حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مویشی کی نگہبانی، یا شکار یا کھیتی کی رکھوالی کے علاوہ کسی اور غرض سے کتا پالے تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کے برابر کم ہوتا جائے گا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۵)، سنن الترمذی/الصید ۴ (۱۴۹۰)، سنن النسائی/الصید ۱۴ (۴۲۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۷۱، ۱۵۳۹۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث ۳ (۲۳۲۳)، وبدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۴)، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۴)، مسند احمد (۲/۲۶۷، ۳۴۵) (صحیح) ولیس عند (خ) ’’أو صید‘‘ إلا معلقًا
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوپایوں کی نگہبانی، زمین و جائیداد کی حفاظت اور شکار کی خاطر کتوں کا پالنا درست ہے۔ نیز حدیث میں مذکورہ غرض کے علاوہ کتا پالنے میں ثواب کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کتا نجس ہے، اس کے گھر میں رہنے سے رحمت کے فرشتے نہیں آتے ، یا آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا فَاقْتُلُوا مِنْهَا الأَسْوَدَ الْبَهِيمَ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے بھی امتوں میں سے ایک امت ہیں ۱؎ تو میں ان کے قتل کا ضرور حکم دیتا، تو اب تم ان میں سے خالص کالے کتوں کو قتل کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۸۶)، سنن النسائی/الصید ۱۰ (۴۳۸۵)، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۵)، (تحفة الأشراف: ۹۶۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۵، ۸۶، ۵/۵۴، ۵۶، ۵۷)، دی/ الصید ۲ (۲۰۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کی طرح یہ بھی ایک مخلوق ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ حَتَّى إِنْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَقْدَمُ مِنَ الْبَادِيَةِ يَعْنِي بِالْكَلْبِ فَنَقْتُلُهُ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْ قَتْلِهَا، وَقَالَ: "عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مارنے کا حکم دیا یہاں تک کہ کوئی عورت دیہات سے اپنے ساتھ کتا لے کر آتی تو ہم اسے بھی مار ڈالتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے سے منع فرما دیا اور فرمایا کہ صرف کالے کتوں کو مارو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۲)، (تحفة الأشراف: ۲۸۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: إِنِّي أُرْسِلُ الْكِلَابَ الْمُعَلَّمَةَ فَتُمْسِكُ عَلَيَّ أَفَآكُلُ، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ الْكِلَابَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلْنَ، قَالَ: وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ لَيْسَ مِنْهَا، قُلْتُ: أَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ فَأُصِيبُ أَفَآكُلُ، قَالَ: إِذَا رَمَيْتَ بِالْمِعْرَاضِ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَأَصَابَ فَخَرَقَ فَكُلْ وَإِنْ أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو وہ میرے لیے شکار پکڑ کر لاتا ہے تو کیا میں اسے کھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو، اور اللہ کا نام اس پر لو تو ان کا شکار جس کو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں کھاؤ"۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اگرچہ وہ شکار کو قتل کر ڈالیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں اگرچہ وہ قتل کر ڈالیں جب تک دوسرا غیر شکاری کتا اس کے قتل میں شریک نہ ہو"، میں نے پوچھا: میں لاٹھی یا بے پر اور بے کانسی کے تیر سے شکار کرتا ہوں (جو بوجھ اور وزن سے جانور کو مارتا ہے) تو کیا اسے کھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم لاٹھی، یا بے پر، اور بے کانسی کے تیر اللہ کا نام لے کر مارو، اور وہ تیر شکار کے جسم میں گھس کر پھاڑ ڈالے تو کھاؤ، اور اگر وہ شکار کو چوڑا ہو کر لگے تو مت کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، والبیوع ۳ (۲۰۵۴)، والصید ۱ (۵۴۷۵)، ۲ (۵۴۷۶)، ۳ (۵۴۷۷)، ۷ (۵۴۸۳)، ۹ (۵۴۸۴)، ۱۰ (۵۴۸۵)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن الترمذی/الصید ۱ (۱۴۶۵)، ۳ (۱۴۶۷)، ۴ (۱۴۶۸)، ۵ (۱۴۷۹)، ۶ (۱۴۷۰)، ۷ (۱۴۷۱)، سنن النسائی/الصید ۱ (۴۲۷۴)، ۲ (۴۲۷۵)، ۳ (۴۲۷۰)، ۸ (۴۲۸۵)، ۲۱ (۴۳۱۷)، سنن ابن ماجہ/الصید ۳ (۳۲۰۸)، ۵ (۳۲۱۲)، ۶ (۳۲۱۳)، ۷ (۳۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۲۰۴۵، ۹۸۵۵، ۹۸۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۶، ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۷۹، ۳۸۰)، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (پہلا) یہ کہ سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ، ( دوسرا) یہ کہ کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ، (تیسرا) یہ کہ اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لئے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں یہی جمہور علماء کا قول ہے ، ( چوتھا) یہ کہ کتے کو شکار پر بھیجتے وقت ’’بسم الله‘‘ کہا گیا ہو ، (پانچواں) یہ کہ معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہو گا، (چھٹواں) یہ کہ کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: إِنَّا نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ، فَقَالَ لِي: "إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، وَإِنْ قَتَلَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ فَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھا لے، اگر کتا اس میں سے کھا لے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الصید ۷ (۵۴۸۳)، ۱۰ (۵۴۸۷)، صحیح مسلم/ الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابن ماجہ/ الصید ۳ (۳۲۰۸)، (تحفة الأشراف: ۹۸۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۸، ۳۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَوَجَدْتَهُ مِنَ الْغَدِ، وَلَمْ تَجِدْهُ فِي مَاءٍ وَلَا فِيهِ أَثَرٌ غَيْرَ سَهْمِكَ فَكُلْ، وَإِذَا اخْتَلَطَ بِكِلَابِكَ كَلْبٌ مِنْ غَيْرِهَا فَلَا تَأْكُلْ لَا تَدْرِي لَعَلَّهُ قَتَلَهُ الَّذِي لَيْسَ مِنْهَا".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ، پھر اس شکار کو دوسرے روز پاؤ (یعنی شکار تیر کی چوٹ کھا کر نکل گیا پھر دوسرے روز ملا) اور وہ تمہیں پانی میں نہ ملا ہو ۱؎، اور نہ تمہارے تیر کے زخم کے سوا اور کوئی نشان ہو تو اسے کھاؤ، اور جب تمہارے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شامل ہو گیا ہو (یعنی دونوں نے مل کر شکار مارا ہو) تو پھر اس کو مت کھاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس جانور کو کس نے قتل کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ دوسرے کتے نے اسے قتل کیا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۸۴۷)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کتے کے قتل کرنے کے سبب وہ ہلاک ہوا ہو بلکہ پانی ہی اس کے ہلاک ہونے کا سبب بنا ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا وَقَعَتْ رَمِيَّتُكَ فِي مَاءٍ فَغَرِقَ فَمَاتَ فَلَا تَأْكُلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تمہارے تیر کا شکار پانی میں گر پڑے اور ڈوب کر مر جائے تو اسے مت کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الذبائح ۸ (۵۴۸۴)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۶۹)، سنن ابن ماجہ/ الصید ۶ (۳۲۱۳)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَلَّمْتَ مِنْ كَلْبٍ أَوْ بَازٍ ثُمَّ أَرْسَلْتَهُ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكَ عَلَيْكَ، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ قَالَ: "إِذَا قَتَلَهُ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَيْكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد الْبَازُ: إِذَا أَكَلَ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَالْكَلْبُ إِذَا أَكَلَ كُرِهَ، وَإِنْ شَرِبَ الدَّمَ فَلَا بَأْسَ بِهِ.
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کتے یا باز کو تم سدھا رکھو اور اسے اللہ کا نام لے کر یعنی (بسم اللہ کہہ کر) شکار کے لیے چھوڑو تو جس شکار کو اس نے تمہارے لیے روک رکھا ہو اسے کھاؤ"۔ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے مار ڈالا ہو؟ آپ نے فرمایا: "جب اس نے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس نے شکار کو تمہارے لیے روک رکھا ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: باز جب کھا لے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور کتا جب کھا لے تو وہ مکروہ ہے اگر خون پی لے تو کوئی حرج نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۶۷)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۷، ۳۷۹) (صحیح) (مگر باز کا اضافہ منکر ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَيْدِ الْكَلْبِ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَكُلْ وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ وَكُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ يَدَاكَ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے کے سلسلہ میں فرمایا: "جب تم اپنے (شکاری) کتے کو چھوڑو، اور اللہ کا نام لے کر (یعنی بسم اللہ کہہ) کر چھوڑو تو (اس کا شکار) کھاؤ اگرچہ وہ اس میں سے کھا لے ۱؎ اور اپنے ہاتھ سے کیا ہوا شکار کھاؤ ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما یأتي برقم : (۲۸۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۷۸) (منکر) (اس میں «وإن أَکَلَ مِنْہ» کا جملہ منکر ہے اور کسی راوی کے یہاں نہیں ہے، مسند احمد میں اس کی جگہ «وإنّ قَتَلَ» (اگرچہ قتل کر ڈالا ہو) کا جملہ ہے ، اور یہ حدیث عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق ہے
وضاحت: ۱؎ : ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس سے ماقبل کی حدیث کے مابین تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان جواز پر، اور عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا، ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث حرمت کے سلسلہ میں اصل ہے، اور ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں «وإن أكل» کے معنی ہیں اگرچہ وہ اس سے پہلے کھاتا رہا ہو مگر اس شکار میں اس نے نہ کھایا ہو۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ خُلَيْفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَدُنَا يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَقْتَفِي أَثَرَهُ الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ، ثُمَّ يَجِدُهُ مَيِّتًا وَفِيهِ سَهْمُهُ أَيَأْكُلُ، قَالَ: "نَعَمْ إِنْ شَاءَ، أَوْ قَالَ: يَأْكُلُ إِنْ شَاءَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے شکار کو تیر مارتا ہے پھر اسے دو دو تین تین دن تک تلاش کرتا پھرتا ہے، پھر اسے مرا ہوا پاتا ہے، اور اس کا تیر اس میں پیوست ہوتا ہے تو کیا وہ اسے کھائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں اگر چاہے" یا فرمایا: "کھا سکتا ہے اگر چاہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۸۵۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الصید ۸ (۵۴۸۵ تعلیقًا) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ، قُلْتُ: أُرْسِلُ كَلْبِي، قَالَ: إِذَا سَمَّيْتَ فَكُلْ وَإِلَّا فَلَا تَأْكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ لِنَفْسِهِ، فَقَالَ: أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ عَلَيْهِ كَلْبًا آخَرَ، فَقَالَ: لَا تَأْكُلْ لِأَنَّكَ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پر کے تیر کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:"جب وہ اپنی تیزی سے پہنچے تو کھاؤ (یعنی جب وہ تیزی سے گھس گیا ہو)، اور جو تیر چوڑائی میں لگا ہو تو مت کھاؤ کیونکہ وہ چوٹ کھایا ہوا ہے"۔ پھر میں نے کہا: میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں (اس بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب«بِسْمِ اللهِ» پڑھ کر چھوڑو تو کھاؤ، ورنہ نہ کھاؤ، اور اگر کتے نے اس میں سے کھایا ہو تو اس کو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے"۔ پھر میں نے پوچھا: میں اپنے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں کہ دوسرا کتا بھی آ کر اس کے ساتھ لگ جاتا ہے (تب کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مت کھاؤ، اس لیے کہ «بِسْمِ اللهِ» تم نے صرف اپنے ہی کتے پر کہا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الوضوء ۳۳ (۱۷۵)، البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الصید ۲ (۵۴۷۶)، صحیح مسلم/ الصید ۱۹ (۱۹۲۹)، سنن النسائی/الصید ۷ (۴۲۷۷)، (تحفة الأشراف: ۹۸۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۸۰)، دی/ الصید ۱ (۲۰۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ عَائِذُ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ يَقُولُ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ وَبِكَلْبِي الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، قَالَ: "مَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَكُلْ وَمَا أَصَّدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سدھائے اور بےسدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شکار تم سدھائے ہوئے کتے سے کرو اس پر اللہ کا نام لو" (یعنی «بِسْمِ اللهِ» کہو) اور کھاؤ، اور جو شکار اپنے غیر سدھائے ہوئے کتے کے ذریعہ کرو اور اس کے ذبح کو پاؤ (یعنی زندہ پاؤ) تو ذبح کر کے کھاؤ (ورنہ نہ کھاؤ کیونکہ وہ کتا جو تربیت یافتہ نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا ذبح کے قائم مقام نہیں ہو سکتا)"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۴ (۵۴۷۸)، ۱۰ (۵۴۸۸)، ۱۴ (۵۴۹۶)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۳۰)، سنن الترمذی/ السیر ۱۱ (۱۵۶۰)، سنن النسائی/الصید ۴ (۴۲۷۱) سنن ابن ماجہ/الصید ۳ (۳۲۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵)، سنن الدارمی/السیر۵۶ (۲۵۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنَايُونُسُ بْنُ سَيْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَبَا ثَعْلَبَةَ كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ وَكَلْبُكَ زَادَ عَنْ ابْنِ حَرْبٍ الْمُعَلَّمُ وَيَدُكَ فَكُلْ ذَكِيًّا وَغَيْرَ ذَكِيٍّ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عرض کیا: "ابوثعلبہ! جس جانور کو تم اپنے تیر و کمان سے یا اپنے کتے سے مارو اسے کھاؤ"۔ ابن حرب کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ: "وہ کتا سدھایا ہوا (شکاری) ہو، اور اپنے ہاتھ سے (یعنی تیر سے) شکار کیا ہوا جانور ہو تو کھاؤ خواہ اس کو ذبح کر سکو یا نہ کر سکو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۷۷)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ الصید ۱ (۱۹۳۱)، سنن الترمذی/ الصید ۱۶ (۱۴۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا يُقَالُ لَهُ أَبُو ثَعْلَبَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي كِلَابًا مُكَلَّبَةً فَأَفْتِنِي فِي صَيْدِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كَانَ لَكَ كِلَابٌ مُكَلَّبَةٌ فَكُلْ مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، قَالَ: وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْتِنِي فِي قَوْسِي، قَالَ: كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ، قَالَ: ذَكِيًّا أَوْ غَيْرَ ذَكِيٍّ، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنِّي، قَالَ: وَإِنْ تَغَيَّبَ عَنْكَ مَا لَمْ يَصِلَّ أَوْ تَجِدَ فِيهِ أَثَرًا غَيْرَ سَهْمِكَ، قَالَ: أَفْتِنِي فِي آنِيَةِ الْمَجُوسِ إِنِ اضْطُرِرْنَا إِلَيْهَا، قَالَ: اغْسِلْهَا وَكُلْ فِيهَا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ نامی ایک دیہاتی نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس شکار کے لیے تیار سدھائے ہوئے کتے ہیں، ان کے شکار کے سلسلہ میں مجھے بتائیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہارے پاس سدھائے ہوئے کتے ہیں تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں انہیں کھاؤ"۔ ابو ثعلبہ نے کہا: خواہ میں ان کو ذبح کر سکوں یا نہ کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"۔ ابو ثعلبہ نے کہا: اگرچہ وہ کتے اس جانور میں سے کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگرچہ وہ اس جانور میں سے کھا لیں"۔ پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے تیر کمان سے شکار کے متعلق بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا تیر کمان جو تمہیں لوٹا دے اسے کھاؤ، خواہ تم اسے ذبح کر پاؤ یا نہ کر پاؤ"۔ انہوں نے کہا: اگرچہ وہ شکار تیر کھا کر میری نظروں سے اوجھل ہو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں اگرچہ وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو جائے جب تک کہ گلے سڑے نہیں، اور تمہارے تیر کے سوا اس کی ہلاکت کا کوئی اور اثر معلوم نہ ہو سکے"۔ پھر انہوں نے کہا: مجوسیوں (پارسیوں) کے برتن کے متعلق بتائیے جب کہ ہمیں اس کے سوا دوسرا برتن نہ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دھو ڈالو اور اس میں کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۶۷۱)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الصید ۱۶ (۴۳۰۱)، مسند احمد (۲/۱۸۴) (حسن) (مگر «وإن اَکَلَ منہ» کا جملہ منکر ہے جو عدی کی حدیث (۲۸۵۴) کے مخالف ہے ، اور نسائی کی روایت میں یہ جملہ ہے تو مگر اس میں اس کی جگہ «وإن قتلنَ» ہے جو عدی کی حدیث کے مطابق ہے)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ أَبِي وَاقِدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ".
ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصید ۴ (۱۴۸۰) أتم منہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۱۸)، سنن الدارمی/الصید ۹ (۲۰۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ مَرَّةً سُفْيَانُ، وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنْ أَتَى السُّلْطَانَ افْتُتِنَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص صحراء اور بیابان میں رہے گا اس کا دل سخت ہو جائے گا، اور جو شکار کے پیچھے رہے گا وہ (دنیا یا دین کے کاموں سے) غافل ہو جائے گا، اور جو شخص بادشاہ کے پاس آئے جائے گا وہ فتنہ و آزمائش میں پڑے گا (اس سے دنیا بھی خراب ہو سکتی ہے اور آخرت بھی)"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۶۹ (۲۲۵۶)، سنن النسائی/الصید ۲۴ (۴۳۱۴)، (تحفة الأشراف: ۶۵۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۵۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَكَمِ النَّخَعِيُّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنَ الأَنْصَارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى مُسَدَّدٍ، قَالَ: "وَمَنْ لَزِمَ السُّلْطَانَ افْتُتِنَ زَادَ، وَمَا ازْدَادَ عَبْدٌ مِنَ السُّلْطَانِ دُنُوًّا إِلَّا ازْدَادَ مِنَ اللَّهِ بُعْدًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسدد والی حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: "جو شخص بادشاہ کے ساتھ چمٹا رہے گا وہ فتنے میں پڑے گا" اور اتنا اضافہ ہے: "جو شخص بادشاہ کے جتنا قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی وہ اللہ سے دور ہوتا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۷۱، ۴۴۰) (ضعیف) (اس کے ایک راوی شیخ من الانصار مبہم ہیں)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَأَدْرَكْتَهُ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ وَسَهْمُكَ فِيهِ فَكُلْهُ مَا لَمْ يُنْتِنْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم کسی شکار کو تیر مارو اور تین دن بعد اس جانور کو اس طرح پاؤ کہ تمہارا تیر اس میں موجود ہو تو جب تک کہ اس میں سے بدبو پیدا نہ ہو اسے کھاؤ ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۲ (۱۹۳۱)، سنن النسائی/الصید ۲۰ (۴۳۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : تیر کے موجود رہنے کی شرط اس لئے ہے کہ شکاری کو یہ یقین ہو جائے کہ شکار کی موت کا سبب شکاری کا تیر ہے نہ کہ کوئی دوسری چیز اس کی موت کا سبب بنی ہے۔