حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ، النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا "، قَالَ: قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، قَالَ: فَمَهْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں "حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کر لیں"، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہو گی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی)، بھلا بتاؤ اگر وہ عاجز ہو جاتا یا دیوانہ ہو جاتا تو واقع ہوتی یا نہیں؟ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۲ (۵۲۵۲) ، و ۴۵ (۵۳۳۳) ، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۴ (۲۱۸۳، ۲۱۸۴) ، سنن النسائی/الطلاق ۱ (۳۴۱۸) ، و ۷۶ (۳۵۸۵) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲ (۲۱۰۹) ، (تحفة الأشراف : ۸۵۷۳) ، مسند احمد (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ۱ (۴۹۰۸) ، والطلاق ۱ (۵۲۵۱) ، و ۴۴ (۵۳۳۲) ، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق ۴ (۲۱۷۹-۲۱۸۲) ، موطا امام مالک/الطلاق ۲۱ (۵۳) ، سنن الدارمی/الطلاق ۱ (۲۳۰۸) ، من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ و پاگل ہو جانے کی صورت میں یہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہو تو آپ کا «مره فليراجعها» کہنا بے معنی ہو گا ، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا ، لیکن ظاہر یہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی ، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی ، ابوداؤد کی ایک روایت (رقم : ۲۱۸۵)کے الفاظ ہیں «لم يرها شيئاً» ، محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہر یہ کے مسلک کو اختیار کیا جائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَهِيَ طَاهِرٌ فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ، إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الْحَامِلِ: يُطَلِّقُهَا مَتَى شَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، ان کے والد عمر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ طلاق سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاق سنّی ہو گی۔ یہ شافعی اور احمد بن حنبل کا قول ہے، ۵- اور بعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہو گی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کر کے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۶- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۷- اور بعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہر ماہ ایک طلاق دے گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۶۷۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ، فَقَالَ: " مَا أَرَدْتَ بِهَا ؟ " قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: " وَاللَّهِ ؟ " قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: " فَهُوَ مَا أَرَدْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: فِيهِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلَاثًا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ، إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ: إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ.
رکانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا: "تم نے اس سے کیا مراد لی تھی؟"، میں نے عرض کیا: ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا: "اللہ کی قسم؟" میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے فرمایا: "تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں، ۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے، ۴- اور علی رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہو گی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، ۶- مالک بن انس قطعی طلاق (بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہو چکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہو گی، ۷- شافعی کہتے ہیں: اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہو گی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۴ (۲۲۰۸) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۹ (۲۰۵۱) سنن الدارمی/الطلاق ۸ (۲۳۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۳۶۱۳) (ضعیف) (سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری: اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: الارواء (رقم ۲۰۶۳)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَنَّ أَحَدًا قَالَ: فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ إِنَّهَا ثَلَاثٌ، إِلَّا الْحَسَنَ، فَقَالَ: لَا إِلَّا الْحَسَنَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ، قَالَ أَيُّوبُ: فَلَقِيتُ كَثِيرًا مَوْلَى بَنِي سَمُرَةَ، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ بِهَذَا وَإِنَّمَا هُوَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا، وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ حَافِظًا صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ هِيَ وَاحِدَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ: غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وقَالَ: ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلَ أَمْرَهَا بِيَدِهَا وَطَلَّقَتْ نَفْسَهَا ثَلَاثًا، وَأَنْكَرَ الزَّوْجُ، وَقَالَ: لَمْ أَجْعَلْ أَمْرَهَا بِيَدِهَا، إِلَّا فِي وَاحِدَةٍ اسْتُحْلِفَ الزَّوْجُ، وَكَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ: مَعَ يَمِينِهِ، وَذَهَبَ سُفْيَانُ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ، إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَأَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، فَقَالَ: الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَأَمَّا إِسْحَاق، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ.
حماد بن زید کا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا: کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں، جس نے «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں کہا ہو کہ یہ تین طلاق ہے؟ انہوں نے کہا: حسن بصری کے۔ علاوہ مجھے کسی اور کا علم نہیں، پھر انہوں نے کہا: اللہ! معاف فرمائے۔ ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند «كثير مولى بني سمرة عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: "یہ تین طلاقیں ہیں"۔ ایوب کہتے ہیں: پھر میں کثیر مولی بنی سمرہ سے ملا تو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگر وہ اسے نہیں جان سکے۔ پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا: وہ بھول گئے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے،۳- میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے، اور وہ ابوہریرہ کی حدیث کو مرفوع نہیں جان سکے، ۴- اہل علم کا «أمرك بيدك» کے سلسلے میں اختلاف ہے، بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک (طلاق) ہو گی۔ اور یہی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے، ۵- عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہو گا جو عورت کہے گی، ۶- ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب شوہر کہے کہ"اس کا معاملہ اس (عورت) کے ہاتھ میں ہے"، اور عورت خود سے تین طلاق قرار دے لے۔ اور شوہر انکار کرے اور کہے: میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہا تھا کہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کا قول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہو گا، ۷- سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں، ۸- اور مالک بن انس کا کہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہو گا جو عورت کہے گی، یہی احمد کا بھی قول ہے، ۹- اور رہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۳ (۲۲۰۴) ، سنن النسائی/الطلاق ۱۱ (۳۴۳۹) (ضعیف) (سند میں کثیر لین الحدیث ہیں مگر حسن کا قول صحیح ہے، جس کی روایت ابوداود (برقم ۲۲۰۵) نے بھی کی ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا ؟ ". حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَبِمِثْلِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ، عَنْ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أنهما قَالَا: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَرُوِيَ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا، قَالَا: أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: إِنِ اخْتَارَتْ زَوْجَهَا فَوَاحِدَةٌ، وَإِنِ اخْتَارَتْ نَفْسَهَا فَثَلَاثٌ، وَذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، فِي هَذَا الْبَابِ إِلَى قَوْلِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، فَذَهَبَ إِلَى قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا (چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔ کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- (ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیار دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ۳- عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کا کہنا ہے کہ اگر عورت نے خود کو اختیار کر لیا تو طلاق بائنہ ہو گی۔ اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اور اگر اس نے اپنے شوہر ہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہو گا یعنی کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۲؎، ۴- اور علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خود کو اختیار کیا تو طلاق بائن ہو گی اور اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی لیکن رجعت کا اختیار ہو گا، ۵- زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہر کو اختیار کیا تو ایک ہو گی اور اگر خود کو اختیار کیا تو تین ہوں گی، ۶- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے، ۷- البتہ احمد بن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی الله عنہ کا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۳) ، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۷) ، سنن النسائی/النکاح ۲ (۳۲۰۴) ، والطلاق ۲۷ (۳۴۷۱- ۳۴۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۷۶۱۴) مسند احمد ۶/۲۰۲، ۲۰۵، ۲۴۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۲ (۲۲۰۳) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۰ (۱۵۲) ، مسند احمد (۶/۴۵، ۴۸، ۱۷۱، ۱۷۳، ۱۸۵، ۲۶۴) من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ۱؎ : استفہام انکاری ہے یعنی طلاق نہیں مانی تھی۔ ۲؎ : اور یہی قول اس صحیح حدیث کے مطابق ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا سُكْنَى لَكِ، وَلَا نَفَقَةَ ". قَالَ مُغِيرَةُ: فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ: لَا نَدَعُ كِتَابَ اللَّهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ، وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ، وَإِسْمَاعِيل،وَمُجَالِدٌ، قَالَ هُشَيْمٌ، وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا، عن الشَّعْبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا، عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا فَقَالَتْ: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ فَخَاصَمَتْهُ فِي السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةِ، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ: وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ: بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَالشَّعْبِيُّ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةٌ، إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُهَا الرَّجْعَةَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عُمَرُ، وَعَبْدُ اللَّهِ، إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةُ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَهَا السُّكْنَى، وَلَا نَفَقَةَ لَهَا، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا جَعَلْنَا لَهَا السُّكْنَى بِكِتَابِ اللَّهِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1، قَالُوا: هُوَ الْبَذَاءُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَى أَهْلِهَا، وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، لَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، السُّكْنَى لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَى أَهْلِهَا، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَلَا نَفَقَةَ لَهَا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں نہ «سکنی» (رہائش) ملے گا اور نہ «نفقہ» (اخراجات)"۔ مغیرہ کہتے ہیں: پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا، تو انہوں نے کہا کہ عمر رضی الله عنہ کا کہنا ہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یا بھول گئی۔ عمر ایسی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دلاتے تھے۔ دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی تو انہوں نے «سکنٰی» اور «نفقہ» کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ«سکنٰی» ہی دلوایا اور نہ «نفقہ»۔ داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزاروں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا یہی قول ہے۔ ان میں حسن بصری، عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کا شوہر رجعت کا اختیار نہ رکھے نہ سکنیٰ ہو گا اور نہ نفقہ، ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو «سکنٰی» اور «نفقہ» دونوں ملے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے،۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اسے «سکنٰی» ملے گا «نفقہ» نہیں ملے گا۔ یہ مالک بن انس، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے «سکنٰی» کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بےحیائی کر بیٹھیں ۲؎، «بذاء» یہ ہے کہ عورت شوہر کے گھر والوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کو«سکنٰی» نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھر والوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے واقعے میں «نفقہ» نہ دینے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی رو سے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۳۹ (۲۲۸۸) ، سنن النسائی/الطلاق ۷ (۳۴۳۲، ۳۴۳۳) ، و ۷۰ (۳۵۷۸، ۳۵۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۰ (۲۰۳۶) ، مسند احمد (۶/۴۱۲، ۴۱۵، ۴۱۵، ۴۱۶) ، سنن الدارمی/الطلاق ۱۰ (۲۳۲۱) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۲۵) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ الطلاق ۳۹ (۲۲۸۴) ، سنن النسائی/النکاح ۸ (۳۲۲۴) ، و ۲۱ (۳۲۴۶) ، و ۲۲ (۳۲۴۷) ، والطلاق ۱۵ (۳۴۴۷) ، موطا امام مالک/الطلاق ۲۳ (۶۷) ، مسند احمد (۶/۴۱۱-۴۱۷) ، سنن الدارمی/النکاح ۷ (۲۲۲۳) ، من غیر ھذا الوجہ، و بتغیر یسیر في السیاق، وانظر أیضا ما تقدم برقم: ۱۱۳۵۔
وضاحت: ۱؎ : مسند احمد کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ یہ تین طلاقیں تین مختلف وقتوں میں دی گئی تھیں۔ ۲؎ : لیکن قرآن کا یہ حکم مطلقہ رجعیہ کے سلسلے میں ہے ، کیونکہ آیت میں آگے یہ بھی ہے «لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا» (الطلاق : ۱) " یعنی : تھے نہیں معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ بعد میں کوئی معاملہ پیدا کر دے " یعنی ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے شوہر کے دل میں رجعت کا خیال پیدا کر دے ، تو تین طلاق کی صورت میں رجعت کہاں ہے ؟۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ: أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، رُوِيَ ذَلِكَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَالْحَسَنِ، وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، وَشُرَيْحٍ، وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّهَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا: إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، أَنَّهُ إِذَا سَمَّى امْرَأَةً بِعَيْنِهَا، أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا، أَوْ قَالَ: إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا، فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ، فَإِنَّهَا تَطْلُقُ، وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَقَالَ: إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُهُ، أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ، وقَالَ إِسْحَاق: أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ، لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ، وَوَسَّعَ إِسْحَاق فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُكِرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ سُئِلَ، عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ، أَنَّهُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا ؟، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كَانَ يَرَى هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا، مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَى بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ، أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَلَا أَرَى لَهُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، اور نہ اسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے جس کا وہ مالک نہ ہو، اور نہ اسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، معاذ بن جبل، جابر، ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے، ۳- یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔ اور علی بن ابی طالب، ابن عباس، جابر بن عبداللہ، سعید بن المسیب، حسن، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح، جابر بن زید رضی الله عنہم، اور فقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے، ۴- اور ابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ۱؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہو جائے گی، ۵- اور اہل علم میں سے ابراہیم نخعی اور شعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ کسی وقت کی تحدید کرے ۲؎ تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور یہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کا بھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کا نام لیا، یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا: اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔ تو اگر اس نے شادی کر لی تو اسے طلاق واقع ہو جائے گی، ۶- البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہو گی، ۷- اور احمد کہتے ہیں: اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کر لے، ۸-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود کی حدیث کی رو سے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں، اگر اس نے اس سے شادی کر لی، تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہو گی۔ اور غیر منسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے، ۹- اور عبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا، پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کر لے۔ تو کیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے؟ تو عبداللہ بن مبارک نے کہا: اگر وہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتا ہو تو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہا ہو، اب آزمائش میں پڑ جانے پر ان کے قول پر عمل کرنا چاہے تو میں اس کے لیے ایسا کرنا درست نہیں سمجھتا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۷ (۲۰۴۷) (تحفة الأشراف : ۸۷۲۱) ، مسند احمد (۲/۱۹۰) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الطلاق ۷ (۲۱۹۰) ، سنن النسائی/البیوع ۶۰ (۴۶۱۶) ، مسند احمد (۲/۱۸۹) من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ۱؎ : بعض نسخوں میں منصوبہ سین سے ہے یعنی «منسوبہ» ، اور یہی صحیح ہے اس سے مراد وہ عورت ہے جو کسی قبیلے یا شہر کی طرف منسوب ہو یا«منصوبہ» سے مراد متعین عورت ہے۔ مثلاً کوئی خاص عورت جس سے ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی ہے یہ کہے کہ اگر " میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق " تو نکاح کے بعد اس پر طلاق پڑ جائے گی ، حالانکہ فی الوقت یہ طلاق اس کی ملکیت میں نہیں ہے۔ ۲؎ : مثلاً یوں کہے «إن نكحت اليوم أو غداً» " اگر میں نے آج نکاح کیا یا کل نکاح کروں گا "۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُظَاهِرُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ: حَدَّثَنِيالْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ ". قَالَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: وحَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا مُظَاهِرٌ بِهَذَا، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُظَاهِرِ بْنِ أَسْلَمَ، وَمُظَاهِرٌ لَا نَعْرِفُ لَهُ فِي الْعِلْمِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لونڈی کے لیے دو ہی طلاق ہے اور اس کی عدت دو حیض ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مظاہر بن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۷ (۲۳۴۰) (تحفة الأشراف : ۱۸۵۵۵) (ضعیف) (سند میں مظاہر ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَجَاوَزَ اللَّهُ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ، أَوْ تَعْمَلْ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جو دل میں آتے ہیں معاف فرما دیا ہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادا نہ کرے، یا ان پر عمل نہ کرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کر لے تو کچھ نہیں ہو گا، جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۶ (۲۵۲۸) ، والطلاق ۱۱ (۵۲۶۵) ، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴) ، صحیح مسلم/الإیمان ۵۸ (۲۰۱) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۱۵ (۲۲۰۹) ، سنن النسائی/الطلاق ۲۲ (۳۴۶۴) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۴ (۲۰۴۰) ، مسند احمد (۲/۳۹۲، ۴۲۵، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (تحفة الأشراف : ۱۲۸۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور گزرنے والے وسوسے مواخذہ کے قابل گرفت نہیں ، مثلاً کسی کے دل میں کسی لڑکی سے شادی یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا خیال آئے تو محض دل میں خیال آنے سے یہ باتیں واقع نہیں ہوں گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وعَبْدُ الرَّحْمَنِ: هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اور ہنسی مذاق میں کرنا بھی سنجیدگی ہے نکاح، طلاق اور رجعت" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۳- عبدالرحمٰن، حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۹ (۲۱۹۴) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۳ (۲۰۳۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۸۵۴) (حسن) (آثار صحابہ سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ عبدالرحمن بن اردک ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : سنجیدگی اور ہنسی مذاق دونوں صورتوں میں ان کا اعتبار ہو گا۔ اور اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ہنسی مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق جب وہ صراحت کے ساتھ لفظ طلاق کہہ کر طلاق دے تو وہ واقع ہو جائے گی اور اس کا یہ کہنا کہ میں نے بطور کھلواڑ مذاق میں ایسا کہا تھا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہو گا کیونکہ اگر اس کی یہ بات مان لی جائے تو احکام شریعت معطل ہو کر رہ جائیں گے اور ہر طلاق دینے والا یا نکاح کرنے والا یہ کہہ کر کہ میں نے ہنسی مذاق میں یہ کہا تھا اپنا دامن بچا لے گا ، اس طرح اس سلسلے کے احکام معطل ہو کر رہ جائیں گے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهَا اخْتَلَعَتْ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ ".
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلع لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا گیا صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۸۳۵) (صحیح)
أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ، اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ، فَقَالَ: أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثُ حِيَضٍ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ، قَالَ إِسْحَاق: وَإِنْ ذَهَبَ ذَاهِبٌ إِلَى هَذَا فَهُوَ مَذْهَبٌ قَوِيٌّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حیض عدت گزار نے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- «مختلعہ» (خلع لینے والی عورت) کی عدت کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی ہے، یعنی تین حیض۔ یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت ایک حیض ہے، ۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس مذہب کو اختیار کرے تو یہ قوی مذہب ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۸۳۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «خلع» : «خلع الثوب» سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی لباس اتارنے کے ہیں ، شرعی اصطلاح شرع میں عورت کا مہر میں دیا ہوا مال واپس دے کر شوہر سے علاحدگی اختیار کر لینے کو «خلع» کہتے ہیں۔ ۲؎ : باب کی حدیث اسی قول کی تائید کرتی ہے کہ «خلع» طلاق نہیں فسخ ہے اور «مختلعہ» کی عدت ایک حیض ہے اور جو لوگ کہتے ہیں کہ «خلع» فسخ نہیں طلاق ہے وہ کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی عدت ہے۔ راجح قول پہلا ہی ہے جو ان دونوں حدیثوں کے موافق ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ ".
ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، اس کی سند قوی نہیں ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے آپ نے فرمایا: "جس عورت نے بلا کسی سبب کے اپنے شوہر سے خلع لیا، تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۰۹۲) (صحیح) (متابعت اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ لیث بن ابی سلیم ‘‘ ضعیف، اور ’’ ابو الخطاب ‘‘ مجہول ہیں، ملاحظہ: صحیحہ رقم: ۶۳۲)
وضاحت: ۱؎ : یہ بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں جو جنت میں دخول اوّلی کی مستحق نہیں قرار پائیں گی کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ اور یہ ارشاد بغیر کسی معقول وجہ کے خلع لینے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔
أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور یہ «عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي أسماء عن ثوبان» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے،۳- بعض نے ایوب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۸ (۲۲۲۶) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۱ (۲۰۵۵) ، (تحفة الأشراف : ۲۱۰۳) ، مسند احمد (۵/۲۷۷، ۲۸۳) ، سنن الدارمی/الطلاق ۶ (۲۳۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ إِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنْ تَرَكْتَهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا عَلَى عِوَجٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَسَمُرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت کی مثال پسلی کی ہے ۱؎ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ دو گے اور اگر اسے یوں ہی چھوڑے رکھا تو ٹیڑھ کے باوجود تم اس سے لطف اندوز ہو گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے اور اس کی سند جید ہے، ۲- اس باب میں ابوذر، سمرہ، اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۱۸ (۱۴۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۲۴۷) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/النکاح ۷۹ (۵۱۸۴) ، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) ، مسند احمد (۲/۴۲۸، ۴۴۹، ۵۳۰) ، سنن الدارمی/النکاح ۳۵ (۲۲۶۸) من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ۱؎ : یعنی عورتوں کی خلقت ہی میں کچھ ایسی بات ہے ، لہٰذا جس فطرت پر وہ پیدا کی گئیں ہیں اس سے انہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ اس لیے ان باتوں کا لحاظ کر کے ان کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ معاشرتی زندگی سکون اور آرام و چین کی ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَهَا، فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، طَلِّقْ امْرَأَتَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی، میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۲۹ (۵۱۳۸) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۶ (۲۰۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۶۷۰۱) ، مسند احمد (۲/۴۲، ۵۳) (حسن)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ جو اس کے برتن میں ہے اُسے اپنے میں انڈیل لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰) ، صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۳/۵۲) ، سنن النسائی/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱) ، والبیوع ۱۶ (۴۴۹۶) ، و۱۹ (۴۵۰۶) ، و۲۱ (۴۵۱۰) ، مسند احمد (۲/۲۳۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۱۲۳) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الشروط ۸ (۲۷۲۳) ، والنکاح ۵۳ (۵۱۵۲) ، والقدر ۴ (۶۶۰۱) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، مسند احمد (۲/۲۷۴، ۳۱۱، ۳۹۴، ۴۱۰، ۴۸۷، ۴۸۹، ۵۰۸، ۵۱۶) من غیر ہذا الوجہ و بزیادة في السیاق۔وانظر أیضا حدیث رقم ۱۱۳۴، وکذا مایأتي برقم: ۱۲۲۲، و ۱۳۰
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، أَنْبَأَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ، وَعَطَاءُ بْنُ عَجْلَانَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ لَا يَجُوزُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْتُوهًا يُفِيقُ الْأَحْيَانَ فَيُطَلِّقُ فِي حَالِ إِفَاقَتِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر طلاق واقع ہوتی ہے سوائے پاگل اور دیوانے کی طلاق کے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور عطاء بن عجلان ضعیف اور «ذاہب الحدیث» (حدیث بھول جانے والے) ہیں، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایسا دیوانہ ہو جس کی دیوانگی کبھی کبھی ٹھیک ہو جاتی ہو اور وہ افاقہ کی حالت میں طلاق دے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۲۴۴) (ضعیف جدا) (سند میں عطاء بن عجلان متروک الحدیث راوی ہے، صحیح ابوہریرہ کے قول سے ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَاءَ، أَنْ يُطَلِّقَهَا وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ، وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ لَا أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي وَلَا آوِيكِ أَبَدًا، قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ ؟، قَالَ: أُطَلِّقُكِ فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ، فَذَهَبَتِ الْمَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا، فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ، فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتا دے دینا رجوع کر لینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی، اگرچہ اس نے سویا اس سے زائد بار اسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہو جائے اور نہ تجھے کبھی پناہ ہی دوں گا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہو گی تو رجعت کر لوں گا۔ اس عورت نے عائشہ رضی الله عنہا کے پاس آ کر انہیں یہ بات بتائی تو عائشہ رضی الله عنہا خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو عائشہ رضی الله عنہا نے آپ کو اس کی خبر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا «الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان» "طلاق (رجعی) دو ہیں، پھر یا تو معروف اور بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کر دینا ہے" (البقرہ: ۲۲۹)۔ عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمار کرنا شروع کیا، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۳۳۷) (ضعیف) (سند میں ’’ یعلی ‘‘ لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم: ۲۰۸۰)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ شَبِيبٍ.
دوسری سند سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (یعنی: مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا فَلَمَّا تَعَلَّتْ، تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ فَأُنْكِرَ عَلَيْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُهَا ".
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہو گئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "اگر وہ ایسا کرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہو چکی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۳۹) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۲۷) ، مسند احمد (۴/۳۰۵) (تحفة الأشراف : ۱۲۰۵۳) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کر دیا ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ. وقَالَ وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي السَّنَابِلِ، حَدِيثٌ مَشْهُورٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُ لِلْأَسْوَدِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: لَا أَعْرِفُ أَنَّ أَبَا السَّنَابِلِ، عَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْحَامِلَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ، فَقَدْ حَلَّ التَّزْوِيجُ لَهَا، وَإِنْ لَمْ تَكْنِ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسنابل کی حدیث مشہور اور اس سند سے غریب ہے، ۲- ہم ابوسنابل سے اسود کا سماع نہیں جانتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوسنابل زندہ رہے یا نہیں، ۴- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی حدیث روایت ہے، ۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاملہ عورت جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو جب بچہ جن دے تو اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے، اگرچہ اس کی عدت پوری نہ ہوئی ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۶- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، تَذَاكَرُوا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا الْحَامِلَ تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: قَدْ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی الله عنہم نے آپس میں اس حاملہ عورت کا ذکر کیا جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنا ہو، ابن عباس رضی الله عنہما کا کہنا تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اور ابوسلمہ کا کہنا تھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہو گئی، اس پر ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے (ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دم نفاس ختم ہوتے ہی)شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ۲ (۴۹۰۹) ، صحیح مسلم/الطلاق ۸ (۱۴۸۵) ، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۴۲) ، ۳۵۴۴) ، مسند احمد (۶/۲۸۹) ، سنن الدارمی/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۵) (تحفة الأشراف : ۱۸۱۵۷ و ۱۸۲۰۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق ۳۹ (۵۳۱۸) ، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۳۹، ۳۵۴۰، ۳۵۴۱، ۳۵۴۳، ۳۵۴۵، ۳۵۴۶، ۳۵۴۷) ، مسند احمد (۶/۳۱۲، ۳۱۹) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (۲۳۰۶) ، عند أبي داود و۳۵۴۸) عند النسائي۔
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ، أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ بِهِ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ".
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخر بن حرب کا انتقال ہوا، تو انہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی، پھر انہوں نے اسے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخساروں پر لگایا، پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۱) ، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۴) ، و۴۷ (۵۳۳۹) ، و ۵۰ (۵۳۴۵) ، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۸۶) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹) ، سنن النسائی/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۰، ۳۵۳۲) و۶۳ (۳۵۶۳) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴) ، موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۱) مسند احمد (۶/۳۲۵، ۳۲۶) ، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰) (تحفة الأشراف : ۱۵۸۷۴) (صحیح)
قَالَتْ قَالَتْ زَيْنَبُ: فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي فِي الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ".
(دوسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: پھر میں زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے لگایا پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہر کے، وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۵۸۷۹) (صحیح)
قَالَتْ قَالَتْ زَيْنَبُ، وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا أَفَنَكْحَلُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا " مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: " لَا ". ثُمَّ قَالَ: " إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ فُرَيْعَةَ بِنْتِ مَالِكٍ أُخْتِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَحَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْنَبَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، تَتَّقِي فِي عِدَّتِهَا الطِّيبَ، وَالزِّينَةَ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں"۔ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا: "نہیں"، پھر آپ نے فرمایا: "(اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زینب کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک، اور حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۸۲۵۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سال بھرکے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہر جب انتقال کر جاتا تو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیز کو ہاتھ لگاتی پھر کوئی جانور ، گدھا ، بکری ، یا پرندہ اس کے پاس لایا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے وہ رگڑتی عام طور سے وہ مر ہی جاتا ، پھر وہ اس تنگ و تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دور کرتی اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، قَالَ: " كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَعَلَيْهِ كَفَّارَتَانِ وَهُوَ قَوْلُ: عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
سلمہ بن صخر بیاضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کر لیتا ہے فرمایا: "اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے تو اس پر دو کفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۷ (۲۲۱۳) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۵ (۲۰۶۲) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۵۵) ، مسند احمد (۵/۴۳۶) ، سنن الدارمی/الطلاق ۹ (۲۳۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ظہار کا مطلب بیوی سے «أنت علي کظہرامي» (تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) کہنا ہے ، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا ، امت محمدیہ میں ایسا کہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے در پے بلا ناغہ دو مہینے کے روزے رکھے اگر درمیان میں بغیر عذر شرعی کے روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے ، عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے ، اور اگر پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ ظَاهَرْتُ مِنْ زَوْجَتِي فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا، قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ، فَقَالَ: " وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ "، قَالَ: رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا فِي ضَوْءِ الْقَمَرِ، قَالَ: " فَلَا تَقْرَبْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللَّهُ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا تھا اور پھر اس کے ساتھ جماع کر لیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کر لیا تو کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟" اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا) آپ نے فرمایا:"اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ اسے کر نہ لینا جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۱۷ (۲۲۲۱، ۲۲۲۲) (مرسلا بدون ذکر ابن عباس و موصولا بذکرہ (برقم: ۲۲۲۳) ، سنن النسائی/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵) ، (تحفة الأشراف : ۶۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْخَزَّازُ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو سَلَمَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أن سلمان بن صخر الأنصاري أحد بني بياضة، جعل امرأته عليه كظهر أمه، حتى يمضي رمضان، فلما مضى نصف من رمضان وقع عليها ليلا، فأتى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْتِقْ رَقَبَةً " قَالَ: لَا أَجِدُهَا، قَالَ: " فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ "، قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، قَالَ: " أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا "، قَالَ: لَا أَجِدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَرْوَةَ بْنِ عَمْرٍو: " أَعْطِهِ ذَلِكَ الْعَرَقَ وَهُوَ مِكْتَلٌ يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا، أَوْ سِتَّةَ عَشَرَ صَاعًا، إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، يُقَالُ: سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ، وَيُقَالُ: سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ الْبَيَاضِيُّ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ، عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي كَفَّارَةِ الظِّهَارِ.
ابوسلمہ اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان کا بیان ہے کہ سلمان بن صخر انصاری رضی الله عنہ نے جو بنی بیاضہ کے ایک فرد ہیں اپنی بیوی کو اپنے اوپر مکمل ماہ رمضان تک اپنی ماں کی پشت کی طرح (حرام) قرار دے لیا۔ تو جب آدھا رمضان گزر گیا تو ایک رات وہ اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم ایک غلام آزاد کرو"، انہوں نے کہا: مجھے یہ میسر نہیں۔ آپ نے فرمایا: "پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو"، انہوں نے کہا: میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ نے فرمایا: "ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاؤ"، انہوں نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فروۃ بن عمرو سے فرمایا: "اسے یہ کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے"، «عرق» ایک پیمانہ ہے جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع غلہ آتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- سلمان بن صخر کو سلمہ بن صخر بیاضی بھی کہا جاتا ہے۔ ۳- ظہار کے کفارے کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: (۱۱۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: " آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَحَرَّمَ، فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، رَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، وَالْإِيلَاءُ: هُوَ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَقْرَبَ امْرَأَتَهُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ فَأَكْثَرَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيهِ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ فَإِمَّا أَنْ يَفِيءَ، وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقَ، وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر) حرام کر لیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کر لیا اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کو جسے انہوں نے داود سے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داود سے (روایت کی ہے مگر) داود نے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کیا۔ اس میں مسروق اور عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے، اور یہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چار ماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھا لے، ۳- جب چار ماہ گزر جائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، یا تو رجوع کر لے یا طلاق دیدے۔ ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایک طلاق بائن خودبخود پڑ جاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۸ (۲۰۸۲) (تحفة الأشراف : ۷۶۲۱) (ضعیف) (سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق تو ہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کر جاتا تھا، ان کے بالمقابل ’’ علی بن مسہر ‘‘ زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال ‘‘ ہے جسے مؤلف نے بیان کر دیا ہے)
وضاحت: ۱؎ : ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں ، اور شرع میں ایلاء یہ ہے کہ شوہر جو جماع کی طاقت رکھتا ہو اللہ کے نام کی یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی اس بات پر قسم کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے جدا رکھے گا ، اور اس سے جماع نہیں کرے گا ، اس تعریف کی روشنی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایلاء لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے ایلاء کیا تھا ، اور اس ایلاء کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا ، ایلاء کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ لے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہو گا اور کفارہ یمین دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ: فَقُمْتُ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَقِيلَ لِي: إِنَّهُ قَائِلٌ: فَسَمِعَ كَلَامِي، فَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ، الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6، حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَا الْآيَاتِ عَلَيْهِ، وَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ، أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا، أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ، قَالَ: فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ: بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ: بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا، إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَحُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر کچھ کہتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے، اور اگر خاموش رہتا ہے تو وہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (دوبارہ) آیا اور اس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلا کر دیا گیا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» "یعنی جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں" (سورۃ النور: 6)۔ یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اور اسے نصیحت کی اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔ پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، وہ سچ نہیں بول رہا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کر دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس، ابن مسعود اور حذیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳) ، سنن النسائی/الطلاق ۴۱ (۳۵۰۳) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۵۸) ، مسند احمد (۲/۱۲) ، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح) وأحرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق ۲۷ (۵۳۰۶) ، و۳۲ (۵۳۱۱) ، و۳۳ (۵۳۱۲) ، و۳۴ (۵۳۱۳، ۵۳۱۴) ، و۳۵ (۵۳۱۵) ، و ۵۲ (۵۳۴۹) ، و۵۳ (۵۳۵۰) ، والفرائض ۱۷ (۶۷۴۸) ، صحیح مسلم/اللعان (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۲۷ (۲۲۵۷، ۲۲۵۸، ۲۲۵۹) ، سنن النسائی/الطلاق ۴۲ (۳۵۰۴) ، و۴۳ (۳۵۰۵) ، و۴۳ (۳۵۰۵) ، و۴۴ (۳۵۰۶) ، و ۴۵ (۳۵۰۷) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶) ، موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۵) ، من غیر ہذا الوجہ۔وبسیاق آخر، انظر الحدیث الآتي۔
وضاحت: ۱؎ : لعان کا حکم آیت کریمہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» (النور : ۶)، میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو ، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو ، ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زنا کی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَاعَنَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ، وَفَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور لڑکے کو ماں کے ساتھ کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۸۳۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا، أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ، أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ، أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ. قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ: " كَيْفَ قُلْتِ ؟ " قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَ: " امْكُثِي فِي بَيْتِكِ، حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ". قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ، وَقَضَى بِهِ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی الله عنہا جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں (ہوا یہ تھا کہ) ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"، چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی۔ (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: "تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا: "تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہو جائے"، چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہو جب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزار لے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے، ۴-(امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطلاق ۴۴ (۲۳۰۰) ، سنن النسائی/الطلاق ۶۰ (۳۵۵۸) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۸ (۲۰۳۱) ، موطا امام مالک/الطلاق ۳۱ (۸۷) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۴۵) ، مسند احمد (۶/۳۷۰) ، سنن الدارمی/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۳) (صحیح)