مشکوٰة شر یف

طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں یہاں صرف لفظ  باب  لکھا ہوا ہے جیسا کہ مؤلف مشکوٰۃ کی عادت ہے کہ وہ بعض مواقع پر صرف لفظ باب لکھ کر ایک باب قائم جو درحقیقت کوئی الگ سے اور مستقل باب نہیں ہوتا بلکہ بیان کردہ پہلے باب کے لواحق اور متممات پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن ایک صحیح نسخہ میں اس موقع پر  باب فرالریاح اور اسی طرح ایک دوسرے نسخہ میں  باب الریاح لکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے  ہواؤں کا بیان گویا اس باب میں ہواؤں سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی۔

ہوا رحمت بھی ہے اور عذاب بھی

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پروا ہوا کے ذریعے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا کے ذریعہ ہلاک کی گئی (مسلم)

 

تشریح

 

غزوہ خندق کے موقع پر جب کفار نے اپنی پوری قہرمانی طاقتوں کے ساتھ مدینہ کا بڑا شدید محاصرہ کیا تو منجانب اللہ مسلمانوں کی اس طرح مدد کی گئی کہ پروا ہوا نہایت تیز چلنی شروع ہو گئی جس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ اس نے لشکر کفار کے خیمے اکھاڑ ڈالے۔ ان کی ہانڈیاں اوندھا دیں اور ان کے منہ پر کنکریوں کی بارش کر دی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رعب و دہشت کی ایسی ہیبت ناک لہر دوڑا دی کہ وہ حواس باختہ ہو گئے اور شکست کا منہ دیکھ کر میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ گویا یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا افضل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک عظیم معجزہ تھا۔

 قوم عاد  گذشتہ امتوں میں ایک بڑی سرکش امت گزری ہے اس امت کے لوگوں کے قد بارے بارہ گز کے تھے۔ جب اس قوم کی سرکشی و بدکرداری نے حد سے تجاوز کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دی تو بڑے زبر دست پچھم کی ہوا چلی جس نے ان کو اس طرح زمین پر دے مارا کہ ان کے سر چکنا چور ہو گئے، پیٹ پھٹ گئے اور آنتیں باہر نکل پڑیں۔

لہٰذا اس ارشاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہوا اللہ تعالیٰ کی تابعدار ہے کبھی تو وہ خدا کے حکم سے رحمت خداوندی کی شکل میں مدد و نصرت بن کر آتی ہے اور کبھی وہی ہوا اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے عذاب الٰہی کی صورت میں کسی قوم کے لیے ہلاکت و بربادی کا پیغام لے کر آتی ہے۔

ابر و ہوا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کیفیت

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی بھی اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوا نظر آیا ہو۔ آپ صرف تبسم فرماتے تھے اور جب ابر یا ہوا دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا تغیر (صاف) پہچانا جاتا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب ابر یا ہوا دیکھتے تو متفکر ہو جاتے تھے اور چہرہ مبارک پر اس ڈر اور خوف کے آثار صاف پہچانے جاتے کہ کہیں یہ ابر یا ہوا اپنے دامن میں لوگوں کے لیے نقصان و ضرر کا سامان نہ لیے ہو۔

اس روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  شہود یعنی جلال کبریائی کے مشاہدہ کی وجہ سے ہمیشہ ہی خائف و لرزاں رہا کرتے تھے اور کسی بھی وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک خوف و خشیت سے خالی نہیں رہتا تھا۔ مگر خاص طور پر جب ابر یا ہوا دیکھتے تو اور زیادہ متفکر اور متردد ہو جاتے تھے۔

تیز ہوا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب شدت کی ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا فرماتے  اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے بھلائی جو اس (ہوا کی ذات میں ہے اور بھلائی اس چیز کی جو اس میں ہے (یعنی اس کے منافع) اور بھلائی اس چیز کی جس کے لیے یہ ہوا بھیجی گئی ہے (یعنی اس کی مدد) اور پناہ مانگتا ہوں تیرے ذریعہ اس برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی یہ عذاب کا باعث نہ ہو) اور جب آسمان ابر آلود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (کے چہر مبارک) کا رنگ بدل جاتا چنانچہ (اضطراب و گھبراہٹ کی وجہ سے ایک جگہ نہ رہتے بلکہ) کبھی گھر سے باہر نکلتے اور کبھی باہر سے اندر آتے اس طرح پھر آتے اور پھر جاتے۔ جب بارش شروع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خوف و اضطراب ختم ہو جاتا (ایک مرتبہ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب یہ (تغیر و اضطراب) محسوس کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا سبب پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  عائشہ  کیا! خبر یہ ابر ویسا ہی ہو جس کی نسبت قوم عاد نے کہا تھا کہ  یہ ابر ہے جو ہم پر برسے گا۔ چنانچہ اس آیت میں قوم عاد کا حال بیان کیا گیا ہے کہ  جب انہوں نے ابر کو اپنے نالوں اور وادیوں پر آتے ہوئے دیکھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر برسے گا۔ اور ایک روایت میں بجائے (فاذا مطرت سری عنہ) یہ الفاظ ہیں کہ  جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارش کو دیکھتے تو یہ فرماتے کہ یہ بارش باعث رحمت ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مذکورہ بالا آیت میں قوم عاد کی ہلاکت کی ابتداء کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب ابر کی شکل میں ان پر نمودار ہوا تو اسی خوش فہمی میں رہے کہ یہ ابر ہمارے اوپر بارش برسائے گا، مگر حق تعالیٰ نے ان کی اس خوش فہمی کو جلد ہی ہلاکت میں بدل دیا جس کا اظہار اسی آیت کے دوسرے الفاظ میں بل ھو ما استعجلتم الا یہ کے ذریعہ بایں طور کیا گیا ہے کہ (نہیں) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لیے تم رہ گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، گنہگار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔

پس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ابر دیکھتے تو پڑھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح قوم عاد نے ابر دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ ہم پر بارش ہو گی اور پھر وہ ابر ان پر بارش تو کیا برساتا بلکہ ایسی تند و تیز آندھی آئی جس نے آن واحد میں پوری قوم کو ہلاکت کی وادی میں پھینک دیا اسی لیے ہمارے لیے بھی یہ ابر ہلاکت و بربادی کا باعث نہ ہو۔ ؟

غیب کے پانچ خزانے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  غیب کے خزانے پانچ ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے) اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 غیب کے پانچ خزانے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ کوئی دوسرا ان پر مطلع نہیں ہے۔ انہیں پانچ خزانوں کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ   ۚ وَینَزِّلُ الْغَیثَ ۚ وَیعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَداً   ۭ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌۢ بِاَی اَرْضٍ تَمُوْتُ   ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ) 31۔ لقمان:34)  یعنی بلاشبہ اللہ ہی کو قیامت قائم ہونے اور بارش برسانے کا علم ہے اور وہی جانتا ہے کہ (ماں کے) پیٹ میں کیا ہے (یعنی لڑکا ہے یا لڑکی، گورا ہے یا کالا اور پورا ہے یا ادھورا وغیرہ وغیرہ) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا (یعنی دنیا میں بھلائی کریگا یا برائی اور آخرت میں ثواب پائے گا یا عذاب) اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ وہ کون سی زمین پر مرے گا، بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔ یہ غیب کی وہ پانچ چیزیں ہیں جن کی کلیات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہاں اللہ کے بعض برگزیدہ و نیک بندے ان میں سے کسی بعض جزئیات کو جان جاتے ہیں (مگر وہ بھی اسی وقت جب کہ اللہ اپنے کسی ذریعہ سے بتا دیتا ہے)

سخت قحط کیا ہے؟

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سخت قحط اس کا نام نہیں ہے کہ تم پر بارش نہ ہو بلکہ سخت قحط یہ ہے کہ تم پر بارش ہو مگر زمین نہ کچھ لگائے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 قاضی نے کہا ہے کہ جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا شدید اور سخت قحط سالی یہ نہیں ہے کہ بارش نہ ہو اور سو کھا پڑ جائے بلکہ شدید اور سخت قحط سالی اس کا نام ہے کہ بارش تو ہو مگر زمین کی پیداوار بالکل بند ہو جائے کیونکہ فائدہ اور بھلائی کی امید اور توقع اور پھر اس کے اسباب و وسائل کے ظاہر ہو جانے کے بعد غیر متوقع طریقہ پر نقصان و ضرر پہلے سے متوقع نقصان و مایوسی سے کہیں زیادہ سخت اور شدید ہوتا ہے۔

ہوا کو برا کہنے کی ممانعت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  ہوا اللہ کی رحمت ہے، وہ رحمت بھی لاتی ہے اور عذاب بھی۔ پس تم (اگر تمہیں اس سے کوئی نقصان پہنچے تو) اسے برا نہ کہو ہاں تم اللہ سے اس کی بھلائی طلب کرو، اللہ سے اس کے نقصان سے پناہ مانگو۔ (شافعی، سنن ابوداؤد، ابن ماجہ، بیہقی)

 

 

تشریح

 

 سخت ہوا اور آندھی جو اللہ کے سرکش اور نا فرمانبردار بندوں کے لیے عذاب کا ذریعہ بن کر آتی ہے وہ بھی حقیقت میں رحمت ہی ہے کیونکہ اللہ کے نیک و فرمانبردار بندے اس کی تباہی سے محفوظ رہتے ہیں۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک آدمی نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جو لعنت کی مستحق نہ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو (رحمت یا عذاب کے لیے) اللہ کی جانب سے مامور ہے اور جو آدمی کسی ایسی چیز پر لعنت کرتا ہے جو لعنت کی مستحق نہیں ہوتی تو وہ لعنت اسی لعنت کرنے والے پر لوٹ آتی ہے۔ یہ روایت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ لعنت کا باعث تین ہی چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ (١) کفر (٢) بدعت (٣) فسق، اور ظاہر ہے کہ ہوا میں ان تین چیزوں میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہوا کو لعنت دینے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہوا کو برا نہ کہو، ہاں جب تم یہ دیکھو کہ (اس کے جھلسا دینے والے جھونکوں یا اس کی ٹھنڈی لہروں کی وجہ سے) تمہیں وہ ناگوار محسوس ہو رہی ہے (یا اس کی تیز و تندی کی وجہ سے تمہیں تکلیف یا نقصان ہو رہا ہے) دعا کرو کہ اے اللہ !ہم تجھ سے اس ہوا کی بھلائی اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی بھلائی اور جس چیز کے لیے یہ مامور کی گئی ہے اس کی بھلائی مانگتی ہیں اور ہم تجھ سے اس ہوا کی برائی سے اور جو کچھ اس کے اندر ہے اور اس کی برائی سے اور جس چیز کے لیے یہ مامور کی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتے ہیں۔ (جامع ترمذی)

تیز ہوا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی (تیز) ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے اظہار) امت کی طرف سے خوف اور تعلیم کے پیش نظر کہ دوسرے لوگ بھی ایسا ہی کریں) دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے۔ اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح (یعنی رحمت) بناء ریح (یعنی عذاب) نہ بنا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات کریمہ ہیں (جن کا ترجمہ یہ ہے) کہ  اور بھیجی ہم نے ان پر تیز و تند ہوا۔ اور بھیجی ہم نے ان پر بانجھ ہوا (یعنی ایسی ہوا جو درختوں کو ثمر آور نہیں ہونے دیتی تھی) اور بھیجیں ہم نے میوہ لانے والی ہوائیں۔ اور یہ کہ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بارش کی) خوشخبری لانے والی ہوائیں۔ (شافعی، بیہقی)

 

تشریح

 

 مشہور اور صحیح یہ ہے کہ لفظ  ریح جو مفرد ہے عذاب کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ذکر کردہ پہلی دونوں آیتوں سے معلوم ہوا، اور لفظ  ریاح جو جمع ہے رحمت کے موقع پر مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ آخر کی دونوں آیتوں سے ثابت ہوا۔

پس حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں مذکور دعا میں  ریاح سے مراد رحمت اور  ریح سے مراد  عذاب ہے لیکن ابو جعفر طحاوی نے اس میں اشکال ظاہر کیا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی میں یہ بھی ارشاد ہے کہ وجرین بھم بر یح طیبۃ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  ریح رحمت و بھلائی کے لیے مستعمل ہے۔

اسی طرح بعض احادیث میں بھی لفظ ریح جو مفرد ہے خیر و شر دونوں موقعوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو

ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گذشتہ روایت (نمبر ٦) کے الفاظ الریح من روح اللہ الخ کو دیکھ لیجئے۔ لہٰذا اس اشکال کے پیش نظر خطابی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ جب بہت ساری ہوائیں آتی ہیں تو وہ ابروبارش لاتی ہیں اور کھیتوں میں نمو پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ ایک ہوا میں یہ تاثیر کم ہوتی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا فرمائی کہ  اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح بنا، ریح نہ بنا۔

ابر کے وقت کی دعا

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب آسمان سے گھٹا دیکھتے تو (مباح) کام کاج چھوڑ کر ادھر متوجہ ہو جاتے اور یہ دعا فرماتے  اے اللہ ! جو کچھ اس میں برائی ہو میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ (بغیر برسائے) آسمان کو صاف کر دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی حمد بیان فرماتے اور اگر بارش شروع ہو جاتی تو یہ دعا فرماتے کہ  اللہ ! نفع دینے والا پانی برسا۔ سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، الفاظ شافعی کے ہیں۔

گرج کے وقت کی دعا

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب گرج کی آواز سنتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بجلی کا گرنا معلوم ہوتا تو یہ دعا فرماتے ہیں۔ اے اللہ ! ہمیں اپنے غضب سے نہ مار اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ کر اور ہمیں عافیت میں رکھ (یعنی ہمیں عافیت کی موت دے) پہلے اس کے (کہ تیرا عذاب نازل ہو) احمد بن حنبل جامع ترمذی، اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب گرج کی آواز سنتے تو بات چیت چھوڑ دیتے تھے اور یہ پڑھنے لگتے۔ پاک ہے وہ ذات جس کی  رعد  تسبیح کرتا ہے اس کی تعریف کے ساتھ، اور فرشتے اس کے خوف سے۔ (مالک)

 

تشریح

 

  رعد فرشتے کا نام ہے جو بادل ہنکانے پر مقرر ہے۔ چنانچہ گرج درحقیقت اس کی تسبیح کی آواز ہے حضرت عبداللہ ابن عباس کی یہ روایت منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر کے ہمراہ سفر میں تھے گرج، بجلی کی چمک اور سردی نے ہمیں آ لیا، حضرت کعب نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ جو آدمی گرج کی آواز سن کر تین مرتبہ یہ پڑھے سبحان من یسبح الرعد بحمدہ والملائکہ من خیفتہ تو وہ ان چیزوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسے موقع پر جب کہ بادل کی چمک و گرج اور بجلی کی تڑپ و کڑک، خوب و اضطراب کی لہر پیدا کر دے ان مقدس الفاظ کا ورد سکون قلب اور حفاظت کے لیے بہت موثر ہے۔

لِلّٰہِ الْحَمْدُ اَوَّلَا وَّاٰخِرً ا وَّظَاھِراًوَّبَا طِناً وَصَلَّی اﷲ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَ حْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ