أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ السَّرْخَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنِينَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَاسْتَفْتَى عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: "مُرْ عَبْدَ اللَّهِ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يَدَعْهَا، حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضَتِهَا هَذِهِ، ثُمَّ تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، فَإِذَا طَهُرَتْ فَإِنْ شَاءَ فَلْيُفَارِقْهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَاءَ فَلْيُمْسِكْهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے مسئلہ پوچھا (کہ کیا اس کی طلاق صحیح ہوئی ہے) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عبداللہ سے کہو(طلاق ختم کر کے) اسے لوٹا لے (یعنی اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے اپنے اس حیض سے پاک ہو لینے دے، پھر جب وہ دوبارہ حائضہ ہو اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو وہ اگر اسے چھوڑ دینا چاہے تو اسے جماع کرنے سے پہلے چھوڑ دے اور اگر اسے رکھنا چاہے تو اسے رکھ لے (اور اس سے اپنی ازدواجی زندگی بحال کرے) یہ ہے وہ عدت جس کے مطابق اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۲۲۰)، مسند احمد (۲/۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا، حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عبداللہ سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے (یعنی طلاق ختم کر کے اسے اپنی بیوی بنا لے) پھر اسے روکے رکھے جب تک کہ وہ حیض سے پاک نہ ہو جائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہو (جب وہ دوبارہ حیض سے پاک ہو جائے) تو چاہے تو اسے روک لے اور چاہے تو اسے چھونے (اس کے پاس جانے اور اس سے صحبت کرنے) سے پہلے اسے طلاق دیدے۔ یہی وہ عدت ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱ (۵۲۵۱)، ۴۴ (۵۳۳۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۷۹)، (تحفة الأشراف: ۸۳۳۶)، موطا امام مالک/الطلاق ۲۱ (۵۳)، مسند احمد (۶/۶، ۵۴، ۶۳، ۱۰۲، ۱۲۴)، سنن الدارمی/الطلاق ۱ (۲۳۰۸) (صحیح)
أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّبَيْدِيُّ، قَالَ: سُئِلَ الزُّهْرِيُّ، كَيْفَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ ؟ فَقَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَقَالَ: "لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا، حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً وَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَذَاكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَرَاجَعْتُهَا، وَحَسَبْتُ لَهَا التَّطْلِيقَةَ الَّتِي طَلَّقْتُهَا.
زبیدی کہتے ہیں: امام زہری سے پوچھا گیا: عدت والی طلاق کس طرح ہوتی ہے؟ (اشارہ ہے قرآن کریم کی آیت: «فطلقوهن لعدتهن» (الطلاق: 1) کی طرف) تو انہوں نے کہا: سالم بن عبداللہ بن عمر نے انہیں بتایا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی، اس بات کا ذکر عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصہ ہوئے اور فرمایا:"اسے رجوع کر لینا چاہیئے، پھر اسے روکے رکھے رہنا چاہیئے یہاں تک کہ (پھر) اسے حیض آئے اور وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر اگر اسے طلاق دے دینا ہی مناسب سمجھے تو طہارت کے ایام میں طلاق دیدے ہاتھ لگانے سے پہلے"۔ عدت والی طلاق کا یہی طریقہ ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے آیت نازل فرمائی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے اسے لوٹا لیا اور جو طلاق میں اسے دے چکا تھا اسے بھی شمار کر لیا (کیونکہ ان کے خیال میں وہ طلاق اگرچہ سنت کے خلاف اور حرام تھی پروہ پڑ گئی تھی)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ۱ (۴۹۰۸)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۱)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳ (۲۱۰۹)، مسند احمد ۲/۲۶، ۵۸، ۶۱، ۸۱، ۱۳۰ (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِيأَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ، يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، يَسْمَعُ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا ؟، فَقَالَ لَهُ: طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِيُرَاجِعْهَا"، فَرَدَّهَا عَلَيَّ، قَالَ: "إِذَا طَهُرَتْ، فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "0 يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ 0".
ابو الزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرتے سنا: آپ کی کیا رائے ہے ایسے شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی؟ انہوں نے جواب دیا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس وقت طلاق دی جب وہ حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتاتے ہوئے مسئلہ پوچھا کہ عبداللہ بن عمر کی بیوی حالت حیض میں تھی اس نے اسے اسی حالت میں طلاق دے دی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عبداللہ کو چاہیئے کہ وہ اس سے رجوع کرے"، اور پھر آپ نے میری بیوی میرے پاس بھیج دی اور فرمایا: "جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو جائے تب اسے یا تو طلاق دیدے یا اسے روک لے" (اسے دونوں کا اختیار ہے جیسی اس کی مرضی و پسند ہو)۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (اس کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن» "اے نبی!(اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو" (الطلاق: ۱)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۵)، (تحفة الأشراف: ۷۴۴۳)، مسند احمد (۲/۶۱، ۸۰-۱۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ".
مجاہد (اپنے استاذ) ابن عباس رضی الله عنہما سے اللہ تعالیٰ کے قول «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن» یعنی "جب عورت حیض سے پاک ہو جائے اور اس سے اس طہر میں صحبت بھی نہ کی جائے تب طلاق دینی چاہیئے" کے سلسلے میں روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے«لعدتهن» کی جگہ «قبل عدتهن» پڑھا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۳۸۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: "طَلَاقُ السُّنَّةِ تَطْلِيقَةٌ وَهِيَ طَاهِرٌ فِي غَيْرِ جِمَاعٍ، فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى، فَإِذَا حَاضَتْ وَطَهُرَتْ طَلَّقَهَا أُخْرَى، ثُمَّ تَعْتَدُّ بَعْدَ ذَلِكَ بِحَيْضَةٍ"، قَالَ الْأَعْمَشُ: سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت اس طرح ہے کہ جب عورت پاک ہو اور اس پاکی کے دنوں میں عورت سے جماع نہ کیا ہو تو اسے ایک طلاق دے، پھر جب دوبارہ اسے حیض آئے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے دوسری طلاق دے پھر جب (تیسری بار) حیض سے ہو جائے اور اس حیض سے پاک ہو جائے تو اسے ایک اور طلاق دے۔ پھر اس کے بعد عورت ایک حیض کی عدت گزارے۔ اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے پوچھا تو انہوں نے بھی اسی طرح بتایا۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق۲ (۲۰۲۱)، (تحفة الأشراف: ۹۵۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سنت کے موافق طلاق کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے موافق ہے۔ ۲؎: یعنی ہر طہر میں ایک طلاق دینا سنت کے مطابق ہے، جب کہ تین طلاق ایک ساتھ دینا منع ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "طَلَاقُ السُّنَّةِ، أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا فِي غَيْرِ جِمَاعٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے ہوئے طلاق دے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۲۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: سنی طلاق کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والے کا عمل مسنون اور باعث اجر ہے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا شخص جو طلاق کا حاجت مند ہو اس کے لیے سنت میں جو مباح اور جائز طریقہ وارد ہے وہ یہ ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً، فَانْطَلَقَ عُمَرُ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُرْ عَبْدَ اللَّهِ فَلْيُرَاجِعْهَا، فَإِذَا اغْتَسَلَتْ فَلْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَحِيضَ، فَإِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْ حَيْضَتِهَا الْأُخْرَى فَلَا يَمَسَّهَا حَتَّى يُطَلِّقَهَا، فَإِنْ شَاءَ أَنْ يُمْسِكَهَا فَلْيُمْسِكْهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ اسے لوٹا لے۔ پھر جب (حیض سے فارغ ہو کر) وہ غسل کر لے تو اسے چھوڑے رکھے پھر جب حیض آئے اور اس دوسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل کر لے تو اسے نہ چھوئے یعنی (صحبت نہ کرے) یہاں تک کہ اسے طلاق دیدے پھر اسے روک لینا چاہے تو روک لے (اور طلاق نہ دے) یہی وہ عدت ہے جس کا لحاظ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۱۲۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا وَهِيَ طَاهِرٌ أَوْ حَامِلٌ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے کہو کہ اس سے رجوع کر لے، پھر جب وہ (حیض سے) پاک ہو جائے یا حاملہ ہو جائے تب اس کو طلاق دے" (اگر دینا چاہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۱)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳ (۲۰۲۳)، (تحفة الأشراف: ۶۷۹۷)، مسند احمد (۲/۲۶، ۵۸، سنن الدارمی/الطلاق ۱ (۲۳۰۹) (صحیح)
أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،"أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَرَدَّهَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَّقَهَا، وَهِيَ طَاهِرٌ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور وہ حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس طلاق کو باطل قرار دے کر) اس عورت کو انہیں لوٹا دیا۔ پھر جب وہ حیض سے پاک و صاف ہو گئی تو انہوں نے اسے طلاق دی (اور وہ طلاق نافذ ہوئی)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۷۰۶۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا"، فَقُلْتُ لَهُ: فَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ ؟ فَقَالَ: مَهْ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس مرد کے متعلق (مسئلہ) پوچھا جس کی بیوی حیض سے ہو اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو؟ انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ (اس وقت) حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر کو حکم دیا کہ اسے لوٹا لے اور اس کی عدت کا انتظار کرے۔ (یونس بن جبیر کہتے ہیں) میں نے ان سے کہا: یہ طلاق جو وہ دے چکا ہے کیا وہ اس کا شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جاتا (اور رجوع نہ کرتا یا رجوع کرنے سے پہلے مر جاتا)اور وہ حماقت کر گزرتا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۲ (۵۲۵۲)، ۳ (۵۲۵۸)، ۴۵ (۵۳۳۳)، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن ابی داود/الطلاق ۴ (۲۱۸۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲ (۲۰۲۲)، (تحفة الأشراف: ۸۵۷۳)، مسند احمد (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ ہو جانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ کا «مرہ فلیراجعھا» کہنا بے معنی ہو گا۔ جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہو گی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ، رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُهُ، "فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يَسْتَقْبِلَ عِدَّتَهَا"، قُلْتُ لَهُ: إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، أَيَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ ؟ فَقَالَ: مَهْ، وَإِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو جب کہ وہ حیض سے تھی طلاق دے دی (تو اس کا مسئلہ کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو، انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھی۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو لوٹا لے، پھر اس کی عدت کا انتظار کرے۔ میں نے ان سے پوچھا: جب آدمی اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدے تو کیا وہ اس طلاق کو شمار کرے گا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اگر وہ رجوع نہ کرتا اور حماقت کرتا۔ (تو کیا وہ شمار نہ ہوتی؟ ہوتی، اس لیے ہو گی)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۲۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ، قَالَ: "أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ: "أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ"، حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ ؟.
محمود بن لبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، (یہ سن کر) آپ غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے: "میرے تمہارے درمیان موجود ہوتے ہوئے بھی تم اللہ کی کتاب (قرآن) کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے ہو۱؎"، (آپ کا غصہ دیکھ کر اور آپ کی بات سن کر) ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہ میں اسے قتل کر دوں؟۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۲۳۷) (ضعیف) (سند میں مخرمہ کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کا حکم کیا ہے اسے نہیں دیکھتے ؟ میں تمہارے درمیان موجود ہوں مجھ سے نہیں پوچھتے اور سمجھتے ؟ اللہ کے فرمان کے خلاف عمل کرنے لگے ہو کیا اب یہی ہو گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّأَخْبَرَهُ، أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ: "أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَيَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ، جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟، فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتَ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا"، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَ عُوَيْمِرٌ، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: عاصم! بتاؤ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر آدمی کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ (وہ قتل کر دے) تو لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے! بتاؤ وہ کیا اور کیسے کرے؟ عاصم! اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر مجھے بتاؤ، عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ مسئلہ) پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے سوالات برے لگے اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا ۱؎، عاصم رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو بڑی گراں گزری ۲؎، جب عاصم رضی اللہ عنہ لوٹ کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے تو عویمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ عنہ نے عویمر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے مجھے کوئی اچھی بات نہیں سنائی، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! یہ مسئلہ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر رہوں گا، (یہ کہہ کر) عویمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گئے اور آپ جہاں لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے وہاں پہنچ کر کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے ایک شخص اپنی بیوی کو غیر مرد کے ساتھ پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟(اگر وہ اسے قتل کر دے) تو آپ لوگ اسے (اس کے بدلے میں) قتل کر ڈالیں گے! (ایسی صورت حال پیش آ جائے) تو وہ کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں قرآن نازل ہوا ہے، جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ"، سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (وہ لے کر آئے) پھر دونوں(یعنی عویمر اور اس کی بیوی نے) لعان کیا، میں بھی اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ پھر جب عویمر رضی اللہ عنہ لعان سے فارغ ہوئے تو کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اس لعان کے بعد) اس کو اپنے گھر رکھا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں جھوٹا ہوں (اور میں نے اس پر تہمت لگائی ہے) یہ کہہ کر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے اسے (دھڑا دھڑ) تین طلاقیں دے دیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۴۴ (۴۲۳)، تفسیر سورة النور ۱ (۴۷۵۴)، ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۴ (۵۲۵۹)، ۲۹ (۵۳۰۸)، ۳۰ (۵۳۰۹)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۴)، الأحکام ۱۸ (۷۱۶۶)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۴)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۲)، سنن ابی داود/الطلاق۲۷ (۲۲۴۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق۲۷ (۲۰۶۶)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۴)، مسند احمد (۵/۳۳۱، ۳۳۴، ۳۳۵، ۳۳۶، ۳۳۷)، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا کہ آپ اس سے باخبر نہیں تھے کہ یہ واقعہ پیش آ چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے کسی چیز کے وقوع سے پہلے اس کے متعلق استفسار کو فضول سمجھا۔ ۲؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم رضی الله عنہ کے سوال کو جو ناپسند کیا اور اسے اچھا نہیں سمجھا اس سے عاصم رضی الله عنہ رنجیدہ ہوئے اور انہیں پشیمانی بھی ہوئی۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ، وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا، أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي، وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا النَّفَقَةُ، وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ، إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: میں آل خالد کی بیٹی ہوں اور میرے شوہر فلاں نے مجھے طلاق کہلا بھیجی ہے، میں نے ان کے گھر والوں سے نفقہ و سکنی (اخراجات اور رہائش) کا مطالبہ کیا تو انہوں نے مجھے دینے سے انکار کیا، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن الترمذی/الطلاق ۵ (۱۱۸۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۰ (۲۲۹۱)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۰ (۳۰۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۵)، ویأتي بأرقام۳۵۷۷، ۳۵۷۸، ۳۵۷۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور تین طلاق کے بعد رجوع نہیں کر سکتا اس لیے عورت کو نفقہ و سکنیٰ بھی نہیں ملے گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا، لَيْسَ لَهَا سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةٌ".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین طلاق پائی ہوئی عورت کو نہ سکنی ملے گا اور نہ نفقہ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو وَهُوَ الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ: أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَ فَاطِمَةَ ثَلَاثًا، فَهَلْ لَهَا نَفَقَةٌ ؟ فَقَالَ: "لَيْسَ لَهَا نَفَقَةٌ، وَلَا سُكْنَى".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تین طلاقیں دیں، تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو مخزوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول! ابوعمرو بن حفص نے فاطمہ کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو کیا اسے (عدت کے دوران) نفقہ ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ سکنی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۴۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ جَاءَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: "يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَمْ تَعْلَمْ، أَنَّ الثَّلَاثَ كَانَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، تُرَدُّ إِلَى الْوَاحِدَةِ، قَالَ: نَعَمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر کہا: اے ابن عباس! کیا آپ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے شروع عہد خلافت میں تین طلاقیں (ایک ساتھ) ایک مانی جاتی تھیں، انہوں نے کہا: جی ہاں(معلوم ہے، ایسا ہوتا تھا) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۲ (۱۴۷۲)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۰ (۲۲۰۰)، (تحفة الأشراف: ۵۷۱۵)، مسند احمد (۱/۳۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا عنوان باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ «إن الثلاث كانت ... ترو إلى الواحدة» تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو، جب «غیر مدخول بہا» کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بے محل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں۔ اس چیز کو بتانے کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ فَدَخَلَ بِهَا، ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا، أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا حَتَّى يَذُوقَ الْآخَرُ عُسَيْلَتَهَا، وَتَذُوقَ عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کر لی، وہ دوسرا شخص (تنہائی میں) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے شہد کا اور وہ عورت اس دوسرے شوہر کے شہد کا ذائقہ و مزہ نہ چکھ لے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۹ (۲۳۰۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۵۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴ (۵۲۶۰)، صحیح مسلم/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، مسند احمد (۶/۴۲) (صحیح)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَكَحْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَاللَّهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی اور ان کے پاس تو اس کپڑے کی جھالر جیسے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لگتا ہے تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۴۱۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۴ (۲۳۱۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کے پاس حقوق زوجیت کے ادا کرنے کی صلاحیت و طاقت نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ تَحْتَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ، فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبَابِهَا، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ بِالْبَاب، فَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَسْمَعُ هَذِهِ تَجْهَرُ بِمَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور اللہ کے رسول! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی، انہوں نے (ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہا: ابوبکر! آپ سن رہے ہیں نا جو یہ زور زور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس عورت سے) کہا: تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کے شہد کا مزہ نہ چکھ لو اور وہ تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۶۸ (۶۰۸۴)، صحیح مسلم/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۶۳۱)، مسند احمد (۶/۳۴، ۲۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ تو عورت کے قابل ہی نہیں ہیں۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: هَلْ عَلِمْتَ أَحَدًا، قَالَ فِي أَمْرِكِ بِيَدِكِ، أَنَّهَا ثَلَاثٌ غَيْرَ الْحَسَنِ ؟ فَقَالَ: لَا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ غَفْرًا، إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ثَلَاثٌ"، فَلَقِيتُ كَثِيرًا، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، فَرَجَعْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: نَسِيَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے کہا: کیا آپ حسن کے سوا کسی کو جانتے ہیں؟ جو «أمرک بیدک» کہنے سے تین طلاقیں لاگو کرتا ہو؟ انہوں نے کہا نہیں(میں کسی کو بھی نہیں جانتا) پھر انہوں نے کہا: اللہ انہیں بخش دے اب رہی قتادہ کی حدیث جو انہوں نے مجھ سے کثیر مولی ابن سمرۃ سے روایت کی ہے اور کثیر نے ابوسلمہ سے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ تین طلاقیں ہوتی ہیں" تو (اس کا حال یہ ہے کہ) میری ملاقات کثیر سے ہوئی میں نے ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا تو انہوں نے اسے پہچانا ہی نہیں (کہ میں نے ایسی کوئی روایت کی ہے) میں لوٹ کر قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی (کہ وہ ایسا کہتے ہیں) تو قتادہ نے کہا کہ وہ بھول گئے (انہوں نے ایسی بات کہی ہے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق۱۳ (۲۲۰۴، ۲۲۰۵) مختصرا، سنن الترمذی/الطلاق ۳ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۹۲) (مرفوعا ضعیف، موقوفا صحیح) (مرفوع کی سند میں ’’ کثیر ‘‘ لین الحدیث ہیں، اور قتادہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے مرفوع حدیث ضعیف ہے، اور مؤلف نے بھی حدیث کو منکر کہا ہے، لیکن حسن کے قول کی سند صحیح ہے، اس لیے اثر موقوفا صحیح ہے)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ زَوْجِي طَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، وَإِنِّي تَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: "لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور (آپ سے) کہا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق بھی بتہ دی (کہ وہ رجوع نہیں کر سکتے) تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، لیکن ان کے پاس تو اس کپڑے کے جھالر جیسے کے سوا کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: "لگتا ہے رفاعہ سے تم دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہو؟ (سن لو) تو رفاعہ کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کہ وہ (یعنی دوسرا شوہر) تمہارے شہد کا مزہ نہ چکھ لے اور تم اس کے شہد کا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۸۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا فَطَلَّقَهَا، قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ فَقَالَ: "لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا، كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ اس (دوسرے شخص) نے اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا (ایسی صورت میں) وہ عورت پہلے والے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، جب تک کہ وہ (دوسرا) اس کے شہد کا مزہ نہ لے لو جس طرح اس کے پہلے شوہر نے مزہ چکھ لیا ہے"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴ (۵۲۶۱)، صحیح مسلم/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، تحفة الأشراف: ۱۷۵۳۶)، مسند احمد (۶/۱۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب دوسرا شوہر اس سے مکمل صحبت کر لے گا اور طلاق دیدے گا یا انتقال کر جائے گا تو وہ عدت گزار کر پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی بشرطیکہ وہ اس سے دوبارہ نکاح کرے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ الْغُمَيْصَاءَ أَوْ الرُّمَيْصَاءَ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْتَكِي زَوْجَهَا، أَنَّهُ لَا يَصِلُ إِلَيْهَا، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هِيَ كَاذِبَةٌ وَهُوَ يَصِلُ إِلَيْهَا، وَلَكِنَّهَا تُرِيدُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ ذَلِكَ حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
عبیداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ غمیصاء یا رمیصاء نامی عورت اپنے شوہر کی شکایت لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہ وہ اس کے پاس نہیں آتا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کا شوہر بھی آ گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ جھوٹی عورت ہے، وہ اس کے پاس جاتا ہے، لیکن یہ اپنے پہلے شوہر کے پاس لوٹنا چاہتی ہے (اس لیے ایسا کہہ رہی ہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تمہارے لیے ممکن نہیں ہے جب تک کہ تم اس کا شہد چکھ نہ لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۶۷۰ ألف) مسند احمد (۱/۲۱۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ رَزِينٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الرَّجُلِ تَكُونُ لَهُ الْمَرْأَةُ يُطَلِّقُهَا، ثُمَّ يَتَزَوَّجُهَا رَجُلٌ آخَرُ، فَيُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، فَتَرْجِعَ إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ، قَالَ: "لَا، حَتَّى تَذُوقَ الْعُسَيْلَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آدمی کی بیوی ہوتی ہے وہ اسے طلاق دے دیتا ہے، پھر اس سے دوسرا شخص شادی کر لیتا ہے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے جماع کیے بغیر طلاق دے دیتا ہے، تو وہ اپنے پہلے شوہر کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے؟ تو اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ عورت ایسا نہیں کر سکتی جب تک کہ اس (دوسرے شوہر) کے شہد کو نہ چکھ لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۲ (۱۹۳۳)، (تحفة الأشراف: ۷۰۸۳) مسند احمد (۲/۸۵) (صحیح بما قبلہ)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس سے جماع نہ کر لے۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ رَزِينِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْمَرِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، فَيَتَزَوَّجُهَا الرَّجُلُ فَيُغْلِقُ الْبَاب: وَيُرْخِي السِّتْرَ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا ؟ قَالَ: "لَا تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ، حَتَّى يُجَامِعَهَا الْآخَرُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَوْلَى بِالصَّوَابِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں (مغلظہ) دے دیتا ہے پھر اس سے دوسرا آدمی نکاح کر لیتا ہے اور (اسے لے کر) دروازہ بند کر لیتا ہے، پردے گرا دیتا ہے، (کہ کوئی اندر نہ آ سکے) پھر اس سے جماع کیے بغیر اسے طلاق دے دیتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ پہلے والے شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک اس کا دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کر لے"۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث صواب سے قریب تر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۷۱۵)، مسند احمد (۲/۲۵، ۶۲، ۸۵) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُوتَشِمَةَ، وَالْوَاصِلَةَ وَالْمَوْصُولَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَالْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنے اور گودانے والی پر اور بالوں کو (بڑا کرنے کے لیے) جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر اور حلالہ کرنے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اس پر۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۲۸ (۱۱۲۰) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۹۵۹۵)، مسند احمد (۱/۴۴۸، ۴۶۲، سنن الدارمی/النکاح ۵۳ (۲۳۰۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ عَنِ الَّتِي اسْتَعَاذَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ: "أَنَّ الْكِلَابِيَّةَ لَمَّا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ".
اوزاعی کہتے ہیں کہ میں نے زہری سے اس عورت کے متعلق سوال کیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (بچنے کے لیے، اللہ کی) پناہ مانگی تھی تو انہوں نے کہا: عروہ نے مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان کی ہے کہ کلابیہ (فاطمہ بنت ضحاک بن سفیان) جب (منکوحہ کی حیثیت سے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی اور (اپنی سادہ لوحی سے دوسری ازواج کے سکھا پڑھا دینے کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی) کہہ بیٹھی «أعوذباللہ منک» "میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فوراً) کہا تم نے تو بہت بڑی ذات گرامی کی پناہ مانگ لی ہے، جاؤ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ(یہ کہہ کر گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دے دی)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳ (۵۲۵۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۸ (۲۰۵۰)، تحفة الأشراف: ۱۶۵۱۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: سَمِعْتُفَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، تَقُولُ: أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "كَمْ طَلَّقَكِ ؟"فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: "لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ، ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ ضَرِيرُ الْبَصَرِ، تُلْقِينَ ثِيَابَكِ عِنْدَهُ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ، فَآذِنِينِي"، مُخْتَصَرٌ.
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق کہلا بھیجی تو میں اپنے کپڑے اپنے آپ پر لپیٹ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (نفقہ و سکنی کا مطالبہ لے کر) پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہوں نے تمہیں کتنی طلاقیں دی ہیں؟" میں نے کہا: تین، آپ نے فرمایا: "پھر تو تمہیں نفقہ نہیں ملے گا تم اپنی عدت کے دن اپنے چچا کے بیٹے ابن ام مکتوم کے گھر میں پورے کرو کیونکہ وہ نابینا ہیں، تم ان کے پاس رہ کر بھی اپنے کپڑے اتار سکتی ہو پھر جب تمہاری عدت کے دن پورے ہو جائیں تو مجھے خبر دو"، یہ حدیث طویل ہے، یہاں مختصر بیان ہوئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن الترمذی/النکاح ۳۸ (۱۱۳۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق۱۰ (۲۰۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۷)، مسند احمد (۶/۴۱۲۴۱۱، ۴۱۳، ویأتي برقم: ۳۵۸۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ تَمِيمٍ مَوْلَى فَاطِمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ، نَحْوَهُ.
مجاہد فاطمہ (فاطمہ بنت قیس) کے غلام تمیم سے اور وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے طرح جیسی کہ اوپر روایت گزری ہے روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۰)، مسند احمد (۶/۴۱۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمَوْصِلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي جَعَلْتُ امْرَأَتِي عَلَيَّ حَرَامًا، قَالَ: كَذَبْتَ لَيْسَتْ عَلَيْكَ بِحَرَامٍ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1، عَلَيْكَ أَغْلَظُ الْكَفَّارَةِ، عِتْقُ رَقَبَةٍ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے، تو انہوں نے اس سے کہا: تم غلط کہتے ہو وہ تم پر حرام نہیں ہے، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» (اور کہا) تم پر سخت ترین کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۵۱۱) (ضعیف الإسناد و ہو فی المتفق علیہ مختصردون قولہ: ’’وعلیک أغلظ…‘‘ (أی بلفظ ’’إذاحرم الرجل امرأتہ فہی یمین یکفرہا‘‘ انظرخ الطلاق، وم فیہ۳)
وضاحت: ۱؎: سخت ترین کفارہ کا ذکر اس لیے کیا تاکہ لوگ ایسے عمل سے باز رہیں ورنہ ظاہر قرآن سے کفارہ یمین کا ثبوت ملتا ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ وَحَفْصَةُ أَيَّتُنَا، مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَيْهِمَا، فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ، وَقَالَ: لَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1، إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 4، لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3"، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا، كُلُّهُ فِي حَدِيثِ عَطَاءٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور ان کے پاس شہد پی کر آتے تو ہم نے اور حفصہ نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں وہ کہے کہ (کیا بات ہے) مجھے آپ کے منہ سے مغافیر ۱؎ کی بو آتی ہے، آپ ہم میں سے ایک کے پاس آئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ آپ نے کہا: "میں نے تو کچھ کھایا پیا نہیں بس زینب کے پاس صرف شہد پیا ہے (اور جب تم ایسا کہہ رہی ہو کہ اس سے مغافیر کی بو آتی ہے) تو آئندہ نہ پیوں گا"۔ چنانچہ عائشہ اور حفصہ کی وجہ سے یہ آیت: «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل اللہ لك» "اے نبی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں" (التحریم: ۱) اور «إن تتوبا إلى اللہ» "(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے)"۔ (التحریم: ۴) نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول: میں نے تو شہد پیا ہے کی وجہ سے یہ آیت: «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» "اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی" (التحریم: ۳) نازل ہوئی ہے، اور یہ ساری تفصیل عطا کی حدیث میں موجود ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۱۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مغفر ایک قسم کی گوند ہے جو بعض درختوں سے نکلتی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيِّ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَسَاقَ قِصَّتَهُ، وَقَالَ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي فَقَالَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا ؟ قَالَ: لَا، بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذَا الْأَمْرِ".
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ فرمایا:) … ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۱۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بعد والی حدیث میں اس کی تفصیل آ رہی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيِّ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَسَاقَ قِصَّتَهُ، وَقَالَ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي فَقَالَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا ؟ قَالَ: لَا، بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذَا الْأَمْرِ".
عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آ کر کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس(قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۱۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا «الحقی بأھلک» سے طلاق اس وقت واقع ہو گی جب اسے طلاق کی نیت سے کہا جائے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَبَلَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْإِسْحَاق بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ يُحَدِّثُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِلَى صَاحِبَيَّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا نِسَاءَكُمْ، فَقُلْتُ لِلرَّسُولِ: أُطَلِّقُ امْرَأَتِي أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ: "لَا، بَلْ تَعْتَزِلُهَا، فَلَا تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي فِيهِمْ فَلَحِقَتْ بِهِمْ".
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ۱؎، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور انہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۱۶ (۲۷۵۷)، الجہاد ۱۰۳ (۲۹۵۷)، ۱۹۸ (۳۰۸۸)، المناقب ۲۳ (۳۵۵۶)، المغازي ۳ (۳۹۵۱)، تفسیر سورة البراء ة ۱۴ (۴۶۷۳)، ۱۷ (۴۶۷۷)، ۱۸ (۴۶۷۶)، ۱۹ (۴۶۷۸)، الاستئذان۲۱ (۶۲۵۵)، الأیمان والنذور ۲۴ (۶۶۹۰)، الأحکام ۵۳ (۲۷۲۵)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۲ (۲۷۶۹)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۱ (۲۲۰۲)، الجہاد ۱۷۳ (۲۷۷۳)، ۱۷۸ (۲۷۸۱)، الأیمان والنذور ۲۹ (۳۳۱۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر التوبة (۳۱۰۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۳۱)، مسند احمد (۳/۴۵۶، ۴۵۷، ۴۵۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۴ (۱۵۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے۔ ۲؎: مرارہ بن ربیع العمری، ھلال بن امیہ الواقفی رضی الله عنہما۔
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبًا يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، وَيَقُولُ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا، أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ: بَلِ اعْتَزِلْهَا، وَلَا تَقْرَبْهَا، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، وَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذَا الْأَمْرِ"، خَالَفَهُمْ مَعْقِلُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، میں نے (اس سے) کہا: میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: (طلاق نہ دو) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ایسا ہی پیغام دے کر بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ رہو اور اس وقت تک رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔ معقل بن عبیداللہ نے ان سب کے خلاف ذکر کیا ہے (تفصیل آگے حدیث میں آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۵۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِيعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبًا يُحَدِّثُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى صَاحِبَيَّ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا نِسَاءَكُمْ، فَقُلْتُ لِلرَّسُولِ: أُطَلِّقُ امْرَأَتِي، أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ: لَا، بَلْ تَعْتَزِلُهَا، وَلَا تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي فِيهِمْ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَحِقَتْ بِهِمْ"، خَالَفَهُ مَعْمَرٌ.
عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو، بلکہ اس سے الگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ، (یہ سن کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور جب تک اللہ عزوجل فیصلہ نہ کر دے انہیں لوگوں میں رہو، تو بیوی انہیں لوگوں کے پاس جا کر رہنے لگی۔(ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) معمر نے معقل کے خلاف ذکر کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۵۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اشارہ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ معقل اور معمر دونوں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ معقل نے اس روایت میں «لاتقربھا» کے بعد«فقلت لامرأتی الحقی باھلک …… ذکر کیا ہے۔ لیکن معمر نے اپنی روایت میں جو اب آ رہی ہے اور ان کے استاد زہری ہی کے واسطہ سے آ رہی ہے«لاتقربھا» کے بعد «فقلت لامرأتی الحقی باھلک … کا ذکر نہیں کیا ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ فِي حَدِيثِهِ: إِذَا رَسُولٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَتَانِي، فَقَالَ: اعْتَزِلِ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لَا تَقْرَبْهَا"، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، الْحَقِي بِأَهْلِكِ.
عبدالرحمٰن بن کعب اپنے والد کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے واقعے کے ذکر میں بتایا: اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا تم اپنی بیوی سے جدا ہو جاؤ، میں نے اس سے کہا: میں اسے طلاق دے دوں، اس نے کہا نہیں، طلاق نہ دو، لیکن اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس حدیث میں انہوں نے «الحقی باھلک» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۱۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ، أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: "كُنْتُ أَنَا وَامْرَأَتِي مَمْلُوكَيْنِ، فَطَلَّقْتُهَا تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ أُعْتِقْنَا جَمِيعًا، فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنْ رَاجَعْتَهَا كَانَتْ عِنْدَكَ عَلَى وَاحِدَةٍ، قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، خَالَفَهُ مَعْمَرٌ.
ابوالحسن مولیٰ بنی نوفل کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں غلام تھے، میں نے اسے دو طلاقیں دے دی، پھر ہم دونوں اکٹھے ہی آزاد کر دیے گئے۔ میں نے ابن عباس سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: اگر تم اس سے رجوع کر لو تو وہ تمہارے پاس رہے گی اور تمہیں ایک طلاق کا حق حاصل رہے گا، یہی فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ معمر نے اس کے خلاف ذکر کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۶ (۲۱۸۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۲ (۲۰۸۲)، (تحفة الأشراف: ۶۵۶۱)، مسند احمد (۱/۲۲۹) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ عمر بن معتب ‘‘ ضعیف ہیں )
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُعَتِّبٍ، عَنْ الْحَسَنِ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ"عَبْدٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ عُتِقَا، أَيَتَزَوَّجُهَا ؟ قَالَ: نَعَمْ"، قَالَ: عَمَّنْ ؟ قَالَ: أَفْتَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لِمَعْمَرٍ: الْحَسَنُ هَذَا مَنْ هُوَ لَقَدْ حَمَلَ صَخْرَةً عَظِيمَةً.
بنی نوفل کے غلام حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک غلام کے متعلق جس نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں پھر وہ دونوں آزاد کر دیے گئے، پوچھا گیا: کیا وہ اس سے شادی کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، (کر سکتا ہے) کسی نے کہا کس سے سن کر یہ بات کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ میں یہی فتویٰ دیا ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے کہا: یہ حسن کون ہیں؟ انہوں نے تو اپنے سر پر ایک بڑی چٹان لاد لی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)
وضاحت: ۱؎: غلام دو طلاق دیدے تو عورت بائنہ ہو جاتی ہے، بائنہ ہو جانے کے بعد عورت جب تک کسی اور سے شادی نہ کر لے اور طلاق یا موت کسی بھی وجہ سے اس کی علیحدگی نہ ہو جائے تو وہ عورت پہلے شوہر سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں دونوں کو آزاد ہو جانے کے بعد بغیر حلالہ کے شادی کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اب یہ روایت - اللہ نہ کرے - غلط ہوئی تو اس طرح کی سبھی شادیوں کا وبال اس راوی حسن کے ذمہ آئے گا اور وہ گویا ایک بڑی چٹان کے نیچے دب کر رہ جائے گا۔
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْعُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنَا قُرَيْظَةَ، أَنَّهُمْ"عُرِضُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَمَنْ كَانَ مُحْتَلِمًا أَوْ نَبَتَتْ عَانَتُهُ قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مُحْتَلِمًا أَوْ لَمْ تَنْبُتْ عَانَتُهُ تُرِكَ".
قریظہ رضی الله عنہ کے دونوں بیٹے روایت کرتے ہیں کہ وہ سب (یعنی بنو قریظہ کے نوجوان) قریظہ کے (فیصلے کے) دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے، تو جسے احتلام ہونے لگا تھا، یا جس کی ناف کے نیچے کے بال اگ آئے تھے اسے (جوان قرار دے کر) قتل کر دیا گیا۔ اور جسے ابھی احتلام ہونا شروع نہیں ہوا تھا یا جس کی ناف کے نیچے کے بال نہیں آئے تھے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا گیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۶۶۱)، مسند احمد (۴/۳۴، ۵/۳۷۲) (صحیح) (آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو جائے اور اچھا برا سمجھنے نہ لگے اسے طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے۔
أخبرنا محمد بن منصور قال حدثنا سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عطية القرظي قال: كنت يوم حكم سعد في بني قريظة غلاما فشكوا في فلم يجدوني أنبت فاستبقيت فها أنا ذا بين أظهركم .
عطیہ قرظی کہتے ہیں کہ جب سعد رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے مردوں کے قتل کا فیصلہ دیا تو اس وقت میں بچہ تھا، لوگوں کو میرے متعلق شبہ ہوا (کہ میں فی الواقع بچہ ہوں یا جوان؟ جب انہوں نے تحقیق کی) تو مجھے زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا اور میں بچ رہا۔ چنانچہ میں آج تمہارے درمیان موجود ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۱۷ (۴۴۰۴)، سنن الترمذی/السیر ۲۹ (۱۵۸۴)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۴ (۲۵۴۱)، مسند احمد (۴/۳۱۰، ۳۸۳، و۵/۳۱۱، ۳۱۲، سنن الدارمی/السیر ۲۶ (۲۵۰۷)، ویأتي عند المؤلف في القطع ۱۷ برقم: ۴۹۸۴، ۴۴۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْهُ، وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ۱۴ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۱۸ (۲۶۶۴)، المغازي ۲۹ (۴۰۹۷)، سنن ابی داود/الخراج ۱۶ (۲۹۵۷)، الحدود ۱۷ (۴۴۰۶)، (تحفة الأشراف: ۸۱۵۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۳ (۱۸۶۸)، سنن الترمذی/الأحکام ۲۴ (۱۳۱۶)، الجہاد ۳۱ (۱۷۱۱)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۴ (۵۲۴۳)، مسند احمد (۲/۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْإِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبُرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ أَوْ يُفِيقَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ۱؎ ایک تو سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگے ۲؎، دوسرے نابالغ سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، تیسرے دیوانے سے یہاں تک کہ وہ عقل و ہوش میں آ جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الحدود ۱۶ (۴۳۹۸)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۵ (۲۰۴۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۳۵)، مسند احمد (۶/۱۰۰، ۱۰۱، ۱۴۴)، سنن الدارمی/الحدود ۱ (۲۳۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ان حالات میں ان پر گناہ کا حکم نہیں لگتا۔ ۲؎: یعنی سونے کی حالت میں جو کچھ کہہ دے اس کا اعتبار نہ ہو گا۔
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْعَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي كُلَّ شَيْءٍ حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، (عبدالرحمٰن کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے معاف کر دیا ہے جو وہ دل میں سوچتے ہیں جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں اور اس پہ عمل نہ کریں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۴۱۹۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي، مَا وَسْوَسَتْ بِهِ وَحَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ بِهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل نے ہماری امت کے وسوسوں اور جی میں گزرنے والے خیالات سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۶ (۲۵۲۸)، الطلاق ۱۱ (۵۲۶۹)، الأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۵۸ (۱۲۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۵ (۲۲۰۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۸ (۱۱۸۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۹۶)، مسند احمد ۲/ ۲۵۵، ۳۹۳، ۳۹۸، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَكَلَّمْ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے لوگوں کے دل میں جو بات کھٹکتی اور گزرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرما دیا ہے جب تک کہ اسے زبان سے نہ کہیں یا اس پہ عمل نہ کریں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۶۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَارٌ فَارِسِيٌّ طَيِّبُ الْمَرَقَةِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعِنْدَهُ عَائِشَةُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ تَعَالَ، وَأَوْمَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ أَيْ وَهَذِهِ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الْآخَرُ هَكَذَا بِيَدِهِ أَنْ لَا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو اچھا شوربہ بناتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں، اس نے آپ کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا، آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا:"کیا انہیں بھی لے کر آؤں"، اس نے ہاتھ سے اشارہ سے منع کیا دو یا تین بار کہ نہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأشربة ۱۹ (۲۰۳۷)، (تحفة الأشراف: ۳۳۵)، مسند احمد (۳/۱۲۳، ۲۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ کوئی اشارۃً طلاق دے اور معلوم ہو جائے کہ طلاق دے رہا ہے تو طلاق پڑ جائے گی۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ آدمی جیسی نیت کرے گا ویسا ہی پھل پائے گا، جو اللہ و رسول کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی (اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کا ثواب ملے گا) اور جو کوئی دنیا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے دنیا ملے گی، یا عورت حاصل کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اسے عورت ملے گی۔ ہجرت جس قصد و ارادے سے ہو گی اس کا حاصل اس کے اعتبار سے ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۷۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ: "انْظُرُوا كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ، وَلَعْنَهُمْ، إِنَّهُمْ يَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا، وَأَنَا مُحَمَّدٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ذرا دیکھو تو (غور کرو) اللہ تعالیٰ قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے مجھے کس طرح بچا لیتا ہے، وہ لوگ مجھے مذمم کہہ کر گالیاں دیتے اور مذمم کہہ کر مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں اور میں محمد ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۷۸۲)، مسند احمد (۲/۲۴۴، ۳۴۰، ۳۶۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی نام اور وصف دونوں اعتبار سے میں محمد ہوں، لہٰذا مجھ پر مذمم کا اطلاق کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ محمد کا مطلب ہے جس کی تعریف کی گئی ہو تو مجھ پر ان کی گالیوں اور لعنتوں کا اثر کیونکر پڑ سکتا ہے۔ گویا ایسا لفظ جو طلاق کے معنی و مفہوم کے منافی ہے اس کا اطلاق طلاق پر اسی طرح نہیں ہو سکتا جس طرح مذمم کا اطلاق محمد پر نہیں ہو سکتا ہے۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمُوسَى بْنُ عُلَيٍّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: "لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا إِلَى قَوْلِهِ: جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَرَسُولَهُ، وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ فَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، وَلَمْ يَكُنْ ذَلِكَ حِينَ قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاخْتَرْنَهُ طَلَاقًا مِنْ أَجْلِ أَنَّهُنَّ اخْتَرْنَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا ۱؎ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس(اختیار دہی) کی ابتداء مجھ سے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں تو ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر فیصلہ لینے میں جلدی نہ کرنا"۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی سمجھتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا» "اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں"۔ (الاحزاب: ۲۸) تک پڑھی (یہ آیت سن کر) میں نے کہا: میں اس بات کے لیے اپنے ماں باپ سے صلاح و مشورہ لوں؟ (مجھے کسی سے مشورہ نہیں لینا ہے) میں اللہ عزوجل، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں (یہی میرا فیصلہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں نے بھی ویسا ہی کیا (اور کہا) جیسا میں نے کیا (اور کہا) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سے کہنے اور ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کر لینے سے طلاق واقع نہیں ہوئی ۴؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دنیا اور اس کی زینت اور نبی کی مصاحبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لیں۔ ۲؎: معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی الله عنہا کے خیار کی مدت ماں باپ سے مشورہ لینے تک متعین کی۔ ۴؎: اس لیے کہ وہ بیویاں تو پہلے ہی سے تھیں، اگر وہ آپ کو منتخب نہ کرتیں تب طلاق ہو جاتی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "لَمَّا نَزَلَتْ وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ سورة الأحزاب آية 29، دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تُعَجِّلِي، حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: قَدْ عَلِمَ وَاللَّهِ، أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِّي بِفِرَاقِهِ، فَقَرَأَ عَلَيَّ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا سورة الأحزاب آية 28، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ ؟ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ، وَرَسُولَهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالْأَوَّلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب آیت: «إن كنتن تردن اللہ ورسوله» اتری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے مجھ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: "عائشہ! میں تم سے ایک بات کہنے والا ہوں، تو تم اپنے ماں باپ سے مشورہ کیے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔" آپ بخوبی جانتے تھے کہ قسم اللہ کی میرے ماں باپ مجھے آپ سے جدائی اختیار کر لینے کا مشورہ و حکم دینے والے ہرگز نہیں ہیں، پھر آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی: «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها» میں نے (یہ آیت سن کر) آپ سے عرض کیا: کیا آپ مجھے اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں، میں تو اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں (اس بارے میں مشورہ کیا کرنا؟)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ (یعنی حدیث «معمر عن الزہری عن عائشہ» غلط ہے اور اول (یعنی حدیث «یونس و موسیٰ عن ابن شہاب، عن أبی سلمہ عن عائشہ» زیادہ قریب صواب ہے۔ واللہ أعلم۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب ۱۵ (۴۷۸۶م) تعلیقًا، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۰ (۲۰۹)، تحفة الأشراف: ۱۶۶۳۲)، مسند احمد (۶/۳۳، ۱۶۳، ۱۸۵، ۲۶۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَرْنَاهُ، فَهَلْ كَانَ طَلَاقًا ؟".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو چن لیا، تو کیا یہ طلاق ہوئی؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں ہوئی)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ، قَالَ: قَالَ الشَّعْبِيُّ: عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "قَدْ خَيَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَلَمْ يَكُنْ طَلَاقًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ اختیار دینا طلاق نہیں ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صُدْرَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "قَدْ خَيَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَلَمْ يَكُنْ طَلَاقًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تو یہ اختیار طلاق نہیں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "قَدْ خَيَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، أَفَكَانَ طَلَاقًا ؟".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو (انتخاب کا) اختیار دیا تو کیا یہ (اختیار) طلاق تھا؟ (نہیں، یہ طلاق نہیں تھا)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۰۴ (صحیح)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الضَّعِيفُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ يَعُدَّهَا عَلَيْنَا شَيْئًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم سب نے آپ کو منتخب اور قبول کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم سے متعلق کچھ بھی شمار نہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۰۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَوْهَبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كَانَلِعَائِشَةَ غُلَامٌ وَجَارِيَةٌ، قَالَتْ: فَأَرَدْتُ أَنْ أُعْتِقَهُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "ابْدَئِي بِالْغُلَامِ قَبْلَ الْجَارِيَةِ".
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی تھی (یہ دونوں میاں بیوی تھے) میرا ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو میں آزاد کر دوں۔ میں نے اس ارادہ کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا تو آپ نے فرمایا: "لونڈی سے پہلے غلام کو آزاد کرو (پھر لونڈی کو)" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۲۲ (۲۲۳۷)، سنن ابن ماجہ/العتق ۱۰ (۲۵۳۲) (تحفة الأشراف: ۱۷۵۳۴) (ضعیف) (اس کے راوی عبدالرحمن بن موہب ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: غالباً ایسا عورت کے مقابلے میں مرد کی بزرگی و بڑائی کے باعث کہا گیا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ إِحْدَى السُّنَنِ: أَنَّهَا أُعْتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ ؟"فَقَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ولاء(میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے"، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟" (تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہو گا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو)" ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ النکاح ۱۹ (۵۰۹۷)، الطلاق ۲۴ (۵۲۷۹)، العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الأطعمة ۳۱ (۵۴۳۰)، الفرائض۲۰ (۶۷۵۴)، ۲۲ (۶۷۵۷)، ۲۳ (۶۷۵۹)، م /الزکاة ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۴۹) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۵)، سنن الترمذی/البیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، والولاء ۱ (۲۱۲۵)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۰ (۲۵)، مسند احمد (۶/۱۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ۲؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔۳؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ، أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُعْتِقَتْ، "فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، وَكَانَ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهَا، فَتُهْدِي لَنَا مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "كُلُوهُ فَإِنَّهُ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: "(ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہو گا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے"، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: "اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۲۸)، مسند احمد (۶/۴۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۶، ۲۳۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور ہدیہ قبول کرنا ہمارے لیے جائز ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ"، قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا، قَالَتْ: لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: "تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد کر دینے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہو گئی)، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الفرائض ۲۰ (۶۷۵۴)، ۲۲ (۶۷۵۸)، سنن الترمذی/البیوع ۱۲ (۱۲۵۶)، الولاء ۱ (۲۱۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۹۲) (صحیح) (حدیث میں ’’وکان زوجہاحرا‘‘ کا لفظ شاذ ہے)
وضاحت: ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم :(۳۴۸۱ ) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے «وکان عبدا» یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقِيلَ: إِنَّ هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: "هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: "اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے تو ہدیہ و تحفہ ہے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، بریرہ کا شوہر آزاد شخص تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۶۱۵) (صحیح دون قولہ: ’’…حرا‘‘ والمحفوظ أنہ کان عبدا مملوکا کما یأتی فی الباب التالی)
وضاحت: ۱؎: لہٰذا بیچنے والا اگر شرط لگائے تو وہ شرط فاسد ہے اور شرط فاسد کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَاتَبَتْ بَرِيرَةُ عَلَى نَفْسِهَا بِتِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِأُوقِيَّةٍ، فَأَتَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا، فَقَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ فَكَلَّمَتْ فِي ذَلِكَ أَهْلَهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَجَاءَتْ إِلَى عَائِشَةَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ لَهَا: مَا قَالَ أَهْلُهَا، فَقَالَتْ: لَا، هَا اللَّهِ إِذًا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا هَذَا ؟"فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْنِي تَسْتَعِينُ بِي عَلَى كِتَابَتِهَا، فَقُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ابْتَاعِيهَا، وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؟ يَقُولُونَ: أَعْتِقْ فُلَانًا وَالْوَلَاءُ لِي، كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَكُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا، وَكَانَ عَبْدًا، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَوْ كَانَ حُرًّا، مَا خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنی آزادی کے لیے نو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنے کی شرط ٹھہرائی اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا: میں اس طرح مدد تو نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ میں انہیں ایک ہی دفعہ میں پوری رقم گن دوں اور ولاء (وراثت) میرا حق ہو (تو میں ایسا کر سکتی ہوں)، بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی اور ان لوگوں سے اس معاملے میں بات کی، تو انہوں نے بغیر ولاء (وراثت) کے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا (کہا ولاء (میراث) ہم لیں گے) تو وہ لوٹ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، اور اسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مالک کے جواب سے انہیں (عائشہ کو) آگاہ کیا، انہوں نے کہا: نہ قسم اللہ کی جب تک ولاء(میراث) مجھے نہ ملے گی (میں اکٹھی رقم نہ دوں گی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا قصہ ہے؟ انہوں کہا: اللہ کے رسول! (بات یہ ہے کہ) بریرہ اپنی مکاتبت رضی اللہ عنہا پر مجھ سے امداد طلب کرنے آئی تو میں نے اس سے کہا میں یوں تو مدد نہیں کرتی مگر ہاں اگر وہ ولاء (میراث) کو میرا حق تسلیم کریں تو میں ساری رقم انہیں یکبارگی گن دیتی ہوں، اس بات کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، ولاء (میراث) ہم لیں گے (تب ہی ہم اس پر راضی ہوں گے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ سے) کہا: "تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولاء (میراث) کی شرط مان لو، ولاء اس شخص کا حق ہے جو اسے آزاد کرے (اس طرح جب تم خرید کر آزاد کر دو گی تو حق ولاء (میراث) تم کو مل جائے گا)" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو خطاب کیا (سب سے پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہیں ہیں، کہتے ہیں: (ہم سے خرید کر) آزاد تم کرو لیکن ولاء (وراثت) ہم لیں گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب بر حق و صحیح تر ہے اور اللہ کی شرط مضبوط، ٹھوس اور قابل اعتماد ہے اور ہر وہ شرط جس کا کتاب اللہ میں وجود و ثبوت نہیں ہے باطل و بے اثر ہے، اگرچہ وہ ایک نہیں سو شرطیں ہوں"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا تو اس نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ عروہ کہتے ہیں: اگر اس کا شوہر آزاد شخص ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے (علیحدہ ہو جانے کا) اختیار نہ دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۲ (۱۵۰۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳) مختصراً، سنن الترمذی/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۷۰)، مسند احمد (۶/۱۷۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام شخص تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۵۴)، مسند احمد (۶/۲۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْعَائِشَةَ: أَنَّهَا اشْتَرَتْ بَرِيرَةَ مِنْ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَاءُ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، وَأَهْدَتْ لِعَائِشَةَ لَحْمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ وَضَعْتُمْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ ؟"قَالَتْ عَائِشَةُ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: "هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو کچھ انصاری لوگوں سے خریدا جنہوں نے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط رکھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ولاء (میراث) کا حقدار ولی نعمت (آزاد کرانے والا) ہوتا ہے" ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا (اس نے اس حق کا اپنے حق میں استعمال کیا اور شوہر کو چھوڑ دیا)، اس نے (بریرہ نے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت کا ہدیہ بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس گوشت میں ہمارے لیے بھی تو حصہ رکھنا تھا"، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ گوشت بریرہ کے پاس صدقہ آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا لیکن ہمارے لیے (صدقہ نہیں) ہدیہ ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۲ (۱۵۰۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۱۹ (۲۲۳۴)، مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۹۰) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جو خریدے اور خرید کر آزاد کرے۔ ۲؎: نبی اور اس کے اہل بیت کے لیے صدقہ کھانا حرام ہے، ہدیہ کھانا حرام نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ وَصِيَّ أَبِيهِ، قَالَ: وَفَرِقْتُ أَنْ أَقُولَ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِيكَ، قَالَتْعَائِشَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَرِيرَةَ، وَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، وَاشْتُرِطَ الْوَلَاءُ لِأَهْلِهَا، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، قَالَ: وَخُيِّرَتْ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، ثُمَّ قَالَ: بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَدْرِي ؟ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَقَالُوا: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، قَالَ: "هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے"۔ راوی کہتے ہیں: (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: "وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے" (اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۱۳ (۲۵۸۷)، صحیح مسلم/الزکاة ۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۹۱)، مسند احمد (۶/۱۷۲)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۶۴۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، قَالَ: تَذَاكَرْنَا الشَّهْرَ عِنْدَهُ، فَقَالَ بَعْضُنَا: ثَلَاثِينَ، وَقَالَ بَعْضُنَا: تِسْعًا وَعِشْرِينَ، فَقَالَ أَبُو الضُّحَى: حَدَّثَنَاابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَصْبَحْنَا يَوْمًا وَنِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِينَ، عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَهْلُهَا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ مَلْآنٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَجَاءَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَصَعِدَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي عُلِّيَّةٍ لَهُ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، ثُمَّ سَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ، فَرَجَعَ فَنَادَى بِلَالًا، فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟ فَقَالَ: "لَا، وَلَكِنِّي آلَيْتُ مِنْهُنَّ شَهْرًا، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَدَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ".
ابویعفور کہتے ہیں کہ ہم ابوالضحیٰ کے پاس تھے اور ہماری بحث مہینہ کے بارے میں چھڑ گئی، بعض نے کہا کہ مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے اور بعض نے کہا: انتیس (۲۹)دن کا۔ ابوالضحیٰ نے کہا: (سنو) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے حدیث بیان کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک صبح ہم سب کی ایسی آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رو رہی تھیں اور ان سبھی کے پاس ان کے گھر والے موجود تھے، میں مسجد میں پہنچا تو مسجد (کھچا کھچ) بھری ہوئی تھی، (اس وقت) عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اوپر چڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ اپنے بالا خانہ میں تھے، آپ کو سلام کیا تو کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سلام کیا پھر کسی نے انہیں جواب نہیں دیا، پھر سلام کیا پھر انہیں کسی نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ پھر لوٹ پڑے اور بلال کو بلایا ۱؎ اور اوپر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، لیکن میں نے ان سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا ہے، پھر آپ انتیس (۲۹) دن(اوپر) وہاں قیام فرما رہے، پھر نیچے آئے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح۹۲ (۵۲۰۳)، (تحفة الأشراف: ۶۴۵۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «نادی بلالا» :(بلال کو بلایا ) کے بجائے «نادی بلال» ہے جیسا کہ "فتح الباری۹/۳۰۲" میں مذکور ہے، یعنی عمر رضی الله عنہ کو بلال نے آواز دی۔ «ایلاء» کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور شرع میں «ایلاء» یہ ہے کہ جماع پر قدرت رکھنے والا شوہر اللہ کے نام یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم اس بات پر کھائے کہ وہ اپنی بیوی کو چار ماہ سے زائد عرصہ تک کے لیے اپنے سے جدا رکھے گا اور اس سے جماع نہیں کرے گا۔ اس تعریف کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ «ایلاء» لغوی اعتبار سے تھا اور مباح تھا، کیونکہ آپ نے صرف ایک ماہ تک کے لیے «ایلاء» کیا تھا اور اس «ایلاء» کا سبب یہ تھا کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما نے آپ سے مزید نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ «ایلاء» کرنے والا اگر اپنی قسم توڑ دے تو اس پر کفارہ یمین لازم ہے، اور کفارہ یمین یہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا، اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو تین دن روزے رکھنا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "آلَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ، فَمَكَثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نَزَلَ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ آلَيْتَ عَلَى شَهْرٍ ؟ قَالَ: "الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینے تک نہ جانے کا عہد کیا (یعنی ایلاء کیا) اور انتیس (۲۹) راتیں اپنے بالاخانے پر رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر آئے، آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مہینہ بھر کا ایلاء نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: "مہینہ انتیس (۲۹)دن کا (بھی) ہوا کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۴۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۸ (۳۷۸)، المظالم۲۵ (۲۴۶۹)، النکاح ۹۱ (۵۲۰۱)، الطلاق ۲۱ (۵۲۸۹)، الأیمان والنذور ۲۰ (۶۶۸۴)، سنن الترمذی/الصوم ۶ (۶۸۹، ۶۹۰)، مسند احمد (۳/۲۰۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي، فَوَقَعْتُ قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ، قَالَ: "وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ ؟"قَالَ: رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا فِي ضَوْءِ الْقَمَرِ، فَقَالَ: "لَا تَقْرَبْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا پھر اس سے صحبت کر بیٹھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا لیکن میں کفارہ ادا کیے بغیر اس سے جماع کر بیٹھا۔ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، ایسا کر گزرنے پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا ہے"؟ اس نے کہا: چاند کی چاندنی میں میں نے اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اس سے جماع کر بیٹھا) آپ نے فرمایا: "(اچھا اب) اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ نے (ایسے موقع پر کرنے کا) حکم دیا ہے (یعنی کفارہ ادا کر دو)" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۷ (۲۲۲۵)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی مرد کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ ۲؎: ظہار کا کفارہ یہ ہے: ایک مؤمن غلام آزاد کرنا اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: تَظَاهَرَ رَجُلٌ مِنِ امْرَأَتِهِ، فَأَصَابَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ ؟"قَالَ: رَحِمَكَ اللَّهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا أَوْ سَاقَيْهَا فِي ضَوْءِ الْقَمَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا (یعنی اپنی بیوی کو اپنی ماں کی طرح کہہ کر حرام کر لیا) پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے صحبت کر لی، پھر جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا (کہ ایسا ایسا ہو گیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کس چیز نے تمہیں اس قدر بے قابو کر دیا کہ تم اس کام کے کرنے پر مجبور ہو گئے"، اس نے کہا: اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ پر اللہ کے رسول! میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی پازیب دیکھ لی (راوی کو شبہ ہو گیا کہ یہ کہا یا یہ کہا) کہ میں نے چاند کی چاندنی میں اس کی (چمکتی ہوئی) پنڈلیاں دیکھ لیں (تو مجھ سے رہا نہ گیا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے دور رہو جب تک کہ وہ نہ کر لو جس کا اللہ عزوجل نے تمہیں کرنے کا حکم دیا ہے" (یعنی کفارہ ادا کر دو)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُالْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّهُ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ غَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يَفْعَلَ مَا عَلَيْهِ، قَالَ: "مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ ؟"قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقَيْهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَاعْتَزِلْ حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ"، وَقَالَ إِسْحَاق فِي حَدِيثِهِ: فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ، وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْمُرْسَلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنَ الْمُسْنَدِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: "کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟" اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)"۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی حدیث میں «فاعتزل» کے بجائے «فاعتزلہا» بیان کیا ہے اور یہ «فاعتزل» لفظ محمد کی روایت میں ہے۔ امام ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ مرسل حدیث مسند کے مقابل میں زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۸۷ (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ حدیث مسنداً ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے اور مرسلاً عکرمہ سے اور مسند کی بنسبت مرسل روایت صحیح ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتْ خَوْلَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَشْكُو زَوْجَهَا، فَكَانَ يَخْفَى عَلَيَّ كَلَامُهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا سورة المجادلة آية 1".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں جو ہر آواز سنتا ہے، خولہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگیں (کہ انہوں نے ان سے ظہار کر لیا ہے) ان کی باتیں مجھے سنائی نہ پڑ رہی تھیں، تو اللہ عزوجل نے «قد سمع اللہ قول التي تجادلك في زوجها وتشتكي إلى اللہ واللہ يسمع تحاوركما» اتاری (جس سے ہم سبھی کو معلوم ہو گیا کہ کیا باتیں ہو رہی تھیں)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التوحید ۹ (۷۳۸۵) (تعلیقاً)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۳ (۱۸۸)، الطلاق ۲۵ (۲۰۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۳۲)، مسند احمد (۶/۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے :(المجادلہ:۱ )۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمَخْزُومِيُّ وَهُوَ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِالْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "الْمُنْتَزِعَاتُ، وَالْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ"، قَالَ الْحَسَنُ: لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ غَيْرِ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے شوہروں سے بلا عذر کے خلع اور طلاق مانگنے والیاں منافق عورتیں ہیں" ۲؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے ابوہریرہ کے سوا کسی اور سے نہیں سنی ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: حسن بصری نے (یہ حدیث ہی کیا) ابوہریرہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۲۲۵۶)، مسند احمد (۲/۴۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «خلع» کچھ مال دے کر بیوی اپنے شوہر سے جدائی اور علیحدگی اختیار کر لے اسے «خلع» کہتے ہیں۔ وضاحت ۲؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو منافق بطور زجر و توبیخ کہا ہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں کہ جنت میں دخول اولیٰ کا مستحق نہیں قرار پائیں گی، کیونکہ بظاہر یہ اطاعت گزار و فرمانبردار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ، فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ هَذِهِ ؟"قَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "مَا شَأْنُكِ ؟"قَالَتْ: لَا أَنَا، وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، قَدْ ذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ"، فَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتٍ: "خُذْ مِنْهَا، فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ فِي أَهْلِهَا".
حبیبہ بنت سہل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) صبح صادق میں نکلے تو ان کو اپنے دروازے پر تاریکی میں کھڑا ہوا پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کون ہے یہ؟" تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ نے فرمایا: "کیا بات ہے، کیسے آنا ہوا؟" انہوں نے کہا: نہ میں اور نہ ثابت بن قیس (یعنی دونوں بحیثیت میاں بیوی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، آپ ہم میں علیحدگی کرا دیجئیے) پھر جب ثابت بن قیس بھی آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "یہ حبیبہ بنت سہل ہیں، اللہ کو ان سے جو کہلانا تھا وہ انہوں نے کہا" حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے (وہ یہ لے سکتے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا: "وہ ان سے لے لو (اور ان کو چھوڑ دو)" تو انہوں نے ان سے لے لیا اور وہ (وہاں سے آ کر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۹۲)، موطا امام مالک/ الطلاق ۱۱ (۳۱)، سنن الدارمی/الطلاق ۷ (۲۳۱۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَمَا إِنِّي مَا أَعِيبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ، وَلَا دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟"قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی و کوتاہی کا الزام نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر و ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟" (وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا: "اپنا باغ لے لو اور انہیں ایک طلاق دے دو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۲ (۵۲۷۳)، (تحفة الأشراف: ۶۰۵۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۰ (۱۱۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ہو سکتا ہے میرے انہیں ناپسند کرنے کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی و کوتاہی، نافرمانی و ناشکری ہو جائے اور میں گناہ گار ہو جاؤں، اس لیے میں ان سے علیحدگی چاہتی ہوں۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنَّ امْرَأَتِي لَا تَمْنَعُ يَدَ لَامِسٍ، فَقَالَ: غَرِّبْهَا إِنْ شِئْتَ، قَالَ: إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَتَّبِعَهَا نَفْسِي، قَالَ: اسْتَمْتِعْ بِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎ آپ نے فرمایا: چاہو تو طلاق دے دو، اس نے کہا میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میرا دل اٹکا نہ رہے۔ آپ نے فرمایا: "پھر تو اس سے اپنا کام نکالتے رہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح۴ (۲۰۴۹)، (تحفة الأشراف: ۶۱۶۱) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ رِئَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "إِنَّ تَحْتِي امْرَأَةً لَا تَرُدُّ يَدَ لَامِسٍ، قَالَ: طَلِّقْهَا، قَالَ: إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنْهَا، قَالَ: فَأَمْسِكْهَا"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی، آپ نے فرمایا:"اسے طلاق دے دو"۔ اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہیں پاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: "پھر تو اسے رہنے دو"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے، اس کا متصل ہونا غلط ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۳۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، قَالَ: جَاءَنِي عُوَيْمِرٌ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْعَجْلَانِ، فَقَالَ: "أَيْ عَاصِمُ، أَرَأَيْتُمْ رَجُلًا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ يَا عَاصِمُ ؟ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ، وَكَرِهَهَا، فَجَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ يَا عَاصِمُ ؟ فَقَالَ: صَنَعْتُ أَنَّكَ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيكَ، وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَأْتِ بِهَا، قَالَ سَهْلٌ: وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بِهَا، فَتَلَاعَنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَئِنْ أَمْسَكْتُهَا لَقَدْ كَذَبْتُ عَلَيْهَا، فَفَارَقَهَا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا، فَصَارَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ".
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی عجلان کا ایک شخص عویمر میرے پاس آیا اور کہنے لگا: عاصم! بھلا بتاؤ تو صحیح؟ ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر شخص کو دیکھتا ہے، اگر وہ اسے قتل کر دیتا ہے تو کیا تم لوگ اسے قتل کر دو گے یا وہ کیا کرے؟ عاصم میرے واسطے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو تو عاصم رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوالات کو برا جانا اور ناپسند کیا، عویمر ان کے پاس آئے اور کہا: عاصم! کیا کیا تو نے؟ (مسئلہ پوچھا یا نہیں؟) انہوں نے کہا: میں نے کیا تو (یعنی پوچھا تو) لیکن تو اچھا سوال لے کر نہیں آیا تھا (جواب کیا ملتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند کیا اور برا مانا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھ کر رہوں گا (یہ کوئی فرضی سوال نہیں امر واقع ہے) پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے معاملے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ تو (جاؤ) اسے لے کر آؤ"، سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس وقت میں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، وہ اسے لے کر آئے اور دونوں نے لعان کیا ۱؎۔ پھر اس نے (یعنی عویمر نے) کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی اگر میں نے اسے اپنے پاس رکھا تو میں اس پر تہمت لگانے والا ٹھہروں گا (یہ کہہ کر) انہوں نے اسے طلاق دے کر چھوڑ دیا اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ (راوی کہتے ہیں) پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا (یعنی لعان کے بعد میاں بیوی دونوں جدا ہو جائیں)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۰۳۱)، مسند احمد (۵/۳۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: لعان کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْعَجْلَانِيِّ وَامْرَأَتِهِ، وَكَانَتْ حُبْلَى".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عجلانی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور اس وقت اس کی بیوی حاملہ تھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۳۳۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۱ (۵۳۱۰)، ۳۶ (۵۳۱۶)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۶)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۷)، مسند احمد (۱/۳۳۵، ۳۳۶، ۳۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: سُئِلَ هِشَامٌ عَنِ الرَّجُلِ يَقْذِفُ امْرَأَتَهُ، فَحَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ ذَلِكَ، وَأَنَا أَرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْ ذَلِكَ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، وَكَانَ أَخُو الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: "ابْصُرُوهُ، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ، فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ"، قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا أَحْمَشَ السَّاقَيْنِ.
عبدالاعلیٰ کہتے ہیں کہ ہشام سے ایک ایسے شخص سے متعلق پوچھا گیا جو اپنی بیوی پر زنا و بدکاری کا تہمت لگاتا ہے تو ہشام نے (اس کے جواب میں) محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا اور یہ سمجھ کر پوچھا کہ ان کے پاس اس کے بارے میں کچھ علم ہو گا تو انہوں نے کہا: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری میں ملوث ٹھہرایا۔ بلال براء بن مالک کے ماں کے واسطہ سے بھائی تھے اور یہ پہلے شخص تھے جن ہوں نے لعان کیا ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا۔ پھر فرمایا: "بچے پر نظر رکھو اگر وہ بچہ جنے گورا چٹا، لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا تو سمجھو کہ وہ ہلال بن امیہ کا بیٹا ہے اور اگر وہ سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی ٹانگوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے۔" وہ (یعنی انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: مجھے خبر دی گئی کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھونگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ چنا ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۱)، مسند احمد (۳/۱۴۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ان سے پہلے کسی نے لعان نہیں کیا تھا ان کے لعان کرنے سے لعان کا طریقہ معلوم ہوا۔ ۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ حالت حمل میں حاملہ عورت سے لعان کرنا منع نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ الْأَزْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ لِعَانٍ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ: أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ شَرِيكَ بْنَ السَّحْمَاءِ بِامْرَأَتِهِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَرْبَعَةَ شُهَدَاءَ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ يُرَدِّدُ ذَلِكَ عَلَيْهِ مِرَارًا، فَقَالَ لَهُ هِلَالٌ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَعْلَمُ أَنِّي صَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكَ مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْجَلْدِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6، إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَدَعَا هِلَالًا، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ دُعِيَتِ الْمَرْأَةُ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ فِي الرَّابِعَةِ أَوِ الْخَامِسَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقِّفُوهَا، فَإِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَتَلَكَّأَتْ حَتَّى مَا شَكَكْنَا أَنَّهَا سَتَعْتَرِفُ، ثُمَّ قَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ عَلَى الْيَمِينِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ فَهُوَ لِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ آدَمَ جَعْدًا رَبْعًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلَا مَا سَبَقَ فِيهَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ"، قَالَ الشَّيْخُ: وَالْقَضِيءُ: طَوِيلُ شَعْرِ الْعَيْنَيْنِ، لَيْسَ بِمَفْتُوحِ الْعَيْنِ، وَلَا جَاحِظِهِمَا، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلا لعان ہلال بن امیہ کا اس طرح ہوا کہ انہوں نے شریک بن سمحاء پر اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کا الزام لگایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو اس بات کی خبر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "چار گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی (کوڑے پڑیں گے)" آپ نے یہ بات بارہا کہی، ہلال نے آپ سے کہا: قسم اللہ کی، اللہ کے رسول! اللہ عزوجل بخوبی جانتا ہے کہ میں سچا ہوں اور (مجھے یقین ہے)اللہ بزرگ و برتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو کوڑے کھانے سے بچا دے گا، ہم سب یہی باتیں آپس میں کر ہی رہے تھے کہ آپ پر لعان کی آیت: «والذين يرمون أزواجهم»۔ آخر تک نازل ہوئی ۱؎ آیت نازل ہونے کے بعد آپ نے ہلال کو بلایا، انہوں نے اللہ کا نام لے کر (یعنی قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں اور پانچویں بار انہوں نے کہا کہ ان پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹے لوگوں میں سے ہوں، پھر عورت بلائی گئی اور اس نے بھی چار بار اللہ کا نام لے کر (قسم کھا کر) چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے (راوی کو شک ہو گیا) چوتھی بار یا پانچویں بار قسم کھانے کا جب موقع آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(ذرا) اسے روکے رکھو (آخری قسم کھانے سے پہلے اسے خوب سوچ سمجھ لینے دو ہو سکتا ہے وہ سچائی کا اعتراف کر لے) کیونکہ یہ گواہی (اللہ کی لعنت و غضب کو) واجب و لازم کر دے گی"، وہ رکی اور ہچکائی تو ہم نے شک کیا (سمجھا) کہ (شاید) وہ اعتراف گناہ کر لے گی، مگر وہ بولی: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے شرمندہ، رسوا و ذلیل نہیں کر سکتی، یہ کہہ کر (آخری) قسم بھی کھا گئی۔ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے دیکھتے رہو اگر وہ سفید (گورا) لٹکے ہوئے بالوں اور خراب آنکھوں والا بچہ جنے تو (سمجھو کہ) وہ ہلال بن امیہ کا لڑکا ہے اور اگر وہ بچہ گندم گوں، پیچیدہ الجھے ہوئے بالوں والا، میانہ قد کا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو (سمجھو) وہ شریک بن سحماء کا ہے"۔ تو اس عورت نے گندمی رنگ کا گھونگھریالے بالوں والا، درمیانی سائز کا، پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا، (اس کے جننے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس معاملے میں اللہ کا فیصلہ نہ آ چکا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔ (یعنی میں اس پر حد قائم کر کے رہتا)"۔ واللہ اعلم
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي وانظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں :(النور:۶ )۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت لعان ہلال رضی الله عنہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے وقت نازل ہوئی جب کہ عاصم رضی الله عنہ کی حدیث رقم :(۳۴۹۶ ) میں ہے کہ یہ آیت عویمر رضی الله عنہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ یہ واقعہ سب سے پہلے ہلال کے ساتھ پیش آیا پھر اس کے بعد عویمر بھی اس سے دو چار ہوئے پس یہ آیت ایک ساتھ دونوں سے متعلق نازل ہوئی۔
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: "ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ: أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، قَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا بِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ، أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا"، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ الشَّرَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر آیا، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں کوئی بات کہی پھر وہ چلے گئے تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، یہ بات سن کر عاصم رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں اپنی بات کی وجہ سے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ۱؎ تو وہ اس آدمی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اس نے آپ کو اس آدمی کے متعلق خبر دی جس کے ساتھ اپنی بیوی کو ملوث پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، کم گوشت والا (چھریرا بدن) سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کو اپنی بیوی کے پاس پانے کا مجرم قرار دیا تھا وہ شخص گندمی رنگ، بھری پنڈلیوں والا، زیادہ گوشت والا (موٹا بدن) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «اللہم بین» اے اللہ معاملہ کو واضح کر دے"، تو اس عورت نے اس شخص کے مشابہہ بچہ جنا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کرنے کا حکم دیا۔ اس مجلس کے ایک آدمی نے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث بیان کی کہا: (ابن عباس!) کیا یہ عورت وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کر دیتا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں، یہ عورت وہ عورت نہیں ہے۔ وہ عورت وہ تھی جو اسلام میں شر پھیلاتی تھی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۱ (۵۳۱۰)، ۳۶ (۵۳۱۶)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۶)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۲۹۷)، (تحفة الأشراف: ۶۳۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی نہ میں کہتا اور نہ یہ شخص میرے پاس یہ مقدمہ و قضیہ لے کر آتا۔ ۲؎: یعنی فاحشہ تھی، بدکاری کرتی تھی لیکن اس کے خلاف ثبوت نہیں تھا۔
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: "ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَذَكَرَ: أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ: مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعْرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ: أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، جَعْدًا قَطَطًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ: رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ، أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ الشَّرَّ فِي الْإِسْلَامِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لعان کی بات آئی تو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس معاملے میں کوئی بات کہی پھر واپس چلے گئے، ان کی قوم کا ایک آدمی ان کے پاس پہنچا اور اس نے انہیں بتایا کہ اس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ (زنا کرتا ہوا) پایا ہے تو وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے، اس نے آپ کو اس شخص سے باخبر کیا جس کے ساتھ اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ آدمی (یعنی شوہر) زردی مائل، دبلا، سیدھے بالوں والا تھا اور وہ شخص جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے گندمی رنگ، بھری ہوئی پنڈلیوں والا، فربہ، گھونگھریالے چھوٹے بالوں والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی " «اللھم بیّن» اے اللہ تو اسے واضح کر دے" پھر اس نے بچہ جنا، وہ بچہ بالکل اسی طرح تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کا حکم دیا، ایک آدمی نے جو (اس وقت) مجلس میں موجود تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے رجم کرتا تو اس عورت کو کر دیتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں، یہ عورت تو اسلام میں رہتے ہوئے شر پھیلاتی تھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۰۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی بدکاری کراتی تھی، لیکن اقرار اور ثبوت نہ ہونے کے باعث قانون کی گرفت سے بچی ہوئی تھی۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ رَجُلًا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلَاعَنَا: أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ عَلَى فِيهِ، وَقَالَ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو لعان کرنے والوں کو لعان کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص کو (یہ بھی) حکم دیا کہ جب پانچویں قسم کھانے کا وقت آئے تو لعان کرنے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ قسم اللہ کی لعنت و غضب کو لازم کر دے گی" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق۲۷ (۲۲۵۵)، (تحفة الأشراف: ۶۳۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تاکہ وہ ایک بار پھر سوچ لے کہ وہ کتنی بڑی اور بھیانک قسم کھانے جا رہا ہے۔ ۲؎: یعنی جھوٹے ہوں گے تو اللہ کی لعنت و غضب کے سزاوار ہونے سے بچ نہ سکیں گے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: "سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَقَامِي إِلَى مَنْزِلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَيْنِ: أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا ؟ قَالَ: نَعَمْ، سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ ؟ وَلَمْ يَقُلْ عَمْرٌو: أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ مِنَّا يَرَى عَلَى امْرَأَتِهِ فَاحِشَةً، إِنْ تَكَلَّمَ فَأَمْرٌ عَظِيمٌ ؟ وَقَالَ عَمْرٌو: أَتَى أَمْرًا عَظِيمًا، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ"الْأَمْرَ الَّذِي سَأَلْتُكَ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی امارت کے زمانہ میں دو لعان کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا (کہ جب وہ دونوں لعان کر چکیں گے تو) کیا ان دونوں کے درمیان تفریق (جدائی) کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں، میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر چلا گیا، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: ہاں، سبحان اللہ، پاک و برتر ہے ذات اللہ کی۔ سب سے پہلے اس بارے میں فلاں ابن فلاں نے مسئلہ پوچھا تھا (ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کا نام نہیں لیا) اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! :(«ارأیت» عمرو بن علی جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں انہوں نے اپنی روایت میں «ارأیت» کا لفظ نہیں استعمال کیا ہے)، آپ بتائیے ہم میں سے کوئی شخص کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھے (تو کیا کرے؟) اگر وہ زبان کھولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے ۱؎ اور اگر وہ چپ رہتا ہے تو بھی وہ ایسی بڑی اور بری بات پر چپ رہتا ہے (جو ناقابل برداشت ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا (اس روایت میں ـ «فأمر عظیم» کے الفاظ آئے ہیں، یہ اس روایت کے ایک راوی محمد بن مثنیٰ کے الفاظ ہیں، اس روایت کے دوسرے راوی عمرو بن علی نے اس کے بجائے «اتی امراً عظیماً» کے الفاظ استعمال کیے ہیں)۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش آ گیا تو وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: جس بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ پوچھا تھا میں خود ہی اس سے دوچار ہو گیا، (اس وقت) اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیت: «والذين يرمون أزواجهم» سے لے کر «والخامسة أن غضب اللہ عليها إن كان من الصادقين» تک نازل فرمائیں، (اس کارروائی کا) آغاز آپ نے مرد کو وعظ و نصیحت سے کیا، آپ نے اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا، آسان اور کم تر ہے۔ اس شخص نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے جھوٹ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے عورت کو بھی خطاب کیا، آپ نے اسے بھی وعظ و نصیحت کی، ڈرایا اور آخرت کے سخت عذاب کا خوف دلایا۔ اس نے بھی کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ شخص جھوٹا ہے۔ (اس وعظ و نصیحت کے بعد لعان کی کارروائی روبہ عمل آئی) تو آپ نے (یہ کارروائی) مرد سے شروع کی۔ اس نے اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ سچے لوگوں میں سے ہے اور پانچویں بار اس نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے عورت سے گواہی لینی شروع کی، اس نے بھی اللہ کا نام لے کر چار گواہیاں دیں کہ وہ (شوہر) جھوٹوں میں سے ہے اور اس نے پانچویں بار کہا: اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب نازل ہو اگر وہ (شوہر) سچوں میں سے ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۲ (۱۱۰۲)، صحیح البخاری/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)، ۳۵ (۵۳۱۵)، ۵۳ (۵۳۵۰)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۸)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۸)، مسند احمد (۲/۱۲)، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس سے کہا جائے گا کہ چار گواہ لاؤ، چار گواہ نہ پیش کر سکو تو کوڑے کھاؤ۔ ۲؎: لعان کرنے والوں کے مابین جدائی کے سلسلہ میں راجح قول یہ ہے کہ لعان کے بعد دونوں کے مابین جدائی ہو جائے گی، حاکم کے فیصلہ کی ضرورت نہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے زادالمعاد :(۵/۳۸۸ )۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْعَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: لَمْ يُفَرِّقْ الْمُصْعَبُ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ سَعِيدٌ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: "فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب نے دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق نہیں کی (لعان کے بعد انہیں ایک ساتھ رہنے دیا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۰۶۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: "اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ قَالَ لَهُمَا ثَلَاثًا: فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَيُّوبُ: وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: إِنَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ شَيْئًا لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي، قَالَ: لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهِيَ أَبْعَدُ مِنْكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: کسی نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا (تو کیا کرے)؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے ایک مرد اور عورت کے مابین تفریق کر دی تھی۔ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کا ارادہ رکھتا ہے"، آپ نے یہ بات ان دونوں سے تین بار کہی پھر بھی ان دونوں نے (توبہ کرنے سے) انکار کیا تو آپ نے ان دونوں کے مابین جدائی کر دی۔(ایوب کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے کہا: اس حدیث میں ایک ایسی بات ہے، میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے بیان کرو گے؟ کہتے ہیں: اس شخص نے کہا: میرے مال کا کیا ہو گا(ملے گا یا نہیں)؟ آپ نے فرمایا: "اگرچہ تو اپنی بات میں سچا ہو پھر بھی تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا کیونکہ تو اس کے ساتھ دخول کر چکا ہے اور اگر اپنی بات میں تو جھوٹا ہے تو تیری جانب مال کا واپس ہونا بعید ترشئی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۱)، ۳۳ (۵۳۱۲)، ۵۳ (۵۳۴۹)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳) مختصراً، سنن ابی داود/الصلاة ۲۷ (۲۲۵۸)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۰)، مسند احمد (۱/۷۵، ۲/۴، ۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس عورت سے فائدہ اٹھایا، اس پر تہمت لگائی اور پھر مال کی حرص بھی رکھتا ہے، اس لیے تیرا مال تجھے واپس نہیں ملے گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَعَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: "حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، وَلَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي، قَالَ: "لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں سے کہا: تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تم میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹا ہے، (مرد سے کہا:) تمہارا اب اس (عورت) پر کچھ حق و اختیار نہیں ہے ۱؎، مرد نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: "تمہارا کوئی مال نہیں ہے۔ اگر تم نے اس پر صحیح تہمت لگائی ہے تو تم نے اب تک اس کی شرمگاہ سے حلت کا جو فائدہ حاصل کیا ہے وہ مال اس کا بدل ہو گیا اور اگر تم نے اس عورت پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو یہ تو تمہارے لیے اور بھی غیر مناسب ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۳ (۵۳۱۲)، ۵۳ (۵۳۵۰)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۷)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۱)، مسند احمد ۲/۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ لعان کے بعد دونوں میں جدائی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہو جائے گی، حدیث رسول اور اقوال صحابہ سے یہی ثابت ہے۔ ۲؎: یعنی تو نے اس کی شرمگاہ کو حلال بھی کیا، اس پر جھوٹا الزام بھی لگایا اور اس سے اپنا مال بھی لینے وپانے کا متمنی ہے یہ تو اور بھی غیر ممکن ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "لَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کا حکم دیا اور ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور بچے کو ماں کی سپردگی میں دے دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۵ (۵۳۱۵)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۹)، (تحفة الأشراف: ۸۳۲۲)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۵)، مسند احمد (۲/۷، ۳۸، ۶۴، ۷۱)، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،"أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي فَزَارَةَ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا ؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: فَأَنَّى تَرَى، أَتَى ذَلِكَ ؟ قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ بنی فرازہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟" اس نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: "کس رنگ کے ہیں؟"، اس نے کہا لال رنگ (کے ہیں)، آپ نے فرمایا: "کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟" اس نے کہا: (جی ہاں) ان میں خاکستری رنگ کے بھی ہیں، آپ نے فرمایا: "تم کیا سمجھتے ہو یہ رنگ کہاں سے آیا؟" اس نے کہا ہو سکتا ہے کسی رگ نے یہ رنگ کشید کیا ہو۔ آپ نے فرمایا: "(یہی بات یہاں بھی سمجھو) ہو سکتا ہے کسی رگ نے اس رنگ کو کھینچا ہو" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۸ (۲۲۶۰)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۸ (۲۲۰۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۹)، صحیح البخاری/الطلاق ۲۶ (۵۳۰۵)، والحدود ۴۱ (۶۸۴۷)، والاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، سنن الترمذی/الولاء ۴ (۲۱۲۹)، مسند احمد (۲/۳۳۴، ۲۳۹، ۴۰۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا اس شخص کو اپنی بیوی پر شک ہوا کہ بیٹے کا کالا رنگ کہیں اس کی بدکاری کا نتیجہ تو نہیں ہے ؟ ۲؎: یعنی تم گرچہ گورے سہی تمہارے آباء و اجداد میں کوئی کالے رنگ کا رہا ہو گا اور اس کا اثر تمہارے بیٹے میں آ گیا ہو گا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، وَهُوَ يُرِيدُ الِانْتِفَاءَ مِنْهُ، فَقَالَ: "هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا أَلْوَانُهَا ؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ: فِيهَا ذَوْدُ وُرْقٍ، قَالَ: فَمَا ذَاكَ تُرَى ؟ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ نَزَعَهَا عِرْقٌ، قَالَ: فَلَعَلَّ هَذَا أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: فَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فرازہ کا ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنا ہے اور وہ اسے اپنا بیٹا ہونے کے انکار کا سوچ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟"، اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "ان کے رنگ کیسے ہیں؟" اس نے کہا: سرخ، آپ نے فرمایا: "کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ بھی ہے؟" اس نے کہا (جی ہاں) خاکستری رنگ کے اونٹ بھی ہیں۔ آپ نے فرمایا:"تمہارا کیا خیال ہے یہ رنگ کہاں سے آیا؟" اس نے کہا: کسی رگ نے اسے کھینچا ہو گا۔ آپ نے فرمایا: "(یہ بھی ایسا ہی سمجھ) کسی رگ نے اسے بھی کھینچا ہو گا"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بچے کے اپنی اولاد ہونے سے انکار کی رخصت و اجازت نہ دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، سنن ابی داود/الطلاق ۲۸ (۲۲۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۷۳)، مسند احمد (۲/۲۳۳، ۲۷۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَيْوَةَ حِمْصِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وُلِدَ لِي غُلَامٌ أَسْوَدُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ ؟ قَالَ: مَا أَدْرِي ؟ قَالَ: فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَلْوَانُهَا ؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: فَهَلْ فِيهَا جَمَلٌ أَوْرَقُ ؟ قَالَ: فِيهَا إِبِلٌ وُرْقٌ، قَالَ: فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ ؟ قَالَ: مَا أَدْرِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ إِلَّا أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: وَهَذَا لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ، فَمِنْ أَجْلِهِ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا لَا يَجُوزُ لِرَجُلٍ أَنْ يَنْتَفِيَ مِنْ وَلَدٍ وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، إِلَّا أَنْ يَزْعُمَ أَنَّهُ رَأَى فَاحِشَةً".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے کھڑا ہو کر کہا: اللہ کے رسول! میرے یہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کہاں سے آیا یہ اس کا کالا رنگ؟"، اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟"، اس نے کہا: جی ہاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ان کے رنگ کیا ہیں؟"، اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ نے فرمایا: "کیا کوئی ان میں خاکی رنگ کا بھی ہے؟"، اس نے کہا: ان میں خاکی رنگ کے بھی اونٹ ہیں۔ آپ نے فرمایا: "یہ خاکی رنگ کہاں سے آیا؟"، اس نے کہا: میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول! ہو سکتا ہے کسی رگ نے اسے کشید کیا ہو (یعنی یہ نسلی کشش کا نتیجہ ہو اور نسل میں کوئی کالے رنگ کا ہو)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور یہ بھی ہو سکتا ہے کسی رگ کی کشش کے نتیجہ میں کالے رنگ کا پیدا ہوا ہو"۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے پیدا ہونے والے بچے کا انکار کر دے جب تک کہ وہ اس کا دعویٰ نہ کرے کہ اس نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۳۱۷۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ شُعَيْبٌ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُلَاعَنَةِ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ رَجُلًا لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَا يُدْخِلُهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب لعان کی آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جو عورت کسی قوم (خاندان و قبیلے) میں ایسے شخص کو داخل و شامل کر دے جو اس قوم (خاندان و قبیلے) کا نہ ہو (یعنی زنا و بدکاری کرے) تو کسی چیز میں بھی اسے اللہ تعالیٰ کا تحفظ و تعاون حاصل نہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل نہ کرے گا اور (ایسے ہی) جو شخص اپنے بیٹے کا (کسی بھی سبب سے) انکار کر دے اور دیکھ رہا (اور سمجھ بوجھ رہا) ہو (کہ وہ بیٹا اسی کا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس سے پردہ کر لے گا ۱؎ اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اگلے و پچھلے سبھی لوگوں کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۲۹ (۲۲۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۷۲)، سنن الدارمی/النکاح ۴۲ (۲۲۸۴) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عبداللہ بن یونس‘‘ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے محروم رہے گا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفرائض ۱۷ (۶۷۵۰)، والحدود ۲۳ (۶۸۱۸)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۸)، سنن الترمذی/الرضاع ۸ (۱۱۵۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۹ (۲۰۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۳۴)، مسند احمد (۲/۲۳۹، ۲۰۸)، سنن الدارمی/النکاح ۴۱ (۲۲۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے و قانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا، یعنی اس کے لیے بالکل یہ محرومی ہو گی۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑکا فراش والے (یعنی شوہر) کا ہے اور زنا کار کے لیے پتھر ہے (یعنی اسے مار لگے گی یا پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا)"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۸۲)، مسند احمد (۲/۲۸۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلَامٍ، فَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ، فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: "هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ"، فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشابہت پر نظر ڈالی تو اسے صاف اور واضح طور پر عتبہ کے مشابہ پایا (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے عبد (عبد بن زمعہ) وہ بچہ تمہارے لیے ہے (قانونی طور پر تم اس کے بھائی و سر پرست ہو)، بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے تحت بچے کی ماں ہوتی ہے، اور زنا کار کی قسمت و حصے میں پتھر ہے۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس سے پردہ کرو ۱؎، تو اس نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو کبھی نہیں دیکھا (وہ خود ان کے سامنے کبھی نہیں آیا)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۳ (۲۰۵۳)، ۱۰۰ (۲۲۱۸)، الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، العتق ۸ (۲۵۳۳)، الوصایا ۴ (۲۷۴۵) المغازي ۵۳ (۴۳۰۳)، الفرائض ۱۸ (۴۳۴۹)، ۲۸ (۶۷۶۵)، الحدود ۲۳ (۶۸۱۷)، الأحکام ۲۹ (۷۱۸۲)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۸۴)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۴ (۲۲۷۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، موطا امام مالک/الأقضیة ۲۱ (۲۲۸۱)، مسند احمد (۶/۱۲۹، ۲۰۰، ۲۷۳، ۲۴۷)، سنن الدارمی/النکاح ۴۱ (۲۲۸۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مشابہت کے پیش نظر آپ نے یہ بات کہی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب رہنمائی کر دی کہ بچہ اگرچہ صاحب فراش کا ہے لیکن احکام شریعت کے سلسلہ میں احوط اور مناسب طریقہ اپنایا جائے گا۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ الزُّبَيْرِ مَوْلًى لَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كَانَتْ لِزَمْعَةَ جَارِيَةٌ يَطَؤُهَا هُوَ، وَكَانَ يَظُنُّ بِآخَرَ يَقَعُ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ بِوَلَدٍ شِبْهِ الَّذِي كَانَ يَظُنُّ بِهِ، فَمَاتَ زَمْعَةُ وَهِيَ حُبْلَى، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ سَوْدَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ، فَلَيْسَ لَكِ بِأَخٍ".
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس سے وہ صحبت کرتا تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ کوئی اور بھی ہے جو اس سے بدکاری کیا کرتا ہے۔ چنانچہ اس لونڈی سے ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ بچہ اس شخص کی صورت کے مشابہ تھا جس کے بارے میں زمعہ کا گمان تھا کہ وہ اس کی لونڈی سے بدکاری کرتا ہے، وہ لونڈی حاملہ تھی جب ہی زمعہ کا انتقال ہو گیا، اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المؤمنین سودہ (سودہ بنت زمعہ) رضی اللہ عنہا نے کیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچہ فراش والے کا ہے ۱؎ اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو کیونکہ (فی الواقع) وہ تمہارا بھائی نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۲۹۳)، مسند احمد (۴/۵) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی بیوی یا لونڈی جس کی ہو گی بچہ اس کا مانا جائے گا جب تک کہ وہ خود ہی اس کا انکار نہ کرے اور یہ نہ کہے کہ یہ بچہ میرے نطفے کا نہیں ہے، اگرچہ خارجی اسباب سے معلوم بھی ہوتا ہو کہ یہ اس کے نطفہ کا نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَلَا أَحْسَبُ هَذَا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑکا فراش والے کا ہے ۱؎ اور زنا کرنے والے کو پتھر ملیں گے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۲۹۴) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: بیوی اور لونڈی جس سے مرد کی صحبت جائز ہے اسے فراش :(بچھونا ) کہا گیا ہے، تو بچھونا جس کا ہو گا یعنی عورت یا لونڈی جس کی ہو گی لڑکا بھی اس کا کہا یا مانا جائے گا۔ ۲؎: یعنی غیر شادی شدہ ہو گا تو کوڑے لگیں گے جو پتھر کی مار کی طرح تکلیف دہ ہیں اور شادی شدہ ہو گا تو :(فی الواقع ) پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي ابْنِ زَمْعَةَ، قَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتَ مَكَّةَ، فَانْظُرِ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ، فَهُوَ ابْنِي، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هُوَ ابْنُ أَمَةِ، أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کر لو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چنانچہ عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے وہ میرا بھائی ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ صورت میں بالکل عتبہ کے مشابہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اگرچہ وہ عتبہ کے مشابہ ہے لیکن شریعت کا اصول و ضابطہ یہ ہے کہ) بچہ اس کا مانا اور سمجھا جاتا ہے جس کا بستر ہو (اس لیے اس کا حقدار عبد بن زمعہ ہے) اور اے سودہ (اس اعتبار سے گرچہ وہ تمہارا بھی بھائی لگے لیکن) تم اس سے پردہ کرو (کیونکہ فی الواقع وہ تیرا بھائی نہیں ہے)"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، سنن ابی داود/الطلاق ۳۴ (۲۲۷۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۵)، مسند احمد (۶/۳۷، ۱۲۹، ۲۰۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْالشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثَةٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ، وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ ؟ قَالَا: لَا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ ؟ قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے ان کے پاس تین آدمی لائے گئے، ایک ہی طہر (پاکی) میں ان تینوں نے ایک عورت کے ساتھ جماع کیا تھا (جھگڑا لڑکے کے تعلق سے تھا کہ ان تینوں میں سے کس کا ہے) انہوں نے دو کو الگ کر کے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا تیسرے کا تسلیم و قبول کرتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے دو کو الگ کر کے تیسرے کے بارے میں پوچھا: کیا تم دونوں لڑکا اس کا مانتے ہو، انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے ان تینوں کے نام کا قرعہ ڈالا اور جس کے نام پر قرعہ نکلا بچہ اسی کو دے دیا، اور دیت کا دو تہائی اس کے ذمہ کر دیا (اور اس سے لے کر ایک ایک تہائی ان دونوں کو دے دیا) ۱؎ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ ہنس پڑے اور ایسے ہنسے کہ آپ کی داڑھ دکھائی دینے لگی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق۳۲ (۲۲۷۰)، سنن ابن ماجہ/الأحکام۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۳۶۷۰) مسند احمد (۴/۴۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: دیت کے دو تہائی کا مفہوم یہ ہے کہ لونڈی کی قیمت کا دو ثلث اسے ادا کرنا پڑا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرعہ کے ذریعہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور کسی لڑکے کے جب کئی دعویدار ہوں تو قیافہ کے بجائے قرعہ کے ذریعہ فیصلہ ہو گا، جو لوگ قرعہ کے بجائے قیافہ کے قائل ہیں ممکن ہے انہوں نے علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کو اس حالت پر محمول کیا ہو جب قیافہ شناس موجود نہ ہو :(واللہ اعلم )۔ ۲؎: یعنی علی رضی الله عنہ کے اس انوکھے و عجیب فیصلے پر آپ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْخَلِيلِ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ الْيَمَنِ، فَجَعَلَ يُخْبِرُهُ وَيُحَدِّثُهُ وَعَلِيٌّ بِهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَى عَلِيًّا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَخْتَصِمُونَ فِي وَلَدٍ، وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اسی اثناء میں یمن سے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو وہاں کی باتیں بتانے اور آپ سے باتیں کرنے لگا، ان دنوں علی رضی اللہ عنہ یمن ہی میں تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! تین اشخاص ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں جماع کیا تھا اور آگے وہی حدیث بیان کی جو گزر چکی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۲ (۲۲۷۱)، (تحفة الأشراف: ۳۶۶۹)، مسند احمد (۴/۳۷۴)، ویأتی فیما یلی (۳۵۲۰، ۳۵۲۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ بِالْيَمَنِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: شَهِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ فِي ثَلَاثَةِ نَفَرٍ ادَّعَوْا وَلَدَ امْرَأَةٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَحَدِهِمْ: تَدَعُهُ لِهَذَا ؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا ؟ فَأَبَى، وَقَالَ لِهَذَا: تَدَعُهُ لِهَذَا ؟ فَأَبَى، قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، وَسَأَقْرَعُ بَيْنَكُمْ، فَأَيُّكُمْ أَصَابَتْهُ الْقُرْعَةُ فَهُوَ لَهُ، وَعَلَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور علی رضی اللہ عنہ ان دنوں یمن میں تھے، ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں ایک دن علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا، ان کے پاس تین آدمی آئے وہ تینوں ایک عورت کے بیٹے کے دعویدار تھے (کہ یہ بیٹا ہمارا ہے) علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، علی رضی اللہ عنہ نے (دوسرے سے) کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا: نہیں، اور تیسرے سے کہا: کیا تم ان دونوں کے حق میں اس بیٹے سے دستبردار ہوتے ہو؟ کہا نہیں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سب آپس میں جھگڑتے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہو، میں تم لوگوں کے درمیان قرعہ اندازی کر دیتا ہوں تو جس کے نام قرعہ نکل آئے لڑکا اسی کا مانا جائے گا اور اسے دیت کا دو تہائی دینا ہو گا (جو لڑکے سے محروم دونوں کو ایک ایک ثلث تہائی کر کے دے دیا جائے گا) یہ قصہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (اور ایسے زور سے ہنسے) کہ آپ کی داڑھ دکھائی پڑنے لگی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ شَاهِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا عَلَى الْيَمَنِ، فَأُتِيَ بِغُلَامٍ تَنَازَعَ فِيهِ ثَلَاثَةٌ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، خَالَفَهُمْ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ،
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا۔ ان کے پاس ایک بچہ لایا گیا، جس کا باپ ہونے کے تین دعویدار تھے اور آگے وہی حدیث پوری بیان کر دی (جو پہلے گزر چکی ہے) نسائی کہتے ہیں: «خالفہم سلمۃ بن کہیل» سلمہ بن کہیل نے ان لوگوں کے خلاف روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۱۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مخالفت یہ ہے کہ اوپر کی روایتوں میں سے ایک روایت میں صالح ہمدانی نے، ایک روایت میں اجلح نے اور ایک روایت میں شیبانی نے زید بن ارقم کو سند میں ذکر کر کے حدیث مرفوع بیان کیا ہے لیکن سلمہ بن کہیل نے اپنی روایت میں زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ أَوْ ابْنِ أَبِي الْخَلِيلِ: أَنَّ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ اشْتَرَكُوا فِي طُهْرٍ، قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا صَوَابٌ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو ابوالخیل سے یا ابن ابی الخیل سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی (ایک عورت سے) ایک ہی طہر میں (جماع کرنے میں) شریک ہوئے۔ انہوں نے حدیث کو اسی طرح بیان کیا (جیسا کہ اوپر بیان ہوئی) لیکن زید بن ارقم کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حدیث کو مرفوع روایت کیا ہے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہی صحیح ہے، واللہ أعلم۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۱۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ: "أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ، فَقَالَ: إِنَّ بَعْضَ هَذِهِ الْأَقْدَامِ لَمِنْ بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے، آپ کے چہرے کے خطوط خوشی سے چمک دمک رہے تھے، آپ نے فرمایا: "ارے تمہیں نہیں معلوم؟ مجزز (قیافہ شناس ہے) نے زید بن حارثہ اور اسامہ کو دیکھا تو کہنے لگا: ان کے پیروں کے بعض حصے ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۵)، وفضائل الصحابة ۱۷ (۳۷۳۱)، والفرائض ۳۱ (۶۷۷۰)، صحیح مسلم/الرضاع (۱۴۵۹)، سنن ابی داود/الطلاق ۳۱ (۲۲۶۸)، سنن الترمذی/الولائ۵ (۲۱۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۸۱)، مسند احمد (۶/۸۲، ۲۲۶)، ویأتي فیما یلي (صحیح)
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش ہونے کا سبب یہ تھا کہ لوگ اسامہ رضی الله عنہ کے نسب میں شک و شبہ کرتے تھے کہ زید رضی الله عنہ گورے ہیں اور اسامہ رضی الله عنہ کالے ہیں، ساتھ ہی یہ لوگ قیافہ شناس کی بات پر اعتماد بھی کرتے تھے اور جب قیافہ شناس نے یہ کہہ دیا کہ اسامہ کا نسبی تعلق زید سے ہے تو آپ بےحد خوش ہوئے کیونکہ قیافہ شناس کی بات سن کر لوگ اب اسامہ کے سلسلہ میں طعن و تشنیع سے کام نہیں لیں گے، قیافہ شناس کی بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوش ہونا دلیل ہے اس بات کی کہ قیافہ سے نسب کا اثبات صحیح ہے، جمہور کا یہی مسلک ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مَسْرُورًا، فَقَالَ: "يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ وَعِنْدِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَزَيْدًا، وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، وَقَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا، وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: هَذِهِ أَقْدَامٌ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش خوش آئے اور کہا: عائشہ! ارے تم نے نہیں دیکھا مجزز مدلجی(قیافہ شناس) میرے پاس آیا اور (اس وقت) میرے پاس اسامہ بن زید تھے، اس نے اسامہ بن زید اور (ان کے والد) زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما دونوں کو دیکھا، ان کے اوپر ایک چھوردار چادر پڑی ہوئی تھی جس سے وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر دکھائی پڑ رہے تھے، اس نے ان کے پیر دیکھ کر کہا: یہ وہ پیر ہیں جن کا بعض بعض سے ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفرائض ۳۱ (۶۷۷۱)، صحیح مسلم/الرضاع (۱۴۵۹)، سنن ابی داود/الطلاق ۳۱ (۲۲۶۷)، سنن الترمذی/الولاء ۵ (۲۱۳۰)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۱ (۲۳۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَجَاءَ ابْنٌ لَهُمَا صَغِيرٌ لَمْ يَبْلُغْ الْحُلُمَ، فَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبَ هَا هُنَا وَالْأُمَّ هَا هُنَا، ثُمَّ خَيَّرَهُ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ اهْدِهِ، فَذَهَبَ إِلَى أَبِيهِ".
سلمہ انصاری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے اور ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، ان دونوں کا ایک چھوٹا بیٹا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بٹھا لیا، باپ بھی وہیں تھا اور ماں بھی وہیں تھی۔ آپ نے اسے اختیار دیا (ماں باپ میں سے جس کے ساتھ بھی تو ہونا چاہے اس کے ساتھ ہو جا) اور ساتھ ہی کہا (یعنی دعا کی) اے اللہ اسے ہدایت دے تو وہ باپ کی طرف ہو لیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۲۶ (۲۲۴۴)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۲)، (تحفة الأشراف: ۳۵۹۴)، مسند احمد (۵/۴۴۶، ۴۴۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: "إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، وَقَدْ نَفَعَنِي وَسَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، وَقَالَ: مَنْ يُخَاصِمُنِي فِي ابْنِي، فَقَالَ: "يَا غُلَامُ، هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ".
ابومیمونہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے بتایا کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! میرا شوہر میرا بیٹا مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے جب کہ مجھے اس سے فائدہ (و آرام) ہے، وہ مجھے عنبہ کے کنویں کا پانی (لا کر) پلاتا ہے، (اتنے میں)اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا: کون میرے بیٹے کے معاملے میں مجھ سے جھگڑا (اور اختلاف) کرتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے بیٹے سے کہا:)اے لڑکے! یہ تمہارا باپ ہے اور یہ تمہاری ماں ہے، تو تم جس کے ساتھ رہنا چاہو اس کا ہاتھ پکڑ لو چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۵ (۲۲۷۷) مطولا، سنن الترمذی/الأحکام ۲۱ (۱۳۵۷)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۱، ۲۳۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۶۳)، مسند احمد (۲/۴۴۷)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۶ (۲۳۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي شَاذَانُ بْنُ عُثْمَانَ أَخُو عَبْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَاعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَأَخْبَرَتْهُ، أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ فَكَسَرَ يَدَهَا وَهِيَ: جَمِيلَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَأَتَى أَخُوهَا يَشْتَكِيهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ثَابِتٍ، فَقَالَ لَهُ: "خُذْ الَّذِي لَهَا عَلَيْكَ، وَخَلِّ سَبِيلَهَا"، قَالَ: نَعَمْ، "فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ تَتَرَبَّصَ حَيْضَةً وَاحِدَةً، فَتَلْحَقَ بِأَهْلِهَا".
ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ) اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا۔ وہ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی، اس کا بھائی اس کی شکایت لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا(جب وہ آئے تو) آپ نے ان سے فرمایا: "تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو" ۱؎ انہوں نے کہا: اچھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۸۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے آزاد کر دو۔ ۲؎: یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کے لیے جو کہتے ہیں کہ خلع فسخ ہے طلاق نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِيعُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ رُبَيِّعَ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَ: قُلْتُ لَهَا: حَدِّثِينِي حَدِيثَكِ، قَالَتْ: اخْتَلَعْتُ مِنْ زَوْجِي، ثُمَّ جِئْتُ عُثْمَانَ، فَسَأَلْتُهُ مَاذَا عَلَيَّ مِنَ الْعِدَّةِ، فَقَالَ: "لَا عِدَّةَ عَلَيْكِ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَدِيثَةَ عَهْدٍ بِهِ، فَتَمْكُثِي حَتَّى تَحِيضِي حَيْضَةً، قَالَ: وَأَنَا مُتَّبِعٌ فِي ذَلِكَ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرْيَمَ الْمَغَالِيَّةِ: كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَاخْتَلَعَتْ مِنْهُ".
عبادہ بن ولید ربیع بنت معوذ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے اپنا واقعہ (حدیث) بیان کیجئے انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا کہ مجھے کتنی عدت گزارنی ہو گی؟ انہوں نے کہا: تمہارے لیے عدت تو کوئی نہیں لیکن اگر انہیں دنوں (یعنی طہر سے فراغت کے بعد) اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو ایک حیض آنے تک رکی رہو۔ انہوں نے کہا: میں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کی پیروی کر رہا ہوں جو آپ نے ثابت بن قیس کی بیوی مریم غالیہ کے خلع کرنے کے موقع پر صادر فرمایا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق۲۳ (۲۰۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۶) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: ثابت بن قیس کی بیوی کے مختلف نام لوگوں نے لکھے ہیں، انہیں میں سے ایک مریم غالیہ بھی ہے۔
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ النَّحْوِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،"فِي قَوْلِهِ: مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا سورة البقرة آية 106، وَقَالَ: وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ سورة النحل آية 101، وَقَالَ: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ سورة الرعد آية 39، فَأَوَّلُ مَا نُسِخَ مِنَ الْقُرْآنِ الْقِبْلَةُ، وَقَالَ: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ سورة البقرة آية 228، وَقَالَ: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ سورة الطلاق آية 4، فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ تَعَالَى: ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا سورة الأحزاب آية 49".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما (سورۃ البقرہ کی) آیت: «ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها» "جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں"۔ (البقرہ: ۱۰۶) (اور سورۃ النمل کی) آیت: «وإذا بدلنا آية مكان آية واللہ أعلم بما ينزل» "اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے"۔ (النحل: ۱۰۱) (اور سورۃ الرعد کی) آیت: «يمحو اللہ ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب» "اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے لوح محفوظ اسی کے پاس ہے"۔ (الرعد: ۳۹) کے بارے میں فرماتے ہیں: ان آیات کی روشنی میں پہلی چیز جو منسوخ ہوئی وہ قبلہ کی تبدیلی ہے ۱؎، اور (اس کے بعد) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (اور یہ جو سورۃ البقرہ کی) آیت:«والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء» "طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں"۔ (البقرہ: ۲۲۸) اور (سورۃ الطلاق کی)آیت: «واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر» "تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے"۔ (الطلاق: ۴) آئی ہے تو ان دونوں آیات سے (ان کا عموم) منسوخ ہو گیا (سورۃ الاحزاب کی اس) آیت:«وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن» سے "اگر تم مومنہ عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو"۔ (الاحزاب: ۴۹)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۷ (۲۲۸۲)، (تحفة الأشراف: ۶۲۵۳)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۸۴ (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی بیت المقدس کے بجائے قبلہ خانہ کعبہ بنا دیا گیا۔
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، وہ شوہر کے انتقال پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۰، ۱۲۸۱)، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۴)، ۴۷ (۵۳۳۸)، ۵۰ (۵۳۴۵)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۸۶)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۷۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۱)، مسند احمد (۶/۳۲۵، ۳۲۶، ۴۲۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰)، ویأتي عند المؤلف في ۵۹، ۶۳ (بأرقام۳۵۵۷، ۳۵۶۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ: عَنْ أُمِّهَا، قَالَ: نَعَمْ، إِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَخَافُوا عَلَى عَيْنِهَا، أَتَكْتَحِلُ ؟ فَقَالَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي بَيْتِهَا فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا حَوْلًا، ثُمَّ خَرَجَتْ، فَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس کا شوہر مر گیا ہو اور سرمہ (و کاجل) نہ لگانے سے اس کی آنکھوں کے خراب ہو جانے کا خوف و خطرہ ہو تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: "(زمانہ جاہلیت میں) تمہاری ہر عورت (اپنے شوہر کے سوگ میں)اپنے گھر میں انتہائی خراب، گھٹیا و گندا کپڑا (اونٹ کی کاٹھ کے نیچے کے کپڑے کی طرح) پہن کر سال بھر گھر میں بیٹھی رہتی تھی، پھر کہیں (سال پورا ہونے پر)نکلتی تھی۔ اور اب چار مہینے دس دن بھی تم پر بھاری پڑ رہے ہیں؟" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴۶ (۵۳۳۶)، ۴۷ (۵۳۴۰)، والطب ۱۸ (۵۷۰۶)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۸۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۷)، تحفة الأشراف: ۱۸۲۵۹)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۳)، مسند احمد (۶/۲۹۱، ۳۱۱، ۳۲۶)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۳۵۶۳، ۳۵۶۸-۳۵۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام کی رو سے وہ چار ماہ دس دن صبر نہیں کر سکتی ؟ یہ مدت تو سال کے مقابلہ میں اللہ کی جانب سے ایک رحمت ہے۔
أَخْبَرَنِي إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَجَدُّهُ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتَا: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَإِنِّي أَخَافُ عَلَى عَيْنِهَا، أَفَأَكْحُلُهَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَجْلِسُ حَوْلًا، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، فَإِذَا كَانَ الْحَوْلُ خَرَجَتْ، وَرَمَتْ وَرَاءَهَا بِبَعْرَةٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میری بیٹی کے شوہر (یعنی میرے داماد) کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے (عدت میں بیٹھی) بیٹی کی آنکھ کے خراب ہو جانے کا خوف ہے تو میں اس کی آنکھ میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں (سوگ منانے والی) عورت زمانہ جاہلیت میں سال بھر بیٹھی رہتی تھی، اور یہ تو چار مہینہ دس دن کی بات ہے، جب سال پورا ہو جاتا تو وہ باہر نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ نَافِعًا، يَقُولُ: عَنْصَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، أَنَّهَا سَمِعَتْ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے سوائے شوہر کے، شوہر کے انتقال پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۹۰)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۱۷)، موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۴)، مسند احمد (۶/۱۸۴، ۲۸۶، ۲۸۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
بعض امہات المؤمنین اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے، شوہر کے مرنے پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۲۸۳) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا السَّهْمِيُّ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْأَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ أُمُّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
صفیہ بنت ابو عبید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی سے اور بیوی سے مراد ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہیں اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر گزری ہوئی حدیث جیسی حدیث بیان کرتی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْمَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ،"أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ أَنْ تَنْكِحَ، فَأَذِنَ لَهَا، فَنَكَحَتْ".
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۹ (۵۳۲۰)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۷۲)، موطا امام مالک/الطلاق ۳۰ (۸۵)، مسند احمد (۴/۳۲۷)، ویأتي فیما یلي (صحیح)
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ سُبَيْعَةَ أَنْ تَنْكِحَ إِذَا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا".
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نفاس سے فراغت کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: "وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ تَشَوَّفَتْ لِلْأَزْوَاجِ، فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مَا يَمْنَعُهَا قَدِ انْقَضَى أَجَلُهَا".
ابوسنابل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کو مرے ہوئے ۲۳ یا ۲۵ راتیں گزریں تھیں کہ اس نے بچہ جنا پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئی تو اس نے (نئی) شادی کی تیاری کی اور اس کے لیے زیب و زینت سے مزین ہوئی تو اس کے لیے ایسا کرنا غیر مناسب سمجھا (اور ناپسند کیا) گیا اور اس کی شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کی گئی تو آپ نے فرمایا: "جب اس کی عدت پوری ہو چکی ہے تو اب اس کے لیے کیا رکاوٹ ہے؟" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱۷ (۱۱۹۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۵۳)، مسند احمد (۴/۳۰۴، ۳۰۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ ایسا کر سکتی ہے یہ کوئی عیب و برائی نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُأَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: اخْتَلَفَ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ فِي الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: تُزَوَّجُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَبْعَدَ الْأَجَلَيْنِ، فَبَعَثُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: "تُوُفِّيَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ، فَوَلَدَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِخَمْسَةَ عَشَرَ نِصْفِ شَهْرٍ، قَالَتْ: فَخَطَبَهَا رَجُلَانِ، فَحَطَّتْ بِنَفْسِهَا إِلَى أَحَدِهِمَا، فَلَمَّا خَشُوا أَنْ تَفْتَاتَ بِنَفْسِهَا، قَالُوا: إِنَّكِ لَا تَحِلِّينَ، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "قَدْ حَلَلْتِ، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم میں اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہو گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور اس نے بچہ جن دیا ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (وضع حمل کے بعد نفاس سے فارغ ہو کر) وہ شادی کر سکتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (یعنی وضع حمل اور عدت طلاق) میں سے جس عدت کی مدت لمبی ہو گی اسے وہ عدت پوری کرنی ہو گی (یعنی چار ماہ دس دن، اس کے بعد ہی وہ شادی کر سکے گی) آخر کار ان لوگوں نے کسی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا سبیعہ رضی اللہ عنہا کے شوہر انتقال کر گئے اور ان کے انتقال کے پندرہ دن بعد اس نے بچہ جنا۔ پھر اسے دو آدمیوں نے شادی کا پیغام دیا، جن میں سے ایک کی طرف وہ مائل ہو گئی (اور اس کا بھی خیال اس سے شادی کر ڈالنے کا ہو گیا) تو جب (دوسرا شادی کا خواہشمند اور اس کے ساتھی) لوگ ڈرے کہ یہ تو ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے تو انہوں نے (شادی روکنے اور رکاوٹ ڈالنے کی خاطر) کہا: ابھی تو تم حلال ہی نہیں ہوئی ہو (تمہاری عدت پوری نہیں ہوئی ہے تم شادی رچانے کیسے جا رہی ہو) وہ کہتی ہیں (جب ان لوگوں نے یہ بات کہی) تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی، آپ نے فرمایا: "بلاشبہ تم حلال ہو گئی ہو تو جس سے بھی چاہو اس سے نکاح کر سکتی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۲۳۳)، مسند احمد (۶/۳۱۱، ۳۱۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْمَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَهِيَ حَامِلٌ، قَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِذَا وَلَدَتْ فَقَدْ حَلَّتْ، فَدَخَلَ أَبُو سَلَمَةَ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَفَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ: "وَلَدَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِنِصْفِ شَهْرٍ، فَخَطَبَهَا رَجُلَانِ: أَحَدُهُمَا شَابٌّ، وَالْآخَرُ كَهْلٌ، فَحَطَّتْ إِلَى الشَّابِّ، فَقَالَ الْكَهْلُ: لَمْ تَحْلِلْ، وَكَانَ أَهْلُهَا غُيَّبًا، فَرَجَا إِذَا جَاءَ أَهْلُهَا أَنْ يُؤْثِرُوهُ بِهَا، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "قَدْ حَلَلْتِ، فَانْكِحِي مَنْ شِئْتِ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس عورت (کی عدت) کے بارے میں پوچھا گیا جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو اور وہ (انتقال کے وقت)حاملہ رہی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جو آخر میں ہو یعنی لمبی ہو اور دوسری کے مقابل میں بعد میں پوری ہوتی ہو ۱؎، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس وقت عورت بچہ جنے اسی وقت اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔ (یہ اختلاف سن کر) ابوسلمہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے پندرہ دن بعد بچہ جنا پھر دو آدمیوں نے اسے شادی کرنے کا پیغام دیا، ان دونوں میں سے ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ عمر کا، وہ جوان کی طرف مائل ہوئی اور اسے شادی کے لیے پسند کر لیا۔ ادھیڑ عمر والے نے اس سے کہا: تو تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو (شادی کرنے کیسے جا رہی ہو)، اس کے گھر والے غیر موجود تھے ادھیڑ عمر والے نے امید لگائی (کہ میرے ایسا کہنے سے شادی ابھی نہ ہو گی اور)جب لڑکی کے گھر والے آ جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس عورت کا اس کے ساتھ رشتہ کر دینے کو ترجیح دیں (اور سبیعہ کو اس کے ساتھ شادی کر لینے پر راضی کر لیں)۔ لیکن وہ تو (سیدھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو تم (بچہ جن کر) حلال ہو چکی ہو، تمہارا دل جس سے چاہے اس سے شادی کر لو" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: آیت: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا» :(البقرة: 234 ) کے مطابق ایک عدت چار مہینہ دس دن کی ہے اور دوسری عدت آیت: «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» :(الطلاق: 4 ) کے مطابق وضع حمل ہے۔ ۲؎: گویا ابوہریرہ رضی الله عنہ کا جواب حدیث رسول کی روشنی میں درست تھا۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي امْرَأَةٍ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِعِشْرِينَ لَيْلَةً: أَيَصْلُحُ لَهَا أَنْ تَزَوَّجَ ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، قَالَ: قُلْتُ: قَالَ: اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4، فَقَالَ: إِنَّمَا ذَلِكَ فِي الطَّلَاقِ، فَقَالَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَأَرْسَلَ غُلَامَهُ كُرَيْبًا، فَقَالَ: ائْتِ أُمَّ سَلَمَةَ فَسَلْهَا: هَلْ كَانَ هَذَا سُنَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: قَالَتْ: "نَعَمْ، سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ وَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ تَزَوَّجَ، فَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِيمَنْ يَخْطُبُهَا".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنے شوہر کے انتقال کے بیس رات بعد بچہ جنا، کیا اس کے لیے نکاح کر لینا جائز و درست ہو گا؟ انہوں نے کہا: اس وقت تک نہیں جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے بعد میں مکمل ہونے والی عدت کو پوری نہ کر لے۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» یعنی "جن کے پیٹ میں بچہ ہے ان کی عدت یہ ہے کہ بچہ جن دیں"۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ حکم مطلقہ (حاملہ) کا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ابوسلمہ جو کہتے ہیں وہی میرے نزدیک بھی صحیح اور بہتر ہے) اس گفتگو کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام کریب کو بھیجا کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ کیا اس سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت موجود ہے؟ کریب ان کے پاس آئے اور انہیں (ساری بات) بتائی، تو انہوں نے کہا: ہاں، سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کی بیس راتیں گزرنے کے بعد بچہ جنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کی اجازت دی، اور ابوسنابل رضی اللہ عنہ انہیں لوگوں میں سے تھے جن ہوں نے اسے شادی کا پیغام دیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق ۲ (۴۹۰۹)، صحیح مسلم/الطلاق ۸ (۱۴۸۵)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۷ (۱۱۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۰۶)، مسند احمد (۶/۳۱۴)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، تَذَاكَرُوا عِدَّةَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي، فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: "وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ".
سلیمان بن یسار سے روایت ہے، ابوہریرہ، ابن عباس (رضی الله عنہم) اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اس عورت کے بارے میں جس کا شوہر مر گیا ہو اور شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنا ہو آپس میں بات چیت کی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جو عدت بعد میں پوری ہو اس کا وہ لحاظ و شمار کرے گی، ابوسلمہ نے کہا: نہیں وہ وضع حمل کے ساتھ ہی (دوسرے کے لیے) حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں (یعنی ان کا ہم خیال ہوں)، پھر ان لوگوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے تھوڑے ہی دنوں بعد بچہ جنا پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَزَوَّجَ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے کچھ دنوں بعد بچہ جنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اپنی پسند کے شخص سے) شادی کر لینے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اخْتَلَفَا فِي الْمَرْأَةِ تُنْفَسُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: إِذَا نُفِسَتْ فَقَدْ حَلَّتْ، فَجَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي: أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ يَسْأَلُهَا عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهَا قَالَتْ: "وَلَدَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ حَلَلْتِ".
سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے درمیان اس عورت (کی عدت) کے بارے میں اختلاف ہو گیا جو اپنے شوہر کے انتقال کے چند ہی راتوں بعد بچہ جنے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس عدت کی مدت زیادہ ہو گی اس پر عمل کرے گی اور ابوسلمہ نے کہا: جب بچہ پیدا ہو جائے گا تو وہ حلال ہو جائے گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی (وہاں) پہنچ گئے (اور باتوں میں شریک ہو گئے) انہوں نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ساتھ ہوں (یعنی میری بھی وہی رائے ہے جو ابوسلمہ کی ہے) پھر ان سبھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کو(ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے بھیجا وہ پوچھ کر ان لوگوں کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ وہ کہتی ہیں کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے انتقال کے چند راتوں بعد بچہ جنا پھر اس نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ نے فرمایا: "تو حلال ہو چکی ہے (جس سے بھی تو شادی کرنا چاہے کر سکتی ہے)"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱ش۳۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، فقال ابن عباس: إذا وضعت المرأة بعد وفاة زوجها، فإن عدتها آخر الأجلين، فقال أبو سلمة، فبعثنا كريبا إلى أم سلمة يسألها عَنْ ذَلِكَ، فَجَاءَنَا مِنْ عِنْدِهَا،"أَنَّ سُبَيْعَةَ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَوَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَزَوَّجَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم (سب) ساتھ میں تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب عورت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جنے گی تو وہ عورت دونوں عدتوں میں سے وہ عدت گزارے گی جس کی مدت بعد میں ختم ہوتی ہو۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: ہم نے ام سلمہ (ام المؤمنین)رضی اللہ عنہا سے یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے ان کے پاس کریب کو بھیجا، وہ ہمارے پاس ان کے پاس سے یہ خبر لے کر آئے کہ سبیعہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا، ان کے انتقال چند دنوں بعد سبیعہ کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شادی کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۴۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ، يُقَالُ لَهَا: سُبَيْعَةُ كَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَخَطَبَهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَقَالَ: مَا يَصْلُحُ لَكِ أَنْ تَنْكِحِي حَتَّى تَعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، فَمَكَثَتْ قَرِيبًا مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ نُفِسَتْ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: انْكِحِي".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سن کر مجھے خبر دی کہ قبیلہ اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی اور حاملہ تھی (اسی دوران) شوہر کا انتقال ہو گیا تو ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ نے اسے شادی کا پیغام دیا جسے اس نے ٹھکرا دیا، اس نے اس سے کہا: تیرے لیے درست نہیں ہے کہ دونوں عدتوں میں سے آخری مدت کی عدت پوری کئے بغیر شادی کرے۔ پھر وہ تقریباً بیس راتیں ٹھہری رہی کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ (اس کے بعد) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی (اور آپ سے اسی بارے میں مسئلہ پوچھا اور صورت حال بتائی) آپ نے فرمایا: "تو (جس سے چاہے) نکاح کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۹ (۳۵۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۷۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا، وَأَبُو هُرَيْرَةَ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ، فَوَلَدَتْ لِأَدْنَى مِنْ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ مِنْ يَوْمِ مَاتَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: آخِرُ الْأَجَلَيْنِ، فقال أبو سلمة: فَقَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: "تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ، فَوَلَدَتْ لِأَدْنَى مِنْ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَزَوَّجَ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى ذَلِكَ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھے، اتنے میں ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہنے لگی: وہ حمل سے تھی کہ اسی دوران اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اسے مرے ہوئے قریب چار مہینے ہوئے تھے کہ اس کے یہاں بچہ پیدا ہوا (اس کی عدت کیا ہو گی؟)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں میں سے جس کی مدت لمبی ہو گی وہی تمہاری عدت ہو گی، (یہ سن کر) ابوسلمہ نے کہا: مجھے ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کہا: اس کا شوہر انتقال کر گیا، اس وقت وہ حاملہ تھی پھر اس نے قریب چار مہینے پر بچہ جنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شادی کر لینے کا حکم دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں اس مسئلہ میں گواہ ہوں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۶۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو گئی۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ: أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَيَسْأَلَهَا حَدِيثَهَا، وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِإِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ، أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ النِّكَاحَ، إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ: جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَفْتَانِي: "بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي".
عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ ان کے باپ عبداللہ (عبداللہ بن عتبہ) نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو خط لکھ کر حکم دیا کہ تم سبیعہ اسلمی بنت حارث رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان کا قصہ معلوم کرو اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کیا فرمایا تھا جس وقت انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، عمر بن عبداللہ نے (سبیعہ اسلمی سے ملاقات کر کے) عبیداللہ بن عتبہ کو باخبر کرتے ہوئے لکھا: سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں اور وہ(سعد) بنو عامر بن لوئی کے قبیلے سے تھے اور بدری بھی تھے، ان کا انتقال حجۃ الوداع میں ہوا اور اس وقت وہ حاملہ تھیں اور ان کی وفات کے بعد ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا (اور زیب و زینت کے ساتھ رہنے لگیں)، ان کے پاس قبیلہ بنو عبدالدار کے ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ آئے، انہوں نے کہا: کیا بات ہے میں تمہیں بنی سنوری دیکھتا ہوں، لگتا ہے تم شادی کرنا چاہ رہی ہو؟ قسم اللہ کی! تم اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم چار مہینے دس دن عدت کے پوری نہ کر لو۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب انہوں نے مجھے ایسی بات کہی تو شام کے وقت میں نے اپنے کپڑے لپیٹے و سمیٹے (اور اوڑھ پہن کر اور سلیقے سے ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور آپ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپ نے مجھے فتویٰ دیا کہ "جس وقت میں نے بچہ جنا ہے اسی وقت سے میں حلال ہو چکی ہوں اور مجھے حکم دیا کہ میں شادی کر لوں اگر میرا جی چاہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۱۰ (۳۹۹۱) تعلیقًا، الطلاق ۳۹ (۵۳۱۹)، صحیح مسلم/الطلاق ۸ (۱۴۸۴)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۹۰)، مسند احمد (۶/۴۳۲)، ویأتي برقم: ۳۵۴۹، ۳۵۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْهِ يَذْكُرُ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّزُفَرَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا السَّنَابِلِ بْنَ بَعْكَكِ بْنِ السَّبَّاقِ، قَالَ لِسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ: لَا تَحِلِّينَ حَتَّى يَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا أَقْصَى الْأَجَلَيْنِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ، فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْتَاهَا أَنْتَنْكِحَ إِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا"، وَكَانَتْ حُبْلَى فِي تِسْعَةِ أَشْهُرٍ حِينَ تُوُفِّيَ زَوْجُهَا، وَكَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ، فَتُوُفِّيَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَحَتْ فَتًى مِنْ قَوْمِهَا حِينَ وَضَعَتْ مَا فِي بَطْنِهَا.
زفر بن اوس بن حدثان نصری بیان کرتے ہیں کہ ابوسنابل بن بعکک بن سباق رضی اللہ عنہ نے سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم (نکاح کے لیے) حلال نہ ہو گی جب تک کہ دونوں عدتوں میں سے لمبی مدت والی عدت کے چار ماہ دس دن تم پر گزر نہ جائیں، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھا، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فتویٰ دیا کہ جب وہ بچہ جن چکی ہے تو نکاح کر لے، وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جب ان کے شوہر سعد کا انتقال ہوا تو ان کے حمل کا نوواں مہینہ چل رہا تھا، وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا، چنانچہ بچہ جننے کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے شادی کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُتْبَةَ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ: أَنِ ادْخُلْ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ، فَاسْأَلْهَا عَمَّا أَفْتَاهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَمْلِهَا، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا، فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَوَلَدَتْ قَبْلَ أَنْ تَمْضِيَ لَهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا، دَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَرَآهَا مُتَجَمِّلَةً، فَقَالَ: لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ النِّكَاحَ قَبْلَ أَنْ تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ، جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثْتُهُ حَدِيثِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ حَلَلْتِ حِينَ وَضَعْتِ حَمْلَكِ".
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عتبہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت الحارث اسلمی رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حمل کے سلسلے میں انہیں کیا فتویٰ دیا تھا؟ عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں (اس خط کے بعد) عمر بن عبداللہ نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان سے پوچھا تو انہوں نے انہیں بتایا کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، وہ حجۃ الوداع میں وفات پا گئے اور شوہر کی وفات سے لے کر چار مہینہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے یہاں بچہ پیدا ہو گیا، پھر جب وہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو بنو عبدالدار کے ایک شخص ابوالسنابل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہیں زیب و زینت میں دیکھا تو کہا (عدت کے) چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے ہی غالباً تم شادی کرنے کا ارادہ کر رہی ہو؟ وہ (سبیعہ) کہتی ہیں: جب میں نے ابوالسنابل سے یہ بات سنی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، میں نے آپ کو اپنی (اور ان کی) بات چیت بتائی۔ آپ نے فرمایا: "تم تو اسی وقت سے حلال ہو گئی ہو جب تم نے بچہ جنا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۴۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اب تم جب چاہو اور جس کے ساتھ چاہو شادی کر سکتی ہو۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي نَاسٍ بِالْكُوفَةِ فِي مَجْلِسٍ لِلْأَنْصَارِ عَظِيمٍ، فِيهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، فَذَكَرُوا شَأْنَ سُبَيْعَة فَذَكَرْتُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، فِي مَعْنَى قَوْلِ ابْنِ عَوْنٍ: حَتَّى تَضَعَ، قَالَ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى: لَكِنَّ عَمَّهُ لَا يَقُولُ ذَلِكَ، فَرَفَعْتُ صَوْتِي، وَقُلْتُ: إِنِّي لَجَرِيءٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ، قَالَ: فَلَقِيتُ مَالِكًا، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِي شَأْنِ سُبَيْعَةَ ؟ قَالَ: قَالَ: "أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ، وَلَا تَجْعَلُونَ لَهَا الرُّخْصَةَ ؟ لَأُنْزِلَتْ: سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى".
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول «حتیٰ تضع» کے معنی اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے)، (اس بات پر) ابن ابی لیلیٰ نے کہا: لیکن ان کے (یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا: کیا میں جرات کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورۃ (بقرہ) کے بعد اتری ہے۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیرسورة البقرة ۴۱ (۴۵۳۲)، تفسیرسورة الطلاق۱ (۴۹۱۰) تعلیقًا، (تحفة الأشراف: ۹۵۴۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ عدت چار ماہ دس دن کی عدت سے مستثنیٰ اور الگ ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينِ بْنِ نُمَيْلَةَ يَمَامِيٌّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ. ح وأَخْبَرَنِيمَيْمُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شَبْرَمَةَ الْكُوفِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: "مَنْ شَاءَ لَاعَنْتُهُ، مَا أُنْزِلَتْ: وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4، إِلَّا بَعْدَ آيَةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، إِذَا وَضَعَتِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فَقَدْ حَلَّتْ"، وَاللَّفْظُ لِمَيْمُونٍ.
علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا: جو کوئی مجھ سے مباہلہ کرنا چاہے میں اس سے اس بات پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں (کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے) کیونکہ وضع حمل کی مدت سے متعلق آیت «متوفی عنہا زوجہا» والی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے جس کا شوہر مر گیا ہو جب وہ بچہ جن دے گی حلال ہو جائے گی۔ اس روایت کے الفاظ میمون کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۴۴۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۷ (۲۳۰۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۳۰) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ وَهُوَ ابْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ. ح وأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ، وَمَسْرُوقٌ، وَعَبِيدَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، "أَنّ سُورَةَ النِّسَاءِ الْقُصْرَى نَزَلَتْ بَعْدَ الْبَقَرَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نسائی (یعنی طلاق) کی چھوٹی سورۃ البقرہ کی (بڑی) سورۃ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۹۱۸۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَاب:، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعَلْقَمَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، وَلَمْ يَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا حَتَّى مَاتَ، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: "لَهَا مِثْلُ صَدَاقِ نِسَائِهَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ، فَقَالَ: قَضَى فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ امْرَأَةٍ مِنَّا مِثْلَ مَا قَضَيْتَ"، فَفَرِحَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کی مہر متعین نہ کی اور دخول سے پہلے مر گیا تو انہوں نے کہا: اسے اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر کے مثل مہر دلائی جائے گی نہ کم نہ زیادہ، اسے عدت گزارنی ہو گی اور اس عورت کو شوہر کے مال سے میراث ملے گی، یہ سن کر معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: ہمارے خاندان کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا جیسا آپ نے دیا ہے، یہ سن کر ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوئے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۳۵۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت کے لیے کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے اپنے شوہر کے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۹۱)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۴۱)، مسند احمد (۶/۳۷، ۱۴۸، ۲۴۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: عورت شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو شوہر کے سوا کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۴۶۱)، مسند احمد (۶/۲۴۹، ۲۸۱)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۲۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ تَحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی منبر سے فرماتے ہوئے سنا: "کسی عورت کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں ہے سوائے شوہر کے، اس (کے مرنے) پر چار ماہ دس دن سوگ منائے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، ويحيى بن سعيد، ومحمد بن إسحاق، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبٍ، عَنْ الْفَارِعَةِ بِنْتِ مَالِكٍ، أَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْلَاجٍ فَقَتَلُوهُ، قَالَ شُعْبَةُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ وكانت في دار قاصية فجاءت ومعها أخوها إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا لَهُ، فَرَخَّصَ لَهَا حَتَّى إِذَا رَجَعَتْ دَعَاهَا، فَقَالَ: "اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ".
فارعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر (بھاگے ہوئے) غلاموں کی تلاش میں نکلے (جب وہ ان کے سامنے آئے) تو انہوں نے انہیں قتل کر دیا۔ (شعبہ اور ابن جریج کہتے ہیں: اس عورت کا گھر دور (آبادی کے ایک سرے پر) تھا، وہ عورت اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے گھر کے الگ تھلگ ہونے کا ذکر کیا (کہ وہاں گھر والے کے بغیر عورت کا تنہا رہنا ٹھیک نہیں ہے) آپ نے اسے (وہاں سے ہٹ کر رہنے کی)رخصت دے دی۔ پھر جب وہ (گھر جانے کے لیے) لوٹی تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: "تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ کتاب اللہ (قرآن) کی مقرر کردہ عدت کی مدت پوری ہو جائے۔" (اس کے بعد تم آزاد ہو جہاں چاہو رہو)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۴ (۲۳۰۰) مطولا، سنن الترمذی/الطلاق ۲۳ (۱۲۰۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۸ (۲۰۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۴۵)، موطا امام مالک/الطلاق۳۱، مسند احمد (۶/۳۷۰، ۴۲۰)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۳)، ویأتي فیما یلي و برقم: ۳۵۶۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمَّتِهِزَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبٍ، عَنْ الْفُرَيْعَةِ بِنْتِ مَالِكٍ،"أَنَّ زَوْجَهَا تَكَارَى عُلُوجًا لِيَعْمَلُوا لَهُ، فَقَتَلُوهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ: إِنِّي لَسْتُ فِي مَسْكَنٍ لَهُ، وَلَا يَجْرِي عَلَيَّ مِنْهُ رِزْقٌ، أَفَأَنْتَقِلُ إِلَى أَهْلِي، وَيَتَامَايَ، وَأَقُومُ عَلَيْهِمْ ؟ قَالَ: "افْعَلِي، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ قُلْتِ ؟ فَأَعَادَتْ عَلَيْهِ قَوْلَهَا، قَالَ: اعْتَدِّي حَيْثُ بَلَغَكِ الْخَبَرُ".
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے کچھ غلام اپنے یہاں کام کرانے کے لیے اجرت پر لیے تو انہوں نے انہیں مار ڈالا چنانچہ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنے شوہر کے کسی مکان میں بھی نہیں ہوں اور میرے شوہر کی طرف سے میرے گزران کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے تو میں اپنے گھر والوں (یعنی ماں باپ) اور یتیموں کے پاس چلی جاؤں اور ان کی خبرگیری کروں؟ آپ نے فرمایا: "ایسا کر لو"، پھر (تھوڑی دیر بعد) آپ نے فرمایا: "کیسے بیان کیا تم نے (ذرا ادھر آؤ تو)"؟ تو میں نے اپنی بات آپ کے سامنے دہرا دی۔ (اس پر) آپ نے فرمایا: "جہاں رہتے ہوئے تمہیں اپنے شوہر کے انتقال کی خبر ملی ہے وہیں رہ کر اپنی عدت کے دن بھی پوری کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ فُرَيْعَةَ، أَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْلَاجٍ لَهُ، فَقُتِلَ بِطَرَفِ الْقَدُّومِ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ لَهُ النُّقْلَةَ إِلَى أَهْلِي، وَذَكَرَتْ لَهُ حَالًا مِنْ حَالِهَا، قَالَتْ: فَرَخَّصَ لِي، فَلَمَّا أَقْبَلْتُ نَادَانِي، فَقَالَ: "امْكُثِي فِي أَهْلِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ".
فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے شوہر اپنے (بھاگے ہوئے کچھ) غلاموں کی تلاش میں نکلے تو وہ قدوم کے علاقے میں قتل کر دیئے گئے، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اپنے گھر والوں کے پاس منتقل ہو جانے کی خواہش ظاہر کی اور آپ سے (وہاں رہنے کی صورت میں) اپنے کچھ حالات (اور پریشانیوں) کا ذکر کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (منتقل ہو جانے کی) اجازت دے دی۔ پھر میں جانے لگی تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا: "عدت کی مدت پوری ہونے تک اپنے شوہر کے گھر ہی میں رہو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۵۸ (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ عَطَاءٌ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ: "نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: "عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ"، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آیت «متاعا الی الحول غیر اخراج» ... «الی آخرہ» جس میں متوفیٰ عنہا زوجہا کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے (اور اس کا ناسخ اللہ تعالیٰ کا یہ قول: «فإن خرجن فلا جناح عليكم في ما فعلن في أنفسهن من معروف» (البقرة: 240) ہے، اب عورت جہاں چاہے اور جہاں مناسب سمجھے وہاں عدت کے دن گزار سکتی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر البقرة ۴۱ (۴۵۳۱)، والطلاق۵۰ (۵۳۵۵)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۵ (۲۳۰۱)، (تحفة الأشراف: ۵۹۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں فریعہ بنت مالک کی حدیث سے استدلال کرنے والوں کی دلیل مضبوط ہے، کیونکہ اس حدیث کا معارضہ کرنے والے کوئی ٹھوس اور مضبوط دلیل نہ پیش کر سکے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَتْنِي زَيْنَبُ بِنْتُ كَعْبٍ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي فُرَيْعَةُ بِنْتُ مَالِكٍ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَتْ: تُوُفِّيَ زَوْجِي بِالْقَدُومِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ لَهُ، إِنَّ دَارَنَا شَاسِعَةٌ فَأَذِنَ لَهَا، ثُمَّ دَعَاهَا، فَقَالَ: "امْكُثِي فِي بَيْتِكِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر کا قدوم (بستی) میں انتقال ہو گیا تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو بتایا کہ میرا گھر (بستی سے) دور (الگ تھلگ) ہے (تو میں اپنے ماں باپ کے گھر عدت گزار لوں؟) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ پھر انہیں بلایا اور فرمایا: "اپنے گھر ہی میں چار مہینے دس دن رہو یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۵۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْأُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً، ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَتْ زَيْنَبُ: ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، وَقَدْ دَعَتْ بِطِيبٍ وَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَتْ زَيْنَبُ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا، أَفَأَكْحُلُهَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ"، قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عِنْدَ رَأْسِ الْحَوْلِ ؟ قَالَتْ زَيْنَبُ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا وَلَا شَيْئًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَيْرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلَّا مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ، فَتُعْطَى بَعْرَةً فَتَرْمِي بِهَا، وَتُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ، قَالَ مَالِكٌ: تَفْتَضُّ تَمْسَحُ بِهِ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدٍ، قَالَ مَالِكٌ: الْحِفْشُ الْخُصُّ.
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے انہوں نے یہ (آنے والی) تین حدیثیں بیان کیں: ۱- زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس (تعزیت میں) گئی، (میں نے دیکھا کہ) انہوں نے خوشبو منگوائی، (پہلے)لونڈی کو لگائی پھر اپنے دونوں گالوں پر ملا پھر یہ بھی بتا دیا کہ قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت اور خواہش نہ تھی مگر (میں نے یہ بتانے کے لیے لگائی ہے کہ)میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "کسی عورت کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے شوہر کے انتقال کرنے پر، کہ اس پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی"۔ (اس لیے میں اپنے والد کے مر جانے پر تین دن کے بعد سوگ نہیں منا رہی ہوں)۔ ۲- زینب (زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا) کہتی ہیں: جب ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی کا انتقال ہو گیا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے خود لگایا پھر (مسئلہ بتانے کے لیے) کہا: قسم اللہ کی مجھے خوشبو لگانے کی کوئی حاجت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے (و اعلان کرتے) ہوئے سنا ہے: "جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے سوا کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی"۔ ۳- زینب (زینب بنت ابی سلمہ) کہتی ہیں: میں نے (ام المؤمنین) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں"، پھر آپ نے فرمایا: "ارے یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (جاہلیت میں کیا ہوتا تھا وہ بھی دھیان میں رہے) زمانہ جاہلیت میں تمہاری (بیوہ) عورت (سوگ کا) سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی"۔ حمید بن نافع کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا سے کہا: سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکنے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا عورت کا شوہر جب انتقال کر جاتا تھا تو اس کی بیوی تنگ و تاریک جگہ (چھوٹی کوٹھری) میں جا رہتی اور خراب سے خراب کپڑا پہن لیتی تھی اور سال پورا ہونے تک نہ خوشبو استعمال کرتی اور نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتی۔(سال پورا ہو جانے کے بعد) پھر کوئی جانور گدھا، بکری یا چڑیا اس کے پاس لائی جاتی اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرمگاہ کو رگڑتی اور جس جانور سے بھی وہ رگڑتی(دبوچتی) وہ (مر کر ہی چھٹی پاتا) مر جاتا، پھر وہ اس تنگ تاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی (اس طرح وہ گویا اپنی نحوست دور کرتی)، اس کے بعد ہی اسے خوشبو وغیرہ جو چاہے استعمال کی اجازت ملتی۔ مالک کہتے ہیں: «تفتض» کا مطلب «تمسح به» کے ہیں (یعنی اس سے رگڑتی)۔ محمد بن سلمہ مالک کہتے ہیں: «حفش»، «خص» کو کہتے ہیں (یعنی بانس یا لکڑی کا جھونپڑا)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِدُّ امْرَأَةٌ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تَحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، وَلَا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَمْتَشِطُ، وَلَا تَمَسُّ طِيبًا إِلَّا عِنْدَ طُهْرِهَا حِينَ تَطْهُرُ نُبَذًا مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ".
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی عورت شوہر کے سوا کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، شوہر کے مرنے پر چار مہینہ دس دن سوگ منائے گی، نہ رنگ کر کپڑا پہنے، نہ ہی رنگین دھاگے سے بنا ہوا کپڑا (پہنے)، نہ سرمہ لگائے، نہ کنگھی کرے، اور نہ خوشبو ملے۔ ہاں جب حیض سے پاک ہو تو اس وقت تھوڑے سے قسط و اظفار کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۲ (۳۱۳)، والجنائز ۳۰ (۱۲۷۸)، الطلاق ۴۷ (۵۳۳۹، ۴۹ (۵۳۴۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۹۳۸)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۶ (۲۳۰۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۴)، مسند احمد (۵/۸۵، ۴۰۸)، ویأتي برقم: ۳۵۶۶، سنن الدارمی/الطلاق ۱۳ (۲۳۳۲)، ویأتي برقم: ۳۵۷۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: قسط و اظفار ایک طرح کی دھوئیں دار چیزیں ہیں جنہیں حیض کی نا پسندیدہ بو ختم کرنے کے لیے سلگاتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ایک طرح کی خوشبو ہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُدَيْلٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لَا تَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ مِنَ الثِّيَابِ، وَلَا الْمُمَشَّقَةَ، وَلَا تَخْتَضِبُ، وَلَا تَكْتَحِلُ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت کا شوہر مر گیا ہے وہ عورت (عدت کے ایام میں) کسم کے رنگ کا اور سرخ پھولوں سے رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، خضاب نہ لگائے اور سرمہ نہ لگائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۶ (۲۳۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۸۰)، مسند احمد (۶/۳۰۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَخْتَضِبُ، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا".
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ شوہر کے علاوہ کسی میت کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منائے اور سوگ منانے والی نہ سرمہ لگائے گی، نہ خضاب اور نہ ہی رنگا ہوا کپڑا پہنے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ الضَّحَّاكِ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَكِيمٍ بِنْتُ أَسِيدٍ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ زَوْجَهَا تُوُفِّيَ وَكَانَتْ تَشْتَكِي عَيْنَهَا، فَتَكْتَحِلُ الْجَلَاءَ، فَأَرْسَلَتْ مَوْلَاةً لَهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا عَنْ كُحْلِ الْجَلَاءِ، فَقَالَتْ: لَا تَكْتَحِلُ إِلَّا مِنْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ، دَخَلَ عَلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ، وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبْرًا، فَقَالَ: "مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ ؟"قُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ صَبْرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ، قَالَ: "إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ، فَلَا تَجْعَلِيهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ، وَلَا تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ وَلَا بِالْحِنَّاءِ، فَإِنَّهُ خِضَابٌ"، قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ".
ام حکیم بنت اسید اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور اس وقت ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی، چنانچہ وہ آنکھوں کو جلا پہنچانے والا (یعنی اثمد کا) سرمہ لگایا کرتی تھیں تو انہوں نے (سوگ میں ہونے کے بعد) اپنی ایک لونڈی کو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج کر آنکھوں کو جلا اور ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کے لگانے کے بارے میں پوچھا؟ انہوں نے کہا: نہیں لگا سکتی مگر یہ کہ کوئی ایسی مجبوری اور ضرورت پیش آ جائے جس کو لگائے بغیر چارہ نہیں (تو لگا سکتی ہے)۔ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس موقع پر میں اپنی آنکھ پر ایلوا لگائے ہوئے تھی۔ آپ نے پوچھا: ام سلمہ! یہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ صرف ایلوا ہے! اس میں کسی طرح کی خوشبو نہیں ہے، آپ نے فرمایا: "(خوشبو تو نہیں ہے لیکن) یہ چہرے کو جوان (اور تروتازہ کر دیتا) ہے۔ اسے نہ لگاؤ اور اگر لگانا ہی (بہت ضروری) ہو تو رات میں لگاؤ اور خوشبودار چیز اور مہندی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو"۔ کیونکہ یہ خضاب ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کیا چیز لگا کر سر دھوؤں اور کنگھی کروں! آپ نے فرمایا: "بیری کے پتے کا لیپ لگا کر اپنے سر کو ڈھانپ رکھو" (اور دھو کر کنگھی کرو)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۶ (۲۳۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ مغیرہ ‘‘ لین الحدیث ہیں، اور ’’ ام حکیم ‘‘ اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَهُوَ ابْنُ مُوسَى، قَالَ حُمَيْدٌ: وَحَدَّثَتْنِي زَيْنَبُ بِنْتُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي رَمِدَتْ، أَفَأَكْحُلُهَا ؟ وَكَانَتْ مُتَوَفًّى عَنْهَا، فَقَالَ: "أَلَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"، ثُمَّ قَالَتْ: إِنِّي أَخَافُ عَلَى بَصَرِهَا، فَقَالَ: "لَا، إِلَّا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَحِدُّ عَلَى زَوْجِهَا سَنَةً، ثُمَّ تَرْمِي عَلَى رَأْسِ السَّنَةِ بِالْبَعْرَةِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ قریش کی ایک عورت آئی اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری بیٹی آشوب چشم میں مبتلا ہے اور وہ اپنے شوہر کے مرنے کا سوگ منا رہی ہے تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں؟ آپ نے فرمایا: "کیا چار مہینے دس دن نہیں ٹھہر سکتی؟" اس عورت نے پھر کہا: مجھے اس کی بینائی کے جانے کا خوف ہے۔ آپ نے فرمایا: "نہیں، چار ماہ دس دن پورا ہونے سے پہلے نہیں لگا سکتی، زمانہ جاہلیت میں تمہاری ہر عورت اپنے شوہر کے مرنے پر سال بھر کا سوگ مناتی تھی پھر سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنِ ابْنَتِهَا مَاتَ زَوْجُهَا وَهِيَ تَشْتَكِي، قَالَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَحِدُّ السَّنَةَ، ثُمَّ تَرْمِي الْبَعْرَةَ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے اپنی بیٹی کا ذکر کر کے جس کا شوہر مر گیا تھا اور اس کی آنکھیں دکھتی تھیں (اس کے علاج و معالجے کے لیے) مسئلہ پوچھا، آپ نے فرمایا: "تمہاری ہر عورت (جس کا شوہر مر جاتا تھا) پورے سال سوگ مناتی تھی (اور ہر طرح کی تکلیف اٹھاتی تھی) اور پھر سال پورا ہونے پر مینگنیاں پھینکتی تھی اور اب یہ (اسلام میں گھٹ کر) چار مہینے دس دن ہیں (تو تمہیں آنکھ کی تھوڑی سی تکلیف بھی برداشت نہیں ہوتی؟)"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَايَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدْ خِفْتُ عَلَى عَيْنِهَا، وَهِيَ تُرِيدُ الْكُحْلَ، فَقَالَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا"، فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: مَا رَأْسُ الْحَوْلِ ؟ قَالَتْ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا هَلَكَ زَوْجُهَا عَمَدَتْ إِلَى شَرِّ بَيْتٍ لَهَا، فَجَلَسَتْ فِيهِ حَتَّى إِذَا مَرَّتْ بِهَا سَنَةٌ، خَرَجَتْ، فَرَمَتْ وَرَاءَهَا بِبَعْرَةٍ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے اور میں ڈرتی ہوں کہ اس کی آنکھیں کہیں خراب نہ ہو جائیں۔ اس کا مقصد تھا کہ آپ اسے سرمہ لگانے کی اجازت دے دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری کوئی بھی عورت (جو سوگ منا رہی ہوتی تھی) سوگ کے سال پورا ہونے پر مینگنی پھینکتی تھی اور یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں" (یہ بھی تم لوگوں سے گزارے نہیں جاتے)"۔ حمید بن نافع کہتے ہیں: میں نے زینب سے پوچھا «رأس الحول» (سال بھر کے بعد) کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا جاہلیت میں ہوتا یہ تھا کہ جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو وہ عورت اپنے گھروں میں سے سب سے خراب (بوسیدہ) گھر میں جا بیٹھتی تھی، جب اس کا سال پورا ہو جاتا تو وہ اس گھر سے نکلتی اور اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ أُمَّ سَلَمَةَ، وَأُمَّ حَبِيبَةَ: أَتَكْتَحِلُ فِي عِدَّتِهَا مِنْ وَفَاةِ زَوْجِهَا ؟ فَقَالَتْ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَتْهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: "قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا أَقَامَتْ سَنَةً، ثُمَّ قَذَفَتْ خَلْفَهَا بِبَعْرَةٍ، ثُمَّ خَرَجَتْ، وَإِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا حَتَّى يَنْقَضِيَ الْأَجَلُ".
زینب (زینب بنت ام سلمہ رضی الله عنہا) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا کوئی عورت اپنے شوہر کے انتقال پر عدت گزارنے کے دوران سرمہ لگا سکتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا: ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے یہی سوال کیا (جو تم نے کیا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ جاہلیت میں تم میں سے جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ کر مر جاتا تھا تو وہ عورت سال بھر سوگ مناتی رہتی یہاں تک کہ وہ وقت آتا کہ وہ اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی پھر وہ گھر سے نکلتی"۔ (تب اس کی عدت پوری ہوتی) اور مدت پوری ہونے تک یہ تو صرف چار مہینے دس دن ہیں (سال بھر کے مقابل میں یہ کچھ بھی نہیں)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ هُوَ الدُّورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ رَخَّصَ لِلْمُتَوَفَّى عَنْهَا عِنْدَ طُهْرِهَا فِي الْقُسْطِ وَالْأَظْفَارِ".
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو جس کا شوہر مر گیا ہو عدت کے دوران حیض سے پاک ہونے پر (خون کی بدبو دور کرنے کے لیے) قسط اور اظفار کے استعمال کی رخصت دی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۱۴۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السِّجْزِيُّ خَيَّاطُ السُّنَّةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ النَّحْوِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ"فِي قَوْلِهِ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، نُسِخَ ذَلِكَ بِآيَةِ الْمِيرَاثِ، مِمَّا فُرِضَ لَهَا مِنَ الرُّبُعِ، وَالثُّمُنِ، وَنَسَخَ أَجَلَ الْحَوْلِ، أَنْ جُعِلَ أَجَلُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اللہ تعالیٰ کے اس قول «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج» "اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں (یعنی جس وقت مرنے لگیں) تو وہ اپنی بیبیوں کے لیے ایک سال تک ان کو نہ نکالنے اور خرچ دینے کی وصیت کر جائیں"۔ (البقرہ: ۲۴۰) کے متعلق فرماتے ہیں: یہ آیت میراث کی آیت سے منسوخ ہو گئی ہے جس میں عورت کا چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اور ایک سال تک عدت میں رہنے کا حکم چار ماہ دس دن کے حکم سے منسوخ ہو گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۴۲ (۲۲۹۸)، (تحفة الأشراف: ۶۲۵۰) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ"فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: نَسَخَتْهَا: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا سورة البقرة آية 234".
عکرمہ آیت کریمہ: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج» کے متعلق فرماتے ہیں: یہ آیت اس آیت: «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا» "اور جو لوگ تم میں سے (اے مسلمانو!) مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ (یعنی بیبیاں) چار مہینے دس دن تک اپنے تئیں روک رکھیں"۔ (البقرہ: ۲۳۴) سے منسوخ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَاصِمٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أَخْبَرَتْهُ وَكَانَتْ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، أَنَّهُ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَخَرَجَ إِلَى بَعْضِ الْمَغَازِي، وَأَمَرَ وَكِيلَهُ أَنْ يُعْطِيَهَا بَعْضَ النَّفَقَةِ فَتَقَالَّتْهَا، فَانْطَلَقَتْ إِلَى بَعْضِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عِنْدَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، طَلَّقَهَا فُلَانٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِبَعْضِ النَّفَقَةِ فَرَدَّتْهَا، وَزَعَمَ أَنَّهُ شَيْءٌ تَطَوَّلَ بِهِ، قَالَ: "صَدَقَ"، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَانْتَقِلِي إِلَى أُمِّ كُلْثُومٍ فَاعْتَدِّي عِنْدَهَا"، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ أُمَّ كُلْثُومٍ امْرَأَةٌ يَكْثُرُ عُوَّادُهَا، فَانْتَقِلِي إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى"، فَانْتَقَلَتْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَاعْتَدَّتْ عِنْدَهُ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ خَطَبَهَا أَبُو الْجَهْمِ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْتَأْمِرُهُ فِيهِمَا، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو الْجَهْمِ فَرَجُلٌ أَخَافُ عَلَيْكِ قَسْقَاسَتَهُ لِلْعَصَا، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ أَمْلَقُ مِنَ الْمَالِ"، فَتَزَوَّجَتْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ بَعْدَ ذَلِكَ.
عبدالرحمٰن بن عاصم سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بنی مخزوم کے ایک شخص کی بیوی تھیں، وہ شخص انہیں تین طلاقیں دے کر کسی جہاد میں چلا گیا اور اپنے وکیل سے کہہ گیا کہ اسے تھوڑا بہت نفقہ دیدے۔ (تو اس نے دیا) مگر اس نے اسے تھوڑا اور کم جانا (اور واپس کر دیا) پھر ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس پہنچی اور وہ ان کے پاس ہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فاطمہ بنت قیس ہیں اور (ان کے شوہر) فلاں نے انہیں طلاق دے دی ہے اور ان کے پاس کچھ نفقہ بھیج دیا ہے جسے انہوں نے واپس کر دیا، اس کے وکیل کا خیال ہے کہ یہ تو اس کی طرف سے ایک طرح کا احسان ہے (ورنہ اس کا بھی حق نہیں بنتا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ صحیح کہتا ہے، تم ام کلثوم کے یہاں منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت گزارو"، پھر آپ نے فرمایا: "نہیں، تم عبداللہ بن ام مکتوم کے یہاں منتقل ہو جاؤ، ام کلثوم کے گھر ملنے جلنے والے بہت آتے ہیں (ان کے باربار آنے جانے سے تمہیں تکلیف ہو گی) اور عبداللہ بن ام مکتوم نابینا آدمی ہیں"، (وہاں تمہیں پریشان نہ ہونا پڑے گا) تو وہ عبداللہ ابن ام مکتوم کے یہاں چلی گئیں اور انہیں کے یہاں اپنی عدت کے دن پورے کئے۔ اس کے بعد ابوالجہم اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے انہیں شادی کا پیغام دیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان دونوں کے بارے میں کسی ایک سے شادی کرنے کا مشورہ چاہا، تو آپ نے فرمایا: "رہے ابوالجہم تو مجھے ان کے تم پر لٹھ چلا دینے کا ڈر ہے اور رہے معاویہ تو وہ مفلس انسان ہیں۔ یہ سننے کے بعد فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے شادی کر لی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۰)، مسند احمد (۶/۴۱۴) (ضعیف الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ،"أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى"، فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا، قَالَ عُرْوَةُ: أَنْكَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ کی بیوی تھیں، انہوں نے انہیں تین طلاقوں میں سے آخری تیسری طلاق دے دی۔ فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنے گھر سے اپنے نکل جانے کا مسئلہ پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ مروان بن حکم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مطلقہ کے گھر سے نکلنے کی بات کو صحیح تسلیم نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ کی اس بات کا انکار کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۴۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوْجِي طَلَّقَنِي ثَلَاثًا، وَأَخَافُ أَنْ يُقْتَحَمَ عَلَيَّ، فَأَمَرَهَا، فَتَحَوَّلَتْ".
فاطمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کوئی (مجھے تنہا پا کر) اچانک میرے پاس گھس نہ آئے (اس لیے آپ مجھے کہیں اور منتقل ہو جانے کی اجازت دے دیجئیے) تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے اپنی رہائش کی جگہ تبدیل کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مَاهَانَ بَصْرِيٌّ، عَنْ هُشَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، وَحُصَيْنٌ، وَمُغِيرَةُ، وَدَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، وإسماعيل بن أبي خالد، وَذَكَرَ آخَرِينَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُهَا عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فَخَاصَمَتْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةِ، قَالَتْ: "فَلَمْ يَجْعَلْ لِي سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ".
شعبی کہتے ہیں کہ میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے ان کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ پوچھا؟ انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے طلاق بتہ (تین طلاق قطعی) دی تو میں ان سے نفقہ و سکنیٰ حاصل کرنے کا اپنا مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو آپ نے مجھے نفقہ و سکنیٰ پانے کا حقدار نہ ٹھہرایا اور مجھے حکم دیا کہ میں اب ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت کے دن گزاروں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق الصَّاغَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارٌ هُوَ ابْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: "طَلَّقَنِي زَوْجِي، فَأَرَدْتُ النُّقْلَةَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "انْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ عَمْرِو بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَاعْتَدِّي فِيهِ، فَحَصَبَهُ الْأَسْوَدُ، وَقَالَ: وَيْلَكَ، لِمَ تُفْتِي بِمِثْلِ هَذَا ؟ قَالَ عُمَرُ: إِنْ جِئْتِ بِشَاهِدَيْنِ يَشْهَدَانِ أَنَّهُمَا سَمِعَاهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِلَّا لَمْ نَتْرُكْ كِتَابَ اللَّهِ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1".
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تو میں نے (شوہر کے گھر سے) منتقل ہو جانے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اجازت طلب کرنے کی غرض سے) آئی، آپ نے (اجازت عطا فرمائی) فرمایا: "اپنے چچا زاد بھائی عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ اور وہیں عدت کے دن گزارو"۔ (یہ سن کر) اسود نے ان کی طرف (انہیں متوجہ کرنے کے لیے) کنکری پھینکی اور کہا: تمہارے لیے خرابی ہے ایسا فتویٰ کیوں دیتی ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم دو ایسے گواہ پیش کر دو جو اس بات کی گواہی دیں کہ جو تم کہہ رہی ہو اسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو ہم تمہاری بات قبول کر لیں گے۔ اور اگر دو گواہ نہیں پیش کر سکتیں تو ہم کسی عورت کے کہنے سے کلام پاک کی آیت: «لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة» "نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں"۔ (الطلاق: ۱) پر عمل کرنا ترک نہیں کر سکتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "طُلِّقَتْ خَالَتُهُ، فَأَرَادَتْ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى نَخْلٍ لَهَا فَلَقِيَتْ رَجُلًا فَنَهَاهَا، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "اخْرُجِي، فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي وَتَفْعَلِي مَعْرُوفًا".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی (اسی دوران) انہوں نے اپنے کھجوروں کے باغ میں جانے کا ارادہ کیا تو ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے انہیں باغ میں جانے سے روکا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں (آپ سے اس بارے میں پوچھا) تو آپ نے فرمایا: "تم اپنے باغ میں جا سکتی ہو، توقع ہے (جب تم اپنے باغ میں جاؤ گی، پھل توڑو گی تو) تم صدقہ کرو گی اور (دوسرے) اچھے بھلے کام کرو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۷ (۱۴۸۳)، سنن ابی داود/الطلاق ۴۱ (۲۲۹۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۹ (۲۰۳۴)، (تحفة الأشراف: ۲۷۹۹)، مسند احمد (۳/۳۲۱)، سنن الدارمی/البیوع ۲۲ (۲۵۹۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: "طَلَّقَنِي زَوْجِي فَلَمْ يَجْعَلْ لِي سُكْنَى وَلَا نَفْقَةً، قَالَتْ: فَوَضَعَ لِي عَشْرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَهُ، خَمْسَةٌ شَعِيرٌ وَخَمْسَةٌ تَمْرٌ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: صَدَقَ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ فُلَانٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا طَلَّقَهَا طَلَاقًا بَائِنًا".
ابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی اور میرے نفقہ و سکنیٰ کا انتظام نہ کیا، اور اپنے چچیرے بھائی کے یہاں میرے لیے دس قفیز رکھ دیئے: پانچ قفیز جو کے اور پانچ قفیز کھجور کے ۱؎، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کو یہ ساری باتیں بتائیں تو آپ نے فرمایا: "اس نے صحیح کہا ہے اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں فلاں کے گھر میں رہ کر اپنی عدت پوری کروں، ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائن دی تھی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۴۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک قفیز آٹھ مکیال برابر سولہ کیلو گرام کا ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا حَمْنَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ، فَأَمَرَتْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا فَاطِمَةَ أَفْتَتْهَا بِذَلِكَ وَأَخْبَرَتْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْتَاهَا بِالِانْتِقَالِ حِينَ طَلَّقَهَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيُّ"، فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ إِلَى فَاطِمَةَ، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرٍو لَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ وَهِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا، فَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَى الْحَارِثِ، وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا النَّفَقَةَ الَّتِي أَمَرَ لَهَا بِهَا زَوْجُهَا، فَقَالَا: وَاللَّهِ مَا لَهَا عَلَيْنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا، وَمَا لَهَا أَنْ تَسْكُنَ فِي مَسْكَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا، فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، "فَصَدَّقَهُمَا"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ: "انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَهُوَ الْأَعْمَى الَّذِي عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ"، فَانْتَقَلْتُ عِنْدَهُ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ، حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، زَعَمَتْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ.
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ۱؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہو جا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے، (اس کے جواب میں) اس نے مروان کو یہ خبر بھیجی کہ مجھے میری خالہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے گھر چھوڑ دینے کا فتویٰ دیا تھا اور بتایا تھا کہ جب ان کے شوہر ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر سے منتقل ہو جانے کا حکم دیا تھا۔ (یہ قصہ سن کر) مروان نے قبیصہ بن ذویب (نامی شخص) کو(تحقیق واقعہ کے لیے) فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا۔ (وہ آئے) اور ان سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو کی بیوی تھیں اور وہ اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر (گورنر) بنا کر بھیجا تھا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے انہیں وہ طلاق دے کر بھیجی جو باقی رہ گئی تھی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہما کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ انہیں نفقہ دے دیں گے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حارث اور عیاش سے اس نفقہ کا مطالبہ کیا جسے انہیں دینے کے لیے ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا، ان دونوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جواب دیا: قسم اللہ کی! ان کے لیے ہمارے ذمہ کوئی نفقہ نہیں ہے، (یعنی ان کے لیے نفقہ کا حق ہی نہیں تھا) ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں بیشک وضع حمل تک نفقہ مل سکتا ہے) اور اب ان کے لیے ہمارے گھر میں رہنے کا بھی حق نہیں بنتا، الا یہ کہ ہم انہیں (ازراہ عنایت) اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ(یہ باتیں سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور یہ ساری باتیں آپ کو بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی تصدیق کی (کہ انہوں نے صحیح بات بتائی ہے)۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کہاں چلی جاؤں؟ آپ نے فرمایا: "ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ"۔ یہ ابن ام مکتوم وہی نابینا شخص ہیں جن کی خاطر اللہ نے اپنی کتاب (قرآن پاک کی سورۃ عبس) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا تھا۔ تو میں ان کے یہاں چلی گئی۔ (ان کے نہ دیکھ پانے کی وجہ سے بغیر کسی دقت و پریشانی کے) میں وہاں اپنے کپڑے اتار لیتی (اور تبدیل کر لیتی) تھی ۲؎ اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نہ کرا دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۲۲۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسی طلاق جس سے طالق کا مطلقہ سے ہر طرح کا رشتہ ختم ہو جائے اور مرد کا اس سے بغیر دوسری شادی کے نکاح ناجائز ہو۔ ۲؎: معلوم ہوا کہ بلاقصد و ارادہ عورت کی نگاہ اگر مرد پر پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا شخص کے گھر میں عورت کو عدت گزارنے کے لیے جو حکم صادر فرمایا اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عورت کی ذات مرد کی نگاہوں سے پوری طرح محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود یہ کہ فاطمہ کی نگاہ ابن ام مکتوم پر پڑ سکتی تھی پھر بھی آپ نے اس ناحیہ سے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا، اب رہ گئی بات ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث«افعمیاوان انتما» کی تو اس سلسلہ میں امام ابوداؤد اپنی سنن :(۴/۳۶۲ ) میں لکھتے ہیں کہ یہ ازواج مطہرات کے لیے خاص ہے، ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص :(۳/۱۴۸ ) میں ابوداؤد رحمہ اللہ کی اس تطبیق کو «جمع حسن» کہا ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ فَاطِمَةَ ابْنَةَ أَبِي حُبَيْشٍحَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَتْ إِلَيْهِ الدَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَانْظُرِي إِذَا أَتَاكِ قُرْؤُكِ، فَلَا تُصَلِّي، فَإِذَا مَرَّ قُرْؤُكِ، فَلْتَطْهُرِي، قَالَ: ثُمَّ صَلِّي مَا بَيْنَ الْقُرْءِ إِلَى الْقُرْءِ".
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی تو آپ نے ان سے کہا: یہ کسی رگ سے آتا ہے (رحم سے نہیں) تم دھیان سے دیکھتی رہو جب تمہیں «قرؤ» یعنی حیض آئے ۱؎ تو نماز نہ پڑھو اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو (نہا دھو کر) پاک ہو جایا کرو اور پھر ایک حیض سے دوسرے حیض کے درمیان نماز پڑھا کرو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۰۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قرؤ» سے حیض مراد لیا ہے۔
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ النَّحْوِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: "مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا سورة البقرة آية 106، وَقَالَ: وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ سورة النحل آية 101، وَقَالَ: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ سورة الرعد آية 39، فَأَوَّلُ مَا نُسِخَ مِنَ الْقُرْآنِ الْقِبْلَةُ، وَقَالَ: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ سورة البقرة آية 228 إِلَى قَوْلِهِ إِنْ أَرَادُوا إِصْلاحًا سورة البقرة آية 228، وَذَلِكَ بِأَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا، وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَنَسَخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما قرآن پاک کی آیت: «ما ننسخ من آية أو ننسها نأت بخير منها أو مثلها» یعنی "ہم جو کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ہم اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسی کوئی اور آیت لے آتے ہیں" (البقرہ: ۱۰۶) اور دوسری آیت: «وإذا بدلنا آية مكان آية واللہ أعلم بما ينزل» یعنی "جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کیا چیز اتاری ہے تو وہ کہتے ہیں تو تو گڑھ لاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سمجھتے ہی نہیں ہیں" (النحل: ۱۰۱)، اور تیسری آیت: «يمحو اللہ ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب» "اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ) ہے" (الرعد: ۳۹)۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: پہلی چیز جو قرآن سے منسوخ ہوئی ہے وہ قبلہ ہے۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت: «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق اللہ في أرحامهن» سے لے کر «إن أرادوا إصلاحا» تک یعنی "اور طلاق یافتہ عورتیں تین حیض کے آ جانے کا انتظار کریں گی اور ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ ان کی بچہ دانیوں میں اللہ نے جو تخلیق کر دی ہو اسے چھپائیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہیں، البتہ ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ انہیں لوٹا لینے کا پورا حق رکھتے ہیں" (البقرہ: ۲۲۸) کی تفسیر میں فرماتے ہیں (پہلے معاملہ یوں تھا) کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو اسے لوٹا لینے کا بھی پورا پورا حق رکھتا تھا خواہ اس نے اسے تین طلاقیں ہی کیوں نہ دی ہوں، ابن عباس کہتے ہیں: یہ چیز منسوخ ہو گئی کلام پاک کی اس آیت «الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان» "یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روک لینا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے" (البقرہ: ۲۲۹)سے (یعنی وہ صرف دو طلاق تک رجوع کر سکتا ہے اس سے زائد طلاق دینے پر رجوع کرنا جائز نہیں)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۵۲۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرُ فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُرْهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ يَعْنِي فَإِنْ شَاءَ فَلْيُطَلِّقْهَا"، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: فَاحْتَسَبْتَ مِنْهَا، فَقَالَ: مَا يَمْنَعُهَا أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میری بیوی حالت حیض میں تھی اسی دوران میں نے اسے طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے، پھر جب وہ حالت طہر میں آ جائے تو اسے اختیار ہے، چاہے تو اسے طلاق دیدے"۔ یونس کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نے (پہلی طلاق) کو شمار و حساب میں رکھا ہے تو انہوں نے کہا: نہ رکھنے کی کوئی وجہ؟ تمہیں بتاؤ اگر کوئی عاجز ہو جائے یا حماقت کر بیٹھے (تو کیا شمار نہ ہو گی؟)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۴۲۸ (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ ابْنِ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. ح وأَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالُوا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، فَإِذَا طَهُرَتْ، فَإِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا، فَإِنَّهُ الطَّلَاقُ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ، قَالَ تَعَالَى: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، اس بات کا ذکر عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "انہیں حکم دو کہ اسے لوٹا لے پھر جب دوسرا حیض آ کر پاک ہو جائے تو چاہے تو اسے طلاق دیدے اور چاہے تو اسے روکے رکھے، یہی وہ طلاق ہے جو اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «فطلقوهن لعدتهن» "انہیں طلاق دو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں" (الطلاق: ۱)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۵۰۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَيَقُولُ: أَمَّا إِنْ طَلَّقَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، وَأَمَّا إِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ عَصَيْتَ اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ".
نافع کہتے ہیں کہ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی ایسے شخص کے متعلق پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو تو وہ کہتے: اگر اس نے ایک طلاق دی ہے یا دو طلاقیں دی ہیں (تو ایسی صورت میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجوع کر لینے کا حکم دیا ہے پھر اسے دوسرے حیض آنے تک روکے رکھے پھر جب وہ (دوسرے حیض سے) پاک ہو جائے تو اسے جماع کرنے سے پہلے ہی طلاق دیدے اور اگر اس نے تین طلاقیں (ایک بار حالت حیض ہی میں) دے دی ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے ۱؎ لیکن تین طلاق کی وجہ سے اس کی عورت بائنہ ہو جائے گی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، (تحفة الأشراف: ۷۵۴۴)، مسند احمد (۲/۶۴، ۱۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ نے عورت کو طلاق دینے کا جو طریقہ بتایا تھا اس نے اس کے موافق کام نہ کیا۔
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى مَرْوَزِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ"أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَاجَعَهَا".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور بیوی اس وقت حیض سے تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کر لینے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اسے لوٹا لیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۶۷۵۸)، مسند احمد (۲/۶۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِيهِ ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُسْأَلُ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ، "فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ"، وَلَمْ أَسْمَعْهُ يَزِيدُ عَلَى هَذَا.
طاؤس کہتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے اس وقت سنا جب ان سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھنے والے سے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر کو جانتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، کہا: (انہیں کا واقعہ ہے) کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور بیوی حیض سے تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس بات کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے یہاں تک کہ (حیض آئے اور پھر) حیض سے پاک ہو جائے" (اب چاہے تو طلاق نہ دے اپنی زوجیت میں قائم رکھے) طاؤس کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس سے مزید کچھ کہتے ہوئے نہیں سنا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق۱ (۱۴۷۱)، (تحفة الأشراف: ۷۱۰۱)، مسند احمد (۲/۱۴۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ. ح وَأَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو سَعِيدٍ، قَالَ: نُبِّئْتُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَمْرٌو: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ طَلَّقَ حَفْصَةَ، ثُمَّ رَاجَعَهَا"، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اور عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی تھی اور پھر رجوع فرمایا تھا۔ واللہ اعلم، (اللہ بہتر جانتا ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطلاق ۳۸ (۲۲۸۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱ (۲۰۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۳)، سنن الدارمی/الطلاق ۲ (۲۳۱۰) (صحیح)