شفعہ مشتق ہے شفع سے جس کے لغوی معنی ہیں ملانا اور جفت کرنا شفعہ اصطلاح فقہ میں اس ہمسائے گی یا شراکت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کسی ہمسایہ یا کسی شریک کو اس کے دوسرے ہمسایہ یا دوسرے شریک کے فروخت ہونے والی زمین یا فروخت ہونے والے مکان کو خریدنے کا ایک مخصوص حق حاصل ہوتا ہے اور یہ حق صرف زمین یا مکان کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جس شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے اسے شفیع کہتے ہیں۔ اس حق کا نام شفعہ اس لئے ہے کہ یہ خاص حق فروخت ہونے والی زمین یا مکان کو شفیع کی زمین یا مکان سے ملاتا ہے۔
حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے نزدیک حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا جبکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ حق شفعہ جس طرح شریک کے لئے ثابت ہے اسی طرح ہمسایہ کے لئے بھی ثابت ہے۔
ایک صحیح روایت کے مطابق حضرت امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں ہمسایہ کے حق شفعہ کے ثبوت میں احادیث منقول ہیں جو بالکل صحیح درجے کی ہیں ان کی موجودگی میں ہمسایہ کو حق شفعہ دینے سے انکار ایک بے دلیل بات ہے۔
حنفی مسلک کے مطابق شفیع کے تین درجے ہیں اول خلیط فی النفس المبیع یعنی فروخت ہونے والے مکان کی ملکیت میں کئی آدمی شریک ہوں خواہ وہ مکان ان سب شرکاء کو وراثت میں پہنچا ہو یا ان سب نے مشترک طور پر اسے خریدا ہو اور یا کسی نے ان سب کو مشترک طور پر ہبہ کیا ہو۔
دوم خلیط فی حق المبیع یعنی اس فروخت ہونے والے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک نہ ہو بلکہ اس زمین یا مکان کے حقوق میں شریک ہو جیسے حق مرور یعنی آمدورفت کا حق حق مسیل یعنی پانی کے نکاس کا حق اور حق شرب یعنی کھیت وغیرہ کو سیراب کرنے کے لئے پانی لے جانے کی نالی وغیرہ کا حق۔
سوم جار یعنی ہمسایہ جس کا مکان فروخت ہونے والے مکان سے متصل ہو اور ان دونوں مکانوں کی دیواریں ملی ہوئی ہوں نیز دونوں کے دروازوں کا راستہ ایک ہو۔ ان تینوں کے علاوہ اور کوئی شفیع نہیں ہو سکتا لہذا سب سے پہلے تو حق شفعہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اس فروخت ہونے والے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک ہو اس کی موجودگی میں حق شفعہ نہ تو حقوق میں شریک کو حاصل ہو گا اور نہ ہمسایہ کو اگر یہ شریک حق شفعہ سے دست کشی اختیار کرے تو پھر حق شفعہ اس شخص کو پہنچے گا جو حقوق میں شریک ہو اور یہ بھی دست کشی اختیار کر لے تب حق شفعہ ہمسایہ کو حاصل ہو گا اور اگر یہ ہمسایہ بھی اپنے اس حق سے دست کش ہو جائے تو اس کے بعد کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہو گا۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس غیر منقول چیز میں حق شفعہ ثابت ہونے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے (جو شراکت میں ہو) اور شرکاء کے درمیان تقسیم نہ کی گئی ہو لہذا جب حدود مقرر ہو جائیں یعنی مشترک ملکیت کی زمین یا مکان باہم تقسیم ہو جائے اور ہر ایک حصہ کے راستے الگ الگ کر دئیے جائیں تو پھر شفعہ باقی نہیں رہتا یعنی اس صورت میں چونکہ شرکت باقی نہیں رہتی اس لئے کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوتا (بخاری)
تشریح
جب کسی زمین یا کسی مکان کے مشترک طور پر کئی مالک ہوں تو اس کے شرکاء کو ہر ایک کے حصے میں حق شفعہ اسی وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ اس زمین یا اس مکان کی باہم تقسیم نہ ہو اگر وہ زمین یا مکان شرکاء آپس میں تقسیم کر لیں اور سب کے حصے الگ ہو جائیں اور سب حصوں کے راستے بھی جدا جدا ہو جائیں تو اس صورت میں کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں رہتا۔ اس طرح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو گی کہ حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو حاصل نہیں ہوتا چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے ہاں ہمسایہ کو بھی حق شفعہ حاصل ہوتا ہے ان کی دلیل دوسری احادیث ہیں ان کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس زمین یا مکان کی تقسیم کے بعد شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا لہذا حدیث کا یہ مفہوم مراد لینے کی صورت میں ہمسائے گی کے شفعہ کی نفی لازم نہیں آتی۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم صادر فرمایا کہ ہر ایسی مشترک زمین میں شفعہ ثابت ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو خواہ وہ گھر ہو یا باغ ہو نیز ایسی مشترک زمین کے کسی بھی شریک کو اپنا حصہ بیچنا حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو مطلع نہ کر دے اطلاع کے بعد وہ دو سرا شریک چاہے تو وہ حصہ خود خرید لے اور چاہے تو چھوڑ دے یعنی کسی دوسرے کو بیچنے کی اجازت دے دے اور اگر کسی شریک نے اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دئیے بغیر اپنا حصہ بیچ دیا تو وہ دوسرا شریک اس بات کا حقدار ہے کہ وہ اس فروخت شدہ حصہ کو خرید لے (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق شفعہ صرف غیر منقولہ جائیداد (یعنی زمین مکان اور باغ کے ساتھ مخصص ہے اشیاء منقولہ جیسے اسباب اور جانور وغیرہ میں شفعہ کا حق نہیں ہوتا چنانچہ تمام علماء کا متفقہ طور پر یہی مسلک ہے پھر حق شفعہ صرف مسلمان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مسلمان اور ذمی کے درمیان بھی شفعہ کا حق جاری ہوتا ہے (ذمی اس غیر مسلم کو کہتے ہیں جو جزیہ یعنی اپنے جان و مال اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کا ایک مخصوص ٹیکس ادا کر کے اسلامی سلطنت کا اطاعت گزار شہری ہو)
ارشاد گرامی کے الفاظ (لا یحل لہ) الخ (کسی بھی شریک کو اپنا حصہ بیچنا حلال نہیں ہے الخ) سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر کسی مشترک زمین یا مکان کا کوئی حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فروختگی کے ارادے کے وقت ہی اپنے دوسرے حصہ دار کو اس کی اطلاع دے دے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہے تو اس حصہ کو خرید لے ورنہ عدم اطلاع کی صورت میں اس دوسرے حصہ دار کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ بذریعہ شفعہ اس حصہ کو حاصل کر لے۔
اور حضرت ابو رافع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمسایہ اپنے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہمسایہ شفعہ کا زیادہ حق دار ہے اور یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شفعہ کا حق صرف اسی ہمسایہ کو ہوتا ہے کہ جو نزدیک اور متصل ہو۔ یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ حنفیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ حق شفعہ صرف شریک ہی کو حاصل نہیں ہوتا بلکہ ہمسایہ کو بھی حاصل ہوتا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسایہ کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے (بخاری و مسلم)
تشریح
منع نہ کرنے کا یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ لکڑی گاڑنے کی وجہ سے کوئی نقصان و ضرر نہ پہنچتا ہو حضرت امام احمد اور محدثین کے نزدیک مذکورہ بالا حکم وجوب کے طور پر ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہ حکم استحباب کے طور پر ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب راستہ کی بابت تم میں اختلاف ہو جائے تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ متعین کر دو (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی افتادہ زمین پر راستہ بنا ہو اور وہاں کچھ لوگ عمارت بنانا چاہیں تو بہتری ہی ہے کہ آپس کے اتفاق و اتحاد سے مناسب راستہ کے لائق زمین کا کچھ حصہ چھوڑ کر اس کے ارد گرد عمارت بنا لی جائے لیکن اگر راستہ کے لیے زمین کی کسی مقدار پر اتفاق نہ ہو اور آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اس صورت میں واضح ہدایت یہ ہے کہ راستہ کے لئے چوڑائی میں سات ہاتھ زمین متعین کر دی جائے اور اس سات کے اندر کوئی کچھ نہ بنائے۔
مذکورہ بالا حدیث کی مراد تو یہ ہے کہ لیکن اس بارے میں ایک یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ اگر کوئی چلتا ہوا راستہ سات ہاتھ سے زائد چوڑا ہو تو اس صورت میں کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے وہ اس پورے زائد حصے یا اس میں سے کچھ پر قابض ہو جائے اور یہ کہے کہ راستہ کی سات ہاتھ چوڑائی کافی ہے۔
حضرت سعید بن حریث کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص اپنا مکان یا زمین فروخت کرے تو مناسب یہ ہے کہ اس کی قیمت میں برکت نہ ہو الا یہ کہ وہ اس قیمت کو اس ہی جیسی جائیداد کی خریداری میں صرف کرے (ابن ماجہ دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ غیر منقولہ جائیداد مثلاً مکانات اور زمین کو بلا ضرورت بیچنا اور اس سے حاصل ہونے والی قیمت سے منقولہ اشیاء خریدنا غیر مستحب اور غیر مناسب ہے کیونکہ غیر منقولہ جائیداد میں منافع بھی بہت ہیں اور اس کے اتلاف و نقصان کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں جیسے اسے کوئی چور چرا نہیں سکتا اور کوئی لٹیرا لوٹ کر نہیں جا سکتا بخلاف اشیاء منقولہ کے کہ ان کی چوری کا ہر وقت خوف رہتا ہے لہذا عقل و دانش کا تقاضہ یہی ہونا چاہئے کہ بلا ضرورت غیر منقولہ جائیداد کو فروخت نہ کیا جائے اگر فروخت ہی کیا جائے تو اس کی قیمت کو دوسرے مکانات و زمین کی خریداری میں صرف کیا جائے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمسایہ اپنے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے شفعہ کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جاۓ اور ہمسایہ شفعہ کا اس صورت میں حق دار ہے جب کہ دونوں کا راستہ ایک ہو (احمد ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ)
اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جو فروخت کی جانے والی جائیداد میں شریک ہو شفعہ کا حق رکھتا ہے اور شفعہ کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جو غیر منقولہ جائیداد ہو جیسے زمین اور باغ وغیرہ) اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن ابی ملیکہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور وہی زیادہ صحیح ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا امام ابو داؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مختصر ہے جس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جنگل میں بیری کے کسی ایسے درخت کو کہ جس کے سایہ میں مسافر اور جانور پناہ حاصل کرتے ہیں از راہ ظلم و زیادتی اور بغیر حق کے کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا۔
تشریح
جملہ غشماً وظلماً بغیر حق میں لفظ ظلم اور بغیر حق لفظ غشماً کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا ہے یا پھر یہ کہ لفظ ظلم تو غشما کی تاکید کے طور پر لیکن بغیر حق سے مراد شفعہ ہے۔
ابوداؤد کی کتاب مرقات الصعود میں لکھا ہے کہ طبرانی نے اپنی کتاب اوسط میں یہ وضاحت کی ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لئے یہ وعید ہے بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل کی وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت از راہ ظلم و زیادتی کاٹ ڈالے۔
حضرت عثمان ابن عفان فرماتے ہیں کہ جب زمین میں حدیں قائم ہو جائیں یعنی مشترک زمین شرکاء میں باہم تقسیم ہو جائے اور ہر ایک کے حصے الگ الگ ہو جائیں تو شرکت کا شفعہ باقی نہیں رہتا اور نہ کنویں میں شفعہ کا حق حاصل ہوتا ہے اور نہ نر کھجور کے درخت میں۔ (مالک)
تشریح
کنواں ایک ایسی چیز ہے جو تقسیم کا احتمال نہیں رکھتا اور چونکہ شفعہ کا حق اسی زمین میں حاصل ہوتا ہے جو تقسیم کا احتمال رکھتی ہو اس لئے کنویں میں شفعہ نہیں ہوتا چنانچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن حنفیہ کے نزدیک شفعہ ہر زمین میں ثابت ہے خواہ وہ تقسیم کا احتمال رکھتی ہو جیسے مکانات اور باغات وغیرہ یا تقسیم کا احتمال نہ رکھے جیسے کنواں حمام اور چکی وغیرہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ واضح ارشاد گرامی ہے کہ (الشفعۃ فی کل شئی یعنی) شفعہ ہر غیرمنقولہ چیز میں ہے۔
اور نہ نر کھجور کے درخت میں یعنی مثلاً چند لوگوں کو کھجور کے کچھ درخت مشترک طور پر وراثت میں حاصل ہوئے جنہیں انہوں نے آپس میں تقسیم کر لیا لیکن ان میں ایک نر درخت بھی تھا جس کے پھول لے کر سب ہی لوگ اپنے اپنے کھجور کے درختوں پر ڈالتے تھے اب ان ہی میں کا ایک شخص اپنے حصے کے کھجور کے درختوں کے ساتھ اس نر درخت کے اپنے حقوق بھی فروخت کرے تو شرکاء کو اس فروخت میں شفعہ کا حق حاصل نہیں ہو گا کیونکہ نہ تو وہ کوئی زمین ہے اور نہ اس کو تقسیم کر لینا ممکن ہے۔