حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، وعبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ حَدَّثَهُ، قَالَ: " نَظَرْتُ إِلَى أَقْدَامِ الْمُشْرِكِينَ عَلَى رُءُوسِنَا وَنَحْنُ فِي الْغَارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ نَظَرَ إِلَى قَدَمَيْهِ أَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا ".
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے مشرکوں کے پاؤں دیکھے اپنے سروں پر اور ہم غار میں تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے تو ہم کو دیکھ لےگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! تو کیا سمجھتا ہے ان دونوں کے بارے میں جن کے میں ساتھ تیسرا اللہ بھی ہے۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَي بْنِ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: عَبْدٌ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ زَهْرَةَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَبَكَى، فَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، قَالَ فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا بِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أَبُو بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ لَا تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةَ أَبِي بَكْرٍ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور فرمایا: ”اللہ کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ نے اختیار دیا ہے، چاہے دنیا کی دولت لے، چاہے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کرے۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کیا۔“ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے (سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قریب ہے) اور بہت روئے، پھر کہا: ہمارے باپ، دادا ہماری مائیں آپ پر قربان ہوں۔ پھر معلوم ہوا کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھتےتھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر ابوبکر کا احسان ہے مال کا بھی اور صحبت کا اور جو میں کسی کو خلیل بناتا (سوائے اللہ کے) تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ اب خلت تو نہیں ہے لیکن اسلام کی اخوت (برادری) ہے، مسجد میں کسی کی کھڑکی نہ رہے (سب بند کر دی جائیں) پر ابوبکر کے گھر کی کھڑکی قائم رکھو۔“
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمًا، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ جیسا کہ حدیث مالک میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي الْهُذَيْلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي، وَقَدِ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو اپنا جانی دوست بناتا (سوائے اللہ کے) تو ابوبکر کو بناتا، لیکن وہ میرے بھائی اور میرے صحابی ہیں اور تمہارے صاحب کو اللہ نے خلیل بنایا ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي أَحَدًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میں کسی کو اپنی امت میں سے اپنا جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں”اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے کو بناتا۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْهُذَيْلِ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا، وَلَكِنْ صَاحِبُكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں”اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے کو بناتا زمین والوں میں سے اور لیکن تمہارے صاحب اللہ کے خلیل ہیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ وَاللَّفْظُ لَهُمَا، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خِلٍّ مِنْ خِلِّهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، إِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو میں کسی کی دوستی نہیں رکھتا (یعنی وہ دوستی جس میں اور کا خیال نہ ر ہے) اور جو میں ایسی دوستی کسی سے کرنے والا ہو تا تو ابوبکر سے کرتا، اور تمہارے صاحب اللہ کے دوست ہیں۔“ (صاحب سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تئیں کہا)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السَّلَاسِلِ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ عَائِشَةُ: قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: أَبُوهَا: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ، فَعَدَّ رِجَالًا ".
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ذات السلاسل کے لشکر کے ساتھ بھیجا (ذات السلاسل نواحی شام میں ایک پانی کا نام ہے وہاں کی لڑائی جمادی الثانی ۸ ہجری میں ہوئی) وہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! سب لوگوں میں آپ کو کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ سے۔“انہوں نے کہا: مردوں میں کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے باپ سے۔“ انہوں نے کہا: پھر ان کے بعد کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر سے۔“ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کا ذکر کیا۔
وحَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ . ح، وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، سَمِعْتُ عَائِشَةَ : وَسُئِلَتْ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْلِفًا لَوِ اسْتَخْلَفَهُ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، فَقِيلَ لَهَا: ثُمَّ مَنْ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ؟ قَالَتْ: عُمَرُ، ثُمَّ قِيلَ لَهَا: مَنْ بَعْدَ عُمَرَ؟ قَالَتْ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ثُمَّ انْتَهَتْ إِلَى هَذَا ".
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، ان سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ کرتے تو کس کو کرتے؟ (اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی خلافت پر نص نہیں کیا بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ہوئی، اور شیعہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نص کیا تھا باطل اور بےاصل ہے اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی تکذیب کی۔ نووی رحمہ اللہ) انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کرتے، پھر پوچھا گیا ان کے بعد کس کو کرتے؟ انہوں نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر پوچھا گیا ان کے بعد کس کو کرتے؟ انہوں نے کہا: سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو، پھر خاموش ہو رہیں۔
حَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ فَلَمْ أَجِدْكَ؟ قَالَ أَبِي: كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر آنا۔“وہ بولی: یا رسول اللہ! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں (یعنی آپ کی وفات ہو جائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا۔“
وحَدَّثَنِيهِ حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ: أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مُوسَى.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایسا ہی حکم دیا جیسا کہ حدیث عباد بن موسیٰ میں ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ: " ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ، وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ”بلا تو اپنے باپ ابوبکر کو اپنے بھائی کو اور اپنے بھائی کو تاکہ میں ایک کتاب لکھ دوں، میں ڈرتا ہوں کوئی آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے (خلافت کی) اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں خلافت کا زیادہ حقدار ہوں اور اللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی انکار کر تے ہیں سوائے ابوبکر کے اور کسی کی خلافت سے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا؟، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا، قَالَ: فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھاناکھلایا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی پرسش کی یعنی عیادت کی؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں یہ سب باتیں جمع ہوں وہ جنت میں جائے گا۔“
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أنهما سمعا أبا هريرة ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً لَهُ قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ الْبَقَرَةُ، فَقَالَتْ: إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا، وَلَكِنِّي إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ، فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ تَعَجُّبًا وَفَزَعًا أَبَقَرَةٌ تَكَلَّمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِهِ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْنَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهُ الرَّاعِي حَتَّى اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي، فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص ایک بیل ہانک رہا تھا اس پر بوجھ لادے ہوئے، بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: میں اس لیے نہیں پیدا ہوا، میں تو کھیت کے واسطے پیدا ہوا ہوں۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! تعجب سے، ڈر کر، بیل بات کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو اس بات کو سچ جانتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا لپکا اور ایک بکر ی لے گیا۔ چرواہے نے پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑیے نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: اس دن کون بکر ی کو بچائےگا جس دن سوائے میرے کوئی چرواہا نہ ہو گا (وہ قیامت کا دن ہے یا عید کا دن جس دن جاہلیت والےکھیل کود میں مصروف رہتے اور بھیڑیے بکریاں لے جاتے یا قیامت کے قریب آفت اور فتنہ کے دن جب لوگ مصیبت کے مارے اپنے مال کی فکر سے غافل ہو جائیں گے) لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس کو سچ جانتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں۔“ (دو سری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود نہ تھے۔ اس حدیث سے ان کی بڑی فضیلت نکلی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر ایسا بھروسہ تھا کہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے ہیں وہ بھی ضرور مانیں گے۔)
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ قِصَّةَ الشَّاةِ وَالذِّئْبِ، وَلَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ الْبَقَرَةِ.
ابن شہاب سے انہی اسناد کے تحت بکری اور بھیڑیے کا ذکر ہے لیکن اس میں بیل کا ذکر نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَاأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَفِي حَدِيثِهِمَا ذِكْرُ الْبَقَرَةِ وَالشَّاةِ مَعًا، وَقَالَا فِي حَدِيثِهِمَا: فَإِنِّي أُومِنُ بِهِ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَمَا هُمَا ثَمَّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں جیسا یونس اور زہری نے بیان کیا اور ان دونوں کی روایتوں میں گائے اور بکری کا اکٹھا ذکر ہے۔ اسی طرح ان دونوں کی روایتوں میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ میں اس کو سچا جانتا ہوں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس کو سچ جانتے ہیں۔“ اور وہ دونوں وہاں نہ تھے۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مِسْعَرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى سَرِيرِهِ، فَتَكَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُونَ، وَيُثْنُونَ، وَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ، قَالَ: فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْكِبِي مِنْ وَرَائِي، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، وَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَاكَ أَنِّي كُنْتُ أُكَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: جِئْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَوْ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَهُمَا ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے(جب انتقال کیا) اور تابوت میں رکھے گئے تو لوگ ان کے گرد ہو گئے دعا کرتے تھے اور تعریف کرتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، ان پر جنازہ کے اٹھائےجانے سے پہلے، میں بھی ان لوگوں میں تھا، میں نہیں ڈرا مگر ایک شخص سے جس نے میرا مونڈھا تھاما میرے پیچھے سے، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے کہا: رحم کر ے اللہ تعالیٰ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر، پھر کہا: (ان کو خطاب کر کے) اے عمر! تم نے کوئی ایسا شخص نہ چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ویسے اعمال پر مجھے اللہ سے ملنا پسند ہو تم سے زیادہ۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا تھا کہ اللہ تم کو تمہارے دونوں ساتھیوں کے ساتھ کرے گا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے) اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اکثر سنا کرتا تھا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”میں آیا اور ابوبکر اور عمر آئے اور میں داخل ہوا اور ابوبکر اور عمر داخل ہوئے اور میں نکلا اور ابوبکر اور عمر نکلے۔“ اس لیے مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان دونوں کے ساتھ کرے گا۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ.
عمر بن سعید سے انہی اسناد کے تحت اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وعبد بن حميد واللفظ لهم، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ دُونَ ذَلِكَ، وَمَرَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ، قَالُوا: مَاذَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الدِّينَ ".
سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جس حالت میں میں سو رہا تھا، میں نے لوگوں کو دیکھا سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہو ئے ہیں، بعض کے کرتے چھاتی تک ہیں اور بعض کے اس کے نیچے، پھر عمر نکلے وہ تو اتنا نیچا کرتا پہنے ہوئے تھے جو زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین۔“
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ رَأَيْتُ قَدَحًا أُتِيتُ بِهِ فِيهِ لَبَنٌ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَجْرِي فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الْعِلْمَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا، سوتے میں پیالہ میرے سامنے لایا گیا جس میں دودھ تھا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں سے نکلنے لگی، پھر جو بچا وہ میں نے عمر بن الخطاب کو دے دیا۔“ لوگوں نے عرض کیا اس کی تعبیر کیا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کی تعبیر علم ہے۔“
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد كلاهما، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، بِإِسْنَادِ يُونُسَ نَحْوَ حَدِيثِهِ.
صالح یونس کی اسناد کے تحت اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُنِي عَلَى قَلِيبٍ عَلَيْهَا دَلْوٌ، فَنَزَعْتُ مِنْهَا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ، فَنَزَعَ بِهَا ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي نَزْعِهِ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ ضَعْفٌ ثُمَّ اسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَأَخَذَهَا ابْنُ الْخَطَّابِ، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَنْزِعُ نَزْعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس حالت میں میں سوتا تھا میں نے اپنے تئیں دیکھا ایک کنویں پر کہ اس پر ڈول پڑا ہے سو میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا جتنا اللہ نے چاہا، پھر اس کو ابو قحافہ کے بیٹے یعنی صدیق اکبر نے لیا، اور ایک یا دو ڈول نکالے ان کے کھینچنے میں ناتوانی تھی، اللہ ان کو بخشے، پھر وہ ڈول بڑا ڈول ہو گیا اور اس کو عمر بن الخطاب نے لیا تو میں نے لوگوں میں ایسا سردار اور شہ زور نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو، انہوں نے اس کثرت سے پانی نکالا کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے آرام کی جگہ لے گئے۔“
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، بِإِسْنَادِ يُونُسَ نَحْوَ حَدِيثِهِ.
صالح سے اسناد یونس کے موافق اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ، قَالَ: قَالَ الْأَعْرَجُ ، وَغَيْرُهُ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ، يَنْزِعُ بِنَحْوِ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
صالح سے مروی ہے کہ اعرج وغیرہ نے کہا کہ بے شک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا ابوقحافہ کے بیٹے کو وہ ڈول کھینچ رہے تھے۔“ جیسا کہ زہری نے حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَمِّي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُرِيتُ أَنِّي أَنْزِعُ عَلَى حَوْضِي أَسْقِي النَّاسَ، فَجَاءَنِي أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ الدَّلْوَ مِنْ يَدِي لِيُرَوِّحَنِي، فَنَزَعَ دَلْوَيْنِ وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ، وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، فَجَاءَ ابْنُ الْخَطَّابِ فَأَخَذَ مِنْهُ، فَلَمْ أَرَ نَزْعَ رَجُلٍ قَطُّ أَقْوَى مِنْهُ، حَتَّى تَوَلَّى النَّاسُ وَالْحَوْضُ مَلْآنُ يَتَفَجَّرُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے سوتے میں دیکھا میں اپنے حوض میں پانی کھینچ رہا ہو ں اور لوگوں کو پلارہا ہو ں، پھر ابوبکر میرے پاس آئے، انہوں نے ڈول میرے ہاتھ سے لے لیا، مجھے آرام دینے کو اور دو ڈول نکالے ناتوانی کے ساتھ، اللہ ان کو بخشے، پھر خطاب کے بیٹے آئے، انہوں نے ڈول ابوبکر کے ہاتھ سے لے لیا، تو میں نے ایسا زبردست کھینچنا کسی کا نہیں دیکھا یہاں تک کہ لوگ (سیراب ہو کر) چلے گئے اور حوض بھرپور ہو کر بہنے لگا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ سَالِمٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُرِيتُ كَأَنِّي أَنْزِعُ بِدَلْوِ بَكْرَةٍ عَلَى قَلِيبٍ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا، أَوْ ذَنُوبَيْنِ، فَنَزَعَ نَزْعًا ضَعِيفًا، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَاسْتَقَى فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرْيَهُ، حَتَّى رَوِيَ النَّاسُ وَضَرَبُوا الْعَطَنَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا میں ایک کنویں پر صبح کے وقت پانی کھینچ رہا ہوں اتنے میں ابوبکر آئے اور ایک یا دو ڈول نکالے، وہ بھی ناتوانی کے ساتھ، اور اللہ ان کو بخشے، پھر عمر آئے اور پانی کھینچنا شروع کیا وہ ڈول بڑا ہو گیا، تو میں نے ایسا زبردست کام کرنے والا نہیں دیکھا یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو پانی پلا کر آرام کی جگہ میں بٹھایا۔“
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رُؤْيَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب جو سیدنا ابوبکر و عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے متعلق ہے، ان کی حدیث کے موافق مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، وَابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، سَمِعَا جَابِرًا يُخْبِرُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ. حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ وَعَمْرٍو ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَرَأَيْتُ فِيهَا دَارًا أَوْ قَصْرًا، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ، فَذَكَرْتُ غَيْرَتَكَ، فَبَكَى عُمَرُ، وَقَالَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ أَوَ عَلَيْكَ يُغَارُ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں گیا اور وہاں ایک گھر یا محل دیکھا میں نے پوچھا: یہ کس کا ہے؟ لوگوں نے کہا: عمر بن خطاب کا، میں نے اندر جانا چاہا، پھر تمہاری غیرت کا مجھے خیال آیا۔“ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ روئے اور عرض کیا: یا رسول! کیا آپ کے جانے سے میں غیرت کرتا؟“
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ،وَابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ جَابِرًا . ح وحَدَّثَنَاه عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، سَمِعْتُ جَابِرًا ، عنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، وَزُهَيْرٍ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جیسا کہ نمیر و زہیر نے بیان کیا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرْتُ غَيْرَةَ عُمَرَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَبَكَى عُمَرُ، وَنَحْنُ جَمِيعًا فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَيْكَ أَغَارُ؟.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سو رہا تھا میں نے اپنے تئیں جنت میں دیکھا، وہاں ایک عورت وضو کر رہی تھی، ایک محل کے کونے میں، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ لوگ بولے: عمر بن خطاب کا۔ یہ سن کر مجھے عمر کی غیرت کا خیال آیا اور میں پیٹھ موڑ کر پھرا۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو روئے اور ہم سب مجلس میں تھے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا۔
وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ابن شہاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ حَسَنٌ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدًا ، قَالَ: " اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ، يُكَلِّمْنَهُ، وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي، فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ، أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا، فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس اس وقت قریش کی عورتیں بیٹھی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہی تھیں، وہ بہت باتیں کر رہی تھیں، ان کی آوازیں بلند تھیں، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی تو اٹھ کر دوڑیں چھپنے کے لیے، رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس ر ہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ آپ کو ہنستا ہوا رکھے یا رسول اللہ!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تعجب ہوا ان عورتوں سے جو میرے پاس بیٹھی تھیں، تمہاری آواز سنتے ہی پردے میں بھاگیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ سے ان کو زیادہ ڈرنا تھا، پھر ان عورتو ں سے کہا: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور اللہ کے رسول سے نہیں ڈرتیں، انہوں نے کہا: ہاں تم سخت ہو اور غصیلے ہو بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے شیطان جب تم کو ملتا ہے کسی راہ میں چلتا ہوا تو اس راہ کو جس میں تم چلتے ہو چھوڑ کر دوسری راہ میں جاتا ہے۔“
حَدَّثَنَاهَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا بِهِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنِي سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ قَدْ رَفَعْنَ أَصْوَاتَهُنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتیں تھیں اور ان کی آوازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند ہو رہی تھیں، جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو ان عورتوں نے جلدی کی پردے میں جانے کی اور ذکر کیا حدیث کو زہری کی مثل۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " قَدْ كَانَ يَكُونُ فِي الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ مُحَدَّثُونَ، فَإِنْ يَكُنْ فِي أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، مِنْهُمْ "، قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: تَفْسِيرُ مُحَدَّثُونَ مُلْهَمُونَ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جن کی رائے ٹھیک ہوتی، (گمان صحیح ہوتا یا فرشتے ان کو الہام کرتے) میری امت میں اگر ایسا کوئی ہو تو وہ عمر بن الخطاب ہو ں گے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
سعد بن ابراہیم سے اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ : أَخْبَرَنَا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : " وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ، وَفِي الْحِجَابِ، وَفِي أُسَارَى بَدْرٍ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے رب کے موافق ہوا تین باتوں میں، ایک مقام ابراہیم میں نماز پڑھنے میں (جب میں نے رائے دی کہ یا رسول اللہ! آپ اس کو مصلٰی بنائیے ویسا ہی قرآن میں اترا «وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ» (۲-البقرۃ: ۱۲۵))، دوسرے عورتوں کے پردے میں، تیسرے بدر کے قیدیوں میں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ، قَمِيصَهُ أَنْ يُكَفِّنَ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ، أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً، وَسَأَزِيدُ عَلَى سَبْعِينَ، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84 " .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب عبداللہ بن ابی ابن سلول نے وفات پائی (جو بڑا منافق تھا) تو اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ اپنا کرتہ میرے باپ کے کفن کے لیے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا، پھر اس نے کہا: آپ اس پر نماز پڑھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اس پر نماز پڑھنے کے لیے، سیدنا عم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا تھاما اور فرمایا: یا رسول اللہ! کیا آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا اس پر نماز پڑھنے سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے ا ”ختیار دیا تو فرمایا: تو ان کے لیے دعا کرے یا نہ کرے اگر ستر بار دعا کرے گا اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشےگا، تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ منافق تھا آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس پر نماز پڑھی تب یہ آیت اتری «وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ» (۹-التوبۃ: ۸۴) ”مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر۔“ (تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے اللہ تعالیٰ نے پسند کی)۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَي وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي مَعْنَى حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، وَزَادَ، قَالَ: فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ.
عبیداللہ سے انہی اسناد کے ساتھ اسامہ کی حدیث کے موافق مروی ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں پر نماز پڑھنی چھوڑ دی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَيَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَي بْنُ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، وَسُلَيْمَانَ ابني يسار ، وأبي سلمة بن عبد الرحمن ، أن عائشة ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي، كَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ أَوْ سَاقَيْهِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُو بَكْرٍ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَوَّى ثِيَابَهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَقُولُ ذَلِكَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ، فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَكَ، فَقَالَ: أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لیٹے ہوئےتھے، رانیں اور پنڈلیاں کھولے ہوئے اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اسی حال میں باتیں کرتے رہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ان کو بھی اجازت دی اس حال میں باتیں کرتے رہے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کئے، پھر وہ آئے اور باتیں کیں، جب وہ چلے گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے درست کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شرم نہ کروں اس شخص سے جس شخص سے فرشتے شرم کرتے ہیں۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعُثْمَانَ حَدَّثَاهُ: " أَنَّ أَبَا بَكْرٍ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ، فَأَذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ كَذَلِكَ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَضَى إِلَيْهِ حَاجَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ عُثْمَانُ: ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَجَلَسَ، وَقَالَ لِعَائِشَةَ: اجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ، فَقَضَيْتُ إِلَيْهِ حَاجَتِي، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي لَمْ أَرَكَ، فَزِعْتَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ، وَإِنِّي خَشِيتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِي حَاجَتِهِ " .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے اپنے بچھونے پر، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر اوڑھے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی اسی حال میں، وہ اپنا کام پورا کر کے چلے گئے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ اسی حال میں، وہ بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر چلے گئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اپنے کپڑے اچھی طرح پہن لے“ میں اپنے کام سے فارغ ہو کر چلا گیا، بعد اس کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! کیا سبب ہے آپ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آنے سے نہ گھبرائے، نہ عمر رضی اللہ عنہ کے آنے سے جیسا عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے سے گھبرائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عثمان حیادار مرد ہے اور میں ڈرا اگر اسی حال میں ان کو اجازت دوں تو وہ اپنا کام نہ کر سکیں۔“ (شرم سے کچھ نہ کہیں اور چلے جائیں)۔
وحَدَّثَنَاه عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَي بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ وَعَائِشَةَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ اسْتَأْذَنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، پھر حدیث عقیل جو زہری سے ہے اس کی مانند بیان کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُتَّكِئٌ، يَرْكُزُ بِعُودٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ، فَفَتَحْتُ لَهُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، قَالَ: فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، قَالَ: فَفَتَحْتُ وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: وَقُلْتُ: الَّذِي قَالَ: فَقَالَ: اللَّهُمَّ صَبْرًا أَوِ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی باغ میں تھے تکیہ لگائے ہوئے اور ایک لکڑی کو کیچڑ میں کھونس رہے تھے، اتنے میں ایک شخص نے دروازہ کھلوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھول دے اور اس کو جنت کی خوشخبری دے۔“ میں جو کھولنے گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی خوشخبری دی، پھر دوسرے شخص نے دروازہ کھلوایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھول دے اور اس کو خوشخبری دے جنت کی۔“ میں گیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھول دیا اور ان کو جنت کی خوشخبری دی، پھر تیسرے شخص نے دروازہ کھلوایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمبیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھول دے اور اس کو جنت کی خوشخبری دے اور اس پر ایک بلویٰ ہو گا۔“ میں گیا تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی خوشخبری دی اور بلویٰ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: یا اللہ! مجھ کو صبر دے اور تو ہی مددگار ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْأَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ حَائِطًا، وَأَمَرَنِي أَنْ أَحْفَظَ الْبَابَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا: ”تو دروازے پر پہرہ دے۔“ پھر بیان کی حدیث اسی طرح جیسے اوپر گزری۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: " لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ، فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَجَّهَ هَاهُنَا، قَالَ: فَخَرَجْتُ عَلَى أَثَرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ، قَالَ: فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأَ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ، وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ يُرِيدُ أَخَاهُ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَجِئْتُ عُمَرَ، فَقُلْتُ: أَذِنَ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ، وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَعْنِي أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ، فَجَاءَ إِنْسَانٌ فَحَرَّكَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ، قَالَ وَجِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُهُ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَيُبَشِّرُكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَى تُصِيبُكَ، قَالَ: فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَ شَرِيكٌ: فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے , انہوں نے وضو کیا اپنے گھر میں، پھر نکلے اور کہنے لگے میں ملازمت کروں گا آج کے دن رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی اور ساتھ رہوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے , وہ مسجد میں آئے اور پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس طرف گئے ہیں، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر پوچھتے ہوئے اسی طرف چلے یہاں تک کہ بئراریس پر پہنچے (بئر اریس ایک کنواں ہے مدینہ سے باہر)۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ لکڑی کا تھا، یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہو ئے اور وضو کیا، تب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں پر بیٹھے تھے اس کی منڈیر پر پنڈلیا ں کھول کر کنویں میں لٹکائے ہوئے، میں نے سلام کیا، پھر میں لوٹا اور دروازے پر بیٹھا، میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا «بواب» (وہ شخص جو دروازے پر رہتا ہے) آج بنوں گا، اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے کہا: کو ن ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر میں نے کہا: ٹھہرو، پھر میں گیا، اور میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے ہیں اور اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اجازت دے اور جنت کی خوشخبری دے۔“ میں آیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اندر آؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے داہنی طرف بیٹھے کنویں کی مینڈھ پر اور اپنے پاؤں لٹکا دئیے کنویں میں، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے اور پنڈلیاں کھول دیں، میں لوٹا اور دروازے پر بیٹھا اور میں اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، وہ مجھ سے ملنے والا تھا، میں نے (اپنے دل میں) کہا: اگر اللہ کو اس کی بہتری منظور ہے تو اس کو لائے گا، اچانک ہی ایک آدمی نے دروازہ ہلایا، میں نے کہا: کون؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب۔ میں نے کہا: ٹھہرو اور میں آیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور سلام کیا اور عرض کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اجازت مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اجازت دے اور جنت کی خوشخبری دے۔“ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اندرآؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو جنت کی بشارت دی۔ وہ اندر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کنویں کی منڈیر پر بیٹھے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا دیے، میں لوٹا اور بیٹھا اور کہا: اگر اللہ کو فلانے کی یعنی میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو وہ بھی آئے گا، ایک آدمی آیا اور دروازہ ہلایا میں نے کہا: کون ہے؟ اس نے کہا: عثمان بن عفان۔ میں نے کہا: ٹھہرو اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو اجازت دے اور جنت کی خوشخبری دے مگر اس کے ساتھ ایک آفت بھی ہے۔“ وہ آئے، انہوں نے دیکھا منڈیر پر جگہ نہیں رہی تو وہ ان کے سامنے دوسری طرف بیٹھے۔ شریک نے کہا: سعید بن مسیب نے کہا: میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی (ویسا ہی ہوا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے۔
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ هَاهُنَا، وَأَشَارَ لِي سُلَيْمَانُ إِلَى مَجْلِسِ سَعِيدٍ نَاحِيَةَ الْمَقْصُورَةِ، قَالَ أَبُو مُوسَى: خَرَجْتُ أُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَلَكَ فِي الْأَمْوَالِ فَتَبِعْتُهُ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ دَخَلَ مَالًا فَجَلَسَ فِي الْقُفِّ، وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يَحْيَي بْنِ حَسَّانَ، وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ سَعِيدٍ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نکلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے، میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغوں کی طرف گئے ہیں، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک باغ میں پایا . آپصلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی منڈیر پر بیٹھے اور پنڈلیاں کھول دیں اور ان کو لٹکا دیا کنویں میں اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری اس میں سعید کا قول مذکور نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنِي شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى حَائِطٍ بِالْمَدِينَةِ لِحَاجَتِهِ، فَخَرَجْتُ فِي إِثْرِهِ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، وَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: فَتَأَوَّلْتُ ذَلِكَ قُبُورَهُمُ اجْتَمَعَتْ هَاهُنَا، وَانْفَرَدَ عُثْمَانُ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اپنی کسی حاجت کے لیے مدینہ کے ایک باغ کی طرف، میں بھی نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات پر۔ اور حدیث بیان کی سلیمان بن بلال کی حدیث کے موافق ابن مسیّب نے کہا: اس حدیث سے میں نے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اکھٹی ہوں گی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر علیحدہ ہو گی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ كُلُّهُمْ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْمَاجِشُونِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ أَبُو سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، قَالَ سَعِيدٌ: فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِهَا سَعْدًا، فَلَقِيتُ سَعْدًا: فَحَدَّثْتُهُ بِمَا حَدَّثَنِي عَامِرٌ، فَقَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ، فَقُلْتُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ؟ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ، فَقَالَ: نَعَمْ، وَإِلَّا فَاسْتَكَّتَا.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے: ”تم میرے پاس ایسے ہو جیسے ہارون علیہ السلام تھے، موسیٰ علیہ السلام کے پاس مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ سعید نے کہا: میں نے چاہا کہ یہ حدیث خود سعد رضی اللہ عنہ سے سن لوں تو میں سعد رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو عامر نے بیان کی تھی وہ ان کو سنائی۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث سنی ہے۔ میں نے کہا: تم نے سنی ہے؟ انہوں نے انگلیاں اپنے دونوں کانوں پر رکھیں اور کہا: جو نہ سنی ہو تو میرے کان بہرے ہو جائیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: " خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ، وَالصِّبْيَانِ، فَقَالَ: أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کیا (مدینہ میں) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کو تشریف لے گئے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خوش نہیں ہوتے اس بات سے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے ہارون علیہ السلام کا تھا موسیٰ علیہ السلام کے پاس، پر میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ.
شعبہ سے انہی اسناد کے ساتھ مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا، قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ: خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا، فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو امیر کیا تو کہا: تم کیوں برا نہیں کہتے ابوتراب کو؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں کی وجہ سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہوں گا، اگر ان باتوں میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہو تو وہ مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسند ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب آپ نے کسی لڑائی پر جاتے وقت ان کو مدینہ میں چھوڑا، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسا ہارون علیہ السلام کا تھا موسیٰ علیہ السلام کے پاس، پر اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے .“ اور میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خیبر کے دن: ”کل میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو محبت رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ اور رسول بھی محبت رکھتا ہے اس سے .“ یہ سن کر ہم انتظار کرتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی کو بلاؤ.“ وہ آئے تو ان کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں تھوک ڈالا اور نشان (علم) ان کے حوالے کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کے ہاتھ پر اور جب یہ آیت اتری «نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ» ”بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تم اپنے بیٹوں کو۔“ (یعنی آیت مباہلہ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو، پھر فرمایا: ”یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ: " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے: ”تم خوش نہیں ہو اس بات سے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے پاس۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَى لَهَا، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا، وَقَالَ: امْشِ وَلَا تَلْتَفِتْ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ، قَالَ: فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا، ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ، فَصَرَخَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: عَلَى مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ: قَاتِلْهُمْ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ مَنَعُوا مِنْكَ دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیبر کے دن: ”البتہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو دوست رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو، فتح دے گا اللہ اس کے ہاتھوں پر۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے امارت کی آرزو کبھی نہیں کی مگر اسی دن، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اس امید سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمبلائیں مجھ کو اس کام کے لیے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور وہ جھنڈا ان کو دیا اور فرمایا: ”چلا جا اور ادھر ادھر مت دیکھ، اللہ تعالیٰ تجھ کو فتح دے گا۔“ پھر انہوں نے چپکے سے کچھ عرض کیا بعد اس کے ٹھہرے اور کسی طرف نہیں دیکھا، پھر چلا کر بولے: یا رسول اللہ! کس بات پر میں لوگوں سے لڑوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑ ان سے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی برحق معبود نہیں سوائے اللہ کے اور بے شک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ یہ گواہی دیں تو انہوں نے بچا لیا تجھ سے اپنی جان اور مال کو مگر کسی حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ هَذَا، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ: أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا خیبر کے دن: ”البتہ دوں گا میں اس نشان کو اس شخص کو جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا وہ چاہتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو اور اللہ اور رسول اس کو چاہتے ہیں۔“ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہر ایک کو یہ امید تھی کہ یہ نشان مجھ کو ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟“لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں، پھر ان کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں تھوکا اور ان کے لیے دعا کی۔ وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کچھ شکوہ نہ تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”آہستہ چلا جا یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو بلا اسلام کی طرف اور ان سے کہہ جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ بہتر ہے تیرے لیے سرخ اونٹوں سے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَيْبَرَ، وَكَانَ رَمِدًا، فَقَالَ: " أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ، فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اللَّهُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ بِالرَّايَةِ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، أَوَ قَالَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا: هَذَا عَلِيٌّ فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ پیچھے رہ گئے خیبر کے دن ان کی آنکھیں دکھتی تھیں، پھر انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے رہوں (یہ کیسے ہو سکتا ہے)اور نکلے اور مل گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، جب وہ رات ہوئی جس کی صبح کو فتح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ جھنڈا اس کو دوں گا کل یا یہ جھنڈا کل وہ شخص لے گا جس کو اللہ اور اس کا رسول چاہتے ہیں یا وہ اللہ اور رسول کو چاہتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح دے گا۔“ پھر یکایک ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ہمیں امید نہ تھی کہ ان کو جھنڈا ملے گا۔ لوگوں نے کہا: یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں اور ان ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا دیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کو۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ جميعا، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ ، قَالَ: " انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ، قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي: وَاللَّهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ، فَاقْبَلُوا وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ، وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ ".
یزید بن حیان سے روایت ہے، میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم، سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے کہا: اے زید! تم نے تو بڑی نیکی حاصل کی، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو دیکھا، آپ کی حدیث سنی آپ کے ساتھ جہاد کیا، آپ کے پیچھے نماز پڑھی، تم نے بہت ثواب کمایا، ہمیں کچھ حدیث بیان کرو جو تم نے سنی ہو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بھتیجے میرے! میری عمر بہت بڑی ہو گئی اور مدت گزری اور بعض باتیں جن کو میں یاد رکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول گیا تو میں جو بیان کروں اس کو قبول کرو اور جو میں نہ بیان کروں اس کے لیے مجھ کو تکلیف نہ دو، پھر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے ہم لوگوں میں ایک پانی پر جس کو خم کہتے تھے، مکہ اور مدینہ کے بیچ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف بیان کی اور وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا: ”بعد اس کے اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) آئے اور میں قبول کروں، میں تم میں دو بڑی بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، پہلے تو اللہ کی کتاب اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔“ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رغبت دلائی اللہ کی کتاب کی طرف، پھر فرمایا: ”دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں تم کو اپنے اہل بیت کے باب میں۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بیان فرمائی۔ سیدنا حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: اہل بیت آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے کون ہیں؟ اے زید! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں اہل بیت نہیں ہیں؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: بیبیاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ علی اور عقیل اور جعفر اور عباس رضی اللہ عنہم کی اولاد ہیں۔ حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ، بِمَعْنَى حَدِيثِ زُهَيْرٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ: كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ مَنِ اسْتَمْسَكَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ.
ابوحیان سے اسماعیل کی حدیث کی مانند مروی ہے اور حدیث جریر میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ کی کتاب میں ہدایت ہے اور نور ہے جو اس کو پکڑے رہے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اس کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ جائے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ ابْنُ مَسْرُوقٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَفِيهِ، فَقُلْنَا: مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا وَايْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا، فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ.
یزید بن حیان سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ہم نے کہا: تم نے بہت ثواب کمایا، تم نے صحبت اٹھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ایک تو اللہ کی کتاب، وہ اللہ کی رسی ہے جو اس کی پیروی کرے گا ہدایت پر ہو گا اور جو اس کو چھوڑ دے گا گمراہ ہو جائے گا۔“ اس روایت میں یہ ہے کہ ہم نے کہا: اہل بیت کون لوگ ہیں بیبیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم عورت ایک مدت تک مرد کے ساتھ رہتی ہے، پھر وہ اس کو طلاق دے دیتا ہے تو اپنے باپ اور قوم کی طرف چلی جاتی ہے۔ اہل بیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھیال کے لوگ اور عصبہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ، قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا، قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ، فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ، فَقُلْ: لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ، فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ، قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا التُّرَابِ، قُمْ أَبَا التُّرَابِ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک شخص مروان کی اولاد میں سے حاکم ہوا۔ اس نے سہل کو بلایا اور حکم دیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا۔ سہل نے انکار کیا۔ وہ شخص بولا: اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابوتراب پر۔ سہل نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ابوتراب سے زیادہ پسند نہ تھا اور وہ خوش ہوتے تھے اس نام کے ساتھ پکارنے سے۔ وہ شخص بولا: اس کا قصہ بیان کرو ان کا نام ابوتراب کیوں ہو ا؟ سہل نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟“ وہ بولیں: مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں وہ غصے ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ”دیکھو علی کہاں ہیں؟“ وہ آیا اور بولا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے: ”اٹھ اے ابوتراب، اٹھ اے ابوتراب۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَرِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ، قَالَتْ: وَسَمِعْنَا صَوْتَ السِّلَاحِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَحْرُسُكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند اچاٹ ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اتنے میں ہم کو ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کون ہے؟“ آواز آئی سعد بیٹا ابو وقاص کا یا رسول اللہ! میں حاضر ہوا ہوں آپ کے پاس پہرہ دینے کے لیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً، فَقَالَ: لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ سِلَاحٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ رُمْحٍ فَقُلْنَا مَنْ هَذَا.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے مدینہ منورہ تشریف لانے کے زمانے میں ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلمجاگتے رہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہیں آئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش کہ میرے صحابہ میں سے کوئی ایسا نیک بخت آدمی ہوتا جو رات بھر میری حفاظت کرتا۔“ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ عرض کیا: سعد بن ابی وقاص! اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”تم کیوں آئے؟“، وہ بولے: مجھے ڈر ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر، تو میں آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرنے کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی، پھر سو گئے۔ اور ابن رمح کی روایت میں ہے کہ ہم نے کہا: یہ کون ہے؟
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، سَمِعْتُ يَحْيَي بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَرِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور نیند جاتی رہی۔ سلیمان بن ہلال کی حدیث کی مانند ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُولُ: " مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ لِأَحَدٍ غَيْرِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَإِنَّهُ جَعَلَ يَقُولُ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماں باپ کو کسی کے لیے جمع نہیں کیا (یعنی یوں نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ں) مگر سعد بن مالک رضی اللہ عنہ (یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ان سے فرمایا”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَإِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ . ح، وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مِسْعَرٍكُلُّهُمْ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مانند روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَي وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: " لَقَدْ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا اپنے ماں باپ کو میرے لیے احد کے دن۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ رُمْحٍ ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ كِلَاهُمَا، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
يحيى بن سعيد سے ان اسناد کے تحت مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَمَعَ لَهُ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ: فَنَزَعْتُ لَهُ بِسَهْمٍ لَيْسَ فِيهِ نَصْلٌ فَأَصَبْتُ جَنْبَهُ، فَسَقَطَ فَانْكَشَفَتْ عَوْرَتُهُ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى نَوَاجِذِهِ ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن ان کے لیے جمع کیا اپنے ماں باپ کو . سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص تھا مشرکوں میں سے جس نے جلا دیا تھا مسلمانوں کو (یعنی بہت مسلمانوں کو قتل کیا تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیر مار اے سعد! فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے .“ میں نے اس کے لیے ایک تیر نکالا جس میں پیکان نہ تھا وہ اس کی پسلی میں لگا اور گرا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر ہنسے یہاں تک کہ میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیوں کو دیکھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ نَزَلَتْ فِيهِ آيَاتٌ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: " حَلَفَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَنْ لَا تُكَلِّمَهُ أَبَدًا حَتَّى يَكْفُرَ بِدِينِهِ، وَلَا تَأْكُلَ وَلَا تَشْرَبَ، قَالَتْ: زَعَمْتَ أَنَّ اللَّهَ وَصَّاكَ بِوَالِدَيْكَ، وَأَنَا أُمُّكَ وَأَنَا آمُرُكَ بِهَذَا، قَالَ: مَكَثَتْ ثَلَاثًا حَتَّى غُشِيَ عَلَيْهَا مِنَ الْجَهْدِ، فَقَامَ ابْنٌ لَهَا، يُقَالُ لَهُ عُمَارَةُ، فَسَقَاهَا فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَى سَعْدٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْقُرْآنِ هَذِهِ الْآيَةَ: وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا سورة العنكبوت آية 8 وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي سورة لقمان آية 15 وَفِيهَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا سورة لقمان آية 15، قَالَ: وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنِيمَةً عَظِيمَةً، فَإِذَا فِيهَا سَيْفٌ، فَأَخَذْتُهُ فَأَتَيْتُ بِهِ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: نَفِّلْنِي هَذَا السَّيْفَ، فَأَنَا مَنْ قَدْ عَلِمْتَ حَالَهُ، فَقَالَ: رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أُلْقِيَهُ فِي الْقَبَضِ لَامَتْنِي نَفْسِي، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِيهِ، قَالَ فَشَدَّ لِي صَوْتَهُ: رُدُّهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ، قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ سورة الأنفال آية 1، قَالَ: وَمَرِضْتُ فَأَرْسَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَانِي، فَقُلْتُ: دَعْنِي أَقْسِمْ مَالِي حَيْثُ شِئْتُ، قَالَ: فَأَبَى، قُلْتُ: فَالنِّصْفَ، قَالَ: فَأَبَى، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ، قَالَ: فَسَكَتَ، فَكَانَ بَعْدُ الثُّلُثُ جَائِزًا، قَالَ: وَأَتَيْتُ عَلَى نَفَرٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَالْمُهَاجِرِينَ، فَقَالُوا: تَعَالَ نُطْعِمْكَ وَنَسْقِكَ خَمْرًا، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فِي حَشٍّ، وَالْحَشُّ الْبُسْتَانُ، فَإِذَا رَأْسُ جَزُورٍ مَشْوِيٌّ عِنْدَهُمْ وَزِقٌّ مِنْ خَمْرٍ، قَالَ: فَأَكَلْتُ وَشَرِبْتُ مَعَهُمْ، قَالَ: فَذَكَرْتُ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرِينَ عِنْدَهُمْ، فَقُلْتُ: الْمُهَاجِرُونَ خَيْرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَخَذَ رَجُلٌ أَحَدَ لَحْيَيِ الرَّأْسِ، فَضَرَبَنِي بِهِ فَجَرَحَ بِأَنْفِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ يَعْنِي نَفْسَهُ شَأْنَ الْخَمْرِ: إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ سورة المائدة آية 90.
مصعب بن سعد سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے کہ ان کے باب میں قرآن کی کئی آیتیں اتریں۔ ان کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ ان سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (یعنی اسلام کا دین) نہ چھوڑیں گے اور نہ کھائے گی نہ پیئے گی۔ وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ نے تجھےحکم دیا ہے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا اور میں تیری ماں ہوں تجھ کو حکم کرتی ہوں اس بات کا، پھر تین دن تک یوں ہی رہی کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر ایک بیٹا اس کا جس نام عمارہ تھا کھڑا ہوا اور اس کو پانی پلایا۔ وہ بددعا کرنے لگی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے لیے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاوَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا» (۳۱-لقمان: ۱۴-۳۲) ”اور ہم نے حکم دیا آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا لیکن وہ اگر زور ڈالیں تجھ پر کہ شریک کرے تو میرے ساتھ اس چیز کو جس کا تجھےعلم نہیں تو مت مان ان کی بات (یعنی شرک مت کر) اور رہ ان کے ساتھ دنیا میں دستور کے موافق۔“ اور ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سا غنیمت کا مال ہاتھ آیا اس میں ایک تلوار بھی تھی وہ میں نے لے لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ میں نے عرض کیا: یہ تلوار مجھ کو انعام دے دیجئیے اور میرا حال آپ جانتے ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“ میں گیا اور میں نے قصد کیا، پھر اس کو گدام میں ڈال دوں لیکن میرے دل نے مجھے ملامت کی اور میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس لوٹا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تلوارمجھے دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا: ”رکھ دے اسی جگہ جہاں سے تو نے اٹھائی ہے۔“تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ» (۸-الأنفال: ۱) ”تجھ سے پوچھتے ہیں لوٹ کی چیزوں کو۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بیمار ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمتشریف لائے، میں نے کہا: مجھ کو اجازت دیجئیے میں اپنے مال کو بانٹ دوں جس کو چاہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا، میں نے کہا: اچھا آدھا مال بانٹ دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مانا، میں کہا: اچھا تہائی مال بانٹ دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، پھر یہی حکم ہوا کہ تہائی مال تک بانٹنا درست ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک بار میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا انہوں نے کہا: آؤ ہم تم کو کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ میں ان کے پاس گیا ایک باغ میں۔ وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی میں نے گوشت کھایا اور شراب پی ان کے ساتھ، وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا، میں نے کہا: مہاجرین انصار سے بہتر ہیں ایک شخص نے سری کا ایک ٹکڑا لیا اور مجھے مارا، میرے ناک میں زخم لگا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ» (۵-المائدہ: ٩٠) ”شراب، جوا، تھان اور پانسے یہ سب نجس اور شیطان کے کام ہیں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ زُهَيْرٍ، عَنْ سِمَاكٍ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ شُعْبَةَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا شَجَرُوا فَاهَا بِعَصًا ثُمَّ أَوْجَرُوهَا، وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا، فَضَرَبَ بِهِ أَنْفَ سَعْدٍ فَفَزَرَهُ، وَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے باب میں چار آیتیں اتریں، پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے او پر گزری۔ شعبہ نے زیادہ کیا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: آخر لوگ میری ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو اس کا منہ ایک لکڑی سے کھولتے، پھر کھانا اس کے منہ میں ڈالتے۔ اس روایت میں یہ ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی ناک پر مارا اور ان کی ناک چڑ گئی، پھر ان کی ناک ہمیشہ چڑی رہی۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعْدٍ ، فِيَّ نَزَلَتْ: وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ سورة الأنعام آية 52، قَالَ: " نَزَلَتْ فِي سِتَّةٍ أَنَا، وَابْنُ مَسْعُودٍ مِنْهُمْ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ قَالُوا لَهُ تُدْنِي هَؤُلَاءِ ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، یہ آیت «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ» (۶-الأنعام: ٥٢) ”مت دور کر ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے مالک کو صبح اور شام۔“ چھ آدمیوں کے باب میں اتری۔ ان میں، میں تھا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مشرک کہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اپنے نزدیک رکھتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيُّ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعْدٍ ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ نَفَرٍ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اطْرُدْ هَؤُلَاءِ لَا يَجْتَرِئُونَ عَلَيْنَا، قَالَ: وَكُنْتُ أَنَا، وَابْنُ مَسْعُودٍ، وَرَجُلٌ مِنْ هُذَيْلٍ، وَبِلَالٌ، وَرَجُلَانِ لَسْتُ أُسَمِّيهِمَا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقَعَ فَحَدَّثَ نَفْسَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ سورة الأنعام آية 52.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مشرکوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو اپنے پاس سے بھیج دیجئیے یہ جرأت نہ کر یں گے ہم پر، ان لوگوں میں میں بھی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تھے اور ایک شخص ہذیل کا تھا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور دو شخص اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا وہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل ہی دل میں باتیں کیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ» (الأنعام: ۵۲) ”مت ہٹا ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام اور چاہتے ہیں اس کی رضامندی۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ وَهُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: " لَمْ يَبْقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْأَيَّامِ الَّتِي قَاتَلَ فِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ طَلْحَةَ ، وَسَعْدٍ "، عَنْ حَدِيثِهِمَا ".
ابوعثمان سے روایت ہے، ان دنوں میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑتے تھے (کا فروں سے) بعض دن کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ رہا سوائے طلحہ اور سعد رضی اللہ عنہما کے۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " نَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ، فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ، فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيٌّ، وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے خندق کے دن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ حاضر اور مستعد ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ہی نے جواب دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ہی نے جو اب دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر پیغمبر کا ایک خاص مصاحب ہوتا ہے اور میرا خاص مصاحب زبیر ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كِلَاهُمَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عیینہ کی حدیث کے مانند روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْخَلِيلِ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ ابْنِ مُسْهِرٍ ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: " كُنْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ مَعَ النِّسْوَةِ فِي أُطُمِ حَسَّانَ، فَكَانَ يُطَأْطِئُ لِي مَرَّةً، فَأَنْظُرُ وَأُطَأْطِئُ لَهُ مَرَّةً، فَيَنْظُرُ فَكُنْتُ أَعْرِفُ أَبِي، إِذَا مَرَّ عَلَى فَرَسِهِ فِي السِّلَاحِ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ "، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي، فَقَالَ: وَرَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں اور سیدنا عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ خندق کے دن عورتو ں کے ساتھ تھے۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قلعہ میں تو کبھی وہ جھک جاتا میرے لیے میں دیکھتا اور کبھی میں جھک جاتا اس کے لیے وہ دیکھتا۔ میں اپنے باپ کو پہچان لیتا جب وہ گھوڑے پر نکلتے ہتھیار باندھے ہوئے بنی قریظہ کی طرف، پھر میں نے یہ ذکر کیا اپنے باپ سے، انہوں نے کہا: بیٹا! تو نے مجھے دیکھا تھا، میں نے کہا: ہاں انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے جمع کر دیا اپنے ماں باپ کو اور فرمایا: ”فدا ہوں تجھ پر ماں باپ میرے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْخَنْدَقِ كُنْتُ أَنَا، وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي الْأُطُمِ الَّذِي فِيهِ النِّسْوَةُ يَعْنِي نِسْوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُرْوَةَ، فِي الْحَدِيثِ، وَلَكِنْ أَدْرَجَ الْقِصَّةَ فِي حَدِيثِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ.
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، خندق والے دن میں اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ اس قلعمہ میں تھے جس میں عورتیں تھیں۔ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی عورتیں اور حدیث کو بیان کیا، ابن مسہر کی حدیث کے مطابق اور اس میں عبداللہ بن عروہ کا ذکر نہیں کیا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، فَتَحَرَّكَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اهْدَأْ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوبکر، عمر، علی، عثمان، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تھے اس کا پتھر ہلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تھم جا اے حرا! تیرے اوپر کوئی نہیں مگر نبی یا صدیق یا شہید (نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور صدیق سیدنا ابوبکر باقی سب شہید ہیں ظلم سے مارے گئے یہاں تک کہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی)۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى جَبَلِ حِرَاءٍ، فَتَحَرَّكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْكُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ، وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے اس نے حرکت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حرا! ٹھہر جا، نہیں ہے تجھ پر مگر نبی صدیق اور شہید۔“ اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر و عمر و عثمان و علی و طحہ و زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَعَبْدَةُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ : " أَبَوَاكَ وَاللَّهِ مِنَ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے دونوں باپ (یعنی سیدنا زبیر اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہم) ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے «الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ» (۳-آل عمران: ۱۷۲) یعنی ”جن لوگوں نے اطاعت کی اللہ اور اس کے رسول کی زخمی ہونے پر بھی۔“ (سیدنا ابوبکر عروہ کے باپ نہ تھے نانا تھے۔ نانا کو بھی باپ کہتے ہیں)۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ تَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، وَالزُّبَيْرَ.
ہشام سے انہی اسناد کے تحت مروی ہے اور اس میں دونوں باپ کا بیان ہے یعنی سیدنا ابوبکر اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہم۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ الْبَهِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ: قَالَتْ لِي عَائِشَةُ : " كَانَ أَبَوَاكَ مِنَ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ".
عروہ سے روایت ہے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا: تیرے دونوں باپ ان لوگوں میں تھے جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی «الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ» (۳-آل عمران: ۱۷۲)یعنی ”جن لوگوں نے اطاعت کی اللہ اور اس کے رسول کی زخمی ہونے پر بھی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ خَالِدٍ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَإِنَّ أَمِينَنَا أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن الجراح ہیں۔“ (اگرچہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی امین تھے پر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اوروں سے ممتاز تھے)۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ : " أَنَّ أَهْلَ الْيَمَنِ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: ابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا يُعَلِّمْنَا السُّنَّةَ وَالْإِسْلَامَ، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَقَالَ: هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یمن کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجئیے جو ہم کو حدیث اور اسلام سکھائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”یہ اس امت کا مانت دار ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: " جَاءَ أَهْلُ نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْعَثْ إِلَيْنَا رَجُلًا أَمِينًا، فَقَالَ: لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ حَقَّ أَمِينٍ، قَالَ: فَاسْتَشْرَفَ لَهَا النَّاسُ، قَالَ: فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نجران کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! ایک امانت دار شخص کو بھیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے پاس ایک امانت دار شخص کو بھیجتا ہوں، وہ بے شک امانت دار ہے، بے شک امانت دار ہے۔“ راوی نے کہا:: لوگ منتظر رہے کہ کس کو بھیجتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
ابواسحاق سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ لِحَسَنٍ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے لیے: ”یا اللہ! میں اس کو چاہتا ہوں یعنی اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی محبت رکھ اس سے اور محبت رکھ اس سے جو محبت رکھے اس سے۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنَ النَّهَارِ، لَا يُكَلِّمُنِي وَلَا أُكَلِّمُهُ، حَتَّى جَاءَ سُوقَ بَنِي قَيْنُقَاعَ، ثُمَّ انْصَرَفَ حَتَّى أَتَى خِبَاءَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ: أَثَمَّ لُكَعُ، أَثَمَّ لُكَعُ يَعْنِي حَسَنًا، فَظَنَنَّا أَنَّهُ إِنَّمَا تَحْبِسُهُ أُمُّهُ، لِأَنْ تُغَسِّلَهُ وَتُلْبِسَهُ سِخَابًا، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ يَسْعَى، حَتَّى اعْتَنَقَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ، وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ نکلا دن کو ایک وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے، نہ میں آپ سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے گھر پر آئے اور پوچھا: ”بچہ ہے، بچہ ہے۔“ یعنی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق، ہم سمجھے کہ ان کی ماں نے ان کو روک رکھا ہے نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لیے لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے اور دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ)، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ» یا اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ، اور محبت رکھ اس شخص سے جو اس سے محبت رکھے۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ ، حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے پر دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ” «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ» یا اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ ابْنُ نَافِعٍ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعًا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے پر دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ” «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ» یا اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ۔“
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الرُّومِيُّ الْيَمَامِيُّ ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِيَاسٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " لَقَدْ قُدْتُ بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ، بَغْلَتَهُ الشَّهْبَاءَ، حَتَّى أَدْخَلْتُهُمْ حُجْرَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَذَا قُدَّامَهُ، وَهَذَا خَلْفَهُ ".
ایاس نے اپنے باپ (سیدنا سلمہ بن الاکو ع رضی اللہ عنہ) سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے اس سفید خچر کو کھینچا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سوار تھے یہاں تک کہ ان کو لے گیا حجرہ نبوی تک۔ ایک صاحبزادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے تھے اور ایک پیچھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ : " خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً، وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جس پر کجاووں کی صورتیں یا ہانڈیوں کی صورتیں بنی ہوئی تھیں کالے بالوں کی، اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس چادر کے اندر کر لیا، پھر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا، پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آئیں ان کو بھی اندر کر لیا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے ان کو بھی اندر کر لیا بعد اس کے فرمایا: ” «إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا» (٣٣-الأحزاب: ۳۳) یعنی”اللہ تعالیٰ جل جلالہ چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے ناپاکی کو اور پاک کرے تم کو اے گھر والو!۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " مَا كُنَّا نَدْعُ وَزَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ، حَتَّى نَزَلَ فِي الْقُرْآنِ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 "، قَالَ الشَّيْخُ أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ السَّرَّاجُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُوسُفَ الدُّوَيْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا کر تے تھے (اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو متبنیٰ کیا تھا) یہاں تک کہ قرآن میں اترا: «ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ» (۳۳-الأحزاب: ۵) ”پکارو ان کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کر کے یہ اچھا ہے اللہ کے نزدیک۔“
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، بِمِثْلِهِ.
عبداللہ سے اسی کی مانند مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَيَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَي بْنُ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمْرَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ، فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ، مِنْ قَبْلُ وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ " .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا سردار سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو کیا لوگوں نے اس کی سرداری پر طعن کیا (کہ ایک نوجوان شخص کو بڑے بڑے مہاجرین اور انصار کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افسر کیا) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اگر تم طعنہ کرتے ہو اسامہ کی سرداری میں تو البتہ تم طعنہ کر چکے ہو اس کے باپ کی سرداری میں اور اللہ کی قسم اس کا باپ سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں میں وہ میرا زیادہ پیارا تھا اور اب اسامہ اس کے بعد سب لوگوں میں مجھے پیارا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُمَرَ يَعْنِي ابْنَ حَمْزَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: " إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمَارَتِهِ، يُرِيدُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَقَدْ طَعَنْتُمْ فِي إِمَارَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لَهَا، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَأَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَايْمُ اللَّهِ إِنَّ هَذَا لَهَا لَخَلِيقٌ، يُرِيدُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَايْمُ اللَّهِ إِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَيَّ مِنْ بَعْدِهِ، فَأُوصِيكُمْ بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ صَالِحِيكُمْ ".
سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا: ”اگر تم طعنہ کرتے ہو اس کی امارت میں۔ مراد سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔ البتہ تم طعنہ کر چکے ہو اس کے باپ کی سرداری میں بھی، اللہ کی قسم! وہ اس سرداری کے لائق تھا اور سب لوگوں میں وہ میرا زیادہ پیارا تھا۔ اور اللہ کی قسم! اب اس کے بعد اسامہ سب لوگوں میں مجھے زیادہ پیارا ہے۔ اور میں تم کو وصیت کرتا ہوں اسامہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وہ تم میں نیک بخت لوگوں میں سے ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ لِابْنِ الزُّبَيْرِ : " أَتَذْكُرُ إِذْ تَلَقَّيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا، وَأَنْتَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَحَمَلَنَا وَتَرَكَكَ ".
سیدنا عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم کو یاد ہے جب میں اور تم اور ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سوار کر لیا اور تم کو چھوڑ دیا۔ (اس لیے کہ سواری پر زیادہ جگہ نہ ہو گی)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ، وَإِسْنَادِهِ.
حبیب بن شہید سے ابن علیہ کی حدیث کی مانند روایت ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَي، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْيَانِ أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ: وَإِنَّهُ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَةَ، فَأَرْدَفَهُ خَلْفَهُ، قَالَ: فَأُدْخِلْنَا الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ ".
عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر تشریف لاتے تو گھر کے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر ملتے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے آئے اور میں آگے گیا آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے ایک صاحبزادے آئے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر ہم تینوں ایک ہی جانور پر بیٹھے ہوئےمدینہ میں آئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنِي مُوَرِّقٌ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِنَا، قَالَ: فَتُلُقِّيَ بِي وَبِالْحَسَنِ، أَوْ بِالْحُسَيْنِ، قَالَ: فَحَمَلَ أَحَدَنَا بَيْنَ يَدَيْه وَالْآخَرَ خَلْفَهُ، حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگوں سے ملتے ایک بار مجھ سے ملے اور سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ایک کو سامنے بٹھایا اور ایک کو پیچھے یہاں تک کہ مدینہ میں آئے۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: " أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ خَلْفَهُ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ حَدِيثًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک دن مجھے اپنے پیچھے بٹھایا اور چپکے سے ایک بات فرمائی جس کو میں کسی سے بیان نہ کروں گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، ووكيع ، وأبو معاوية . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، وَاللَّفْظُ حَدِيثُ أَبِي أُسَامَةَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيًّا بِالْكُوفَةِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ "، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: وَأَشَارَ وَكِيعٌ إِلَى السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےتھے: ”آسمان و زمین کے اندر جتنی عورتیں ہیں سب میں مریم بنت عمران افضل ہیں اور آسمان اور زمین کے اندر جتنی عورتیں ہیں سب میں خدیجہ بنت خویلد افضل ہیں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا وَاللَّفْظُ لَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْعَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ غَيْرُ مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ، وَآسِيَةَ امْرَأَةِ فِرْعَوْنَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے , رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں میں بہت کامل ہوئے لیکن عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی کے اور عائشہ کی فضیلت اور عورتو ں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت اور کھانوں پر۔“ (نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مریم علیہ السلام اور آسیہ علیہ السلام سے افضل ہیں کیونکہ احتمال ہے کہ مراد فضیلت سے اس امت کی عورتو ں پر ہو)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْكَ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ، أَوْ طَعَامٌ، أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ، فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُ، وَلَمْ يَقُلْ فِي الْحَدِيثِ: وَمِنِّي.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ خدیجہ ہیں، آپ کے پاس آتی ہیں ایک برتن لے کر، اس میں سالن ہے یا کھانا ہے یا شربت ہے، پھر جب وہ آئیں تو آپ ان کو سلام کہیے ان کے پر وردگار کی طرف سے اور میری طرف سے اور ان کو خوشخبری دے دیجئیے ایک گھر کی جنت میں جو خولدار موتی کا بنا ہو ا ہے، نہ اس میں شور و غل ہے، نہ کوئی تکلیف ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَّرَ خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ؟، قَالَ: نَعَمْ، بَشَّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ ".
اسمعیل نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دی ایک گھر کی جنت میں؟ انہوں نے کہا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوشخبری دی ایک گھر کی جنت میں جو خولدار موتی کا ہے، نہ اس میں شور و غل ہے، نہ تکلیف ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَجَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
سیدنا ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " بَشَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ایک گھر کی جنت میں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَلَقَدْ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي بِثَلَاثِ سِنِينَ، لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُبَشِّرَهَا، بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ ثُمَّ يُهْدِيهَا إِلَى خَلَائِلِهَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا وہ میرے نکاح سے تین برس پہلے مر چکی تھیں اور یہ رشک میں اس وقت کرتی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے(اور ان کی تعریف کرتے) اور پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دیں ایک مکان کی جنت میں جو خولدار موتی کا بنا ہوا ہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کرتے تھے، پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے پاس اس کا گوشت بھیجتے تھے۔
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى خَدِيجَةَ، وَإِنِّي لَمْ أُدْرِكْهَا، قَالَتْ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَبَحَ الشَّاةَ، فَيَقُولُ: أَرْسِلُوا بِهَا إِلَى أَصْدِقَاءِ خَدِيجَةَ، قَالَتْ: فَأَغْضَبْتُهُ يَوْمًا، فَقُلْتُ: خَدِيجَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی بیبیوں پر رشک نہیں کیا البتہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا اور میں نے ان کو نہیں پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے:”اس کا گوشت خدیجہ کے عزیزوں کو بھیجو۔“ ایک دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ کیا اور کہا: خدیجہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان کی محبت اللہ تعالیٰ نے ڈال دی۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ، إِلَى قِصَّةِ الشَّاةِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الزِّيَادَةَ بَعْدَهَا.
ہشام سے انہی اسناد کے تحت ابی اسامہ کی حدیث کی مانند روایت ہے، بکری کے قصہ تک اور بعد والے اضافے کو ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " مَا غِرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ لِكَثْرَةِ ذِكْرِهِ إِيَّاهَا وَمَا رَأَيْتُهَا قَطُّ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اتنا رشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بی بی پر نہیں کیا جتنا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذ کر بہت کرتے اور میں نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَمْ يَتَزَوَّجْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَدِيجَةَ حَتَّى مَاتَتْ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر دوسرا نکاح نہیں کیا یہاں تک کہ وہ مر گئیں۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ، فَارْتَاحَ لِذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، فَغِرْتُ، فَقُلْتُ: وَمَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ، حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ، فَأَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ہالہ بنت خویلد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی) نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ نے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا اجازت مانگنا یاد آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا: ”یا اللہ! ہالہ بیٹی خویلد کی۔“ مجھے رشک آیا میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یاد کرتے ہیں قریش کی بڑھیوں میں سے ایک بڑھیا کے سرخ مسوڑھوں والی (یعنی انتہا کی بڑھیا جس کے ایک دانت بھی نہ رہا نری سرخی ہی سرخی ہو دانت کی سفیدی بالکل نہ ہو) پتلی پنڈلیوں والی وہ مر گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عورت دی(جوان باکرہ جیسے میں ہوں)۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُرِيتُكِ فِي الْمَنَامِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، جَاءَنِي بِكِ الْمَلَكُ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ، فَيَقُولُ: هَذِهِ امْرَأَتُكَ فَأَكْشِفُ عَنْ وَجْهِكِ، فَإِذَا أَنْتِ هِيَ فَأَقُولُ: إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تجھے خواب میں دیکھا تین راتوں تک (نبوت سے پہلے یا نبوت کے بعد) ایک فرشتہ تجھ کو ایک سفید حریر کے ٹکڑے میں لایا اور مجھے کہنے لگا: یہ آپ کی عورت ہے۔ میں نے تیرے چہرے سے پردہ ہٹایا تو وہ تو نکلی میں نے کہا: اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہو گا .“ (یعنی یہ عورت مجھے ملے گی اگر کوئی اور تعبیر اس خواب کی نہ ہو)۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَمِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِكَ؟، قَالَ: أَمَّا إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ غَضْبَى، قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں جان لیتا ہوں جب تومجھ سے خوش ہوتی ہے اور جب ناخوش ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: کیونکر آپ جان لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جب تو خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے، نہیں قسم محمد کے رب کی اور جب ناراض ہو جاتی ہے تو کہتی ہے نہیں قسم ابراہیم کے رب کی۔“ میں نے عرض کیا: بےشک اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میں آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (جب آپ سے ناراض ہوتی ہوں، یہ غصہ عائشہ رضی اللہ عنہما کا اسی رشک کے باب سے ہے جو عورتوں کو معاف ہے اور وہ ظاہر میں ہوتا ہے دل میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے رسول سے کبھی ناراض نہ ہوتیں)۔
وحَدَّثَنَاهابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ «وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ» کے قول تک مروی ہے اور بعد والے جملے کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّهَا كَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَتْ تَأْتِينِي صَوَاحِبِي، فَكُنَّ يَنْقَمِعْنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَرِّبُهُنَّ إِلَيّ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ گڑیوں سے کھیلتی تھیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، انہو ں نے کہا: میری ہمجولیاں آتیں اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر غائب ہو جاتیں، (شرم سے اور ڈر سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میرے پاس بھیج دیتے۔
حَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فِي بَيْتِهِ وَهُنَّ اللُّعَبُ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور جریر کی روایت میں ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے گھر میں گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، اور وہی کھیل ہوتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، لوگ میری باری کا انتظار کیا کرتے۔ جس دن میری باری ہوتی تحفے بھیجتے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، وَأَنَا سَاكِتَةٌ، قَالَتْ: فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ بُنَيَّةُ أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ، فَقَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَأَحِبِّي هَذِهِ، قَالَتْ: فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي، قَالَتْ: وَبِالَّذِي قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ لَهَا: مَا نُرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْءٍ، فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ، وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَعْظَمَ صَدَقَةً، وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ، كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ، قَالَتْ: فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالَةِ الَّتِي دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا وَهُوَ بِهَا، فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ: ثُمَّ وَقَعَتْ بِي، فَاسْتَطَالَتْ عَلَيَّ، وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ، هَلْ يَأْذَنُ لِي فِيهَا؟ قَالَتْ: فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ، قَالَتْ: فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَتَبَسَّمَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، انہوں نے اجازت مانگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے میرے ساتھ میری چادر میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اجازت دی، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی بیبیوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ چاہتی ہیں کہ آپ انصاف کریں ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں۔(یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟“ وہ بولیں:یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو محبت رکھ عائشہ سے۔“ یہ سنتے ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اٹھیں اور بیبیوں کے پاس گئیں ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا وہ کہنے لگیں: ہم سمجھتی ہیں تم کچھ ہمارے کام نہ آئيں اس لیے پھر جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہو: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں انصاف چاہتی ہیں ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں(ابوقحافہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ تھے تو سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں اب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناتا جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں، فقط ان میں ایک تیزی تھی(یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتیں۔ انہوں نے اجازت چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اجازت دی اسی حال میں کہ آپ میری چادر میں تھے جس حال میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی تھیں انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کی بیبیاں انصاف چاہتی ہیں ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں، پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیتے ہیں جواب دینے کی یا نہیں یہاں تک کہ مجھ کو معلوم ہو گیا کہ آپ جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو بند کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا: ”یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔“ (کسی ایسے ویسے کی لڑکی نہیں ہے جو تم سے دب جائے)۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ : حَدَّثَنِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ فِي الْمَعْنَى، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا أَنْ أَثْخَنْتُهَا غَلَبَةً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَفَقَّدُ، يَقُولُ: " أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ، أَيْنَ أَنَا غَدًا، اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي، قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کرتے تھے (بیماری میں) اور فرماتے تھے: ”کل میں کہاں ہوں گا، کل میں کہاں ہوں گا؟“ یہ خیال کر کے کہ ابھی میری باری میں دیر ہے، پھر میری باری کے دن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیا میرے سینہ اور حلق میں (یعنی آپ کا سر مبارک میرے سینہ سے لگا ہوا تھا)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَى صَدْرِهَا، وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے وفات سے پہلے اور ٹیک لگائے ہوئے تھے میرے سینہ پر، میں نے کان لگایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي، وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ» ”یا اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم کر مجھ پر اور ملا دے مجھ کو اپنے رفیقوں سے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا سورة النساء آية 69، قَالَتْ: فَظَنَنْتُهُ خُيِّرَ حِينَئِذٍ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی نہیں مرے گا یہاں تک کہ اس کو اختیار دیا جائے گا دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا، پھر میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں کے ساتھ کر جن پر تو نے احسان کیا نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت لوگوں میں سے اور اچھے رفیق ہیں یہ لوگ۔“ اس وقت میں سمجھی ان کو اختیار ملا۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
سعد سے انہی اسناد کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، في رجال من أهل العلم، أن عائشة زوج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ: إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدُهُ فِي الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِي غُشِيَ عَلَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ أَفَاقَ، فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى، قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: إِذًا لَا يَخْتَارُنَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَعَرَفْتُ الْحَدِيثَ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ فِي قَوْلِهِ: " إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تِلْكَ آخِرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَوْلَهُ: اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے تندرستی کی حالت میں: ”کوئی نبی نہیں فوت ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانا جنت میں دیکھ نہیں لیا اور اختیار نہیں ملا دنیا سے جانے کے لیے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ کا سر میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساعت تک بیہوش رہے، پھر ہوش میں آئے اور اپنی آنکھ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا: «اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى» ”یا اللہ! بلند رفیقوں کے ساتھ کر۔“ (یعنی پیغمبروں کے ساتھ۔ جو اعلی علیین میں رہتے ہیں) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس وقت میں نے کہا: اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اختیار کرنے والے نہیں اور مجھے یاد آئی وہ حدیث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تندرستی کی حالت میں کہ ”کوئی نبی نہیں فوت ہوا یہاں تک کہ اس نے اپنا ٹھکانا جنت میں دیکھ نہ لیا ہو اور اس کو اختیار نہ ملا ہو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ آخری کلمہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الأَعْلَى» ۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَطَارَتِ الْقُرْعَةُ عَلَى عَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، فَخَرَجَتَا مَعَهُ جَمِيعًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ بِاللَّيْلِ سَارَ مَعَ عَائِشَةَ يَتَحَدَّثُ مَعَهَا، فَقَالَتْ: حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: أَلَا تَرْكَبِينَ اللَّيْلَةَ بَعِيرِي وَأَرْكَبُ بَعِيرَكِ، فَتَنْظُرِينَ وَأَنْظُرُ، قَالَتْ: بَلَى، فَرَكِبَتْ عَائِشَةُ عَلَى بَعِيرِ حَفْصَةَ، وَرَكِبَتْ حَفْصَةُ عَلَى بَعِيرِ عَائِشَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمَلِ عَائِشَةَ وَعَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ سَارَ مَعَهَا حَتَّى نَزَلُوا، فَافْتَقَدَتْهُ عَائِشَةُ فَغَارَتْ، فَلَمَّا نَزَلُوا جَعَلَتْ تَجْعَلُ رِجْلَهَا بَيْنَ الْإِذْخِرِ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ سَلِّطْ عَلَيَّ عَقْرَبًا، أَوْ حَيَّةً، تَلْدَغُنِي رَسُولُكَ وَلَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقُولَ لَهُ شَيْئًا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کو جاتے تو قرعہ ڈالتے اپنی عورتوں پر، ایک بار قرعہ مجھ پر اور ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا پر آیا، ہم دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ نکلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو سفر کرتے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ چلتے ان سے باتیں کرتے ہوئے، حفصہ نے عائشہ سے کہا: آج کی رات تم میرے اونٹ پر چڑھو اور میں تمہارے اونٹ پر چڑھتی ہوں، تم دیکھو گی جو تم نہیں دیکھتی تھیں اور میں دیکھوں گی جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اچھا اور وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ان کے اونٹ پر۔ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے دیکھا تو اس پر حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور انہی کے ساتھ بیٹھ کر چلے یہاں تک کہ منزل پر اترے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا (رات بھر) ان کو غیرت آئی، جب اتریں تو وہ اپنے پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈالتیں اور کہتیں: یا اللہ! مجھ پر مسلط کر ایک بچھو یا سانپ جو مجھ کو ڈس لے وہ تو تیرے رسول ہیں میں ان کو کچھ کہہ نہیں سکتی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ، كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت اور عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید (ایک کھانا ہے روٹی اور گوشت سے ملا کر بنایا جاتا ہے) کی فضیلت باقی کھانوں پر۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونَ بْنَ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔ اور ان کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا ہے۔ اسماعیل کی روایت میں ہے کہ اس نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: " إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے (یعنی عائشہ سے): ”جبریل تم کو سلام کہتے ہیں۔“، انہوں نے کہا«وعليكم السلام ورحمة الله» ۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا.ش
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی روایتوں کی مانند بیان فرمایا ہے۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا. وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
زکریا سے انہی اسناد کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشُ هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، قَالَتْ: وَهُوَ يَرَى مَا لَا أَرَى ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جبریل علیہ السلام ہیں تم کو سلام کہتے ہیں۔“ میں نے کہا «وعليكم السلام و رحمة الله» سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلمدیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عِيسَى وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً، فَتَعَاهَدْنَ، وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا، قَالَتِ الْأُولَى: زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ، عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ وَعْرٍ لَا سَهْلٌ، فَيُرْتَقَى وَلَا سَمِينٌ، فَيُنْتَقَلَ، قَالَتِ الثَّانِيَةُ: زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ إِنِّي أَخَافُ، أَنْ لَا أَذَرَهُ إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ، قَالَتِ الثَّالِثَةُ: زَوْجِي الْعَشَنَّقُ إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ، وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ، قَالَتِ الرَّابِعَةُ: زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ، لَا حَرَّ، وَلَا قُرَّ، وَلَا مَخَافَةَ، وَلَا سَآمَةَ، قَالَتِ الْخَامِسَةُ: زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ، وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ، قَالَتِ السَّادِسَةُ: زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ، وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ، وَإِنِ اضْطَجَعَ الْتَفَّ، وَلَا يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ، قَالَتِ السَّابِعَةُ: زَوْجِي غَيَايَاءُ، أَوْ عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ، كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ شَجَّكِ، أَوْ فَلَّكِ، أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ، قَالَتِ الثَّامِنَةُ: زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ، وَالْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ، قَالَتِ التَّاسِعَةُ: زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ، طَوِيلُ النِّجَادِ، عَظِيمُ الرَّمَادِ، قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِي، قَالَتِ الْعَاشِرَةُ: زَوْجِي مَالِكٌ، وَمَا مَالِكٌ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ، لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ، قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ، قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ: زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ فَمَا أَبُو زَرْعٍ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ، وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ وَبَجَّحَنِي، فَبَجَحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي، وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ، فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ، وَأَطِيطٍ، وَدَائِسٍ، وَمُنَقٍّ، فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ وَأَرْقُدُ، فَأَتَصَبَّحُ وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ عُكُومُهَا رَدَاحٌ، وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ ابْنُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ، وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ طَوْعُ أَبِيهَا، وَطَوْعُ أُمِّهَا، وَمِلْءُ كِسَائِهَا، وَغَيْظُ جَارَتِهَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا، وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا، وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا، قَالَتْ: خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ، فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ، فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا، فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا رَكِبَ شَرِيًّا، وَأَخَذَ خَطِّيًّا، وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا، قَالَ: كُلِي أُمَّ زَرْعٍ، وَمِيرِي أَهْلَكِ، فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِي، مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، گیارہ عورتیں بیٹھیں اور ان تمام نے یہ اقرار کیا اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا: میرا خاوند گویا دبلے اونٹ کا گوشت ہے جو ایک دشوار گزار پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو نہ تو وہاں تک صاف راستہ ہے کہ کوئی چڑھ جائے اور نہ وہ گوشت موٹا ہے کہ لایا جائے۔ دوسری عورت نے کہا: میں اپنے خاوند کی خبر نہیں پھیلا سکتی میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو پورا بیان نہ کر سکوں گی، اس قدر اس میں عیوب ہیں ظاہری بھی اور باطنی بھی (اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ میں ڈرتی ہوں اگر بیان کروں تو اس کو چھوڑ دوں گی یعنی وہ خفا ہو کر مجھ کو طلاق دے گا اور اس کو چھوڑنا پڑے گا)۔ تیسری عورت نے کہا: میرا خاوند لمبا ہے (یعنی احمق) اگر میں اس کی برائی بیان کروں تو مجھ کو طلاق دے دے گا اور جو چپ رہو ں تو اوہڑ رہوں گی (یعنی نہ نکاح کے مزے اٹھاؤں گی نہ بالکل محروم رہوں گی)۔ چوتھی نے کہا:میرا خاوند تو ایسا ہے جیسے تہامہ (حجاز اور مکہ) کی رات نہ گرم ہے نہ سرد (یعنی معتدل المزاج ہے) نہ ڈر ہے نہ رنج (یہ اس کی تعریف کی یعنی اس کے عمدہ اخلاق ہیں اور نہ وہ میری صحبت سے ملول ہوتا ہے۔) پانچویں عورت نے کہا: میرا خاوند جب گھر میں آتا ہے تو چیتا ہے (یعنی پڑ کر سو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ستاتا)اور جب باہر نکلتا ہ ےتو شیر ہے اور جو مال اسباب گھر چھوڑ جاتا ہے اس کو نہیں پوچھتا۔ چھٹی عورت نے کہا: میرا خاوند اگر کھاتا ہے تو سب تمام کر دیتا ہے اور پیتا ہے تو تلچھٹ تک نہیں چھوڑتا اور لیٹتا ہے تو بدن لپیٹ لیتا ہے اور مجھ پر اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا کہ میرا دکھ اور درد پہچانے (یہ بھی ہجو ہے یعنی سوا کھانے پینے کے بیل کی طرح اور کوئی کام کا نہیں عورت کی خبر تک نہیں لیتا۔) ساتویں عورت نے کہا: میرا خاوند نامرد ہے یا شریر نہایت احمق ہے کہ کلام نہیں کرنا جانتا سب جہاں بھر کے عیب اس میں موجود ہیں ایسا ظالم کہ تیرا سر پھوڑے یا ہاتھ توڑے یا سر اور ہاتھ دونوں مروڑے۔ آٹھویں عورت نے کہا: میراخاوند بو میں زرنب ہے (زرنب ایک خوشبودار گھاس ہے) اور چھونے میں نرم جیسے خرگوش (یہ تعریف ہے یعنی اس کا ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہیں۔ نویں عورت نے کہا: میرا خاوند اونچے محل والا لمبے پر تلے والا (یعنی قدآور)بڑی راکھ والا (یعنی سخی ہے اس کا باورچی خانہ ہمیشہ گرم رہتا ہے تو راکھ بہت نکلتی ہے) اس کا گھر نزدیک ہے مجلس اور مسافر خانہ سے (یعنی سردار اور سخی ہے اس کا لنگر جاری ہے)۔ دسویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام مالک ہے مالک افضل ہے میری اس تعریف سے، اس کے اونٹوں کے بہت شترخانے ہیں اور کمتر چراگاہیں ہیں (یعنی ضیافت میں اس کے یہاں اونٹ بہت ذبح ہوا کرتے ہیں اس سبب سے شترخانوں سے جنگل میں کم چرنے جاتے ہیں)جب کہ اونٹ باجے کی آواز سنتے ہیں تو اپنے ذبح ہونے کا یقین کر لیتے ہیں (ضیافت میں راگ اور باجے کا معمول تھا اس سبب سے باجے کی آواز سن کر اونٹوں کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو جاتا تھا)۔ گیارھویں عورت نے کہا: میرے خاوند کا نام ابوزرع ہے، سو واہ! کیا خوب ابوزرع ہے، اس نے زیور سے میرے دونوں کان جھلائے اور چربی سے میرے دونوں بازو بھرے (یعنی مجھ کو موٹا کیا اور مجھ کو بہت خوش کیا) سو میری جان بہت چین میں رہی۔ مجھ کو اس نے بھیڑ بکری والوں میں پایا جو پہاڑ کے کنارے رہتے تھے سو اس نے مجھ کو گھوڑے اور اونٹ اور کھیت اور خرمن کا مالک کر دیا (یعنی میں نہایت ذلیل اور محتاج تھی اس نے مجھ کو باعزت اور مالدار کر دیا) میں اس کی بات کرتی ہوں وہ مجھ کو برا نہیں کہتا سوتی ہوں تو فجر کر دیتی ہوں (یعنی کچھ کام نہیں کرنا پڑتا) اور پیتی ہوں تو سیراب ہو جاتی ہوں۔ ماں ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے ماں ابوزرع کی اس کی بڑی بڑی گٹھڑیاں کشادہ اور کشادہ گھر۔ بیٹا ابوزرع کا! سو کیا خوب ہے بیٹا ابوزرع کا اس کی خواب گاہ جیسے تلوار کی میان (یعنی نازنین بدن ہے) اس کو آسودہ کر دیتا ہے حلوان کا ہاتھ۔ (یعنی کم خور ہے) بیٹی ابوزرع کی! سو کیا خوب ہے بیٹی ابوزرع کی، اپنے ماں باپ کی تابعدار اپنے لباس کے بھرنے والی (یعنی موٹی ہے) اور اپنے سوت کی رشک (یعنی اپنے خاوند کی پیاری ہے) اس واسطے اس کی سوت اس سے جلتی ہے۔ لونڈی ابوزرع کی! کیا خوب ہے لونڈی ابوزرع کی ہماری بات مشہور نہیں کرتی ظاہر کر کے اور ہمارا کھانا نہیں لے جاتی اٹھا کر اور ہمارا گھر آلودہ نہیں رکھتی کوڑے سے۔ ابوزرع باہر نکلا جب کہ مشکوں میں دودھ متھا جاتا تھا (گھی نکالنے کے واسطے) سو وہ ملا ایک عورت سے، جس کے ساتھ اس کے دو لڑکے تھے جیسے دو چیتے اس کی گود میں دو اناروں سے کھیلتے تھے سو ابوزرع نے مجھے طلاق دے دی اور اس عورت سے نکاح کیا، پھر میں نے اس کے بعد ایک سردار مرد سے نکاح کیا عمدہ گھوڑے کا سوار اور نیزہ باز۔ اس نے مجھ کو چوپائے جانور بہت دیے اور اس نے مجھ کو ہر مویشی سے جوڑا جوڑا دیا سو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ام زرع! اور کھلا اپنے لوگوں کو سو اگر میں جمع کروں جو دوسرے خاوند نے دیا تو ابوزرع کے چھوٹے برتن کے برابر بھی نہ پہنچے (یعنی دوسرے خاوند کا احسان پہلے خاوند کے احسان سے نہایت کم ہے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں تیرے لیے ایسا ہوں جیسے ابوزرع تھا ام زرع کے لیے۔“ (یعنی ویسی تیری خاطر کرتا ہوں اور سب باتوں میں تشبیہ ضروری نہیں تو آپ نے طلاق نہیں دی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اور یہ غیبت میں داخل نہیں جو عورتوں نے اپنے خاوندوں کا ذکر کیا کیونکہ انہوں نے اپنے خاوندوں کا نام نہیں لیا اور جب تک نام لےکر کسی کی برائی نہ کرے وہ غیبت نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہ عورتیں مجہول ہیں یہ اگر غیبت بھی کرتی ہوں تو کیا بعید ہے اور اس وقت میں اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی برائی کرے ان لوگوں کے سامنے جو اس کے خاوند کو پہنچانتے ہوں تو وہ غیبت ہو جائے گی گو نام نہ لے نووی)۔
وحَدَّثَنِيهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ وَلَمْ يَشُكَّ، وَقَالَ: قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ، وَقَالَ: وَصِفْرُ رِدَائِهَا، وَخَيْرُ نِسَائِهَا، وَعَقْرُ جَارَتِهَا، وَقَالَ: وَلَا تَنْقُثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا، وَقَالَ: وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ ذَابِحَةٍ زَوْجًا.
ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ سے اسی سند کے ساتھ روایت نقل کی گئی ہے لیکن اس روایت میں معمولی لفظوں کا ردو بدل ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: " إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي، وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ".
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کے لیے سیدنا علی بن ابی طالب سے (یعنی ابوجہل کی بیٹی کا جس کے نکاح کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام دیا تھا) تو میں اجازت نہ دوں گا، نہ دوں گا، نہ دوں گا البتہ اس صورت میں اجازت دیتا ہوں کہ علی میری بیٹی کو طلاق دیں اور ان کی بیٹی سے نکاح کریں اس لیےکہ میری بیٹی ایک ٹکڑا ہے میرا۔ شک میں ڈالتا ہے مجھ کو جو اس کو شک ڈالتا ہے اور ایذا ہوتی ہے مجھ کو جس سے اس کو ایذا ہوتی ہے۔“ (اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا ہر حال میں حرام ہے اگرچہ ایذا کا سبب امر مباح ہو، دوسرا نکاح کرنا اگرچہ جائز تھا لیکن جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس سے رنج ہوتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رنج کی وجہ سے رنج ہوتا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا، بوجہ کمال شفقت کے علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا پر دوسرے یہ کہ شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کسی فتنہ میں پڑ جاتیں رشک کی وجہ سے جو عورتوں کا طبعی امر ہے)۔
حَدَّثَنِي أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ".
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، اس کی تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔“
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيُّ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ، " أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، قَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، فَأَحْسَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي، فَأَوْفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا ".
سیدنا زین العابدین علی بن حسین سے روایت ہے وہ جب مدینہ میں آئے یزید بن معاویہ کے پاس سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تو ملے ان سے سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور پوچھا: آپ کا کچھ کام ہو تو مجھ کو حکم فرمائیے۔ سیدنا زین العابدین نے فرمایا: کچھ نہیں، مسور نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار مجھ کو دے دیتےکیونکہ میں ڈرتا ہوں لوگ آپ سے زبردستی اس کو چھین نہ لیں، اللہ کی قسم! اگر وہ تلوار آپ مجھ کو دے دیں گے تو کوئی اس کو نہ لے سکے گا جب تک میری جان میں جان ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیام دیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سناتے تھے لوگوں کو اس منبر پر اور ان دنوں میں بالغ ہو چکا تھا، آپ نے فرمایا: ”فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ ان کے دین پر کوئی آفت آئے“، پھر بیان کیا اپنے ایک داماد کا جو عبد شمس کی اولاد میں سے تھے (یعنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا) اور تعریف کی ان کی رشتہ داری کی اور فرمایا: انہوں نے ”جو بات مجھ سے کہی وہ سچ کہی اور جو وعدہ کیا وہ پورا کیا اور میں کسی حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہ ہوں گی۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ: " أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ، وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحًا ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ مُضْغَةٌ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَكْرَهُ أَنْ يَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا، قَالَ: فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ ".
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیام دیا اور ان کے نکاح میں سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئيں اور عرض کیا، آپ کے لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے غصے نہیں ہوتے اور یہ علی ہیں جو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں؟ مسور نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا، پھر فرمایا: ”میں نے اپنی لڑکی کا نکاح (زینب کا) ابوالعاص بن ربیع سے کیا اس نے جو بات مجھ سے کہی سچ کہی اور فاطمہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی میرے گوشت کا ٹکڑا ہے اور مجھے برا لگتا ہے کہ لوگ اس کے دین پر آفت لائیں (یعنی جب علی دوسرا نکاح کریں گے تو شاید سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رشک کی وجہ سے کوئی بات اپنے خاوند کے خلاف کہہ بیٹھیں یا ان کی نافرمانی کریں اور گنہگار ہوں) اور اللہ کی قسم! رسول اللہ کی لڑکی اور عدواللہ (اللہ کے دشمن) کی لڑکی دونوں ایک مرد کے پاس جمع نہ ہوں گی۔“ یہ سن کر سیدنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیام چھوڑ دیا (یعنی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ موقوف کیا)۔
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ يَعْنِي ابْنَ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُالنُّعْمَانَ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
زہری سے انہی اسناد کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ، فَسَارَّهَا، فَبَكَتْ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَضَحِكَتْ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِفَاطِمَةَ : مَا هَذَا الَّذِي سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَبَكَيْتِ، ثُمَّ سَارَّكِ، فَضَحِكْتِ، قَالَتْ: سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي بِمَوْتِهِ، فَبَكَيْتُ ثُمَّ سَارَّنِي، فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِكْتُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کان میں ان سے بات کی وہ روئیں، پھر کان میں کچھ ان سے فرمایا وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے پوچھا: پہلے تم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا تو تم روئیں پھر کچھ فرمایا تو تم ہنسیں، یہ کیا بات تھی۔ انہوں نے کہا: پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ میری موت قریب ہے، میں روئی۔ پھر فرمایا: تو سب سے پہلے میرے اہل بیت میں سے میرا ساتھ دے گی تو میں ہنسی۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ، لَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي مَا تُخْطِئُ مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ بِهَا، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى جَزَعَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ لَهَا: خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ بِالسِّرَارِ، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلْتُهَا: مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: مَا كُنْتُ أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ لَمَا حَدَّثْتِنِي، مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى فَأَخْبَرَنِي، أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ الْآنَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنِّي لَا أُرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ: أَمَا تَرْضَيْ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَتْ: فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیبیاں آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم پاس تھیں (آپ کی بیماری میں)کوئی باقی نہ تھی جو نہ ہو، اتنے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا: ”مرحبا میری بیٹی“، پھر ان کو اپنے داہنی طرف بٹھایا یا بائيں طرف اور ان کے کان میں چپکے سے کچھ فرمایا: وہ بہت روئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کےکان میں کچھ فرمایا وہ ہنسیں میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روئی ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا: کیا فرمایا تم سے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کو جو میرا ان پر تھا اور کہا: بیان کرو مجھ سے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا۔ انہوں نے کہا: اب البتہ میں بیان کر دوں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرےکان میں یہ فرمایا کہ ”جبرئیل علیہ السلام ہر سال میں ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے اس سال انہوں نے دو بار دور کیا اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے (دنیا سے جانے کا) تو اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر میں تیرا بہت اچھا پیش خیمہ ہوں۔“ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا: ”اے فاطمہ! تو راضی نہیں ہے اس بات سے کہ مؤمنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو۔“ یہ سن کر میں ہنسی جیسے تم نے دیکھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةً، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، فَأَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا، فَبَكَتْ فَاطِمَةُ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَيْضًا، فَقُلْتُ لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَقُلْتُ لَهَا حِينَ بَكَتْ: أَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثِهِ دُونَنَا ثُمَّ تَبْكِينَ، وَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: إِنَّهُ كَانَ حَدَّثَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ فِي الْعَامِ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي، وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِي، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، فَبَكَيْتُ لِذَلِكَ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّنِي، فَقَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب بیبیاں جمع ہوئیں کوئی باقی نہ رہی، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کی چال تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرحبا میری بیٹی۔“ اور ان کو داہنی یا بائیں طرف بٹھایا، پھر ان کے کان میں ایک بات فرمائی وہ رونے لگیں، پھر ایک بات فرمائی تو وہ ہنسنے لگیں، میں نے کہا: تم کیوں روتی ہو انہوں نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھید کھولنے والی نہیں ہوں۔ میں نے کہا: میں نے تو آج کی طرح کبھی خوشی نہیں دیکھی جو رنج سے اتنی نزدیک ہو (یعنی رنج کے بعد ہی اس کے متصل خوشی ہو) جب وہ روئیں تو میں نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو خاص کیا ہے اس بات سے اور ہم سے بیان نہ کی، پھر تم روتی ہو (حالانکہ تمہارا درجہ ایسا بڑھ گیا کہ تمام بیبیوں سے زیادہ رازدار ہو گئیں) اور میں نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا۔ انہوں نے یہی کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے پوچھا: انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جبرئیل علیہ السلام ہر سال مجھ سے ایک بار قرآن شریف کا دور کرتے تھے اس سال دو بار دور کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میری موت قریب آن پہنچی ہے اور تو سب سے پہلے مجھ سے ملے گی اور میں تیرا اچھا پیش خیمہ ہوں۔“ یہ سن کر میں روئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو خوش نہیں ہوتی اس بات سے کہ تو مؤمنوں کی عورتوں کی سردار ہو یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو۔“ تو یہ سن کر میں ہنسی۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كلاهما، عَنْ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ ابْنُ حَمَّادٍ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: " لَا تَكُونَنَّ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ السُّوقَ، وَلَا آخِرَ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهَا، فَإِنَّهَا مَعْرَكَةُ الشَّيْطَانِ وَبِهَا يَنْصِبُ رَايَتَهُ، قَالَ: وَأُنْبِئْتُ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، أَتَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ، قَالَ: فَجَعَلَ يَتَحَدَّثُ ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّ سَلَمَةَ، مَنْ هَذَا، أَوْ كَمَا قَالَ؟ قَالَتْ: هَذَا دِحْيَةُ، قَالَ: فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: ايْمُ اللَّهِ مَا حَسِبْتُهُ إِلَّا إِيَّاهُ، حَتَّى سَمِعْتُ خُطْبَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُ خَبَرَنَا، أَوْ كَمَا قَالَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَبِي عُثْمَانَ: مِمَّنْ سَمِعْتَ هَذَا؟ قَالَ: مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ " .
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے تھے تجھ سے اگر ہو سکے تو سب سے پہلے بازار میں مت جا اور نہ سب کے بعد وہاں سے نکل کیونکہ بازار معرکہ ہے شیطان کا اور وہیں اس کا جھنڈا کھڑا ہوتا ہے، انہوں نے کہا: سیدنا جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبرئیل علیہ السلام باتیں کرنے لگے پھر کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”یہ کون شخص تھے؟“ انہوں نے کہا دحیہ کلبی تھے، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تو ان کو دحیہ کلبی سمجھے یہاں تک کہ میں نے خطبہ سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر بیان کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانِيُّ ، أَخْبَرَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَي بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا، قَالَتْ: فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا، قَالَتْ: فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ، لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَتَصَدَّقُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیبیوں سے) فرمایا: ”تم میں سب پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔“ تو سب بیبیاں اپنے اپنے ہاتھ ناپتیں تاکہ معلوم ہو کس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم سب میں زینب رضی اللہ عنہا کے ہاتھ زیادہ لمبے تھے وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرتیں اور صدقہ دیتیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَنَاوَلَتْهُ إِنَاءً فِيهِ شَرَابٌ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَصَادَفَتْهُ صَائِمًا، أَوْ لَمْ يُرِدْهُ، فَجَعَلَتْ تَصْخَبُ عَلَيْهِ وَتَذَمَّرُ عَلَيْهِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ گیا، وہ ایک برتن میں شربت لائیں، میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے یا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پھیر دیا وہ چلانے لگیں اور غصہ کرنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: " انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ، نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَنْ لَا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ، فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمارے ساتھ چلو ام ایمن رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لیے ہم ان سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جایا کرتے تھے ان سے ملنے کے لیے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں دونوں صاحبوں نے کہا تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس جو سامان ہے اس کے رسول کے لیے وہ بہتر ہے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس لیے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی لیکن میں اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَدْخُلُ عَلَى أَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِ، إِلَّا أُمِّ سُلَيْمٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يَدْخُلُ عَلَيْهَا، فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي أَرْحَمُهَا، قُتِلَ أَخُوهَا مَعِي ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے گھر میں نہیں جاتے تھے سوائے اپنی بیبیوں کے یا ام سلیم رضی اللہ عنہا کے (جو انس کی والدہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی بی بی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس جایا کرتے، لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس پر بہت رحم آتا ہے اس کا بھائی میرے ساتھ مارا گیا۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْفَةً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذِهِ الْغُمَيْصَاءُ بِنْتُ مِلْحَانَ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں گیا وہاں میں نے آہٹ پائی(کسی کے چلنے کی آواز) میں نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے کہا غمیصاء بنت ملحان (ام سلیم رضی اللہ عنہا کانام غمیصاء یارمیصاء تھا) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ۔“
حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُرِيتُ الْجَنَّةَ، فَرَأَيْتُ امْرَأَةَ أَبِي طَلْحَةَ، ثُمَّ سَمِعْتُ خَشْخَشَةً أَمَامِي، فَإِذَا بِلَالٌ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مجھےجنت دکھلائی گئی تو میں نے وہاں ابوطلحہ کی بی بی ام سلیم کو دیکھا پھر میں نے اپنے آگے چلنے کی آواز سنی، دیکھا تو بلال ہیں۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ مِنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، فَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا تُحَدِّثُوا أَبَا طَلْحَةَ بِابْنِهِ حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُحَدِّثُهُ، قَالَ: فَجَاءَ فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِ عَشَاءً، فَأَكَلَ وَشَرِبَ، فَقَالَ: ثُمَّ تَصَنَّعَتْ لَهُ أَحْسَنَ مَا كَانَ تَصَنَّعُ قَبْلَ ذَلِكَ، فَوَقَعَ بِهَا، فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ قَدْ شَبِعَ وَأَصَابَ مِنْهَا، قَالَتْ يَا أَبَا طَلْحَةَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوا عَارِيَتَهُمْ أَهْلَ بَيْتٍ، فَطَلَبُوا عَارِيَتَهُمْ أَلَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَاحْتَسِبْ ابْنَكَ، قَالَ: فَغَضِبَ، وَقَالَ: تَرَكْتِنِي حَتَّى تَلَطَّخْتُ، ثُمَّ أَخْبَرْتِنِي بِابْنِي، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا كَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي غَابِرِ لَيْلَتِكُمَا، قَالَ: فَحَمَلَتْ، قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهِيَ مَعَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَى الْمَدِينَةَ مِنْ سَفَرٍ لَا يَطْرُقُهَا طُرُوقًا، فَدَنَوْا مِنْ الْمَدِينَةِ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، فَاحْتُبِسَ عَلَيْهَا أَبُو طَلْحَةَ، وَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: إِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ أَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ، إِذَا خَرَجَ وَأَدْخُلَ مَعَهُ إِذَا دَخَلَ، وَقَدِ احْتَبَسْتُ بِمَا تَرَى، قَالَ: تَقُولُ أُمُّ سُلَيْمٍ يَا أَبَا طَلْحَةَ: مَا أَجِدُ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، قَالَ: وَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ حِينَ قَدِمَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: يَا أَنَسُ لَا يُرْضِعُهُ أَحَدٌ حَتَّى تَغْدُوَ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ احْتَمَلْتُهُ، فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصَادَفْتُهُ وَمَعَهُ مِيسَمٌ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: لَعَلَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ، قُلْتُ: نَعَمْ فَوَضَعَ الْمِيسَمَ، قَالَ: وَجِئْتُ بِهِ، فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَجْوَةٍ مِنْ عَجْوَةِ الْمَدِينَةِ، فَلَاكَهَا فِي فِيهِ حَتَّى ذَابَتْ، ثُمَّ قَذَفَهَا فِي فِي الصَّبِيِّ، فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوا إِلَى حُبِّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ، قَالَ: فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پیٹ سے تھا مر گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: ابوطلحہ کو خبر نہ کرنا ان کے بیٹے کی جب تک میں خود نہ کہوں۔ آخر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے ام سلیم رضی اللہ عنہا شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا ان کے لیے یہاں تک کہ انہوں نے جماع کیا ان سے، جب ام سلیم رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے اس وقت انہوں نے کہا: اے ابوطلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو دیں پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں روک سکتے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: تو میں تم کو خبر دیتی ہوں تمہارے بیٹے کے مرنے کی یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ غصے ہوئے اور کہنے لگے، تو نے مجھ کو خبر نہ کی یہاں تک کہ میں آلودہ ہوا (جنبی ہوا) اب مجھ کو خبر کی۔ وہ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم کو برکت دے تمہاری گزری ہوئی رات میں۔“ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی آپ کے ساتھ تھیں اور آپ سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے۔ جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو درد زہ شروع ہوا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے:اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے رسول کے ساتھ نکلنا کتنا پسند ہے جب وہ نکلے اور جانا پسند ہے جب وہ جائیں لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اے ابوطلحہ اب میرے ویسا درد نہیں جیسے پہلے تھا تو چلو ہم چلے۔ جب میاں بی بی مدینہ میں آئے تو پھر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کو درد زہ شروع ہوا اور وہ ایک لڑکا جنیں۔ میری ماں نے کہا: اے انس! اس کو کوئی دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچے کو اٹھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے جب مجھ کو دیکھا تو فرمایا: ”شاید ام سلیم نے یہ لڑکاجنا۔“ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچےکو لےکر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ میں چبائی۔ جب وہ گھل گئی تو بچے کے منہ میں ڈالی، بچہ اس کو چوسنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَاثَابِتٌ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: مَاتَ ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپرگزرا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ يَا بِلَالُ: " حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ عِنْدَكَ فِي الْإِسْلَامِ مَنْفَعَةً، فَإِنِّي سَمِعْتُ اللَّيْلَةَ خَشْفَ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ، قَالَ بِلَالٌ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا فِي الْإِسْلَامِ أَرْجَى عِنْدِي مَنْفَعَةً مِنْ أَنِّي لَا أَتَطَهَّرُ طُهُورًا تَامًّا فِي سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ، إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كَتَبَ اللَّهُ لِي أَنْ أُصَلِّيَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ سے صبح کی نماز پڑھ کر ”اے بلال! بیان کر مجھ سے وہ عمل جو تو نے کیا ہے اسلام میں جس کے فائدے کی تجھے زیادہ امید ہےکیونکہ میں نے آج کی رات تیرے جوتوں کی آواز سنی اپنے سامنے جنت میں۔“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کوئی عمل اسلام میں جس کے نفع کی امید بہت ہو اس سے زیادہ نہیں کیا کہ میں جب پورا وضو کرتا ہوں کسی وقت میں رات یا دن کو تو اس وضو سے نماز پڑھتا ہوں جتنی اللہ عزوجل نے میری قسمت میں لکھی ہے۔
حَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، وَسَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ الْحَضْرَمِيُّ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَالْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ ، قَالَ سَهْلٌ وَمِنْجَابٌ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا سورة المائدة آية 93، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قِيلَ لِي: أَنْتَ مِنْهُمْ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب یہ آیت اتری «لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ» (۵-المائده:٩٣) ”جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام بجا لائے ان پر گناہ نہیں ہے اس کا جو کھا چکے“ آخر تک۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان لوگوں میں سے ہے۔“ (یعنی ایمان والوں اور نیک اعمال والوں میں سے)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ، فَكُنَّا حِينًا وَمَا نُرَى ابْنَ مَسْعُودٍ وَأُمَّهُ إِلَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ كَثْرَةِ دُخُولِهِمْ وَلُزُومِهِمْ لَهُ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں اور میرا بھائی دونوں یمن سے آئے تو ایک زمانے تک ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی ماں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے اس وجہ سے کہ وہ بہت جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور ساتھ رہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ سَمِعَ الْأَسْوَدَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى ، يَقُولُ: لَقَدْ قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ، فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ.
سيدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی دنوں یمن سے آئے، پھر اسی طرح ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أُرَى أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ، أَوْ مَا ذَكَرَ مِنْ نَحْوِ هَذَا.
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آیا اور میں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اہل بیت میں سے سمجھتا تھا۔ یا اسی طرح کا ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ ، قَالَ: " شَهِدْتُ أَبَا مُوسَى ، وَأَبَا مَسْعُودٍ حِينَ مَاتَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ أَتُرَاهُ تَرَكَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، فَقَالَ: إِنْ قُلْتَ ذَاكَ إِنْ كَانَ لَيُؤْذَنُ لَهُ إِذَا حُجِبْنَا وَيَشْهَدُ إِذَا غِبْنَا ".
ابوالاحوص سے روایت ہے، جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو میں ابوموسیٰ اور ابومسعود رضی اللہ عنہما کے پاس تھا۔ ایک نے دوسرے سے کہا:کیا تم سمجھتے ہو کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے مثل اب کوئی ہے؟ دوسرے نے کہا: تم یہ کہتے ہو ان کا تو یہ حال تھا کہ ہم روکے جاتے اور ان کو اجازت دی جاتی اور ہم غائب رہتے اور وہ حاضر رہتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا قُطْبَةُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، قَالَ: " كُنَّا فِي دَارِ أَبِي مُوسَى مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، وَهُمْ يَنْظُرُونَ فِي مُصْحَفٍ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالُ أَبُو مَسْعُودٍ ، مَا أَعْلَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَرَكَ بَعْدَهُ أَعْلَمَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْقَائِمِ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: أَمَا لَئِنْ، قُلْتَ ذَاكَ لَقَدْ كَانَ يَشْهَدُ إِذَا غِبْنَا وَيُؤْذَنُ لَهُ إِذَا حُجِبْنَا ".
ابوالاحوص سے روایت ہے کہ ہم ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھے اور وہاں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے کئی ساتھی تھے اور ایک قرآن مجید دیکھ رہے تھے، اتنے میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد قرآن کا جاننے والا اس شخص سے زیادہ کوئی چھوڑا ہو جو کھڑا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم یہ کہتے ہو (تو صحیح ہے) ان کا یہ حال تھا کہ یہ حاضر رہتے جب ہم غائب ہوتے اور ان کو اجازت ملتی جب ہم روکے جاتے۔
وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا مُوسَى، فَوَجَدْتُ عَبْدَ اللَّهِ، وَأَبَا مُوسَى. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ حُذَيْفَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ قُطْبَةَ أَتَمُّ وَأَكْثَرُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: " وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 161، ثُمَّ قَالَ عَلَى: قِرَاءَةِ مَنْ تَأْمُرُونِي، أَنْ أَقْرَأَ، فَلَقَدْ قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، وَلَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَعْلَمُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا أَعْلَمُ مِنِّي لَرَحَلْتُ إِلَيْهِ، قَالَ شَقِيقٌ: فَجَلَسْتُ فِي حَلَقِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرُدُّ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَلَا يَعِيبُهُ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے (اپنے ساتھیوں)سے کہا: (اپنے قرآن چھپا رکھو) اور جو کوئی چھپا رکھے گا کوئی شے وہ لائے گا اس کو قیامت کے دن پھر کہا: تم مجھے کس شخص کی قرأت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ستر سے زیادہ کئی سورتیں پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں زیادہ جانتا ہوں اللہ کی کتاب کو اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ جانتا ہے اللہ کی کتاب کو تو میں چلا جاتا اس کے پاس۔ شقیق نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا میں نے کسی سے نہیں سنا جس نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بات کو رد کیا ہو یا ان پر عیب کیا ہو۔
أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا قُطْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، مَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ سُورَةٌ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ حَيْثُ نَزَلَتْ، وَمَا مِنْ آيَةٍ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَا أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا هُوَ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ مِنِّي، تَبْلُغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ "
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قسم اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ کی کتاب میں کوئی ایسی سورت نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں اتری اور کوئی آیت ایسی نہیں ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ کس باب میں اتری اور جو میں جانتا کسی کو کہ وہ اللہ کی کتاب مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور اس تک اونٹ پہنچ سکتے تو میں سوار ہو کر اس کے پاس جاتا (سبحان اللہ دین کے علم کا ایسا شوق تھا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا نَأْتِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، فَنَتَحَدَّثُ إِلَيْهِ، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ عِنْدَهُ: فَذَكَرْنَا يَوْمًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لَقَدْ ذَكَرْتُمْ رَجُلًا لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ بَعْدَ شَيْءٍ، سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ فَبَدَأَ بِهِ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ ".
مسروق سے روایت ہے، ہم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس جاتے اور ان سے باتیں کرتے ایک دن ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: تم نے ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں محبت رکھتا ہوں جب سے میں نے ایک حدیث سنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تم قرآن سیکھو چارآدمیوں سے ام عبد کے بیٹے سے (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے) پہلے ان کا نام لیا اور معاذ بن جبل سے اور ابی بن کعب سے اور سالم سے جو مولیٰ تھے ابوحذیفہ کے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَذَكَرْنَا حَدِيثًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ بَعْدَ شَيْءٍ، سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُهُ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ فَبَدَأَ بِه، وَمِنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمِنْ سَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَمِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ "، وَحَرْفٌ لَمْ يَذْكُرْهُ زُهَيْرٌ، قَوْلُهُ يَقُولُهُ.
مسروق سے روایت ہے، ہم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی، کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس وقت سے میں اس آدمی سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے: ”تم قرآن سیکھو چار آدمیوں سے، ام عبد کے بیٹے سے (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے) پہلے ان ہی کا نام لیا اور ابی بن کعب سے، سالم مولیٰ ابی حذیفہ سے، اور معاذ بن جبل سے۔“ زہیر بن حرب نے «يَقُولُهُ» کا لفظ ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِإِسْنَادِ جَرِيرٍ، وَوَكِيعٍ، في رواية أبي بكر، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ قَدَّمَ مُعَاذًا قَبْلَ أُبَيٍّ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ أُبَيٌّ قَبْلَ مُعَاذٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَامُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِإِسْنَادِهِمْ، وَاخْتَلَفَا، عَنْ شُعْبَةَ، فِي تَنْسِيقِ الْأَرْبَعَةِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: ذَكَرُوا ابْنَ مَسْعُودٍ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَقَالَ: ذَاكَ رَجُلٌ لَا أَزَالُ أُحِبُّهُ بَعْدَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اسْتَقْرِئُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ: مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ، قَالَ شُعْبَةُ: بَدَأَ بِهَذَيْنِ، لَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا بَدَأَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: " جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةٌ، كُلُّهُمْ مِنْ الْأَنْصَارِ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَأَبُو زَيْدٍ "، قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: مَنْ أَبُو زَيْدٍ؟، قَالَ: أَحَدُ عُمُومَتِي.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے تھے قرآن کو جمع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چار شخصوں نے اور وہ چاروں انصاری تھے معاذ بن جبل اور ابی بن کعب اور زید بن ثابت اور ابوزید رضی اللہ عنہم نے۔ قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوزید رضی اللہ عنہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: میرے چچاؤں میں تھے۔
حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ مَعْبَدٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : " مَنْ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَرْبَعَةٌ كُلُّهُمْ مِنْ الْأَنْصَارِ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُكْنَى أَبَا زَيْدٍ ".
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا:کس نے قرآن جمع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: چار آدمیوں نے انصار میں سے ابی بن کعب اور معاذ بن جبل اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ایک شخص نے انصار میں سے جس کو ابوزید کہتے تھے۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِأُبَيٍّ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ، قَالَ: آللَّهُ سَمَّانِي لَكَ، قَالَ: اللَّهُ سَمَّاكَ لِي، قَالَ: فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْكِي ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ قرآن سناؤں تجھ کو۔“ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا آپ سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تیرا نام لیا۔“، یہ سن کر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رونے لگے (خوشی سے یا یہ سمجھ کر کہ اس نعمت اور عزت بخشی کا شکر مجھ سے نہ ہو سکے گا یا اپنا درجہ دیکھ کر اور رب کریم کی عظمت کا خیال کر کے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: " إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ: لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة البينة آية 1، قَالَ: وَسَمَّانِي؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبَكَى ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو «لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا» سناؤں۔“ انہوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ یہ سن کر ابی رضی اللہ عنہ رو دیئے۔
وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيٍّ، بِمِثْلِهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی رضی اللہ عنہ سے اس کی مانند بیان کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، اهْتَزَّ لَهَا عَرْشُ الرَّحْمَنِ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ سامنے رکھا تھا: ”ان کے واسطے پروردگار کا عرش جھوم گیا۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا عرش ہل گیا سعد بن معاذ کی موت سے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّزِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَجَنَازَتُهُ مَوْضُوعَةٌ يَعْنِي سَعْدًا، اهْتَزَّ لَهَا عَرْشُ الرَّحْمَنِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ہی راویت ہے جیسے پہلے گزری۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، يَقُولُ: " أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةُ حَرِيرٍ، فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَلْمِسُونَهَا وَيَعْجَبُونَ مِنْ لِينِهَا، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ لِينِ هَذِهِ، لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْهَا وَأَلْيَنُ ".
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاصحاب رضی اللہ عنہم اس کو چھونے لگے اور اس کی نرمی سے تعجب کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی نرمی سے تعجب کرتے ہو البتہ سعد بن معاذ کا توال(رومال) جنت میں اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم ہے۔“
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَنْبَأَنِي أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، يَقُولُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبِ حَرِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ : أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ . حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِ هَذَا، أَوْ بِمِثْلِهِ.
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا، پھر اسی طرح حدیث بیان کی۔ ابن عبدہ نے کہا: ہمیں ابوداؤد نے خبر دی شعبہ نے ہم سے بیان کیا۔ قتادہ عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مثل بیان کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا كَرِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ.
شعبہ نے دونوں سندوں کے ساتھ اسی طرح بیان کیا جیسا ابوداؤد نے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : أَنَّهُ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةٌ مِنْ سُنْدُسٍ، " وَكَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْهَا، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنَّ مَنَادِيلَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس سندس (ایک ریشمی کپڑا ہے) کا ایک جبہ تحفہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کرتے تھے حریر سے۔ لوگوں نے اسے دیکھ کر تعجب کیا (اس کی نرمی اور خوبی سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے سعد بن معاذ کے رومال جنت میں اس سے اچھے ہیں۔“
حَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةِ الْجَنْدَلِ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، وَكَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اكيدر دومة الجندل کے بادشاہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جوڑا تحفہ بھیجا پھر بیان کیا اسی طرح اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حریر سے منع کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ سَيْفًا يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ: مَنْ يَأْخُذُ مِنِّي هَذَا؟ فَبَسَطُوا أَيْدِيَهُمْ، كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ يَقُولُ: أَنَا، أَنَا، قَالَ: فَمَنْ يَأْخُذُهُ بِحَقِّهِ؟ قَالَ: فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: سِمَاكُ بْنُ خَرَشَةَ أَبُو دُجَانَةَ أَنَا آخُذُهُ بِحَقِّهِ، قَالَ: فَأَخَذَهُ فَفَلَقَ بِهِ هَامَ الْمُشْرِكِينَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تلوار لی احد کے دن اور فرمایا: ”یہ کون لیتا ہے مجھ سے؟“، لوگوں نے ہاتھ پھیلائے، ہر ایک کہتا تھا: میں لوں گا، میں لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا حق ادا کر کےکون لے گا؟“، یہ سنتے ہی لوگ ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سماک بن خرشہ ابودجانہ نے کہا: میں اس کا حق ادا کروں گا اور لوں گا، پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ كِلَاهُمَا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ جِيءَ بِأَبِي مُسَجًّى، وَقَدْ مُثِلَ بِهِ، قَالَ: فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْفَعَ الثَّوْبَ، فَنَهَانِي قَوْمِي، ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ أَرْفَعَ الثَّوْبَ، فَنَهَانِي قَوْمِي، فَرَفَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِهِ فَرُفِعَ، فَسَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ أَوْ صَائِحَةٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ فَقَالُوا: بِنْتُ عَمْرٍو، أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو، فَقَالَ: وَلِمَ تَبْكِي، فَمَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب احد کا دن ہوا تو میرا باپ لایا گیا، اس پر کپڑا ڈھکا تھا اور ان کے ناک،کان، ہاتھ، پاؤں کاٹے گئے تھے (یعنی کافروں نے ان کو شہید کر کے ان کے ساتھ مثلہ کیا تھا)، میں نے کپڑا اٹھانا چاہا تو لوگوں نے مجھ کو منع کیا (اس خیال سے کہ بیٹا باپ کا یہ حال دیکھ کر رنج کرے گا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اٹھا دیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اٹھایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رونے والے یا چلانے والے کی آواز سنی تو پوچھا: ”یہ کس کی آواز ہے؟“، لوگوں نے عرض کیا: عمرو کی بیٹی یا بہن ہے (یعنی شہید کی بہن یا پھوپھی ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں روتی ہے؟ فرشتے اس پر برابر سایہ کیے رہے یہاں تک کہ وہ اٹھایا گیا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " أُصِيبَ أَبِي يَوْمَ أُحُدٍ، فَجَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، وَأَبْكِي، وَجَعَلُوا يَنْهَوْنَنِي، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْهَانِي، قَالَ: وَجَعَلَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ عَمْرٍو، تَبْكِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبْكِيهِ، أَوْ لَا تَبْكِيهِ، مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ ".
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرا باپ شہید ہوا احد کے دن تو میں اس کے منہ پر سے کپڑا اٹھاتا اور روتا، لوگ مجھے منع کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ کرتے اور فاطمہ عمرو رضی اللہ عنہ کی بیٹی (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو روئے یا نہ روئے فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اس کو اٹھایا۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح، وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ ذِكْرُ الْمَلَائِكَةِ، وَبُكَاءُ الْبَاكِيَةِ.
مذکورہ بالاحدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ مُجَدَّعًا، فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا اس میں یہ ہے کہ میرا باپ احد کے دن لایا گیا اس کے ناک کان کٹے تھے تو رکھا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي مَغْزًى لَهُ فَأَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فُلَانًا، وَفُلَانًا، وَفُلَانًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: لَكِنِّي أَفْقِدُ جُلَيْبِيبًا فَاطْلُبُوهُ، فَطُلِبَ فِي الْقَتْلَى، فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: قَتَلَ سَبْعَةً، ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، قَالَ: فَوَضَعَهُ عَلَى سَاعِدَيْهِ لَيْسَ لَهُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحُفِرَ لَهُ، وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ غَسْلًا.
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد میں تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں سے فرمایا: ”تم میں سے کوئی گم تو نہیں ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں فلاں فلاں شخص گم ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کوئی گم تو نہیں ہے؟“، لوگوں نے عرض کیا: کوئی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جلیبیب کو نہیں دیکھتا۔“ لوگوں نے ان کو مردوں میں ڈھونڈھا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی جن کو سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ نے مارا تھا وہ سات کو مار کر مارے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہوئے، پھر فرمایا: ”اس نے سات آدمیوں کو مارا بعد اس کے مارا گیا، یہ میرا ہے، میں اس کا ہوں.“ (یعنی میں اور وہ ایک ہیں)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپصلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اٹھایا بعد اس کے گڑھا کھدوایا اور قبر میں رکھ دیا اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا، فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا، وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ إِذَا عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ، فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ، فَجَعَلَ يَبْكِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا، وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا، وَمِثْلِهَا مَعَهَا، قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ، قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي، أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ، فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي، فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ، فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ، يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ، قُلْتُ: فَمَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: شَاعِرٌ كَاهِنٌ، سَاحِرٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَاءِ، قَالَ أُنَيْسٌ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي، أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ، قَالَ: قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ مَكَّةَ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ، فَقَالَ الصَّابِئَ: فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، قَالَ: فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ، كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ، فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ، وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ، وَيَوْمٍ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانَ، إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ، وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا، فَقُلْتُ: أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى، قَالَ: فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ، فَقُلْتُ: هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي، فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ، قَالَ: مَا لَكُمَا؟ قَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَ: مَا قَالَ لَكُمَا؟ قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا: كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ، ثُمَّ صَلَّى، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ، فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ: فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ، وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ، فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ، وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ، وَقَالَ: نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي، وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ ".
سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنی قوم غفار میں سے نکلے وہ حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے، تو میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تنیوں نکلے اور ایک ماموں تھا ہمارا اس کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور کہنے لگے (ہمارے ماموں سے) جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے اور وہ ہمارے پاس آيا اور اس نے یہ بات مشہور کر دی (حماقت سے)، میں نے کہا: تو نے جو ہمارے ساتھ احسان کیا وہ بھی خراب ہو گیا، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے، آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا، ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کیا، ہم چلے یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ایک شرط لگائی اتنے اونٹوں پر جو ہمارے ساتھ تھےاور اتنے ہی اور پر، پھر دونوں کاہن کے پاس گئے۔ کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ انیس ہمارے اونٹ لایا اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بیٹے میرے بھائی کے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے نماز پڑھی ہے تین برس پہلے۔ میں نے کہا: کس کے لیے پڑھتے تھے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے لیے۔ میں نے کہا: منہ کدھر کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: منہ ادھر کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں عشاء کی نماز پڑھتا جب اخیر رات ہوتی تو کمبل کی طرح پڑ جاتا تھا یہاں تک کہ آفتاب میرے اوپر آتا انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کام ہے تم یہاں رہو میں جاتا ہوں وہ گیا، اس نے دیر کی، پھر آیا میں نے کہا: تو نے کیا کیا؟ وہ بولا: میں ایک شخص سے ملا مکہ میں جو تیرے دین پر ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے، میں نے کہا: لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اس کو شاعر، کاہن، جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود بھی شاعرتھا اس نے کہا: میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہ جڑے گا شعر کی طرح۔ اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں، میں نے کہا: تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں، پھر میں مکہ میں آیا۔ میں نے ایک ناتوان شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لیےکہ زبردست شخص شاید مجھے تکلیف پہنچا دے) اور اس سے پوچھا: وہ شخص کہاں ہے جس کو تم«صابي» کہتے ہو (یعنی دین بدلنے والا عرب کےکفار معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو «صابي» کہتے تھے) اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا: یہ «صابي»ہے (جب «صابي» کا تو پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والے ڈھیلے ہڈیاں لے کر مجھ پر پلے یہاں تک کہ میں بےہوش ہو کر گرا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے لال ہوں)پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا، تو اے بھتیجے میرے! میں وہاں تیس راتیں اور تیس دن رہا اور کوئی کھانا میرے پاس نہ تھا سوائے زمزم کے پانی کے (جب مجھے بھوک لگتی تو اس کو پی لیتا)پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں جھک گئیں (مٹاپے سے) اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہیں کرتا تھا صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ دو بت تھے مکہ میں اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے) وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا: ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے) یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں پھر میں نے صاف کہہ دیا ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فحش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ ہے) اور مجھے کنایہ نہیں آتا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی کھلم کھلا گالی دی اساف اور نائلہ کو ان مردوں اور عورتوں کو غصہ دلانے کے لیے جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں: کاش اس وقت میں کوئی ہمارے لوگوں میں سے ہوتا (جو اس شخص کو بےادبی کی سزا دیتا) راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ملے اور وہ اتر رہے تھے پہاڑ سے، انہوں نے ان عورتوں سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولیں ایک«صابي» آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہے، انہوں نے کہا: وہ «صابي» کیا بولا: وہ بولیں: ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نکال نہیں سکتیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف کیا اپنے صاحب کے ساتھ، پھر نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکے تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ہی اول اسلام کی سنت ادا کی اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وعلیک ورحمة الله“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو کون ہے؟“ میں نے کہا غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے) میں نے اپنے دل میں کہا: شایدآ پ کو برا معلوم ہوا یہ کہناکہ میں غفار میں سے ہوں، میں لپکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لیکن آپ کےصاحب نے (سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حال جانتے تھے مجھےروکا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”تو یہاں کب آیا؟“ میں نے عرض کیا: میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھےکھانا کون کھلاتا ہے؟“، میں نے کہا: کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور پیٹ بھر دیتا ہے کھانے کی طرح۔“ سیدنا ابوبکر نے کہا: یا رسول اللہ! آج کی رات مجھے اجازت دیجئیے اس کو کھلانے کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی، میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کے سوکھے انگور نکالنے لگے، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا مکہ میں۔ پھر رہا میں جب تک رہا۔ بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مجھے دکھلائی گئی زمین کھجور والی میں سمجھتا ہوں وہ کوئی زمین نہیں ہے سوائے یثرب کے (یثرب مدینہ طیبہ کا نام تھا) تو تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے شاید اللہ تعالیٰ ان کو نفع دے تیری وجہ سے اور تجھے ثواب دے۔“ میں انیس کے پاس آیا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میں اسلام لایا اور میں نے تصدیق کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی۔ وہ بولا: تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے، میں بھی اسلام لایا اور میں نے بھی تصدیق کی، پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے۔ وہ بولی: مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے بھی تصدیق کی، پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے آدھی قوم مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایما بن حضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور اسلم (ایک قوم ہے) کے لوگ آئے انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے بھائی غفاریوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں وہ بھی مسلمان ہوئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ نے بچا دیا۔“ (قتل اور قید سے)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ، قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ، قَالَ: نَعَمْ، وَكُنْ عَلَى حَذَرٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ شَنِفُوا لَهُ وَتَجَهَّمُوا.
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا اس میں یہ ہے کہ اچھاجا لیکن اہل مکہ سے بچا رہ وہ دشمن ہیں اس شخص کے اور منہ بناتے ہیں واسطے اس کے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : يَا ابْنَ أَخِي، صَلَّيْتُ سَنَتَيْنِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ كُنْتَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: حَيْثُ وَجَّهَنِيَ اللَّهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَتَنَافَرَا إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْكُهَّانِ، قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ أَخِي أُنَيْسٌ يَمْدَحُهُ حَتَّى غَلَبَهُ، قَالَ: فَأَخَذْنَا صِرْمَتَهُ فَضَمَمْنَاهَا إِلَى صِرْمَتِنَا، وَقَالَ أَيْضًا فِي حَدِيثِهِ: قَالَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَلْفَ الْمَقَامِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَإِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ؟ وَفِي حَدِيثِهِ أَيْضًا، فَقَالَ: مُنْذُ كَمْ أَنْتَ هَاهُنَا؟ قَالَ: قُلْتُ: مُنْذُ خَمْسَ عَشَرَةَ وَفِيهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتْحِفْنِي بِضِيَافَتِهِ اللَّيْلَةَ؟.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی نبوت سے دو برس پہلے نماز پڑھی اور یہ ہے کہ دونوں ایک کاہن کے پاس گئے۔ انیس نے اس کاہن کی تعریف شروع کی یہاں تک کہ اس پر غالب آیا اور ہم نے اس کے اونٹ بھی لے کر اپنے اونٹوں میں ملا لیے اور یہ ہے کہ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پیچھے اور میں سب سے پہلے وہ شخص ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانی کا سلام کیا اور یہ ہے کہ میں نے کہا: کہ میں میں پندرہ دن سے یہاں ہوں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:: مجھے عزت دیجئیے ان کی ضیافت سے آج کی رات۔
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَتَقَارَبَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، قَالَ لِأَخِيهِ: ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ ائْتِنِي فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ، وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ، وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ يَعْنِي اللَّيْلَ، فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ، فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ، فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ، وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَا أَنَى لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ، فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ، وَلَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ هَذَا الْبَلَدَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي؟ فَعَلْتُ فَفَعَلَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ، فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي، حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي، فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَثَارَ الْقَوْمُ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ، فَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ، وَأَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِكُمْ إِلَى الشَّامِ عَلَيْهِمْ، فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا وَثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ، فَأَكَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی مکہ میں خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا: اس وادی کو جا سوار ہو کر اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے پر آسمان سے خبر آتی ہے۔ ان کی بات سن، پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہو ا یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا: میں نے اس شخص کو دیکھا وہ حکم کرتا ہے اچھی خصلتوں کا اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے مجھ کو تسکین نہیں ہوئی، پھر انہوں نے توشہ لیا اور ایک مشک لی پانی کی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجد حرام میں داخل ہوئے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا، وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا یہاں تک کہ رات ہو گئی وہ لیٹ رہے , سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے، پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی، پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں ر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام تک نہ دیکھا، پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے آئے۔ وہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ گزرے اور کہا: ابھی وہ وقت نہیں آیا جو اس شخص کو اپنا ٹھکانا معلوم ہو؟، پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کے ساتھ گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی یہاں تک کہ تیسرا دن ہو ا، اس دن بھی ایسا ہی کیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا: تم مجھ سے کیوں نہیں کہتے جس کے لیے تم اس شہر میں آئے ہو، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم مجھ سے عہد اور اقرار کرتے ہو کہ میں راہ بتلاؤں گا تو میں کہتا ہوں، انہوں نے اقرار کیا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سب حال بیان کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ شخص سچے ہیں اور وہ بے شک اللہ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا اور اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے اور جو چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں جاؤن تم بھی جانا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا ان کے پیچھےچلے یہاں تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ پہنچے، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میراحکم تجھے پہنچے۔“ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تو یہ بات (یعنی دین کی دعوت) مکہ والوں کو پکار کر سنا دوں گا، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نکلے اور مسجد میں آئے اور چلا کر بولے۔ «أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ» اور لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ پر جھکے اور لوگوں سے کہا: خرابی ہو تمہاری، تم نہیں جانتے یہ شخص غفار کا ہے اور تمہارا راستہ سوداگر ی کا شام کو غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے)، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دوسرے روز بھی ایسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ آڑے آئے اور ان کو چھڑا لیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ بَيانٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ ، يَقُولُ: قَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : " أَحْجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا ضَحِكَ ".
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےکبھی نہیں روکا اندر آنے سے جب سے میں مسلمان ہوا اور کبھی مجھے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے (یعنی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے ملے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ: " مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي "، زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ ابْنِ إِدْرِيسَ، وَلَقَدْ شَكَوْتُ إِلَيْهِ، أَنِّي لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اتنا زیادہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے شکایت کی، میں گھوڑے پر نہیں جمتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: ”اللہ جما دے اس کو، اور راہ بتانے والا، ہدایت پانے والا بنا دے۔“
حَدَّثَنِي عَبْدُ الحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ: " كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بَيْتٌ، يُقَالُ لَهُ ذُو الْخَلَصَةِ، وَكَانَ يُقَالُ لَهُ الْكَعْبَةُ الْيَمَانِيَةُ، وَالْكَعْبَةُ الشَّامِيَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ أَنْتَ مُرِيحِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ، وَالْكَعْبَةِ الْيَمَانِيَةِ، وَالشَّامِيَّةِ؟ فَنَفَرْتُ إِلَيْهِ فِي مِائَةٍ وَخَمْسِينَ مِنْ أَحْمَسَ فَكَسَرْنَاهُ، وَقَتَلْنَا مَنْ وَجَدْنَا عِنْدَهُ فَأَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَدَعَا لَنَا وَلِأَحْمَسَ ".
سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جاہلیت کے زمانہ میں ایک بت خانہ تھا (یمن میں) جس کو ذوالخلصہ کہتے تھے اور کعبہ یمانی یا کعبہ شامی بھی اس کا نام تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے جریر! تو مجھے بےفکر کرتا ہے ذوالخلصہ اور کعبہ یمانی اور شامی کی طرف سے۔“(یعنی اس کو تباہ اور برباد کر کہ لوگ شرک سے باز آئیں) میں ایک سو پچاس آدمی احمس قبیلے کے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ذوالخلصہ کو توڑا اور جتنے لوگوں کو وہاں پایا قتل کیا، پھر لوٹ کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے اور احمس کے قبیلے کے لیے دعا کی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا جَرِيرُ: أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ بَيْتٍ لِخَثْعَمَ؟ كَانَ يُدْعَى كَعْبَةَ الْيَمَانِيَةِ، قَالَ: فَنَفَرْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ، وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَ يَدَهُ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَحَرَّقَهَا بِالنَّارِ، ثُمَّ بَعَثَ جَرِيرٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُبَشِّرُهُ، يُكْنَى أَبَا أَرْطَاةَ مِنَّا، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْنَاهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْرَبُ، فَبَرَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا، خَمْسَ مَرَّاتٍ ".
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے جریر! تو مجھ کو آرام نہیں دیتا ذوالخلصہ سے۔“ جو بت خانہ تھا خثعم کا (ایک قبیلہ ہے) اس کو کعبہ یمانی بھی کہتے تھے۔ جریر نے کہا:: میں ڈیڑھ سو سوار لے کر وہاں گیا اور میں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: ”اللہ جما دے اس کو، اور راہ دکھانے والا، راہ پایا ہو ا کر دے۔“، پھر سیدنا جریر رضی اللہ عنہ گئے اور ذوالخلصہ کو انگار سے جلا دیا۔ بعد اس کے ایک شخص جس کا نام ابوارطاة تھا خوشخبری کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ہم ذوالخلصہ کو خارشتی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آئے (خارشتی اونٹ پر کالاروغن ملتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ بھی جل کر کالا ہو گیا تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احمس کے گھوڑوں اور مر دوں کے لیے برکت کی دعا کی پانچ مرتبہ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ مَرْوَانَ: فَجَاءَ بَشِيرُ جَرِيرٍ أَبُو أَرْطَاةَ حُصَيْنُ بْنُ رَبِيعَةَ يُبَشِّرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اسماعیل سے انہی اسناد کے ساتھ مروی ہے اور مروان کی روایت میں ہے کہ جریر کی طرف سے ایک آدمی ابوارطاۃ حصین بن ربیعہ خوشخبری لے کر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت سنائی۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ الْيَشْكُرِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى الْخَلَاءَ فَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا، فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَ: مَنْ وَضَعَ هَذَا؟ " فِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ، قَالُوا: وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، قُلْتُ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ: اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں تشریف لے گئے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ليے وضو کا پانی رکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو پوچھا: ”یہ پانی کس نے رکھا؟“ لوگوں نے کہا: یا میں نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ اس کو سمجھدار کر دے دین میں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ فِي يَدِي قِطْعَةَ إِسْتَبْرَقٍ، وَلَيْسَ مَكَانٌ أُرِيدُ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَقَصَصْتُهُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقَصَّتْهُ حَفْصَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَى عَبْدَ اللَّهِ رَجُلًا صَالِحًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے خواب میں دیکھا، میرے ہاتھ میں استبرق کا ایک ٹکڑا ہے (استبرق ایک ریشمی کپڑا ہے) اور میں جنت کے جس مکان میں جانا چاہتا ہوں وہ ٹکڑا مجھے اڑا کر وہاں لے جاتا ہے۔ یہ خواب میں نے اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں عبداللہ کو سمجھتا ہو ں نیک آدمی ہے۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد واللفظ لعبد، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " كَانَ الرَّجُلُ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَأَى رُؤْيَا قَصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَرَى رُؤْيَا أَقُصُّهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكُنْتُ غُلَامًا شَابًّا عَزَبًا، وَكُنْتُ أَنَامُ فِي الْمَسْجِدِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَخَذَانِي فَذَهَبَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ الْبِئْرِ، وَإِذَا لَهَا قَرْنَانِ كَقَرْنَيِ الْبِئْرِ، وَإِذَا فِيهَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُهُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَلَقِيَهُمَا مَلَكٌ، فَقَالَ لِي: لَمْ تُرَعْ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى حَفْصَةَ، فَقَصَّتْهَا حَفْصَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ، لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ سَالِمٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلَّا قَلِيلًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا۔ مجھے بھی آرزو تھی کوئی خواب دیکھوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کروں اور میں لڑکا تھا جوان مجرد۔ میں مسجد میں سویا کرتا تھا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، میں نے خواب دیکھا، جیسے دو فرشتوں نے مجھے پکڑا ہے اور جہنم کی طرف لے گئے، دیکھا تو پیچ در پیچ گہری ہے کنویں کی طرح اور اس پر دو لکڑیاں ہیں جیسے کنویں پر ہوتی ہیں اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچانا۔ میں نے کہنا شروع کیا: اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جہنم سے، پھر اور ایک فرشتہ ملا اور وہ بولا: تجھےکچھ خوف نہیں۔ یہ خواب میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ اچھا آدمی ہے اگر رات کو تہجد پڑھا کرے۔“ سالم نے کہا: عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد رات کو نہیں سوتے تھے مگر تھوڑی دیر (اور تہجد پڑھتے تھے)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ خَتَنُ الْفِرْيَابِيِّ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْفَزَارِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ، وَلَمْ يَكُنْ لِي أَهْلٌ، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّمَا انْطُلِقَ بِي إِلَى بِئْرٍ، فَذَكَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں مسجد میں سوتا تھا اور میرا کوئی گھر نہیں تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک کنویں پر لایا گیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زہری کی حدیث کی مانند بیان کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَادِمُكَ أَنَسٌ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا، أَعْطَيْتَهُ ".
سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا:: یا رسول اللہ! انس آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! بہت مال اور بہت اولاد دے اس کو اور جو تو دے اس کو برکت دے اس میں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَادِمُكَ أَنَسٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا:: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ کا خادم انس ہے۔، پھر اسی طرح حدیث بیان کی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ، مِثْلَ ذَلِكَ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، وَمَا هُوَ إِلَّا أَنَا، وَأُمِّي، وَأُمُّ حَرَامٍ خَالَتِي، فَقَالَتْ أُمِّي: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خُوَيْدِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ: فَدَعَا لِي بِكُلِّ خَيْرٍ، وَكَانَ فِي آخِرِ مَا دَعَا لِي بِهِ، أَنْ قَالَ: اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيهِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے راویت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے اس وقت گھر میں کو ئی نہ تھا سوا میرے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا اور میری خالہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے، میری ماں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ کا چھوٹا خادم (انس) دعا کیجئیے اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: «اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيهِ» ”یا اللہ! بہت کر اس کا مال اور بہت کر اس کی اولاد اور برکت دے اس میں۔“
حَدَّثَنِي أَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، قَالَ: " جَاءَتْ بِي أُمِّي أُمُّ أَنَسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَزَّرَتْنِي بِنِصْفِ خِمَارِهَا، وَرَدَّتْنِي بِنِصْفِهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا أُنَيْسٌ ابْنِي، أَتَيْتُكَ بِهِ يَخْدُمُكَ فَادْعُ اللَّهَ لَهُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ، قَالَ أَنَسٌ: فَوَاللَّهِ إِنَّ مَالِي لَكَثِيرٌ، وَإِنَّ وَلَدِي وَوَلَدَ وَلَدِي لَيَتَعَادُّونَ عَلَى نَحْوِ الْمِائَةِ الْيَوْمَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میری ماں مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی اور اپنی سربندھن (اوڑھنی یا دوپٹہ) کو پھاڑ کر اس میں سے آدھی کی ازار بنا دی تھی اور آدھی کی چادر مجھ کو، تو کہنے لگی: یا رسول اللہ! یہ چھوٹا انس، میرا بیٹا ہے، آپ کی خدمت کرے گا۔ آپ اس کے لیے دعا کیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ» ”یا اللہ! بہت کر اس کا مال اور بہت کر اس کی اولاد۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا:: تو اللہ کی قسم! میرا مال بہت ہے اور میرے بیٹے اور پوتے سو سے زیادہ ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: " مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ صَوْتَهُ، فَقَالَتْ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أُنَيْسٌ، فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ دَعَوَاتٍ، قَدْ رَأَيْتُ مِنْهَا اثْنَتَيْنِ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَرْجُو الثَّالِثَةَ فِي الْآخِرَةِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمگزرے تو میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور کہنے لگی: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں یہ چھوٹا انس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تین دعائیں کیں، دو تو میں دنیا میں پا چکا اور ایک آخرت میں امید ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، قَالَ: فَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَبَعَثَنِي إِلَى حَاجَةٍ، فَأَبْطَأْتُ عَلَى أُمِّي، فَلَمَّا جِئْتُ، قَالَتْ: مَا حَبَسَكَ؟ قُلْتُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ، قَالَتْ: مَا حَاجَتُهُ؟ قُلْتُ: إِنَّهَا سِرٌّ، قَالَتْ: لَا تُحَدِّثَنَّ بِسِرِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا، قَالَ أَنَسٌ: وَاللَّهِ لَوْ حَدَّثْتُ بِهِ أَحَدًا لَحَدَّثْتُكَ يَا ثَابِتُ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سلام کیا، پھر مجھے کسی کام کے لیے بھیجا، میں اپنی ماں کے پاس دیر سے گیا، تو میری ماں نے کہا: تو نے کیوں دیر کی؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا تھا۔ وہ بولی: کیا کام تھا؟ میں نے کہا: وہ بھید ہے . میری ماں بولی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھید کسی سے نہ کہنا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر وہ بھید میں کسی سے کہتا تو اے ثابت تجھ سے کہتا۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " أَسَرَّ إِلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرًّا، فَمَا أَخْبَرْتُ بِهِ أَحَدًا بَعْدُ، وَلَقَدْ سَأَلَتْنِي عَنْهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَمَا أَخْبَرْتُهَا بِهِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک راز کی بات مجھ سے کہی میں نے اس کو کسی سے بیان نہیں کیا یہاں تک کہ میری ماں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا، میں نے اس سے بھی بیان نہ کیا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لِحَيٍّ يَمْشِي إِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی زندہ شخص کے لیے جو چلتا، پھرتا ہو یہ نہیں سنا کہ وہ جنت میں ہے مگر سیدنا عبداللہ بن سلام کے لیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: " كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ وَدَخَلْتُ فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ، قُلْتُ لَهُ: إِنَّكَ لَمَّا دَخَلْتَ قَبْلُ، قَالَ رَجُلٌ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ، وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، رَأَيْتُنِي فِي رَوْضَةٍ ذَكَرَ سَعَتَهَا، وَعُشْبَهَا، وَخُضْرَتَهَا، وَوَسْطَ الرَّوْضَةِ عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ أَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ، وَأَعْلَاهُ فِي السَّمَاءِ فِي أَعْلَاهُ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لِي: ارْقَهْ، فَقُلْتُ لَهُ: لَا أَسْتَطِيعُ، فَجَاءَنِي مِنْصَفٌ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَالْمِنْصَفُ الْخَادِمُ، فَقَالَ: بِثِيَابِي مِنْ خَلْفِي وَصَفَ أَنَّهُ رَفَعَهُ مِنْ خَلْفِهِ بِيَدِهِ، فَرَقِيتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى الْعَمُودِ، فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقِيلَ لِيَ: اسْتَمْسِكْ فَلَقَدِ اسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي، فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تِلْكَ الرَّوْضَةُ الْإِسْلَامُ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى، وَأَنْتَ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ، قَالَ: وَالرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ".
سیدنا قیس بن عباد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں مدینہ میں تھا کچھ لوگوں میں جن میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ایک شخص آیا اس کے چہرے پر اللہ کے خوف کا اثر تھا۔ بعض لوگ کہنے لگے: یہ جنتی ہے، یہ جنتی ہے۔ اس نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر چلا۔ میں بھی اس کے پیچھے گیا، وہ اپنے مکان میں گیا، میں بھی اس کے ساتھ اندر گیا اور باتیں کیں، جب دل لگ گیا تو میں نے اس سے کہا: تم جب مسجد میں آئے تھے تو ایک شخص ایسا ایسا بولا:(یعنی تم جنتی ہو) اس نے کہا:: سبحان اللہ! کسی کو نہیں چاہیے وہ بات کہنی جو نہیں جانتا اور میں تجھ سے بیان کرتا ہوں لوگ کیوں ایسا کہتے ہیں، میں نے ایک خواب دیکھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں۔ وہ خواب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک باغ میں ہوں(جس کی وسعت اور پیداوار اور سبزی کا حال اس نے بیان کیا) اس باغ کے بیچ میں ایک ستون ہے لوہے کا وہ نیچے تو زمین کے اندر ہے اور اوپر آسمان تک گیا ہے اس کی بلندی پر ایک حلقہ ہے، مجھ سے کہا گیا: اس پر چڑھ۔ میں نے کہا: میں نہیں چڑھ سکتا، پھر ایک خدمتگار آیا اس نے میرے کپڑے پیچھے سے اٹھائے اور بیان کیا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے مجھے پیچھے سے اٹھایا: میں چڑھ گیا، یہاں تک کہ اس ستون کی بلندی پر پہنچ گیا اور حلقہ کو میں نے تھام لیا۔ مجھ سے کہا: گیا: اس کو تھامے رہو، پھر میں جاگا اور وہ حلقہ اس وقت تک میرے ہاتھ میں ہی تھا۔ یہ خواب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ باغ اسلام ہے اور یہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے دین کا اور تو اسلام پر قائم رہے گا مرتے دم تک۔“قیس نے کہا: وہ شخص سیدنا عبداللہ بن سلام تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَبَلَةَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: قَالَ قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ : " كُنْتُ فِي حَلَقَةٍ فِيهَا سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، وَابْنُ عُمَرَ، فَمَرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ، فَقَالُوا: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَقُمْتُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُمْ قَالُوا كَذَا وَكَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا كَانَ يَنْبَغِي لَهُمْ أَنْ يَقُولُوا مَا لَيْسَ لَهُمْ بِهِ عِلْمٌ، إِنَّمَا رَأَيْتُ كَأَنَّ عَمُودًا وُضِعَ فِي رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ، فَنُصِبَ فِيهَا وَفِي رَأْسِهَا عُرْوَةٌ، وَفِي أَسْفَلِهَا مِنْصَفٌ، وَالْمِنْصَفُ الْوَصِيفُ، فَقِيلَ لِيَ: ارْقَهْ، فَرَقِيتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَمُوتُ عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ آخِذٌ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى ".
سیدنا قیس بن عباد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک جماعت میں تھا جس میں سیدنا سعد بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ اتنے میں سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نکلے۔ لوگوں نے کہا: یہ جنت والوں میں سے ہیں۔ میں کھڑا ہوا اور میں نے ان سے کہا: تمہارے باب میں لوگ ایسا ایساکہتے ہیں۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! ان کو وہ بات نہ کہنی چاہیے جس کو وہ نہیں جاتنے میں نے خواب میں ایک ستون دیکھا جو ایک سبز باغ کے درمیان رکھا گیا۔ اس کے سر پر ایک حلقہ لگا تھا اور اس کے نیچے ایک خدمت گار کھڑا تھا۔ مجھ سے کہا گیا: اس پر چڑھو، میں چڑھا یہاں تک کہ حلقہ کو تھام لیا، پھر میں نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ وفات پائے گا اسی مضبوط حلقہ کو تھامے ہوئے۔“ (یعنی دین اسلام پر)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، قَالَ: " كُنْتُ جَالِسًا فِي حَلَقَةٍ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: وَفِيهَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُهُمْ حَدِيثًا حَسَنًا، قَالَ: فَلَمَّا قَامَ، قَالَ الْقَوْمُ مَنْ سَرَّهُ: أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَتْبَعَنَّهُ فَلَأَعْلَمَنَّ مَكَانَ بَيْتِهِ، قَالَ: فَتَبِعْتُهُ فَانْطَلَقَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ دَخَلَ مَنْزِلَهُ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لِي، فَقَالَ: مَا حَاجَتُكَ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: سَمِعْتُ الْقَوْمَ يَقُولُونَ لَكَ لَمَّا قُمْتَ مَنْ سَرَّهُ، أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا، فَأَعْجَبَنِي أَنْ أَكُونَ مَعَكَ، قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ، وَسَأُحَدِّثُكَ مِمَّ، قَالُوا ذَاكَ: إِنِّي بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، إِذْ أَتَانِي رَجُلٌ، فَقَالَ لِي: قُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، قَالَ: فَإِذَا أَنَا بِجَوَادَّ، عَنْ شِمَالِي، قَالَ: فَأَخَذْتُ لِآخُذَ فِيهَا، فَقَالَ لِي: لَا تَأْخُذْ فِيهَا، فَإِنَّهَا طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ، قَالَ: فَإِذَا جَوَادُّ مَنْهَجٌ عَلَى يَمِينِي، فَقَالَ لِي: خُذْ هَاهُنَا فَأَتَى بِي جَبَلًا، فَقَالَ لِيَ: اصْعَدْ، قَالَ: فَجَعَلْتُ إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَصْعَدَ خَرَرْتُ عَلَى اسْتِي، قَالَ: حَتَّى فَعَلْتُ ذَلِكَ مِرَارًا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى أَتَى بِي عَمُودًا رَأْسُهُ فِي السَّمَاءِ، وَأَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ فِي أَعْلَاهُ حَلْقَةٌ، فَقَالَ لِيَ: اصْعَدْ فَوْقَ هَذَا، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْعَدُ هَذَا وَرَأْسُهُ فِي السَّمَاءِ؟ قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي، فَزَجَلَ بِي، قَالَ: فَإِذَا أَنَا مُتَعَلِّقٌ بِالْحَلْقَةِ، قَالَ: ثُمَّ ضَرَبَ الْعَمُودَ فَخَرَّ، قَالَ: وَبَقِيتُ مُتَعَلِّقًا بِالْحَلْقَةِ حَتَّى أَصْبَحْتُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَسَارِكَ، فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الشِّمَالِ، قَالَ: وَأَمَّا الطُّرُقُ الَّتِي رَأَيْتَ عَنْ يَمِينِكَ، فَهِيَ طُرُقُ أَصْحَابِ الْيَمِينِ، وَأَمَّا الْجَبَلُ فَهُوَ مَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ وَلَنْ تَنَالَهُ، وَأَمَّا الْعَمُودُ فَهُوَ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الْعُرْوَةُ فَهِيَ عُرْوَةُ الْإِسْلَامِ، وَلَنْ تَزَالَ مُتَمَسِّكًا بِهَا حَتَّى تَمُوتَ ".
خرشہ بن حر سے روایت ہے، میں ایک حلقہ میں بیٹھا مدینہ کی مسجد میں وہاں ایک بوڑھا تھا خوبصورت، معلوم ہو ا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن سلام ہیں۔ وہ لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کر رہے تھےجب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا: کہ جس کو بھلا لگےجنتی کو دیکھنا وہ اس کو دیکھے۔میں نے (اپنے دل میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا، پھر میں ان کے پیچھے ہوا وہ چلے یہاں تک کہ قریب تھا کہ شہر سے باہر نکل جائیں۔، پھر اپنے مکان میں گئے، میں نے بھی اجازت چاہی اندر آنے کی، انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا: اے بھتیجے میرے! کیا کام ہے تیرا؟ میں نے کہا: لوگوں سے میں نے سنا جب تم کھڑے ہوئے وہ کہتے تھے: جس کو خوش لگے کسی جنتی کا دیکھنا وہ ان کو دیکھے۔ تو مجھے اچھا معلوم ہو ا تمہارے ساتھ رہنا، انہوں نے کہا:: اللہ تعالیٰ جانتا ہے جنت والوں کو اور میں تجھ سے وجہ بیان کرتا ہوں لوگوں کے یہ کہنے کی۔ میں ایک بار سو رہا تھا خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا: کھڑا ہو، پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں، میں نے ان میں جانا چاہا، وہ بولا: ان میں مت جا یہ بائيں طرف والوں کی راہیں ہیں (یعنی کا فروں کی)، پھر داہنی طرف کی راہیں ملیں وہ شخص بولا: ان راہو ں میں جا، پھر ایک پہاڑ ملا وہ شخص بولا: اس پر چڑھ۔ میں نے جو چڑھنا چاہا تو سرین (چوتڑ) کے بل گرا۔ کئی بار میں نے قصد کیا چڑھنے کا لیکن ہر بار گرا۔، پھر وہ مجھے لے چلا یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہ زمین میں۔ اس کے اوپر ایک حلقہ لگا تھا۔ مجھ سے کہا: اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا: میں اس پر کیوں کر چڑھوں اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا، میں جو دیکھتا ہوں تو اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہو ں، پھر اس شخص نے ستون کو مارا وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا) جب میں جاگا تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خواب بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں وہ بائيں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں داہنی طرف دیکھیں وہ داہنی طرف والوں کی راہیں ہیں اور پہاڑ وہ شہیدوں کا درجہ ہے تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون اسلام کا ستون ہے اور حلقہ وہ اسلام کا حلقہ ہے، تو اسلام پر قائم رہے گا مرتے دم تک۔ (اور جب خاتمہ اسلام پر ہو گا تو جنت کا یقین ہے اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ كُلُّهُمْ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : " أَنَّ عُمَرَ مَرَّ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَجِبْ عَنِّي اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا حسان بن ثابت پر گزرے وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے (معلوم ہوا کہ عمدہ اشعار پر جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہوں مسجد میں پڑھنا درست ہے) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو مسجد میں اشعار پڑھتا تھا جب مسجد میں تم سے بہتر شخص موجود تھے، پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور کہا: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”میری طرف سے جواب دے اے حسان!، یا اللہ مدد کر اس کی روح القدس سے .“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:ہاں میں نے سنا ہے، یااللہ! تو جانتا ہے۔
حَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَامَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ : أَنَّ حَسَّانَ ، قَالَ فِي حَلْقَةٍ فِيهِمْ أَبُو هُرَيْرَةَ : أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
ابن مسیب رحمہ اللہ سے روایت ہے، سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے اس مجلس میں کہا: جس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے، پھر اس کی مثل بیان کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ : أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے سیدنا حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گواہ کر رہے تھے میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے جواب دے، یا اللہ! مدد کر حسان کی روح القدس سے۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں میں نے سنا ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: " اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے: ”کافروں کی ہجو کر اور جبریل تیرے ساتھ ہیں۔“
حَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ كلهم، عَنْ شُعْبَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
شعبہ سے اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ : " أَنَّ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ كَانَ مِمَّنْ كَثَّرَ عَلَى عَائِشَةَ فَسَبَبْتُهُ، فَقَالَتْ: يَا ابْنَ أُخْتِي دَعْهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بہت باتیں کیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، میں نے ان کو برا کہا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:جانے دے، اے بھانجے میرے! کیونکہ حسان جواب دیتا تھا (کافروں کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔
حَدَّثَنَاهعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: " دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَعِنْدَهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، يُنْشِدُهَا شِعْرًا يُشَبِّبُ بِأَبْيَاتٍ لَهُ، فَقَالَ: حَصَانٌ رَزَانٌ مَا تُزَنُّ بِرِيبَةٍ وَتُصْبِحُ غَرْثَى مِنْ لُحُومِ الْغَوَافِلِ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ : لَكِنَّكَ لَسْتَ كَذَلِكَ، قَالَ مَسْرُوقٌ: فَقُلْتُ لَهَا: لِمَ تَأْذَنِينَ لَهُ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ، قَالَ اللَّهُ: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النور آية 11، فَقَالَتْ: فَأَيُّ عَذَابٍ أَشَدُّ مِنَ الْعَمَى؟ إِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ أَوْ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مسروق سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے، ایک شعر سنا رہے تھے، اپنی غزل میں سے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی: وہ شعر یہ ہے۔ پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے)، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حسان رضی اللہ عنہ سے کہا:تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے) مسروق نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ حسان کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شان میں فرمایا: «وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ» (۲۴-النور:۱۱) یعنی جس شخص نے ان میں سے بیڑا اٹھایا بڑی بات کا(یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا) اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شریک تھےجنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حد ماری) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ اندھا ہو گیا اور کہا کہ حسان جواب دیا کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا کافروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔
حَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: قَالَتْ: كَانَ يَذُبُّ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ حَصَانٌ رَزَانٌ.
شعبہ سے انہی اسناد کے ساتھ مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ وہ (حسان رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کافروں کی ہجو کو دور کرتا تھا، بعد اس میں حصان، رزان کے الفاظ کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا يَحْيَي بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ حَسَّانُ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: كَيْفَ بِقَرَابَتِي مِنْهُ؟ قَالَ: وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْخَمِيرِ، فَقَالَ حَسَّانُ: وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ بَنُو بِنْتِ مَخْزُومٍ وَوَالِدُكَ الْعَبْدُ، قَصِيدَتَهُ هَذِهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئے مجھے ابوسفیان کی ہجو کہنے کی (یہ ابوسفیان حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے اور اسلام سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی ہجو کرتے تھے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو میرے ناتے والا ہے۔“ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جیسے بال خمیر میں سے نکال لیا جاتا ہے، پھر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ شعر کہا۔ «وَإِنَّ سَنَامَ الْمَجْدِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ» «بَنُو بِنْتِ مَخْزُومٍ وَوَالِدُكَ الْعَبْدُ» ۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا سُفْيَانَ، وَقَالَ: بَدَلَ الْخَمِيرِ الْعَجِينِ.
ہشام بن عروہ سے انہی اسناد کے ساتھ مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ حسان نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے ہجو کرنے کی اور ابوسفیان کا ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اهْجُوا قُرَيْشًا، فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ: اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ، فَلَمْ يُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ: قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ يُحَرِّكُهُ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا، وَإِنَّ لِي فِيهِمْ نَسَبًا حَتَّى يُلَخِّصَ لَكَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَكَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنَ الْعَجِينِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِحَسَّانَ: إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَى وَاشْتَفَى، قَالَ حَسَّانُ: هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ، وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ ": هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِيًا رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ ثَكِلْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا تُثِيرُ النَّقْعَ مِنْ كَنَفَيْ كَدَاءِ يُبَارِينَ الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ عَلَى أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ تَظَلُّ جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ تُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ فَإِنْ أَعْرَضْتُمُو عَنَّا اعْتَمَرْنَا وَكَانَ الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لِضِرَابِ يَوْمٍ يُعِزُّ اللَّهُ فِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ يَسَّرْتُ جُنْدًا هُمُ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا اللِّقَاءُ لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ فَمَنْ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ مِنْكُمْ وَيَمْدَحُهُ وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ وَجِبْرِيلٌ رَسُولُ اللَّهِ فِينَا وَرُوح الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہجو کرو قریش کی کیونکہ ہجو ان کو زیادہ ناگوار ہے تیروں کی بوچھاڑ سے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا ابن رواحہ کے پاس اور فرمایا: ”ہجو کر قریش کی۔“ اس نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی، پھر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، پھر حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب حسان رضی اللہ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: تم کو آ گیا وہ وقت کہ تم نے بلا بھیجا اس شیر کو جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعرگوئی کے شیر ہیں)، پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا: قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں کافروں کو اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑےکو پھاڑ ڈالتے ہیں اپنی زبان سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حسان! جلدی مت کر کیونکہ ابوبکر قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی میں ہے تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔“ پھر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے بعد اس کے لوٹے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا، قسم اس کی جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں آپ کو قریش میں سے ایسے نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سے: ”روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔“اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”حسان رضی اللہ عنہ نے قریش کی ہجو کی تو تسکین دی مؤمنوں کے دلوں کو اور تباہ کر دیا کافروں کی عزتوں کو۔“، حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: (شعروں کا ترجمہ یہ ہے)۔ 1 - تو نے برائی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی، میں نے اس کا جواب دیا، اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا 2- تو نے برائی کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی، جو نیک ہیں پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، وفاداری ان کی خصلت ہے۔ 3- میرے ماں باپ اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو بچانے کے لیے قربان ہیں۔ 4- میں اپنی جان کو کھوؤں اگرتم نہ دیکھو اس کو کہ اڑا دے گا غبار کو کداء کے دونوں جانب سے (کداء ایک گھاٹی ہے مکہ کے دروازہ پر) 5- ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، ان کے مونڈھوں پر وہ برچھے جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں 6- اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئيں گے، ان کے منہ عورتیں پونچھتی ہیں اپنی سربندھن سے۔ 7- اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔ 8- نہیں تو صبر کرو اس دن کی مار کے لیے جس دن اللہ تعالیٰ عزت دے گا جس کو چاہے گا۔ 9- اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں شبہ نہیں۔ 10- اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے ایک لشکر تیار کیا وہ انصار کا لشکر ہے جن کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ 11- ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہےکافروں سے یا لڑائی ہے یا ہجو ہےکافروں کی۔ 12- جو کوئی تم میں ہجو کرے اللہ کے رسول کی اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں۔ 13- جبریل اللہ کے رسول ہم میں ہیں اور روح القدس جن کا کوئی مثل نہیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ، فَتَأْبَى عَلَيَّ، فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: خَيْرًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ، فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنی ماں کو بلاتا تھا اسلام کی طرف، وہ مشرکہ تھی، ایک دن میں نے اس سے مسلمان ہونے کے لیےکہا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےحق میں وہ بات سنائی جو مجھ کو ناگوار گزری۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا روتا ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپ کے حق میں وہ بات مجھ کو سنائی جو مجھے ناگوار ہے، تو آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئیےکہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر۔“ میں خوش ہو کر نکلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے جب گھر پر آیا اور دروازے پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی اور بولی ذرا ٹھہر جا۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی۔ غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتا پہنا اور جلدی سے اوڑھنی اوڑھی پھر دروازہ کھولا اور بولی: اے ابو ہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ کوئی برحق معبود نہیں ہے سوا اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا خوشی سے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئیے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! اپنے بندے کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مؤمن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مؤمنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔“ پھر کوئی مؤمن ایسا نہیں پیدا ہوا جس نے مجھے سنا ہو یا دیکھا ہو مگر محبت رکھی اس نے مجھ سے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ كُنْتُ رَجُلًا مِسْكِينًا أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَبْسُطْ ثَوْبَهُ فَلَنْ يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي، فَبَسَطْتُ ثَوْبِي حَتَّى قَضَى حَدِيثَهُ ثُمَّ ضَمَمْتُهُ إِلَيَّ، فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بہت بیان کرتے ہیں اور اللہ حساب لینے والا ہے(اگر میں جھوٹ بولتا ہوں یا تم میرے اوپر غلط گمان کرتے ہو) میں ایک مسکین شخص تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیٹ بھرے پر کیا کرتا تھا اور مہاجروں کو بازاروں میں معاملہ کرنے سے فرصت نہ تھی اور انصار اپنے مالوں کی حفاظت اور خدمت میں مصروف رہتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپناکپڑا بچھا دے وہ جو مجھ سے سنے گا نہ بھولے گا۔“ میں نے اپنا کپڑا بچھا دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث بیان کر چکے، پھر میں نے اس کپڑے کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کوئی بات نہ بھولا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَي بْنِ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مَعْنٌ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، غَيْرَ أَنَّ مَالِكًا انْتَهَى حَدِيثُهُ عِنْدَ انْقِضَاءِ قَوْلِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ الرِّوَايَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَبْسُطْ ثَوْبَهُ إِلَى آخِرِهِ.
ترجمہ وہی ہےجو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَلَا يُعْجِبُكَ أَبُو هُرَيْرَةَ، جَاءَ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِ حُجْرَتِي يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْمِعُنِي ذَلِكَ وَكُنْتُ أُسَبِّحُ، فَقَامَ قَبْلَ أَنْ أَقْضِيَ سُبْحَتِي، وَلَوْ أَدْرَكْتُهُ لَرَدَدْتُ عَلَيْهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْرُدُ الْحَدِيثَ كَسَرْدِكُمْ ".
سیدنا عروہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کیا تعجب نہیں کرتے تم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر، وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک طرف بیٹھ کر حدیث بیان کرنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں سن رہی تھی لیکن میں تسبیح پڑھتی تھی اور وہ میرے فارغ ہونے سے پہلے چل دیئے اگر میں ان کو پاتی تو ان کا رد کرتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح سے جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اللہ تعالیٰ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابو ہریرہ کی طرح حدیثیں بیان نہیں کرتے اور میں تم سے اس کا سبب بیان کرتا ہوں، میرے بھائی انصاری جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا تو میں حاضر رہتا اور وہ غائب ہوتے اور میں یاد رکھتا وہ بھول جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن: ”کون تم میں سے اپنا کپڑا بچھاتا ہے اور میری حدیث سنتا ہے، پھر اس کو اپنے سینے سے لگا دے تو جو بات سنے گا وہ نہ بھولے گا۔“ میں نے اپنی چادر بچھا دی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث سے فارغ ہوئے، پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگا لیا، اس دن سے میں کسی بات کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی، نہیں بھولا اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو قرآن مجید میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا «إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى» ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے جو لوگ چھپاتے ہیں جو ہم نے اتاریں نشانیاں اور ہدایت کی باتیں ان پر لعنت ہے آخر تک۔
(حديث مرفوع) قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَقَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ : إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: يَقُولُونَ: " إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَدْ أَكْثَرَ وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ، وَيَقُولُونَ: مَا بَالُ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ لَا يَتَحَدَّثُونَ مِثْلَ أَحَادِيثِهِ، وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، إِنَّ إِخْوَانِي مِنْ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمْ عَمَلُ أَرَضِيهِمْ، وَإِنَّ إِخْوَانِي مِنْ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَلَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا: أَيُّكُمْ يَبْسُطُ ثَوْبَهُ فَيَأْخُذُ مِنْ حَدِيثِي هَذَا، ثُمَّ يَجْمَعُهُ إِلَى صَدْرِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَنْسَ شَيْئًا سَمِعَهُ، فَبَسَطْتُ بُرْدَةً عَلَيَّ حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَدِيثِهِ، ثُمَّ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي، فَمَا نَسِيتُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ، وَلَوْلَا آيَتَانِ أَنْزَلَهُمَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ مَا حَدَّثْتُ شَيْئًا أَبَدًا: إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى سورة البقرة آية 159، إِلَى آخِرِ الْآيَتَيْنِ ". وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، عَنْ شُعَيْبٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقُولُونَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں ان کی حدیث کی مانند بیان کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، وَهُوَ كَاتِبُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ: ائْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً، مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا، فَإِذَا نَحْنُ بِالْمَرْأَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي كِتَابٌ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، قَالَ سُفْيَانُ: كَانَ حَلِيفًا لَهُمْ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا أَكَانَ مِمَّنْ كَانَ مَعَكَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ، أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَلَمْ أَفْعَلْهُ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ سورة الممتحنة آية 1، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ ذِكْرُ الْآيَةِ، وَجَعَلَهَا إِسْحَاقُ، فِي رِوَايَتِهِ مِنْ تِلَاوَةِ سُفْيَانَ.
سیدنا عبیداللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ منشی تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے۔ انہوں نے کہا: میں نے سنا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اور زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور فرمایا: ”شفتالو کے باغ میں جاؤ وہاں ایک عورت شتر سوار ہے اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔“ ہم چلے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ناگاہ وہ عورت ہم کو ملی ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ وہ بولی:میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پھر میں نے وہ خط اس کے جوڑے سے نکالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا۔ اس میں لکھا تھا: حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتوں کا ذکر تھا(ایک روایت میں ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کر دیا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حاطب تو نے یہ کیا کیا؟“وہ بولا: آپ جلدی نہ فرمائیے، یا رسول اللہ! (یعنی فورا بولا: مجھے سزا نہ دیجئیے میرا حال سن لیجئے) میں ایک شخص تھا قریش سے ملا ہوا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھر بار کا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتا تو قریش سے ہے نہیں میں بھی کوئی ایسا کام کر دوں جس سے میرے ناتے والوں کا بچاؤ ہو جائے۔ اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں، نہ کفر سے خوش ہو کر مسلمان ہونے کے بعد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حاطب نے سچ کہا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ چھوڑئیے یا رسول اللہ! میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں پر جھانکا اور فرمایا: تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تم کو بخش دیا۔“ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ» ”اے ایمان والو! میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ“۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ . ح وحَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، كُلُّهُمْ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَكُلُّنَا فَارِسٌ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبٍ إِلَى الْمُشْرِكِينَ، فَذَكَرَ بِمَعْنَى حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، ابومرثد غنوی اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کو بھیجا اور ہم تمام گھوڑ سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چلو اور جب روضہ خاخ کے مقام پر پہنچو گے تو تم کو ایک عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے مشرکین کی طرف حاطب کی جانب سے“۔ اسی طرح حدیث بیان کی عبیداللہ بن ابی رافع نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ : " أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبٍ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْكُو حَاطِبًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبْتَ، لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَيْبِيَةَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ان کی شکایت کرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! ”حاطب ضرور دوزخ میں جائے گا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو جھوٹا ہے حاطب دوزخ میں نہ جائے گا وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا“۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عِنْدَ حَفْصَةَ: " لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِينَ بَايَعُوا تَحْتَهَا، قَالَتْ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَانْتَهَرَهَا، فَقَالَتْ حَفْصَةُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72 ".
سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، اس نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس: ”اگر اللہ چاہے تو اصحاب شجرہ میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا یعنی جن لوگوں نے بیعت کی اس درخت کے نیچے۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہ جائیں گے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھڑکا۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَإِنْ مِنْكُمْ إِلاَّ وَارِدُهَا» (۱۹ مریم: ۷۱) یعنی ”کوئی تم میں سے ایسا نہیں ہے جو جہنم پر نہ جائے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اس کے بعد یہ ہے «ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا» (۱۹ مریم: ۷۲) یعنی ”پھر ہم نجات دیں گے پرہیز گاروں کو اور چھوڑ دیں گے ظالموں کو گھٹنوں کے بل۔“
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: أَلَا تُنْجِزُ لِي يَا مُحَمَّدُ مَا وَعَدْتَنِي؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْشِرْ، فَقَالَ لَهُ الْأَعْرَابِيُّ: أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا قَدْ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلَا أَنْتُمَا، فَقَالَا: قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا، وَأَبْشِرَا، فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا مَا أَمَرَهُمَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَتْهُمَا أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ، أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا مِمَّا فِي إِنَائِكُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً ".
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں اترے تھے مکہ اور مدینہ کے بیچ میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال تھے اتنے میں ایک گنوار آپ کے پاس آیا اور بولا: ”یا رسول اللہ! اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جا۔“ وہ بولا: آپ بہت فرماتے ہیں خوش ہو جا . پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے سیدنا ابوموسیٰ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کی طرف غصہ کی شکل پر اور فرمایا: ”اس نے رد کیا خوشخبری کو تم قبول کرو۔“دونوں نے کہا: ”ہم نے قبول کیا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ۔ اور منہ دھوئے اور اس میں تھوکا، پھر دونوں سے کہا: ”اس پانی کو پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔“ ان دونوں نے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے ان کو پردے کی آڑ سے آواز دی اپنی ماں کے لیے بھی کچھ بچا ہوا پانی لاؤ۔ انہوں نے ان کو بھی کچھ بچا ہوا پانی دیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ، فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ، فَقُتِلَ دُرَيْدٌ، وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي جُشَمٍ بِسَهْمٍ، فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ يَا عَمِّ: مَنْ رَمَاكَ؟ فَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ، إِلَى أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ قَاتِلِي تَرَاهُ ذَلِكَ الَّذِي رَمَانِي، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَقَصَدْتُ لَهُ فَاعْتَمَدْتُهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى عَنِّي ذَاهِبًا فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي، أَلَسْتَ عَرَبِيًّا أَلَا تَثْبُتُ فَكَفَّ، فَالْتَقَيْتُ أَنَا وَهُوَ فَاخْتَلَفْنَا أَنَا وَهُوَ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي عَامِرٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ قَتَلَ صَاحِبَكَ، قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ، فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ، يَقُولُ لَكَ أَبُو عَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَاسْتَعْمَلَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، وَمَكَثَ يَسِيرًا، ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي بَيْتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ، وَقَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: قُلْ لَهُ يَسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ، حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ أَوْ مِنَ النَّاسِ، فَقُلْتُ: وَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحَدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ، وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى.
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو ابوعامر رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا ان کا مقابلہ کیا درید بن الصمہ نے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کیا اور اس کے لوگوں کو شکست دی۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ کو بھی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر ابوعامر رضی اللہ عنہ کو تیر لگا گھٹنے میں۔ وہ تیر بنی جشم کے ایک شخص نے مارا تھا، ان کے گھٹنے میں جم گیا، میں ان کے پاس گیا اور پوچھا: اے چچا! یہ تیر تم کو کس نے مارا؟ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو بتلایا کہ اس شخص نے مجھ کو قتل کیا اسی شخص نے مجھ کو تیر مارا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگا۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا اے بے حیا! کیا تو عرب نہیں ہے تو ٹھہرتا نہیں۔ یہ سن کر وہ ٹھہر گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا۔ اس نے بھی وار کیا میں نے بھی وار کیا۔ آخرمیں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور میں نے کہا: اللہ نے تمہارے قاتل کو مارا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب یہ تیر نکال لے۔ میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا:: اے بھتیجے میرے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا اور میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہہ کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئیے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھ کو لوگوں کا سردار کر دیا اور تھوڑی دیر وہ زندہ رہے پھر وفات پا گئے، جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں تھے بان کے ایک پلنگ پر جس پر فرش تھا (صحیح روایت یہ ہے کہ فرش نہ تھا اور «ما» کا لفظ رہ گیا ہے) اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پسلیوں پر بن گیا تھا میں نے یہ خبر بیان کی اور ابوعامر رضی اللہ عنہ کا حال بھی بیان کیا اور میں نے کہا: ابوعامر نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لیے دعا کیجئیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”یا اللہ! بخش دے عبید ابوعامر کو۔“ (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا: ”یا اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت لوگوں کا سردار کرنا۔“ میں نےعرض کیا:یا رسول اللہ! اور میرے لیے دعا فرمائیے بخشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخش دے یا اللہ! عبداللہ بن قیس کے (یہ نام ابوموسیٰ کا) گناہ کو اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔“ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دعا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے لیے کی اور ایک ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے لیے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الْأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ، وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ، وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ، وَمِنْهُمْ حَكِيمٌ إِذَا لَقِيَ الْخَيْلَ، أَوَ قَالَ الْعَدُوَّ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّ أَصْحَابِي يَأْمُرُونَكُمْ أَنْ تَنْظُرُوهُمْ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اشعریوں کی آواز قرآن پاک پڑھنے سے پہچان لیتا ہوں جب وہ رات کو آتے ہیں اور رات کو ان کی آواز سے ان کا ٹھکانا بھی پہچان لیتا ہوں اگرچہ دن کو ان کا ٹھکانا نہ دیکھا ہو جب وہ دن کو اترے ہوں اور انہی لوگوں میں سے ایک شخص حکیم ہے کہ جب کافروں کے سواروں سے یا دشمنوں سے ملتا ہے تو ان سے کہتا ہے کہ ہمارے لوگ تم سے کہتے ہیں ذرا ہم کو فرصت دو یا تھوڑا انتظار کرو یعنی ہم بھی تیار ہیں لڑنے کو آتے ہیں (تو اپنے تئیں دانائی اور حکمت سے بچا لیتا ہے کیونکہ دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اکیلا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ ہیں)۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، قَالَ أَبُو عَامِرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنِي بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْأَشْعَرِيِّينَ إِذَا أَرْمَلُوا فِي الْغَزْوِ، أَوْ قَلَّ طَعَامُ عِيَالِهِمْ بِالْمَدِينَةِ، جَمَعُوا مَا كَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَيْنَهُمْ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِيَّةِ، فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اشعری لوگ جب لڑائی میں محتاج ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے جورو بچوں کا کھانا کم ہو جاتا ہے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اس کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے ہیں، پھر آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ یہ لوگ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔“ (یعنی میں ان سے راضی ہوں اور ایسے اتفاق کو پسند کرتا ہوں)۔
حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا النَّضْرُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أُزَوِّجُكَهَا؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَ: وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَلَوْلَا أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا، قَالَ: نَعَمْ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی طرف دھیان نہیں کرتے تھے نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا) ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہا: اے اللہ کے نبی! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اچھا۔“ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپ سے کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اچھا۔“ تیسرے مجھ کو حکم دیجئیے کافروں سے لڑوں (جیسے اسلام سے پہلے) مسلمانوں سے لڑتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا۔“۔ ابوزمیل نے کہا: اگر وہ ان باتوں کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ دیتے اس لئے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ جس جس بات کا سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاں فرماتے اور قبول کرتے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمَا، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعًا، وَإِمَّا قَالَ: ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، قَالَ: فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ، فَأَقِيمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، قَالَ: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ، قَالَ: أَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلَّا لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ، قَالَ: فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، يَقُولُونَ لَنَا: يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ،
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ ہم نے یمن میں سنا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے ہجرت کر کے، میں تھا اور دو میرے چھوٹے بھائی تھے۔ ایک کا نام ابوبردہ تھا اور دوسرے کا نام ابورہم اور چند آدمی تریپن یا باون آدمی ہماری قوم کے تھے تو ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے، وہ کشتی حبش کی طرف چلی گئی جہاں کا بادشاہ نجاشی تھا وہاں ہم کو جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہاں بھیجا ہے اور فرمایا ہے: یہاں ٹھہرو تو تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم انہیں کے ساتھ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ ہم سب لوگ مل کر مدینہ کو آئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا تھا تو ہمارا حصہ لگایا وہاں کی لوٹ میں سے جو شخص خیبر کی لڑائی سے غائب تھا اس کو حصہ نہ ملا سوا ئے ہماری کشتی والوں کے جو جعفر اور ان کے اصحاب کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حصہ لگایا۔ بعض لوگ کہنے لگے: ہم تم سے پہلے ہجرت کر چکے تھے۔
قَالَ: فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ: حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ؟ قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا وَاللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَكُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ وَايْمُ اللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ وَوَاللَّهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ، قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُ وَبُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي.
پھر اسماء بنت عمیس جو ہمارے ساتھ آئی تھیں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کو۔ انہوں نے بھی ہجرت کی تھی۔ نجاشی بادشاہ حبش کی طرف اور ساتھیوں میں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے وہاں اسماء رضی اللہ عنہا موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو پوچھا: یہ کون ہیں؟ وہ بولیں: اسماء بنت عمیس۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حبش والی، دریا والی یہی عورت ہے۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تم سے۔ یہ سن کر اسماء رضی اللہ عنہا غصہ ہوئیں اور بولیں: اے عمر! تم نے یہ غلط کہا۔ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ تھے تمہارے بھوکے کو کھانا دیتے اور تمہارے جاہل کو نصحیت کرتے آپ اور ہم ایک دور دراز دشمن ملک میں تھے (یعنی کافروں کے ملک میں کیونکہ سوائے نجاشی کے وہاں کوئی مسلمان نہ تھا اور وہ بھی اپنی قوم سے چھپ کر مسلمان ہوا تھا)صرف اللہ کے لیے اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے۔ اور قسم اللہ کی میں نہ کھانا کھاؤں گی، نہ پانی پیوں گی جب تک جو تم نے کہا اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کروں گی اور ہم کو حبش میں ایذا ہوتی تھی، ڈر بھی تھا میں اس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں گی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گی، اللہ کی قسم میں جھوٹ نہ بولوں گی، نہ بےراہ چلوں گی، نہ زیادہ کہوں گی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسماء رضی اللہ عنہا نےعرض کیا: اے نبی اللہ تعالی کے! عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ایسا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ زیادہ حق نہیں رکھتے تم سے بلکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے (مکہ سے مدینہ کو)اور تمہاری سب کشتی والوں کی دو ہجرتیں ہیں (ایک مکہ سے حبش کو دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ اسماء رضی اللہ عنہا نےکہا: میں نے ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا وہ گروہ گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے اور دنیا کی کسی چیز کے ملنے کی ان کو اتنی خوشی نہ ہوتی تھی جتنی کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کےاس فرمان سے۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے ابوموسیٰ کو دیکھا، وہ مجھ سے دہراتے تھے اس حدیث کو (خوشی کے لیے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو : " أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَتَى عَلَى سَلْمَانَ وَصُهَيْبٍ، وَبِلَالٍ فِي نَفَرٍ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَخَذَتْ سُيُوفُ اللَّهِ مِنْ عُنُقِ عَدُوِّ اللَّهِ مَأْخَذَهَا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَقُولُونَ هَذَا لِشَيْخِ قُرَيْشٍ وَسَيِّدِهِمْ؟ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ: لَعَلَّكَ أَغْضَبْتَهُمْ لَئِنْ كُنْتَ أَغْضَبْتَهُمْ لَقَدْ أَغْضَبْتَ رَبَّكَ، فَأَتَاهُمْ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا إِخْوَتَاهْ أَغْضَبْتُكُمْ؟ قَالُوا: لَا، يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَخِي ".
سیدنا عائذ بن عمرو سے روایت ہے، ابوسفیان، سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم کے پاس آیا اور بھی چند لوگ بیٹھے تھے انہوں نے کہا: اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے موقع پر نہ پہنچیں (یعنی یہ اللہ کا دشمن نہ مارا گیا)، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نےکہا: تم قریش کے بوڑھے اور سردار کے حق میں ایسا کہتے ہو۔ (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مصلحت سے ایسا کہا کہ کہیں ابوسفیان ناراض ہو کر اسلام بھی قبول نہ کرے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ سے بیان کیا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! تم نے شاید ناراض کیا ان لوگوں کو (یعنی سلمان اور صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم کو) اگر تم نے ان کو ناراض کیا تو اپنے پروردگار کو ناراض کیا۔“ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے بھائیو! میں نے تم کو ناراض کیا۔ وہ بولے: نہیں، اللہ تم کو بخشے اے ہمارے بھائی۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " فِينَا نَزَلَتْ: إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122 بَنُو سَلِمَةَ، وَبَنُو حَارِثَةَ، وَمَا نُحِبُّ أَنَّهَا لَمْ تَنْزِلْ لِقَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا سورة آل عمران آية 122 ".
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت «إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا» ”جب دو گروہوں نے تم میں سے قصد کیا ہمت ہار دینے کا اور اللہ مالک ہے ان دونوں کا۔“ ہم لوگوں کے باب میں اتری بنی سلمہ اور بنی حارثہ میں۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ آیت نہ اترتی کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: «وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا» ”اللہ مالک ہے ان دونوں کا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ ".
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلأَنْصَارِ، وَلأَبْنَاءِ الأَنْصَارِ، وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الأَنْصَار» ”یا اللہ! بخش دے انصار کو اور انصار کے بیٹوں کو اور پوتوں کو۔“
وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
شعبہ سے انہی اسناد کے ساتھ روایت ہے۔
حَدَّثَنِي أَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لِلْأَنْصَارِ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: وَلِذَرَارِيِّ الْأَنْصَارِ، وَلِمَوَالِي الْأَنْصَارِ، لَا أَشُكُّ فِيهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی انصار کی بخشش کے لیے اور انصار کی اولاد اور غلاموں کے لیے۔
حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى صِبْيَانًا وَنِسَاءً مُقْبِلِينَ مِنْ عُرْسٍ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُمْثِلًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ يَعْنِي الْأَنْصَارَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کی شادی سے آتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو۔ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ میرے محبوب ہو۔“ یعنی انصار کو فرمایا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَلَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تنہائی کی (شایدوہ محرم ہو گی جیسے ام سلیم یا ام حرام تھیں یا تنہائی سے مراد ہے کہ اس نے لوگوں سے علیحدہ کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی)اور فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو۔“ تین بار یہ فرمایا۔
وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
شعبہ سے انہی اسناد کے ساتھ روایت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَر ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْأَنْصَارَ كَرِشِي وَعَيْبَتِي، وَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ، فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ، وَاعْفُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”انصار میری انتڑیاں اور میری گٹھریاں ہیں (کپڑا رکھنے کی یعنی میرے خاص معتمد اور اعتباری لوگ ہیں) اور لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے تو قبول کرو ان کے نیک کو اور معاف کرو ان کے برے کو۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ، وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ "، فَقَالَ سَعْدٌ: مَا أَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا، فَقِيلَ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَى كَثِيرٍ.
سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کے سب گھروں میں بنی نجار کا گھر بہتر ہے (جنہوں نے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں اتارا اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی)، پھر بنی عبدالاشہل کا، پھر بنی حارث بن خزرج کا، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے ہر ایک گھر میں بہتری ہے۔“ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر فضیلت دی اوروں کو(کیونکہ سعد بنی ساعدہ میں سے تھے) لوگوں نے کہا: تم کو فضیلت دی بہتوں پر۔
حَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعْتُأَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْحٍ ، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَذْكُرُ فِي الْحَدِيثِ قَوْلَ سَعْدٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث بیان کی لیکن اس میں سعد کے قول کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُسَيْدٍ خَطِيبًا عِنْدَ ابْنِ عُتْبَةَ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ دَارُ بَنِي النَّجَّارِ، وَدَارُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَدَارُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَدَارُ بَنِي سَاعِدَةَ وَاللَّهِ لَوْ كُنْتُ مُؤْثِرًا بِهَا أَحَدًا لَآثَرْتُ بِهَا عَشِيرَتِي ".
سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کے سب گھروں میں بنی نجار کا گھر بہتر ہے اور بنی الاشہل کا اور بنی حارث بن خزرج کا اور بنی ساعدہ کا۔“ اللہ کی قسم! اگر میں انصار پر کسی کو اختیار کروں تو اپنے کنبے والوں کو اختیار کروں (اور کوئی ان سے بہتر نہیں ہے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، قَال: شَهِدَ أَبُو سَلَمَةَ لَسَمِعَ أَبَا أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ يَشْهَدُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ، وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ "، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: أُتَّهَمُ أَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ كُنْتُ كَاذِبًا لَبَدَأْتُ بِقَوْمِي بَنِي سَاعِدَةَ، وَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فَوَجَدَ فِي نَفْسِهِ، وَقَالَ: خُلِّفْنَا فَكُنَّا آخِرَ الْأَرْبَعِ أَسْرِجُوا لِي حِمَارِي، آتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَلَّمَهُ ابْنُ أَخِيهِ سَهْلٌ، فَقَالَ: أَتَذْهَبُ لِتَرُدَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ أَوَ لَيْسَ حَسْبُكَ أَنْ تَكُونَ رَابِعَ أَرْبَعٍ، فَرَجَعَ، وَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُه أَعْلَمُ وَأَمَرَ بِحِمَارِهِ فَحُلَّ عَنْهُ.
سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر گھر انصار میں بنی نجار کا ہے، پھر بنی عبد الاشہل کا، پھر بنی حارث بن خزرج کا، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے ہر ایک گھر میں بہتری ہے۔“ سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نےکہا: سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تہمت کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اگر میں جھوٹا ہوتا تو پہلے اپنی قوم بنی ساعدہ کا نام لیتا۔ یہ خبر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی ان کو رنج ہوا اور کہنے لگے: ہم چاروں کے اخیر میں ہوئے۔ میرے گدھے پر زین کسو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔ سہل کے بھتیجے نے ان سے کہا: تم جاتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات رد کرنے کو حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ چار میں سے چوتھے تم ہو؟ یہ سن کر سعد رضی اللہ عنہ لوٹے اور فرمایا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے اور حکم دیا گدھے کی زین کھول ڈالنے کا۔
حَدَّثَنَاعَمْرُو بْنُ عَلِيِّ بْنِ بَحْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا أُسَيْدٍ الْأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: خَيْرُ الْأَنْصَارِ أَوْ خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ، بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ فِي ذِكْرِ الدُّورِ، وَلَمْ يَذْكُرْ قِصَّةَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
سیدنا اسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرمایا: ”انصار بہتر ہیں یا انصار کے گھر بہتر ہیں۔“ اسی حدیث کے مانند جس میں گھروں کا ذکر ہے۔ اور اس میں سعد بن عباد رضی اللہ عنہ کے قصے کا تذکرہ نہیں۔
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، سمعا أبا هريرة ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَجْلِسٍ عَظِيمٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: " أُحَدِّثُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالُوا: ثُمَّ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: ثُمَّ بَنُو النَّجَّارِ، قَالُوا: ثُمَّ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالُوا: ثُمَّ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ، قَالُوا: ثُمَّ مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ثُمَّ فِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ "، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ مُغْضَبًا، فَقَالَ: أَنَحْنُ آخِرُ الْأَرْبَعِ حِينَ سَمَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَارَهُمْ، فَأَرَادَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنْ قَوْمِهِ: اجْلِسْ أَلَا تَرْضَى أَنْ سَمَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَارَكُمْ فِي الْأَرْبَعِ الدُّورِ الَّتِي سَمَّى، فَمَنْ تَرَكَ فَلَمْ يُسَمِّ أَكْثَرُ مِمَّنْ سَمَّى، فَانْتَهَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممسلمانوں کی ایک بڑی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو انصار کا بہتر گھر بتاؤں۔“ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو عبدالاشہل۔“ لوگوں نے کہا: پھر کون سا گھر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی نجار۔“ لوگوں نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی حارث بن خزرج۔“ لوگوں نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی ساعدہ۔“ لوگوں نے کہا: پھر کون یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کے ہر ایک گھر میں بہتری ہے۔“ یہ سن کر سعد بن عبادہ غصہ سے کھڑے ہوئے اور کہا: کیا ہم چاروں کے اخیر میں ہیں۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا تو چاہا آپ کی بات پر اعتراض کرنا۔ ان کی قوم کے لوگوں نے کہا: بیٹھ، تو اس بات سے راضی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرا گھرانہ ان چاروں میں رکھا جن کو بیان کیا۔ اور جن گھروں کو بیان نہ کیا وہ بہت سے ہیں تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ چپ ہو رہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عَرْعَرَةَ، وَاللَّفْظُ لِلْجَهْضَمِيِّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " خَرَجْتُ مَعَ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ فِي سَفَرٍ، فَكَانَ يَخْدُمُنِي، فَقُلْتُ لَهُ: لَا تَفْعَلْ، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ الْأَنْصَارَ تَصْنَعُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، آلَيْتُ أَنْ لَا أَصْحَبَ أَحَدًا مِنْهُمْ إِلَّا خَدَمْتُهُ "، زَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِمَا، وَكَانَ جَرِيرٌ أَكْبَرَ مِنْ أَنَسٍ، وَقَالَ ابْنُ بَشَّارٍ أَسَنَّ مِنْ أَنَسٍ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جریر بن عبد اللہ بجلی کے ساتھ نکلا سفر میں وہ میری خدمت کرتے تھے۔ میں نے کہا: تم میری خدمت مت کرو کیونکہ تم بڑے ہو۔ انہوں نے کہا: میں نے انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ وہ کام کرتے دیکھا ہے کہ میں نے قسم کھائی کہ جب کسی انصاری کے ساتھ ہوں گا تو اس کی خدمت کروں گا اور جریر رضی اللہ عنہ انس رضی اللہ عنہ سے بڑے تھے۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ ".
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”غفار کو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا اور اسلم کو بچا لیا۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ مَهْدِيٍّ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْتِ قَوْمَكَ، فَقُلْ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَغِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا ".
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم کو اللہ سلامت رکھے اور غفار کو اللہ بخشے۔“
حَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ.
شعبہ نے گزشتہ اسناد کے مطابق روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ،وَعَبْدُ بْنُ حميد ، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ . ح وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ كُلُّهُمْ، قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ وَغِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اور غفار کو اللہ تعالیٰ بخش دے۔“
وحَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَغِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْهَا، وَلَكِنْ قَالَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سلامت رکھا اور غفار کو اللہ تعالیٰ نے بخشا، یہ میں نہیں کہتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔“
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ اللَّيْثِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ خُفَافِ بْنِ إِيمَاءَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي صَلَاةٍ اللَّهُمَّ الْعَنْ بَنِي لِحْيَانَ، وَرِعْلًا، وَذَكْوَانَ، وَعُصَيَّةَ عَصَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ ".
خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں دعا کی: ”یا اللہ! لعنت کر بنی لحیان پر اور رعل پر، ذکوان پر اور عصیہ پر جنہوں نے نافرمانی کی اللہ کی اور اس کے رسول کی اور بخش دیا اللہ نے غفار کو اور اسلم کو بچا دیا۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَيَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَي بْنُ يَحْيَي أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَعُصَيَّةُ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غفار کو اللہ بخشے اور اسلم کو سلامت رکھے اور عصیہ نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَالْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ كُلُّهُمْ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، وَفِي حَدِيثِ صَالِحٍ، وَأُسَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ.
ترجمہ وہی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ منبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔
وحَدَّثَنِيهِ حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْيَحْيَي ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مِثْلَ حَدِيثِ هَؤُلَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
اس سند سے بھی مذکورہ حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَنْصَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ، وَغِفَارُ، وَأَشْجَعُ، وَمَنْ كَانَ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ مَوَالِيَّ دُونَ النَّاسِ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَاهُمْ ".
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار، مزینہ، جہینہ، غفار، اشجع، جو عبدللہ کی اولاد ہے میرے دوست ہیں سوائے اور لوگوں کے اور اللہ اور اللہ کے رسول ان کے دوست ہیں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ، وَأَسْلَمُ، وَغِفَارُ، وَأَشْجَعُ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَهُمْ مَوْلًى دُونَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش، انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار اور اشجع دوست ہیں اور ان کا حمایتی کوئی نہیں سوائے اللہ اور اس کے رسول کے۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ سَعْدٌ فِي بَعْضِ: هَذَا فِيمَا أَعْلَمُ.
سیدنا سعد بن ابراہیم رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " أَسْلَمُ، وَغِفَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَمَنْ كَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةُ، خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَبَنِي عَامِرٍ، وَالْحَلِيفَيْنِ، أَسَدٍ، وَغَطَفَانَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم اور غفار، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں بنی تمیم سے اور بنی عامر سے، اسد اور غطفان سے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَحَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغِفَارُ، وَأَسْلَمُ، وَمُزَيْنَةُ، وَمَنْ كَانَ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوَ قَالَ: جُهَيْنَةُ، وَمَنْ كَانَ مِنْ مُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ، وَطَيِّئٍ، وَغَطَفَانَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے غفار، اسلم، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اسد، طئی اور غطفان سے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِيَانِ ابْنَ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَسْلَمُ، وَغِفَارُ وَشَيْءٌ مِنْ مُزَيْنَةَ، وَجُهَيْنَةَ، أَوْ شَيْءٌ مِنْ جُهَيْنَةَ، وَمُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللَّهِ "، قَالَ: أَحْسِبُهُ، قَالَ: يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ، وَغَطَفَانَ، وَهَوَازِنَ، وَتَمِيمٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا بَايَعَكَ سُرَّاقُ الْحَجِيجِ مِنْ أَسْلَمَ، وَغِفَارَ، وَمُزَيْنَةَ، وَأَحْسِبُ، جُهَيْنَةَ، مُحَمَّدٌ الَّذِي شَكَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَسْلَمُ، وَغِفَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَأَحْسِبُ، جُهَيْنَةُ خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَبَنِي عَامِرٍ، وَأَسَدٍ، وَغَطَفَانَ، أَخَابُوا وَخَسِرُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُمْ لَأَخْيَرُ مِنْهُمْ "، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، مُحَمَّدٌ الَّذِي شَكَّ.
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ سے بیعت کی حاجیوں کے لٹیروں نے، اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ، بنی تمیم، بنی عامر اور اسد و غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ (یعنی بنی تمیم وغیرہ) نقصان میں رہے اور نامراد ہوئے۔“ وہ بولا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ (یعنی اسلم اور غفار وغیرہ) بہتر ہیں ان سے۔“ (یعنی بنی تمیم وغیرہ سے)۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي سَيِّدُ بَنِي تَمِيمٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ الضَّبِّيُّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: وَجُهَيْنَةُ، وَلَمْ يَقُلْ: أَحْسِبُ.
محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب ضبی سے انہی اسناد کے تحت اسی طرح مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور «جُهَيْنَةُ» “ اور لفظ «أَحْسِبُ»نہیں کہا:۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْلَمُ، وَغِفَارُ، وَمُزَيْنَةُ، وَجُهَيْنَةُ خَيْرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَمِنْ بَنِي عَامِرٍ، وَالْحَلِيفَيْنِ بَنِي أَسَدٍ، وَغَطَفَانَ ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں بنی تمیم اور بنی عامر سے اور بنی اسد اور غطفان سے جو حلیف ہیں ایک دوسرے کے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ . ح وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ابی بشر سے انہی اسناد کے تحت مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ جُهَيْنَةُ، وَأَسْلَمُ، وَغِفَارُ، خَيْرًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، وَبَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَعَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا، قَالَ: فَإِنَّهُمْ خَيْرٌ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ جُهَيْنَةُ، وَمُزَيْنَةُ، وَأَسْلَمُ، وَغِفَارُ ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو اگر جہینہ، اسلم اور غفار بہتر ہوں بنی تمیم سے اور بنی عبداللہ بن غطفان سے اور عامر بن صعصعہ سے۔“ اور بلند آواز سے فرمایا: لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس صورت میں بنی تمیم وغیرہ گھاٹے میں رہے اور نقصان پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بہتر ہیں ان سے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لِي: " إِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا: سب سے پہلے صدقہ جس نے چمکا دیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے منہ کو یعنی خوش کر دیا ان کو، طئی کا صدقہ تھا، (طی ایک قبیلہ ہے) میں اس کو لے کر آیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: وَأَصْحَابُهُ، فقالوا: يا قَدِمَ الطُّفَيْلُ رَسُولَ اللَّهِ، " إِنَّ دَوْسًا قَدْ كَفَرَتْ وَأَبَتْ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَقِيلَ: هَلَكَتْ دَوْسٌ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِهِمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، طفیل اور ان کے ساتھی آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! دوس نے کفر اختیار کیا اور انکار کیا مسلمان ہونے سے تو بددعا کیجئیے دوس کے لیے۔ کہا گیا تباہ ہوئے دوس کے لوگ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہدایت کر دوس کو اور ان کو میرے پاس لے کر آ۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : " لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ ثَلَاثٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ، قَالَ: وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا، قَالَ: وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْتِقِيهَا فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ ".
ابوزرعہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہمیشہ محبت رکھتا ہوں بنی تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”وہ سب سے زیادہ سخت ہیں میری امت میں دجال پر۔“ اور ان کے صدقے آئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہماری قوم کے صدقے ہیں۔“ اور ایک عورت ان کی قیدی تھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو آزاد کر دے یہ اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔“
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَا أَزَالُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ بَعْدَ ثَلَاثٍ، سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا فِيهِمْ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں ہمیشہ محبت رکھتا ہوں بنی تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمائیں پھر مذکورہ حدیث کی طرح بیان کیا۔
وحَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ الْمَازِنِيُّ ، إِمَامُ مَسْجِدِ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ثَلَاثُ خِصَالٍ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَنِي تَمِيمٍ، لَا أَزَالُ أُحِبُّهُمْ بَعْدُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِهَذَا الْمَعْنَى غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: هُمْ أَشَدُّ النَّاسِ قِتَالًا فِي الْمَلَاحِمِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الدَّجَّالَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تین باتیں جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی تمیم کے بارے میں اس کے بعد میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں اور اسی مذکورہ حدیث کے معنی کی حدیث بیان کی۔ اور اس میں یہ ہے کہ بنی تمیم کے لوگ معرکوں میں سب لوگوں سے زیادہ لڑنے والے ہیں اور دجال کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَجِدُونَ النَّاسَ مَعَادِنَ، فَخِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ، إِذَا فَقِهُوا وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَكْرَهُهُمْ لَهُ، قَبْلَ أَنْ يَقَعَ فِيهِ، وَتَجِدُونَ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کو معدنیات جیسا پاؤ گے۔ (بعض کان سونے کی ہے بعض لوہے کی ویسے ہی آدمی بھی مختلف ہیں کسی کا خاندان عمدہ ہے اصل اچھی ہے کوئی برا ہے) تو بہتر آدمیوں میں اسلام کی حالت میں بھی وہی ہیں جو جاہلیت کی حالت میں بہتر تھے جب دین میں سمجھدار ہو جائیں اور تم بہتر اس کو پاؤ گے اسلام میں جو بہت نفرت رکھتا ہو گا اسلام سے مسلمان ہونے سے پہلے (یعنی جو کفر میں مضبوط تھا وہ اسلام لانے کے بعد اسلام میں بھی ایسا ہی مضبوط ہوا جیسے سیدنا عمر اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما وغیرہ یا مراد یہ ہے کہ جو خلافت سے نفرت رکھے اسی کی خلافت عمدہ ہو گی) اور تم سب سے برا اس کو پاؤ گے جو دو رویہ ہو ان کے پاس ایک منہ لے کر آئے اور ان کے پاس دوسرا منہ لے کر جائے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَجِدُونَ النَّاسَ مَعَادِنَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ أَبِي زُرْعَةَ، وَالْأَعْرَجِ، تَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فِي هَذَا الشَّأْنِ أَشَدَّهُمْ لَهُ كَرَاهِيَةً حَتَّى يَقَعَ فِيهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وَعَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ "، قَالَ أَحَدُهُمَا: صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ، وقَالَ الْآخَرُ: نِسَاءُ قُرَيْشٍ أَحْنَاهُ عَلَى يَتِيمٍ فِي صِغَرِهِ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر ان عورتوں میں جو اونٹ پر سوار ہوئیں نیک بخت عورتیں ہیں قریش کی۔ سب سے زیادہ مہربان بچہ پر جب وہ چھوٹا ہو اوربڑی نگہبان اپنے خاوند کے مال کی۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَرْعَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ وَلَمْ يَقُلْ يَتِيمٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " نِسَاءُ قُرَيْشٍ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ، أَحْنَاهُ عَلَى طِفْلٍ وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ "، قَالَ: يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَلَى إِثْرِ ذَلِكَ، وَلَمْ تَرْكَبْ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ بَعِيرًا قَطُّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرشی عورتیں اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہترین ہیں اور بچوں پر سب سے زیادہ مہربان اور اپنے خاوندوں کے مال کی حفاظت کرنے والی ہیں۔“ اس روایت کے بیان کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مریم بنت عمران علیہا السلام کبھی اونٹ پر سوار نہیں ہوئیں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَلِي عِيَالٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی رضی اللہ عنہا ابوطالب کی بیٹی سے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہن سے)نکاح کا پیام دیا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور میرے بچے بھی ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی کہ بہتر عورتیں اخیر تک۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح، وحَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ، أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ، وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَعْمَرٍ، هَذَا سَوَاءً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، آخَى بَيْنَ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَبَيْنَ أَبِي طَلْحَةَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کر دیا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ میں۔
حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، قَالَ: قِيلَ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: بَلَغَكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ، فَقَالَ أَنَسٌ : قَدْ حَالَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِهِ ".
عاصم احول سے روایت ہے، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، تم نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں حلف نہیں ہے۔“سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حلف کرایا قریش اور انصار میں اپنے گھر میں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " حَالَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَ قُرَيْشٍ، وَالْأَنْصَارِ، فِي دَارِهِ الَّتِي بِالْمَدِينَةِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف کرایا قریش اور انصار میں میرے گھر میں جو مدینہ میں تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ، وَأَيُّمَا حِلْفٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ إِلَّا شِدَّةً ".
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کفر کے زمانے کی قسم کا اسلام میں کچھ اعتبار نہیں اور جو قسم جاہلیت کے زمانے میں نیک بات کے لیے کی ہو وہ اسلام سے اور مضبوط ہو گئی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحاَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ حُسَيْنٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ مُجَمَّعِ بْنِ يَحْيَي ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " صَلَّيْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ جَلَسْنَا حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَهُ الْعِشَاءَ، قَالَ: فَجَلَسْنَا فَخَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: مَا زِلْتُمْ هَاهُنَا؟ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْنَا مَعَكَ الْمَغْرِبَ ثُمَّ قُلْنَا نَجْلِسُ حَتَّى نُصَلِّيَ مَعَكَ الْعِشَاءَ، قَالَ: أَحْسَنْتُمْ أَوْ أَصَبْتُمْ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَكَانَ كَثِيرًا مِمَّا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا: اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا، پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم یہیں بیٹھے رہے۔“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! ہم نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی پھر ہم نے کہا: اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا اور ٹھیک کیا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے پھر فرمایا: ”تارے بچاؤ ہیں آسمان کے، جب تارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا) اور میں بچاؤ ہوں اپنے اصحاب کا جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے(یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں) اور میرے اصحاب بچاؤ ہیں میری امت کے جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو جَابِرًا يُخْبِرُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: فِيكُمْ مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ لَهُمْ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى مَنْ صَحِبَ مَنْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا کہ جہاد کریں گے آدمیوں کے جھنڈ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو دیکھا ہو تو لوگ کہیں گے کہ ہاں! تو فتح ہو جائے گی ان کی پھر جہاد کریں گے لوگوں کے گروہ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی ہے تم میں سے جس نے دیکھا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو یعنی تابعین میں سے کوئی ہے، لوگ کہیں گے: ہاں! پھر ان کی فتح ہو جائے گی، پھر جہاد کریں گے آدمیوں کے لشکر تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کوئی ہے تم میں ایسا جس نے صحابی کے صاحب کو دیکھا ہو یعنی تبع تابعین میں سے لوگ کہیں گے: ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی۔
حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُبْعَثُ مِنْهُمُ الْبَعْثُ، فَيَقُولُونَ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ فِيكُمْ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُوجَدُ الرَّجُلُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ بِهِ، ثُمَّ يُبْعَثُ الْبَعْثُ الثَّانِي، فَيَقُولُونَ: هَلْ فِيهِمْ مَنْ رَأَى أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُفْتَحُ لَهُمْ بِهِ، ثُمَّ يُبْعَثُ الْبَعْثُ الثَّالِثُ، فَيُقَالُ: انْظُرُوا هَلْ تَرَوْنَ فِيهِمْ مَنْ رَأَى مَنْ رَأَى أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ثُمَّ يَكُونُ الْبَعْثُ الرَّابِعُ، فَيُقَالُ: انْظُرُوا هَلْ تَرَوْنَ فِيهِمْ أَحَدًا رَأَى مَنْ رَأَى أَحَدًا رَأَى أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُوجَدُ الرَّجُلُ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ بِهِ ".
ترجمہ وہی ہےجو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ يَلُونِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ "، لَمْ يَذْكُرْ هَنَّادٌ: الْقَرْنَ، فِي حَدِيثِهِ، وقَالَ قُتَيْبَةُ: ثُمَّ يَجِيءُ أَقْوَامٌ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر میری امت میں میرے زمانہ کے متصل لوگ ہیں (یعنی صحابہ) پھر وہ جو ان سے نزدیک ہیں (یعنی تابعین) پھر وہ جو ان سے نزدیک ہیں (یعنی تبع تابعین) پھر ان تینوں کے بعد وہ لوگ آئیں گے جن کی گواہی قسم سے پہلے ہو گی اور قسم گواہی سے پہلے۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَبْدُرُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَتَبْدُرُ يَمِينُهُ شَهَادَتَهُ "، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: كَانُوا يَنْهَوْنَنَا وَنَحْنُ غِلْمَانٌ عَنِ الْعَهْدِ وَالشَّهَادَاتِ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا: کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میرے قرن کے پھر وہ جو ان کے نزدیک ہیں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہیں، پھر وہ لوگ آئیں گے جن کی قسم گواہی سے پہلے جلدی کرے گی اور گواہی قسم سے پہلے جلدی کرے گی۔“ ابراہیم نے کہا: ہم بچے تھے اس وقت لوگ ہم کو منع کرتے تھے گواہی اور قسم ساتھ کرنے کے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كِلَاهُمَا، عَنْ مَنْصُورٍ ، بِإِسْنَادِ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَجَرِيرٍ، بِمَعْنَى حَدِيثِهِمَا، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
منصور نے ابوالاحوص اور جریر دونوں سے اسی معنی کی حدیثوں کو بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا۔
وحَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ، أَوْ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ: ثُمَّ يَتَخَلَّفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر لوگ میرے قرن کے ہیں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہیں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہیں۔“ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار میں فرمایا یا چوتھی بارمیں۔ ”پھر وہ لوگ نالائق پیدا ہوں گے جن کی گواہی قسم سے پہلے ہو اور قسم گواہی سے پہلے۔“
حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ . ح وحَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا، قَالَ: ثُمَّ يَخْلُفُ قَوْمٌ يُحِبُّونَ السَّمَانَةَ يَشْهَدُونَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدُوا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر میری امت میں وہ قرن ہے جس میں میں بھیجا گیا، پھر وہ قرن ہے جو اس کے بعد ہے۔“ معلوم نہیں تیسرے کا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا یا نہیں۔ پھر فرمایا: ”وہ لوگ پیدا ہوں گے جو فربہی اور مٹاپے پر مریں گے گواہی دیں گے گواہی چاہے جانے سے پہلے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَاأَبُو عَوَانَةَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَا أَدْرِي مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ ، حَدَّثَنِي زَهْدَمُ بْنُ مُضَرِّبٍ ، سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ خَيْرَكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ "، قَالَ عِمْرَانُ: فَلَا أَدْرِي، أَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعْدَ قَرْنِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَهُمْ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ پھر وہ لوگ پیدا ہوں گے جو بن گواہ کیے گواہی دیں گے، چور ہوں گے، امانت داری نہ کریں گے نذر کریں گے لیکن پوری نہ کریں گے ان میں موٹاپا پھیلے گا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ كُلُّهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِهِمْ، قَالَ: لَا أَدْرِي أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، وَفِي حَدِيثِ شَبَابَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، وَجَاءَنِي فِي حَاجَةٍ عَلَى فَرَسٍ، فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، وَفِي حَدِيثِ يَحْيَي، وَشَبَابَةَ: يَنْذُرُونَ وَلَا يَفُونَ، وَفِي حَدِيثِ بَهْزٍ: يُوفُونَ كَمَا، قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ: خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، زَادَ فِي حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا بِمِثْلِ حَدِيثِ زَهْدَمٍ، عَنْ عِمْرَانَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ وَيَحْلِفُونَ وَلَا يُسْتَحْلَفُونَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”قسم کھائیں گے بن قسم دلائے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ وَهُوَ ابْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ السُّدِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْبَهِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عہنا سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون لوگ بہتر ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قرن جس میں میں ہوں پھر دوسرا پھر تیسرا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، أن عبد الله بن عمر ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهَلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ "، يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز پڑھی ہمارے ساتھ اپنی آخر عمر میں۔ جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اب سے سو برس کے آخر پر زمین والوں میں سے کوئی نہ رہے گا۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ لوگوں نے اس حدیث میں غلطی کی جو بیان کرتے ہیں سو برس کا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ”آج جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کوئی نہ رہے گا۔“ یعنی یہ قرن تمام ہو جائے گا۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ مُسَافِرٍكِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِإِسْنَادِ مَعْمَرٍ كَمِثْلِ حَدِيثِهِ.
زہری سے بھی معمر کی اسناد کے مطابق اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِشَهْرٍ: " تَسْأَلُونِي عَنِ السَّاعَةِ، وَإِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے ایک مہینہ پہلے فرماتے تھے: ”تم مجھ سے قیامت کو پوچھتے ہو قیامت کا علم تو اللہ کو ہے اور میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ کوئی جان نہیں (یعنی آدمیوں میں سے) جس پر سو برس تمام ہوں (آج کی تاریخ سے اور وہ زندہ رہے)۔“
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ قَبْلَ مَوْتِهِ بِشَهْرٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى كلاهما، عَنْ الْمُعْتَمِرِ ، قَالَ ابْنُ حَبِيبٍ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ ذَلِكَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِشَهْرٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ: " مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ وَهِيَ حَيَّةٌ يَوْمَئِذٍ ". وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ صَاحِبِ السِّقَايَةِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ ذَلِكَ، وَفَسَّرَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: نَقْصُ الْعُمُرِ.
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے یا کچھ ایسا ہی فرمایا: ”جو جان آج کے دن ہے اس پر سو برس نہ گزریں گے کہ وہ مر جائیں گے۔“ عبدالرحمن نے اس کی تفسیر یہ کی کہ عمریں کم ہو جائیں گی (ورنہ اگلے لوگ سو برس سے زیادہ بھی جیتے تھے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَايَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا مِثْلَهُ.
سلیمان التیمی سے دونوں سندوں کے تحت اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوكَ، سَأَلُوهُ عَنِ السَّاعَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَأْتِي مِائَةُ سَنَةٍ وَعَلَى الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ الْيَوْمَ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمتبوک سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قیامت کے متعلق۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو برس گزرنے پر اس وقت کا کوئی شخص زندہ نہ رہے گا۔“
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ تَبْلُغُ مِائَةَ سَنَةٍ "، فَقَالَ سَالِمٌ: تَذَاكَرْنَا ذَلِكَ عِنْدَهُ، إِنَّمَا هِيَ كُلُّ نَفْسٍ مَخْلُوقَةٍ يَوْمَئِذٍ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص سو برس تک نہ جئے گا۔“ سالم نے کہا: ہم نے اس کا ذکر کیا جابر رضی اللہ عنہ کے سامنے، مراد وہ شخص ہے جو اس دن پیدا ہو چکا تھا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت برا کہو میرے اصحاب کو، مت برا کہو میرے اصحاب کو، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی تم میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر ے (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) تو ان کے مد (سیر بھر) یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔“
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَبَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْءٌ، فَسَبَّهُ خَالِدٌ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم میں کچھ جھگڑا ہو ا تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو برا کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت برا کہو میرے اصحاب میں سے کسی کو اس لیے کہ اگر کو ئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، بِإِسْنَادِ جَرِيرٍ وَأَبِي مُعَاوِيَةَ بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ شُعْبَةَ وَوَكِيعٍ ذِكْرُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ : أَنَّ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَفَدُوا إِلَى عُمَرَ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ، فَقَالَ عُمَرُ : هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرَنِيِّينَ؟ فَجَاءَ ذَلِكَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَنِ، يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ قَدْ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوِ الدِّرْهَمِ فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ ".
سیدنا اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کوفہ کے لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ان میں ایک شخص تھا جو سیدنا اویس رضی اللہ عنہ سے ٹھٹھا کیا کرتا (کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اولیاء اللہ میں سے ہیں اور اویس اپناحال چھپاتے تھے۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: عارفوں کا یہی طریقہ ہے)سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یہاں قرن کا بھی کوئی آدمی ہے؟ وہ شخص آیا تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارے پاس ایک شخص آئے گا یمن سے اس کا نام اویس ہے اور وہ یمن میں کسی کو نہ چھوڑے گا (اپنے عزیزوں میں سے) سوا اپنی ماں کے، اس کو(برص کی) سفیدی ہو گئی تھی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ نے دور کر دی وہ سفیدی اس کے بدن سے مگر ایک دینار یا درم برابر باقی ہے جو کوئی تم میں سے اس کو ملے تو اپنے لیے دعا کروائے اس سے۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ، وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بہتر تابعین میں سے ایک شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں اس کی ایک ماں ہے اور اس کو ایک سفیدی تھی تم اس سے کہنا کہ تمہارے لیے دعا کرے۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ، أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ، فَقَالَ: أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَن؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ، فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَال: لَكَ وَالِدَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ، فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ، فَافْعَلْ فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: الْكُوفَةَ، قَالَ: أَلَا أَكْتُبُ لَكَ إِلَى عَامِلِهَا؟ قَالَ: أَكُونُ فِي غَبْرَاءِ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيَّ، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ حَجَّ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ، فَوَافَقَ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَنْ أُوَيْسٍ، قَالَ: تَرَكْتُهُ رَثَّ الْبَيْتِ قَلِيلَ الْمَتَاعِ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ هُوَ بِهَا بَرٌّ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ، فَأَتَى أُوَيْسًا، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ، فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: أَنْتَ أَحْدَثُ عَهْدًا بِسَفَرٍ صَالِحٍ فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لَقِيتَ عُمَرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَاسْتَغْفَرَ لَهُ فَفَطِنَ لَهُ النَّاسُ، فَانْطَلَقَ عَلَى وَجْهِهِ، قَالَ: أُسَيْرٌ وَكَسَوْتُهُ بُرْدَةً، فَكَانَ كُلَّمَا رَآهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: مِنْ أَيْنَ لِأُوَيْسٍ هَذِهِ الْبُرْدَةُ ".
سیدنا اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمن سے مدد کے لوگ آتے (یعنی وہ لوگ جو ہر ملک سے اسلام کے لشکر کی مدد کے لیے آتے ہیں جہاد کرنے کے لیے) تو وہ ان سے پوچھتے: تم میں اویس بن عامر بھی کوئی شخص ہے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود اویس کے پاس آئے اور پوچھا: کہ تمہارا نام اویس بن عامر ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم مراد قبیلہ سے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، پوچھا: قرن میں سے ہو؟ انہوں کہا: ہاں، پوچھا: تم کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درم برابر باقی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پوچھا: تمہاری ماں ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تمہارے پاس اویس بن عامر آئے گا یمن والوں کی کمکی فوج کے ساتھ وہ مراد قبیلہ کا ہے جو شاخ ہے قرن کی، اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا مگر درم برابر باقی ہے، اس کی ایک ماں ہے اس کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کو سچا کرے، پھر اگر تجھ سے ہو سکے اس سے تو دعا کرا اپنے لیے۔“ تو دعا کرو میرے لیے۔ سیدنا اویس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی بخشش کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: کوفہ میں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:: میں ایک خط تم کو لکھ دوں کوفہ کے حاکم کے نام؟ انہوں نے کہا: مجھے خاکساروں میں رہنا اچھا معلوم ہو تا ہے۔ جب دوسرا سال آیا تو ایک شخص نے کوفہ کے رئیسوں میں سے حج کیا۔ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اویس کا حال پوچھا: وہ بولا: میں نے اویس کو اس حال میں چھوڑا کہ ان کے گھر میں اسباب کم تھا اور وہ تنگ تھے (خرچ سے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اویس بن عامر تمہارے پاس آئے گا یمن والوں کے امدادی لشکر کے ساتھ وہ مراد میں سے ہے، پھر قرن میں سے، اس کو برص تھا وہ اچھا ہو گیا صرف درم برابر باقی ہے، اس کی ایک ماں ہے جس کے ساتھ وہ نیکی کرتا ہے، اگر اللہ پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کو سچا کرے، پھر اگر تجھ سے ہو سکے کہ وہ دعا کر ے تیرے لیے تو دعا کرا اس سے۔“ وہ شخص یہ سن کر سیدنا اویس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا میرے لیے دعا کرو۔ سیدنا اویس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ابھی نیک سفر کر کے آ رہا ہے (یعنی حج سے) میرے لیے دعا کر۔ پھر وہ شخص بولا: میرے لیے دعا کرو۔ اویس نے یہی جواب دیا، پھر پوچھا: تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا؟ وہ شخص بولا: ہاں، پھر ان کے لیے بخشش کی دعا کی۔ اس وقت لوگ اویس رضی اللہ عنہ کا درجہ سمجھے، وہ وہاں سے سیدھےچلے۔ اسیر نے کہا: ان کا لباس ایک چادر تھی جب کوئی آدمی ان کو دیکھتا تو کہتا: اویس رضی اللہ عنہ کے پاس یہ چادر کہاں سے آئی؟
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي حَرْمَلَةُ . ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ وَهُوَ ابْنُ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ أَرْضًا يُذْكَرُ فِيهَا الْقِيرَاطُ، فَاسْتَوْصُوا بِأَهْلِهَا خَيْرًا، فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا، فَإِذَا رَأَيْتُمْ رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَاخْرُجْ مِنْهَا "، قَالَ: فَمَرَّ بِرَبِيعَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنَيْ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ يَتَنَازَعَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَخَرَجَ مِنْهَا.
سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فتح کرو گے ایک ملک کو جہاں قیراط کا راوج ہو گا (قیراط ایک ٹکڑا ہے درم اور دینار کا اور مصر میں اس کا رواج بہت تھا) وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان کا حق ہے تم پر اور ان کا ناتا بھی ہے تم سے (اس لیے کہ ہاجرہ علیہا السلام اسمعیل علیہ السلام کی ماں مصر کی تھیں اور وہ ماں ہیں عرب کی) جب تم دو شخصوں کو وہاں دیکھو ایک اینٹ کی جگہ پر لڑتے ہوئے تو وہاں سے بھاگو۔“ پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ربیعہ اور عبدالرحمن بن شرحبیل ایک اینٹ کی جگہ پر لڑر ہے ہیں تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل گئے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ حَرْمَلَةَ الْمِصْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ، وَهِيَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ، فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا، فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا، أَوَ قَالَ ذِمَّةً وَصِهْرًا، فَإِذَا رَأَيْتَ رَجُلَيْنِ يَخْتَصِمَانِ فِيهَا فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ، فَاخْرُجْ مِنْهَا "، قَالَ: فَرَأَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَحْبِيلَ بْنِ حَسَنَةَ، وَأَخَاهُ رَبِيعَةَ، يَخْتَصِمَانِ فِي مَوْضِعِ لَبِنَةٍ فَخَرَجْتُ مِنْهَا.
وہی مضمون ہے اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ان سے دامادی کا بھی رشتہ ہے (وہ رشتہ یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادہ کی ماں سیدہ ماریہ رضی اللہ عنہا مصر کی تھیں)۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ جَابِرِ بْنِ عَمْرٍو الرَّاسِبِيِّ ، سَمِعْتُ أَبَا بَرْزَةَ ، يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا إِلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَسَبُّوهُ وَضَرَبُوهُ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ أَهْلَ عُمَانَ أَتَيْتَ مَا سَبُّوكَ وَلَا ضَرَبُوكَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا عرب کے کسی قبیلہ کی طرف، ان لوگوں نے اس کو برا کہا اور مارا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو عمان والوں کے پاس جاتا تو وہ تجھے برا نہ کہتے، نہ مارتے۔“ (کیونکہ وہاں کے لوگ اچھے ہیں)۔
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيَّ ، أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ ، رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ، أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ أَشَرُّهَا لَأُمَّةٌ خَيْرٌ، ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ، فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ، قَالَ: فَأَبَتْ، وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ مَنْ يَسْحَبُنِي بِقُرُونِي، قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتَيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ، وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ، تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ، أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَنِطَاقُ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ، أَمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا " أَنَّ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابًا، وَمُبِيرًا، فَأَمَّا الْكَذَّابُ: فَرَأَيْنَاهُ، وَأَمَّا الْمُبِيرُ: فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاهُ، قَالَ: فَقَامَ عَنْهَا، وَلَمْ يُرَاجِعْهَا ".
ابونوفل سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی گھاٹی پر دیکھا (یعنی مکہ کا وہ ناکہ جو مدینہ کی راہ ہے) قریش کے لوگ ان پر سے گزرتے تھے اور اور لوگ بھی (ان کو حجاج نے سولی دے کر اسی پر رہنے دیا تھا) یہاں تک کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان پر نکلے وہاں کھڑے ہوئے اور «السلام عليكم ياخبيب» (ابوخبیب کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی، خبیب ان کے بڑے بیٹے تھے اور ابوبکر اور ابو بکیر بھی ان کی کنیت تھی) «السلام عليك اباخبيب، السلام عليك اباخبيب» (اس سے معلوم ہو اکہ میت کو تین بار سلام کرنا مستحب ہے) اللہ کی قسم! میں تو تم کو منع کرتا تھا اس سے (یعنی خلافت اور حکومت اختیار کرنے سے) اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں تم روزہ رکھنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے اور ناتے کو جوڑنے والے تھے۔ اللہ کی قسم! وہ گروہ جس کے برے تم ہو وہ عمدہ گروہ ہے (یہ انہوں نے برعکس کہا: بطریق طنز کے یعنی برا گروہ ہے اور ایک روایت میں صاف ہے کہ وہ برا گروہ ہے)۔ یہ خبر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حجاج کو پہنچی۔ اس نے ان کو سولی پر سے اتروا لیا اور یہود کے مقبرہ میں پھنکوا دیا (اور مردود یہ نہ سمجھا کہ اس سے کیا ہوتا ہے انسان کہیں بھی گرے پر اس کے اعمال اچھے ہونا ضروری ہیں)، پھر حجاج نے ان کی ماں سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا، انہوں نے حجاج کے پاس آ نے سے انکار کیا۔ حجاج نے، پھر بلا بھیجا اور کہا: تم آتی ہو تو آؤ، ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر لائے (اللہ سمجھے اس مردود سے جس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن سے ایسی بے ادبی کی) انہوں نے تب بھی آنے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہ آؤں گی جب تک تو میرے پاس اس کو نہ بھیجے جو میرے بال کھنیچتا ہوا مجھ کو لائے۔ آخر حجاج نے کہا: میرے جوتے لاؤ اور جوتے پہن کر اکڑتا ہو اچلا یہاں تک کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: تم نے دیکھا، اللہ کی قسم! میں نے کیا کیا اللہ تعالیٰ کے دشمن سے (یہ حجاج نے اپنے اعتقاد کے موافق سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو کہا: ورنہ وہ مردود خود اللہ کا دشمن تھا)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے دیکھا تو نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی دنیا بگاڑ دی اور اس نے تیری آخرت بگاڑ دی۔ میں نے سنا ہے تو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہتا تھا دو کمربند والی کا بیٹا۔ بیشک اللہ کی قسم! میں دو کمربند والی ہوں ایک کمربند میں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کھانا اٹھاتی تھی کہ جانور اس کو نہ کھا لیں اور ایک کمربند وہ تھا جو عورت کو درکار ہے۔ (سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے کمربند کو پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے کر لیے تھے، ایک سے تو کمربند باندھتی تھیں اور دوسرے کا دسترخوان بنایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے تو یہ فضیلت تھی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی جس کو حجاج مردود عیب سمجھتا تھا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو ذلیل کرنے کے لیے ان کو دو کمربند والی کا بیٹا کہتا تھا) تو خبردار رہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہم سے بیان کیا تھا: ”ثقیف میں ایک جھوٹا پیدا ہو گا اور ایک ہلاکو۔“ تو جھوٹے کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ہلاکو میں نہیں سمجھتی سوائے تیرےکسی کو۔ یہ سن کر حجاج کھڑا ہو ا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو کچھ جو اب نہ دیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ، أَوَ قَالَ: مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دین ثریا پر ہوتا (ثریا پروین کو کہتے ہیں یعنی وہ چھوٹےچھوٹے تارے جو گچھے کی طرح معلوم ہو تے ہیں وہ زمین سے نہایت دور ہیں ان کے بعد کا اندازہ براہین ہندسہ سے بھی نہیں ہو سکتا) تو یہی فارس کا ایک آدمی اسے لے جاتا یا لے لیتا۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ، فَلَمَّا قَرَأَ: وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سورة الجمعة آية 3، قَالَ رَجُلٌ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَأَلَهُ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، قَالَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ: " لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ بیٹھےتھے۔ اتنے میں سورۂ جمعہ اتری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» «۶۲-الجعة: ٣»یعنی ”پاک ہے وہ اللہ جس نے پیغمبر بھیجا عرب کی طرف اور اوروں کی طرف جو ابھی عرب سے نہیں ملے۔“ ایک شخص نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو عرب کے سوا ہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جو اب نہ دیا یہاں تک کہ اس نے ایک بار، دو بار، یا تین بار پوچھا: اس وقت ہم لوگوں میں سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور فرمایا: ”اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی ان کی قوم میں سے کچھ لوگ اس تک پہنچ جاتے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، واللفظ لمحمد، قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَجِدُونَ النَّاسَ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آدمیوں کو ایسا پاتے ہو جیسے اونٹ کہ سو اونٹوں میں سے ایک بھی چالاک عمدہ سواری کے قابل نہیں ملتا۔“ (اسی طرح عمدہ مہذب، عاقل نیک، نیک بخت، خوش اخلاق یا صالح پرہیزگار یا موحد دیندار سو آدمیوں میں ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا)۔