حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَمَسْرُوقُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی پھر رجوع کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۸ (۲۲۸۳)، سنن النسائی/الطلاق ۷۶ (۳۵۹۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۴۹۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق ۲ (۲۳۱۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَلْعَبُونَ بِحُدُودِ اللَّهِ، يَقُولُ أَحَدُهُمْ: قَدْ طَلَّقْتُكِ قَدْ رَاجَعْتُكِ قَدْ طَلَّقْتُكِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اللہ کے حدود سے کھیل کرتے ہیں، ان میں سے ایک اپنی بیوی سے کہتا ہے: میں نے تجھے طلاق دے دی پھر تجھ سے رجعت کر لی، پھر تجھے طلاق دے دی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۱۲۰، ومصباح الزجاجة:۷۱۶)(ضعیف) (سند میں مؤمل بن اسماعیل مختلف فیہ راوی ہیں)
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيِّ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطلاق ۳ (۱۲۷۷،۱۲۷۸)،(تحفة الأشراف:۷۴۱۱)(ضعیف) (سند میں عبید اللہ بن الولید ضعیف راوی ہیں، صواب اس حدیث کا مرسل ہونا ہے اور ثقات نے اسے مرسلاً ہی روایت کیا ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہو جائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن النسائی/الطلاق ۱ (۳۴۱۹)،۵ (۳۴۲۹)،۷۶ (۳۵۸۵)،(تحفة الأشراف:۷۹۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ تفسیر الطلاق ۱۳ (۴۹۰۸)، الطلاق ۲ (۵۲۵۲)،۳ (۵۲۵۸)،۴۵ (۵۳۳۳)، الأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۷۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، موطا امام مالک/الطلاق ۲۰ (۵۲)، مسند احمد (۲/۴۳،۵۱،۷۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۱ (۲۳۰۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد یہ آیت کریمہ ہے: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ» (سورة الطلاق: 1) یعنی طلاق دو عورتوں کو ان کی عدت کے یعنی طہر کی حالت میں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "طَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو اس طہر میں ایک طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/الطلاق ۲ (۳۴۲۳)،(تحفة الأشراف:۹۵۱۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: تاکہ عورت کو عدت کے حساب میں آسانی ہو، اور اسی طہر سے عدت شروع ہو جائے، تین طہر کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی، عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے سے شادی کر سکتی ہے، طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور شرط یہ ہے کہ اس طہر سے پہلے جو حیض تھا اس میں طلاق نہ دی ہو، یا حمل کی حالت میں جب حمل ظاہر ہو گیا ہو اور اس کے سوا دوسری طرح طلاق دینا (مثلاً حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جب جماع کر چکا ہو یا حمل کی حالت میں جب وہ ظاہر نہ ہوا ہو، لیکن شبہ ہو، اسی طرح تین طلاق ایک بار دینا حرام ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا) اور حدیث میں جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اس طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دیں، تو اس میں یہ حکمت تھی کہ طلاق سے رجعت کا علم نہ ہو تو ایک طہر تک عورت کو رہنے دے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ سزا ان کے ناجائز فعل کی دی، اور بعضوں نے کہا یہ طہر اسی حیض سے متعلق تھا جس میں طلاق دی گئی تھی اس لئے دوسرے طہر کا انتظار کرے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ، قَالَ فِي طَلَاقِ السُّنَّةِ: "يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ تَطْلِيقَةً، فَإِذَا طَهُرَتِ الثَّالِثَةَ طَلَّقَهَا، وَعَلَيْهَا بَعْدَ ذَلِكَ حَيْضَةٌ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو ہر طہر میں ایک طلاق دے، جب تیسری بار پاک ہو تو آخری طلاق دیدے، اور اس کے بعد عدت ایک حیض ہو گی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دو حیض پہلے گزر چکے ہیں، یہ صورت اس وقت ہے، جب کہ عورت کو تین طلاق دینی ہو، اور بہتر یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو ایک ہی طلاق پر قناعت کرے، تین حیض یا تین طہر گزر جانے کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر مرد عدت گزر جانے کے بعد بھی چاہے تو اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے، لیکن تین طلاق دینے کے بعد وہ اس سے اس وقت تک شادی نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے سے شادی نہ کر لے، پھر وہ اسے طلاق دے دے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ أَبِي غَلَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: "تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، قُلْتُ: أَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ؟، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
ابو غلاب یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ ابن عمر رجوع کر لیں، میں نے پوچھا: کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟ انہوں نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو، اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے (تو کیا وہ شمار نہ ہو گی یعنی ضرور ہو گی)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الطلاق ۲ (۵۲۵۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۳)، سنن النسائی/الطلاق ۵ (۳۴۲۸)،(تحفة الأشراف:۸۵۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳،۵۱،۷۴،۷۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرٌ، أَوْ حَامِلٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں حکم دو کہ رجوع کر لیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۱)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۶)، سنن النسائی/الطلاق ۳ (۳۴۲۶)،(تحفة الأشراف:۶۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶،۵۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس میں عدت کی آسانی ہے اگر طہر میں طلاق دے اور حاملہ نہ ہو تو تین طہر یا حیض کے بعد مدت گزر جائے گی، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی عدت ختم جائے گی، عدت کا مقصد یہ ہے کہ حمل کی حالت میں عورت دوسرے شوہر سے جماع نہ کرائے ورنہ بچہ میں دوسرے مرد کا پانی بھی شریک ہو گا، اور یہ معیوب ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھہرا کہ جس طہر میں جماع نہ کیا جائے اس میں طلاق دے، اور تین حیض تک انتظار اس لئے ہوا کہ کبھی حمل کی حالت میں بھی ایک آدھ بار تھوڑا سا حیض آ جاتا ہے، لیکن جب تک تین حیض برابر آئے تو یقین ہوا کہ وہ حاملہ نہیں ہے، اب دوسرے مرد سے نکاح کرے، یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی نکاح کر سکتی ہے اگرچہ طلاق یا شوہر کی موت سے متصل ہی وضع حمل ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: "طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ مجھ سے اپنی طلاق کے بارے میں بیان کریں، تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے یمن کے سفر پر نکلتے وقت مجھے تین طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن ابی داود/الطلاق)۳۹ (۲۲۹۱)، سنن الترمذی/الطلاق ۵ (۱۱۸۰)، سنن النسائی/الطلاق ۷ (۳۴۳۲)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جمہور علماء و فقہاء نے دلیل لی ہے کہ اگر کوئی ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں پڑ جائیں گی، اس مسئلہ میں تین مذہب اور ہیں، ایک یہ کہ کچھ نہیں پڑے گا، نہ ایک نہ تین، کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت اور حرام ہے، اس مذہب کو ابن حزم نے امام احمد سے بھی نقل کیا ہے، اور کہا کہ روافض کا بھی یہی مذہب ہے، واضح رہے کہ تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اور اہل بیت سے امام باقر، امام صادق اور ناصر کا بھی یہی مذہب ہے،اور ابوعبید اور بعض ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی نہیں پڑتی اور یہ بھی بدعی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو تینوں پڑ جائیں گی اور مدخولہ نہیں ہے تو ایک پڑے گی، ایک جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ ایک طلاق رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہو یا نہ ہو، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا صحیح ترین مذہب یہی ہے، اور ابن اسحاق، عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت اسی کے قائل ہیں، سارے مذاہب میں یہ صحیح ہے، امام شوکانی نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اور چاروں مذاہب کے دلائل بیان کر کے اخیر قول کو ترجیح دی ہے، اور اس دور میں اس مسئلہ کو اختلافی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ تین طلاق ایک ہی بار دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی تھی عہد نبوت میں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں، اور شروع خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں، اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ تینوں طلاقیں پڑ جائیں گی، اور یہ ان کا اجتہاد ہے، جو اوروں پر حجت نہیں ہو سکتا، خصوصاً نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتوی ان کے اجتہاد سے رد نہیں ہو سکتا، اور ابن القیم نے اغاثۃ اللہفان میں اس مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق پڑے گی، امام شوکانی کہتے ہیں: ابوموسی اشعری، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن موسی، علی اور زید بن علی سے ایسا ہی منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم دونوں اسی طرف گئے ہیں، اور ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اور مشائخ قرطبہ کی جماعت سے ایسا ہی نقل کیا ہے، اور ابن منذر نے اصحاب ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان سب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،جو صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور شروع عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے پے در پے طلاق دینا شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے تینوں طلاق کو ان پر نافذ کردیا۔ علامہ ابن القیم نے اس مسئلہ کی تحقیق میں کتاب و سنت اور لغت اور صحابہ کے عمل سے دلیل لی، پھر کہا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ اور لغت اور عرف اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے خلیفہ اور صحابہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین برس تک لوگ اسی پر چلتے رہے، اگر کوئی ان کا شمار کرے تو ہزار سے زیادہ ان کی تعداد ہو گی، کسی نے اقرار کیا، کسی نے سکوت اختیار کیا، اور بعضوں نے جو کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے پھر لوگوں نے انہی کے فتوی پر اجماع کر لیا،تو یہ ثابت نہیں، ہر زمانہ میں علماء اسی عہد اول کے فتوی پر فتوی دیتے رہے، امت کے عالم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مروی حدیث کے مطابق فتوی دیا، اس کو حماد بن زید نے ایوب سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ جب کسی نے ایک ہی دفعہ میں کہا: تجھ کو تین طلاق ہیں، تو ایک ہی طلاق پڑے گی، اور زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، یہ ابن وضاح نے نقل کیا ہے، اور تابعین میں سے عکرمہ، طاؤس نے ایسا ہی فتوی دیا اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق اور خلاس بن عمرو الہجری نے ایسا ہی فتوی دیا اور اتباع تبع تابعین میں داود بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے ایسا ہی فتوی دیا ہے، غرض یہ کہ ہر زمانہ میں علماء اور ائمہ اس قول کے موافق فتویٰ دیتے رہے، اور یہ قول بالاجماع متروک نہیں ہوا، اور کیونکر ہو سکتا ہے جب کتاب و سنت اور قیاس اور اجماع قدیم سے یہی ثابت ہے، اور اس کے بعد کسی اجماع نے اس کو باطل نہیں کیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مصلحت سے اس کے خلاف رائے تجویز کی اور ان کا یہ فیصلہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہو سکتا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرے اور اس کے خلاف کسی کے فتوی اور کسی کا قیاس قبول نہ کرے، خواہ وہ کوئی ہو، اور اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے " إعلام الموقعين، إغاثة اللهفان، رسالہ شوکانی، نیل الاوطار، مسک الختام، سنن ابن ماجہ مع حاشیہ مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی " کی طرف رجوع کیجئے، نیز " تسمية المفتين" کے نام سے ایک رسالہ اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے جس میں قدیم و جدید علماء کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہے جو تین طلاقوں کو ایک قرار دیتی ہے۔ (فریوائی)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ الْحُصَيْنِ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا؟، فَقَالَ عِمْرَانُ: "طَلَّقْتَ بِغَيْرِ سُنَّةٍ، وَرَاجَعْتَ بِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا".
مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس سے جماع کرے، اور اپنی طلاق اور رجعت پہ کسی کو گواہ نہ بنائے؟ تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سنت کے خلاف طلاق دی، اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت پہ گواہ بناؤ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۵ (۲۱۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۰۸۶۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: گواہی ان دونوں کے لئے شرط نہیں، ہاں مسنون ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجٍ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، أَنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ، فَقَالَتْ لَهُ وَهِيَ حَامِلٌ: طَيِّبْ نَفْسِي بِتَطْلِيقَةٍ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَرَجَعَ وَقَدْ وَضَعَتْ، فَقَالَ: مَا لَهَا خَدَعَتْنِي خَدَعَهَا اللَّهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "سَبَقَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ اخْطُبْهَا إِلَى نَفْسِهَا".
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے کیا ہو گیا؟ اس نے مجھ سے مکر کیا ہے، اللہ اس سے مکر کرے، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کتاب کی میعاد گزر گئی(اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۶۴۵، ومصباح الزجاجة:۷۱۷)(صحیح) (حدیث کے شواہد ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء:۲۱۱۷)
وضاحت: ۱؎: اگر وہ منظور کرے تو نیا نکاح ہو سکتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ کی عدت طلاق میں بھی وضع حمل ہے، جیسے شوہر کے انتقال کے بعد بھی حاملہ کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: «وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ» (الطلاق: 4)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بِنْتُ الْحَارِثِ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِبِضْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَشَوَّفَتْ، فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، وَذُكِرَ أَمْرُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ مَضَى أَجَلُهَا".
ابوسنابل کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس سے کچھ زائد دنوں بعد بچہ جنا، جب وہ نفاس سے پاک ہو گئیں تو شادی کی خواہشمند ہوئیں، تو یہ معیوب سمجھا گیا، اور اس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے کیونکہ اس کی عدت گزر گئی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱۷ (۱۱۹۳)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۴۹)،(تحفة الأشراف:۱۲۰۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۰۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، وَعَمْرِو بْنِ عُتْبَةَ، أنهما كتبا إلى سبيعة بنت الحارث يسألانها عَنْ أَمْرِهَا، فَكَتَبَتْ إِلَيْهِمَا إِنَّهَا وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ، فَتَهَيَّأَتْ تَطْلُبُ الْخَيْرَ، فَمَرَّ بِهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَقَالَ: قَدْ أَسْرَعْتِ اعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَفِيمَ ذَاكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "إِنْ وَجَدْتِ زَوْجًا صَالِحًا، فَتَزَوَّجِي".
مسروق اور عمرو بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو خط لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ ان کا کیا معاملہ تھا؟ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو جواب لکھا کہ ان کے شوہر کی وفات کے پچیس دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر وہ خیر یعنی شوہر کی تلاش میں متحرک ہوئیں، تو ان کے پاس ابوسنابل بن بعکک گزرے تو انہوں نے کہا کہ تم نے جلدی کر دی، دونوں میعادوں میں سے آخری میعاد چار ماہ دس دن عدت گزارو، یہ سن کر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کس لیے"؟ میں نے صورت حال بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کوئی نیک اور دیندار شوہر ملے تو شادی کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي۱۰تعلیقاً (۳۹۹۱)، الطلاق ۳۹ (۵۳۱۹)، صحیح مسلم/الطلاق ۸ (۱۴۸۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۶)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۴۸)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَمَرَ سُبَيْعَةَ أَنْ تَنْكِحَ إِذَا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ نفاس سے پاک ہونے کے بعد شادی کر لیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۹ (۵۳۲۰)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۳۶)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۷۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۰ (۸۵)، مسند احمد (۴/۳۲۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہی حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، جس میں شوہر کے موت کے دس دن بعد بچہ جننے کا ذکر ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: " وہ نکاح کرے " اور احمد اور دارقطنی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آیت کریمہ: «وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ» (سورة الطلاق: 4) کا حکم مطلقہ اور جس کا شوہر مر جائے دونوں کے لیے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: " دونوں کے لیے ہے"، اس کو ابویعلی نے مسند میں، ضیاء مقدسی نے مختارہ میں اور ابن مردویہ نے تفسیر میں روایت کیا ہے، اس کی سند میں مثنی بن صباح کو ابن مردویہ نے ثقہ کہا ہے، اور ابن معین نے بھی ثقہ کہا جب کہ اکثر نے ان کو ضعیف کہا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "وَاللَّهِ لَمَنْ شَاءَ لَاعَنَّاهُ لَأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جو کوئی چاہے ہم اس سے لعان کر لیں کہ چھوٹی سورۃ نساء (سورۃ الطلاق) اس آیت کے بعد اتری ہے جس میں چار ماہ دس دن کی عدت کا حکم ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۷)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۵۲)،(تحفة الأشراف:۹۵۷۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ۲ (۴۹۰۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور سورہ طلاق میں یہ آیت «وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ» (سورة الطلاق: 4) حاملہ عورتوں کے باب میں ناسخ ہو گی پہلی آیت کی البتہ غیر حاملہ وفات کی عدت چار مہنیے دس دن گزارے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ أُخْتَهُ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكٍ، قَالَتْ: خَرَجَ زَوْجِي فِي طَلَبِ أَعْلَاجٍ لَهُ، فَأَدْرَكَهُمْ بِطَرَفِ الْقَدُومِ فَقَتَلُوهُ، فَجَاءَ نَعْيُ زَوْجِي وَأَنَا فِي دَارٍ مِنْ دُورِ الْأَنْصَارِ شَاسِعَةٍ، عَنْ دَارِ أَهْلِي، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جَاءَ نَعْيُ زَوْجِي، وَأَنَا فِي دَارٍ شَاسِعَةٍ عَنْ دَارِ أَهْلِي وَدَارِ إِخْوَتِي وَلَمْ يَدَعْ مَالًا يُنْفِقُ عَلَيَّ، وَلَا مَالًا وَرِثْتُهُ وَلَا دَارًا يَمْلِكُهَا، فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْذَنَ لِي، فَأَلْحَقَ بِدَارِ أَهْلِي وَدَارِ إِخْوَتِي، فَإِنَّهُ أَحَبُّ إِلَيَّ وَأَجْمَعُ لِي فِي بَعْضِ أَمْرِي، قَالَ: "فَافْعَلِي إِنْ شِئْتِ"، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ قَرِيرَةً عَيْنِي، لِمَا قَضَى اللَّهُ لِي عَلَى لِسَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ، أَوْ فِي بَعْضِ الْحُجْرَةِ دَعَانِي، فَقَالَ: "كَيْفَ زَعَمْتِ؟"، قَالَتْ: فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "امْكُثِي فِي بَيْتِكِ الَّذِي جَاءَ فِيهِ نَعْيُ زَوْجِكِ، حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ"، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.
زینب بنت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہما جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے شوہر اپنے کچھ غلاموں کی تلاش میں نکلے اور ان کو قدوم کے کنارے پا لیا، ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا، میرے شوہر کے انتقال کی خبر آئی تو اس وقت میں انصار کے ایک گھر میں تھی، جو میرے کنبہ والوں کے گھر سے دور تھا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے شوہر کی موت کی خبر آئی ہے اور میں اپنے کنبہ والوں اور بھائیوں کے گھروں سے دور ایک گھر میں ہوں، اور میرے شوہر نے کوئی مال نہیں چھوڑا جسے میں خرچ کروں یا میں اس کی وارث ہوں، اور نہ اپنا ذاتی کوئی گھر چھوڑا جس کے وہ مالک ہوتے، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے خاندان کے گھر اور بھائیوں کے گھر میں آ جاؤں؟ یہ مجھے زیادہ پسند ہے، اس میں میرے بعض کام زیادہ چل جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم چاہتی ہو تو ایسا کر لو"۔ فریعہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں یہ سن کر ٹھنڈی آنکھوں کے ساتھ خوش خوش نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پہ مجھے حکم دیا تھا، یہاں تک کہ میں ابھی مسجد میں یا حجرہ ہی میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: "کیا کہتی ہو"؟ میں نے سارا قصہ پھر بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسی گھر میں جہاں تمہارے شوہر کے انتقال کی خبر آئی ہے ٹھہری رہو یہاں تک کہ کتاب (قرآن) میں لکھی ہوئی عدت (چار ماہ دس دن) پوری ہو جائے، فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت کے گزارے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۴ (۲۳۰۰)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۳ (۱۲۰۴)، سنن النسائی/الطلاق۶۰ (۳۵۵۸)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۴۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۱ (۸۷)، مسند احمد (۶/۳۷۰،۴۲۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "دَخَلْتُ عَلَى مَرْوَانَ، فَقُلْتُ لَهُ: امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِكَ طُلِّقَتْ، فَمَرَرْتُ عَلَيْهَا وَهِيَ تَنْتَقِلُ، فَقَالَتْ: أَمَرَتْنَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ وَأَخْبَرَتْنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: هِيَ أَمَرَتْهُمْ بِذَلِكَ، قَالَ عُرْوَةُ: فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ، وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَسْكَنٍ وَحْشٍ، فَخِيفَ عَلَيْهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے خاندان کی ایک عورت کو طلاق دے دی گئی، میرا اس کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ گھر سے منتقل ہو رہی ہے، اور کہتی ہے: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے ہمیں حکم دیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر بدلنے کا حکم دیا تھا، مروان نے کہا: اسی نے اسے حکم دیا ہے۔ عروہ کہتے ہیں کہ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس چیز کو ناپسند کیا ہے، اور کہا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک خالی ویران مکان میں تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں ڈر پیدا ہوا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکان بدلنے کی اجازت دی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۴ (۵۳۲۱،۵۳۲۶، تعلیقاً)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۰ (۲۲۹۲)،(تحفة الأشراف:۱۷۰۱۸)(حسن)(سندمیں عبد العزیز بن عبد اللہ اور عبد الرحمن بن ابی الزناد ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود:۱۹۸۴ و فتح الباری:۹ /۴۲۹- ۴۸۰)
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ زبان درازی کی وجہ سے آپ ﷺ نے ان کو اجازت دی تاکہ لڑائی نہ ہو، مروان نے کہا: اس بیوی اور شوہر میں بھی ایسی لڑائی ہے، لہٰذا اس کا ہٹا دینا بجا ہے، غرض مروان نے یہ قیاس کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ فَأَمَرَهَا، أَنْ تَتَحَوَّلَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! میں ڈرتی ہوں کہ کوئی میرے پاس گھس آئے، تو آپ نے انہیں وہاں سے منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۲)، سنن النسائی/الطلاق ۷۰ (۳۵۷۷)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ، أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "بَلَى، فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی، پھر انہوں نے اپنی کھجوریں توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک شخص نے انہیں گھر سے نکل کر باغ جانے پر ڈانٹا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھیک ہے، تم اپنی کھجوریں توڑو، ممکن ہے تم صدقہ کرو یا کوئی کار خیر انجام دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۷ (۱۴۸۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۱ (۲۲۹۷)، سنن النسائی/الطلاق ۷۱ (۳۵۸۰)،(تحفة الأشراف:۲۷۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۲۱)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو عورت طلاق کی عدت میں ہو اس کا گھر سے نکلنا جائز ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بْنِ صُخَيْرٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: "إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً".
ابوبکر بن ابی جہم بن صخیر عدوی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکنیٰ (جائے رہائش) اور نفقہ کا حقدار نہیں قرار دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن الترمذی/النکاح ۳۸ (۱۱۳۵)، سنن النسائی/الطلاق ۱۵ (۳۴۴۷)،۷۲ (۳۵۸۱)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۱۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اہلحدیث کے نزدیک طلاق رجعی والی عورت کا نفقہ (خرچ) اور سکنی (رہائش) شوہر پر واجب ہے، اور جس کو طلاق بائنہ یعنی تین طلاق دی جائیں اس کے لئے نہ نفقہ ہے نہ سکنی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور، ابو داود اور ان کے اتباع کا یہی مذہب ہے، اور بحر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری، عطاء، شعبی، ابن ابی لیلیٰ، اوزاعی اور امامیہ کا قول بھی یہی نقل کیا گیا ہے، اسی طرح جس عورت کا شوہر وفات پا گیا ہو اس کے لئے بھی عدت میں نفقہ اور سکنی نہیں ہے، اہلحدیث کے نزدیک البتہ حاملہ ہو تو وضع حمل تک نفقہ اور سکنی واجب ہے خواہ وفات پائے ہوئے شوہر والی ہو یا طلاق بائن والی کیونکہ قرآن میں ہے: «وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ» (سورة الطلاق: 6)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: طَلَّقَنِي زَوْجِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا سُكْنَى لَكِ وَلَا نَفَقَةَ".
شعبی کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے شوہر نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تین طلاقیں دے دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے نہ سکنی (رہائش) ہے، نہ نفقہ (اخراجات)" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن الترمذی/الطلاق ۵ (۱۱۸۰)، سنن النسائی/الطلاق ۷ (۳۴۳۲)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اہلحدیث نے اس متفق علیہ حدیث سے دلیل لی ہے، صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ تیرے لئے نفقہ نہیں ہے مگر جب تو حاملہ ہو، جمہور کہتے ہیں کہ عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کا انکار کیا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور نبی کی سنت ایک عورت کے قول سے نہیں چھوڑ سکتے، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا، یا بھول گئی، اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جب یہ بات پہنچی، تو انہوں نے کہا: تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ» (سورة الطلاق: 1) یہاں تک فرمایا: «لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا» (سورة الطلاق: 1) تین طلاق کے بعد کون سا امر پیدا ہو گا (یعنی رجوع کی امید نہیں تو نفقہ اور سکنی بھی واجب نہ ہو گا) اہل حدیث یہ بھی کہتے ہیں کہ امام احمد اور نسائی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: " نفقہ اور سکنی اس عورت کے لئے ہے جس سے اس کا شوہر رجوع کر سکتا ہو " اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب رجوع نہ کر سکتا ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکنی، اس کی سند میں مجالد بن سعید ہیں ان کی متابعت بھی ہوئی ہے اور وہ ثقہ ہیں تو اس کا حدیث کو مرفوع روایت کرنا مقبول ہو گا، اور قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں جو نفقہ اور سکنی کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ سب مطلقہ رجعی سے متعلق ہیں جیسے: «لا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ» (سورة الطلاق: 1) اور «أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ» (سورة الطلاق: 6) اور «وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ» (سورة البقرة: 241) اور دلیل اس تخصیص کی فاطمہ بنت قیس کی حدیث ہے، اور یہ آیت: «لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا» (سورة الطلاق: 1) اور یہ آیت: «وَإِن كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ» (سورة الطلاق: 6) کیونکہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر حاملہ نہ ہوں تو ان کو خرچ دینا واجب نہیں، اور بیہقی میں جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس حاملہ عورت کا شوہر مر جائے اس کو نفقہ نہیں ہے، اس کے بارے میں ابن حجر نے کہا کہ محفوظ یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا کہ وفات والی کے لئے سکنی نہیں ہے وہ جہاں چاہے عدت گزارے، اور مالک رحمہ اللہ نے کہا: اس کے لئے سکنی ہے، اور شافعی کے اس باب میں دو قول ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ أَبُو الْأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، أَنَّ عَمْرَةَ بِنْتَ الْجَوْنِ تَعَوَّذَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: "لَقَدْ عُذْتِ بِمُعَاذٍ، فَطَلَّقَهَا، وَأَمَرَ أُسَامَةَ، أَوْ أَنَسًا فَمَتَّعَهَا بِثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ رَازِقِيَّةٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب عمرہ بنت جون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اللہ کی)پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نے ایسی ہستی کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دے دی، اور اسامہ رضی اللہ عنہ یا انس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اسے سفید کتان کے تین کپڑے دیئے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۰۹۷، ومصباح الزجاجة:۷۱۸)(منکر) (اسا مہ اور انس رضی اللہ عنہما کا ذکر اس حدیث میں منکر ہے، لیکن صحیح بخاری میں اس لفظ سے ثابت ہے، «فأمر أبا أ سید أن یجہزہا ویکسوہا ثوبین رازقیتین»(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید کو حکم دیا کہ اس کو تیار کریں، اور دو سفید کتان کے کپڑے پہنائیں، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء:۷/ ۱۴۶)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ أَبُو حَفْصٍ التَّنِّيسِيُّ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا ادَّعَتِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ زَوْجِهَا، فَجَاءَتْ عَلَى ذَلِكَ بِشَاهِدٍ عَدْلٍ اسْتُحْلِفَ زَوْجُهَا، فَإِنْ حَلَفَ بَطَلَتْ شَهَادَةُ الشَّاهِدِ، وَإِنْ نَكَلَ، فَنُكُولُهُ بِمَنْزِلَةِ شَاهِدٍ آخَرَ وَجَازَ طَلَاقُهُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب عورت دعویٰ کرے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے، اور طلاق پہ ایک معتبر شخص کو گواہ لائے (اور اس کا مرد انکار کرے) تو اس کے شوہر سے قسم لی جائے گی، اگر وہ قسم کھا لے تو گواہ کی گواہی باطل ہو جائے گی، اور اگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اس کا انکار دوسرے گواہ کے درجہ میں ہو گا، اور طلاق جائز ہو جائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۵۲، ومصباح الزجاجة:۷۱۹)(ضعیف) (سند میں زہیر بن محمد ضعیف حافظہ والے راوی ہیں، اور ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین کام ہیں جو سنجیدگی سے کرنا بھی حقیقت ہے، اور مذاق کے طور پر کرنا بھی حقیقت ہے، ایک نکاح، دوسرے طلاق، تیسرے (طلاق سے) رجعت" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۹ (۲۱۹۴)، سنن الترمذی/الطلاق ۹ (۱۱۸۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۵۴)(حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حسن کے درجہ کو ہے، عبد الرحمن بن حبیب میں ضعف ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کے طور پر اور اس کے مقابل جِد ہے یعنی درحقیقت ایک کام کا کرنا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَاخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ جَمِيعًا، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا اسے زبان سے نہ کہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۶ (۲۵۲۸)، الطلاق ۱۱ (۵۲۶۹)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۵۸ (۱۲۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۵ (۲۲۰۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۸ (۱۱۸۳)، سنن النسائی/الطلاق ۲۲ (۳۴۶۴،۳۴۶۵)،(تحفة الأشراف:۱۲۸۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۹۸،۴۲۵،۴۷۴،۴۸۱،۴۹۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: دل میں اگر طلاق کا خیال گزرے لیکن زبان سے کچھ نہ کہے تو طلاق واقع نہ ہو گی، سب امور میں یہی حکم ہے جیسے عتاق، رجوع، بیع وشراء وغیرہ میں، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ کا اگر کوئی ارادہ کرے لیکن ہاتھ پاؤں یا زبان سے اس کو نہ کرے تو لکھا نہ جائے گا، یعنی اس پر اس کی پکڑ نہ ہو گی، یہ اللہ تعالی کی اس امت پر عنایت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ، أَوْ يُفِيقَ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَدِيثِهِ: وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے: ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے پاگل اور دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آ جائے"۔ ابوبکر کی روایت میں «وعن المجنون حتى يعقل» کے بجائے «وعن المبتلى حتى يبرأ» "دیوانگی میں مبتلا شخص سے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے" ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۱۶ (۴۳۹۸)، سنن النسائی/الطلاق ۲۱ (۳۴۶۲)،(تحفة الأشراف:۱۵۹۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۰۰،۱۰۱،۱۴۴)، سنن الدارمی/الحدود ۱ (۲۳۴۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ان میں سے کسی کی طلاق نہ پڑے گی، لیکن پاگل اور دیوانے میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک اس کی طلاق پڑ جائے گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنْبَأَنَا الْقَاسِمُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يُرْفَعُ الْقَلَمُ عَنِ الصَّغِيرِ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ، وَعَنِ النَّائِمِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچے، دیوانے اور سوئے ہوئے شخص سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۲۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحدود ۱ (۱۴۲۳)(صحیح) (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں القاسم بن یزید مجہول ہیں، اور ان کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ".
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کر دیئے جاؤ معاف کر دیا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۲۲)(صحیح) (سند میں ابو بکرالہذلی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: جب اللہ تعالی نے اس کو معاف کیا، اور دنیا کے احکام میں معافی ہو گئی، تو جب اس نے بھولے سے طلاق دی یا مجبوری کی حالت میں تو طلاق نہ پڑے گی۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا تُوَسْوِسُ بِهِ صُدُورُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهِ، أَوْ تَتَكَلَّمْ بِهِ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کر دیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ مجبور کر دیئے جائیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظرحدیث رقم:۲۰۴۰ (صحیح) (حدیث میں «وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» کا لفظ شاذ ہے، لیکن اگلی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں یہ لفظ ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: شیخ عبدالحق محدث رحمہ اللہ لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اسی حدیث کی رو سے یہ حکم دیا ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس کی طلاق اور عتاق (آزادی) نہ پڑے گی اور ہمارے مذہب (حنفی) میں قیاس کی رو سے ہزل پر طلاق اور عتاق دونوں پڑ جائے گی تو جو عقد ہزل میں نافذ ہو جاتا ہے۔ وہ اکراہ (زبردستی) میں بھی نافذ ہو جائے گا، مولانا وحید الزمان صاحب اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ حنفیہ نے قیاس کو حدیث پر مقدم رکھا، اور نہ صرف اس حدیث پر بلکہ ابوذر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث پر بھی جو اوپر گزریں، اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حنفیہ نے جو اصول بنائے ہیں کہ خبر واحد، مرسل حدیث اور ضعیف حدیث بلکہ صحابی کا قول بھی قیاس پر مقدم ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، سیکڑوں مسائل میں انہوں نے قیاس کو احادیث صحیحہ پر مقدم رکھا ہے، اور یقیناً یہ متاخرین حنفیہ کا فعل ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس سے بالکل بری تھے، جیسے انہوں نے نبیذ سے وضو اور نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے میں ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کر دیا ہے، تو بھلا صحیح حدیث کے خلاف وہ کیونکر اپنا قیاس قائم رکھتے، اور محدثین نے باسناد مسلسل امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حدیث پر عمل لازم ہے، اور میرا قول حدیث کی وجہ سے چھوڑ دینا، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جب تک لوگ علم حدیث حاصل کرتے رہیں گے اچھے رہیں گے، اور جب حدیث چھوڑ دیں گے تو بگڑ جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ حنفیہ نے اس باب میں اپنے امام کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیئے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۹۰۵، ومصباح الزجاجة:۷۲۲)(صحیح)(ملاحظہ ہو: الإرواء:۸۲)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زبردستی کی صورت میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ عتاق (غلامی سے آزادی)"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۸ (۲۱۹۳)،(تحفة الأشراف:۱۷۸۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۷۶)(حسن) (سند میں عبید بن صالح ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء:۱/۲۰۴۷ و صحیح أبی داود:۱۹۰۳)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ جَمِيعًا، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا طَلَاقَ فِيمَا لَا تَمْلِكُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی جس عورت کا بطور نکاح مالک نہیں اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث ھشیم أخرجہ: سنن الترمذی/الطلاق ۶ (۱۱۸۱)، تحفة الأشراف:۸۷۲۱)، وحدیث حاتم بن اسماعیل أخرجہ: سنن ابی داود/لطلاق ۷ (۲۱۹۱،۲۱۹۲)، تحفة الأشراف:۸۷۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/ ۱۸۵)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اب اگر کوئی طلاق دے تو اس کا فعل لغو ہے، مثلاً یوں کہے: جس عورت سے میں نکاح کروں اس کو طلاق ہے، اور اس کے بعد نکاح کرے تو اس کہنے سے طلاق نہ پڑے گی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا طَلَاقَ قَبْلَ نِكَاحٍ وَلَا عِتْقَ قَبْلَ مِلْكٍ".
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نکاح سے پہلے طلاق نہیں، اور ملکیت سے پہلے آزادی نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۲۷۷، ومصباح الزجاجة:۷۲۳)(حسن صحیح) (سند میں ہشام بن سعد ضعیف راوی ہیں، اور علی بن الحسین مختلف فیہ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء:۷/ ۱۵۲)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ، عَنْ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نکاح سے پہلے طلاق نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۲۹۴، ومصباح الزجاجة:۷۲۴)(صحیح) (سند میں جویبر ضعیف راوی ہے، لیکن سابقہ شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ: أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ".
اوزاعی کہتے ہیں میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بیوی نے آپ سے اللہ کی پناہ مانگی تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جَون کی بیٹی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت میں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے تو بولی: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے ایک بڑی ہستی کی پناہ مانگی ہے تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳ (۵۲۵۴)، سنن النسائی/الطلاق ۱۴ (۳۴۴۶)،(تحفة الأشراف:۱۶۵۱۲)(صحیح) (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: حدیث:۲۰۳۷)
وضاحت: ۱؎: اس لفظ «الحقي بأهلك» " یعنی اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ " میں طلاق سے کنایہ ہے، ایک تو صاف طلاق کا لفظ ہے، دوسرے وہ الفاظ ہیں جن کو کنایات کہتے ہیں، ان میں بعض الفاظ سے طلاق پڑتی ہے، بعض سے نہیں پڑتی، اور جن سے پڑتی ہے ان میں یہ شرط ہے کہ طلاق کی نیت سے کہے، اہل حدیث کے نزدیک یوں کہنے سے کہ تو مجھ پر حرام ہے، طلاق نہیں پڑتی، بخاری ومسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی روایت کیا ہے اور نسائی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہنے لگا: میں نے اپنی عورت کو حرام کر لیا، انہوں نے کہا: تم نے جھوٹ اور غلط کہا، وہ تم پر حرام نہیں ہے، پھر یہ آیت پڑھی: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ» (سورة التحريم: 1) اور سب سے سخت کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ؟، فَقَالَ: "مَا أَرَدْتَ بِهَا؟"، قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: "آللَّهِ مَا أَرَدْتَ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً، قَالَ: آللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً"، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ، قَالَ مُحَمَّد بْن مَاجَةَ: سَمِعْت أَبَا الْحَسَنِ عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيَّ يَقُولُ: مَا أَشْرَفَ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ ابْن مَاجَةَ: أَبُو عُبَيْدٍ تَرَكَهُ نَاجِيَةُ وَأَحْمَدُ جَبُنَ عَنْهُ.
رکانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (قطعی طلاق) دے دی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا: "تم نے اس سے کیا مراد لی ہے"؟ انہوں نے کہا: ایک ہی مراد لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "قسم اللہ کی کیا تم نے اس سے ایک ہی مراد لی ہے"؟، انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں نے اس سے صرف ایک ہی مراد لی ہے، تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی ۱؎۔ محمد بن ماجہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن حسن بن علی طنافسی کو کہتے سنا: یہ حدیث کتنی عمدہ ہے۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: ابوعبیدہ نے یہ حدیث ایک گوشے میں ڈال دی ہے، اور احمد اسے روایت کرنے کی ہمت نہیں کر سکے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۴ (۲۲۰۶،۲۲۰۷،۲۲۰۸)، سنن الترمذی/الطلاق ۲ (۱۱۷۷)،(تحفة الأشراف:۳۶۱۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق ۸ (۲۳۱۸)(ضعیف) (اس کے تین رواة زبیری سعید، عبداللہ بن علی، اور علی بن یزید ضعیف ہیں، دیکھئے: إرواء الغلیل:۲۰۶۳)
وضاحت: ۱؎: «بتہ»: تین طلاق کو «بتہ» کہتے ہیں، کیونکہ «بت» کے معنی ہیں قطع کرنا، اور تین طلاقوں سے عورت شوہر سے بالکل الگ ہو جاتی ہے، پھر اس سے رجعت نہیں ہو سکتی، اور عدت گزر جانے کے بعد ایک طلاق بھی «بتہ» یعنی بائن ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ فَلَمْ نَرَهُ شَيْئًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا تو ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۲ (۲۲۰۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۴ (۱۱۷۹)، سنن النسائی/النکاح ۲ (۳۲۰۴)، الطلاق ۲۷ (۳۴۷۲)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۵،۱۷۱،۱۷۳،۱۸۵،۲۰۲،۲۰۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۵ (۲۳۱۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: چاہے طلاق دے لے اور چاہے شوہر کو پسند کرے، پس اگر عورت نے شوہر کو اختیار کیا تو طلاق نہ پڑے گی، یہی قول اہل حدیث کا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة الأحزاب آية 29 دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ، أَنْ لَا تَعْجَلِي فِيهِ حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ"، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: فَقَرَأَ عَلَيَّ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28 الْآيَاتِ، فَقُلْتُ: فِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ قَدِ اخْتَرْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «وإن كنتن تردن الله ورسوله» اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس آ کر فرمایا:"عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تم اس میں جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ کر لینا جلد بازی نہ کرنا"، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کی قسم! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ کبھی بھی آپ کو چھوڑ دینے کے لیے نہیں کہیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر یہ آیت پڑھی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» (سورة الأحزاب: 28) "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش و زیبائش پسند کرتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ دے کر اچھی طرح رخصت کر دوں، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور یوم آخرت کو چاہتی ہو تو تم میں سے جو نیک ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ..." (یہ سن کر) میں بولی: کیا میں اس میں اپنے ماں باپ سے مشورہ لینے جاؤں گی! میں اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کر چکی ہوں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ۴ (۴۷۸۵)،۵ (۴۷۸۶تعلیقاً)، سنن النسائی/النکاح ۲ (۳۲۰۳)، الطلاق ۲۶ (۳۴۷۰)،(تحفة الأشراف:۱۶۶۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۵)، سنن الترمذی/تفسیر الأحزاب (۳۲۰۴)، مسند احمد (۶/۷۸،۱۰۳،۱۵۳،۱۶۳،۱۸۵،۲۴۸،۲۶۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: پھر آپ ﷺ نے سب بیویوں سے اسی طرح کہا، لیکن سب نے اللہ و رسول کو اختیار کیا، اور دنیا پر خاک ڈالی، اللہ تعالی کی لعنت دنیا کی چار دن کی بہار پر ہے، پھر آخر اللہ کے پاس جانا ہے، پس آخرت کی بھلائی سب پر مقدم ہے، دنیا تو بری یا بھلی کسی بھی طرح گزر جاتی ہے، لیکن آخرت ہمیشہ رہنا ہے، اللہ آخرت سنوارے۔ آمین۔
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ يَحْيَى بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَمِّهِ عُمَارَةَ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَتَجِدَ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت بغیر کسی حقیقی وجہ اور واقعی سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ جنت کی خوشبو پا سکے، جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے پائی جاتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۹۳۸، ومصباح الزجاجة:۷۲۵)(ضعیف) (سند میں ثوبان مجہول الحال راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: خلع: عورت کچھ مال شوہر کو دے کر اس سے الگ ہو جائے اس کو خلع کہتے ہیں، خلع کا بدل کم ہو یا زیادہ جس پر اتفاق ہو جائے سب صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۶)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۱ (۱۱۸۷)،(تحفة الأشراف:۲۱۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۷،۲۸۳)، سنن الدارمی/الطلاق ۶ (۲۳۱۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَمِيلَةَ بِنْتَ سَلُولَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ، وَلَا خُلُقٍ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ لَا أُطِيقُهُ بُغْضًا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟"، قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهَا حَدِيقَتَهُ وَلَا يَزْدَادَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کی قسم میں (اپنے شوہر)ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر (شوہر کی ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "کیا ان کا دیا ہوا باغ واپس لوٹا دو گی"؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں، اور زیادہ نہ لیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۲۰۵، ومصباح الزجاجة:۶۲۰۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۲ (۵۲۷۳،۵۲۷۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۸۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۰ (۱۱۸۵)، سنن النسائی/الطلاق ۳۴ (۳۴۹۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحیح سند سے دارقطنی کی روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ثابت نے مہر میں اس کو ایک باغ دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اس کا باغ واپس کر دیتی ہو جو اس نے تم کو دیا ہے؟ تو انہوں کہا: ہاں، باغ بھی دیتی ہوں اور کچھ زیادہ بھی دیتی ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: زیادہ نہیں، صرف باغ لوٹا دو، اس نے کہا: بہت اچھا۔ معلوم ہوا کہ شوہر نے جو بیوی کو دیا خلع کے بدلے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں، علی، طاؤس، عطاء، زہری، ابوحنیفہ، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ اور جمہور کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بھی لینا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فلا جناح عليهما فيما افتدت به»، اور یہ عام ہے، قلیل اور کثیر دونوں کو شامل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں سے اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَتْ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ اللَّهِ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ لَبَصَقْتُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟"، قَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ، قَالَ: فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں، وہ ناٹے اور بدصورت آدمی تھے، حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو ثابت جب میرے پاس آئے تو میں ان کے منہ پر تھوک دیتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم ان کا باغ واپس لوٹا دو گی"؟ کہا: ہاں، اور ان کا باغ انہیں واپس دے دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۶۷۷، ومصباح الزجاجة:۷۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳)(ضعیف) (سند میں حجاج بن أرطاہ ضعیف اور مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن صحیح احادیث اس سے مستغنی کر دیتی ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، أَخْبَرَنِيعُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، قَالَ: "قُلْتُ لَهَا: حَدِّثِينِي حَدِيثَكِ، قَالَتْ: اخْتَلَعْتُ مِنْ زَوْجِي، ثُمَّ جِئْتُ عُثْمَانَ، فَسَأَلْتُ مَاذَا عَلَيَّ مِنَ الْعِدَّةِ؟، فَقَالَ: لَا عِدَّةَ عَلَيْكِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ حَدِيثَ عَهْدٍ بِكِ، فَتَمْكُثِينَ عِنْدَهُ حَتَّى تَحِيضِينَ حَيْضَةً، قَالَتْ: وَإِنَّمَا تَبِعَ فِي ذَلِكَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرْيَمَ الْمَغَالِيَّةِ، وَكَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ، فَاخْتَلَعَتْ مِنْهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے کہا: تم مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرو، انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کرا لیا، پھر میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا: مجھ پر کتنی عدت ہے؟ انہوں نے کہا: تم پر کوئی عدت نہیں مگر یہ کہ تمہارے شوہر نے حال ہی میں تم سے صحبت کی ہو، تو تم اس کے پاس رکی رہو یہاں تک کہ تمہیں ایک حیض آ جائے، ربیع رضی اللہ عنہا نے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی پیروی کی، جو آپ نے بنی مغالہ کی خاتون مریم رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں کیا تھا، جو ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں اور ان سے خلع کر لیا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۵۳ (۳۵۲۸)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۳۶)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: نسائی میں ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ثابت کی عورت کے قصے میں نبی کریم ﷺ نے اس سے فرمایا: " جو تمہارا اس کے پاس ہے وہ لے لو اور اس کو چھوڑ دو " ثابت نے کہا: اچھا، پھر نبی کریم ﷺ نے اس کو ایک حیض کی عدت گزارنے کا حکم دیا۔ اور یہ کئی طریق سے مروی ہے، ان حدیثوں سے یہ نکلتا ہے کہ خلع کرانے والی کی عدت ایک حیض ہے اور خلع نکاح کا فسخ ہے، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اگر خلع طلاق ہوتا تو اس کی عدت تین حیض ہوتی، ابوجعفر النحاس نے الناسخ والمنسوخ میں اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور یہی دلائل کی روشنی میں زیادہ صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "أَقْسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا كَانَ مِسَاءَ ثَلَاثِينَ دَخَلَ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، فَقَالَ: "شَهْرٌ هَكَذَا يُرْسِلُ أَصَابِعَهُ فِيهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَشَّهْرُ هَكَذَا وَأَرْسَلَ أَصَابِعَهُ كُلَّهَا، وَأَمْسَكَ إِصْبَعًا وَاحِدًا فِي الثَّالِثَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، آپ ۲۹ دن تک رکے رہے، جب تیسویں دن کی شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں نے کہا: آپ نے تو ایک ماہ تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ اس طرح ہوتا ہے آپ نے دونوں ہاتھوں کی ساری انگلیوں کو کھلا رکھ کر تین بار فرمایا، اس طرح کل تیس دن ہوئے، پھر فرمایا: "اور مہینہ اس طرح بھی ہوتا ہے" اس بار دو دفعہ ساری انگلیوں کو کھلا رکھا، تیسری بار میں ایک انگلی بند کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۹۱۹، ومصباح الزجاجة:۷۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۳،۱۰۵)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا آلَى لِأَنَّ زَيْنَبَ رَدَّتْ عَلَيْهِ هَدِيَّتَهُ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَقَدْ أَقْمَأَتْكَ فَغَضِبَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَآلَى مِنْهُنَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کیا، اس لیے کہ ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے آپ کا بھیجا ہوا ہدیہ واپس کر دیا تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: زینب نے آپ کی بےقدری کی ہے، یہ سن کر آپ غصہ ہوئے اور ان سب سے ایلاء کر لیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۹۰، ومصباح الزجاجة:۷۲۸)(ضعیف) (سند میں حارثہ بن محمد بن ابی الرجال ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم ﷺ کو رنج و ملال ہوا، ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس کہیں سے ہدیہ آیا، آپ نے سب بیویوں کو اس میں سے حصے بھیجے، زینب رضی اللہ عنہا نے وہ حصہ واپس کر دیا، آپ نے اور زیادہ کر کے بھیجا جب بھی پھیر دیا، تب آپ غصہ ہوئے، اور قسم کھائی کہ میں تم سب کے پاس ایک مہینہ تک نہ آؤں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جانور ذبح کیا تھا، اس کا گوشت سب بیویوں کو بھیجا جب انہوں نے نہ لیا تو اس وقت آپ کو غصہ آیا۔ اور بعضوں نے کہا: ایلاء کا سبب یہ نہ تھا بلکہ آپ ﷺ کی بیویاں آپ سے خرچ مانگتی تھیں، اور تقاضا کرتی تھیں، چنانچہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا، اس وقت آپ ﷺ نے ایلاء کیا، پھر یہ آیت تخییر اتری۔ «واللہ اعلم»
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آلَى مِنْ بَعْضِ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَلَمَّا كَانَ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ رَاحَ أَوْ غَدَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا مَضَى تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَقَالَ: "الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں سے ایک ماہ کا ایلاء کیا، جب ۲۹ دن ہو گئے تو آپ صبح کو یا شام کو بیویوں کے پاس تشریف لے گئے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ابھی تو ۲۹ ہی دن ہوئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہینہ ۲۹ کا بھی ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۱ (۱۹۱۰)، صحیح مسلم/الصیام ۴ (۱۰۸۵)،(تحفة الأشراف:۱۸۲۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۱۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أَسْتَكْثِرُ مِنَ النِّسَاءِ لَا أَرَى رَجُلًا كَانَ يُصِيبُ مِنْ ذَلِكَ مَا أُصِيبُ، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ ظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ، فَبَيْنَمَا هِيَ تُحَدِّثُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ انْكَشَفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَوَاقَعْتُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، وَقُلْتُ لَهُمْ: سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَا كُنَّا لِنَفْعَلَ إِذًا يُنْزِلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِينَا كِتَابًا، أَوْ يَكُونَ فِينَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلٌ: فَيَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهُ، وَلَكِنْ سَوْفَ نُسَلِّمُكَ لِجَرِيرَتِكَ، اذْهَبْ أَنْتَ فَاذْكُرْ شَأْنَكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْتَ بِذَاكَ"، فَقُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَابِرٌ لِحُكْمِ اللَّهِ عَلَيَّ، قَالَ: "فَأَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِكُ إِلَّا رَقَبَتِي هَذِهِ، قَالَ: "فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ دَخَلَ عَلَيَّ مَا دَخَلَ مِنَ الْبَلَاءِ إِلَّا بِالصَّوْمِ؟، قَالَ: "فَتَصَدَّقْ وَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ: "فَاذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَهُ: فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ وَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَانْتَفِعْ بِبَقِيَّتِهَا".
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے عورتوں کی بڑی چاہت رہتی تھی، میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورت سے اتنی صحبت کرتا ہو جتنی میں کرتا تھا، جب رمضان آیا تو میں نے اپنی بیوی سے رمضان گزرنے تک ظہار کر لیا، ایک رات وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کا کچھ بدن کھل گیا، میں اس پہ چڑھ بیٹھا، اور اس سے مباشرت کر لی، جب صبح ہوئی تو میں اپنے لوگوں کے پاس گیا، اور ان سے اپنا قصہ بیان کیا، میں نے ان سے کہا: تم لوگ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھو، تو انہوں نے کہا: ہم نہیں پوچھیں گے، ایسا نہ ہو کہ ہماری شان میں وحی اترے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے سلسلے میں کچھ فرما دیں، اور اس کا عار ہمیشہ کے لیے باقی رہے لیکن اب یہ کام ہم تمہارے ہی سپرد کرتے ہیں، اب تم خود ہی جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا حال بیان کرو۔ سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خود ہی چلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: "تم نے یہ کام کیا ہے"؟ میں نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں اور اپنے بارے میں اللہ کے حکم پر صابر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ایک غلام آزاد کرو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں تو صرف اپنی جان کا مالک ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لگاتار دو ماہ کے روزے رکھو، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول یہ بلا جو میرے اوپر آئی ہے روزے ہی کہ وجہ سے تو آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو صدقہ دو، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ"، میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم نے یہ رات اس حالت میں گزاری ہے کہ ہمارے پاس رات کا کھانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی زریق کا صدقہ وصول کرنے والے کے پاس جاؤ، اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں کچھ مال دیدے، اور اس میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ اور جو بچے اپنے کام میں لے لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۷ (۲۲۱۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۰ (۱۱۹۸،۱۲۰۰)،(تحفة الأشراف:۴۵۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷،۵/۴۳۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۹ (۲۳۱۹)(ملاحظہ ہو: الإرواء:۲۰۹۱، وصحیح ابی داود:۱۹۴۲ - ۱۹۴۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، کفارہ ادا ہو گیا، اور مال بھی ہاتھ آ گیا، یہی حال ہوتا ہے اس کا جو سچائی اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالی کی درگاہ میں حاضر ہو، اور اس پر اجماع ہے کہ ظہار کا کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب مرد اپنی بیوی سے جماع کا ارادہ کرے، اور اگر کفارے سے پہلے جماع کر لیا تو گنہگار ہو گا، لیکن ایک ہی کفارہ واجب ہو گا اور یہی حق ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: تَبَارَكَ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ كُلَّ شَيْءٍ، إِنِّي لَأَسْمَعُ كَلَامَ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَيَخْفَى عَلَيَّ بَعْضُهُ وَهِيَ تَشْتَكِي زَوْجَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَ شَبَابِي، وَنَثَرْتُ لَهُ بَطْنِي حَتَّى إِذَا كَبِرَتْ سِنِّي، وَانْقَطَعَ وَلَدِي ظَاهَرَ مِنِّي اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْكُو إِلَيْكَ فَمَا بَرِحَتْ حَتَّى نَزَلَ جِبْرَائِيلُ بِهَؤُلَاءِ الْآيَاتِ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ سورة المجادلة آية 1.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا بابرکت ہے وہ ذات جو ہر چیز کو سنتی ہے، میں خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کی بات سن رہی تھی، کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھیں کہ میرا شوہر میری جوانی کھا گیا، میں اس کی اولاد جنتی رہی، جب میں بوڑھی ہو گئی اور ولادت کا سلسلہ منقطع ہو گیا، تو اس نے مجھ سے ظہار کر لیا، اے اللہ! میں تجھ ہی سے شکوہ کرتی ہوں، وہ ابھی وہاں سے ہٹی بھی نہیں تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیتیں لے کر اترے: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى الله» (سورة المجادلة: 1) "اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ سے شکوہ کر رہی تھی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التوحید ۹ (۷۳۸۵ تعلیقاً)، سنن النسائی/الطلاق ۳۳ (۳۴۹۰)،(تحفة الأشراف:۱۶۳۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۶)(دیکھئے: حدیث نمبر:۱۸۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اپنی مصیبت اور دکھ کا شکوہ کر رہی تھی، تب اللہ تعالی نے یہ حکم اتارا، اور ظہار کا کفارہ بیان فرمایا، اور عورت کی داد رسی کی شوہر نے کفارہ دے کر پھر اس کو بیوی کی طرح سمجھا، اور اس سے صحبت کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، قَالَ: كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ".
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کرنے والے شخص کے متعلق جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر لے فرمایا: "اس پر ایک ہی کفارہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظرحدیث (رقم:۲۰۶۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ، فَغَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ بَيَاضَ حِجْلَيْهَا فِي الْقَمَرِ، فَلَمْ أَمْلِكْ نَفْسِي أَنْ وَقَعْتُ عَلَيْهَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَأَمَرَهُ أَلَّا يَقْرَبَهَا حَتَّى يُكَفِّرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا، اور کفارہ کی ادائیگی سے قبل ہی جماع کر لیا، چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم نے ایسا کیوں کیا"؟ وہ بولا: اللہ کے رسول! میں نے اس کے پازیب کی سفیدی چاندنی رات میں دیکھی، میں بے اختیار ہو گیا، اور اس سے جماع کر بیٹھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور اسے حکم دیا کہ کفارہ کی ادائیگی سے پہلے اس کے قریب نہ جائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۷ (۲۲۲۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، سنن النسائی/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷)،(تحفة الأشراف:۶۰۳۶)(حسن) (سند میں حکم بن ابان ضعیف الحفظ ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: جَاءَ عُوَيْمِرٌ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ: سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَتَلَهُ، أَيُقْتَلُ بِهِ، أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ؟، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَعَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ ثُمَّ لَقِيَهُ عُوَيْمِرٌ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، فَقَالَ: صَنَعْتُ أَنَّكَ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَابَ الْمَسَائِلَ، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَسْأَلَنَّهُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَهُ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ فِيهِمَا فَلَاعَنَ بَيْنَهُمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَئِنْ انْطَلَقْتُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا، قَالَ: فَفَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَارَتْ سُنَّةً فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا كَاذِبًا، قَالَ: فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ".
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عویمر عجلانی (رضی اللہ عنہ) عاصم بن عدی (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے لیے یہ مسئلہ پوچھو کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو (زنا) کرتے ہوئے پائے پھر اس کو قتل کر دے تو کیا اس کے بدلے اسے بھی قتل کر دیا جائے گا یا وہ کیا کرے؟ عاصم (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے سوالات برے لگے ۱؎، پھر عویمر (رضی اللہ عنہ) عاصم (رضی اللہ عنہ) سے ملے اور پوچھا: تم نے کیا کیا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کیا جو کیا یعنی پوچھا لیکن تم سے مجھے کوئی بھلائی نہیں پہنچی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے اس طرح کے سوالوں کو برا جانا، عویمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود جاؤں گا اور آپ سے پوچھوں گا، چنانچہ وہ خود آپ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان دونوں کے بارے میں وحی اتر چکی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرا دیا، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اب اگر اس عورت کو میں ساتھ لے جاؤں تو گویا میں نے اس پر تہمت لگائی چنانچہ انہوں نے اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی چھوڑ دیا، پھر لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ دستور ہو گیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو اگر عویمر کی عورت کالے رنگ کا، کالی آنکھوں والا، بڑی سرین والا بچہ جنے تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر سچے ہیں، اور اگر سرخ رنگ کا بچہ جنے جیسے وحرہ (سرخ کیڑا ہوتا ہے) تو میں سمجھتا ہوں وہ جھوٹے ہیں"۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اس عورت کا بچہ بری شکل پہ پیدا ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۴۴ (۴۲۳)، تفسیرسورة النور ۱ (۴۷۴۵)،۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۴ (۵۳۵۹)،۲۹ (۵۳۰۸)،۳۰ (۵۳۰۹)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۴)، الأحکام ۱۸ (۷۱۶۵)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۴)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۲)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۴۵)، سنن النسائی/الطلاق ۳۵ (۳۴۹۶)،(تحفة الأشراف:۴۸۰۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۴)، مسند احمد (۵/۳۳۰،۳۳۴،۳۳۶،۳۳۷)، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ بلا ضرورت سوال کرنے سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے، اور شاید اس وقت تک آپ کو یہ معلوم نہ ہوا ہو کہ ایسا واقعہ کہیں پیش آیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَيِّنَةَ أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، فَقَالَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي، قَالَ: فَنَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 ـ 9 فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ، فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ، أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْ تَائِبٍ ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ"فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9، قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا الَمُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ"فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا)الزام لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگیں گے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں، اور اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم اتارے گا جس سے میری پیٹھ حد لگنے سے بچ جائے گی، راوی نے کہا: پھر یہ آیت اتری: «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» "جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ نہیں ہوتے..." یہاں تک کہ اخیر آیت: «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» (سورة النور: ۶-۹) تک پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور ہلال اور ان کی بیوی دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کوئی ہے توبہ کرنے والا"، اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئی اور اس نے گواہی دی، جب پانچویں گواہی کا وقت آیا یعنی یہ کہنے کا کہ عورت پہ اللہ کا غضب نازل ہو اگر مرد سچا ہو تو لوگوں نے عورت سے کہا: یہ گواہی ضرور واجب کر دے گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ عورت جھجکی اور واپس مڑی یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ اب وہ اپنی گواہی سے پھر جائے گی، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو اپنے گھر والوں کو زندگی بھر کے لیے رسوا اور ذلیل نہیں کروں گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو اگر اس عورت کو کالی آنکھوں والا، بھری سرین والا، موٹی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو، تو وہ شریک بن سحماء کا ہے"، بالآخر اسی شکل کا لڑکا پیدا ہوا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ جو ہو چکا نہ ہوا ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ ضرور کچھ سزا کا معاملہ کرتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ تفسیر سورة النور ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۲۹ (۵۳۰۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۴)، سنن الترمذی/تفسیر سورة النور ۲۵ (۳۱۷۹)(تحفة الأشراف:۶۲۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/ ۲۷۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: لیکن اللہ تعالی کا حکم یہ اترا کہ لعان کرنے والوں پر حد قذف قائم نہ کی جائے، لہذا میں اس عورت پر حد نہیں جاری کرتا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم کو رائے اور قیاس اور گمان پر عمل نہیں کرنا چاہئے، بلکہ جو فیصلہ گواہی اور دلیل سے ثابت ہو وہی دینا چاہئے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قیافہ شرعی حجت نہیں ہے، اور قیافہ کے سبب سے کسی کو حد نہیں پڑ سکتی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْالْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا فِي الْمَسْجِدِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَقَتَلَهُ قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، وَاللَّهِ لَأَذْكُرَنَّ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آيَاتِ اللِّعَانِ، ثُمَّ جَاءَ الرَّجُلُ بَعْدَ ذَلِكَ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، فَلَاعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَقَالَ: "عَسَى أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی رات کو مسجد میں تھے کہ ایک شخص آ کر کہنے لگا اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے، پھر اس کو مار ڈالے، تو تم لوگ اس کو مار ڈالو گے، اور اگر زبان سے کچھ کہے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے، اللہ کی قسم میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر ضرور کروں گا، آخر اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے لعان کی آیتیں نازل فرمائیں، پھر وہ آیا اور اس نے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرایا اور فرمایا: "میرا گمان ہے کہ شاید اس عورت کا بچہ کالا ہی پیدا ہو" چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس کے یہاں کالا گھونگھریالے بال والا بچہ پیدا ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱۰ (۱۴۹۵)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۳)،(تحفة الأشراف:۹۴۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۱،۴۴۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنی بیوی سے لعان کیا، اور اس کے بچے کا انکار کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں جدائی کرا دی اور بچہ کو ماں کو دیدیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)،۳۵ (۵۳۱۵)،۵۲ (۵۳۵۰)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، سنن النسائی/الطلاق ۴۵ (۳۵۰۷)،(تحفة الأشراف:۸۳۲۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۵)، مسند احمد (۲/ ۱۲،۳۸،۶۴،۷۱)، سنن الدارمی/االنکاح ۳۹ (۲۲۷۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی بچہ ماں کے حوالے کر دیا، اور اس کا نسب بھی ماں سے متعلق کر دیا، اب وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا لیکن اس کے مرد کا وارث نہ ہو گا جس نے یہ کہہ دیا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَلَمَةَ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، قَالَ: ذَكَرَطَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ امْرَأَةً مِنْ بَلْعِجْلَانَ فَدَخَلَ بِهَا فَبَاتَ عِنْدَهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: مَا وَجَدْتُهَا عَذْرَاءَ، فَرُفِعَ شَأْنُهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا الْجَارِيَةَ، فَسَأَلَهَا، فَقَالَتْ: بَلَى، قَدْ كُنْتُ عَذْرَاءَ، "فَأَمَرَ بِهِمَا فَتَلَاعَنَا، وَأَعْطَاهَا الْمَهْرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ انصار کے ایک شخص نے قبیلہ بنی عجلان کی ایک عورت سے شادی کی، اور اس کے پاس رات گزاری، جب صبح ہوئی تو کہنے لگا: میں نے اسے کنواری نہیں پایا، آخر دونوں کا مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو بلایا، اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا: میں تو کنواری تھی، پھر آپ نے حکم دیا تو دونوں نے لعان کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مہر دلوا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۵۲۶، ومصباح الزجاجة:۷۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۶۱)(ضعیف) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت «قال» کہہ کر کی ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَرْبَعٌ مِنَ النِّسَاءِ لَا مُلَاعَنَةَ بَيْنَهُنَّ النَّصْرَانِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ، وَالْيَهُودِيَّةُ تَحْتَ الْمُسْلِمِ، وَالْحُرَّةُ تَحْتَ الْمَمْلُوكِ، وَالْمَمْلُوكَةُ تَحْتَ الْحُرِّ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چار قسم کی عورتوں میں لعان نہیں ہے، ایک تو نصرانیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو، دوسری یہودیہ جو کسی مسلمان کے نکاح میں ہو، تیسری آزاد عورت جو کسی غلام کے نکاح میں ہو، چوتھی لونڈی جو کسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۶۳، ومصباح الزجاجة:۷۳۰)(ضعیف) (سند میں عثمان بن عطاء ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: لیکن تیسری صورت میں غلام کو حد قذف پڑے گی اور باقی صورتوں میں نہ لعان ہے نہ شوہر کو حد پڑے گی، غرض یہ ہے کہ لعان مومنہ اور آزاد عورت کی تہمت سے لازم آتا ہے، اگر عورت کافرہ ہو، یا لونڈی ہو، یا اس کو حد پڑ چکی ہو تو لعان نہ ہو گا۔ (شرح وقایہ)۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزْعَةَ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ، وَحَرَّمَ فَجَعَلَ الْحَرامَ حَلالا، وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء کیا، اور اپنے اوپر حلال کو حرام ٹھہرا لیا ۱؎ اور قسم کا کفارہ ادا کیا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۲۱ (۱۲۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۲۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ماریہ قبطیہ کو یا شہد کو۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لے تو طلاق نہ پڑے گی، بلکہ قسم کا کفارہ دینا ہو گا، قسم کا کفارہ قرآن مجید میں مذکور ہے، دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا ان کو کپڑا پہنانا، یا ایک مومن غلام آزاد کرنا، اور اگر ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی میسر نہ ہو تو تین دن کا روزہ رکھنا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "فِي الْحَرَامِ يَمِينٌ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: "لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ".
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: حلال کو حرام کرنے میں قسم کا کفارہ ہے، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے:«لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة» (سورة الاحزاب: 21) "تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق (۴۹۱۱)، صحیح مسلم/الطلاق ۳ (۱۴۷۳)،(تحفة الأشراف:۵۶۴۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطلاق ۱۶ (۳۴۴۹)، مسند احمد (۱/۲۲۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْعَائِشَةَ، "أَنَّهَا أَعْتَقَتْ بَرِيرَةَ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لَهَا زَوْجٌ حُرٌّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دے دیا، (کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہیں یا اس سے جدا ہو جائیں) اور ان کے شوہر آزاد تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)،(تحفة الأشراف:۱۵۹۵۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۰ (۲۲۳۵)، سنن النسائی/الزکاة ۹۹ (۲۶۱۵)، الطلاق ۳۰ (۳۴۸۰)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۰ (۲۵)، مسند احمد (۶/۴۶،۱۱۵،۱۲۳،۱۷۲،۱۷۵،۱۷۸،۱۹۱،۲۰۷)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: آزادی کے بعد پہلا نکاح باقی رکھے یا نہ رکھے، لیکن یہ جب ہے کہ اس کا شوہر غلام ہو، اگر شوہر آزاد ہو تو اختیار نہ ہو گا، امام مالک، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ ہر حال میں اختیار ہو گا، اور اس باب میں مختلف احادیث وارد ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا، يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا وَيَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى خَدِّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ: "يَا عَبَّاسُ أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ رَاجَعْتِيهِ، فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَأْمُرُنِي، قَالَ: "إِنَّمَا أَشْفَعُ"، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام تھا اس کو مغیث کہا جاتا تھا، گویا کہ میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پھر رہا ہے، اور رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہہ رہے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہیں: "عباس! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور مغیث سے بریرہ کی نفرت پہ تعجب نہیں ہے"؟ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: "کاش تو مغیث کے پاس لوٹ جاتی، وہ تیرے بچے کا باپ ہے"، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "نہیں، میں صرف سفارش کر رہا ہوں"، تو وہ بولی: مجھے مغیث کی کوئی ضرورت نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۲)،۱۶ (۵۲۸۳)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۱)، سنن الترمذی/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، سنن النسائی/آداب القضاء ۲۷ (۵۴۱۹)،(تحفة الأشراف:۶۰۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَضَى فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ خُيِّرَتْ حِينَ أُعْتِقَتْ، وَكَانَ زَوْجُهَا مَمْلُوكًا وَكَانُوا يَتَصَدَّقُونَ عَلَيْهَا، فَتُهْدِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ: "هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ، وَقَالَ: الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ میں تین سنتیں سامنے آئیں ایک تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئیں تو انہیں اختیار دیا گیا، اور ان کے شوہر غلام تھے، دوسرے یہ کہ لوگ بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ دیا کرتے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کر دیتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: "وہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے"، تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے سلسلہ میں فرمایا: "حق ولاء (غلام یا لونڈی کی میراث) اس کا ہے جو آزاد کرے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۴۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الأطعمة ۳۱ (۵۴۳۰)، الفرائض ۲۰ (۶۷۶۰)،۲۲ (۶۷۵۴)،۲۳ (۶۷۵۹)، سنن ابی داود/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۶)، سنن الترمذی/البیوع ۳۳ (۲۱۲۶)، الولاء ۱ (۲۱۲۵)، سنن النسائی/الطلاق ۳۰ (۳۴۷۹)، موطا امام مالک/الطلاق۱۰ (۲۵)، مسند احمد (۶/۴۲،۱۷۰،۱۸۰،۱۸۶،۲۰۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکوں نے ولاء (حق وراثت) لینا چاہا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: " اس کو خرید کر آزاد کر دو، ولاء (حق وراثت) اسی کو ملے گا جو آزاد کرے "۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "أُمِرَتْ بَرِيرَةُ، أَنْ تَعْتَدَّ بِثَلَاثِ حِيَضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا گیا کہ وہ تین حیض عدت گزاریں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۰۰۲، ومصباح الزجاجة:۷۳۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُذَيْنَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيَّرَ بَرِيرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا (کہ وہ اپنے شوہر مغیث کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۵۹۰، ومصباح الزجاجة:۷۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ شَبِيبٍ الْمُسْلِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "طَلَاقُ الْأَمَةِ اثْنَتَانِ وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لونڈی کے لیے دو طلاقیں ہیں، اور اس کی عدت دو حیض ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۳۸، ومصباح الزجاجة:۷۳۳)(ضعیف) (سند میں ضعف کا سبب عطیہ العوفی ہیں، جو ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُظَاهِرِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ، وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: فَذَكَرْتُهُ لِمُظَاهِرٍ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي كَمَا حَدَّثْتَ ابْنَ جُرَيْجٍ، فَأَخْبَرَنِي: عَنَ الْقَاسِمِ، عَنْعَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ، وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لونڈی کی دو طلاقیں ہیں، اور اس کی عدت دو حیض ہے"۔ ابوعاصم کہتے ہیں کہ میں نے مظاہر بن اسلم سے اس حدیث کا ذکر کیا اور ان سے عرض کیا کہ یہ حدیث آپ مجھ سے ویسے ہی بیان کریں جیسے کہ آپ نے ابن جریج سے بیان کی ہے، تو انہوں نے مجھے «قاسم عن عائشہ» کے طریق سے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لونڈی کے لیے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۶ (۲۱۸۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۷ (۱۱۸۲)،(تحفة الأشراف:۱۷۵۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق ۱۷ (۲۳۴۰)(ضعیف) (سند میں مظاہر بن أسلم ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ الْغَافِقِيِّ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَيِّدِي زَوَّجَنِي أَمَتَهُ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا، قَالَ: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا بَالُ أَحَدِكُمْ يُزَوِّجُ عَبْدَهُ أَمَتَهُ، ثُمَّ يُرِيدُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا تھا، اب وہ چاہتا ہے کہ مجھ میں اور میری بیوی میں جدائی کرا دے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا: "لوگو! تمہارا کیا حال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنے غلام کا نکاح اپنی لونڈی سے کر دیتا ہے، پھر وہ چاہتا ہے کہ ان دونوں میں جدائی کرا دے، طلاق تو اسی کا حق ہے جو عورت کی پنڈلی پکڑے"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۲۱۹، ومصباح الزجاجة:۷۳۴)(حسن) (سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد ومتابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی جو اس سے صحبت کرتا ہو یعنی شوہر کے اختیار میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ زَنْجَوَيْهِ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ، عَنْ أَبِي الْحَسَنِ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَنْ عَبْدٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ أُعْتِقَا يَتَزَوَّجُهَا؟، قَالَ: "نَعَمْ، فَقِيلَ لَهُ: عَمَّنْ، قَالَ: قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: لَقَدْ تَحَمَّلَ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا صَخْرَةً عَظِيمَةً عَلَى عُنُقِهِ.
ابوالحسن مولی بنی نوفل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس غلام کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو دو طلاق دے دی ہو پھر دونوں آزاد ہو جائیں، کیا وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں، کر سکتا ہے، ان سے پوچھا گیا: یہ فیصلہ کس کا ہے؟ تو وہ بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کیا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوالحسن نے یہ حدیث روایت کر کے گویا ایک بڑا پتھر اپنی گردن پہ اٹھا لیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۶ (۲۱۸۷،۲۱۸۸)، سنن النسائی/الطلاق ۱۹ (۳۴۵۷،۳۴۲۸)،(تحفة الأشراف:۶۵۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۹،۳۳۴)(ضعیف) (عمر بن معتب ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: "لَا تُفْسِدُوا عَلَيْنَا سُنَّةَ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَّةُ أُمِّ الْوَلَدِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم پر ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہ بگاڑو، ام ولد کی عدت چار ماہ دس دن ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۸ (۲۳۰۸)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/ ۲۰۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ام ولد وہ لونڈی جو اپنے مالک کا بچہ جنے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ام ولد کے شوہر کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے، گویا یہ عدت میں مثل آزاد کے ہے، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْنَبَ ابْنَةَ أُمِّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ أُمَّ سَلَمَةَ، وَأُمَّ حَبِيبَةَ، تَذْكُرَانِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَةً لَهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَاشْتَكَتْ عَيْنُهَا، فَهِيَ تُرِيدُ أَنْ تَكْحَلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہما ذکر کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی بیٹی کی آنکھ دکھ رہی ہے وہ سرمہ لگانا چاہتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پہلے (زمانہ جاہلیت میں) تم سال پورا ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی اور اب تو عدت صرف چار ماہ دس دن ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴۶ (۵۳۳۶)،۴۷ (۵۳۳۸)، الطب ۱۸ (۵۷۰۶)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۸۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۷)، سنن النسائی/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۰)،۶۷ (۳۵۶۸)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۷۶ و۱۸۲۵۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۱)، مسند احمد (۶/۳۲۵،۳۲۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک خراب اور تنگ کوٹھری میں چلی جاتی، اور برے سے برے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو لگاتی نہ زینت کرتی، کامل ایک سال تک ایسا کرتی، جب سال پورا ہو جاتا تو ایک اونٹنی کی مینگنی لاتی، عورت اس کو پھینک کر عدت سے باہر آتی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں تو ایسی سخت تکلیف ایک سال تک سہتی تھیں، اب صرف چار مہینے دس دن تک عدت رہ گئی ہے، اس میں بھی زیب و زینت سے رکنا مشکل ہے، امام احمد اور اہلحدیث کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ سوگ والی عورت کو سرمہ لگانا کسی طرح جائز نہیں اگرچہ عذر بھی ہو، اور حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک عذر کی وجہ سے جائز ہے، بلاعذر جائز نہیں، اور شافعی نے کہا رات کو لگا لے اور دن کے وقت اس کو صاف کر ڈالے، تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جس عورت کا شوہر مر جائے وہ چار مہینے دس دن تک سوگ میں رہے، یعنی زیب و زینت نہ کرے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کے سوا کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ منائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۹۱)، سنن النسائی/الطلاق ۵۸ (۳۵۵۵)،(تحفة الأشراف:۱۶۴۴۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۴)، مسند احمد (۶/۳۷،۱۴۸،۲۴۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۲۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۹۰)، سنن النسائی/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۳)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۱۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۴)، مسند احمد (۶/۱۸۴،۲۸۶،۲۸۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا امْرَأَةٌ تُحِدُّ عَلَى زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ وَلَا تَطَيَّبُ إِلَّا عِنْدَ أَدْنَى طُهْرِهَا بِنُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ نہ منایا جائے البتہ بیوی اپنے شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے، رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، ہاں رنگین بنی ہوئی چادر اوڑھ سکتی ہے، سرمہ اور خوشبو نہ لگائے، مگر حیض سے پاکی کے شروع میں تھوڑا سا قسط یا اظفار (خوشبو)لگا لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۲ (۱۳۱۳، الجنائز ۳۰ (۱۲۷۸)، الطلاق ۴۷ (۵۳۳۹)،۴۹ (۵۳۴۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۹۳۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۶ (۲۳۰۲،۲۳۰۳)، سنن النسائی/الطلاق ۶۴ (۳۵۶۴)،۶۵ (۳۵۶۶)،(تحفة الأشراف:۱۸۱۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۶۵،۸۵،۴۰۸)، سنن الدارمی/ الطلاق ۱۳ (۲۳۳۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: شرم گاہ کی بدبو دور کرنے کے لئے تھوڑا سا خوشبو استعمال کر سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ خَالِهِالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ وَكُنْتُ أُحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يُبْغِضُهَا، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَنِي أَنْ أُطَلِّقَهَا فَطَلَّقْتُهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا، اور میرے والد اس کو برا جانتے تھے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الادب ۱۲۹ (۵۱۳۸)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۳ (۱۱۸۹)،(تحفة الأشراف:۶۷۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۲،۵۳،۱۵۷)(حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ رَجُلًا أَمَرَهُ أَبُوهُ أَوْ أُمُّهُ شَكَّ شُعْبَةُ، أَنْ يُطَلِّقَ امْرَأَتَهُ، فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةَ مُحَرَّرٍ، فَأَتَى أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي الضُّحَى وَيُطِيلُهَا وَصَلَّى مَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ وَبِرَّ وَالِدَيْكَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَحَافِظْ عَلَى وَالِدَيْكَ أَوِ اتْرُكْ".
ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے یا باپ نے (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اس نے نذر مان لی کہ اگر اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو اسے سو غلام آزاد کرنا ہوں گے، پھر وہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے، اور اسے خوب لمبی کر رہے تھے، اور انہوں نے نماز پڑھی ظہر و عصر کے درمیان، بالآخر اس شخص نے ان سے پوچھا، تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی نذر پوری کرو، اور اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے، اب تم اپنے والدین کے حکم کی پابندی کرو، یا اسے نظر انداز کر دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/البر و الصلة ۳ (۱۹۰۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۹۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۹۶،۱۹۷،۶/۴۴۵،۴۴۷،۴۵۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت ایسی عمدہ چیز ہے، جن کی اطاعت سے جنت ملتی ہے، اور ظاہر ہے کہ جنت کی آدمی کو کتنی فکر ہونی چاہئے، پس ویسے ہی ماں باپ کی اطاعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔