مشکوٰة شر یف

شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان

شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان

 اس باب میں ایک تو خمر یعنی شراب کی حقیقت کو بیان کیا جائے گا کہ خمر کس کو کہتے ہیں۔ دوسری چیز یہ بیان ہو گی کہ شراب پینے والے کے بارے میں کس چیز کا خوف ہے اور اس کے حق میں کیا کیا وعیدیں منقول ہیں۔ 

خمر کسے کہتے ہیں؟

قاموس میں لکھا ہے کہ خمر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے استعمال (یعنی جس کو پینے) سے نشہ و مستی پیدا ہو جائے۔ اور وہ انگور کے شیرے کی صورت میں ہو یا عام کہ وہ انگور کا شیرہ ہو یا کسی چیز کا عرق و کاڑھا وغیرہ ہو، زیادہ صحیح یہی ہے کہ اس کا عام مفہوم مراد لیا جائے) یعنی نشہ لانے والی چیز خواہ وہ انگور کا شیرہ ہو یا کسی دوسری چیز کا شیرہ وغیرہ کیونکہ شراب مدینہ میں حرام ہوئی ہے اور اس زمانہ میں انگور کی شراب کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ وہ کھجور سے بنائی جاتی تھی خمر کیوجہ تسمیہ یہ ہے کہ لغت میں  خمر  کے معنی ہیں  ڈھانپنا  چھپانا ، خلط کرنا  اور چونکہ شراب انسان کی عقل کو ڈھانپ دیتی ہے اور اس کے فہم وشعور کی قوتوں کو خلط و خبط کر دیتی ہے اس لئے اس کو  خمر  کہا گیا۔

 

خمر کسے کہتے ہیں؟

نشہ آور چیزوں کی قسمیں

 

جو چیزیں نشہ پیدا کرتی ہیں ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو شراب کی ہے جو انگور سے اس طرح بنتی ہے کہ انگور کا عرق نکال کر کسی برتن میں رکھ دیتے ہیں ، کچھ دنوں کے بعد وہ گاڑھا ہو جاتا ہے اور اس میں ابال پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ نشہ آور ہو جاتا ہے ، صحیح تر اور مختار قول کے مطابق اس میں جھاگ کا پیدا ہونا شرط نہیں ہے اس کو عربی میں  خمر  کہتے ہیں۔

دوسری قسم یہ کہ انگور کے عرق کو قدرے جوش دے کر رکھ دیتے ہیں اس کو عربی میں  باذق  اور فارسی میں  بادہ  کہتے ہیں اور انگور کا وہ عرق جس کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ اس کا چوتھائی حصہ جل کر صرف تین چوتھائی حصہ رہ جاتا ہے۔ طلا  کہلاتا ہے۔

تیسری قسم  نقیع التمر  ہے جس کو سکر  بھی کہتے ہیں یعنی تر خرما کا وہ شربت جو گاڑھا ہو جائے اور اس میں جھاگ پیدا ہو جائے ،

چوتھی قسم  نقیع الزبیب  ہے یعنی منقیٰ اور کشمش وغیرہ کا وہ شربت جس میں ابال اور جھاگ پیدا ہو جائے۔

ان چاروں قسموں میں سے پہلی قسم تو بلا کسی قید کے حرام ہے اور باقی تین قسمیں اس صورت میں بہ اتفاق حرام ہیں جب کہ ان کو جوش دے کر رکھ دیا جائے اور ان میں گاڑھا پن آ جائے کیونکہ اس صورت میں ان چیزوں میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے ہاں اگر ان میں مذکورہ چیزیں نہ پائی جائے تو ان کو حرام نہیں کہیں گے مثلاً کچھ دیر کے لئے پانی میں خرما بھگو کر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ وہ پانی شربت کی طرح ہو جائے اور اس میں کسی قسم کا کوئی تغیر واقع نہ ہو تو اس کا پینا درست ہو گا۔

ان کے علاوہ پینے کے چار مشروب اور ہیں جن کا پینا امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک حلال ہے بشرطیکہ ان کو معمولی طور پر اس طرح جوش دیا گیا ان میں نشہ پیدا نہ ہوا ہو اور اگر ان میں نشہ پیدا ہو گیا ہو تو یہ قسمیں بھی حرام ہوں گی ، اسی طرح اگر ان کو جوش دئیے بغیر کافی عرصہ کے لئے رکھ دیا گیا ان میں جھاگ پیدا ہو گیا تب بھی ان کا پینا حرام ہو گا ، ان چاروں میں سے ایک قسم تو نبیذ  ہے یعنی وہ مشروب جو خرما سے بنایا گیا ہو اور اس کو اس قدر جوش دیا گیا ہو ، اگر اس میں گاڑھا پن بھی آگیا ہو تو اس کا پینا جائز ہے۔

دوسری قسم  خلیط  ہے یعنی وہ شربت جو خرما اور منقیٰ کو قدرے جوش دے کر ان سے نکالا گیا ہو۔

تیسری قسم : وہ نبیذ ہے جو شہد ، گیہوں ،جو اور جوار وغیرہ کو پانی میں قدرے جوش دے کر مشروب کی صورت میں بنائی گئی ہو۔

اور چوتھی قسم مثلث یمنی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انگور کے عرق کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ اس کا وہ حصہ خشک ہو جاتا ہے اور ایک حصہ شراب کی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔

ان چاروں چیزوں کے بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو عبادت کے لئے طاقت حاصل کرنے کی غرض سے پئے تو جائز ہے اور اگر لہو و لعب کے طور پر اور جنسی لذت کے لئے پئے تو حرام ہے لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک عبادت کے لئے طاقت حاصل کرنے کی غرض سے بھی ان کا پینا حرام ہے۔چنانچہ حنفی مسلک میں اہل تحقیق کا فتویٰ حضرت امام محمد ہی کے قول پر ہے۔

جیسا کہ یمنی شرح کنز میں لکھا ہے کہ  حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام احمد اور حنیفہ میں سے حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اور بدمست بنا دیتی ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے خواہ کسی طرح کا نشہ ہو کیونکہ ابن ماجہ اور دارقطنی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو چیز نشہ آور ہو وہ شراب ہے اور ساری نشہ آور چیزیں حرام ہیں ، لہٰذا حنفیہ مسلک میں فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز  شراب  ہے اور حرام ہے خواہ وہ  مشروب  کی صورت میں ہو اور انگور یا کھجور یا منقیٰ یا شہد سے بنے یا گیہوں ، جو، باجرہ یا جوار سے بنے اور خواہ وہ کسی درخت کا عرق ہو جیسے تاڑی وغیرہ یا کوئی گھاس ہو بھنگ وغیرہ اسی طرح وہ ہر مقدار میں حرام ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو ، نیز اگر کوئی شخص نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو مفتی بہ قول کے مطابق اس کی طلاق واقع ہو جائے خواہ شراب کا نشہ ہو یا نبیذ وغیرہ کا۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل ، اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد نیز محدثین کرام کا مسلک یہ ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو ، اور اگرچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک وہ مشروب نجس و حرام اور شراب کے حکم میں ہے جب میں ابال ، گاڑھا اور جھاگ پیدا ہو گیا ہو ، اس کے علاوہ اور چیزیں جب تک کہ ان میں نشہ نہ ہو حرام نہیں ہے۔ لیکن حنفی مسلک کے احتیاط پسند مصنفین کے ہاں فتویٰ حضرت امام محمد ہی کے قول پر ہے جیسا کہ نہایہ ،عینی ،دیلمی ، درمختار ، الاشباہ والنظائر ، فتاوٰی عالمگیری ، فتاویٰ حمادیہ اور شرح مواہب الرحمن میں مذکور ہے بلکہ شرح وہبانیہ وغیرہ میں تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول بھی حضرت امام محمد کے مطابق ہی منقول ہے اس صورت میں یہ مسئلہ تمام ائمہ و مجتہدین کا متفقہ ہو جاتا ہے ، چنانچہ حضرت مولانا عبد العلی لکھنوی نے ایک استفتاء کے جواب میں تاڑی اور نان پاؤ (ایک قسم کی خمیری روٹی) کی حرمت کو ظاہر کرتے ہوئے اس مسئلہ پر بڑی تحقیق و تفصیل اور وضاحت کے ساتھ لکھا ہے اور تیس چالیس حنفی و شافعی علماء نے اپنی تصدیق کی مہریں ثبت کی ہیں۔

نشہ آور چیزوں میں ایک قسم کی بھنگ نشہ لانے والی گھاس اور جڑی بوٹیاں اور افیون ہیں کہ ان کو کھانا پینا بھی حرام ہے کیونکہ یہ چیزیں بھی انسان کی عقل کو تباہ کرتی ہیں اور ذکر اللہ و نماز وغیرہ سے باز رکھتی ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص بھنگ وغیرہ کو حلال جانے وہ زندیق و بدعتی ہے ، بلکہ فقیہ نجم الدین زاہدی نے تو ایسے شخص پر کفر کا حکم لگایا ہے اور اس کو قتل کر دینا مباح جانا ہے۔

اسی طرح تمباکو بھی حرام ہے جیسا کہ در مختار میں لکھا ہے اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے حقہ نوشی کو مکروہ تنزیہی کہا ہے کیونکہ حقہ پینے والے کے منہ سے پیاز و لہسن کے مانند بدبو ہی نہیں بلکہ اس میں ایک طرح سے دوزخیوں کی مشابہت بھی ہے۔ کہ جس طرح دوزخیوں کو منہ سے دھواں نکلے گا اسی طرح حقہ پینے والے کے منہ سے بھی دھواں نکلتا ہے ، علاوہ ازیں حقہ نوشی ایک ایسی عادت ہے جس کو سلیم طبع ، مکروہ جانتی ہے اور حقہ پینے سے بدن میں بہت زیادہ سستی پیدا ہو جاتی ہے اور بعضوں پر غشی بھی طاری ہوتی ہے اور یہ چیز  مفتر  میں داخل ہے اور ایک روایت کے مطابق جس کو حضرت امام احمد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔

جو چیز مفتر یعنی سستی پیدا کرنے والی ہو وہ حرام ہے۔صاحب صراح اور صحاح نے  مفتر  کے معنی سستی پیدا کرنے والا  لکھا ہے اور حضرت امام ابو القاسم حسین ابن محمد ابن مفضل راغب نے اپنی کتاب  مفردات القرآن  میں  فتر  اور فتور  کے معنی یہ لکھے ہیں کہ  تیزی کے بعد تھم جانا ،شدت (چشتی) کے بعد نرم (صحت کے کمزور ہو جانا  چنانچہ یہ معنی حقہ پینے والے پر صادق آتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ مفتر کے معنی میں  بدن کا گرم ہو جانا  بھی داخل ہے تو یہ شاذ معنی ہے جو اکثر علماء لغت کی تحقیق کے خلاف ہے یا اس سے  اندر کی گرمی  مراد ہے۔ بہر حال حقہ نوشی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے بعید ہے کیونکہ حقہ ، مسواک کی سنت کے منافی ہے بایں وجہ کہ مسواک منہ کو بدبو سے پاک کرتی ہے جب حقہ منہ کو بدبودار بناتا ہے اور مسواک کے بارے میں یہ حدیث صحاح وغیرہ میں منقول ہے کہ

(السواک مطہرۃ للفم ومرضات للرب

 مسواک منہ کی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ اور حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا سبب ہے۔

شراب کن چیزوں سے بنتی ہے

حضرت ابوہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  شراب ان دو درختوں یعنی انگور اور کھجور سے بنتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مراد یہ ہے کہ اکثر انہی دو چیزوں سے شراب بنتی ہے ، گویا یہاں حصر یعنی یہ ظاہر کرنا مراد نہیں ہے کہ شراب بس انہی دو چیزوں سے بنتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ کل مسکر خمر ، یعنی ہر نشہ آور چیز شراب ہے چنانچہ اس ارشاد میں جو عمومیت ہے اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ 

شراب کن چیزوں سے بنتی ہے

٭٭اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عمر فاروق نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر پر (کھڑے ہو کر) خطبہ دیا ارشاد فرمایا کہ  شراب کی حرمت نازل ہو گئی ہے اور شراب پانچ چیزوں سے بنتی ہے یعنی انگور سے ، کھجور سے ، گیہوں سے ، جو سے ، اور شہد سے ، اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

علماء نے وضاحت کی ہے کہ حضرت عمر نے  اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ شراب کا انحصار انہی پانچ چیزوں میں نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ کسی بھی چیز سے بنا ہوا ہر وہ مشروب ،شراب ہے جس میں نشہ ہو اور اس کے پینے سے عقل و شعور پر پردہ پڑ جاتا ہو۔

پہلے زیادہ تر کھجور سے شراب بنتی تھی

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو اس وقت اس کی حرمت (نافذ) ہو گئی تھی اور (اس وقت) ہمیں انگور کی شراب کم ملتی تھی ہماری شراب زیادہ تر کچی کھجور اور خشک کھجور سے بنتی تھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 کھجور کے درخت پر پہلے جو شگوفہ لگتا ہے اس کو عربی میں  طلع  کہتے ہیں اور وہ کھجور کی ابتدائی حالت ہوتی ہے پھر اس کے بعد  خلال  پھر  بسر پھر (رطب) اور پھر خشک ہو جانے کے بعد اس کی آخری شکل  تمر ہوتی ہے۔

ہر نشہ آور مشروب حرام ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بتع یعنی شہد کی نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا (کہ آیا اس کا پینا جائز ہے یا نہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  وہ مشروب جو نشہ لائے ، حرام ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں تو  بتع  کو با کے زیر اور تا کے جزم کے ساتھ یعنی  بتع  نقل کیا گیا ہے جب کہ یہ بعض جگہ تا کے زیر کے ساتھ منقول ہے  شہد کی نبیذ اس شہد کو کہتے ہیں جس کو کسی برتن میں ڈال کر رکھ چھوڑا جائے تاکہ کھجور کی نبیذ کی طرح اس میں ایک خاص قسم کی تیزی پیدا ہو جائے ، چنانچہ اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر شہد کی نبیذ بھی نشہ لائے تو وہ بھی حرام ہے اور تمر کی نبیذ کا بھی یہی حکم ہے کہا جاتا ہے کہ اہل یمن کی شراب یہی بتع ہوتی ہے۔

جو شخص اس دنیا میں شراب پئے گا وہ شراب طہور سے محروم رہے گا

اور حضرت ابن عمر راوی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو چیز نشہ لائے وہ شراب ہے اور جو چیز نشہ لانے والی ہے وہ حرام ہے (خواہ مقدار میں تھوڑی ہو یا زیادہ ہو) اور جو شخص دنیا میں شراب پئے گا وہ ہمیشہ پیتا رہے یہاں تک کہ بغیر توبہ کئے مر جائے گا تو اس کو آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 اس کو آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا  سے مراد یا تو اس شخص کی حالت کو بیان کرنا ہے جو شراب کو حلال جانتے ہوئے ہمیشہ پیتا تھا۔ یا یہ ارشاد زجر و توبیخ اور شراب پینے کی شدید ممانعت پر محمول ہے ، اور یا یہ مراد ہے کہ اس شخص کو آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ شراب طہور پینا نصیب نہیں ہو گا جو نجات یافتہ اور جنت میں پہلے داخل ہونے والوں میں ہوں گے۔

شرابی کے بارے میں وعید

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ یمن کا ایک شخص (دربار نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جوار کی شراب کے بارے میں پوچھا جو یمن میں پی جاتی تھی اور جس کو  مزر  کہا جاتا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ  کیا وہ نشہ لاتی ہے؟  اس نے کہا کہ  ہاں  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نشہ لانے والی ہر چیز حرام ہے اور (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ جو شخص نشہ لانے والی کوئی بھی چیز پئے گا وہ اس کو طینہ الخبال  پلائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !طینۃ الخبال کیا ہے؟  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خبال  دوزخیوں کا پسینہ ہے۔ یا فرمایا کہ۔خبال وہ پیپ اور لہو ہے جو دوزخیوں کے زخموں سے بہتا ہے۔ (مسلم)

نبیذ کے بارے میں ایک حکم

اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خشک کھجور اور کچی کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے ، خشک کھجور اور خشک کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے کہ کچی کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے کہ (اگر نبیذ بنانا ہی ہو تو) ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ نبیذ بناؤ۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو پھلوں کو ملا کر بھگونے (یعنی ان کا نبیذ بنانے) سے منع فرمایا اور الگ الگ کر کے بھگونے (اور اس کی نبیذ بنانے) کو جائز رکھا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ جب دو مختلف طرح کے پھل ایک ساتھ بھگوئے جائیں گے تو ایک پر پانی جلد اثر کرے گا۔ اور دوسرے پر دیر سے ، نتیجہ یہ ہو گا جو پانی سے جلد تغیر قبول کرے گا اس میں نشہ پیدا ہو جائے گا اور اس کا اثر دوسرے تک پہنچے کا، اس طرح جو نبیذ تیار ہو گی اس میں ایک نشہ آور چیز مخلوط ہو جانے کا قوی امکان ہو گا جس کا امتیاز کرنا ممکن نہیں ہو گا لہٰذا جب اس نیبذ کو پیا جائے گا تو گویا ایک حرام چیز کو پینا لازم آئے گا۔ چنانچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے اسی کی بنیاد پر اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی نبیذ پینا جو دو پھلوں کو باہم بھگو کر بنائی گئی ہو ، حرام ہے خواہ اس میں نشہ ہو یا نشہ نہ ہو لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ ایسی نبیذ کا پینا اسی صورت میں حرام ہو گا جب کہ وہ نشہ آور ہو۔

شراب کا سرکہ بنا کر اس کو کھانے پینے کے کام میں لانا جائز ہے

اور حضرت انس راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ اگر شراب (میں نمک و پیاز وغیرہ ڈال کر اس) کا سرکہ بنا لیا جائے تو وہ حلال ہے یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں  (مسلم)

 

تشریح

 

 حنیفہ کہتے کہ اگر شراب ، سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو اس کو کھانے پینے کے مصرف میں لانا جائز ہو گا خواہ شراب میں کوئی چیز ڈال کر اس کا سرکہ بنا لیا گیا ہو یا اس میں کوئی چیز ڈالے بغیر مثلاً زیادہ دن رکھے رہنے یا دھوپ میں رکھ دینے کی وجہ سے خود بخود اس کا سرکہ بن گیا ہو۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر شراب میں کوئی چیز ڈال کر اس کا سرکہ بنایا تو وہ حلال نہیں ہے۔ اور اگر کچھ ڈالے بغیر مثلاً دھوپ میں رکھ دینے کی وجہ سے اس کا سرکہ بن گیا ہو تو اس کے بارے میں ان کے دو قول ہیں جس میں سے صحیح قول یہ ہے کہ وہ شراب ، شراب نہیں رہے گی بلکہ اس میں پاکی آ جائے گی اور اس کو کھانے پینے کے کام میں لانا جائز ہو گا۔

حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اول تو بلا کسی قید کے یہ فرمایا ہے کہ حدیث (نعم الادام الخل) (بہترین سالن ، سرکہ ہے) لہٰذا جو چیز بھی سرکہ ہو گی اس کا استعمال حلال ہو گا ، دوسرے جب شراب میں سے وہ بری خاصیت نکل گئی جس کی وجہ سے وہ حرام تھی اور اس میں اچھی خاصیت پیدا ہو گئی تو اب وہ ایک مباح چیز کے درجہ میں آ گئی لہٰذا اس کا کھانا پینا حلال ہو گا جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حنفیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو حلال اس لئے نہیں فرمایا تھا کہ اس وقت شراب کی حرمت نازل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا اور لوگوں نے بڑی طویل عادت کو ترک کر کے شراب سے منہ موڑا تھا ، اور یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس کو ایک طویل عادت کے بعد چھوڑتا ہے اس کی طرف اس کی طبیعت اور خواہش کا میلان کافی عرصہ تک رہتا ہے ، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت شیطان کی مداخلت سے خوف محسوس فرما کر کہ مبادا شیطان لعین کو اپنا حربہ آزمانے کا موقع مل جائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ اس چیز کو شراب پینے کا وسیلہ بنا لیں، آپ نے اس کو حلال نہیں فرمایا لیکن شراب کی حرمت پر طویل عرصہ گذر جانے اور شراب کی طرف لوگوں کے میلان کے ہلکے سے بھی شائبے کی جڑیں تک اکھڑ جانے کے بعد جب اس قسم کا کوئی خوف نہ رہا اور اس طرح وہ  مصلحت  ختم ہو گئی جس کی بناء اس کو حلال نہ فرمایا گیا تھا تو وہ حرمت زائل ہو گئی اور پھر شراب سے بنے ہوئے سرکہ کو استعمال کرنا بھی حلال ہو گیا۔علاوہ ازیں صاحب ہدایہ نے ایک روایت بھی نقل کی ہے جس کو بیہقی نے اپنی کتاب معرفت میں حضرت جابر سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ

حدیث (خیر خلکم خل خمرکم)۔ (بیہقی)

 یعنی تمہارے سرکوں میں بہترین سرکہ وہ ہے۔ جو شراب سے بنا ہو۔

شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے

اور حضرت وائل حضرمی روایت کرتے ہیں کہ طارق ابن سوید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے شراب نوشی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو منع فرمایا ، پھر طارق نے کہا کہ ہم تو شراب کو دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  وہ دوا نہیں ہے بلکہ (خود ایک) بیماری ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اکثر علماء نے شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنے سے منع کیا ہے جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر حاذق طبیب و معالج کے کہنے کے مطابق شراب ہی کسی مرض کا واحد علاج ہو یعنی معالج یہ کہے کہ اس مرض کی بس شراب ہی دوا ہے اور کوئی دوا نہیں ہے تو اس صورت میں اس کا استعمال مباح ہو گا ، اسی طرح اگر حلق میں کوئی لقمہ وغیرہ اٹک اور اس کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف ہو نیز اس وقت پانی یا ایسی اور کوئی چیز موجود نہ ہو جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے اتر جائے تو اس صورت میں تمام علماء کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ صرف اتنی شراب پی لینا حلال ہے جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے نیچے چلا جائے۔ 

کسی حرام چیز میں اللہ نے شفا نہیں رکھی ہے

پچھلے باب کے ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ شراب کی حرمت دفعۃً نازل ہونے کی بجائے بتدریج نازل ہوئی ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی ہے وہ بھی اس موقع پر نقل کی گئی ہے اس آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ (ومنافع للناس) یعنی اس شراب میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں۔ وہ فائدے کیا ہیں ، اس بارے میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن بعض مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ  فائدے  سے مراد انسانی بدن کی صحت ہے کہ شراب نسان کی جسم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے یا اس کے ذریعہ کسی مرض سے نجات مل سکتی ہے۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ  اللہ تعالیٰ نے کسی حرام چیز میں شفا نہیں رکھی ہے۔

شراب نوشی کا وبال

حضرت عبداللہ ابن عمرو راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص (پہلی مرتبہ) شراب پیتا ہے (اور توبہ نہیں کرتا) تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا ، پھر اگر وہ (خلوص دل سے) توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نہ صرف یہ کہ) چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا (بلکہ) اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ (بھی) قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں) اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا۔ (ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ ، اور دارمی نے اس روایت کو عبداللہ ابن عمرو سے نقل کیا ہے۔ 

 

تشریح

 

  اس کی نماز قبول نہیں کرتا  کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اپنی نماز کا ثواب نہیں ملتا اگرچہ وقت پر نماز کی ادائیگی کا فرض اس پر سے ساقط ہو جاتا ہے۔ یہاں خاص طور پر نماز کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب نماز جیسی عبادت قبول نہیں ہوتی جو تمام بدنی عبادتوں میں سب سے افضل ہے تو دوسری عبادتیں بطریق اولیٰ قبول نہیں ہوں گی نیز  چالیس دن  کی تعداد شائد اس لئے لگائی گئی ہے کہ شراب پینے والے کے باطن میں شراب کا اثر مختلف نوعیتوں سے اتنی ہی مدت تک رہتا ہے۔

یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ چوتھی مرتبہ میں قبول نہیں کی جاتی دراصل زجر و تشدید اور سخت تنبیہ پر محمول ہے کیونکہ ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ  جس شخص نے گناہ سے توبہ کی اور نادم ہوا اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھی تو اس نے اصرار نہیں کیا (یعنی ایسے شخص کو  مصر  نہیں کہہ سکتے اور اس کی توبہ قبول ہو گی) اگرچہ ایک ہی دن میں وہی گناہ ستر بار کرے  یا یہ مراد ہے کہ جو شخص بار بار شراب پیتا ہے تو اس ام الخبائث کے ارتکاب کی نحوست کی وجہ سے اس کو حقیقی توبہ کی توفیق عطا نہیں ہوتی اور آخرکار وہ  مصر  مر جاتا ہے۔

نشہ آور چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہے

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو چیز نشہ لاتی ہو اس کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے۔  (ترمذی ، ابو داؤد، ابن ماجہ ،)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر مثلاً شراب کی کوئی ایسی قسم ہے جس کی زیادہ مقدار نشہ لاتی ہے ، کم مقدار نشہ نہیں لاتی تو یہ نہیں ہے کہ اس کو کم مقدار میں پینا جائز ہو گا بلکہ اس کی کم مقدار بھی حرام ہو گی کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ پہلے جس چیز کی کم مقدار کو اختیار کرتا ہے وہی کم مقدار اس کو زیادہ مقدار تک پہنچا دیتی ہے لہٰذا اس کم مقدار سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہو گا۔

مسکر چیز کا ایک چلو بھی حرام ہے

اور حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس چیز (مثلاً شراب) کا ایک  فرق  (یعنی آٹھ سیر کی مقدار) نشہ لائے اس کا ایک بھرا ہوا چلو بھی حرام ہے۔ (احمد ، ترمذی، ابوداؤد ،)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ جس نشہ آور چیز کی زیادہ مقدار حرام ہے۔ اس کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے۔

شراب کن چیزوں سے بنتی ہے

اور حضرت نعمان ابن بشیر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  گیہوں کی بھی شراب ہوتی ہے ، جو کی بھی شراب ہوتی ہے ، کھجور کی بھی شراب ہوتی ہے ، انگور کی بھی شراب ہوتی ہے اور شہد کی بھی شراب ہوتی ہے۔ (ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ،) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 علماء نے لکھا ہے کہ یہاں حصر مراد نہیں ہے کہ بس انہیں چیزوں سے شراب بنتی ہے ، بلکہ ان چیزوں کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر شراب انہی چیزوں سے بنتی ہے۔ اس ارشاد میں اس بات کی دلیل ہے کہ خمر صرف انگوری شراب کو نہیں کہتے جب کہ ابن مالک کہتے ہیں کہ یہاں انگوری شراب کی علاوہ دوسری چیزوں کی شراب کو بھی خمر مجازاً کہا گیا ہے اور اس میں مناسبت یہ ہے کہ ان چیزوں کی شراب (یا نشہ آور نبیذ) بھی انسان کی عقل کو زائل کر دیتی ہے۔

شراب مال متقوم نہیں ہے

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ہمارے پاس یتیم کی شراب رکھی ہوئی تھی (یعنی ہمارے گھر میں ایک یتیم رہا کرتا تھا جو ہماری پرورش میں تھا اس کی ملکیت میں جہاں اور بہت سا مال و اسباب تھا وہیں شراب بھی تھی کیونکہ اس زمانہ میں شراب مباح تھی) چنانچہ سورہ مائدہ کی وہ آیت (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ) 5۔ المائدہ:90) نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت کا بیان ہے جو باب حد الخمر کے ابتداء میں نقل کی جا چکی ہے) تو میں نے اس یتیم کی شراب کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کا مال ہے (اور چونکہ یتیم کا مال ضائع نہیں کرنا چاہئے اس لئے اب کیا حکم ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس کو پھینک دو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ واضح فرمایا کہ شراب متقوم مال نہیں ہے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی نفع حاصل کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کی اہانت کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں اس شراب کو پھینک دینا ہی ضروری ہے۔ 

شراب مال متقوم نہیں ہے

٭٭اور حضرت انس حضرت ابو طلحہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں (یعنی ابو طلحہ نے) عرض کیا کہ  یا نبی اللہ ! میں نے ان یتیموں کے لئے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  شراب کو پھینک دو اور اس کے برتن کو توڑ ڈالو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت ابو طلحہ نے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے اپنے زیر پرورش یتیموں کے لئے جو شراب خریدی تھی اس کے بارے میں پوچھا کہ اب شراب حرام ہو گئی ہے میں اس شراب کا کیا کروں؟ آیا اس کو پھینک دوں یا رہنے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ اس کو بہا ڈالو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے برتن کو توڑ ڈالنے کا حکم اس لئے دیا کہ شراب کی نجاست اس میں سرایت کر گئی تھی اور اس کا پاک کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ یا یہ کہ آپ نے شراب کی ممانعت میں شدت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس برتن میں وہ شراب رکھی ہے اس کو بھی توڑ ڈالو، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شراب کا سرکہ بنا لینے سے جو منع فرمایا اس کا تعلق بھی یا تو زجر و تنبیہ سے ہے یا یہ ممانعت  نہی تنزیہی  کے طور پر ہے۔

ہر مسکر و مفتر چیز حرام ہے

حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس چیز (کو کھانے پینے) سے منع فرمایا ہے جو نشہ آور اور مفتر ہو۔ (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 نہایہ میں لکھا ہے کہ  مفتر  اس چیز کو کہتے ہیں جس کو پینے سے قلب و دماغ میں گرمی سرایت کر جائے اور ان اعضاء ریئسہ میں فتور یعنی ضعف و اضمحلال پیدا ہو جائے چنانچہ  افتراء الرجل  کسی شخص کے بارے میں اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ اس کی پلکیں کمزور ہو جاتی ہیں اور گوشہ چشم مضمحل ہو جاتا ہے جیسے جو شخص بہت بوڑھا ہو جاتا ہے اس کی پلکیں کمزور ہو جاتی ہیں یا ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیائی سی رہتی ہیں۔

اس ارشاد گرامی سے بیخ (خراسانی اجوائن یا بھنگ) اور دوسری مغیرات اور مفتر چیزوں کی حرمت پر استدلال کی جاتا ہے۔

شراب نوشی کی کسی حال میں اجازت نہیں ہے

اور حضرت دیلم حمیری کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم لوگ ایک سرد علاقے کے باشندے ہیں جہاں ہمیں سخت محنت کے کام کرنے پڑتے ہیں (اور وہ سخت محنت بہت زیادہ جسمانی مشقت کے متقاضی ہوتی ہے۔ اس لئے ہم لوگ گیہوں سے شراب تیار کرتے ہیں جس کے ذریعہ جس کے ذریعہ ہم اپنی محنت کے لئے طاقت کرتے ہیں اور اس کی قوت سے اپنے علاقے کی سردی پر قابو پاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا وہ شراب نشہ لاتی ہے؟  میں نے کیا  ہاں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تو پھر اس سے اجتناب کرو۔ میں نے عرض کیا  لوگ اس کو چھوڑنے والے نہیں ہیں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر لوگ اس کو پینا بند نہ کریں (اور اس کو حلال جانیں) تو ان سے قتال کرو۔ (ابو داؤد)

شراب اور جوئے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب پینے اور جوا کھیلنے سے منع فرمایا اور کوبہ اور غبیرا سے منع کیا ہے نیز فرمایا کہ  جو چیز بھی نشہ لائے وہ حرام ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 قاموس میں لکھا ہے کہ  کوبہ  نرد (ایک کھیل) اور شطرنج کو کہتے ہیں ، اسی طرح طبل یعنی نقارے سے اور برط کو بھی  کوبہ  کہتے ہیں چونکہ یہ ساری ہی چیزیں ممنوع ہیں اس لئے یہاں کوبہ سے جو بھی چیز مراد لی جائے صحیح ہے۔  غبیرا  ایک قسم کی شراب کا نام ہے جو چنے سے بنتی تھی اور عام طور پر حبشی بنایا کرتے تھے۔

شرابی جنت میں داخل نہیں ہو گا

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جو بندگان خاص نجات پا کر شروع میں جنت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ) جنت میں نہ تو وہ شخص داخل ہو گا جو اپنے ماں باپ کی (بلاوجہ شرع) نافرمانی کرتا ہے ، نہ جواری داخل ہو گا ، نہ وہ شخص داخل ہو گا جو فقراء کو صدقہ دے کر احسان جتاتا ہے ، اور نہ وہ شخص داخل ہو گا جو ہمیشہ شراب پیتا ہے (دارمی) اور دارمی ہی کی ایک روایت میں  نہ جواری داخل ہو گا  کے بجائے یہ ہے کہ  نہ ولد الزنا (جنت میں) داخل ہو گا۔

 

تشریح

 

 موجودہ زمانے کے اعتبار سے ہر وہ کھیل جوا ہے جس میں عام شرط باندھی جاتی ہے کہ جیتنے والا ہارنے والے سے اتنے روپے یا فلاں چیز لے لے گا جیسے تاش و  نرد اور شطرنج وغیرہ ، اسی طرح  سٹہ  بھی جوئے کے حکم میں داخل ہے۔

طیبی کے قول کے مطابق منان کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی  کسی فقیر و محتاج کو صدقہ و خیرات دے کر اس پر احسان جتانا  لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ منان دراصل من سے ہو جس کے معنی  قطع  کے ہیں اس طرح منان وہ شخص ہوا جو رشتوں ناتوں کو قطع کرنے والا ہو۔

یہ حدیث کہ  ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہو گا  نہ تو صحیح ہے اور نہ اس کو موضوع ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے ، تاہم اگر اس کے کسی درجہ میں صحیح ہونے کا احتمال بھی ہو تو اس صورت میں اس کی تاویل اور وضاحت یہ ہے کہ جو اولاد زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ چونکہ باپ کی تربیت و نگرانی سے محروم رہتی ہے اور ماں کی بدکرداری کا سایہ اس کے اوپر ہوتا ہے اس لئے وہ عام طور پر بگڑ جاتی ہے اور ظاہری و باطنی تربیت نہ پانے کی وجہ سے مختلف طرح کی برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور مآل کار وہ عذاب خداوندی میں گرفتار رہتی ہے ، مزید برآں جس طرح حرام ذرائع مثلاً جوئے اور سود سے کمائے جانے والے مال میں ایک طرح کی  نحوست  ہوتی ہے اس طرح ولد الزنا میں بھی ایک طرح کی نحوست ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسے نطفے سے وجود میں آتا ہے جو  حرام جگہ  میں  حرام ذریعہ  سے قرار پایا تھا۔ یا یہ کہا جائے کہ اس ارشاد  ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ کے ذریعہ دراصل زانی پر تعریض و تشدید مقصود ہے جو اس (ولد الزنا) کی پیدائش کا سبب بنا ہے۔

علاوہ ازیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں  ولد الزنا  سے مراد وہ شخص ہے جو زنا پر مواظبت و مداومت اختیار کرتا ہے اور بدکاری اس کی عادت بن جاتی ہے جیسے بہادروں کو  بنوالحرب  (یعنی جنگ کی اولاد) یا مسلمان کو بنوالاسلام (یعنی اسلام کی اولاد) کہہ دیتے ہیں۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ولد الزنا محض اس وجہ سے کہ وہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے ،عذاب خداوندی میں گرفتار ہو گا یا اس کو جنت کی سعادت سے محروم رکھا جائے گا کیونکہ جس برائی نے اس کو جنم دیا ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔

شرابی کے بارے میں ایک وعید

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پوری دنیا کے لئے رحمت اور تمام عالم کے لئے ہادی بنا کر بھیجا ہے ، اور میرے بزرگ و برتر خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں ، مزامیر ، بتوں ، سولیوں اور زمانہ جاہلیت (یعنی حالت کفر) کے تمام رسوم و عادات کو مٹا دوں ، اور میرے بزرگ و برتر خدا نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پئے گا میں اس کو (آخر میں) اسی بقدر دوزخیوں کی پیپ پلاؤں گا ، اور جو بندہ میرے خوف سے شراب پینا چھوڑے گا میں اس کو (آخرت میں) پاک حوضوں (یعنی جنت کی نہروں) سے (شراب طہور) پلاؤں گا۔ (احمد)

 

 

تشریح

 

  باجوں  سے ڈھول ، ڈھولکی ، نقارہ ، تاشہ ، طبلہ ، طنبورہ ، سارنگی ، ستار اور اسی قسم کے دوسرے باجے مراد ہیں ، اسی طرح  مزامیر سے شہنائی ، چنگ ، بانسری اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں۔

یہ حدیث باجوں اور مزامیر کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ چیزیں زمانہ قدیم سے اہل فسق اور گمراہ لوگوں کے رسوم و عادات میں داخل رہی ہیں۔

فقہاء لکھتے ہیں کہ راگ و نغمہ ، باجوں اور مزامیر کے ساتھ تو حرام ہے اور محض آواز کے ساتھ مکروہ ہے ، نیز اجنبی عورتوں سے سننا سخت حرام ہے۔

 سولی  سے مراد وہ صلیبی نشان (کراس) ہے جو عیسائیوں کے ہاں ایک مقدس علامت اور قومی و مذہبی نشان ہے جو اس شکل میں ہوتا ہے یعنی ایک خط دوسرے خط کو کاٹتا ہے۔ یہ دراصل یہ سولی کا نشان ہے جس پر عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا گیا تھا ، اسی مناسبت سے عیسائی اس نشان کو بہت ہی مقدس اور بابرکت سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کے مرد عورت اس نشان کو مختلف صورتوں میں اپنے جسم پر آویزاں رکھتے ہیں بلکہ اپنی تمام چیزوں پر بھی یہ نشان بناتے ہیں ، اس سے ان کا یہ مقصد حصول برکت بھی ہوتا ہے اور اس واقعہ کی حسرت ناکی اور غمگینی کو یاد رکھنا بھی ہوتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس نشان کے نیست و نابود کرنے کا بھی حکم دیا گیا اور مسلمانوں کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی چیز کو استعمال نہ کریں جس پر یہ نشان ہو اور نہ اپنی کسی چیز پر یہ نشان بنائیں کیونکہ اس سے ایک غیر قوم کی مشابہت ہو گی ہے جو اسلام میں سخت حرام ہے۔

زمانہ جاہلیت کی رسوم و عادات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو سراسر باطل ہیں اور جو زمانہ اسلام سے قبل کثرت سے رائج تھیں جیسے نوحہ و بین کرنا ، اپنی نسل یا اپنے خاندان پر بے جا فخر کرنا اور دوسروں کے نسب میں طعن و  طنز کرنا وغیرہ وغیرہ۔

والدین کی نافرمانی کرنے والے، دیوث اور شرابی پر جنت کے دروازے بند ہیں

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے (یہ نجات یافتہ بندوں کے ساتھ ابتداء ً جنت میں داخل ہونا ان تینوں پر حرام قرار دیا ہے) ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے ، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے ، اور تیسرا وہ دیوث کہ جو اپنے اہل و عیال میں ناپاکی پیدا کرے۔ (احمد نسائی)

 

تشریح

 

 جو اپنے اہل و عیال میں ناپاکی پیدا کرے۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنی بیوی، اپنی لونڈی یا اپنی کسی اور رشتہ دار کو برائی اور بد چلنی کی راہ پر لگائے یعنی انہیں غیر مردوں کے ساتھ ہم بستر ہونے یا مقدمات زنا جیسے بوس و کنار اور غیر حجابانہ اختلاط وغیرہ مجبور کرے ، یا انہیں اس کا موقع دے۔ اسی حکم میں اور تمام گناہ گناہ جیسے شراب نوشی ، اور غسل جنابت کا ترک وغیرہ بھی شامل ہیں ، یعنی اگر وہ شخص اپنی بیوی کو شراب پیتے دیکھے یا اس کو غسل جنابت ترک دیکھے یا اسی طرح کے کسی اور گناہ میں مبتلا دیکھے اور اس کو اس سے منع نہ کرے تو یہ بھی دیوثی ہے۔

طیبی کہتے ہیں کہ  دیوث  اس بے غیرت شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل یعنی اپنی عورت کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے لیکن نہ تو اس کو اس کی وجہ سے کوئی غیرت محسوس ہو اور نہ اس کو اس برائی سے منع کرے (یعنی اپنی عورت کے پاس غیر مردوں کا آنا گوارا کرے۔

مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ  دیوث  کو کشخان  اور  قرنان بھی کہتے ہیں لیکن بعض حضرات نے دیوث ، کشخان وہ ہے جو اپنی بہنوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے اور قرنان وہ ہے جو اپنی بیٹیوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے۔ 

والدین کی نافرمانی کرنے والے، دیوث اور شرابی پر جنت کے دروازے بند ہیں

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تین طرح کے لوگ جنت میں (ابتداءً) داخل ہونے سے محروم رہیں گے۔ (١) ہمیشہ شراب پینے والا۔ (٢) ناتے توڑنے والا۔ (٣) سحر پر یقین کرنے والا۔ (احمد)

 

تشریح

 

  سحر پر یقین کرنے والا  سے وہ شخص مراد ہے جو سحر کو مؤثر بالذات جانے ، ورنہ سحر پر بایں معنی یقین کرنا صحیح ہے۔ کہ وہ حق تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اور حق تعالیٰ کے حکم سے اس کا اثر انداز واقع ہونا ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ السحر حق یعنی سحر ایک حقیقت ہے۔

شراب نوشی بت پرستی کے مترادف ہے

اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص ہمیشہ شراب نوشی میں مبتلا رہے اور پھر مر جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں بت پرست کی طرح حاضر ہو گا۔ (احمد) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ سے اور بیہقی نے شعب الایمان میں محمد ابن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس روایت کو اپنی تاریخ میں محمد ابن عبداللہ سے انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ 

شراب نوشی بت پرستی کے مترادف ہے

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے  میں نے اس میں کوئی فکر (فرق) نہیں کرتا کہ میں شراب پیوں یا اللہ کے سوا اس ستون (یعنی پتھر کے بت) کو پوجوں۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 اس ارشاد سے حضرت موسیٰ کا مقصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے نزدیک شراب نوشی اور بت پرستی دونوں ایک ہی حکم رکھتے ہیں۔