حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ. ح وَالْحَجَّاجُ، عَنْالْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ عَائِذِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ، قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ "، قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ، قَالَ: " وَإِنْ قَتَلَ "، قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ رَمْيٍ قَالَ: " مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ "، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى، وَالْمَجُوسِ، فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ، قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا، فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ، ثُمَّ كُلُوا فِيهَا، وَاشْرَبُوا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: جُرْثُومٌ، وَيُقَالُ: جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ قَيْسٍ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں؟ (شکار کے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: "جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا:"اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟) آپ نے فرمایا: "تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ"، میں نے عرض کیا: ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیں؟) آپ نے فرمایا: "اگر تم اس کے علاوہ کوئی برتن نہ پاس کو تو اسے پانی سے دھو لو پھر اس میں کھاؤ پیو" ۱؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے، انہیں جرثم بن ناشب اور جرثم بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۴ (۵۴۷۸) ، و ۱۰ (۵۴۸۸) ، و ۱۴ (۵۴۹۶) ، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۳۰) ، و ۲ (۱۹۳۱) ، سنن ابی داود/ الصید ۲ (۲۸۵۵) ، سنن النسائی/الصید ۴ (۴۲۷۱) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۳ (۳۲۰۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۷۵) ، و مسند احمد (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵) ویأتي في السیر۱۱ (۱۵۶۰) ، وفي الأطعمة ۷ (۶۹۷۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً، قَالَ: " كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ قَتَلْنَ، قَالَ: " وَإِنْ قَتَلْنَ، مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ، قَالَ: " مَا خَزَقَ فَكُلْ، وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ "، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْمَنْصُورٍ، نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْمِعْرَاضِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟)آپ نے فرمایا: "وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو"، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض»(ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: "جو (ہتھیار کی نوک سے) پھٹ جائے اسے کھاؤ اور جو اس کے عرض (بغیر دھاردار حصے یعنی چوڑان) سے مر جائے اسے مت کھاؤ۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے، مگر اس میں ہے «وسئل عن المعراض» "یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھا گیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۳ (۱۷۵) ، والبیوع ۳ (۲۰۵۴) ، والصید ۱ (۵۴۷۵) ، و۳ (۵۴۷۶) ، و۳ (۵۴۷۷) ، و ۷ (۵۴۸۳) ، و ۸ (۵۴۸۴) ، و ۹ (۵۴۸۶) ، و ۱۰ (۵۴۸۷) ، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹) ، سنن ابی داود/ الصید ۲ (۲۸۴۷) ، سنن النسائی/الصید ۱ (۴۲۶۸) ، و۲ (۴۲۶۹) ، و ۳ (۴۲۷۰) ، و ۸ (۴۲۷۹) ، و ۲۱ (۴۳۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۳ (۳۲۰۸) ، و ۵ (۳۲۱۲) ، و ۶ ۳۲۱۳) ، و ۷ (۳۲۱۵) ، (تحفة الأشراف : ۹۸۷۸) ، و مسند احمد (۴/۲۵۶) ، ۲۵۷، ۲۵۸، ۳۷۷، ۳۸۰) ، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵) ویأتي بأرقام (۱۴۶۷-۱۴۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو دوڑتا ہوا جائے ، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔ اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (۱)سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔ (۲)کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔ (۳)اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں ، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ (۴)کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔ (۵)سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا اور یہ شکار حلال نہ ہو گا۔ (۶)کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يُرَخِّصُونَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ، وَالْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ هُوَ: الْقَاسِمُ بْنُ نَافِعٍ الْمَكِّيُّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکار سے منع کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ مجوسی کے کتے کے شکار کی اجازت نہیں دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصید ۴ (۳۲۰۹) ، (تحفة الأشراف : ۲۲۷۱) (ضعیف) (سند میں دو راوی ’’ شریک القاضی ‘‘ اور ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَهَنَّادٌ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْبَازِي، فَقَالَ: " مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ بِصَيْدِ الْبُزَاةِ وَالصُّقُورِ بَأْسًا، وقَالَ مُجَاهِدٌ: الْبُزَاةُ هُوَ: الطَّيْرُ الَّذِي يُصَادُ بِهِ مِنَ الْجَوَارِحِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ سورة المائدة آية 4 فَسَّرَ الْكِلَابَ وَالطَّيْرَ الَّذِي يُصَادُ بِهِ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صَيْدِ الْبَازِي، وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ، وَقَالُوا: إِنَّمَا تَعْلِيمُهُ إِجَابَتُهُ، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وَالْفُقَهَاءُ أَكْثَرُهُمْ قَالُوا: يَأْكُلُ وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا؟ تو آپ نے فرمایا: "وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند «عن مجالد عن الشعبي» سے جانتے ہیں۔ ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ باز اور شکرے کے شکار میں مضائقہ نہیں سمجھتے، ۳- مجاہد کہتے ہیں: باز وہ پرندہ ہے جس سے شکار کیا جاتا ہے، یہ اس «جوارح» میں داخل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ«وما علمتم من الجوارح» میں کیا ہے انہوں نے «جوارح» کی تفسیر کتے اور اس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتا ہے، ۴- بعض اہل علم نے باز کے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکار میں سے کچھ کھا لے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن اکثر فقہاء کہتے ہیں: باز کا شکار کھایا جائے گا چاہے وہ شکار کا کچھ حصہ کھا لے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصید ۲ (۲۸۵۱) ، (تحفة الأشراف : ۹۸۶۵) (منکر) (سند میں ’’ مجالد ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيهِ مِنَ الْغَدِ سَهْمِي، قَالَ: " إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ مِثْلَهُ، وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتا ہوں (اس شکار کا کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا: "جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے ہی تیر نے شکار کو مارا ہے اور تم اس میں کسی اور درندے کا اثر نہ دیکھو تو اسے کھاؤ" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اور عبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں، ۳- اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفة الأشراف : ۹۸۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اس شکار پر تیر کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز کا بھی اثر ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی موت اس دوسرے اثر سے ہوئی ہو تو ایسا شکار حلال نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ، فَقَالَ: " إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ، إِلَّا أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ، فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَهُ أَوْ سَهْمُكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "تم اپنا تیر پھینکتے وقت اس پر اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مرا ہوا پاؤ تو بھی کھا لو، سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ پانی نے اسے مارا ہے یا تمہارے تیر نے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفة الأشراف : ۹۸۶۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اگر تیر کی مار کھانے کے بعد یہ شکار تیر کے سبب پانی میں گرا ہو پھر شکاری نے اسے پکڑ لیا ہو تو یہ حلال ہے ، کیونکہ اب اس کا شبہ نہیں رہا کہ وہ پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ، قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ، وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ، فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ، فَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كِلَابَنَا كِلَابٌ أُخَرُ، قَالَ: " إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ "، قَالَ سُفْيَانُ: أَكْرَهُ لَهُ أَكْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي الصَّيْدِ وَالذَّبِيحَةِ، إِذَا وَقَعَا فِي الْمَاءِ أَنْ لَا يَأْكُلَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي الذَّبِيحَةِ: إِذَا قُطِعَ الْحُلْقُومُ، فَوَقَعَ فِي الْمَاءِ فَمَاتَ فِيهِ، فَإِنَّهُ يُؤْكَلُ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكَلْبِ إِذَا أَكَلَ مِنَ الصَّيْدِ، فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي الْأَكْلِ مِنْهُ، وَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو، اور (بھیجتے وقت اس پر) اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھ لو تو تمہارے لیے جو کچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤ اور اگر وہ شکار سے کچھ کھا لے تو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے شکار اپنے لیے روکا ہے"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہو جائیں؟" آپ نے فرمایا: "تم نے اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھا ہے دوسرے کتے پر نہیں"۔ سفیان (ثوری) کہتے ہیں: آپ نے اس کے لیے اس کا کھانا درست نہیں سمجھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ذبیحہ اور شکار کے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب وہ پانی میں گر جائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں: جب اس کا گلا کاٹ دیا جائے، پھر پانی میں گرے اور مر جائے تو اسے کھایا جائے گا، عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے، ۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتا شکار کا کچھ حصہ کھا لے اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں: جب کتا شکار سے کھا لے تو اسے مت کھاؤ، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۳- جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے، اگرچہ اس میں سے کتے نے کھا لیا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفة الأشراف : ۹۸۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ بسم اللہ تم نے صرف اپنے کتے پر پڑھا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایسے کتے کا شکار جس کے ساتھ دوسرے کتے شریک رہے ہوں کھانا درست نہیں سمجھا۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ، فَقَالَ: " مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ "، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر پر کے تیر کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: "جسے تم نے دھار سے مارا ہے اسے کھاؤ اور جسے عرض (بغیر دھاردار حصہ یعنی چوڑان) سے مارا ہے تو وہ «وقيذ» ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۶۵ (تحفة الأشراف : ۹۸۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «وقیذ» : وہ شکار ہے جسے لاٹھی ، پتھر اور ایسے ہتھیار سے مارا جائے جو دھار والے نہ ہوں ، حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب شکار کے لیے تیر اور اسی جیسے دوسرے دھار دار ہتھیار کا استعمال ہو تو یہ شکار حلال ہے اور اگر چوڑان سے ہو تو حلال نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّ رَجُلًا مِنْ قَوْمِهِ صَادَ أَرْنَبًا أَوِ اثْنَيْنِ فَذَبَحَهُمَا بِمَرْوَةٍ، فَعَلَّقَهُمَا حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهِمَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، وَرَافِعٍ، وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُذَكِّيَ بِمَرْوَةٍ، وَلَمْ يَرَوْا بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُهُمْ أَكْلَ الْأَرْنَبِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ الشَّعْبِيِّ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، وَرَوَى عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ صَفْوَانَ أَصَحُّ، وَرَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، نَحْوَ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، وَيُحْتَمَلُ أَنَّ رِوَايَةَ الشَّعْبِيِّ عَنْهُمَا، قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے ایک آدمی نے ایک یا دو خرگوش کا شکار کان اور ان کو پتھر سے ذبح کیا ۱؎، پھر ان کو لٹکائے رکھا یہاں تک کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اس کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی روایت میں شعبی کے شاگردوں کا اختلاف ہے، داود بن أبی ہند بسند الشعبی عن محمد بن صفوان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں، اور عاصم الأحول بسند الشعبی عن صفوان بن محمد یا محمد بن صفوان روایت کرتے ہیں، (صفوان بن محمد کے بجائے محمد بن صفوان زیادہ صحیح ہے) جابر جعفی بھی بسند«شعبي عن جابر بن عبد الله» قتادہ کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں، اس بات کا احتمال ہے کہ شعبی کی روایت دونوں سے ہو ۳؎، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: جابر کی شعبی سے روایت غیر محفوظ ہے، ۳- اس باب میں محمد بن صفوان، رافع اور عدی بن حاتم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم نے پتھر سے ذبح کرنے کی رخصت دی ہے ۲؎، ۵- یہ لوگ خرگوش کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ۶- بعض لوگ خرگوش کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۳۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس شرط کے ساتھ کہ پتھر نوکیلا ہو اور اس سے خون بہہ جائے «ما أنهر الدم» کا یہی مفہوم ہے کہ جس سے خون بہہ جائے اسے کھاؤ۔ ۲؎ : علماء کی یہ رائے درست ہے ، کیونکہ باب کی حدیث سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ ۳؎ : یعنی شعبی نے محمد بن صفوان اور جابر بن عبداللہ دونوں سے روایت کی ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْمُجَثَّمَةِ: وَهِيَ الَّتِي تُصْبَرُ بِالنَّبْلِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مجثمة» کے کھانے سے منع فرمایا۔ «مجثمة» اس جانور یا پرندہ کو کہتے ہیں، جسے باندھ کر تیر سے مارا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو الدرداء کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۳۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «مصبورہ» : وہ جانور ہے جسے باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جاتی ہو یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہو ، ایسے جانور کے کھانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، کیونکہ یہ غیر مذبوح ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، غَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ وَهْبٍ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَاريةَ، عَنْ أَبِيهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْمُجَثَّمَةِ، وَعَنِ الْخَلِيسَةِ، وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَى حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ "، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: سُئِلَ أَبُو عَاصِمٍ عَنِ الْمُجَثَّمَةِ، قَالَ: أَنْ يُنْصَبَ الطَّيْرُ، أَوِ الشَّيْءُ فَيُرْمَى، وَسُئِلَ عَنِ الْخَلِيسَةِ، فَقَالَ: الذِّئْبُ، أَو السَّبُعُ يُدْرِكُهُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُهُ مِنْهُ فَيَمُوتُ فِي يَدِهِ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيَهَا.
عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے دن ہر کچلی والے درندے ۱؎ پنجے والے پرندے ۲؎، پالتو گدھے کے گوشت، «مجثمة» اور «خليسة» سے منع فرمایا، آپ نے حاملہ (لونڈی جو نئی نئی مسلمانوں کی قید میں آئے) کے ساتھ جب تک وہ بچہ نہ جنے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ راوی محمد بن یحییٰ قطعی کہتے ہیں: ابوعاصم سے «مجثمة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: پرندے یا کسی دوسرے جانور کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جائے (یہاں تک کہ وہ مر جائے) اور ان سے «خليسة» کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: «خليسة» وہ جانور ہے، جس کو بھیڑیا یا درندہ پکڑے اور اس سے کوئی آدمی اسے چھین لے پھر وہ جانور ذبح کئے جانے سے پہلے اس کے ہاتھ میں مر جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ویأتي عندہ برقم ۱۵۶۴ (تحفة الأشراف : ۹۸۹۲) ، وانظر مسند احمد (۴/۱۲۷) (صحیح) (سند میں ’’ ام حبیبہ ‘‘ مجہول ہیں، ’’ خلیسہ ‘‘ کے سوا تمام ٹکڑے شواہد کی بنا پر صحیح ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مثلاً بھیڑیا ، شیر اور چیتا وغیرہ۔ ۲؎ : گدھ اور باز وغیرہ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَّخَذَ شَيْءٌ فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جاندار کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصید ۲ (۱۹۵۷) ، سنن النسائی/الضحایا ۴۱ (۴۴۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۰ (۳۱۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۶۱۱۲) ، و مسند احمد (۱/۲۱۶، ۲۷۳، ۲۸۰، ۲۸۵، ۳۴۰، ۳۴۵) (صحیح) (مؤلف اور ابن ماجہ کی سند میں سماک وعکرمہ کی وجہ سے کلام ہے، دیگر کی سند یں صحیح ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ. ح قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَأَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُهُ: جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہ اس سند کے علاوہ سے بھی ابو سعید خدری سے ہے، ۳- اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابو الدرداء، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور ان کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الضحایا ۱۸ (۲۸۲۷) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱۵ (۳۱۹۹) ، و مسند احمد (۳/۳۱، ۵۳) ، (تحفة الأشراف : ۳۹۸۶) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ مجالد ‘‘ ضعیف ہیں، دیکھئے: الارواء رقم ۲۵۳۹)
وضاحت: ۱؎ : بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں رہے اسے " جنین " کہا جاتا ہے۔ ۲؎ : یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے ، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا ، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ "، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُهُ: عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ /الصید ۲۹ (۵۵۳۰) ، والطب ۵۷ (۵۷۸۰) ، صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۲) ، والأطعمة ۳۳ (۱۹۳۲) ، سنن ابی داود/ الأطعمة ۳۳ (۲۸۰۲) ، سنن النسائی/الصید ۲۸ (۴۳۳۵) ، و ۳۰ (۴۳۴۳) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۳ (۳۲۳۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۷۴) ، و مسند احمد (۴/۱۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دانت (یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، ہاتھی ، اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں ، اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مر گئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي: يَوْمَ خَيْبَرَ، الْحُمُرَ الْإِنْسِيَّةَ، وَلُحُومَ الْبِغَالِ، وَكُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وقَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھے، خچر کے گوشت، ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کو حرام کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عرباض بن ساریہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۱۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَرَّمَ كُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے کو حرام قرار دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر: سنن ابن ماجہ/الصید ۱۳ (۳۲۳۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۰۴۶) ، و مسند احمد (۲/۳۳۶، ۳۶۶، ۴۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سورۃ الانعام کی آیت «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به» (الأنعام : ۱۴۵)کے عام مفہوم سے یہ استدلال کرنا کہ ہر کچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے حلال ہیں درست نہیں کیونکہ باب کی یہ حدیث اور سورۃ المائدہ کی آیت «وما أكل السبع إلا ما ذكيتم» (المائدة : ۳)سورۃ الانعام کی مذکورہ آیت کے لیے مخص ہے نیز سورۃ المائدہ کی آیت مدنی ہے جب کہ سورۃ الانعام کی آیت مکی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ، وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ، فَقَالَ: " مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ "، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ: الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور (زندہ) بکریوں کی پٹھ کاٹتے تھے، آپ نے فرمایا: "زندہ جانور کا کاٹا ہوا گوشت مردار ہے" ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف زید بن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصید ۳ (۲۸۵۸) (تحفة الأشراف : ۱۵۵۱۵) ، وسنن الدارمی/الصید ۹ (۲۰۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں ، اس لیے اس کاٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں ، یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ، قَالَ: " لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ "، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: هَذَا فِي الضَّرُورَةِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي الْعُشَرَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَاءِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اسْمُهُ أُسَامَةُ بْنُ قِهْطِمٍ، وَيُقَالُ: اسْمُهُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ بَلْزٍ وَيُقَالُ: اسْمُهُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
ابوالعشراء کے والد اسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ذبح (شرعی) صرف حلق اور لبہ ہی میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا: "اگر اس کی ران میں بھی تیر مار دو تو کافی ہو گا"، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس حدیث کے علاوہ ابو العشراء کی کوئی اور حدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں، ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کا نام اسامہ بن قھطم ہے، اور کہا جاتا ہے ان کا نام یسار بن برز ہے اور ابن بلز بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام عطارد ہے دادا کی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے، ۳- اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الضحایا ۱۶ (۲۸۲۵) ، سنن النسائی/الضحایا ۲۵ (۴۴۱۳) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۹ (۳۱۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۶۹۴) و مسند احمد (۴/۳۳۴) ، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۲ (۲۰۱۵) (ضعیف) (سند میں ’’ ابوالعشراء ‘‘ مجہول ہیں، ان کے والد بھی مجہول ہیں مگر صحابی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَتَلَ وَزَغَةً بِالضَّرْبَةِ الْأُولَى، كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّانِيَةِ، كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ، كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَعْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ شَرِيكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو چھپکلی ۱؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہو گا، اگر اس کو دوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا اور اگر اس کو تیسری چوٹ میں مارے گا تو اس کو اتنا ثواب ہو گا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، سعد، عائشہ اور ام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/السلام ۳۸ (الحیؤن۲) (۲۲۴۰) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۷۵ (۵۲۶۳) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۱۲ (۳۲۲۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۶۶۱) ، و مسند احمد (۲/۳۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ہندوستان میں لوگ گرگٹ کو غلط طور پر وزع سمجھ کر اس کو مانا ثواب کا کام سمجھتے ہیں جب کہ وہ عام طور پر جنگل جھاڑی میں رہتا ہے اور چھپکلی اپنی ضرر رسانیوں کے ساتھ گھروں میں پائی جاتی ہے ، اس لیے اس کا مارنا موذی کو مارنا ہے جس کے مارنے کا ثواب بھی ہے۔ ۲؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مارنے پر سو اور دوسری میں اس سے کم اور تیسری میں اس سے بھی کم نیکیاں ملیں گی ، امام نووی کہتے ہی : پہلی چوٹ میں نیکیوں کی کثرت کا سبب یہ ہے تاکہ لوگ اسے مارنے میں پہل کریں اور اسے مار کر مذکورہ ثواب کے مستحق ہوں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ، وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ، وَالْأَبْتَرَ، فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ، وَيُسْقِطَانِ الْحُبْلَى "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ حَياتِ الْبُيُوتِ وَهِيَ: الْعَوَامِرُ "، وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ قَتْلُ الْحَيَّةِ الَّتِي تَكُونُ دَقِيقَةً، كَأَنَّهَا فِضَّةٌ، وَلَا تَلْتَوِي فِي مِشْيَتِهَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے وہ ابولبابہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جنہیں «عوامر» (بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہا جاتا ہے، مارنے سے منع فرمایا ۲؎: ابن عمر اس حدیث کو زید بن خطاب ۳؎ سے بھی روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنا مکروہ ہے جو پتلا (اور سفید) ہوتا ہے گویا کہ وہ چاندی ہو، وہ چلنے میں بل نہیں کھاتا بلکہ سیدھا چلتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۴ (۳۲۹۷) ، صحیح مسلم/السلام ۳۷ (الحیؤن ۱) (۲۲۳۳) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۷۴ (۵۲۵۲) ، سنن ابن ماجہ/الطب ۴۲ (۳۵۳۵) ، (تحفة الأشراف : ۶۸۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہو جاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔ ۲؎ : یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن و شیاطین بھی ہو سکتے ہیں ، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہو جانے یا اپنی شکل تبدیل کر لینے کی تین بار آگاہی دے دینی چاہیئے ، اگر وہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تو وہ ابو سعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔ ۳؎ : زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی الله عنہما) کے بڑے بھائی ہیں ، یہ عمر رضی الله عنہ سے پہلے اسلام لائے ، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے ، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں رہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِبُيُوتِكُمْ عُمَّارًا، فَحَرِّجُوا عَلَيْهِنَّ ثَلَاثًا، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَاقْتُلُوهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَر، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ صَيْفِيٍّ، نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے گھروں میں گھریلو سانپ رہتے ہیں، تم انہیں تین بار آگاہ کر دو تم تنگی میں ہو (یعنی دیکھو دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ تنگی و پریشانی سے دوچار ہو گا) پھر اگر اس تنبیہ کے بعد کوئی سانپ نظر آئے تو اسے مار ڈالو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو عبیداللہ بن عمر نے بسند «صيفي عن أبي سعيد الخدري» روایت کیا ہے جب کہ مالک بن انس نے اس حدیث کو بسند«صيفي عن أبي السائب مولى هشام بن زهرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا، اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکور ہے ۱؎۔ ہم سے اس حدیث کو انصاری نے بسند «معن عن مالک عن صیفی عن أبی السائب عن أبی سعیدالخدری» سے روایت کیا ہے، اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن عجلان نے بھی صیفی سے مالک کی طرح روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/السلام ۳۷ (۲۲۳۶) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۷۴ (۵۲۵۶-۵۲۵۹) سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۲۸۰ (۹۶۹) (تحفة الأشراف : ۴۰۸۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس قصہ کی تفصیل کے لیے دیکھئیے صحیح مسلم کتاب السلام حدیث رقم (۲۲۳۶)۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: قَالَأَبُو لَيْلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا ظَهَرَتِ الْحَيَّةُ فِي الْمَسْكَنِ، فَقُولُوا لَهَا: إِنَّا نَسْأَلُكِ بِعَهْدِ نُوحٍ، وَبِعَهْدِ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، أَنْ لَا تُؤْذِيَنَا، فَإِنْ عَادَتْ فَاقْتُلُوهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى.
ابولیلیٰ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب گھر میں سانپ نکلے تو اس سے کہو: ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہد و اقرار کی رو سے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگر وہ دوبارہ نکلے تو اسے مار دو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۷۴ (۵۲۶۰) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۲۸۰ (۹۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۱۵۲) (ضعیف) (سند میں ’’ محمد بن أبی لیلیٰ ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا كُلِّهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ: أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ شَيْطَانٌ، وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ الْبَهِيمُ الَّذِي لَا يَكُونُ فِيهِ شَيْءٌ مِنَ الْبَيَاضِ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ صَيْدَ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مار ڈالو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، جابر، ابورافع، اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے ۲؎، ۴- «الأسود البهيم» اس کتے کو کہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو، ۵- بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکار کو مکروہ سمجھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصید ۱ (۲۸۴۵) ، سنن النسائی/الصید ۱۰ (۴۲۸۵) ، و ۱۴ (۴۲۹۳) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۹۶۴۹) ، و مسند احمد (۴/۸۵، ۸۶) ، و (۵/۵۴، ۵۶، ۵۷) سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابتداء میں سارے کتوں کے مارنے کا حکم ہوا پھر کالے سیاہ کتوں کو چھوڑ کر یہ حکم منسوخ ہو گیا ، بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کر دیا گیا ، حتیٰ کہ شکار ، زمین ، جائیداد ، مکان اور جانوروں کی حفاظت و نگہبانی کے لیے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی۔ ۲؎ : یہ حدیث صحیح مسلم (رقم ۱۵۷۲)میں جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَيْسَ بِضَارٍ، وَلَا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایسا کتا پالا یا رکھا جو سدھایا ہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہر دن دو قیراط کے برابر کم ہو گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: «أو كلب زرع»"یا وہ کتا کھیتی کی نگرانی کرنے والا نہ ہو"، ۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل، ابوہریرہ، اور سفیان بن أبی زہیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید والذبائح ۶ (۵۴۸۲) ، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (البیوع ۳۱) ، (۱۵۷۴) ، سنن النسائی/الصید ۱۲ (۴۲۸۹) و ۱۳ (۴۲۹۱-۴۲۹۲) (تحفة الأشراف : ۷۵۴۹) ، وط/الاستئذان ۵ (۱۳) ، و مسند احمد (۲/۴، ۸، ۳۷، ۴۷، ۶۰) ، وسنن الدارمی/الصید ۲ (۲۰۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہا ہے ، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے ، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں : ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا ، گھر والے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا ، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا ، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا ، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچنا وغیرہ وغیرہ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ "، قَالَ: قِيلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ، فَقَالَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَهُ زَرْعٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری یا جانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگر کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ابن عمر رضی الله عنہما سے کہا گیا: ابوہریرہ رضی الله عنہ یہ بھی کہتے تھے: «أو كلب زرع» یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں)، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھا ہو گا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۳) ، (دون ما استشنیٰ منہا) صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (البیوع ۳۱) (۱۵۷۱) ، سنن النسائی/الصید ۹ (۴۳۸۲- ۴۲۸۴) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۱ (۳۲۰۲) ، (دون ماستثنی منھا) (تحفة الأشراف : ۷۳۵۳) ، وط/الاستئذان ۵ (۱۴) ، و مسند احمد (۲/۲۲-۲۳، ۱۱۳، ۱۳۲، ۱۳۶) ، سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا، إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، أَوْ صَيْدٍ، أَوْ زَرْعٍ، انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ: أَنَّهُ رَخَّصَ فِي إِمْسَاكِ الْكَلْبِ، وَإِنْ كَانَ لِلرَّجُلِ شَاةٌ وَاحِدَةٌ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ بِهَذَا.
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے سے درخت کی شاخوں کو ہٹا رہے تھے اور آپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا: "اگر یہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تو میں انہیں مارنے کا حکم دیتا ۱؎، سو اب تم ان میں سے ہر سیاہ کالے کتے کو مار ڈالو، جو گھر والے بھی شکاری، یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کرنے والے کتوں کے سوا کوئی دوسرا کتا باندھے رکھتے ہیں ہر دن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث بسند «حسن البصریٰ عن عبد الله بن مغفل عن النبي صلى الله عليه وسلم»مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۴۸۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : «وما من دآبة في الأرض ولا طائر يطير بجناحيه إلا أمم أمثالكم» " یعنی : جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں "۔ (سورة الأنعام : ۳۸)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار ، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: إِنِّي لَمِمَّنْ يَرْفَعُ أَغْصَانَ الشَّجَرَةِ عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: " لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ، لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ، وَمَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَرْتَبِطُونَ كَلْبًا، إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ، إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ، أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ، أَوْ كَلْبَ غَنَمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یا شکاری یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سوا کوئی دوسرا کتا پالے گا تو ہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہو گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عطا بن ابی رباح نے کتا پالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحرث ۳ (۳۳۲۲) وبدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۴) ، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (البیوع ۳۱) ، (۱۹) ، سنن ابی داود/ الصید ۱ (۲۸۴۴) ، سنن النسائی/الصید ۱۴ (۴۲۹۴) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۲ (۳۲۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۲۷۱) ، و مسند احمد (۲/۲۶۷، ۳۴۵) (صحیح) (لیس عند (خ) ’’ أو صید ‘‘ إلا معلقا بعد الحدیث ۲۳۲۳)۔
وضاحت: ۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی حدیث رقم : ۱۴۸۷ میں دو قیراط کا ذکر ہے ، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں : (۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ رضی الله عنہ نے روایت کی ، بعد میں دو قیراط کی خبر دی جسے ابن عمر رضی الله عنہما نے روایت کی۔ (۲)ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہو سکتا ہے ، (۳)یہ ممکن ہے کہ دو قیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو ، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا، وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَكُلُوهُ، مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا، أَوْ ظُفُرًا، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ: أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ "، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، وَعَبَايَةُ، قَدْ سَمِعَ مِنْ رَافِعٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ أَنْ يُذَكَّى بِسِنٍّ، وَلَا بِعَظْمٍ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانور ذبح کرنے کے لیے) چھری نہیں ہے (تو کیا حکم ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو خون بہا دے ۱؎ اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اور ناخن کی ۲؎ تفسیر بیان کرتا ہوں: دانت، ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۳؎۔ محمد بن بشار کی سند سے یہ بیان کیا، سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے، اور عبایہ نے رافع بن خدیج سے اور رافع نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی، اس میں «عباية عن أبيه» کا ذکر نہیں ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے، عبایہ نے رافع سے سنا ہے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ دانت اور ہڈی سے ذبح کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۳ (۲۴۸۸) ، و ۱۶ (۲۵۰۷) ، والجہاد ۱۹۱ (۳۰۷۵) ، والذبائح ۱۵ (۵۴۹۸) ، و۲۳ (۵۵۰۹) ، و ۳۶ (۵۵۴۳) ، و ۳۷ (۵۵۴۴) ، صحیح مسلم/الأضاحي ۴ (۱۹۶۸) ، سنن ابی داود/ الضحایا ۱۵ (۲۸۲۱) ، سنن النسائی/الصید ۱۷ (۴۳۰۲) ، والضحایا ۲۰ (۴۴۰۸) ، و ۲۶ (۴۴۲۱) ، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۹ (۳۱۸۳) (تحفة الأشراف : ۳۵۶۱) ، و مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴۶۴) ، و (۴/۱۴۰، ۱۴۲) ویأتي برقم ۱۶۰۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس میں تلوار ، چھری ، تیز پتھر ، لکڑی ، شیشہ ، سرکنڈا ، بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔ ۲؎ : اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یا راوی حدیث رافع بن خدیج رضی الله عنہ کا ہے۔ ۳؎ : ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے ، نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا ، دانت و ناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو ، ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا "، حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیر مارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو" ۱؎۔ اس سند سے بھی رافع رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکر ہے کہ عبایہ نے اپنے والد سے روایت کی، یہ زیادہ صحیح ہے، ۱- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۲- اسی طرح شعبہ نے اسے سعید بن مسروق سے سفیان کی حدیث کی طرح روایت ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الدارمی/الأضاحي ۱۵ (۲۰۲۰) وانظر تخریج حدیث رقم ۱۴۹۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس پر "بسم اللہ" پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ ، کیونکہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے ، گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہو کر بھاگتا ہے۔ ۲؎ : یعنی : عبایہ کے والد کے تذکرہ کے بغیر ، جیسے سفیان نے روایت کی ہے۔