مشکوٰة شر یف

طب کا بیان

علم نجوم حاصل کرنا گویا سحر کا علم حاصل کرنا ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص علم نجوم کا ایک حصہ سیکھتا ہے تو گویا وہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھتا ہے اس طرح وہ اتنا زیادہ سحر کا علم سیکھتا ہے جتنا زیادہ نجوم کا علم سیکھتا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 علم نجوم کو سحر سے تشبیہ دی گئی ہے کہ نجوم کا علم سیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کسی نے جادو ٹوٹکے کا علم سیکھ لیا اور اس مشابہت کی وجہ سے علم نجوم کی برائی کو ظاہر کرنا ہے اس اعتبار سے علم نجوم پر عمل کرنے والا گویا جادوگروں اور کاہنوں میں کا ایک فرد ہے جو خلاف شریعت امور کو اختیار کرتے ہیں اور غیب کی باتیں بتانے کا دعوی کرتے ہیں۔

کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے ، یا جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے ، یا جو شخص حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر ہو، یا جو شخص اپنی بیوی کے پیچھے کی طرف سے بد فعلی کرے تو وہ اس چیز (یعنی قرآن و سنت و شریعت) سے بیزار ہوا جو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر نازل ہوئی ہے۔ (احمد ، ابوداؤد)

 

تشریح

 

  بیزار ہوا  کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہو گیا، لیکن یہ اس صورت میں پر محمول ہے جب کہ وہ اس کو حلال جانے ، حلال نہ جاننے کی صورت میں یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم ان چیزوں کی سخت ترین برائی کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے اور ان سخت برائیوں کے اختیار کرنے والے کو شدت کے ساتھ متنبہ کرنے اور ڈرانے پر محمول ہو گا۔

نجومی اور کاہن غیب کی باتیں کس طرح بتاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی چیز کا حکم جاری کرتا ہے۔تو فرشتے اللہ کے فرمان سن کر خوف و عاجزی سے اپنے بازو کو پھڑپھڑانے لگتے ہیں (یعنی فرشتے حکم الہٰی کی ہیبت و عظمت سے مارے ڈر کے پرندوں کی طرح اپنے چکھ پھیلا دیتے ہیں اور لرزنے کانپنے لگتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی اس کے کلام کی آواز(گویا) اس زنجیر کی آواز کی مانند ہوتی ہے جس کو صاف پتھر پر کھینچا جائے پھر جب فرشتوں کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ (نیچے رہنے والے) تمام فرشتے مقرب فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم جاری فرمایا ہے ، مقرب فرشتے وہ حکم بتاتے ہیں جو پروردگار نے جاری کیا ہے (یا مقرب فرشتے دریافت کرنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے فرمایا ہے) حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بلند قدر اور بلند مرتبہ ہے۔چنانچہ ان باتوں کو (جو فرشتوں کے درمیان ہوتی ہیں) چوری چھپے سننے والے (یعنی جنات و شیاطین) سن لیتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والوں کی ہیئت کو اپنے ہاتھ (کی انگلیوں) کے ذریعہ بیان کیا چنانچہ انہوں نے ہاتھ کو ٹیڑھا کر کے انگلیوں کے درمیان فرق کیا (یعنی حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے اوپر تلے ہونے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ جنات و شیاطین آسمان سے زمین تک اس طرح سلسلہ وار اور اوپر تلے کھڑے رہتے ہیں) اور اوپر والا جن فرشتوں کی بات کو چوری چھپے سن کر اپنے نیچے والے جن کو پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے نیچے والے جن کو پہنچاتا ہے یہاں تک کہ آخری جن (جو سب سے نیچے ہوتا ہے) اس بات کو ساحر یا کاہن کی زبان تک پہنچاتا ہے ادہر (ان جنات و شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لئے آسمان سے شعلے پھینکے جاتے ہیں تو) کبھی تو یہ شعلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچانے سے پہلے ہی چوری چھپے سننے والے (جن کو) آ پکڑتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ جن اس شعلے کے پہنچنے سے پہلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچ جاتی ہیں تو وہ اس میں سو جھوٹی باتیں شامل کر لیتا ہے (اور لوگوں کے سامنے ان جھوٹی باتوں کے درمیان وہ بات بھی بیان کرتا ہے جو اس تک جنات و شیاطین کے ذریعہ پہنچتی ہے) چنانچہ جب کوئی شخص اس کاہن کو (اس کی بتائی ہوئی باتوں میں سے جھوٹی باتوں کے ذریعہ) جھٹلاتا ہے (یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے جو فلاں فلاں بات کہی تھی ثابت ہوئی) تو (ان گمراہ لوگوں کی طرف سے جو کاہن کی باتوں کو سچا جانتے ہیں جھٹلانے والے کے سامنے) یہ کہا جاتا ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ اس کاہن نے فلاں فلاں دن ہم سے فلاں بات کہی تھی اور اس طرح اس کاہن کی سچائی کی تصدیق اس بات سے کی جاتی ہے جو اس تک (جنات کے ذریعہ) آسمان سے پہنچتی تھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 حدیث میں وہ صورت بیان کی گئی ہے جو کاہنوں تک غیب کی باتیں پہنچنے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ حدیث کے آخر میں اس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کاہن کی بتائی ہوئی اکثر باتیں جھوٹ ثابت ہوتی ہیں اور لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو وہ لوگ جو کاہن کی سچائی کا اعتقاد رکھتے ہیں اور باطن کی گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اس کاہن کی ساری جھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف اس بات کا حوالہ دے کر اس کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنات و شیاطین فرشتوں سے چوری چھپے سن کر کاہن تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو واقعہ کے مطابق ہوتی ہے یہی صورت نجومیوں کے بارے میں بھی ہوتی ہے کہ جب سینکڑوں باتیں بتاتے ہیں اور اس میں کوئی بات اتفاق سے صحیح ثابت ہو جاتی ہے تو وہ دنیا دار لوگ جن کے باطن میں گمراہی و کجی ہوتی ہے اس ایک بات کی بنیاد پر ان نجومیوں کے معتقد ہو جاتے ہیں۔

 

آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت آ رہی ہے جس میں صراحت کے ساتھ کاہن کو ساحر فرمایا گیا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کے ان الفاظ علی لسان الساحر او الکاہن میں ساحر سے مراد کاہن ہے اس صورت میں حرف او راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو گا (یعنی یہ کہا جائے گا کہ راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ساحر کا لفظ فرمایا گیا ہے یا کاہن کا) اور اگر یہ بات پیش نظر ہو کہ ساحر چونکہ غیب کی باتیں نہیں بتایا کرتا اور اس اعتبار سے یہاں ساحر کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہو سکتا تو یہ کہا جائے گا کہ  ساحر  سے مراد نجومی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے المنجم ساحر یعنی نجومی ساحر ہے اس صورت میں الساحر والکاہن میں حرف او تنویع کے لئے ہو گا۔

رہی یہ بات کہ چوری چھپے آسمان میں داخل ہونے اور فرشتوں کی باتیں سننے والے جن و شیطان کو بھگانے کے لئے جب شعلے پھینکے جاتے ہیں اور وہ شعلے اس جن یا شیطان کو پکڑتے ہیں تو اس کا حشر کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ جن یا شیطان ان شعلوں کی زد میں آ کر جل بھن جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں جب کہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ وہ جل بھن کر ختم نہیں ہوتے بلکہ شعلوں سے تکلیف و ایذاء پا کر زندہ واپس آ جاتے ہیں۔

شہاب ثاقب کی حقیقت

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی نے مجھ سے بیان کا کہ ایک دن رات کے وقت کچھ صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کیا کہتے تھے؟ صحابہ نے عرض کیا۔ حقیقت حال کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم تو یہ کہا کرتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا آدمی پیدا کیا گیا ہے (یا کبھی یہ کہتے کہ) آج کی رات کوئی بڑا آدمی مر گیا ہے (یعنی ہم اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کسی بڑے اور اہم واقعے کی علامت سمجھا کرتے تھے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ستارہ نہ تو کسی کی موت سے ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے بلکہ، حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارا رب جس کا نام بابرکت ہے جس کو کوئی حکم جاری فرماتا ہے تو عرض الہٰی کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح (یعنی سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد کرنے لگتے ہیں) پھر ان کی تسبیح کی آواز سن کر آسمان کے فرشتے تسبیح کرنے لگتے ہیں ،جو عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب ہے یہاں تک کہ اس تسبیح کی آواز ایک دوسرے آسمان سے ہوتی ہوئے آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے ، پھر وہ فرشتے جو عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں سے قریب رہتے ہیں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ وہ فرشتے ان کو وہ بات بتاتے ہیں جو پروردگار نے فرمائی ہے ، پھر اس بات کو ان سے دوسرے فرشتے دریافت کرتے اور ان سے اور فرشتے ، یہاں تک کہ یہ سلسلہ آسمان دنیا پر رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کی سنی ہوئی بات کو جنات اچک لیتے ہیں یعنی وہ کان لگائے ایسی باتوں کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ چوری چھپے کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو وہاں سے لے اڑتے ہیں۔ اور اپنے دوستوں یعنی کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں ، چنانچہ ان جنات کو مارنے کے لئے ستارے پھینکے جاتے ہیں (لہٰذا ان ستاروں کے پھینکے جانے کا سبب یہ ہے نہ کہ وہ جس کا تم اعتقاد رکھتے ہو ، یعنی کسی کی موت یا پیدائش وغیرہ) اس طرح کاہن اگر اس بات کو جو آسمان سے سنی گئی ہے۔ اور جنات کے ذریعہ اس تک پہنچی ہے جوں کی توں (یعنی اس میں کوئی تصرف اور کمی بیشی کے بغیر) بیان کریں تو وہ یقیناً صحیح ثابت ہو گی ، (لیکن وہ کاہن ایسا نہیں کرتے بلکہ) اس میں جھوٹی باتیں شامل کر دیتے ہیں اور ایک بات کی بہت سی باتیں بنا لیتے ہیں۔ (مسلم ،)

ستارے کس لئے پیدا کئے گئے

اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین باتوں کے لئے پیدا کیا ہے ایک تو یہ کہ ان کو آسمانوں کی زینت بنایا اور دوسرے شیاطین و جنات کو مارنے کے لئے اور تیسرے علامات کے لئے کہ لوگ ان کے ذریعہ جنگل و دریا میں اپنا راستہ پا سکیں، لہٰذا جس شخص نے ان ستاروں میں ان تین باتوں کے سوا اور کوئی غرض بیان کی تو اس نے خطا کی، اپنا حصہ ضائع کیا اور پھر اس چیز میں تکلف کیا جس کو وہ نہیں جانتا (یعنی آسمان کی چیزوں کے بارے میں جو حقوق ہیں ان کا علم قرآن و سنت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب قرآن و سنت میں ستاروں کی غرض ان تین باتوں کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کی گئی ہے تو مذکورہ باتوں کے علاوہ کوئی اور غرض بیان کرنا ایسی بات کا بیان کرنا ہے جس کا معلوم ہونا متصور ہی نہیں ہے۔! اس روایت کو بخاری نے بغیر سند کے نقل کیا ہے اور رزین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اس نے اس چیز کا تکلف کیا جو اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور اس چیز میں تکلف کیا (یعنی اس چیز کو جاننے کا دعوی کیا) جس کا اس کو علم نہیں ہے اور اس چیز میں تکلف کیا جس کے علم سے انبیاء اور فرشتے عاجز رہے ہیں۔ ربیع نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ قسم ہے خدا کی ! اللہ تعالیٰ نے ستارے میں نہ تو کسی کی زندگی (یعنی پیدائش) مقرر کی ہے نہ کسی کا رزق یعنی مال و جاہ وغیرہ اور نہ کسی کی موت ! اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کاہن اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی افتراء پردازی کرتے ہیں اور ستاروں کے طوع و غروب ہونے کو کسی واقعہ و حادثہ کی علت قرار دیتے ہیں !۔

 

تشریح

 

 اپنا حصہ ضائع کیا  کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح لایعنی باتوں اور بیکار امور میں مبتلا کیا کہ جن کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ آخرت میں حاصل ہونے والا ہے۔ اس طرح اس نے گویا اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ گنوایا۔

نجومی ، ساحر ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ سیکھا اور سیکھنے کی غرض ان تین چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز سے متعلق ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمائی ہیں۔ (اور جن کا بیان حدیث میں گزرا) تو اس نے بلا شبہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھا (جب کہ علم سحر ایک برا علم ہے کیونکہ اس کی بعض قسم فسق میں داخل ہے ، اور بعض قسم موجب کفر ہے) اور (یاد رکھو) منجم (علم نجوم کا جاننے والا) کاہن کے حکم میں ہوتا ہے (کیونکہ کاہن کی طرح منجم بھی بعض علامات کے ذریعہ غیب کی خبر دیتا ہے) اور کاہن، ساحر کے حکم میں ہے (کیونکہ کاہن بھی بری باتوں کا ارتکاب کرتا اور لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے) اور جو شخص ساحر کرے اور اس کے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے وہ کافر ہو جاتا ہے (اسی طرح منجم اور کاہن بھی اپنی بد اعتقادی کی بنا پر کافر ہو جاتے ہیں)۔ (رزین)

 

تشریح

 

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نجوم کہانت اور سحر ، یہ سب چیزیں ایک ہی جنس سے ہیں کہ ان سب کا ایک ہی حکم ہے اور یہ سب کافروں اور بے دین لوگوں کے کام ہیں۔

منازل قمر کو نزول باراں میں مؤثر حقیقی جاننا کفر ہے

اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر اللہ تعالیٰ مثلاً پانچ برس تک اپنے بندوں کو بارش سے محروم رکھے اور پھر بارش برسائے تو لوگوں کی ایک جماعت جو نجوم پر اعتقاد رکھتی ہے اس صورت میں بھی کفر کرتی ہوئی یہ کہے گی کہ مجدح یعنی قمر کی منزل کے سبب ہم پر بارش ہوئی ہے۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 مجدح  میم کے زیر جیم کے جزم اور دال کے زبر کے ساتھ اہل عرب کے نزدیک منازل قمر میں سے ایک منزل کا نام ہے زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس منزل کو بارش برسنے کا سبب قرار دیتے تھے۔ یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ ستاروں کے طلوع و غروب اور منازل قمر کو بارش برسنے کا حقیقی سبب سمجھنا کفر ہے۔

طب اور جھاڑ پھونک کا بیان

 طب  عام طور پر طاء کے زیر کے ساتھ مستعمل ہے، لیکن سیوطی کہتے ہیں کہ یہ لفظ طاء کے زبر، زیر اور پیش تینوں کے ساتھ منقول ہے، اس کے معنی ہیں  علاج کرنا، دوا کرنا۔ بعض مواقع پر اس لفظ کو طاء کے زیر کے ساتھ  سحر کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہم اسی اعتبار سے  مطبوب  اس شخص کو کہتے ہیں جس پر سحر (جادو) کیا گیا ہو۔

طب کا تعلق جسم (ظاہر) سے بھی ہوتا ہے اور نفس (باطن) سے بھی، چنانچہ حفظان صحت اور دفع مرض کے ذریعہ بدن کے علاج معالجہ کو جسمانی طب کہتے ہیں، اور باطنی ہلاکت و تباہی تک پہنچانے والے افکار و اعمال اور بری عادات و اطوار کے ترک و ازالہ کے ذریعہ نفس کا علاج کرنے کو طب نفسانی کہتے ہیں، جس طرح طب کی دو قسمیں ہیں، اسی طرح دوا کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تو جسمانی اور طبعی، خواہ وہ مفردات کی شکل میں ہو یا مرکبات کی شکل میں (جیسا کہ ظاہری دوائیں ہوتی ہیں) اور دوسری قسم روحانی و لسانی ہے، جو قرآن کریم اور قرآن کریم کے حکم میں شامل دوسری چیزوں کی صورت میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کے لوگوں کے علاج و اصلاح کے لئے ظاہری و طبعی دواؤں کو بھی اختیار فرماتے تھے اور باطنی و روحانی معالجہ کو بھی۔

 رقی  اصل میں  رقیہ  کی جمع ہے جس کے معنی افسون کے ہیں ہماری زبان میں اس کو منتر اور روز مرہ کی بول چال میں جھاڑ پھونک بھی کہا جاتا ہے، علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآنی آیات، منقول دعاؤں اور اسماء الٰہی کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے ان کے علاوہ ایسے منتروں کے ذریعہ بھی جائز ہے جن کے الفاظ و کلمات کے معنی معلوم ہوں، اور وہ دین و شریعت کے مخالف نہ ہوں جن منتروں کے الفاظ و کلمات ایسے ہوں کہ ان کے معنی معلوم نہ ہوں یا ان کے الفاظ و کلمات دین و شریعت کی تعلیمات و احکام کے برخلاف ہوں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا قطعا، جائز نہیں ہے اسی طرح وہ اہل عزائم و تکثیر جو علم نجوم و رمل کی مدد لے کر عملیات کرتے ہیں اور حفظ ساعات و تعین اوقات جیسی چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ان کا یہ طریقہ بھی اہل دیانت و تقویٰ کے نزدیک مکروہ و حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری ہے اور پیدا نہیں کی ہے جس کے لئے شفا نہ کی ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے، تاکہ اگر وہ مرض لاحق ہو تو اس علاج کے ذریعہ شفا بخشے۔' (بخاری)

دوا صرف ایک ظاہری ذریعہ ہے حقیقی شفا دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہے

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر بیماری کی دوا ہے، لہٰذا جب وہ بیماری کے موافق ہو جاتی ہے تو بیمار خدا کے حکم یعنی اس کی مشیت و ارادہ سے اچھا ہو جاتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  خدا کے حکم کی قید اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ یہ گمان نہ کیا جائے کہ مرض سے شفا یابی کا اصل میں تعلق دوا سے ہے اور مریض کو صحت بخشنے میں علاج و معالجہ حقیقی اور مستقل بالذات مؤثر ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں شفا یابی تو محض اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ پر موقوف ہے، دوا اور علاج و معالجہ محض ایک ظاہری ذریعہ اور وسیلہ ہے، کسی بھی مرض پر کوئی دوا اسی وقت اثر انداز ہوتی ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے، چنانچہ روایت حمیدی میں اس کی تفصیل یوں منقول ہے کہ ایسا کوئی بھی مرض نہیں ہے جس کا علاج نہ ہو چنانچہ جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے جس کے ساتھ ایک پردہ ہوتا ہے وہ فرشتہ اس پردہ کو بیمار کے مرض اور دوا کے درمیان حائل کر دیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار جو بھی دوا استعمال کرتا ہے وہ مرض کو نہیں لگتی اور شفا حاصل نہیں ہوتی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہوتی ہے کہ بیمار اچھا ہو جائے تو وہ فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ مرض اور دوا کے درمیان سے پردہ اٹھا دیا جائے اس کے بعد بیمار جب دوا پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دوا کے ذریعہ اس کو شفا دے دیتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جب کوئی مرض لاحق ہو جائے تو اس کا علاج کرنا اور دوا مستحب ہے، چنانچہ صحابہ کرام اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ نیز اس سے ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو علاج معالجہ اور دواء کی افادیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر چیز کی طرح مرض بھی قضا و قدر کے زیر اثر ہے اس لئے کسی بیمار کا علاج کرنا لاحاصل ہے۔ جمہور علماء جو علاج و معالجہ کے قائل ہیں کی دلیل مذکورہ احادیث ہیں اور انکا اعتقاد یہ ہے کہ بیشک امراض کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لیکن امراض کے ازالہ کے ذرئع پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جس طرح مرض و بیماری قضا و قدر کے تابع ہے اسی طرح علاج و معالجہ کرنا بھی تقدیر الٰہی ہی سے ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسا کہ ہر انسان کی موت کا وقت بالکل اٹل ہے جس کی موت جس صورت میں لکھی جا چکی ہے اسی صورت میں آ کر رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود اپنی حفاظت و سلامتی کے ذرائع اختیار کرنا اور اپنی جان کو کسی حادثہ یا دشمن کے حملہ سے محفوظ رہنے کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا میدان جنگ میں دشمنان دین کو قتل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ حاصل یہ کہ جان و صحت کی حفاظت و سلامتی کے لئے دوا وغیرہ جیسے اسباب ذرائع اختیار کرنا نہ تو حکم خداوندی کے خلاف ہے اور نہ توکل کے منافع ہے جیسا کہ کھانے کے ذریعہ بھوک کو دفع کرنا توکل کے منافع نہیں ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر توکل کرنے والا کون انسان ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سید المتوکلین تھے، لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم علاج بھی کرتے تھے اور بیماری کو دور کرنے کے ذرائع اختیار فرماتے تھے۔

تین چیزوں میں شفا ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شفا تین چیزوں میں ہے بچھنے والی سینگی لگانے میں، یا شہد پینے میں خواہ خالص شہد پیا جائے یا پانی وغیرہ میں ملا کر پیا جائے اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 محجم ' میم کے زیر اور جیم کے زبر کے ساتھ سینگی کو کہتے ہیں، لیکن یہاں اس لفظ سے مراد نشتر یا استرا ہے جس سے پچھنے دیئے جاتے ہیں۔ شرطۃ شین کے زبر کے ساتھ، پچھنے لگاؤ کے لئے کو پچھنے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ رگ سے خون نکالا جاتا ہے لہذا فی شرطۃ معجم کا ترجمہ یہ ہو گا کہ نشتر یا استرے کے ذریعہ پچھنے لگانے میں (شفا ہے)

سفر السعادۃ کے مصنف کے مطابق علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث میں تمام مادی (جسمانی) امراض کے علاج معالجہ کی طرف راہنمائی و اشارہ ہے کیونکہ مادی امراض یا تو دموی ہوتے ہیں یا صفراوی یا بلغمی ہوتے ہیں یا سوداوی چنانچہ اگر کوئی مرض دموی یعنی فساد خون کی بنا پر ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کو جسم سے باہر نکال دیا جائے جس کی صورت پچھنے لگوانا ہے اور باقی تینوں صورتوں میں مرض کا بہترین علاج اسہال ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہد کے ذریعہ اس طرف متوجہ کیا کہ اسہال کے لئے شہد ایک بہترین اور معتدل دوا کا کام دیتا ہے نیز آگ سے داغنے کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ اگر مرض کی نوعیت ایسی ہو کہ طبیب و معالج اس کے علاج سے عجز ہو جائیں تو پھر آگ سے داغا جائے کیونکہ یہ جب کوئی مغلظ باغی ہو جاتی ہے اور اس کا مادہ منقطع نہیں ہوتا تو اس کے انقطاع کا واحد ذریعہ اس کو داغ دینا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اخر الدوالکی یعنی آخری دوا داغنا ہے۔

رہی یہ بات کہ داغنا جب ایک علاج ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی ممانعت کیوں فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب داغنے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ ہو گیا تھا کہ مادہ مرض کا باعث ہے اس کے دفیعہ کے لئے داغنا یقینی ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں یہ مشہور تھا کہ اخر الدوالکی۔ظاہر ہے کہ یہ بات اسلامی عقیدے کے سراسر خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی علاج خواہ وہ کتنا ہی مجرب کیوں نہ ہو یقین کا درجہ نہیں رکھ سکتا، صرف ظاہری سبب اور ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے یقینی شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس فاسد عقیدے کی تردید اور لوگوں کو شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے اس کی ممانعت فرمائی اور یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے ورنہ اگر کوئی شخص داغنے کو مرض کے دفعیہ کا ایک ظاہری سبب و ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کو بطور علاج اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے جائز ہے، بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت کا تعلق خطرہ اور تردد کی صورت سے ہے یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ داغنے سے فائد ہے کے جزم کی بجائے نقصان اور ہلاکت جان کا خوف اور خطرہ ہو تو پھر داغنا نہ چاہئے۔ اس مسئلہ میں بعض شارحین حدیث نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ داغنے کے سلسلہ میں مختلف احادیث منقول ہیں بعض احادیث تو اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور بعض نہی کو ثابت کرتی ہیں جیسے مذکورہ بالا احادیث اور دوسری احادیث اسی طرح بعض احادیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں داغنے کو پسند نہیں کرتا اور بعض احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف کی گئی ہے اس طرح ان احادیث کے باہمی تعارض و تضاد کو دور کرنے اور ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے علماء نے یہ لکھا ہے کہ جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے داغا تو یہ اصولی طور پر داغنے کے جواز پر دلالت کرتا ہے اور جن احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عدم پسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے وہ اس جواز کے منافی نہیں ہے کیونکہ عدم پسندیدگی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو پسند نہیں فرماتے تھے لیکن دوسروں کے لئے اس کی ممانعت بھی نہیں فرماتے تھے، اسی طرح جن احادیث میں داغنے کو اختیار نہ کرنے پر مدح و تعریف منقول ہے وہ بھی عدم جواز پر دلالت نہیں کرتیں کیونکہ مدح و تعریف کا مقصد صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ داغنے کو اختیار نہ کرنا محض اولی اور افضل ہے نہ کہ ضروری ہے البتہ جن احادیث میں داغنے کی ممانعت صراحت کے ساتھ منقول ہے تو وہ ممانعت دراصل اس صورت پر محمول ہے جب کہ داغنے کو اختیار کرنا یا تو سبب مرض کے بغیر ہو یا مرض کے دفعیہ کے لئے اس کی واقعی حاجت نہ ہو بلکہ وہ مرض دوسرے علاج معالجہ سے دفع ہو سکتا ہے، نیز جیسا کہ او پر بیان کیا گیا ہے یہ ممانعت اس بات پر بھی محمول ہے کہ یہ ممانعت داغنے دراصل داغنے کے بارے میں مذکورہ بالا فاسد عقیدے اور شرک خفی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے ہے اور اگر اس طرح کا فاسد عقیدہ نہ رکھا جائے تو یہ ممانعت نہیں ہو گی بعض حضرات کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بعض صحابہ کے بارے میں داغنے کا حکم دینا (جیسا کہ آگے آ رہا ہے) اس بنا پر تھا کہ ان صحابہ کے زخم بہت خراب ہو گئے تھے اور بعض عضو کے کٹ جانے کی وجہ سے اخراج خون میں کمی نہیں ہو رہی تھی، نیز آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ داغنے کے صحت یقینی ہے حاصل یہ کہ کسی عضو کو داغنا یا جلانا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی واقعی ضرورت پیش آ جائے اور طبیب حاذق یہ کہے کہ اس مرض کا آخری علاج داغنا ہی ہے تو پھر داغنا جائز ہو گا۔

داغنے کا ذکر

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ احزاب (کہ جس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں) کے دن حضرت ابی کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہو گیا) تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو داغ دیا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زخم کے منہ کو داغنے کا حکم فرمایا یا خود اپنے دست مبارک سے داغا تاکہ خون بند ہو جائے۔ (مسلم)

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کی رگ ہفت اندام پر تیر آ کر لگا (جس سے خون جاری ہو گیا) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک پر تیر کے پیکان کے ذریعہ (زخم کو) داغ دیا، پھر جب ان کے ہاتھ پر ورم آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ داغا۔ (مسلم)۔

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک طبیب بھیجا طیب نے ان کی ایک رگ کو کاٹ ڈالا اور اس (زخم) پر داغ دیا۔(مسلم)

کلونجی کی خاصیت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سیاہ دانہ سام کے وقت کے علاوہ ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ سام سے موت مراد ہے اور سیاہ دانہ سے کلونجی مراد ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

طیبی کہتے ہیں کہ اگرچہ حدیث کے مفہوم میں عمومیت ہے کہ کلونجی کو ہر بیماری کو دوا فرمایا گیا لیکن یہ کلونجی خاص طور پر انہی امراض میں فائدہ مند ہے۔ جو رطوبت اور بلغم میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کلونجی ماء یابس و خشک و گرم ہوتی ہے اس لئے یہ ان امراض کو دفع کرتی ہے جو اس کی ضد ہیں، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم عمومیت پر ہی معمول ہے یعنی کلونجی ہر بیماری میں فائدہ مند ہے بایں طور کہ اگر اس کو کسی بھی دوا میں خاص مقدار و ترکیب کے ساتھ شامل کیا جائے تو اس کے صحت بخش اثرات ظاہر ہوتے ہیں کرمانی نے کہا کہ حدیث کا مفہوم عام ہے کیونکہ حدیث میں استثناء صرف موت کا کیا گیا ہے۔

سفرالسعادۃ کے منصف نے لکھا ہے کہ اکابر و مشائخ کی ایک جماعت کا معمول تھا کہ وہ اپنے تمام امراض میں کلونجی کو بطور دوا استعمال کرتے تھے اور ان کے حسن اعتقاد کی برکت سے ان کے امراض دور ہو جایا کرتے تھے۔

شہد کی شفا بخش تاثیر

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میرے بھائی کا پیٹ چل رہا ہے یعنی اس کو دست پر دست آ رہے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو شہد پلا دو، اس شخص نے (جا کر) اپنے بھائی کو شہد پلایا (کچھ دیر کے بعد) پھر آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شہد پلا دیا تھا لیکن شہد نے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا کہ اس کے پیٹ چلنے میں اور زیادتی کر دی ہے (یعنی شہد پلانے کے بعد سے دستوں میں پہلے سے بھی زیادتی ہو گئی ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو تین مرتبہ یہی حکم دیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر بار یہی فرماتے کہ اس کو شہد پلا دو، اور وہ شخص شہد پلاتا رہا، پھر آ کر کہتا کہ میں نے شہد پلا دیا مگر دستوں میں پہلے سے بھی زیادتی ہو گئی ہے) یہاں تک کہ وہ جب چوتھی مرتبہ آیا (اور کہنے لگا کہ اس کے دستوں میں زیادتی ہو گئی ہے) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر یہی فرمایا کہ اس کو شہد پلا دو، اس نے عرض کیا کہ میں نے شہد پلا دیا ہے، مگر شہد نے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا کہ اس کے پیٹ چلنے میں اور زیادتی کر دی ہے، تب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے تو سچ فرمایا ہے مگر تمہارے بھائی کا پیٹ ہی جھوٹا ہے۔ آخر کار اس شخص نے اپنے بھائی کو پھر شہد (خالص یا پانی میں ملا کر پلایا) تو وہ اچھا ہو گیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کسی بیماری کی صورت میں شہد استعمال کرنے کا ایک خاص طریقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یوں منقول ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی سے کہے کہ وہ اپنے مہر میں سے کچھ مال دے اور پھر اس مال کے ذریعہ شہد خریدے اور شہد کو بارش کے پانی میں ملا کر پی لے انشاء اللہ بابرکت شفا پائے گا۔

 اللہ تعالیٰ نے تو سچ فرمایا ہے  ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کریمہ (فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ) 16۔ النحل:69) کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شہد میں لوگوں کے لئے شفا ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعہ بتا دیا تھا کہ اگر وہ مریض شہد پئے گا تو اس کے پیٹ میں آرام ہو جائے گا اور دست بند ہو جائیں گے اسی بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے کہ شہد پینے سے اس کو فائدہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات غیر صحیح نہیں ہو سکتی لہٰذا مریض کو شہد پلائے جاؤ اس کو یقیناً فائدہ ہو گا۔

پھر آپ نے  تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے  کے ذریعہ گویا صحت یابی میں تاخیر ہونے کی علت بیان فرمائی کہ تمہارے بھائی کے پیٹ میں کوئی سخت مادہ جمع ہو رہا ہے اس کی وجہ سے شہد کی دی ہوئی مقدار کار گر نہیں ہو رہی ہے جب تک وہ مادہ باہر نہیں آ جائے گا تب تک اسے آرام نہیں آئے گا یا یہ کہ پیٹ خطا کر رہا ہے، یعنی ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا ہے اور ابھی شفا کو قبول نہیں کر رہا ہے جب وہ ٹھیک کام کرنے لگے گا اور شفا قبول کرے گا تو دست بند ہو جائیں گے واضح رہے کہ اہل عرب اپنے کلام میں اکثر لفظ کذب یعنی جھوٹ کو خطا کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ جب انہیں کہنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کے کان نے خطاء کی یعنی اس نے جو بات سنی ہے اس کی حقیقت کو نہیں پہنچا ہے تو وہ یوں کہتے ہیں۔ کذب سمعہ یعنی اس کے کان نے جھوٹ کہا۔

طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور مروج طب میں فرق اور اس کی وجہ

اس موقع پر یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ اگرچہ علماء نے حتی الامکان طب نبوی علیہ السلام اور مروجہ طب میں مطابقت و موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں فرق ضرور موجود ہے اسی لئے صاحب سفر السعادۃ نے لکھا ہے کہ طب نبوی (ظاہری طور پر) اطباء کے قواعد و اصول کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتی کیونکہ طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا مصدر وحی الٰہی، قلب نبوت اور کمال عقل ہے ظاہر ہے کہ جو طب وحی الٰہی کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو یا جو علاج معالجہ قلب نبوت اور کمال عقل کا بتایا ہوا اس کا کامیاب ہونا اور اس کے ذریعے شفا پانا درجہ یقین کا حامل ہے اس کے برخلاف اطباء و حکماء کی جو طب ہے اور ان کے اصول و قواعد کے مطابق جو علاج معالجہ ہوتا ہے اس کا کلیۃ کامیاب اور افادیت بخش ہونا یقینی درجہ کی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس میں غلطی و خطا ہونے کا بھی گمان ہے کیونکہ اس طب کی بنیاد انسانی ذہن و تجربہ پر ہے اس اعتبار سے یہ طب اس طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنیاد وحی الٰہی، قلب نبوت اور کمال عقل ہے۔

طب نبوی اور مروجہ طب کے درمیان یہی فرق ہے جو بعض مواقع پر کچھ لوگوں کو شک شبہ اور الجھن میں ڈال دیتا ہے چنانچہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مرض کا ایسا علاج تجویز فرمایا ہے جو فن طب کے اصول و قواعد کے خلاف ہے تو وہ مختلف قسم کے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ جس طب کے اصول و قواعد کی بات کرتے ہیں وہ چونکہ انسان کے اپنے ذہن اور اپنی عقل و تدبیر کی پیداوار ہے اس لئے اس میں غلطی و خطا کا ہونا اور حقیقت حال تک نہ پہنچنا عین ممکن ہے جب کہ طب نبوی کا مصدر وحی الٰہی اور قلب نبوت ہے جس میں کسی خطا کا امکان ہی نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مرض کا جو بھی علاج تجویز فرمایا ہے اس کے بارے میں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا ناقص علم اور ذہن اس کی حقیقت تک نہ پہنچ سکے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ علاج مرض کے مطابق نہ ہو مثال کے طور پر یہاں حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق بعض اطباء سخت حیرانی اور الجھن میں مبتلا ہوئے ہیں کیونکہ شہد اپنے خواص کے اعتبار سے سہل اور پیٹ جاری کرنے والا ہے لہٰذا دستوں کے روکنے کے لئے شہد پلانے کا حکم نبوی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بظاہر اطباء کے اصول و قواعد کے بالکل خلاف ہے بناء بریں وہ اطباء کہتے ہیں کہ ہر مرتبہ شہد پلانے کے بعد دستوں میں زیادتی کا ہونا اسی وجہ سے تھا کہ شہد اسہال پیدا کرتا ہے ؟ اس بارے میں ایک بات تو یہی کہی جا سکتی ہے کہ یہ ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا جس میں دوا کی تاثیر سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کی برکت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعجاز سے وہی شہد اس کے حق میں شفا یابی کا ذریعہ بن گیا اور وہ اچھا ہو گیا، یہ بات اگرچہ حسن اعتقاد کے نقطہ نظر سے ایک اچھی تعبیر و ترجمانی ہے جو اہل ایمان کو مطمئن کر سکتی ہے اور پھر وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ محض اس واقعہ پر قیاس کر کے طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کو مروج طب کے اصول و قواعد کے متضاد قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کے علاوہ اگر فنی نقطہ نظر سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تجویز کردہ اس علاج پر پوری تحقیق اور گہری نظر کے ساتھ غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مریض کو شہد پلانے کا حکم دینا اطباء کے اصول و قواعد کے خلاف نہیں تھا۔ کیونکہ دستوں کا آنا جس طرح بدہضمی کی وجہ سے ہوتا ہے اسی طرح وہ فاسد مادہ بھی دست جاری ہونے کا سبب بنتا ہے جو جمع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جو دست معدے میں جمع ہونے والے فاسد مادہ کی وجہ سے آتے ہیں ان کو بند کرنا اور اس مادے کو باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے اور اس کا بہترین علاج شہد ہے۔خصوصاً شہد کو گرم پانی میں ملا کر پلانا بہت مفید ہے کہ وہ مادہ کو دفع کرتا ہے اور خارج بھی کر دیتا ہے پس وہ شخص جو بدہضمی کا شکار تھا اور اس کے معدے میں فاسد مادہ بھی جمع ہو گیا تھا اس کے لئے بہترین علاج یہی تھا کہ شہد پلا کر اس کے معدے میں جمع ہو جانے والا فاسد مادہ نکالا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو شہد پلانے کا حکم دیتے رہے یہاں تک کہ جب اس کا معدہ فاسد مادے سے بالکل صاف ہو گیا تو وہ اچھا ہو گیا، اس سلسلے میں یہ بات بطور خاص ذہن میں رکھنے کی ہے کہ علاج معالجہ میں حسن اعتقاد اور معالج کی تشخیص و تجویز پر مکمل اعتبار و بھروسہ بنیادی چیز ہے، چنانچہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے معالج کے بارے میں بھی کسی قسم کے شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس سے حسن اعتقاد نہیں ہوتا تو اس کا مزاج معالج کے اس علاج کو قبول نہیں کرتا اور شفا یابی سے محروم رہتا ہے خواہ وہ معالج کتنے ہی اونچے درجے کا کیوں نہ ہو اس کے برخلاف اگر وہ شخص پورے یقین و اعتقاد کے ساتھ کوئی انتہائی معمولی درجہ کا بھی علاج کرتا ہے تو وہ علاج اس کے لئے فائدہ مند ہو جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ اپنا علاج کرے جس کی کامیابی یقینی ہے اور اس کو اس علاج سے فائدہ نہ ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ اس کے ایمان میں کھوٹ ہے اور اس کو یقین و اعتقاد کی نعمت حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے کسی مرض کا علاج طب نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کو اپنا یقین کامل اور اپنا اعتقاد مضبوط کرنا چاہئے اور پھر صدق نیت و اخلاص عمل کے ساتھ اس علاج کو اختیار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں، امراض باطنی و روحانی اور فساد و ذہن کے لئے شفاء کامل کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا جو شخص قرآن کریم کو اخلاص و خلوص کے جذبہ سے سیکھتا ہے اور پڑھتا ہے اس کی تعلیمات پر یقین و اعتقاد کے ساتھ عمل کرتا ہے۔ اس کے قلب و روح کو یقیناً جلا و شفا حاصل ہوتی ہے، اس کے برخلاف جو شخص عدم اخلاص و قبول اور بے یقینی وبے اعتمادی کے ساتھ قرآن کریم کو سیکھتا پڑھتا ہے تو اس کے باطن میں اور زیادہ برائی اور اس کے قلوب میں اور زیادہ فساد پیدا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر بعض حضرات نے حدیث کے الفاظ کذب بطن اخیک (تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے) کو مریض کے عدم صدق نیت اور عدم خلوص اعتقاد پر بھی محمول کیا ہے یعنی ان حضرات کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ تمہارے بھائی نے چونکہ شہد کو یقین و اعتقاد اور اخلاص و قبول کے ساتھ نہیں پیا ہے، اس لئے فائدہ ہونے کے بجائے اس مرض میں زیادتی ہو گئی ہے۔

قسط کے فوائد

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جن چیزوں کو تم دوا علاج کے طور پر اختیار کرتے ہو ان میں بہترین چیز سینگی کھچوانا اور بحری قسط کا استعمال کرنا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  قسط  ایک جڑ کا نام ہے جس کو  کوٹ  بھی کہتے ہیں اور دوا کے کام میں آتی ہے اطباء نے اس کے بہت فوائد لکھے ہیں مثلاً نفاس والی عورتیں اس کی دھونی لیں تو رکا ہوا فاسد خون جیسے حیض اور پیشاب جاری ہو جاتا ہے۔ یہ مسموم جراثیم کو دور کرتی ہے۔ دماغ کو قوت بخشتی ہے اعضاء رئیسہ باہ اور جگر کو طاقتور بناتی ہے اور قوت مردی میں تحریک پیدا کر دیتی ہے۔ ریاح کو تحلیل کرتی ہے،دماغی بیماریوں جیسے فالج لقوہ، اور رعشہ کے لئے مفید ہے۔ پیٹ کے کیڑے باہر نکالتی ہے۔چوتھے دن کے بخار کے لئے بھی فائدہ مند ہے اس کا لیپ کرنے سے چھائیاں اور چھیپ جاتی رہتی ہے، زکام کی حالت میں اس کی دھونی لینا ایک بہترین علاج ہے اس کی دھونی سے سحر و وبا کے اثرات بھی جاتے رہتے ہیں غرض کہ طب کے کتابوں میں اس کے بہت زیادہ فوائد لکھے ہیں اسی لئے اس کو سب سے بہتر دوا  فرمایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ  قسط  دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو قسط بحری جس کا رنگ سفید ہوتا ہے اور دوسری کو قسط ہندی کہا جاتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے دونوں کی خاصیت گرم و خشک ہے لیکن بحری قسط ہندی قسط سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں گرمی کم ہوتی ہے۔

بچوں کے حلق کی مخصوص بیماری عذرہ کا علاج

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اپنے بچوں کے حلق کی بیماری کو ہاتھ یا کپڑے سے ان کو اذیت نہ پہنچاؤ بلکہ تمہیں قسط کا استعمال کرنا چاہئے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  عذرہ  ایک بیماری ہے جو شیر خوار بچے کو ہو جایا کرتی ہے اس کا سبب خون کا ہیجان ہوتا ہے عام طور پر مائیں یا دائیاں اس کو دفع کرنے کے لئے بچے کے حلق میں انگلی ڈال کر اس کو دباتی ہیں جن سے سیاہ خون نکلتا ہے اور بچے کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طریقہ علاج سے منع فرمایا اور دفعیہ مرض کے لئے قسط کو بطور دوا تجویز فرمایا اس مرض میں قسط کو استعمال کرنے کی صورت یہ ہے کہ اس کو پانی میں حل کر کے ناک میں ٹپکایا جائے جس کو  سحولا  کہتے ہیں یہ محلول ناک کے ذریعہ عذرہ پر پہنچ کر اس کو دور کر دے گا۔ واضح رہے کہ عذرہ کے علاج کے لئے قسط کی تجویز بعض اطباء کے نزدیک حیرانی کا باعث ہے کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق قسط چونکہ گرم ہے اور عذرہ بھی گرمی کی وجہ سے ہوتا ہے خاص طور پر حجاز میں کہ جہاں کی آب و ہوا گرم ہے اس لئے اس بیماری کو قسط سے کیونکر فائدہ ہو گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عذرہ کا مادہ اصل میں وہ خون ہوتا ہے جس پر بلغم کا غلبہ ہوتا ہے گویا عذرہ خون اور بلغم دونوں سے مل کر بنتا ہے لیکن بلغم زیادہ ہوتا ہے اور خون کم لہٰذا بلغم کی رطوبت کو قسط کی گرمی جذب کر لیتی ہے ! بسا اوقات دوا کا فائدہ بالخاصیت بھی ہوتا ہے اس اعتبار سے عذرہ میں قسط کا استعمال باعث حیرت نہیں ہونا چاہئے،علاوہ ازیں ایک جواب یہ بھی ہے کہ عذرہ کا علاج قسط کے ذریعہ کرنا اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک کرشمہ ہے جس میں عقل کی کوئی دخل نہیں ہے۔

ذات الجنب کا علاج

اور حضرت ام قیس رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اپنے بچوں کے حلق کا علاج اس طرح دبا کر کیوں کرتی ہو بلکہ تمہیں ان کا علاج عود ہندی یعنی کوٹ کے ذریعہ کرنا چاہئے کیونکہ عود ہندی میں سات بیماریوں کی شفا ہے جن میں ایک ذات الجنب ہے۔عذرہ کی صورت میں توسط کیا جائے (یعنی عذرہ بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر ناک میں ٹپکایا جائے) اور ذات الجنب کی صورت میں لدود کیا جائے یعنی ذات الجنب کی بیماری کو دور کرنے کے لئے عود ہندی کو پانی میں گھول کر باچھ کی طرف سے منہ میں ٹپکایا جائے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  تدغرن  وغر کا مطلب ہے عذرہ بیماری میں حلق کو انگلی کے ذریعہ دبانا، جیسا کہ جب بچوں کو حلق کی بیماری ہوتی ہے تو عورتیں ان کے حلق میں انگلی ڈال کر ورم کو دباتی ہیں اور کوے کو اوپر اٹھا دیتی ہیں، چنانچہ اس بارے میں اس سے پہلے کی حدیث میں بھی گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس تکلیف دہ طریقہ علاج سے منع فرمایا ہے، اور یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطریق انکار فرمایا کہ تم اپنے بچوں کے حلق کو انگلی سے کیوں دباتی ہو، یعنی اس طریقہ علاج سے اجتناب کرو۔ اعلق کے معنی بھی وہی ہیں جو وغر کا مطلب بیان کیا گیا ہے، بعض روایت میں علاق کے بجائے اعلاق مذکور ہے، لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہی روایت اولی اور اصوب ہے، ویسے اعلاق کے بھی وہی معنی ہیں جو علق کے ہیں، حاصل یہ کہ عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ عذرہ کی بیماری میں انگلی کے ذریعہ حلق کو دبانے کا طریقہ علاج اختیار کیا جائے، بلکہ عود ہندی کے ذریعہ اس کا علاج کیا جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو پانی میں گھول کر بچے کی ناک میں ٹپکایا جائے۔

حدیث میں  عود ہندی  کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پچھلی حدیث میں قسط بحری سے مراد یہی عود ہندی ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ  قسط  ہندی کو عود ہندی فرمایا گیا ہو، جیسا کہ بعض حضرات نے اس کی وضاحت  عود ہندی  کی ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ فائدہ مند تو دونوں ہیں لیکن  قسط بحری  زیادہ فائدہ مند ہے۔

 ذات الجنب  ایک بیماری ہے اس کی صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ سینے میں ورم ہو جاتا ہے اور یہ اگرچہ عضلات میں پیدا ہوتا ہے مگر پھر باطن سے ظاہر میں آ جاتا ہے اور یہ صورت خطرناک ہے اور اس کا شمار مہلک امراض میں ہوتا ہے ........ذات الجنب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ریاح غلیظہ کے رک جانے کی وجہ سے پہلو میں ایک درد ہوتا ہے یہاں حدیث میں جس ذات الجنب کا ذکر ہے اس سے مراد یہی دوسری صورت ہے کیونکہ  عود ہندی  ریاحی امراض کی دوا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی میں سات بیماریوں کا ذکر فرمایا لیکن نام صرف دو بیماریوں کا لیا، باقی پانچ کے بارے میں سکوت فرمایا، کیونکہ اس موقع پر ان پانچوں کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پانچ بیماریاں ایسی ہوں گی جو عرب میں مشہور رہی ہو گی اور ان کے بارے میں لوگ خود جانتے ہوں گے اور چونکہ ان دونوں بیماریوں کے بارے میں لوگوں کا علم محدود ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف دو بیماریوں کا نام لیا، لیکن حدیث میں  سات بیماریوں  کا ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ قسط بس سات بیماریوں کے کام میں آنے والی دوا ہے سات سے زیادہ کسی اور بیماری کے لئے فائدہ مند نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوا کا فائدہ بہت وسیع ہے اور بہت سی بیماریوں میں استعمال کی جاتی ہے جن میں سے کچھ بیماریوں وہ ہیں جن کو پہلے بیان کیا چکا ہے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ سات بیماریوں کے لئے یہ فائدہ مند ہو گی اس لئے اس کو یہاں ذکر کیا گیا،علاوہ ازیں بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ  سات سے مراد مخصوص عدد نہیں ہے بلکہ کثرت مراد ہے چنانچہ اہل عرب کے کلام میں بسا اوقات سات کا اطلاق کثرت پر ہوتا ہے۔

بخار کا علاج اور پانی

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ ہے لہٰذا تم اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 بعض حضرات نے کہا ہے کہ ارشاد گرامی کا مقصد بخار کی حرارت کو دوزخ کی آگ سے مشابہت دینا ہے یعنی بخار دوزخ کی آگ کی تپش کا نمونہ ہے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ حقیقی معنی پر محمول ہیں جیسا کہ باب مواقیت میں یہ روایت گزری ہے کہ موسم گرما کی تپش و حرارت اصل میں دوزخ کی بھاپ کا اثر ہے، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بخار کی حرارت و جلن بھی دوزخ کی بھاپ کا اثر ہو۔ اس حدیث کے اصل مخاطب اہل حجاز ہیں کیونکہ مکہ اور مدینہ کے رہنے والے کو عام طور پر سورج کی شدید تمازت، گرم آب و ہوا اور دھوپ میں ان کی محنت مشقت کرنے اور ان کے مزاج کی تیزی و گرمی کی وجہ سے بخار ہو جایا کرتا تھا، چنانچہ جو بخار آفتاب کی حرارت و تمازت، کوئی گرم دوا وغیرہ کھانے دھوپ و تپش میں زیادہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے اور آب و ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہو اس کا بہترین علاج پانی ہے کہ ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگایا جائے یا یہ ٹھنڈا پانی اپنے بدن پر بہایا جائے، یا بخار کو پانی سے ٹھنڈا کیا جائے کہ مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے بخار میں ٹھنڈی دوائیں پانی میں مخلوط کر کے استعمال کی جائیں اور بعض حضرات کے مطابق اس سے یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ جس شخص کو بخار ہو وہ پیاسوں کو اللہ واسطے ٹھنڈا پانی پلائے، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے بخار کو دور کر دے گا۔

جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج کرنے کی اجازت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جھاڑ پھونک کے ذریعہ نظر بد، دنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  افسوں سے مراد وہ جھاڑ پھونک ہے، جس میں حصول شفا کے لئے منقول دعائیں اور قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں، نظر بد ایک حقیقت ہے جس کو بعض حضرات نے  زہر  سے تعبیر کیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بچھو کے ڈنک اور سانپ کے منہ میں زہر رکھا ہے اسی طرح بعض آدمیوں کی آنکھوں میں بھی زہر رکھا ہے کہ ان کی نظر جس چیز کو بھی لگ جاتی ہے خواہ وہ انسان ہو یا مال و اسباب، زمین جائیداد ہو یا کھیتی و باغات اور جانور ہو، اس کو کھا جاتی ہے۔چنانچہ نظر بد کے دفعہ کے لئے دعا و تعویذ اور جھاڑ پھونک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقصد کے لئے مختلف دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں جو دعاؤں کے باب میں گزر چکی ہیں۔

 ڈنک  سے مراد زہریلا ڈنک ہے جیسے بچھو کا ڈنک، سانپ کا ڈسنا بھی اسی کے حکم میں ہے اگر کسی شخص کو بچھو ڈنک مار دے یا سانپ ڈس لے تو اس کا زہر اتارنے کا بہترین ذریعہ جھاڑ پھونک ہے۔

 نملہ  اصل میں چیونٹی کو کہتے ہیں لیکن یہاں وہ پھوڑا مراد ہے جو آدمی کے پہلو میں ہو جایا کرتا ہے، کبھی یہ پھوڑا چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں بھی ہوتا ہے جو پسلی کے اوپر نکل آتی ہیں۔ نملہ پھوڑے میں آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے چیوٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے اس پھوڑے کو نملہ کہا گیا ہے اور اگر نملہ چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی صورت میں ہو تو اس میں وجہ مشابہت یہ ہو گی کہ وہ پھنسیاں چیونٹیوں کی طرح پھیلی اور بکھری ہوتی ہیں۔

واضح رہے کہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ ہر مرض کا علاج کرنا جائز ہے، اس صورت میں خاص طور پر ان تین چیزوں کا ذکر محض اس لئے کیا گیا ہے کہ دوسرے امراض کی تہ نسبت ان تینوں میں جھاڑ پھونک کا اثر زیادہ اچھا ہوتا ہے اسی طرح جس روایت میں بطور حصر یہ فرمایا گیا ہے کہ جھاڑ پھونک صرف ان تین چیزوں میں جائز ہے اس کی تاویل بھی یہی ہو گی علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب جن الفاظ و کلمات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کیا کرتے تھے ان سے اجتناب کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتداء اسلام میں مسلمانوں کو جھاڑ پھونک کرنے سے منع فرما دیا تھا پھر جب ان تینوں چیزوں میں جھاڑ پھونک کی اہمیت اور لوگوں کو اس سے حاصل ہونے والے فائدے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تین چیزوں میں منتر پڑھ کر پھونکنے کی اجازت دے دی بشرطیکہ اس منتر میں مشرکانہ الفاظ و کلمات استعمال نہ ہوں یہاں تک کہ بعد میں اس اجازت کو عام کر دیا گیا کہ کسی بھی مرض میں منقول دعاؤں اور قرآنی آیات کے ذریعہ جھاڑ پھونک کی جا سکتی ہے

 

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ہم نظر بد کا اثر دور کرنے کے لئے جھاڑ پھونک کرائیں۔ (بخاری و مسلم)

 


 اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر منتر پڑھواؤ۔ یعنی اس کی جھاڑ پھونک کراؤ۔ کیونکہ اس کو نظر لگی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو عمومیت ظاہر ہوتی ہے کہ اس لڑکی کو نظر لگ گئی تھی خواہ کسی انسان کی نظر لگی ہو یا کسی جن کی لیکن شارحین نے وضاحت کی ہے کہ اس لڑکی پر کسی جن کی نظر بد کا اثر تھا۔ جنات کی نظر برچھے کی نوک سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا تو عمرو بن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرتے تھے) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرما دیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (منتر کو سن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑ پھونک کے ذریعہ اور خواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

 

اور حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ منتر پڑھا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ان منتروں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جب تک ان میں شرک نہ ہو  کا مطلب یہ ہے کہ جس منتر و افسوں میں جن و شیاطین کے اسماء اور ان سے استعانت نہ ہو اور ان کے مفہوم و معنی ایسے نہ ہوں جن سے کفر لازم آتا ہے تو ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ ایسے الفاظ و کلمات پر مشتمل منتر و افسوں کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے۔ جن کے مفہوم و معانی معلوم نہ ہوں البتہ بعض ایسے منتر جن کے الفاظ و کلمات صحیح روایت میں شارع سے منقول ہیں اور ان کے مفہوم و معانی معلوم نہیں ہیں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے۔

واضح رہے کہ جس طرح شیطان ازل ہی سے انسانی عداوت میں مبتلا ہے اسی طرح جنات بھی بالطبع انسان کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے جنات و شیاطین آپس میں ایک دوسرے کے دوست و رفیق ہوتے ہیں۔چنانچہ جب کسی انسان پر جنات کا سایہ و اثر ہوتا ہے اور اس سایہ و اثر کو دور کرنے کے لئے ایسے منتر و افسوں پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام اور ان سے استعانت ہوتی ہے تو جنات اس منتر و افسوں کو قبول کر کے اس انسان کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح بعض اوقات مار گزیدہ (سانپ کا ڈسا ہوا) شخص اصل میں جنات کے زیر اثر ہوتا ہے، بایں طور پر کہ کوئی شریر جن سانپ کی صورت اختیار کر کے کسی انسان کو ڈس لیتا ہے لیکن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت سانپ نے کاٹ کھایا ہے۔ جب ایسے شخص پر منتر پڑھے جاتے ہیں جن میں شیاطین کے نام ہوتے ہیں تو وہ زہر جو حقیقت میں جن کا اثر ہوتا ہے اس شخص کے بدن سے زائل ہو جاتا ہے اس طرح گویا جنات و شیاطین دونوں انسان کی گمراہی کا ذریعہ بنتے ہیں، چنانچہ علماء امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ کتاب اللہ اور اسماء و صفات الٰہی کے بغیر افسوں و منتر پڑھنا اور جھاڑ پھونک کرنا جائز نہیں ہے، سب سے زیادہ مہتم بالشان  خود قرآن مجید  ہے کہ اس کا ہر ہر فقرہ اور ہر ہر لفظ کائنات انسانی کے لئے تاثیر و شفا اور خیر و برکت کا خزانہ ہے اور جن کا فائدہ یقینی ہے اور پھر اس میں بھی بعض سورتیں اور آیتیں جھاڑ پھونک کے لئے زیادہ فضیلت رکھتی ہیں جیسے سورہ فاتحہ، معوذتین آیت الکرسی اور وہ آیات کریمہ جو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے مفہوم پر مشتمل ہیں، اسی طرح وہ دعائیں اور عملیات بھی افضل ہیں جو احادیث صحیحہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول و ثابت ہیں۔

سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی ایسے مال و اسباب وغیرہ یا بچے پر نظر ڈالے جو اس کو اچھا لگتا ہو تو چاہئے کہ ماشاء اللہ لاقوۃ الاّ باللہ کہے (تاکہ اس مال یا بچے کو نظر نہ لگے) اسی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک بہت ہی خوبصورت بچے کو دیکھا تو فرمایا کہ اس کی تھوڑی کے گڑھے میں ذرا سی سیاہی لگا دو، تاکہ اس کو نظر نہ لگے۔

آیات شفا

حضرت شیخ ابوالقاسم قشیری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا، ایک مرتبہ میرا بچہ سخت بیمار ہوا یہاں تک کہ ہم سب اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے اسی دوران میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے بچے کی بیماری کے بارے میں عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم آیات شفا سے بے خبر کیوں ہو ؟ پھر جب میں بیدار ہوا اور قرآن کریم سے آیات شفا کی تلاش شروع کی یہاں تک کہ میں نے قرآن میں چھ جگہوں پر آیات شفا پائیں جو یہ ہیں۔

آیت (1)(وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ) 9۔ التوبہ:14

آیت (2)(وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ) 10۔یونس:57

آیت (3) (شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَاۗءٌ لِّلنَّاسِ) 16۔ النحل:69

آیت (4)(وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ) 17۔ الاسراء:82

آیت (5) (وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ) 26۔ الشعرا:80

آیت (6)(قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ) 41۔فصلت:44

چنانچہ میں نے ان آیات کو لکھا اور پانی میں دھو کر بچے کو پلا دیا جس سے وہ اتنی جلدی اچھا ہو گیا کہ جیسے ان کے پیروں کا بند کھول دیا گیا ہے۔ قاضی بیضاوی نے بھی اپنی تفسیر میں ان آیات شفا کی طرف اشارہ کیا ہے، اسی طرح سعد حلیبی نے تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں ان آیات شفا کا تعین کرتے ہوئے ابوالقاسم قشیری کی مذکورہ بالا حکایات کو نقل کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنے، ان آیات کو پڑھ کر مریض پر دم کرنے اور ان کو چینی کے برتن پر لکھ کر اور اس کو دھو کر مریض کو پلانے کا ذکر کیا ہے۔

نیز حضرت شیخ تاج الدین سبکی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے بہت سے مشائخ کو دیکھا کہ وہ بیماریوں سے شفا حاصل کرنے کے لئے ان آیات کو لکھا کرتے تھے۔ رہی یہ بات کہ حصول شفا کے لئے ان آیات کے صرف مذکورہ بالا اجزاء کو لکھا جائے یا پوری آیتیں لکھی جائیں تو اس سلسلہ میں نقل کرنے والوں نے اکابر ومشائخ کا جو عمل دیکھا ہے وہ صرف ان ہی مذکورہ اجزاء کو لکھا جانا ہے۔

نظر بد کا لگنا ایک حقیقت ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نظر بد حق ہے یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 نظر حق ہے  کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والے کی نظر میں کسی چیز کا کھب جانا اور اچھا لگنا خواہ وہ چیز جاندار یعنی انسان و حیوان ہو، یا غیر جاندار جیسے مال و اسباب ہو اور پھر اس چیز پر دیکھنے والے کی نظر کا اثر انداز ہو جانا ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جو تقدیر الٰہی سے متعلق ہے، چنانچہ حق تعالیٰ نے سحر و جادو کی طرح بعضوں کی نظر میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ جس چیز کو لگ جاتی ہے اس کی ہلاکت و تباہی اور نقصان کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

اگر تقدیر الٰہی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا مرکز اور..... و منبع، تقدیر الٰہی ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کا اثر و نفوذ بھی تقدیر الٰہی سے پا بستہ ہے اور چھوٹے سے چھوٹے تک کی حرکت و سکون بھی تقدیر الٰہی کے بغیر ممکن نہیں، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر کے دائرہ کو توڑ کر نکل جائے تو وہ نظر بد ہوتی کہ وہ تقدیر کو بھی پلٹ دیتی اور اس پر غالب آ جاتی، گویا یہ بات اشیاء میں تاثیر نظر کی شدت اور اس کے سرعت نفوذ کو زیادہ سے زیادہ کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے۔

اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کر لو اعضاء جسم کو اس مقصد کے لئے دھونے کا طریقہ دوسری فصل کے اخیر میں ذکر ہو گا ۔۔

واضح رہے کہ جمہور علماء اہل حق کا مسلک تو یہی ہے کہ جاندار خواہ وہ انسان ہو یا حیوان اور اموال میں جائیداد وغیرہ میں نظر کی تاثیر یعنی نظر لگنے سے نقصان پہنچنا ثابت ہے جب کہ بعض لوگ جیسے معتزلہ وغیرہ اس کے منکر ہیں جیسا کہ وہ اموال وغیرہ میں دوا اور صدقہ و خیرات کی تاثیر کے قائل نہیں ہیں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جس چیز کا وقوع پذیر ہونا مقدر میں لکھ دیا گیا ہو اس میں کسی اور چیز کا دخل نہیں ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ تقدیر کے لکھے کو کوئی چیز متغیر نہیں کر سکتی۔ لیکن وہ لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ تقدیر عالم اسباب کے ساتھ کوئی تضاد و  منافات نہیں رکھتی، چنانچہ نظر کی تاثیر اور سببیت اس بناء پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اس طرح کی خاصیت رکھ دی ہے کہ وہ ہلاکت و نقصان کا سبب بن جائے علاوہ ازیں علماء اہل حق کے مسلک کی دلیل کے یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم  العین الحق  ہے کہ جب شارع علیہ السلام نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ نظر کی تاثیر برحق ہے تو اس کا اعتقاد رکھنا واجب اور ضروری ہے۔ رہی بات یہ کہ نظر لگنے کی کیفیت و صورت کیا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے نظر زدہ کو نقصان و ضرر کیسے پہنچتا ہے تو اس سلسلے میں علماء نے مفصل بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سلسلے میں بعض ایسے لوگوں نے جن کی نظر عام طور پر کسی نہ کسی کو لگتی رہتی ہے بیان کیا کہ جب ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے اور ہم اس پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں سے حرارت نکل رہی ہو، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ نظر لگانے والے کی آنکھ سے ایک خاص قسم کی حرارت سمیہ نکلتی ہے جو ہوا میں مخلوط ہو جاتی ہے اور وہ ہوا پھر نظر زدہ تک پہنچتی ہے تو اس کے نقصان و ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے جیسا کہ بعض قدیم محققین کے مطابق اس سانپ کی زہر کی کیفیت ہوتی ہے جو محض اپنی نظر کے ذریعہ زہر کو منتقل کرتا ہے کہ اس کی نظر جس پر بھی پڑ جاتی ہے اس تک اس کا اثر پہنچ جاتا ہے اور وہ ہلاک ہو جاتا ہے حاصل یہ کہ دکھائی نہ دینے والی کوئی شئے نظر لگانے والے کی نظر سے تیر کی طرح روانہ ہوتی ہے اور اگر کوئی ایسی چیز درمیان میں نہ ہوتی ہے جیسے حرز و تعویذ اور دوا وغیرہ تو وہ شئے نظر زدہ تک نہیں پہنچتی اور اس میں اثر و نفوذ نہیں کرتی بلکہ اگر وہ حرز و تعویذ قوی و مضبوط قسم کا ہوتا ہے تو وہ شئے نظر لگانے والے ہی کی طرف پلٹ آتی ہے جیسا کہ اگر مقابل کے پاس سخت و مضبوط سپر ہوتا ہے تو تیر مارنے والے کا تیر سپر سے ٹکرا کر الٹا مارنے والے کو آ کر لگتا ہے، چنانچہ حق تعالیٰ نے جس طرح بعض لوگوں کی نظر میں مذکورہ خاصیت و تاثیر پیدا کی ہے اسی طرح نفوس کاملہ یعنی اہل اللہ اور کاملین کو بھی اس نظر بد کے دفعیہ کی قوت اور اس میں تصرف کی طاقت عطا فرما دی ہے تاکہ وہ عوام کو دعا و تعویذ کے ذریعہ نظر بد کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مدد دیں۔

حق تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے

حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا ہم بیماری میں دوا و علاج کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں اے اللہ کے بندوں دوا و علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری پیدا نہیں کی ہے جس کی شفا نہ رکھی ہو، علاوہ ایک بیماری کے اور وہ بڑھاپا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد،)

 

تشریح

 

 اے اللہ کے بندو ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو ان الفاظ سے مخاطب کر کے گویا اس طرف اشارہ کیا ہے کہ علاج معالجہ کرنا اور بیماری کو دور کرنے کے ذرائع اختیار کرنا عبودیت و توکل کے منافی نہیں ہے بشرطیکہ محض علاج پر ہی اعتماد بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ دوا علاج کو شفا کا صرف ایک ضروری سبب و ذریعہ سمجھو اور شافی حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو جانا جائے

مریض کو زبر دستی نہ کھلاؤ پلاؤ

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے مریضوں کو زبردستی نہ کھلاؤ کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، اور ترمذی، نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مریض کسی چیز کے کھانے پینے پر راضی نہ ہو تو اس کو وہ چیز زبردستی نہ کھلاؤ پلاؤ اور وہ چیز خواہ از قسم طعام ہو یا از قسم دوا۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے جو جسم انسان کو طاقت بخشتی ہے اور اصل میں اس کی مدد کھانے پینے جیسی چیزوں کے فائدے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے گویا کسی بھی جاندار کا زندہ رہنا اور اس کو قوت و طاقت کا حاصل ہونا کھانے پینے پر منحصر نہیں ہے بلکہ قدرت الٰہی پر موقوف ہے۔ لہٰذا نفس کے کسی چیز میں مبتلا و مشغول ہونے کی وجہ سے اگر طبیعت کھانے پینے پر آمادہ نہ ہو تو کھانے پینے کے معاملہ میں زبر دستی نہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ طبیعت و خواہش کے علی الرغم کھانا پینا فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہو جاتا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جسم و جان کی بقا کے لئے نظام قدرت و عادت انسانی کے تحت کوئی نہ کوئی ظاہری سبب ذریعہ ہونا چاہئے تو اس مقصد کے لئے وہ رطوبت بدن کافی ہوتی ہے جس کو فقدان غذا کی صورت میں حرارت عزیزی تحلیل کر کے بقاء جسم و جان کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔

سرخ بادہ کا علاج

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد ابن زرارہ کے جسم پر سرخ بادہ (کی بیماری کے علاج) کے لئے داغ دیا۔ اور اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ 

 

تشریح

 

 داغ دیا  یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنے دست مبارک سے داغا یا کسی کو داغنے کا حکم دیا۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ مذکورہ بیماری کے علاج کے لئے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے جسم کے کس حصے پر داغ دیا گیا تھا۔

ذات الجنب کا علاج

اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ہدایت فرمائی کہ ہم ذات الجنب کی بیماری میں قسط بحری اور زیتون کے تیل کے ذریعہ علاج کریں۔ (ترمذی)

 

 

اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ذات الجنب کے علاج کے لئے زیتون کے تیل اور ورس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  ورس  ایک قسم کی گھاس کو کہتے ہیں جس کا رنگ زرد مائل بہ سرخ ہوتا ہے اور اس کے ریشے زعفران کی مانند ہوتے ہیں اور زعفران ہی کی طرح یہ گھاس بھی رنگنے کے کام آتی ہے ویسے اطباء نے مختلف بیماریوں کے لئے اس کے بہت فوائد بیان کئے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذات الجنب کے علاج کے لئے ان دونوں چیزوں کا استعمال بطریق لدود یعنی منہ میں ٹپکانے کے ذریعہ ہو گا۔

ثناء بہترین دوا ہے

اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز سے جلاب (مسہل) لیتی ہو، انہوں نے کہا شبرم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، شبرم تو گرم ہے گرم۔ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں نے ثناء سے جلاب لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی یعنی موت کا علاج کسی دوا میں ہوتا تو وہ ثناء ہوتی۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

  شبرم  ایک گھاس ہے جو دست آور ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ  شبرم  سے اس گھاس کے دانے مراد ہیں دو مسور کے برابر ہوتے ہیں اور اسہال کے لئے ان دانوں کو پانی میں جوش دے کر اس کو پیا جاتا ہے دونوں لفظ  حار  حار کے زبر اور راہ کی تشدید کے ساتھ ہیں،جیسا کہ مشکوٰۃ کے اکثر صحیح نسخوں اور اصل کتاب یعنی ترمذی و ابن ماجہ میں نقل کیا گیا ہے، لیکن بعض حضرات نے دوسرے لفظ کو جیم کے ساتھ یعنی (جار) کو پہلے لفظ (حار) کا  تابع   مہمل قرار دیا ہے،جیسا کہ جب کسی لفظ کو زیادہ اہمیت و تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہوتا ہے تو اس اصل لفظ کے بعد اس کے مناسب و ہم وزن کوئی دوسرا مہمل لفظ بول دیتے ہیں۔ جیسے پادر وادر اور پانی وانی وغیرہ، بہر صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ شبرم نہایت گرم ہے اور دست لانے کے لئے اس کو استعمال کرنا مناسب نہیں ہے چنانچہ اطباء لکھتے ہیں کہ شبرم حار درجہ چار ہے اور چونکہ اس کا استعمال بہت زیادہ دست لاتا ہے اس لئے اس میں احتیاط شرط ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ کے ذریعہ سناء کی فضیلت و تعریف کو بطور مبالغہ بیان فرمایا گیا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ سناء اور خاص طور پر سناء مکی (جو زیادہ بہتر ہے) بڑی عجیب و غریب دوا ہے جس کے فوائد مشہور ہیں اور اطباء اس کو اکثر امراض میں شفا کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ضرر و نقصان کا خوف نہیں ہوتا یہ باعتدال ہے اور حار درجہ ایک ہے، صفرا، سودا اور بلغم کے اسہال و تنقیہ کے لئے بہترین چیز ہے اور جرم قلب کو بہت زیادہ طاقت و قوت بخشتی ہے، نیز اس کی جملہ خاصیتوں میں سے ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ واسواس سوداوی کے لئے فائدہ مند ہے۔

حرام چیزوں کے ذریعہ علاج معالجہ نہ کرو

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی اتاری ہے اور دوا بھی، اور ہر بیماری کے لئے دوا بھی، اور ہر بیماری کے لئے دوا مقرر کی ہے لہٰذا تم دوا سے بیماری کا علاج کرو، لیکن حرام چیز سے دوا علاج نہ کرو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  حرام چیز سے مراد وہ شراب، خنزیر اور ان جیسی وہ چیزیں ہیں جن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ (علاج معالجہ کے طور پر مطلق کسی بھی حرام چیز اور خاص طور پر شراب کو اختیار کرنے کی حرمت و کراہت کے سلسلے میں متعدد احادیث منقول ہیں۔ جن سے حرام چیزوں کے ذریعہ علاج معالجہ کرنے کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کا استعمال قطعاً لاحاصل رہے گا۔ کیونکہ ان کے ذریعہ حصول شفا ممکن نہیں، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شفا ان چیزوں میں نہیں رکھی جن کو تمہارے لئے حرام قرار دیا گیا ہے، اسی طرح منقول ہے کہ ایک صحابی حضرت طارق جعفی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے شراب بنانے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور جب انہوں نے کہا کہ میں دوا کے طور پر شراب استعمال کرنے کے لئے بناتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، شراب دوا نہیں ہے بلکہ وہ درد و مرض ہے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ آیت (من تداوی بالخمر فلاشفاء اللہ)۔ یعنی جو شخص شراب کے ذریعہ علاج معالجہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شفاء نہیں دے گا۔تاہم بعض فقہی روایت میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ اگر کسی مرض کے بارے میں قابل اعتماد اور حاذق اطباء معالجین کا اس پر اتفاق ہو کہ اس کا علاج شراب کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے تو اس مرض میں شراب کے بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے لیکن یہ بات بجائے خود تقریباً ناممکن ہو گی کیونکہ اول تو قابل اعتماد اور حاذق اطباء کا پایا جانا اور دوسرے ان اطباء کا اس بات پر اتفاق کر لینا کہ اس مرض کا علاج صرف شراب پر منحصر ہے کچھ آسان نہیں ہے۔

جس دوا کو طبیعت قبول نہ کرے وہ زیادہ کارگر نہیں ہوتی

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خبیث دوا سے منع فرمایا۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ،)'

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی دوا استعمال کرنے سے منع فرمایا جو نجس و ناپاک یا حرام ہو یا  خبیث  سے وہ دوا مراد ہے جو بد مزہ اور بد بو دار ہو کہ جس کے استعمال سے طبیعت نفرت کرتی ہے، چنانچہ ایسی دوا ابھی بہتر نہیں سمجھی جاتی کیونکہ جس دوا کو طبیعت قبول نہیں کرتی اس کی افادیت کم ہو جاتی ہے اس اعتبار سے حدیث میں مذکورہ نفرت کا تعلق نہی تنزیہی سے ہو گا۔

سر اور پاؤں کے درد کا علاج

اور حضرت سلمی رضی اللہ عنہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خادمہ تھیں کہتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سر کی (ایسی) بیماری کی شکایت کرتا (جس کا تعلق خون کی زیادتی و دباؤ سے ہوتا) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے کھجری ہوئی سینگی کھنچواؤ اور جو شخص پاؤں کے درد کی شکایت کرتا یعنی ایسا درد جو گرمی حرارت کی بنا پر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے کہ پیروں پر مہندی لگا لو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 ویسے تو یہ حدیث مطلق ہے کہ اس کے حکم میں مرد عورت، دونوں شامل ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ مرد صرف تلوؤں پر مہندی لگا لینے پر اکتفا کرے۔ اور ناخونوں پر لگانے سے اجتناب کرے تاکہ عورتوں کی مشابہت سے حتی الامکان احتراز ہونا چاہئے۔

زخم کا علاج

اور حضرت سلمی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم کے کسی حصہ پر) جب بھی زخم آ جاتا (خواہ وہ تلوار، چھری، یا اور کسی چیز کے کٹ جانے کی صورت میں ہوتا) یا پتھر اور کانٹے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم زخمی ہو جاتے تو مجھ کو حکم دیتے کہ میں اس زخم پر مہندی (کی چھٹس) رکھ دوں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مہندی کی تاثیر چونکہ سرد ہے اور جلدی امراض کو نافع ہے اس لئے اس کی برودت زخم کی گرمی اور سوزش کو ختم کر دیتی ہے۔

سینگی کھنچوانے کا ذکر

اور حضرت کبشہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سر مبارک پر اور اپنے دونوں مونڈھوں کے درمیان بھری ہوئی سینگیاں کھنچواتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ان خونوں میں سے کچھ نکال دیا کرے اور پھر وہ کسی بیماری کا علاج نہ کرے تو اس کو کوئی نقصان و ضرر نہیں پہنچے گا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 احتمال ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو سر مبارک پر سینگی کھنچواتے ہوں گے اور کبھی دونوں مونڈھوں کے درمیان۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ ایک ساتھ دونوں جگہ سینگی کھنچواتے ہوں۔

ان خونوں میں سے کچھ نکال دیا کرے۔سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  خون  سے مراد مذکورہ دونوں عضو کا خون ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ مطلق فاسد خون مراد ہو، یعنی جسم کے جس حصہ میں بھی فاسد خون جمع ہو گیا ہو اس کو نکلوا دینا چاہئے۔

 

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کولہے پر بھری ہوئی سینگی کھنچوائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پائے مبارک پر موچ آ گئی تھی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  وثاء  واؤ کے زبر اور ثاء کے جزم کے ساتھ، اس درد اور چوٹ کو کہتے ہیں جو کسی عضو کو اس ہڈی ٹوٹے بغیر پہنچے جس کو ہماری زبان میں  موچ کہا جاتا ہے۔

 

 

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شب معراج کے واقعات بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ملائکہ کی جس جماعت کے پاس سے گزرے اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو پچھنے لگوانے کا حکم دیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 پچھنے کی یہ اہمیت و فضیلت اس بنا پر ہے کہ فساد خون کی وجہ سے بہت زیادہ امراض پیدا ہوتے ہیں جن کو امراض دموی کہتے ہیں، امراض دموی کا سب سے بڑا علاج خون نکلوانا ہے، نیز خون نکلوانے کے دوسرے طریقوں کی بہ نسبت پچھنے کو زیادہ پسند اس لئے بھی کیا گیا ہے کہ وہ خون کو نواحی جلد سے خارج کرتا ہے چنانچہ تمام اطباء اس کے قائل ہیں کہ گرم آب و ہوا میں رہنے والوں کو فصد کے مقابلہ پر پچھنے لگوانا زیادہ مفید رہتا ہے کیونکہ ان لوگوں کا خون رقیق اور پختہ ہوتا ہے جو سطح بدن پر آ جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس خون کو پچھنے ہی کے ذریعہ سے نکالا جا سکتا ہے۔ نہ کہ فصد کے ذریعہ۔

 امت  سے مراد اہل عرب ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھے یا  امت  سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوم و وطن کے لوگ مراد ہو سکتے ہیں، نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ  یہاں  امت کا عام مفہوم مراد ہے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری امت میں سے ہر وہ شخص مراد ہے جس کو خون نکلوانے کی ضرورت لاحق ہو۔

مینڈک کی دوا بنانے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک طبیب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مینڈک کو دوا میں شامل کرنے کے بارے میں پوچھا کہ یہ درست ہے یا نہیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  مینڈک کے مارنے سے منع فرمایا  کا مطلب یہ ہے کہ مینڈک کو مار ڈالنے اور پھر اس کو دوا میں شامل کرنے سے منع فرمایا اس وضاحت سے سوال و جواب کے درمیان مطابقت ہو جاتی ہے اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جامع میں منقول ہے کہ نھی عن القتل الصفدع للدواء یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دوا بنانے کے لئے مینڈک مارنے سے منع فرمایا۔

قاضی کہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مینڈک کے مارنے سے منع کرنا شاید اس بناء پر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مینڈک کی دوا بنانے کو مناسب نہیں سمجھا یا تو مینڈک کے  نجس و حرام ہونے کی وجہ سے تھا کہ نجس و حرام چیزوں کے ذریعہ علاج کرنا جائز نہیں ہے یا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ مینڈک سے طبیعت کراہت و تنفر محسوس کرتی ہے اور جس چیز سے طبیعت نفرت کرے اس کو دوا کے طور پر استعمال کرنا لاحاصل ہے اور یہ کہ طبیب نے مینڈک میں جو فوائد سمجھے ہوں گے اس کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی مضرت زیادہ دیکھی ہو گی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی دوا بنانے کو مناسب نہیں سمجھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پچھنے لگوانے کا ذکر

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم گردن کی دونوں رگوں میں مونڈھوں کے درمیان بھری ہوئی سینگی کھنچواتے تھے (ابو داؤد)۔

ترمذی اور ابن ماجہ نے یہ عبارت بھی نقل کی ہے کہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سترھویں انیسویں، اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچواتے تھے۔

پچھنے لگوانے کے دن

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سترھویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچوانا ناپسند فرماتے تھے۔ (شرح السنۃ)

 

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص سترھویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو سینگی کھنچوائے گا اس کو ہر بیماری سے شفا ہوتی ہے۔ (ابو داؤد

 

 

اور حضرت کبشہ بنت ابی بکرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے باپ اپنے گھر والوں کو منگل کے دن سینگی لگوانے سے منع کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے تھے کہ منگل کا دن خون کے غلبہ کا دن ہے اور اس دن ایسی گھڑی آتی ہے خون بند نہیں ہوتا (لہٰذا اس دن خون نکلوانے کی صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ وہی گھڑی پڑ جائے اور خون رکنے کا نام نہ لے جس سے ہلاکت بھی واقع ہو سکتی ہے)۔'(ابو داؤد

 

 

اور حضرت زہری تابعی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہفتہ کے دن یا بدھ کے دن سینگی کھنچوائے اور پھر اس کو کوڑھ کی بیماری لگ جائے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے (ابوداؤد، احمد) ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث (ایک روایت میں) مسند بیان کی گئی ہے، (یعنی وہ روایت راویوں کے اعتبار سے متصل ہے اور وہ اسناد صحیح نہیں ہے)۔

 

تشریح

 

 اگرچہ اس دوسری روایت مسند کو صحیح نہیں کہا گیا ہے لیکن اس کے ذریعہ اس مرسل حدیث کو تقویت و تائید حاصل ہوتی ہے اور ویسے بھی مرسل حدیث حنفیہ اور دیگر اصحاب جرح تعدیل کے نزدیک حجت (یعنی قابل عمل ہوتی ہے)۔

 

 

اور حضرت زہری رضی اللہ عنہ بطریق ارسال کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہفتہ یا بدھ کے دن بھری ہوئی سینگی کھنچوائے یا (اپنے بدن کے کسی عضو پر) لیپ کرے تو وہ کوڑھ میں مبتلا ہو جانے کی صورت میں اپنے آپ کو ملامت کرے۔  (شرح السنۃ)

ٹوٹکہ کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ نے میرے گردن میں دھاگا پڑا ہوا دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دھاگا ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے) زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ نے (یہ سن کر) اس دھاگے کو (میری گردن سے) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبداللہ کے گھر والو، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے، اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہوا ہے) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑھ کر آنکھ کو دم کیا تو آنکھ کو آرام مل گیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی و غفلت ہے) اور وہ درد اس کا اچھا ہو جانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں) وہ شیطان کا کام تھا، شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جس منتر کو پڑھا گیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پڑھا کرتے تھے کہ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفاء الاّ شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار تو ہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ) تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے !۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 تم شرک سے بے پرواہ ہو  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان و اسلام کی دولت دے کر کفر شرک سے دور کر دیا ہے، لہٰذا تمہیں اس چیز کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کر دیتے ہیں اور شرک کی حاجت نہیں ہے کہ تم اپنی بیماریوں اور مضرتوں کو ختم کرنے کے لئے ایسے افعال و ذرئع اختیار کرو جو شرک میں مبتلا کر دیتے ہیں اور شرک کو متضمن ہیں، حضرت عبداللہ نے یہ باب یہ بات اس بناء پر فرمائی کہ اس زمانہ میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے کے لئے منتر و افسوں کئے جاتے تھے وہ مشرکانہ مضامین پر مشتمل ہوتے تھے، ملا علی قاری نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ یہ عمل یعنی جھاڑ پھونک وغیرہ بیماری و مضرت کو دفع کرنے کا ایک قوی سبب ہے اور خود اس میں تاثیری طاقت ہے اس صورت میں یہ شرک خفی ہو گا اور یہ اعتقاد ہو کہ یہ چیز بذات خود مؤثر حقیقی ہے تو یہ شرک جلی کہلائے گا۔

جس منتر کو شرک کہا گیا ہے اس سے وہ منتر اور جھاڑ پھونک مراد ہے جس میں بتوں، دیویوں، اور شیاطین کے نام لئے گئے ہوں جو کفریہ کلمات اور ایسی چیزوں پر مشتمل ہو جس کو شریعت نے جائز قرار نہ دیا ہو، نیز اس حکم میں ایسے منتر و افسوں بھی داخل ہیں جن کے معنی معلوم نہ ہوں۔

 تمائم  تمیمہ کی جمع ہے، اور تمیمہ اس تعویذ کو کہتے ہیں جو گلے میں لٹکایا جاتا ہے۔ یہاں وہ تعویذ مراد ہے جس میں اسماء الٰہی، قرآنی آیات اور منقول دعائیں نہ ہوں ! اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ تمیمہ منکے کو کہتے ہیں یعنی عرب میں عورتیں چتکبرے مہروں کو جوڑ کر بچوں کے گلے میں ڈال دیتی تھیں اور یہ عقیدہ رکھتی تھیں اس کی وجہ سے بچوں کو نظر نہیں لگتی، اسی کو تمیمہ کہتے ہیں۔

 تولۃ  ایک قسم کے ٹوٹکے کو کہتے ہیں جو مرد و عورت کے درمیان محبت قائم کرنے کے لئے دھاگے یا کاغذ تعویذ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔

 بلاشبہ منتر منکے  اور ٹوٹکے شرک ہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب عملیات اور کام وہ ہیں جو اہل شرک کرتے ہیں اور یہ چیزیں شرک خفی یا شرک جلی کے ضمن میں آتی ہیں جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا۔  بلکہ شیطان کا کام تھا ۔ یعنی تمہاری آنکھ میں جو درد تھا، وہ حقیقۃً درد نہیں تھا۔ بلکہ شیطان کی ان ایذاء رسانیوں میں سے ایک ایذاء رسانی تھی جس میں وہ انسان کو مبتلا کرتا رہتا ہے۔

نشرہ شیطان کا کام ہے

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نشرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ شیطانی کام ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  نشرہ  ایک قسم کا سفلی عمل ہے جو آسیب کے دفعیہ کے لئے کیا جاتا ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ نشرہ ایک رقیہ یعنی منتر ہے جس کے ذریعہ مجنون و مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ نشرہ کے لفظی معنی منتر یا تعویذ کے ہیں، لہٰذا جس نشرہ کو شیطان کا کام فرمایا گیا ہے اس سے مراد وہ منتر ہو گا جو اسماء الٰہی، قرآن اور منقول دعاؤں پر مشتمل نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ زمانہ جاہلیت کے ان عملیات میں سے ایک عمل تھا جو بتوں اور شیاطین کے اسماء اور ان سے اعانت پر مشتمل ہوتے تھے، یا اس منتر کے الفاظ عبرانی زبان کے ہوں گے کہ جن کے معنی معلوم نہ ہوں گے۔

لا پرواہ لوگوں کے کام

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ہر عمل سے لا پرواہ ہوں اگر میں تریاق پیؤں یا گلے میں منکا ڈالوں اور یا میں اپنے دل سے اور اپنے قصد و ارادہ سے شعر لکھوں (یعنی اشعار بناؤں)۔'(ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز مجھ سے سرزد ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جو ہر عمل سے لا پرواہ ہوتے ہیں یعنی وہ کسی بھی کام کو کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ آیا ان کو یہ کام کرنا چاہئے یا نہیں، نتیجۃً وہ نا مشروع افعال و حرکات سے پرہیز نہیں کرتے۔گویا اس ارشاد گرامی سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اختیار کرنا اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جو مناسب چیزوں اور غیر مشروع اعمال کو اختیار کرنے کے غیر پابند اور لا پرواہ ہوتے ہیں۔

مذکورہ چیزوں کے استعمال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لئے مذموم سمجھا کہ تریاق میں تو سانپ کا گوشت اور شراب پڑتی تھی اور یہ چیزیں حرام ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جس تریاق کے اجزاء ترکیبی حرام چیزوں پر مشتمل نہ ہوں اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگرچہ بعض حضرات نے حدیث کے مطلق مفہوم پر عمل کرنے کے پیش نظر اس کے ترک کو بھی اولیٰ قرار دیا ہے، اسی طرح تمیمہ یعنی منکے اور گنڈے سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کو زمانہ جاہلیت کے لوگ جھاڑ پھونک اور عملیات کے ضمن میں استعمال کرتے تھے، لہٰذا ایسے تعویذ اور گنڈے وغیرہ جو اسماء الٰہی اور آیات قرآنی وغیرہ پر مشتمل ہوں وہ حکم سے خارج ہیں۔ بلکہ ان کا مستحب ہونا ثابت ہے اور ان کی برکت سے حصول مقصد کی ایک امید کی جا سکتی ہے جہاں تک شعر و شاعری کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک اس کا مذموم ہونا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ) کی بناء پر تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود کوئی شعر نہیں کہتے تھے بلکہ حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شعر گوئی سے پاک و منزہ رکھا تھا، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم شعر کہنے پر قادر ہی نہیں تھے، اور یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے بے ساختہ اور بلا قصد و ارادہ جو موزوں و مقفیٰ جملے ادا ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام جس فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتا تھا وہ بذات خود وصف شعر گوئی سے کہیں اعلیٰ معیار کی چیز ہوتی تھی، مگر ظاہر ہے کہ یہ چیز نہ تو شعر کہنے کے زمرے میں آتی ہے اور نہ یہ مذموم ہے اور ویسے بھی اہل فن و اصطلاح اس پر بے ساختہ اپنے کلام میں دوسروں کے اشعار استعمال کرنے کے با وصف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خود شعر کہنے پر قادر نہ ہونا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے حق میں اشعار اور شعر گوئی کی حیثیت دوسرے اصناف سخن و کلام کی طرح ہے کہ اچھے مضامین کو اشعار کا جامہ پہنانا اور صالح و پاکیزہ خیالات کو شعر گوئی کے ذریعہ ظاہر کرنا اچھا ہے اور برے مضامین اور گندے خیالات پر مشتمل شعر گوئی کرنا برا ہے تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ اس صورت میں بھی اپنے باطن کو شعر گوئی ہی کی طرف متوجہ کر لینا، اسی میں عمر کو ضائع کرنا اور اس میں اتنا زیادہ انہماک و تفکر اختیار کرنا کہ ان دینی امور میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو جو ضروری اور واجب ہیں یقیناً مذموم ہو گا۔

ابن مالک نے اس حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ ہے کہ شعر کہنا، تریاق پینا اور گلے میں تعویذ و گنڈے لٹکانا میرے لئے حرام ہے البتہ امت کے حق میں نہ تو شعر گوئی حرام ہے اور نہ گلے میں تعویذ و گنڈے لٹکانا حرام ہے، بشرطیکہ اس شعر گوئی کے ذریعہ کسی مسلمان کی ہجو نہ کی گئی اور نہ وہ اشعار جھوٹ اور بری باتوں پر مشتمل ہوں اور نہ ہی وہ تعویذ و گنڈے غیر مشروع عملیات سے متعلق ہوں اسی طرح امت کے حق میں وہ تریاق بھی حرام نہیں ہے جس میں کوئی حرام چیز جیسے سانپ کا گوشت وغیرہ شامل نہ ہو،۔

جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ توکل سے بری ہوا (احمد ترمذی ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ کسی مرض کے لئے جسم کے کسی حصہ پر داغ لینا یا کسی ضرورت و حاجب کی صورت میں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے کرانا اگرچہ مباح ہے لیکن توکل اور اعتماد علی اللہ کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ اس سے بلند و بالا ہے حق تعالی نے فرمایا ہے آیت (وعلی اللہ فلیتوکل المومنین)۔ لہٰذا اسباب و ذرائع کے اختیار کرنے میں زیادہ انہماک و رغبت گویا رب الارباب سے غافل ہو جانے کی دلیل ہے اسی لئے امام غزالی نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جانے کے لئے اپنے مکان کے دروازوں کو دو تالوں سے مقفل کرے یا ایک تالا ڈالے اور پھر اپنے پڑوسی سے بھی مکان کی حفاظت و نگرانی کے لئے کہے تو وہ توکل کے دائرے سے نکل گیا

 

 

 اور حضرت عیسی بن حمزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے) تو اسی چیز کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔  (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 طیبی کے قول کے مطابق بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے تعویذ باندھنے سے خدا کی پناہ چاہی تھی کیونکہ وہ مقام توکل و رضا پر فائز تھے اور انہوں نے تعویذ باندھنے کو مرتبہ کو توکل کے منافی سمجھا۔ اگرچہ دوسروں کے لئے یہ جائز ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تعویذ باندھتا ہے یا گنڈا ڈالتا ہے اور جھاڑ پھونک وغیرہ جیسے عملیات کا سہارا لیتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ چیزیں فائدہ مند ہیں اور ضرر کو دفع کرتی ہیں تو اس کو اس حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہی چیزوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے یعنی اس کو حق تعالیٰ کی مدد اعانت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور وہ شفا نہیں پاتا کیونکہ ذات حق تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی چیز فائدہ دیتی ہے اور نہ نقصان پہنچاتی ہے، گویا اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد تفویض و توکل کی طرف راغب کرنا ہے۔

جھاڑ پھونک کے اثر کا ذکر

اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  منتر یعنی جھاڑ پھونک کا اثر تو بس نظر یا زہر دار جانور (جیسے بچھو وغیرہ کے) ڈنک ہی پر ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد،) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا منتر تو بس نظر یا زہریلے ڈنک اور خون پر اثر کرتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اس سے پہلی حدیث میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے گویا اس حدیث میں  خون  کا لفظ مزید نقل کیا گیا ہے۔علماء نے خون سے نکسیر کا خون مراد لیا ہے اور اگر لفظ خون کو اس کے عمومی مفہوم پر محمول کیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ خون سے وہ تمام امراض مراد ہیں جو خون کے سبب سے لاحق ہوتے ہیں کہ خواہ ان کا تعلق، خون کی روانی، دباؤ اور غلبہ سے ہو، اور خواہ فساد خون سے تو یہ بھی صحیح ہو گا۔

 ابوداؤد  کی ایک روایت میں۔ الافی عین کے بجائے الافی نفس کے الفاظ منقول ہیں، لیکن علماء نے کہا ہے کہ  نفس سے مراد  عین یعنی نظر ہی ہے اسی طرح اودم کے بجائے اولدغۃ کے الفاظ منقول ہیں۔ جن کے معنی دانتوں سے کاٹنے کے ہیں جیسا کہ سانپ اور اس طرح کے دوسرے جانور دانتوں کے ذریعہ ڈستے ہیں اور کاٹتے ہیں۔

واضح رہے کہ جھاڑ پھونک اور عملیات کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا اور درد سر دانتوں کے درد جیسی تقریباً ہر بیماری کے لئے فائدہ مند ہے جس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، نیز بخاری و مسلم کی روایت میں منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیمار تھے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ بسم اللہ ارقیک من کل داء یوذیک۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیثوں میں جھاڑ پھونک کے اثر کو محض تین چیزوں میں منحصر کرنا دراصل مبالغہ کے طو رپر ہے اور مراد یہ ہے کہ دوسری چیزوں کی بہ نسبت ان تین چیزوں میں جھاڑ پھونک زیادہ فائدہ مند اور بہتر ہے جیسا کہ عام طور پر لوگ انہی چیزوں میں عملیات کا سہارا زیادہ لیتے ہیں۔

تیز نظر کا ذکر

اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جعفر طیار کی اولاد (چونکہ خوبصورت و خوب سیرت ہے اس لئے ان) کو نظر بہت جلدی لگتی ہے تو کیا ان کے لئے کوئی منتر پڑھوائیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جا سکتی تو وہ نظر ہوتی (یعنی نظر کا اثر یقیناً ایک سخت ترین چیز ہے۔ لہٰذا اس کے دفعیہ کے لئے جھاڑ پھونک کرانا جائز ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ،)

 

تشریح

 

 عطاء نے لکھا ہے کہ جس طرح بعض نظر بسبب حسد اور خبث طبع کے نقصان و ضرر پہنچاتی ہے اسی طرح اس کے مقابلہ میں عارفین اور اہل اللہ کی نظر اکسیر کی مانند فائدہ مند ہوتی ہے کہ ان کی ایک نگاہ ہدایت کافر کو مؤمن فاسق کو صالح اور جاہل کو عالم بنا دیتی ہے۔

نملہ کا منتر

اور حضرت شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن) میں ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اندر تشریف لائے اور مجھ کو (دیکھ کر) فرمایا کہ کیا تم ان کو (یعنی حفصہ کو) نملہ کا منتر نہیں سکھا دیتیں جس طرح کہ تم نے ان کو لکھنا سکھایا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 شفاء۔ عبداللہ بن شمس کی بیٹی اور قریشی عدوی ہیں ان کا اصلی نام لیلی تھا اور شفاء لقب تھا جو اتنا مشہور ہوا کہ اصل نام پر غالب آ گیا، انہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اونچے درجہ کی عاقلہ فاضلہ عورتوں میں سے تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دوپہر کو قیلولہ کے لئے ان کے یہاں تشریف لے جاتے اور وہاں آرام فرماتے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بستر اور لنگی کا انتظام کر رکھا تھا تاکہ آرام کے وقت یہ دونوں چیزیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئیں۔

 نملہ  کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ ان پھنسیوں کو نملہ کہتے ہیں جو پسلیوں پر نکلتی ہیں اور بہت تکلیف پہنچاتی ہیں، جو شخص ان پھنسیوں میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان پھنسیوں کی جگہ چیونٹیاں رینگ رہی ہوں اور غالباً اسی مناسبت سے ان پھنسیوں کو نملہ چیونٹی کہا جاتا ہے۔ حضرت شفاء رضی اللہ عنہا مکہ میں ان نملہ کے دفعیہ کے لئے منتر پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتی تھیں، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے اور یہ بھی وہاں پہنچیں تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنے زمانہ جاہلیت میں نملہ کے دفعیہ کے لئے ایک منتر پڑھا کرتی تھیں، اب چاہتی ہوں کہ وہ منتر پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سناؤں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بارے میں حکم دیں کہ اس منتر کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس منتر کو سن کر اس کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے کی اجازت دے دی اور پھر فرمایا کہ یہ منتر حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی سکھا دو۔

 رقیہ نملہ  سے مراد وہ چند کلمات ہیں جو عرب کی عورتوں میں مشہور تھے، جن کو وہ رقیہ نملہ کہتی تھیں ورنہ نملہ کا جو منتر حقیقی منتر تھا وہ تو دراصل خرافات کا مجموعہ تھا جس کو پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرما دیا تھا ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس منتر کے سکھانے کا حکم کیوں فرماتے وہ مشہور کلمات جن کو عرب کو عورتیں رقیہ نملہ کہتی تھیں یہ ہیں الغروس تنتعل وتختضب وتکعل وکل شیء تفتعل غیر انہا والا نقصی الرجل یعنی دلہن کو چاہئے کہ مانگ چوٹی اور زیب و زینت کرے، ہاتھ پاؤں رنگے، سرمہ لگائے ہر بات کرے مگر مرد کی نافرمانی نہ کرے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا شفاء سے یہ فرمانا کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو نملہ کا منتر سکھا دو حقیقت میں تعریض کے طور پر تھا اور اس کا ایک خاص پس منظر تھا اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ایک راز کی بات سنائی تھی، لیکن حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس کو فاش کر دیا اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ تحریم میں بھی کیا گیا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شفاء سے مذکورہ ارشاد فرما کر گویا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت کی اور ان کو متنبہ کیا کہ تم نے میرے بتائے ہوئے راز کو ظاہر کر کے شوہر کی نافرمانی کی ہے جو نہ صرف تمہارے مقام و مرتبہ کے منافی بات ہے بلکہ وفا شعار عورت کی اس خصوصیت کے بھی منافی ہے کہ وہ شوہر کی نافرمانی کرنا گوارا نہیں ہوتی۔

ایک حدیث میں عورتوں کو لکھنا سکھانے کی ممانعت منقول ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لاتعلم الکتابۃ اس کے برخلاف اس حدیث میں اس کا جواز ثابت ہوتا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس وقت سے ہو جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ممانعت ارشاد نہیں فرمائی تھی گویا ممانعت والی حدیث بعد کی ہے اور یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے وہ پہلے کی ہے۔ بعض حضرات اس بارے میں کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کی ایک خاص حیثیت تھی اس بنا پر بعض احکام و فضائل میں بھی ان کو مخصوص رکھا گیا ہے لہٰذا ممانعت کا تعلق اور تمام عورتوں سے ہے کہ ان کا اس فتنہ و برائی میں مبتلا ہو جانا عین ممکن ہے جو مذکورہ ممانعت کی بنیاد ہے۔ جب کہ ازواج مطہرات کے بارے میں اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے اس لئے ان کو لکھنا سیکھنے کی اجازت تھی۔

خطابی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھانا مکروہ ہے اور ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ احتمال ہے کہ اس وقت یعنی زمانہ رسالت میں عورتوں کو لکھنا سکھانا جائز ہو لیکن فتنہ و فساد میں مبتلا ہو جانے کے خوف کے سبب سے بعد کی عورتوں کے لئے جائز نہ ہو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ لکھنا سکھانے کا مذکورہ حکم صرف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے تھا دوسری عورتوں کے لئے نہیں۔

نظر لگنے کا ایک واقعہ

اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن) عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے (میرے والد) سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا۔تو کہنے لگا کہ خدا کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوبصورت بدن کبھی) نہیں دیکھا۔ اور پردہ نشین (خوبصورت عورت) کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک و خوش رنگ) نہیں دیکھی۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے) چنانچہ ان کو اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ  یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم سہل کے علاج کے لئے کیا تجویز کرتے ہیں ! خدا کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ (جی ہاں) عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی (یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے بارک اللہ علیک تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر کو حکم دیا کہ (تم سہل کے لئے اپنے اعضاء کو) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو چنانچہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم (یعنی ستر اور کولھوں) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا (شرح السنتہ مؤطا امام مالک) اور امام مالک کی ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹوکنے والے سے فرمایا کہ نظر بد حق ہے تم نظر زدہ کے لئے وضو کرو چنانچہ اس نے نظر زدہ کے لئے وضو کیا

 

تشریح

 

 نووی کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحیقق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل ہے

مارزی نے کہا ہے کہ مذکورہ اعضاء جسم کو دھونے کا حکم وجوب کے طور پر ہے لہذا نظر لگانے والے کو اس بات پر طاقت کے ذریعہ مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ نظر زدہ کے لئے مذکورہ وضو کرے نیز انہوں نے کہا ہے کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنا انسانیت سے بعید ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ نظر زدہ کے ہلاک ہو جانے کا خوف ہو

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ جو شخص نظر لگانے کے بارے میں مشہور و معروف ہو جائے تو اس سے اجتناب کرنا اور اس کے سامنے آنے میں احتیاط کرنا لازم ہے اور امام سربراہ حکومت کے لئے مناسب ہے کہ وہ ایسے شخص کو لوگوں میں آنے جانے اور بیٹھنے اٹھنے سے روک دے اور اس پر یہ پابندی عائد کر دے کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہا کرے گھر سے باہر نہ نکلا کرے اور اگر وہ شخص محتاج و فقیر ہو کہ اپنی گزر و بسر کرنے کے لئے لوگوں کے پاس آنے جانے پر مجبور ہو تو بیت المال سرکاری خزانے سے اس کے لئے بقدر کفایت وظیفہ مقرر کر دے تاکہ وہ گزر اوقات کر سکے حاصل یہ کہ ایسے شخص کا ضرر جذامی کے ضرر سے بھی سخت و شدید ہے لہذا اس بارے میں احتیاط لازم ہے امام نووی نے اس قول کی تائید کی ہے اور کہا کہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے بالکل صحیح اور نا قابل تردید ہے کیونکہ اس کے متعلق علماء میں سے کسی کا بھی کوئی اختلافی قول ہمارے علم میں نہیں ہے

پناہ مانگنے کا ذکر

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جنات سے اور انسان کا نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے یہاں تک کہ معوذات یعنی سورہ قل اعوذ برب الناس اور سورہ قل اعوذبرب الفلق نازل ہوئیں جب یہ سورتیں نازل ہوئیں تو آپ ان سورتوں کے ذریعہ دعا مانگنے لگے اور ان کے علاوہ دوسری چیزوں سے پناہ مانگنی چھوڑ دی (ترمذی ابن ماجہ) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

پناہ مانگنے کا ذکر

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہارے اندر (یعنی انسانوں میں) میں مغربون دکھائی دیتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا مغربون کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ...... مغربون وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ جنات یعنی شیاطین شریک ہوتے ہیں ؟ (ابوداؤد) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت خیر ما تداویتم الخ الترجل میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرتے وقت خدا کا ذکر نہ کرے یعنی یہ دعا نہ پڑھے بسم اللہ اللہم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان ما رزقنا تو اس پر شیطان اثر انداز ہوتا ہے بایں طور پر شیطان اس شخص کے نطفہ اور اس کے ہونے والی اور اس کے ستر سے اپنا ملا لیتا ہے اور اس کے ساتھ عورت سے جماع کرتا ہے اس طرح شیطان اس شخص کے نطفہ اور اس کے ہونے والی اولاد میں شریک ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے کہ آیت (وشارکہم فی الاموال والاولاد) اس سے معلوم ہوا کہ  مغربون کے معنی ہیں وہ لوگ جو جماع کے وقت خداوندی سے روگردانی کرتے ہیں اور اپنے نفس کو ذکر حق سے دور کر دیتے ہیں۔ یا وہ جماع کے وقت خداوندی سے غفلت اختیار کر کے اور گویا وظیفہ زوجیت میں شیطان کو اپنا شریک بنا کر اپنی پیدا ہونے والی اولاد کو اپنی جنس سے دور کر دیتے ہیں اور اپنی نسل اور اپنے نسب میں گویا اجنبی خون کو شامل کرتے ہیں لہذا جماع کا وقت چونکہ سرشاری و  غلفت کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس موقع پر احتیاط و ہوشیاری اختیار کر کے ذکر خداوندی یعنی مذکورہ دعا پڑھنے سے چوکنا نہ چاہئے تاکہ اس بلاء و فتنہ سے محفوظ رہے۔ واضح رہے کہ آج کے ابناء روز گار (افراد انسانی میں) جو عام بے راہ روی، فتنہ و فساد اور مختلف قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں ان کا سبب اس حدیث کی روشنی میں بالکل ظاہر ہے کہ لوگوں نے عام طور پر مذکورہ ہدایت کو فراموش کر کے ذکر خداوندی کو ترک کر دیا ہے جس کے نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ پیدا ہونے والی نسل پوری طرح شیطانی اثرات لئے ہوئے دنیا میں آتی ہے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں، شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ان لوگوں کو زنا کی طرف راغب کرتا ہے اور ان کی نظر میں بدکاری کو اچھے سے اچھے روپ میں پیش کرتا ہے جس کی بنا پر وہ اس برائی میں مبتلا ہو کر نالائق اور غیر صالح او لاد کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں یا یہ شیطان ان لوگوں کی عورتوں و بیویوں کو زنا کی طرف مائل کرتا ہے اور ان کو غیر مردوں کے ساتھ ملوث کراتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نالائق اولاد پیدا ہوتی ہے۔

معدے کی مثال

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (آدمی کا) معدہ بدن کا حوض ہے اور پیٹ کی رگیں (جو اعضاء جسم سے پیوستہ ہیں) معدہ کی طرف (پانی پینے والے کی طرح) آتی ہیں جب معدہ درست ہوتا ہے تو یہ رگیں معدہ سے صحت بخش رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو صحت و طاقت حاصل ہوتی ہے) اور جب معدہ خراب ہوتا ہے تو یہ رگیں فاسد رطوبات کے ساتھ اعضاء کی طرف جاتی ہیں (جس سے بدن کو بیماری اور ضعف لاحق ہو جاتا ہے)۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ انسان کے بدن اور اس کے معدہ کے درمیان وہی نسبت ہے جو پانی کے تالاب وغیرہ اور درخت کے درمیان ہے کہ جس طرح کسی تالاب کے کنارے یا پانی میں کھڑا ہوا درخت اپنے رگ و ریشہ کے ذریعہ پانی سے حیات بخش رطوبات حاصل کرتا ہے اسی طرح جسم انسانی مختلف رگوں کے ذریعہ اپنے معدہ سے صحت و طاقت کی رطوبات حاصل کرتا ہے چنانچہ اگر پانی صاف و شیریں ہوتا ہے تو وہ درخت کی تازگی اور نشوونما کا سبب بنتا ہے اور اگر پانی گدلا اور کھارا ہوتا ہے تو وہ درخت کی پژمردگی و خشکی کا باعث بن جاتا ہے۔

زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیث کو طب نبوی پر محمول کیا جائے اس صورت میں مذکورہ بالا ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہو گا کہ انسان کے اقوال و افعال، کردار و عادات اور اخلاق و اطوار اس کی غذا و خوراک کے مطابق ہوتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پیٹ میں حرام غذا داخل ہوتی ہے تو اس کے اعضاء جسم سے حرام افعال و اقوال صادر ہوتے ہیں اسی طرح اگر کسی شخص کے پیٹ میں کھانے پینے کی فضول وغیرہ مناسب چیزیں جاتی ہیں تو اس کے جسم کے ہر چھوٹے بڑے عضو سے فضول و غیر مناسب افعال وغیرہ صادر ہوتے ہیں اس کے برخلاف جس شخص کے پیٹ میں حلال و پاک غذائیں جاتی ہیں اس کے اعضاء و جسم سے صالح و پاکیزہ افعال صادر ہوتے ہیں گویا انسان کی غذا اس کے افعال کا تخم ہے اور افعال بمنزلہ روئیدگی کے ہیں اور اس کے پیٹ میں جس طرح کی غذا جائے گی اس کے اعضاء سے اسی طرح کے افعال ظاہر ہوں گے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ اناء یترشح بما فیہ یعنی ہر برتن سے وہی چیز ٹپکتی اور نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے۔ اسی لئے حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت (کلوا من الطبیت واعملوا صالحا)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے من نبت لحمہ من سحت فالنار اولی بہ۔

بعض محدثین نے اس حدیث کے بارے میں کلام کیا ہے اور بعض نے تو اس کو موضوع من گھڑت قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ  لااصل لہ  (یعنی اس حدیث کو کوئی اصل نہیں ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا کہ باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے غیر صحیح بات کیونکہ تعدد طرق کے سبب اور طبرانی و بیہقی کی روایت کی بنا پر اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس بنا پر اس حدیث کو بلا شک و شبہ حسن یا ضعیف کہا جا سکتا ہے۔

بچھو کے کاٹے کا علاج

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھتے ہوئے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا تھا کہ اس (ہاتھ) کی انگلی میں بچھو نے کاٹ لیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پاپوش مبارک کے ذریعہ اس بچھو کو مار ڈالا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ بچھو پر خدا کی لعنت ہو، نہ نمازی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نمازی کو یا یہ فرمایا کہ، نبی کو چھوڑتا ہے نہ غیر نبی کو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمک اور پانی منگوایا اور دونوں کو ایک برتن میں گھول دیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس چیز کو (جو برتن میں تھی یعنی پانی اور نمک) کو انگلی کے اس حصے پر ڈالتے جاتے تھے جہاں بچھو نے کاٹا تھا اور انگلی کو ملتے جاتے تھے، نیز قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے، ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک کی برکت

اور حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ ایک دن میرے گھر والوں نے مجھ کو پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا۔ معمول یہ تھا کہ جب کسی کو نظر لگتی یا اور کوئی بیماری ہوتی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک پیالہ بھیجا جاتا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا موئے مبارک نکالتیں جس کو وہ چاندی کی ایک نلکی میں رکھتی تھیں اور اس موئے مبارک کو پانی میں ڈال کر ہلاتیں اور پھر مریض اس پانی کو پی لیتا جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کو شفا عطا فرما دیتا راوی کہتے ہیں کہ میں نے چاندی کی اس نلکی میں جھانک کر دیکھا تو مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کئی سرخ بال نظر آئے۔! ' (بخاری)

 

تشریح

 

 طیبی کہتے ہیں کہ اس موقع پر چاندی کا استعمال موئے مبارک کی تعظیم و توقیر کے پیش نظر تھا، جیسا کہ کعبہ مکرمہ پر ریشمی کپڑے کا پردہ ڈالا جاتا ہے۔ جہاں تک ان بالوں کی سرخی کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ موئے مبارک خلقی طور پر سرخ ہی تھے۔ یا تھے تو بھورے مگر دیکھنے میں سرخ معلوم ہوتے تھے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر مہندی کا خضاب ہو گا جس کی وجہ سے وہ سرخ تھے۔ یا چونکہ ان کو خوشبوؤں میں رکھا جاتا تھا اس لئے ان خوشبوؤں کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ہو گیا تھا۔ اور وہ سرخ نظر آنے لگتے تھے۔

کھنبی کے خواص

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کئی حضرات نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کھنبی زمین کی چیچک ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (نہیں) بلکہ کھنبی من کی قسم سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے اور عجوہ (جو کھجور کی سب سے نفیس اور عمدہ قسم ہے) جنت کی کھجور ہے اور اس میں زہر سے شفا کی خاصیت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سنکر) میں نے تین یا پانچ یا سات کھنبیاں لیں اور ان کو نچوڑ لیا (یعنی کوٹ کر ان کا عرق نکال لیا) اور اس پانی (عرق) کو ایک شیشی میں بھر کر رکھ لیا پھر میں نے اس پانی کو اپنی ایک چندھی لونڈی کی آنکھوں میں ڈالنے لگا تو وہ اچھی ہو گئی۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 

 تشریح

 

  کھنبی زمین کی چیچک ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چیچک کے دانے دراصل جسم میں پیدا ہو جانے والے ناقص، فضلات ہوتے ہیں جو جلد میں سے باہر نکل آتے ہیں، اسی طرح یہ کھنبی بھی زمین کا فضلہ ہے۔ جو زمین سے باہر نکل آتی ہے۔صحابہ نے یہ بات گویا کھنبی کی مذمت کے طور پر کہی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے خیال کو رد کرنے کے لئے کھنبی کی فضیلت و تعریف اور اس کی منفعت بیان فرمائی کہ کھنبی من کی قسم سے ہے یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو بطور احسان عطا فرمائی ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے نہ زمین کو کھودنے بونے کی مشقت کرنا پڑتی ہے اور نہ پانی دینے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے بلکہ یہ خود بخود زمین کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کے کھانے اور پیٹ بھرنے کی ضرورت پوری کرتی ہے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جملہ کے ذریعہ کھنبی کو اس من کے ساتھ مشابہت دی جو حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر اتری تھی، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر ان کی محنت و مشقت کے بغیر من اترتی تھی اسی طرح یہ کھنبی بھی تخم ریزی کی محنت و مشقت کے بغیر زمین سے نکلتی ہے یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ الکمأۃ من المن والمن من الجنۃ یعنی کھنبی من کی قسم سے ہے اور من جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

 اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے  کے بارے میں نووی لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک محض کھنبی کا پانی آنکھ کو شفا بخشتا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کا پانی اس صورت میں شفا دیتا ہے جب کہ اس میں آنکھ کے امراض کے مطابق دوسری دوائیں بھی ملائی جائیں، نیز بعضوں کے نزدیک یہ تفصیل ہے کہ اگر آنکھ کو گرمی سے ٹھنڈک پہنچانا مقصود ہو (یعنی آنکھ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو) تو صرف اس کا پانی ہی مفید ہے ورنہ دوسری صورتوں میں اس کے پانی کو دوسری دواؤں میں ملا کر آنکھ میں ڈالنا مفید ہو گا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہر صورت میں کہ آنکھ خواہ گرمی کی وجہ سے دکھتی ہو یا کسی اور وجہ سے محض اس کا پانی شفا بخش ہے، چنانچہ بعض مشائخ کے بارے میں منقول ہے کہ اس کی بنیائی بالکل جاتی رہی تھی اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم پر مکمل اعتقاد رکھتے ہوئے اور اس کو متبرک جانتے ہوئے اپنی آنکھوں میں محض کھنبی کا پانی ڈالنا شروع کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن اعتقاد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کی برکت کی بناء پر ان کی آنکھوں کو شفائے کامل عطا فرمائی۔

شہد کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر مہینے میں تین دن صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے تو وہ کسی بڑی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ شہد کی برکت و خاصیت سے بڑی مصیبت و بلا تک دفع ہو جاتی ہے خواہ وہ کسی سخت بیماری کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں چہ جائیکہ کوئی چھوٹی مصیبت و بلا ہو۔

سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم روزانہ ایک پیالہ میں شہد کو پانی میں ملا کر گھونٹ گھونٹ نوش فرماتے تھے، علماء نے لکھا ہے کہ شہد کو پانی میں ملا کر پینے سے حفظان صحت وہ نعمت حاصل ہوتی ہے جس کی معرفت کی راہ عارفین ہی جان سکتے ہیں چنانچہ شہد کے جو بیشمار فوائد و خواص ہیں ان کی بناء پر ارباب طب و تحقیق کا یہ فیصلہ ہے کہ شہد بلا شبہ ایک ایسی نعمت الٰہی ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، جالینوس کا کہنا ہے کہ خالص طور پر بیماریوں کے لئے شہد بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اطباء لکھتے ہیں کہ نہار منہ شہد کو پینا یا چاٹنا بلغم کو چھانٹتا ہے۔ معدے کو صاف کرتا ہے لزوجت اور فصلات کو دور کرتا ہے، معدے کو اعتدال کے ساتھ گرمی پہنچاتا ہے اور سدوں کو کھولتا ہے،علاوہ ازیں یہ جلندر، استرخاء اور ہر قسم کے ریاح کو زائل کرتا ہے، پیشاب، حیض، اور دودھ کو جاری کرتا ہے مثانہ و گردہ کی پتھری کو توڑتا ہے اور رطوبت ردیہ کو دفع کرتا ہے۔

 

 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔شفا دینے والی دونوں چیزوں کو اپنے اوپر لازم کر لو، ایک تو شہد دوسرے قرآن۔ ان دونوں روایتوں کو ابن ماجہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز بیہقی نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ دوسری حدیث (یعنی علیکم بالشائین) مرفوع (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد) نہیں ہے بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے۔

 

تشریح

 

 شہد کی یہ فضیلت اس لئے ہے کہ اس میں شفا کا ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فیہ شفاء للناس۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے اور خود قرآن مجید بھی کائنات انسانی کے لئے شفاء و رحمت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (ھدی و شفاء الما فی الصدور) (یعنی یہ قرآن دلوں کی بیماریوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے) لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ شہد تو محض ظاہری جسمانی بیماریوں کے لئے شفا ہے جب کہ قرآن کریم ظاہر و باطن یعنی جسم و روح دونوں کی بیماریوں کے لئے شفا ہے اسی لئے قرآن کریم کے حق میں ہدی وشفاء فرمایا گیا ہے۔

بلا ضرورت سر پر پچھنے لگوانا قوت حافظہ کے لئے نقصان دہ ہے

اور حضرت ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بیماری کے سبب کہ جو بکری کا زہر آلود گوشت کھا لینے کی وجہ سے لاحق ہو گئی تھی اپنے پر سینگی کھنچوائی۔ (حدیث کے ایک راوی) معمر کا بیان ہے کہ میں نے کوئی زہر آلود چیز کھائے بغیر اس طرح اپنے سر پر سینگی کھنچوائی، تو میں اپنے حافظہ کی خوبی سے محروم ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھ کو نماز میں الحمد سیکھنے کی ضرورت پیش آتی تھی !۔(رزین)

 

تشریح

 

 اس سے معلوم ہوا کہ کسی علت و سبب کے بغیر کہ جو سر میں سے خون نکلوانے کو ضروری قرار دے، سر پر سینگی کھنچوانا اور خون نکلوانا قوت حافظہ کو نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔

سینگی کھنچوانے کے دن

اور حضرت نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نافع رضی اللہ عنہ میرے جسم میں خون جوش کھا رہا ہے۔ذرا تم سینگی کھنچنے والے کو بلا لاؤ، لیکن جوان آدمی کو لانا، کسی بوڑھے یا بچے کو مت پکڑ لانا (کیونکہ طاقت ور آدمی زیادہ اچھی طرح سینگی کھنچے گا) نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ بھری ہوئی سینگی نہار منہ کھنچوانا زیادہ بہتر ہے اس سے عقل میں زیادتی ہوتی ہے (جس شخص کے حافظہ نہیں ہوتا) اس کے حافظہ تیز ہوتا ہے اور جس شخص کے حافظہ تیز ہوتا ہے اس کے حافظہ میں زیادتی ہوتی ہے، لہٰذا جو شخص سینگیاں کھنچوانا چاہے وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جمعرات کے دن سینگی کھنچوائے اور جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سینگی کھنچوانے سے اجتناب کرو، پھر پیر اور منگل کے دن کھنچوائے اور بدھ کے دن سینگی کھنچوانے سے اجتناب کرو، کیونکہ بدھ کا دن وہ دن ہے جس میں حضرت ایوب علیہ السلام مبتلائے بلاء ہوئے اور جذام یا کوڑھ کی بیماریاں بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں ظاہر ہوتی ہیں۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

  جس میں حضرت ایوب علیہ السلام مبتلائے بلا ہوئے  سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کا بلاء میں مبتلا رہنا اسی سبب سے تھا کہ انہوں نے بدھ کے دن سینگی کھنچوائی تھی اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مفسرین نے اس کے مبتلائے بلاء ہونے کے اور بھی اسباب بیان کئے ہیں۔تو ہو سکتا ہے کہ ان اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہو گا۔

علماء نے لکھا ہے کہ دوسری فصل میں حضرت کبشہ بنت ابی بکرہ رضی اللہ عنہا کی جو روایت گزری ہے تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ منگل کے دن سینگی کھنچوانا مناسب نہیں ہے جب کہ یہاں اس کے برخلاف بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں کے درمیان اس تضاد کو اس قول کے ذریعہ دور کیا جا سکتا ہے کہ اگر حضرت کبشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو یہاں نقل کی گئی روایت میں  منگل  سے مراد وہ منگل ہو گا۔ جو چاند کی سترھویں تاریخ کو واقع ہوتا ہو جیسا کہ آگے آنے والی روایت سے واضح ہوتا ہے۔

روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ جو حصر بیان کیا گیا ہے کہ جذام اور کوڑھ کی بیماریاں صرف بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیدا ہوتی ہیں تو یہ حصر اکثر کے اعتبار سے اور از راہ مبالغہ ہے۔

 

 

اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ منگل کے دن سترھویں تاریخ کو سینگی کھنچوانا سال بھر کی بیماریوں کا علاج ہے اس روایت کو حرب بن اسماعیل کرمانی نے نقل کیا ہے جو امام احمد بن حنبل کے مصاحب ہیں اور روایت کی اسناد ایسی قوی نہیں ہے کہ اس پر اعتماد کیا جا سکے (ابن جارود) منتقی میں بھی اسی طرح منقول ہے، نیز اسی طرح کی روایت رزین نے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

منگل کے دن سینگی کھنچوانے کے سلسلے میں چوں کہ مختلف روایتیں منقول ہیں اس لئے زیادہ بہتر اور مناسب یہی ہے کہ منگل کے دن سینگی کھنچوانے سے اجتناب کیا جائے۔تاوقتیکہ کوئی شدید ضرورت پیش آئے۔