عَنْ سُوَيْدِ بْنِ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَإِنْ أَدْرَكْتَهُ لَمْ يَقْتُلْ فَاذْبَحْ وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَإِنْ أَدْرَكْتَهُ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ فَقَدْ أَمْسَكَهُ عَلَيْكَ، فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَطْعَمْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِنْ خَالَطَ كَلْبُكَ كِلَابًا، فَقَتَلْنَ: فَلَمْ يَأْكُلْنَ فَلَا تَأْكُلْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّهَا قَتَلَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: "جب تم اپنے کتے کو شکار کے لیے بھیجو تو اس پر "بسم اللہ" پڑھ لو، اب اگر تمہیں وہ شکار مل جائے اور مرا ہوا نہ ہو تو اسے ذبح کرو اور اس پر اللہ کا نام لو ۱؎ اور اگر تم اسے مردہ حالت میں پاؤ اور اس(کتے) نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو اس کو کھاؤ، اس لیے کہ اس نے تمہارے لیے ہی اس کا شکار کیا ہے۔ البتہ اگر تم دیکھو کہ اس نے اس میں سے کچھ کھا لیا ہے تو تم اس میں سے نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ اب اس نے اسے اپنے لیے شکار کیا ہے۔ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں اور انہوں نے اس (شکار) کو قتل کر دیا ہو اور اسے کھایا نہ ہو تب بھی تم اس میں سے کچھ مت کھاؤ، اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے اسے کس نے قتل کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الصید ۲ (۵۴۷۶)، ۷(۵۴۸۳)، ۸(۵۴۸۴)، ۹(۵۴۸۶)، ۱۰(۵۴۸۷)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۴۸، ۲۸۴۹)، سنن الترمذی/الصید ۵ (۱۴۶۹)، سنن ابن ماجہ/الصید ۶ (۳۲۱۳)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۲)، مسند احمد (۴/۲۵۶، ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۷۸، ۳۷۹، ۳۸۰)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۴۲۷۳، ۴۲۷۹، ۴۳۰۳، ۴۳۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: اللہ کا نام لے کر ذبح کرو۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟، فَقَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ، فَهُوَ وَقِيذٌ"، وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْكَلْبِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَأَخَذَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ، فَإِنَّ أَخْذَهُ ذَكَاتُهُ، وَإِنْ كَانَ مَعَ كَلْبِكَ كَلْبٌ آخَرُ فَخَشِيتَ أَنْ يَكُونَ أَخَذَ مَعَهُ فَقَتَلَ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (بے پر کے تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:"اگر اسے نوک لگی ہو تو کھاؤ اور اگر اسے آڑی لگی ہو تو وہ «موقوذہ» ہے" ۱؎ میں نے آپ سے کتے کے (شکار کے) بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جب تم(شکار پر) کتا دوڑاؤ پھر وہ اسے پکڑے اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تم اسے کھاؤ اس لیے کہ اس کا پکڑ لینا ہی گویا شکار کو ذبح کرنا ہے۔ لیکن اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا ہو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے بھی پکڑا ہو اور وہ شکار مر گیا ہو تو مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے بسم اللہ صرف اپنے کتے پر پڑھی تھی دوسرے کتے پہ نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۱ (۵۴۷۵)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن الترمذی/الصید ۷ (۱۴۷۱)، سنن ابن ماجہ/الصید ۶ (۳۲۱۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۰)، مسند احمد (۴/۲۵۶)، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۲۷۴، ۴۲۷۹، ۴۳۱۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جو شکار کسی بھاری چیز سے مارا گیا ہو جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے، یا کوئی جانور چھت وغیرہ سے گر کر مر جائے۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْإِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُرْسِلُ الْكَلْبَ الْمُعَلَّمَ فَيَأْخُذُ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ الْكَلْبَ الْمُعَلَّمَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ فَأَخَذَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ، قَالَ: "وَإِنْ قَتَلَ"، قُلْتُ: أَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ، قَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں (شکار پر) سدھایا ہوا کتا چھوڑتا ہوں اور وہ جانور پکڑ لیتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "جب تم سدھایا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ شکار پکڑے تو تم اسے کھاؤ میں نے عرض کیا: اگر وہ اسے مار ڈالے؟" تو آپ نے فرمایا:"اگرچہ وہ اسے مار ڈالے"۔ میں نے عرض کیا: میں معراض پھینکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "اگر نوک لگے تو کھاؤ اور اگر آڑا لگے تو نہ کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۳ (۵۴۷۷)، التوحید ۱۳ (۷۳۹۷)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۲۷)، سنن الترمذی/الصید ۱ (۱۴۶۵)، سنن ابن ماجہ/الصید ۶ (۳۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۹۸۷۸)، مسند احمد (۴/۲۵۶، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۸۰) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكُوفِيُّ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِدْرِيسَ عَائِذُ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ، يَقُولُ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ، وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، فَقَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِقَوْسِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اس سر زمین میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ملتا ہے۔ میں تیر کمان سے شکار کرتا ہوں اور سدھائے ہوئے کتے سے بھی شکار کرتا ہوں اور غیر سدھائے ہوئے کتے سے بھی۔ آپ نے فرمایا: "جو شکار تم تیر سے کرو تو اللہ کا نام لے کر اسے کھاؤ ۱؎ اور جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو اللہ کا نام لے کر اسے کھاؤ، اور جو شکار تم غیر سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو اگر اسے ذبح کر سکو تو کھا لو" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۴ (۵۴۷۸)، ۱۰(۵۴۸۸)، ۱۴(۵۴۹۶)، صحیح مسلم/الصید۱(۱۹۳۰)، سنن ابی داود/الصید۲(۲۸۵۵)، سنن الترمذی/السیر ۱۱ (۱۵۶۰م)، سنن ابن ماجہ/الصید ۳ (۳۲۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۷۵)، مسند احمد (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵)، سنن الدارمی/السیر ۵۶ (۲۵۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی تیر پھینکتے وقت اللہ کا نام لو پھر اسے کھاؤ۔ ۲؎: اور اگر پانے سے پہلے مر گیا ہو تو مت کھاؤ۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زُنْبُورٍ أَبُو صَالِحٍ الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أُرْسِلُ كِلَابِي الْمُعَلَّمَةَ فَيُمْسِكْنَ عَلَيَّ فَآكُلُ، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ، فَأَمْسَكْنَ عَلَيْكَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ ؟، قَالَ: "وَإِنْ قَتَلْنَ"، قَالَ: "مَا لَمْ يَشْرَكْهُنَّ كَلْبٌ مِنْ سِوَاهُنَّ"، قُلْتُ: أَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ فَيَخْزِقُ ؟ قَالَ: "إِنْ خَزَقَ فَكُلْ، وَإِنْ أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتے ہیں، کیا میں اسے کھا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "جب تم سدھائے ہوئے کتے چھوڑو (اور وہ تمہارے لیے شکار پکڑ کر لائیں) تو اسے کھا لو"، میں نے عرض کیا: اگر وہ اسے مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں، مگر یہ اسی وقت جب کہ اس کے ساتھ کوئی اور کتا شریک نہ ہوا ہو" ۱؎ میں نے عرض کیا: میں معراض پھینکتا ہوں اور وہ(جانور کے جسم میں) گھس جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اگر وہ گھس جائے تو تم کھا لو اور اگر وہ آڑا پڑے تو نہ کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے:۱- سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔ ۲- کتا سدھایا ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔ ۳- اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو، پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ ۴- کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔ ۵- سدھائے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا اور یہ شکار حلال نہ ہو گا۔ ۶- کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْعَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَخَالَطَتْهُ أَكْلُبٌ لَمْ تُسَمِّ عَلَيْهَا، فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيَّهَا قَتَلَهُ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: "جب تم (شکار پر) اپنا کتا چھوڑو پھر اس کے ساتھ کچھ ایسے کتے بھی شریک ہو جائیں جن پر تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے تو تم اسے مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسے کس کتے نے قتل کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا وَهُوَ ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَامِرٌ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَلْبِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَسَمَّيْتَ فَكُلْ، وَإِنْ وَجَدْتَ كَلْبًا آخَرَ مَعَ كَلْبِكَ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جب تم اپنے کتے کو چھوڑو اور اس پر بسم اللہ پڑھو تو اسے (شکار کو) کھاؤ اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا پاؤ تو مت کھاؤ اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، دوسرے کتے پر نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَكَانَ لَنَا جَارًا، وَدَخِيلًا، وَرَبِيطًا بِالنَّهْرَيْنِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ مَعَ كَلْبِي كَلْبًا قَدْ أَخَذَ لَا أَدْرِي أَيَّهُمَا أَخَذَ ؟، قَالَ: "لَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ".
شعبی کہتے ہیں کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نہرین میں ہمارے پڑوسی تھے، ہمارے گھر آتے جاتے تھے اور ایک زاہد شخص تھے، ان سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو میں اپنے کتے کے ساتھ ایک کتا دیکھتا ہوں جس نے شکار پکڑ رکھا ہے مجھے نہیں معلوم ہوتا کہ ان میں سے کس نے پکڑا ہے، آپ نے فرمایا: "اسے مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے «بسم اللہ» صرف اپنے کتے پر پڑھی تھی، دوسرے پر نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۱)، مسند احمد (۴/۲۵۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَنِالشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ ذَلِكَ.
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، (تحفة الأشراف: ۹۸۵۸)، مسند احمد (۴/۲۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْغَيْلَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُرْسِلُ كَلْبِي ؟، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَسَمَّيْتَ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَوَجَدْتَ مَعَهُ غَيْرَهُ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اس پر«بسم اللہ» پڑھ لو تو اسے (شکار کو) کھاؤ اور اگر اس نے اس (شکار) میں سے کچھ کھایا ہو تو تم اسے نہ کھاؤ، اس لیے کہ اسے اس کتے نے اپنے لیے شکار کیا ہے، اور جب تم اپنے کتے کو چھوڑو پھر اس کے ساتھ اس کے علاوہ (کوئی کتا) پاؤ تو اس شکار کو مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے «بسم اللہ» صرف اپنے کتے پر پڑھی ہے، دوسرے پر نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الصید ۲ (۵۴۷۶)، (۵۴۸۶)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۳)، مسند احمد (۴/۳۸۰) سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۳۱۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَعَنِ الْحَكَمِ، عَنِالشَّعْبِيِّ، وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ مَعَ كَلْبِي كَلْبًا آخَرَ لَا أَدْرِي أَيَّهُمَا أَخَذَ ؟، قَالَ: "لَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى غَيْرِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو اپنے کتے کے ساتھ دوسرے کتے کو پاتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کس نے شکار کیا؟۔ آپ نے فرمایا: "اسے (شکار کو) مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے صرف اپنے کتے پر «بسم اللہ» پڑھی تھی، کسی دوسرے (کتے) پر نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۵، ۴۲۷۶، ۴۲۷۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا زَكَرِيَّا، وَعَاصِمٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟، فَقَالَ: "مَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ"، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَنْ كَلْبِ الصَّيْدِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ ؟، قَالَ: "وَإِنْ قَتَلَ، فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ، وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَهُ كَلْبًا غَيْرَ كَلْبِكَ وَقَدْ قَتَلَهُ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معراض کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "اگر وہ نوک سے مارا جائے تو کھا لو اور اگر وہ آڑے سے مارا جائے تو وہ «موقوذہ» ہے (جو حرام ہے)"۔ میں نے آپ سے شکاری کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جب تم اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو تو اسے (شکار کو) کھاؤ"، میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ اسے مار ڈالے؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ وہ اسے مار ڈالے، ہاں اگر اس میں سے اس نے بھی کھا لیا تو تم مت کھاؤ اور اگر تم اس کے ساتھ اپنے کتے کے علاوہ کوئی کتا دیکھو اور اس نے شکار مار ڈالا ہو تو مت کھاؤ، اس لیے کہ تم نے اللہ کا نام صرف اپنے کتے پر لیا تھا کسی اور کتے پر نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۶۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْعَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الطَّائِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ ؟، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ فَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَيْهِ، وَلَمْ يُمْسِكْ عَلَيْكَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: "جب تم اپنے کتے کو چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ اسے مار ڈالے اور اس نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم کھاؤ، اور اگر اس نے اس میں سے کچھ کھایا ہو تو مت کھاؤ اس لیے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے نہ کہ تمہارے لیے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي مَيْمُونَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام: لَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ. فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ، فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكَلْبِ الصَّغِيرِ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: "لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو اور مجسمہ (مورت) ہو"۔ اس دن جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ چھوٹے چھوٹے کتوں(پلوں) کو بھی مارنے کا حکم دے رہے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۰۷۵) (صحیح) (یہ حدیث صحیح مسلم (۲۱۰۵)، سنن ابی داود (۴۱۵۷) میں بسند عبید بن السباق عن ابن عباس عن میمونہ آئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں " چھوٹے باغوں کے کتوں کو مارنے اور بڑے باغوں کے کتوں کو چھوڑ دینے کا حکم دے رہے تھے، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ غَيْرَ مَا اسْتَثْنَى مِنْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا سوائے ان (کتوں) کے جو اس حکم سے مستثنی (الگ) ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۳)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۰)، سنن ابن ماجہ/الصید۱(۳۲۰۲)، (تحفة الأشراف: ۸۳۴۹)، موطا امام مالک/الاستئذان ۵ (۱۴)، مسند احمد (۲/۲۲- ۲۳، ۱۱۳، ۱۳۲، ۱۳۶)، سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جیسے کھیتی، مویشی اور شکار کے کتے، لیکن بعد میں یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم برقرار رہا، لیکن عام کتوں کو بھی بغیر ضرورت پالنے کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا :(دیکھئیے اگلی حدیث )۔
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَافِعًا صَوْتَهُ: "يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، فَكَانَتِ الْكِلَابُ تُقْتَلُ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونچی آواز سے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرماتے سنا، چنانچہ کتے مار دیے جاتے سوائے شکاری کتوں کے یا جو جانوروں کی رکھوالی کرتے ہوتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصید ۱ (۳۲۰۳)، (تحفة الأشراف: ۷۰۰۲)، مسند احمد (۲/۱۳۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری، یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے سوا باقی کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۱ (۱۵۷۱)، سنن الترمذی/الصید ۴ (۱۴۸۸)، (تحفة الأشراف: ۷۳۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ، وَأَيُّمَا قَوْمٍ اتَّخَذُوا كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ حَرْثٍ، أَوْ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ، فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق)ہیں ۱؎ تو میں ان سب کو قتل کا ضرور حکم دیتا، اس لیے تم ان میں سے بالکل کالے کتے کو (جس میں کسی اور رنگ کی ذرا بھی ملاوٹ نہ ہو) قتل کرو، اس لیے کہ جن لوگوں نے بھی کھیت، شکار یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ کسی کتے کو رکھا تو ان کے اجر میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوتا ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصید۱(۲۸۴۵)، سنن الترمذی/الصید۳(۱۴۸۶)، ۴(۱۴۸۹)، سنن ابن ماجہ/الصید۲(۳۲۰۵)، (تحفة الأشراف: ۹۶۴۹) مسند احمد (۴/۸۵، ۸۶ و۵/۵۴، ۵۶، ۵۷)، سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۱)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۲۹۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَليِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمَلَائِكَةُ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ، وَلَا كَلْبٌ، وَلَا جُنُبٌ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ملائکہ (فرشتے) ۱؎ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر (مجسمہ) ہو یا کتا ہو یا جنبی (ناپاک شخص) ہو" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۶۲ (ضعیف) ’’حدیث ولا جنب کے لفظ سے ضعیف ہے) (اس کے راوی ’’ نجی ‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس میں ’’ جنبی ‘‘ کا لفظ نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: " فرشتوں " سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں نہ کہ حفاظت کرنے والے فرشتے، کیونکہ حفاظت کرنے والے فرشتوں کا کسی انسان یا انسان کے رہنے والی جگہ سے دور رہنا ممکن نہیں۔ ۲؎: حدیث میں صحت و ثبوت ہونے کے اعتبار سے " جنبی " کا لفظ " منکر " یعنی ضعیف ہے اور " کتا " سے مراد شکار، کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے مقصد سے پالے جانے والے کتوں کے علاوہ کتے مراد ہیں، اور " تصویر " سے وہ تصویریں مراد ہیں جس کا سایہ ہوتا ہے، یعنی ہاتھ سے بنائے ہوئے مجسمے، یا دیواروں پر لٹکائی جانے والی کاغذ پر بنی ہوئی تصویریں ہیں، کرنسی نوٹوں، کتابوں اور رسائل و جرائد میں بنی ہوئی تصویروں سے بچنا اس زمانہ میں بڑا مشکل بلکہ محال ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنِ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْأَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ".
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسے گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتے، یا تصاویر (مجسمے) ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۷ (۳۲۲۵)، ۱۷(۳۳۲۲)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۲)، اللباس ۸۸ (۵۹۴۹)، ۹۲ (۵۹۷۵)، صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۶)، سنن ابی داود/اللباس ۴۸ (۴۱۵۳)، سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۴)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۴۴ (۳۶۴۹)، (تحفة الأشراف: ۳۷۷۹)، مسند احمد (۴/۲۸، ۲۹، ۳۰) ویأتي عند المؤلف في الزینة ۱۱۱ (بأرقام۵۳۴۹، ۵۳۵۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي مَيْمُونَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْبَحَ يَوْمًا وَاجِمًا، فَقَالَتْ لَهُ مَيْمُونَةُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ لَقَدِ اسْتَنْكَرْتُ هَيْئَتَكَ مُنْذُ الْيَوْمَ. فَقَالَ: "إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ وَعَدَنِي أَنْ يَلْقَانِي اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَلْقَنِي، أَمَا وَاللَّهِ مَا أَخْلَفَنِي". قَالَ: فَظَلَّ يَوْمَهُ كَذَلِكَ، ثُمَّ وَقَعَ فِي نَفْسِهِ جَرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ نَضَدٍ لَنَا، فَأَمَرَ بِهِ، فَأُخْرِجَ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِهِ مَاءً فَنَضَحَ بِهِ مَكَانَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ كُنْتَ وَعَدْتَنِي أَنْ تَلْقَانِي الْبَارِحَةَ. قَالَ: أَجَلْ، وَلَكِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةٌ". قَالَ: فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَأَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ.
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین اور اداس اٹھے، میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ کی حالت آج کچھ بدلی بدلی عجیب و غریب لگ رہی ہے، آپ نے فرمایا: "جبرائیل نے مجھ سے رات میں ملنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ ملنے نہیں آئے، اللہ کی قسم! انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی"، آپ اس دن اسی طرح (غمزدہ) رہے، پھر آپ کو کتے کے ایک بچے (پلے) کا خیال آیا جو ہمارے تخت کے نیچے تھا، آپ نے حکم دیا تو اسے نکالا گیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اس سے اس جگہ پر چھینٹے مارے، پھر جب شام ہوئی تو آپ کو جبرائیل علیہ السلام ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "آپ نے مجھ سے گزشتہ رات ملنے کا وعدہ کیا تھا؟" انہوں نے فرمایا: جی ہاں، لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر (مجسمہ) ہو، پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۵)، سنن ابی داود/اللباس ۴۸ (۴۱۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۶۸)، مسند احمد (۶/۳۳۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَنْظَلَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ إِلَّا ضَارِيًا، أَوْ صَاحِبَ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے اجر سے دو قیراط اجر کم ہو گا، سوائے شکاری یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۶ (۵۴۸۰)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰(۱۵۷۴)، (تحفة الأشراف: ۶۷۵۰) مسند احمد (۲/۴۷، ۱۵۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِجِ بْنِ خَالِدٍ السَّعْدِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ خُصَيْفَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ وَفَدَ عَلَيْهِمْ سُفْيَانُ بْنُ أَبِي زُهَيْرٍ الشَّنَائِيُّ، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا، وَلَا ضَرْعًا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ". قُلْتُ: يَا سُفْيَانُ، أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟، قَالَ: نَعَمْ وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفیان بن ابی زہیر شنائی رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس نے ایسا کتا پالا جو نہ کھیت کی حفاظت کرے اور نہ جانوروں کی تو اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا"، میں نے عرض کیا: سفیان! کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس مسجد کے رب کی قسم! ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۳ (۲۳۲۳)، بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۵)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۶)، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۶)، (تحفة الأشراف: ۴۴۷۶)، موطا امام مالک/الإستئذان ۵ (۱۳)، مسند احمد (۵/۲۱۹، ۲۲۰)، سنن الدارمی/الصید ۲ (۲۰۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک قیراط اور دو قیراط کا اختلاف شاید زمان و مکان کے اعتبار سے ہے، چنانچہ ابتداء میں کتوں کے قتل کا حکم ہوا پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ثواب میں سے دو قیراط کی کمی کی خبر دی گئی پھر اس میں تخفیف ہوئی اور ایک قیراط کی خبر دی گئی :(واللہ اعلم )۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبًا ضَارِيًا، أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے شکار کرنے والے کتے یا جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۳۱۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے شکاری کتے یا جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۴)، (تحفة الأشراف: ۶۸۳۱)، مسند احمد (۲/۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ومحمد بن جعفر، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ، أَوْ زَرْعٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے شکاری کتے، یا جانوروں یا کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کا اجر ایک قیراط کم ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۸۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ زَرْعٍ، أَوْ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے شکاری کتے یا کھیتی اور جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کے سوا کوئی کتا پالا تو اس کے عمل (اجر) میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (البیوع۳۱) (۱۵۷۵) سنن ابی داود/الصید ۱(۲۸۴۴)، سنن الترمذی/الصید۴(۱۴۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۷۱)، مسند احمد (۲/۲۶۷، ۳۴۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِكَلْبِ صَيْدٍ، وَلَا مَاشِيَةٍ، وَلَا أَرْضٍ فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ قِيرَاطَانِ كُلَّ يَوْمٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی ایسے کتے کو پالا جو نہ تو شکاری ہو نہ جانوروں کی نگرانی کے لیے ہو اور نہ ہی زمین (کھیتی) کی رکھوالی کے لیے، تو روزانہ اس کا اجر دو قیراط کم ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۴۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، أَوْ كَلْبَ صَيْدٍ نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ". قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے عمل (اجر) میں سے ایک قیراط کم ہو گا"، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا: "یا کھیتی کا کتا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۴)، (تحفة الأشراف: ۶۷۹۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ سَمِعَأَبَا مَسْعُودٍ عُقْبَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ".
ابومسعود عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎ زانیہ عورت کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی اجرت ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۱۳ (۲۲۳۷)، الإجارة ۲۰ (۲۲۸۲)، الطلاق۵۱(۵۳۴۶)، الطب ۴۶ (۵۷۶۱)، صحیح مسلم/المساقاة ۹ (البیوع۳۰) (۱۵۶۷)، سنن ابی داود/البیوع۴۱(۳۴۲۸)، ۶۵(۳۴۸۱)، سنن الترمذی/النکاح ۳۷ (۱۱۳۳)، البیوع ۴۶ (۱۲۷۶)، الطب ۲۳ (۲۰۷۱)، سنن ابن ماجہ/التجارات۹(۲۱۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۱۰)، موطا امام مالک/البیوع ۲۹ (۶۸)، مسند احمد ۱/۱۱۸، ۱۲۰، ۱۴۰، سنن الدارمی/البیوع ۳۴ (۲۶۱۰)، ویأتي عند المؤلف في البیوع ۹۱ (برقم۴۶۷۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کتا نجس و ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر، جائیداد اور جانوروں کی رکھوالی کے لیے ہو۔ مگر ایسے کتوں کی بھی تجارت ناپسندیدہ ہے، اور جس حدیث میں اس کی رخصت کی بات آئی ہے اس کی صحت میں سخت اختلاف ہے،:(جیسے حدیث نمبر ۴۳۰۰ ) ۲؎ چونکہ زنا بڑے گناہوں اور فحش کاموں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ۳؎: علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا بڑا گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل طریقے سے لوگوں سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْرُوفُ بْنُ سُوَيْدٍ الْجُذَامِيُّ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبَاحٍ اللَّخْمِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ ثَمَنُ الْكَلْبِ، وَلَا حُلْوَانُ الْكَاهِنِ، وَلَا مَهْرُ الْبَغِيِّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کتے کی قیمت حلال نہیں، نہ ہی کاہن کی اجرت، اور نہ ہی زانیہ عورت کی کمائی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۶۵ (۳۴۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۶۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "شَرُّ الْكَسْبِ مَهْرُ الْبَغِيِّ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ، وَكَسْبُ الْحَجَّامِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بری کمائی زانیہ عورت کی کمائی، کتے کی قیمت، اور پچھنا لگانے کی اجرت ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۹ (البیوع۳۰) (۱۵۶۸)، سنن ابی داود/البیوع ۳۹ (۳۴۲۱)، سنن الترمذی/البیوع ۴۶ (۱۲۷۵)، (تحفة الأشراف: ۳۵۵۵)، مسند احمد (۳/۴۶۴، ۴۶۵ و۴/۱۴۱)، سنن الدارمی/البیوع ۷۸ (۲۶۶۳۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «کسب الحجام» کے سلسلہ میں «شرالکسب» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہونے کے معنی میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی، پس پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق «شر» کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے «ثوم و بصل»:(لہسن، پیاز ) کو خبیث کہا جب کہ ان دونوں کا استعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ یہ پیشہ گھٹیا اور غیر شریفانہ ہے۔
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِقْسَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ ثَمَنِ السِّنَّوْرِ، وَالْكَلْبِ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَحَدِيثُ حَجَّاجٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، لَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ.
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی ۱؎ اور کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا، سوائے شکاری کتے کے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: حماد بن سلمہ سے حجاج (حجاج بن محمد) نے جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۶۹۷)، ویأتي عند المؤلف في البیوع ۹۰ (برقم: ۴۶۷۲) (صحیح) ’’إلا کلب صید‘‘ کا جملہ امام نسائی کے یہاں صحیح نہیں ہے، لیکن البانی صاحب نے طرق اور شواہد کی روشنی میں اس کو بھی صحیح قرار دیا ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ۲۹۷۱، ۲۹۹۰، وتراجع الالبانی ۲۲۶)
وضاحت: ۱؎: چونکہ بلی سے کوئی ایسا فائدہ جو مقصود ہو حاصل ہونے والا نہیں اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے اور یہی اس کے حرام ہونے کی علت اور اس کا سبب ہے۔ ۲؎: اس کے راوی " ابوالزبیر " مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور یہ لفظ مسلم کی روایت میں ہے بھی نہیں ہے، انہیں اسباب و وجوہ سے بہت سے ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھئیے فتح الباری :(۴/۴۲۷ ) اور التعلیقات السلفیہ۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَال: حَدَّثَنَا ابْنُ سَوَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِيهَا ؟، قَالَ: "مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كِلَابُكَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ ؟، قَالَ: "وَإِنْ قَتَلْنَ"، قَالَ: أَفْتِنِي فِي قَوْسِي ؟، قَالَ: "مَا رَدَّ عَلَيْكَ سَهْمُكَ فَكُلْ"، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيَّ ؟، قَالَ: "وَإِنْ تَغَيَّبَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَهْمٍ غَيْرَ سَهْمِكَ، أَوْ تَجِدْهُ قَدْ صَلَّ يَعْنِي قَدْ أَنْتَنَ". قَالَ ابْنُ سَوَاءٍ: وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي مَالِكٍ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس کچھ شکاری کتے ہیں، آپ نے فرمایا: "تمہارے لیے تمہارے کتے جو پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ"۔ میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ اسے قتل کر ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ قتل کر ڈالیں"، اس نے کہا: (میں اپنے تیر کمان سے فائدہ اٹھاتا ہوں لہٰذا) مجھے تیر کمان کے سلسلے میں بتائیے، آپ نے فرمایا: "جو شکار تمہیں تیر سے ملے تو اسے کھاؤ"، اس نے کہا: اگر وہ (شکار تیر کھا کر) غائب ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ وہ غائب ہو جائے، جب تک کہ تم اس میں اپنے تیر کے علاوہ کسی چیز کا نشان نہ پاؤ یا اس میں بدبو نہ پیدا ہوئی ہو" ۱؎۔ ابن سواء کہتے ہیں: میں نے اسے ابو مالک عبیداللہ بن اخنس سے سنا ہے وہ اسے بسند عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۷۵۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصید۲(۲۸۵۷)، مسند احمد (۲/۱۸۴) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مؤلف نے باب پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ جب شکار کے لیے کتے استعمال کرنے کی رخصت ہے تو بھر اس کی خرید و فروخت کی بھی رخصت ہے، لیکن جمہور اس استدلال کے خلاف ہیں، پچھلی احادیث میں صراحت ہے کہ کتے کی قیمت لینی دینی حرام ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ، فَأَصَابُوا إِبِلًا وَغَنَمًا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُخْرَيَاتِ الْقَوْمِ، فَعَجَّلَ أَوَّلُهُمْ فَذَبَحُوا، وَنَصَبُوا الْقُدُورَ، فَدُفِعَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِالْقُدُورِ فَأُكْفِئَتْ، ثُمَّ قَسَّمَ بَيْنَهُمْ فَعَدَلَ عَشْرًا مِنَ الشَّاءِ بِبَعِيرٍ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَدَّ بَعِيرٌ وَلَيْسَ فِي الْقَوْمِ إِلَّا خَيْلٌ يَسِيرَةٌ، فَطَلَبُوهُ فَأَعْيَاهُمْ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذی الحلیفہ میں تھے تو لوگوں کو کچھ اونٹ ملے اور کچھ بکریاں (بطور مال غنیمت) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، تو آگے کے لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم غنیمت سے پہلے) انہیں ذبح کیا اور ہانڈیاں چڑھا دیں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، آپ نے حکم دیا تو ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا اور دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا، ابھی وہ اسی میں مصروف تھے کہ اچانک ایک اونٹ بھاگ نکلا، لوگوں کے پاس گھوڑے بہت کم تھے، وہ اس کو پکڑنے دوڑے تو اس نے انہیں تھکا دیا، ایک شخص نے ایک تیر پھینکا تو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا (تیر لگ جانے سے) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان چوپایوں میں بعض وحشی ہو جاتے ہیں جنگلی جانوروں کی طرح، لہٰذا جو تم پر غالب آ جائے (یعنی تمہارے ہاتھ نہ آئے) اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۳ (۲۴۸۸)، ۱۶(۲۵۰۷)، الجہاد ۱۹۱(۳۰۷۵مطولا)، الذبائح ۱۵ (۵۴۹۸)، ۱۸ (۵۵۰۳)، ۲۳ (۵۵۰۹)، ۳۶ (۵۵۴۳)، ۳۷ (۵۵۴۴)، صحیح مسلم/الأضاحي ۴ (۱۹۶۸)، سنن ابی داود/۴الأضاحي ۱۵ (۲۸۲۱)، سنن الترمذی/الصید ۱۹(۱۴۹۲)، السیر ۴۰ (۱۶۰۰) (مختصراً)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۹ (۳۱۸۳)، (تحفة الأشراف: ۳۵۶۱)، مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴۶۴، و۴/۱۴۰، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۵ (۲۰۲۰)، ویأتي عند المؤلف في الضحایا ۱۵، ۲۶ (بأرقام۴۳۹۶، ۴۴۰۸، ۴۴۱۵، ۴۴۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: جب اختیاری طور پر ذبح نہ کر سکو تو ذبح کی اضطراری شکل اختیار کرو۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ سَهْمَكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ، إِلَّا أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ وَلَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَهُ، أَوْ سَهْمُكَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا: "جب تم اپنا تیر چلاؤ تو اللہ کا نام لو پھر اگر تم دیکھو کہ وہ اس تیر سے مر گیا تو اسے کھاؤ إلا یہ کہ وہ پانی میں گر جائے، اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ وہ پانی سے مرا ہے یا تیر سے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْعَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ سَهْمَكَ، وَكَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَقَتَلَ سَهْمُكَ فَكُلْ"، قَالَ: فَإِنْ بَاتَ عَنِّي لَيْلَةً يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "إِنْ وَجَدْتَ سَهْمَكَ وَلَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ شَيْءٍ غَيْرَهُ فَكُلْ، وَإِنْ وَقَعَ فِي الْمَاءِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا: "جب تم اپنا تیر چلاؤ یا کتا دوڑاؤ اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ تمہارے تیر سے مر جائے تو اسے کھاؤ"، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر وہ ایک رات میری پہنچ سے باہر رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم اپنا تیر پاؤ اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کا اثر نہ پاؤ تو اسے کھاؤ اور اگر وہ پانی میں گر جائے تو نہ کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَهْلُ الصَّيْدِ، وَإِنَّ أَحَدَنَا يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَغِيبُ عَنْهُ اللَّيْلَةَ وَاللَّيْلَتَيْنِ، فَيَبْتَغِي الْأَثَرَ فَيَجِدُهُ مَيِّتًا وَسَهْمُهُ فِيهِ ؟، قَالَ: "إِذَا وَجَدْتَ السَّهْمَ فِيهِ وَلَمْ تَجِدْ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ، وَعَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ فَكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں، ہم میں سے ایک شخص شکار کو تیر مارتا ہے تو وہ ایک رات یا دو رات غائب ہو جاتا ہے، وہ اس کا پتا لگاتا ہے یہاں تک کہ اسے مردہ پاتا ہے اور اس کا تیر اس کے اندر ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: "جب تم اس میں تیر پاؤ اور اس میں کسی درندے کا نشان نہ ہو اور تمہیں یقین ہو جائے کہ وہ تمہارے تیر سے مرا ہے تو اسے کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصید ۴ (۱۴۶۸)، (تحفة الأشراف: ۹۸۵۴)، مسند احمد (۴/۳۷۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا رَأَيْتَ سَهْمَكَ فِيهِ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَهُ وَعَلِمْتَ أَنَّهُ قَتَلَهُ فَكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اپنا تیر اس (شکار) میں دیکھو اور اس کے علاوہ اس میں کوئی نشان نہ دیکھو اور تمہیں یقین ہو جائے کہ اسی سے وہ مرا ہے تو اسے کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَطْلُبُ أَثَرَهُ بَعْدَ لَيْلَةٍ ؟، قَالَ: "إِذَا وَجَدْتَ فِيهِ سَهْمَكَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ سَبُعٌ فَكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر میں ایک رات کے بعد اس کے نشانات ڈھونڈتا ہوں، آپ نے فرمایا: "جب تم اس کے اندر اپنا تیر پاؤ اور اس میں سے کسی درندے نے نہ کھایا ہو تو تم کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۳۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْخَلَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي الَّذِي يُدْرِكُ صَيْدَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ فَلْيَأْكُلْهُ، إِلَّا أَنْ يُنْتِنَ".
ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی اپنا شکار تین دن کے بعد پائے تو اسے کھائے إلا کہ اس میں بدبو پیدا ہو گئی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۲ (۱۹۳۱)، سنن ابی داود/الصید ۴ (۲۸۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۶۳)، مسند احمد (۴/۱۹۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُرِّيَّ بْنَ قَطَرِيٍّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُرْسِلُ كَلْبِي فَيَأْخُذُ الصَّيْدَ، وَلَا أَجِدُ مَا أُذَكِّيهِ بِهِ، فَأُذَكِّيهِ بِالْمَرْوَةِ وَالْعَصَا ؟، قَالَ: "أَهْرِقِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں، وہ شکار پکڑ لیتا ہے، لیکن مجھے ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے ذبح کروں تو میں پتھر (چاقو نما سفید پتھر) سے یا (دھاردار) لکڑی سے اسے ذبح کرتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس سے چاہو خون بہاؤ اور اللہ کا نام لو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۴)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۵ (۳۱۷۷)، (تحفة الأشراف: ۹۸۷۵)، مسند احمد (۴/۲۵۶، ۲۵۸)، ویأتي عند المؤلف فی الضحایا۱۹ (برقم: ۴۴۰۶) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُرْسِلُ الْكِلَابَ الْمُعَلَّمَةَ، فَتُمْسِكُ عَلَيَّ فَآكُلُ مِنْهُ ؟، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ الْكِلَابَ يَعْنِي الْمُعَلَّمَةَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ، فَأَمْسَكْنَ عَلَيْكَ فَكُلْ"، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ ؟، قَالَ: "وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ لَيْسَ مِنْهَا"، قُلْتُ: وَإِنِّي أَرْمِي الصَّيْدَ بِالْمِعْرَاضِ فَأُصِيبُ فَآكُلُ ؟، قَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ بِالْمِعْرَاضِ، وَسَمَّيْتَ فَخَزَقَ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتے ہیں، کیا میں اس سے کھا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم کتے دوڑاؤ یا چھوڑو، (یعنی سدھائے ہوئے) اور اللہ کا نام لے لو اور وہ تمہارے لیے شکار پکڑ لائیں تو تم کھاؤ"۔ میں نے عرض کیا: اور اگر وہ اسے مار ڈالیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں جب تک کہ اس میں کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جو ان کتوں میں سے نہیں تھا"۔ میں نے عرض کیا: میں «معراض» (بے پر کے تیر) سے شکار کرتا ہوں اور مجھے شکار مل جاتا ہے تو کیا میں کھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم «معراض» (بغیر پر والا تیر) پھینکو اور «بسم اللہ» پڑھ لو اور وہ (شکار کو) چھید ڈالے تو کھاؤ اور اگر وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شکار کو چھید ڈالنے کی صورت میں اس سے خون بہے گا جو ذبح کا اصل مقصود ہے، اور آڑا لگنے کی صورت میں صرف چوٹ لگے گی اور خون بہے بغیر شکار مر جائے گا۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، عَنِالشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقُتِلَ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (آڑے نیزہ اور تیر) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جب(شکار میں) «معراض» کی نوک لگے تو اسے کھاؤ اور جب آڑا «معراض» پڑے اور وہ (شکار) مر جائے تو وہ «موقوذہ» ۱؎ ہے، اسے مت کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۷۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «موقوذہ»: چوٹ کھایا ہوا جانور، اس کا کھانا حرام ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الذَّرَّاعُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحْصَنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟، فَقَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے پوچھا سوال کیا تو آپ نے فرمایا:"جب (شکار میں) «معراض» (آڑے نیزہ اور تیر) کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۸۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَغَيْرُهُ عَنْ زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ ؟، فَقَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (آڑے نیزہ اور تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:"جب اس (شکار) میں «معراض» کی نوک لگے تو کھاؤ اور جب وہ آڑا لگے تو مت کھاؤ کیونکہ وہ «موقوذہ» (چوٹ کھایا ہوا شکار) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنِ اتَّبَعَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ". وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو «باديہ» (دیہات) میں رہے گا وہ سخت مزاج ہو گا، اور جو شکار کا پیچھا کرے گا وہ (اس کے علاوہ دوسری چیزوں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو بادشاہ کا چکر لگائے گا وہ فتنے اور آزمائش میں پڑ جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصید ۴ (۲۸۵۹)، سنن الترمذی/الفتن ۶۹ (۲۲۵۶)، (تحفة الأشراف: ۶۵۳۹) مسند احمد (۱/۳۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْبَحْرَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ وَهُوَ ابْنُ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبٍ قَدْ شَوَاهَا، فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَأْكُلْ، وَأَمَرَ الْقَوْمَ أَنْ يَأْكُلُوا، وَأَمْسَكَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَأْكُلَ"، قَالَ: إِنِّي أَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: "إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمْ الْغُرَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خرگوش لایا، اس نے اسے بھون رکھا تھا، اسے آپ کے سامنے رکھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکے رہے اور خود نہیں کھایا اور لوگوں کو کھانے کا حکم دیا۔ اعرابی بھی رک گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تمہیں کھانے سے کیا چیز مانع ہے؟" وہ بولا: میں ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: "اگر تمہیں روزے رکھنے ہیں تو چاندنی راتوں (تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخوں) میں رکھا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۲۳ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ عبدالملک ‘‘ مدلس اور مختلط ہیں، موسی بن طلحہ سے صحیح سند ’’ عن أبی ذر‘‘ ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ حَاضِرُنَا يَوْمَ الْقَاحَةِ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَنَا أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ الَّذِي جَاءَ بِهَا: إِنِّي رَأَيْتُهَا تَدْمَى، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْكُلْ، ، ثُمَّ إِنَّهُ قَالَ: "كُلُوا"، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: "وَمَا صَوْمُكَ ؟"، قَالَ: مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، قَالَ: "فَأَيْنَ أَنْتَ عَنِ الْبِيضِ الْغُرِّ ؟ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قاحہ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) کے دن ہمارے ساتھ کون تھا؟ ابوذر رضی اللہ عنہ بولے: میں، (اس دن) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خرگوش لایا گیا تو جو لے کر آیا اس نے کہا: میں نے اسے حیض آتے دیکھا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا پھر فرمایا:"تم لوگ کھاؤ"، ایک شخص نے کہا: روزہ دار ہوں، آپ نے فرمایا: "تمہارا یہ کون سا روزہ ہے؟" اس نے کہا: ہر ماہ تین دن والا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تو تم ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں راتوں کے روزے کیوں نہیں رکھتے؟"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۲۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامٍ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: "أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَأَخَذْتُهَا، فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ فَذَبَحَهَا، فَبَعَثَنِي بِفَخِذَيْهَا وَوَرِكَيْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مرالظہران میں میں نے ایک خرگوش کو چھیڑا اور اسے پکڑ لیا، میں اسے لے کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے اسے ذبح کیا، پھر مجھے اس کی دونوں رانیں اور پٹھے دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۵ (۲۵۷۲)، الصید ۱۰ (۵۴۸۹)، ۳۲ (۵۵۳۵)، صحیح مسلم/الصید ۹ (۱۹۵۳)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۷ (۳۷۹۱)، سنن الترمذی/الأطعمة ۲ (۱۷۸۹)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۷ (۳۲۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۹)، مسند احمد (۳/۱۱۸، ۱۷۱، ۱۹۱)، سنن الدارمی/الصید ۷ ۹۲۰۵۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: "مرالظہران" مکے سے کچھ دور ایک مقام کا نام ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ عَاصِمٍ، وَدَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ، قَالَ: أَصَبْتُ أَرْنَبَيْنِ فَلَمْ أَجِدْ مَا أُذَكِّيهِمَا بِهِ، فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ،"فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهِمَا".
ابن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے دو خرگوش ملے، انہیں ذبح کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے انہیں سفید پتھر سے ذبح کر دیا ۱؎، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں پوچھا، تو آپ نے مجھے انہیں کھانے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۲)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۷ (۳۲۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۲۴)، سنن الدارمی/الصید ۷ (۲۰۵۷)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۴۰۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ سفید پتھر نوک دار تھا، کسی بھی دھاردار یا نوکدار چیز سے جس سے خون بہہ جائے، ذبح کر دینے سے جانور کا ذبح کرنا شرع کے مطابق صحیح ہو گا اور اس کا کھانا حلال ہو گا، ذبح کا اصل مقصود اللہ کا نام لینا اور خون بہنا ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ سُئِلَ عَنِ الضَّبِّ ؟، فَقَالَ: "لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأطعمة ۳ (۱۷۹۰)، (تحفة الأشراف: ۷۲۴۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصید ۳۳ (۵۵۳۶)، صحیح مسلم/الصید ۷ (۱۹۴۳)، موطا امام مالک/الاستئذان ۴ (۱۱)، مسند احمد (۲/۹، ۱۰، ۳۳، ۴۱، ۴۶، ۶۰، ۶۲، ۷۴، ۱۱۵)، سنن الدارمی/الصید ۸ (۲۰۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لیے یا طلاء کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر یہ کھایا گیا اس لیے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر :(ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش ) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے: ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈاز رعی اور پانی والے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ - نجدی ضب :(گوہ ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔ - نجدی ضب :(گوہ ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ - ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب :(گوہ ) ایسا نہیں کرتی۔ نجدی ضب :(گوہ ) کی کھال کو پکا کر عرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو " ضبة " کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے ؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانور کو " وَرَل " کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: " وَرَل " عمدہ قامت اور لمبی دم والا جانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دو ہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب :(گوہ ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبز زردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلا ہو جاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبز گھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلا سب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ :(کا سرمہ ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضو تناسل موٹا ہوتا ہے :(ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب ) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب :(گوہ ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبو اٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہو جائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں " جلالہ " کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہو گا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب :(گوہ ) کے حکم میں ہو گا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کر دی: نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور " ورل " نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ورل کا شکار مشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیر پھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اور کانٹے دار ہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت بالکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آ جائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بنا پر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایسا جانور ہے جس کو پانی سے پیار اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہو جائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کر کے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیئے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیئے اور عاملین حدیث کے نقطہٰ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیئے۔ گوہ کی کئی قس میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشتر کہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفید ہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابر ہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم … اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ :(کتاب المفردات:۴۲۷ )، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہور جانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم و تر بدرجہ اول، افعال و استعمال بطور مقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے :(کتاب المفردات: صفحہ ۲۷۵ )
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَرَى فِي الضَّبِّ ؟، قَالَ: "لَسْتُ بِآكِلِهِ وَلَا مُحَرِّمِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ضب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: "میں نہ اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۷۲۴۰، ۸۳۹۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، قَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَرَامٌ الضَّبُّ ؟، قَالَ: "لَا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ.
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے"، پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ ضب کی طرف بڑھایا اور اس میں سے کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأطعمة ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، صحیح مسلم/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۸ (۳۷۹۴)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۶ (۳۲۴۱)، (تحفة الأشراف: ۳۵۰۴)، موطا امام مالک/الإستئذان ۴ (۱۰)، مسند احمد (۴/۸۸، ۸۹)، سنن الدارمی/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ وَهِيَ خَالَتُهُ، فَقُدِّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَحْمُ ضَبٍّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُ شَيْئًا حَتَّى يَعْلَمَ مَا هُوَ، فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ: أَلَا تُخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَأْكُلُ ؟، فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَتَرَكَهُ، قَالَ خَالِدٌ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحَرَامٌ هُوَ ؟، قَالَ: "لَا، وَلَكِنَّهُ طَعَامٌ لَيْسَ فِي أَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ". قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ إِلَيَّ، فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ. وَحَدَّثَهُ ابْنُ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَكَانَ فِي حِجْرِهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ۱؎ نے بتایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے (یہ ان کی خالہ تھیں) ۲؎، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ضب کا گوشت پیش کیا گیا، آپ کا معمول تھا کہ آپ کوئی چیز نہ کھاتے جب تک معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کیا ہے، تو امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بتاؤ گی کہ آپ کیا کھا رہے ہیں؟ تو انہوں نے آپ کو بتایا کہ یہ ضب کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے اسے چھوڑ دیا، خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا وہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، لیکن وہ ایسا کھانا ہے جو میری قوم کی زمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آ رہی ہے"۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسے کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ اس حدیث کو ابن الاصم نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، ابن الاصم آپ کی گود میں پلے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا ابن عباس کے دونوں بیٹے عبداللہ اور فضل اور خالد بن الولید تین کی خالہ ہیں، عبداللہ بن عباس کی والدہ کا نام لبابۃ الکبری ام الفضل ہے، اور خالد کی والدہ کا نام لبابۃ الصغریٰ بنت حارث بن حزن الھلالی ہے، رضی اللہ عنھن۔ ۲؎: ام المؤمنین خالد بن ولید رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں، ابن الاصم یہ یزید بن الاصم، عمرو بن عبید بن معاویہ ہیں اور یزید میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَهْدَتْ خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقِطًا، وَسَمْنًا، وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ مِنَ الْأَقِطِ، وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الْأَضُبَّ تَقَذُّرًا، وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری خالہ (ام حفید رضی اللہ عنہا) نے مجھے پنیر، گھی اور ضب دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دی، لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر کھائی گئی ۱؎ اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ ہی آپ اسے کھانے کا حکم فرماتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۷ (۲۵۷۵)، الأطعمة ۸ (۵۷۸۹)، ۱۶ (۵۴۰۲)، الاعتصام ۲۴ (۷۳۵۸)، صحیح مسلم/الذبائح ۷ (۱۹۴۵)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۸ (۳۷۹۳)، (تحفة الأشراف: ۵۴۴۸)، مسند احمد (۱/۲۵۴، ۳۲۲، ۳۲۸، ۳۴۰، ۲۴۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دوسروں نے ضب بھی کھایا۔
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَكْلِ الضِّبَابِ ؟، فَقَالَ: "أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا، وَأَقِطًا، وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ مِنَ السَّمْنِ، وَالْأَقِطِ، وَتَرَكَ الضِّبَابَ تَقَذُّرًا لَهُنَّ، فَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ضب کھانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ام حفید (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھی پنیر اور ضب بھیجا تو آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور کراہت کی وجہ سے ضب چھوڑ دیا، لیکن اگر وہ حرام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی اور نہ آپ اسے کھانے کا حکم دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مَنْصُورٍ الْبَلْخِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَأَصَابَ النَّاسُ ضِبَابًا، فَأَخَذْتُ ضَبًّا فَشَوَيْتُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُودًا يَعُدُّ بِهِ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الْأَرْضِ، وَإِنِّي لَا أَدْرِي أَيُّ الدَّوَابِّ هِيَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ قَدْ أَكَلُوا مِنْهَا، قَالَ: فَمَا أَمَرَ بِأَكْلِهَا، وَلَا نَهَى.
ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ ٹھہرے، لوگوں کو ضب ملی، میں نے ایک ضب پکڑی اور اسے بھونا، پھر اسے لے کر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے ایک لکڑی لی اور اس کی انگلیاں گنیں، پھر فرمایا: "بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی شکل مسخ کر کے زمین کے کچھ جانوروں کی طرح بنا دی گئی، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون سا جانور ہے" ۱؎، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں نے اس میں سے کھا لیا ہے، تو پھر نہ آپ نے کھانے کا حکم دیا اور نہ ہی روکا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأطعمة ۲۸ (۳۷۹۵)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۶ (۳۲۳۸)، (تحفة الأشراف: ۲۰۶۹)، مسند احمد (۴/۲۲۰)، ویأتي فیما یلي: ۴۳۲۶، ۴۳۲۷ (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: احتمال ہے کہ آپ کا یہ فرمان اس وقت کا ہو جب آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ مسخ کی ہوئی مخلوق تین دن سے زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتی۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُزَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ وَدِيعَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَيُقَلِّبُهُ، وَقَالَ: "إِنَّ أُمَّةً مُسِخَتْ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ، وَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلَّ هَذَا مِنْهَا".
ثابت بن یزید بن ودیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ضب لایا۔ آپ اسے دیکھنے لگے اور اسے الٹا پلٹا اور فرمایا:"ایک امت کی صورت مسخ کر دی گئی تھی، نہ معلوم اس کا کیا ہوا، اور میں اس کا علم نہیں، شاید یہ اسی میں سے ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ ثَابِتِ ابْنِ وَدِيعَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ، فَقَالَ: "إِنَّ أُمَّةً مُسِخَتْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ".
ثابت بن یزید بن ودیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ضب لایا، آپ نے فرمایا: "ایک امت مسخ کر دی گئی تھی"، واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم ۴۲۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الضَّبُعِ ؟ فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهَا، فَقُلْتُ: أَصَيْدٌ هِيَ ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَسَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟، قَالَ: نَعَمْ.
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا، میں نے کہا: کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: "ہاں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۸۳۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «ضبع»: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سربڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے :(المعجم الوسیط:۵۳۳-۵۳۴ ) ہند و پاک میں اس درندے کو لکڑ بگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیئے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعہ» یا «مجفرہ» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکار کرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے " کفتار " اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑ بگڑ کھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور ضبع سے مراد لکڑ بگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحیدالزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: " اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے "، سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑ بگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیر پھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور :(نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل ) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑ بگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے " :(صحیح مسلم و موطا امام مالک )۔ لکڑ بگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑ بگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے :(کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲ )، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑ بگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے: «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربك غفور رحيم» :(سورة الأنعام: 145 ) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑ بگھا حلال ہے :(ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:۵/۱۳۳-۱۳۴ )۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُلُّ ذِي نَابَ مِنَ السِّبَاعِ فَأَكْلُهُ حَرَامٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی دانت (سے پھاڑے) والا درندہ ہو، اسے کھانا حرام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۳)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۳ (۳۲۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۳۲) وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۷۹)، موطا امام مالک/الصید ۴ (۱۴)، مسند احمد (۲/۴۱۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا اور کتا وغیرہ۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت (سے پھاڑنے) والے تمام درندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۲۹ (۵۵۳۰)، الطب ۵۷ (۵۷۸۰)، صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۲)، سنن ابی داود/الأطعمة ۳۳ (۳۸۰۲)، سنن الترمذی/الصید ۱۱ (۱۷۹۷)، سنن ابن ماجہ/الصید۱۳(۳۲۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۷۴)، مسند احمد (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵)، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۸(۲۰۲۴)، ویأتي فیما یلي و برقم: ۴۳۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِلُّ النُّهْبَى، وَلَا يَحِلُّ مِنَ السِّبَاعِ كُلُّ ذِي نَابٍ، وَلَا تَحِلُّ الْمُجَثَّمَةُ".
ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوٹا ہوا مال حلال نہیں، دانت (سے پھاڑنے) والا درندہ حلال نہیں، اور «مجثمہ» حلال نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۸۶۵)، مسند احمد (۴/۱۹۴)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۴۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مجثمہ ہر وہ جانور جسے باندھ کر اس پر تیر وغیرہ چلایا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو وَهُوَ ابْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "نَهَى، وَذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، وَأَذِنَ فِي الْخَيْلِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت دی۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۳۲۱۹)، الصید ۲۷ (۵۵۲۰)، ۲۸ (۵۵۲۴)، صحیح مسلم/الصید ۶ (۱۹۴۱)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۶ (۳۷۸۸)، ۳۴ (۳۸۰۸)، سنن الترمذی/الأطعمة ۵ (۱۷۹۳)، (تحفة الأشراف: ۲۶۳۹)، مسند احمد (۳/۳۲۲، ۳۵۶، ۳۶۱، ۳۶۲، ۳۸۵)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۲ (۲۰۳۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہی جمہور علماء کا مسلک ہے اور یہی صحیح ہے، حنفیہ گھوڑے کے گوشت کو حرام کہتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "أَطْعَمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُحُومَ الْخَيْلِ، وَنَهَانَا عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کا گوشت کھلایا ۱؎ اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأطعمة ۵ (۱۷۹۳)، (تحفة الأشراف: ۲۵۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: کھانے کی اجازت دی، جیسا کہ پچھلی روایت میں ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ وَهُوَ ابْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ. وعَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "أَطْعَمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ لُحُومَ الْخَيْلِ، وَنَهَانَا عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے دن ہمیں گھوڑے کا گوشت کھلانا اور گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۴۲۳، ۲۵۰۸، ۲۶۸۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "كُنَّا نَأْكُلُ لُحُومَ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۴ (۳۱۹۷)، (تحفة الأشراف: ۲۴۳۰)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۳۳۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ أَكْلُ لُحُومِ الْخَيْلِ، وَالْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ".
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "گھوڑے، خچر اور گدھے کا گوشت کھانا حلال نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأطعمة ۲۶ (۳۷۹۰)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۴ (۳۱۹۸)، (تحفة الأشراف: ۳۵۰۵)، مسند احمد (۴/۸۹) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ صالح بن یحیی ‘‘ ضعیف، اور ان کے باپ ’’ یحییٰ‘‘ مجہول الحال ہیں)
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ، وَالْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ، وَكُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچر اور گدھے اور دانت والے ہر درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "كُنَّا نَأْكُلُ لُحُومَ الْخَيْلِ، قُلْتُ: الْبِغَالَ ؟، قَالَ: لَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ گھوڑوں کا گوشت کھاتے تھے، عطاء کہتے ہیں: میں نے کہا: خچر؟ کہا: نہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۳۳۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: امام نسائی نے پہلے گھوڑے کی حلت سے متعلق باب میں صحیح احادیث کی تخریج کی پھر اس کی حرمت سے متعلق باب میں دو حدیث ذکر کی، جس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں، اور آخر میں جابر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو ذکر کر کے اس بات کو راجح قرار دیا کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ يَوْمَ خَيْبَرَ".
علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن نکاح متعہ ۱؎ سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۶۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نکاح متعہ یعنی وقتی نکاح جو جاہلیت میں کچھ پیسوں کے بدلے کیا جاتا تھا، شروع اسلام میں یہ حلال تھا، پھر جنگ خیبر کے دن ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ اس حدیث میں خاص توجہ کی چیز یہ ہے کہ شیعہ متعہ کو اب بھی حلال مانتے ہیں جب کہ آخری ممانعت کی حدیث علی رضی اللہ عنہ ہی سے ہے۔
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، وَمَالِكٌ، وَأُسَامَةُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنَيْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت (کھانے)سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۶۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ. ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَايَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ يَوْمَ خَيْبَرَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الصید ۲۸ (۵۵۲۱)، صحیح مسلم/الصید ۵ (۵۶۱)، (تحفة الأشراف: ۸۱۰۹، ۸۱۷۴)، مسند احمد (۲/۲۱، ۱۰۲، ۱۴۳، ۱۴۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَلَمْ يَقُلْ: خَيْبَرَ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں، اس میں انہوں خیبر کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۴۲۱۸)، الصید ۲۸ (۵۵۲۱)، صحیح مسلم/الصید ۵ (۱۹۳۸)، (تحفة الأشراف: ۸۱۱۶، ۶۷۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ، عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ نَضِيجًا، وَنِيئًا".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت (پکا ہوا ہو یا غیر پکا ہوا) سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۴۲۲۶)، الصید ۲۸ (۵۵۲۵)، صحیح مسلم/الصید ۵ (۱۹۳۸)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۳ (۳۱۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۰)، مسند احمد (۴/۲۹۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: "أَصَبْنَا يَوْمَ خَيْبَرَ حُمُرًا خَارِجًا مِنَ الْقَرْيَةِ فَطَبَخْنَاهَا، فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حَرَّمَ لُحُومَ الْحُمُرِ، فَأَكْفِئُوا الْقُدُورَ بِمَا فِيهَا"، فَأَكْفَأْنَاهَا.
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن ہم نے گاؤں سے باہر کچھ گدھے پکڑ کر پکائے، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز لگائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے، لہٰذا تم لوگ ہانڈیاں الٹ دو، چنانچہ ہم نے ہانڈیاں الٹ دیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخمس ۲۰ (۳۱۵۵)، المغازي ۳۸ (۴۲۲۰)، الصید ۲۸ (۵۵۲۶)، صحیح مسلم/الصید ۵ (۱۹۳۷)، (تحفة الأشراف: ۵۱۶۴)، مسند احمد (۴/۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۸۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: صَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، فَخَرَجُوا إِلَيْنَا وَمَعَهُمُ الْمَسَاحِي، فَلَمَّا رَأَوْنَا، قَالُوا: مُحَمَّدٌ، وَالْخَمِيسُ، وَرَجَعُوا إِلَى الْحِصْنِ يَسْعَوْنَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ"، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، فَأَصَبْنَا فِيهَا حُمُرًا فَطَبَخْنَاهَا، فَنَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ يَنْهَاكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت خیبر پہنچے اور وہ سب (خیبر والے) ہماری طرف نکلے تھے، ان کے ساتھ کدال (بیلچے)تھے، جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو کہا: محمد اور فوج، اور جلدی جلدی واپس قلعے میں چلے گئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر فرمایا: "«اللہ أكبر اللہ أكبر»، خیبر کا برا ہوا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے جنہیں تنبیہ کی جا چکی ہے"، وہاں کچھ گدھے ملے جنہیں ہم نے پکایا، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز لگائی: کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تمہیں گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں اس لیے کہ یہ (یعنی گوشت) «رجس» (ناپاک) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۶۹، و۵۴۸، و۳۳۸۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ: أَنَّهُمْ غَزَوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، وَالنَّاسُ جِيَاعٌ، فَوَجَدُوا فِيهَا حُمُرًا مِنْ حُمُرِ الْإِنْسِ، فَذَبَحَ النَّاسُ مِنْهَا، فَحُدِّثَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ: "أَلَا إِنَّ لُحُومَ الْحُمُرِ الْإِنْسِ، لَا تَحِلُّ لِمَنْ يَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ (صحابہ کرام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کے لیے خیبر گئے، لوگ بھوکے تھے، انہیں وہاں گھریلو گدھوں میں سے کچھ گدھے مل گئے، لوگوں نے ان میں سے کچھ ذبح کیے۔ اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا: سنو! پالتو گدھوں کا گوشت اس شخص کے لیے حلال نہیں جو گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۸۶۶) (صحیح) (اس کے راوی ’’ بقیہ ‘‘ ضعیف ہیں، مگر شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی مسلمان کے لیے گدھا کا گوشت کھانا حلال نہیں۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْن عُثْمَانَ، عَنْ بَقِيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت (سے پھاڑ نے) والے تمام درندوں اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۳۳۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ هُوَ ابْنُ فَضَالَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "أَكَلْنَا يَوْمَ خَيْبَرَ لُحُومَ الْخَيْلِ، وَالْوَحْشِ، وَنَهَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِمَارِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن ہم نے گھوڑوں اور نیل گائے کا گوشت کھایا، اور ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (گھریلو) گدھے (کے گوشت کھانے) سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۶ (۱۹۴۱)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۲ (۳۱۹۲)، (تحفة الأشراف: ۲۸۱۰)، مسند احمد (۳/۳۲۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ هُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْعُمَيْرِ بْنِ سَلَمَةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَثَايَا الرَّوْحَاءِ وَهُمْ حُرُمٌ، إِذَا حِمَارُ وَحْشٍ مَعْقُورٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "دَعُوهُ فَيُوشِكُ صَاحِبُهُ أَنْ يَأْتِيَهُ"، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَهْزٍ هُوَ الَّذِي عَقَرَ الْحِمَارَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَأْنَكُمْ هَذَا الْحِمَارُ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ يُقَسِّمُهُ بَيْنَ النَّاسِ.
عمیر بن سلمہ ضمری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران جب کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روحاء کے پتھروں میں چل رہے تھے اور لوگ احرام باندھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک زخمی نیل گائے ملی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو ممکن ہے اسے زخمی کرنے والا آئے"، اتنے میں قبیلہ بہز کا ایک شخص آیا، اسی نے اس کو زخمی کیا تھا، وہ بولا: اللہ کے رسول! آپ اس نیل گائے کو لے لیجئے تو آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۸۹۴)، مسند احمد (۳/۳۱۸) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: أَصَابَ حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَأَتَى بِهِ أَصْحَابَهُ، وَهُمْ مُحْرِمُونَ وَهُوَ حَلالٌ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ لَوْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَسَأَلْنَاهُ ؟، فَقَالَ: "قَدْ أَحْسَنْتُمْ"، فَقَالَ لَنَا: "هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: "فَاهْدُوا لَنَا"، فَأَتَيْنَاهُ مِنْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیل گائے شکار کیا اور اسے اپنے ساتھیوں کے پاس لے کر آئے، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے اور میں حلال(یعنی احرام سے باہر) تھا تو ہم نے اس میں سے کھایا، پھر ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے کہا: ہم اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تو بہتر ہوتا، چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: "تم نے ٹھیک کیا"، پھر فرمایا: "کیا تم لوگوں کے پاس اس میں سے کچھ ہے؟" ہم نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "ہمیں بھی دو"، تو ہم اس میں سے کچھ گوشت آپ کے پاس لے آئے، آپ نے اس میں سے کھایا حالانکہ آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۳ (۲۵۷۰)، الجہاد ۴۶ (۲۸۵۴)، الأطعمة ۱۹ (۵۴۰۶، ۵۴۰۷)، صحیح مسلم/الصید ۸ (۱۱۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۹۹)، مسند احمد (۵/۳۰۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى أُتِيَ بِدَجَاجَةٍ، فَتَنَحَّى رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهَا تَأْكُلُ شَيْئًا قَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا آكُلَهُ، فَقَالَأَبُو مُوسَى: ادْنُ فَكُلْ، فَإِنِّي"رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ"، وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْ يَمِينِهِ.
زہدم سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرغی لائی گئی تو لوگوں میں سے ایک شخص وہاں سے ہٹ گیا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ وہ بولا: میں نے اسے دیکھا کہ وہ کوئی چیز کھا رہی تھی تو میں نے اس کو گندہ سمجھا اور قسم کھا لی کہ میں اسے نہیں کھاؤں گا، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: قریب آؤ اور کھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۱۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقُدِّمَ طَعَامُهُ، وَقُدِّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مَوْلًى فَلَمْ يَدْنُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: ادْنُ، فَإِنِّي قَدْ"رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ".
زہدم جرمی کہتے ہیں کہ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، اتنے میں انہیں ان کا کھانا پیش کیا گیا اور ان کے کھانے میں مرغی کا گوشت پیش کیا گیا، لوگوں میں بنی تیم کا ایک سرخ آدمی تھا جیسے وہ غلام ہو ۱؎، وہ کھانے کے قریب نہیں آیا، اس سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: قریب آؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے دیکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۸۱۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس لیے کہ عام طور پر غلام عجمی ہوتے ہیں جو رومی یا ایرانی اور ترکی ہوتے تھے۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، عَنْ بِشْرٍ هُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن پنجے والے تمام پرندوں کو کھانے سے اور دانت (سے پھاڑنے)والے تمام درندوں کو کھانے سے روکا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأطعمة ۳۳ (۳۸۰۳)، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۳ (۳۸۰۵)، (تحفة الأشراف: ۵۶۳۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۴)، مسند احمد (۱/ ۳۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور چونکہ مرغی ان میں سے نہیں ہے اس لیے حلال ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، قَالَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ صُهَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَامِرٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا مِنْ إِنْسَانٍ قَتَلَ عُصْفُورًا فَمَا فَوْقَهَا بِغَيْرِ حَقِّهَا، إِلَّا سَأَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهَا"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا ؟، قَالَ: "يَذْبَحُهَا فَيَأْكُلُهَا، وَلَا يَقْطَعُ رَأْسَهَا يَرْمِي بِهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی انسان کسی گوریا، یا اس سے بھی زیادہ چھوٹی چڑیا کو ناحق قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اس سے اس کے متعلق سوال کرے گا"، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ اسے ذبح کرے اور کھائے اور اس کا سر کاٹ کر نہ پھینکے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۸۲۹)، مسند احمد (۲/۱۶۶، ۱۹۷، ۲۱۰)، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۶ (۲۰۲۱)، ویأتي عند المؤلف في الضحایا ۴۲ (برقم: ۴۴۵۰) (حسن) (تراجع الالبانی ۴۵۷، صحیح الترغیب والت رہیب ۲۲۶۶)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے، لیکن دیگر دلائل سے گوریا حلال پرندوں میں سے ہے :(دیکھئیے پچھلی حدیث )۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي مَاءِ الْبَحْرِ: "هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحَلَالُ مَيْتَتُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے پانی کے سلسلے میں فرمایا: "اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سمندر کا مردار حلال ہے اس سے مراد سمندر کے وہ حلال جانور ہیں جو کسی صدمہ سے مر گئے اور سمندر نے ان کو ساحل کی طرف بہا دیا ہو اسی کو قرآن میں: «أحل لكم صيد البحر وطعامه» :(المائدة: 96 ) میں طَعام سے مراد لیا گیا ہے، یاد رہے سمندری جانور وہ کہلاتا ہے جو خشکی میں زندگی نہ گزار سکے جیسے مچھلی۔ مچھلی کی تمام اقسام حلال ہیں، دیگر جانور اگر مضر اور خبیث ہیں یا ان کے بارے میں نص شرعی وارد ہے تو حرام ہیں اگر کسی جانور کا نص شرعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کھانا ثابت نہیں ہے، جبکہ وہ جانور ان کے زمانہ میں موجود تھا تو اس کے نہ کھانے کے بارے میں ان کی اقتداء ضروری ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ ؟، قَالَ: "لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، فَأَتَيْنَا الْبَحْرَ، فَإِذَا بِحُوتٍ قَذَفَهُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سریہ فوجی ٹولی میں) بھیجا، ہم تین سو تھے، ہم اپنا زاد سفر اپنی گردنوں پر لیے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کے حصے میں روزانہ ایک کھجور آتی تھی، عرض کیا گیا: ابوعبداللہ! اتنی سی کھجور آدمی کا کیا بھلا کرے گی؟ انہوں نے کہا: ہمیں اس کا فائدہ تب معلوم ہوا جب ہم نے اسے بھی ختم کر دیا، پھر ہم سمندر پر گئے، دیکھا کہ ایک مچھلی ہے جسے سمندر نے باہر پھینک دیا ہے، تو ہم نے اسے اٹھارہ دن تک کھایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۱ (۲۴۸۳)، الجہاد ۱۲۴ (۲۹۸۳)، المغازي ۶۵ (۳۴۶۳)، الصید ۱۲ (۵۴۹۴)، سنن الترمذی/القیامة ۳۴ (۲۴۷۵)، سنن ابن ماجہ/الزہد۱۲(۴۱۵۹)، (تحفة الأشراف: ۳۱۲۵)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ۱۰(۲۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاكِبٍ، أَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، نَرْصُدُ عِيرَ قُرَيْشٍ، فَأَقَمْنَا بِالسَّاحِلِ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّى أَكَلْنَا الْخَبَطَ، قَالَ: فَأَلْقَى الْبَحْرُ دَابَّةً يُقَالُ لَهَا: الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نِصْفَ شَهْرٍ، وَادَّهَنَّا مِنْ وَدَكِهِ فَثَابَتْ أَجْسَامُنَا، وَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ، فَنَظَرَ إِلَى أَطْوَلِ جَمَلٍ، وَأَطْوَلِ رَجُلٍ فِي الْجَيْشِ فَمَرَّ تَحْتَهُ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ جَاعُوا فَنَحَرَ رَجُلٌ ثَلَاثَ جَزَائِرَ، ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، فَسَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ"؟، قَالَ: فَأَخْرَجْنَا مِنْ عَيْنَيْهِ كَذَا وَكَذَا، قُلَّةً مِنْ وَدَكٍ، وَنَزَلَ فِي حَجَّاجِ عَيْنِهِ أَرْبَعَةُ نَفَرٍ، وَكَانَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ جِرَابٌ فِيهِ تَمْرٌ فَكَانَ يُعْطِينَا الْقَبْضَةَ، ثُمَّ صَارَ إِلَى التَّمْرَةِ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا۔ ہمارے امیر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ تھے، ہم قریش کی گھات میں تھے، چنانچہ ہم سمندر کے کنارے ٹھہرے، ہمیں سخت بھوک لگی یہاں تک کہ ہم نے درخت کے پتے کھائے، اتنے میں سمندر نے ایک جانور نکال پھینکا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ہم نے اسے آدھے مہینہ تک کھایا اور اس کی چربی کو تیل کے طور پر استعمال کیا، تو ہمارے بدن صحیح ثابت ہو گئے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک پسلی لی پھر فوج میں سے سب سے لمبے شخص کو اونٹ پر بٹھایا، وہ اس کے نیچے سے گزر گیا، پھر ان لوگوں کو بھوک لگی، تو ایک شخص نے تین اونٹ ذبح کئے، پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسے روک دیا، (سفیان کہتے ہیں: ابوالزبیر جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں)، پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: "کیا اس کا کچھ بقیہ تمہارے پاس ہے؟" پھر ہم نے اس کی آنکھوں کی چربی کا اتنا اتنا گھڑا (بھرا ہوا) نکالا اور اس کی آنکھ کے حلقے میں سے چار لوگ نکل گئے، ابوعبیدہ کے ساتھ ایک تھیلا تھا، جس میں کھجوریں تھیں وہ ہمیں ایک مٹھی کھجور دیتے تھے پھر ایک ایک کھجور ملنے لگی، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کے نہ ملنے کا احساس ہوا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۶۵ (۴۳۶۱)، الصید ۱۲ (۵۴۹۴)، صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۵)، (تحفة الأشراف: ۲۵۲۹، ۲۷۷۰)، مسند احمد (۳/۳۰۸)، سنن الدارمی/الصید ۶ (۲۰۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں واقعات کی ترتیب آگے پیچھے ہے۔
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ فِي سَرِيَّةٍ، فَنَفِدَ زَادُنَا فَمَرَرْنَا بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَ بِهِ الْبَحْرُ، فَأَرَدْنَا أَنْ نَأْكُلَ مِنْهُ، فَنَهَانَا أَبُو عُبَيْدَةَ، ثُمَّ قَالَ: نَحْنُ رُسُلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ كُلُوا. فَأَكَلْنَا مِنْهُ أَيَّامًا، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ: "إِنْ كَانَ بَقِيَ مَعَكُمْ شَيْءٌ فَابْعَثُوا بِهِ إِلَيْنَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سریے (فوجی مہم) میں بھیجا، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، ہمارا گزر ایک مچھلی سے ہوا جسے سمندر نے باہر نکال پھینکا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس میں سے کچھ کھائیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے روکا، پھر کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہیں اور اللہ کے راستے میں نکلے ہیں، تم لوگ کھاؤ، چنانچہ ہم نے کچھ دنوں تک اس میں سے کھایا، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو اس کی خبر دی، آپ نے فرمایا: "اگر تمہارے ساتھ (اس میں سے) کچھ باقی ہو تو اسے ہمارے پاس بھیجو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۹۹۲)، مسند احمد (۳/۳۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حلال قرار دیا تبھی تو اس میں سے طلب فرمایا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُقَدَّمٍ الْمُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي عُبَيْدَةَ، وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، وَزَوَّدَنَا جِرَابًا مِنْ تَمْرٍ فَأَعْطَانَا قَبْضَةً قَبْضَةً، فَلَمَّا أَنْ جُزْنَاهُ أَعْطَانَا تَمْرَةً تَمْرَةً حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَمُصُّهَا كَمَا يَمُصُّ الصَّبِيُّ، وَنَشْرَبُ عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَلَمَّا فَقَدْنَاهَا وَجَدْنَا فَقْدَهَا حَتَّى إِنْ كُنَّا لَنَخْبِطُ الْخَبَطَ بِقِسِيِّنَا وَنَسَفُّهُ، ثُمَّ نَشْرَبُ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ حَتَّى سُمِّينَا جَيْشَ الْخَبَطِ، ثُمَّ أَجَزْنَا السَّاحِلَ فَإِذَا دَابَّةٌ مِثْلُ الْكَثِيبِ، يُقَالُ لَهُ: الْعَنْبَرُ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَيْتَةٌ لَا تَأْكُلُوهُ". ثُمَّ قَالَ جَيْشُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْنُ مُضْطَرُّونَ، كُلُوا بِاسْمِ اللَّهِ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ وَجَعَلْنَا مِنْهُ وَشِيقَةً، وَلَقَدْ جَلَسَ فِي مَوْضِعِ عَيْنِهِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، قَالَ: فَأَخَذَ أبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَرَحَلَ بِهِ أَجْسَمَ بَعِيرٍ مِنْ أَبَاعِرِ الْقَوْمِ فَأَجَازَ تَحْتَهُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا حَبَسَكُمْ"، قُلْنَا: كُنَّا نَتَّبِعُ عِيرَاتِ قُرَيْشٍ، وَذَكَرْنَا لَهُ مِنْ أَمْرِ الدَّابَّةِ، فَقَالَ: "ذَاكَ رِزْقٌ رَزَقَكُمُوهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، أَمَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ ؟"، قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ایک فوجی مہم میں) بھیجا، ہم تقریباً تین سو دس لوگ تھے، ہمیں توشہ کے بطور کھجور کا ایک تھیلا دیا گیا، وہ ہمیں ایک ایک مٹھی دیتے، پھر جب ہم اکثر کھجوریں کھا چکے تو ہمیں ایک ایک کھجور دینے لگے، یہاں تک کہ ہم اسے اس طرح چوستے جیسے بچہ چوستا ہے اور اس پر پانی پی لیتے، جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں ختم ہونے پر اس کی قدر معلوم ہوئی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم اپنی کمانوں سے پتے جھاڑتے اور اسے چبا کر پانی پی لیتے، یہاں تک کہ ہماری فوج کا نام ہی جیش الخبط (یعنی پتوں والا لشکر) پڑ گیا، پھر جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو ٹیلے کی طرح ایک جانور پڑا ہوا پایا جسے عنبر کہا جاتا ہے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مردہ ہے مت کھاؤ، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں ہے اور ہم مجبور ہیں، اللہ کا نام لے کر کھاؤ، چنانچہ ہم نے اس میں سے کھایا اور کچھ گوشت بھون کر سکھا کر رکھ لیا، اس کی آنکھ کی جگہ میں تیرہ لوگ بیٹھے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی لی پھر کچھ لوگوں کو اونٹ پر سوار کیا تو وہ اس کے نیچے سے گزر گئے، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: "تمہیں کس چیز نے روکے رکھا؟" ہم نے عرض کیا: ہم قریش کے قافلوں کا پیچھا کر رہے تھے، پھر ہم نے آپ سے اس جانور (عنبر مچھلی) کا معاملہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخشا ہے، کیا اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے؟" ہم نے عرض کیا: جی ہاں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۲۹۸۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ: "أَنَّ طَبِيبًا ذَكَرَ ضِفْدَعًا فِي دَوَاءٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهِ".
عبدالرحمٰن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک طبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوا میں مینڈک کا تذکرہ کیا تو آپ نے اسے مار ڈالنے سے روکا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطب ۱۱ (۳۸۷۱)، الأدب ۱۷۷ (۵۲۶۹)، (تحفة الأشراف: ۹۷۰۶)، مسند احمد (۳/۴۵۳، ۴۹۹)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۶ (۲۰۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کو مار کر دوا میں استعمال کرنے سے روکا، کیونکہ یہ نجس و ناپاک ہے اور ناپاک چیزوں سے علاج حرام ہے، نیز مینڈک کو مارنے سے روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا کھانا بھی حرام ہے، کیونکہ کھانے کے لیے بھی قتل کرنا پڑتا ہے۔
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ وَهُوَ ابْنُ حَبِيبٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورَ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: "غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ فَكُنَّا نَأْكُلُ الْجَرَادَ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات جنگیں کیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۱۳ (۵۴۹۵)، صحیح مسلم/الصید ۸ (۱۹۵۲)، سنن ابی داود/الأطعمة ۳۵ (۳۸۱۲)، سنن الترمذی/الأطعمة۱۰ (۱۸۲۱)، (تحفة الأشراف: ۸۱۸۲) مسند احمد (۴/۳۵۳، ۳۵۷، ۳۸۰)، سنن الدارمی/الصید ۵ (۲۰۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ سُفْيَانَ وَهُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى: عَنْ قَتْلِ الْجَرَادِ ؟، فَقَالَ: "غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ".
ابویعفور کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ٹڈی کے مارنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ جنگیں کی ہیں، ہم (ان میں) ٹڈی کھاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ نَمْلَةً قَرَصَتْ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ، أَنْ قَدْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ، أَهْلَكْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک چیونٹی نے نبیوں میں سے ایک نبی کو کاٹ لیا تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر کو جلا دینے کا حکم دیا اور وہ جلا دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی: اگر تمہیں کسی چیونٹی نے کاٹ لیا تھا تو (ایک ہی کو مارتے مگر) تم نے ایک ایسی امت (مخلوق) کو مار ڈالا جو (ہماری) تسبیح (پاکی بیان) کر رہی تھی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۵۳ (۳۰۱۹)، بدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۹)، صحیح مسلم/السلام ۳۹ (۲۲۴۱)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۶ (۵۲۶۶)، سنن ابن ماجہ/الصید۱۰(۳۲۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۰۷، ۱۳۳۱۹)، مسند احمد (۲/۴۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نبی کی شریعت میں کاٹنے والی چیونٹی کو جلانا جائز تھا مگر اسلامی شریعت میں جلانا جائز نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ: "نَزَلَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ، فَأَمَرَ بِبَيْتِهِنَّ فَحُرِّقَ عَلَى مَا فِيهَا، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ فَهَلَّا نَمْلَةٌ وَاحِدَةٌ". وقَالَالْأَشْعَثُ: عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، وَزَادَ: "فَإِنَّهُنَّ يُسَبِّحْنَ".
حسن بصری سے روایت ہے کہ ایک نبی ایک درخت کے نیچے ٹھہرے تو انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے ان کے گھروں کے بارے میں حکم دیا تو ان میں جو بھی تھا اسے جلا دیا گیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل کی: "آخر تم نے صرف ایک کو کیوں نہ جلایا"۔ اشعث کہتے ہیں: ابن سیرین سے روایت ہے وہ ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں یہ زائد ہے "اس لیے کہ وہ تسبیح (اللہ کی پاکی بیان) کر رہی تھیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۲۲۵۷، ۱۴۴۰۴)، ویأتي عند المؤلف: ۴۳۶۶) (صحیح) (حدیث اور حسن بصری کا اثر دونوں صحیح ہیں)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے لیکن یہ مرفوع نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۳۶۳ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری مدلس ہیں، نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ان کا سماع نہیں ہے)