مناقب اصل میں منقبت کی جمع ہے۔ منقبت کے معنی ہیں فضیلت اور فضیلت اس اچھی خصلت و خصوصیت (تعریف کے کام) کو کہتے ہیں جس کے سبب اللہ کے نزدیک یا مخلوق کی نظروں میں شرف و عزت اور بلند قدری حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اصل اعتبار اسی شرف و عزت اور بلند قدری جو اللہ کے نزدیک حاصل ہو ، مخلوق کی نظر میں حاصل ہونے والی عزت و شرف اور بلند قدری کا کوئی اعتبار نہیں ، ہاں اگر یہ عزت و شرف اور بلند قدری اللہ کے نزدیک بلند قدر بنانے کا وسیلہ و ذریعہ بنتی ہو تو اس صورت میں اس کا بھی اعتبار ہو گا پس جب یہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص با فضیلت اور بلند قدر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے فکر و عقیدہ اعمال و کردار اور اخلاص و اخلاق کی بناء پر اللہ کے نزدیک بلند قدر ہے ، نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فضیلت و بلند قدری کی طرف نسبت اسی صورت میں معتبر ہے جب کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہو یعنی کسی بھی شخص کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ وہ ذی منزلت و بلند قدر ہے کوئی معنی نہیں رکھتا ، اسی شخص کو افضل اور بلند قدر کہنا معتبر ہو گا جس کی فضیلت و بلند قدری کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی سلسلہ در سلسلہ نقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہو۔
صحابی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے بہ حالت بیداری اپنی آنکھوں سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہا ہو اور ایمان ہی کی حالت میں یعنی دین واسلام پر اس کا خاتمہ ہوا ہو اگرچہ اس درمیان میں ارتداد بھی خلل انداز ہوا ہو جیسے اشعب یا اشعث ابن قیس کے بارے میں کہا جاتا ہے اور بعض حضرات نے صحابی ہونے کے لئے طول صحبت کو شرط قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک صحابی اسی مسلمان کو کہا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں کافی عرصہ تک رہا ہو، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اکتساب علم کیا ہو ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوات میں شامل ہوا ہو ان حضرات نے طول صحبت یا کافی عرصہ کی کم سے کم مدت چھ مہینہ بیان کی ہے لیکن اس چھ مہینہ کے تعین کی دلیل ان کے پاس کیا ہے یہ معلوم نہیں ، تاہم اس میں کوئی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس نے زیادہ سے زیادہ عرصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت و صحبت میں گزارا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوا اس کا مرتبہ ان لوگوں بہ نسبت یقیناً سوا ہے جنہیں زیادہ عرصہ کی خدمت و صحبت کا موقع نہیں ملا ،جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک نہیں ہوئے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک دور کی نظر سے دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کلام و گفتگو کی سعادت سے بہت کم سرفراز ہوئے یا جنہوں نے صرف طفولیت کے زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ، اگرچہ مجرد شرف صحبت سب کو حاصل ہے۔
جو بھی صحابی ہے اس کا صحابی ہونا تواتر کے ذریعہ جانا جاتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق کا صحابی ہونا تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ یا خبر مشہور کے ذریعہ جانا جاتا ہے یا کوئی صحابی اپنے غیر کے بارے میں بیان کرے کہ وہ صحابی ہے یا خود صحابی اپنے بارے میں کہے کہ میں صحابی ہوں بشرطیکہ وہ روایت کے سلسلہ معیار پر پورا اترتا ہو اور عادل ہو ویسے یہ بات ملحوظ رہے کہ کتاب و سنت اور اجماع معتبر سے واضح طور پر ثابت ہے کہ تمام صحابہ عدول ہیں۔
شرح السنۃ میں ابو منصور بغدادی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمارے تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین میں سب سے افضل خلفاء اربعہ ہیں اور ان میں بھی ترتیب کا اعتبار ہے یعنی سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں ، ان کے بعد حضرت عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت عثمان غنی اور ان کے بعد حضرت علی۔خلفاء اربعہ کے بعد سب سے افضل وہ تمام صحابہ ہیں جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ بدر میں شریک تھے ، ان کے بعد سب سے افضل وہ صحابہ ہیں جو جنگ احد میں شریک تھے ، ان کے بعد بیعت رضوان میں شریک صحابہ ، ان کے بعد وہ انصار صحابہ جنہوں نے دونوں مرتبہ بیعۃ العقۃ الاولیٰ اور بیعۃ العقۃ الثانیہ کے موقع پر مکہ میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی تھی۔ اسی طرح وہ صحابہ جن کو سابقون اولون کہا جاتا ہے یعنی جنہوں نے قبول اسلام میں سبقت کی اور ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہو گئے تھے اور جن کو دونوں قبیلوں یعنی بیت المقدس اور کعبہ مکرمہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑہنے کا موقع ملا ان صحابہ سے افضل ہیں جو ان کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کون دوسری سے افضل ہے اسی طرح حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں واضح رہے کہ حضرت معاویہ عدول اہل فضل اور خیار صحابہ میں سے ہیں ، ان کے بارے میں کوئی بھی برا خیال رکھنا یا ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنا جو مرتبہ صحابیت کے منافی ہو اسی طرح ممنوع جس طرح دوسرے صحابہ کے بارے میں۔ رہی یہ بات کہ بعض صحابہ کے درمیان جو باہمی نزع ہوا ، یا باہمی جنگ و جدل کے نوبت آئی تو اس پر بحث و تمحیص کرنا اور اس کوئی نتیجہ نکال کر کسی کی تنقیص کرنا ہمارا مقام نہیں ہے ، وہ سارے معاملات ان کے اپنے اجتہاد سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحابی ایسا نہیں تھا جس نے ان معاملات میں نفسانی تقاضوں یا دنیاوی اغراض کے تحت شرکت کی ہو ، وہ سب صحابہ اپنے اپنے موقف کے درست اور جائز ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے اور اپنی باہمی لڑائیوں اور تنازعات کی بنا پر ان میں سے کوئی عدول کے زمرہ سے خارج نہیں ہو گا اور نہ اس کی حیثیت اور اس کے مرتبہ میں کوئی نقص آیا ، مختصر یہ کہ اہل سنت و جماعت کا مسلک یہ ہے کہ ان کے بارے میں زبان کھولتے وقت محتاط رہا جائے ، ان کے حق میں منہ سے وہی بات نکالی جائے جو تعریف اور بھلائی کی ہو ، اگر ان میں سے کسی کے متعلق کوئی ایسی چیز منقول ہو جو بظاہر تعریف کے کام کے خلاف نظر آتی ہو تو اس سے نظر کیا جائے۔ دین و ایمان کی سلامتی اسی میں ہے۔
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میرے صحابہ کو برا نہ کہو ، حقیقت یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مد یا آ دھے مد کے ثو کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
تم کے مخاطب خود صحابہ میں کے بعض حضرات تھے ،جیسا کہ ایک روایت میں اس ارشاد گرامی کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت خالد ابن ولید اور حضرت عبد الرحمن ابن عوف کے درمیان کوئی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور حضرت خالد ابن ولید نے حضرت عبد الرحمن ابن عوف کو برا کہا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خالد ابن ولید وغیرہ کو خطاب کر کے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو پس میرے صحابہ سے وہ مخصوص صحابہ مراد ہیں جو ان مخاطب صحابہ یعنی حضرت خالد ابن ولید وغیرہ سے پہلے اسلام لائے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں تم کے ذریعہ پوری امت کو مخاطب کیا گیا ہو اور چونکہ نور نبوت نے پہلے ہی یہ دیکھ لیا تھا کہ آگے چل کر میری امت میں لوگ بھی پیدا ہوں گے ،جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہیں گے ، ان کی شان میں گستاخیاں کرے گے (جیسا کہ روافض و خوارج کی صورت میں مختلف گروہ ایک دوسرے کے ممدوح صحابہ کے حق میں سب و شتم کرتے ہیں) اس لے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی آئندہ نسلوں میں احترام صحابہ کے جذبات کو بیدار کرنے کے لئے حکم دیا کہ شخص میرے کسی صحابی کو برا نہ کہے۔
مد اس زمانہ کے ایک پیمانہ کا نام تھا جس میں سیر بھر کے قریب جو وغیرہ آتا تھا ، حدیث کے اس جزء کی مراد ان صحابہ کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کا تعین کرنا ہے کہ ان لوگوں کے کمال اخلاص و للٰہیت کی بناء پر ان کا چھوٹا سا نیک عمل اپنے بعد والوں کے اسی طرح کے بڑے سے بڑے نیک عمل پر بھاری ہے مثلاً اگر ان صحابہ میں سے کوئی شخص سیر بھر یا آدھ سیر جو وغیرہ خدا کی راہ میں خرچ کرے تو اس عمل پر ان کو جنتا ثواب ملتا ہے اتنا ثواب ان کے بعد والوں کو اس صورت میں بھی نہیں مل سکتا کہ اگر وہ اللہ کے راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دیں اور یہ اس وجہ ہے کہ اخلاص و صدق نیت اور جذبہ ایثار و للٰہیت کا جو کمال ان کے اندر تھا وہ بعد والوں کو نصیب نہیں ہو سکتا دوسرے یہ کہ ان کا مال خالص طیب و پاکیزہ ہوتا تھا ، اور ان کی اپنی حاجتیں و ضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کریں لیکن اس کے باوجود اپنی استطاعت کے مطابق وہ اللہ کی راہ میں خوش دلی کے ساتھ خرچ کرتے اور اپنی تمام ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیتے ، یہ تو ان کے راہ خدا میں خرچ کرنے کے اجر و ثواب کا ذکر ہے۔ اسی پر قیاس کر کے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انتہائی سخت حالات میں اللہ کے دین کا جھنڈا بلند کرنے اور اللہ کے رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے ریاضت و جاہدہ کے جن سخت ترین مراحل کو طے کیا۔ یہاں تک کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اس کی بناء پران کو کیا اجر و ثواب ملا ہو گا اور ان کے درجات و مراتب کس قدر بلند ہوئے ہوں گے۔ حدیث کے پہلے جزء سے اگرچہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد گرامی میرے صحابہ کو برا نہ کہو مخصوص اصحاب کے حق میں ہے لیکن اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو برا کہنا بطریق اولیٰ ممنوع ہے۔ کیونکہ حدیث اصل مقصد ان لوگوں کے حق میں بد گوئی اور بد زبانی سے اجتناب کی تلقین و ہدایت کرنا ہے۔ جن کو قبول اسلام میں سبقت کی فضیلت و برتری حاصل ہے اور جو اپنی اس فضیلت و برتری کو بناء پر بعد والوں کے لئے یقیناً واجب التعظیم ہیں۔علی ابن حرب طائی اور خثیمہ ابن سلیمان نے حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ
لاتسبوا اصحاب محمد فلمقام احدہم ساعۃ خیر من عمل احدکم عمرہ۔
اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو برا نہ کہو ،درحقیقت ان کو (اپنی عبادتوں کا) یہ مقام حاصل ہے کہ ان کا ساعت بھر کانیک عمل تمہارے پوری عمر کے نیک عمل سے بہتر ہے۔
اور عقیلی نے ضعفا میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
ان اللہ اختارلی اصحابا وانصار ا واصحارا وسیاتی قوم یسبونہم ولیستنقصونہم فلاتجالیسوہم ولاتشاربوہم ولا تواکلوہم ولاتناکحوہم۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور میرے لئے میرے اصحاب میرے انصار اور میرے قرابتدار تجویز و مقرر کئے گئے۔ اور (یاد رکھو،عنقریب کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو میرے صحابہ کو برا کہیں گے اور ان میں نقص نکالیں گے ، پس تم نہ ان لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اختیار کرنا نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔
شرح مسلم میں لکھا ہے جاننا چاہئے کہ صحابہ کرام کو برا کہنا جرم ہے اور اکبر فواحش (سخت بڑے گنا ہوں) میں سے ہے ہمارا اور جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ جو کوئی صحابہ کو برا کہے اس کو سزا دی جائے اور بعض مالکیہ نے کہا ہے کہ اس کو قتل کیا جائے ، اسی طرح کی بات طیبی نے بھی لکھی ہے اور قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ میں سے کسی کو بھی برا کہنا گناہ کبیرہ ہے اور ہمارے بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ جو شخص شیخین (یعنی ابوبکر و عمر) کو برا کہے وہ مستوجب قتل ہے۔ مشہور کتاب الاشباہ والنظائر کی کتاب السیر میں لکھا ہے جو بھی کافر اپنے کفر سے توبہ کر لے اس کے لئے دنیا و آخرت کے لئے معافی ہے۔ لیکن جو لوگ اس بناء پر کافر قرار پائے ہوں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو برا کہا تھا ، یا شیخین کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو برا کہا تھا یا سحر کاری کے مرتکب ہوئے تھے اور یا زندقہ میں مبتلا تھے ، اور پھر توبہ کرنے سے پہلے ان کو گرفتار کر لیا گیا ہو تو اب اگر وہ توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں ہو گی اور ان کو معافی نہیں ملے گی اسی طرح صاحب اشباہ علامہ زین ابن نجیم نے یہ بھی کہا ہے کہ ،شیخین کو برا کہنا یا ان کو لعنت کرنا کفر ہے اور جو شخص حضرت علی کو شیخین پر فضیلت دے وہ مبتدع ہے۔ اور مناقب کرداری میں لکھا ہے اگر وہ شخص (جو شیخین پر حضرت علی کی فضیلت کا قائل ہے) اور دونوں یعنی شیخین کی خلافت کا منکر بھی ہو تو اس کو کافر کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ ان دونوں سے دلی بغض و عناد رکھے تو بھی اس کو کافر کہا جائے گا۔ بایں سبب کہ اس نے ان ہستیوں سے قلبی بغض و عناد رکھا جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو قلبی محبت تھی ، ہاں اگر (یہ صورت ہو کہ) کوئی شخص (نہ تو شیخین پر حضرت علی کی فضیلت کا قائل ہے نہ شیخین کی خلافت کا منکر ہے نہ ان دونوں بغض و عناد رکھتا ہے اور نہ ان کو برا کہتا ہے مگر (شیخین کی بہ نسبت حضرت علی کے تئیں زیادہ پسندیدگی و گرویدگی اور محبت رکھتا ہے۔تو وہ محض اس بناء پر ماخوذ نہیں ہو گا۔ اس سلسلہ میں ان دونوں یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی تخصیص کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان دونوں کی فضیلت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث جس مخصوص طور سے منقول ہیں اس طرح سے کسی اور صحابی کے بارے میں منقول نہیں ہیں جیسا کہ آگے آنے ایک علیحدہ باب میں منقول احادیث سے واضح ہو گا یا وجہ تخصیص یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی خلافت پر مسلمانوں کا مکمل اجماع تھا ان کی قیادت و سربراہی کو کسی طرف بھی چیلنج نہیں کیا گیا ان کے برخلاف حضرت عثمان ہوں یا حضرت علی اور یا حضرت معاویہ وغیرہ دوسرے خلفاء ان کی خلافت پر اس درجہ کا اجماع نہیں تھا بلکہ ان میں سے ہر ایک کے زمانے میں بغاوت و خروج کا عمل ظاہر ہوا۔
حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ امامیہ کے لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے منکر ہیں اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو شخص خلافت صدیق کا انکار کرے وہ اجماع قطعی کا منکر قرار پاتا ہے اور اجماع قطعی کا منکر کافر ہو جاتا ہے چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے۔
الرافضی اذاکان یسب الشیخین ویلعنہا العیاذباللہ فہو کافر وان کان یفضل علیا کرم اللہ تعالیٰ وجہ علی ابی بکرلایکون کافر الکنہ مبتدع ولو قذف عائشۃ کفر باللہ
اور رافضی اگر شیخین کو برا کہے اور العیاذ باللہ ان کو لعنت کرے تو وہ کافر ہے۔ اور اگر حضرت ابو بکر صدیق پر حضرت علی کو فضیلت دے تو کافر نہیں ہوتا البتہ مبتدع قرار پاتا ہے ، نیز اگر وہ حضرت عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کو تہمت لگائے تو اللہ (نے حضرت عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کی جو تصدیق قرآن میں کی ہے اس) کا منکر ہو گا۔
اور فتاوی عالمگیری ہی میں یوں ہے
من انکرامامہ ابی بکر الصدیق فہو کافر علی قول بعضہم وقال بعضہم ہو مبتدع ولیس بکافر والصحیح انہ کافر کذلک من انکر خلافۃ عمر فی اصح الاقوال ویجب اکفار الروافض فی قولہم برجہۃالاموات الی الدنیا وتناسخ الارواح شخص نے ابوبکر کی امامت کبریٰ کا انکار کیا وہ بعض حضرات کے قول کے مطابق کافر ہے جب کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ مبتدع قرار پائے گا اس کو کافر نہیں کہیں گے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ وہ کافر ہے اسی طرح قول صحیح کے مطابق وہ شخص بھی کافر ہو جائے جو حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے گا نیز رافضیوں کو اس بناء پر کافر قرار دینا واجب ہے کہ وہ مردوں کے دنیا میں لوٹنے اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ امامیہ کے لوگ (یا روافض واہل تشیع) اگر صحابہ بالخصوص شیخین کو برا کہتے ہیں یا ان کی خلافت کے منکر ہیں تو اس کی وجہ سے ان کو کس دلیل سے کافر قرار دیا جاتا ہے؟ تو جاننا چاہیے کہ ان کے کفر کی ایک نہیں متعدد مضبوط دلائل و براہین ہیں ، پہلی بات یہ کہ صحابہ کرام اور اصل حاملان وحی ، راویان قرآن اور ناقلان دین و شریعت ہیں جو شخص ان صحابہ کی حقانیت و صداقت کا منکر ہو گا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قرآن وغیرہ ایمانیات متواترات کے ساتھ اس کا ایمانی تعلق قائم ہو اور جب قرآن وغیرہ سے اس کا ایمانی تعلق قائم نہیں ہو گا تو اس کو مؤمن کون نادان کہے گا دوسرے یہ کہ ان صحابہ کی حقانیت ، صداقت اور فضیلت کا شاہد خود قرآن کریم ہے ، نص قرآن کا منکر مؤمن ہرگز نہیں ہوتا دوسرے یہ کہ وہ احادیث جن میں حضرت علی کے علاوہ تینوں خلفاء راشد کے فضائل و مناقب بھی منقول ہیں ، ان کی تعداد ان گنت ہے نیز وہ حدیثیں تعدد طرق اور کثرت روات کے سبب متواتر بالمعنی قرار پائی ہیں پس ان احادیث و روایات کے مفہوم و معنی اور مدلول و مضمون کا انکار کفر کے زمرہ میں آتا ہے اور یہ ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس درجہ کی احادیث کے استناد و اعتبار ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ جو ائمہ مجتہدین میں نہایت اعلی مقام رکھتے ہیں خبر واحد کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ اقوال صحابہ کو بھی چہ جائیکہ متواتر بالمعنی کی حیثیت رکھنے والی احادیث۔
آئیے سب سے پہلے قرآن کریم کو دیکھے کہ اللہ کے کلام سے ہمیں صحابہ کے بارے میں اور صحابہ یا کسی صحابی رسول کو برا کہنے اور لعنت کر نے والوں کے بارے میں کیا رہنمائی ملتی ہے
(١) اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے اپنا راضی ہونا اور خوش ہونا بیان فرمایا ہے ،جیساہ اس آیت کریمہ ہے
(لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ) 48۔ الفتح:18)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے راضی و خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت (سمرہ) نیچے بیعت کر رہے تھے۔
ایک اور موقع پر یوں فرمایا گیا
والسابقون الاولون من المہٰجرین والانصار والانصار والذین اتبعوہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
اور جو مہاجرین و انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی و خوش ہوا۔
پس اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں جن لوگوں کی تعریف کرے ،جن سے رضا مندی و خوشنودی ظاہر کرے اور جن کے بلند و بالا مقام و مرتبہ کو واضح فرمائے ان پر یہ لوگ (روافض و شیعہ) لعنت کریں بلکہ ان کو غاصب اور کافر جانیں تو ان دونوں باتوں میں بالکل تضاد ہے لہذا یہ لوگ ان صحابہ کو برا کہہ کر اور ان کو لعنت کر کے چونکہ قرآن کی مخالفت کرتے ہیں اور قرآن کی مخالفت کرنے والا کافر ہوتا ہے اس لئے ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔
(٢) خلفاء راشدین کی خلافت قرآن کریم سے ثابت ہے ، بایں طور کہ ارشاد فرمایا گیا
(وَعَدَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہمْ) 24۔ النور:55)
(اے اہل ایمان تم میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو روئے زمین پر اقتدار و حکومت عطا فرمائے گا۔ مستند و معتبر مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے۔ کہ آیت خلفاء راشدین کی خلافت کے مبنی پر صداقت و صحت ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آیت میں مذکورہ وعدہ کے مطابق جن لوگوں کو روئے زمین پر حکومت و اقتدار نصیب ہوا اور جو اس آیت کے مطابق ایمان و عمل صالح کے حامل تھے وہ یہی خلفائے راشدین ہیں۔ پس جو لوگ ان کی خلافت کو صحیح اور برحق نہ مانیں وہ قرآن کریم کی تردید و تغلیظ کرنے کے سبب دائرہ ایمان سے خارج قرار پائیں گے۔ کیونکہ اسی آیت میں آگے چل کر یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ (وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْفٰسِقُوْنَ) 24۔ النور:55)، یعنی : جنہوں نے کفر کیا (کہ اللہ کے اس وعدہ کو یا وعدہ کے ظہور کو برحق نہ جانا) تو فاسق ہیں اور چونکہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد فاسق کامل ہوتا ہے اور فاسق کامل کافر کو کہتے ہیں اس لئے وہ فاسق ہیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہیں اس بات کی دلیل کہ قرآن کی اصطلاح میں فاسق سے مراد فاسق کامل ہوتا ہے ، یہ آیت ہے
(وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہ فَاُولٰۗىِٕكَ ہمُ الْفٰسِقُوْنَ) 5۔ المائدہ:47)
(٣) قرآن کریم نے صحابہ کو صادق یعنی سچا کہا ہے جیسا کہ آیت میں مذکور ہے
(لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہمْ وَاَمْوَالِہمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہ وَرِضْوَاناً وَّيَنْصُرُوْنَ اللّٰہ وَرَسُوْلَہ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہمُ الصّٰدِقُوْنَ) 59۔ الحشر:8)
اور ان حاجت مند مہاجرین کا (بالخصوص) حق ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے (جبراً و ظلماً) جدا کر دئے گئے ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی جنت) اور رضامندی کے طالب ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول (کے دین) کی مدد کرتے ہیں اور یہی لوگ سچے ہیں۔
تمام صحابہ حضرت صدیق اکبر کو یا خلیفۃ اللہ کہہ کر مخاطب کرتے تھے لیکن شیعہ ان کا کاذب یعنی جھوٹا کہتے ہیں ظاہر ہے کہ صادق اور کاذب کے درمیان صریح فرق ہے پس جو شخص ان کو کاذب کہتا ہے وہ دراصل قرآن کریم کی تردید اور مخالفت کرتا ہے اور یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے۔
(٤) صحابہ کرام فلاح یاب ہیں اور ان کا فلاح یاب ہونا نص قرآن سے ثابت ہے کہ ان کے حق میں اولئک ہم المفلحون (اور یہی لوگ فلاح یاب ہیں) فرمایا گیا ہے پس جو لوگ اس نص قرآن کے خلاف ان کو یہ کہیں کہ اولیک ہم الخاسرون (یہی لوگ بے فلاح و ناکام ہیں تو ان مخالفین قرآن کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا۔
(٥) اللہ تعالیٰ نے کثرت سے اپنے کلام شریف میں ان صحابہ کی خوبیاں بیان فرمائی ہیں اور جا بجا تعریف و توصیف کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے مثلاً ایک موقع پر ارشاد ہوا
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (وَالَّذِيْنَ مَعَہٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہمْ تَرٰىہمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہ وَرِضْوَاناً ۡ سِيْمَاہمْ فِيْ وُجُوْہہمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہمْ فِي التَّوْرٰىةِ ٻوَمَثَلُہمْ فِي الْاِنْجِيْلِ ۾ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطَْٔہ فَاٰزَرَہ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہمُ الْكُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْراً عَظِيْماً) 48۔ الفتح:29)
محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں تیز اور آپس میں مہربان ہیں اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے کبھی سجدہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ کے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں یہ ان کے اوصاف توریت میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ہے کہ جیسے کھیتی اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو قوی کیا پھر وہ اور موٹی ہوئی پھر اپنے سے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی۔تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ سے کہ جو ایمان لائے ہیں اور نیک کام کر رہے ہیں مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔
پس ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے قائم کی جا سکتی ہے جو قرآن کریم کی اتنی زبردست شہادت کے باوجود صحابہ رسول کو برا کہیں اور ان کو ملعون قرار دیں۔ نیز اس آیت میں صحابہ کا جو وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں تو تیز و سخت ہیں لیکن آپس میں نرم و مہربان ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص صحابہ کو آپس میں بے الفت و بے مہر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والا جانے (جیسا کہ شیعوں کا کہنا ہے) تو قرآن کا منکر ہے اسی طرح جو صحابہ سے بغض وحسد رکھے اور ان کے تئیں غیظ و غضب میں مبتلا ہو تو خود اس پر کفر کا اطلاق مذکور ہے کیونکہ لیغیظ بہم الکفار (تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے) کا واضح مطلب یہی ہے۔ کہ صحابہ کے تئیں غیظ و غضب کا اظہار اور ان سے غصہ کرنا کافروں کا کام ہے اس آیت سے ان لوگوں کی بھی تردید و تغلیط ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں گو اچھے عقائد و اعمال کے حامل تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد بد دین ہو گئے تھے ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ انہی کے لئے ہوتا ہے جو مرتے دم تک ایمان اور عمل صالح پر قائم رہیں ، ان صحابہ کے حق میں اس وعدے کا نازل ہونا خود اس بات کی علامت تھا کہ (ان کو دم آخر تک ایمان اور عمل صالح کی توفیق حاصل رہے گی اب اگر کوئی شخص ان کے بارے میں ایسی بے تکی بات کہتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ نص قرآن کے خلاف بات کہتا ہے بلکہ العیاذ باللہ ، حق تعالیٰ کی طرف جہل اور لاعلمی کی نسبت بھی کرتا ہے۔
(٦) جس ہستی نے مخلفین اعراب (پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں) کو جہاد کے لئے بلایا وہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ہیں اس بات پر نہ صرف یہ کہ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے بلکہ خود شیعوں کو بھی انکار و اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مخلفین اعراب کے سلسلہ میں قرآن کریم نے جو یہ فرمایا تھا
(قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَہمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ۚ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللّٰہ اَجْراً حَسَناً ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً اَلِيْماً) 48۔ الفتح:16)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم لوگ ایسے لوگوں (سے لڑنے) کی طرف بلائے جاؤ گے جو سخت لڑنے والے ہوں گے کہ یا تو ان سے لڑتے رہو یا وہ مسلمان ہو جائیں سو اگر تم اطاعت کرو گے تو تم کو اللہ تعالیٰ نیک عوض (یعنی جنت) دے گا اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے قبل روگردانی کر چکے ہو تو درد ناک عذاب کی سزا دے گا۔
تو اس آیت میں مذکور پیشین گوئی کے مطابق ان مخلفین اعراب کو دشمنان اسلام کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے زمانہ خلافت میں بلایا بایں اعتبار اس آیت سے نہ صرف یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم ، ابن قتیبہ ، شیخ ابو الحسن اور امام ابو العباس وغیرہم نے وضاحت کی ہے بلکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ جہاد کے لئے ان کے بلاوے سے روگردانی کرنے والا عذاب الیم کا مستوجب ہو گا پس جس ہستی کے بارے میں قرآن کریم سے اتنی بڑی بات ثابت ہوتی ہو اس پر لعنت کرنے والوں اور اس کو کافر کہنے والوں کو اپنے حشر سے ڈرنا چاہیے۔
(٧) ان صحابہ کا جنتی ہونا نصوص قطعیہ سے ثابت ہے جیسا کہ ایک موقع پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے
(لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلّاً وَّعَدَ اللّٰہ الْحُسْنٰى) 57۔ الحدید:10)
تم میں سے جو لوگ فتح مکہ سے پہلے (فی سبیل اللہ) خرچ کر چکے اور لڑ چکے برابر نہیں ، وہ لوگ درجہ میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد میں خرچ کیا اور لڑے اور (ویسے تو) اللہ تعالیٰ نے بھلائی (یعنی جنت) کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے۔ پس ان صحابہ کے جنتی ہونے کا انکار نصوص کے انکار کو مستلزم ہے اور یہ کفر ہے
(٨) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے
(ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ ہمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہ مَعَنَا) 9۔ التوبہ:40)
(مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے موقع پر) دو آدمیوں میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ و سلم تھے جس وقت کہ دونوں (ثور) غار میں تھے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے تم غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں جس ہستی کا ذکر اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھی اور جاں نثار کی حیثیت سے کرے ، اس کو برا کہنے والوں کا انجام کیا ہو گا اس کا اندازہ خود لگا لینا چاہئے۔
(٩) قرآن کریم کی اس آیت
(وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ) 24۔ النور:22)
اور جو لوگ تم میں (دینی) بزرگی والے اور (دنیاوی) وسعت والے ہیں۔
میں جس ہستی کی طرف اشارہ مقصود ہے وہ حضرت ابوبکر کی ذات ہے جیسا کہ محقق مفسرین اور علماء اسلام نے وضاحت کی ہے پس ان کے فضل کا انکار کرنا قرآن کریم کا صریح رد کرنا ہے۔
(١٠) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
(وَسَيُجَنَّبُہا الْاَتْقَى 17ۙ الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَہ يَتَزَكّٰى 18ۚ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓى 19ۙ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہ رَبِّہ الْاَعْلٰى 20ۚ وَلَسَوْفَ يَرْضٰى 21ۧ ) 92۔ الیل:17 تا 21)
اور اس (دوزخ سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے ،جو اپنا مال(محض) اس غرض سے دیتا ہے کہ (گناہوں سے) پاک ہو جائے اور بخیر اپنے عالی شان پروردگار کی رضا جوئی کے اس کے ذمہ کسی نہ تھا اس کا بدلہ اتارنا مقصود ہوتا اور یہ شخص عنقریب خوش ہو جائے گا (یعنی آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ملیں گی)۔
یہ آیتیں بھی حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں ہیں حضرت علی کی شان میں نہیں ہو سکتیں ، چنانچہ ماہرین تفسرین نے اسی حقیقت کے پیش نظر ان آیتوں کا محمول و مدلول حضرت ابوبکر قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آیتوں کا شان نزول حضرت ابوبکر صدیق کا واقعہ ہے کہ انہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے بڑی مقدار میں اپنا مال خرچ کر کے حضرت بلال وغیرہ کو کافروں سے خریدا اور آزاد کر دیا پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ بڑا پرہیزگار بتائے وہ رحمت و رضوان کا مستحق ہو گا یا لعنت وخذلان کا مستوجب؟ اب صحیح احادیث کو دیکھنا چاہیے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے ، روافض کا کفر یا ایمان؟واضح رہے کہ یہاں چند ہی احادیث پراکتفاکیا جائے گا جب کہ اس سلسلہ میں بے شمار حدیثیں منقول ہیں
عن عوبمر ابن ساعدۃ انہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان اللہ اختارلی واختارلی اصحابا فجعل لی منہم وزراء وانصار ا واصہارا فمن سبہم فعلیہم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ولایقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔ (محاملی ، طبرانی ، حاکم :)
عویمر ابن ساعدہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے رفقاء اور ساتھی بھی منتخب فرمائے اور پھر ان رفقاء میں سے کچھ کو میرا وزیر، کچھ کو میرا مدد گار اور کچھ کو میرا رشتہ دار بنایا پس جس شخص نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں ، کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ، اللہ تعالیٰ نہ تو اس کی توبہ قبول کرے گا اور نہ اس کا فدیہ یا یہ کہ نہ نفل اس کا مقبول ہو گا نہ فرض۔
عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال سیاتی من بعدی قوم یقال لہم الرفضۃ فان ادرکتہم فاقتلہم فانہم مشرکون قال قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ما العلامۃ فیہم قال یفرطونک بما لیس فیک ویطعنون علی السلف (دارقطنی)
حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : عنقریب میرے بعد ایک گروہ پیدا ہو گا جن کو رافضی کہا جائے گا پس اگر تم ان کو پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کی پہچان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ لوگ تمہیں ان چیزوں کے ذریعہ نہایت اونچا دکھائیں گے جو تم میں نہیں ہوں گی اور صحابہ پر لعن طعن کریں گے ، اور دارقطنی ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ۔
وذلک یسبون ابابکر وعمر ومن سب اصحابی فعلیہ لعنت اللہ والملئکۃ والناس۔
اور ان لوگوں کو مشرک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ابوبکر صدیق کو برا کہیں گے اور جس شخص نے میرے صحابہ کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور لوگوں کی لعنت۔
اسی طرح کی روایت حضرت انس ، حضرت عیاض انصاری ، حضرت جابر ، حضرت حسن ابن علی ، حضرت ابن عباس ، حضرت فاطمہ زہرا ، اور حضرت ام سلمہ سے بھی منقول ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
من ابغضہم فقد ابغضنی ومن اذا ہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ۔
جس شخص نے صحابہ کو دشمن رکھا اس نے درحقیقت مجھ دشمن رکھا ، اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے درحقیقت مجھ کو ایذاء پہنچائی اور جس اس نے درحقیقت اللہ ایذاء پہنچائی۔
ابن عساکر نے یہ حدیث نقل کی ہے کی :۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال حب ابی بکر وعمر ایمان وبغضہما کفر۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابوبکر و عمر کو دوست و محبوب رکھنا ایمان ہے اور ان دونوں سے بغض و عناد رکھنا کفر ہے۔
عبد اللہ ابن احمد نے حضرت انس سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ
انی لارجولامتی فی حبہم لابی بکر وعمر ماارجولہم فی قول لاالہ الا اللہ۔
بلاشبہ میں اپنی امت کے لئے ، ان کی اس محبت کے عوض کہ جو وہ ابوبکر و عمر کے تئیں رکھیں گے ، اس چیز کی امید رکھتا ہوں جو ان کے لئے کلمہ لاالہ الا اللہ کے عوض مقرر ہے۔
نیز محبت اور بغض کے درمیان چونکہ تناقض ہے اس لئے جب ابوبکر و عمر سے محبت رکھنے کا یہ حال معلوم ہوا کہ اس کا اجر سلامتی ایمان اور دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کی صورت میں ہے تو منطقی طور پریہ نتیجہ نکلا کہ ان سے بغض و نفرت رکھنا کفر اور اس کا انجام دنیا و آخرت میں ذلت و تباہی کی صورت میں ہے۔
ان احادیث کے بعد اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس بارہ میں ائمہ دین اور رہنمایان شریعت کے ارشادات و اقوال کیا ہیں پہلے اس اصول کو ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ تکفیر مؤمنین یعنی کسی مؤمن و مسلمان کو کافر کہنا بجائے خود کفر ہے کیونکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ جو شخص کسی کو کافر کہے یا عدو اللہ (اللہ کا دشمن) کہے اور حقیقت میں وہ ایسا نہ ہو تو کفر لوٹ کر خود کہنے والے پر آ جاتا ہے پس صحابہ کا مومن و مسلمان ہونا چونکہ قطعی ہے اس لئے جو شخص ان کو کافر کہے گا وہ کفر خود اسی پر لوٹ جائے گا یہاں یہ بات ذکر کر دینا موزوں ہے کہ روافض نہ صرف یہ کہ تکفیر صحابہ اور غذف عائشہ صدیقہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں چیزوں کو ، کہ جو اعظم موجبات کفر میں سے ہیں ، ترقی درجات کا سبب بھی مانتے ہیں حالانکہ یہ سب کے نزدیک مسلمہ ہے کہ محض استحلال معصیت ہی کفر ہے چہ جائیکہ کفر کو ترقی درجات کا موجب مانا جائے۔
امام ابوزرعہ نے جو امام مسلم کے جلیل القدر شیوخ میں سے ہیں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیض و توہین کرے تو بلاشبہ وہ زندیق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حق ہے اور رسول جو کچھ (دین و شریعت) لے کر آئے وہ حق ہے نیز ان سب (قرآن اور دین و شریعت) کو نقل اور ہدایت کے ذریعہ ہم تک پہنچانے والے ان صحابہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے پس جس شخص نے ان صحابہ میں عیب و نقص نکالا اس نے دراصل کتاب و سنت کو باطل اور لغو قرار دینے کا ارادہ کیا۔ اس اعتبار سے سب سے بڑا عیب دار اور ناقص خود وہی شخص قرار پائے گا اور اس پر زندقہ و ضلالت کا حکم راست و درست آئے گا۔
حضرت سہل ابن عبداللہ تستری کا قول ہے ، اس شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے والا ہرگز نہیں کہا جا سکتا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی توقیر نہ کی۔
محیط میں حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ رافضیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کے منکر ہیں۔
خلاصہ میں لکھا ہے : من انکرخلافۃالصدیق فہو کافر یعنی جس شخص نے ابوبکر صدیق کی خلافت کا انکار کیا وہ کافر ہیں مرغینانی میں مذکور ہے اہل ہواء اور مبتدعین کے پیچھے نماز مکروہ ہے جب کہ رافضیوں کے پیچھے نا جائز ہے۔
قاضی نے شفاء میں لکھا ہے کہ حضرت ابن انس وغیرہ کا قول ہے
من ابغض الصحابۃ وسبہم فلیس لہ فی المسلمین حق۔
جس شخص نے صحابہ سے بغض رکھا اور ان کو برا کہا اس کا مسلمانوں کے مال فے میں کوئی حق نہیں۔
انہی کا یہ قول بھی ہے کہ
من غاظہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم فہو کافر قال اللہ تعالیٰ (لِيَغِيْظَ بِہمُ الْكُفَّارَ) 48۔ الفتح:29)
جس شخص نے اصحاب محمد کے تئیں بغض و غصہ رکھا ، وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد تاکہ ان سے کافروں کو غصہ دلائے کے بموجب کافر ہے۔
قاضی ابوبکر باقلانی نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے اور بیہقی نے امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی ایسا ہی قول نقل کیا ہے بلکہ فقہائے حنفیہ نے شیعوں کو جو کافر کہا ہے اس کی بنیاد حضرت امام اعظم ہی کا قول ہے یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ شیعوں اور رافضیوں کے معتقدات کو سب سے زیادہ جاننے والے حضرت امام اعظم ہی ہیں کیونکہ وہ کوفی ہے اور رفض و تشیع کا اصل منبع و مرکز کوفہ ہی رہا ہے۔ پس اگر امام اعظم نے خلافت صدیق کے منکر کی تکفیر کی ہے تو حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق یا کسی بھی صحابی کو لعنت کرنے والا ان کے نزدیک بدرجہ اولیٰ کافر ہو گا۔
حضرت امام مالک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی مثلاً حضرت ابوبکر کو یا حضرت عمر کو اور یا حضرت عثمان کو برا کہنے والے کے بارہ میں حکم بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ
فان قال کانوا علی ضلال اوکفر قتل۔
اگر وہ شخص یہ کہے کہ وہ (صحابہ) گمراہ تھے یا کافر تھے تو اس شخص کو قتل کیا جائے۔
حضرت امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول و ارشادات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی روافض کے ارتداد کے قائل تھے ، بہرحال روافض کے کفر کی یہ چند دلیلیں ہیں ، اگرچہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں درازی کے خوف سے انہی چند دلائل کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ عام مسلمان بھائی شک و شبہ کا شکار نہ رہیں ان کو صحابہ کی عظمت اور ان کو برا کہنے والوں کی برائی معلوم ہو جائے۔ رافضیوں کے فریب سے ہوشیار رہیں ، اپنا عقیدہ خراب نہ کریں ، ان کے میل جول سے اجتناب کریں اور ان کے ساتھ رشتہ ناتہ جوڑنے سے بھی باز رہیں ، اور اگر صحابہ کے فضائل و مناقب سے متعلق ان آیات و احادیث کو دیکھ کر شاید کسی شیعہ کو توفیق الہٰی نصیب ہو جائے تو وہ توبہ کر کے اپنی عاقبت درست کر لے۔
ہو سکتا ہے کوئی رافضی یہ اعتراض کرے کہ مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں اس بات کو آسان نہیں بتایا گیا ہے کہ شیخین کو برا کہنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے ، نیز صاحب جامع الاصول اور صاحب مواقف نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے ، اسی طرح ابو الحسن اشعری اور امام غزالی نے بھی اس کو مناسب نہیں سمجھا کہ اہل قبلہ کو کافر کہا جائے ، لہذا جو لوگ شیعوں کو کافر کہتے ہیں ان کا قول سلف اہل سنت کے موافق نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ ان بزرگان امت اور اساطین علم نے شیعوں کی تکفیر میں احتیاط کا دامن تھاما ہے اور اس فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں تامل کیا ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان حضرات نے شیعوں کے تمام عقائد و نظریات اور ان کے احوال و معاملات پوری طرح جاننے کے باوجود ان کی تکفیر سے اعراض کیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کے ذہن میں شیعیت کا مسئلہ پوری طرح واضح نہیں تھا اور شیعوں کے بارے میں اسی خیال و نظریہ کا اظہار کیا جو ان کے اس وقت کے علم اور معلومات کے مطابق اور اس طرح کی بہت نظیریں ملتی ہیں کہ جلیل القدر صحابہ تک کو بعض مسائل میں اشتباہ ہوا اور ان کا قول یا عمل ان کے مسائل کے حقیقی پہلو سے مختلف ظاہر ہوا مثال کے طور پر حضرت عبداللہ ابن مسعود کو نماز میں اطباق یدین کے مسئلہ میں اشتباہ کا ہونا یا حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بیع امہات اولاد کے اور زندیقوں کو آگ میں جلا دینے کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا اور یا حضرت عمر فاروق کو جنبی کے تیمم کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا پس مذکورہ بالا بزرگوں کی نظر، محض اس بات پر گئی کہ شیعہ اہل قبلہ اور کلمہ گو ہیں اور اسی بناء پر انہوں نے ان کی تکفیر سے احتیاط برتی ، اگر ان کے علم میں شیعوں کے وہ تمام عقائد اور حالات تفصیل کے ساتھ آ جاتے جوان کے اہل قبلہ اور کلمہ گو ہونے کے صریح منافی ہیں اور جو کسی بھی شخص کی تکفیر کے لئے واضح ثبوت اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں تو یقیناً وہ بزرگ بھی ان کی تکفیر کے قائل ہوتے جب خلیفۃ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق نے زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کرنے والے کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اور حضرت علی نے ان لوگوں کے کلمہ گو ہونے ہی کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کی سفارش کی اور کہا کہ ہم ان لوگوں کے خلاف جنگ و قتال کیسے کر سکتے ہیں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے
امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ۔
مجھے (پروردگار کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لاالہ الا اللہ کہیں۔
حضرت ابوبکر نے پورے عزم کے ساتھ جواب دیا کہ میں ہر اس شخص کے خلاف جنگ و قتال کروں گا جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے گا (اور اس کی کلمہ گوئی میرے ارادہ میں حائل نہیں ہو گی) حضرت عمر بولے میں نے دیکھ لیا کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شرح صدر عطا فرما دیا ہے اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حق وہی ہے جو ابوبکر کہہ رہے ہیں یہ بھی احتمال ہے کہ محولہ بالا بزرگوں نے اپنے اقوال و نظریات کا اظہار ان شیعوں کے بارہ میں فرمایا ہو جو اس زمانہ میں ایسے برے اور فاسد عقائد و احوال نہیں رکھتے تھے جیسے بعد میں شیعوں اور رافضیوں نے اختیار کر لئے۔ اس کی تائید مرقاۃ میں ملا علی قاری کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ
قلت وہذا فی حق الرافضۃ والخارجۃ فی زماننا کانہم یعتقدون کفر اکثر اکابر الصحابۃ فضلا من سائر اہل السنۃ والجماعۃ فہم کفر بالاجماع بلانزاع۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بات ہمارے زمانہ کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ میں سے اکثر کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور تمام اہل سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اور حضرت ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت ابو موسیٰ نے بیان کیا کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر (وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے اور پھر فرمایا، ستارے آسمان کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جس وقت یہ ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان کے لئے وہ چیز آ جائے گی جو موعود و مقدر ہے ، میں اپنے صحابہ کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہوں ،جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امن و سلامتی کا باعث ہیں جب میرے صحابہ (اس دنیا سے) رخصت ہو جائیں گے تو میری امت پر وہ چیز آ پڑے گی جو موعود و مقدر ہے۔ (مسلم)
تشریح
ستارے کا لفظ سورج اور چاند کو بھی شامل ہے۔ اور ستاروں کے جاتے رہنے سے مراد سورج ، چاند اور تمام ستاروں کا بے نور ہو جانا ٹوٹ پھوٹ کر گر پڑنا اور معدوم ہو جانا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔
اذا الشمس کورت واذا النجوم انکدرت۔
جب (قیامت کے دن) آفتاب بے نور ہو جائے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔
آسمان کے لئے جو چیز موعود و مقدر ہے سے مراد قیامت کے دن آسمانوں کا پھٹ جانا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روئی کے گالوں کی طرح اڑنا ہے ، اس کی خبر قرآن کریم نے اذا السماء انطفرت (جب آسمان پھٹ جائے گا) اور اذا السماء انشقت (جب آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا) الفاظ میں دی ہے۔
صحابہ کے لئے موعود و مقدر چیز سے مراد فتنہ و فساد ، اختلاف و نزاعات باہمی جنگ و جدل اور بعض اعرابی قبائل کا مرتد ہو جانا اسی طرح امت کے لئے موعود و مقدر چیز سے مراد بد اعتقادی و بد عملی کے فتنوں کا امنڈ پڑنا ، بدعات کا زور ہو جانا ، مسلمانوں پر دینی و ملی سانحات و حادثات کا واقع ہونا، اہل خیر و برکت کا اس دنیا سے اٹھ جانا، اہل شر کا باقی رہنا اور ان (اہل شر) پر قیامت قائم ہونا ، پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل خیر کا وجود شر کے راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، جب اہل خیر اٹھ جاتے ہیں تو شر کو در آنے کا موقع مل جاتا ہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے شر سے حفاظت کا مکمل ضامن تھا، کسی بھی معاشرے میں فتنہ کی ابتداء مختلف الذہن اور مختلف الخیال لوگوں کی باہمی آویزش اور ایک دوسرے کے خلاف رائے ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وہ پہلو بیان فرما دیتے جو حقیقت کے مطابق ہوتا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اسی پر جم جاتے تھے۔ اسی صورت میں کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا ،جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو صورت حال مختلف ہو گئی۔صحبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محروم مسلمانوں کی کثرت ہوتی گئی خود رائی کا رجحان پیدا ہونے لگا، اور چونکہ اس خود رائی کی بنیاد ذاتی اغراض اور نفسیاتی خواہشات ہوتی تھی اس لئے فتنہ و فساد جنم لینے لگے ، وہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی تعداد موجود تھی جو کسی بھی معاملہ میں اپنی ذاتی خواہش اور رجحان کو اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ ہر معاملہ اور ہر مسئلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول یا فعل اور یا دلالت حال سے استناد کرتے تھے اور ذات رسالت پناہ کی صحبت و رفاقت کے انوار سے بھر پور تھے ، اس لئے ان کا وجود بہرحال اتنا باعث خیر و برکت تھا کہ فتنوں اور برائیوں کے اندھیرے زیادہ پھیلنے نہیں پائے لیکن جب ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود بھی اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو انوار و برکات میں بہت ہی کمی آ گئی اور تاریکیوں کو بڑھنے پھیلنے کا موقع مل گیا۔ اسی حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ستاروں اور آسمان کی مثال کے ذریعہ پہلے سے بیان فرما دیا تھا کہ یہ ایسا ہی ہے جسے کہ آسمان کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک چاند سورج اور ستارے اپنی ضیا پاشیوں کے ساتھ موجود ہیں جب یہ ستارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان کے وجود کے خاتمہ کا وقت آ جائے ، اور جب آسمان کا وجود ختم ہو جائے گا تو پوری کائنات اپنے عدم کی تاریکی میں گم ہو جائے گی۔ پس صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین ان ستاروں کی مانند ہیں جن کے وجود سے کائنات کو روشنی ملتی ہے اور اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم۔
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں جس کی بھی اقتدا کرو گے راہ یاب ہو گے۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کرنے نکلے گی ، اور پھر وہ لوگ (آپس میں) ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ وہ لوگ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان صحابی رسول موجود ہیں) پس ان لوگوں کے لئے قلعہ و شہر کے دروازے وا ہو جائیں گے (یعنی صحابہ کی برکت و شوکت سے دشمنوں کے مقابلہ پر ان کو فتح حاصل ہو گی) پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہے (جس کو تابعی کہتے ہیں) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تابعی موجود ہیں) پس (تابعی کی برکت سے) ان کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے واہو جائیں گے پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے گی اور پھر وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے صحبت یافتہ حضرات کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ (جس کو تبع تابعی کہتے ہیں) وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں (ہمارے درمیان تبع تابعی موجود ہیں) پس (تبع تابعی کی برکت سے) ان لوگوں کے لئے قلعہ وشہر کے دروازے واہو جائیں گے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت لوگوں میں سے ایک لشکر (دشمنوں کے مقابلہ پر لڑنے کے لئے) بھیجا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کوئی موجود ہے یا نہیں؟(تلاش کرنے کے بعد) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک صحابی موجود ہیں پس (ان صحابی کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔ اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک دوسرا لشکر (کسی دوسرے علاقہ میں دشمنوں کے مقابلہ پر) روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ اہل لشکر کے آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو ، تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک ایسے شخص یعنی تابعی موجود ہیں۔ پس(ان تابعی کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک تیسرا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایسے شخص موجود ہیں پس (ان کی برکت سے) اس لشکر کوفتح حاصل ہو گی۔ پھر اس کے بعد (اگلے زمانہ میں) ایک چوتھا لشکر روانہ کیا جائے گا اور پھر وہ لشکر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ذرا دیکھو تمہارے درمیان کوئی ایسا لشکر موجود ہے یا نہیں جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھنے والے کسی شخص کو دیکھا ہو؟(تلاش کرنے پر) پتہ چلے گا کہ (لشکر میں) ایک ایسے شخص موجود ہیں : پس (ان کی برکت سے) اس لشکر کو فتح حاصل ہو گی۔
تشریح
ان دونوں روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس معجزہ کا ذکر تو ہے ہی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی حقیقت کی پیش بیانی فرمائی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تین یا چار قرنوں (زمانوں) میں وقوع پزیر ہونے والی تھی اس کے ساتھ ہی ان روایتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ تابعین تبع تابعین اور تبع تابعین کے فضلیت اور ان کا باعث خیر و برکت ہونا بھی مذکور بھی ہے ، ان دونوں روایتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں تو تین فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین کا ذکر ہے جب کہ مسلم کی دوسری روایتوں میں چار فرقوں یعنی صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، اور تبع اتباع تابعین کا ذکر ہے ، اور بخاری کی بھی ایک صحیح روایت میں جو حدیث خیرالقرون سے متعلق ہے چار قرنوں کا ذکر ہے چونکہ اس درجہ کے اہل خیر چوتھے قرن میں نادر و کمیاب تھے اور پہلے تین قرنوں میں اہل خیر و برکت اور اہل علم و دانش کی کثرت تھی ، کوتاہ بینی ، ناسمجھی اور فتنہ و فساد کی راہ مسدود تھی اس لئے اکثر روایتوں میں تین ہی قرنوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ
خیرالناس القرن الذی انافیہ ثم الثانی ثم الثالث۔
(آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے اور پھر تیسرے زمانہ کے لوگ۔
طبرانی نے حضرت ابن مسعود سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ
خیرالناس قرنی ثم الثانی ثم الثالث ثم تجئی قوم لاخیر فیہم۔(طبرانی)
بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر دوسرے زمانہ کے لوگ پھر تیسرے زمانے کے لوگ اور پھر جو قوم آئے گی اس سے (پہلے زمانے جیسے) بہترین لوگ نہیں ہوں گے۔
جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کو دیکھا ہو یہ مسلم کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تابعی ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے صحابہ کو دیکھا جیسا کہ صحابی ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہو لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ صحابی ہونے کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی ہو لیکن تابعی ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کو صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی صحبت و ملازمت بھی نصیب ہوئی ہو جیسا کہ پہلی روایت میں شرف صحبت کا ذکر ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہاں صحابہ کو دیکھا ہو سے مراد یہ ہے کہ وہ صحابہ کی صحبت میں رہا ہو۔
٭٭حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں فرماتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی (یعنی درمیانی نماز) ظہر کی نماز ہے۔ اس روایت کو امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صرف حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دونوں (یعنی حضرت زید و حضرت عائشہ) سے بطریق تعلیق یعنی بلا سند روایت کیا ہے۔
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ صلوٰۃ وسطی سے ظہر کی نماز اس لیے مراد لیتے تھے کہ یہ نماز دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے۔
اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز سویرے (یعنی دن ڈھلتے ہی) پڑھ لیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام پر ان تمام نمازوں میں جو وہ پڑھتے تھے ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی) 2۔ البقرۃ:238) یعنی! تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت کرو۔ اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور بعد بھی دو نمازیں ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری جز سے راوی کا مقصد یہ ہے کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ لہٰذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ثابت کرنا کہ درمیانی نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے ان کا اپنا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس لیے ان کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے متعارض نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو صراحت کے ساتھ فرما دیا ہے۔ کہ درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔
٭٭اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت اب عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کہا کرتے تھے کہ درمیانی نماز (سے مراد) صبح کی نماز ہے۔ (موطا امام مالک) اور یہ روایت حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق تعلیق نقل کی ہے۔
تشریح
یہ بھی ان دونوں حضرات کا اپنا اجتہاد ہے کہ ان حضرات تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث نہ پہنچی ہو گی اس لیے انہوں نے بطریق احتمال کہا کہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے۔
بہر حال۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہی ہے یہ درمیانی نماز سے مراد صبح کی نماز ہے مگر حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو شافعی المسلک ہیں فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں صحیح احادیث منقول ہیں کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے۔
گو حضرت ماوردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو شوافع کے ائمہ میں شمار کئے جاتے ہیں یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ تصریح کر دی ہے کہ صبح کی نماز درمیانی نماز ہے۔ تاہم ان صحیح احادیث کو دیکھتے ہوئے جن سے بصراحت ثابت ہے کہ عصر کی نماز ہی درمیانی نماز ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شافعی مسلک میں بھی یہی ہو گا کیونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ اگر تم ایسی حدیث پاؤ جس کے برخلاف میں نے حکم دے رکھا ہو تو میرا صحیح مسلک وہی سمجھنا جو صحیح حدیث سے ثابت اور میرا پہلا حکم دیوار پر پھینک مارنا۔
٭٭اور حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی صبح کی نماز کے لیے جاتا ہے وہ گویا وہ ایمان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے اور جو آدمی صبح بازار جاتا ہے تو گویا وہ شیطان کا جھنڈا لے کر چلتا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے لشکر اور شیطان کو بیان کرنے کے لیے تمثیل ہے کہ جو آدمی فجر کی نماز پڑھنے کے لیے صبح سویرے مسجد کی طرف چلتا ہے تو گویا وہ ایمان کا جھنڈا اٹھا کر شیطان سے جنگ کرنے کے لیے چلتا ہے جس طرح غازی اور مجاہدین دشمناں اسلام سے برسر پیکار ہونے کے لیے اسلامی جھنڈا لے کر چلتے ہیں لہٰذا صبح سویرے فجر کی نماز کو جانے والا آدمی اللہ تعالیٰ کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے اور جو آدمی صبح سویرے حصول دنیا کے چکر میں بازار کی طرف چلتا ہے تو وہ شیطان کے لشکر کا ایک فرد ہوتا ہے۔ بایں طور کہ وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نماز کو جانے کی بجائے شیطان کی خواہش پر عمل کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے دین کو کمزور کر کے شیطان کی پیروی اور تابعداری کا جھنڈا اٹھا کر اس کی شان و شوکت بڑھاتا ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ یہ تمثیل اس آدمی کے حق میں ہے جو فجر کی نماز اور وظائف پڑھے بغیر بازار جاتا ہے۔
ہاں اگر کوئی آدمی نماز و تلاوت اور وظائف سے فارغ ہو کر حلال رزق طلب کرنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے سامان حیثیت کی فراہمی کی خاطر بازار جاتا ہے تو وہ اس تمثیل کی رو سے شیطان کے لشکر کا فرد نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کے لشکر کا فرد ہوتا ہے۔