حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ اللَّهُ، يَقُولُ اللَّهُ: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزے کے اس لیے کہ وہ میرے لیے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت، اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث وکیع عن الأعمش قد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۰ (۱۱۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۲۰)، وحدیث أبي معاویہ عن الأعمش قد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۰ (۱۱۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۴۷۰)، مسند احمد (۲/۲۳۲، ۲۵۷، ۲۶۶، ۲۷۳، ۲۹۳، ۳۵۲، ۴۴۳، ۴۴۵، ۴۷۵، ۴۷۷، ۴۸۰، ۵۰۱)، سنن الدارمی/ الصوم ۵۰ (۱۸۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کے سوا دوسری نیکیوں کا ثواب معین اور معلوم ہے، یا ان کا ثواب دینا فرشتوں کو سونپ دیا گیا ہے اور روزے کا ثواب اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے علم میں رکھا ہے، اور وہ خود ہی قیامت کے دن روزہ دار کو عنایت فرمائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اور نیکیوں میں ریا کی گنجائش ہے، روزہ ریا سے پاک ہے، آدمی اسی وقت روزہ رکھے گا اور حیوانی و نفسانی خواہشات سے اسی وقت باز رہے گا جب اس کے دل میں اللہ تعالی کا ڈر ہو گا، ورنہ روزہ نہ رکھے گا اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرے گا۔ «خلوف» سے مراد وہ بو ہے جو سارے دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، أَنَّمُطَرِّفًا مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ حَدَّثَهُ: أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيَّ، دَعَا لَهُ بِلَبَنٍ يَسْقِيهِ، فَقَالَ مُطَرِّفٌ: إِنِّي صَائِمٌ، فَقَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ".
قبیلہ عامر بن صعصعہ کے مطرف نامی ایک فرد بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں پلانے کے لیے دودھ منگایا، تو انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "روزہ جہنم سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں ڈھال ہوتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصیام ۴۳ (۲۲۳۲)، (تحفة الأشراف: ۹۷۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۲، ۲۱۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ يُدْعَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَمَنْ كَانَ مِنَ الصَّائِمِينَ دَخَلَهُ، وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ تو جو روزہ داروں میں سے ہو گا وہ اس دروازے سے داخل ہو گا اور جو اس میں داخل ہو گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۵۵ (۷۶۵)، (تحفة الأشراف: ۴۷۷۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۴ (۱۸۹۶)، بدأالخلق ۹ (۳۲۵۷)، صحیح مسلم/الصوم۳۰ (۱۱۵۲)، کلاھمادون جملة الظمأ، سنن النسائی/الصیام۴۳ (۲۲۳۸)، مسند احمد (۵/۳۳۳، ۳۳۵) (صحیح) («وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا» کا جملہ صحیح نہیں ہے، تراجع الألبانی: رقم: ۳۵۱)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھا، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۲۷ (۳۸)، الصوم ۶ (۱۹۰۱)، التراویح ۱ (۲۰۰۹)، سنن النسائی/قیام اللیل ۳ (۱۶۰۴)، الصوم ۲۲ (۲۱۹۶) الإیمان ۲۱ (۵۰۲۷)، ۲۲ (۵۰۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۵۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۵ (۷۶۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۱)، سنن الترمذی/الصوم ۱ (۶۸۳)، ۸۳ (۸۰۸)، موطا امام مالک/الصلاة في رمضان ۱ (۲)، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۸۱، ۲۸۹، ۴۰۸، ۴۲۳، ۴۷۳، ۴۸۶، ۵۰۳، ۵۲۹، سنن الدارمی/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا، جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا، منادی پکارتا ہے: اے بھلائی کے چاہنے والے! بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ، اور اے برائی کے چاہنے والے! اپنی برائی سے رک جا، کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۱ (۶۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۴۹۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۵ (۱۸۹۸، ۱۸۹۹)، بدأالخلق ۱۱ (۳۶۷۷)، صحیح مسلم/الصوم ۱ (۱۰۷۹)، سنن النسائی/الصیام ۳ (۲۰۹۹)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۹)، مسند احمد (۲/۲۸۱، ۲۸۲، ۳۵۷، ۳۷۸، ۴۰۱)، سنن الدارمی/الصوم ۵۳ (۱۸۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہی وجہ ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ جاتی ہے، اور وہ اس میں تلاوت قرآن، ذکر و عبادت اور توبہ و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنے لگتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۲۳۳۵، ومصباح الزجاجة: ۵۹۷) (حسن صحیح) (حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب: ۹۹۱ - ۹۹۲، صحیح ابن خزیمہ: ۱۸۸۳)
حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ مہینہ آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعی) محروم ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۴، ومصباح الزجاجة: ۵۹۸) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَمَّارٍ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ، فَأُتِيَ بِشَاةٍ فَتَنَحَّى بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ عَمَّارٌ: "مَنْ صَامَ هَذَا الْيَوْمَ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک والے دن میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی بعض لوگ اس کو دیکھ کر الگ ہو گئے، (کیونکہ وہ روزے سے تھے) عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۱ (۱۹۰۶)، (تعلیقا) سنن ابی داود/الصوم ۱۰ (۲۳۳۴)، سنن الترمذی/الصوم ۳ (۶۸۶)، سنن النسائی/الصیام ۲۰ (۲۱۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۵۴) وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم ۱ (۱۷۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شک والے دن سے مراد ۳۰ شعبان کا دن ہے یعنی بادلوں کی وجہ سے ۲۹ ویں کو چاند نظر نہ آیا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن اسی وجہ سے اسے شک کا دن کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَعْجِيلِ صَوْمِ يَوْمٍ قَبْلَ الرُّؤْيَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۳۳۹، ومصباح الزجاجة: ۵۹۹) (صحیح) (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، صحیح ابو داود: ۲۰۱۵)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَبْلَ شَهْرِ رَمَضَانَ: "الصِّيَامُ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، وَنَحْنُ مُتَقَدِّمُونَ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَتَقَدَّمْ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيَتَأَخَّرْ".
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما منبر پر کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے پہلے منبر پر فر مار ہے تھے: "روزہ فلاں فلاں دن شروع ہو گا، اور ہم اس سے پہلے سے روزہ رکھنے والے ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے پہلے سے روزہ رکھے، اور جس کا جی چا ہے مؤخر کرے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۳۶، ومصباح الزجاجة: ۶۰۰) (ضعیف) (سند میں ھیثم بن حمید ضعیف ہے، نیز (۱۶۵۰) نمبر پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے یہ مخالف ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی رمضان کا دن آ جائے تب روزہ شروع کرے، واضح رہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، مسئلہ کے لیے حدیث نمبر (۱۶۵۰) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۳۷ (۷۳۶)، سنن النسائی/الصیام ۱۹ (۲۱۷۸)، ۷۰ (۲۳۵۴، ۲۳۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۳۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۱۱ (۲۳۳۶)، مسند احمد (۶/۳۰۰، ۳۱۱)، سنن الدارمی/الصوم ۳۳ (۱۷۸۰) (صحیح) (ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۲۰۲۴)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْغَازِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَتْ: "كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ حَتَّى يَصِلَهُ بِرَمَضَانَ".
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصیام ۴۴ (۷۴۵ مختضراً)، سنن النسائی/الصیام ۱۹ (۲۱۸۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۸۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۵۲ (۹۷۰)، صحیح مسلم/الصیام ۳ (۱۰۸۲)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۶)، مسند احمد (۶/۸۰، ۸۹، ۱۰۶) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۷۳۹) (حسن صحیح) (صحیح أبی داود: ۲۱۰۱)
وضاحت: ۱؎: پورے شعبان روزے رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ شعبان میں روزے زیادہ رکھتے تھے کیونکہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں،اور آپ کو یہ بات بےحد پسند تھی کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبٍ، وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَقَدَّمُوا صِيَامَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ، إِلَّا رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَيَصُومُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصوم ۳۱ (۲۱۷۱، ۲۱۷۲)، ۳۸ (۲۱۸۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۹۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۴ (۱۹۱۴)، صحیح مسلم/الصوم ۳ (۱۰۸۲)، سنن ابی داود/الصوم ۱۱ (۲۳۳۵)، سنن الترمذی/الصوم ۲ (۶۸۵)، مسند احمد (۳/۲۳۴، ۳۴۷، ۴۰۸، ۴۳۸، ۷ ۷ ۴، ۴۹۷، ۵۱۳)، سنن الدارمی/الصوم ۴ (۱۷۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مثلاً پہلے سے جمعرات یا سوموار (پیر) کے روزے رکھنے کا معمول ہو، اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھے کیونکہ یہ روزہ رمضان کے استقبال کے لیے نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ . ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا صَوْمَ حَتَّى يَجِيءَ رَمَضَانُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۱۲ (۲۳۳۷)، سنن الترمذی/الصوم ۳۸ (۷۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۵۱، ۱۴۰۹۵)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم ۳۴ (۱۷۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ بات عام امت کے لئے ہے، نبی اکرم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے کیونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لئے روزہ آپ کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے روزوں کے لئے برقرار رہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبْصَرْتُ الْهِلَالَ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: "أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "قُمْ يَا بِلَالُ فَأَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: هَكَذَا رِوَايَةُ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، فَلَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَقَالَ: فَنَادَى أَنْ يَقُومُوا، وَأَنْ يَصُومُوا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے کہا: رات میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں"؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے بلال اٹھو، اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ لوگ کل روزہ رکھیں"۔ ابوعلی کہتے ہیں: ایسے ہی ولید بن ابی ثور اور حسن بن علی کی روایت ہے، اس کو حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا اور کہا: تو بلال رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ لوگ قیام اللیل کریں(یعنی صلاۃ تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۱۴ (۲۳۴۰، ۲۳۴۱)، سنن الترمذی/الصوم ۷ (۶۹۱)، سنن النسائی/الصوم ۶ (۲۱۱۵)، (تحفة الأشراف: ۶۱۰۴)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم ۶ (۱۷۳۴) (ضعیف) (سند میں سماک ہیں جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيعُمُومَتِي مِنَ الْأَنْصَارِ، مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: أُغْمِيَ عَلَيْنَا هِلَالُ شَوَّالٍ فَأَصْبَحْنَا صِيَامًا، فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ، فَشَهِدُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ، "فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُفْطِرُوا، وَأَنْ يَخْرُجُوا إِلَى عِيدِهِمْ مِنَ الْغَدِ".
ابوعمیر بن انس بن مالک کہتے ہیں کہ میرے انصاری چچاؤں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہمارے اوپر شوال کا چاند مشتبہ ہو گیا تو اس کی صبح ہم نے روزہ رکھا، پھر شام کو چند سوار آئے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روزہ توڑ دیں اور دوسرے دن صبح عید کے لیے نکلیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۵۵ (۱۱۵۷)، سنن النسائی/صلاة العیدین ۱ (۱۵۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۵۷، ۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کے چاند کے لئے دو آدمیوں کی شہادت ضروری ہے، اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ اگر شوال کے چاند کے دن یعنی رمضان کی ۲۹ تاریخ کو بادل ہو تو تیس دن پورے کرے جب تک چاند ثابت نہ ہو، جیسا کہ آگے آنے والی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَصُومُ قَبْلَ الْهِلَالِ بِيَوْمٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو" ۱؎۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۸۰۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۵ (۱۹۰۰)، ۱۱ (۱۹۰۸)، صحیح مسلم/الصوم ۲ (۱۰۸۱)، سنن ابی داود/الصوم ۴ (۲۳۲۰)، سنن النسائی/الصوم ۷ (۲۱۲۲)، موطا امام مالک/الصیام ۱ (۱) مسند احمد (۲/۵، ۵/۵، ۱۳، ۶۳، ۱۴۵)، سنن الدارمی/الصوم ۲ (۱۷۲۶) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: ۴/۱۰ و صحیح أبی داود: ۲۰۰۹)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں چاند دیکھنا ضروری ہے محض فلکی حساب کافی نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقہ والوں کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں تو اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ بحث کا موضوع بنا رہتا ہے، اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے: اگر کسی جگہ چاند نظر آ جائے تو کیا سارے مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس رویت کی بنا پر روزہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں یا ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے ملک کے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعتبار کریں، اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (۱) جمہور اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بھی داخل ہیں کے نزدیک اگر ایک شہر میں چاند نکل آئے تو ہر جگہ کے لوگ اس کے مطابق روزہ رکھیں، اور چھوڑیں، یعنی ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی ہو گی، اس لیے کہ حدیث میں وارد «صوموا» اور «أفطروا» کا حکم عام ہے، اس کے مخاطب دنیا کے تمام مسلمان ہیں، ان کے نزدیک رویت ہلال میں مطالع کے اتفاق اور اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ (۲) علماء کی ایک جماعت جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کے نزدیک رویت ہلال کے مسئلے میں اختلاف مطالع مؤثر اور معتبر ہے، زیر نظر حدیث میں جو حکم ہے وہ ان لوگوں کے لیے جن کے یہاں ہلال نظر آ گیا ہے، لیکن جہاں چاندنظر ہی نہیں آیا تو ان کے لیے یہ حکم اس وقت مؤثر ہو گا جب چاند نظر آئے جا ئے گا جیسے صوم و صلاۃ کے اوقات میں ہر جگہ کے طلوع اور غروب کا اعتبار ہے، ایسے ہی چاند کی رویت میں بھی اختلاف مطالع مؤثر ہے، اس لیے ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کے لئے کافی نہیں، اس حدیث کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، اور جن علاقے کے مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں، اس لیے ہر علاقے کے لیے اپنی اپنی الگ الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کریں گے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مطالع مختلف ہوتے ہیں، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ لازمی طور پر رکھنا ہو گا، ورنہ اختلاف مطالع کی صورت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہو گا، شافعیہ کا صحیح ترین قول نیز حنبلی مذہب کا ایک قول یہی ہے، اس عقلی دلیل کے ساتھ اختلاف مطالع کے مؤثر ہونے کی نقلی دلیل صحیح مسلم میں آئی ہے: کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند دیکھا آخری مہینہ میں واپس مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا: تم لوگوں نے شام میں کب چاند دیکھا تو میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم لوگوں نے مدینہ میں سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم چاند دیکھ کر روزہ توڑیں گے یا تیس دن پورا کریں گے، اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اس حدیث پر ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مدینہ والوں کی رویت کو معتبر مانا۔ اس مذہب کے قائلین اختلاف مطالع کو جو کہ ایک حقیقت ہے رویت ہلال کے مسئلہ میں معتبر مانتے ہیں، امت میں اس سلسلے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جس کی بنیاد حدیث کے ساتھ ساتھ اختلاف مطالع کو معتبر ماننا بھی ہے۔ کتاب الزلال کے مؤلف فرماتے ہیں: یہ بات یقینی طور پر جان لینی چاہئے صحیح بات جس پر محقق علمائے حدیث و اہل نظر اور فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ رویتِ ہلال میں دیکھا جائے گا کہ جس جگہ رویت ہوئی ہے، وہاں سے دو ہزار دو سو چھبیس (۲۲۲۶) کلومیٹر کے درمیان کی دوری کا حکم اتحاد مطالع کی وجہ سے روزہ رکھنے اور توڑنے میں یکساں ہو گا، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو گی تو اس کا اعتبارصحیح نہیں ہو گا، اور ہر علاقے کا حکم اس کے مطلع کے اختلاف کے مطابق ہو گا، چاہے یہ دوری مشرق و مغرب کی ہو یا شمال و جنوب کی اور چاہے یہ ایک ملک میں ہو یا ایک اقلیم میں، یہ شرعی دلائل اور فلکیاتی حساب کے موافق ہے، اور اس سے سارے اشکالات ختم ہو جاتے ہیں «واللہ اعلم» رویت ہلال سے متعلق سعودی عرب کے کبار علماء کے بورڈ کے متفق علیہ فتوے کا خلاصہ درج ذیل ہے: اختلافِ مطالع ضروری طور پر معلوم و مشہور چیز ہے، جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ہاں علماء کے نزدیک اس کے معتبر ماننے اور نہ ماننے کے درمیان اختلاف ہے، اختلافِ مطالع کو رویت ہلال کے سلسلے میں مؤثر و معتبر ماننا اور نہ ماننا ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے، معتبر اہل علم اور اہل دین کے یہاں اس میں اختلاف رہا ہے، اور یہ جائز قسم کا اختلاف ہے، اہل علم کی اس میں دو رائے ہے، ایک گروہ اختلافِ مطالع کو مؤثر مانتا ہے، اور دوسرے گروہ کے یہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، ہر فریق کا اپنا اپنا استدلال ہے، علماء بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف گوشوں پر غور و خوض کر کے اور یہ مان کر کہ یہ مسئلہ چودہ سال سے امت میں موجود ہے، اس رائے کا اظہار کیا کہ ان گزشتہ صدیوں میں ہمیں کسی ایسے زمانے کا علم نہیں ہے جس میں ایک شہر کی رویت کی بنا پر سب لوگوں نے ایک دن ہی عید منائی ہو، اس لیے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ جیسے ہے ویسے ہی رہنے دیا جائے، ہر اسلامی ملک کو اس بات کا حق ہے کہ ان دونوں میں سے ان کے علماء وفقہاء جس رائے کے مطابق فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے، رہ گیا چاند کا ثبوت فلکیاتی حساب سے تو علماء بورڈ اسے بالاجماع غیر معتبر مانتا ہے، «واللہ اعلم»۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام حدیث نمبر:۵۴۱)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو روزہ توڑ دو، اگر بادل آ جائے تو تیس روزے پورے کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲ (۱۰۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۰۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۱ (۱۹۰۶)، سنن الترمذی/الصوم ۲ (۶۸۴)، سنن النسائی/الصیام ۷ (۲۱۲۰)، مسند احمد (۲/ ۲۵۹، ۲۶۳، ۲۸، ۲۸۷، ۴۱۵، ۴۲۲، ۴۳۰، ۴۳۸، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۹، ۴۹۷)، سنن الدارمی/الصوم ۲ (۱۷۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَمْ مَضَى مِنَ الشَّهْرِ؟"، قَالَ: قُلْنَا: اثْنَانِ وَعِشْرُونَ وَبَقِيَتْ ثَمَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الشَّهْرُ هَكَذَا، وَالشَّهْرُ هَكَذَا، وَالشَّهْرُ هَكَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمْسَكَ وَاحِدَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ میں کتنے دن گزرے ہیں؟" ہم نے عرض کیا: بائیس دن گزرے ہیں اور آٹھ دن باقی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہے، اور تیسری بار ایک انگلی بند کر لی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۵۱، ومصباح الزجاجة: ۶۰۱)، مسند احمد (۲/۲۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے تین بار اشارہ فرمایا، اور تیسری بار میں ایک انگلی بند کرلی تو ۲۹ دن ہوئے، مطلب آپ کا یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو کہا کہ ۲۲ دن گزرے ہیں اور آٹھ دن باقی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہے، ۲۹ دن کا بھی ہوتا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے ایک ماہ کے لئے ایلا کیا تھا، پھر ۲۹ دن کے بعد ان کے پاس آ گئے، اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایک مہینہ تک کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے لئے قسم کھائے تو ۲۹ دن قسم پر عمل کرنا کافی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الشَّهْرُ هَكَذَا، وَهَكَذَا، وَهَكَذَا، وَعَقَدَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فِي الثَّالِثَةِ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہے، تیسری دفعہ میں ۲۹ کا عدد بنایا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۴ (۱۰۸۶)، سنن النسائی/الصیام ۸ (۲۱۳۷، ۲۱۳۸)، (تحفة الأشراف: ۳۹۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "مَا صُمْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہ نسبت ۳۰ دن کے زیادہ تر انتیس دن کے روزے رکھے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۲۲، ومصباح الزجاجة: ۶۰۲) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۲۰۱۱)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ، وَذُو الْحِجَّةِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۲ (۱۹۱۲)، صحیح مسلم/الصوم ۷ (۱۰۸۹)، سنن ابی داود/الصوم ۴ (۲۳۲۳)، سنن الترمذی/الصوم ۸ (۶۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸، ۴۷، ۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں مہینے ۲۹ دن کے نہیں ہوتے، اگر ایک ۲۹ کا ہوتا ہے، تو دوسرا تیس کا، اور بعض نے کہا: مطلب یہ ہے کہ گو ان مہینوں کے دن کم ہوں لیکن اجر و ثواب کم نہیں ہوتا، تیس دن کا ثواب ملتا ہے اور یہی صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي عُمَرَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عید الفطر وہ دن ہے جس میں تم لوگ روزہ توڑ دیتے ہو، اور عید الاضحی وہ دن ہے جس میں تم لوگ قربانی کرتے ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۲۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۵ (۲۳۲۴)، سنن الترمذی/الصوم ۱۱ (۶۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان عید کریں تو ہر ایک کو اس میں شریک ہو جانا چاہئے، جماعت سے الگ رہ کر اپنی عید علیحدہ کرنا اور چاند کی تحقیق میں مبالغہ کرنا ضروری نہیں ہے، ہماری عید جماعت کی عید کے ساتھ پوری ہو جائے گی، اور جس نے جھوٹ بولا یا جھوٹی گواہی دی اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے، اور نہیں بھی رکھا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۳۸ (۱۹۴۸)، صحیح مسلم/الصوم ۱۵ (۱۱۱۳)، سنن النسائی/الصوم ۳۱ (۲۲۹۳)، (تحفة الأشراف: ۶۴۲۵)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۴۲ (۲۴۰۴)، موطا امام مالک/الصیام ۷ (۲۱)، مسند احمد (۱/۲۴۴، ۳۵۰)، سنن الدارمی/الصوم ۱۵ (۱۷۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اختیار ہے چاہے رکھے یا نہ رکھے، اور آگے جو باب آ رہا ہے اس کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلَ حَمْزَةُ الْأَسْلَمِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَصُومُ أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں روزہ رکھتا ہوں تو کیا میں سفر میں بھی روزہ رکھوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر چاہو تو رکھو، اور چاہو تو نہ رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۷ (۱۱۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۸۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۴۲ (۲۴۰۴)، سنن النسائی/الصیام ۳۱ (۲۳۰۸)، ۴۳ (۲۳۸۶)، مسند احمد (۳/۴۹۴)، سنن الدارمی/الصوم ۱۵ (۱۷۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَيَّانَ الدِّمَشْقِيِّ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ، قَالَ: "لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فِي الْيَوْمِ الْحَارِّ الشَّدِيدِ الْحَرِّ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ، وَمَا فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ صَائِمٌ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں سخت گرمی کے دن دیکھا کہ آدمی اپنا ہاتھ گرمی کی شدت کی وجہ سے اپنے سر پر رکھ لیتا، اور لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بھی روزے سے نہ تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۷ (۱۱۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۹۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۳۵ (۱۹۴۵)، سنن ابی داود/الصوم ۴۴ (۲۴۰۹)، مسند احمد (۵/۱۹۴، ۶/۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ".
کعب بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصیام ۲۵ (۲۲۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵ /۴۳۴)، سنن الدارمی/الصوم ۱۵ (۱۷۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۱۱۰، ومصباح الزجاجة: ۶۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى التَّيْمِيُّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَائِمُ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ كَالْمُفْطِرِ فِي الْحَضَرِ".
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں روزہ رکھنے والا ایسا ہے جیسے کہ حضر میں روزہ نہ رکھنے والا"۔ ابواسحاق کہتے ہیں: یہ حدیث کچھ نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۹۷۳۰، ومصباح الزجاجة: ۶۰۴) (ضعیف) (ابوسلمہ کا اپنے والد عبدالرحمن سے سماع نہیں ہے، اور اسامہ بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۴۹۸)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: "ادْنُ فَكُلْ"، قُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: "اجْلِسْ أُحَدِّثْكَ عَنِ الصَّوْمِ، أَوِ الصِّيَامِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلَاةِ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ، وَالْحَامِلِ، وَالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ، أَوِ الصِّيَامَ"، وَاللَّهِ لَقَدْ قَالَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلْتَاهُمَا، أَوْ إِحْدَاهُمَا، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي، فَهَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کے اور علی بن محمد کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عبداللہ بن کعب کے ایک شخص نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار ہمارے اوپر حملہ آور ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ دوپہر کا کھانا تناول فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب آ جاؤ اور کھاؤ" میں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیٹھو میں تمہیں روزے کے سلسلے میں بتاتا ہوں" اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور مسافر، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) سے روزہ معاف کر دیا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں باتیں فرمائیں، یا ایک بات فرمائی، اب میں اپنے اوپر افسوس کرتا ہوں کہ میں نے آپ کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھایا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۴۳ (۲۴۰۸)، سنن الترمذی/الصوم ۲۱ (۷۱۵)، سنن النسائی/الصوم ۲۸ (۲۲۷۶)، ۳۴ (۱۳۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۴۷، ۵/۲۹) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اگر ان کے روزہ رکھنے سے پیٹ کے بچہ کو یا دودھ پینے والے بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ نہ رکھیں، اور بعد میں ان کی قضا کریں۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحُبْلَى الَّتِي تَخَافُ عَلَى نَفْسِهَا أَنْ تُفْطِرَ، وَلِلْمُرْضِعِ الَّتِي تَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا ڈر ہو، اور دودھ پلانے والی عورت کو جسے اپنے بچے کا ڈر ہو، رخصت دی کہ وہ دونوں روزے نہ رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۴۰) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں ربیع بن بدر متروک راوی ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: "إِنْ كَانَ لَيَكُونُ عَلَيَّ الصِّيَامُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَمَا أَقْضِيهِ حَتَّى يَجِيءَ شَعْبَانُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے اوپر رمضان کے روزے ہوتے تھے میں ان کی قضاء نہیں کر پاتی تھی یہاں تک کہ شعبان کا مہینہ آ جاتا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۴۰ (۱۹۵۰)، صحیح مسلم/الصوم ۲۶ (۱۱۴۶)، سنن ابی داود/الصوم ۴۰ (۲۳۹۹)، سنن النسائی/الصیام ۳۶ (۲۳۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۷۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام ۲۰ (۵۴)، مسند احمد (۶/۱۲۴، ۱۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب شعبان کا مہینہ آتا تو نبی اکرم ﷺ بھی اس مہینہ میں بہت روزے رکھتے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قضا کرتیں، اور قضا میں دیر کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ نبی کریم ﷺ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت بہت تھی، پہلے روزے رکھنے سے اندیشہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کو تکلیف ہو گی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّوْمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا تو آپ ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہارة ۹۷ (۱۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۷۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض۲۰ (۳۲۱)، صحیح مسلم/الحیض ۱۵ (۳۳۵)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۵ (۲۶۳)، سنن النسائی/الحیض ۱۷ (۳۸۲)، الصیام ۳۶ (۲۳۲۰)، مسند احمد (۶/۳۲، ۹۷، ۱۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلَكْتُ، قَالَ: "وَمَا أَهْلَكَكَ"، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: لَا أَجِدُهَا، قَالَ: "صُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: لَا أُطِيقُ، قَالَ: "أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: لَا أَجِدُ، قَالَ: "اجْلِسْ"، فَجَلَسَ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أُتِيَ بِمِكْتَلٍ يُدْعَى الْعَرَقَ، فَقَالَ: "اذْهَبْ فَتَصَدَّقْ بِهِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، قَالَ: "فَانْطَلِقْ فَأَطْعِمْهُ عِيَالَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ایک غلام آزاد کرو"، اس نے کہا: میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو"، اس نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ" اس نے کہا: مجھے اس کی بھی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیٹھ جاؤ" وہ بیٹھ گیا، اسی دوران آپ کے پاس کھجور کا ایک ٹوکرا آ گیا، اس ٹوکرے کو «عرق» کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "جاؤ اسے صدقہ کر دو"، اس نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ کوئی اور گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۳۰ (۱۹۳۶)، الہبة ۲۰ (۲۶۰۰)، النفقات ۱۳ (۵۳۶۸)، الأدب ۶۸ (۶۰۸۷)، ۹۵ (۶۱۶۴)، کفارات الأیمان ۲ (۶۷۰۹)، ۳ (۶۷۱۰)، ۴ (۶۷۱۱)، صحیح مسلم/الصوم ۱۴ (۱۱۱۱)، سنن ابی داود/الصوم ۳۷ (۲۳۹۰)، سنن الترمذی/الصوم ۲۸ (۷۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۷۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام ۹ (۲۸)، مسند احمد (۲/۲۰۸، ۲۴۱، ۲۷۳، ۲۸۱، ۵۱۶)، سنن الدارمی/الصوم ۸ (۱۷۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان کا صیام قصداً توڑنے سے ظہار کا سا کفارہ لازم ہے، سبحان اللہ اس شخص کی بھی کیا قسمت تھی کہ روزے کا کفارہ بھی ساقط اور کھجور کا ٹوکرہ مفت ہاتھ آیا، علماء نے کہا ہے کہ یہ اس شخص کے ساتھ خاص تھا اگر دوسرا کوئی رمضان کا روزہ قصداً توڑے تو غلام آزاد کرے، اگر یہ نہ ہو سکے تو تو دو مہینے لگا تار روزے رکھے، اگر یہ نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ٹھہرا رہے جب روزے کی طاقت آ جائے یا مال ملے تو کفارہ ادا کرے، بہر حال اپنے بال بچوں کے کھلا دینے سے کفارے کا ادا ہو جانا اس شخص کے ساتھ خاص تھا، «واللہ اعلم»
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِذَلِكَ، فَقَالَ: "وَصُمْ يَوْمًا مَكَانَهُ".
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ایسے ہی بیان کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی جگہ پر ایک دن کا روزہ رکھ لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۷۶، ومصباح الزجاجة: ۶۰۵)، مسند احمد (۲/۲۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنِابْنِ الْمُطَوِّسِ، عَنْ أَبِيهِ الْمُطَوِّسِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ لَمْ يُجْزِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت کے چھوڑ دے تو اسے پورے سال کے روزے (بھی) کافی نہ ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۳۸ (۲۳۹۶)، سنن الترمذی/الصوم ۲۷ (۷۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۸۶، ۴۴۲، ۴۵۸)، سنن الدارمی/الصوم ۱۸ (۱۷۵۶) (ضعیف) (اس کے راوی ابن المطوس لین الحدیث اور والد مطوس مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: ۴۱۳)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خِلَاسٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَكَلَ نَاسِيًا وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے بھول کر کھا لیا اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کر لے (توڑے نہیں) اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۶ (۱۹۳۳)، سنن الترمذی/الصوم ۲۶ (۷۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۰۳، ۱۴۴۷۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۳ (۱۱۵۵)، سنن ابی داود/الصوم ۳۹ (۲۳۹۸)، مسند احمد (۲/۳۹۵، ۴۲۵، ۴۹۱، ۵۱۳)، سنن الدارمی/الصوم ۲۳ (۱۷۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: "أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ غَيْمٍ، ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ"، قُلْتُ لِهِشَامٍ: أُمِرُوا بِالْقَضَاءِ، قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ ذَلِكَ.
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کر لیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا: پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟، انہوں نے کہا: یہ تو ضروری ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۴۶ (۱۹۵۹)، سنن ابی داود/الصوم ۲۳ (۲۳۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۴۹)، مسند احمد (۶/۳۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی قضا تو کرنا ضروری ہے ایسی حالت میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب دھوکہ سے روزہ کھول ڈالے بعد میں معلوم ہو کہ دن باقی تھا اور سورج نہیں ڈوبا تھا تو قضا لازم آئے گی، لیکن کفارہ لازم نہ ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، وَمُحَمَّدُ ابنا عبيد الطنافسي، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْيَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ، قَالَ: سَمِعْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَرَجَ عَلَيْهِمْ فِي يَوْمٍ كَانَ يَصُومُهُ، فَدَعَا بِإِنَاءٍ فَشَرِبَ"، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ كُنْتَ تَصُومُهُ، قَالَ: "أَجَلْ وَلَكِنِّي قِئْتُ".
فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ایک ایسے دن میں آئے جس میں آپ روزہ رکھا کرتے تھے، آپ نے ایک برتن منگوایا اور پانی پیا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دن تو آپ کے روزے کا ہے؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، لیکن آج میں نے قے کی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۴۱، ومصباح الزجاجة: ۶۰۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۲) (ضعیف) (اس میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ابو مرزوق کا سماع فضالہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کی سند میں انقطاع بھی ہے)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ أَبُو الشَعْثَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَمَنِ اسْتَقَاءَ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے خود بہ خود قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر روزے کی قضاء ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث عبید اللہ عن علی قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۱۹) وحدیث عبید اللہ عن الحکم قد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۳۲ (۲۳۸۰)، سنن الترمذی/الصوم ۲۵ (۷۲۰)، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۹۸)، سنن الدارمی/الصوم ۲۵ (۱۷۷۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل الْمُؤَدِّبُ، عَنِ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مِنْ خَيْرِ خِصَالِ الصَّائِمِ السِّوَاكُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزے دار کی اچھی عادتوں میں سے مسواک کرنا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۰، ومصباح الزجاجة: ۶۰۷) (ضعیف) (اس کی سند میں مجالد ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: روزے دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ نہیں ہے، کسی بھی وقت میں ہو، شروع دن میں یا اخیر دن میں، بلکہ سنت ہے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، بعض لوگوں نے زوال کے بعد مسواک کرنا مکروہ سمجھا ہے اس وجہ سے کہ اس کے ذریعہ منہ کی بو ختم ہو جائے گی، جس کی فضیلت حدیث میں آئی ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ اس بو کا تعلق منہ سے نہیں، بلکہ معدہ سے ہے، جو معدہ کے خالی ہونے کی حالت میں پیدا ہوتی ہے اسی کو عربی میں «خلوف» کہتے ہیں جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو التَّقِيِّ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "اكْتَحَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمہ لگایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۰۶، ومصباح الزجاجة: ۶۰۸) (ضعیف)
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، وَدَاوُدُ بْنُ رَشِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بِشْرٍ، عَنِالْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۴۱۷، ومصباح الزجاجة: ۶۰۹) (صحیح) (عبد اللہ بن بشر کا سماع اعمش سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث تواتر کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے، اور اس بارے میں نص ہے کہ پچھنا (سینگی) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اکثر فقہائے حدیث جیسے احمد، اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ اور ابن المنذر کا یہی مذہب ہے، اور اسی کو محققین علماء جیسے شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم نے اختیار کیا ہے، اور یہ مذہب صحیح اور قیاس کے موافق ہے، حجامت قے کی طرح ہے، اور جب کوئی عمداً قے کرے تو قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور اس حدیث کی تاویل میں ان کے مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ «أفطر الحاجم والمحجوم» کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو افطار کے لیے پیش کر دیا ہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور سینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کہ جب وہ خون چوس رہا ہو تو خون کا قطرہ حلق میں چلا جائے اور روزہ ٹوٹ جائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور ناسخ انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے: «رخص النبي بعد في الحجامة للصائم وكان أنس يحتجم وهو صائم»۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، أَنَّأَبَا أَسْمَاءَ حَدَّثَهُ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۲۸ (۲۳۶۷)، (تحفة الأشراف: ۲۱۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۷، ۲۸۰، ۲۸۲، ۲۸۳)، سنن الدارمی/الصیام ۳۶ (۱۷۷۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ شَدَّادَ بْنَ أَوْسٍ بَيْنَمَا هُوَ يَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ، فَمَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَحْتَجِمُ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ الشَّهْرِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ".
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع میں چل رہے تھے کہ اسی دوران آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو چاند کی اٹھارہویں رات گزر جانے کے بعد پچھنا لگوا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۲۸ (۲۳۶۸)، (تحفة الأشراف: ۴۸۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۵)، سنن الدارمی/الصوم ۲۶ (۱۷۷۱) (صحیح) (سند میں یحییٰ بن أبی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن سابقہ حدیث تقویت پاکر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۴/۶۸/۷۰ و صحیح أبی داود: ۲۰۵۰- ۲۰۵۱)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحج ۳۶ (۱۸۳۵)، سنن الترمذی/الحج ۲۲ (۸۳۹)، (تحفة الأشراف: ۶۴۹۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵)، الصوم ۳۲ (۱۹۳۸)، الطب ۱۲ (۵۶۹۵)، ۱۵ (۵۷۰۰)، صحیح مسلم/الحج ۱۱ (۱۲۰۲)، سنن النسائی/الحج ۹۲ (۲۸۴۹)، مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۶۰، ۲۸۳، ۲۸۶، ۲۹۲، ۳۰۶، ۳۱۵، ۳۳۳، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲، ۳۷۴)، سنن الدارمی/المناسک ۲۰ (۱۸۶۰)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۰۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: صوم اور احرام دونوں حالتوں میں نبی اکرم ﷺ سے بچھنا لگوانا ثابت ہے،صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: «'احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ وَاحْتَجَمَ وَ هُوَ محْرِمٌ» (نبی اکرم ﷺ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کے مہینے میں بوسہ لیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۲ (۱۱۰۶)، سنن ابی داود/الصوم ۳۳ (۲۳۸۳)، سنن الترمذی/الصوم ۳۱ (۷۲۷)، الصوم ۲۱ (۱۷۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۲۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۴ (۱۹۲۸)، موطا امام مالک/الصیام ۶ (۱۸)، مسند احمد (۶/۳۰)، سنن الدارمی/المقدمة ۵۳ (۶۹۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے روزے کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ایسے شخص کے لیے ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو اور جسے اپنے نفس پر قابو نہ ہو اس کے لیے یہ رعایت نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے، اور تم میں سے کون اپنی خواہش پہ ایسا اختیار رکھتا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۲ (۱۱۰۶)، الصوم ۲۱ (۱۷۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۴۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۳ (۱۹۲۷)، سنن ابی داود/الصوم ۳۳ (۲۳۸۳)، سنن الترمذی/الصوم۳۲ (۷۲۹)، موطا امام مالک/الصیام ۶ (۱۸)، مسند احمد (۶/۴۴)، سنن الدارمی/المقدمہ ۵۳ (۶۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۲ (۱۱۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الضِّنِّيِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ مَوْلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ قَبَّلَ امْرَأَتَهُ وَهُمَا صَائِمَانِ؟، قَالَ: قَدْ أَفْطَرَا".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا اس حال میں کہ دونوں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۰، ومصباح الزجاجة: ۶۱۰) وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۶۳) (ضعیف جدا) (سند میں زید بن جبیر ضعیف اور ان کے شیخ ابو یزید الضنی مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: دَخَلَ الْأَسْوَدُ، وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَا: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟، قَالَتْ: "كَانَ يَفْعَلُ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ".
اسود اور مسروق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرتے (ساتھ سوتے) تھے؟، انہوں نے کہا: ہاں، آپ ایسا کرتے تھے، اور آپ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھنے والے آدمی تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۱۲ (۱۱۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۷۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۳ (۱۹۲۷)، سنن الترمذی/الصوم ۳۲ (۷۲۸)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۱ (۷۹۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "رُخِّصَ لِلْكَبِيرِ الصَّائِمِ فِي الْمُبَاشَرَةِ، وَكُرِهَ لِلشَّابِّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بوڑھے روزہ دار کو بیوی سے چمٹ کر سونے کی رخصت دی گئی ہے، لیکن نوجوانوں کے لیے مکروہ قرار دی گئی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۵۷۸، ومصباح الزجاجة: ۶۱۱) (صحیح) (محمد بن خالد ضعیف ہے، اور عطاء بن سائب اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، خالد واسطی نے ان سے اختلاط کے بعد روایت کی، نیز ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۲۰۶۵)
وضاحت: ۱؎: اس میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ جماع نہ کر بیٹھیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْجَهْلَ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَا حَاجَةَ لِلَّهِ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۸ (۱۹۰۳)، سنن ابی داود/الصوم ۲۵ (۲۳۶۲)، سنن الترمذی/الصوم ۱۶ (۷۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۴۳۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۵۲، ۵۰۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ صرف اسی کو مت سمجھو کہ کھانا پانی چھوڑ دیا تو روزہ ادا ہوگیا، بلکہ روزہ کی غرض و غایت اور مقصد یہ ہے کہ خواہشات نفس کو قابو میں رکھے، ہر طرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچے، اور جھوٹ، غیبت،برے کام اور گالی گلوچ سے دور رہے، ورنہ خطرہ ہے کہ روزہ قبول نہ ہو اور یہ سب محنت بے کار ہو جائے، اگر چہ یہ سب باتیں یوں بھی منع ہیں خواہ روزہ ہو یا نہ ہو لیکن روزہ میں اور زیادہ سخت گناہ ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا، اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ ان کو اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۴۷، ومصباح الزجاجة: ۶۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۷۳)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۲ (۲۷۶۲) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کو روزہ اور عبادت کا نور حاصل نہیں ہوتا، اور نہ اس میں لذت و برکت ہوتی ہے بلکہ صوم و صلاۃ ان پر ایک بوجھ اور تکلیف ہے، دن میں بھوکا رہنا اور رات کو جاگنا بس اسی کو وہ کافی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ان کی غلطی ہے، اگر آداب و شروط کے مطابق عبادت کریں تو وہ قبول ہو گی اور اس سے نور و لذت کی نعمت بھی حاصل ہو گی، اور اس وقت ان کو معلوم ہو جائے گا کہ صوم و صلاۃ کا مقصد صرف بھوکا رہنا اور جاگنا نہیں ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہو گئے ہیں جو صوم و صلاۃ کو ظاہری طور سے ادا کر لیتے ہیں، اور خضوع و خشوع مطلق حاصل نہیں کرتے،اگرچہ عوام کے لئے یہ بھی کافی ہے، اور امید ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے قبول کر لے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ، وَلَا يَجْهَلْ، وَإِنْ جَهِلَ عَلَيْهِ أَحَدٌ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو گندی اور فحش باتیں اور جماع نہ کرے، اور نہ ہی جہالت اور نادانی کا کام کرے، اگر کوئی اس کے ساتھ جہالت اور نادانی کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۶۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲ (۱۸۹۴)، ۹ (۱۹۰۴)، صحیح مسلم/الصوم ۳۰ (۱۱۵۱)، سنن ابی داود/الصوم ۲۵ (۲۳۶۳)، سنن الترمذی/الصوم ۵۵ (۷۶۴)، سنن النسائی/الصوم ۲۳ (۲۲۱۸)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۷)، مسند احمد (۲/۲۳۲)، سنن الدارمی/الصوم ۵۰ (۱۸۱۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم۲۰ (۱۹۲۳)، صحیح مسلم/الصوم ۹ (۱۰۹۵)، سنن الترمذی/الصوم ۱۷ (۷۰۸)، سنن النسائی/الصوم ۹ (۲۱۴۸)، مسند احمد (۳/۹۹، ۲۱۵، ۲۲۹، ۲۴۳)، سنن الدارمی/الصوم ۹ (۱۷۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ سحری کھانا مسنون ہے، اور اس میں برکت ہے کیونکہ سحری کھانے سے آدمی کی قوت و توانائی برقرار رہتی ہے، اور وہ پورے دن چاق و چوبند رہتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اسْتَعِينُوا بِطَعَامِ السَّحَرِ عَلَى صِيَامِ النَّهَارِ، وَبِالْقَيْلُولَةِ عَلَى قِيَامِ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دن کے روزے میں سحری کھانے سے مدد لو، اور قیلولہ سے رات کی عبادت میں مدد لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۰۹۷، ومصباح الزجاجة: ۶۱۳) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۲۷۵۸)
وضاحت: ۱؎: دوپہر کے آرام کو قیلولہ کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ"، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟، قَالَ: "قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ کہا: پچاس آیتیں پڑھنے کی مقدار ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ۲۷ (۵۷۵)، الصوم ۱۹ (۱۹۲۱)، صحیح مسلم/الصوم ۹ (۱۰۹۷)، سنن الترمذی/الصوم ۱۴ (۷۰۳، ۷۰۴)، سنن النسائی/الصوم ۱۱ (۲۱۵۷)، (تحفة الأشراف: ۳۶۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۸۶ا، ۱۸۸، ۱۹۲، سنن الدارمی/الصوم ۸ (۱۷۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جتنی دیر میں پچاس آیتیں پڑھی جائیں، اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سحری صبح صادق کے قریب کھاتے تھے اتنا کہ سحری سے فارغ ہو کر نماز فجر کو کھڑے ہوتے، جس کو صبح صادق کی پہچان ہو، اس کے لیے ایسا ہی کرنا سنت ہے، اگر یہ نہ ہو تو صبح سے پاؤ گھنٹہ یا آدھا گھنٹہ پہلے سحری سے فارغ ہو، یہ نہیں کہ آدھی رات کو یا ایک بجے یا دو بجے سحری کرے جیسے ہمارے زمانہ کے عوام کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: "تَسَحَّرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ النَّهَارُ، إِلَّا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری فجر کے طلوع ہو جانے کے وقت کھائی، لیکن ابھی طلوع نہیں ہوئی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصوم ۱۰ (۲۱۵۴)، (تحفة الأشراف: ۳۳۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۹۶، ۴۰۰) (حسن الإسناد)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ لِيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ، وَلِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ، وَلَيْسَ الْفَجْرُ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا، وَلَكِنْ هَكَذَا يَعْتَرِضُ فِي أسْفَلِ َالسَّمَاءِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی کو بلال کی اذان اس کی سحری سے نہ روکے، وہ اذان اس لیے دیتے ہیں کہ تم میں سونے والا (سحری کھانے کے لیے) جاگ جائے، اور قیام (یعنی تہجد پڑھنے) والا اپنے گھر چلا جائے، اور فجر اس طرح سے نہیں ہے، بلکہ اس طرح سے ہے کہ وہ آسمان کے کنارے عرض (چوڑان) میں ظاہر ہوتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۳ (۶۲۱)، الطلاق ۲۴ (۵۲۹۸)، أخبارالآحاد ۱ (۷۲۴۷)، صحیح مسلم/الصوم ۸ (۱۰۹۲)، سنن ابی داود/الصوم ۱۷ (۲۳۴۷)، سنن النسائی/الأذان ۱۱ (۶۴۲)، (تحفة الأشراف: ۹۳۷۵)، مسند احمد (۱/۳۸۶، ۳۹۲، ۴۳۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور جو لمبی دھاری بھیڑئے کی دم کی طرح آسمان پر ظاہر ہوتی ہے وہ صبح کاذب ہے اس کا اعتبار نہیں ہے، اس وقت کھانا پینا جائز ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ظاہر ہو جائے جو مشرق (پورب) کی طرف آسمان کے کنارے عرض (لمبائی) میں ظاہر ہوتی ہے، یہ سورج کی روشنی ہے اسی کو پو پھٹنا کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْإِفْطَارَ".
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے، ہمیشہ خیر میں رہیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۹ (۱۰۹۸)، (تحفة الأشراف: ۴۷۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۴۵ (۱۹۵۷)، سنن الترمذی/الصوم ۱۳ (۶۹۹)، موطا امام مالک/الصیام ۳ (۶)، سنن الدارمی/الصوم ۱۱ (۱۷۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں دیر نہ کریں گے تو ہمیشہ خیر میں رہیں گے، یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت سے پہلے ہی روزہ کھول دیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ، عَجِّلُوا الْفِطْرَ فَإِنَّ الْيَهُودَ يُؤَخِّرُونَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ہمیشہ خیر میں رہیں گے، تم لوگ افطار میں جلدی کرو اس لیے کہ یہود اس میں دیر کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۹۰، ومصباح الزجاجة: ۶۱۴)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم۲۰ (۲۳۵۳)، مسند احمد (۲/۴۵۰) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى الْمَاءِ فَإِنَّهُ طَهُورٌ".
سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، اور اگر اسے کھجور نہ ملے تو پانی سے افطار کرے، اس لیے کہ وہ پاکیزہ چیز ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۲۱ (۲۳۵۵)، سنن الترمذی/الصوم ۱۰ (۶۹۵)، (تحفة الأشراف: ۴۴۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۸، ۲۱۴)، سنن الدارمی/الصوم ۱۲ (۱۷۴۳) (ضعیف) (رسول اکرم ﷺ کا عمل صحیح و ثابت ہے، اور قول ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم: ۱۳۲)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْقَطَوَانِيُّ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کا روزی نہیں جو رات ہی میں اس کی نیت نہ کر لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۷۱ (۲۴۵۴)، سنن الترمذی/الصوم ۳۳ (۷۳۰)، سنن النسائی/الصیام ۳۹ (۲۳۳۳،)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۰۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام۲ (۵)، مسند احمد (۶/۲۷۸)، سنن الدارمی/الصوم ۱۰ (۱۷۴۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: روزہ دار کے لیے رات میں نیت کرنے کا یہ حکم فرض اور قضا و کفارہ کے روزے کے سلسلہ میں ہے، نفلی صیام کے لئے رات میں نیت ضروری نہیں جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو نیچے آگے رہی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟"، فَنَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: "إِنِّي صَائِمٌ"فَيُقِيمُ عَلَى صَوْمِهِ، ثُمَّ يُهْدَى لَنَا شَيْءٌ فَيُفْطِرُ، قَالَتْ: وَرُبَّمَا صَامَ وَأَفْطَرَ، قُلْتُ: كَيْفَ ذَا؟، قَالَتْ: إِنَّمَا مَثَلُ هَذَا، مَثَلُ الَّذِي يَخْرُجُ بِصَدَقَةٍ فَيُعْطِي بَعْضًا وَيُمْسِكُ بَعْضًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور پوچھتے: "کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے"؟ ہم کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: "میں روزے سے ہوں"، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۷۸)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۲ (۱۱۵۴)، سنن ابی داود/الصوم ۷۲ (۲۴۵۵)، سنن الترمذی/الصوم ۳۵ (۷۳۴)، سنن النسائی/الصوم ۳۹ (۲۳۲۷)، مسند احمد (۶/۴۹، ۲۰۷) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دعوت ہو یا عمدہ کھانا سامنے آ جائے، یا کوئی دوست کھانے کے لئے اصرار کرے تو نفلی روزہ توڑ ڈالے، یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْيَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: "لَا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، مَا أَنَا قُلْتُ: مَنْ أَصْبَحَ وَهُوَ جُنُبٌ فَلْيُفْطِرْ، مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رب کعبہ کی قسم! یہ بات کہ کوئی جنابت کی حالت میں صبح کرے تو روزہ توڑ دے، میں نے نہیں کہی بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۸۳، ومصباح الزجاجة: ۱۷۰۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۲ (۱۹۲۶)، صحیح مسلم/الصیام ۱۳ (۱۱۰۹)، موطا امام مالک/الصیام ۴ (۹)، مسند احمد (۲/۲۴۸، ۲۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حکم یا تو منسوخ ہے یا مرجوح کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں ہے کہ رسول اللہﷺ کو فجر پا لیتی اور آپ اپنی بیوی سے جماع کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے نہ کہ احتلام کی وجہ سے، پھر طلوع فجر کے بعد غسل کرتے اور روزہ رکھتے تھے، اور صحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ نبی اکرم ﷺ کے خصائص میں سے نہیں ہے، اور صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو انھوں نے اس سے رجوع کر لیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبِيتُ جُنُبًا، فَيَأْتِيهِ بِلَالٌ فَيُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ، فَأَنْظُرُ إِلَى تَحَدُّرِ الْمَاءِ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَأَسْمَعُ صَوْتَهُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ"، قَالَ مُطَرِّفٌ: فَقُلْتُ لِعَامِرٍ: أَفِي رَمَضَانَ؟، قَالَ: رَمَضَانُ وَغَيْرُهُ سَوَاءٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے، میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں نماز فجر میں آپ کی آواز سنتی۔ مطرف کہتے ہیں: میں نے عامر سے پوچھا: کیا ایسا رمضان میں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲۲ (۱۹۲۵)، صحیح مسلم/الصوم ۱۳ (۱۱۰۹)، سنن ابی داود/الصوم ۳۶ (۲۳۸۸)، سنن الترمذی/الصوم ۶۳ (۷۷۹)، موطا امام مالک/الصیام ۴ (۱۱)، مسند احمد (۱/۲۱۱، ۶/۳۴، ۳۶، ۳۸، ۲۰۳، ۲۱۳، ۲۱۶، ۲۲۹، ۲۶۶، ۲۷۸، ۲۸۹، ۲۹۰، ۳۰۸)، سنن الدارمی/الصوم ۲۲ (۱۷۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنِ الرَّجُلِ يُصْبِحُ وَهُوَ جُنُبٌ يُرِيدُ الصَّوْمَ؟، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنَ الْوِقَاعِ لَا مِنِ احْتِلَامٍ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ وَيُتِمُّ صَوْمَهُ".
نافع کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو جنابت کی حالت میں صبح کرے، اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہو؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرتے تھے، اور آپ کی جنابت جماع سے ہوتی نہ کہ احتلام سے، پھر غسل کرتے اور اپنا روزہ پورا کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو دَاوُدَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ الْأَبَدَ فَلَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ".
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے نہ تو روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصیام ۴۲ (۲۳۸۲)، (تحفة الأشراف: ۵۳۵۰)، مسند احمد (۴/۲۵)، سنن الدارمی/الصوم ۳۷ (۱۷۸۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الْمَكِّيِّ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۰ (۱۱۵۳)، الصیام ۵۷ (۱۹۷۷)، ۵۹ (۱۹۷۹)، أحادیث الأنبیاء ۳۵ (۳۴۱۹)، صحیح مسلم/الصوم ۳۵ (۱۱۵۹)، سنن الترمذی/الصیام ۵۷ (۷۷۰)، سنن النسائی/الصیام ۴۱ (۲۳۷۹)، (تحفة الأشراف: ۸۶۳۵)، وقد أخرجہ: ۲/۱۶۴، ۱۸۸، ۱۹۰، ۱۹۵، ۲۱۲، ۳۲۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِصِيَامِ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ، وَيَقُولُ: هُوَ كَصَوْمِ الدَّهْرِ، أَوْ كَهَيْئَةِ صَوْمِ الدَّهْرِ".
منہال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام بیض کے روزہ کے رکھنے کا حکم دیتے تھے یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں تاریخ کے روزے کا، اور فرماتے: "یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے مثل ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۶۸ (۲۴۴۹)، سنن النسائی/الصیام ۵۱ (۲۴۳۲، ۲۴۳۳، ۲۴۳۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۵، ۵/۲۷، ۲۸) (صحیح لغیرہ)
وضاحت: ۱؎: ایام بیض کے روزے سے مراد ہجری مہینوں کی تیرھویں چودھویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں انھیں ایام بیض اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان تاریخوں کی راتیں روشن ہوتی ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قَتَادَةَ بْنِ مَلْحَانَ الْقَيْسِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، قَالَ ابْن مَاجَةَ: أَخْطَأَ شُعْبَةُ، وَأَصَابَ هَمَّامٌ.
اس سند سے بھی قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں شعبہ نے غلطی کی ہے، اور ہمام نے صحیح طرح سے روایت کی ہے،"عبدالملک بن منہال" کے بجائے صحیح عبدالملک بن قتادہ بن ملحان ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160 فَالْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ہر مہینہ تین دن روزہ رکھا تو گویا اس نے ہمیشہ روزہ رکھا" اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی: «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» (جو کوئی ایک نیکی کرے اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی) تو ایک روزے کے دس روزے ہوئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۵۴ (۷۶۲)، سنن النسائی/الصیام ۵۰ (۲۴۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۶۷)، مسند احمد (۵/۱۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، قُلْتُ: مِنْ أَيِّهِ؟، قَالَتْ: "لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّهِ كَانَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے، معاذہ عدویہ کہتی ہیں: میں نے پوچھا: کون سے تین دنوں میں؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروا نہیں کرتے تھے جو بھی تین دن ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۶ (۱۱۶۰)، سنن ابی داود/الصوم ۷۰ (۲۴۵۳)، سنن الترمذی/الصوم ۵۴ (۷۶۳)، سنن النسائی/الصوم ۵۱ (۲۴۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَعَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَتْ: "كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ، وَلَمْ أَرَهُ صَامَ مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے ہی رکھتے جائیں گے، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور میں نے آپ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ سوائے چند روز کے پورے شعبان روزے رکھتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۴ (۱۱۵۶)، سنن النسائی/الصوم ۱۹ (۲۱۷۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۲۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۵۲ (۱۹۶۹)، سنن ابی داود/الصوم ۵۹ (۲۴۳۴)، سنن الترمذی/الصوم ۳۷ (۷۳۶)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۶)، مسند احمد (۶/۳۹، ۸۰، ۸۴، ۸۹، ۱۰۷، ۱۲۸، ۱۴۳، ۱۵۳، ۱۶۵، ۱۷۹، ۲۳۳، ۲۴۲، ۲۴۹، ۲۶۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شعبان کے مہینے میں آپ ﷺ کے کثرت سے روزے رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینے میں انسان کے اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں، تو آپ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آپ کے اعمال اللہ کے پاس حالت روزے میں پیش ہوں، اور چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے یہ روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتے تھے اس لیے پندرہویں شعبان کے بعد بھی آپ کے لیے روزہ رکھنا جائز تھا، اس کے برخلاف امت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزے نہ رکھے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ، وَمَا صَامَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا إِلَّا رَمَضَانَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے چھوڑیں گے ہی نہیں، اور روزے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم یہ کہتے کہ آپ روزے رکھیں گے ہی نہیں، اور جب سے آپ مدینہ آئے آپ نے رمضان کے سوا کسی بھی مہینے کا روزہ لگاتار نہیں رکھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۵۳ (۱۹۷۱)، صحیح مسلم/الصوم ۳۴ (۱۱۵۷)، سنن الترمذی/الشمائل ۴۲ (۲۸۳)، سنن النسائی/الصیام ۴۱ (۲۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۵۴۴۷)، مسند احمد (۱/۲۲۷، ۲۳۱، ۲۴۱، ۳۰۱، ۳۲۱)، سنن الدارمی/الصوم ۳۶ (۱۷۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الشَّافِعِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَيُصَلِّي ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ سُدُسَهُ".
عمرو بن اوس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، آپ آدھی رات سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے تھے، پھر رات کے چھٹے حصہ میں سو رہتے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۷ (۱۱۳۱)، أحادیث الأنبیاء ۳۸ (۳۴۲۰)، صحیح مسلم/الصیام ۳۵ (۱۱۵۹)، سنن ابی داود/الصیام ۶۷ (۲۴۴۸)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۳ (۱۶۳۱)، الصیام ۴۰ (۲۳۴۶)، (تحفة الأشراف: ۸۸۹۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم ۵۷ (۷۷۰)، سنن الدارمی/الصوم ۴۲ (۱۷۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: "وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: "ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ"، قَالَ: كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: "وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بھلا ایسا کرنے کی کسی میں طاقت ہے؟ انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، پھر انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری تمنا ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۳۶ (۱۱۶۲)، سنن ابی داود/الصوم ۵۳ (۲۴۲۵، ۲۴۲۶)، سنن الترمذی/الصوم ۴۶ (۷۴۹)، ۴۸ (۷۵۲)، ۵۶ (۷۶۷)، سنن النسائی/الصیام ۴۲ (۲۳۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۹۵، ۲۹۶، ۲۹۹، ۳۰۳، ۳۰۸، ۳۱۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک دن روزہ، اور دو دن افطار کو آپ ﷺ نے بہت پسند کیا کیونکہ اس میں افطار غالب اور روزہ کم ہے، تو کمزوری لاحق ہونے کا بھی ڈر نہیں ہے، اور یہ فرمایا: " مجھے یہ پسند ہے کہ مجھ کو اس کی طاقت ہوتی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کو اس سے زیادہ کی طاقت تھی، آپ صوم وصال رکھا کرتے تھے، مگر آپ کو اپنی بیویوں کے حقوق کا بھی خیال تھا، اور دوسرے کاموں کا بھی، اس لحاظ سے زیادہ روزے نہیں رکھ سکتے تھے۔
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "صَامَ نُوحٌ الدَّهْرَ إِلَّا يَوْمَ الْفِطْرِ، وَيَوْمَ الْأَضْحَى".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کو کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "نوح علیہ السلام نے عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۹۴۹، ومصباح الزجاجة: ۶۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰) (ضعیف) (اس میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی ۴۵۹)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذَّمَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَسْمَاءَ الرَّحَبِيَّ، عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ، كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ، مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ، فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے تو اس کو پورے سال کے روزے کا ثواب ملے گا" اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» یعنی "جو ایک نیکی کرے گا اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۲۱۰۷، ومصباح الزجاجة: ۶۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تو رمضان کے تیس روزے اور ۶ عید کے کل ۳۶ ہوئے، دس سے ضرب دینے میں ۳۶۰ روزے ہوتے ہیں، اور سال کے اتنے ہی دن ہیں، پس گویا اس نے سال بھر روزے رکھے، سبحان اللہ حق تعالی کی اپنے ناتواں بندوں پر کیا عنایت ہے، اب اختلاف ہے کہ یہ روزے عید کے بعد ہی رکھنا شروع کرے اور شوال کی سات تاریخ تک پورے کرلے، یا شوال کے مہینہ میں جب چاہے رکھ لے؟ مسلسل یا الگ الگ دن میں، ہر طرح جائز ہے، ہر حال میں سال بھر کے روزوں کا ثواب حاصل ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ بِسِتٍّ مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصَوْمِ الدَّهْرِ".
ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے رمضان کا روزہ رکھا، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو وہ پورے سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۹ (۱۱۶۴)، سنن ابی داود/الصوم ۵۸ (۲۴۳۳)، سنن الترمذی/الصوم ۵۳ (۷۵۹)، (تحفة الأشراف: ۳۴۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۱۷، ۴۱۹)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، بَاعَدَ اللَّهُ بِذَلِكَ الْيَوْمِ النَّارَ عَنْ وَجْهِهِ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جہاد کے سفر میں ایک روز بھی روزہ رکھا، تو اللہ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۳۶ (۲۸۴۰)، صحیح مسلم/الصوم ۳۱ (۱۱۵۳)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۳ (۱۶۲۳)، سنن النسائی/الصیام ۲۴ (۲۲۴۷، ۲۲۴۸)، (تحفة الأشراف: ۴۳۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/ ۲۶، ۴۵، ۵۹، ۸۳)، سنن الدارمی/الجہاد ۱۰ (۲۴۴۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «خریف» کی تفسیر میں اختلاف ہے اور دوسری روایت میں ستر سال کا ذکر ہے تو «خریف» سے وہی سال مراد ہوں گے یعنی جہنم سے وہ شخص ستر برس کے راستے کے بقدر دور ہو جائے گا۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ اللَّيْثِيُّ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ زَحْزَحَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جہاد کے سفر میں ایک دن بھی روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۳ (۱۶۲۲)، سنن النسائی/الصیام ۲۴ (۲۲۴۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۷۰، ومصباح الزجاجة: ۶۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۰، ۳۵۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيَّامُ مِنًى أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "منیٰ کے دن کھانے اور پینے کے دن ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۴۴، ومصباح الزجاجة: ۶۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۲۹، ۳۸۷) (حسن صحیح) (نیزملاحظہ ہو: الإرواء: ۴/۱۲۹)
وضاحت: ۱؎: منیٰ کے دن سے مراد تشریق کے دن یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے، ایک روایت میں ہے کہ ان دنوں میں روزے مت رکھو، یہ دن کھانے پینے اور جماع کے ہیں، قرآن میں ایام معدودات سے یہی دن مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْنَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ بِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَقَالَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ".
بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق کا خطبہ دیا تو فرمایا: "جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہو گا، اور یہ (ایام تشریق) کھانے اور پینے کے دن ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۲۰۱۹، ومصباح الزجاجة: ۶۲۰)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ۷ (۴۹۹۷)، مسند احمد (۳/۴۱۵، ۴/۳۳۵)، سنن الدارمی/الصوم ۴۸ (۱۸۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى التَّيْمِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ نَهَى عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ الْأَضْحَى".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور عید الاضحی کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۶ (۱۹۹۵)، صحیح مسلم/الصوم ۲۲ (۸۲۷)، (تحفة الأشراف: ۴۲۷۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۴۸ (۲۴۱۷)، سنن الترمذی/الصوم ۵۸ (۷۷۲)، مسند احمد (۳/ ۷، ۳۴، ۴۵، ۵۱، ۵۹، ۶۲، ۷۱، ۷۷)، سنن الدارمی/الصوم ۴۳ (۱۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِفَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، فَقَالَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ الْأَضْحَى، أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَيَوْمُ الْأَضْحَى تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ لَحْمِ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید (سعد بن عبید الزہری) کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید شروع کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک تو عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، رہا عید الفطر کا دن تو وہ تمہارے روزے سے افطار کا دن ہے، اور رہا عید الاضحی کا دن تو اس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۶ (۱۹۹۰)، صحیح مسلم/الصوم ۲۲ (۱۱۳۷)، سنن ابی داود/الصوم ۴۸ (۲۴۱۶)، سنن الترمذی/الصوم ۵۸ (۷۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۳۰، ۱۰۶۶۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العیدین ۲ (۵)، مسند احمد (۱/۲۴، ۳۴، ۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ إِلَّا بِيَوْمٍ قَبْلَهُ، أَوْ يَوْمٍ بَعْدَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں رکھا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث أبي بکر بن أبي شیبہ عن حفص أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۳ (۱۹۸۵)، صحیح مسلم/الصوم ۲۴ (۱۱۴۴)، وحدیث أبي بکر بن أبي شیبہ عن أبي معاویہ قد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۴ (۱۱۴۴)، سنن ابی داود/الصوم ۵۰ (۲۴۲۰)، سنن الترمذی/الصوم ۴۲ (۷۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۵۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا أَطُوفُ بِالْبَيْتِ، أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ؟، قَالَ: "نَعَمْ، وَرَبِّ هَذَا الْبَيْتِ".
محمد بن عباد بن جعفر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پوچھا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں، اس گھر کے رب کی قسم!۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۳ (۱۹۸۴)، صحیح مسلم/الصوم ۲۴ (۱۱۴۳)، (تحفة الأشراف: ۲۵۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۶، ۳۱۲)، سنن الدارمی/الصوم ۳۹ (۱۷۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "قَلَّمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن بہت ہی کم روزہ چھوڑتے ہوئے دیکھا ۱؎ (جمعہ کے دن روزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور خاص کر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت امت کے لیے ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۶۸ (۲۴۵۰)، سنن الترمذی/الصوم ۴۱ (۷۴۲)، سنن النسائی/الکبری/الصوم۹۰ (۲۷۵۸)، (تحفة الأشراف: ۹۲۰۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۰۶) (حسن)
وضاحت: ۱؎: اوپر کی روایتوں میں جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی صراحت سے ممانعت آئی ہے، اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے دن اکثر روزہ سے رہتے تھے، اس میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ جمعہ کے دن روزہ رکھنا نبی اکرم ﷺ کی خصوصیت تھی، اور خاص کر جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت امت کے لیے ہے، یا یہ کہا جائے کہ ایام بیض میں جمعہ آ پڑے تو آپ جمعہ کو بھی روزہ رکھ لیتے تھے، یا آپ جمعہ کو ایک دن آگے یا پیچھے ملا کر روزہ رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتُرِضَ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا عُودَ عِنَبٍ، أَوْ لِحَاءَ شَجَرَةٍ فَلْيَمُصَّهُ".
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنیچر کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے فرض روزہ کے، اگر تم میں سے کسی کو انگور کی شاخ یا کسی درخت کی چھال کے علاوہ کوئی اور چیز کھانے کو نہ ملے تو اسی کو چوس لے" (لیکن روزہ نہ رکھے) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۱۹۱، ومصباح الزجاجة: ۶۲۰)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۵۱ (۲۴۲۱)، سنن الترمذی/الصوم ۴۳ (۷۴۴)، مسند احمد (۶/۳۶۸)، سنن الدارمی/الصوم ۴۰ (۱۷۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور اس میں کراہت کا مطلب یہ ہے آدمی سنیچر کو روزے کے لیے مخصوص کر دے کیونکہ یہود اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، رہی وہ روایتیں جن میں سنیچر کے دن صوم رکھنے کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اسے روزے کے لیے خاص کر لے۔
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، عَنْ أُخْتِهِ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
عبداللہ بن بسر کی بہن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر اسی جیسی روایت بیان کی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي الْعَشْرَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: "وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان دنوں یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر کوئی بھی دن ایسا نہیں کہ جس میں نیک عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کے نیک عمل سے زیادہ پسندیدہ ہو"، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا پسند نہیں، مگر جو شخص اپنی جان اور مال لے کر نکلے، اور پھر لوٹ کر نہ آئے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العیدین ۱۱ (۹۶۹)، سنن ابی داود/الصوم ۶۱ (۲۴۳۸)، سنن الترمذی/الصوم ۵۲ (۷۵۷)، (تحفة الأشراف: ۵۶۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۳۳۸، ۳۴۶)، سنن الدارمی/الصوم ۵۲ (۱۸۱۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ بْنِ عَبِيدَةَ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنِ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا أَيَّامٌ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ، وَإِنَّ صِيَامَ يَوْمٍ فِيهَا لَيَعْدِلُ صِيَامَ سَنَةٍ، وَلَيْلَةٍ فِيهَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا کے کسی دن میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند نہیں جتنا کہ ان دس دنوں میں ہے، اور ان میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے، اور ان میں ایک رات شب قدر (قدر کی رات) کے برابر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۵۲ (۷۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۹۸) (ضعیف) (نہاس بن قہم قوی نہیں ہے)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ الْعَشْرَ قَطُّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دس دنوں میں کبھی روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۰۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الاعتکاف ۴ (۱۱۷۶)، سنن ابی داود/الصوم ۶۲ (۲۴۳۹)، سنن الترمذی/الصوم ۵۱ (۷۵۶)، مسند احمد (۶/ ۴۲، ۱۲۴، ۱۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں، یہ حدیث ان روایات میں سے ہے جن کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان نو دنوں میں روزہ رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب ہے، خاص کر عرفہ کے دن کے روزے کی بڑی فضیلت آئی ہے، ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کسی بیماری یا سفر کی وجہ سے کبھی روزہ نہ رکھا ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالَّتِي بَعْدَهُ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ عرفہ ۱؎ کے دن روزہ رکھنے کا ثواب اللہ تعالیٰ یہ دے گا کہ اگلے پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دے گا" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (۱۳۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یوم عرفہ سعودی عرب کے کلنڈر کے حساب سے ۹ ذی الحجہ کے دن کا روزہ جس دن حج ہوتا ہے، یہ عرفات میں حجاج کے اجتماع کے دن کا روزہ ہے، اختلاف مطالع کی وجہ سے تاریخوں کے فرق میں عام مسلمان مکہ کی تاریخ کا خیال رکھیں، اور حجاج کے عرفات میں اجتماع والے حج کے دن کا روزہ رکھیں، اس دن کے روزہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں البتہ جو حجاج کرام اس دن عرفات میں ہوتے ہیں ان کے لیے روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ یہ ذکر و دعا میں مشغولیت کا دن ہوتا ہے، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ ۲؎: یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ ابھی جو سال نہیں آیا، اس کے گناہ بندہ پر نہیں لکھے گئے تو ان کی معافی کے کیا معنی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے علم میں وہ گناہ موجود ہیں، پس ان کی معافی ہو سکتی ہے جیسے فرمایا «ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تاخر» اور ممکن ہے کہ بعد کی معافی سے یہ غرض ہو کہ اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس کو گناہ کرنے سے بچا لے گا، یا اس کا ثواب اتنا دے گا جو دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو سکے گا «واللہ اعلم۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ، وَسَنَةٌ بَعْدَهُ".
قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۷۶، ومصباح الزجاجة: ۶۲۱) (صحیح) (سند میں اسحاق بن عبداللہ بن أبی فردہ ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: ۴/۰۹ ۱- ۱۱۰)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنِي حَوْشَبُ بْنُ عَقِيلٍ، حَدَّثَنِي مَهْدِيٌّ الْعَبْدِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فِي بَيْتِهِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَاتٍ؟، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَاتٍ".
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کے گھر ملنے گیا تو ان سے عرفات میں عرفہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھا؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام عرفات میں عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۶۳ (۲۴۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۴، ۴۴۶) (ضعیف) (نیزملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: ۴۲۱)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ عَاشُورَاءَ، وَيَأْمُرُ بِصِيَامِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا روزہ رکھتے، اور اس کے رکھنے کا حکم دیتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۶۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۹ (۲۰۰۲)، صحیح مسلم/الصوم ۱۹ (۱۱۲۵)، سنن ابی داود/الصوم ۶۴ (۲۴۴۲)، سنن الترمذی/الصوم ۴۹ (۷۵۳)، موطا امام مالک/الصوم ۱۱ (۳۳)، سنن الدارمی/الصوم ۴۶ (۱۸۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: محرم کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہتے ہیں،نبی اکرم ﷺ مکہ سے ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: " تم لوگ اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو "؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی، اسی خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: " ہم اس کے تم سے زیادہ حقدار ہیں " چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا، اور یہ بھی فرمایا: " اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا " تاکہ یہود کی مخالفت ہو جائے، بلکہ ایک روایت میں آپ ﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے کہ تم عاشوراء کا روزہ رکھو، اور یہود کی مخالفت کرو، اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنِ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ صُيَّامًا، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟"، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ فِيهِ فِرْعَوْنَ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آئے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کیا ہے"؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، اور فرعون کو پانی میں ڈبو دیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکریہ میں روزہ رکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۴۴۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۹ (۲۰۰۴)، صحیح مسلم/الصوم ۱۹ (۱۱۳۰)، سنن ابی داود/الصوم ۶۴ (۲۴۴۴)، مسند احمد (۱/ ۲۳۶، ۳۴۰)، سنن الدارمی/الصوم ۴۶ (۱۸۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام کی خوشی میں شرکت کے ہم تم سے زیادہ حق دار ہیں، کیونکہ وہ دین حق پر تھے، اور ہم بھی دین حق پر ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ: " مِنْكُمْ أَحَدٌ طَعِمَ الْيَوْمَ "، قُلْنَا: مِنَّا طَعِمَ، وَمِنَّا مَنْ لَمْ يَطْعَمْ، قَالَ: " فَأَتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ مَنْ كَانَ طَعِمَ، وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْ فَأَرْسِلُوا إِلَى أَهْلِ الْعَرُوضِ فَلْيُتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ، قَالَ: يَعْنِي أَهْلَ الْعَرُوضِ حَوْلَ الْمَدِينَةِ.
محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عاشوراء کے دن فرمایا: "آج تم میں سے کسی نے کھانا کھایا ہے"؟ ہم نے عرض کیا: بعض نے کھایا ہے اور بعض نے نہیں کھایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کھایا ہے اور جس نے نہیں کھایا ہے دونوں شام تک کچھ نہ کھائیں، اور«عروض» ۱؎ والوں کو کہلا بھیجو کہ وہ بھی باقی دن روزہ کی حالت میں پورا کریں" ۲؎۔ راوی نے کہا اہل عروض سے آپ مدینہ کے آس پاس کے دیہات کو مراد لیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۲۵، ومصباح الزجاجة: ۶۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «عروض» کا اطلاق مکہ، مدینہ اور ان دونوں کے اطراف کے دیہات پر ہوتا ہے۔ ۲؎: اس سے عاشوراء کے روزے کی بڑی تاکید معلوم ہوتی ہے، اور شاید یہ حدیث اس وقت کی ہو جب عاشوراء کا روزہ فرض تھا کیونکہ رمضان کا روزہ ہجرت کے بہت دنوں کے بعد مدینہ منورہ میں فرض ہوئے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ، لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ "، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، زَادَ فِيهِ مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو محرم کی نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا"۔ ابوعلی کہتے ہیں: اسے احمد بن یونس نے ابن ابی ذئب سے روایت کیا ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے: اس خوف سے کہ عاشوراء آپ سے فوت نہ ہو جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۰ (۱۱۳۴)، (تحفة الأشراف: ۵۸۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۲۳۶، ۳۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَوْمًا يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَرِهَهُ فَلْيَدَعْهُ ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عاشوراء (محرم کی دسویں تاریخ) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ وہ دن ہے جس میں دور جاہلیت کے لوگ روزہ رکھتے تھے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے تو رکھے، اور جو نہ چاہے نہ رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۰ (۱۱۲۶)، (تحفة الأشراف: ۸۲۸۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۶۹ (۲۰۰۲)، سنن ابی داود/الصوم ۶۴ (۲۴۴۳)، مسند احمد (۲/۵۷)، سنن الدارمی/الصوم ۴۶ (۱۸۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عاشوراء کا روزہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (۱۷۱۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۱۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْغَازِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَتْ: " كَانَ يَتَحَرَّى صِيَامَ الِاثْنَيْنِ، وَالْخَمِيسِ ".
ربیعہ بن الغاز سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے سلسلے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کے روزے کا اہتمام کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (۱۶۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں دنوں میں اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: «عرض الأعمال يوم الاثنين والخميس فأحب أن يعرض عملى وأنا صائم» یعنی سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ تعالیٰ پر پیش کئے جاتے ہیں، پس میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں اللہ تعالی پر پیش کئے جائیں کہ میں روزے سے ہوں، اور دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکرصحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: " یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی، اور اس میں میری بعثت ہوئی یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی " اس لیے عید میلاد النبی کسی کو منانا ہو تو اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے نہ کہ جلوس نکالا جائے،خرافات کی جائے اور گلی کوچوں کی سجاوٹ پر لاکھوں روپئے برباد کئے جائیں، یہ سب بدعت ہے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَصُومُ الِاثْنَيْنِ، وَالْخَمِيسَ "، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تَصُومُ الِاثْنَيْنِ، وَالْخَمِيسَ، فَقَالَ: " إِنَّ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَالْخَمِيسَ يَغْفِرُ اللَّهُ فِيهِمَا لِكُلِّ مُسْلِمٍ، إِلَّا مُهْتَجِرَيْنِ، يَقُولُ: دَعْهُمَا حَتَّى يَصْطَلِحَا ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، تو پوچھا گیا: اللہ کے رسول! آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو شنبہ اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے دو ایسے لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر رکھا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ باہم صلح کر لیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۷۴۶، و مصباح الزجاجة: ۶۲۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم ۴۴ (۷۴۷)، مسند احمد (۲/۳۲۹)، سنن الدارمی/الصوم ۴۱ (۱۷۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ، عَنْ أَبِي مُجِيبَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ أَوْ عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَنَا الرَّجُلُ الَّذِي أَتَيْتُكَ عَامَ الْأَوَّلِ، قَالَ: " فَمَا لِي أَرَى جِسْمَكَ نَاحِلًا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَكَلْتُ طَعَامًا بِالنَّهَارِ مَا أَكَلْتُهُ إِلَّا بِاللَّيْلِ، قَالَ: " مَنْ أَمَرَكَ أَنْ تُعَذِّبَ نَفْسَكَ؟ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَقْوَى، قَالَ: " صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ، وَيَوْمًا بَعْدَهُ "، قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى، قَالَ: " صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ، وَيَوْمَيْنِ بَعْدَهُ "، قُلْتُ: إِنِّي أَقْوَى، قَالَ: " صُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ، وَصُمْ أَشْهُرَ الْحُرُمِ ".
ابومجیبہ باہلی اپنے والد یا چچا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: اللہ کے نبی! میں وہی شخص ہوں جو آپ کے پاس پچھلے سال آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا سبب ہے کہ میں تم کو دبلا دیکھتا ہوں"، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں دن کو کھانا نہیں کھایا کرتا ہوں صرف رات کو کھاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں کس نے حکم دیا کہ اپنی جان کو عذاب دو"؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں طاقتور ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم صبر کے مہینے ۱؎ کے روزے رکھو، اور ہر ماہ ایک روزہ رکھا کرو" میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم صبر کے مہینے کے روزے رکھو، اور ہر ماہ میں دو روزے رکھا کرو" میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبر کے مہینہ میں روزے رکھو، اور ہر ماہ میں تین روزے اور رکھو، اور حرمت والے مہینوں میں روزے رکھو" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۵۴ (۲۴۲۸)، (تحفة الأشراف: ۵۲۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸) (ضعیف) (ابومجیبہ مجہول ہے، نیز بعض روایات میں مجیبہ الباہلیہ ہے، نام میں اختلاف کے ساتھ جہالت بھی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، نیزملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: ۴۱۹)
وضاحت: ۱؎: صبر کے مہینے سے مراد صیام کا مہینہ (رمضان) ہے، صبر کے اصل معنی روکنے کے ہوتے ہیں، چونکہ اس مہینہ میں روزہ دار اپنے آپ کو دن میں کھانے پینے اور جماع سے روکے رکھتا ہے اس لیے اسے «شہر الصبر» (صبر کا مہینہ) کہا گیا ہے۔ ۲؎: حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں ذی الحجہ اور محرم کے مہینے ہیں، ویسے حرمت والے مہینے چار ہیں: رجب، ذو العقدہ، ذوالحجۃ و محرم۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّ الصِّيَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟، قَالَ: " شَهْرُ اللَّهِ الَّذِي تَدْعُونَهُ الْمُحَرَّمَ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: "رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے مہینے کا جسے تم لوگ محرم کہتے ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۳۸ (۱۱۶۳)، سنن ابی داود/الصوم ۵۵ (۲۴۲۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۷ (۴۳۸)، الصوم ۴۰ (۷۴۰)، سنن النسائی/قیام اللیل ۶ (۱۶۱۴)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۳، ۳۲۹، ۳۴۲، ۳۴۴)، سنن الدارمی/الصوم ۴۵ (۱۷۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ صِيَامِ رَجَبٍ ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے مہینے میں روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۲۹۳، ومصباح الزجاجة: ۶۲۴) (ضعیف جدا) (اس کی سند میں داود بن عطاء ضعیف ہیں، اس حدیث کو ابن الجوزی نے العلل المتناھیة میں ذکر کیا ہے، نیزملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۴۰۴)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ كَانَ يَصُومُ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صُمْ شَوَّالًا فَتَرَكَ أَشْهُرَ الْحُرُمِ، ثُمَّ لَمْ يَزَلْ يَصُومُ شَوَّالًا حَتَّى مَاتَ ".
محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما حرمت والے مہینوں میں روزے رکھتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "شوال میں روزے رکھو"، تو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں روزے رکھنا چھوڑ دیا، پھر برابر شوال میں روزے رکھتے رہے، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۱، ومصباح الزجاجة: ۶۲۵) (ضعیف) (محمد بن ابراہیم اور اسامہ بن زید کے مابین انقطاع ہے، نیز ملاحظہ ہو: التعلیق الرغیب: ۲/ ۸۱)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ . ح وحَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍجَمِيعًا، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ جُمْهَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ "، زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِيثِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر چیز کی زکاۃ ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے" محرز کی روایت میں اتنا اضافہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ آدھا صبر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۳۶، ومصباح الزجاجة: ۶۲۶) (ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ الر بذی ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۱۳۲۹)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَخَالِي يَعْلَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍكُلُّهُمْ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۸۲ (۸۰۷)، (تحفة الأشراف: ۳۷۶۰)، (۴/۱۱۴، ۱۱۶، ۵/۱۹۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، اس میں بھی روزے کے برابر ثواب ہے، دوسری روایت میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہر شخص میں اتنی استعداد کہاں ہوتی ہے کہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، آپ ﷺ نے فرمایا: " یہ ثواب اس کو بھی ملے گا جو روزہ دار کا روزہ دودھ ملے ہوئے ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، یا ایک کھجور، یا ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، اور جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کے کھلا دے اس کو تو اللہ تعالی میرے حوض سے ایک گھونٹ پلائے گا، اس کے بعد وہ پیاسا نہ ہو گا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو گا " (سنن بیہقی)۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى اللَّخْمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: أَفْطَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ: " أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ ".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس افطار کیا اور فرمایا: "تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا، اور تمہارا کھانا، نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۲۸۷، ومصباح الزجاجة: ۶۲۷) (صحیح) (سند میں مصعب بن ثابت ضعیف ہیں، بالخصوص عبد اللہ بن زبیر سے روایت میں، لیکن قول رسول صحیح ہے، فعل رسول ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: آداب الزفاف: ۸۵-۸۶)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسَهْلٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ امْرَأَةٍ يُقَالُ لَهَا: لَيْلَى، عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ، قَالَتْ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَّبْنَا إِلَيْهِ طَعَامًا، فَكَانَ بَعْضُ مَنْ عِنْدَهُ صَائِمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّائِمُ إِذَا أُكِلَ عِنْدَهُ الطَّعَامُ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ ".
ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے آپ کو کھانا پیش کیا، آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ روزے سے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ دار کے سامنے جب کھانا کھایا جائے (اور وہ صبر کرے) تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۶۷ (۷۸۴، ۷۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۶۵، ۴۳۹)، سنن الدارمی/الصوم ۳۲ (۱۷۷۹) (ضعیف) (لیلیٰ مولاة ام عمارة لین الحدیث ہیں، اور ان کا کوئی متابع نہیں ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ: " الْغَدَاءُ يَا بِلَالُ "، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَأْكُلُ أَرْزَاقَنَا، وَفَضْلُ رِزْقِ بِلَالٍ فِي الْجَنَّةِ، أَشَعَرْتَ يَا بِلَالُ أَنَّ الصَّائِمَ تُسَبِّحُ عِظَامُهُ، وَتَسْتَغْفِرُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ مَا أُكِلَ عِنْدَهُ ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "اے بلال! دوپہر کا کھانا حاضر ہے، انہوں نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم تو اپنی روزی کھا رہے ہیں، اور بلال کی بچی ہوئی روزی جنت میں ہے، تم کو معلوم ہے، اے بلال! روزہ دار کی ہڈیاں تسبیح بیان کرتی ہیں، اور فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں، جب تک اس کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۹۴۴، ومصباح الزجاجة: ۶۲۹) (موضوع) (محمد بن عبد الرحمن کی ناقدین نے تکذیب کی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۱۳۳۲)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کسی کو کھانا کھانے کے لیے بلایا جائے، اور وہ روزے سے ہو، تو کہے کہ میں روزے سے ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۸ (۱۱۵۰)، سنن ابی داود/الصوم ۷۶ (۲۴۶۱)، سنن الترمذی/الصوم ۶۴ (۷۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/ ۲۴۲، سنن الدارمی/الصیام ۳۱ (۱۷۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: " میں صوم سے ہوں " کہنے کا حکم دعوت قبول نہ کرنے کی معذرت کے طور پر ہے اگرچہ نوافل کا چھپانا بہتر ہے لیکن یہاں اس کے ظاہر کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ تاکہ داعی کے دل میں مدعو کے خلاف کوئی غلط فہمی یا کدورت راہ نہ پائے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ دُعِيَ إِلَى طَعَامٍ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيُجِبْ فَإِنْ شَاءَ طَعِمَ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کسی کو کھانے کے لیے دعوت دی جائے، اور وہ روزے سے ہو تو وہ دعوت قبول کرے، پھر اگر چاہے تو کھائے اور اگر چاہے تو نہ کھائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۱۶ (۱۴۳۰)، (تحفة الأشراف: ۲۸۳۰)، سنن ابی داود/الأطعمة ۱ (۳۷۴۰)، مسند احمد (۳/۳۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَعْدَانَ الْجُهَنِيِّ، عَنْ سَعْدٍ أَبِي مُجَاهِدٍ الطَّائِيِّ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ: بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدعوات ۲۹ (۳۵۹۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۴، ۳۰۵، ۴۴۵، ۴۴۷) (ضعیف) (پہلا فقرہ «الإِمَامُ الْعَادِلُ» کے بجائے «المسافر» کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، نیز «الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ» کا فقرہ بھی صحیح ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: ۵۹۶- ۱۷۹۷ ور صحیح ابن خزیمہ: ۱۹۰۱)
وضاحت: ۱؎: مظلوم کی آہ خالی جانے والی نہیں، ظالم اگر چند روز بچا رہے، تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہے، بلکہ یہ استدراج اور ڈھیل ہے کہ ایک نہ ایک دن دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے لے گا، حدیث میں مظلوم کو مطلق رکھا مسلمان کی قید نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر پر بھی ظلم ناجائز ہے، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں، اور کافر اگر مظلوم ہو تو اس کی دعا اثر کرے گی، غرض ظلم سے انسان کو ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے، اس کے برابر کوئی گناہ نہیں، اور ظلم کا اطلاق ہر زیادتی اور نقصان پر جو ناحق کسی کے ساتھ کیا جائے، خواہ مال کا نقصان ہو یا عزت کا یا جان کا۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ "، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: إِذَا أَفْطَرَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ، أَنْ تَغْفِرَ لِي.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی"۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي» "اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۸۴۲، ومصباح الزجاجة: ۶۳۰) (ضعیف) (اسحاق بن عبید اللہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۹۲۱)
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ تَمَرَاتٍ ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن چند کھجوریں کھائے بغیر عید کے لیے نہیں نکلتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العیدین ۴ (۹۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۳ (۵۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۶، ۲۳۲) (صحیح) (سند میں جبارہ بن مغلس ضعیف راوی ہے، لیکن سعید بن سلیمان نے صحیح بخاری میں ان کی متابعت کی ہے)
وضاحت: ۱؎: عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کچھ کھا لینا سنت ہے، اگر کھجوریں ہوں تو بہتر ہے، ورنہ جو میسر ہو کھائے۔
حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا مَنْدَلُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ صَهْبَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يُغَذِّيَ أَصْحَابَهُ مِنْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر میں عید گاہ اس وقت تک نہیں جاتے تھے جب تک کہ اپنے (مساکین) صحابہ کو اس صدقہ فطر میں سے کھلا نہ دیتے (جو آپ کے پاس جمع ہوتا)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۲۳۴، ومصباح الزجاجة: ۶۳۱) (ضعیف) (جبارہ، مندل اور عمر بن صہبان ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۴۲۴۸)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوَابُ بْنُ عُتْبَةَ الْمَهْرِيُّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ، وَكَانَ لَا يَأْكُلُ يَوْمَ النَّحْرِ حَتَّى يَرْجِعَ ".
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن جب تک کہ کچھ کھا نہ لیتے نہیں نکلتے اور عید الاضحی کے دن نہیں کھاتے جب تک کہ (عید گاہ سے) واپس نہ آ جاتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۷۳ (۵۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۵۲، ۳۶۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۷ (۱۶۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ عیدالفطر کے دن نماز عید سے پہلے کچھ کھانا، اور عیدالاضحی کے دن بغیر کچھ کھائے نماز ادا کرنا سنت ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے میں کسی خاص چیز کی ہدایت نہیں ہے، البتہ کھجور یا چھوہارے کھا کر جانا مسنون ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ عیدالفطر کے دن طاق کھجوریں کھا کر عیدگاہ جایا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص مر جائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۲۳ (۷۱۸)، (تحفة الأشراف: ۸۴۲۳) (صحیح) (اس کی سند میں محمد بن سیرین کا ذکر وہم ہے، سنن ترمذی میں صرف "محمد" کا ذکر بغیر کسی نسبت کے ہے، امام ترمذی کہتے ہیں کہ محمد سے میرے نزدیک ابن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ہیں، اور اس حدیث کو ہم مرفوعاً اسی طریق سے جانتے ہیں، اور صحیح ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابن خزیمہ ۲۰۵۶، وکامل ابن عدی ۱؍۳۶۵، اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہیں، حافظ ابن حجر کہتے ہیں: «صدوق سئی الحفظ جداً»، صدوق ہیں، اور حافظہ بہت برا ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، وَالْحَكَمِ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَطَاءٍ، وَمُجاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، قَالَ: " أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُخْتِكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟ "، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: " فَحَقُّ اللَّهِ أَحَقُّ ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری بہن کا انتقال ہو گیا، اور اس پہ مسلسل دو ماہ کے روزے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بتاؤ اگر تمہاری بہن پہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں"؟ اس نے کہا: ہاں، ضرور ادا کرتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا زیادہ اہم ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۴۲ (۱۹۵۳)، صحیح مسلم/الصیام ۲۷ (۱۱۴۸)، سنن ابی داود/الأیمان ۲۶ (۳۳۱۰)، سنن الترمذی/الصوم ۲۲ (۷۱۶)، (تحفة الأشراف: ۵۶۱۲، ۵۳۹۵، ۵۵۱۳، ۹۸۵۲، ۵۸۹۵، ۹۵۶۱، ۶۳۸۵، ۶۳۹۶، ۶۳۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۲۲۷، ۲۵۸، ۳۶۲)، سنن الدارمی/الصوم ۴۹ (۱۸۰۹) لکن عندھم: أن أمي ماتت (صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، قَالَ: " نَعَمْ ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ۲۷ (۱۱۴۹)، سنن ابی داود/الزکاة ۳۱ (۱۶۵۶)، الوصایا ۱۲ (۲۸۷۷)، الإیمان ۲۵ (۳۳۰۹)، سنن الترمذی/ الزکاة ۳۱ (۶۶۷)، (تحفة الأشراف: ۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۱، ۳۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہو گا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہو گا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہو گا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَفْدُنَا الَّذِينَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْلَامِ ثَقِيفٍ، قَالَ: وَقَدِمُوا عَلَيْهِ فِي رَمَضَانَ، فَضَرَبَ عَلَيْهِمْ قُبَّةً فِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا صَامُوا مَا بَقِيَ عَلَيْهِمْ مِنَ الشَّهْرِ ".
عطیہ بن سفیان کہتے ہیں کہ ہمارے اس وفد نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تھا، ہم سے بنو ثقیف کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کیا کہ بنو ثقیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رمضان میں آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا، جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، تو رمضان کے جو دن باقی رہ گئے تھے، ان میں انہوں نے روزے رکھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۴۴، ومصباح الزجاجة: ۶۳۲) (ضعیف) (اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عیسیٰ بن عبد اللہ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس پر اتفاق ہے کہ کافر اگر رمضان میں مسلمان ہو تو جتنے دن رمضان کے باقی ہوں ان میں روزے رکھے، لیکن اگلے روزوں کی قضا اس پر لازم نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا بِإِذْنِهِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت رمضان کے علاوہ کسی دن (نفلی روزہ) نہ رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصوم ۶۵ (۷۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۸۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/النکاح ۸۴ (۵۱۹۲)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۶ (۱۰۲۶)، سنن ابی داود/الصوم ۷۴ (۲۴۵۸)، مسند احمد (۲/۲۴۵، ۳۶۱)، سنن الدارمی/الصوم ۲۰ (۱۷۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ أَنْ يَصُمْنَ إِلَّا بِإِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع فرمایا کہ وہ اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: ۴۰۲۰، ومصباح الزجاجة: ۶۳۳)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ۷۴ (۲۴۵۹)، مسند احمد (۳/۸۰، ۸۴)، سنن الدارمی/الصوم ۲۰ (۱۷۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ، وَخَالِدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا نَزَلَ الرَّجُلُ بِقَوْمٍ، فَلَا يَصُومُ إِلَّا بِإِذْنِهِمْ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی آدمی کسی قوم کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۴۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم ۷۰ (۷۸۹) (ضعیف جدا)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، وعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأُمَوِيِّ، عَنْمَعْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا صبر کرنے والے روزہ دار کے ہم رتبہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۹۴)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة القیامة ۴۳ (۲۴۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ عَمِّهِ حَكِيمِ بْنِ أَبِي حُرَّةَ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَنَّةَ الْأَسْلَمِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ ".
صحابی رسول سنان بن سنۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والے کو صبر کرنے والے صائم کے برابر ثواب ملتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۲، ومصباح الزجاجة: ۶۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۴۳) سنن الدارمی/الأطعمة ۴ (۲۰۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: اعْتَكَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَالَ: " إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَأُنْسِيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ:: صحیح البخاری/الأذان ۴۱ (۶۶۹)، ۱۳۵ (۸۱۳)، ۱۹۱ (۸۳۶)، لیلةالقدر ۲ (۲۰۱۶)، ۳ (۲۰۱۸)، الاعتکاف ۱ (۲۰۲۶)، ۹ (۲۰۳۶)، ۱۳ (۲۰۴۰)، صحیح مسلم/الصوم ۴۰ (۱۱۶۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۵۷ (۸۹۴)، ۱۶۶ (۹۱۱)، سنن النسائی/السہو ۹۸ (۱۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۴۴۱۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الاعتکاف ۶ (۹)، مسند احمد (۳/۷، ۳۴، ۶۰، ۷۴، ۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شب قدر کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں، امام شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے، آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں، فلاں رات میں تلاش کرو، امام شافعی فرماتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ ستائیسویں رات ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کو وہ مخصوص رات دکھائی گئی تھی پھر وہ آپ سے بھلا دی گئی، اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، وَأَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَاعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الاعتکاف ۳ (۱۱۷۵)، سنن الترمذی/الصوم ۷۳ (۷۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲۲، ۲۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ أَحْيَا اللَّيْلَ، وَشَدَّ الْمِئْزَرَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ (دہا) آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے اور کمر کس لیتے، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/لیلة القدر ۵ (۲۰۲۴)، صحیح مسلم/الاعتکاف ۳ (۱۱۷۴)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۶)، سنن النسائی/قیام اللیل ۱۵ (۱۶۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ یا عبادت کے لیے کمر کس لینے یا عورتوں سے بچنے اور دور رہنے سے کنایہ ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ كُلَّ عَامٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا، وَكَانَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ عُرِضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کرتے تھے، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۱؎ اور ہر سال ایک بار قرآن کا دور آپ سے کرایا جاتا تھا، جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو بار آپ سے دور کرایا گیا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتکاف ۱۷ (۲۰۴۴)، فضائل القرآن ۷ (۴۹۹۸)، سنن ابی داود/الصوم ۷۸ (۲۴۶۶)، سنن الترمذی/الصوم ۷۱ (۷۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۸۱، ۳۳۶، ۴۱۰)، سنن الدارمی/الصوم ۵۵ (۱۸۲۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں مسجد میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو روکنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ ۲؎: تاکہ آخر عمر میں آپ کی امت کے لوگ آپ ﷺ کی پیروی کریں، اور عبادت میں زیادہ کوشش کریں، اور بعض نے کہا: آپ نے ایک سال پہلے رمضان کے اخیر دہے میں اپنی بیویوں کی وجہ سے اعتکاف کو ترک کیا تھا، اور شوال میں اس اعتکاف کو ادا کیا تھا، تو دوسرے رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا گویا پہلے رمضان کے اعتکاف کی بھی قضا کی «واللہ اعلم»
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَسَافَرَ عَامًا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے (دہے) میں اعتکاف کیا کرتے تھے، ایک سال آپ نے سفر کیا(تو اعتکاف نہ کر سکے) جب دوسرا سال ہوا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصوم ۷۷ (۲۴۶۳)، (تحفة الأشراف: ۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الصُّبْحَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَكَانَ الَّذِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيهِ، فَأَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَمَرَ فَضُرِبَ لَهُ خِبَاءٌ، فَأَمَرَتْ عَائِشَةُ بِخِبَاءٍ فَضُرِبَ لَهَا، وَأَمَرَتْ حَفْصَةُ بِخِبَاءٍ فَضُرِبَ لَهَا، فَلَمَّا رَأَتْ زَيْنَبُ خِبَاءَهُمَا، أَمَرَتْ بِخِبَاءٍ فَضُرِبَ لَهَا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " آلْبِرَّ تُرِدْنَ، فَلَمْ يَعْتَكِفْ رَمَضَانَ، وَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے (بھی) ایک خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کا خیمہ دیکھا تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا: "کیا ثواب کے لیے تم سب نے ایسا کیا ہے"؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان میں اعتکاف نہیں کیا بلکہ شوال کے مہینہ میں دس دن کا اعتکاف کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتکاف ۶ (۲۰۳۳)، ۷ ۲۰۳۴)، ۱۴، (۲۰۴۱)، ۱۸ (۲۰۴۵)، صحیح مسلم/الاعتکاف ۲ (۱۱۷۲)، سنن ابی داود/الصوم ۷۷ (۲۴۶۴)، سنن الترمذی/الصوم ۱۷ (۷۹۱)، سنن النسائی/المساجد ۱۸ (۷۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۳۰)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاعتکاف۴ (۷)، مسند احمد (۶/۲۲۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْخَطْمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ عَلَيْهِ نَذْرُ لَيْلَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَعْتَكِفُهَا، فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ " فَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَكِفَ ".
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲)، ۱۵ (۲۰۴۲)، ۱۶ (۲۰۴۳)، صحیح مسلم/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، سنن ابی داود/الأیمان ۳۲ (۳۳۲۵)، سنن الترمذی/الأیمان والنذور ۱۱ (۱۵۳۹)، سنن النسائی/الأیمان ۳۵ (۳۸۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷، ۲/۲۰، ۸۲، ۱۵۳)، سنن الدارمی/الأیمان والنذور ۱ (۲۳۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ "، قَالَ نَافِعٌ: وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ نافع کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے وہ جگہ دکھائی ہے جہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کیا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتکاف ۱ (۲۰۲۵)، ولیس عندہ: قال نافع، صحیح مسلم/الاعتکاف ۱ (۱۷۷۱)، سنن ابی داود/الصوم ۷۸ (۲۴۶۵)، (تحفة الأشراف: ۸۵۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اعتکاف کے لیے ایسی مسجد شرط ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو، جمہور کا خیال ہے کہ جس پر جمعہ فرض نہیں وہ ہر اس مسجد میں اعتکاف کر سکتا ہے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو،لیکن جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہئے جہاں نماز جمعہ بھی ہوتی ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ كَانَ إِذَا اعْتَكَفَ طُرِحَ لَهُ فِرَاشُهُ، أَوْ يُوضَعُ لَهُ سَرِيرُهُ وَرَاءَ أُسْطُوَانَةِ التَّوْبَةِ ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرتے تو آپ کا بستر بچھا دیا جاتا تھا یا چارپائی توبہ کے ستون کے پیچھے ڈال دی جاتی تھی۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۲۵۰، ومصباح الزجاجة: ۶۳۵) (ضعیف)
وضاحت: ۱؎: یہ وہی ستون ہے جس میں ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو باندھ لیا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا وہ اسی طرح بندھے رہیں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اعْتَكَفَ فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا قِطْعَةُ حَصِيرٍ، قَالَ: فَأَخَذَ الْحَصِيرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ ".
ابوسعیدی خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ترکی خیمہ میں اعتکاف کیا، اس کے دروازے پہ بورئیے کا ایک ٹکڑا لٹکا ہوا تھا، آپ نے اس بورئیے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اسے ہٹا کر خیمہ کے ایک گوشے کی طرف کر دیا، پھر اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے باتیں کیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (۱۷۶۶)، (تحفة الأشراف: ۴۴۱۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أن عائشة، قَالَتْ: إِنْ كُنْتُ لَأَدْخُلُ الْبَيْتَ لِلْحَاجَةِ وَالْمَرِيضُ فِيهِ، فَمَا أَسْأَلُ عَنْهُ إِلَّا وَأَنَا مَارَّةٌ، قَالَتْ: " وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةٍ إِذَا كَانُوا مُعْتَكِفِينَ ".
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں (اعتکاف کی حالت میں) گھر میں ضرورت (قضائے حاجت)کے لیے جاتی تھی، اور اس میں کوئی بیمار ہوتا تو میں اس کی بیمار پرسی چلتے چلتے کر لیتی تھی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں ضرورت ہی کے تحت گھر میں جاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الإعتکاف ۳ (۲۰۲۹)، صحیح مسلم/الخیض ۳ (۲۹۷)، سنن ابی داود/الصوم ۷۹ (۲۴۶۸)، سنن الترمذی/الصوم ۸۰ (۸۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۷۹، ۱۷۹۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۸، ۱۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيَّاجُ الْخُرَاسَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الْخَالِقِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُعْتَكِفُ يَتْبَعُ الْجِنَازَةَ، وَيَعُودُ الْمَرِيضَ ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معتکف جنازہ کے ساتھ جا سکتا ہے، اور بیمار کی عیادت کر سکتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۹۸۲، ومصباح الزجاجة: ۶۳۶) (موضوع) (سند میں عبدالخالق، عنبسہ اور ہیاج سب ضعیف ہیں، نیز اس کے خلاف ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ متفق علیہ حدیث ہے کہ آپ ﷺ اعتکاف کی حالت میں صرف ضرورت کے وقت ہی نکلتے تھے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۴۶۷۹)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْنِي إِلَيَّ رَأْسَهُ وَهُوَ مُجَاوِرٌ، فَأَغْسِلُهُ، وَأُرَجِّلُهُ، وَأَنَا فِي حُجْرَتِي، وَأَنَا حَائِضٌ، وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مسجد سے اپنا سر میری طرف بڑھا دیتے تو میں اسے دھو دیتی اور کنگھی کر دیتی، اس وقت میں اپنے حجرے ہی میں ہوتی، اور حائضہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۲۸۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۶ (۳۰۱)، الاعتکاف ۴ (۲۰۲۱)، اللباس ۷۶ (۵۹۲۵)، صحیح مسلم/الحیض ۳ (۲۹۷)، سنن ابی داود/الصوم ۷۹ (۲۴۶۸)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۶ (۲۷۶)، الحیض ۲۱ (۳۸۷)، موطا امام مالک/الاعتکاف ۱ (۱)، ۷ (۷) مسند احمد (۶/۳۲، ۵۵، ۸۶، ۱۷۰، ۲۰۴، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۸ (۱۰۹۸)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۶۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتکف اعتکاف کی حالت میں اپنے بدن میں سے بعض اجزاء باہر نکال سکتا ہے، اور حجرے کا دروازہ مسجد کی طرف تھا تو آپ ﷺ مسجد کی اخیر میں بیٹھ جاتے ہوں گے اور سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے ہوں گے، اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اس کو دھو دیتی ہوں گی،تو اس طرح ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا حجرے کے اندر رہتی ہوں گی ٕاور آپ ﷺ مسجد کے اندر۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ: عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي الْمَسْجِدِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً مِنَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ، فَقَامَ مَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْلِبُهَا، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ بَابَ الْمَسْجِدِ الَّذِي كَانَ عِنْدَ مَسْكَنِ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ بِهِمَا رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَسَلَّمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَفَذَا، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ "، قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَبُرَ عَلَيْهِمَا ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنِ ابْنِ آدَمَ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا ".
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ہیں" ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، یا رسول اللہ! اور یہ بات ان دونوں پہ گراں گزری، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے، مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں شیطان تمہارے دل میں کوئی غلط بات نہ ڈال دے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتکاف ۱۱ (۲۰۳۸)، ۱۲ (۲۰۳۹)، بدا ٔالخلق ۱۱ (۳۲۸۱)، الأحکام ۲۱ (۷۱۷۱)، صحیح مسلم/السلام ۹ (۲۱۷۵)، سنن ابی داود/الصوم ۷۹ (۲۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۵۶، ۲۸۵، ۳۰۹، ۶/۳۳۷)، سنن الدارمی/الصوم ۵۵ (۱۸۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی شیطان آدمی کا دشمن ہے وہ ایسے مواقع کی تاک میں رہتا ہے، تم نے اس وقت رات میں مجھ کو اکیلی عورت کے ساتھ دیکھا ہے ممکن ہے کہ شیطان تمہارے دل میں یہ خیال ڈالے کہ نبی کریم ﷺ اتنی رات کو اس اجنبی عورت کے ساتھ ہیں تو ضرور کوئی نہ کوئی بات ہوگی - «معاذ اللہ» اس وجہ سے میں نے بتلا دیا کہ یہ میری بیوی صفیہ ہیں۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّبَّاحُ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " اعْتَكَفَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَائِهِ، فَكَانَتْ تَرَى الْحُمْرَةَ، وَالصُّفْرَةَ، فَرُبَّمَا وَضَعَتْ تَحْتَهَا الطَّسْتَ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی بیویوں میں سے کسی نے اعتکاف کیا، تو وہ سرخی اور زردی دیکھتی تھیں، تو کبھی اپنے نیچے طشت رکھ لیتی تھیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۰ (۳۰۹)، الاعتکاف ۱۰ (۲۰۳۷)، سنن ابی داود/الصوم ۸۱ (۲۴۷۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۳۱)، سنن الدارمی/الطہارة ۹۳ (۹۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب خون حیض والے مقررہ دنوں سے زیادہ ہو جائے تو وہ استحاضہ ہے، مستحاضہ کو صوم و صلاۃ سب ادا کرنا چاہئے جیسا کہ اوپر گزرا، اس کا اعتکاف کرنا بھی صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أُمَيَّةَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى الْبُخَارِيُّ، عَنْ عُبَيْدَةَ الْعَمِّيِّ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فِي الْمُعْتَكِفِ هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: "اعتکاف کرنے والا تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے، اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کر سکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۵۹۷، ومصباح الزجاجة: ۶۳۷) (ضعیف) (سند میں فرقد بن یعقوب ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْمَرَّارُ بْنُ حَمُّويَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ، لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۴۸۵۷، ومصباح الزجاجة: ۶۳۸) (موضوع) (سند میں محمد بن المصفی اور بقیہ مدلس ہیں، اور دونوں کی روایت عنعنہ سے ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة: ۵۲۱، ۵۱۳۶)