مشکوٰة شر یف

صلح کا بیان

صلح کا بیان

صلح  اصل میں صلاح اور صلوح کا اسم ہے جو فساد بمعنی تباہی کے مقابلہ پر استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی مملکت کے سر براہ کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ نظریۂ توحید کے مطابق عالمگیر امن کی ذمہ داریوں کو پورا کر نے کے لئے، تبلیغ اسلام کی مطمح نظر کی خاطر انسانی سلامتی و آزادی کی حفاظت اور سیاسی و جنگی مصلح کے پیش نظر دشمن اقوام سے معاہدۂ صلح و امن کر لے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ٦ھ میں اپنے سب سے بڑے دشمن کفار مکہ سے صلح کی جو  صلح حدیبیہ  کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدۂ صلح کی مقدار دس سال مقرر کی گئی تھی اور حدیث و تاریخ کے اس متفقہ فیصلہ کے مطابق کہ حدیبیہ کا یہی وہ معاہدۂ صلح ہے جس نے نہ صرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی راہ میں بڑی آسانیاں پیدا کی بلکہ دنیا کو معلوم ہو گیا کہ اسلام، انسانیت اور امن کے قیام کا حقیقی علم دار ہے اور مسلمان اس راہ میں اس حد تک صادق ہیں کہ جنگ جو عرب اور بالخصوص کفار مکہ کے وحشیانہ تشدد اور عیارانہ سازشوں کے باوجود اس معاہدہ کی پوری پوری پابندی کر تے رہے لیکن اس معاہدہ صلح کی مدت پر تین سال ہی گزرے تھے کہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حلیف بنو خزاعہ کے مقابلہ پر جنگ کر نے والے بنو بکر کی مدد کر کے اس معاہدہ کو توڑ ڈالا۔

صلح حدیبیہ

اور حضرت مسور ابن مخرمہ اور حضرت مروان ابن حکم سے روایت ہے۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم حدیبیہ کے سال اپنے ایک ہزار کچھ سو صحابہ کو لے کر (مدینہ سے) روانہ ہوئے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ذوالحلیفہ پہنچے (جو مدینہ منورہ سے جنوب میں تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو ابیار علی بھی کہتے ہیں) تو ہدی (یعنی اپنی قربانی کے جانور) کی گردن میں قلادہ باندہ اور اشعار کیا اور پھر ذوالحلیفہ (ہی) سے عمرہ کے لئے احرام باندھ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کے جب ثنیہ (یعنی اس گھاٹی پر) پر پہنچے جس طرف سے اہل مکہ پر اترا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی (جس کا نام قصواء تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر بیٹھ گئی، (جب) لوگوں نے (یہ دیکھا تو) کہنا شروع کیا  حل حل (یہ لفظ اونٹ کو اٹھا نے کے لئے کہا جاتا ہے) قصواء اڑ گئی قصو اء اڑگئی۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا  نہیں! قصواء نے اڑ نہیں کی ہے اور نہ اس کو اڑ نے کی عادت ہے، بلکہ اس کو اس ذات (اللہ تعالیٰ) نے روک دیا ہے جس نے ہاتھی کو روکا تھا۔  اور پھر فرمایا  قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے قریش مجھ سے ایسی جو بات بھی چاہیں گے جس میں اللہ تعالیٰ (کے حرم) کی عظمت ہو تو میں ان کی اس بات کو پورا کروں گا یعنی آج مکہ کے لوگ صلح کے وقت ایسی جس بات کا بھی مطالبہ کریں گے جس میں حرم مکہ کی عظمت کا لحاظ ہو تو میں اس کو پورا کروں گا۔  پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹنی کو اٹھایا جو فوراً اٹھ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اہل مکہ کا راستہ چھوڑ کر دوسری سمت کو چلنے لگے تا آنکہ حدیبیہ کے آخری کنارہ پر پہنچ کر جہاں (ایک گھڑے میں) تھوڑا سا پانی تھا اتر گئے (اور وہاں پڑاو،ڈال دیا) لوگوں نے اس گھڑے میں سے تھوڑا تھوڑا سا پانی لے کر استعمال کرنا شروع کیا یہاں تک کے ذرا ہی دیر میں سارے پانی کو کھینچ ڈالا (یعنی اس گھڑے میں پانی چونکہ بہت تھوڑا تھا اس لئے لوگوں کے کم سے کم مقدار لینے کے باوجود وہ پانی بہت جلد ختم ہو گیا) لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیاس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تر کش میں سے ایک تیر نکالا اور صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تیر کو پانی کے (اس گڑھے) میں ڈال دیا جائے۔ اور پھر (راوی کہتے ہیں کہ) خدا کی قسم ! (اس تیر کی برکت سے) ان لوگوں کو سیراب کر نے کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا پانی (گویا) موجیں مارتا رہا تا آنکہ سب اس پانی پر سے ہٹ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس گھڑے میں اتنا زیادہ پانی پیدا فرمایا کہ سب لوگوں کی ضرورتیں نہایت اطمینان سے پوری ہوتی رہیں بلکہ جب وہاں سے واپسی ہوئی تو اس وقت بھی پانی باقی رہا) بہر حال صحابہ اسی حالت میں تھے، اچانک بدیل ابن ورقہ خزاعی، خزا عہ کہ کچھ لوگوں کے ساتھ (کفار مکہ کی طرف سے مصالحت کے لئے) آیا، پھر عروہ ابن مسعود بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچا۔ اس کے بعد بخاری نے (وہ طویل گفت و شنید نقل کی، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور بدیل اور عروہ کے درمیان ہوئی، جس کو صاحب مصابیح نے اختصار کے پیش نظر یہاں نقل نہیں کیا اور پھر یہ) بیان کیا کہ آخر کار جب سہیل ابن عمر و (اہل مکہ کا آخری سفیر اور نمائندہ بن کر آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت علی) سے فرمایا کہ، لکھو۔  یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے صلح کی ہے۔  سہیل نے (یہ الفاظ دیکھ کر) کہا کہ  بخدا ! اگر ہم یہ مانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو نہ ہم تمہیں خانہ کعبہ (میں جانے) سے روکتے اور نہ جنگ کرتے۔ لہٰذا یوں لکھو کہ (یہ وہ معاہدہ ہے جس پر) محمد ابن عبداللہ (نے صلح کی ہے)۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ  خدا کی قسم ! میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم مجھو کو جھوٹا سمجھتے ہو (خیر میں مصالحت کی خاطر الفاظ میں تمہاری اس ترمیم کو تسلیم کئے لیتا ہوں) علی ! تم محمد ابن عبداللہ ہی لکھ دو۔  پھر سہیل نے یہ کہا کہ  اور اس معاہدہ صلح میں اس بات کو بھی تسلیم کرو کہ (تم میں سے جو شخص ہمارے ہاں آ جائے گا ہم تو اس کو واپس نہ جانے دیں گے لیکن) ہم میں سے جو شخص تمہارے ہاں چلا جائے گا اگرچہ وہ تمہارے دین کو قبول کر چکا ہو اس کو تم ہمارے ہاں واپس کر دو گے۔  (چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بھی قبول کر لیا، اس موقع پر بھی واقعہ میں اختصار سے کام لیا گیا ہے یعنی صاحب مصابیح نے اسی معاہدہ سے متعلّق بخاری کی بیان کردہ ساری تفصیل کو نقل نہیں کیا ہے یا یہ بخاری کی کوئی اور روایت ہے جس میں صرف اسی قدر بیان کیا گیا ہے) بہر حال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (یا حضرت علی) صلح نامہ لکھے جانے سے فارغ ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ  اٹھو جاؤ، اب (ہدی کے جانوروں کو) ذبح کر ڈالو اور سر منڈھواؤ۔  اس کے بعد (مکہ سے) کئی عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔

آیت (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ) 60۔ الممتحنہ:10)

اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں الخ :۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے (اس آیت کے ذریعہ) مسلمانوں کو اس بات سے منع کیا کہ وہ ان عورتوں کو (کفار مکہ کے ہاں) واپس کر دیں اور انہیں اس بات کا حکم دیا کہ ان کا مہر واپس کر دیں، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ واپس تشریف لے آئے (کچھ دنوں کے بعد) قریش کے ایک شخص ابو بصیر جو مسلمان ہو گئے تھے (مکہ سے نکل کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، قریش مکہ نے دو آدمیوں کو ان کی تلاش میں (مدینہ) بھیجا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (معاہدہ صلح کے مطابق) ابو بصیر کو ان دونوں آدمیوں کے حوالے کر دیا، وہ دونوں آدمی ابو بصیر کو لے کر (مکہ) روانہ ہوئے اور جب (پہلی منزل) ذوالحلیفہ میں قیام کیا اور ان کے پاس جو کھجوریں تھیں ان کو کھانے لگے تو ابو بصیر نے ان میں سے ایک شخص کو مخاطب کر کے کہا  خدا کی قسم، اے فلاں شخص ! میرا خیال ہے کہ تمہاری یہ تلوار (بہت اچھی ہے) ذرا مجھے تو دکھلاؤ میں بھی اس کو دیکھوں، اس شخص ابو بصیر کو وہ تلوار دیکھنے کا موقع دے دیا یعنی (اس نے اپنی تلوار ابو بصیر کے ہاتھ دے دی، بس اتنا موقع کافی تھا) ابو بصیر نے اس پر (اس تلوار سے اتنا بھر پور وار) کیا کہ وہ فوراً ٹھنڈا ہو گیا (یعنی مر گیا) اور دوسرا شخص (یہ دیکھتے ہی وہاں سے) بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ مدینہ میں (واپس آگیا اور اپنے قتل کے خوف سے) دوڑتا ہوا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں داخل ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کی حالت دیکھ کر) فرمایا کہ  یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ (جی ہاں) خدا کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور میرے بھی مارے جانے میں کوئی شبہ نہیں ہے (یعنی مجھ پر خوف سوار ہے کہ میں بھی مارا جاؤں گا میں بچ ہی گیا ورنہ میں بھی مارا جاتا) پھر ابو بصیر بھی آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان کو دیکھ کر) فرمایا کہ، افسوس ہے اس کی ماں پر !( یعنی تعجب وحیرت کا مقام ہے) یہ ابو بصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکا نے والا ہے اگر اس کا کوئی مدد گار ہوتا، تو وہ اس کی مدد کر تا)۔  جب ابو بصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سنی تو وہ سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھے (پھر) کافروں کے پاس واپس بھیج دیں گے چنانچہ ابو بصیر (دوبارہ کافروں کے حوالے کئے جانے کے خوف سے روپوش ہونے کے لئے) مدینہ سے نکل گئے یہاں تک کے وہ سمندر کے ساحل پر ایک علاقہ میں پہنچ گئے۔

راوی کہتے ہیں کہ ابو جندل ابن سہیل بھی کفار کے قبضے سے نکل بھاگے اور ابو بصیر سے آ کر مل گئے اور پھر تو یہ حال ہوا کہ (مکہ میں) جو بھی شخص اسلام قبول کر کے قریش کے قبضہ سے نکل بھاگتا وہ ابو بصیر سے جا ملتا یہاں تک کے (چند ہی روز میں ابو بصیر کے پاس) قریش سے چھوٹ کر آنے والوں کا ایک بڑا گروہ جمع ہو گیا، اور خدا کی قسم ! جب بھی یہ لوگ سنتے کہ قریش کا کوئی قافلہ (تجارت وغیرہ کے لئے) شام کی طرف روانہ ہوا ہے، وہ اس کا پیچھا کرتے اور اس کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا سارا مال و اسباب لے لیتے آخر کار (جب ان لوگوں کی وجہ سے) قریش (کا ناطقہ بند ہو گیا اور وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو گئے تو ان کو احساس ہوا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک انتہائی غیر معقول شرط منوا کر کتنی بڑی نادانی کی ہے اور اس کا خمیازہ کس طرح بھگتنا پڑ رہا ہے لہٰذا انہوں) نے کسی شخص کو (اپنا سفیر و نمائندہ بنا کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا اور اس کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کی قسم دلائی اور (اس) قرابت کے حق کا واسطہ دیا (جو ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں تھی اور یہ التجا کی کہ آپ کسی نہ کسی طرح صرف اتنا کرم ضرور کر دیں کہ اپنے کسی آدمی کو ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیج کر یہ حکم دیں کہ وہ مدینہ میں آ جائیں اور ہمارے کسی قافلہ کے ساتھ تعرض نہ کریں) اور جب آپ ان کو یہ حکم بھیج دیں (اور وہ لوگ آپ کے پاس چلے آئیں) تو پھر (ہم اہل مکہ میں سے) جو بھی شخص (مسلمان ہو کر) آپ کے پاس آئے گا وہ امن میں رہے گا (یعنی نہ صرف یہ کہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی بلکہ اس کو ہمارے پاس) واپس بھیجنے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ نیز انہوں نے کہا کہ آپ ابو بصیر کو ان کے طریقہ کار سے روک دیں ہم معاہدہ صلح کی اس شرط سے باز آئے) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی شخص کو ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کے پاس بھیجا (جس کے ذریعہ ان کو یہ حکم دیا کہ وہ قریش کے قافلوں سے کوئی تعرض نہ کریں اور میرے پاس چلے آئیں)۔ (بخاری)

 

تشریح

 

  حدیبیہ  مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریباً پندرہ سو میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ کا نام ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس کو شمیسیہ بھی کہتے ہیں، حدود حرم یہاں سے بھی گزرتے ہیں بلکہ اس جگہ کا اکثر حرم ہی میں داخل ہے۔

 ایک ہزار کچھ سو صحابہ الخ :  میں  بضع  کا اطلاق تین سے نو تک کی تعداد پر ہوتا ہے۔ یہاں تعداد کو متعین کی بجائے مبہم اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اس موقع پر صحابہ کی جو تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں میں چودہ سو کی تعداد بیان کی گئی ہے بعض میں پندرہ سو اور بعض روایتوں میں  ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ  کے الفاظ بھی ہیں۔ علماء نے ان روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی ہے کہ ابتداء میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے لیکن بعد میں مختلف مراحل پر اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہا چنانچہ جس راوی نے سو سے پہلے شمار کیا اس نے چودہ سو کی تعداد پائی اور پھر بعد میں جن لوگوں کا اضافہ ہوا اس نے ان کو نہیں دیکھا لہٰذا اس نے اپنی روایت میں چودہ سو کی تعداد بیان کی لیکن جس راوی نے بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی دیکھا اس نے پندرہ سو کی تعداد کا ذکر کیا اور جس راوی نے تعداد کی تعین و تحقیق نہیں کی اس نے اپنی روایت میں ایک ہزار چار سو یا اس سے زیادہ  کو بیان کیا۔

 ذبح کر ڈالو اور پھر منڈھواؤ  احصار یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد اس حج یا عمرہ کی ادائیگی سے روک دیئے جانے کی صورت میں یہی حکم ہے، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کو حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اس حج یا عمرہ سے روک دیا گیا ہو جس کو  محصر  کہتے ہیں۔ تو وہ اپنے ہدی کو اسی جگہ ذبح کر ڈالے جہاں وہ روک دیا ہے اگرچہ وہ جگہ حدود حرم میں واقع نہ ہو وہ اپنے قول کی دلیل میں یہ بات پیش کر تے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر حدیبیہ میں ہدی کو ذبح کر نے کا حکم دیا تھا جب کہ حدیبیہ حدود حرم میں نہیں ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک ہدی کا چونکہ حدود حرم میں ذبح ہو نا شرط ہے اس لئے ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ حدیبیہ کا سارا علاقہ حدود حرم سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کا بعض حصہ بلکہ اکژ حصہ حدود حرم میں داخل ہے اور ظاہر ہے کہ اس موقع پر ہدی اسی حصے میں ذبح کی گئی تھی جو حدود حرم میں ہے۔

 ان کو مہر واپس کر دیں  اس حکم کا مطلب یہ تھا کہ اگر ان مسلمان عورتوں کے کافر خاوند ان کو لینے کے لئے آئیں اور وہ ان کے مہر ادا کر چکے ہوں تو وہ مہر ان کو واپس کر دیا جائے۔ تفسیر مدارک وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کو واپس کر دینے کا یہ حکم اسی موقع کے لئے مخصوص تھا پھر بعد میں اس کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔

یہ بات ملحوظ رہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط کہ  مکہ سے جو شخص آپ کے پاس آئے گا اگرچہ وہ مسلمان ہو کر آئے تو اس کو کفار مکہ کے حوالے کرنا ضروری ہو گا ۔ صرف مردوں سے متعلّق تھی اسی لئے جب مکہ کی یہ عورتیں مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئیں تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ صلح نامہ میں صرف مردوں کو واپس کرنا طے پایا تھا نہ کہ عورتوں کو بھی، اس لئے ان عورتوں کو جو اپنے آپ کو بڑی آزمائش اور سخت ابتلاء میں ڈال کے آئیں ہیں واپس نہ کیا جائے۔

 اگر اس کا کوئی مدد گار ہوتا الخ  کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ترجمہ سے واضح ہوا، اور ایک مطلب یہ ہے کہ  کاش ! اس وقت کوئی خیر خواہ ابو بصیر کے پاس ہوتا جو اس کو یہ بتا دیتا کہ وہ اب میرے پاس نہ آئے تاکہ میں اس کو دوبارہ واپس نہ کردوں۔  حدیث کے سیاق کے مطابق یہی مطلب زیادہ مناسب ہے۔

 جب ابو بصیر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سنی الخ  یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ  یہ ابو بصیر تو لڑائی کی آگ بھڑکانے والا ہے۔  تو وہ سمجھ گئے کہ یہاں مدینہ میں مجھے پناہ نہیں ملے گی بلکہ مجھے دوبارہ کفار کے حوالے کر دیا جائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد صریحاً اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر حالت میں صلح کی پابندی کریں گے اور نہ تو ابو بصیر کو اپنے پاس رکھیں گے اور نہ ان کی کوئی مدد کریں گے۔

حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سہیل کے بیٹے تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ کا سفیر اور نمائندہ بن کر آیا اور جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معاہدہ صلح کیا تھا) حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے جس کے نتیجے میں ان کے باپ سہیل نے ان کو قید کر دیا تھا چنانچہ پہلے تو وہ کسی نہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر حدیبیہ گئے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدہ صلح کی مذکورہ شرط کے مطابق انہیں تسلی، دلاسہ کے ذریعے سمجھا بجھا کر اور بڑی بحث و تکرار کے بعد مکہ واپس کر دیا تھا مگر پھر دوبارہ وہ مکہ سے بھاگ نکلے، اور ابو بصیر سے آ کر مل گئے۔

صلح حدیبیہ کی تین خاص شرطیں

اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ کے دن تین باتوں پر صلح کی تھی۔ اول تو یہ کہ (مکہ کے) مشرکین میں سے جو شخص (مسلمان ہو کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو مشرکین کے پاس واپس کر دیں گے اور مسلمانوں میں سے جو شخص مشرکین کے پاس آئے گا اس کو مشرکین واپس نہیں کریں گے، دوم یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (حج و عمرہ کے لئے اس سال مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ) آئندہ سال مکہ آئیں اور صرف تین دن مکہ میں ٹھہریں اور سوم یہ کہ (آئندہ سال) مکہ میں جب داخل ہوں تو اپنے تمام ہتھیار، تلوار، کمان اور اسی طرح کی دوسری چیزیں غلاف میں رکھ کر لائیں۔ اس موقع پر ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس حال میں پہنچے کہ ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھیں جن کی وجہ سے وہ کود (کود کر چل رہے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جلبان چمڑے کا ایک تھیلا ہوتا تھا جس کا مصرف یہ تھا کہ جب لوگ سفر کرتے تو نیام سمیت تلواریں اور دوسرے ہتھیار وغیرہ اس میں رکھ کر گھوڑے کی زین کے پچھلے حصہ میں لٹکا دیتے تھے۔ یہاں جلبان یعنی غلاف میں ہتھیاروں کو رکھ کر لانے کی شرط سے مشرکین کی مراد یہ تھی کہ جب آئندہ سال مسلمان مکہ آئیں تو اپنے ہتھیار ننگے کھلے لے کر شہر میں نہ داخل ہوں بلکہ ان کو نیام وغیرہ میں رکھیں تاکہ اس طرح مسلمانوں کے غلبہ ان کی طاقت کی فوقیت و برتری اور ان کے جنگی ارادوں کا اظہار نہ ہو۔

حضرت ابو جندل ابن سہیل جن کے بارے میں پچھلی حدیث کے ضمن میں بھی بیان کیا جا چکا ہے، مکہ ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے اور جن دنوں صلح حدیبیہ ہوئی ہے وہ مشرکین مکہ کی قید میں تھے، چنانچہ وہ کسی طرح مکہ سے بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حدیبیہ پہنچے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معاہدہ صلح کے پیش نظر ان کو مشرکین کے حوالے کر دیا اور انہیں صبر و استقامت کی تلقین کر تے ہوئے فرمایا کہ ابو جندل ! صبر و استقامت کی راہ اختیار کرو اور آخرت کے اجر و ثواب کی امید رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بھی اور دوسرے ضعیف و بے بس لوگوں کے لئے بھی (جلد ہی) خلاصی و نجات اور شادمانی کے سامان پیدا کر دے گا۔

علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اہل مکہ کی ان شرائط کو قبول کرنا جو بظاہر مسلمانوں کے لئے سوہان روح اور ان کی ملی حمیت و وقار کے منافی تھیں، اس وجہ سے تھا کہ ایک تو اس وقت مسلمان بہرحال کمزور و خستہ حال تھے اور ان میں اتنی مادی طاقت اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے جن کے ذریعہ وہ اہل مکہ کا مقابلہ کر پاتے، دوسرے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی مدینہ سے کسی جنگ کے ارادے سے نہیں چلے تھے بلکہ عمرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے اور اس کے لئے احرام بھی باندھ چکے تھے، ادھر حدود حرم کی عظمت اور ان کے شرعی تقاضوں کا لحاظ بھی ضروری تھا، نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنگ کرنے کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مصلحتیں تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیش نظر تھیں۔ چنانچہ انجام کار اس معاہدہ صلح کے بہت زیادہ فائدے ظاہر ہوئے کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے ایسے مواقع میسر آئے جنہوں نے دور دراز تک کی فضا کو مسلمانوں کے حق میں بدل دیا اور اسلام کی آواز چار دانگ عالم میں پھیل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح عظیم عطا فرمائی، وہاں کے لوگوں کو اسلام کے دامن میں پہنچا دیا، اور اس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ کی پیش کردہ شرائط پر معاہدہ صلح کر کے اپنے جذبہ امن پسندی و انسانیت نوازی ہی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنی بے مثال سیاسی بصیرت و بالغ نظری اور دور اندیشی کا نمونہ بھی پیش کیا اور سب سے بڑھ کر حقیقت میں منشاء خداوندی اور حکم الٰہی کی فرماں برداری کی اور کمال عبودیت کا اظہار کیا۔

 

 

 اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (مکہ کے) قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مصالحت کی۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ شرط منوائی کہ آپ میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے ہم اس کو واپس نہیں کریں گے اور ہم میں سے جو شخص آپ کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس کو ہمارے پاس واپس کر دیں گے۔ صحابہ نے (اس شرط کو اپنی ملی حمیّت و وقار کے منافی اور اصول مصالحت کے تقاضوں سے بعید جان کر) عرض کیا کہ  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا ہم ان شرائط کو لکھ دیں یعنی کیا یہ شرائط آپ تسلیم کر تے ہیں ؟  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ہاں ! بات یہ ہے کہ ہم میں سے جو شخص ان کے پاس جائے گا، تو (ظاہر ہے کہ وہ مرتد ہو کر بھاگے گا اس اعتبار سے) وہ (ایک ایسا) شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہو گا، اور ان میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا (اس کو اگرچہ اس وقت ہم واپس کرنے پر مجبور ہوں گے لیکن آخر کار) اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کے لئے شادمانی و کشادگی اور خلاصی و نجات کے سامان پیدا کر دے گا۔  (مسلم)

عورتوں کی بیعت

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورتوں کی بیعت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان عورتوں کو (جو مکہ سے آتیں اور قبولیت اسلام کا اظہار کرتیں) اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے آیت (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ) 60۔ الممتحنہ:12)  اے نبی ! جب مؤمن عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس بیعت کے لئے حاضر ہوں الخ :۔ چنانچہ ان میں سے جو عورت اس آیت میں مذکورہ شرائط کو ماننے کا اقرار کرتی آپ اس سے فرماتے کہ  میں نے تم کو بیعت کیا۔  درآنحالیکہ آپ گفتگو کرتے اور عورت سے یہ بات فرماتے مگر خدا کی قسم ! کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی عورت کو بیعت کیا ہو اور اس کے ہاتھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ نے چھوا ہو۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  اس آیت کریمہ کی روشنی میں پرکھتے تھے۔  یعنی اس آیت میں عورتوں کے لئے جن احکام کی پابندی کو بیعت کی شرط قرار دیا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان عورتوں سے ان احکام پر عمل کر نے کا عہد کر تے جب وہ عہد و اقرار کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو بیعت کرتے چنانچہ اس پوری آیت کا مفہوم و مضمون یہ ہے کہ مسلمان عورتیں ان شرائط پر (یعنی ان احکام پر عمل کر نے کی) بیعت کریں کہ وہ (عورتیں) کسی ذات اور کسی چیز کو خدا کا شریک نہیں مانیں گی (یعنی ہر طرح کے شرک سے کلیۃً اجتناب کریں گی) چوری نہیں کریں گی، زنا کی مرتکب نہیں ہونگی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی (جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ بیٹیوں کو مار ڈالا جاتا تھا) کسی پر تہمت نہیں لگائیں گی اور عصیان نہیں کریں گی (یعنی خدا اور اس کے رسول کے احکام سے رو گردانی نہیں کریں گی، اس اعتبار سے یہ آیت کریمہ کی تفسیر و وضاحت ہے جو پہلی حدیث میں گزر چکی ہے یعنی آیت (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ)  60۔ الممتحنہ:12)

 حدیث کے آخری جزء کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ بیعت، ہاتھ میں ہاتھ لے کر یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر لی جاتی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں سے زبانی بیعت لیتے تھے یعنی ان سے یہ فرماتے تھے کہ  میں نے تمہاری بیعت قبول کی۔  اس سے معلوم ہوا کہ بعض مشائخ عورتوں سے بیعت لینے کا جو یہ طریقہ اختیار کر تے ہیں کہ مرید کر تے وقت کسی برتن میں رکھے ہوئے پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں اور وہ عورت بھی اپنا ہاتھ اس پانی میں ڈالتی ہے، یا بعض حضرات یہ کرتے ہیں کہ کسی کپڑے کا ایک آنچل اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہیں اور دوسرا آنچل عورت پکڑ لیتی ہے، تو اس طرح کے تکلّفات کی ضرورت نہیں بلکہ جو طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے اسی پر اکتفا کرنا افضل و احسن ہے۔

مؤلف کتاب نے بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں  باب الصلح  میں اس لئے نقل کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابہ کرام سے بیعت لینے کا مرحلہ بھی آیا تھا جو  بیعت الرضوان  کے نام سے مشہور ہے اور جس کو قرآن کریم نے بھی اس آیت (لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ) 48۔ الفتح:18) میں بیان کیا ہے اسی مناسبت سے عورتوں کی بیعت سے متعلّق اس حدیث کو یہاں نقل کیا گیا ہے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر عورتوں سے بیعت نہیں لی گئی تھی۔

معاہدۂ حدیبیہ کی کچھ اور دفعات

حضرت مسور اور حضرت مروان سے روایت ہے کہ قریش مکہ نے (حدیبیہ میں) جن باتوں پر مصالحت کی تھی ان میں سے ایک بات (یہ بھی) تھی کہ دس سال تک (فریقین کے درمیان) کوئی جنگ نہیں ہو گی تاکہ ان دنوں میں لوگ امن و امان کے ساتھ رہیں۔ یہ بات بھی معاہدہ صلح میں شامل تھی ہمارے درمیان بندھی ہوئی گٹھری رہے اور یہ کہ ہم آپس میں نہ تو چھپی ہوئی چوری کریں اور نہ خیانت۔  (ابو داو'د)

 

تشریح

 

 بندھی ہوئی گٹھری  سے مراد یہ تھی کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے لئے اپنے سینوں کو مکر و فریب، کینہ و عداوت اور شر و فساد سے پاک رکھیں اور صلح و وفا کا ہر وقت خیال رکھیں۔ ' نہ چھپی ہوئی چوری کریں اور نہ خیانت  کا مطلب یہ تھا کہ ہر فریق اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کا کوئی فرد دوسرے فریق کے کسی فرد کا کوئی مال اور اس کی کوئی چیز نہ تو چوری چھپے ہتھیائے اور نہ کھلم کھلا غصب کرے۔

غیر مسلموں سے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی نہ کر نے والوں کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا انتباہ

معاہدۂ حدیبیہ کی کچھ اور دفعات

اور حضرت ابن صفوان ابن سلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کچھ صحابہ کے صاحبزادوں سے، وہ (صاحبزادے) اپنے (صحابی) باپوں سے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یاد رکھو  جس شخص نے اس (غیر مسلم) شخص پر ظلم کیا جس سے معاہدہ ہو چکا ہے (جیسے ذمی اور مستامن) یا اس کے حقوق کو نقصان پہنچایا، یا اس پر اسکی طاقت و استطاعت سے زیادہ بار ڈالا (جیسے کسی ذمی سے اس کی حیثیت و استطاعت سے زیادہ جزیہ لیا یا اس حربی مستامن سے جو دارالاسلام میں تجارت کی غرض سے آیا ہو اس کے مال تجارت میں سے عشر یعنی دسویں حصے سے زیادہ لیا) اور یا اس کی مرضی و خوشنودی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں قیامت کے دن اس شخص کے خلاف احتجاج کروں گا۔  (ابو داو'د)

عورتوں کی اجتماعی بیعت کا مسنون طریقہ

اور حضرت امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کچھ عورتوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی (یعنی ہم چند عورتوں نے اجتماعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی) چنانچہ (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ (اے خواتین !میں نے تمہیں اسی چیز پر بیعت کیا ہے) جس (پر عمل کرنے) کی طاقت و استطاعت رکھتی ہو (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے از راہ شفقت ان عورتوں کی بیعت کو ان کی عملی استطاعت و ہمّت تک محدود رکھا)۔  میں نے کہا کہ (بے شک) اپنی ذات پر ہم خود مہر بان اور رحم دل ہو سکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمارے حق میں اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم رحم کرنے والے ہیں اور پھر میں نے عرض کیا کہ '' یا رسول اللہ ! ہمیں بیعت کر لیجئے ۔ اس بات سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم سے مصافحہ کیجئے یعنی بیعت کرتے وقت ہمارا ہاتھ اپنے دست مبارک میں پکڑیئے۔  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میرا سب عورتوں سے کچھ کہنا ایک عورت سے کہہ دینے کی طرح ہے، یعنی اوّل تو عورتوں کو بیعت کرتے وقت صرف زبان سے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے تمہیں بیعت کیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوم یہ کہ اگر کچھ عورتیں اجتماعی طور پر بیعت ہو رہی ہوں تو زبان سے یہ کہنے کے لئے بھی الگ الگ ہر عورت سے مخاطب ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف ایک عورت سے کہہ دینا سب عورتوں کے لئے کافی ہے۔ 

 

تشریح

 

 مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ کو اس حدیث کے مآخذ کی تحقیق نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن حاشیہ میں بعض شارحین نے یہ عبارت لکھ دی ہے کہ رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ ومالک فی الموطا کلہم من حدیثی محمد بن المنکدر انہ سمع من ائمۃالحدیث و قال الترمذی حدیث حسن صحیح لایعرف الاّ من حدیث ابن المنکدر۔

معاہدۂ حیبیہ کی کتابت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلم سے

حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ماہ ذیقعدہ (٦ھ) میں عمرہ کے لئے (مدینہ سے) تشریف لے گئے مگر اہل مکہ نے اس سے انکار کر دیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ میں داخل ہونے کا موقع دے دیں (یعنی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ میں آنے سے روک دیا) تا آنکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ سے اس بات پر مصالحت کر لی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (آئندہ سال) مکہ میں آئیں اور اس وقت بھی (صرف) تین دن مکہ میں قیام کریں، چنانچہ جب صلح نامہ لکھا گیا تو (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے) صحابہ کرام نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی اس طرح لکھا کہ  یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصالحت کی ہے اہل مکہ نے (یہ الفاظ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا  ہم تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کر تے اگر ہمارا علم یہ ہوتا (یعنی ہمیں اس پر اعتقاد ہوتا) کہ تم اللہ کے رسول ہو تو ہم تمہیں (مکہ میں داخل ہونے سے) روکتے ہی کیوں، البتہ (ہم تو صرف اتنا مانتے ہیں کہ) تم محمد ہو جو عبداللہ کے بیٹے ہیں، لہٰذا اس صلح نامہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھو)۔  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں (یہ محض تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو میری یہ دونوں صفتیں یعنی اللہ کا رسول ہونا اور محمد ابن عبداللہ ہونا آپس میں اس طرح لازم ملزوم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتیں، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں کو ذکر کیا جائے یا ایک ہی کو ذکر کر دیا جائے)  پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا (جو صلح نامہ لکھ رہے تھے) کہ  رسول اللہ لفظ کو ہٹا دو۔  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ  خدا کی قسم ! میں تو آپ کا نام کبھی بھی نہیں مٹا سکتا۔  (یہ سن کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت علی کے ہاتھ سے وہ صلح نامہ) لے لیا اور باوجود یکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (رسول اللہ کا لفظ مٹا کر) یہ لکھا کہ  یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ابن عبداللہ نے مصالحت کی ہے (اور اس معاہدہ میں یہ شرطیں تھیں) کہ وہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ) مکہ میں ہتھیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے الاّ یہ کہ ان کی تلواریں نیاموں میں ہوں، اور یہ کہ اگر اہل مکہ میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کرے تو اس کو مکہ سے جانے نہیں دیا جائے گا (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں آئیں اور پھر واپس جانے لگیں تو اہل مکہ میں سے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے کر نہ جائیں) اور یہ کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کوئی شخص مکہ میں ٹھہر جانے کا ارادہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو (مکہ میں ٹھہرنے سے) منع نہیں کریں گے۔  چنانچہ جب (اگلے سال) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں تشریف لائے اور (مکّہ میں ٹھہر نے کی تین دن کی) وہ مدت (جو معاہدہ صلح میں طے پائی تھی) گزر گئی (یعنی تین دن پورے ہونے کو ہوئے) تو اہل مکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ  تم اپنے سردار (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) سے کہو کہ (طے شدہ) مدت پوری ہو گئی ہے اب ہمارے شہر سے چلے جاؤ۔  چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے روانہ ہو گئے۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لفظ کو مٹانے سے جو انکار کیا گویا وہ یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم بطریق وجوب نہیں ہے ورنہ وہ ہر گز انکار نہ کر تے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ انکار نہیں تھا بلکہ عین اتباع کے درجہ کی چیز تھی کیونکہ اس انکار کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں وہ غایت محبت اور انتہائی عقیدت تھی جو حضرت علی کرام اللہ وجہ کی واحد سرمایہ روح و جان بھی تھی اور ان کی کائنات تسلیم و رضاء بھی، آخر وہ کس دل سے یہ گوارہ کر سکتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس سب سے بڑی حقیقت کو مٹا دیں جس کو صفحہ قرطاس پر انہیں کے قلم نے الفاظ کی صورت میں مرتسم کیا تھا اور جس کی ابدی سچائی کو دنیا بھر کے قلب و ذہن میں راسخ کرنا ہی انکا حاصل ایمان بھی تھا اور مقصد حیات بھی۔

یہ بات علماء کے درمیان اختلافی نوعیت کی ہے کہ اس صلح نامہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود لکھا تھا جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ صلح نامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود قطعاً نہیں لکھا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لکھ ہی سکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو  امی  فرمایا ہے اور امی وہی شخص ہوتا ہے جو نہ لکھ سکے اور نہ پڑھ سکے۔ جب کہ دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس صلح نامہ کو لکھنا ایک حقیقت ہے کیونکہ اگرچہ آپ کو نبی امی فرمایا گیا ہے لیکن جب آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک شبہات ختم ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول اللہ ہونے کے دلائل روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنے پر قادر کر دیا، اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا لکھنا بطریق معجزہ کے تھا۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم ان حضرات کی دلیل ہے۔

لیکن اوّل الذکر حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھا  سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کرام اللہ وجہ کو لکھنے کا حکم دیا اور یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شہر کو تعمیر کیا۔ ظاہر ہے اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے شہر کو تعمیر کیا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ نے اس شہر کو تعمیر کرنے کا حکم دیا۔