حدود حرم سے باہر ہر جگہ شکار کرنا حلال ہے بشرطیکہ شکار کرنے والا حالت احرام میں نہ ہو، چنانچہ شکار کا مباح ہونا کتاب و سنت (یعنی قرآن مجید اور احادیث نبوی) سے ثابت ہے اور اجماع امت بھی اسی پر ہے البتہ حضرت امام مالک کے مسلک کی ایک کتاب رسالہ ابن ابوزید میں لکھا ہے کہ محض لہو و لعب کی خاطر شکار کرنا مکروہ ہے اور لہو و لعب کے قصد و ارادے کے بغیر مباح ہے۔ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی کا تعلق ہے تو یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنفس خود کبھی شکار کیا ہو لیکن یہ ثابت ہے کہ اگر کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی نے شکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو منع نہیں فرمایا۔
حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تم اپنے کتے کو چھوڑو تو اللہ کا نام ذکر کرو (یعنی جب تم شکار کے لئے اپنے سکھائے ہوئے کتے کو چھوڑنے کا ارادہ کرو تو اس کو بسم اللہ کہہ کر چھوڑو) اور پھر اگر اس کتے نے تمہارے لئے شکار کو پکڑ لیا ہو اور وہ شکار تم کو زندہ ملے تو اس کو ذبح کر لو، (اگر اس کو قصداً ذبح نہیں کرو گے تو اس کا کھانا حرام ہو گا کیونکہ اس صورت میں وہ مردار ہو گا) اور اگر تم اس شکار کو اس حالت میں پاؤ کہ کتے نے اس کو مار ڈالا ہے لیکن اس نے اس میں سے کچھ کھایا نہیں ہے تو اس (شکار) کو کھاؤ لیکن اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھا لیا ہے تو پھر تم اس کو نہ کھاؤ کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتے نے اس شکار کو اپنے لئے پکڑا ہو گا (جو اس بات کی علامت ہو گی کہ کتا سکھایا ہوا نہیں ہے جب کہ اس کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے جو سکھایا ہوا ہو) اور اگر تم شکار کے پاس) اپنے کتے کے ساتھ کسی دوسرے کا کتا بھی پاؤ، درآنحالیکہ (ان دونوں میں سے کسی ایک کتے نے) اس شکار کو مار ڈالا ہو تو اس صورت میں بھی اس شکار کو مت کھاؤ کیونکہ تمہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس شکار کو ان دونوں کتوں میں سے کس نے مارا ہو گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ سکھایا ہوا نہ ہو یا اس کو چھوڑنے والے نے چھوڑتے وقت بسم اللہ نہ کہی ہو اور یا اس کو کسی ایسے شخص نے چھوڑا ہو جس کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا جیسے مجوسی یا بت پرست وغیرہ) اور جب تم (کسی شکار پر) اپنا تیر چلاؤ تو (اس وقت) اللہ کا نام ذکر کرو یعنی بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ اور پھر اگر وہ شکار ایک دن تک تم سے اوجھل رہا (اور اس کے بعد تمہیں ملا) تو تم چاہو تو اس کو کھا لو بشرطیکہ تم نے اس شکار میں اپنے تیر کے نشان کے علاوہ اور کوئی نشان نہ پایا ہو اور اگر وہ شکار تمہیں پانی میں ڈوبا ہوا ملے (اور اس میں تمہارے تیر کا نشان بھی موجود ہو) تو تم اس کو نہ کھاؤ (کیونکہ ممکن ہے وہ تمہارے تیر سے نہ مرا ہو بلکہ پانی میں ڈوب کر مرا ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اللہ کا نام ذکر کرو کا مطلب یہ ہے کہ کتے کا چھوڑنا بمنزلہ چھری چلانے کے ہے اس لئے جس طرح چھری کے ذریعہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اس طرح شکار پر سکھایا ہوا کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا جانا یعنی بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے بھول کر بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا تو اس صورت میں اس شکار کو کھانا حلال ہو گا اور اگر یہ صورت ہے کہ کتا چھوڑتے وقت قصداً بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا پھر اس نے کتے کو ڈانٹا کتا جہاں تھا وہیں رک گیا، اب (کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر نہیں کہا مگر اس نے شکار کو زندہ پایا اور ذبح کر لیا تو وہ شکار کے حکم میں نہیں رہے گا۔
جس طرح سکھائے ہوئے ذی ناب جانوروں جیسے کتے اور چیتے وغیرہ کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے اسی طرح سکھائے ہوئے ذی مخلب جانوروں جیسے باز اور شاہین وغیرہ کا پکڑا ہوا شکار بھی حلال ہے۔
ذی مخلب جانور کے سکھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ تین دفعہ شکار کو پکڑ کر چھوڑ دے خود نہ کھائے اور ذی مخلب جانور کے سکھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کو چھوڑنے کے بعد بلایا جائے تو فوراً واپس آ جائے، لہذا اگر ذی مخلب جانور یعنی باز وغیرہ نے شکار میں سے کچھ خود کھا لیا تو بھی وہ شکار حلال رہے گا اور اس کو کھانا درست ہو گا جب کہ اگر ذی ناب جانور یعنی کتا وغیرہ شکار میں سے کچھ خود کھا لے تو وہ شکار حلال نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی سکھائے ہوئے کتے وغیرہ نے تین بار شکار کو پکڑ کر چھوڑ دینے کے بعد ایک بار بھی شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ بے سیکھے ہوئے کتے کے حکم میں ہے یہاں تک کہ وہ دوبارہ سیکھا ہوا ہو جائے۔
اور پھر وہ شکار ایک دن تک تم سے اوجھل رہا الخ حنفی علماء کے نزدیک تیر کے ذریعہ مارے گئے شکار کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ تیر پھینکتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا گیا ہو اس تیر نے شکار کو زخمی کر دیا ہو اور یہ کہ اگر وہ شکار اس تیر کے ذریعہ زخمی ہو کر شکاری کی نظر سے غائب ہو گیا تو اس کو تلاش کرنے سے بیٹھ نہ رہا جائے کیونکہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف میں اور طبرانی نے اپنی معجم میں ابو رزین سے یہ روایت نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعل ہو ام الارض قتلہ نیز عبد الرحمن نے بھی اسی طرح کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق مرفوع نقل کی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شکار پر کوئی کتا یا چیتا یا باز وغیرہ چھوڑا گیا اور اس نے شکار کو مار ڈالا تو وہ (شکار) حلال ہو گا بشرطیکہ وہ کتا وغیرہ معلم یعنی سیکھا ہوا ہو۔ غیر معلم کتے وغیرہ کا مارا ہوا شکار حلال نہیں ہو گا۔
اور حضرت عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تربیت یافتہ (یعنی سکھائے ہوئے) کتوں کو (شکار کے پیچھے) چھوڑتے ہیں !؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے کتے تمہارے لئے جو شکار پکڑ کر رکھیں۔ میں نے عرض کیا اگرچہ وہ کتے شکار کو مار ڈالیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں اگرچہ مار ڈالیں ! پھر میں نے عرض کیا کہ ہم شکار پر بغیر پر کا تیر چلاتے ہیں (اور اس کے ذریعہ شکار کر لیتے ہیں تو کیا وہ شکار کھانا درست ہے ؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شکار کو وہ تیر زخمی کر دے (یعنی اگر وہ تیر سیدھا جا کر نوک کی جانب سے شکار کو لگے اور وہ مر جائے) تو اس کو کھا لو اور اگر وہ تیر (نوک کی جانب سے نہیں بلکہ) عرض یعنی چوڑائی کی جانب سے جا کر اس شکار کو (اس طرح) لگے (کہ وہ شکار کو زخمی نہ کرے) اور وہ مر جائے تو وہ وقیذ ہے اس کو نہ کھاؤ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
معراض اس تیر کو کہتے ہیں جو بے پر کا ہو۔ ایسا تیر سیدھا جا کر نوک کی طرف سے نہیں بلکہ چوڑائی کی طرف سے جا کر لگتا ہے۔ وہ وقیذ ہے۔ اصل میں وقیذ اور موقوذ اس جانور کو کہتے ہیں جو غیر دھار دار چیز سے مارا جائے خواہ وہ لکڑی ہو یا پتھر یا اور کوئی چیز۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراض یعنی بغیر پر کے تیر کے ذریعہ شکار کرنے کی صورت میں اگر وہ (معراض) اس شکار کو اپنی دھار کے ذریعہ مار ڈالے تو وہ حلال ہو گا اور اگر معراض نے اس کو اپنی چوڑائی کے ذریعہ مارا ہے تو وہ حلال نہیں ہو گا، نیز علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس حدیث معراض سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شکار حلال نہیں ہے جس کو بندقہ یعنی گولی اور غلہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو۔
اور وہ شکار جو معراض کے چوڑان کی طرف سے (چوٹ کھا کر) مرا ہو اس لئے حلال نہیں ہوتا کہ مذکورہ صورت میں شکار کا زخمی ہونا ضروری ہے تاکہ ذبح کے معنی متحقق ہو جائیں جب کہ معراض کا چوڑان شکار کو زخمی نہیں کرتا اسی لئے وہ شکار بھی حلال نہیں ہوتا، جو موٹی دھار کے بندقہ کے ذریعہ مار ڈالا گیا ہو۔ کیونکہ بندقہ ہڈی کو توڑ دیتا ہے زخمی نہیں کرتا اس لئے وہ معراض کے حکم میں ہوتا ہے ہاں اگر بندقہ میں ہلکی دھار ہو اور شکار اس کے ذریعہ مر گیا ہو تو وہ حرام نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس کی موت زخم کے ساتھ محقق ہوئی ہے۔
اگر کسی شخص نے شکار پر چھری یا تلوار پھینک کر ماری اور وہ شکار مر گیا تو وہ حلال ہو گا بشرطیکہ وہ چھری یا تلوار دھار کی طرف سے جا کر لگی ہو ورنہ حلال نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر شکار کے کوئی ایسا ہلکا پتھر پھینک کر مارا گیا ہو جس میں دھار ہو اور شکار کو زخمی کر دے تو اس شکار کو بھی کھایا جا سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس شکار کی موت زخم کے ذریعہ متیقن ہو گی جب کہ اگر شکار کو بھاری پتھر پھینک کر مارا گیا ہو تو اس کو کھانا جائز نہیں ہو گا اگرچہ وہ زخمی بھی کر دے کیونکہ اس صورت میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ شکار اس پتھر کی چوٹ کے ذریعہ (جیسے ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کی وجہ سے) مرا ہو۔
حاصل یہ ہے کہ اگر شکار کی موت اس کے زخمی ہو جانے کی وجہ سے واقع ہوئی ہو اور اس کا یقین بھی ہو تو اس کو کھایا جا سکتا ہے اور اگر اس کی موت چوٹ کے اثر سے واقع ہوئی اور اس کا یقین ہو تو اس شکار کو قطعاً نہ کھایا جائے اور اگر شک کی صورت ہو (کہ اس کا مرنا زخمی ہونے کی وجہ سے بھی محتمل ہو اور چوٹ کے اثر سے بھی محتمل ہو) تو بھی احتیاطا اس کو نہ کھایا جائے۔
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہم ایک ایسی قوم کے درمیان سکونت پذیر ہیں جو اہل کتاب ہے، تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں، اور ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہیں میں اپنی کمان (یعنی تیر) اور تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ بھی شکار مارتا ہوں اور غیر تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ بھی شکار کرتا ہوں تو میرے لئے کون سی چیز درست ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے جو تم نے اہل کتاب کے برتنوں کے بارے میں پوچھی ہے تو (ان کے متعلق یہ حکم ہے کہ) اگر ان برتنوں کے علاوہ اور برتن مل سکیں تو پھر ان کے برتنوں میں مت کھاؤ پیو اور اگر دوسرے برتن نہ مل سکیں تو (پہلے) ان کو دھو مانج لو اور پھر ان میں کھا پی لو۔ رہی شکار کی بات تو جس جانور کو تم نے اپنے تیر سے شکار کیا ہے اور (تیر چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا ہے اس کو کھا لو اسی طرح جس جانور کو تم نے تربیت یافتہ کتے کے ذریعہ شکار کیا ہے اور (اس کتے کو چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا ہے تو اس کو بھی کھا سکتے ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ان کے برتنوں میں مت کھاؤ یہ حکم احتیاط کے پیش نظر ہے اور اس کے کہی سبب ہیں ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے دع ما یریبک الی مالا یریبک دوسرے اس بات سے آگاہ کرنا مقصود ہے کہ حتی الامکان ان کے مستعمل برتنوں میں کھانے پینے سے احتراز کیا جائے اگرچہ ان کو دھو لیا گیا ہو۔ اور تیسرے مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ راسخ کرنا بھی مقصود ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ان کا یہ ملی تقاضہ بہر صورت رہنا چاہئے کہ وہ ان (اہل کتاب) کے ساتھ رہن سہن اور باہمی اختلاط رکھنے سے نفرت کریں۔ تاہم یہ حکم کہ ان کے برتنوں میں مت کھاؤ دراصل تقوی کی راہ ہے اور اس بارے میں جو کچھ فتویٰ ہے وہ خود حدیث نے آگے بیان کر دیا ہے۔
ان کو دھو مانج لو یہ حکم اس صورت میں تو بطریق وجوب ہو گا جب کہ ان برتنوں کے نجس و ناپاک ہونے کا ظن غالب ہو اور اس صورت میں بطریق استحباب ہو گا جب کہ ان کی نجاست کا ظن غالب نہ ہو۔
برماوی نے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر ان (اہل کتاب) کے برتنوں کے علاوہ اور دوسرے برتن مل سکتے ہوں تو اس صورت میں ان کے برتنوں کو دھو کر بھی اپنے کھانے پینے کے استعمال میں نہیں لانا چاہئے۔ جب کہ فقہاء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ان کے برتنوں کے دھو لینے کے بعد استعمال کرنا بہر صورت جائز ہے۔ خواہ اور دوسرے برتن مل سکتے ہوں یا نہ مل سکتے ہوں۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث سے جو کراہت ثابت ہوتی ہے وہ ان برتنوں پر محمول ہے جن میں وہ لوگ سور کا گوشت پکاتے کھاتے ہوں یا جن میں شراب پینے کے لئے رکھتے ہوں، لہذا ایسے برتن چونکہ ایمانی نقطہ نظر سے بے حد گھناؤنے ہوتے ہیں، اس لئے ان کو اپنے استعمال میں لانا مکروہ ہے خواہ ان کو کتنا ہی دھو مانج کیوں نہ لیا جائے اور فقہاء نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ ان برتنوں پر محمول ہے جو سور کے گوشت جیسی نجاستوں اور نا پاکیوں میں زیادہ مستعمل نہیں ہوتے۔
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم (اللہ کا نام لے کر کسی شکار پر) اپنا تیر چلاؤ اور پھر وہ (شکار تیر کھا کر تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ (یعنی کسی ایسی جگہ گر کر مر جائے جو اس وقت تمہیں نہ مل سکے) اور پھر وہ تمہارے ہاتھ لگ جائے (اور تم اس میں اپنے تیر کا نشان دیکھ کر یہ یقین کر لو کہ یہ تمہارے اس تیر کے لگنے سے مرا ہے) تم اس کو کھا سکتے ہو جب تک کہ اس (کی بو) میں تغیر پیدا نہ ہو جائے۔ (مسلم)
تشریح
حنفی علماء لکھتے ہیں جب تک کہ اس میں تغیر پیدا نہ ہو جائے کا حکم بطریق استحباب ہے، ورنہ تو گوشت میں بو کا پیدا ہو جانا اس گوشت کے حرام ہونے کو واجب نہیں کرتا۔ چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا گوشت کھایا ہے جس میں بو پیدا ہو چکی تھی۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ بد بو دار گوشت کھانے کی ممانعت، محض نہی تنزیہہ پر محمول ہے نہ کہ نہی تحریم پر، بلکہ یہی حکم ہر اس کھانے کا ہے جو بد بو دار ہو گیا ہو الاّ یہ کہ اس کو کھانے کی وجہ سے کسی تکلیف و نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شکاری کے حق میں کہ جو اپنے شکار کو تین دن کے بعد پائے فرمایا (اس کو کھا لو تاوقتیکہ اس میں بو پیدا نہ ہو گئی ہو۔ (مسلم)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے شرک کا زمانہ بہت قریب کا ہے (یعنی وہ نو مسلم جنہوں نے اسلام کے احکام اور دینی مسائل پوری طرح ابھی نہیں سیکھے ہیں) وہ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں اور ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ آیا انہوں نے اس کے ذبح کے وقت خدا کا نام لیا ہے یا نہیں (تو کیا ان کا لایا ہوا گوشت ہم کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اللہ کا نام لے لیا کرو اور اس کو کھا لیا کرو (بخاری)
تشریح
تم اللہ کا نام لے لیا کرو الخ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بسم اللہ پڑھ کر اس گوشت کو کھا لو تو اس وقت تمہارا بسم اللہ پڑھنا ذبح کرنے والے کے بسم اللہ پڑھنے کے قائم مقام ہو جائے گا بلکہ در اصل اس ارشاد کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو گوشت تمہارے پاس لایا گیا ہے اس کے بارے میں تم یہ نہیں جانتے کہ آیا وہ اس ذبیحہ کا ہے جو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا بسم اللہ پڑھے بغیر ذبح کر دیا گیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس گوشت کو کھانا جائز ہے بشرطیکہ اس کو ذبح کرنے والا ان میں سے ہو جن کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا شرعاً جائز ہے اور یہ جواز اس حسن ظن کی بنیاد ہے جو ایک مسلمان کی حالت و کیفیت کو صلاح و نیکی ہی پر محمول کرنے کا متقاضی ہوتا ہے لہٰذا اگر اس طرح کا کوئی شخص تمہیں گوشت دے جائے تو تم یہی حسن ظن رکھو کہ وہ چونکہ بہر حال مسلمان ہے اس لئے اس نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ضرور لیا ہو گا۔
اور حضرت ابوطفیل کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ (اہل بیت) کو کسی چیز کے ذریعہ خصوصیت و امتیاز عطا کیا ہے یعنی کیا یہ صحیح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ لوگوں کو جو اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں کچھ ایسے احکام دیئے ہیں جو اور دوسرے لوگوں کو نہیں دیئے ہیں ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (نہیں !) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے لئے کوئی ایسی چیز مخصوص نہیں کی ہے جو اور دوسروں کے لئے عام نہ کی گئی ہو، علاوہ اس چیز کے جو میری تلوار کی نیام میں (چند احکام کے مجموعہ کی صورت میں) موجود ہے (لیکن ان احکام کے بارے میں بھی، میں یہ نہیں جانتا کہ وہ احکام آیا محض ہم اہل بیت کے لئے خاص ہیں یا ان کا تعلق عمومی طور پر پوری امت سے ہے) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (اپنی تلوار کی نیام میں سے) ایک کاغذ نکالا جن میں یہ احکام درج تھے کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کا نشان چرائے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو) جو زمین کے نشان میں تغیر و تبدل کرے۔ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے باپ پر لعنت کرے اور اس شخص پر لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے۔ (مسلم)
تشریح
زمین کے نشان سے مراد وہ علامتی پتھر وغیرہ ہے جو زمین کی حدود پر نصب ہوتا ہے اور جس کے ذریعہ ایک دوسرے کی زمین کے درمیان فرق و امتیاز کیا جاتا ہے۔ اور اس نشان کو چرانے یا اس میں تغیر و تبدل کرنے کا مطلب یہ ہے، کہ وہ شخص بزور و زبردستی اپنے ہمسایہ کی زمین دبا لینا چاہتا ہو۔
جو اپنے باپ پر لعنت کرے یعنی یا تو اپنے باپ پر خود صریحاً لعنت کرے یا کسی دوسرے شخص کے باپ پر لعنت کرے اور وہ شخص انتقاما اس کے باپ پر لعنت کرے، اس دوسری صورت میں اس نے اگرچہ اپنے باپ پر خود صریحاً لعنت نہیں کی ہے مگر اس لعنت کا سبب چونکہ وہی بنا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ گویا اس نے اپنے باپ پر لعنت کی ہے۔
جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے بدعتی اس شخص کو کہتے ہیں جو دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جس کی کچھ اصل موجود نہ ہو اور وہ بات شریعت کے خلاف اور سنت میں تبدیلی پیدا کرنے والی ہو۔ ایسے شخص یعنی بدعتی کو ٹھکانا دینا اس کی عزت و تعظیم کرنا اور اس کی مدد و حمایت کرنا۔ شریعت کی نظر میں قابل مواخذہ ہے۔
اور حضرت رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! کل دشمن (یعنی کفار) سے ہمارا مقابلہ ہونے والا ہے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں (یعنی ہو سکتا ہے کہ جنگی ہنگاموں کی وجہ سے ہمارے پاس چھریاں موجود نہ رہیں اور ہمیں جانوروں کو ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس صورت میں) کیا ہم کھپچ (کھپچی) سے ذبح کر سکتے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس چیز سے خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اس کو کھا سکتے ہو (یعنی اس جانور کو کھانا جائز ہے جو کسی بھی ایسی چیز سے ذبح کیا گیا ہو جس سے خون بہہ جائے خواہ وہ لوہا ہو یا کوئی اور چیز) مگر دانت اور ناخن کے ذریعہ (ذبح کرنا جائز نہیں ہے اور میں تمہیں ان دونوں کے بارے میں بتاتا ہوں (کہ ان کے ذریعہ ذبح کرنا کیوں جائز نہیں ہے) تو (سنو کہ) دانت تو ہڈی ہے اور جہاں تک ناخن کا تعلق ہے تو وہ حبشیوں کی چھری ہے۔ (حضرت رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دشمن کے) کچھ اونٹ اور بکریاں لوٹ میں ہمارے ہاتھ آئیں، ان میں سے ایک اونٹ (بھڑک کر) بھاگ نکلا، لیکن (ہم میں سے) ایک شخص نے تیر مار کر اس کو روک دیا (یعنی وہ اونٹ تیر کھا کر زمین پر ڈھر ہو گیا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ان اونٹوں میں بعض اونٹ بھی اس طرح انسانوں سے بھڑکنے والے ہوتے ہیں جس طرح جنگلی جانور۔ انسانوں سے بھڑکتے ہیں، لہٰذا اگر ان اونٹوں میں سے کوئی اونٹ تمہارے قبضے سے نکل بھاگے تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دانت تو ہڈی ہے یعنی دانت چونکہ ہڈی ہے اور ہڈی سے ذبح کرنا درست نہیں ہے اس لئے دانت کے ذریعہ ذبح کیا ہوا جانور کھانا جائز نہیں ہو گا۔
شیخ ابن صلاح کہتے ہیں کہ اس موضوع پر بہت زیادہ تحقیق و تفتیش اور غور و فکر کے باوجود میں یہ جاننے میں ناکام رہا ہوں کہ ہڈی کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کا کیا مطلب ہے اور اس کی کیا وجہ ہے ! شیخ عبدالسلام سے بھی اس طرح کی بات منقول ہے، جہاں تک حدیث کا تعلق ہے اس میں بھی صرف یہی فرمایا گیا ہے کہ دانت سے ذبح کرنا اس لئے درست نہیں کہ وہ ہڈی ہے اس کے علاوہ اور کسی ظاہری علت و سبب کی طرف اشارہ نہیں ہے لیکن حضرت امام نووی نے ہڈی سے ذبح کرنے کی ممانعت کی یہ علت بیان کی ہے کہ اگر ہڈی سے ذبح کیا جائے گا تو وہ ہڈی، ذبیحہ کے خون سے نجس ہو جائے گی اور ہڈی کو نجس و ناپاک کرنے کی ممانعت منقول ہے کیونکہ () (ہڈی) کو جنات کی خوراک بتایا گیا ہے۔
وہ حبشیوں کی چھری ہے یہ گویا ناخن سے ذبح کرنے کی علت ہے، یعنی اگر ناخن کے ذریعہ ذبح کیا جائے گا تو اس میں حبشیوں کی مشابہت اختیار کرنا لازم آئے گا کیونکہ ناخن کے ذریعہ جانوروں کو چیر پھاڑ کر کھانا حبشیوں کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ حبشی غیر مسلم ہیں، جب کہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کے طور طریقوں کو اختیار نہ کریں بلکہ ان کے خلاف کریں !
واضح رہے کہ دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت تینوں ائمہ کے نزدیک مطلق ہے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ ان دانتوں اور ناخنوں سے ذبح کرنا تو جائز نہیں ہے جو اپنی جگہ پر یعنی منہ اور انگلیوں میں ہوں ہاں جو دانت اور ناخن اپنی جگہ سے اکھڑ کر (منہ اور انگلیوں سے) الگ ہو چکے ہوں ان کے ذریعہ ذبح کرنا جائز ہے لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے تاہم اس ذبیحہ کا گوشت کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تینوں ائمہ کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جس میں دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے کی ممانعت کسی قید اور کسی استثناء کے بغیر منقول ہے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ انھر الدم بما شئت اور وافر الاوداج۔ اور جہاں تک حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حضرت امام اعظم کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث بغیر اکھڑے ہوئے دانت اور ناخن کے ذریعہ ذبح کرنے پر محمول ہے کیونکہ حبشیوں کا یہی طریقہ تھا۔
تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو کا مطلب یہ ہے کہ اگر گھر کا پالتو کوئی جانور جیسے اونٹ، گائے اور بکری وغیرہ بھاگ کھڑا ہو تو وہ ذبح کے معاملہ میں وحشی جانور کے شکار کی مانند ہو گا کہ جس طرح وحشی جانور پر بسم اللہ پڑھ کر مثلاً تیر چلایا جائے تو وہ تیر اس جانور کے جسم کے جس حصہ پر بھی لگ کر اس کو ختم کر دے گا وہ ذبیحہ کے حکم میں ہو جائے گا، اسی طرح اس بھاگنے والے پالتو جانور کا سارا جسم اور اس کے سارے اعضاء بھی ذبح کی جگہ ہوں گے، چنانچہ بسم اللہ پڑھ کر اس پر چلایا جانے والا تیر اس کے جسم کے جس حصے میں لگ کر اس کو ختم کر دے گا اس کا گوشت حلال ہو گا۔ اور یہی حکم اس صورت میں ہے جب کہ اونٹ وغیرہ کنوئیں یا اس طرح کے کسی اور کھڈ وغیرہ میں گر پڑیں !یہاں خاص طور پر صرف اونٹ کا ذکر شاید اس لئے کیا گیا ہو کہ اس میں توحش بہت زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ذبح کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم تو اختیاری ہے اور دوسری قسم اضطراری ہے اختیاری کی ایک صورت تو جانور کے لیہ اور لحیتین کے درمیان کسی دھار دار چیز جیسے چھری وغیرہ سے جراحت کے ساتھ رگوں کو کاٹنے کی ہوتی ہے اور دوسری صورت نحر کے ساتھ یعنی اونٹ کے سینے میں نیزہ وغیرہ مارنے کی ہوتی ہے، اور اضطراری کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جانور کے جسم کے کسی بھی حصے کو زخمی کر کے مار دیا جائے۔
اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان (کعب) کے پاس (بکریوں کا) ایک ریوڑ تھا جو مدینہ کی ایک پہاڑی سلع پر چرا کرتا تھا، (ایک دن) ہماری ایک لونڈی نے ایک بکری کو دیکھا کہ وہ مرا ہی چاہتی ہے تو اس نے ایک پتھر کا ٹکڑا توڑا اور اس ٹکڑے کے ذریعہ اس بکری کو ذبح کر دیا، پھر (کعب نے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ دریافت کیا (اس صورت میں اس بکری کا گوشت کھانا حلال ہے یہ نہیں ؟)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اس بکری (کے گوشت) کو کھانے کا حکم دے دیا)۔ (بخاری)
اور حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنے کو لازم کیا ہے یعنی حق تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کو حسن و خوبی اور نرمی کے ساتھ انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ سزاء کسی کو قتل کرنے یا جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی مہربانی و نرم دلی اور خوبی و نرمی کا طریقہ اختیار کرنا لازم ہے) لہٰذا جب تم (کسی شخص کو قصاص یا حد کے طور پر) قتل کرو تو اس کو نرمی و خوبی کے ساتھ کرو (تاکہ اس کو ایذاء نہ ہو جیسے تیز تلوار استعمال کرو اور قتل کرنے میں جلدی کرو) اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو خوبی و نرمی کے ساتھ ذبح کرو لہٰذا یہ ضروری ہے کہ تم میں سے کوئی بھی شخص (جو جانور کو ذبح کرنا چاہتا ہو) اپنی چھری کو (خوب تیز کر لے اور ذبح کئے جانے والے جانور کو آرام دے۔ (مسلم)
تشریح
آرام دے کا مطلب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد اس جانور کو چھوڑ دے تاکہ اس کا دم نکل جائے اور وہ ٹھنڈا ہو جائے ! گویا اوپر کی عبارت اور یہ جملہ اصل میں ذبح کرنے میں احسان کرنے کی توضیح ہے کہ خوبی و نرمی کے ساتھ ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کو تیز چھری سے ذبح کرے اور جلدی ذبح کر ڈالے نیز ذبح کے بعد اس کو اچھی طرح ٹھنڈا ہو جانے دے۔
حنفی علماء فرماتے ہیں کہ ذبح کئے ہوئے جانور کی کھال اتارنا اس وقت تک مکروہ ہے جب تک کہ وہ اچھی طرح ٹھنڈا نہ ہو جائے ! نیز مستحب یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جانے والا ہے اس کے سامنے چھری تیز نہ کی جائے، اگر ایک سے زائد جانور ذبح کئے جانے والے ہیں تو ان کو ایک دوسرے کے سامنے ذبح نہ کیا جائے اور ذبح کئے جانے والے جانور کے پاؤں پکڑ کر کھینچتے ہوئے ذبح کی جگہ نہ لے جایا جائے،
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس بات سے منع فرماتے تھے کہ کسی چوپایہ وغیرہ کو مارنے کے لئے باندھ کر اس پر نشانہ لگایا جائے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کے یا تو یہ معنی ہیں کہ کسی جانور کو باندھ کر پھر اس کو تیروں پتھروں یا گولیوں سے مارنا ممنوع ہے یا یہ معنی ہیں کہ کسی جانور کو بغیر دانے پانی کے بند کر ڈالنا ممنوع ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندار چیز کو باندھ کر اس پر نشانہ لگائے۔ (مسلم)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی جاندار چیز کو (باندھ کر) نشانہ نہ بناؤ۔ (مسلم)
تشریح
یہ ممانعت نہی تحریم کے طور پر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے جس شخص نے ایسا کیا اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس فعل کے ذریعہ نہ صرف ذی روح (جانور) کو اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنا ہے بلکہ مال کا ضائع کرنا بھی ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ پر مارنے اور منہ پر داغ دینے سے منع فرمایا ہے یعنی کسی آدمی یا جانور کے منہ پر طمانچہ یا کوڑا وغیرہ نہ مارا جائے اور نہ کسی کے منہ پر داغ دیا جائے۔ (مسلم)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے ایک گدھا گزرا جس پر داغ دیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) فرمایا کہ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اگر یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس گدھے کے منہ پر داغ دینے والے پر لعنت فرمائی حالانکہ مسلمانوں پر لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہو سکتا ہے کہ داغنے والا مسلمان نہ رہا ہو یا منافقین میں سے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ لعنت کرنا بد دعا کے طور پر نہ ہو بلکہ اخبار بالغیب کے طور پر ہو یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ خبر دی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں لعنت کا مستوجب قرار پا گیا ہے۔
جاننا چاہئے کہ کسی بھی جاندار کے منہ پر داغ دینا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک ممنوع ہے، خواہ آدمی ہو یا کوئی بھی جانور و حیوان ! جانور کے منہ کے علاوہ اس کے جسم کے کسی اور حصہ پر داغ دینے کا مسئلہ یہ ہے کہ امتیاز و تعین کے مقصد سے زکوٰۃ اور جزیہ کے جانوروں کو داغنے کو تو بعض علماء نے مستحب کہا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کو داغنا بھی محض جائز ہے۔
جہاں تک آدمیوں پر داغ دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ وغیرہ کے مختلف اخبار و آثار قولاً اور فعلاً منقول ہیں۔ بعض اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے، بعض اقوال مدح ترک پر دلالت کرتے ہیں اور بعض اقوال صریح ممانعت کو ثابت کرتے ہیں، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل جواز پر دلالت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طبیب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا جس نے ان کی فصد کھولی اور داغا، نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر داغ دینے کی اجازت دی، بلکہ جب ورم ہوا تو ان پر اور داغ دیا گیا، نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوذرارہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر داغ دیا جانا بھی منقول ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ جن اقوال میں انسانی جسم کو داغنے کی ممانعت مذکور ہے ان کا تعلق قصداً بلا ضرورت و احتیاج داغنے سے ہے، ہاں اگر کسی مرض وغیرہ کے سلسلے میں داغ دینے کی ضرورت ہو تو جائز ہے۔
علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ (علاج کی نیت سے) انسانی جسم کے کسی حصہ کو داغنا، اسباب و ہمیہ میں سے ہے کہ اس کو اختیار کرنا جذبہ توکل و اعتماد علی اللہ کے اعتبار سے مناسب نہیں ہے جب کہ دوسرے علاج اسباب طنیہ میں سے ہونے کی وجہ سے توکل کے قطعاً منافی نہیں ہیں، ہاں اگر اس بات کا ظن غالب ہو کہ داغنا، مرض کے دفعیہ کے لئے ایک سود مند علاج ہو گا تو اس صورت میں اس کو اختیار کرنا غیر مناسب نہیں ہو گا۔ چنانچہ اہل فتویٰ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ داغنا بذاتہ مکروہ تحریمی ہے مگر ظن غالب حاصل ہونے کی صورت میں بایں طور کہ طبیب حاذق یہ کہہ دے کہ مرض کے دفعیہ کا انحصار صرف داغنے پر ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا علاج نہیں ہے تو داغنا مکروہ تحریمی نہیں ہو گا۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت اس بنیاد پر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس بات کا پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ داغنا مرض کے دفعیہ کے لئے ایک قطعی اور یقینی علاج ہے، ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک باطل عقیدہ تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا تاکہ وہ اس کو اختیار کرنے سے شرک خفی کے جال میں نہ پھنس جائیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (ایک دن) صبح کے وقت عبداللہ بن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھجور چبا کر اس کے تالو میں لگا دیں، چنانچہ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حال میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں داغنے کا آلہ تھا جس کے ذریعہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
عبداللہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ ماں کی طرف سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے یعنی ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں کے دوسرے خاوند تھے جن سے عبداللہ پیدا ہوئے تھے کھجور چبا کر اس کا لعاب بچے کے تالو میں لگانا سنت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ان اونٹوں کو داغنا کسی خلجان کا باعث نہیں بننا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم منہ کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر داغ دے رہے تھے اور داغنے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق خاص طور پر منہ سے ہے، یا بلا ضرورت داغنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ زکوٰۃ کے اونٹوں کو اس ضرورت کے تحت داغا جا رہا تھا کہ ان کے اور دوسرے اونٹوں کے درمیان فرق و امتیاز کیا جا سکے۔
اور حضرت ہشام ین زید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانوروں کے باڑے میں تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکریوں وغیرہ کے کسی عضو پر داغ دے رہے تھے۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا تھا کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم) ان بکریوں وغیرہ کے کان پر (داغ دے رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منہ یعنی چہرہ میں کان شامل نہیں ہے، کیونکہ (چہرہ) پر داغ دینے سے تو منع فرمایا گیا ہے اگر کان کا تعلق بھی چہرہ سے ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کان پر داغ کیوں دیتے۔
اور حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص (کسی جانور کا) شکار پکڑے اور اس وقت اس کے پاس چھری نہ ہو تو کیا وہ کسی پتھر کے ٹکڑے یا کسی لکڑی کی کھپچ سے اس شکار کو ذبح کر سکتا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم جس چیز سے چاہو بسم اللہ پڑھ کر خون بہا دو۔ (ابوداؤد، نسائی)
اور حضرت ابو العشراء اپنے والد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا (شرعی) ذبح کا تعلق حلق اور سینہ کے سرے کے درمیانی حصے سے ہے ؟ یعنی کیا شرعی طور پر ذبح صرف اسی کو کہا جائے گا کہ جانور کے حلق اور سینے کے سرے کے درمیان جراحت کے ساتھ خون بہایا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم شکار کی ران میں بھی جراحت پہنچا دو گے تو تمہارے لئے کافی ہو گا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی حدیث میں مذکورہ ذبح کی اجازت دینا، اس جانور سے متعلق ہے جو کنویں میں گر پڑا ہو یعنی یہ ذبح اضطراری کی صورت کا حکم ہے اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ ضرورت کی حالت کا حکم ہے۔
تشریح
امام ترمذی نے گویا امام ابوداؤد کی وضاحت کو اور زیادہ توسع کے ساتھ بیان کیا تاکہ اس حکم میں بھاگے ہوئے اونٹ کو ذبح کرنے کی صورت بھی شامل ہو جائے۔
اور حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس جانور کو تم نے سکھلایا خواہ وہ کتا ہو یا باز اور پھر تم نے (ان میں سے) کسی کو شکار پر چھوڑا اور (چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا تو تم اس جانور کو کھا لو جس کو اس (کتے یا باز نے) تمہارے لئے پکڑا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگرچہ اس نے اس (شکار) کو مار ڈالا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کہ وہ کتا یا باز شکار کو مار ڈالے اور خود اس میں سے کچھ نہ کھائے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس نے اس شکار کو تمہارے (ہی) لئے پکڑ رکھا ہے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں شکار پر اپنا تیر چلاتا ہوں اور پھر اگلے دن (جب وہ شکار کہیں پڑا ہوا مجھے ملتا ہے تو) اس میں میں اپنا تیر پاتا ہوں (کیا میں وہ شکار کو کھا سکتا ہوں ؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس صورت میں اگر تم یہ جانور کہ اس شکار کو تمہارے ہی تیر نے مار ڈالا ہے اور اس (شکار) میں تم کسی درندے کا کوئی نشان نہ پاؤ تو اس کو کھا سکتے ہو (اور اگر اس شکار میں کسی درندے کے دانت یا پنجے وغیرہ کوئی نشان پاؤ یا کسی دوسرے کے تیر کی علامت پاؤ تو اس صورت میں اس کو مت کھاؤ۔ (ابوداؤد)
جس غیر مسلم کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کا کتے وغیرہ کے ذریعہ پکڑا ہوا شکار بھی حلال نہیں
اور حضرت حابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کا پکڑا ہوا شکار کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شکار کو مجوسی اپنے کتے یا کسی مسلمان کے کتے کے ذریعہ پکڑے اس کو کھانا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ شکار زندہ ہاتھ لگے اور اس کو ذبح کر لیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانا جائز ہو گا، اور اسی طرح اگر مسلمان نے مجوسی کے کتے کے ذریعہ شکار مارا ہے تو اس کو کھانا بھی جائز ہو گا اور اگر کتے چھوڑنے یا تیر چلانے میں مسلمان اور مجوسی دونوں شریک ہوں، اور وہ شکار مارے تو وہ شکار بھی حلال نہیں ہو گا۔
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! ہم (اکثر) سفر کرنے والے لوگوں میں سے ہیں، ہمارا گزر یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں (کی آبادیوں) پر سے (بھی) ہوتا ہے، اس وقت ان کے برتنوں کے علاوہ اور برتن ہمارے پاس نہیں ہوتے (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا پی سکتے ہیں ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں ان کے برتنوں کے علاوہ برتن دستیاب نہ ہوں تو ان کے برتنوں کو پانی سے دھو مانج لو اور پھر ان میں کھاؤ پیو۔ (ترمذی)
تشریح
غیر مسلم کے برتن میں کھانے پینے کے سلسلے میں الفصل الاول میں بھی حدیث گزری ہے اور اس موقع پر اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے۔
اور حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ بن ہلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عیسائیوں کے کھانوں کے بارے میں دریافت کیا (کہ ہم لوگ کھائیں یا نہیں ؟) اور ایک رویت میں یوں ہے کہ (اس بارے میں) ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا، چنانچہ اس نے عرض کیا کہ کھانوں میں سے ایک کھانا (یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کا کھانا) ایسا ہے جس سے میں پرہیز کرتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے دل میں کسی چیز یعنی شک و شبہ کی کھٹک نہ پیدا ہونی چاہئے، تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی ہے۔ (ترمذی ابوداؤد)
تشریح
تم نے اپنے اس عمل کے ذریعہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سائل پر یہ واضح کیا کہ تمہارا عیسائیوں کے تیار کئے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا ایک ایسا عمل ہے جس نے تمہیں عیسائیوں کے مشابہ کر دیا ہے کیونکہ یہ عیسائیوں ہی کا شیوہ ہے کہ انہوں نے کھانے پینے کے معاملہ میں اپنے اوپر بےجا پابندیاں عائد کر لی ہیں اور ان کے پادریوں نے دین میں سختی پیدا کر دی ہے چنانچہ اگر ان کے دل میں کسی بھی اچھے خاصے اور حلال کھانے کے بارے میں یہ کھٹک پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ حرام ہے یا مکروہ ہے تو وہ بلا سوچے سمجھے اس سے پرہیز کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا تم بلا دلیل شک و شبہ میں پڑ کر ان کے کھانے سے پرہیز نہ کرو، تم مسلمان ہو اور تمہارا دین نہایت سیدھا سادا اور آسان ہے اس میں سختی اور دشواری کا نام نہیں ہے، تمہیں اپنے عمل سے اپنے دین کی نرمی اور آسانی کو ظاہر کرنا چاہئے، اگر تم بلا تحقیق کسی کھانے کو حرام سمجھنے لگو گے تو یہ اپنے اوپر بے جا قسم کی پابندی عائد کرنے اور اپنے دین کو سخت ظاہر کرنے کے مترادف ہی نہیں ہو گا بلکہ عیسائیت کی مشابہت اختیار کرنے کے برابر بھی ہو گا۔
بعض حضرات نے حدیث کے آخری جزو کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ تمہارے دل میں کوئی خدشہ اس بات کا نہ گزرے کہ عیسائیوں کا کھانا کھانے سے تم ان کے مشابہ ہو گئے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ کسی کھانے کو محض اس لئے اپنے اوپر حرام نہ کر لو کہ وہ کسی غیر مسلم کا تیار کیا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اس غیر مسلم کی مشابہت لازم آئے گی کیونکہ کھانے پینے کی چیزوں میں کسی قوم کی مشابہت ضرر نیہں کرتی بشرطیکہ تشبیہ کی نیت نہ ہو۔
اس ارشاد گرامی میں عیسائیت کی تخصیص محض اس بنیاد پر ہے کہ سوال کرنے والے صحابی حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ تھے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائیت کے پیرو تھے۔
بہر حال ! حدیث سے یہ واضح ہوا کہ جب تک کسی کھانے کی حرمت کا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے اس سے پرہیز کرنا یا اس کو کھانے میں تردد کرنا مناسب نہیں ہے، غیر مسلم اقوام کی طرح اسلام میں کھانے پینے کا پرہیز نہیں ہے کہ ذرا کسی کا ہاتھ لگ گیا تو وہ کھانا چھوت ہو گیا، بلکہ مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ ہر قوم کا پکا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ یقین نہ ہو کہ اس کھانے میں کوئی حرام چیز ملائی گئی ہے یا وہ نجس برتنوں میں پکایا گیا ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم کوئی حرام چیز پکائے مثلاً غیر مذبوحہ گوشت یا مردار یا سؤر اور یا کھانے میں شراب ملائے تو اس کو بھی کھا لیا جائے۔
اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجثمہ کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اور مجثمہ اس جانور کو کہتے ہیں، جس کو باندھ کر نشانہ کی مانند کھڑا کیا جائے اور پھر اس پر تیر مارا جائے۔ (ترمذی)
تشریح
روایت میں مجثمہ کی وضاحت کے لئے جو الفاظ منقول ہیں وہ کسی راوی کے ہیں۔ یہ جاہل اور بے رحم لوگ کیا کرتے ہیں، کہ بے زبان پرندوں اور جانوروں کو باندھ کر ان کو نشانہ بناتے ہیں، شریعت نے اس عمل سے بھی منع کیا ہے اور ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی ممنوع قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح قتل کئے جانے سے ذبح کا مقصد اور مفہوم حاصل نہیں ہوتا اور جب وہ جانور شرعی طور پر ذبیحہ نہیں ہو گا تو اس کا کھانا بھی حرام ہو گا۔
اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن ان جانوروں کو کھانے سے منع فرمایا، کچلی والا درندہ، پنجہ والا پرندہ، گھر کے پالتو گدھوں کا گوشت، مجثمہ اور خلیہ۔ نیز آپ نے (جہاد میں پکڑی گئی) ان لونڈیوں سے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا جو حاملہ ہوں جب تک کہ وہ اس بچہ کو نہ جن لیں جو ان کے پیٹ میں ہے۔ حضرت محمد بن یحییٰ (جو امام ترمذی کے شیخ و استاد ہیں اور حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ (میرے شیخ و استاد) حضرت ابوعاصم سے مجثمہ کے معنی دریافت کئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ (مجثمہ کا مطلب یہ ہے کہ) کسی پرندہ یا چرند کو (باندھ کر) کھڑا کیا جائے اور پھر اس پر تیر مارا جائے۔ اسی طرح حضرت عاصم سے خلیہ کے معنی دریافت کئے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ (اس کا مطلب یہ ہے کہ) بھیڑیئے یا کسی اور درندے نے کسی جانور کو پکڑ لیا ہو اور پھر کوئی شخص اس (درندے) سے وہ جانور چھین لے اور وہ جانور ذبح کئے جانے سے پہلے ہی اس (شخص) کے ہاتھ میں مر جائے۔ (ترمذی)
تشریح
خیبر کے دن سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ چیزوں کی ممانعت کا حکم اس سال جاری فرمایا جس میں خیبر فتح ہوا تھا، یا عین خیبر کی فتح کے وقت جاری فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جن دنوں میں خیبر میں جہاد جاری تھا انہی دنوں میں سے کسی ایک دن یہ حکم جاری فرمایا گیا۔
ذی ناب اس درندے کو کہتے ہیں جس کے کچلی یعنی نوکدار دانت ہوں اور اپنی کچلی کے ذریعہ (جانور وغیرہ) کو پھاڑتا ہو جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا، ریچھ، سؤر، لومڑی اور بجو وغیرہ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر لومڑی اور بجو درندوں میں شامل نہیں ہیں تو وہ حلال ہیں۔
ذی مخلب اس پرندے کو کہتے ہیں جو اپنے پنجے سے شکار کرتا ہے، جیسے باز، بحری شکرہ، چرغ، الو، چیل اور گدھ وغیرہ۔
گھر کے پالتو گدھوں سے مراد وہ گدھے ہیں جو بستی میں رہتے ہیں، چنانچہ جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے، حدیث میں مذکورہ ممانعت سے پہلے پالتو گدھے کا گوشت بھی حلال تھا۔
لونڈیوں سے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا الخ یہ حکم ان لونڈیوں کا ہے جو حاملہ ہونے کی حالت میں کسی کے شرعی قبضہ و تسلط میں آئی ہوں، اور جو لونڈی ایسی حالت میں کسی کے شرعی قبضہ و تسلط میں آئی ہو کہ وہ حاملہ نہ ہو تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کے ساتھ اس وقت تک ہم بستری نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آ جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شریطہ شیطان سے منع فرمایا ہے۔ ابن عیسیٰ (حدیث کے ایک راوی) نے یہ مزید بیان کیا کہ شریطہ شیطان یہ ہے کہ جانور (کے حلق کے اوپر) کی کھال کاٹ دی جائے اور اس کی پوری رگیں نہ کاٹی جائیں اور پھر اس کو چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ (ابوداؤد)
تشریح
زمانہ جاہلیت میں مشرک ایسا کرتے تھے کہ جانور حلق کے اوپر کی ٹھوڑی کی کھال کاٹ کر چھوڑ دیتے تھے چونکہ ان کی رگیں پوری نہیں کٹتی تھیں اس لئے وہ آسانی کے ساتھ مرنے کی بجائے بڑی سختی کے ساتھ تڑپ تڑپ کر مر جاتا تھا۔ اس کو شریط اس سبب سے فرمایا گیا ہے کہ شرط جو شرط حجام سے ماخوذ ہے، کے معنی نشتر مارنے کے ہیں، یا شرط علامت کے معنی میں ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ اس فعل شنیع کا باعث وہی (شیطان) ہے، اور وہ اس طرح کا ذبیحہ کرنے والے سے بہت خوش ہوتا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ماں کا ذبح کرنا اس کے پیٹ کا بھی ذبح کرنا ہے۔ (ابوداؤد، دارمی)۔ ترمذی نے اس روایت کو حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ ماں کا ذبح ہونا اس کے پیٹ کے بچہ کے حلال ہونے کے لئے کافی ہے، مثلاً کسی شخص نے اونٹنی کو نحر کیا یا بکری کو ذبح کیا اور اس کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلا تو اس کو کھانا جائز ہے، چنانچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک تو اس بچہ کا کھانا ہر حال میں درست ہو گا، خواہ اس کے جسم پر بال ہوں یا نہ ہوں اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس بچہ کو کھانا اسی صورت میں جائز ہو گا جب کہ اس کی جسمانی ساخت مکمل ہو چکی ہو، اور اس کے بدن پر بال نکل چکے ہوں۔
ان تینوں ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس بچہ کو کھانا حلال نہیں ہے ہاں اگر وہ بچہ ماں کے پیٹ سے زندہ نکلے اور پھر اس کو ذبح کیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حنفیہ میں سے امام زفر اور حضرت امام حسن ابن زیاد کا بھی یہی قول ہے، ان حضرات کی طرف سے اپنے مسلک کی دلیل کے طور پریہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اگر شکار (گولی یا تیر وغیرہ کھا کر) پانی میں گر پڑے اور پھر اس میں سے مردہ نکلے تو اس کو کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ شکار پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے مرا ہو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جان نکلنے کے سبب میں شک واقع ہو جانے کی وجہ سے اس شکار کو کھانا حرام قرار دیا تو چونکہ وہی چیز یعنی جان نکلنے کے سبب میں شک کا واقع ہونا، ذبیحہ کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچہ کے بارے میں بھی موجود ہے اس لئے وہ بھی حرام ہو گا کیونکہ جس طرح پانی میں گر جائے اور شکار کی موت کا سبب معلوم نہیں ہو سکتا اسی طرح اس مردہ بچہ کی موت کا سبب بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا وہ اپنی ماں کے ذبح کئے جانے کے سبب سے مرا ہے یا دم گھٹنے کی وجہ سے مر گیا ہے۔
جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو حضرت امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے میں کلام کیا گیا ہے۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ جب ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں یا گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو (بسا اوقات) ہم اس ذبیحہ کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں، آیا ہم اس بچہ کو پھینک دیا کریں یا کھا لیا کریں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو اس کو کھا لیا کرو کیونکہ اس کی ماں کا ذبح کرنا اس بچہ کا بھی ذبح کرنا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
مفہوم کے اعتبار سے یہ روایت بھی وہی ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اور اس سلسلے میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو بھی اوپر ہی ذکر کیا جا چکا ہے۔
پہلے صفحات میں بتایا گیا تھا کہ ذبح کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک تو اختیاری اور دوسری اضطراری، پھر اختیاری کی بھی دو صورتیں ہیں ایک تو نحر اور دوسری ذبح چنانچہ نحر تو یہ ہے کہ اونٹ کے سینہ میں نیزہ مارا جائے (یعنی اس کے سینے کو نیزہ سے چیرا دیا جائے) اور اونٹ میں مستحب نحر کرنا ہے اگرچہ اس کو ذبح کرنا جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔
اور ذبح یہ ہے کہ جانور کی حلق کی رگ کو کاٹا جائے، ذبح کی صورت میں جانور کی حلق کی جو رگیں کاٹی جاتی ہیں وہ چار ہیں۔ ایک تو نرخرہ کہ جس کے ذریعہ سانس کی آمدورفت ہوتی ہے، دوسری مری یعنی وہ رگ جس سے منہ سے پانی جاتا ہے اور دو شہ رگیں جو نر خرہ کے دائیں بائیں ہوتی ہیں۔ ان چاروں رگوں کو کاٹنا ہی شرعی طور پر ذبح کہلاتا ہے، اگر ان چاروں میں سے تین ہی رگیں کٹ جائیں تب بھی ذبح درست ہے اور اس جانور کا کھانا حلال ہے اور اگر دو ہی رگیں کٹیں تو وہ جانور مردار ہو جائے گا جس کا کھانا حلال نہیں ہو گا۔
جس طرح اونٹوں میں نحر کرنا مستحب ہے اسی طرح گائے اور بکریوں وغیرہ میں ذبح کرنا مستحب ہے لیکن اگر کسی نے ان کو نحر کر لیا تب بھی جائز ہو گا مگر کراہت کے ساتھ۔
اگر کسی شخص نے بکری وغیرہ کو گدی کی طرف سے ذبح کیا تو اگر وہ اتنی دیر تک زندہ رہی کہ اس شخص نے اس کی رگیں کاٹ دیں تو اس کا کھانا جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ کیونکہ اس طرح ذبح کرنا سنت کے خلاف ہے اور اگر وہ رگوں کے کٹنے سے پہلے ہی مر گئی تو اس کا کھانا جائز نہیں۔
اگر کسی شخص نے کسی جانور مثلاً مرغی کو ذبح کرتے ہوئے چھری کو حرام مغز تک پہنچا دیا اور سر کٹ کر جدا ہو گیا تو اس کا کھانا جائز ہے اور مکروہ بھی نہیں ہے لیکن اتنا زیادہ ذبح کرنا یا اس طرح ذبح کرنا کہ سر جدا ہو جائے مکروہ ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص کسی چڑیا یا اس سے چھوٹے بڑے کسی اور جانور و پرندہ کو ناحق مار ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ اس شخص سے اس (ناحق مارنے) کے بارے میں باز پرس کرے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اس (چڑیا وغیرہ) کا حق کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ کہ اس کو ذبح کیا جائے (کسی اور طرح اس کی جان نہ ماری جائے) اور پھر اس کو کھایا جائے، یہ نہیں کہ اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ (احمد، النسائی، دارمی)
تشریح
اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا کی اس وسیع کائنات میں ہر جاندار اپنی جان کی حفاظت کا حق رکھتا ہے خواہ وہ اشرف المخلوقات انسان ہو یا حیوان، جس طرح کسی انسان کی جان کو ناحق مارنا شریعت کی نظر میں بہت بڑا گناہ اور بہت بڑا ظلم ہے، اسی طرح کسی حیوان کی جان ناحق ختم کرنا بھی ایک انتہائی غیر مناسب فعل اور ایک انتہائی بے رحمی کی بات ہے۔
اگر قادر مطلق نے انسان کو طاقت و قوت عطا کر کے حیوانات پر تسلط و اختیار عطا کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی اس طاقت اور اپنے اس اختیار کے بل پر محض اپنا شوق پورا کرنے کے لئے یا محض تفریح طبع کی خاطر بے زبان جانوروں کو اپنا تختہ مشق بنائے۔ اور ان کی جانوں کو کھلونا بنا کر ان کو ناحق مارتا رہے۔
جس جانور کے گوشت کو حق تعالیٰ نے انسان کے لئے حلال قرار دیا ہے اگر وہ اس جانور کو بطور شکار مار کر یا اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے اختیار کا جائز استعمال کرتا ہے اور اگر محض لہو و لعب اور تفریح طبع کے لئے اس جانور کی جان ناحق یعنی بلا فائدہ ختم کرتا ہے اور اس کے گوشت وغیرہ سے کوئی نفع حاصل کئے بغیر اس کو مار کر پھینک دیتا ہے تو اس طرح نہ صرف وہ اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرتا ہے بلکہ ایک جاندار پر ظلم کرنے والے کے برابر ہوتا ہے اس لئے حدیث میں ایسے شخص کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تمہارا یہ فعل (یعنی جانوروں اور پرندوں کو ناحق مارنا) بارگاہ احکم الحاکمین میں قابل مواخذہ ہے۔ اور کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے اس بارے میں سخت باز پرس کرے گا اور تمہیں عتاب و عذاب میں مبتلا کرے گا۔
طیبی کہتے ہیں کہ کسی جانور کا حق، اس سے منتفع ہونے سے عبارت ہے، جس طرح کہ بلا مقصد اس کا سر کاٹ کر پھینک دینا، اس کا حق ضائع کرنے سے عبارت ہے، لہٰذا کہا جائے گا کہ حدیث کے یہ الفاظ ولا یقطع رسھا فیرمی بھا ما سبق کی عبارت کی گویا تاکید و توثیق کے طور پر ہے
اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے لوگ (ایسا کرتے تھے کہ) اونٹ کے کوہان اور دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیا کرتے تھے (اور پھر اس کو کھاتے تھے) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو چیز بھی کہ ایسے جانور کے جسم سے کاٹی جائے جو زندہ ہو تو وہ (کاٹی گئی چیز) مردار ہے، اس کو نہ کھایا جائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
زمانہ اسلام سے قبل چونکہ جاہلیت نے انسانی عقل و طبائع کو ماؤف کر رکھا تھا اس لئے اس وقت کے انسان ایسے ایسے طور طریقوں میں مبتلا تھے جن سے انسانیت بھی پناہ مانگتی تھی، انھی طور طریقوں میں ایک رواج مدینہ والوں میں یہ بھی جاری تھا کہ وہ جب چاہتے اپنے زندہ اونٹوں کے کوہان، زندہ دنبوں کی چکتیاں کاٹ لیتے تھے اور ان کو بھون پکا کر کھا لیتے تھے۔ یہ جانوروں کے تئیں ایک انتہائی بے رحمانہ طریقہ ہی نہیں تھا بلکہ طبع سلیم کے منافی بھی تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو اس مذموم فعل سے باز رکھا اور ان پر واضح کیا کہ زندہ جانور کے جسم سے جو بھی عضو کاٹا جائے گا وہ مردار ہو گا، اور اس کا کھانا حرام ہو گا۔
اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی حارثہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (ایک دن) اونٹنی کو جو بیانے کے قریب تھی احد پہاڑ کے ایک درہ میں چرا رہا تھا کہ اس نے اونٹنی میں موت کے آثار پائے یعنی اس نے دیکھا کہ اونٹنی کسی وجہ سے مرا ہی چاہتی ہے، (اس وقت) اس کو کوئی ایسی چیز دستیاب نہیں ہو سکی جس کے ذریعہ وہ اونٹنی کو نحر کرتا، آخر کار اس نے ایک میخ اٹھائی اور اس کو نوک کی طرف سے) اس کو اونٹنی کے سینے میں گھونپ دیا، تا آنکہ اس کا خون بہا دیا، پھر اس نے (اس واقعہ کو) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا (اور اس کے گوشت کے بارہ میں دریافت کیا کہ اس صورت میں اس کا کھانا کیسا ہے ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اس (کے گوشت) کے کھانے کی اجازت دی (ابوداؤد، مالک) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آخر کار اس نے ایک دھار دار لکڑی سے ذبح کر دیا۔
تشریح
وتد لکڑی کی اس میخ یا کھونٹی کو کہتے ہیں جو زمین یا دیوار میں گاڑی جاتی ہے۔ اور شظاظ اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے دونوں کنارے نوکدار ہوتے ہیں اس کو دونوں تھیلوں کے درمیان اڑا کر اونٹ پر لادتے ہیں تاکہ وہ دونوں تھیلے الگ الگ ہو کر گریں نہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرعی طور پر ذبح یا نحر کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جراحت کے ساتھ خون بہایا جائے، اور یہ بات جس چیز سے بھی حاصل ہو جائے اس کے ذریعہ جانور کو ذبح یا نحر کیا جا سکتا ہے خواہ وہ لوہے کی چھری وغیرہ ہو، یا کوئی دھار دار اور نوکدار لکڑی وغیرہ ہو۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانی کا ایسا کوئی جانور نہیں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کے لئے ذبح نہ کر دیا ہو۔ (دارقطنی)
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دریائی جانوروں کو بغیر ذبح کئے ہوئے کھانا حلال ہے، ان کو محض شکار کر لینا اور پانی میں سے زندہ نکال لینا ذبح کا حکم رکھتا ہے۔
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام دریائی جانور حلال ہیں، خواہ وہ خود سے مر جائیں اور خواہ ان کا شکار کیا جائے۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ یوں نہیں ہے، بلکہ مچھلی کے حلال ہونے پر تو تمام علماء کا اتفاق ہے اور مچھلی کے علاوہ دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔
چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ دریائی جانوروں میں سے مچھلی کے علاوہ اور کوئی جانور حلال نہیں ہے اور وہ مچھلی بھی حلال نہیں ہے جو سردی و گرمی کی آفت کے بغیر خود بخود مر کر پانی کے اوپر آ جائے اور الٹی تیرنے لگے۔ اور جو مچھلی سردی و گرمی کی آفت سے مر کر پانی کے اوپر آ جائے تو وہ حلال ہے۔
جو جانور اور جو پرندے شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں یا ان کی غذا صرف گندگی ہے، ان کا کھانا جائز نہیں ہے جیسے شیر، بھیڑیا، گیدڑ، بلی، کتا، بندر، شکرا، باز اور گدھ وغیرہ اور جو جانور اس طرح کے نہ ہوں جیسے طوطا، مینا، فاختہ، چڑیا، پیڑ، مرغابی، کبوتر، نیل گائے، ہرن، بطخ، اور خرگوش وغیرہ ان کا کھانا جائز ہے۔
بجو، گوہ، کچھوا، خچر اور گدھا، گدھی کا گوشت کھانا اور گدھی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، جو حلال جانور (بغیر ذبح کئے ہوئے) خود بخود مر جائے گا وہ مردار ہو گا اس کا کھانا حرام ہے۔
اگر کسی چیز میں چیونٹیاں گر کر مر جائیں تو ان چیونٹیوں کا نکالے بغیر اس چیز کو کھانا درست نہیں ہے، اگر قصداً ایک آدھ چیونٹی کو بھی حلق کے نیچے جانے دیا تو مردار کھانے کا گناہ ہو گا۔
مسلمان کا ذبح کرنا ہر حالت میں درست ہے چاہے عورت ذبح کرے اور چاہے مرد، اسی طرح خواہ پاک ہو یا ناپاک، ہر حال میں اس کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال ہے۔ کافر یعنی مرتد، آتش پرست اور بت پرست وغیرہ کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔
اگر کوئی کافر گوشت بیچتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں نے مسلمان سے ذبح کرایا ہے تو اس سے گوشت خرید کر کھانا درست نہیں، البتہ جس وقت مسلمان نے ذبح کیا ہے اگر اسی وقت سے کوئی مسلمان اس گوشت کے پاس برابر بیٹھا رہا ہے، یا وہ جانے لگا تو کوئی دوسرا مسلمان اس کی جگہ بیٹھ گیا ہے، تب اس گوشت کا کھانا درست ہو گا۔
اگر کسی ایسے جانور کو ذبح کیا گیا جس کا کھانا حلال نہیں ہے تو اس کی کھال اور گوشت پاک ہو جاتے ہیں (کہ ان کو کھانے کے علاوہ کسی اور استعمال میں لانا بلا کراہت درست ہوتا ہے) علاوہ آدمی اور سؤر کے کہ ان دونوں میں ذبح کرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، آدمی کی کھال کا ناپاک ہونا تو اس کی عزت و حرمت کی وجہ سے ہے اور سور کی کھال وغیرہ کا ناپاک ہونا اس کے نجس ہونے ہی کی وجہ سے ہے کہ وہ پاک کرنے سے بھی ہرگز پاک نہیں ہو سکتی۔
جو مرغی، گندی اور پلید چیزیں کھاتی پھرتی ہو، اس کو تین دن بند رکھ کر ذبح کرنا چاہئے، اس کو بغیر بند کئے ذبح کر کے اس کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔
جانور کو کند چھری سے ذبح کرنا مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ اس میں جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح ذبح کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال کھینچنا، ہاتھ پاؤں توڑنا کاٹنا، اور ذبح میں جن چار رگوں کو کاٹنا چأہئے ان کے کٹ جانے کے بعد بھی گلا کاٹے جانا، یہ سب مکروہ ہے۔
ٹڈی کو کھانا جائز ہے اور مچھلی کی طرح اس کو بھی ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے اور جن کا نہیں کھایا جاتا، شکار دونوں کا کرنا جائز ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ شکار کا مقصد محض لہو و لعب اور تفریح طبع نہ ہو بلکہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کی نیت ہو، جو جانور حلال ہیں ان کا گوشت کھانا ہی ان سے سب سے بڑا نفع حاصل کرنا ہے، ہاں جو جانور حلال نہیں ہیں انکا شکار اگر اس مقصد سے کیا جائے کہ ان کی کھال وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جائے گا تو کوئی مضائقہ نہیں۔
حاصل یہ کہ جانوروں کی جان کی بھی قدر کرنی چاہئے، ان کو خواہ مخواہ کے لئے مار ڈالنا اور بلا ضرورت و بلا مقصد کے ان کا شکار کرتے پھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
ذبح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے تیز چھری ہاتھ میں لے کر بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کے اس کے گلے کو کاٹا جائے، یہاں تک کہ چاروں رگیں کٹ جائیں۔
اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے کتوں سے متعلق احکام معلوم ہوں گے کہ کن مقاصد کے لئے، اور کون سا کتا پالنا جائز ہے اور کون سا ناجائز ہے، اور یہ کہ کس کتے کا مارنا جائز ہے اور کس کا مارنا جائز نہیں ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے اور شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالتا ہے اس کے اعمال (کے ثواب) میں سے روزانہ دو قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
قیراط اصل میں ایک وزن کا نام ہے جو آدھے دانگ، یا بقول بعض،دینار کے۴/۶ اور بقول بعض دینار کے دسویں حصے کے آدھے حصے کے برابر ہوتا ہے، اور ایک دانگ چھ رتی کے وزن، یا ایک درم کے چھٹے حصے کے برابر ہوتا ہے، لیکن حدیث میں قیراط کا استعمال اس مقدار کے لئے کیا گیا ہے جس کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اگرچہ بعض احادیث میں اس مقدار کو احد پہاڑ کے برابر بتایا گیا ہے، اس بنیاد پر اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ شریعت نے جن مقاصد کے لئے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جیسے مویشیوں (یا گھر، کھیت) کی حفاظت اور شکار، ان کے علاوہ محض تفریح طبع اور شوق کی خاطر اگر کوئی شخص کتا پالے گا تو اس نے جو نیک اعمال کئے ہیں اور حق تعالیٰ نے ان اعمال کی بناء پر اپنے فضل و کرم سے اس کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب کے جو ذخیرے رکھے ہیں، ان میں سے روزانہ اس مقدار میں کمی آتی رہے گی کہ اگر اس مقدار کو جسم تصور کیا جائے تو وہ دو احد پہاڑ کے برابر ہو ! یا یہ کہ دو قیراط سے مراد اس شخص کی نیکیوں کے حصول میں سے دو حصے کی کمی و نقصان ہے۔
بہر حال دو قیراط سے کچھ ہی مراد لیا جائے، حدیث کا اصل منشاء تو صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ بلا ضرورت شرعی، کتا پالنا اپنے اعمال کے اجرو ثواب کے ایک بہت بڑے حصے سے ہاتھ دھو نا ہے،
جہاں تک اس سبب کا تعلق ہے جو کتے پالنے کی وجہ سے ثواب اعمال میں کمی کی بنیاد ہے تو اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔
چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک اس کمی و نقصان کا سبب ملائکہ رحمت کا گھر میں نہ آنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
اور بعض حضرات نے یہ سبب بیان کیا ہے کہ وہ شخص (کتا پال کر) دوسرے لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ کمی و نقصان اس سبب سے ہے کہ جب گھر میں کتا پلا ہوا ہوتا ہے تو وہ گھر والوں کی بے خبری میں کھانے پینے کے برتن باسن میں منہ ڈالتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ گھر والے چونکہ بے خبر ہوتے ہی اس لئے وہ ان برتنوں کو دھوئے مانجے بغیر ان میں کھاتے پیتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے شکار پکڑنے والے اور کھیت کھلیان کی چوکسی کرنے والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پا لتا ہے تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مضمون و مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح ہے، البتہ اس حدیث میں اس کتے کے استثناء کو بھی ذکر کیا گیا ہے جو کھیت کھلیان کی حفاظت کرنے کے لئے پالا جاتا ہے، نیز اس حدیث میں ایک قیراط کا ذکر ہے جب کہ پہلی حدیث میں دو قیراط کا ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ یہ فرق کتوں کی مختلف اقسام کی بنیاد پر ہے کہ بلا ضرورت پالے جانے والے کتوں میں بعض کتے ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو کم ایذاء پہنچاتے ہیں، ان کو پالنے کی صورت میں ایک قیراط کے برابر کمی کی جاتی ہے یا یہ فرق مقام و جگہ کے اعتبار سے ہے کہ بعض جگہ تو بلا ضرورت کتے پالنے کی وجہ سے ثواب میں دو قیرط کے برابر کمی کی جاتی ہے۔ جیسے مکہ اور مدینہ کہ دونوں مقدس شہر اپنی عظمت و بزرگی کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ اگر ان کی حدود میں رہنے والا کوئی شخص بلا ضرورت کتا پالتا ہے تو وہ زیادہ گنہگار ہوتا ہے اس لئے اس کے ذخیرہ ثواب میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جاتی ہے جب کہ ان دونوں مقدس شہروں کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں کتا پالنے والا نسبتاً کم گنہگار ہوتا ہے، اس لئے اس کے ثواب میں دو قیراط کے برابر کمی ہوتی ہے اور جو لوگ جنگل و بیابان میں کتا پالتے ہیں ان کے ثواب میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے کیونکہ آبادی میں کتے پالنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ پیدا ہو جب کہ جنگل و بیابان میں یہ صورت نہیں ہوتی۔
اور یا یہ فرق اختلاف زمانہ کے سبب سے ہے کہ پہلے تو ایک ہی قیراط کے برابر کم ہونے کے ساتھ تنبیہ کی گئی تھی، مگر جب بعد میں لوگوں نے کتوں کو زیادہ پالنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ رہن سہن اختیار کیا، نیز ان کی طرف زیادہ رغبت و شوق رکھنے لگے تو شریعت کی طرف سے زجر و تنبیہ میں بھی زیادتی اور شدت اختیار کی گئی اور ثواب میں روازانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جانے کی وعید بیان فرمائی گئی۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں (مدینہ کے) کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا چنانچہ (ہم مدینہ اور اطراف مدینہ کے کتوں کو مار ڈالتے تھے) یہاں تک کہ جو عورت جنگل سے آتی اور اس کا کتا اس کے ساتھ ہوتا تو ہم اس کو بھی ختم کر دیتے تھے، پھر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عام کتوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا اور یہ حکم دیا کے خالص سیاہ کتے کو جو دو نقطوں والا ہو مار ڈالنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ (مسلم)
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ کتوں کو مار ڈالنے کا حکم صرف مدینہ منورہ کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ وہ شہر مقدس محض اسی اعتبار سے تقدیس کا حامل نہیں تھا کہ اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اقامت پذیر تھے بلکہ اس اعتبار سے بھی اس کو پاکیزگی کی عظمت حاصل تھی کہ وہ وحی کے نازل ہونے اور ملائکہ کی آمد و رفت کی جگہ تھا، لہذا یہ بات بالکل موزوں اور مناسب تھی کہ اس کی سر زمین کو کتوں کے وجود سے پاک رکھا جاتا۔
عورتوں کی تخصیص یا تو اس وجہ سے ہے کہ جو عورتیں جنگل میں بود و باش رکھتی تھیں ان کو (مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کے لئے) کتوں کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی، اور جب وہ شہر میں آتیں تو اس وقت بھی ان کا کتا ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
یا یہ کہا جائے کہ یہاں عورت کی قید محض اتفاقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کتوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا تھا جو جنگل سے شہر آ جاتے تھے خواہ وہ کسی عورت کے ساتھ آتے یا کسی مرد وغیرہ کے ساتھ۔
جو دو نقطوں والا ہو ' یعنی وہ کالا بھجنگ کتا جس کی دونوں آنکھوں پر دو سفید نقطے (ٹپکے) ہوتے ہیں۔ اس قسم کا کتا چونکہ انتہائی شریر اور لوگوں کے لئے سخت تکلیف اور ایذاء پہنچانے والا ہوتا ہے اس لئے اس کو شیطان فرمایا گیا ہے۔
اس کو شیطان کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسا کتا نہ نگہبانی کے کام کا ہوتا ہے اور نہ شکار پکڑنے کے مصرف کا، چنانچہ اسی سبب سے حضرات امام احمد و اسحٰق نے یہ کہا ہے کہ سیاہ کتے کا پکڑا ہوا شکار حلال نہیں کیونکہ وہ شیطان ہے۔
حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ عقور یعنی کٹ کھنے کتے کو مار ڈالنے پر تو علمار کا اتفاق ہے اگرچہ وہ سیاہ رنگ کا نہ ہو لیکن اس کتے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جو نقصان و ضرر پہنچانے والا نہ ہو۔
امام حرمین کہتے ہیں کہ کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کی اصل صورت حال یہ ہے کہ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر قسم کے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا، بعد میں اس حکم کی عمومیت منسوخ کر کے اس کے صرف یک رنگ سیاہ کتے تک محدود کر دیا گیا اور پھر آخری طور پر ان تمام کتوں کو مار ڈالنے کی ممانعت نافذ ہوئی جو نقصان و ضرر پہنچانے والے نہ ہوں، یہاں تک کہ یک رنگ سیاہ کتے کو بھی اس حکم میں شامل کر دیا گیا اگر اس سے نقصان و ضرر پہنچنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کو بھی ختم نہ کیا جائے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو (سارے کتوں کے یا مدینہ کے) کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، لیکن شکاری کتوں اور بکریوں کی حفاظت کرنے والے کتوں اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتوں کو مستثنیٰ رکھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
او ماشیۃ (اور مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے) یہ جملہ تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے۔ یعنی استثناء کے سلسلے میں پہلے تو خاص طور پر بکریوں کو حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کیا پھر اور بعد میں عمومی طور پر تمام جانوروں کی حفاظت کرنے والے کتوں کا ذکر کر دیا، لہٰذا اس صورت میں حرف او تنویع کے لئے ہو گا جیسا کہ ما قبل کی عبارت میں ہے۔
یا یہ کہ او ماشیۃ میں حرف او راوی کے شک کو ظاہر کرنے کے لئے ہے یعنی اس کے ذریعہ حدیث کے راوی نے بتانا چاہا ہے کہ مجھے صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر الاّ کلب صید او کلب کے بعد غنم فرمایا گیا تھا یا ما شیۃ۔
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے (بھی) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں تو میں یقیناً یہ حکم دے دیتا کہ ان سب کو مار ڈالا جائے پس ان میں جو (بھی) کتا خالص سیاہ رنگ کا ہو اس کا مار ڈالوں (ابوداؤد، دارمی) اور ترمذی و نسائی نے یہ عبارت مزید نقل کی ہے کہ اور جو گھر والے بلا ضرورت کتا پالتے ہیں ان کے عمل (کے ثواب میں سے روزانہ ایک قیراط کے بقدر کمی کر دی جاتی ہے، ہاں شکاری کتا اور کھیت کی حفاظت کرنے والا اور ریوڑ کی چوکسی کرنے والا کتا اس سے مستثنیٰ ہے۔
تشریح
کتے (بھی) گروہوں میں سے ایک گروہ ہیں الخ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ فرمایا آیت
(وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ) 6۔ الانعام:38)۔
اور جتنی قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنی قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤوں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح گروہ نہ ہوں۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان ایک امت اور ایک جنس ہیں اسی طرح جانور بھی ایک امت اور ایک جنس ہیں، خواہ وہ زمین پر چلنے والے ہوں یا فضا میں اڑنے والے ہوں، جس طرح انسان اپنے مختلف نام اور اپنے مختلف انواع کے ذریعہ ایک دوسرے سے پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح جانوروں کے بھی مختلف نام اور مختلف نوع ہیں جن کے ذریعہ ایک دوسرے کے درمیان فرق امتیاز کیا جاتا ہے۔ اور جس طرح انسان اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہیں۔ کہ ہر شخص کو اپنے اپنے مقدر کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا ہے، اسی طرح جانوروں کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے رزق ملتا ہے، نیز یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خاص مصلحت و حکمت کی بناء پر پیدا کیا ہے اسی طرح جانوروں کو بھی مصلحت و حکمت ہی کے مطابق پیدا کیا ہے، اس اعتبار سے جس طرح انسان کی جان کی اہمیت ہے، اسی طرح جانوروں کی جان کی بھی اہمیت ہے کہ ان کو بلا ضرورت اور بلا مقصد مار ڈالنا تخلیق خداوندی کی مصلحت و حکمت کے منافی ہے۔
لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس آیت کریمہ کے بموجب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ سارے کتوں کو مار ڈالا جائے کیونکہ مخلوق خداوندی میں جتنے گروہ اور جتنی جماعتیں ہیں ان میں ایک گروہ اور ایک جماعت کتے بہی ہیں اور کسی جماعت کے گروہ کے فنا کر دینا اللہ تعالیٰ کی اس حکمت و مصلحت کے بالکل منافی ہے جو ہر جاندار کی تخلیق میں کار فرما ہے، البتہ ان کتوں میں جو کتے خالص سیاہ رنگ کے ہوں ان کو مار ڈالنا چاہئے کیونکہ اس قسم کے کتے نہایت شریر اور سخت خطرناک ہوتے ہیں جن سے لوگوں کو سوائے تکلیف و ایذاء کے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور باقی دوسری قسم کے کتے چونکہ کھیت کھلیان اور مویشیوں کی چوکسی کرنے وغیرہ کے کام میں آتے ہیں اور وہ ایک طرح سے انسان کی خدمت کرتے ہیں اس لئے آیت کریمہ کی تعلیم کے علاوہ یوں بھی مفاد عامہ کے پیش نظر ان کو زندہ رکھنا ہی زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے۔
حدیث میں لفظ فاقتلوا ترکیب نحوی کے اعتبار سے جواب ہے شرط محذوف کا، گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا کہ جب مذکورہ سبب (آیت کریمہ کے بموجب) تمام کتوں کو مار ڈالنے کا کوئی راستہ نظر آتا تو کم سے کم ان کتوں کو مار ڈالو جو خالص سیاہ رنگ کے ہوں۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جانوروں کو ایک دوسرے پر ابھارنے (یعنی ان کو آپس میں لڑانے سے) منع فرمایا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اونٹوں، ہاتھیوں، مینڈھوں، بیلوں، بھینسوں اور ان کے علاوہ دوسرے چوپایوں کو آپس میں لڑانا نہیں چاہئے، اسی طرح پرند جانوروں کا بھی یہی حکم ہے۔ مرغیوں اور بٹیروں وغیرہ کا بھی آپس میں لڑانا ممنوع ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب جانوروں کو لڑانے کی ممانعت ہے تو آدمیوں کو آپس میں لڑانا بطریق اولی ممنوع ہو گا۔