صدقہ مال کا وہ حصہ کہلاتا ہے جسے کوئی شخص اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے نکالے خواہ واجب ہو یا نفل۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں جلدی کرو (یعنی موت یا بیماری سے پہلے صدقہ دو کیونکہ صدقہ دینے سے بلا نہیں بڑھتی یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ (رزین)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کھجور برابر (خواہ صورت میں خواہ قیمت میں) حلال کمائی میں خرچ کرے (اور یہ جان لو کہ) اللہ تعالیٰ صرف مال حلال قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر اس صدقہ کو صدقہ دینے والے کے لیے اسی طرح پالتا ہے۔ جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنا بچھڑا پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ یا اس کا ثواب) پہاڑ کی مانند ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کسب کے معنی ہیں جمع کرنا یہاں کسب طیب سے مراد وہ مال ہے جسے حلال ذریعوں سے جمع کیا جائے یعنی شرعی اصولوں کے تحت ہونے والی تجارت و صنعت زراعت و ملازمت اور وراثت یا حصہ میں حاصل ہونے والا مال۔
ولا یقبل اللہ الا الطیب (اللہ تعالیٰ صرف حلال مال قبول کرتا ہے) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بارگاہ الوہیت میں صرف وہی صدقہ قبول ہوتا ہے جو حلال مال کا ہو، غیر حلال مال قبول نہیں ہوتا نیز اس سے یہ نکتہ بھی پیدا ہوا کہ حلال مال اچھی اور نیک جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا حلال مال بارگاہ الوہیت میں کمال قبول کو پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال مال خرچ کرنے والے سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اسی مفہوم کو یہاں داہنے سے لینے سے اس لیے محاورۃً اور عرفا تعبیر کیا گیا ہے کہ پسندیدہ اور محبوب چیز داہنے ہاتھ ہی سے لی جاتی ہے۔
پالتا ہے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقے کے ثواب کو بڑھاتا جاتا ہے تاکہ وہ قیامت کے روز میزان عمل میں گراں ثابت ہو۔
حدیث بالا کی روشنی میں جو یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ حلال مال اچھی جگہ ہی خرچ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک سبق آموز حکایت سنیے
شیخ علی متقی عارف باللہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک متقی و صالح شخص کسب معاش کرتے تھے اور ان کا معمول تھا کہ جو کچھ کماتے پہلے تو اس میں ایک تہائی خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے پھر ایک تہائی اپنی ضروریات پر صرف کرتے اور ایک تہائی اپنی کسب معاش کے ذریعے میں لگا دیتے ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال خدا کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے انہوں نے کہا پہلے تو حلال مال حاصل کرو اور پھر اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرو، وہ مستحق شخص ہی کے پاس پہنچے گا۔ دنیا دار شخص نے اسے مبالغہ پر محمول کیا، شیخ نے کہا اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے تمہارے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا، چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں جذبہ ترحم پیدا ہوا اور یہ سمجھ کر کہ صدقہ کے مال کا اس بے چارے سے زیادہ کون مستحق ہو سکتا ہے؟ اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ جب دوسرے دن وہ ضعیف و نابینا شخص کے پاس سے گزرا تو اس نے سنا کہ وہ اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک دوسرے شخص سے کل کا واقعہ بیان کر رہا تھا کہ کل میرے پاس سے ایک مالدار شخص گزرا اس نے مجھ پر ترس کھا کر اتنا مال مجھے دیا جسے میں نے فلاں بدکار شخص کے ساتھ شراب نوشی میں لٹا دیا۔ وہ دنیا دار یہ سنتے ہی شیخ کے پاس آیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کیا، شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس پر پڑے اسے یہ درہم بطور خیرات دے دینا چنانچہ وہ شیخ کا دیا ہوا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا تو اس کی نظر سب سے پہلے ایک اچھے شخص پر پڑی جو بظاہر کھاتا پیتا معلوم ہو رہا تھا پہلے تو وہ دیتے ہوئے جھجکا مگر چونکہ شیخ کا حکم تھا اس لیے مجبوراً وہ درہم اس شخص کو دے دیا۔ اس شخص نے وہ درہم لے لیا اور اپنے پیچھے مڑ کر چل دیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ مالدار بھی چلا اس نے دیکھا وہ شخص ایک کھنڈر میں داخل ہوا ور وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر راہ پکڑی، مالدار بھی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی البتہ اس نے ایک مرا ہوا کبوتر دیکھا وہ پھر اس شخص کے پیچھے پیچھے ہو لیا، پھر اسے قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں ، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں وہ بہت بھوکے تھے جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی اور انتہائی اضطراب و پریشانی کے عالم میں میں ان کے لیے کچھ انتظام کرنے کی خاطر گھر سے نکل کھڑا ہوا تو میں سرگرداں پھر رہا تھا کہ مجھے یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے ذریعے بھوک سے بلکتے بچوں کو کچھ تسکین دلاؤں مگر جب خدا نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت فرما دیا تو یہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا وہیں پھینک دیا۔
اب اس مالدار کی آنکھ کھلی اور اسے معلوم ہوا کہ شیخ کا وہ قول مبالغہ پر محمول نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اچھی جگہ اور حرام مال بری جگہ خرچ ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ صدقہ دینا مال میں کمی نہیں کرتا اور جو شخص کسی کی خطا معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے نیز جو شخص خدا کے لیے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
یہاں تین باتیں بتائی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا اگرچہ ظاہری طور پر مال میں کمی و نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں صدقہ و خیرات مال میں زیادتی کا سبب ہوتا ہے بایں طور کہ صدقہ و خیرات کرنے والے کے مال میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے وہ اور اس کا مال آفت و بلاء سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں ثواب کی زیادتی ہوتی ہے بلکہ دنیا میں بھی اسے اس طرح نعم البدل عطا فرمایا جاتا ہے کہ اس کا مال بڑھتا رہتا ہے۔
دوسری بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کا قصور لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دیتا ہے اور اس کی خطا سے درگزر کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی عزت بڑھاتا ہے چنانچہ ایک عارف کا قول منقول ہے کہ کوئی بھی انتقال عفو و درگزر کے برابر نہیں ہے۔
تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جو شخص کسی غرض و منفعت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے جذبے سے تواضع و عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنی چیزوں میں دوہری چیز اللہ کی راہ میں (یعنی اس کی رضاء و خوشنودی کی خاطر) خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا اور جنت کے کئی یعنی آٹھ دروازے ہیں چنانچہ جو شخص اہل نماز (یعنی بہت زیادہ نماز پڑھنے والا) ہو گا اسے جنت کے باب الصلوٰۃ سے بلایا جائے گا جو اہل نماز ہی کے لیے مخصوص ہو گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو شخص جہاد کرنے والا یعنی خدا کی راہ میں بہت زیادہ لڑنے والا ہو گا اسے باب الجہاد سے بلایا جائے گا۔ جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے۔ ل اور جو شخص بہت زیادہ روزے رکھنے والا ہو گا اسے باب الریان (یعنی باب الصیام سے کہ جنت میں روزہ کے دروازے کا یہی نام ہے) بلایا جائے یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگرچہ جو شخص ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بھی بلایا جائے گا اس کو تمام دروازوں سے بلائے جانے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ ایک دروازے سے بلایا جانا بھی کافی ہو گا بایں طور کہ مقصد تو جنت میں داخل ہونا ہو گا اور یہ ایک ہی دروازے سے بھی حاصل ہو جائے گا۔ پھر بھی میں صرف علم کی خاطر جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی ایسا خوش نصیب و با سعادت شخص بھی ہو گا، جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں ! اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں لوگوں میں سے ہو گے۔ (جنہیں تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔) (بخاری و مسلم)
تشریح
دوہری چیز مثلاً دو درہم ، دو روپے ، دو غلام، دو گھوڑے اور یا دو کپڑے وغیرہ۔
دعی من ابواب الجنہ (تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا) کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جس نے دیان میں دوہری چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کی تھیں جب جنت میں داخل ہونے جائے گا تو جنت کے تمام دروازوں کے داروغہ اسے بلائیں گے اور ہر ایک کی یہ خواہش ہو گی کہ یہ خوش نصیب شخص اس کے دروازے سے جنت میں داخل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عمل ان اعمال کے برابر ہے جن کے سبب جنت کے تمام دروازوں میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
ریان کے معنی ہیں سیراب۔ چنانچہ منقول ہے کہ باب الریان کہ جس کے ذریعے زیادہ روزے رکھنے والے جنت میں داخل ہوں گے وہ دروازہ ہے جہاں روزہ دار کو جنت میں اپنے مستقر پر پہنچنے سے پہلے شراب طہور پلائی جاتی ہے گویا جو شخص یہاں دنیا میں خدا کی خوشنودی کی خاطر روزے رکھ کر پیاسا رہا وہ اس عظیم فعل کے بدلے میں مذکورہ دروازے سے سیراب ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو گے۔
ایک روایت میں منقول ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جسے باب الضحی کہا جاتا ہے ، چنانچہ قیامت کے دن پکارنے والا فرشتہ پکارے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو نماز ضحی یعنی چاشت یا اشراق کی نماز پر مداومت کرتے تھے؟ سن لو یہ دروازہ تمہارے ہی لیے ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی رحمت کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔
ایک حدیث میں منقول ہے کہ جنت کے ایک دروازے کا نام باب التوبۃ ہے کہ توبہ کرنے والے اس دروازے کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے ایک دروازہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو غصہ کو ضبط اور دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہوں گے ایسے لوگ اس دروازے سے جنت میں داخل ہوں گے اسی طرح ایک دروازہ ایسا ہو گا جس کے ذریعے خدا کی رضا پر راضی رہنے والوں کا داخلہ ہو گا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ارشاد میں فہل یدعی سے ما قبل جملہ ما علی من دعی ان کے سوال فہل یدعی الخ کی تمہید کے طور پر ہے۔
آخر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امتیازی شان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ چونکہ ان میں یہ تمام اوصاف اور خوبیان پائی جاتی تھیں اس لیے انہیں جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دن صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آج تم میں کون شخص روزہ سے ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں روزے سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج تم میں سے کون شخص جنازہ کے ساتھ نماز جنازہ کے لیے گیا ہے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج تم میں سے کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آج تم میں سے کس شخص نے بیمار کی عیادت کی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سن لو! جس شخص میں یہ ساری باتیں جمع ہوتی ہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی دن روزہ بھی رکھے نماز جنازہ میں بھی شریک ہوا اور جنازہ کے ساتھ قبرستان جا کے کسی مسکین کو کھانا بھی کھلائے اور کسی بیمار کی عیادت کرنے بھی جائے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہو گا اس طرح جنت میں داخل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا۔ کیونکہ ویسے تو مطلقاً دخول جنت کے لیے صرف ایمان ہی کافی ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس دروازے سے چا ہے گا جنت میں جائے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر انا (میں) کہنا اور حصول ثواب کی غرض نیز اپنے احوال کی خبر دینے کے طور پر اپنی فضیلت بیان کرنا منع نہیں ہے چنانچہ بعض صوفیہ اور مشائخ نے جو سالکین کو منع کیا ہے کہ اپنی زبان پر انا جاری نہ کیا جائے تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بقصد تکبر اور دعویٰ ہستی و انانیت کے طور پر انا کہا جائے جیسا کہ ابلیس ملعون نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم کے وقت از راہ غرور و تکبر اور بطور انانیت کہا تھا کہ انا خیر منہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو (تحفہ بھیجنے یا صدقہ دینے کو) حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنی پڑوسن کے پاس وہ چیز جو تمہارے پاس موجود ہے بطور تحفہ و صدقہ بھیجنے کو حقیر نہ جانو، گویا تمہارے پاس جو بھی چیز موجود ہو اور جو کچھ بھی ہو سکے خواہ وہ کتنی کم تر کیوں نہ ہو اپنی پڑوسن کو بھیجتی رہا کرو۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں ان عورتوں کو خطاب کیا گیا ہے جن کے پاس تحفہ بھیجا جائے لہٰذا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کے تحفے کو حقیر نہ جانے بلکہ اسے برضاء رغبت قبول کرے۔ اگرچہ وہ کتنا ہی کم تر کیوں نہ ہو۔
بکری کا کھر ظاہر ہے کہ نہ تو تحفہ میں لینے دینے کے قابل ہوتا ہے اور نہ اس کو بطور صدقہ کسی کو دیا جا سکتا ہے لہٰذا کہا جائے گا یہ یہاں اسے مبالغہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، جس سے مراد یہ ہے کہ تحفے میں بھیجی جانے والی یا آنے والی چیز کتنی ہی حقیر اور کمتر کیوں نہ ہو۔
یہاں بطور خاص عورتوں کو اس لیے خطاب کیا گیا ہے کہ ان کے مزاج میں غصہ اور کم تر و حقیر چیزوں کو واپس کر دینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ و حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ نیکی کے جو بھی عمل ہیں خواہ ان کا تعلق زبان سے ہو یا فعل سے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوں تو ان کا ثواب ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ہوتا ہے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کسی بھی نیک کام کو حقیر (کم تر) نہ جانو اگرچہ تم اپنے بھائی سے خوش روئی کے ساتھ ملو۔ (مسلم)
تشریح
اگر کوئی شخص کسی سے خوش خلقی اور خوش روئی کے ساتھ ملتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے لہٰذا کسی مسلمان کا دل خوش کرنا چونکہ اچھا اور پسندیدہ ہے اس لیے یہ بھی نیک کام ہے اور اگرچہ خوش روئی کے ساتھ کسی سے ملنا کوئی عظیم الشان کام نہیں ہے مگر اسے بھی کم تر درجے کی نیکی نہ سمجھنا چاہئے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نعمت الٰہی کے پیش نظر ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ اگر کسی کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ ہو ہی نہ؟ تو وہ کیا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کے ذریعے مال و زر کمائے اور اس طرح اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ و خیرات بھی کرے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اگر وہ اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو کہ محنت مزدوری کر کے کما ہی سکے یا کہا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ جس طرح بھی ہو سکے غمگین و حاجت مند داد خواہ کی مدد کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ دوسروں کو نیکی و بھلائی کی ہدایت کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اسے چاہئے کہ وہ خود اپنے تئیں یا دوسروں کو برائی تکلیف پہنچانے سے روکے اس کے لیے یہی صدقہ ہے یعنی اسے صدقہ کا ثواب ملے گا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
برائی پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ نہ تو خود کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے تکلیف اور ایذاء پہنچائے اور اگر اس کے امکان میں ہو تو ان لوگوں کو بھی روکے جو دوسروں کو ایذاء اور تکلیف پہنچاتے ہیں اسی مضمون کو کسی شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔ ع
مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کے بدن میں جو مفاصل (جوڑ) ہیں ان پر (یعنی ان کی طرف سے) ہر روز صدقہ دینا لازم ہے اور دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا بھی صدقہ ہے کسی انسان کی بایں طور مدد کرنی کہ اس کے جانور پر اسے سوار کرا دینا یا اس کا مال و اسباب رکھوا دینا بھی صدقہ ہے اچھی بات بھی صدقہ ہے ہر وہ قدم جو نماز کے لیے رکھا جائے وہ بھی صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں جو مفاصل(جوڑ) پیدا کیے ہیں اس میں بھی چونکہ اس کی حکمتیں اور اس کی بے شمار نعمتیں پنہاں ہیں لہٰذا ان کے شکرانے ہر روز انسان پر صدقہ لازم ہے۔
یعدل بین الثنین الخ سے یہ بات بیان فرمائی جا رہی ہے کہ صدقہ محض اسی کا نام نہیں ہے کہ کسی شخص کو راہ خدا میں مال و زر دے دیا جائے بلکہ یہ چیزیں یعنی دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا وغیرہ بھی صدقہ ہی ہے کہ جس طرح راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے اسی طرح ان چیزوں کا بہت زیادہ ثواب ملتا ہے لہٰذا جو انسان روزانہ ان میں سے کوئی بھی نیک کام کر لیتا ہے تو گویا اس نے وہ صدقہ ادا کیا جو خدا نے اس پر اس کے جوڑوں کی طرف سے شکرانہ کے طور پر لازم کیا ہے۔
اچھی بات سے مراد وہ بات اور کلام ہے جس سے ثواب حاصل ہو یا سائل وغیرہ سے نرم لہجہ میں گفتگو بھی ہو سکتی ہے۔
وکل خطوۃ سے صرف وہی قدم مراد نہیں ہیں جو نماز میں جانے کے لیے رکھے جاتے ہوں بلکہ ہر وہ قدم مراد ہے جو نیک راہ میں نیک مقصد کے لیے اٹھتے ہیں۔ مثلاً طواف کے لیے بیمار کی عیادت کے لیے جنازے میں شریک ہونے کے لیے اور علم کی طلب کے لیے۔
تکلیف دہ چیز سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو جیسے کانٹے ، ہڈی، پتھر ، اینٹ اور نجاست وغیرہ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اولاد آدم میں سے ہر انسان تین سو ساٹھ مفاصل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جو کوئی اللہ اکبر، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کہے اور خدا سے استغفار کرے نیز لوگوں کے راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (یعنی ہر تکلیف دہ چیز) ہٹا دے یا نیک کام کرنے کا حکم دے یا برے افعال و اقوال سے روکے اور یہ سب یا بعض اقوال و افعال جوڑوں کی تین سو ساٹھ تعداد کے مطابق کرے تو وہ اس دن اس حالت میں چلتا ہے گویا اس نے اپنے آپ کو آگ سے بچا رکھا ہے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ افعال کرنا اور اپنے جسم کو جوڑوں کے بقدر مذکورہ کلمات کا ورد روزانہ کرنا چاہئے تاکہ اس کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے ہر تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے ہر تحمید یعنی الحمد للہ کہنا صدقہ ہے ہر تہلیل یعنی لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے ہر برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے اور اپنی بیوی یا لونڈی سے صحبت کرنا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اسے اس میں ثواب ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے بتاؤ کہ اگر کوئی شخص حرام ذریعے یعنی زنا سے اپنی شہوت پوری کرے تو آیا اسے گناہ ملے گا یا نہیں؟ نہیں (ظاہر ہے کہ یقیناً اسے گناہ ملے گا) لہٰذا اسی طرح جب وہ حلال ذریعہ (یعنی بیوی اور لونڈی) سے شہوت پوری کرے گا۔ تو اسے ثواب ملے گا۔ (مسلم)
تشریح
جیسے ظاہر طور پر صدقہ خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ثواب عطا فرماتا ہے اسی طرح مذکورہ کلمات کا ورد اور مذکورہ اعمال کو معنوی طور پر صدقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے بایں طور کہ ان کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ وہی ثواب عطا فرماتا ہے جو صدقہ کے طور پر مال دینے والوں کو ملتا ہے۔
اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت اگرچہ بذات خود عبادت اور صدقہ نہیں ہے اسی صحابہ کو بھی اشکال ہوا لیکن چونکہ اس طرح بیوی کے حق کی ادائیگی ہوتی ہے اور نفس کے حرام کاری کی طرف بہت زیادہ مائل ہونے اور شیطان کی ترغیب و تحریص کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے پیش نظر اپنے آپ کو حرام ذریعے سے بچا کر حلال اور جائز ذریعے کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بیوی اور اپنی لونڈی سے صحبت کرنے والا صدقہ کا ثواب پاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت دودھ والی اونٹنی کسی کو دودھ پینے کے لیے عاریۃً دینا بہترین صدقہ ہے بہت دودھ دینے والی بکری کسی کو دودھ پینے کے لے عاریۃً دینا بہترین صدقہ ہے۔ وہ صبح کو باسن بھر دودھ دیتی ہے اور شام کو باسن بھر دودھ دیتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
عرب میں یہ معمول تھا کہ جسے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا تھا وہ اپنی دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کسی ضرورت مند و محتاج کو عاریۃً دے دیتا تھا۔ جس کے ذریعے وہ ضرورت مند اپنی حاجت ضرورت پوری کرنے کے بعد اسے اس کے مالک کو واپس کر دیتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرز عمل کی تعریف فرمائی ہے کہ یہ عمل بہترین صدقہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیت بوتا ہے اور پھر انسان یا پرند اور چرند مالک کی مرضی کے بغیر اس میں سے کچھ کھاتے ہیں تو یہ نقصان مالک کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور اس میں سے جو کچھ چوری ہو جاتا ہے وہ مالک کے لیے صدقہ ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے درخت کا پھل وغیرہ یا اس کی کھیتی میں سے اگر کوئی چرند پرند کسی بھی طرح یا کسی بھی سبب سے کچھ کھا لیتے ہیں تو مالک کو وہی ثواب ملتا ہے جو خدا کی راہ میں اپنا مال خیرات کرنے کا ثواب ہوتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کے ذریعے مالک کو نقصان مال پر تسلی دلائی جا رہی ہے کہ وہ ایسے موقع پر صبر کرے کیونکہ اس نقصان کے بدلے میں اسے بہت زیادہ ثواب ملتا ہے۔
اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اعمال کا ثواب تو نیت پر موقوف ہے اور ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں مالک کی طرف سے نیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر ثواب کیسے ملتا ہے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ کھیتی کا مقصود اصلی مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی حیات و بقاء ہے یعنی کاشتکار کسان جب کھیت میں بیج ڈالتا ہے۔ یا درخت کا کوئی پودا لگاتا ہے تو اس کے پیش نظر کسی فرد کی تخصیص کے بغیر مطلقاً نوع انسانی و حیوانی کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی نیت ہوتی ہے۔ اب اس کھیت یا درخت سے انسان و حیوان کا جو فرد بھی فائدہ اٹھائے گا خواہ وہ نا جائز طریقہ سے فائدہ اٹھایا جائز طریقے سے اس کی اجمالی نیت کا تعلق اس سے ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ جو شخص نا جائز طریقے سے فائدہ اٹھائے گا وہ اپنے جرم کی سزا پائے گا۔ مگر مالک کے حق میں اس کی اجمالی نیت کافی ہو جائے گی کیونکہ حصول ثواب کے لیے اجمالی نیت کافی ہے اس کے مالک کو نقصان کے بدلے میں صدقہ کا ثواب مل جائے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن فرمایا کہ ایک بدکار عورت کی بخشش کر دی گئی کیونکہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کتے پر ہوا جو کنویں کے قریب کھڑا پیاس کی وجہ سے اپنی زبان نکال رہا تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کر دے چنانچہ اس عورت نے اپنا چری موزہ اتار کر اسے اپنی اوڑھنی سے باندھا اور اس کے ذریعے کتے کے لیے پانی نکالا اور اسے پلا دیا چنانچہ اس کے اس فعل کی بنا پر اس کی بخشش کر دی گئی۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ہمارے لیے ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ہر صاحب جگر تر یعنی ہر جاندار (یعنی ہر جاندار) کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ثواب ہے (خواہ انسان ہو یا جانور)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت مظہر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ہر جانور کے ساتھ حسن سلوک کرنے یعنی انہیں کھلانے پلانے کا ثواب ملتا ہے ہاں موذی جانور کہ جنہیں مار ڈالنے کا حکم ہے اس سے مستثنی ہیں جیسے سانپ اور بچھو وغیرہ۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے تو کسی شخص کے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایک عورت کو محض اس لیے عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھے رکھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی وہ عورت نہ تو اس بلی کو کچھ کھلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے جانوروں میں سے کچھ (یعنی چوہا وغیرہ) کھاتی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی و بے رحمی کا معاملہ کرنا خدا کے عذاب میں اپنے آپ کو گرفتار کرنا ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ صغیرہ گناہ پر بھی عذاب ہو سکتا ہے اس عورت کا یہ فعل ظاہر ہے کہ صغیرہ گناہ ہی تھا چنانچہ عقائد کا یہ ایک مسئلہ ہے کہ صغیرہ گناہ پر عذاب ہونا خلاف امکان نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص درخت کی ایک ٹہنی کے پاس گزرا جو راستے کے اوپر تھی اور وہ راہ گیروں کو تکلیف پہنچاتی تھی اس شخص نے اپنے دل میں کہا کہ میں اس ٹہنی کو مسلمانوں کے راستے سے صاف کر دوں گا تاکہ انہیں تکلیف نہ پہنچے چنانچہ وہ شخص جنت میں داخل کیا گیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ٹہنی کو راستہ سے صاف کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اسے صاف کر دیا چنانچہ اسے جنت میں داخل کر دیا گیا یا یہ کہ وہ شخص اپنی نیک و با خلوص نیت ہی کی بنا پر جنت کا مستحق قرار پایا۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ایک شخص کو دیکھا جو جنت میں پھرتا تھا اور چین کرتا تھا کیونکہ اس نے ایک ایسے درخت کو کاٹ ڈالا تھا جو راستے پر تھا اور لوگوں کو تکلیف پہنچاتا تھا۔ (مسلم)
٭٭حضرت ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے جس کی وجہ سے میں آخرت میں فائدہ حاصل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹا دیا کرو۔ (بخاری و مسلم)
اور عدی بن حاتم کی روایت اتقوا النار الخ انشاء اللہ تعالیٰ ہم باب علامات النبوۃ میں نقل کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روئے انور کو دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ چہرہ اقدس کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد جو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ لوگو! سلام کو ظاہر کرو۔ (یعنی السلام علیکم بآواز بلند کہو تاکہ جس کو سلام کیا جا رہا ہے وہ سن لے نیز یہ کہ ہر ایک سے سلام کرو چا ہے وہ آشنا ہو یا بے گانہ) اور (بھوکوں کو) کھانا کھلاؤ۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو، نیز رات میں اس وقت تہجد کی نماز پڑھو جب کہ لوگ سوتے ہو (اگر یہ کرو گے) تو جنت میں سلامتی کے ساتھ (یعنی بغیر عذاب کے) داخل ہو گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ ، دارمی)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ رب العزت کی بندگی کرو (غریبوں کو) کھانا کھلاؤ اور سلام کو ظاہر کرو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے اور نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بھی ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے چہرہ کی بشاشت کے ساتھ ملاقات کرو اور اپنے کسی بھائی کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈال دو۔ (احمد، ترمذی)
٭٭ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا یعنی کسی سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا صدقہ ہے نیک کام کے لیے حکم کرنا صدقہ ہے۔ بری بات سے روکنا صدقہ ہے۔ بے نشان زمین میں کسی کو راستہ بتانا صدقہ ہے (یعنی جہاں راستے کا کوئی نشان اور کوئی علامت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنا راستہ بھول جاتے ہیں) وہاں کسی راستہ بھولے ہوئے مسافر کو اس کا راستہ بتا دینے سے صدقہ جیسا ثواب ملتا ہے کسی اندھے یا کمزور نظر شخص کی مدد کرنی، (بایں طور کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانا) صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی ہٹا دینا صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی بھر دینا صدقہ ہے۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوا کہ جب اپنے ڈول میں پانی بھر دینا صدقہ جیسے ثواب کا باعث ہے تو اس شکل میں جب کہ کسی کے پاس ڈول ہی موجود نہ ہو اسے اپنے ڈول سے پانی دینا اس سے کہیں زیادہ ثواب کا باعث ہو گا۔
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ام سعد (یعنی میری ماں) کا انتقال ہو گیا ہے (ان کے ایصال ثواب کے لیے) کونسا صدقہ بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانی چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر کنواں کھودا اور کہا کہ یہ ام سعد یعنی میری ماں کے لیے صدقہ ہے۔ (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
یوں تو خدا نے جو بھی چیز پیدا کی ہے وہ بندہ کے حق میں خدا کی نعمت ہے لیکن انسانی زندگی میں پانی کو جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ خدا کی ان بڑی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جن کے بغیر انسانی زندگی کی بقاء ممکن نہیں پھر مخلوق خدا کے لیے اس کی ضرورت اتنی ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ قدم قدم پر انسانی زندگی اس کے وجود اور اس کی فراہمی کی محتاج ہوتی ہے، چنانچہ کیا دنیا اور کیا آخرت سب ہی امور کے لیے اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر ان شہروں اور علاقوں میں پانی کی اہمیت کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے جو گرم ہوتے ہیں جہاں پانی کی فراہمی آسانی سے نہیں ہوتی، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کو بہترین صدقہ ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پانی کے حصول کا ہر ذریعہ خواہ کنواں ہو یا نل والا تالاب بہترین صدقہ جاریہ ہے کہ جب تک وہ ذریعہ موجود رہتا ہے اس کو قائم کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز لباسوں میں سے لباس پہنائے گا، جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے میوے کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کی پیاس بجھائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے مہر بند شراب سے سیراب کرے گا۔ (ابو داؤد، ترمذی)
تشریح
مہر بند شراب، سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت کی وہ شراب پلائے گا جو سیل و مہر کے ذریعے تغیر و تبدل سے محفوظ اور اس شخص کے لیے مخصوص ہے جس کے علاوہ اسے کوئی اور نہیں پی سکتا گویا اس سے شراب کی عمگی و نفاست کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح جو چیز نہایت اعلی و نفیس اور عمدہ ہوتی ہے اس کو مہر بند کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ زمانہ کی سرد گرم ہوا اور دوسروں کی دستبرد سے محفوظ رہے اسی طرح وہ شراب بھی نہایت اعلیٰ ونفیس اور عمدہ ہے کہ اس دنیا میں اس کے ذائقے اور اس کی نفاست کا صحیح ادراک بھی نہیں کیا جا سکتا پھر یہ کہ اس پر مہر بھی مشک کی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ یسقون من رحیق مختوم ختامہ مسک۔ ان کو شراب خالص سر بمہر پلائی جائے گی جس کی مہر مشک کی ہو گی۔ یعنی اس مشروب کو موم اور لاکھ وغیرہ کے ذریعے نہیں بلکہ مشک کے ذریعے مہر بند کیا گیا ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مال و زر میں زکوٰۃ کے علاوہ اور حق بھی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ پوری آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنے منہ کو مشرق و مغرب کی طرف متوجہ کرو الخ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مال کی زکوٰۃ دینا تو فرض ہے ہی کہ وہ ضرور دینی چاہئے۔ مگر زکوٰۃ کے علاوہ کچھ اور نفل صدقات بھی مستحب ہیں کہ ان کا دیا جانا بھی بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے اور وہ صدقات یہ ہیں کہ سائل اور قرض مانگنے والے کو محروم و مایوس نہ کیا جائے گھر گرہستی کا سامان مثلاً ہانڈی و دیگچی اور پیالہ وغیرہ یا اور ایسا وہ سامان جو اپنے قبضے و ملکیت میں ہو اگر کوئی عاریۃ مانگے تو اسے دینے میں دریغ نہ کیا جائے کسی کو پانی، نمک اور آگ لینے سے منع نہ کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
حق سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو مذکورہ آیت میں بیان کیا گیا ہے، یعنی اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافر کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا، اور غلام کو آزاد کرنے کے لیے مال خرچ کرنا وغیرہ، مذکورہ بالا آیت پوری پوری یوں ہے۔ آیت (لَیسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلیٰ حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیتٰمٰى وَالْمَسٰكِینَ و ابن السَّبِیلِ ۙ وَالسَّاۗىِٕلِینَ وَفِی الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ) 2۔ البقرۃ:177)۔ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کر ان کی طرف منہ کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور فرشتوں پر، اور خدا کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں کے چھڑانے میں خرچ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت بطور استنباط تلاوت فرمائی کہ اس میں حق تعالیٰ نے پہلے تو ان مومنین کی تعریف بیان فرمائی ہے جو اپنے رشتہ داروں، یتیموں اور مساکین وغیرہ پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس کے بعد نماز پڑھنے والوں اور زکوٰۃ دینے والوں کی تعریف بیان کی لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مال خرچ کرنا زکوٰۃ دینے کے علاوہ ہے جو صدقہ نفل کہلاتا ہے۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ مال و زر کے بارے میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق یعنی صدقات نافلہ ہیں وہ اس آیت سے ثابت ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے صدقات نافلہ کو ذکر کیا اس کے بعد صدقہ واجب یعنی زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا۔
حضرت بہیسہ رضی اللہ عنہا اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے (یعنی ان کے والد نے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا اور اس کے دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ پانی انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور کون سی چیز ہے جس کو دینے سے انکار کرنا حلال نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نمک۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ کونسی چیز ہے جس سے منع کرنا حلال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بھلائی کرنا جو تمہارے لیے بہتر ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
پانی کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہاری زمین میں کنواں و تالاب ہے یا تمہارے گھر میں نل وغیرہ ہے اس سے کوئی شخص پانی لیتا ہے تو اسے پانی لینے روکنا مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تم میں سے کوئی شخص پانی مانگتا ہے اور تمہارے پاس تمہاری ضرورت سے زائد پانی موجود ہے تو اسے دینے سے انکار نہ کرو، اسی طرح نمک دینے سے انکار نہ کرو، کیونکہ لوگوں کو نمک کی بہت زیادہ احتیاج و ضرورت رہتی ہے اور لوگ اسے لیتے دیتے ہی رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ نمک جیسی چیز سے انکار کرنا ویسے بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ انتہائی عام اور سستی چیز ہے جس کی کوئی وقعت و قدر نہیں ہوتی۔
حدیث کا آخری جملہ تمام بھلائیوں اور نیکیوں پر حاوی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے دیتے رہو، اور جو نیکی و بھلائی کر سکو کرو، نیکی و بھلائی کے کاموں سے نہ تو اپنے آپ کو باز رکھنا درست ہے اور نہ دوسروں کو نیکی و بھلائی سے روکنا حلال ہے، گویا حدیث میں پہلے چند بھلائیوں کو بطور خاص ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمانا تعمیم بعد تخصیص ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ لایحل مفہوم کے اعتبار سے لاینبغی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس طرح حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ ان چیزوں سے منع کرنا اور ان کے دینے سے انکار کرنا مناسب نہیں ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص خشک زمین کو آباد کرے یعنی افتادہ و بنجر زمین کو قابل کاشت بنائے تو اس کے لیے اس کام میں ثواب ہے اور اگر اس کی کھیتی میں سے جانور یا آدمی کچھ کھا لیں تو اس کے لیے صدقہ ہے (بشرطیکہ وہ اس پر صابر و شاکر ہو) (دارمی)
حضرت براء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص دودھ کا جانور عاریۃ دے یا چاندی (یعنی روپیہ وغیرہ) قرض دے یا کسی راستہ بھولے ہوئے اور اندھے کو کوچہ و راستہ میں راہ بتائے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کی مانند ثواب ہو گا۔ (ترمذی)
حضرت ابو جری رضی اللہ عنہ کہ جن کا نام جابر بن سلیم ہے کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو میں ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ ان کی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں (یعنی ان کے کہنے پر لوگ عمل کرتے ہیں، چنانچہ خود راوی اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ) وہ جو کچھ بھی فرماتے ہیں لوگ اس پر عمل کرتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں راوی کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو مرتبہ یہ کہا علیک السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام ہو۔ اے رسول خدا! رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر کہا کہ علیک السلام نہ کہو کیونکہ علیک السلام کہنا میت کے لیے دعا ہے البتہ السلام علیک کہو! اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رسول ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں میں اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف و مصیبت پہنچے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہاری تکلیف و مصیبت کو دور کرے اگر تمہیں قحط سالی اپنی لپیٹ میں لے اور تم اسے پکارو تو زمین تمہارے لیے سبزہ (غلہ وغیرہ) اگادے اور اگر تم زمین کے کسی ایسے حصہ میں اپنی سواری گم کر بیٹھو کہ جہاں نہ پانی کا نام و نشان ہو نہ درخت کا، یا کہ کوئی ایسا جنگل جو آبادی سے دور ہو اور پھر تم اسے پکارو تو وہ تمہاری سواری تمہارے پاس واپس بھیج دے۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی کو برا نہ کہو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی کو برا نہیں کہا نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو (یعنی کسی انسان کو برا کہنا کیسا، حیوانات کو بھی برا نہ کہا جیسا کہ عام لوگوں کی عادت ہوتی ہے)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو (یعنی اگر تم کسی کے ساتھ نیکی کرو یا کوئی دوسرا تمہارے ساتھ نیکی کرے تو اسے بہت جانو اور اس کا شکریہ ادا کرو اور خود تم سے جو بھی نیکی ہو سکے اس کے کرنے کو غنیمت جانو) اور جب تم اپنے کسی بھائی سے ملاقات کرو تو خندہ پیشانی اختیار کرو (یعنی جب تم کسی سے ملو، تو اس سے تواضع اور خوش کلامی سے پیش آؤ تاکہ تمہارے اس حسن خلق کی وجہ سے اس کا دل خوش ہو) کیونکہ یہ بھی ایک نیکی ہے اور تم اپنی ازار (یعنی پاجامہ لنگی وغیرہ) کو نصف پنڈلی تک اونچا رکھو، اگر اتنا اونچا رکھنا تم پسند نہ کر سکو تو ٹخنوں تک رکھو مگر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے سے بچو! اس لیے کہ (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانا تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ نیز اگر کوئی شخص تمہیں گالی دے اور تمہارے کسی ایسے عیب پر تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم انتقاما اس کے کسی عیب پر کہ جسے تم جانتے ہو اسے عار نہ دلاؤ کیونکہ اس کا گناہ اسے ہی ملے گا۔ (ابو داؤد) ترمذی نے اس روایت کا صرف ابتدائی حصہ نقل کیا ہے جس میں سلام کا ذکر ہے (باقی روایت نقل نہیں کی ہے) اور (ترمذی کی) ایک دوسری روایت میں اس کا گناہ اسے ہی ملے گا کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ تمہارے لیے اس کا ثواب ہو گا اور اس کے لیے اس کا گناہ۔
تشریح
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ سلام اس لیے کیا کہ یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلا سلام سنا نہیں ہو گا یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو سلام کا طریقہ سکھانے کی غرض سے پہلے سلام کا جواب نہیں دیا ہو گا۔
ارشاد گرامی علیک السلام نہ کہو۔ نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔ نیز حدیث کے الفاظ،علیک السلام کہنا میت کے لیے دعا ہے، اس سے بظاہر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص میت کے پاس جائے علیک السلام کہے السلام علیک نہ کہے جیسا کہ کسی زندہ شخص کے لیے کہا جاتا ہے حالانکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ میت کے لیے بھی السلام علیک کہنا ہی مسنون ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب زیارت موتی کے لیے تشریف لے جاتے تو السلام علیکم فرماتے تھے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد، علیک السلام کہنا میت کے لیے دعا ہے، کے معنی یہ بیان کیے جائیں گے کہ ایام جاہلیت میں علیک السلام میت کے لے دعا تھی۔ چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عرب میں پہلے یہ معمول تھا کہ جب کوئی قبر پر جاتا تو وہاں سلام کے لیے یہی کہتا تھا کہ علیک السلام، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ علیک السلام، کہنا اہل عرب کے معمول و عادت کے مطابق مردہ کے لیے دعا ہے نہ یہ کہ اس ارشاد سے آپ کی مراد یہ تھی کہ میت کو اس طرح سلام کیا جائے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا ہے کہ اس کے بعد میں نے کسی کو برا نہیں کہا۔ سد باب اور احتیاط کے طور پر ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو برا کہنا کہ جس کا کفر کی حالت میں مرنا یقینی طور پر معلوم ہو جائے جائز ہے تاہم افضل اور بہتر یہی ہے کہ اپنی زبان کو اللہ رب العزت کے ذکر میں مشغول رکھا جاے کسی کو برا نہ کہا جائے اس لیے کہ ماسوا اللہ میں مشغول ہونا نقصان ہی کا باعث ہے جب کہ کسی کو برا نہ کہنے میں کوئی حرج و نقصان نہیں ہے بلکہ علماء تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ شیطان کو بھی لعنت نہ کرنے میں کوئی ضرر نہیں ہے۔
جس طرح پائجامہ اور لنگی وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ممنوع ہے اسی طرح کرتہ وغیرہ بھی ٹخنوں سے نیچے کرنا ممنوع ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ اگر کوئی شخص تمہیں گالی دیتا ہے یا تمہارے کسی عیب سے تمہیں عار دلا کر شرمندہ و ذلیل کرنا چاہتا ہے تو تمہارا اس میں کیا نقصان ہے ؟ وہ خود ہی گناہ گار ہو گا لہٰذا تم بھی اس کی طرح اپنی زبان خراب کر کے اور اسے برا بھلا کہہ کر خواہ مخواہ کے لیے اپنے ذمہ کیوں وبال لیتے ہو۔
بدی رابدی سہل باشد جزاء
اگر مردی احسن الی من اساء
روایت کے آخر میں وفی رواۃ الخ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترمذی نے بھی یہ پوری روایت نقل کی ہے چنانچہ بعض حواشی میں لکھا ہوا ہے کہ ترمذی نے بھی پوری روایت نقل کی ہے اگرچہ اس کے الفاظ مختلف ہیں یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے وہ ابو داؤد کی نقل کردہ روایت کے الفاظ ہیں۔
جو خدا کی راہ میں کر دیا وہ باقی ہے اور جو موجود رہا وہ فانی ہے
٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ نے یا اہل بیت نے ایک بکری ذبح کی، جب اس کا گوشت تقسیم ہو چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس میں سے کیا باقی رہ گیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بجز شانہ کے اور کچھ باقی نہیں رہا یعنی اس کا سب گوشت تقسیم کر دیا ہے صرف شانہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے)
تشریح
بجز شانہ کے اور سب باقی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تو گوشت کا وہی حصہ باقی ہے جو لوگوں کو تقسیم کر دیا گیا بایں طور کہ آخرت میں اس کا ثواب محفوظ اور ثابت ہو گیا اس کے بر خلاف جو حصہ گھر میں موجود رہ گیا ہے وہ فانی ہے گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (مَا عِنْدَكُمْ ینْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ) 16۔ النحل:46)۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کپڑا یعنی پاجامہ کرتہ اور چادر وغیرہ پہناتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست حفاظت میں رہتا ہے۔ جب تک کہ اس مسلمان کے بدن پر اس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی ہوتا ہے۔ (احمد و ترمذی)
تشریح
یہ دنیا کا فائدہ ہے کہ اس کے دئیے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی جب تک اس مسلمان کے بدن پر رہتا ہے وہ اللہ رب العزت کی حفاظ و امان میں رہتا ہے مگر آخرت میں جو اس کو ثواب ملے گا وہ ان گنت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ایک تو وہ شخص جو رات کے وقت کھڑا ہوتا ہے اور کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جو نفل صدقہ اپنے داہنے ہاتھ سے دے اور اسے چھپائے راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بائیں ہاتھ سے، اور تیسرا وہ شخص جو میدان جنگ میں اس وقت دشمن کے سامنے ڈٹ گیا جب کہ اس کے ساتھیوں کو شکست ہو گئی۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت غیر محفوظ (ضعیف) ہے۔ اس کے ایک راوی ابوبکر بن عیاش ہیں جو بہت زیادہ غلطی کرتے ہیں۔
تشریح
بیمینہ، سے صدقہ دینے کے ادب کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ صدقہ کا مال اپنے داہنے ہاتھ سے دیا جائے یا یہ کہ پہلے اس شخص کو صدقہ و خیرات کا مال دے جو اپنے دائیں طرف ہو۔
بائیں ہاتھ سے چھپائے کا مطلب یہ ہے کہ جب دائیں ہاتھ سے صدقہ کا مال دے تو بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو یہ دراصل کمال پوشیدگی کے لیے مبالغہ کے طور پر فرمایا گیا ہے یعنی صدقہ کا مال انتہائی پوشیدگی کے ساتھ دیا جائے تاکہ صدقہ کا مال لینے والا عام نظروں میں اپنی کمتری محسوس نہ کرے، یا پھر ان الفاظ کے یہ معنی ہوں گے کہ صدقہ کا مال جب دائیں طرف والے کو دے تو اس کی خبر بائیں طرف والے کو بھی نہ ہونی چاہئے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اور ریاء و نمائش سے بچنے کے لیے اس طرح چھپا کر دینا بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے چنانچہ وہ اشخاص کہ جنہیں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے ان میں سے ایک تو وہ شخص ہے کہ جس نے ایسے شخص کو صدقہ دیا جو ایک جماعت کے پاس آیا اور اس سے خدا کی قسم دے کر کچھ مانگا یعنی یوں کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے اتنا مال یا اتنی چیز دو اس نے جماعت سے حق قرابت کی وجہ سے دیا جو اس کے اور جماعت کے درمیان تھا۔ مگر جماعت والوں نے اسے کچھ بھی نہیں دیا، چنانچہ ایک شخص نے جماعت کو پس پشت ڈالا اور آگے بڑھ کر سائل کو پوشیدہ طور پر دے دیا، سوائے خدا کے اور اس شخص کے کہ جسے اس نے دیا اور کسی نے اس کے عطیہ کو نہیں جانا، اور دوسرا وہ شخص ہے جو جماعت کے ساتھ تمام رات چلا یہاں تک کہ جب ان کے لیے نیند ان تمام چیزوں سے زیادہ جو نیند کے برابر ہیں پیاری ہوئی تو جماعت کے تمام فرد سو گئے مگر وہ شخص کھڑا ہوا (اللہ فرماتا ہے کہ) اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا اور میری آیتیں (یعنی قرآن کریم) پڑھنے لگا۔ اور تیسرا شخص وہ ہے جو لشکر میں شامل تھا جب دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس کے لشکر کو شکست ہو گئی مگر وہ شخص دشمن کے مقابلے پر سینہ سپر ہو گیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا یا فتح یاب اور وہ تین شخص جو اللہ کے نزدیک مبغوض ہیں ان میں سے ایک شخص تو وہ ہے جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، دوسرا شخص تکبر کرنے والا فقیر ہے اور تیسرا شخص دولت مند ظلم کرنے والا ہے (یعنی وہ شخص دولت مند ہوتے ہوئے قرض دینے والے کو قرض کی ادائیگی نہ کرے یا دوسروں کے ساتھ اور کسی ظلم کا معاملہ کرے) (ترمذی)
تشریح
حدیث کی ابتدا جس اسلوب سے ہوئی اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے مگر بعد کے اسلوب یعنی حدیث کے الفاظ یتملقنی۔ اور میرے سامنے گڑ گڑانے لگا۔ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ارشاد نبوی نہیں ہے بلکہ کلام الٰہی یعنی حدیث قدسی ہے اسلوب کے اس اختلاف کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ حدیث حقیقت میں تو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ اپنے نبی سے وہ کیفیت بیان کی جو اس کے اور اس کے بندے کے درمیان واقع ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر اس اصل کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا بعینہٖ قول نقل فرما دیا۔
الشیخ الزانی، جو بوڑھا ہونے کے باوجود زنا کرے، میں لفظ شیخ سے یا تو اس کے اصل معنی یعنی بوڑھا ہی مراد ہے یا پھر کہا جائے کہ یہاں شیخ سے بکر (کنوارے) کی ضد محصن (شادی شدہ) مراد ہے خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان، جیسا کہ اس آیت منسوخ میں ہے۔ الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجمواہا البتۃ نکال من اللہ واللہ عزیز حکیم، شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت جب دونوں زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کر دو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ضروری ہے اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا۔
تکبر کرنے والے فقیر کو بھی اللہ کے نزدیک مبغوض قرار دیا گیا ہے لیکن فقیر کا وہ تکبر مستثنی ہے جو کسی متکبر کے ساتھ ہو بلکہ ایسے تکبر کو تو صدقہ قرار دیا گیا ہے یعنی اگر کوئی فقیر کسی متکبر کے ساتھ تکبر کرے تو وہ خدا کے نزدیک مبغوض نہیں ہو گا۔ بلکہ اسے صدقہ کا ثواب ملے گا، چنانچہ حضرت بشیر بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے عرض کیا کہ اے امیرالمومنین مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا مالداروں کو ثواب خداوندی کے حصول کی خاطر فقیروں سے مہربانی کا معاملہ کرنا بہت ہی بہتر ہے اور فقیروں کو خدا پر توکل اور اعتماد کے جذبے سے مالداروں سے تکبر کا معاملہ کرنا بہت بہتر ہے۔
جن بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا اگرچہ وہ سب ہی کے حق میں بری ہیں لیکن ان تینوں کے حق میں چونکہ بہت ہی زیادہ بری ہیں جس کا سبب ظاہر ہے اس لیے یہ خدا کے دشمن قرار دئیے گئے ہیں۔
٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو وہ ہلنے لگی پھر اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا فرما کر انہیں زمین پر کھڑا کیا۔ چنانچہ زمین ٹھہر گئی فرشتوں کو پہاڑ کی سختی سے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگے کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں لوہا ہے (کہ وہ پتھر کو بھی توڑ ڈالتا ہے) انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار! کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں آگ ہے (کہ وہ لوہے کو پگھلا دیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوق میں کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں پانی ہے (کہ وہ آگ کو بھی بجھا دیتا ہے) پھر انہوں نے پوچھا کہ ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز پانی سے بھی زیادہ سخت ہے؟ پروردگار نے فرمایا ہاں ہوا ہے (کہ وہ پانی کو بھی خشک کر دیتی ہے) پھر انہوں نے عرض کیا ہمارے پروردگار کیا تیری مخلوقات میں کوئی چیز ہوا سے بھی زیادہ سخت ہے ؟ پروردگار نے فرمایا ہاں اور وہ ابن آدم کا صدقہ دینا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح مال خرچ کرتا ہے کہ اسے بائیں ہاتھ سے بھی چھپاتا ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
ابن آدم کا صدقہ دینا اس فعل کو اس لیے سب سے زیادہ سخت فرمایا ہے کہ انتہائی پوشیدگی سے کسی کو صدقہ دینے میں نفس امارہ کی مخالفت، طبیعت و مزاج پر جبر، اور شیطان ملعون کی مدافعت لازم آتی ہے جب کہ اس کے علاوہ مذکورہ بالا چیزوں یعنی پہاڑ، لوہا ور آگ وغیرہ میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔
چھپا کر صدقہ دینے میں نفس کی مخالفت اور شیطان کی مدافعت بایں طور لازم آتی ہے کہ فطری طور پر نفس یہ چاہتا ہے کہ جب میں کسی کو مال دوں تو لوگ دیکھیں اور میری تعریف کریں تاکہ مجھے دوسرے لوگوں پر فخر و امتیاز حاصل ہو لہٰذا جب اس نے عام نظروں سے چھپا کر اپنا مال کسی کو دیا تو اس نے گویا نفس امارہ کی مخالفت کی اور شیطان کو اپنے سے دور کیا۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ زیادہ سخت اس لیے ہے کہ اس کی وجہ سے رضا مولیٰ حاصل ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رضا مولیٰ سب سے بڑی چیز ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو مسلمان بندہ اپنے ہر مال میں سے دو دو چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو بہشت کے تمام دربان اس کا استقبال کریں گے اور اسے اپنے پاس کی چیزوں کی طرف بلائیں گے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ دو دو چیزیں خرچ کرنے کا مطلب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر اس کے پاس اونٹ ہو توں دو اونٹ دے اور اگر گائیں تو دو گائیں دے۔ (نسائی)
تشریح
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا مال اس جگہ خرچ کرے جہاں خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش و راضی ہوتا ہے جیسے حج، جہاد، طلب علم، غریبوں اور محتاجوں کی امداد و اعانت وغیرہ وغیرہ۔ اپنے پاس کی چیزوں سے مراد جنت کی اچھی اچھی چیزیں اور وہاں کی نعمتیں ہیں یا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں کے دربان اسے جنت کے ہر دروازہ کی طرف بلائیں گے۔
حضرت مرثد بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض صحابہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا قیامت کے دن مومن کا سایہ اس کا صدقہ ہو گا۔ (احمد)
تشریح
جس طرح سائبان دھوپ کی گرمی اور تپش سے بچاتا ہے اسی طرح قیامت کے دن صدقہ نجات اور آرام و راحت کا سبب ہو گا یا یہ کہ قیامت کے دن صدقہ کو یا اس کے ثواب کو سائبان کی شکل دے کر صدقہ دینے والے کے سر پر تان دیا جائے گا تاکہ وہ اس دن کی گرمی سے بچ جائے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال کے خرچ میں وسعت اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ سارے سال اس کے مال و زر میں وسعت عطا فرمائے گا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا۔ (رزین) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں، ابن مسعود، ابوہریرہ، ابو سعید اور جابر رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے نیز انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
تشریح
بیہقی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ اس کے طرق ضعیف ہیں مگر ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہو جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے عاشورہ کے سرمہ لگانے کے بارے میں جو حدیث نقل کی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اسی طرح عاشورہ کے دن اور دس افعال کے سلسلے میں جو حدیث نقل کی جاتی ہے اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے البتہ عاشورہ کے صحیح احادیث کے ذریعے صرف روزہ رکھنا اور کھانے میں وسعت اختیار کرنا ثابت ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے بتائیے کہ صدقہ کا ثواب کتنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا ثواب چند در چند (یعنی کئی گنا) ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے۔ (احمد)
تشریح
احادیث سے چند در چند کی مقدار دس گنا سے سات سو گنا تک معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور اس کی رحمت خاص شامل حال ہو تو ثواب کی مقدار سات سو گناہ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے جیسا کہ خود باری تعالیٰ فرماتا ہے۔ واللہ یضاعف لمن یشاء۔ جس کے لیے اللہ چاہتا ہے اس کا ثواب لاتعداد بڑھاتا ہے۔