو دن یا ایک دو ماہ بعد دے یہ اس صورت کی مثال ہے کہ دو چیزوں میں باہم تبادلہ ہوا مگر یہ تبادلہ دست بدست نہیں ہوا بلکہ ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار معاملہ ہوا نیز اس ادھار میں اصل مال پر کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی کمی بیشی کے ساتھ ادھار لین دین کی مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی دوسرے کو ایک من گیہوں دے گا رباء نسیہ کی یہی وہ صورت ہے جو زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور اب بھی مروجہ سود کی شکل میں موجود ہے اور ایک اعتبار سے یہ رباء قرض کی قسم میں بھی داخل ہے۔

 

رباء فضل

 کا مطلب ہے دو چیزوں میں باہم کمی بیشی کے ساتھ دست بدست لین دین ہو مثلاً ایک شخص کسی کو ایک من گیہوں دے اور اس سے اسی وقت اپنے ایک من گیہوں کے بدلہ میں سوا من گیہوں لے۔

رباء کی یہ دونوں قسمیں یعنی نسیہ اور فضل چونکہ باہم لین دین کی دو بنیادی صورتیں ہیں نیز لا علمی کی بناء پر عام طور پر لوگ ان میں سود کے پیدا ہونے والے حکم سے نابلد ہیں اس لئے مناسب ہے کہ ان کے احکام بیان کرنے سے پہلے چند باتیں بطور تمہید و قاعدہ بیان کر دی جائیں تاکہ ان احکام کو سمجھنے میں دقت نہ ہو۔

1: لین دین اور تجارت کا معاملہ جن چیزوں سے متعلق ہوتا ہے وہ تین قسم کی ہیں

1 یا تو ان کا لین دین وزن سے ہوتا ہے 2 یا کسی برتن سے ناپی جاتی ہے 3 یا نہ تو وزن کی جاتی ہیں اور نہ کسی برتن سے ناپی جاتی ہیں

پہلی اور دوسری قسم کی مثال غلہ ہے کہ کہیں تو غلہ کو تول کر بیچنے کا دستور ہے اور کہیں برتن میں بھر کر نا پنے کا۔ لین دین اور خرید و فروخت میں جو چیزیں تولی جاتی ہیں ان کو موزون کہتے ہیں اور جو چیزیں ناپی جاتی ہیں ان کو مکیل کہتے ہیں کسی چیز کے موزون یا  مکیل ہونے کی صفت کو اصطلاح فقہ میں قدر کہتے ہیں اس مختصر سے لفظ قدر کو ذہن میں رکھئے۔

2: ہر چیز کی ایک حقیقت ہوا کرتی ہے مثلاً گیہوں کا گیہوں ہونا ٫ چاندی کا چاندی ہونا اور کپڑے کا کپڑا ہونا اسی حقیقت کو جنس کہتے ہیں اور اس لفظ جنس کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔

3: جن چیزوں کا باہم لین دین ہوتا ہے وہ کبھی تو قدر میں متحد اور مشترک ہوتی ہیں اور جنس میں مختلف ہوتی ہیں مثلاً گیہوں اور چنہ یہ دونوں چیزیں قدر میں مشترک یعنی یکساں ہیں کیونکہ دونوں موزون ہیں یا مکیل ہیں مگر جنس میں مختلف یعنی یکساں نہیں ہیں کیونکہ ایک کی حقیقت گیہوں ہے اور دوسرے کی حقیقت چنہ ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن دو چیزوں میں باہم لین دین ہوتا ہے ان کی جنس تو متحد و یکساں ہوتی ہے مگر قدر میں یکسانیت نہیں ہوتی مثلاً ململ کا ململ سے تبادلہ کہ دونوں کی جنس تو ایک ہے مگر چونکہ دونوں موزوں اور مکیل نہیں (کیونکہ ململ کی خرید و فروخت نہ تو تول کر ہوتی ہے اور نہ کسی برتن سے ناپ کر) اس لئے جب یہ دونوں قدر ہی نہیں تو قدر میں ایک کیسے ہوں گی ٫ یا بکری کا بکری سے تبادلہ کہ دونوں کی جنس تو ایک ہے مگر چونکہ موزوں اور مکیل نہیں اس لئے نہ قدر اور نہ اتحاد قدر اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن دو چیزوں میں باہم لین دین ہوتا ہے ان کی جنس بھی ایک ہوتی ہے اور قدر میں بھی یکسانیت ہوتی ہے جیسے گیہوں کا گیہوں سے تبادلہ کہ ان دونوں کی جنس بھی ایک ہے اور قدر بھی ایک ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جن دو چیزوں میں باہم لین دین ہوتا ہے ان میں نہ تو جنس کی یکسانیت ہوتی ہے اور نہ قدر کی جیسے روپیہ اور کپڑا یا روپیہ اور غلہ (گویا آج کل لین دین اور تجارت کی جو عام شکل ہے) کہ نہ تو ان کی جنس ایک ہے اور نہ قدر ایک ہے لہذا باہم لین دین اور تجارت کی جانے والی چیزیں چار قسم کی ہوئیں

1متحد القدر والجنس(یعنی دونوں کی جنس بھی ایک اور قدر بھی ایک 2متحد القدر غیر متحد الجنس(یعنی دونوں کی قدر تو ایک مگر جنس الگ الگ 3 متحد الجنس غیر متحد القدر (یعنی دونوں کی جنس تو ایک مگر قدر الگ الگ 4 غیر متحد الجنس والقدر (یعنی دونوں کی نہ تو جنس ایک اور نہ قدر ایک)

اس تمہید کو جان لینے کے بعد چیزوں کے باہم لین دین اور تجارت کے سلسلے میں وہ قاعدہ کلیہ سمجھ لیجئے جو اگر ذہن میں رہے تو نہ صرف اس باب کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو گی بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی رباء اور سود جیسے گناہ سے بچنا آسان ہو گا وہ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو چیزیں متحد القدر والجنس ہوں ان کے باہم تبادلہ و تجارت میں شرعی طور پر دو چیزیں ضروری ہیں ایک تو یہ کہ وہ دونوں چیزیں وزن یا پیمانے میں برابر ہوں دوسرے یہ کہ دونوں دست بدست ہوں مثلاً اگر ہم دو شخص آپس میں گیہوں کو گیہوں سے بدلنا چاہیں تو اس میں کمی بیشی درست نہیں ہے یعنی یہ درست نہیں کہ ہم میں سے ایک تو سیر بھر گیہوں دے اور دوسرا سوا سیر دے بلکہ دونوں ہی کو سیر سیر بھر یا سوا سوا سیر ہی دینا ضروری ہے اور نہ یہ درست ہے کہ ایک تو سر دست لے لے اور دوسرا کل یا پرسوں یا تھوڑی دیر کے بعد بکلہ ایک ہی مجلس میں اور ایک ہی وقت میں دونوں کو اپنا اپنا حق لینا واجب ہے اور جو چیزیں متحد القدر غیر متحد الجنس ہوں یا متحد الجنس غیر متحد القدر ہوں ان دونوں کا حکم ایک ہے وہ یہ کہ ان کے باہم لین دین میں کمی بیشی تو جائز ہے مگر ادھار جائز نہیں مثلاً گیہوں کو چنے سے بدلنا چاہیں کہ ان دونوں کی جنس تو الگ الگ ہے مگر قدر ایک ہے اس لئے ان دونوں کے تبادلہ میں کمی بیشی تو جائز ہو گی کہ ایک شخص ایک سیر گیہوں دے اور دوسرا اس کے بدلے میں سوا سیر چنہ دے مگر ان کے تبادلہ میں ادھار جائز نہیں ہو گا۔ یا اسی طرح ایک بکری اور دوسری بکری سے بدلنا چاہیں کہ ان دونوں کی جنس تو ایک ہے مگر قدر ایک نہیں کیونکہ قدر تو موزون یا مکیل ہونے کو کہتے ہیں اور بکری نہ مکیل ہے اور نہ موزون لہذا ان میں بھی کمی بیشی جائز ہے کہ ایک شخص تو ایک بکری دے اور دوسرا اس کے بدلے میں دو بکریاں دے مگر ان کے تبادلے میں بھی ادھار جائز نہیں ہو گا اور جو چیزیں نہ متحد الجنس ہوں اور نہ متحد القدر ہوں ان میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور نقد و ادھار کا فرق بھی جائز ہے مثلاً روپیہ اور غلہ کی باہم تجارت (جیسا کہ آج کل رائج ہے کہ اشیاء کا لین دین روپیہ کے ذریعہ ہوتا ہے) کہ ان دونوں کی نہ تو جنس ایک اور ان کی قدر ایک ہے لہذا اگر کوئی شخص روپیہ دے کر غلہ خریدنا چاہے تو اس صورت میں کمی بیشی بھی جائز ہے کہ چاہے تو ایک روپیہ کے بدلے میں ایک سیر غلہ لیا دیا جائے اور چاہے ایک روپیہ کے بدلے میں دو سیر غلہ لیا دیا جائے اس طرح اس صورت میں ادھار لین دین بھی جائز ہے کہ چاہے تو دست بدست لین دین ہو چاہے ادھار کی صورت میں اب اس قاعدہ کلیہ کا حاصل چار قاعدے ہوئے۔

1: اشیاء متحد القدر و متحد الجنس کے لین دین میں برابری اور دست بدست ہونا واجب ہے

2: اشیاء متحد القدر وغیرہ متحد الجنس کے لین دین میں نہ برابری واجب ہے اور نہ دست بدست ہونا واجب ہے

3: اشیاء متحد الجنس غیر متحد القدر کے لین دین میں دست بدست ہونا ضروری ہے مگر برابری ضروری نہیں

4: اشیاء متحد القدر غیر متحد الجنس کے لین دین میں دست بدست ہونا ضروری ہے مگر برابری ضروری نہیں

ان تمام بنیادی اور تمہیدی باتوں کو ذہن میں رکھ اب رباء ان دونوں اقسام یعنی نسیہ اور فضل کے احکام کی جانب آئے جن کا تذکرہ شروع میں کیا گیا تھا چنانچہ اگر لین دین ایسی دو چیزوں کے درمیان ہو جن میں اتحاد جنس بھی پایا جائے اور اتحاد قدر بھی یعنی وہ دونوں متحد الجنس بھی ہوں اور متحد القدر بھی (جیسے گیہوں) تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس لین دین میں رباء نسیہ بھی حرام ہے اور رباء فضل بھی اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ جنس سے مراد ہے اس چیز کی حقیقت اور قدر سے مراد ہے اس چیز کا مکیل یا موزون ہونا کیونکہ لین دین اور تجارت کے معاملات میں شرعی معیار یہی کیل ہے یا وزن۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ شارع نے جس چیز کو مکیل (یعنی پیمانہ سے ناپی جانے والی) کہا ہے وہ موزون (یعنی تولی جانے والی) نہیں ہو گی اگرچہ عرف عام اور رواج کے اعتبار سے وہ موزوں ہی ہوں اسی طرح جس چیز کو موزون کہا ہے وہ مکیل نہیں ہو گی اگرچہ عرف عام اور رواج کے اعتبار سے وہ مکیل ہو مثلاً گیہوں کو شارع نے ان چیزوں میں شمار کیا ہے جن کا لین دین پیمانہ سے ناپ کر ہوتا ہے اگرچہ آج کل عام طور پر گیہوں کا لین دین وزن کے ذریعے ہوتا ہے (گو بعض علاقوں میں اب بھی اس کا لین دین ناپ کر ہی ہوتا ہے) اس لئے گیہوں کا گیہوں کے ساتھ لین دین کرنا وزن کے ذریعے جائز نہیں ہو گا اسی طرح چاندی اور سونے کو شارع نے چونکہ موزون کہا ہے اس لئے چاندی کا چاندی کے ساتھ یا سونے کا سونے کے ساتھ لین دین کیل کے ذریعے جائز نہیں ہو گا اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ کسی معاملے میں شارع کا واضح حکم عرف عام اور رواج سے کہیں قوی اور برتر ہوتا ہے ہاں جن چیزوں کو شارع نے نہ مکیل کہا ہے اور نہ موزوں ان کے لین دین عرف عام اور رواج ہی کا اعتبار ہو گا لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ حنفیہ میں سے حضرت امام ابو یوسف نے مطلق طور پر عرف عام اور رواج ہی کا اعتبار کیا ہے ان کے نزدیک ان چیزوں کا لین دین وزن کے ذریعے جائز ہے جن کو شرعت نے مکیل کہا ہے بشرطیکہ عرف عام اور رواج وزن کے ذریعے ہی اس کے لین دین کا ہو چنانچہ کمال نے حضرت امام ابو یوسف ہی کے قول کو ترجیح دی ہے اور اسی بناء پر انہوں نے نقود مسکوکہ (یعنی سونے اور چاندی کے سکہ مثلاً اشرفی وغیرہ کا گنتی کے ذریعے بطور قرض لین دین یا آٹے کی وزن کے ذریعے خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے نیز مستند ترین کتاب کافی میں بھی یہی ہے کہ حنفیہ کے ہاں اس بارے میں حضرت امام ابو یوسف ہی کے قول پر فتوی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شارع نے گیہوں (یا دوسرے غلوں) کو مکیل کہا ہے لیکن ان کا لین دین وزن کے ذریعے بلاشبہ جائز ہے کیونکہ آج کل عام طور پر ان کا لین دین وزن ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔

بہرکیف اتحاد جنس اور اتحاد قدر والی چیزوں کے لین دین کے بارے میں تو معلوم ہو گیا کہ ان میں رباء نسیہ بھی حرام ہے اور رباء فضل بھی۔ اسی طرج اگر لین دین ایسی دو چیزوں کے درمیان ہو جن میں جنس و قدر میں سے کسی ایک کا اتحاد پایا جائے مثلاً وہ متحد الجنس تو ہوں مگر متحد القدر نہ ہوں تو ان کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ایسی چیزوں کے لین دین میں رباء نسیہ تو حرام ہے مگر رباء فضل حرام نہیں ہے۔ لہذا اگر گیہوں کا گیہوں کے ساتھ یا چنے کا چنے کے ساتھ یا چونے کا چونے کے ساتھ یا سونے کا سونے کے ساتھ یا لوہے کا لوہے کے ساتھ لین دین کیا جائے تو اس صورت میں فضل (یعنی کمی بیشی کے ساتھ دست بدست لینا دینا) بھی حرام ہو گا اور نسیہ (یعنی ادھار لینا دینا) بھی حرام ہے اور نسیہ (یعنی ادھار لینا دینا) بھی حرام ہو گا کیونکہ یہاں اتحاد قدر بھی پایا جاتا ہے اور اتحاد جنس بھی اور اگر گیہوں کا چنے کے ساتھ یا سونے کا چاندی کے ساتھ اور لوہے کا تانبے کے ساتھ لین دین کیا جائے تو اس صورت میں فضل(یعنی کمی بیشی کے ساتھ دست بدست لینا دینا) تو حلال ہو گا لکین نسیہ (یعنی ادھار لینا دینا) حرام ہو گا کیونکہ یہاں صرف اتحاد قدر موجود ہے بایں طور کہ گیہوں اور چنے کا لین دین بھی کیل یا وزن کے ساتھ ہوتا ہے لوہے اور تانبے کا لین دین بھی وزن کے ساتھ ہوتا ہے اور چاندی کا لین دین بھی وزن کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہاں اتحاد جنس موجود نہیں ہے اور اگر کسی کپڑے کے ایک ٹکڑے کا اس کپڑے کے دوسرے ٹکڑے کے ساتھ یا گھوڑے کا گھوڑے کے ساتھ لین دین کیا جائے تو اس صورت میں بھی فضل حلال ہو گا اور نسیہ حرام ہو گا کیونکہ یہاں اتحاد جنس موجود ہے مگر اتحاد قدر نہیں ہے بایں طور کہ نہ تو کپڑا ہی مکیل یا موزون ہے اور نہ گھوڑا ہی مکیل یا موزون ہے جبکہ معیار شرعی مکیل یا موزون ہوتا ہے اور گز وغیرہ معیار شرعی نہیں ہے۔

اور اگر لین دین ایسی دو چیزوں کے درمیان ہو جن میں نہ تو اتحاد قدر ہو اور نہ اتحاد جنس تو ان کے بارے میں یہ حکم ہے کہ ایسی چیزوں کے لین دین میں فضل بھی حلال ہو گا اور نسیہ بھی مثلاً اگر گیہوں کا چاندی یا لوہے کے ساتھ لین دین کیا جائے تو اس صورت میں فضل اور نسیہ دونوں جائز ہیں اس لئے کہ یہاں نہ اتحاد جنس ہے اور نہ اتاحد قدر بایں طور کہ گیہوں تو مکیل ہے اور چاندی یا لوہا موزون ہے اسی طرح لوہے کا سونے کے ساتھ یا سونے کا لوہے کے ساتھ لین دین کرنے کی صورت میں بھی فضل ونسیہ دونوں جائز ہیں کیونکہ یہاں بھی نہ اتحاد جنس ہے اور نہ اتحاد قدر بایں طور کہ سونا تولنے کے باٹ ترازو کی قسم الگ ہوتی ہے اور لوہا جن باٹ ترازو سے تولا جاتا ہے ان کی علیحدہ قسم ہوتی ہے گیہوں کا چونے کے لین دین کا پیمانہ الگ قسم کا ہوتا ہے (لنٹ  یہ ان علاقوں کی صورت ہے جہاں گیہوں اور چونے کا لین دین وزن کے ساتھ نہیں بلکہ پیمانے کے ذریعے ہوتا ہے۔

سود لینے دینے والے پر لعنت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سود لینے والے پر سود دینے والے پر سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں (اگرچہ مقدار کے اعتبار سے مختلف ہوں (مسلم)

 

تشریح

 

 سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت اس لئے فرمائی کہ ایک غیر مشروع اور حرام کام میں یہ معاون ہوتے ہیں اس سے یہ بات صراحت کے ساتھ معلوم ہوئی کہ سود و بیاج کا تمسک لکھنا اور اس کا گواہ بننا حرام ہے۔

ہم جنس اشیاء کے باہمی تبادلہ وتجارت میں ربا کی صورت

حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے اور گیہوں گیہوں کے بدلے اور جو جو کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے اگر لیا دیا جائے تو ان کا لین دین (مقدار) میں مثل بمثل یعنی برابر سرابر  دست بدست ہونا چاہئے۔  اگر یہ قسمیں مختلف ہوں مثلاً گیہوں کا تبادلہ جو کے ساتھ یا جو کا تبادلہ کھجور کے ساتھ ہو تو پھر اجازت ہے کہ جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو (یعنی برابر سرابر ہونا ضروری نہیں ہے) البتہ لین دین کا دست بدست ہونا (اس صورت میں بھی) ضروری ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 یہی وہ حدیث ہے جس نے ربا کے مفہوم کو وسعت دے کر خرید و فروخت اور لین دین کے بعض معاملات کو ربا اور سود قرار دیا ہے چنانچہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اگر ان کا باہمی تبادلہ یا ان کی باہمی خرید و فروخت کی جائے تو یہ ضروری ہے کہ لین دین برابر سرابر بھی ہو اور دست بدست بھی ہو برابر سرابر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنا گیہوں بطور تبادلہ بیع دے تو اس سے اتنا ہی گیہوں لے جتنا خود دے دست بدست کا مطلب یہ ہے کہ جس مجلس میں معاملہ طے ہو اس مجلس میں دونوں فریق اپنا اپنا حق ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لیں یہ نہ ہونا چاہئے کہ ایک فریق تو نقد دے اور دوسرا یہ وعدہ کرے کہ میں بعد میں دے دونگا اگر اس حکم کے برخلاف ہو گا کہ یا لین دین برابر نہ ہو یا دست بدست نہ ہو تو اس صورت میں وہ معاملہ ربا یعنی سود کے حکم میں داخل ہو جائے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے آیا ربا کا حکم انہی چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ چیزیں بطور مثال کے بیان فرمائی گئی ہیں اور دوسری کچھ اشیاء بھی اس حکم میں داخل ہیں اور اگر دوسری اجناس بھی داخل ہیں تو ان کا ضابطہ کیا ہے۔

چنانچہ ائمہ مجتہدین کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض مثال کے طور پر ہیں اور انہوں نے اپنے اجتہاد سے کچھ اور چیزوں مثلاً لوہے چونے اور دیگر اجناس کو ان چھ چیزوں پر قیاس کیا ہے اور اس سلسلے میں ایک ضابطہ بنانے کے لئے ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد سے ان چھ چیزوں میں ربا کی علت الگ الگ متعین کی ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

حضرت امام مالک کے نزدیک ان چھ چیزوں میں سے سونے اور چاندی میں ربا کی علت تو ثمنیت (یعنی کسی چیز کی قیمت ہونے کی صلاحیت) ہے اور باقی چار چیزوں میں ربا کی علت قوت مذخر (یعنی محفوظ رہنے والی غذا) ہونا ہے اس اعتبار سے ان چھ چیزوں کے علاوہ بھی جن چیزوں میں ثمنیت پائی جائے گی یا جو چیزیں قوت مذخر ہوں گی ان سب میں ربا حرام ہو گا لہذا حضرت امام مالک کے مسلک میں ترکاریاں پھل اور کھانے کی ایسی اشیاء جو (کافی عرصے تک) محفوظ نہ رہ سکتی ہوں وہ چیزیں ہیں جن کے باہمی تبادلہ اور خرید و فروخت حضرت امام شافعی کے نزدیک بھی سونے اور چاندی میں تو ربا کی علت ثمنیت ہے لیکن باقی چار چیزوں میں ربا کی علت محض قوت (یعنی صرف غذائیت) ہے۔ لہذا ان کے مسلک میں ترکاریوں پھلوں اور ادویات کی چیزوں میں ربا کا حکم جاری ہو گا کہ ان چیزوں کے باہمی تبادلہ میں برابر سرابر لینا دینا تو جائز ہو گا مگر کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا جائز نہیں ہو گا۔ اسی طرح حضرت امام شافعی کے ہاں لوہا تانبا پیتل دھات چونا اور اسی قسم کی دوسری اشیاء وہ چیزیں ہیں جن کے باہم تبادلہ میں ربا کا حکم جاری نہیں ہو گا مثلاً ایک پیمانہ چونے کے بدلے میں دو پیمانے چونے کا لینا دینا درست ہے اسی طرح ایک سیر لوہے یا ایک سیر تانبے کے بدلے میں دو سیر لوہا یا دو سیر تانبا لینا دینا جائز ہے۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں اصولی طور پر ربا کی علت قدر مع الجنس ہے اس اعتبار سے حنفی مسلک میں سونے اور چاندی میں ربا کی علت چونکہ مکیل ہے اس لئے ہر اس چیز کے باہمی لین دین میں ربا کا حکم جاری ہو گا جو مکیل(یعنی پیمانے کے ذریعے لی دی جانے والی) ہو جیسے چونا وغیرہ اور یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ شریعت نے جس چیز کے مکیل یا موزون ہونے کا حکم صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اس میں تبدلی روا نہیں ہے مثلاً سونے اور چاندی کو شریعت نے ان چیزوں میں شمار کیا ہے جو وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہیں اس لئے یہ دونوں موزون کے حکم میں ہیں اگرچہ عام رواج اس کے برخلاف ہو اسی طرح گیہوں جو کھجور اور نمک کو شریعت نے ان چیزوں میں شمار کیا ہے جو کیل یعنی پیمانے کے ذریعے لی دی جاتی ہیں اس لئے یہ چیزیں مکیل کے حکم میں ہیں اگرچہ عام رواج اس کے برخلاف ہو لہذا سونے یا چاندی کے باہم لین دین کے جائز ہونے میں وزن اور کیل ہی کا اعتبار ہو گا کہ اگر سونے کو سونے کے بدلے یا چاندی کو چاندی کے بدلے لیا دیا جائے تو وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہے وزن میں کمی بیشی قطعاً جائز نہیں ہو گی اسی طرح باقی چار چیزوں کے باہم لین دین کے جائز ہونے میں کیل کا اعتبار ہو گا کیونکہ اگرچہ عام رواج کے مطابق ان چیزوں کا لین دین وزن کے ذریعے ہوتا ہے لیکن شرعی طور پر یہ چیزیں مکیل ہی کے حکم میں ہوں گی۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی کو ایک من گیہوں کے بدلے میں ایک ہی من گیہوں دے تو تو یہ لین دین جائز نہ ہو گا تاوقتیکہ دونوں طرف کے گیہوں پیمانے کے اعتبار سے برابر سرابر نہ ہوں (لیکن یہ بات بھی پہلے صاف کی جا چکی ہے کہ حنفیہ میں حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک مطلقاً ہر چیز کے مکیل یا موزون ہونے میں عام رواج کا اعتبار ہے اور حنفیہ کے ہاں اس پر عمل ہے) جو کھجور اور نمک کا بھی یہی حکم ہے۔ ہاں جس چیز کا موزون یا مکیل ہونا شریعت نے صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا ہے اس کے بارے میں عام رواج ہی کا اعتبار ہو گا کہ اگر وہ چیز عام رواج کے مطابق وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہو گی تو وہ شرعی طور پر بھی موزون ہی کے حکم میں ہو گی کہ اس کے باہم لین دین میں وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہو گا۔ اس لئے لوہا اور تانبا چونکہ عام رواج کے مطابق وزن کے ذریعے لیا دیا جاتا ہے اس لئے ان کے باہم لین دین میں وزن کا برابر سرابر ہونا ضروری ہے اگر وزن میں کمی بیشی ہو گی تو یہ ربا کے حکم میں داخل ہو گا۔

حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے اور گیہوں گیہوں کے بدلے اور جو جو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے میں اگر دیا جائے تو ان کا لین دین برابر سرابر دست بدست ہونا چاہئے۔ لہذا جس نے ایسا نہیں کیا بلکہ زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا اور لیا تو گویا اس نے سود لیا اور سود دیا اور لینے دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں (مسلم)

سونے چاندی کے باہم لین دین کا حکم

حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونے کو سونے کے بدلے میں فروخت نہ کرو الا یہ کہ دونوں وزن میں برابر سرابر ہوں لہذا دونوں میں کمی بیشی نہ کرو اسی طرح چاندی کو چاندی کے بدلے میں فروخت نہ کرو الا یہ کہ دونوں برابر سرابر ہوں لہذا دونوں میں کمی بیشی نہ کرو نیز ان سونے اور چاندی میں سے کسی کا باہم لین دین اس طرح نہ کرو کہ ایک تو نقد دے اور دوسرا ادھار (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص سونے کے زیور کا سونے کے ساتھ یا چاندی کے زیور کا چاندی کے ساتھ تبادلہ کرے تو اس صورت میں بھی دونوں کا وزن میں برابر سرابر ہونا ضروری ہے زیور کی بنوائی لینی جائز نہیں ہے کیونکہ پھر اسطرح کمی بیشی لازم آئے گی جو سود کے حکم میں ہو جائے گی۔

ہم جنس چیزوں کا تبادلہ برابر سرابر کرو

اور حضرت معمر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ غذا کے بدلے میں (یعنی غلہ کو ہم جنس غلہ کے بدلے میں) اگر لیا دیا جائے تو یہ لین دین برابر سرابر ہونا چاہئے (مسلم)

متحد القدر چیزوں کے باہمی تبادلہ میں ادھار ناجائز ہے

اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونے کا سونے کے ساتھ (برابر  سرابر بھی) تبادلہ سود ہے الا یہ کہ لین دین دست بدست ہو (یعنی اگر دونوں طرف سے برابر سرابر اور دست بدست لین دین ہو تو پھر سود نہیں ہے) اسی طرح چاندی کا چاندی کے ساتھ تبادلہ سود ہے الا یہ کہ لین دین دست بدست ہو گیہوں کا گیہوں کے ساتھ تبادلہ سود ہے الا یہ کہ لین دین دست بدست ہو جو کا جو کے ساتھ تبادلہ سود ہے الا یہ کہ لین دین دست بدست ہو کھجور کا کھجور کے ساتھ تبادلہ سود ہے الا یہ کہ لین دین دست بدست ہو (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ہم جنس چیزوں میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تبادلے کے معاملے میں تین صورتیں ہوتی ہیں

-1 یا تو دونوں طرف موزون ہوں یا مکیل ہوں

-2 دونوں طرف اشیاء نقد ہوں یا دونوں طرف ادھار ہوں

-3 ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف کچھ دنوں کے لئے یا زیادہ دنوں کے لئے ادھار ہو ان تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت کے مطابق تو لین دین جائز ہو گا بشرطیکہ دونوں طرف مقدار برابر سرابر ہو کہ اگر وہ دونوں چیزیں موزون ہیں تو وزن میں برابر ہوں اور اگر مکیل ہوں تو پیمانہ میں برابر ہوں اور یہ کہ دونوں طرف کی اشیاء نقد ہوں اور بعد کی دونوں صورتوں کے مطابق یعنی دونوں طرف ادھاریا ایک طرف ادھار ہونے کی صورت میں لین دین کا معاملہ جائز نہیں ہو گا اگرچہ مقدار کے اعتبار سے دونوں ہم جنس چیزیں برابر سرابر ہوں

اچھی اور خراب ہم جنس چیزوں کے تبادلہ میں بھی کمی بیشی کے ساتھ لین دین جائز نہیں

حضرت ابوسعید اور ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا چنانچہ جب وہ شخص وہاں سے واپس آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بہت عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاصر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کھجوریں دیکھ کر اس سے پوچھا کہ کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی اچھی ہوتی ہیں اس نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم سب کھجوریں ایسی نہیں ہوتیں بلکہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ دو صاع (خراب) کھجوروں کے بدلے میں ایک صاع اچھی کھجوریں اور تین صاع(خراب) کھجوروں کے بدلے دو صاع اچھی کھجوریں لے لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کرو بلکہ پہلے تمام کھجوروں کو ملا کر درہموں کے عوض فروخت کرو اور پھر ان درہموں کے عوض اچھی کھجوریں خریدو اور پھر فرمایا جو چیزیں ترازو یعنی وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کھجور اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جو کیل یعنی پیمانے کے ذریعے لی دی جاتی ہیں یہ حکم بیان کیا گیا ہے اسی طرح ان چیزوں کے بارے میں بھی کہ جو وزن کے ذریعے لی دی جاتی ہیں جیسے سونا اور چاندی وغیرہ یہی حکم ہے کہ اگر ان میں سے ایسی دو ہم جنس چیزوں کا باہمی تبادلہ کیا جائے جن میں سے ایک اچھی ہو اور دوسری خراب تو اس صورت میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ پہلے تو خراب چیز کو درہم یا روپیہ کے عوض فروخت کر دیا جائے اور پعر اس درہم یا روپیہ سے اچھی چیز خرید لی جائے

حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت بلال نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اچھی قسم کی کھجور لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ خراب کھجوریں تھیں اس میں سے میں نے دو صاع کھجوریں دے کر اس کے بدلے میں ایک صاع یہ اچھی کھجوریں لے لی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اوہ یہ تو بالکل سود ہے ایسا نہ کرو البتہ جب تم اچھی کھجوریں بدلنا چاہو تو یہ طریقہ اختیار کرو کہ پہلے اپنی خراب کھجوریں درہم یا روپے کے عوض فروخت کر دو پھر ان درہموں یا روپیوں کے ذریعے اچھی کھجوریں خرید لو (بخاری و مسلم)

ایک غلام کے بدلے میں دو غلام

حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہجرت پر بیعت کی یعنی اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عہد کیا کہ میں اپنے وطن کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر باش رہوں گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ غلام ہے کچھ دنوں کے بعد جب اس کا مالک اس کو تلاش کرتا ہوا آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ اس غلام کو میرے ہاتھ بیچ دو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو دو سیاہ رنگ کے غلاموں کے بدلے میں خرید لیا اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی شخص سے بیعت نہ لی جب تک کہ یہ معلوم نہ کر لیا کہ وہ غلام ہے یا آزاد (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک غلام کو دو غلاموں کے بدلے میں لینا دینا جائز ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو چیزیں مال ربا میں داخل نہیں ان کا لین دین اس طرح کرنا کہ ایک طرف کم ہو اور دوسری طرف زیادہ ہو جائز ہے چنانچہ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ علماء نے اسی بنیاد پر یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ ایک جانور کو دو جانوروں کے بدلے میں دست بدست لینا دینا جائز ہے خواہ دونوں طرف سے ایک ہی جنس کے جانور ہوں یا دو جنس کے۔ البتہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین جائز ہے یا نہیں چنانچہ صحابہ میں سے ایک جماعت اس کے عدم جواز کی قائل تھی نیز حضرت عطاء ابن ابی رباح بھی اسی کے قائل تھے اور حضرت امام ابوحنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین کرنے سے منع فرمایا ہے لنیہ بعض صحابہ اس کے جواز کے قائل تھے اور حضرت امام شافعی کے مسلک میں بھی یہ جائز ہے۔

ہم جنس چیزوں کا تفاوت کے ساتھ لین دین جائز نہیں

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کے کسی ایسے ڈھیر کو کہ جس کی مقدار معلوم نہ ہو ایک معین پیمانے کی کھجوروں کے بدلے میں لینے دینے سے منع فرمایا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لین دین کی اس صورت سے منع فرمایا ہے کہ ایک طرف تو کھجوروں کی غیر معین مقدار کا ڈھیر ہو اور دوسری طرف کھجوروں کی ایک مقدار مثلاً دس یا بیس پیمانے (یا دس یا بیس من) ہو کیونکہ ایسی صورت میں اس ڈھیر کی کھجوروں کی مقدار غیر معلوم ہوتی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ ڈھیر دوسری طرف کی معین مقدار سے کم رہ جائے یا اس سے زیادہ ہو جائے اس کی وجہ سے ان دونوں ہی صورتوں میں سود کی شکل ہو جائے گی تاہم یہ ملحوظ رہے کہ لین دین کی یہ صورت باہم تبادلہ کی جانے والی ایسی دو چیزوں کے درمیان ممنوع ہے جو ایک ہی جنس سے ہوں جیسا کہ اوپر کھجور کی مثال دی گئی ہے ہاں مختلف الجنس چیزوں کے لین دین میں یہ صورت ممنوع نہیں ہے کیونکہ مختلف الجنس چیزوں کا باہمی لین دین کمی بیشی کے ساتھ بھی جائز ہے۔

سونے کی خرید و فروخت کا مسئلہ

حضرت فضالہ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے سال ایک ہار بارے دینار میں خریدا جو سونے کا تھا اور اس میں نگینے جڑے ہوئے تھے پھر جب میں نے انہیں الگ الگ کیا (یعنی نگینوں کو سونے سے نکال ڈالا) تو وہ سونا بارے دینار سے زائد قیمت کا نکلا میں نے اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایسا ہار اس وقت تک فروخت نہ کیا جائے تاوقتیکہ سونا اور نگینہ الگ الگ نہ کر لئے جائیں (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر مال ربا میں سے دو ایسی ہم جنس چیزوں کا ایک دوسرے کے عوض لین دین کیا جائے کہ ان میں سے ایک طرف کی چیز میں کوئی اور غیر جنس کی چیز بھی شامل ہو تو یہ جائز نہیں ہے چنانچہ اگر کوئی شخص مثلاً سونے کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض میں خرید و فروخت کرے خواہ وہ اشرفیوں کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں تو لازم ہے کہ پہلے اس زیور میں سے نگینے وغیرہ الگ کر دئے جائیں اور پھر اس زیور کا خالص سونا دوسری طرف کے سونے کے برابر سرابر وزن کے ساتھ لیا دیا جائے یہی حکم چاندی کے بارے میں بھی ہے کہ اگر چاندی کا کوئی ایسا زیور وغیرہ کہ جس میں کوئی اور غیر جنس چیز مخلوط ہو چاندی ہی کے بدلے میں خواہ وہ روپے کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں خرید و فروخت کیا جائے تو ضروری ہے کہ اس زیور وغیرہ کی چاندی کو الگ کر کے دوسری طرف کی چاندی کے برابر سرابر وزن کے ساتھ خریدا جائے یا فروخت کیا جائے اور یہ حکم اس لئے ہے تاکہ ہم جنس چیزوں کا کمی بیشی کے ساتھ باہمی لین دین ہونے کی وجہ سے سود کی صورت پیدا نہ ہو جائے ہاں اگر سونے کا جڑاؤ زیور وغیرہ چاندی کے بدلے میں خرید و فروخت کیا جائے خواہ وہ چاندی روپے کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں یا اس کا برعکس ہو کہ چاندی کا جڑاؤ زیور سونے کے بدلے میں خرید و فروخت کیا جائے خواہ وہ سونا اشرفی وغیرہ کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں تو اس صورت میں اس جڑاؤ زیور سے نگینے وغیرہ اکھاڑ کر الگ کر دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ مختلف الجنس چیزوں کا باہمی لین دین کمی بیشی کے ساتھ بھی جائز ہے اس میں کمی زیادتی سے سود کی صورت پیدا نہیں ہوتی

سود کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب سود کھانے والوں کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہے گا اور اگر کوئی شخص ایسا باقی بھی رہے گا تو وہ سود کے بخار میں مبتلا ہو گا نیز (بعض کتابوں میں لفظ من بخارہ کی بجائے) من غبارہ (یعنی وہ سود کے غبار میں مبتلا ہو گا) نقل کیا گیا ہے (احمد ابوداؤد نسائی ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 بخار یا غبار سے مراد سود کا اثر ہے مطلب یہ ہے کہ سود کے عام ابتلاء کے زمانے میں اگر کوئی شخص براہ راست سود کے لین دین سے بچ بھی جائے گا تو وہ کسی نہ کسی صورت میں سود کے زیر اثر ضرور ہو گا مثلاً وہ کسی سود خور کا ملازم و وکیل ہو گا یا تمسک لکھنے والا ہو گا یا کسی سودی معاملے کا گواہ ہو گا یا سودی کاروبار کے درمیان رابطہ پیدا کرنے والا ہو گا یا اس کے اپنے دوسرے ذاتی و تجارتی معاملات سود خوروں کے ساتھ استوار ہوں گے اس طرح ایسا شخص بھی بالواسطہ طور پر سود کے مال سے اپنے مال کو ملوث کرے گا یا یہ کہ جب سود کا دائرہ وسیع ہو کر تجارت و معیشت کے ہر گوشہ پر حاوی ہو گا (جیسا کہ آج کل ہے) تو پھر سود کا مال ہر شخص تک کسی نہ کسی حیثیت میں ضرور پہنچے گا۔ مثال کے طور پر اپنے ہی زمانے کو لے لیجئے آپ ایک متقی شخص کو دیکھتے ہیں جو اتنا دیندار اور اتنا پرہیزگار ہے کہ اس کی اعتقادی و عملی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جہاں ذرا سا بھی جھول نظر آئے اور واقعۃً اس شخص کی پاکبازی و پرہیزگاری ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے مگر جب وہی شخص اپنے بچوں کے لئے ایک آنے کی مونگ پھلی خرید کر لاتا ہے تو کیا وہ شخص بھی اس کا تصور کرتا ہے کہ میں جو یہ ایک کمتر سی چیز اپنے بچوں کو کھلا رہا ہوں یا خود کھا رہا ہوں نہ معلوم یہ کتنے سودی ذرائع اور کتنے سودی لین کے مراحل سے گزر کر میرے ہاتھوں تک پہنچی ہے حدیث کا یہی مفہوم ہے کہ آنے والے زمانہ میں سود کی لعنت اتنی ہمہ گیر اور وسیع ہو گی کہ ہر شخص شعوری وغیرہ شعوری طور پر اس میں مبتلا ہو گا کوئی بلاواسطہ سود کھائے گا کوئی بالواسطہ اس کا مرتکب ہو گا اور کوئی بالکل ہی غیر شعوری طور پر اس کے زیر اثر ہو گا۔

مختلف الجنس چیزوں کے دست بدست باہمی لین دین میں کمی بیشی جائز ہے

حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ تو سونا سونے کے بدلے میں بیچو نہ چاندی چاندی کے بدلے میں نہ گیہوں گیہوں کے بدلے میں نہ جو جو کے بدلے میں نہ کھجور کھجور کے بدلے میں اور نہ نمک نمک کے بدلے میں ہاں برابر سرابر نقد بہ نقد یعنی دست بدست لین دین جائز ہے چنانچہ سونا چاندی کے بدل میں اور چاندی سونے کے بدلے میں گیہوں جو کے بدلے میں اور جو گیہوں کے بدلے میں اور کھجور نمک کے بدلے میں اور نمک کھجور کے بدلے میں دست بدست جس طرح چاہو خرید و فروخت کرو (نسائی)

 

تشریح

 

 حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ایسی دو چیزوں کا آپس میں لین دین کرو جو ہم جنس ہوں (جیسے گیہوں گیہوں کے بدلے میں تو اس صورت میں برابر سرابر اور دست بدست ہونا ضروری ہے اور اگر ایسی دو چیزوں کا آپس میں لین دین کیا جائے جو ہم جنس نہ ہوں بلکہ الگ الگ جنس کی ہوں (جیسے گیہوں جو کے بدلے میں) تو اس صورت میں صرف دست بدست ہونا ضروری ہے برابر سرابر ہونا ضروری نہیں ہے

خشک اور تازہ پھلوں کے باہمی لین دین کا مسئلہ

حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جب تازی کھجور کے بدلے میں خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تازہ کھجور خشک ہونے کے بعد کم ہو جاتی ہے عرض کیا گیا کہ جی ہاں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح لین دین سے منع فرمایا (مالک ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خشک اور تازہ کھجوروں کے باہم لین دین سے اس لیے منع فرمایا کہ اس صورت میں برابر سرابر ہونے کی شرط فوت ہو جائے گی جس کی وجہ سے وہ سودی معاملہ ہو جائے گا چنانچہ حضرت امام مالک ٫ حضرت امام شافعی٫ حضرت امام احمد رحمہم اللہ اور دیگر اکثر علماء کے علاوہ حنفیہ میں سے حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ نے بھی اس حدیث پر عمل کیا ہے جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے ہم جنس خشک اور تازہ پھلوں کے باہمی لین دین کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ دونوں طرف کے پھل مقدار یا وزن میں برابر سرابر ہوں انہوں نے اس حدیث کو نسیۂ کی صورت پر محمول کیا ہے یعنی امام اعظم کے نزدیک حدیث میں مذکورہ ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ ایک فریق تو نقد دے اور دوسرا فریق بعد میں دینے کا وعدہ کرے چنانچہ مذکورہ بالا حدیث سے امام اعظم نے جو مراد اختیار کی ہے اس کی تائید ایک اور روایت سے ہوتی ہے جو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تازہ کھجور کے بدلے میں خشک کھجور کا لین دین ادھار کی صورت میں ممنوع قرار دیا ہے نیز اس مسئلہ میں جو حکم خشک و تازہ کھجوروں کا ہے وہی حکم دیگر پھلوں مثلاً انگور وغیرہ کا بھی ہے نیز خشک و تازہ گوشت کا معاملہ بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

گوشت اور جانور کے باہمی تبادلہ کا مسئلہ

حضرت سعید بن مسیب بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جانور کے بدلے میں گوشت کا لین دین کرنے سے منع فرمایا ہے نیز حضرت سعد کا بیان ہے کہ جانور کے بدلے میں گوشت کا لین دین زمانہ جاہلیت کے جوئے کی قسم سے تھا (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت کے جوئے کی قسم سے مراد یہ ہے کہ جس طرح جوئے کی صورت میں غلط ذرائع سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے اسی طرح اس میں بھی ایسی ہی صورت پیدا ہو جاتی ہے اگرچہ طریقہ کے اعتبار سے دونوں صورتیں مختلف ہیں کیونکہ اس میں جو کھیلا جاتا ہے اور اس میں لین دین کا ایک معاملہ کیا جاتا ہے۔

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جانور کے عوض گوشت کے لین دین کا معاملہ حرام ہے خواہ گوشت اس جانور کی جنس کا ہو یا کسی دوسری جنس کے جانور کا ہو نیز چاہے وہ جانور کھایا جاتا ہو چاہے نہ کھایا جاتا ہو جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں یہ معاملہ جائز ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک موزوں چیز (یعنی گوشت کہ اس کا لین دین وزن کے ذریعے ہوتا ہے) کا تبادلہ ایک غیر موزوں چیز یعنی جانور کا اس کا لین دین وزن کے ذریعے نہیں ہوتا کے ساتھ کیا جاتا ہے جس میں دونوں طرف کی چیزوں کا برابر سرابر ہونا ضروری نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ لین دین اور خرید و فروخت کی یہ صورت جائز ہے ہاں اس صورت میں چونکہ لین دین کا دست بدست ہونا ضروری ہے اس لئے حدیث میں مذکورہ بالا ممانعت کا تعلق دراصل گوشت اور جانور کے باہم لین دین کی اس صورت سے ہے جبکہ لین دین دست بدست نہ ہو بلکہ ایک طرف تو نقد ہو اور دوسری طرف وعدہ یعنی ادھار۔

دو جانوروں کا باہمی تبادلہ ادھار کی صورت میں ناجائز ہے

حضرت سمرۃ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین کرنے سے منع فرمایا ہے۔

غیر مثلی چیز کے قرض لینے کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بارے میں مروی ہے کہ ایک غزوہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ لشکر کا سامان درست کر لو (یعنی لشکر میں شامل ہونے کے لئے سواری اور ہتھیار وغیرہ تیار رکھو) چنانچہ جب اونٹوں کی کمی ہوئی (یعنی جتنے اونٹ تھے وہ اکثر لوگوں میں تقسیم ہو گئے اور کچھ لوگ کہ جن میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بھی شامل تھے اونٹ حاصل نہ کر سکے) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ قرض لے لیں چنانچہ حضرت عبداللہ زکوٰۃ کے اونٹ آنے تک کے وعدے پر دو اونٹ کے عوض ایک اونٹ لے لیا کرتے تھے (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث کا مطلب سمجھنے سے پہلے قرض کے بارے میں ایک بنیادی بات جان لیجئے کہ صرف اسی چیز کا قرض لینا درست ہے جو اپنی مثل رکھنی ہو بایں معنی کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کی جا سکتی ہو جیسے اناج انڈا گوشت اور روپیہ وغیرہ ایسی چیز کو مثلی کہا جاتا ہے اور جو چیز ایسی ہو کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کرنا مشکل ہو تو اس کا قرض درست نہیں ہے جیسے پھل اور جانور وغیرہ ایسی چیز کو غیر مثلی کہتے ہیں۔

اب حدیث کی طرف آئیے حضرت عبداللہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ لے لیں کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی شخص سے اس شرط پر بطور قرض اونٹ لے لیں کہ جب زکوٰۃ میں حاصل ہونے والے اونٹ آ جائیں گے تو وہ اس کا قرض ادا کر دیں گے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا جائز نہیں ہے اور اونٹ بھی غیر مثلی ہے اس لئے اس حدیث کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ کو یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا بھی جائز تھا مگر بعد میں غیر مثلی چیز کے قرض لینے کا جواز چونکہ ختم کر دیا گیا تھا اس لیے یہ حدیث گویا منسوخ ہے۔

لیکن شیخ عبد الحق نے اس حدیث کے حکم کو بیع پر محمول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین جائز ہے جبکہ ہمارے (یعنی حنفی) علماء نے حضرت سمرۃ بن جندب حدیث جو اس سے پہلے گزری ہے) کے مطابق اس کو ممنوع قرار دیا ہے چنانچہ تورپشتی نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی یہ روایت ضعیف ہے جبکہ حضرت سمرۃ کی روایت اس سے کہیں زیادہ قوی ہے اس لئے حنفیہ نے حضرت سمرۃ کی حدیث پر عمل کیا ہے یا پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ وہ ہم جنس چیزوں کا باہمی ادھار لین دین ربا کی قسم میں داخل نہیں تھا لیکن جب لین دین کی یہ صورت ربا قرار پائی تو اس حدیث کا یہ حکم بھی منسوخ قرار پا گیا۔

ادھار لین دین میں سود کا مسئلہ

حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ادھار لین دین میں سود ہو جاتا ہے ایک اور روایت میں یوں ہے کہ اس لین دین میں سود نہیں ہوتا جو دست بدست ہو (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 ادھار لین دین میں سود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سود کی صورت ایسے معاملے میں پیدا ہوتی ہے جس میں دو ہم قدر چیزوں کا باہمی تبادلہ ادھار کی شکل میں ہو کہ ایک فریق تو نقد دے اور دوسرا بعد میں دینے کا وعدہ کرے اگرچہ دونوں میں چیزوں کی جنسیں مختلف ہوں اور برابر سرابر ہوں مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو جو دے کر اس سے گیہوں لے تو اس لین دین میں کمی بھی جائز ہے بشرطیکہ دست بدست لین دین ہو اگر کسی ایک طرف سے بھی ادھار ہو گا تو پھر یہ معاملہ جائز نہ ہو گا اور سود کی صورت ہو جائے گی اسی طرح اس لین دین میں سود نہیں ہوتا جو دست بدست ہو گا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسی دو چیزوں کا باہمی تبادلہ کیا جائے جو ایک جنس کی ہوں اور برابر سرابر ہوں نیز دونوں فریق اپنی اپنی چیز اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں کر لیں تو یہ جائز ہو گا اور سود کی صورت نہیں ہو گی اور اگر دونوں چیزیں ایک جنس کی ہوں تو پھر کمی بیشی کے ساتھ لین دین میں بھی یہ معاملہ جائز ہو گا اور سود کی صورت نہیں ہو گی بشرطیکہ لین دین دست بدست ہو۔

سود کھانے پر وعید

حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کھانا کہ یہ سود ہے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہے (احمد دارقطنی) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے اس روایت میں حضرت ابن عباس کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کا گوشت حرام مال سے پیدا ہوا ہو (یعنی جس شخص کی جسمانی نشوونما حرام مال مثلاً سود و رشوت وغیرہ سے ہوئی ہو وہ شخص دوزخ ہی کے لائق ہے۔

 

 

تشریح

 

 جس طرح مذکورہ بالا وعید اس شخص کے بارے میں فرمائی گئی ہے جو سود کا مال یہ جاننے کے باوجود کھائے کہ یہ مال سودی ذریعے سے حاصل شدہ ہے اسی طرح اس وعید کا تعلق اس شخص سے بھی ہے جس نے لاعلمی میں سود کا مال کھایا بشرطیکہ اس لاعلمی میں خود اس کی اپنی کوتاہی یا لاپرواہی کا دخل ہو۔

علماء کہتے ہیں کہ سود کھانے کے گناہ کو زنا کے گناہ سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ اس لئے کہا گیا ہے کہ سود کھانے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ نے جتنی سخت اور غضب ناک تنبیہ فرمائی ہے اتنی سخت اور غضب ناک تنبیہ زنا کی کسی بھی گناہ کے بارے میں نہیں فرمائی ہے چنانچہ سود کھانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یوں متنبہ کیا ہے

آیت (فاذنوا بحرب من اللہ ورسول)

اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کا

یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ کسی کے خلاف اعلان جنگ کا کیا مطلب ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جس شخص کے خلاف اعلان جنگ کرے یا جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے برسر جنگ ہو اس کی محرومی شقاوت بدبختی اور دنیا و آخرت کی مکمل تباہی و بربادی کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ سود کھانے والے کے حق میں اتنی سخت وعید اور اتنی شدید و غضب ناک تنبیہ کا سبب یہ ہے کہ سود کے بارے میں عملی طور پر ہی گمراہی کا صدور نہیں ہوتا بلکہ سود کی پہچان مشکل ہونے کی وجہ سے عموماً اعتقادی گمراہی میں بھی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ سود کو حرام بھی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ذہن و فکر اور قلب و دماغ پر گمراہی و کجروی کی اتنی ظلمت چھائی ہوئی ہے کہ وہ سود کو حلال سمجھتے ہیں اور یہ معلوم ہی ہے کہ سود کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کا مرتکب ہونا عملی گمراہی یعنی گناہ کبیرہ ہے جس پر معافی بھی ممکن ہے مگر سود کی حرمت کا اعتقاد نہ رکھنا بلکہ اس کو حلال سمجھنا اعتقادی گمراہی و کجروی ہے جس کا آخری نتیجہ کفر ہے اور اس کی معافی و بخشش ناممکن ہے جبکہ زنا ایک فعل ہے جس کی حرمت و برائی سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا جو شخص اس فعل میں مبتلا ہوتا ہے وہ بھی اس کی برائی کا بہرصورت اعتقاد رکھتا ہے یہاں تک کہ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب و فرقے میں زنا ایک برائی ہی تصور کی جاتی ہے کوئی بھی اسے جائز اور حلال نہیں سمجھتا۔

اب رہی یہ بات کہ چھتیس کا عدد بطور خاص کیوں ذکر کیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا مقصد محض سود کی حرمت کی اہمیت جتانا ہے یا اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں اور ان میں جو سب سے ادنی درجہ ہے وہ ایسا جیسا کہ کوئی شخص اپنی ماں سے صحبت کرے۔

 

 

٭٭ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سود (سے حاصل شدہ مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر آخر کار اس میں کمی یعنی بے برکتی آ جاتی ہے ان دونوں روایتوں کو ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے نیز دوسری روایت کو امام احمد نے بھی نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 سودی ذرائع سے حاصل ہونے والا مال بظاہر تو بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے مگر چونکہ سودی مال میں خیر و برکت کا کوئی جزء نہیں ہوتا اس لئے انجام کار وہ مال اس طرح تباہ و برباد اور ختم ہو جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا یہ محض ایک وعیدی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روزانہ نظروں کے سامنے آتی رہتی ہے چنانچہ اسی حقیقت کو قرآن کریم نے بھی ان الفاظ میں واضح کیا ہے

آیت (یمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَیرْبِی الصَّدَقٰتِ) 2۔ البقرۃ:276)

اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے

اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ انسان جو مال سود کے ذریعے حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نیست ونابود کر دیتا ہے مگر انسان اپنی جائز محنت و حلال ذریعہ سے جو مال کما کر اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے گویا اس آیت میں سود اور صدقہ کو ایک ساتھ ذکر کر کے جہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد ہے وہیں ان دونوں کے متضاد نتائج کی نشان دہی بھی کی گئی ہے چنانچہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی لالچ کے انسان اپنا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دوسروں کو دیتا ہے جبکہ سود میں بغیر کسی معاوضہ کے انسان محض مال و زر کی ہوس اور دولت کی فراوانی کے جذبے کے تحت دوسرے سے مال حاصل کرتا ہے اس طرح دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض بالکل جدا جدا ہوتی ہے کہ صدقہ کرنے والا محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کے لیے اپنے مال کو ختم کرنے یا کم کرنے کا فیصلہ کر کے ایک زبردست ایثار کرتا ہے اور سود لینے والا محض دنیاوی حرص و طمع کی بناء پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے غصہ و ناراضگی سے بالکل بے پرواہ ہو کر اپنے موجودہ مال میں نا جائز زیادتی کا خواہش مند ہوتا ہے یہ تو سود اور صدقہ کی حقیقت کا تضاد تھا دونوں کے نتائج کا تضاد یہ ہے کہ جو مال اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر ناجائز طریقے یعنی سود سے حاصل کیا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے یا اس میں سے برکت اٹھا لیتا ہے اس کے برخلاف جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی و خوشنودی کی خاطر اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھا دیتا ہے بایں طور کہ اس کے موجودہ مال میں خیر و برکت عطاء فرماتا ہے۔

اس آیت کے ضمن میں دونوں کے نتائج میں تضاد کا مطلب مفسرین نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ سود کو مٹانے اور صدقہ کو بڑھانے کا تعلق آخرت سے ہے یعنی سود خوار کو اس کا مال آخرت میں کچھ نفع نہیں پہنچائے گا بلکہ عذاب ہی کا موجب بنے گا جبکہ صدقہ کرنے والے کا مال آخرت میں اس کے لئے ابدی سعادتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا پھر سود کا مٹایا جانا اور صدقہ کا بڑھایا جانا آخرت سے تو تعلق رکھتا ہی ہے مگر اس کے کچھ آثار دنیا ہی میں مشاہدہ ہو جاتے ہیں چنانچہ سود جس مال میں شامل ہو جاتا ہے بعض اوقات وہ مال اس طرح تباہ و برباد ہو جاتا ہے کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں جیسا کہ سود اور سٹہ کے بازاروں میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ ہو جاتے ہیں اگرچہ بے سود کی تجارتوں میں بھی نفع و نقصانات کے احتمال ضرور ہیں اور اسی وجہ سے بعض مرتبہ بے سود کی تجارت کرنے والوں کو بھی کسی تجارت میں نقصان ہو جاتا ہے لیکن ایسا تاجر جو کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کی بھیک کا محتاج ہے یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں ہی میں نظر آتا ہے۔

بہرکیف جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے سودی مال کا وقتی طور پر بڑھنا اور آخر میں تباہ و برباد ہو جانا محض ایک شرعی وعید کے درجے کی بات نہیں ہے بلکہ اہل تجربہ کے بیانات بھی اس پر شاہد ہیں کہ سود کا مال فوری اور وقتی طور پر کتنا ہی بڑھ جائے لیکن وہ عموماً ایسا دیر پا نہیں ہوتا کہ اس کا فائدہ نسلوں تک پہنچے اگر ایسی کوئی نہ کوئی صورت پیش آ جاتی ہے جو سودی مال کو ختم یا کم کر دیتی ہے۔

 

سود خوروں کی ظاہری خوشحالی سے دھوکہ نہ کھائیے

 آج کل سود کا کاروبار عام ہے چپہ چپہ پر سود خوروں کا لین دین جاری ہے ان کے یہاں ظاہری طور پر مال و دولت کی ریل پیل نظر آتی ہے اسباب عیش و عشرت کی فراوانی ہر طرف رقصاں دیکھی جاتی ہے اسی لئے عام سطح میں لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ آج کل تو سود خوروں کو بڑی سے بڑی راحت حاصل ہے وہ کوٹھیوں بنگلوں اور عالیشان عمارتوں کے مالک ہیں نوکر چاکر اور شان وشوکت کے تمام سامان موجود ہیں اس لئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سود خوروں کو دنیا میں بھی راحت حاصل نہیں ہوتی اور ان کا مال وزر ان کا ساتھ نہیں دیتا حالانکہ غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو آپ کارخانوں اور فیکٹریوں اور بازاروں سے حاصل کر سکتے ہیں وہ سونے چاندی اور سکون کے عوض مل سکتا ہے لیکن جس چیز کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے اور نہ کسی بازار سے دستیاب ہوتی ہے بلکہ وہ ایک ایسے روحانی اطمینان اور قلب و دماغ کے ایسے سکون کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صورت میں براہ راست انسان کو عطا ہوتا ہے جو بعض اوقات بالکل بے سر و سامان انسان اور جانوروں تک کو میسر آ جاتا ہے اور بعض اوقات ہزاروں اسباب عیش و عشرت اور سامان راحت رکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہو سکتا ایک نیند کو لے لیجئے یہ نیند کیا ہے ایک راحت و سکون کا نام ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے آپ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ایک اعلی قسم کی خواب گاہ بنوا لیں جس میں ہوا روشنی کا پورا انتظام ہو عمدہ قسم کے اور آرام دہ پلنگ ہوں دلفریب و دل کش گدیلے بستر اور ملائم تکیے ہوں لکین آپ خود بتائیے کیا ان سامانوں کے مہیا ہو جانے پر نیند کا آ جانا لازمی ہے اگر آپ کو خود اس کا تجربہ نہیں ہے تو وہ ہزاروں آدمی اس کا جواب نفی میں دیں گے جنہیں کسی عارضے کی وجہ سے نیند نہیں آتی ان کے لئے یہ سامان دھرے رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ خواب آور دوائیاں بھی جواب دے دیتی ہیں چنانچہ نیند کے سامان تو بازار سے آ گئے لیکن نیند کسی بازار سے کسی بھی قیمت پر نہیں لائی جا سکتی اسی طرح دوسری لذتوں اور راحتوں کا حال ہے ان کے اسباب تو روپیہ پیسہ کے ذریعے حاصل ہو سکتے ہیں مگر ان راحتوں اور لذتوں کا حاصل ہونا ان اسباب کے باوجود بھی ضروری نہیں ہے یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر راحت اور اطمینان کا نام نہ پائیں گے وہ اپنی حرص و ہوس میں اپنی تجوریوں کو بھرنے اور اپنے ایک کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آتے ہیں کہ نہ ان کو اپنے کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے نہ اپنی بیوی بچوں کا خیال ایمانداری سے بتائیے کیا اطمینان و راحت اسی طرح حاصل ہوتا ہے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مال و دولت کو بڑھانے کی ادھیڑ بن میں اپنے آپ کو فنا کر دینے کا نام راحت ہے؟ کتنے بے وقوف ہیں وہ لوگ جنہوں نے اسباب راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے اور جو حقیقی راحت ہے اس سے کوسوں دور ہیں۔

 

سود خوروں کمی حقیق عزت حاصل نہیں ہوتی

 ایک دنیا دار انسان مال و دولت کے انبار اسی لیے جمع کرتا ہے کہ اسے دنیا کا اطمیادن سکون اور راحت حاصل ہو اور وہ سماج و معاشرہ میں عزت و وقار کی زندگی بسر کر سکے لیکن سود خوروں کی راحت کا حال تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں ظاہری طور پر مال و دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت اور راحت و آرام کے تمام تر اسباب کی موجودگی کے باوجود ان بدنصیبوں کو حقیقی راحت و اطمینان کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور سکون قلب و دماغ جیسی اعلی نعمت میں مسلسل مبتلا رہنے کی وجہ سے طبعی طور پر بھی بے رحم اور سنگ دل بن جاتا ہے اور اس کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت زدہ اور افلاس کے مارے لوگوں کی مصیبت و مفلسی سے اور کم مایہ انسانوں کی کم مائیگی سے فائدہ اٹھائے اور ان کا خون چوس کر اپنے بدن کو سیم وزر سے پا لے اس مقصد کے لیے وہ بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کے ہاتھ سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا چھیننے اور افلاس زدہ کی ستائی ہوئی باحیا عورت کے جسم پر لپٹے ہوئے کپڑے کا آخری چیتھڑا اتار لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا اس شقاوت اور سنگ دلی کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں سود خور کی عزت اور وقار کے لئے کوئی گوشہ ہو آپ اپنی آبادی کے کسی بھی بڑے سے بڑے سود خور پر نظر ڈالئے اس کی تجوریاں سونے چاندی اور روپیوں کے کتنے ہی بڑے ذخیروں سے بھری پڑی ہوں اس کے گھر میں مال و دولت کے کتنے ہی خزانے محفوظ ہوں لیکن کیا لوگوں کی نظروں میں اس کی ادنی بھی وقعت ہوتی ہے بے کس و مجبور لوگ بھلے ہی اپنی ضرورت و احتیاج کی بناء پر اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہیں مگر ان کے دلوں میں بھی اس کے لئے عزت و احترام کا کوئی ادنی سا جذبہ نہیں ہوتا معاشرہ میں اس کی حیثیت اس درندے کے برابر نہیں ہوتی جو اپنے پنجوں سے انسانوں کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ کر انہیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے ہر طبقہ میں اس انسانی شرف و احترام سے بھی محروم رہتا ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے سامنے عزت و وقار کا پیکر بنا کر پیش کرتا ہے۔

 

آج کی بین الاقوامی بے چینی اور اقتصادی بدحالی سود خوروں ہی کی مسلط کی ہوئی ہے

 بات جب چل نکلی ہے تو پھر سود خوری کے ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ بڑی مصیبت یہ ہے کہ سائنسی ارتقاء اور مادی عروج نے انسان کو یہ لینے کا سلیقہ کیا بخشا کہ سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ تک بدل گئے آج کا انسانی ذہن علم و دانش کی فراوانی اور فہم و فراست کی پختگی کے دعوے کے باوجود غور و فکر کے ایک مخصوص نہج سے آگے نہیں بڑھ سکا آج کی دنیا نے انسان کے گرد خالص مادی سانچے میں ڈھلے ذہن جدید کے مصنوعی نظریات کا جو حصار کھینچ دیا ہے اس نے سوجھ بوجھ کی تمام صلاحیتوں کو سیم و زر کے ایک خالص ماحول میں مقید کر دیا ہے اور احساسات فکر و نظر کو حقیقی اچھائی اور برائی کی قوت امتیاز سے محروم کر کے صرف دینا کے وقتی اور ظاہری فائدوں اور تن آسانیوں کا اسیر بنا دیا ہے اسی لئے آج ہمیشہ کی تسلیم شدہ صداقتیں قابل انکار ہو گئی ہیں اور ہزاروں سال پرانے اٹل اور حقیقی نظریات قابل شکست و ریخت سمجھے جانے لگے ہیں۔

اسلام کی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سود حرام ہے ہر فرد کے لئے ہر طبقہ کے لئے ہر زمانہ کے لیے اور ہر حالت میں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اگرچہ بظاہر پڑھے لکھے ہیں لیکن عہد حاضر کے مصنوعی افکار و نظریات نے انہیں دین و شریعت کے حقیقی راستے سے دور کر رکھا ہے اور ان کے ذہن و فکر پر موجودہ دور کی مخصوص چھاپ نے انہیں جہالت کی وادیوں میں بھٹکا رکھا ہے ان کے نزدیک نہ صرف حرمت سود جیسی مسلمہ حقیقت آج کے زمانہ میں ایک ناقابل عمل چیز ہے بلکہ مادی خوشحالی اور تجارتی کامیابیوں کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے ان کے نقطہ نظر سے آج کا معاشی نظام جو سود کی جکڑ بندیوں میں محصور ہے صرف ایک فرد ایک قوم ملک ہی کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے اقتصادی استحکام اور بنی نوع انسان کی معاشی خوشحالی کا ضامن ہے وہ بڑے بڑے سرمایہ دار ملک جنہوں نے سود کی شکل میں غریب قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کی اقتصادیات و معاشیات کی روح کھینچ کر ان کو دنیا کا گرویدہ بنا دیا ہے ان دیوانوں کی نظر میں بنی نوع انسان کی معاشی فلاح و بہبود اور ان کے اقتصادی اطمینان کے واحد سہارے ہیں یہ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سرمایہ دار طاقتوں نے غریب ملکوں اور اقتصادی بدحالی کی شکار قوموں کے لئے اپنے خزانوں کے جو منہ کھول رکھے ہیں وہ درحقیقت عالمی بھائی چارگی اور بین الاقوامی اقتصادی خوشحالی کے تئیں ان کے حقیقی جذبات ایثار و ہمدردی کا مظہر ہیں حالانکہ اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آ جائیگی کہ یہ سب کچھ اسی ہوس و عیاری کا ترقی یافتہ راستہ ہے جس پر چل کر پہلے تو ایک انسان نے دوسرا انسان کا خون چوسا ہے اور اب اسی راستہ پر گامزن ایک قوم اور ایک ملک دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں کا خون چوس رہے ہیں بس فرق اتنا ہی ہے کہ پہلے ایک فرد یا ایک طبقہ سود کی اقتصادی تباہ کاری کا شکار ہوا کرتا تھا اور اسے محسوس بھی کرتا تھا لیکن آج پورے پورے ملک اور پوری پوری قومیں سود کی اقتصادی تباہ کاری کا غیر محسوس طور پر شکار ہو کر اپنے با وقار وجود کو سود خوروں کے پاس رہن رکھ چکی ہیں۔ جن دانشوروں کی نظر دنیا کے ان اقتصادی منصوبوں پر ہے جن کے تحت سرمایہ دار ممالک پسماندہ قوموں اور ترقی پذیر ملکوں کو ہر سال اربوں ڈالروں کے امدادی قرض دیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ممالک کس طرح سودی شکل میں ان غریب ملکوں کی اقتصادی دولت کو دونوں ہاتھو سے لوٹ کر اپنے ملک کے خزانے بھر رہے ہیں۔

اس حقیقت سے کون باخبر اور با ہوش انسان انکار کر سکتا ہے کہ ان سود خور ملکوں کی سود خوری نے دنیا کے ان تمام غریب ملکوں کے اقتصادی نظام میں جو شومی قسمت سے اپنے وسائل اور اپنے دست و بازو کی قوت محنت پر بھروسہ نہ کر کے سرمایہ دار ملکوں کے جال فریب میں پھنس گئے ہیں غربت و افلاس اور مالی بدحالی کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ ان تمام تر معاشی ڈھانچہ اپنی جگہ چھوڑ چکا ہے اور اقتصادی موت کے دروازے پر پہنچ گیا ہے۔ اس صورت حال نے دنیا کے امن و سکون کو بھی متزلزل کر کے رکھ دیا ہے آج آپ کو کتنے ہی ایسے ملک نظر آئیں گے جو ان کی سیاسی اور ملکی پالیسیوں کی بھینٹ پڑھ گئے ہیں کہ ان کی اقتصادی زندگی کا تمام دارومدار انہیں سود خوروں کے امدادی اور سودی قرضوں پر ہے ان مسائل کا حل چونکہ ان کی سیاسی اور اقتصادی پالیسی کے خلاف ہے اس لیے وہ ان کو دنیا پر اس طرح معلق کئے ہوئے کہ آج ان کی وجہ سے قوموں کی قومیں اور ملک کے ملک اپنی داخلی بے چینیوں بے اطمینانیوں اور مایوسیوں کا شکار ہو کر موت وح یات کی کش مکش میں مبتلا ہیں اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آج پوری دنیا پر سیاسی بے اطمینانی اور اقصامدی بے چینی کا جو مہیب بادل چھایا ہوا ہے وہ دراصل سود خوروں کا مسلط کیا ہوا ہے جس سے کوندنے والی برق کسی بھی لمحہ بنی نوع انسان کے پورے وجود کو بھسم کر سکتی ہے۔

 

سود کے بارے میں ایک شبہ اور اس کا جواب

 بعض پڑھے لکھے لوگ اس شبہ میں بھی مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے جس ربا کو حرام قرار دیا ہے وہ ایک خاص قسم کا ربا تھا جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھا کہ کوئی غریب مصیبت زدہ شخص اپنی مصیبت دور کرنے کے لئے کسی سے قرض لے لیتا تھا اور قرض خواہ اس پر ایک متعین نفع سود لیا کرتا تھا یہ بے شک ایک سنگدلی کی بات تھی کہ کوئی شخص کسی کی مصیبت میں اس کی مدد کرنے کی بجائے الٹا اس کی مصیبت سے فائدہ اٹھائے۔ قرآن نے سود کی اس صورت کو حرام قرار دیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حرمت کا اطلاق آج کے زمانہ میں بھی سود کی اس صورت پر ہو سکتا ہے جو مہاجنوں اور دوسرے سود خوروں کے ہاں شخصی اور انفرادی طور پر رائج ہے کہ کوئی ضرورت مند و غریب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے خواہ کوئی چیز رہن و گروی رکھ کر یا اور کسی اعتماد پر ان سے قرض لیتا ہے اور اس پر حسب شرط و تعیین سود ادا کرتا ہے لیکن آ جکل تجارتوں بینکوں کمپنیوں اور اجتماعی اداروں کے ذریعہ جو سودی کاروبار ہوتا ہے اس کی صورت بالکل مختلف ہے جس کی وجہ سے اب سود دینے والے مصیبت زدہ لوگ نہیں رہے بلکہ متمول اور سرمایہ دار تجار ہیں جو غریبوں سے سود لینے کی بجائے خود ان کو دیتے ہیں ظاہر ہے کہ اس صورت میں غریبوں کا ہی فائدہ ہے کہ بہت سے قلیل سرمایہ والے لوگ مذکورہ بالا ذرائع سے کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں لہذا موجودہ دور کے تجارتی سود پر حرمت کا اطلاق نہیں ہونا چاہئے۔

اس کے جواب کے سلسلے میں پہلے تو ایک بنیادی بات یہ جان لین چاہئے کہ شریعت کے کسی بھی حکم کا تعلق اصول اور کلیہ سے ہوتا ہے جو نیات اور اقسام کے اختلاف سے اس حکم کے نفاذ پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ شریعت نے جس چیز کو اصولی طور پر حرام قرار دیا ہے وہ چیز اپنے تمام اجزاء اور اپنی تمام اقسام کے ساتھ حرام ہو گی یہ حق کسی کو حاصل نہیں ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں اس چیز کے کسی جزء یا کسی قسم کو محض اپنے خیال سے مستثنی کر دے یا اس حکم کے اطلاق کو بلا کسی شرعی دلیل کے مقید و محدود کر سکے۔ اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ اس حرمت کا تعلق اس شراب سے ہے جو پہلے زمانہ میں خراب قسم کے برتنوں میں سڑا کر بنائی جاتی تھی اب تو چونکہ صفائی ستھرائی کا بڑا اہتمام ہے مشینوں کے ذریعے سب کام ہوتا ہے اعلی درجہ کی شرابیں بنتی ہیں لہذا موجودہ دور کی شراب پر حرمت کا اطلاق نہیں ہونا چاہئے تو ظاہر ہے کہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو اسلامی شریعت کا ذرا سا بھی علم نہ رکھتا ہے یا اسلامی شریعت کے مزاج سے قطعاً ناواقف ہو۔

اس کے علاوہ اس پر بھی غور کیجئے کہ اس طرح احکام قرآن کو اپنے خیالات کے تابع کرنے کا دروازہ کھل جائے تو پھر کس چیز کی حرمت باقی رہ جائے گی قمار جوا چوری ڈاکہ زنا فواحش ان میں سے کون سی برائی ایسی ہے جس کی موجودہ صورت پہلے زمانہ کی صورت سے مختلف نہیں ہے اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ ان سبھی برائیوں کو جائز کہنا پڑے گا لہذا جب محض چولہ بدلنے سے کسی شخص کی حقیقت نہیں بدلا کرتی تو کوئی بھی برائی خواہ وہ کتنی صورت اختیار کے اس کا حکم بھی کی حال میں نہیں بدلے گا۔

اس بات کو سمجھ لینے کے بعد اب ربا کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں ربا کی مخالفت کا ذکر ایک جگہ نہیں مختلف سورتوں کی کئی آیتوں میں آیا ہے اور چالیس سے زائد احادیث میں مختلف عنوان سے اس کی حرمت بیان کی گئی ہے ان میں سے کسی ایک جگہ کسی ایک لفظ میں بھی یہ اشارہ نہیں ہے کہ حرمت کا یہ حکم کسی خاص صورت یا کسی خاص مصلحت کے پیش نظر ہے۔ حرمت ربا کی کسی بھی آیت یا کسی بھی حدیث سے یہ اشارہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ یہ حرمت صرف اس ربا کی ہے جو شخصی اغراض کے لئے لیا دیا جاتا تھا تجارتی سود اس سے مستثنی ہے بلکہ اگر اس مسئلہ پر تاریخی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سرے سے یہ خیال ہی غلط ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں سود کی صرف یہی صورت رائج تھی کہ کوئی مصیبت زدہ شخص یا غریب آدمی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لے سود پر قرض کا معاملہ کرتا تھا اور تجارتی معاملات کے لیے سود پر روپیہ لینے دینے کا رواج نہیں تھا بلکہ آیات ربا کا شان نزول دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت ربا جب نزول ہوا ہے تو اس وقت شخصی اغراض کے لئے سودی لین دین کے علاوہ تجارتی معاملات کے لئے بھی سود کا لین دین رائج تھا کیونکہ عرب اور بالخصوص قریش تجارت پیشہ لوگ تھے جو تجارتی اغراض ہی کے لئے سود کا لین دین کرتے تھے چنانچہ حضرت عباس اور حضرت خالد بن ولید کے بارے میں امام بغوی نے لکھا ہے کہ یہ دونوں شرکت میں کاروبار کرتے تھے اور ان کا لین دین طائف کے بنوثقیف کے ساتھ تھا۔ حضرت عباس کی ایک بڑی رقم سود کے طور پر بنوثقیف کے ذمہ واجب الادا تھی انہوں نے بنو ثقیف سے اپنی سابقہ رقم کا مطالبہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کے اس حکم کے تحت کہ ربا حرام قرار دے دیا گیا ہے اپنے چچا حضرت عباس کو سود کی اپنی اتنی بڑی رقم چھوڑ دینے کا حکم دے دیا جس کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بھی یوں فرمایا

حدیث (وربا الجاہلیۃ موضوع واول ربا اضع من ربانا ربا عباس بن عبدالمطلب)

زمانہ جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا ہے اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں میں سے چھوڑتا ہوں عباس بن عبد المطلب کا سود ہے

اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے واقعات منقول ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ کا دوسرے قبیلہ کے ساتھ اور ایک خاندان کے ساتھ سودی لین دین تھا پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ جن قبائل یا خاندان کے باہمی سودی لین دین کا ذکر منقول ہے وہ کسی فوری ضرورت یا مصیبت کے تحت قرض لینے کی حیثیت سے نہیں تھا بلکہ اس اندازے سے تھا کہ ان کے درمیان یہ لین دین کاروباری اور تجارتی حیثیت سے مسلسل جاری تھا جیسے ایک تاجر سے یا ایک کمپنی دوسری کمپنی سے معاملہ کیا کرتی ہے بلکہ سودی کاروبار کرنے والے لوگ ربا کو بھی ایک قسم کی تجارت ہی سمجھا کرتے تھے جس کی تردید قرآن کو کرنی پڑی اور خرید و فروخت کے معاملات کو سود ہی کی ایک قسم سمجھنے والوں کے لئے سخت تہدید ووعید نازل ہوئی۔

اب رہی یہ بات کہ بینکوں کے سودی کاروبار سے غریب عوام کا نفع ہے کہ انہیں اپنی رقموں پر کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تو یاد رکھئے کہ یہی وہ حسین فریب ہے جس کی بنیاد پر یورپین اقوام نے سود جیسی بدیہی اور ہمیشہ کی مسلم لعنت کو کاروبار کا ایک خوب صورت جام پہنایا اور عوام نے اس فریب میں مبتلا ہو کر سود کے چند ٹکوں کے لالچ میں اپنی پونجی کو بینکوں کے حوالہ کر دیا اس طرح پوری قوم کا سرمایہ سمٹ کر بینکوں میں آگیا اور ادھر اس سرمایہ کو بڑے بڑے تاجروں اور بیوپاریوں نے بینکوں سے بطور قرض لیکر اپنے اپنے کاروبار کو وسعت دی اور اس سے جو عظیم الشان نفع حاصل ہوا اس میں سے چند ٹکے بینکوں کو دے کرباقی سب اپنی تجوریوں میں بھر لیا بینک والوں نے ان ٹکوں میں کچھ حصہ پوری قوم کے ان لوگوں کو بانٹ دیا جنہوں نے اپنی پونجی بینک کے حوالہ کی تھی اس طرح سرمایہ دار نے تو اپنے دس ہار روپیہ سے ایک لاکھ روپیہ کما لیا اور بے چارے غریبوں کے حصہ میں کیا آیا صرف چند ٹکے اب بتائیے کہ ان بینکوں سے بھی اصل فائدہ کسے حاصل ہوا ہے؟ سرمایہ دار کو یا غریب کو؟ فریب خوردہ غریب تو اس متوقع فائدہ سے بھی محروم رہا جو وہ اپنی پونجی کو بینک کے حوالے کر دینے کی بجائے کسی چھوٹی موٹی تجارت میں لگا دینے حاصل کرتا اسے تو اتنی بھی سہولت نہ ملی کہ وہ بینک سے کوئی بڑی رقم قرض لے کر کاروبار کر سکتا کیونکہ بینک تو کسی غریب کو پیسہ دینے سے رہا وہ تو بڑے بڑے سرمایہ داروں اور ساکھ والوں کو قرض دیتا ہے لیکن اس کے برخلاف سرمایہ دار نے بینک سے کیا فائدہ حاصل کیا اس نے بینک سے بڑی بڑی رقمیں قرض کے نام پر لیں ان رقموں سے تجارت و صنعت کی بڑی بڑی منڈیوں پر اپنا اجارہ جمایا اور ہر قسم کے کاروبار پر قابض ہو گیا۔ کسی کم سرمایہ والے کو مقابلہ و مسابقت (Competition) کے ذریعہ تجارت کے کسی میدان میں جمنے نہیں دیا اور انجام کار تجارت کا کاروبار جو پوری قوم کے لئے فائدہ مند اور ترقی کا ذریعہ تھا چند مخصوص لوگوں میں محدود ہو کر رہ گیا اور پھر آخر میں جا کر اس سودی کاروبار کی تان غریبوں ہی پر اس طرح ٹوٹی کہ جب تجارت کے اڈوں پر مخصوص سرمایہ دار ناگ بن کر بیٹھ گئے تو اشیاء کے نرخ بھی ان کے رحم و کرم پر رہ گئے جس کا نتیجہ وہ ہے جو آج ہر جگہ سامنے آ رہا ہے کہ سامان معیشت میں روز بروز گرانی بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اشیاء کی قیمتیں اس طرح چڑھ رہی ہیں کہ حکومتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود قابو میں نہیں آ رہی ہیں اور انجام کا فریب خود وہ عوام کو سود کے نام پر جو چند ٹکے ملے تھے ان کے نتیجہ میں سامان معیشت دوگنی تگنی قیمتوں تک پہنچا تو ان غریبوں کی جیب سے سود کے وہ چند ٹکے کچھ اور سود لے کر نکل گئے اور پھر لوٹ پھر کر انہیں سرمایہ داروں کی جیب میں پہنچ گئے لہذا بینکوں اور تجارتی اداروں کے سودی کاروبار کے اس فریب کا پردہ اٹھا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ سودی کاروبار کا عام نتیجہ کسی بھی طرح غریبوں کے حق میں مفید نہیں ہوتا بلکہ یہ درحقیقت پوری قوم کی غربت و افلاس اور چند سرمایہ داروں کے سرمایہ میں بے پناہ اضافہ کا ذریعہ ہے اور یہی وہ معاشی بے اعتدالی اور اقتصادی تباہ کاری ہے جو پوری قوم اور پورے ملک کی تباہی کا سبب بنتی ہے اس لئے اسلام نے سود کے ہر طریقہ اور ہر ذریعہ پر قدغن لگائی ہے خواہ وہ انفرادی و شخصی اغراض کے لئے قرض لینے کی صورت میں ہو یا اجتماعی تجارت اور بینکوں کے کاروبار کی شکل میں کیونکہ دونوں ہی صورتوں میں غریب کا خون سود خوروں کی غذا بنتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا معراج کی رات میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے پیٹ گھروں مکانوں کی مانند بڑے بڑے تھے اور ان کے پیٹوں میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو پیٹوں کے باہر سے بھی نظر آ رہے تھے میں نے انہیں دیکھ کربڑی حیرت کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں بتایا کہ یہ سود خور ہیں (احمد ابن ماجہ)

سود خور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لعنت

حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سود لینے والے سود دینے والے سود کا تمسک لکھنے والے سود کا حساب کتاب لکھنے والے اور صدقہ سے منع کرنے والے پر لعنت فرماتے تھے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے (نسائی)

 

تشریح

 

 صدقہ سے منع کرنے والے سے مراد یا تو وہ شخص ہے جو کسی دوسرے کو صدقہ و خیرات کرنے سے منع کرے اور روکے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے یا پھر اس سے وہ شخص مراد ہے جو واجب صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ ادا نہ کرتا ہو۔ کسی مردہ شخص کے اوصاف بیان کر کے اور چلا چلا کر رونا نوحہ کہلاتا ہے چونکہ یہ ایک انتہائی نازیبا اور خلاف وقار و دانش فعل ہے اس لئے شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔

ربا کی تشریح کے متعلق حضرت عمر کا ارشاد

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو چیز نازل ہوئی یعنی قرآن کریم اس کا معاملات سے متعلق جو حصہ سب سے آخر میں نازل ہوا ہے وہ ربا کی آیت ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے اس حالت میں تشریف لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی لہذا سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو (ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 یہ بات ابتداء میں بتائی جا چکی ہے کہ سود کی مروجہ شکل یعنی قرض و ادھار پر متعین نفع لینا اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور لوگوں میں اس طرح کے سود کا بہت زیادہ رواج تھا چنانچہ قرآن کریم نے جب ربا کی حرمت بیان کی اور آیت ربا نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حرمت کے اس حکم کو نہ صرف اس وقت کے رائج و متعارف سود پر نافذ کیا بلکہ ربا کے مفہوم کو وسعت دیکر اشیاء کے باہمی لین دین اور خرید و فروخت کی بعض صورتوں کو بھی ربا کے حکم میں داخل فرمایا جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے لیکن صورت یہ ہوئی کہ آیت ربا نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا میں بہت کم عرصہ تشریف فرما رہے اس تھوڑی مدت میں دیگر دینی و ضروری مصروفیات میں اتنا انہماک رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لین دین کی ان صورتوں کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں فرمایا یہاں تک آپ واصل بحق ہو گئے چنانچہ حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد میں تفصیل سے مراد انہیں صورتوں کی تشریح و تفصیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جن چھ چیزوں (سونا چاندی گیہوں جو کھجور نمک) کے باہمی لین دین کی بعض صورتوں کو ربا کے حکم میں داخل فرمایا تھا آیا یہ حکم ان چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ چیزیں بطور مثال کے بیان فرمائیں اور بقیہ چیزوں کو قیاس و اجتہاد پر موقوف رکھا ؟ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے ائمہ مجتہدین امام ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اپنے اپنے اجتہاد سے ان چیزوں کا ایک ضابطہ بنایا اور دوسری چیزوں کو بھی اس ضابطہ کے ماتحت اس حکم میں داخل قرار دیا اس کی تفصیل بھی گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے۔

حاصل یہ کہ نزول قرآن سے سود کا ایک مخصوص معاملہ یعنی قرض دے کر اس پر نفع لینا عربی زبان میں لفظ ربا کے ساتھ متعارف چلا آ رہا تھا اور پورے عرب میں اس کا رواج تھا چنانچہ اہل عرب صرف اسی خاص معاملہ کو ربا کہتے اور سمجھتے تھے اسی ربا کو قرآن کریم نے حرام فرمایا لہذا ربا کی اس صورت میں نہ کوئی ابہام تھا نہ اجمال اور اسی لئے جب قرآن کریم نے ربا کی حرمت کا ذکر کیا تو نہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقت ہوئی اور نہ کسی کو اس پر عمل کرنے میں ایک منٹ کا بھی تامل و تردد ہوا البتہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے باشارات وحی الہی ربا کے مفہوم میں اور چند معاملات کا اضافہ فرمایا تو چونکہ وہ معاملات اہل عرب کے متعارف مفہوم سے الگ اور ان کے مروجہ سود سے ایک زائد چیز تھی اور پھر اتفاق کی بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ربا کے اس وسیع مفہوم کی تفصیلات پوری تشریح کے ساتھ بیان فرمانے سے پہلے اس دنیا سے تشریف لے گئے اسی وجہ سے اس کی تشریحات میں حضرت فاروق اعظم کو کچھ اشکالات پیش آئے بالآخر انہوں نے اپنے اجتہاد سے احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ربا کی جو صورتیں بالکل واضح اور متعین ہیں جیسی مروجہ سود یا اشیاء کے باہمی لین دین کی وہ صورتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرما دی ہیں ان کو بھی ترک کر دو اور ان سے مکمل اجتناب کرو اور جس چیز میں سود کا شبہ اور شائبہ بھی محسوس ہو جائے ازارہ ورع و احتیاط اسے بھی چھوڑ دو اور اس سے پرہیز کرو۔

 

 ایک شبہ اور غلط فہمی

سود کے بارے میں بعض لوگوں نے حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد کو آڑ بنا لیا جو سود کی اس خاص قسم کے بارے میں تھا جس کا مروجہ سود کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں یعنی چھ چیزوں کا باہمی بیع و شراء اور لین دین ان لوگوں نے اس ارشاد کا یہ نتیجہ نکالا کہ ربا کی حقیقت ہی مبہم رہ گئی تھی۔ اس کے متعلق علماء اور فقہاء نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف ان کا اپنے اجتہاد تھا لیکن جیسا کہ ابھی اوپر بتایا گیا حضرت فاروق اعظم کو ربا کی صرف اس قسم کے بارے میں تردد پیش آیا جو قرآن کے الفاظ سے ثابت نہیں تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اس کی حرمت کو بیان فرمایا تھا اور وہ چھ چیزوں کی آپس میں خرید و فروخت کا معاملہ تھا جو سود آج کل رائج ہے اور جو ایام جاہلیت میں بھی عام تھا۔ اس سے حضرت عمر کے اس ارشاد کا دور کا تعلق بھی نہ تھا اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ زمانہ جاہلیت ہی سے اس کے معاملات رائج اور جاری تھے پھر اس ارشاد کہ ان چھ چیزوں کے سود کے بارے میں حضرت عمر کو جو اشکال پیش آیا وہ بھی اس بات میں نہیں تھا کہ انہیں ان چھ چیزوں کے لین دین میں سود کو حرام سمجھنے میں تردد تھا بلکہ اشکال صرف یہ تھا کہ یہ حکم شاید ان چھ چیزوں (یعنی سونا چاندی اور گیہوں وغیرہ) تک ہی محدود نہ ہو بلکہ اس کے حکم کا دائرہ ان چھ چیزوں کے علاوہ دیگر اشیاء تک بھی وسیع ہو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ لوگ یہ خیال کر کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف چھ چیزوں کے بارے میں یہ حکم فرمایا ہے دیگر اشیاء کے لین دین میں وہی صورتیں اختیار کر کے سود میں مبتلا ہو جائیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھ چیزوں کے لئے واضح طور پر ربا کہا ہے اس تردد کے پیش نظر آپ نے لوگوں کو حکم دیا کہ سود کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی قطعاً چھوڑ دو جن میں سود کا شائبہ تک نہ پایا جائے لہذا یہ ستم ظرییے نہیں تو اور کیا ہے کہ حضرت عمر نے اپنے اشکال کا نتیجہ تو یہ ظاہر فرمایا کہ منصوص چیزوں میں بھی ایسے معاملات سے پرہیز کیا جائے جن میں سود کا شبہ بھی پایا جائے اور ان لوگوں نے حضرت عمر کے اس ارشاد کا تعلق اس سود کی اس مخصوص قسم سے منقطع کر کے عام سود و ربا کے معاملات سے جوڑ دیا اور پھر اس پر اکتفاء نہ کیا بلکہ مزید ستم یہ کیا کہ محض اپنی ناف ہمی کی وجہ سے حضرت عمر کے ارشاد کی روشنی میں سرے سے سود کی حرمت ہی کو ایک مشتبہ مسئلہ قرار دے دیا۔

قرض خواہ قرض دار کا کوئی تحفہ بھی قبول نہ کرے

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو قرض دے اور پھر قرض لینے والا اس قرض دینے والے کے پاس کوئی تحفہ بھیجے یا سواری کے لیے کوئی جانور دے تو وہ قرض دینے والا نہ اس جانور پر سوار ہو اور نہ اس کا تحفہ قبول کرے ہاں اگر قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں کے درمیان پہلے سے تحفہ یا سواری کے جانور کا لینا دینا جاری ہو تو پھر اس کو قبول کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (ابن ماجہ بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے قرض دار سے تحفہ و ہدیہ کے طور پر کوئی بھی چیز قبول نہ کرے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں سود کا اشتباہ ہو سکتا ہے کیونکہ قرض خواہ کو قرض کے ذریعہ جو بھی منفعت حاصل ہوتی ہے وہ سود کے حکم میں ہے ہاں اگر قرض کے لین دین سے پہلے ہی سے دونوں کے تعلقات کی نوعیت یہ ہو کہ ان کا آپس میں تحفہ تحائف لینے دینے کے رسوم جاری ہوں تو پھر اس صورت میں قرض لینے کے بعد بھی قرض دار کوئی چیز قرض خواہ کے پاس بھیجے تو قرض خواہ اسے قبول کر سکتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں قرضدار اگر کوئی چیز بطور تحفہ و ہدیہ قرض خواہ کو دے گا تو اس کا وہ دینا قرض کے دباؤ کی وجہ سے نہیں ہو گا بلکہ اپنے سابقہ تعلقات اور پہلے سے جاری رسوم کی بنیاد پر ہو گا۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو کچھ قرض دے رکھا تھا چنانچہ ایک دین جب وہ اپنے قرض دار کے ہاں تقاضہ کے لئے گئے تو اس وقت بڑی سخت دھوپ اور گرمی کی شدید تپش تھی انہوں نے سوچا کہ اگرچہ شرعی طور پر اس کی ممانعت نہیں ہے مگر تقویٰ اور احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ میں اس کی دیوار کے سائے سے بھی فائدہ حاصل نہ کروں چنانچہ وہ قرض دار بہت دیر کے بعد گھر میں سے نکلا اور حضرت امام صاحب اس وقت تک دھوپ ہی میں کھڑے رہے یہ گویا ان کی احتیاط کا درجہ کمال تھا کہ انہوں نے اپنے قرض دار کی دیوار کے سایہ سے بھی اجتناب کیا۔

مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو قرض قرض خواہ کو نفع پہنچانے کا سبب بنے وہ ربا ہے لہذا قرض خواہ اپنے قرض دار کی دعوت بھی قبول نہ کرے ہاں اگر قرض سے پہلے سے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی دعوت میں آنے جانے کا معمول چلا آ رہا ہو تو پھر اس صورت میں دعوت قبول کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ قرض خواہ کے لیے اپنے قرضدار کی دیوار کے سائے میں بیٹھنا بھی مکروہ ہے۔

 

 

٭٭ حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جو شخص کسی کو قرض دے تو وہ اپنے قرضدار سے بطور تحفہ بھی کوئی چیز قبول نہ کرے امام بخاری نے اس روایت کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے نیز المنتقی میں بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے۔

 

 

 

٭٭ حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ تابعی کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ میں آیا اور حضرت عبداللہ بن سلام صحابی سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسی سرزمین پر ہو جہاں سود کا بہت رواج ہے لہذا اگر کسی پر تمہارا حق ہو یعنی کوئی تمہارا قرضدار ہو اور وہ تمہیں بھوسے کا ایک گھڑا یا جو کی ایک گٹھڑی یا گھاس کا ایک گٹھا بھی تحفہ کے طور پر دے تو تم اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ سود کا حکم رکھتا ہے (بخاری)

 

تشریح

 

 علماء لکھتے ہیں کہ (کل قرض جر نفعا فہو ربوا) (یعنی ہر قرض جس میں نفع لیا جائے سود ہے کے اصول کے تحت ہر وہ قرض جس میں کوئی نفع مشروط ہو ربا ہے۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض لینے والے سے قرض کے دباؤ یا قرض کی رعایت سے جو بھی نفع حاصل ہو گا وہ سود ہو گا۔

 

مسئلہ

اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے قرض کی ادائیگی سے پہلے کوئی نفع حاصل کرے تو دیکھا جائے گا کہ وہ نفع موعود و مشروط ہے یا نہیں اگر وہ نفع موعود و مشروط ہو گا تو اس صورت میں اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں یعنی وہ نفع سود کے حکم میں ہو گا اور اگر وہ نفع موعود و مشروط نہیں ہو گا تو پھر اس کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی اقوال ہیں حضرت امام محمد تو جواز کے قائل ہیں مگر ایک جماعت ممانعت کی طرف مائل ہے مگر بات یہی ہے کہ اگر وہ نفع قرض کے دباؤ یا قرض کی رعایت کی وجہ سے ہو گا یا مہلت و تسامح کی بناء پر حاصل ہو گا تو بہرحال ناجائز ہے ہاں اگر مروت و احسان یا سابقہ تعلقات و مراسم کے تحت ہو گا تو پھر اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں ہے۔

قرض میں لزوم مدت سے منع فرمایا گیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ تعیین مدت سے کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی اس لئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر قرض ایک متعین مدت کی شرط کے ساتھ لیا دیا جائے گا تو وہ مدت بحیثیت شرط تو لازم ہو گی مگر بحیثیت قرض لازم نہیں ہو گی اگر قرض خواہ اس مدت سے پہلے اپنا قرض طلب کرے تو اسے یہ حق ہے اور قرضدار کو چاہئے کہ وہ حتی الامکان ادا کرنے کی کوشش کرے۔

اگر کوئی شخص کسی کو قرض دیتے وقت یہ شرط عائد کر دے کہ میرا یہ قرض فلاں شہر میں ادا کرنا تو یہ شرط بطریق لزوم ناجائز ہو گی۔ بعض لوگ سودی بینکوں میں اپنا روپیہ بطور امانت جمع کر دیتے ہیں اور اس کا نفع و سود نہیں لیتے چونکہ جو روپیہ بنک میں جمع کیا جاتا ہے وہ یقینی طور پر بعینہ محفوظ نہیں رہتا بلکہ کاروبار میں لگا رہتا ہے اس لئے وہ امانت نہیں رہتا بلکہ قرض ہو جاتا ہے گو اس شخص نے سود نہیں لیا مگر اس نے ایک طرح سے قرض کے ذریعہ سود لینے والوں کی اعانت کی اور سود لینے دینے والوں کی اعانت بھی گناہ ہے اس لئے اپنے روپیہ کو بینک میں داخل کرنا بھی درست نہیں۔