جامع ترمذی

صلاۃ وترکے ابواب

نماز وتر کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 452

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ وَهِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَهُوَ وَهَمٌ فِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُهُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَهُوَ:‏‏‏‏ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ.

خارجہ بن حذافہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی نماز کا اضافہ کیا ہے ۱؎، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر ہے، اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے نماز عشاء سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک رکھا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض محدثین کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، انہوں نے عبداللہ بن راشد زرقی کہا ہے، یہ وہم ہے (صحیح «زوفی» ہے) ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، بریدہ، اور ابو بصرہ غفاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ابو بصرہ غفاری کا نام حمیل بن بصرہ ہے، اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، اور ابو بصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جو ابوذر رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابوذر کے بھتیجے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۳۶ (۱۴۱۸) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۴ (۱۱۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۵۰) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۱۷) (صحیح) ’’ ہی خیر من حمر النعم ‘‘) کا فقرہ ثابت نہیں ہے (اس کے راوی ’’ عبداللہ بن راشد ‘‘ مجہول ہیں، لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح متابعات وشواہد موجود ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی۴۶۶)

وضاحت: ۱؎ : ایک روایت میں «زادكم» کا لفظ بھی آیا ہے ، حنفیہ نے اس لفظ سے وتر کے واجب ہونے پر دلیل پکڑی ہے ، کیونکہ زیادہ کی ہوئی چیز بھی اصل چیز کی جنس ہی سے ہوتی ہے ، تو جب پانچ وقتوں کی نماز واجب ہے تو وتر بھی واجب ہوئی ، علماء نے اس کا رد کئی طریقے سے کیا ہے ، ان میں سے ایک یہ کہ فجر کی سنت کے بارے میں بھی یہ لفظ وارد ہوا ہے جب کہ کوئی بھی اس کو واجب نہیں مانتا ، اسی طرح بدوی کی وہ حدیث جس میں وارد ہے کہ " ان پانچ کے علاوہ بھی اللہ نے مجھ پر کوئی نماز فرض کی ہے ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہیں ، نیز "مزید" کا مزید فیہ کے جنس سے ہونا ضروری نہیں ہے ، (مزید تفصیل کے لیے دیکھئیے : تحفۃ الأحوذی)۔

وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 453

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق) ۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۳۶ (۱۴۱۶) ، (الشطر الأخیر فحسب) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۲۷ (۱۶۷۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۴ (۱۱۶۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۱۳۵) ، مسند احمد (۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۸) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۲۱) (صحیح) (سند میں ’’ ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ ۲؎ : اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں ، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔ ۳؎ : صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قرآن کہا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے ، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے ، نہ کہ صرف قرآن کا ، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے ، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے ، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

وتر کے فرض نہ ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 454

وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ " الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ َ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق«أبی اسحاق عن عاصم بن حمزة عن علی» روایت کیا ہے ۱؎ اور یہ روایت ابوبکر بن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسے منصور بن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

وتر سے پہلے سونے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 455

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عِيسَى بْنِ أَبِي عَزَّةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْأَبِي ثَوْرٍ الْأَزْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ ". قَالَ عِيسَى بْنُ أَبِي عَزَّةَ:‏‏‏‏ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُوتِرُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَنَامُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو ثَوْرٍ الْأَزْدِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ حَبِيبُ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ لَا يَنَامَ الرَّجُلُ حَتَّى يُوتِرَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں وتر سونے سے پہلے پڑھ لیا کروں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ آدمی جب تک وتر نہ پڑھ لے نہ سوئے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۸۷۱) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ابو ثور ازدی لین الحدیث ہیں، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود: ۱۱۸۷)

 

وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ خَشِيَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ طَمِعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ وَهِيَ أَفْضَلُ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ.

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا، تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔ اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتا ہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہ افضل وقت ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۱ (۷۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۰ (۱۱۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۲۲۹۷) ، مسند احمد (۳/۳۱۵، ۳۳۷) (صحیح)

رات کے ابتدائی اور آخری دونوں حصوں میں وتر پڑھا جا سکتا ہے

حد یث نمبر - 456

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّهُ سَأَلَعَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ " مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ فَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَى السَّحَرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ وَأَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ.

مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۲ (۹۹۲) ، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۴۵) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۳ (۱۴۳۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۱ (۱۱۸۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۶۵۳) ، مسند احمد (۶/۴۶، ۱۰، ۱۰۷، ۱۲۹، ۲۰۴، ۲۰۵) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۱ (۱۶۲۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے ، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے ، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے ، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔

سات رکعت وتر پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 457

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الْوَتْرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ وَإِحْدَى عَشْرَةَ وَتِسْعٍ وَسَبْعٍ وَخَمْسٍ وَثَلَاثٍ وَوَاحِدَةٍ " قَالَ:‏‏‏‏ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ مَعْنَى مَا رُوِيَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ " قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ فَنُسِبَتْ صَلَاةُ اللَّيْلِ إِلَى الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا عَنَى بِهِ قِيَامَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَى أَصْحَابِ الْقُرْآنِ ".

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر تیرہ، گیارہ، نو، سات، پانچ، تین اور ایک سب مروی ہیں، ۴- اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد (قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے، تو اس میں قیام اللیل (تہجد) کو بھی وتر کا نام دے دیا گیا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی الله عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو" سے بھی دلیل لی ہے۔ ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قیام اللیل مراد لی ہے، اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/قیام اللیل ۳۹ (۱۷۰۹) ، و۴۵ (۱۷۲۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۲۵) ، مسند احمد (۶/۳۲۲) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : ہمارے اس نسخے اور ایسے ہی سنن ترمذی مطبوعہ مکتبۃ المعارف میں علامہ احمد شاکر کے سنن ترمذی کے نمبرات کا لحاظ کیا گیا ہے ، احمد شاکر کے نسخے میں غلطی سے (۴۵۸)نمبر نہیں ہے ، اس لیے ہم نے بھی اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، لیکن اوپر (۴۵۵)مکرر آیا ہے اس لیے آگے نمبرات کا تسلسل صحیح ہے)۔

پانچ رکعت وتر پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 459

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ " قُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " يُصَلِّي مَثْنَى مَثْنَى وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل (تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں، ان (پانچ)میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے، پھر جب مؤذن اذان دیتا تو آپ کھڑے ہو جاتے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں، ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا، ۴- میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے" ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے جاتے، پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۹۸۱) (صحیح)

تین رکعت وتر پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 460

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيهِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُهُنَّ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ. قَالَ سُفْيَان:‏‏‏‏ وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ:‏‏‏‏ كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَكْعَةٍ وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے، ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہر رکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے، اور سب سے آخر میں «‏قل هو الله أحد» پڑھتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمران بن حصین، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس، ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے(براہ راست) روایت کی ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے، اس میں انہوں نے «ابی» کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور بعض نے «ابی» کے واسطے کا ذکر کیا ہے۔ ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے، ۳- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو، اور چاہو تو تین رکعت پڑھو، اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔ اور میں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتا ہوں۔ ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، ۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وتر کبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے، کبھی تین اور کبھی ایک، وہ ہر ایک کو مستحسن سمجھتے تھے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۳۰۱) (ضعیف جداً) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف ہے)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث حارث اعور کی وجہ سے ضعیف ہے ، مگر اس کیفیت کے ساتھ ضعیف ہے ، نہ کہ تین رکعت وتر پڑھنے کی بات ضعیف ہے ، کئی ایک صحیح حدیثیں مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑتے تھے ، پہلی میں «سبح اسم ربك الاعلى» دوسری میں «قل يا ايها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔ ۲؎ : سارے ائمہ کرام و علماء امت اس بات کے قائل ہیں کہ آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے پانچ رکعت پڑھے ، چاہے تین ، یا ایک ، سب کے سلسلے میں صحیح احادیث وارد ہیں ، اور یہ بات کہ نہ تین سے زیادہ وتر جائز ہے نہ تین سے کم (ایک) تو اس بات کے قائل صرف ائمہ احناف ہیں ، وہ بھی دو رکعت کے بعد قعدہ کے ساتھ جس سے وتر کی مغرب سے مشابہت ہو جاتی ہے ، جبکہ اس بات سے منع کیا گیا ہے۔

ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 461

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِهِ يَعْنِي يُخَفِّفُ "قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَالِكٌ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.

انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، جابر، فضل بن عباس، ابوایوب انصاری اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ و تابعین میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ) فصل کرے، ایک رکعت سے وتر کرے۔ مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۲ (۹۹۵) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۱۵۷/۷۴۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۱ (۱۱۴۴) ، (مختصرا) (تحفة الأشراف : ۶۶۵۲) ، مسند احمد (۲/۳۱، ۴۹، ۷۸، ۸۸، ۱۲۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : " گویا تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کانوں میں ہو رہی ہوتی " کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آ رہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہو جانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں۔ ۲؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے ، اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے ، اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے ، اس کو تنگی میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ضمن میں زیادہ عمل ، وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین ، پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔

وتر میں کون سی سورتیں پڑھی جائیں

حد یث نمبر - 462

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فِي رَكْعَةٍ رَكْعَةٍ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْوِتْرِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِ:‏‏‏‏ الْمُعَوِّذَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنْ يَقْرَأَ بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏وقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ ذَلِكَ بِسُورَةٍ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «‏سبح اسم ربك الأعلى» ، «‏قل يا أيها الكافرون‏» اور «‏قل هو الله أحد» تینوں کو ایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، عائشہ اور عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی الله عنہم) جنہوں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، بھی احادیث آئی ہیں، اور اسے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بغیر ابی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کیا جاتا ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے، وہ یہ ہے کہ «‏سبح اسم ربك الأعلى» ، «‏قل يا أيها الكافرون‏» اور «‏قل هو الله أحد» تینوں میں سے ایک ایک ہر رکعت میں پڑھتے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۵ (۱۱۷۲) ، (تحفة الأشراف : ۵۵۸۷) (صحیح)

وتر میں کون سی سورتیں پڑھی جائیں

حد یث نمبر - 463

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ " يُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِ:‏‏‏‏ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ:‏‏‏‏ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ:‏‏‏‏ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ هَذَا هُوَ وَالِدُ ابْنِ جُرَيْجٍ صَاحِبِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ جُرَيْجٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: پہلی رکعت میں «‏سبح اسم ربك الأعلى» ، دوسری میں «‏قل يا أيها الكافرون‏» ، اور تیسری میں «‏قل هو الله أحد» اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ عبدالعزیز راوی اثر عطاء کے شاگرد ابن جریج کے والد ہیں، اور ابن جریج کا نام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے، ۳- یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: «عمرة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۳۹ (۱۴۲۴) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۵ (۱۱۷۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۳۰۶) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ عبد العزیز کی ملاقات عائشہ رضی الله عنہا سے نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎ : یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس»۔

نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 464

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:‏‏‏‏ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ " اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ وَاسْمُهُ:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ كُلِّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ " لَا يَقْنُتُ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ " وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ الشافعي وَأَحْمَدُ.

حسن بن علی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھا کروں، وہ کلمات یہ ہیں: «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» "اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرما جنہیں تو نے ہدایت سے نوازا ہے، مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے، میری سرپرستی فرما کر، ان لوگوں میں شامل فرما جن کی تو نے سرپرستی کی ہے، اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور جس شر کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ، یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا، اور جس کا تو والی ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو بہت برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے۔"

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں، ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے، ۳-میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو معلوم نہیں، ۴- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۵- اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے، اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیا ہے، اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری، ابن مبارک، اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں، ۶- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے، ۷- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، شافعی اور احمد بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۰ (۱۴۲۵) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۵۱ (۱۷۴۶) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۷ (۱۱۷۸) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۴۰۴) ، مسند احمد (۱/۱۹۹، ۲۲۰) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : وتر کی اہمیت ، اور اس کی مشروعیت کے سبب اس کے وقت ، اور طریقہ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں جو روایات وارد ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے ، کہ صلاۃ وتر پورا سال اور ہر روز ہے ، اور قنوت وتر کے بارے میں تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ رکوع سے پہلے افضل ہے ، اور قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہے۔

وتر پڑھے بغیر سو جانے یا وتر کے بھول جانے کا بیان

حد یث نمبر - 465

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ نَامَ عَنِ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَهُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ ".

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۱ (۱۴۳۱) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۲ (۱۱۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۴۱۹۸) ، مسند احمد (۳/۳۱) (صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم متکلم فیہ راوی ہیں لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان

حد یث نمبر - 466

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِهِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَخُوهُ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ ضَعَّفَ 72 عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري.

زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، اور جب صبح کو اٹھے تو پڑھ لے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎، ۲- میں نے ابوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں، ۳- میں نے محمد (محمد بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا، وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ (ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں، ۴- کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آ جائے، گو سورج نکلنے کے بعد یاد آئے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ یہ خود مرسل روایت ہے)

وضاحت: ۱؎ : کیونکہ پہلی حدیث اگرچہ مرفوع ہے مگر عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے طریق سے ہے ، اور وہ متکلم فیہ ہیں ، جبکہ ان کے بھائی عبداللہ ثقہ ہیں ، یعنی اس حدیث کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ ۲؎ : اس حدیث سے وتر کی قضاء ثابت ہوتی ہے ، اس کے قائل بہت سے صحابہ اور ائمہ ہیں ، اس مسئلہ میں اگرچہ بہت سے اقوال ہیں مگر احتیاط کی بات یہی ہے کہ وتر اگر کسی وجہ سے رہ جائے تو قضاء کر لے ، چاہے جب بھی کرے ، کیونکہ وتر سنن و نوافل نمازوں کو طاق بنانے کے لیے مشروع ہوئی ہے ، اور اگر کوئی مسافر ہو اور دن بھر میں کسی وقت بھی دو رکعت بھی سنت نہ پڑھ سکا ہو تو ایسے آدمی کو وتر کی ضرورت ہی نہیں ، پھر عشاء کے بعد دو رکعت سنت پڑھ لے تب وتر پڑھے۔

صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان

حد یث نمبر - 467

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۵۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۳ (۱۴۳۶) ، (تحفة الأشراف : ۸۱۳۲) ، مسند احمد (۲/۳۷، ۳۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کا وقت طلوع فجر سے پہلے تک ہے جب فجر طلوع ہو گئی تو ادائیگی وتر کا وقت نکل گیا۔

صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان

حد یث نمبر - 468

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا ".

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۵۴) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۱ (۱۶۸۴، ۱۶۸۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۲ (۱۱۸۹) ، (تحفة الأشراف : ۴۳۸۴) ، مسند احمد (۳/۱۳، ۳۵، ۳۷، ۷۱) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۱ (۱۶۲۹) (صحیح)

صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کا بیان

حد یث نمبر - 469

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَهَبَ كُلُّ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ " وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ الشافعي،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب فجر طلوع ہو گئی تو تہجد (قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہو گیا، لہٰذا فجر کے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ۲- نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "فجر کے بعد وتر نہیں"، ۳- بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں: یہ لوگ نماز فجر کے بعد وتر پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۶۷۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : پچھلی حدیث کے حاشیہ میں گزرا کہ بہت سے صحابہ کرام وائمہ عظام وتر کی قضاء کے قائل ہیں ، اور یہی راجح مسلک ہے ، کیونکہ اگر وتر نہیں پڑھی تو سنن و نوافل کی جفت رکعتیں طاق نہیں ہو پائیں گی ، واللہ اعلم۔

ایک رات میں دو بار وتر نہیں

حد یث نمبر - 470

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُومُ مِنْ آخِرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ نَقْضَ الْوِتْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ يُضِيفُ إِلَيْهَا رَكْعَةً وَيُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُوتِرُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ لِأَنَّهُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ إِذَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ يُصَلِّي مَا بَدَا لَهُ وَلَا يَنْقُضُ وِتْرَهُ وَيَدَعُ وِتْرَهُ عَلَى مَا كَانَ. وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري،‏‏‏‏ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَدْ صَلَّى بَعْدَ الْوِتْرِ ".

طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "ایک رات میں دو بار وتر نہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جو رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہو پھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتا ہو، تو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وتر کو توڑ دینے کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملا لے تاکہ (وہ جفت ہو جائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور نماز کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سو گیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تو وہ جتنی نماز چاہے پڑھے، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پر رہنے دے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمد کا یہی قول ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۴۴ (۱۴۳۹) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۲۹ (۱۶۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۲۴) ، مسند احمد (۴/۲۳) (صحیح)

ایک رات میں دو بار وتر نہیں

حد یث نمبر - 471

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَى الْمَرَئِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ابوامامہ، عائشہ رضی الله عنہما اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۵ (۱۱۹۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : نووی کے بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا ، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے ، نہ کر سکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا : " وتر کو رات کی نماز (تہجد) میں سب سے اخیر میں کر دو " تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے تھے ، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔

سواری پر وتر پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 472

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَتَخَلَّفْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ كُنْتَ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَوْتَرْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ، ‏‏‏‏‏‏" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَى رَاحِلَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشافعي،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَا يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.

سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۵ (۹۹۹) ، وتقصیر الصلاة ۷ (۱۰۹۵) ، و۸ (۱۰۹۸) ، و۱۲ (۱۱۰۵) ، صحیح مسلم/المسافرین ۴ (۷۰۰) ، سنن النسائی/قیام اللیل ۳۳ (۱۶۸۷-۱۶۸۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۷ (۱۲۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۸۵) ، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۵) ، مسند احمد (۲/۵۷، ۱۳۸) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھا کرتے تھے ، اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ اس کو ناپسند کرے اور یہ صرف جائز ہے نہ کہ فرض و واجب ہے ، کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر کر بھی پڑھا کرتے تھے ، ہر دونوں صورتیں جائز ہیں۔

صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کا بیان

حد یث نمبر - 473

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ فُلَانِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَمِّهِ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ صَلَّى الضُّحَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فِي الْجَنَّةِ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَنُعَيْمِ بْنِ هَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي ذَرٍّ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر فرمائے گا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ام ہانی، ابوہریرہ، نعیم بن ہمار، ابوذر، عائشہ، ابوامامہ، عتبہ بن عبد سلمی، ابن ابی اوفی، ابو سعید خدری، زید بن ارقم اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۷ (۱۳۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۵) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن فلان بن انس مجہول راوی ہے)

وضاحت: ۱؎ : اس سیاق و لفظ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے نہ کہ نفس چاشت کی صلاۃ ، آگے والی حدیث صحیح ہے جس سے آٹھ رکعت چاشت کی صلاۃ کا ثبوت ملتا ہے۔

صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کا بیان

حد یث نمبر - 474

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى إِلَّا أُمَّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا حَدَّثَتْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَأَنَّ أَحْمَدَ رَأَى أَصَحَّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَ أُمِّ هَانِئٍ وَاخْتَلَفُوا فِي نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ نُعَيْمُ بْنُ خَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُ هَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ ابْنُ هَبَّارٍ وَيُقَالُ:‏‏‏‏ ابْنُ هَمَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ ابْنُ هَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو نُعَيْمٍ وَهِمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ حِمَازٍ وَأَخْطَأَ فِيهِ ثُمَّ تَرَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ نُعَيْمٌ:‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وأَخْبَرَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ.

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی رضی الله عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے، ام ہانی رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں، میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی نماز کبھی پڑھی ہو، البتہ آپ رکوع اور سجدے پورے پورے کر رہے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی رضی الله عنہا کی حدیث ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۱۲ (۱۱۰۳) ، والتہجد ۳۱ (۱۱۷۶) ، والمغازی ۵۰ (۴۲۹۲) ، صحیح مسلم/المسافرین ۱۳ (۸۰/۳۳۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۰۱ (۱۲۹۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۰۰۷) ، مسند احمد (۶/۳۴۲-۳۴۳) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۱ (۱۴۹۳) ، وانظر أیضا: صحیح البخاری/الغسل ۲۱ (۲۸۰) ، والصلاة ۴ (۳۵۷) ، الجزیة ۹ (۳۱۷۱) ، والأدب ۹۴ (۶۱۵۸) ، وسنن النسائی/الطہارة ۱۴۳ (۲۲۶) ، والغسل ۱۱ (۴۱۵) ، وسنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۹ (۴۶۵) ، والإقامة ۱۸۷ (۱۳۲۳) ، وط/قصر الصلاة ۸ (۲۸) ، و مسند احمد (۶/۳۴۱، ۴۲۳، ۴۲۴، ۴۲۵) (صحیح)

صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کا بیان

حد یث نمبر - 475

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَكْفِكَ آخِرَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابو الدرداء رضی الله عنہ یا ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تو دن کے شروع میں میری رضا کے لیے چار رکعتیں پڑھا کر، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۹۲۷) و۱۱۹۰۴) (صحیح)

صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کا بیان

حد یث نمبر - 476

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ حَافَظَ عَلَى شُفْعَةِ الضُّحَى غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ،‏‏‏‏ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع، نضر بن شمیل اور دوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے۔ اور ہم نہاس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۷ (۱۳۸۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۴۹۱) (ضعیف) (سند میں نہاس بن قہم ضعیف راوی ہے)

صلاۃ الضحی (چاشت کی نماز) کا بیان

حد یث نمبر - 477

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى حَتَّى نَقُولَ:‏‏‏‏ لَا يَدَعُ وَيَدَعُهَا حَتَّى نَقُولَ:‏‏‏‏ لَا يُصَلِّي ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے، اور آپ اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۲۲۷) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے)

زوال (سورج ڈھلنے) کے وقت کی نماز کا بیان

حد یث نمبر - 478

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ هُوَ:‏‏‏‏ أَبُو سَعِيدٍ الْمُؤَدِّبُ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّهْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيهَا عَمَلٌ صَالِحٌ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الزَّوَالِ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ ".

عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے: "یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن سائب رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور ابوایوب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۳۱۸) ، وانظر: مسند احمد (۳/۴۱۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ہو سکتا ہے کہ یہ ظہر سے پہلے والی چار رکعت سنت مؤکدہ ہی ہوں ، کسی نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں یا دونوں ایک ہی ہیں۔ ۲؎ : یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور اس میں "آخر میں سلام پھیرنے ولا" ٹکڑا ضعیف ہے (دیکھئیے صحیح ابوداود۱۱۵۳)

صلاۃ الحاجہ کا بیان

حد یث نمبر - 479

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَكْرٍ، عَنْ فَائِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللَّهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَفَائِدٌ هُوَ أَبُو الْوَرْقَاءِ.

عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یا بنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہو تو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے، پھر دو رکعتیں ادا کرے، پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) و سلام بھیجے، پھر کہے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين أسألك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين» "اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ حلیم (بردبار) ہے، کریم (بزرگی والا) ہے، پاک ہے اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین (سارے جہانوں کا پالنہار) ہے، میں تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور تیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتا ہوں، اور ہر نیکی میں سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو میرا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ مگر تو اسے بخش دے اور نہ کوئی غم چھوڑ، مگر تو اسے دور فرما دے اور نہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑ جس میں تیری خوشنودی ہو مگر تو اسے پوری فرما دے"

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند میں کلام ہے، فائد بن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیا جاتا ہے، اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقازہ ۱۸۹ (۱۳۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۵۱۷۸) (ضعیف جداً) (سند میں فائد بن عبدالرحمن سخت ضعیف راوی ہے)

صلاۃ استخارہ کا بیان

حد یث نمبر - 480

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ حَدِيثًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: "تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» یا کہے «في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به» "اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتا ہوں، اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو علم والا ہے اور میں لا علم ہوں، تو تمام غیبوں کو خوب جاننے والا ہے، اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے (یا آپ نے فرمایا: یا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے) بہتر ہے، تو اسے تو میرے لیے آسان بنا دے اور مجھے اس میں برکت عطا فرما، اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں، میرے دین، میری روزی اور انجام کے اعتبار سے یا فرمایا میری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے برا ہے تو اسے تو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔" آپ نے فرمایا: "اور اپنی حاجت کا نام لے" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں، ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن سے دیگر کئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے، یہی عبدالرحمٰن بن زید بن ابی الموالی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۵ (۱۱۶۲) ، والدعوات ۴۸ (۸۳۶۲) ، التوحید ۱۰ (۷۳۹۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶۶ (۱۵۳۸) ، سنن النسائی/النکاح ۲۷ (۳۲۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۸ (۱۳۸۳) ، (تحفة الأشراف : ۳۰۵۵) ، مسند احمد (۳/۳۴۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں ، چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے "دعا استخارہ" کہا جاتا ہے ، اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے ، استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے ، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہات شرعیہ سے اجتناب ہر حال میں ضروری ہے ، ان میں استخارہ نہیں ہے۔ ۲؎ : یعنی : لفظ «هذا الأمر»(یہ کام) کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔ اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ، ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے ، یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے ، استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک ، تین پانچ یا سات بار کیا جائے ، دل کا اطمینان ، مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اسے آدمی اختیار کر لے ، خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے ، عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں ، کہیں پر ممانعت نہیں۔

صلاۃ التسبیح کا بیان

حد یث نمبر - 481

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ غَدَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي صَلَاتِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " كَبِّرِي اللَّهَ عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَسَبِّحِي اللَّهَ عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَاحْمَدِيهِ عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَلِي مَا شِئْتِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ نَعَمْ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍوَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ حَدِيثٍ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ وَلَا يَصِحُّ مِنْهُ كَبِيرُ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صَلَاةَ التَّسْبِيحِ وَذَكَرُوا الْفَضْلَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَاأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَنِ الصَّلَاةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يُكَبِّرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ:‏‏‏‏ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1 وَفَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ عَشْرَ مَرَّاتٍ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ عَلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏يَبْدَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ صَلَّى لَيْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُسَلِّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ صَلَّى نَهَارًا فَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ يُسَلِّمْ " قَالَ أَبُو وَهْبٍ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ يَبْدَأُ فِي الرُّكُوعِ بِ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ رَبِيَ الْعَظِيمِ وَفِي السُّجُودِ بِ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ رَبِيَ الْأَعْلَى ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُسَبِّحُ التَّسْبِيحَاتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ إِنْ سَهَا فِيهَا يُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَيِ السَّهْوِ عَشْرًا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا إِنَّمَا هِيَ ثَلَاثُ مِائَةِ تَسْبِيحَةٍ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئیے جنہیں میں نماز۱؎ میں کہا کروں، آپ نے فرمایا: "دس بار «الله أكبر» کہو، دس بار «سبحان الله» کہو، دس بار «الحمد لله» کہو، پھر جو چاہو مانگو، وہ (اللہ) ہر چیز پر ہاں، ہاں کہتا ہے"، (یعنی قبول کرتا ہے)۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، فضل بن عباس اور ابورافع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صلاۃ التسبیح کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی کئی حدیثیں مروی ہیں لیکن کوئی زیادہ صحیح نہیں ہیں، ۴- ابن مبارک اور دیگر کئی اہل علم صلاۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کی فضیلت کا ذکر کیا ہے، ۵- ابو وہب محمد بن مزاحم العامری نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے صلاۃ التسبیح کے بارے میں پوچھا کہ جس میں تسبیح پڑھی جاتی ہے، تو انہوں نے کہا: پہلے تکبیر تحریمہ کہے، پھر «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» "اے اللہ! تیری ذات پاک ہے، اے اللہ تو ہر عیب اور ہر نقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں، بابرکت ہے تیرا نام، بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں" کہے، پھر پندرہ مرتبہ «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہے، پھر «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم» "اور «بسم الله الرحمن الرحيم» کہے، پھر سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے، پھر دس مرتبہ«سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہے، پھر رکوع میں جائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سر اٹھائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے، پھر سجدہ کرے دس بار یہی کلمات کہے پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائے اور دس بار یہی کلمات کہے، پھر دوسرا سجدہ کرے اور دس بار یہی کلمات کہے، اس طرح سے وہ چاروں رکعتیں پڑھے، تو ہر رکعت میں یہ کل ۷۵ تسبیحات ہوں گی۔ ہر رکعت کے شروع میں پندرہ تسبیحیں کہے گا، پھر دس دس کہے گا، اور اگر وہ رات کو نماز پڑھ رہا ہو تو میرے نزدیک مستحب ہے کہ وہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن میں پڑھے تو چاہے تو (دو رکعت کے بعد) سلام پھیرے اور چاہے تو نہ پھیرے۔ ابو وہب وہب بن زمعہ سے روایت ہے کہ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: رکوع میں پہلے «سبحان ربي العظيم» اور سجدہ میں پہلے «سبحان ربي الأعلى» تین تین بار کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ عبدالعزیز ہی ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: اگر اس نماز میں سہو ہو جائے تو کیا وہ سجدہ سہو میں دس دس تسبیحیں کہے گا؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/السہو ۵۷ (۱۳۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۵) ، مسند احمد (۳/۱۲۰) (حسن الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : بظاہر اس حدیث کا تعلق " صلاۃ التسبیح " سے نہیں عام نمازوں سے ہے ، بلکہ مسند ابی یعلیٰ میں " فرض صلاۃ " کا لفظ وارد ہے ؟ نیز اس حدیث میں وارد طریقہ تسبیح صلاۃ التسبیح میں ہے بھی نہیں ہے ؟۔

صلاۃ التسبیح کا بیان

حد یث نمبر - 482

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ:‏‏‏‏ " يَا عَمِّ أَلَا أَصِلُكَ أَلَا أَحْبُوكَ أَلَا أَنْفَعُكَ " قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " يَا عَمِّ صَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا انْقَضَتِ الْقِرَاءَةُ فَقُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْكَعْ فَقُلْهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْجُدِ الثَّانِيَةَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا قَبْلَ أَنْ تَقُومَ، ‏‏‏‏‏‏فَتِلْكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ هِيَ ثَلَاثُ مِائَةٍ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُكَ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ لَغَفَرَهَا اللَّهُ لَكَ " قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ فَقُلْهَا فِي جُمْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي جُمُعَةٍ فَقُلْهَا فِي شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ لَهُ حَتَّى قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْهَا فِي سَنَةٍ " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ.

ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے چچا) عباس رضی الله عنہ سے فرمایا: "اے چچا! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں، کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟" وہ بولے: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں، جب قرأت پوری ہو جائے تو «اللہ اکبر» ، «الحمد للہ» ، «سبحان اللہ» ، «لا إلہ إلا اللہ» پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں، پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں، پھر اپنا سر اٹھائیں اور یہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہو کر کہیں۔ پھر سجدے میں جائیں تو یہی کلمات دس مرتبہ کہیں، پھر سر اٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ پھر دوسرے سجدے میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ اسی طرح ہر رکعت میں کہیں، یہ کل ۷۵ کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سو کلمات ہوئے۔ تو اگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا"۔ تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے؟ آپ نے فرمایا: "آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہر جمعہ کو کہیں اور اگر ہر جمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہر ماہ میں کہیں"، وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "تو ایک سال میں آپ اسے کہہ لیں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابورافع رضی الله عنہ کی روایت سے غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة۱۹۰ (۱۳۸۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۰۱۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اگر آپ سال بھر میں بھی ایک بار صلاۃ التسبیح نہ پڑھ سکتے ہوں تو پھر زندگی میں ایک بار ہی سہی ، عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے مروی بعض احادیث میں ذکر ہے کہ یہ " صلاۃ التسبیح " سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی جائے ، اولیٰ ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا طریقہ

حد یث نمبر - 483

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَالْأَجْلَحِ، وَمَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا السَّلَامُ عَلَيْكَ قَدْ عَلِمْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ". قَالَ مَحْمُودٌ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَنِي زَائِدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَنَحْنُ نَقُولُ:‏‏‏‏ وَعَلَيْنَا مَعَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَأَبِي حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَطَلْحَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَبُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ ابْنُ جَارِيَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى كُنْيَتُهُ أَبُو عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو لَيْلَى اسْمُهُ:‏‏‏‏ يَسَارٌ.

کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ پر سلام بھیجنا تو ہم نے جان لیا ہے ۱؎ لیکن آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: "کہو: «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم إنك حميد مجيد وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم إنك حميد مجيد» ۲؎ "اے اللہ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید (تعریف کے قابل) اور مجید (بزرگی والا) ہے، اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی ہے، یقیناً تو حمید (تعریف کے قابل) اور مجید (بزرگی والا) ہے"۔ زائدہ نے بطریق اعمش عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ایک زائد لفظ کی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم (درود میں)«وعلينا معهم» "یعنی اور ہمارے اوپر بھی رحمت و برکت بھیج" بھی کہتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوحمید، ابومسعود، طلحہ، ابوسعید، بریدہ، زید بن خارجہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۷) ، وتفسیر الأحزاب ۱۰ (۴۷۹۷) ، والدعوات ۳۲ (۶۳۵۷) ، صحیح مسلم/الصلاة ۱۷ (۴۰۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۸۳ (۹۷۶) ، سنن النسائی/السہو ۵۱ (۱۲۸۸) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۵ (۹۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۱۳) ، مسند احمد (۴/۲۴۱، ۲۴۴) ، سنن الدارمی/الصلاة ۸۵ (۱۳۸۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد وہ سلام ہے جو التحیات میں پڑھا جاتا ہے۔ ۲؎ : مولف نے درود ابراہیمی کے سلسلے میں مروی صرف ایک روایت کا ذکر کیا ہے ، اس باب میں کئی ایک روایات میں متعدد الفاظ وارد ہوئے ہیں ، عام طور پر جو درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے وہ صحیح طرق سے مروی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 484

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَيْسَانَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ ".

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ (درود) بھیجے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا "جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے، اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ (درود) بھیجتا ہے ۲؎، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں" (یہی حدیث آگے آ رہی ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۳۴) (ضعیف) (سند میں موسیٰ بن یعقوب صدوق لیکن سیٔ الحفظ راوی ہیں، اور محمد بن خالد بھی صدوق ہیں لیکن روایت میں خطا کرتے ہیں (التقریب)

وضاحت: ۱؎ : سب سے زیادہ قریب اور نزدیک ہونے کا مطلب ہے : میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ ۲؎ : یعنی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 485

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا " قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ،‏‏‏‏ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ،‏‏‏‏ وَعَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي طَلْحَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ سفيان الثوري وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ صَلَاةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الِاسْتِغْفَارُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مجھ پر ایک بار صلاۃ (درود) بھیجے گا، اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ (درود)بھیجے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عامر بن ربیعہ، عمار، ابوطلحہ، انس اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- سفیان ثوری اور دیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ (درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ (درود) سے مراد استغفار ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۷ (۴۰۸) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶۱ (۱۵۳) ، سنن النسائی/السہو ۵۵ (۱۲۹۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۹۷۴) ، مسند احمد (۲/۳۷۳، ۳۷۵، ۴۸۵) ، سنن الدارمی/الرقاق ۵۸ (۲۸۱۴) (صحیح)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 486

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے، اس میں سے ذرا سی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) نہیں بھیج لیتے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۴۴۹) (حسن) (الصحیحة ۲۰۳۵)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 487

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ " لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَبَّاسٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ يعقوب وهو مولى الحرقة، ‏‏‏‏‏‏والعلاء هو من التابعين، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَعْقُوبَ وَالِدُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ أَيْضًا مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْقُوبَ جَدُّ الْعَلَاءِ هُوَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏قَدْ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَوَى عَنْهُ.

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کر لے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں، علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں، انہوں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو پایا ہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۶۵۸) (حسن الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : یعنی معاملات کے مسائل نہ سمجھ لے۔ ۲؎ : اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے مولف اس اثر کو اس باب میں لائے ہیں ، ورنہ اس اثر کا اس باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اوپر حدیث نمبر (۴۸۵)میں علاء بن عبدالرحمٰن کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہاں انہیں سب کا تعارف مقصود ہے۔