وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ قَال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ جِدًّا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَكَبِّرُوا وَادْعُوا اللَّهَ، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، إِنْ مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ ". وَفِي رِوَايَةِ مَالِكٍ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گہن ہوا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا، پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا، اور دیر تک کھڑے رہے، اور بہت قیام کیا، مگر پہلے قیام سے کم، پھر رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، پھر سجدہ کیا (یہ ایک رکعت میں دو رکوع ہوئے۔ اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے) پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک قیام کیا مگر قیام اول سے کم۔ پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا مگر پہلے رکوع سے کم۔ پھر سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے، مگر قیام اول سے کم، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، مگر پہلے رکوع سے کم، (یہ بھی دو رکوع ہوئے) پھر سجدہ کیا اور فارغ ہوئے اور آفتاب اتنے میں کھل گیا تھا۔ پھر لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور ان میں گہن نہیں لگتا کسی کی موت سے، نہ زندگی سے۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اور اس سے دعا کرو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ اے امت محمد! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں اس بات میں کہ اس کا غلام یا باندی زنا کرے۔ اے محمد کی امت! اللہ کی قسم ہے جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے ہوتے تو بہت روتے اور تھوڑا ہنستے۔ سن لو! میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔“ اور مالک کی روایت میں یہ ہے کہ ”سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔“
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ "، وَزَادَ أَيْضًا: " ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ".
ہشام بن عروہ نے اسی سند سے بیان کیا اور یہ زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد کے بعد فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہیں اور یہ بھی زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ آگاہ رہو میں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔“
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ وَكَبَّرَ وَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ قَامَ فَاقْتَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "، ثُمَّ سَجَدَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو الطَّاهِرِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، حَتَّى اسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَقَالَ أَيْضًا: " فَصَلُّوا حَتَّى يُفَرِّجَ اللَّهُ عَنْكُمْ "، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا كُلَّ شَيْءٍ وُعِدْتُمْ، حَتَّى لَقَدْ رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنَ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أُقَدِّمُ "، وقَالَ الْمُرَادِيُّ: " أَتَقَدَّمُ وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ، وَرَأَيْتُ فِيهَا ابْنَ لُحَيٍّ وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ ". وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي الطَّاهِرِ عِنْدَ قَوْلِهِ: " فَافْزَعُوا لِلصَّلَاةِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں سورج گہن ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے مسجد اور نماز کو کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہا اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرأت پڑھی، پھر اللہ اکبر کہا اور بہت لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا اور «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» اور پھر کھڑے رہے اور لمبی قرأت پڑھی کہ پہلی قرأت سے ذرا کم تھی۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسرا رکوع کیا لمبا مگر پہلے رکوع سے کم پھر کہا «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» پھر سجدہ کیا اور ابوطاہر راوی نے ذکر نہیں کیا کہ پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت میں ایسا ہی کیا یہاں تک کہ چار رکوع ہوئے، اورچار سجدے (یعنی دو رکعت میں، ہر رکعت میں دو رکوع کئے اور دو سجدے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فارغ ہونے سے پہلے سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں پر خطبہ پڑھا اور اللہ کی تعریف کی ان لفظوں سے جو اس کی شان کے لائق ہیں۔ پھر فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور کسی کی موت اور زندگی کے سبب سے ان میں گہن نہیں ہوتا (یعنی صرف اللہ کے حکم سے ہوتا ہے) پھر جب تم گہن کو دیکھو تو جلدی نماز پڑھنے لگو۔“ اور یہ بھی فرمایا: ”یہاں تک نماز پڑھو کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے اوپر سے کھول دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:”میں نے اس جگہ وہ سب چیزیں دیکھیں جن کا تم سے وعدہ ہوا ہے، چنانچہ میں نے خود کو دیکھا کہ چاہتا ہوں کہ ایک گچھا لے لوں جنت میں، جب تم نے مجھ کو د یکھا تھا کہ میں آگے بڑ ھا تھا۔ اور مرادی راوی نے «أَتَقَدَّمُ» کہا۔ (معنی دونوں کےایک ہیں)۔ اور بیشک میں نے جہنم کو دیکھا کہ ایک ٹکڑا دوسرے کو توڑ رہا ہے جب تم نے مجھ کو دیکھا تھا کہ میں پیچھے کو ہٹا تھا اور میں نے جہنم میں عمر بن لحیی کو دیکھا (ایک آدمی کا نام ہے) اور اسی نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑے۔“ اور ابوطاہر راوی کی حدیث تو وہیں تمام ہو گئی جہاں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جلدی نماز پڑھو اور اس کے بعد کچھ ذکر ہی نہیں کیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ أَبُو عَمْرٍو ، وَغَيْرُهُ سَمِعْتُ ابْنَ شِهَابٍ الزُّهْرِيَّ يُخْبِرُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِيًا الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ فَاجْتَمَعُوا، وَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ وَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ایک پکارنے والے کو بھیجا کہ یوں پکار دے کہ ”سب لوگ مل کر نماز ادا کرو۔“ غرض لوگ جمع ہو گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر تکبیر کہی (یعنی تکبیر اولیٰ) اور چار رکوع کئیے دو رکعتوں میں اور چار سجدے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ شِهَابٍ يُخْبِرُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " جَهَرَ فِي صَلَاةِ الْخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز میں قرأت پکار کر پڑھی اور چار رکوع کئیے اور چار سجدے دو رکعتوں میں۔
(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ".
زہری نے کہا کہ خبر دی مجھے کثیر بن عباس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکوع کیے دو رکعتوں میں اور چار سجدے کیے۔
وحَدَّثَنَا حَاجِبُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ: كَانَ كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُحَدِّثُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ بِمِثْلِ مَا حَدَّثَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی سورج گہن کے دن جیسے عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔
وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي مَنْ أُصَدِّقُ حَسِبْتُهُ يُرِيدُ عَائِشَةَ ، أَنَّ الشَّمْسَ انْكَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ قِيَامًا شَدِيدًا يَقُومُ قَائِمًا، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، فَانْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ "، ثُمَّ يَرْكَعُ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ: " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "، فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَكْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ كُسُوفًا فَاذْكُرُوا اللَّهَ حَتَّى يَنْجَلِيَا ".
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ روایت کی مجھ سے اس شخص نے جس کو میں سچا جانتا ہوں۔ مراد اس شخص سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، کہ ایک بار سورج گہن ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بڑی دیر کھڑے رہے، اس طرح کہ ایک بار کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے، پھر کھڑے ہوتے، پھر رکوع کرتے۔ غرض پڑھتے دو رکعت کہ ہر رکعت میں تین رکوع ہوتے اور دونوں رکعتوں میں چار سجدے۔ اور جب فارغ ہوئے آفتاب صاف ہو گیا اور جب رکوع کرتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر رکوع میں جاتے اور جب سر اٹھاتے «سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ» کہتے اور بعد نماز خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی۔ پھر فرمایا کہ ”سورج اور چاند میں کسی کی موت و حیات کے سبب گہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ ان سے اللہ ڈراتا ہے پھر جب تم گہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو یہاں تک کہ دونوں صاف ہو جائیں۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ رکوع کئیے (یعنی دو رکعت میں) اور چار سجدے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عَمْرَةَ ، أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتْ عَائِشَةَ تَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ : فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يُعَذَّبُ النَّاسُ فِي الْقُبُورِ؟ قَالَتْ عَمْرَةُ: فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَائِذًا بِاللَّهِ "، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَخَرَجْتُ فِي نِسْوَةٍ بَيْنَ ظَهْرَيِ الْحُجَرِ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَرْكَبِهِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مُصَلَّاهُ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ، فَقَامَ وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ ذَلِكَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ رَفَعَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنِّي قَدْ رَأَيْتُكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ ". قَالَتْ عَمْرَةُ: فَسَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: فَكُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ.
عمرہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آ کر سوال کرنے لگی اور اس نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہا کو عذاب قبر سے بچائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا لوگوں کو قبروں میں عذاب ہو گا؟ عمرہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی پناہ۔“ پھر سوار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کو ایک سواری پر اور سورج گہن ہوا۔ فرمایا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں بھی نکلی اور عورتوں کے ساتھ حجروں کے پیچھے سے مسجد میں آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے اور اپنی نماز کی جگہ تک تشریف لے گئے جہاں ہمیشہ امامت کرتے نماز میں اور کھڑے ہوئے اور بہت لمبا قیام کیا۔ اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع، پھر اٹھے اور بہت لمبا قیام کیا مگر وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، مگر وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سر اٹھایا اور آفتاب صف ہوا۔ اور فرمایا: کہ ”میں نے تم کو دیکھا کہ تم قبروں میں جانچے جاؤ گے، جیسے دجال کے وقت جانچے جاؤ گے۔“ عمرہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ فرماتی تھیں کہ میں نے اس کے بعد سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے دوزخ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ . ح وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، جَمِيعًا، عَنْيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ.
روایت کی یحییٰ بن سعید نے اسی اسناد سے مثل سلیمان بن بلال کی روایت کے۔
وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى جَعَلُوا يَخِرُّونَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ نَحْوًا مِنْ ذَاكَ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ عُرِضَ عَلَيَّ كُلُّ شَيْءٍ تُولَجُونَهُ، فَعُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا أَخَذْتُهُ "، أَوَ قَالَ: " تَنَاوَلْتُ مِنْهَا قِطْفًا فَقَصُرَتْ يَدِي عَنْهُ، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ، فَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ لَهَا رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، وَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقُولُونَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُرِيكُمُوهُمَا، فَإِذَا خَسَفَا فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور ان دونوں میں بڑی گرمی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی۔ اور بہت لمبا قیام کیا یہاں تک کہ لوگ گرنے لگے، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا اور لمبا قیام کیا، پھر دو سجدے کئیے، پھر کھڑے ہوئے اور اسی طرح کیا۔ غرض چار رکوع ہوئے اور چار سجدے (یعنی دو رکعت میں) پھر فرمایا: ”جتنی چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان میں جاؤ گے۔ (یعنی دوزخ و جنت، قبر و حشر وغیرہ) وہ سب میرے آگے آئیں۔ اور جنت تو ایسی آگے آئی کہ اگر میں ایک گچھا اس میں سے لینا چاہتا تو ضرور ہی لے لیتا یا یہ فرمایا کہ میں نے اس میں سے ایک گچھا لینا چاہا تو میرا ہاتھ نہ پہنچا اور دوزخ میرے آگے آئی اور ایک بنی اسرائیل کی عورت کو دیکھا کہ ایک بلی کی وجہ سے اس پر عذاب ہو رہا ہے کہ اس نے بلی کو باندھ دیا تھا اور اسے نہ تو کھانے کو دیا اور نہ اسے کھولا تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ اور دوزخ میں ابوثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ اپنی آنتیں دوزخ میں کھینچتا ہے“ اور عرب کا یہ خیال تھا کہ سورج اور چاند میں گہن نہیں لگتا مگر کسی بڑے شخص کے مرنے سے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کہ وہ تم کو دکھاتا ہے پھر جب ان میں گہن لگے تو نماز پڑھو جب تک وہ کھل نہ جائے۔“
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " وَرَأَيْتُ فِي النَّارِ امْرَأَةً حِمْيَرِيَّةً سَوْدَاءَ طَوِيلَةً "، وَلَمْ يَقُلْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ.
مسلم رحمہ اللہ نے کہا کہ بیان کی یہی روایت مجھ سے ابوغسان مسمعی نے، ان سے عبدالمالک نے، روایت کی ہشام نے، اسی اسناد سے مثل اس کے مگر اس میں یہ ہے ”دیکھا میں نے ایک عورت بڑی آواز والی لمبی کالی کو اور یہ نہیں فرمایا: ”وہ بنی اسرائیل کی تھی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: إِنَّمَا انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ سِتَّ رَكَعَاتٍ بِأَرْبَعِ سَجَدَاتٍ، بَدَأَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً دُونَ الْقِرَاءَةِ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِمَّا قَامَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ أَيْضًا ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، لَيْسَ فِيهَا رَكْعَةٌ إِلَّا الَّتِي قَبْلَهَا أَطْوَلُ مِنَ الَّتِي بَعْدَهَا، وَرُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ تَأَخَّرَ وَتَأَخَّرَتِ الصُّفُوفُ خَلْفَهُ حَتَّى انْتَهَيْنَا، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَتَّى انْتَهَى إِلَى النِّسَاءِ، ثُمَّ تَقَدَّمَ وَتَقَدَّمَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى قَامَ فِي مَقَامِهِ، فَانْصَرَفَ حِينَ انْصَرَفَ، وَقَدْ آضَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ "، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: " لِمَوْتِ بَشَرٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا حَتَّى تَنْجَلِيَ، مَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ، لَقَدْ جِيءَ بِالنَّارِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ مَخَافَةَ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْ لَفْحِهَا، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَ الْمِحْجَنِ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ، كَانَ يَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِهِ، فَإِنْ فُطِنَ لَهُ، قَالَ: إِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِي، وَإِنْ غُفِلَ عَنْهُ ذَهَبَ بِهِ، وَحَتَّى رَأَيْتُ فِيهَا صَاحِبَةَ الْهِرَّةِ الَّتِي رَبَطَتْهَا، فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، ثُمَّ جِيءَ بِالْجَنَّةِ وَذَلِكُمْ حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَقَدَّمْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِي، وَلَقَدْ مَدَدْتُ يَدِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَنَاوَلَ مِنْ ثَمَرِهَا لِتَنْظُرُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ لَا أَفْعَلَ، فَمَا مِنْ شَيْءٍ تُوعَدُونَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي صَلَاتِي هَذِهِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: سورج گہن ہوا ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم انتقال کر گئے تھے، سو لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کی موت سے سورج گہن ہوا اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور چار سجدوں کے ساتھ چھ رکوع کیے۔ اس طرح کہ پہلے اللہ اکبر کہا اور قرأت کی اور لمبی قرأت کی، پھر رکوع کیا قریب قیام کے (یعنی طول میں) پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قرأت کی دوسری قرأت سے کم، پھر رکوع کیا قیام کے برابر، پھر سر اٹھایا اور قیام کیا پھر رکوع کیا، پھر سر اٹھایا اور سجدہ کو جھکے اور دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہوئے اور پھر رکوع کئیے تین رکوع کہ ان میں سے ہر پچھلا رکوع اپنے پہلے رکوع سے کم تھا اور ہر رکوع سجدہ کے برابر تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے ہٹے اور سب صفیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے ہٹیں یہاں تک کہ ہم عورتوں کے قریب پہنچ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آگے بڑھے (سبحان اللہ! کیا اطاعت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے، اور نماز سے فارغ ہوئے اس وقت کہ آفتاب کھل چکا تھا۔ پھر فرمایا: ”اے لوگو! سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اور بے شک ان دونوں میں کسی آدمی کے مرنے سے گہن نہیں لگتا ہے۔ پھر جب دیکھو اس میں سے کچھ تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے اور کوئی چیز نہیں رہی جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے کہ میں نے اس کو نہ دیکھا ہو اس اپنی نماز میں، چنانچہ دوزخ آئی اور جب آئی کہ جب تم نے مجھے دیکھا کہ پیچھے ہٹا، اور ڈر سے کہ شاید اس کی لو مجھے لگ جائے (سبحان اللہ! اتنے بڑے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ان پر رحمت کرے اور سلام بھیجے۔ دوزخ سے اتنا خوف ہے، پھر ہم کو کتنا لازم ہے) اور وہ یہاں تک قریب ہوئی کہ میں نے اس میں ٹیڑھے منہ کی لکڑی والے کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹتا تھا آگ میں اور دنیا میں حاجیوں کی اس طرح چوری کرتا تھا کہ اس نے اپنی لکڑی میں کسی چیز کو اٹکایا (یعنی چادر کپڑا وغیرہ) اگر اس کا مالک آگاہ ہوا تو کہہ دیا یہ چیز میری کھونڈی میں اٹک گئی اور اگر اس کا مالک غافل ہو گیا تو وہ لے کر چل دیا اور یہاں تک کہ میں نے اس بلی والی کو دیکھا کہ اس نے بلی کو باندھ رکھا اور نہ کھانا دیا، نہ چھوڑا کہ وہ خود زمیں کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی یہاں تک کہ بھوک سے مر گئی۔ پھر جنت کو میرے آگے لائے۔ اور وہ اس وقت آئی جب تم نے مجھ کو دیکھا کہ میں آگے بڑھا یہاں تک کہ میں اپنی جگہ جا کر کھڑا ہوا۔ اور میں نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور چاہتا تھا کہ اس کے کچھ پھل توڑ لوں کہ تم دیکھو۔ پھر میں نے خیال کیا کہ نہ کروں۔ غرض جن چیزوں کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں رہی جو میں اپنی اس نماز میں نہ دیکھی ہو۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ. قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ، فَأَخَذْتُ قِرْبَةً مِنْ مَاءٍ إِلَى جَنْبِي، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي أَوْ عَلَى وَجْهِي مِنَ الْمَاءِ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا، أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "، لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيُؤْتَى أَحَدُكُمْ، فَيُقَالُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَأَطَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنَّكَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، فَنَمْ صَالِحًا، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: " فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا، فَقُلْتُ:
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا اور میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ وہ نماز پڑھتی تھیں سو میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تو انہوں نے اپنے سر سے آسمان کو اشارہ کیا۔ میں نے کہا: ایک نشانی ہے؟ (یعنی اللہ کی قدرت کی) انہوں نے اشارہ سے کہا: ہاں (اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں ضرورت کے وقت اشارہ جائز ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت لمبا قیام کیا کہ مجھے غش آنے لگا۔ اور میں نے ایک مشک سے جو میرے بازو پر تھی اپنے سر اور منہ پر پانی ڈالنا شروع کیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنماز سے فارغ ہوئے اور آفتاب کھل گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور اللہ کی حمد ثنا کی۔ پھر اس کے بعد کہا: ”کوئی چیز ایسی نہیں رہی جسے میں نے پہلے نہ دیکھا تھا مگر یہاں میں نے اس کو کھڑے کھڑے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا۔ اور میری طرف وحی بھیجی گئی کہ تم اپنی قبروں میں جانچے جاؤ گے جیسے دجال کے فتنہ سے جانچے جاؤ گے اور ہر ایک کے پاس ایک آدمی آئے گا اور کہے گا کہ تو اس شخص کو کیا جانتا ہے؟ پھر اگر قبر والا مؤمن ہے تو کہے گا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اللہ کے بھیجے ہوئے اور ان پر رحمت کرے اور سلامتی۔ وہ ہمارے پاس کھلے معجزے اور سیدھی راہ کی خبر لے کر آئے اور ہم نے ان کی حدیث قبول کی اور ان کا کہنا مانا۔ تین بار وہ یہی جواب دے گا۔ پھر وہ (یعنی فرشتہ) اسے سے کہے گا کہ تو سو جا۔ اور ہم کو معلوم تھا کہ تو ایماندار ہے سو اچھا بھلا سوتا رہ۔ اور منافق کہتا ہے (یعنی فرشتہ کو) کہ میں نہیں جانتا۔ میں لوگوں سے سنتا تھا کچھ کہتے تھے سو میں نے بھی کہہ دیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ وَإِذَا هِىَ تُصَلِّى فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ عَنْ هِشَامٍ.
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور لوگوں کو کھڑے دیکھا اور وہ نماز پڑھتی تھیں سو میں نے کہا: کیا حال ہے لوگوں کا؟ اور بیان کی حدیث مثل ابن نمیر کے جو انہوں نے ہشام سے روایت کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ فَاطِمَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ، وَإِذَا هِيَ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: " لَا تَقُلْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، وَلَكِنْ قُلْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ ".
عروہ کہتے ہیں: «كَسَفَتِ الشَّمْسُ» نہ کہو لیکن «خَسَفَتِ الشَّمْسُ» کہو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " فَزِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، قَالَتْ: تَعْنِي يَوْمَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَأَخَذَ دِرْعًا حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ، فَقَامَ لِلنَّاسِ قِيَامًا طَوِيلًا، لَوْ أَنَّ إِنْسَانًا أَتَى لَمْ يَشْعُرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكَعَ مَا حَدَّثَ أَنَّهُ رَكَعَ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ ".
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھبرائے مراد یہ تھی کہ جس دن سورج گہن ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبراہٹ سے کسی عورت کی بڑی چادر اوڑھ لی اور چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر آپ کو لا کر دی اور نماز میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اگر کوئی شخص آتا تو یہ بھی نہ جانتا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا ہے جیسے رکوع آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہوئے ہیں بہت دیر کھڑے رہنے کے سبب سے۔
وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: " قِيَامًا طَوِيلًا يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ "، وَزَادَ: " فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَرْأَةِ أَسَنَّ مِنِّي، وَإِلَى الْأُخْرَى هِيَ أَسْقَمُ مِنِّي ".
ابن جریج روایت کرتے ہیں اسی اسناد سے مثل اس کے اور اس میں یہ کہا کہ کھڑے ہوئے بہت دیر تک کہ کھڑے ہوتے تھے، پھر رکوع کرتے تھے۔ اور یہ بھی زیادہ کیا کہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ میں دیکھتی تھی ایک عورت کو جو مجھ سے بوڑھی تھی اور دوسری کو جو مجھ سے زیادہ بیمار تھی۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَزِعَ فَأَخْطَأَ بِدِرْعٍ حَتَّى أُدْرِكَ بِرِدَائِهِ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَتْ: فَقَضَيْتُ حَاجَتِي، ثُمَّ جِئْتُ وَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، فَقُمْتُ مَعَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ أَجْلِسَ، ثُمَّ أَلْتَفِتُ إِلَى الْمَرْأَةِ الضَّعِيفَةِ، فَأَقُولُ: هَذِهِ أَضْعَفُ مِنِّي فَأَقُومُ، فَرَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، حَتَّى لَوْ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَمْ يَرْكَعْ ".
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے وہی مضمون روایت کیا جو اوپر گزرا۔ اور اس کے بعد کہا کہ میں نے اپنی حاجت پوری کی اور پھر مسجد میں آئی اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز کو کھڑے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی اور بہت لمبا قیام کیا یہاں تک کہ میں اپنے تئیں دیکھتی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ بیٹھ جاؤں۔ اور ایک ضعیف عورت کو دیکھا تو میں نے دل میں کہا یہ تو مجھ سے زیادہ ضعیف ہے۔ پھر میں کھڑی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اور آتا تو جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی رکوع نہیں کیا (یعنی قومہ، قیام کے برابر تھا)۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا قَدْرَ نَحْوِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَفَفْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ "، قَالُوا: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِهِنَّ ". قِيلَ أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ؟ قَالَ: " بِكُفْرِ الْعَشِيرِ، وَبِكُفْرِ الْإِحْسَانِ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور بہت لمبا قیام کیا سورہ بقرہ کے برابر، پھر رکوع کیا بہت لمبا، پھر سر اٹھایا اور بہت لمبا قیام کیا مگر پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا، پھر قیام کیا لمبا اور وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سر اٹھایا، پھر قیام کیا لمبا مگر وہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع کیا لمبا اور وہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے اور آفتاب کھل گیا اور فرمایا: ”سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کہ گہن نہیں لگتا ہے ان میں کسی کی موت سے، نہ کسی کی زندگی سے، پھر جب تم ان کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔“ پھر لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس جگہ پر کچھ لیا۔ پھر دیکھا آپ رک گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:”میں نے جنت کو دیکھا اور اس میں سے ایک خوشہ کو لیا۔ اگر میں اسے توڑ لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تم اسے کھاتے رہتے۔ اور میں نے دوزخ کو دیکھا۔ سو آج کی برابر میں نے اس کو کبھی نہیں دیکھا اور اکثر بسنے والی اس کی عورتیں دیکھیں۔“ لوگوں نے عرض کیا: یہ کیوں اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کی ناشکری کی وجہ سے۔“ لوگوں نے عرض کیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ اگر ساری دنیا کا کوئی ان پر احسان کرے پھر وہ عورت اس کی طرف سے کوئی بات خلاف مرضی دیکھے تو کہنے لگے گی کہ میں نے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إسحاق يَعْنِي ابْنَ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ ".
زید بن اسلم نے اسی اسناد سے مثل اس کے صرف اتنا ہی کہا کہ انہوں نے کہا:«ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ» یعنی پھر دیکھا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے ہٹتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ كَسَفَتِ الشَّمْسُ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ "، وَعَنْ عَلِيٍّ مِثْلُ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب سورج گہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکوع کئیے اور چار سجدے (یعنی دو رکعت میں) اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، كلاهما، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبٌ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ صَلَّى فِي كُسُوفٍ قَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، قَالَ: وَالْأُخْرَى مِثْلُهَا.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نماز پڑھائی کسوف کی، قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا، پھر قرأت کی، پھر رکوع کیا پھر سجدہ کیا کہا کہ دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھائی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهُوَ شَيْبَانُ النَّحْوِيُّ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ خَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَمَّا انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ بِالصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ، ثُمَّ جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا رَكَعْتُ رُكُوعًا قَطُّ وَلَا سَجَدْتُ سُجُودًا قَطُّ كَانَ أَطْوَلَ مِنْهُ ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانہ مبارک میں سورج گہن ہوا اور پکارا گیا کہ سب مل کر نماز پڑھیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اور ہر رکعت میں دو رکوع کیے اور سورج صاف ہو گیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کبھی اتنے لمبے رکوع، سجدے نہیں کیے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ " .
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”سورج اور چاند دونوں نشانیاں ہیں اللہ کی نشانیوں میں سے کہ اللہ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور وہ کسی کے مرنے کے سبب سے نہیں گہناتیں۔ پھر جب تم گہن دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ اللہ اس بلا کو تم سے دور کر دے۔“
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيْسَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَقُومُوا فَصَلُّوا ".
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”بے شک سورج اور چاند لوگوں میں سے کسی کی وفات پر گرہن نہیں ہوتے لیکن کہ نشانیاں ہیں اللہ کی نشانیوں میں جب تم ان کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَمَرْوَانُ كلهم، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ، وَوَكِيعٍ " انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ النَّاسُ انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ ".
سفیان اور وکیع سے روایت ہے کہ سورج گرہن ہوا جب ابراہیم فوت ہوئے پس لوگوں نے کہا کہ یہ ابراہیم کی موت کی وجہ سے گرہن ہوا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ، حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ، مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلَاةٍ قَطُّ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ ". وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ الْعَلَاءِ: " كَسَفَتِ الشَّمْسُ "، وَقَالَ: " يُخَوِّفُ عِبَادَهُ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھے کہ قیامت آئی اور مسجد میں آئے اور کھڑے نماز پڑھتے رہے جس میں قیام، رکوع اور سجدہ لمبا تھا کہ میں نے اتنا لمبا ان کی کسی نماز میں نہیں دیکھا۔ پھر فرمایا: ”یہ نشانیاں ہیں کہ اللہ ان کو بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت اور زندگی کے سبب سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پھر جب ایسے کچھ دیکھو تو اللہ کے آگے گڑگڑا کے اسے یاد کرو اور اس سے دعا کرو اور اس سے بخشش مانگو“ اور ابن علاء کی روایت میں «كَسَفَتِ» کا لفظ ہے اور یہ کہ ”اللہ ڈراتا ہے اپنے بندوں کو“۔
وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا أَرْمِي بِأَسْهُمِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَنَبَذْتُهُنَّ، وَقُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا يَحْدُثُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْكِسَافِ الشَّمْسِ الْيَوْمَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَدْعُو وَيُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ، حَتَّى جُلِّيَ عَنِ الشَّمْسِ، فَقَرَأَ سُورَتَيْنِ وَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ".
عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا کہ میں تیر پھینک رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کہ سورج گہن ہوا اور میں نے تیروں کو پھینک دیا اور دل میں کہا کہ دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا نیا کام ہوتا ہے سورج گہن میں آج کے دن۔ میں ان تک پہنچا تو وہ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور دعا کرتے تھے اور اللہ اکبر کہتے تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے اور«لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہتے تھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھی اور دو سورتیں پڑھیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنْتُ أَرْتَمِي بِأَسْهُمٍ لِي بِالْمَدِينَةِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ فَنَبَذْتُهَا، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى مَا حَدَثَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الصَّلَاةِ رَافِعٌ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يُسَبِّحُ وَيَحْمَدُ وَيُهَلِّلُ وَيُكَبِّرُ وَيَدْعُو حَتَّى حُسِرَ عَنْهَا، قَالَ: فَلَمَّا حُسِرَ، عَنْهَا قَرَأَ سُورَتَيْنِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
ترجمہ اس کا وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ راوی نے کہا: جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو نماز میں ہاتھ اٹھائے ہوئے پایا کہ آپ تسبیح کرتے تھے اور اللہ کی حمد اور «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» اللہ کہتے تھے اور اللہ کی بڑائی کرتے تھے اور دعا کرتے تھے یہاں تک کہ آفتاب کھل گیا جب آپ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں تمام کیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ حَيَّانَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَتَرَمَّى بِأَسْهُمٍ لِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمَا.
عبدالرحمٰن بن سمرہ کہتے ہیں: میں تیر اندازی کر رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانہ میں کہ اچانک سورج گرہن ہو گیا پھر مذکورہ حدیث کی طرح بیان کیا۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند کسی کے مرنے، جینے سے نہیں گہناتے بلکہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان کو دیکھو تو نماز پڑھو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُصْعَبٌ وَهُوَ ابْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ، يَقُولُ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَادْعُوا اللَّهَ، وَصَلُّوا حَتَّى تَنْكَشِفَ ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: گہن لگا سورج کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس دن ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند دو نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے، نہیں گہن لگتا ان کو کسی کی موت کی وجہ سے اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے، پس جب تم انہیں دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور نماز پڑھو حتیٰ کہ گہن کھل جائے۔“