شراب جس کو ام الخبائث کہا گیا ہے، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے ہی جزو زندگی کا درجہ رکھتی تھی اس لئے بعثت نبوی کے بعد ابتداء اسلام میں بھی اس کا رواج برقرار رہا، اور عام طور پر لوگ اس کو پینے پلانے میں مبتلا رہے لیکن اس کی برائی اور اس کے نقصان کی وجہ سے مسلمانوں کے دل میں کھٹک بھی پیدا ہوتی تھی، اور حضرت عمر کے قول (انہا تذہب المال وتذہب العقل) (یہ شراب مال کو بھی برباد کرتی اور عقل کو بھی ختم کرتی ہے) کے پیش نظر لوگوں میں یہ احساس تمنا بھی روز بروز بڑھتا جاتا تھا کہ اس کی اباحت جتنی جلد ختم ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے، ادھر چونکہ پوری سوسائٹی اس لعنت میں گرفتار تھی اور ایک ایسی عادت تھی جس کی جڑیں پورے معاشرے میں بہت دور تک پھیلی ہوئی تھیں اس لئے مصلحت شریعت یہ تھیں کہ اس کی حرمت کا نفاذ دفعتاً کرنے کی بجائے بتدریج رو بہ عمل میں لایا جائے کہ شریعت کا مقصد بھی پورا ہو جائے اور لوگ اس لعنت سے بھی نجات پا جائیں، چنانچہ جب کچھ صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے شراب کے بارے میں دریافت کیا تو اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ آیت نازل ہوئی :
(يَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۭ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۭ) 2۔ البقرۃ:219)
(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور (بظاہر) ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑھا ہوا ہے۔
جو سعید روحیں پہلے ہی سے شراب کے مضر اثرات کا احساس رکھتی تھیں اور جو لوگ اس کی برائی سے طبعاً بیزار تھے ان کے لئے تو بس اتنا ہی کافی تھا کہ قرآن کریم نے شراب کو گناہ کہہ دیا لہٰذا انہوں نے شراب نوشی قطعاً ترک کر دی، لیکن چونکہ اس آیت میں شراب کی حرمت کا کوئی واضح اور قطعی حکم نہیں ہے اس لئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مے نوشی کا مشغلہ بدستور جاری رکھا۔ اور پھر اس سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی :
( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ) 4۔ النساء:43)۔
اے ایمان والو ! تم ایسی حالت میں نماز کے پاس مت جاؤ کہ تم نشہ کی حالت میں مست ہو، یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے ہو۔
اس آیت نے شراب نوشی کے جاری مشغلہ پر ایک ضرب لگائی، اور نماز کے اوقات میں شراب نوشی بالکل ترک کر دی گئی البتہ نماز کے علاوہ اوقات میں بعض لوگوں کے یہاں اب بھی شراب نوشی کا مشغلہ بند نہیں ہوا اور آخر کا ر٣ھ میں یہ تیسری آیت نازل ہوئی جس میں حرمت شراب کو واضح کر دیا گیا :
(يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ) 5۔ المائدہ:90)
اے ایمان والو! اس میں شبہ نہیں کہ شراب اور جوا اور بت اور قرعہ کے بیریہ سب گندی چیزیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح پاؤ۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد شراب نوشی بالکل بند ہو گئی،شراب کے مٹکے توڑ ڈالے گئے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں پانی کی طرح بہنے لگی اور اس شراب کی حرمت کا حکم نافذ ہو گیا۔
تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن و سنت کے حکم اور اجماع امت کے مطابق شراب حرام ہے اور جو شخص شراب پئے وہ حد (شرعی سزا) کا مستوجب ہے جو جمہور علماء کے قول کے مطابق اسی ٨٠ کوڑے مارنا ہے حنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے اور حضرت امام شافعی اور کچھ دوسرے علماء کے قول کے مطابق چالیس کوڑے مارنا ہے۔
اگر کوئی شخص شراب پئے اگرچہ اس نے ایک ہی قطرہ پی ہو اور پھر اس کو حاکم و قاضی کے سامنے پیش کیا جائے اور اس وقت شراب کی بو موجود ہو یا اس کو نشے کی حالت میں پیش کیا گیا ہو اگرچہ وہ نشہ نبیذ پینے کی وجہ سے ہو اور دو شخص اس کی شراب نوشی کی گواہی دیں یا وہ خود اپنی شراب نوشی کی گواہی دیں یا وہ خود اپنی شراب کا ایک مرتبہ اور امام ابو یوسف کے قول کے مطابق دو مرتبہ اقرار کر لے نیز یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے اپنی خوشی سے شراب پی ہے کسی کی زبردستی سے نہیں پی ہے تو اس پر حد جاری کی جائے یعنی اگر وہ شخص آزاد ہو تو اس کو اسی ٨٠ کوڑے مارے جائیں اور اگر غلام ہو تو چالیس کوڑے مارے جائیں اور یہ کوڑے اس وقت مارے جائیں جب کہ اس کا نشہ ختم ہو جائے نیز زنا کی حد اور اس حد میں بھی اس طرح کوڑے مارے جائیں کہ بدن کے مختلف حصوں پر چوٹ آئے یعنی پورے کوڑے بدن کے کسی ایک ہی حصہ پر نہ مارے جائیں بلکہ مختلف حصوں پر مارے جائیں۔
اگر کسی شخص نے اپنی شراب نوشی کا اقرار اس وقت کیا جب کہ شراب کی بو ختم ہو گئی ہو یا دو آدمیوں نے کسی کی شراب نوشی کی گواہی اس وقت دی جب کہ بو ختم ہو گئی تو اس پر حد جاری نہ کی جائے اس طرح اگر کسی شخص میں صرف شراب کی بو پائی گئی یا اس نے صرف شراب کی قے کی، یا اس نے پہلے تو اپنی شراب نوشی کا اقرار کیا مگر بعد میں مکر گیا۔ اور یا اس نے نشے کی حالت میں اقرار کیا تو ان صورتوں میں بھی اس پر حد جاری نہ کی جائے۔
واضح رہے کہ جو نشہ حد کو واجب کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص مرد و عورت اور زمین و آسمان کے درمیان امتیاز نہ کر سکے۔ لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ نشہ سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ہزیان اور واہی تباہی باتیں بکنے لگے۔ حنفی مسلک میں فتویٰ اسی قول پر ہے۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب نوشی کی حد (سزا میں کھجور کی ٹہنیوں (چھڑیوں) اور جوتوں سے مارا (یعنی مارنے کا حکم دیا) اور حضرت ابوبکر نے (اپنے دور خلافت میں شراب پینے والے کو چالیس کوڑے مارے۔ (بخاری، مسلم) اور روایت میں حضرت انس ہی سے یوں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم شراب نوشی کی حد (سزا) میں چالیس کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارتے تھے یعنی مارنے کا حکم دیتے تھے۔
تشریح
پہلی روایت میں تو حد کا ذکر عدد کے تعین کے بغیر ہے اس اعتبار سے وہ مجمل ہے جس کی وضاحت دوسری روایت نے کی ہے جس میں عدد کا تعین کیا گیا ہے اور وہ چالیس ہے چنانچہ یہ حدیث حضرت امام شافعی کے مسلک کی دلیل ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں مے نوشی کی شرعی سزا اسی کوڑے مارنا بیان کیا گیا ہے ملا علی قاری نے اپنی کتاب مرقات میں نقل کیا ہے۔
اور حضرت سائب ابن یزید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں حضرت ابوبکر کے ایام خلافت میں اور حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت کے ابتدائی دور میں یہ معمول تھا کہ جب کوئی شراب پینے والا لایا جاتا تو ہم اٹھ کر اس کو اپنے ہاتھوں اپنے جوتوں اور اپنی چادروں سے یعنی چادروں کو کوڑے بنا کر اس کی پٹائی کرتے پھر حضرت عمر فاروق اپنی خلافت کے آخری دور میں چالیس کوڑے مارنے کی سزا دینے لگے یہاں تک کہ جب شراب پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور سرکشی بڑھ گئی تو حضرت عمر نے اسی کوڑے کی سزا متعین کی۔ (بخاری)
تشریح
حضرت سائب ابن یزید کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس وقت شراب نوشی کی حد نفاذ عدد کے تعین کئے بغیر ہوتا تھا لیکن زیادہ صحیح یہ ہے کہ ان کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس زمانہ میں شراب پینے کی سزا چالیس کوڑوں سے بھی کم تھی جیسا کہ ان کے قول پھر حضرت عمر فاروق اپنی خلافت کے دور میں چالیس کوڑے مارنے کی سزا دینے لگے سے ثابت ہوتا ہے۔
بہرکیف اس حدیث سے واضح ہوا کہ شراب کی حد کے طور پر اسی کوڑے کی سزا عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نافذ نہیں تھی بلکہ عہد صحابہ میں طے پائی ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق نے شراب کے معاملہ میں بڑھتی ہوئی شرکشی کو دیکھتے ہوئے اور قانونی اور انتظامی مصالح کے پیش نظر شراب پینے والے کو اسی ٨٠ کوڑے مارنے کی سزا متعین کی اور اسی پر تمام صحابہ کا اجماع و اتفاق ہو گیا لہٰذا اب کسی کے لئے جائز نہیں ہے چنانچہ حضرت علی کا یہ ارشاد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق نے شراب پینے والے کو چالیس کوڑے کی سزا دی اور اس سزا کو حضرت عمر فاروق نے کامل کیا بایں طور کہ انہوں نے اسی کوڑے کی سزا متعین کی اور اگرچہ سب سنت ہے لیکن اسی کوڑے ہی پر اجماع و اتفاق ہے۔
حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص شراب پئے اس کو کوڑے مارو اور جو شخص بار بار پئے یہاں تک کہ چوتھی مرتبہ پیتا ہوا پایا جائے تو اس کو قتل کر ڈالو حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے بعد ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی پٹائی کی اور اس کو قتل نہیں کیا۔ (ترمذی)
ابو داؤد کی ایک روایت میں نسائی ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت سے نقل کی ہے جس میں حضرت ابن عمرو، حضرت ابوہریرہ، اور حضرت ثرید بھی شامل ہیں یہ حدیث لفظ (فاقتلوہ) تک منقول ہے یعنی ان روایتوں میں (ثم اتی) الخ کی عبارت نہیں ہے۔
تشریح
تو اس کو قتل کر ڈالو اس حکم سے یہ تو یہ مراد ہے کہ اس شخص کی بہت پٹائی کرو اور خوب مارو، یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم زجر و تہدید کے طور پر اور قانونی و انتظامی مصالح کے پیش نظر دیا تھا اس کا تعلق کسی مستقل قانون اور وجوب سے نہیں تھا نیز بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا مگر بعد میں منسوخ ہو گیا۔
اس کو قتل نہیں کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قتل کر دینے کا حکم زجر و تہدید اور قانونی و انتظامی مصلحتوں کی بناء پر تھا یا پہلے تو یہی حکم تھا مگر بعد میں آپ نے خود اپنے اس عمل سے کہ اس کو قتل نہیں کیا یہ حکم منسوخ قرار دے دیا۔
نووی نے امام ترمذی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میری کتاب میں دو حدیثوں کے علاوہ اور کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جس کو متروک العمل قرار دینے پر پوری امت کا اجماع و اتفاق ہو ان دونوں میں سے ایک حدیث تو وہ ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی خوف و دہشت یا بارش نہ ہو تب بھی جمع بین الصلوتین کی اجازت ہے اور دوسری حدیث یہ ہے کہ جس میں چوتھی بار شراب پینے والے کو قتل کر دینے کا حکم ہے گویا امام ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ حدیث جس میں چوتھی بار شراب پینے والے قتل کر دینے کا حکم ہے منسوخ ہے اور اس کی منسوخی پر سب کا اتفاق و اجماع ہے۔
اور حضرت عبد الرحمن بن ازہر کہتے ہیں کہ گویا وہ منظر اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب پی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اس کی پٹائی کرو چنانچہ ان لوگوں میں سے بعض نے اس کو جوتوں سے مارا اور بعض نے کھجور کی ٹہنی (چھڑی) سے مارا۔ حضرت ابن وہب جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے کہ حضرت عبدالرحمن نے میتخہ سے کھجور کی ہری ٹہنی جس پر پتے نہ ہوں یعنی چھڑی مراد لی تھی۔ پھر حضرت عبد الرحمن نے بیان کیا کہ جب سب لوگ اس شرابی کی پٹائی کر چکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اس کے منہ پر پھینک دی اس کے منہ پر مٹی پھینک کر گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے تئیں حقارت کا اظہار کیا کیونکہ اس نے شراب پی کر ایک بہت ہی شنیع فعل کا ارتکاب کیا تھا۔ (ابو داؤد)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ اس کی پٹائی کرو۔ چنانچہ ہم میں سے بعض نے جوتیوں سے اس کی پٹائی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب زبان سے اس کو تنبیہ کر دو اور عار دلاؤ۔ چنانچہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے کہنا شروع کیا کہ تو نے اللہ کی مخالفت سے اجتناب نہیں کیا تو خدا سے نہیں ڈرا اور تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت ترک کرنے یا اس حالت میں آپ کے سامنے آنے سے بھی نہیں شرماتا۔ اور پھر جب بعض لوگوں نے یہ کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو (دنیا و آخرت دونوں جگہ یا آخرت میں) ذلیل و رسوا کرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس طرح نہ کہو اور اس پر شیطان کے غالب ہو جانے میں مدد نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ اے اللہ ! اس گناہ کو مٹا کر اس کو بخشش دے اور اس کو طاعت و نیکی کی توفیق عطا فرما کر اس پر رحم کر یا اس کو دنیا میں بخشش دے اور عاقبت میں اس پر اپنا رحم فرما۔ (ابو داؤد)
تشریح
د
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زبان سے تنبیہ کرنے کا جو حکم دیا وہ استحباب کے طور پر تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پہلا حکم کہ اس کی پٹائی کرو وجوب کے طور پر تھا۔
اس پر شیطان کے غالب ہو جانے میں مدد نہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی بد عا کر کے شیطان کی اعانت نہ کرو کیونکہ جو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا تو اس پر شیطان کا تسلط ہو جائے گا یا جب وہ تم کو یہ بد دعا کرتے ہوئے سنے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید و مایوس ہو جائے گا اور یہ مایوسی و ناامیدی اس کو گناہوں میں منہمک رکھے گی اس طرح اس پر اپنا غلبہ رکھنے کا شیطان کا مقصد بھی پورا ہو گا اور اس کا گناہوں اصرار و تکرار اللہ کے غضب کا سبب بھی ہو گا لہٰذا اس اعتبار سے تمہاری بد دعا شیطان کے بہکانے میں مدد گا ہو گی۔
بلکہ یوں کہو اس حکم کا مطلب یا تو یہ تھا کہ شروع ہی میں اس کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کرنی چاہئے یا یہ کہ اب اس کے لئے دعاء مغفرت و رحمت کرو، اور زیادہ صحیح یہی بات ہے کیونکہ شروع میں تو اس کو عار دلانا مطلوب تھا اور ظاہر ہے کہ اس دعا (اللہم اغفرلہ) کے ساتھ عار دلانے یا اس کو تنبیہ کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے شراب پی اور بدمست ہو گیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو راستہ میں اس حال میں پایا کہ وہ جھومتا چلا جاتا تھا جیسا کہ شرابیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نشہ کی حالت میں لڑکھڑاتے جھومتے راستہ چلتے ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے چلے، لیکن جب وہ حضرت عباس کے مکان کے قریب پہنچا تو لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت عباس کے پاس پہنچ کر ان سے چمٹ گیا یعنی اس نے اس طرح حضرت عباس سے سفارش اور پناہ چاہی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنس دیئے اور فرمایا کیا اس نے ایسا کہا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ تو اس شخص پر حد جاری کرنے کا حکم دیا اور نہ اس کو کوئی دوسری سزا دی اس کا سبب یہ تھا کہ اس کا شراب پینا نہ تو خود اس کے اقرار سے اور نہ عادل گواہوں کی گواہی کے ذریعہ ثابت ہوا۔ اگر وہ دربار رسالت میں حاضر ہو کر اپنی شراب نوشی کا اعتراف و اقرار کرتا یا گواہوں کے ذریعہ اس کی شراب نوشی کا جرم ثابت ہوتا تو یقیناً اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا جاتا۔ اور جہاں تک اس شخص کا راستہ میں نشہ کی حالت میں پائے جانے کا تعلق ہے تو یہ مسئلہ ہے کہ شرعی قانون کی نظر میں کسی شخص کا محض راستہ میں لڑکھڑاتے اور جھومتے ہوئے چلنا اس نشہ کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے جو اس پر حد کے جاری ہونے کو واجب کرے۔
حضرت عمیر ابن سعید نخعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں کسی شخص پر حد جاری کروں اور وہ شخص حد مارے جانے کی وجہ سے مر جائے تو مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا یعنی مجھے کوئی غم نہیں ہو گا کیونکہ اس پر حد جاری کرنا شریعت کے حکم کے مطابق ہو گا اور شریعت کے حکم کے نفاذ میں رحم و شفقت کا کوئی محل نہیں ہے ہاں شراب پینے والے کی بات دوسری ہے کہ اگر وہ چالیس سے زیادہ کوڑے مارے جانے کی وجہ سے مر جائے تو میں اس کی دیت بھروں گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب پینے کی حد سزا متعین نہیں فرمائی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حد مقرر نہیں فرمائی کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب پینے کی حد سزا کو متعین نہیں کیا ہے کہ اتنے کوڑے مارنے چاہئیں اگرچہ بعض احادیث میں چالیس یا چالیس کے مانند کے عدد کا ذکر ہے اس لئے اگر میں نے شراب پینے والے کو اسی ٨٠ کوڑے مارے اور وہ مر گیا تو میں ڈرتا ہوں کہ شاید یہ زیادتی میری طرف سے منسوب ہو جائے اس اعتبار سے میں اس مرنے والے کی دیت ادا کروں گا۔ حضرت علی کی یہ بات محض احتیاط پسندی پر محمول ہے حالانکہ جب حضرت عمر نے شراب پینے والے کو سزاء مارے جانے والے کوڑوں کی تعداد متعین کرنی چاہی اور صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کیا تو خود حضرت علی نے یہ فرمایا کہ شرابی کو اسی کوڑے مارنا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔
اور حضرت ثور ابن زید دیلمی کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے شراب کی حد سزا کے تعین کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت علی نے ان سے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ شرابی کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ جب وہ شراب پیتا ہے تو بدمست ہو جاتا ہے اور ہذیان بکتا ہے اور جب ہذیان بکتا ہے تو بہتان لگاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے حکم جاری کیا کہ شراب پینے والے کو اسی کوڑے مارے جائیں۔ (مالک)
تشریح
حضرت علی نے اپنی رائے کی دلیل میں بڑی جاندار بات فرمائی کہ شراب پینے والے کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے اور وہ نشہ کی حالت میں اول فول بکتا ہے اور خواہ مخواہ کسی پر الزام لگاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ نیک پارسا اور پاکدامن عورتوں پر زنا کا بہتان لگانے سے بھی باز نہیں رہتا، اس اعتبار سے اس کا نشہ گویا قذف پر قیاس کرتے ہوئے شرابی کی سزا بھی زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتی ہے گویا حضرت علی نے یہ بات اغلب کا اعتبار کرتے ہوئے فرمائی کہ زیادہ تر شرابی اپنے نشے کی حالت میں اول فول بکتے ہیں اور دوسروں پر الزام لگاتے ہیں اور چونکہ حکم کا انحصار اغلب پر ہوتا ہے اس لئے ہر شرابی کے لئے یہ ایک ہی سزا مقرر ہو گئی خواہ نشہ کی حالت میں اول فول بکے یا نہ بکے اور کسی پر الزام لگائے یا نہ لگائے بہرحال حضرت عمر نے حضرت علی کی اس رائے کو تسلیم کیا اور شراب پینے کی سزا اسی کوڑے متعین فرمائی جس پر تمام صحابہ نے اجماع و اتفاق کیا۔