صحیح مسلم

طلاق کے احکام و مسائل

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3652

حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ، قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " .

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بی بی کو طلاق دی اور وہ حائضہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”اسے حکم دو کہ رجوع کرع کرے اور اس کو رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے اور پھر حیض آئے اور پھر پاک ہو پھر چاہے روک رکھے چاہے طلاق دے قبل اس کےکہ اسے ہاتھ لگائے اور یہی عدت ہے جس کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی طلاق کا حکم کیا ہے۔“

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3653

حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْح ، واللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَ قُتَيْبَةُ: حدثنا لَيْثٌ ، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً، " فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ عَنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضَتِهَا، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، وَزَادَ ابْنُ رُمْحٍ فِي رِوَايَتِهِ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ، عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: لِأَحَدِهِمْ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي بِهَذَا، وَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ، وَعَصَيْتَ اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكَ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ، قَالَ مُسْلِم: جَوَّدَ اللَّيْثُ، فِي قَوْلِهِ: تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً.

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بی بی کو طلاق دی حالت حیض میں اور حکم کیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ رجوع کرے اور اس کو رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو اور پھر حائضہ ہو ان کے پاس دوسری بار اور پھر اسے مہلت دی جائے یہاں تک کہ پاک ہو دوسرے حیض سے پھر اگر ارادہ ہو طلاق کا طلاق دے جب وہ پاک ہو جماع سے پہلے۔ غرض یہی عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم کیا ہے کہ اس کے حساب سے عورتوں کو طلاق دی جائے۔ اور ابن رمح نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ تو نے اپنی عورت کو ایک یا دو طلاق دی ہیں (تو رجوع ہو سکتا ہے) اس لیےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا تھا اور اگر تو نے تین طلاق دی ہیں تو وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی جب تک کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے سوا تیرے اور نافرمانی کی تو نے اللہ کی اس طلاق کے بارے میں جو تیری عورت کے لیے تجھے سکھایا تھا۔ مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس روایت میں ایک طلاق کا لفظ جو لیث نے کہا خوب کہا۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3654

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيَدَعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، فَإِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا أَوْ يُمْسِكْهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: قُلْتُ لِنَافِعٍ: مَا صَنَعَتِ التَّطْلِيقَةُ؟ قَالَ: وَاحِدَةٌ اعْتَدَّ بِهَا،

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا۔ اخیر میں یہ زیادہ ہے کہ عبید اللہ نے نافع سے پوچھا کہ وہ طلاق کیا ہوئی(یعنی جو حیض میں دی تھی) انہوں نے کہا کہ ایک شمار کی گئی۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3655

وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ عُبَيْدِ اللَّهِ، لِنَافِعٍ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى فِي رِوَايَتِهِ: فَلْيَرْجِعْهَا، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَلْيُرَاجِعْهَا.

عبید اللہ سے اس سند سے وہی مضمون مروی ہے اور اس میں عبیداللہ کا قول مذکور نہیں جو اوپر کی روایت میں تھا۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3656

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، يَقُولُ: أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَن، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ عَصَيْتَ رَبَّكَ فِيمَا أَمَرَكَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ وَبَانَتْ مِنْكَ.

وہی مضمون ہے جو اوپر کئی بار ترجمہ ہو چکا اتنی بات اخیر میں زیادہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھےکہ اگر تو نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں تو طلاق میں اپنے رب کی نافرمانی کی اور وہ عورت تجھ سے جدا ہو گئی۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3657

حَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حدثنا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِض، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " مُرْهُ، فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى مُسْتَقْبَلَةً سِوَى حَيْضَتِهَا الَّتِي طَلَّقَهَا فِيهَا، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا مِنْ حَيْضَتِهَا، قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَذَلِكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ " ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً فَحُسِبَتْ مِنْ طَلَاقِهَا وَرَاجَعَهَا عَبْدُ اللَّهِ كَمَا أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،

وہی مضمون ہے جو اوپر کئی بار گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے حیض میں طلاق دینا سن کر غصہ فرمایا اور اخیر میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے رجوع کیا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3658

وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَاجَعْتُهَا وَحَسَبْتُ لَهَا التَّطْلِيقَةَ الَّتِي طَلَّقْتُهَا.

وہی مضمون ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ اس طلاق کو میں نے حساب میں رکھا۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3659

وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالُوا: حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فقَالَ: " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلًا " .

وہی مضمون ہے اور اس میں اخیر میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکم دو اس کو کہ رجوع کرے پھر طلاق دے اس کو حالت طہر میں یا حالت حمل میں۔“

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3660

وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، حدثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مُرْهُ، فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقُ بَعْدُ أَوْ يُمْسِكُ " .

حدیث وہی ہے جو اوپر کئی مرتیہ گزر چکی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3661

وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: مَكَثْتُ عِشْرِينَ سَنَةً يُحَدِّثُنِي مَنْ لَا أَتَّهِمُ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا وَهِيَ حَائِضٌ، " فَأُمِرَ أَنْ يُرَاجِعَهَا " ، فَجَعَلْتُ لَا أَتَّهِمُهُمْ وَلَا أَعْرِفُ الْحَدِيثَ، حَتَّى لَقِيتُ أَبَا غَلَّابٍ يُونُسَ بْنَ جُبَيْرٍ الْبَاهِلِيَّ ، وَكَانَ ذَا ثَبَتٍ، فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ ، فَحَدَّثَهُ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ، فَأُمِرَ أَنْ يَرْجِعَهَا، قَالَ: قُلْتُ أَفَحُسِبَتْ عَلَيْهِ؟ قَالَ: فَمَهْ أَوَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ،

ابن سیرین نے کہا: بیس برس تک مجھ سے ایک شخص روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں حالت حیض میں اور میں اس راوی کو متہم نہ جانتا تھا پھر اس نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجوع کرے اس عورت سے اور میں اس کی اس روایت کو نہ متہم کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا کہ صحیح کیا ہے یہاں تک کہ میں ابوغلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے سو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک طلاق دی تھی اور وہ حائضہ تھی اور مجھے رجعت کا حکم دیا پھر میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا (یہ قول ہے یونس کا) کہ وہ طلاق بھی تم نے حساب میں رکھی (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انہوں نے کہا: کیوں نہیں کیا وہ عاجز ہو گیا یا احمق ہو گیا (یہ عبداللہ نے اپنے آپ کو خود کہا) یعنی اس طلاق کو نہ گنوں تو حماقت ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3662

وحدثناه أَبُو الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ ، قَالَا: حدثنا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ،

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3663

وحدثنا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، عَنْ أَيُّوبَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وَقَالَ: يُطَلِّقُهَا فِي قُبُلِ عِدَّتِهَا.

وہی مضمون اس سند سے مروی ہوا اس کے اخیر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رجوع کرے اور پھر طلاق دے طہر میں بغیر جماع کے۔“ اور فرمایا: کہ ”طلاق دے عدت کے شروع میں۔“

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3664

وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ : رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فقَالَ: أَتَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا، ثُمَّ تَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا " ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ أَتَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، فقَالَ: فَمَهْ أَوَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ ".

یونس بن جبیر نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو طلاق دی حیض میں تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تو عبداللہ بن عمر کو جانتا ہے اس نے بھی اپنی عورت کو حیض میں طلاق دی تھی، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے حکم دیا کہ اس سے رجوع کرے اور پھر سرے سے عدت شروع کرے پھر میں نے ان سے پوچھا کہ جب کسی نے حیض میں طلاق دی تو وہ طلاق بھی شمار کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ چپ رہ کیا وہ عاجز ہو گیا ہے یا احمق ہو گیا ہے جو اس کو شمار نہ کرے گا (یعنی ضرور شمار ہو گی)۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3665

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ لَهُ، فقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيُرَاجِعْهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ، فَإِنْ شَاءَ فَلْيُطَلِّقْهَا " ، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ، أَفَاحْتَسَبْتَ بِهَا؟، قَالَ: مَا يَمْنَعُهُ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.

مندرجہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3666

حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، عَنِ امْرَأَتِهِ الَّتِي طَلَّقَ، فقَالَ: طَلَّقْتُهَا وَهِيَ حَائِضٌ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعُمَرَ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مُرْهُ، فَلْيُرَاجِعْهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْهَا لِطُهْرِهَا " ، قَالَ: فَرَاجَعْتُهَا، ثُمَّ طَلَّقْتُهَا، لِطُهْرِهَا، قُلْتُ: فَاعْتَدَدْتَ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، الَّتِي طَلَّقْتَ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: مَا لِيَ لَا أَعْتَدُّ بِهَا وَإِنْ كُنْتُ عَجَزْتُ وَاسْتَحْمَقْتُ.

اس سند سے بھی الفاظ کے اختلاف سے مذکورہ بالا حدیث بیان کی گئی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3667

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ فقَالَ: " مُرْهُ، فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ إِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْهَا " ، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: أَفَاحْتَسَبْتَ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ قَالَ: فَمَهْ،

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”اس کو حکم دو کہ رجوع کرے جب پاک ہو جائے تو پھر طلاق دے۔“ میں نے پوچھا: کیا وہ طلاق شمار کی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3668

وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، حدثنا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حدثنا بَهْزٌ ، قَالَا: حدثنا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِمَا لِيَرْجِعْهَا وَفِي حَدِيثِهِمَا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَتَحْتَسِبُ بِهَا؟ قَالَ: فَمَهْ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالاحدیث مروی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3669

وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُسْأَلُ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا، فقَالَ: أَتَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا، فَذَهَبَ عُمَرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا " ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْهُ يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ لِأَبِيهِ.

مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3670

وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عَزَّةَ: يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ ذَلِكَ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا؟ فقَالَ: طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيُرَاجِعْهَا فَرَدَّهَا، وَقَالَ: إِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: 0 يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ 0 " ،

وہی حدیث جس کا ترجمہ کئی مرتبہ گزر چکا۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3671

وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حدثنا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ،

اس سند سے بھی مذکورہ بالاحدیث روایت کی گئی ہے۔

حائضہ کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق دینے کی حرمت اور اگر اس حکم کی ممانعت کی تو طلاق واقع ہونے اور رجوع کا حکم دینے کا بیان

حد یث نمبر - 3672

وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عُرْوَةَ، يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ بِمِثْلِ حَدِيثِ حَجَّاجٍ، وَفِيهِ بَعْضُ الزِّيَادَةِ، قَالَ مُسْلِم: أَخْطَأَ حَيْثُ قَالَ عُرْوَةَ: إِنَّمَا هُوَ مَوْلَى عَزَّةَ.

ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث آئی ہے۔

تین طلاقوں کا بیان

حد یث نمبر - 3673

حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقَ: أَخْبَرَنا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ: وَاحِدَةً، فقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ " .

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی سو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں)۔

تین طلاقوں کا بیان

حد یث نمبر - 3674

حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحدثنا ابْنُ رَافِعٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : " أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ " .

ابوالصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ تین طلاق ایک کر دی جاتی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی امارت میں بھی تین سال تک تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہاں جانتا ہوں۔

تین طلاقوں کا بیان

حد یث نمبر - 3675

وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ طَاوُسٍ : أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : هَاتِ مِنْ هَنَاتِكَ " أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً، فقَالَ: قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ " .

ابوالصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ دو اپنی عطیہ میں سے کیا نہیں تھیں تین طلاق پھر وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔

کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی

حد یث نمبر - 3676

وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ يَعْنِي الدَّسْتَوَائِيَّ ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " فِي الْحَرَامِ يَمِينٌ يُكَفِّرُهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21 " .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کہے تو مجھ پر حرام ہے تو یہ قسم ہے کہ اس میں کفارہ دینا ضروری ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (۳۳-الأحزاب:۲۱) کہ بیشک تمہارے لیے اچھی چال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں۔

کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی

حد یث نمبر - 3677

حدثنا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ الْحَرِيرِيُّ ، حدثنا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، أَنَّ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " إِذَا حَرَّمَ الرَّجُلُ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ فَهِيَ يَمِينٌ يُكَفِّرُهَا، وَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21 " .

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے تو یہ قسم ہے، اس کا کفارہ وہ دے۔ پھر آپ نے آیت پڑھی «لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (۳۳-الأحزاب:۲۱)

کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی

حد یث نمبر - 3678

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يُخْبِرُ أَنَّهُ: سَمِعَ عَائِشَةَ ، تُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ، عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَيَشْرَبُ، عَنْدَهَا عَسَلًا، قَالَت: فَتَوَاطَأتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فقَالَت ذَلِكَ لَهُ، فقَالَ: " بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عَنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ "، فَنَزَلَ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى قَوْلِهِ: إِنْ تَتُوبَا سورة التحريم آية 1 - 4 ، لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3 ، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا " .

سیدنا عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بی بی زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرا کرتے اور ان کے پاس شہد پیا کرتے تھے سو بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایکا کیا کہ جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرے کہ میں آپ کے پاس سے بدبو مغافیر کی پاتی ہوں۔ سو آپ ایک کے پاس جب آئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے اور اب کبھی نہ پیوں گا۔“پھر یہ آیت اتری «لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ» (۶۶-التحریم:۱-۴) سے اخیر تک یعنی ”اے نبی! کیوں حرام کرتا ہے تو اس چیز کو جس کو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔“ اور فرمایا: کہ اگر توبہ کریں وہ دونوں تو دل ان کے جھک رہے ہیں۔“ اور مراد ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں اور یہ جو فرمایا: «وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِىُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا» ”کہ ”چپکے سے ایک بات کہی نبی نے اپنی کسی بی بی سے۔“ تو مراد اس سے وہی بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نے شہد پیا ہے۔

کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی

حد یث نمبر - 3679

حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عَنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ: فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ، فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيح وكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ، فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: " لَا "، قَالَت: فَمَا هَذِهِ الرِّيح؟ قَالَ: " سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ " ، قَالَت: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فقَالَت بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ، قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي بِهِ، قَالَت: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَت: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ: حدثنا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْقَاسِمِ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ، بِهَذَا سَوَاءً،

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیرینی اور شہد بہت پسند تھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھ چکتے تو اپنی بیبیوں رضی اللہ عنہن کے پاس آتے اور ہر ایک سے قریب ہوتے۔ سو ایک دن سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں دونوں سے زیادہ ٹھہرے۔ سو میں نے اس کا سبب دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ ایک بی بی کے پاس ان کی قوم سے شہد کی ایک کپی ہدیہ میں آئی تھی۔ سو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا ہے۔ سو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں ان سے ایک حیلہ کروں گی اور میں نے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا اور ان سے کہاکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور تم سے قریب ہوں تو تم کہنا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ سودہ رضی اللہ عنہا فرمائیں گی کہ نہیں۔ پھر تم ان سے کہنا کہ پھر یہ بدبو کیسی ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت نفرت تھی اس سے کہ آپ سے بدبو آئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کہیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے۔ تب تم ان سے کہنا کہ شاید اس کی مکھی نے عرفط کے درخت سے شہد لیا ہے (عرفط اسی درخت کا نام ہے جس کی گوند مغافیر ہے) اور میں بھی ان سے ایسا ہی کہوں گی اور اے صفیہ! تم بھی ان سے ایسا ہی کہنا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو سودہ فرماتی ہیں کہ قسم ہے اس اللہ کی کوئی معبود نہیں ہے سوا اس کے کہ میں قریب تھی کہ ان سے باہر نکل کر کہوں وہی بات جو تم نے مجھ سے کہی تھی (اے عائشہ) اور نبہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازہ پر تھے اور یہ جلدی کرنا میرا کہنے میں تمہارے ڈر سے تھا، پھر جب نزدیک ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو سودہ نے کہا کہ اے رسول اللہ کے! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ پھر انہوں نے کہا کہ یہ بدبو کس کی ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”مجھے حفصہ نے تھوڑا شہد پلایا ہے۔“ تب انہوں نے کہا کہ مکھی نے عرفط سے شہد لیا ہے، پھر میرے پاس آئے میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہا (یہ مقولہ ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا) پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، پھر جب دوبارہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اس میں سے آپ کو شہد پلاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے“۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سبحان اللہ! ہم نے روک دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پینے سے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان سے کہاکہ چپ رہو۔ ابواسحاق نے جن کا نام ابراہیم ہے انہوں نے کہا: روایت کیا مجھ سے حسن بن بشر نے، ان سے ابواسامہ نے «بعينهٖ» یہی مضمون۔

کفارہ کا واجب ہونا اس پر جس نے اپنی عورت سے کہا: کہ تو مجھ پر حرام ہے اور نیت طلاق کی نہ تھی

حد یث نمبر - 3680

وحَدَّثَنِيهِ سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.

کہا مسلم رحمہ اللہ عنہ نے کہ روایت کی مجھ سے سوید بن سعید نے، ان سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے اسی سند سے یہی حدیث مانند اس کی۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3681

وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: أَخْبَرَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ : أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فقَالَ: " إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَت: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا { 28 } وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا { 29 } سورة الأحزاب آية 28-29 ، قَالَت: فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَت: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ " .

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو کہ اپنی بیبیوں کو اختیار دے دو کہ وہ دنیا چاہیں تو دنیا لیں اور آخرت چاہیں تو آخرت لیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مجھ سے اس کو بیان کرنا شروع کیا۔ اور فرمایا: کہ ”میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں اور تم اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا جب تک مشورہ نہ لے لینا اپنے ماں باپ سے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانا تھا کہ میرے ماں باپ کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑنے کا مجھے حکم نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ٭ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا»(۳۳-الأحزاب: ۲۸-۲۹) یعنی ”اے نبی! کہہ دو تم اپنی بیبیوں سے کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت چاہیں تو آؤ میں تم کو برخورداری دوں اور اچھی طرح سے تم کو رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضامندی چاہو اور اس کے رسول کی اور آخرت کا گھر چاہو تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نیک بختوں کے لیے بہت بڑا ثواب تیار کیا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اس میں کون سی بات ایسی ہے جس کے لیے میں مشورہ لوں اپنے ماں باپ سے میں چاہتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں نے ایسا ہی کیا جیسا میں نے کیا تھا۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3682

حدثنا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حدثنا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُنَا إِذَا كَانَ فِي يَوْمِ الْمَرْأَةِ مِنَّا بَعْدَ مَا نَزَلَتْ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ سورة الأحزاب آية 51 " ، فقَالَت لَهَا مُعَاذَةُ: فَمَا كُنْتِ تَقُولِينَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنَكِ، قَالَت: كُنْتُ أَقُولُ إِنْ كَانَ ذَاكَ إِلَيَّ لَمْ أُوثِرْ أَحَدًا عَلَى نَفْسِي،

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت مانگا کرتے تھے جب کسی عورت کی باری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیا کرتے تھے ہم میں سے بعد اس کے یہ آیت اتری «تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ» (۳۳-الأحزاب: ۵۱) یعنی ”الگ رکھے تو ان سے جس کو چاہے“ تو معاذہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ کیا جواب دیتی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ میں کہتی تھی: اگر میرا اختیار ہوتا تو اپنی ذات پر کسی کو مقدم نہ رکھتی۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3683

وحدثناه الْحَسَنُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنا عَاصِمٌ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.

کہا امام مسلم نے اور بیان کی مجھ سے یہی روایت حسن بن عیسیٰ نے، ان سے ابن مبارک نے، ان سے عاصم نے اسی اسناد سے مانند اس کے۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3684

حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنا عَبْثَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَت عَائِشَةُ : " قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَعُدَّهُ طَلَاقًا " .

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے اختیار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تھا پھر ہم نے اس کو طلاق نہیں سمجھا۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3685

وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: مَا أُبَالِي خَيَّرْتُ امْرَأَتِي وَاحِدَةً، أَوْ مِائَةً، أَوْ أَلْفًا بَعْدَ أَنْ تَخْتَارَنِي، وَلَقَدْ سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، فقَالَت: " قَدْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَكَانَ طَلَاقًا ".

مسروق نے کہا کہ مجھے خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بی بی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کرے اور میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ چکا ہوں کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو کیا یہ طلاق ہو گی؟ (یعنی نہیں ہوتی)۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3686

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ نِسَاءَهُ، فَلَمْ يَكُنْ طَلَاقًا " .

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ طلاق نہ تھی۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3687

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، وَإِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَرْنَاهُ فَلَمْ يَعُدَّهُ طَلَاقًا " .

مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3688

حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنا: وقَالَ الْآخَرَانِ: حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَرْنَاهُ فَلَمْ يَعْدُدْهَا عَلَيْنَا شَيْئًا " .

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3689

وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حدثنا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، وَعَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، بِمِثْلِهِ.

ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث بیان کی گئی ہے۔

تخییر سے طلاق نہیں ہوتی مگر جب نیت ہو

حد یث نمبر - 3690

وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حدثنا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حدثنا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ لَمْ يُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ، قَالَ: فَأُذِنَ لِأَبِي بَكْرٍ فَدَخَلَ، ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَوَجَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَاؤُهُ وَاجِمًا سَاكِتًا، قَالَ: فقَالَ: لَأَقُولَنَّ شَيْئًا أُضْحِكُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ رَأَيْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ سَأَلَتْنِي النَّفَقَةَ، فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَوَجَأْتُ عَنْقَهَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " هُنَّ حَوْلِي كَمَا تَرَى يَسْأَلْنَنِي النَّفَقَةَ "، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ يَجَأُ عَنْقَهَا، فَقَامَ عُمَرُ إِلَى حَفْصَةَ يَجَأُ عَنْقَهَا، كِلَاهُمَا يَقُولُ تَسْأَلْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَيْسَ عَنْدَهُ، فَقُلْنَ: وَاللَّهِ لَا نَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا أَبَدًا لَيْسَ عَنْدَهُ، ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةُ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ، حَتَّى بَلَغَ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29 ، قَالَ: فَبَدَأَ بِعَائِشَةَ، فقَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَعْرِضَ عَلَيْكِ أَمْرًا أُحِبُّ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَشِيرِي أَبَوَيْكِ "، قَالَت: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَتَلَا عَلَيْهَا الْآيَةَ، قَالَت: أَفِيكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْتَشِيرُ أَبَوَيَّ، بَلْ أَخْتَارُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ لَا تُخْبِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِكَ بِالَّذِي قُلْتُ، قَالَ: " لَا تَسْأَلُنِي امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ إِلَّا أَخْبَرْتُهَا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنْتًا وَلَا مُتَعَنْتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا " .

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہیں کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب اجازت ملی تو اندر گئے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت چاہی۔ ان کو بھی اجازت ملی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپ کی بیبیاں رضی اللہ عنہن ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھے ہوئے ہیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی کوئی بات کہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں۔ سو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کاش آپ دیکھئیے خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بی بی ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو اس کے پاس کھڑا ہو کے اس کا گلا گھونٹنے لگا۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: کہ ”یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا تم دیکھتے ہو۔ اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔“ سو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے۔ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں کہتے تھے یعنی اپنی اپنی بیٹیوں سے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے؟ اور وہ کہنے لگیں: کہ اللہ کی قسم! ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپ کے پاس نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس روز جدا رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے اوپر یہ آیت اتری «يأَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ» ‏‏‏‏ سے «لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا»(الأحزاب: ۲۸-۲۹) تک سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کی تعمیل شروع کی اور ان سے فرمایا: کہ ”اے عائشہ! میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک بات کہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک مشورہ نہ لے لو اپنے ماں باپ سے۔“ انہوں نے عرض کی کہ وہ کیا بات ہے؟ اے رسول اللہ کے! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے مقدمہ میں میں ان سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اختیار کرتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو۔ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتی ہوں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کو اپنی بیبیوں میں سے خبر نہ دیں اس بات کی جو میں نے کہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جو بی بی مجھ سے پوچھے گی ان میں سے فوراً اسے خبر دوں گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا نہیں بلکہ مجھے آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔“

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3691

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حدثنا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، عَنْ سِمَاكٍ أَبِي زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " لَمَّا اعْتَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا النَّاسُ يَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، وَيَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُؤْمَرْنَ بِالْحِجَابِ، فقَالَ عُمَرُ: فَقُلْتُ: لَأَعْلَمَنَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: يَا بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فقَالَت: مَا لِي وَمَا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، عَلَيْكَ بِعَيْبَتِكَ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا حَفْصَةُ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ، لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُحِبُّكِ، وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَتْ أَشَدَّ الْبُكَاءِ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَت: هُوَ فِي خِزَانَتِهِ فِي الْمَشْرُبَةِ فَدَخَلْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا عَلَى أُسْكُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ، مُدَلٍّ رِجْلَيْهِ عَلَى نَقِيرٍ مِنْ خَشَبٍ وَهُوَ جِذْعٌ يَرْقَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَنْحَدِرُ، فَنَادَيْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عَنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَى الْغُرْفَةِ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ، فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عَنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ رَبَاحٌ إِلَى الْغُرْفَةِ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَيَّ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِي، فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِي عَنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّي جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ، وَاللَّهِ لَئِنْ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عَنْقِهَا لَأَضْرِبَنَّ عَنْقَهَا، وَرَفَعْتُ صَوْتِي فَأَوْمَأَ إِلَيَّ أَنِ ارْقَهْ، فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى حَصِيرٍ، فَجَلَسْتُ فَأَدْنَى عَلَيْهِ إِزَارَهُ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ، وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَنَظَرْتُ بِبَصَرِي فِي خِزَانَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ، وَمِثْلِهَا قَرَظًا فِي نَاحِيَةِ الْغُرْفَةِ وَإِذَا أَفِيقٌ مُعَلَّقٌ، قَالَ: فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ، قَالَ: " مَا يُبْكِيكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ " قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَمَا لِي لَا أَبْكِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِيهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَاكَ قَيْصَرُ، وَكِسْرَى فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ، فقَالَ: " يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْيَا "، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: وَدَخَلْتُ عَلَيْهِ حِينَ دَخَلْتُ وَأَنَا أَرَى فِي وَجْهِهِ الْغَضَبَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَشُقُّ عَلَيْكَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ، فَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مَعَكَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَجِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَأَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَكَ، وَقَلَّمَا تَكَلَّمْتُ وَأَحْمَدُ اللَّهَ بِكَلَامٍ إِلَّا رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ يُصَدِّقُ قَوْلِي الَّذِي أَقُولُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ آيَةُ التَّخْيِيرِ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ سورة التحريم آية 5 ، وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ سورة التحريم آية 4 ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، وَحَفْصَةُ تَظَاهَرَانِ عَلَى سَائِرِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَطَلَّقْتَهُنَّ؟ قَالَ: " لَا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، وَالْمُسْلِمُونَ يَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، يَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، أَفَأَنْزِلُ فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّكَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ، قَالَ: " نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ "، فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّى تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ وَحَتَّى كَشَرَ فَضَحِكَ، وَكَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، ثُمَّ نَزَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلْتُ فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا يَمَسُّهُ بِيَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا كُنْتَ فِي الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، قَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ "، فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَنَادَيْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: لَمْ يُطَلِّقْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ سورة النساء آية 83 ، فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَةَ التَّخْيِيرِ " .

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کنارہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں سے۔ کہا انہوں نے میں داخل ہوا مسجد میں اور لوگوں کو دیکھا کہ وہ کنکریاں الٹ پلٹ کر رہے ہیں (جیسے کوئی بڑی فکر اور تردد میں ہوتا ہے) اور کہہ رہے ہیں کہ طلاق دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو اور ابھی تک ان کو پردہ میں رہنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج کا حال معلوم کروں، سو داخل ہوا میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس، اور میں نے ان سے کہا کہ اے بیٹی ابوبکر کی! تمہارا یہ حال ہو گیا کہ تم ایذا دینے لگیں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو۔ سو انہوں نے کہا کہ مجھ کو تم سے اور تم کو مجھ سے کیا کام اے فرزند خطاب کے تم اپنی گٹھڑی کی خبر لو (یعنی اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کو سمجھاؤ مجھے کیا نصیحت کرتے ہو) پھر میں حفصہ رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور میں نے اس سے کہا اے حفصہ! تمہارا یہاں تک درجہ پہنچ گیا کہ ایذا دینے لگیں تم رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو اور اللہ کی قسم! تم جانتی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو نہیں چاہتے۔ اور میں نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو اب تک طلاق دے چکے ہوتے اور وہ خوب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اور میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خزانہ میں اپنے جھروکے میں ہیں۔ اور میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ رباح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام جھروکے کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور اپنے دونوں پیر اوپر ایک کھدی ہوئی لکڑی کے کہ وہ کھجور کا ڈنڈا تھا لٹکائے ہوئے تھا۔ اور اسی لکڑی پر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چڑھتے اترتے تھے۔ (یعنی وہ بجائے سیڑھی کے جھروکے میں لگی تھی) سو میں نے پکارا کہ اے رباح! اجازت لے میرے لیے اپنے پاس کی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچوں اور رباح نے جھروکے کی طرف نظر کی اور پھر مجھے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔ پھر میں نے کہا: اے رباح! اجازت لے میرے لیے اپنے پاس کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچوں، پھر نظر کی رباح نے غرفہ کی طرف اور مجھے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ پھر میں نے آواز بلند کی کہا کہ اے رباح! اجازت لے میرے لیے اپنے پاس کی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچوں اور میں گمان کرتا ہوں کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا ہے کہ میں حفصہ کے لیے آیا ہوں۔ اور اللہ کی قسم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم دیں اس کی گردن مارنے کا تو میں اس کی گردن ماروں (اس سے خیال کرنا چاہیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ایمان اور خلوص کو اور اس محبت کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے اور ضروری ہے یہی محبت ہر مؤمن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) اور میں نے اپنی آواز بلند کی سو اس نے اشارہ کیا کہ چڑھ آؤ اور میں داخل ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور میں بیٹھ گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تہبند اپنے اوپر کر لی اور اس کے سوا اور کوئی کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھا۔ اور چٹائی کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو میں ہو گیا تھا۔ اور میں نے اپنی نگاہ دوڑائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانہ میں تو اس میں مٹھی جو تھے قریب ایک صاع کے اور اس کے برابر سلم کے پتے ایک کونے میں جھروکے پڑے تھے (کہ اس سے چمڑے کو دباغت کرتے ہیں) اور ایک کچا چمڑا جس کی دباغت خوب نہیں ہوئی تھی وہ لٹکا ہوا تھا۔ اور میری آنکھیں یہ دیکھ کر جوش کر آئیں (اور میں رونے لگا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس چیز نے تم کو رلایا اے ابن خطاب؟“ میں نے عرض کی کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں کیوں نہ روؤں اور حال یہ ہے کہ یہ چٹائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئے مبارک پر اثر کر گئی ہے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خزانہ ہے۔ کہ نہیں دیکھتا میں اس میں مگر وہی جو دیکھتا ہوں اور یہ قیصر اور کسریٰ ہیں کہ پھلوں اور نہروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس کے برگزیدہ، اور آپ کا یہ خزانہ ہے (اور وہ اللہ کے دشمن ہیں اور اس عیش و دولت میں ہیں) سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”اے بیٹے خطاب کے!کیا تم راضی نہیں ہوتے کہ ہمارے لئے آخرت ہے اور ان کے لیے دنیا۔“ میں نے کہا: کیوں نہیں (یعنی راضی ہوں) اور کہا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہ میں جب داخل ہوا تھا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ منورہ میں غصہ پاتا تھا۔ پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ کو بیبیوں میں کیا دشواری ہے۔ اگر آپ ان کو طلاق دے چکے ہوں تو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے (یعنی مدد اور نصرت ہے) اور اس کے فرشتے اور جبریل اور میکائیل اور میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام مؤمنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ اور اکثر جب میں کلام کرتا تھا اور تعریف کرتا تھا اللہ تعالیٰ کی کلام میں تو امید رکھتا تھا میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے سچا کر دے گا اور تصدیق کرے گا میری بات کی جو میں کہتا تھا (اس سے کمال قرب اور حسن ظن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بارگاہِ الٰہی میں ظاہر ہوا اور جیسا ان کو ظن تھا اپنے پروردگار کے ساتھ ویسا ہی ظہور میں آتا تھا) اور یہ آیت تخبیر اتری «عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ» (۶۶-التحریم:۵) اخیر تک ”یعنی قریب ہے پروردگار اس کا (یعنی نبی کا)کہ اگر طلاق دیدے وہ تم کو تو بدل دے گا اللہ تعالیٰ اس کو بیبیاں تم سے بہتر اور اگر تم دونوں اس پر زور کرو گی تو اللہ تعالیٰ اس کا رفیق ہے اور جبرئیل اور نیک لوگ مؤمنوں میں کے اور تمام فرشتے اس کے بعد اس کے پشت پناہ ہیں۔“ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ابوبکر کی صاحبزادی اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ان دونوں نے زور کیا تھا اوپر تمام بیبیوں کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھر عرض کی میں نے کہ اے رسول اللہ کے! کیا آپ نے ان کو طلاق دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ کے! جب میں مسجد میں داخل ہوا تو مسلمان کنکریاں الٹ پلٹ کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی اپنی بیبیوں کو۔ سو میں اتروں اور ان کی خبر دے دوں کہ آپ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہاں۔ اگر تم چاہو۔“ سو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے بالکل کھل گیا۔ اور یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دندان مبارک کھولے اور ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانتوں کی ہنسی سب لوگوں سے زیادہ خوب صورت تھی پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اترے اور میں بھی اترا اور میں اس کھجور کے ڈنڈے کو پکرتا ہوا اترتا تھا کہ کہیں گر نہ پڑوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بے تکلف اترے جیسے زمین پر چلتے تھے اور کہیں ہاتھ تک بھی نہ لگایا۔ پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ جھروکے میں انتیس دن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ”مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا۔“ اور میں مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوا اور پکارا اپنی بلند آواز سے اور کہا کہ طلاق نہیں دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیبیوں کو اور یہ آیت اتری «وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ» (۴-النساء:۸۳) یعنی ”جب آتی ہے ان کے پاس کوئی خبر چین کی یا خوف کی تو اسے مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اس کو لے جائیں رسول اللہ کے پاس اور صاحبان امر کے پاس مسلمانوں میں سے تو جان لیں جو لوگ کہ چن لیتے ہیں ان میں سے۔“ غرض اس امر کی حقیقت کو میں نے چنا اور اللہ تعالیٰ نے آیت تخبیر کی اتاری۔

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3692

حدثنا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، يُحَدِّثُ قَالَ: مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ : عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ، حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ، فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، " مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ؟ فقَالَ: تِلْكَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عَنْدِي مِنْ عِلْمٍ، فَسَلْنِي عَنْهُ، فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ، إِذْ قَالَت لِي امْرَأَتِي: لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا فَقُلْتُ لَهَا: وَمَا لَكِ أَنْتِ وَلِمَا هَاهُنَا وَمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ؟ فقَالَت لِي: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ، وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ، قَالَ عُمَرُ: فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ، إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ؟ فقَالَت: حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ، فَقُلْتُ: تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ، لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَحُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا، فقَالَت لِي أُمُّ سَلَمَةَ: عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ، قَالَ: فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي، عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عَنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ، وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ، ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ، فَأَتَى صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ، وَقَالَ: افْتَحِ افْتَحْ، فَقُلْتُ: جَاءَ الْغَسَّانِيُّ، فقَالَ: أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ، فَقُلْتُ: رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ، ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ فَأُذِنَ لِي، قَالَ عُمَرُ: فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَإِنَّ عَنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا، وَعَنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَكَيْتُ، فقَالَ: " مَا يُبْكِيكَ؟ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ كِسْرَى، وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَلَكَ الْآخِرَةُ " ،

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ایک سال تک ارادہ کرتا رہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت میں سوال کروں اور نہ کر سکا ان کے ڈر سے یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا پھر جب لوٹے اور کسی راستہ میں تھے کہ ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف جھکے کسی حاجت کو اور میں ان کے لیے ٹھہرا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے۔ اور میں ان کے ساتھ چلا۔ اور میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے زور ڈالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں میں سے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن ہیں۔ سو میں نے ان سے عرض کی کہ اللہ کی قسم! میں آپ سے اس سوال کو پوچھنا چاہتا تھا ایک سال سے اور آپ کی ہیبت سے پوچھ نہ سکتا تھا۔ تو انہوں نے فرمایا: کہ نہیں ایسا مت کرو جو بات تم کو خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو کہ میں اگر جانتا ہوں تو تم کو بتا دوں گا اور پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کی کچھ حقیقت نہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو اتارا اور ان کے لیے باری مقرر کی جو مقرر کی چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری عورت نے کہا تم ایسا کرتے ویسا کرتے تو خوب ہوتا تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل ہے جس کا میں ارادہ کرتا ہوں سو اس نے مجھ سے کہا کہ تعجب ہے اے ابن خطاب! تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تم کو جواب ہی نہ دے۔ حالانکہ تمہاری صاحبزادی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اپنی چادر لی اور میں گھر سے نکلا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری چھوٹی بیٹی! تو جواب دیتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں تک وہ دن پھر غصہ میں رہتے ہیں۔ سو حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو ان کو جواب دیتی ہوں۔ سو میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو ڈراتا ہوں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اور اس کے رسول کے غضب سے۔ اے میری بیٹی! تو اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن پر اتراتی ہے۔ اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر پھر میں وہاں سے نکلا۔ اور داخل ہوا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر بسبب اپنی قرابت کے جو مجھے ان کے ساتھ تھی اور میں نے ان سے بات کی اور مجھ سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ تعجب ہے تم کو اے ابن خطاب! کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی بیبیوں کے معاملات میں بھی دخل دو۔ اور مجھے ان کی بات سے اتنا غم ہوا کہ اس غم نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کیا چاہتا تھا اور میں ان کے پاس سے نکلا۔ اور میرا ایک رفیق تھا انصار میں سے کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا (یعنی محفل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) تو میں اس کو خبر دیتا اور ہم ان دنوں خوف رکھتے تھے ایک بادشاہ کا غسان کے بادشاہوں میں سے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے کہ اتنے میں میرا رفیق آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ کھولو میں نے کہا: کیا غسانی آیا؟ اس نے کہا کہ نہیں اس سے بھی زیادہ ایک پریشانی کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیبیوں سے جدا ہو گئے۔ سو میں کہا کہ حفصہ اور عائشہ کی ناک میں خاک بھرو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لیے اور میں نکلتا تھا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جھروکے میں تھے کہ اس کے اوپر ایک کھجور کی جڑ سے چڑھتے تھے اور ایک غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاہ فام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ سو میں نے کہا کہ یہ عمر ہے اور مجھے اذن دو۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا پھر جب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک حصیر پر تھے کہ ان کے اور حصیر کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے ایک تکیہ تھا چمڑے کا اور اس میں کھجور کا چھلکا بھرا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کی طرف کچھ پتے سلم کے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو دباغت کرتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا اور میں نے اثر اور نشان حصیر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو میں دیکھا اور رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ کس نے رلایا تم کو؟“ میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ کے! بیشک کسریٰ اور قیصر کیسی عیش میں ہیں اور آپ کے رسول ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ”کیا تم راضی نہیں ہوتے ان کے لیے دنیا ہے اور تمہارے لیے آخرت۔“

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3693

وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَفَّانُ ، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ مَعَ عُمَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ كَنَحْوِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ شَأْنُ الْمَرْأَتَيْنِ، قَالَ: حَفْصَةُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ، وَزَادَ فِيهِ: وَأَتَيْتُ الْحُجَرَ، فَإِذَا فِي كُلِّ بَيْتٍ بُكَاءٌ، وَزَادَ أَيْضًا: وَكَانَ آلَى مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَلَمَّا كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ نَزَلَ إِلَيْهِنَّ.

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہی مضمون مروی ہے اور اس میں یوں وارد ہوا ہے انہوں نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا اور جب ہم مرظہران میں آئے (کہ نام ہے ایک مقام کا) اور آگے لمبی حدیث بیان کی مثل حدیث سلیمان بن بلال کی اور اس میں یوں ہے کہ میں نے کہا: حال ان دو عورتوں کا (یعنی میں آپ سے دریافت کرتا ہوں) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حفصہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حجروں کے پاس آیا اور ہر گھر میں رونا تھا (یعنی ازواج مطہرات کے) اور یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نہ ملنے کی ایک ماہ تک قسم کھائی تھی پھر جب انتیس دن ہو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر ان کی طرف گئے۔

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3694

وحدثنا وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَّيرُ بْنُ حَرْبٍ : وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ وَهُوَ مَوْلَى الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ : عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَبِثْتُ سَنَةً مَا أَجِدُ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى صَحِبْتُهُ إِلَى مَكَّةَ، فَلَمَّا كَانَ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ ذَهَبَ يَقْضِي حَاجَتَهُ، فقَالَ: أَدْرِكْنِي بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ وَرَجَعَ، ذَهَبْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ وَذَكَرْتُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ " مَنِ الْمَرْأَتَانِ، فَمَا قَضَيْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ " .

وہی مضمون ہے مگر اس میں یہ زیادہ ہے کہ جب مرظہران پہنچے تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حاجت کو چلے اور مجھ سے کہا کہ چھاگل لے کر آؤ پانی کی پھر میں چھاگل لے گیا آگے وہی مضمون ہے۔

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3695

وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَتَقَارَبَا فِي لَفْظِ الْحَدِيثِ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حدثنا، وقَالَ إِسْحَاقَ: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ ، عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّتَيْنِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 ، حَتَّى حَجَّ عُمَرُ، وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ، وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي، فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، " مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 ، قَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: كَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ، قَالَ: هِيَ حَفْصَةُ، وَعَائِشَةُ "، ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ، قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعَنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فقَالَت: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فقَالَت: نَعَمْ، فَقُلْتُ: أَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ؟، قَالَت: نَعَمْ، قُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، يُرِيدُ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً، فَضَرَبَ بَابِي ثُمَّ نَادَانِي، فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ مَاذَا، أَجَاءَتْ غَسَّانُ؟ قَالَ: لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ: طَلَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فقَالَت: لَا أَدْرِي هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ، فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ فَجَلَسْتُ، فَإِذَا عَنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ، فَجَلَسْتُ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، ثُمَّ أَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ؟ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ، وَقَالَ: " لَا "، فَقُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعَنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فقَالَت: مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ، أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ، فَقُلْتُ: لَا يَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمُ مِنْكِ وَأَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ، فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " نَعَمْ "، فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أُهَبًا ثَلَاثَةً، فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ، وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، ثُمَّ قَالَ: " أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ "، أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا "، فَقُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ .

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں مدت سے آرزو رکھتا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان دو بیبیوں کا حال پوچھوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں میں سے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا»(۶۶-التحریم:۴) کہ ”اگر تم توبہ کرو اللہ تعالیٰ کی طرف تو تمہارے دل جھک رہے ہیں۔“یہاں تک کہ حج کیا انہوں نے اور میں نے بھی ان کے ساتھ پھر جب ہم ایک راہ میں تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ راہ سے کنارے ہوئے۔ اور میں بھی ان کے ساتھ کنارے ہوا۔ پانی کی چھاگل لے کر اور حاجت سے فارغ ہوئے اور پھر میرے پاس آئے۔ اور میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہوں نے وضو کیا اور میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! وہ کون سی دو عورتیں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں میں سے جن کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ «إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا» ”اگر توبہ کرو تم اللہ کی طرف تو تمہارے دل جھک رہے ہیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بڑے تعجب کی بات ہے اے ابن عباس! (یعنی اب تک تم نے یہ کیوں نہ دریافت کیا) زہری نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ان کا نہ پوچھنا اتنی مدت ناپسند ہوا اور یہ ناپسند ہوا کہ اتنے دن کیوں اس سوال کو چھپا رکھا پھر فرمایا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن ہیں، پھر لگے حدیث بیان کرنے اور کہا کہ ہم گروہ قریش کے ایک ایسی قوم تھے کہ عورتوں پر غالب رہتے تھے، پھر جب مدینہ میں آئے تو ایسے گروہ کو پایا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب تھیں۔ سو ہماری عورتیں ان کی خصلتیں سیکھنے لگیں اور میرا مکان ان دنوں بنی امیہ کے قبیلہ میں تھا مدینہ کی بلندی پر سو ایک دن میں نے اپنی بیوی پر کچھ غصہ کیا سو وہ مجھے جواب دینے لگی۔ اور میں نے اس کے جواب دینے کو برا مانا تو وہ بولی کہ تم میرے جواب دینے کو برا مانتے ہو اور اللہ کی قسم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں ان کو جواب دیتی ہیں اور ایک ایک ان میں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیتی ہے کہ دن سے رات ہو جاتی ہے۔ سو میں چلا اور داخل ہوا حفصہ پر اور میں نے کہا: کہ تم جواب دیتی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ انہوں نے کہا: ہاں اور میں نے کہا: محروم ہوئیں تم میں سے جس نے ایسا کیا اور بڑے نقصان میں آئی کیا تم میں سے ہر ایک ڈرتی اس سے کہ اللہ اس پر غصہ کرے اس کے رسول کے غصہ دلانے سے اور ناگہاں وہ ہلاک ہو جائے (اس سے قوت ایمان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی معلوم ہوتی ہے اور جو عظمت و شان ان کے سینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے بخوبی واضح ہوتی ہے) پھر کہا: کہ ہرگز جواب نہ دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان سے کوئی چیز طلب نہ کر اور مجھ سے فرمائش کیا کر کہ جو تیرا جی چاہے اور تو دھوکا نہ کھائیو اس بی بی سے جو تیری ہمسائی یعنی سوت ہے کہ وہ زیادہ حسین ہے تجھ سے اور زیادہ پیاری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہ نسبت تیرے (غرض تو اس کے بھروسہ میں نہ رہیو کہ تیری اس سے برابری نہیں ہو سکتی اس میں اقرار ہے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت اور محبوبیت کا) مراد لیتے تھے وہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اور کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہ ہمارا ایک ہمسایہ تھا انصار میں سے کہ میں اور وہ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوتے تھے۔ سو ایک دن وہ آتا اور ایک دن میں اور وہ مجھے وحی وغیرہ کی خبر دیتا تھا اور میں اسے، اور ہم میں چرچا ہوتا تھا کہ غسان کا بادشاہ اپنے گھوڑوں کی نعلیں لگاتا ہے کہ ہم سے لڑے سو ایک دن میرا رفیق نیچے گیا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) اور پھر عشاء کو میرے پاس آیا اور میرا دروازہ کھٹکھٹایا اور آواز دی اور میں نکلا اور اس نے کہا: بڑا غضب ہوا۔ میں نے کہا: کیا ملک غسان آیا؟ اس نے کہا: نہیں اس سے بھی بڑی مہم پیش آئی اور بڑی لمبی کہ طلاق دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو۔ میں نے کہا: بے نصیب ہوئی حفصہ اور بڑے نقصان میں آئی اور میں پہلے یقین رکھتا تھا کہ ایک دن یہ ہونے والا ہے یہاں تک کہ جب میں نے صبح کی نماز پڑھی اپنے کپڑے پہنے اور میں نیچے آیا اور حفصہ کے پاس گیا اور اس کو دیکھا کہ وہ رو رہی ہے، پھر میں نے کہا کہ طلاق دی تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ سو اس نے کہا: میں نہیں جانتی اور وہ تو وہاں کنارہ کیے ہوئے اس جھروکے میں بیٹھے ہیں۔ سو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلمکے غلام کی طرف آیا جو سیاہ فام تھا اور میں نے کہا کہ اجازت لو عمر کے لیے اور وہ اندر گیا اور پھر نکلا اور کہا کہ میں نے تمہارا ذکر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، پھر میں پیٹھ موڑ کر چلا اور ناگہاں غلام مجھے بلانے لگا اور کہا کہ آؤ تمہارے لیے اجازت ہوئی، سو داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بورئیے کی بناوٹ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے کہ اس کی بناوٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو میں اثر کر گئی تھی، پھر میں نے عرض کی کیا آپ نے طلاق دی اپنی بیبیوں کو اے رسول اللہ کے! سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سر اٹھایا اور فرمایا: ”کہ نہیں۔“ پھر میں نے کہا: اللہ اکبر! اے رسول اللہ کے! کاش آپ دیکھتے کہ ہم لوگ قریش ہیں اور ایسی قوم تھے کہ غالب رہتے تھے عورتوں پر پھر جب مدینہ منورہ میں آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا کہ ان کی عورتیں ان پر غالب ہیں اور ہماری عورتیں بھی ان کی عادتیں سیکھنے لگیں اور میں اپنی عورت پر غصہ ہوا ایک دن سو وہ مجھے جواب دینے لگی اور میں نے اس کے جواب دینے کو بہت برا مانا تو اس نے کہا: کہ تم کیا برا مانتے ہو میرے جواب دینے کو اس لیے کہ اللہ کی قسم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی بیبیاں ان کو جواب دیتی ہیں اور ایک ان میں کی آپ کو چھوڑ دیتی ہے دن سے رات تک سو میں نے کہا کہ محروم ہو گئی اور نقصان میں پڑ گئی جس نے ان میں سے ایسا کیا۔ کیا تم میں سے ہر ایک بے خوف ہو گئی ہے اس سے کہ اللہ تعالیٰ اس پر غصہ کرے بسبب غصہ اس کے رسول کے اور وہ اسی دم ہلاک ہو جائے، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراۓ اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ میں داخل ہوا حفصہ کے پاس اور میں نے کہا کہ تم دھوکا نہ کھانا اپنی سوکن کی حالت دیکھ کر کہ وہ تم سے زیادہ خوبصورت اور تم سے زیادہ پیاری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر دوبارہ مسکرائے (اس گفتگو میں کمال ایمان سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اور کمال جانبداری اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت ہوئی کہ انہوں نے سب طرح مقدم رکھا رضامندی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی مقتضیٰ ہے کمال ایمان کا) پھر میں نے عرض کی کہ کچھ جی بہلانے کی باتیں کروں اے رسول اللہ تعالیٰ کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ سو میں بیٹھ گیا اور میں نے اپنا سر اونچا کیا گھر کی طرف تو اللہ کی قسم! میں نے کوئی چیز وہاں ایسی نہ دیکھی جس کو دیکھ کر میری نگاہ میری طرف پھرتی سوا تین چمڑوں کے۔ سو میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ کے! آپ اللہ سے دعا کریں کہ آپ کی امت کو فراغت اور کشادگی عنایت کرے (یہ کمال ادب کی بات کہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنے واسطے نہیں مانگتے اور امت کی کشادگی طلب فرمائیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ البال رہیں) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ شانہ نے فارس اور روم کو بڑی کشادگی دے رکھی ہے حالانکہ وہ اللہ کو نہیں پوجتے ہیں (بلکہ آتش پرست اور بت پرست ہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور کہا: ”اے ابن خطاب! کیا شک میں ہو وہ لوگ تو ایسے ہیں کہ ان کو طیبات دنیا کی زندگی میں دے دیئے گئے۔“ سو میں نے عرض کی کہ مغفرت مانگئیے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے اے رسول اللہ تعالیٰ کے! اور کیفیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ بیبیوں کے پاس نہ جائیں گے ایک مہینے تک اور یہ قسم ان پر نہایت غصہ کے سبب کھائی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب فرمایا۔

ایلاء دار عورتوں سے علیحدہ ہونا

حد یث نمبر - 3696

(حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا مَضَى تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَدَأَ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّكَ دَخَلْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ أَعُدُّهُنَّ، فقَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ "، ثُمَّ قَالَ: " يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ، حَتَّى بَلَغَ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 - 29 ، قَالَت عَائِشَةُ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَت: فَقُلْتُ: أَوَ فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَ مَعْمَرٌ : فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ : أَنَّ عَائِشَةَ قَالَت: لَا تُخْبِرْ نِسَاءَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ، فقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ أَرْسَلَنِي مُبَلِّغًا وَلَمْ يُرْسِلْنِي مُتَعَنْتًا " ، قَالَ قَتَادَةُ: صَغَتْ قُلُوبُكُمَا مَالَتْ قُلُوبُكُمَا.

زہری نے کہا: خبر دی مجھ کو عرہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی کہ جب انتیس راتیں گزر گئیں تو داخل ہوئے مجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے مجھ سے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کرنا شروع کیا (یعنی مضمون تخبیر کا) سو میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ تعالیٰ کے! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ہمارے پاس ایک ماہ تک تشریف نہ لائیں گے اور آپ ہمارے پاس انتیسویں دن تشریف لے آئے اور میں برابر دن گنتی تھی(یہ عرض کرنا ان کا اس غرض سے تھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول نہ گئے ہوں)سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”ماہ کا اطلاق انتیس دن پر بھی آتا ہے۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ”اے عائشہ! میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور تم اس کے جواب دینے میں جلدی نہ کرو یہاں تک کہ مشورہ لے لو اپنے ماں باپ سے تو کچھ تمہارا حرج نہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھی «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ»(۳۳-الأحزاب: ۲۸) سے «أَجْرًا عَظِيمًا» (۳۳-الأحزاب: ۲۵) تک یعنی ”اے نبی! کہہ دو تم اپنی بیبیوں سے۔“ ”بہت بڑا اجر ہے“ تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی تھیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے ماں باپ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کا حکم نہ دیں گے، پھر فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اس میں کیا مشورہ لوں میں اپنے ماں باپ سے میں بلاشک چاہتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو (یہ کمال ایمان اور تفقہ ہے ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کا) معمر نے کہا: مجھے ایوب نے خبر دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مت خبر دو آپ اپنی اور بیبیوں کو اس سے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا ہے تو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کہ”اللہ تعالیٰ نے مجھے پیغام پہنچانے کو بھیجا ہے نہ مشکل میں ڈالنے کو۔“ قتادہ نے کہا: «صَغَتْ قُلُوبُكُمَا» (التحریم: ۴: ۶۶) کے معنیٰ یہ ہیں کہ جھک رہے ہیں تمہارے دل۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3697

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ مَوْلَى الأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِى سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ فَسَخِطَتْهُ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَىْءٍ. فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ « لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ ». فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِى بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ « تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِى اعْتَدِّى عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِى ». قَالَتْ فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِى سُفْيَانَ وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتَقِهِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لاَ مَالَ لَهُ انْكِحِى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ». فَكَرِهْتُهُ ثُمَّ قَالَ « انْكِحِى أُسَامَةَ ». فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ.

فاطمہ، قیس کی بیٹی سے روایت ہے، کہ ابوعمرو نے ان کو طلاق دی طلاق بائن اور وہ شہر میں نہ تھے یعنی کہیں باہر تھےاور ان کی طرف ایک وکیل بھیج دیا اور تھوڑے جو روانہ کیے اور فاطمہ اس پر غصہ ہوئیں تو وکیل نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے لیے ہمارے ذمہ کچھ نہیں ہے (یعنی نفقہ وغیرہ) پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”تمہارے لیے ان کے ذمہ کچھ بھی نہیں ہے۔“ پھر حکم کیا فاطمہ کو کہ تم ام شریک کے گھر میں عدت پوری کرو پھر فرمایا: کہ ”وہ ایسی عورت ہے کہ وہاں ہمارے اصحاب بہت جمع رہتے ہیں تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت پوری کرو اس لیےکہ وہ ایک اندھے آدمی ہیں وہاں تم اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔ (یعنی بے تکلف رہو گی گوشہ پردہ کی تکلیف نہ ہو گی) پھر جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ کو خبر دینا۔“ وہ کہتی ہیں کہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ مجھے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم نے نکاح کا پیغام دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”ابوجہم تو اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے نہیں اتارتا اور معاویہ مفلس آدمی ہے کہ اس کے پاس مال نہیں، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔“ اور مجھے یہ امر ناپسند ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کہ ”اسامہ سے نکاح کر لو۔“ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی خیر و خوبی دی کہ مجھ پر دوسری عورتیں رشک کرنے لگیں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3698

حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ : أَيْضًا حدثنا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، كِلَيْهِمَا عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، أَنَّهُ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَنْفَقَ عَلَيْهَا نَفَقَةَ دُونٍ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ، قَالَت: وَاللَّهِ لَأُعْلِمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ كَانَ لِي نَفَقَةٌ أَخَذْتُ الَّذِي يُصْلِحُنِي، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لِي نَفَقَةٌ لَمْ آخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، قَالَت: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " لَا نَفَقَةَ لَكِ، وَلَا سُكْنَى " .

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہاکہ ان کے شوہر نے طلاق دی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ان کو کچھ تھوڑا سا خرچ روانہ کیا پھر جب انہوں نے دیکھا تو کہا: اللہ کی قسم! میں خبر دوں گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ پھر اگر میرے لیے نفقہ ہو تو جتنا مجھے کفایت کرے اتنا لوں گی اور اگر میرے لیے نفقہ نہ ہو گا تو اس میں سے کچھ نہ لوں گی۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ تمہارے لیے نفقہ ہے، نہ مکان۔“

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3699

حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، فَأَخْبَرَتْنِي: أَنَّ زَوْجَهَا الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا، فَأَبَى أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نَفَقَةَ لَكِ، فَانْتَقِلِي فَاذْهَبِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَكُونِي عَنْدَهُ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ عَنْدَهُ " .

ابوسلمہ رحمہ اللہ علیہ نے کہاکہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے خبر دی کہ ان کے شوہر مخزومی نے طلاق دی اور انکار کیا نفقہ دینے سے پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”تم کو نفقہ نہیں اور تم ابن ام مکتوم کے گھر چلی جاؤ اس لیےکہ وہ نابینا ہے وہاں تم اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔ سو انہی کے پاس رہو۔“

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3700

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حدثنا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْيَمَنِ، فقَالَ لَهَا أَهْلُهُ: لَيْسَ لَكِ عَلَيْنَا نَفَقَةٌ، فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ، فقَالُوا: إِنَّ أَبَا حَفْصٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَهَلْ لَهَا مِنْ نَفَقَةٍ؟ فقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ " ، وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنْ لَا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ، وَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنَّ أُمَّ شَرِيكٍ يَأْتِيهَا الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ، فَانْطَلِقِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى، فَإِنَّكِ إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَكِ لَمْ يَرَكِ، فَانْطَلَقَتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ،

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ابوحفص نے ان کو تین طلاق دیں اور وہ یمن کو چلا گیا اور اس کے لوگوں نے فاطمہ سے کہا کہ تیرے لیے ہمارے اوپر نفقہ نہیں اور خالد چند لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اور عرض کی کہ ابوحفص نے تین طلاق دیں سو کیا اس کی عورت کو نفقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو نفقہ نہیں ہے اور اس پر عدت واجب ہے۔“ اور اس کو کہلا بھیجا کہ تم اپنے نکاح میں بغیر میری صلاح کے سبقت نہ کرنا اور حکم دیا ان کو کہ ام شریک کے گھر آ جائے، پھر کہلا بھیجا کہ ”ام شریک کے گھر مہاجرین اولین جمع ہوتے ہیں سو تم ابن ام مکتوم نابیناکے گھر جاؤ کہ اگر تم وہاں اپنا دوپٹہ اتار دو گی تو کوئی تم کو نہ دیکھے گا۔“ سو وہ اس گھر میں چلی گئی پھر جب ان کی عدت ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے بیاہ دیا۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3701

حدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حدثنا إِسْمَاعِيل يَعَنْونَ ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ . ح وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حدثنا أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ ذَلِكَ مِنْ فِيهَا كِتَابًا، قَالَت: كُنْتُ عَنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى أَهْلِهِ أَبْتَغِي النَّفَقَةَ، وَاقْتَصُّوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو: لَا تَفُوتِينَا بِنَفْسِكِ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3702

حدثنا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ صَالِح ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَفْتِيهِ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا، " فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى " ، فأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَهُ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا، وقَالَ عُرْوَةُ: إِنَّ عَائِشَةَ أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ،

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ ابوعمرو کے پاس تھی اور اس نے تین طلاق دیں پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گھر سے نکلنے کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن ام مکتوم کے گھر چلی جاؤ اور مروان نے ان کی تصدیق نہ کی مطلقہ کے گھر سے نکلنے میں اور عروہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کو قابل انکار جانا۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3703

وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا حُجَيْنٌ ، حدثنا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، مَعَ قَوْلِ عُرْوَةَ: إِنَّ عَائِشَةَ أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ.

ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالاحدیث روایت کی گئی ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3704

حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، واللفظ لعبد، قَالَا: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ : أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ خَرَجَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَرْسَلَ إِلَى امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ مِنْ طَلَاقِهَا، وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَةٍ، فقَالَا لَهَا: وَاللَّهِ مَا لَكِ نَفَقَةٌ، إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلًا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ قَوْلَهُمَا، فقَالَ: " لَا نَفَقَةَ لَكِ "، فَاسْتَأْذَنَتْهُ فِي الِانْتِقَالَ: فَأَذِنَ لَهَا، فقَالَت: أَيْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فقَالَ: " إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ " ، وَكَانَ أَعْمَى تَضَعُ ثِيَابَهَا عَنْدَهُ وَلَا يَرَاهَا، فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا مَرْوَانُ: قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ يَسْأَلُهَا عَنِ الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَتْهُ بِهِ، فقَالَ مَرْوَانُ: لَمْ نَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنَ امْرَأَةٍ سَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا، فقَالَت فَاطِمَةُ: حِينَ بَلَغَهَا قَوْلُ مَرْوَانَ، فَبَيْنِي وَبَيْنَكُمُ الْقُرْآنُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1 الْآيَةَ، قَالَت: هَذَا لِمَنْ كَانَتْ لَهُ مُرَاجَعَةٌ، فَأَيُّ أَمْرٍ يَحْدُثُ بَعْدَ الثَّلَاثِ، فَكَيْفَ تَقُولُونَ: لَا نَفَقَةَ لَهَا، إِذَا لَمْ تَكُنْ حَامِلًا، فَعَلَامَ تَحْبِسُونَهَا.

ابوعمرو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن گئے اور اپنی عورت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا ایک طلاق جو اس کی طلاقوں میں باقی تھی (یعنی دو پہلے ہو چکی تھیں)اور حارث اور عیاش دونوں کو کہلا بھیجا کہ اس کو نفقہ دینا ان دونوں نے کہا کہ تجھے نفقہ نہیں پہنچتا کہ جب تک تو حاملہ نہ ہو، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور ان سے حارث وغیرہ کی بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ کو نفقہ نہیں۔“ اور انہوں نے دوسرے گھر چلے جانے کی اجازت چاہی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی انہوں نے عرض کی کہ کہاں جاؤں اے رسول اللہ تعالیٰ کے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن ام مکتوم کے گھر کہ وہ نابینا تھےکہ وہاں اپنے کپڑے اتار کر بیٹھے اور وہ اس کو دیکھے بھی نہیں۔“ پھر جب عدت پوری ہو گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا اسامہ رضی اللہ عنہ سے۔ سو مروان نے فاطمہ کے پاس قبیصہ بن ذویب کو بھیجا کہ اس سے یہ حدیث پوچھ آئے سو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہی حدیث بیان کر دی سو مروان نے کہا نہیں سنی ہم نے یہ حدیث مگر ایک عورت سے اور ہم ایسا امر قوی و معتبر کیوں نہ اختیار کریں جس پر سب لوگوں کو پاتے ہیں۔ پھر جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مروان کی بات پہنچی کہ وہ کہتا ہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”نہ نکالو ان کو ان کے گھروں سے۔“ تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حکم تو اس کے لیے ہے جس سے رجعت ہو سکتی ہے اور تین طلاقوں کے بعد پھر کون سی بات نئی پیدا ہو سکتی ہے پھر تم کیونکر کہتے ہو اس کو نفقہ نہیں ہے جب وہ حاملہ نہ ہو تو پھر اسے کس بھروسے روکتے ہو۔ (یعنی نان نفقہ بھی نہیں دیتے تو پھر کیوں روکتے ہو)۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3705

حَدَّثَنِي زُهَّيرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنا سَيَّارٌ ، وَحُصَيْنٌ ، وَمُغِيرَةُ ، وَأَشْعَثُ ، وَمُجَالِدٌ ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خالد ، وداود ، كلهم عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، فَسَأَلْتُهَا عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا، فقَالَت: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فقَالَت: فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّكْنَى وَالنَّفَقَةِ، قَالَت: " فَلَمْ يَجْعَلْ لِي سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ " ،

شعبی نے کہا: میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور اس سے دریافت کیا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے مقدمہ میں تو اس نے کہا کہ مجھ کو تین طلاق دیں میرے شوہر نے اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لے گئی مکان اور نفقہ کے لئے تو انہوں نے نہ مجھے مکان دلوایا اور نہ نفقہ اور حکم دیا کہ ابن ام مکتوم کے گھر عدت پوری کروں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3706

وَحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا هُشَيْمٌ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، وَدَاوُدَ ، وَمُغِيرَةَ ، وَإِسْمَاعِيل ، وَأَشْعَثَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ زُهَّيرُ، عَنْ هُشَيْمٍ.

اس سند سے بھی مذکورہ حدیث مروی ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3707

حدثنا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، حدثنا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ الْهُجَيْمِيُّ ، حدثنا قُرَّةُ ، حدثنا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ ، حدثنا الشَّعْبِيُّ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، فَأَتْحَفَتْنَا بِرُطَبِ ابْنِ طَابٍ، وَسَقَتْنَا سَوِيقَ سُلْتٍ، فَسَأَلْتُهَا: عَنِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا أَيْنَ تَعْتَدُّ؟ قَالَت: طَلَّقَنِي بَعْلِي ثَلَاثًا، " فَأَذِنَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَعْتَدَّ فِي أَهْلِي " .

شعبی نے کہا: ہم لوگ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے ہم کو ابن طاب کی تر کھجوریں (ایک قسم کی کھجور کا نام) کھلائیں اور ستو جوار کے پلائے اور میں نے ان سے مطلقہ ثلاث کا حکم پوچھا کہ وہ عدت کہاں کرے؟ انہوں نے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی کہ اپنے لوگوں میں جا کر عدت پوری کروں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3708

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا، قَالَ: " لَيْسَ لَهَا سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةٌ " .

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے شوہر نے تین طلاق دیں اور میں نے وہاں سے اٹھنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ”تم اپنے ابن عم عمرو بن ام مکتوم کے گھر چلی جاؤ۔“

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3709

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حدثنا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَت: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَأَرَدْتُ النُّقْلَةَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " انْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ عَمْرِو بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَاعْتَدِّي عَنْدَهُ " .

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ جس کو تین طلاقیں ہو گئیں اس کے لیے نہ مکان ہے نہ نفقہ۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3710

وَحدثناه مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حدثنا أَبُو أَحْمَدَ ، حدثنا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ وَمَعَنَا الشَّعْبِيُّ، فَحَدَّثَ الشَّعْبِيُّ بِحَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً " ، ثُمَّ أَخَذَ الْأَسْوَدُ كَفًّا مِنْ حَصًى فَحَصَبَهُ بِهِ، فقَالَ: وَيْلَكَ تُحَدِّثُ بِمِثْلِ، هَذَا قَالَ عُمَرُ: لَا نَتْرُكُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي لَعَلَّهَا حَفِظَتْ أَوْ نَسِيَتْ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1 ،

ابو اسحاق، اسود کے ساتھ تھے بڑی مسجد میں اور شعبی بھی۔ سو شعبی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اسے گھر دلوایا، نہ خرچ اور اسود نے ایک مٹھی کنکر لی اور شعبی کی طرف پھینکی اور کہا کہ تم اسے روایت کرتے ہو یہ کیا تمہاری خرابی ہے اور حالانکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہیں چھوڑتے کتاب اللہ تعالیٰ کی اور سنت اپنے نبی کی ایک عورت کے قول سے کہ معلوم نہیں شاید وہ بھول گئی یا یاد رکھا اور مطلقہ ثلاث کو گھر دینا چاہیے اور خرچہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ» ‏‏‏‏ (۶۵-الطلاق:۱) کہ ”مت نکالو ان کو ان کے گھروں سے مگر جب وہ کوئی کھلی بے حیائی کریں۔“ (یعنی زنا)۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3711

وَحدثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حدثنا أَبُو دَاوُدَ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، بِقِصَّتِهِ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3712

وَحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، تَقُولُ: إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، " فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً، قَالَت: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا حَلَلْتِ، فَآذِنِينِي، فَآذَنْتُهُ فَخَطَبَهَا مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو جَهْمٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَرَجُلٌ تَرِبٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَرَجُلٌ ضَرَّابٌ لِلنِّسَاءِ، وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "، فقَالَت: بِيَدِهَا هَكَذَا أُسَامَةُ أُسَامَةُ، فقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ خَيْرٌ لَكِ " ، قَالَت: فَتَزَوَّجْتُهُ، فَاغْتَبَطْتُ.

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں تھیں کہ ان کے شوہر نے تین طلاقیں دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اسے گھر دلوایا، نہ خرچ اور کہا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھے خبر دینا۔“ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور مجھے پیغام دیا معاویہ اور ابوجہم نے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ ”معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کے پاس مال نہیں اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے مگر اسامہ۔“ سو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ، اسامہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:کہ ”اللہ تعالیٰ اور رسول کی فرمانبرداری تجھے بہتر ہے۔“ پھر میں نے ان سے نکاح کیا اور عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3713

وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ ، تَقُولُ: أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ: عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، بِطَلَاقِي وَأَرْسَلَ مَعَهُ بِخَمْسَةِ آصُعِ تَمْرٍ، وَخَمْسَةِ آصُعِ شَعِيرٍ، فَقُلْتُ: أَمَا لِي نَفَقَةٌ إِلَّا هَذَا، وَلَا أَعْتَدُّ فِي مَنْزِلِكُمْ، قَالَ: لَا، قَالَت: فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، وَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " كَمْ طَلَّقَكِ "، قُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: " صَدَقَ، لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ تُلْقِي ثَوْبَكِ عَنْدَهُ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَآذِنِينِي "، قَالَت: فَخَطَبَنِي خُطَّابٌ مِنْهُمْ: مُعَاوِيَةُ، وَأَبُو الْجَهْمِ، فقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مُعَاوِيَةَ تَرِبٌ خَفِيفُ الْحَالِ، وَأَبُو الْجَهْمِ مِنْهُ شِدَّةٌ عَلَى النِّسَاءِ، أَوْ يَضْرِبُ النِّسَاءَ أَوْ نَحْوَ هَذَا، وَلَكِنْ عَلَيْكِ بِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ " ،

الفاظ کے اختلاف سے مفہوم وہی ہے جو اوپر گزرا، سند کا فرق ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3714

وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا أَبُو عَاصِمٍ ، حدثنا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، فَسَأَلْنَاهَا، فقَالَت: كُنْتُ عَنْدَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَخَرَجَ فِي غَزْوَةِ نَجْرَانَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ مَهْدِيٍّ، وَزَادَ، قَالَت: فَتَزَوَّجْتُهُ فَشَرَّفَنِي اللَّهُ بِأَبِي زَيْدٍ، وَكَرَّمَنِي اللَّهُ بِأَبِي زَيْدٍ،

ابوبکر نے کہا کہ میں اور ابوسلمہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے اسی طلاق وغیرہ کو دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ابوعمرو کے پاس تھی اور وہ غزوہ نجران کو گئے آگے وہی مضمون بیان کیا اخیر میں یہ زیادہ کیا کہ اللہ نے مجھے شرافت اور بزرگی بخشی ابوزید سے نکاح کرنے میں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3715

وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ زَمَنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا طَلَاقًا بَاتًّا بِنَحْوِ حَدِيثِ سُفْيَانَ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3716

وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حدثنا حَسَنُ بْنُ صَالِح ، عَنِ السُّدِّيِّ ، عَنِ الْبَهِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَت: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، " فَلَمْ يَجْعَلْ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً " .

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ مکان دلوایا اور نہ نفقہ۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3717

وحدثنا وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: تَزَوَّجَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَطَلَّقَهَا فَأَخْرَجَهَا مِنْ عَنْدِهِ، فَعَابَ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ عُرْوَةُ، فقَالُوا: إِنَّ فَاطِمَةَ قَدْ خَرَجَتْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ ، فَأَخْبَرْتُهَا بِذَلِكَ، فقَالَت: " مَا لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ خَيْرٌ فِي أَنْ تَذْكُرَ هَذَا الْحَدِيثَ " .

ہشام نے کہاکہ مجھ سے میرے باپ نے ذکر کیا کہ یحییٰ بن سعید نے عبدالرحمٰن کی بیٹی سے نکاح کیا اور اس کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا اور عروہ نے اس بات پر انہیں الزام دیا تو لوگوں نے کہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تو بعد طلاق کے شوہر کے گھر سے نکل گئی تھیں۔ سو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور میں نے ان کو خبر دی انہوں نے کہا کہ فاطمہ کو اس حدیث کا بیان کرنا اچھا نہیں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3718

وَحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، حدثنا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَت: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوْجِي طَلَّقَنِي ثَلَاثًا، وَأَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ، قَالَ: " فَأَمَرَهَا فَتَحَوَّلَتْ " .

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دی ہے ہیں اور مجھے خوف ہے وہ لوگ میرے ساتھ سختی و بدمزاجی کریں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اور گھر میں چلی جائیں۔

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3719

وَحدثنا وَحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَت: " مَا لِفَاطِمَةَ خَيْرٌ أَنْ تَذْكُرَ هَذَا " ، قَالَ: تَعْنِي قَوْلَهَا: لَا سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةَ.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ ”فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کہنا خوب نہیں ہے کہ مطلقہ ثلاثہ کو نہ مکان ہے نہ نفقہ۔“

مطلقہ بائنہ کے نفقہ نہ ہونے کابیان

حد یث نمبر - 3720

وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : لِعَائِشَةَ : أَلَمْ تَرَيْ إِلَى فُلَانَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فَخَرَجَتْ، فقَالَت: " بِئْسَمَا صَنَعَتْ "، فقَالَ: أَلَمْ تَسْمَعِي إِلَى قَوْلِ فَاطِمَةَ، فقَالَت: " أَمَا إِنَّهُ لَا خَيْرَ لَهَا فِي ذِكْرِ ذَلِكَ " .

عبدالرحمٰن نے اپنے باپ سے قاسم سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ فلاں عورت کو اس کے شوہر نے تین تلاقیں دے دیں اور وہ نکل گئی یعنی شوہر کے گھروں سے انہوں نے فرمایا کہ اس نے برا کیا۔ عروہ بن زیبر نے کہا کہ آپ فاطمہ کی بات نہیں سنتیں کہ وہ کیا کہتی ہے۔ انہوں نے فرمایا: کہ اس کو اس قول کے بیان کرنے میں کچھ خیر نہیں۔

معتدہ بائی کو اور جس کا شوہر مر گیا ہو اس کو دن میں نکلنا ضرورت کے واسطے روا ہے

حد یث نمبر - 3721

وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " بَلَى، فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا " .

سیدنا جابر بن عبداللہ کہتے تھے کہ میری خالہ کو طلاق ہوئی۔ اور انہوں نے چاہا کہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لیں سو ایک شخص نے ان کو جھڑکا ان کے باہر نکلنے پر۔ اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ”کیوں نہیں تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو اس لیے کہ شاید تم اس میں سے صدقہ دو (تو اوروں کا بھلا ہو) یا اور کوئی نیکی کرو۔“ (کہ تمہارا بھلا ہو)۔

وضع حمل سے عدت کا تمام ہونا

حد یث نمبر - 3722

وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ حَرْمَلَةُ: حدثنا، وقَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا، وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ؟ فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، يُخْبِرُهُ، أَنَّ سُبَيْعَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ فِي بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً لَعَلَّكِ تَرْجِينَ النِّكَاحَ، إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَت سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، " فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي " ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ، وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا غَيْرَ أَنْ لَا يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ.

عبیداللہ بن عبداللہ نے کہا کہ ان کے باپ نے عمر بن عبداللہ کو لکھا کہ وہ سبیعہ رضی اللہ عنہا بنت حارث اسلمیہ کے پاس جائیں اور ان سے ان کی حدیث کو دریافت کریں کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے فتویٰ طلب کیا۔ سو عمر بن اللہ نے ان کو لکھا کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ وہ سعد رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی اور قبیلہ بنی عامر بن لؤی سے تھی اور غزوہ بدر میں حاضر ہوئی تھی اور حجتہ الوداع میں انہوں نے وفات پائی اور یہ حاملہ تھی پر کچھ دیر نہ ہوئی ان کی وفات کو کہ ان کا حمل وضع ہوا بعد وفات شوہر کے پھر جب اپنے نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے سنگار کیا پیغام دینے والوں کے لئےاور ابوالسنابل ان کے پاس آئے اور وہ ایک مرد تھے قبیلہ بنی عبدالدار کے اور ان سے کہا: کیا سبب ہے کہ میں تم کو سنگھار کیے دیکھتا ہوں شاید تم نکاح کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور اللہ کی قسم! تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم پر چار مہینےاور دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب انہوں نے مجھ سے یوں کہا تو میں اپنے کپڑے اوڑھ پہن کر شام کو نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ میں اسی وقت اپنی عدت پوری کر چکی جب کہ میں نے وضع حمل کیا اور حکم دیا مجھ کو نکاح کا جب میں چاہوں۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں جانتا کہ کوئی عورت نکاح کرے بعد وضع کے اسی وقت اگرچہ وہ ابھی خون نفاس میں ہو۔ مگر اتنی بات ضروری ہے کہ اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ وہ پاک نہ ہو۔

وضع حمل سے عدت کا تمام ہونا

حد یث نمبر - 3723

حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنْزِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ : أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَابْنَ عَبَّاسٍ اجْتَمَعَا عَنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُمَا يَذْكُرَانِ الْمَرْأَةَ تُنْفَسُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عِدَّتُهَا آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَدْ حَلَّتْ، فَجَعَلَا يَتَنَازَعَانِ ذَلِكَ، قَالَ: فقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي، يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، يَسْأَلُهَا: عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَت: إِنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، وَإِنَّهَا ذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ " ،

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ابوسلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور اس عورت کا ذکر کرنے لگے جو اپنے شوہر کے مرنے کے بعد کئی رات کے پیچھے نفاس میں ہو جائے یعنی وضع حمل کرے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دونوں عدتوں میں جو اخیر میں پوری ہو وہ پوری کرے اور ابوسلمہ نے کہا کہ وہ اسی وقت عدت پوری کر چکی اور ان دونوں میں آپس میں تنازعہ ہونے لگا۔ سو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہوں یعنی ابوسلمہ کے غرض کریب جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولٰی تھے ان کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس روانہ کیا تاکہ ان سے جا کر پوچھیں سو وہ ان کے پاس آئے اور لوٹ کر خبر دی کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہے کہ سیدہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کو نفاس ہوا ان کے شوہر کی وفات کے کئی رات بعد اور پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نکاح کا حکم دیا۔

وضع حمل سے عدت کا تمام ہونا

حد یث نمبر - 3724

وحدثناه مُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، أَخْبَرَنا اللَّيْثُ . ح وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالَا: حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، كِلَاهُمَا عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّ اللَّيْثَ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، وَلَمْ يُسَمِّ كُرَيْبًا.

یحییٰ بن سعید سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہے مگر لیث کی روایت میں یہ ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی کو روانہ کیا کریب کا نام نہیں ہے۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3725

وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ: هَذِهِ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ، قَالَ: قَالَت زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ، فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ، أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَت: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " .

زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے میں ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور جب ان کے باپ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ گزر گئے تو سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جو زرد تھی خلوق (ایک قسم کی مرکب خوشبو ہے) یا کوئی اور خوشبو تھی اور ایک لڑکی کو (اپنے ہاتھوں سے) لگائی، پھر ہاتھ اپنے گالوں پر پھیر لیے اور کہا قسم اللہ کی! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں مگر میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ فرماتے تھے منبر پر ”حلال نہیں ہے اس شخص کو جو یقین رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر کہ سوگ کرے کسی مردے پر تین دن سے زیادہ مگر عورت اپنے خاوند کے لیے سوگ کرے چار مہینے دس دن تک۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3726

(حديث موقوف) قَالَت قَالَت زَيْنَبُ : ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَت: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " .

زینب نے کہا: پھر میں سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جب ان کے بھائی مرے، انہوں نے یہی خوشبو منگائی اور لگائی پھر کہا: قسم اللہ کی! مجھ کو خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے منبر پر ”کسی کو درست نہیں جو یقین رکھتا ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ سوگ کرے کسی مردے پر تین دن سے زیادہ سوا اس عورت کے جس کا خاوند مر جائے وہ چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3727

(حديث موقوف) قَالَت قَالَت زَيْنَبُ : سَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنُهَا، أَفَنَكْحُلُهَا؟ فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا "، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ: " لَا "، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ " ،

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ کہتی تھیں۔ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ! میری بیٹی کا خاوند مر گیا ہے اس کی آنکھیں دکھتی ہیں کیا سرمہ لگاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں“، پھر اس عورت نے پوچھا دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں۔“ ہر بار، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” اب تو عدت کے چار مہینے دس دن ہی ہیں جاہلیت میں تو عورت ایک برس پورے مینگنی پھینکتی۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3728

قَالَ حُمَيْدٌ: قُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ؟ فقَالَت زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا، حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ، فَتُعْطَى بَعْرَةً، فَتَرْمِي بِهَا، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ.

حمید جو راوی ہے اس حدیث کا اس نے کہا: میں نے زینب سے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ زینب نے کہا: (جاہلیت کے زمانے میں) جب عورت کا خاوند مر جاتا تو وہ ایک گھونسلے میں گھس جاتی۔ برے سے برا کپڑا پہنتی۔ نہ خوشبو لگاتی، نہ کچھ اور یہاں تک کہ ایک سال گزر جاتا پھر ایک جانور اس کے پاس لاتے گدھا یا بکری یا چڑیا جس سے وہ اپنی عدت توڑتی (اس جانور کو اپنی کھال پر رگڑتی یا اپنا ہاتھ اس پر پھیرتی) ایسا بہت کم ہوتا کہ وہ جانور زندہ رہتا (اکثر مر جاتا کچھ شیطان کا اثر ہو گا یا اس کے بدن پر میلی کچیلی ایک گھونسلے میں رہنے سے زہردار مادہ چڑھ جاتا ہو گا جو جانور پر اثر کرتا ہو گا) پھر وہ باہر نکلتی ایک مینگنی اس کو دیتے اس کو پھینک کر پھر جو چاہتی خوشبو وغیرہ لگاتی۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3729

وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَت: تُوُفِّيَ حَمِيمٌ لِأُمِّ حَبِيبَةَ ، فَدَعَتْ بِصُفْرَةٍ، فَمَسَحَتْهُ بِذِرَاعَيْهَا، وَقَالَت: إِنَّمَا أَصْنَعُ هَذَا لِأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " ،

سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا کوئی رشتہ دار مر گیا۔ انہوں نے زرد خوشبو منگائی اور ہاتھوں پر لگائی۔ پھر فرمایا: میں یہ کام اس لیے کرتی ہوں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں سوگ کرنا کسی شخص پر تین دن سے زیادہ مگر عورت اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3730

وَحَدَّثَتْهُ زَيْنَبُ ، عَنْ أُمِّهَا ، وَعَنْ زَيْنَبَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

اور زینب نے ایسے ہی حدیث اپنی ماں (سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا) سے نقل کی اور ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے یا اور کسی بی بی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3731

وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ ، تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّهَا : أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَكُونُ فِي شَرِّ بَيْتِهَا فِي أَحْلَاسِهَا أَوْ فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا فِي بَيْتِهَا حَوْلًا، فَإِذَا مَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعْرَةٍ فَخَرَجَتْ، أَفَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " ،

حمید بن نافع سے روایت ہے میں نے سنا زینب سے جو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیٹی تھیں انہوں نے سنا اپنی ماں سے کہ ایک عورت کا خاوند مر گیا اور اس کی آنکھوں کا لوگوں کو ڈر ہوا وہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اجازت چاہی سرمہ لگانے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کی ایک اپنے برے گھر میں کپڑا یا برا کپڑا پہن کر سال بھر بیٹھتی پھر جب کتا نکلتا تو مینگنی پھینک کر باہر نکلتی کیا چار مہینے دس دن تک صبر نہیں کر سکتی۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3732

وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، بِالْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ فِي الْكُحْلِ، وَحَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ ، وَأُخْرَى مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ تُسَمِّهَا زَيْنَبَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3733

وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالَا: حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ ، تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ : تَذْكُرَانِ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّ بِنْتًا لَهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَاشْتَكَتْ عَيْنُهَا فَهِيَ تُرِيدُ أَنْ تَكْحُلَهَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ " .

ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ اور ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہن سے روایت ہے، کہ ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس نے کہا: میری بیٹی کا شوہر مر گیا اس کی آنکھ دکھتی ہے۔ میں چاہتی ہوں سرمہ لگاؤں اس کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کی ایک سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی اور یہ تو چار مہینے دس دن ہیں۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3734

وحدثنا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَت: لَمَّا أَتَى أُمَّ حَبِيبَةَ نَعِيُّ أَبِي سُفْيَانَ دَعَتْ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ بِصُفْرَةٍ، فَمَسَحَتْ بِهِ ذِرَاعَيْهَا وَعَارِضَيْهَا وَقَالَت: كُنْتُ عَنْ هَذَا غَنِيَّةً، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا " .

سیدہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جب سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے باپ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مرنے کی خبر پہنچی، انہوں نے تیسرے دن زرد خوشبو منگائی اور دونوں ہاتھوں اور گالوں کو لگائی اور کہا: مجھے اس کی احتیاج نہ تھی مگر میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”نہیں درست ہے اس کو جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر یہ کہ سوگ کرے تین دن سے زیادہ البتہ عورت اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3735

وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْح ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ أَبِي عُبَيْدٍ ، حَدَّثَتْهُ، عَنْ حَفْصَةَ ، أَوْ عَنْ عَائِشَةَ ، أَوْ عَنْ كِلْتَيْهِمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَوْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا " ،

ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، یا دونوں سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں حلال ہے اس کو جو ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر یا ایمان لائے اللہ اور اس کے رسول پر، سوگ کرنا کسی مردے پر تین دن سے زیادہ البتہ عورت اپنے خاوند پر کر سکتی ہے۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3736

وحدثناه شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، بِإِسْنَادِ حَدِيثِ اللَّيْثِ مِثْلَ رِوَايَتِهِ،

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3737

وحدثناه أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ نَافِعًا ، يُحَدِّثُ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ : أَنَّهَا سَمِعَتْ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَابْنِ دِينَارٍ، وَزَادَ: فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا،

ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہی روایت ہے جو اوپر گزری اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”عورت اپنے خاوند پر سوگ کرے چار مہینے دس دن تک۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3738

وحدثنا أَبُو الرَّبِيعِ ، حدثنا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ جَمِيعًا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِهِمْ.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3739

وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وزُهَّيرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا " .

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ” جو عورت یقین رکھتی ہے اللہ تعالیٰ اور قیامت کا اس کو حلال نہیں ہے کسی مردے کا سوگ کرنا تین دن سے زیادہ سوا اپنے خاوند کے۔“

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3740

وحدثنا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حدثنا ابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " لَا تُحِدُّ امْرَأَةٌ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَمَسُّ طِيبًا، إِلَّا إِذَا طَهُرَتْ نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ " ،

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی عورت کسی مردے پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے مگر اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور اتنے دنوں تک رنگین کپڑا نہ پہنے مگر عصب کا کپڑا اور سرمہ نہ لگائے اور خوشبو نہ لگائے مگر جب حیض سے پاک ہو تو تھوری قسط یا اظفار (خوشبوؤں کا نام ہے) کا استعمال کرے۔“ (بقصد پاکی کے نہ زینت کے)۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3741

وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحدثنا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، كِلَاهُمَا عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَا: عَنْدَ أَدْنَى طُهْرِهَا نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ.

اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔

سوگ واجب ہے اس عورت پر جس کا خاوند مر جائے اور کسی حالت میں تین دن سے زیادہ سوگ کرنا حرام ہے

حد یث نمبر - 3742

وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حدثنا حَمَّادٌ ، حدثنا أَيُّوبُ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَت: " كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا نَكْتَحِلُ وَلَا نَتَطَيَّبُ، وَلَا نَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، وَقَدْ رُخِّصَ لِلْمَرْأَةِ فِي طُهْرِهَا إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ " .

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: منع کیے جاتے تھے ہم کسی مردے پر سوگ کرنے سے تین دن سے زیادہ مگر اپنے خاوند پر چار مہینے دس دن تک اور نہ سرمہ لگاتے تھے اور نہ خوشبو اور نہ کوئی رنگین کپڑا پہنتے تھے اور عورت کو اجازت تھی کہ جب حیض سے پاک ہو اور غسل کرے تو تھوڑی قسط اور اظفار کا استعمال کرے۔ (بدبو دور کرنے کو) «وَاللهُ الُْمُوَفِّقْ وَالْمُعِيْنُ»