مشکوٰة شر یف

صدقہ فطر کا بیان

صدقہ فطر واجب ہے یا فرض؟

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر (صدق فطر) کے طور پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ فطر کے بارے میں یہ بھی حکم فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو عید الفطر کی نماز کے لیے جانے سے پہلے دے دیا جائے۔ (بخار و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کے ہاں سنت مؤکدہ ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں واجب ہے حدیث میں مذکور لفظ  فرض حضرت امام شافع اور حضرت امام احمد کے نزدیک اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے، حضرت امام مالک فرض کے معنی بیان کرتے ہیں  مقرر کیا  حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر چونکہ دلیل قطعی کے ذریعے ثابت نہیں ہے اس لیے صدقہ فطر عمل کے لحاظ سے تو فرض ہی کے برابر ہے لیکن اعتقادی طور پر اسے فرض نہیں کہا جا سکتا جس کا مطلب یہ ہے کہ واجب ہے فرض نہیں ہے۔

حضرت امام شافعی کے مسلک میں ہر اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے جو اپنے لیے اور ان لوگوں کے لیے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ کے مسلک کے مطابق صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہو گا جو غنی ہو یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور قرض سے محفوظ ہو۔

 صدقہ فطر کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے مر جائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور اسی طرح جو شخص طلوع فجر کے بعد اسلام لائے اور مال پائے یا جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب نہیں۔

 ایک صاع ساڑھے تین سیر یعنی چودہ اوزان کے مطابق تین کلو۲۶۶گرام ہوتا ہے گزشتہ صفحات میں بھی کچھ اوزان کے بارے میں تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔

 جو غلام خدمت کے لیے ہو اس کی طرف سے اس کے مالک پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں جو غلام تجارت کے لیے ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے اسی طرح جو غلام بھاگ جائے اس کی طرف سے بھی صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں جب وہ واپس آ جائے تو اس وقت دینا واجب ہو گا۔

 اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر چھوٹی اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے بلکہ اس کے مال میں دیا جائے گا۔

 بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے، اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اور بیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے از راہ احسان و مروت ادا کر دے تو جائز ہو گا۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث میں لفظ من المسلمین لفظ  عبد اور اس کے بعد کے الفاظ کا حال واقع ہو رہا ہے لہٰذا کسی مسلمان پر اپنے کافر غلام کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں ہو گا۔ مگر صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ غلام کافر کا صدقہ فطر بھی اس کے مسلمان مالک پر واجب ہوتا ہے، انہوں نے اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے جسے ہدایہ یا مرقات میں دیکھا جا سکتا ہے، حنفیہ کے یہاں صاحب ہدایہ ہی کے قول کے مطابق فتویٰ ہے۔ (علم الفقہ)

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ہی ادا کر دینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینے یا ایک مہینے سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔ نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہر صورت دینا ضروری ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جو میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع اور یا خشک انگوروں میں ایک صاع صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ طعام(کھانے) سے مراد گیہوں ہے لیکن حنفی علماء کہتے ہیں کہ طعام سے گیہوں کے علاوہ دوسرے غلے مراد ہیں لہٰذا اس صورت میں طعام پر اس کے مابعد کا عطف خاص علی العام کی قسم سے ہو گا۔

  قروط ایک خاص قسم کے  پنیر کو کہتے تھے یہ پنیر اس طرح بنایا جاتا تھا کہ دہی کو کپڑے میں باندھ کر لٹکا دیتے تھے دہی کا تمام پانی ٹپک ٹپک کر گر جاتا تھا اور اس کا باقی ماندہ حصہ  پنیر کی طرح کپڑے میں رہ جاتا تھا وہی حصہ قروط کہلاتا تھا۔

 خشک انگور چونکہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ کے ہاں گیہوں کی مانند ہے اس لیے اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر نصف صاع یعنی ایک کلو ٢٣٣ کلو گرام دینا چاہئے البتہ صاحبین خشک کھجوروں کو چونکہ جو کی مانند سمجھتے ہیں اس لیے ان حضرات کے نزدیک اس میں سے صدقہ فطر کے طور پر ایک صاع یعنی تین کلو ٣٦٦گرام دینا چاہئے۔ امام حسن رحمۃ اللہ نے حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہی نقل کیا ہے۔

 

 

٭٭ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رمضان کے آخری دنوں میں (لوگوں سے) کہا کہ تم اپنے روزوں کی زکوٰۃ نکالوں یعنی صدقہ فطر ادا کرو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ صدقہ ہر مسلمان، آزاد، غلام، لونڈی، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر) کھجوروں اور جو میں سے ایک صاع اور گیہوں میں سے نصف صاع فرض(یعنی واجب) کیا ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اسی حدیث کے مطابق کہتے ہیں کہ صدقہ فطر کے طور پر اگر گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع یعنی ایک کلو 332گرام ہونی چاہئے۔

صدقہ فطر کا وجوب کیوں؟

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزوں کی بے ہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لیے نیز مساکین کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر کو اس لیے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہو جائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دن لوگوں کے سامنے دس سوال دراز کرنے سے بچ جائیں اور وہ صدقہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ دارقطنی نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں کہ  جو شخص صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو شخص نماز عید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ بس صدقوں میں سے ایک صدقہ ہو گا۔

صدقہ فطر کی مقدار

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ کے گلی کوچوں میں یہ منادی کرائی کہ سن لو! صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد یا غلام اور چھوٹا ہو یا بڑا (اور اس کی مقدار) گیہوں یا اس کی مانند چیزوں (مثلاً خشک انگور وغیرہ) میں سے دو مد اور (گیہوں کے علاوہ) دوسرے غلوں میں سے ایک صاع۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  دو مد سے مراد آدھا صاع ہے کیونکہ ایک مد غلہ کا وزن چودہ چھٹانک کے قریب ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے تین سیر کے برابر ہوتا ہے لہٰذا صدقہ فطر کے طور پر گیہوں پونے دو سیر یعنی ایک کلو 336گرام دینا چاہئے چونکہ گیہوں کا آٹا یا گیہوں کا ستو بھی گیہوں ہی کے مثل ہے اس لیے یہ دونوں چیزیں بھی اسی مقدار میں دینی چاہئیں۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  صدقہ فطر واجب ہے گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے (کہ ہر ایک کی طرف سے نصف نصف صاع ہو گا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، غنی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر دینے کی وجہ سے) اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مشکوٰۃ کے نسخوں میں حدیث کے راوی کا نام اگرچہ اسی طرح لکھا ہوا ہے لیکن صحیح اس طرح عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیر یا بن ابی صعیر عن ابیہ الخ۔ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں جن سے ان کے صاحبزادے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔

 حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ غنی بھی صدقہ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ فطر دے۔ ان دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غنی کو تو اس کے صدقہ فطر دینے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کو اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے، یہ بشارت اگرچہ غنی کے لیے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بھی اس سے کہیں زیادہ برکت عطا فرماتا ہے جتنا کہ اس نے دیا ہے مگر اس بشارت کو فقیر کے ساتھ اس لیے مخصوص کیا تاکہ اس کی ہمت افزائی ہو اور وہ صدقہ فطر دینے میں پیچھے نہ رہے۔