حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْيَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو مالک سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: * تخريج:تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۱۷)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ عشرة النساء (۹۲۱۴)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (۵۱۷۰)، مسند احمد (۲/۳۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا وَلِتَنْكِحَ، فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ اس کا پیالہ خالی کرا لے (یعنی اس کا حصہ خود لے لے) اور خود نکاح کر لے، جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اسے ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۸ (۲۱۰۴)، والشروط ۸ (۲۷۲۳)، والنکاح ۴۵ (۵۱۴۴)، سنن النسائی/النکاح ۲۰ (۳۲۴۲)، (تحفة الأشراف:۱۳۸۱۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح ۴ (۱۴۰۸)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۴ (۱۱۹۰)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷)، موطا امام مالک/النکاح ۱(۱)، مسند احمد (۲/۲۳۸، ۲۷۴، ۳۱۱، ۳۱۸، ۳۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُعَرِّفٌ، عَنْ مُحَارِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَحَلَّ اللَّهُ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ".
محارب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:۷۴۱۱، ۱۹۲۸۱) (ضعیف) (مرسل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱ (۲۰۱۸)، (تحفة الأشراف: ۷۴۱۱) (ضعیف) (اس کے راوی کثیر بن عبید لین الحدیث ہیں، اس حدیث کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے مرسل کے رواة عدد میں زیادہ اور اوثق ہیں اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے )
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حیض آ جائے، پھر پاک ہو جائے، پھر اس کے بعد اگر چاہے تو رکھے، ورنہ چھونے سے پہلے طلاق دیدے، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کے سلسلے میں حکم دیا ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق (۴۹۰۸)، والطلاق ۲ (۵۲۵۲)، ۳ (۵۲۵۸)، ۴۵ (۵۳۳۳)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن النسائی/الطلاق ۱ (۳۴۱۹)، ۵ (۳۴۲۹)، ۷۶ (۳۵۸۵)، (تحفة الأشراف: ۸۳۳۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲ (۲۰۱۹)، موطا امام مالک/الطلاق ۲۰(۵۲)، مسند احمد (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹، ۱۲۴)، سنن الدارمی/الطلاق ۱ (۲۳۰۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق سنت کے خلاف ہے ، سنت یہ ہے کہ اس طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ کی ہو تاکہ وہ طہر (یا حیض) عدت کے شمار کئے جا سکیں، حیض سمیت تین طہر گزر جائیں تو اس کی عدت پوری ہو جائے گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً، بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ.
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی ایک عورت کو حالت حیض میں ایک طلاق دے دی، آگے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴۵ (۵۳۳۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، (تحفة الأشراف: ۸۲۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ، أَوْ وَهِيَ حَامِلٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے پھر جب وہ پاک ہو جائے یا حاملہ ہو تو اسے طلاق دے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن الترمذی/الطلاق ۱ (۱۱۷۶)، سنن النسائی/الطلاق ۳ (۳۴۲۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳ (۲۰۲۳)، (تحفة الأشراف: ۶۷۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶، ۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اگر حاملہ ہوگی تو اس کی عدت وضع حمل سے ختم ہوگی ورنہ تین حیض سے ختم ہو جائے گی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَذَلِكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے پھر فرمایا: "اسے حکم دو کہ اس سے رجوع کر لے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر چاہیئے کہ وہ پاکی کی حالت میں اسے چھوئے بغیر طلاق دے، یہی عدت کا طلاق ہے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، (تحفة الأشراف: ۶۹۹۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: "كَمْ طَلَّقْتَ امْرَأَتَكَ ؟"فَقَالَ: "وَاحِدَةً".
ابن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے خبر دی کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کو کتنی طلاق دی؟ تو انہوں نے کہا: ایک۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۲۱۷۹، (تحفة الأشراف: ۸۵۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: تَعْرِفُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَر طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا فِي قُبُلِ عِدَّتِهَا"، قَالَ: قُلْتُ: فَيَعْتَدُّ بِهَا، قَالَ: فَمَهْ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ مجھے یونس بن جبیر نے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مسئلہ دریافت کیا، میں نے کہا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) کہنے لگے کہ تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، تو انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے حکم دو کہ وہ رجوع کر لے اور عدت کے آغاز میں اسے طلاق دے"۔ میں نے پوچھا: کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟ انہوں نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۲۱۷۹، (تحفة الأشراف: ۸۵۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجز ہو جانے یا دیوانہ ہو جانے کی صورت میں بھی وہ طلاق شمار کی جائے گی تو رجعت کے بعد بھی ضرور شمار کی جائے گی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ اگر وہ واقع نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا «مره فليراجعها» کہنا بے معنی ہو گا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہو جائے گی اور اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا لیکن اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوگی ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی، کیونکہ ابوداود کی اگلی حدیث کے الفاظ ہیں «ولم يرها شيئا» ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَيْمَنَ مَوْلَى عُرْوَةَ يَسْأَلُ ابْنَ عُمَرَ وَ أَبُو الزُّبَيْرِ يَسْمَعُ، قَالَ: كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ حَائِضًا ؟ قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَرَدَّهَا عَلَيَّ وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا، وَقَالَ: "إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ 0". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ وَ أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ وَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ وَ أَبُو الزُّبَيْرِ وَ مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، مَعْنَاهُمْ كُلُّهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ، قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَمَّا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، وَ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَ وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَ"، قالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَ رِوَايَةِ نَافِعٍ وَ الزُّهْرِيِّ، وَالْأَحَادِيثُ كُلُّهَا عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ.
ابن جریج کہتے ہیں کہ ہمیں ابوالزبیر نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عروہ کے غلام عبدالرحمٰن بن ایمن کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھتے سنا اور وہ سن رہے تھے کہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے، عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مجھ پر لوٹا دیا اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا اور فرمایا: "جب وہ پاک ہو جائے تو وہ طلاق دے یا اسے روک لے"، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن» "اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو تم انہیں ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو" (سورۃ الطلاق: ۱) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یونس بن جبیر، انس بن سیرین، سعید بن جبیر، زید بن اسلم، ابوالزبیر اور منصور نے ابووائل کے طریق سے روایت کیا ہے، سب کا مفہوم یہی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اگر چاہیں تو طلاق دیدیں اور چاہیں تو باقی رکھیں"۔ اسی طرح اسے محمد بن عبدالرحمٰن نے سالم سے، اور سالم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے البتہ زہری کی جو روایت سالم اور نافع کے طریق سے ابن عمر سے مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر اسے حیض آئے اور پھر پاک ہو، پھر اگر چاہیں تو طلاق دیں اور اگر چاہیں تو رکھے رہیں، اور عطاء خراسانی سے روایت کیا گیا ہے انہوں نے حسن سے انہوں نے ابن عمر سے نافع اور زہری کی طرح روایت کی ہے، اور یہ تمام حدیثیں ابوالزبیر کی بیان کردہ روایت کے مخالف ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، سنن النسائی/الطلاق ۱ (۳۴۲۱)، (ولیس عندہما قولہ ’’لَمْ یَرَہَا شَیْئاً‘‘) (تحفة الأشراف: ۷۴۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۶۱، ۸۰، ۸۱، ۱۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کسی کی روایت میں یہ لفظ نہیں ہے کہ ’’اور اس طلاق کو شمار نہیں کیا‘‘
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ سُلَيْمَانَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ يَقَعُ بِهَا وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا، فَقَالَ: "طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا وَعَلَى رَجْعَتِهَا، وَلَا تَعُدْ".
مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کر لے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۵ (۲۰۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ مُعَتِّبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا حَسَنٍ مَوْلَى بَنِي نَوْفَلٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ اسْتَفْتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فِي مَمْلُوكٍ كَانَتْ تَحْتَهُ مَمْلُوكَةٌ فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَتَيْنِ ثُمَّ عُتِقَا بَعْدَ ذَلِكَ، هَلْ يَصْلُحُ لَهُ أَنْ يَخْطُبَهَا ؟ قَالَ: "نَعَمْ، قَضَى بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
بنی نوفل کے غلام ابوحسن نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس غلام کے بارے میں فتویٰ پوچھا جس کے نکاح میں کوئی لونڈی تھی تو اس نے اسے دو طلاق دے دی اس کے بعد وہ دونوں آزاد کر دیئے گئے، تو کیا غلام کے لیے درست ہے کہ وہ اس لونڈی کو نکاح کا پیغام دے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا فیصلہ دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۱۹ (۳۴۵۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۲ (۲۰۸۲)، (تحفة الأشراف: ۶۵۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۹، ۳۳۴) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ بِلَا إِخْبَارٍ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "بَقِيَتْ لَكَ وَاحِدَةٌ، قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لِمَعْمَرٍ: مَنْ أَبُو الْحَسَنِ هَذَا ؟ لَقَدْ تَحَمَّلَ صَخْرَةً عَظِيمَةً، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو الْحَسَنِ هَذَا رَوَى عَنْهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ، رَوَى الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْحَسَنِ أَحَادِيثَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو الْحَسَنِ مَعْرُوفٌ وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ.
عثمان بن عمر کہتے ہیں کہ ہمیں علی نے خبر دی ہے آگے سابقہ سند سے اسی مفہوم کی روایت مذکور ہے لیکن عنعنہ کے صیغے کے ساتھ ہے نہ کہ «أخبرنا» کے صیغے کے ساتھ، اس میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تیرے لیے ایک طلاق باقی رہ گئی ہے، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا فیصلہ فرمایا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا کہ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ ابن مبارک نے معمر سے پوچھا کہ یہ ابوالحسن کون ہیں؟ انہوں نے ایک بھاری چٹان اٹھا لی ہے؟ ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوالحسن وہی ہیں جن سے زہری نے روایت کی ہے، زہری کہتے ہیں کہ وہ فقہاء میں سے تھے، زہری نے ابوالحسن سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوالحسن معروف ہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۵۶۱، ۱۸۹۳۴) (ضعیف) (عمر بن معتب کی وجہ سے یہ روایت بھی ضعیف ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس جملہ سے اس روایت میں جو کچھ ہے اس کا انکار مقصود ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُظَاهِرٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ، وَقُرْؤُهَا حَيْضَتَانِ". قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: حَدَّثَنِي مُظَاهِرٌ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: "وَعِدَّتُهَا حَيْضَتَانِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ حَدِيثٌ مَجْهُولٌ. قَالَ أَبُو دَاوُدَ: الْحَدِيثَانِ جَمِيعًا لَيْسَ الْعَمَلُ عَلَيْهِمَا. قَالَ أَبُو دَاوُدَ: مُظَاهِرٌ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ. قَالَ أَبُو دَاوُدَ: هَذَا حَدِيثٌ مَجْهُولٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لونڈی کی طلاق دو ہیں اور اس کے قروء دو حیض ہیں"۔ ابوعاصم کہتے ہیں: مجھ سے مظاہر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے قاسم نے انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، لیکن اس میں ہے کہ اس کی عدت دو حیض ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مجہول حدیث ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۷ (۱۱۸۲)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۰ (۲۰۸۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق ۱۷ (۲۳۴۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالَا: حَدَّثَنَامَطَرٌ الْوَرَّاقُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا طَلَاقَ إِلَّا فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ إِلَّا فِيمَا تَمْلِكُ، وَلَا بَيْعَ إِلَّا فِيمَا تَمْلِكُ، زَادَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: وَلَا وَفَاءَ نَذْرٍ إِلَّا فِيمَا تَمْلِكُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "طلاق صرف انہیں میں ہے جو تمہارے نکاح میں ہوں، اور آزادی صرف انہیں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور بیع بھی صرف انہیں چیزوں میں ہے جو تمہاری ملکیت میں ہوں"۔ ابن صباح کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ (تمہارے ذمہ) صرف اسی نذر کا پورا کرنا ہے جس کے تم مالک ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۷۳۶، ۸۸۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۹، ۱۹۰)، سنن الترمذی/الطلاق ۶ (۱۱۸۱)، ق ۱۷ (۲۰۴۷) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى مَعْصِيَةٍ فَلَا يَمِينَ لَهُ، وَمَنْ حَلَفَ عَلَى قَطِيعَةِ رَحِمٍ فَلَا يَمِينَ لَهُ".
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: "جس نے گناہ کرنے کی قسم کھا لی تو اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں نیز جس نے رشتہ توڑنے کی قسم کھا لی اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ الطلاق ۱۷ (۲۰۴۷)، (تحفة الأشراف: ۸۷۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۵) (حسن)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي هَذَا الْخَبَرِ: زَادَ: "وَلَا نَذْرَ إِلَّا فِيمَا ابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ تَعَالَى ذِكْرُهُ".
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یہی روایت آئی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ "وہی نذر ماننا درست ہے جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۸۷۳۶)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان برقم: (۳۲۷۳) (حسن)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ الزُّهْرِيُّ، أَنَّ يَعْقُوبَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ الْحِمْصِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ الَّذِي كَانَ يَسْكُنُ إِيلِيَا، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَدِيِّ بْنِ عَدَيٍّ الْكِنْدِيِّ حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ فَبَعَثَنِي إِلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ وَكَانَتْ قَدْ حَفِظَتْ مِنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي غِلَاقٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الْغِلَاقُ أَظُنُّهُ فِي الْغَضَبِ.
محمد بن عبید بن ابوصالح (جو ایلیاء میں رہتے تھے) کہتے ہیں کہ میں عدی بن عدی کندی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ میں مکہ آیا تو انہوں نے مجھے صفیہ بنت شیبہ کے پاس بھیجا، اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیثیں یاد کر رکھی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ غلاق کا مطلب غصہ ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۶ (۲۰۴۶)، مسند احمد (۶/۲۷۶) (حسن) (اس کے راوی محمد بن عبید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے رواة کی متابعت و تقویت سے یہ حدیث حسن ہے ، ملاحظہ ہو:ا رواء الغلیل: ۲۰۴۷ ، وصحیح ابی داود: ۶؍ ۳۹۶)
وضاحت: ۱؎ : اس باب کے الفاظ کی روایت تین طرح ہے: «على غيظ» ، «على غضب» ، «على غلطٍ» اور حدیث میں «غلاق» ،«إغلاق» جس کے معنی مؤلف نے غضب کے لئے ہیں ، حالانکہ کوئی بھی آدمی بغیر غیظ و غضب کے طلاق نہیں دیتا، اس طرح تو کوئی طلاق واقع ہی نہیں ہو گی ، اس لئے «إغلاق» کا معنی ’’زبردستی‘‘ لینا بہتر ہے ، اور تحقیقی بات یہی ہے کہ زبردستی لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں چاہے سنجیدگی سے کیا جائے یا ہنسی مذاق میں ان کا اعتبار ہو گا، وہ یہ ہیں: نکاح، طلاق اور رجعت"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۹(۱۱۸۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۳(۲۰۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۵۴) (حسن)(شواہد اور آثار صحابہ سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ عبدالرحمن بن حبیب کو نسائی نے منکرالحدیث کہا ہے اور حافظ ابن حجرنے لین الحدیث ، ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ۱۸۲۵)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ سورة البقرة آية 228 الْآيَةَ، وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِهَا، وَإِنْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَنُسِخَ ذَلِكَ، وَقَالَ: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ سورة البقرة آية 229".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن» "اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہے وہ تین طہر تک ٹھہری رہیں اور ان کے لیے حلال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں جو پیدا کر دیا ہے اسے چھپائیں" (سورۃ البقرہ: ۲۲۸) یہ اس وجہ سے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو رجعت کا وہ زیادہ حقدار رہتا تھا گرچہ اس نے تین طلاقیں دے دی ہوں پھر اسے منسوخ کر دیا گیا اور ارشاد ہوا «الطلاق مرتان»یعنی طلاق کا اختیار صرف دو بار ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۵۴ (۳۵۲۹)، ۷۵ (۳۵۸۴)، (تحفة الأشراف: ۶۲۵۳) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۸۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي بَعْضُ بَنِي أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ أُمَّ رُكَانَةَ وَنَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا كَمَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا فَفَرِّقْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَأَخَذَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةٌ فَدَعَا بِرُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ، ثُمَّ قَالَ لَجُلَسَائِهِ: "أَتَرَوْنَ فُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا مِنْ عَبْدِ يَزِيدَ، وَفُلَانًا يُشْبِهُ مِنْهُ كَذَا وَكَذَا ؟"قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: "طَلِّقْهَا"، فَفَعَلَ، ثُمَّ قَالَ: "رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ وَإِخْوَتِهِ"، فَقَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "قَدْ عَلِمْتُ، رَاجِعْهَا"، وَتَلَا: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَحَدِيثُ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ، لِأَنَّ وَلَدَ الرَّجُلِ وَأَهْلَهُ أَعْلَمُ بِهِ إِنَّ رُكَانَةَ، إِنَّمَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَجَعَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدَةً.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رکانہ اور اس کے بھائیوں کے والد عبد یزید نے رکانہ کی ماں کو طلاق دے دی، اور قبیلہ مزینہ کی ایک عورت سے نکاح کر لیا، وہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے سر سے ایک بال لے کر کہنے لگی کہ وہ میرے کام کا نہیں مگر اس بال برابر لہٰذا میرے اور اس کے درمیان جدائی کرا دیجئیے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا، آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوا لیا، پھر پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ: "کیا فلاں کی شکل اس اس طرح اور فلاں کی اس اس طرح عبد یزید سے نہیں ملتی؟"، لوگوں نے کہا: ہاں (ملتی ہے)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد یزید سے فرمایا:"اسے طلاق دے دو"، چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی، پھر فرمایا: "اپنی بیوی یعنی رکانہ اور اس کے بھائیوں کی ماں سے رجوع کر لو"، عبد یزید نے کہا: اللہ کے رسول میں تو اسے تین طلاق دے چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے، تم اس سے رجوع کر لو"، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن» (سورۃ الطلاق: ۱) "اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت میں طلاق دو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نافع بن عجیر اور عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت (حدیث نمبر: ۲۲۰۶) کیا ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی، پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رجوع کرا دیا، زیادہ صحیح ہے کیونکہ رکانہ کے لڑکے اور ان کے گھر والے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک ہی شمار کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۶۲۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۶۵) (عندہ ’’داود بن حصین‘‘ مکان ’’بعض بنی أبی رافع‘‘ (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث حسن ہے، اور مؤلف نے جس حدیث (نمبر: ۲۲۰۶) کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ضعیف ہے، نیز اولاد رکانہ واقعہ کے بیان میں خود مضطرب ہیں، یاد رہے کہ عہد نبوی میں ’’تین طلاق‘‘ اور ’’طلاقہ بتہ ‘‘ ہم معنی الفاظ تھے، عہد نبوی و عہد صحابہ کے بعد لوگوں نے ’’طلاق بتہ‘‘ کا یہ معنی بنا دیا کہ جس میں ایک دو، تین طلاق دہندہ کی نیت کے مطابق طے کیا جائیگا (تفصیل کے لے دیکھئے تنویر الآفاق)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سورة الطلاق آية 2، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ، فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ سورة الطلاق آية 1 فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَ أَيُّوبُ، وَ ابْنُ جُرَيْجٍ، جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، كُلُّهُمْ قَالُوا فِي الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ: "أَنَّهُ أَجَازَهَا"، قَالَ: "وَبَانَتْ مِنْكَ"نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "إِذَا قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ، ثَلَاثًا بِفَمٍ وَاحِدٍ، فَهِيَ وَاحِدَةٌ". وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، هَذَا قَوْلُهُ، لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَجَعَلَهُ قَوْلَ عِكْرِمَةَ.
مجاہد کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے، پھر انہوں نے کہا: تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہو پھر آ کر کہتے ہو: اے ابن عباس! اے ابن عباس! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «ومن يتق الله يجعل له مخرجا» ۱؎ اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لیے بائنہ ہو گئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «يا أيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن» ، «في قبل عدتهن» ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو حمید اعرج وغیرہ نے مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اور اسے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے عمرو نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ اور ایوب و ابن جریج نے عکرمہ بن خالد سے عکرمہ نے سعید بن جبیر سے سعید نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اور ابن جریج نے عبدالحمید بن رافع سے ابن رافع نے عطاء سے عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے اعمش نے مالک بن حارث سے مالک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ابن جریج نے عمرو بن دینار سے عمرو نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ ان سبھوں نے تین طلاق کے بارے میں کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو تین ہی مانا اور کہا کہ وہ تمہارے لیے بائنہ ہو گئی جیسے اسماعیل کی روایت میں ہے جسے انہوں نے ایوب سے ایوب نے عبداللہ بن کثیر سے روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور حماد بن زید نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ جب ایک ہی منہ سے (یکبارگی یوں کہے کہ تجھے تین طلاق دی) تو وہ ایک شمار ہو گی۔ اور اسے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سے ایوب نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور یہ ان کا اپنا قول ہے البتہ انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا بلکہ اسے عکرمہ کا قول بتایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داودٔ (تحفة الأشراف: ۶۴۰۱)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ التفسیر (۱۱۶۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے ، وہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے۔ ۲؎ : اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں دو۔
وَصَارَ قَوْلُ وَصَارَ قَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سُئِلُوا عَنِ الْبِكْرِ يُطَلِّقُهَا زَوْجُهَا ثَلَاثًا، فَكُلُّهُمْ قَالُوا: "لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ". قالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، أَنَّهُ شَهِدَ هَذِهِ الْقِصَّةَ حِينَ جَاءَ مُحَمَّدُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُمَا عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَا: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَإِنِّي تَرَكْتُهُمَا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ثُمَّ سَاقَ هَذَا الْخَبَرَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَوْلُ ابْنِ عَبَّاسٍ هُوَ: "أَنَّ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ تَبِينُ مِنْ زَوْجِهَا مَدْخُولًا بِهَا وَغَيْرَ مَدْخُولٍ بِهَا، لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ". هَذَا مِثْلُ خَبَرِ الصَّرْفِ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ إِنَّهُ رَجَعَ عَنْهُ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ.
ابوداؤد کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول اگلی والی حدیث میں ہے جسے محمد بن ایاس نے روایت کیا ہے کہ ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم سے باکرہ (کنواری) کے بارے میں جسے اس کے شوہر نے تین طلاق دے دی ہو، دریافت کیا گیا تو ان سب نے کہا کہ وہ اپنے اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی، جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے یحییٰ نے بکیر بن اشبح سے بکیر نے معاویہ بن ابی عیاش سے روایت کیا ہے کہ وہ اس واقعہ میں موجود تھے جس وقت محمد بن ایاس بن بکیر، ابن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس آئے، اور ان دونوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو ان دونوں نے ہی کہا کہ تم ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ میں انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں، پھر انہوں نے یہ پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول کہ تین طلاق سے عورت اپنے شوہر کے لیے بائنہ ہو جائے گی، چاہے وہ اس کا دخول ہو چکا ہو، یا ابھی دخول نہ ہوا ہو، اور وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی، جب تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے اس کی مثال «صَرْف» والی حدیث کی طرح ہے ۱؎ اس میں ہے کہ پھر انہوں یعنی ابن عباس نے اس سے رجوع کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۴۳۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازی ۱۰ (۳۹۹۱ تعلیقًا) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جس طرح وہ نقدی کو نقدی سے بیچنے کے متعلق کہتے تھے کہ اس میں ربا صرف ادھار کی صورت میں ہے نقد کی صورت میں نہیں پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا اسی طرح یہ معاملہ بھی ہے اس سے بھی انہوں نے بعد میں رجوع کر لیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْطَاوُسٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: أَبُو الصَّهْبَاءِ، كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ ؟"قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "بَلَى، كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ، فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا، قَالَ: أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ ایسا کرنے لگے ہیں تو کہا کہ میں انہیں تین ہی نافذ کروں گا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۷۶۳) (ضعیف) (اس سند میں غیر واحد مبہم رواة ہیں ، مگر اس میں«غیرمدخول بہا» کا لفظ ہی منکر ہے باقی باتیں اگلی روایت سے ثابت ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مگر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم واجب العمل نہیں ہو سکتا ، کیونکہ حدیث صحیح سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تین طلاق کا ایک طلاق ہونا ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَلِابْنِ عَبَّاسٍ: "أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتْ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَبِي بَكْرٍ وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ ؟"قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "نَعَمْ".
طاؤس سے روایت ہے کہ ابوصہباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۲ (۱۴۷۲)، سنن النسائی/الطلاق ۸ (۳۴۳۵)، (تحفة الأشراف: ۵۷۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ائمہ حدیث اور علما ظاہر کا اسی پر عمل ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ".
علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو اسی کی ہجرت اللہ اور رسول کے لیے مانی جائے گی، اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے مانی جائے گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الوحي ۱ (۱)، الایمان ۴۱ (۵۴)، العتق ۶ (۲۵۲۹)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۸)، النکاح ۵ (۵۰۷۰)، النذور ۲۳ (۶۶۸۹)، الحیل ۱ (۶۹۵۳)، صحیح مسلم/الإمارة ۴۵ (۱۹۰۷)، سنن الترمذی/فضائل الجھاد ۱۶ (۱۶۴۷)، سنن النسائی/الطھارة ۶۰ (۷۵)، الطلاق ۲۴ (۳۴۶۷)، الأیمان والنذور ۱۹ (۳۸۲۵)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۲۶ (۴۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۵، ۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، فَسَاقَ قِصَّتَهُ فِي تَبُوكَ، قَالَ: "حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ، إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ ؟ قَالَ: لَا، بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبَنَّهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ.
عبداللہ بن کعب بن مالک (جو کہ اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کے نابینا ہو جانے کے بعد ان کے قائد تھے) کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے والد) کعب بن مالک سے سنا، پھر انہوں نے جنگ تبوک والا اپنا قصہ سنایا اس میں انہوں نے بیان کیا کہ جب پچاس دنوں میں سے چالیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو، میں نے پوچھا: کیا میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں بلکہ اس سے علیحدہ رہو اس کے قریب نہ جاؤ، چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا: تم اپنے میکے چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اللہ تعالیٰ اس معاملہ کا فیصلہ نہ فرما دے وہیں رہنا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۲۶ (۲۷۵۷)، والجھاد ۱۰۳ (۲۹۴۷)، ۱۹۸ (۳۰۸۸)، وتفسیر سورة البراء ة ۱۴ (۴۶۷۳)، ۱۷ (۴۶۷۷)، ۱۸ (۴۶۷۷)، ۱۹ (۴۶۷۸)، والاستئذان ۲۱ (۶۲۵۵)، والأیمان والنذور ۲۴ (۶۶۹۱)، والأحکام ۵۳ (۷۲۲۵)، صحیح مسلم/التوبة ۹ (۲۷۶۹)، سنن النسائی/المساجد ۳۸ (۷۳۲)، والطلاق ۱۸ (۳۴۵۳)، والأیمان والنذور ۳۶(۳۸۵۴)، ۳۷ (۳۸۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۳۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر سورة التوبة (۳۱۰۱)، مسند احمد (۳/۴۵۵، ۴۵۷، ۴۵۹، ۶/۳۸۸)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۴ (۱۵۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی انہوں نے اپنے اس قول سے طلاق کی نیت نہیں کی تو اس سے طلاق نہیں مراد لی گئی، اگر وہ طلاق کی نیت کرتے تو طلاق واقع ہو جاتی، کنائی الفاظ سے اسی وقت طلاق واقع ہوتی ہے جب اس کی نیت کی ہو۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ يَعُدَّ ذَلِكَ شَيْئًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اپنے عقد میں رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اختیار کیا، پھر آپ نے اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۵ (۵۲۶۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۴ (۱۴۷۷)، سنن الترمذی/الطلاق ۴ (۱۱۷۹)، سنن النسائی/النکاح ۲ (۳۲۰۴) والطلاق ۲۷ (۳۴۷۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۰ (۲۰۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۵، ۴۷، ۱۷۱، ۱۷۳، ۱۸۵، ۲۰۲، ۲۰۵، ۲۳۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۵ (۲۳۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے طلاق قرار نہیں دیا، اکثر علماء کی یہی رائے ہے کہ جب شوہر بیوی کو اختیار دے اور وہ شوہر ہی کو اختیار کرلے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور زید بن ثابت اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک طلاق پڑ جائے گی، مگر پہلی بات ہی ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَيُّوبَ: "هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ بِقَوْلِ الْحَسَنِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ ؟"قَالَ: "لَا، إِلَّا شَيْئًا حَدَّثَنَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَى ابْنِ سَمُرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ". قَالَ أَيُّوبُ: فَقَدِمَ عَلَيْنَا كَثِيرٌ فَسَأَلْتُهُ. فَقَالَ: مَا حَدَّثْتُ بِهَذَا قَطُّ. فَذَكَرْتُهُ لِقَتَادَةَ، فَقَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ.
حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ایوب سے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی اور نے بھی «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں وہی بات کہی ہے جو حسن نے کہی تو انہوں نے کہا: نہیں، مگر وہی روایت ہے جسے ہم سے قتادہ نے بیان کیا، قتادہ نے کثیر مولی ابن سبرہ سے کثیر نے ابوسلمہ سے ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ ایوب کہتے ہیں: تو کثیر ہمارے پاس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا، وہ بولے: میں نے تو کبھی یہ حدیث بیان نہیں کی، پھر میں نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ہاں کیوں نہیں انہوں نے اسے بیان کیا تھا لیکن وہ بھول گئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۳ (۱۱۷۸)، سنن النسائی/الطلاق ۱۱(۳۴۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۹۲) (ضعیف)(اس کے راوی کثیر لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ الْحَسَنِ، فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ، قَالَ: "ثَلَاثٌ".
حسن سے «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہو گی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۹۲، ۱۸۵۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «أمرك بيدك» کے معنی ہیں: تمہارا معاملہ تمہارے ہاتھ میں ہے، یعنی تمہیں اختیار ہے، بعض کے نزدیک اس سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، اور حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہو گی، لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث نمبر (۲۲۰۳) سے معلوم ہوا کہ کچھ واقع نہیں ہو گا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّرُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً ؟"فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَوَّلُهُ لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ وَآخِرُهُ لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ.
نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ۱؎ (قطعی طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟" رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۲ (۱۱۷۷)، ق / الطلاق ۱۹ (۲۰۵۱)، (تحفة الأشراف: ۳۶۱۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/ الطلاق ۸ (۲۳۱۸) (ضعیف) (اس کے راوی نافع مجہول ہیں ، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے)
وضاحت: ۱؎ : البتہ : «بتّ» کا اسم مرہ ہے ، البتہ اور «بتات» کے معنی یقیناً اور قطعاً کے ہیں، طلاق بتہ یا البتہ ایسی طلاق جو یقینی اور قطعی طور پر پڑ چکی ہے ، اورصحیح احادیث کی روشنی میں تین طلاق سنت کے مطابق تین طہر میں دی جائے ، تو اس کے بعد یہ طلاق قطعی اور بتہ ہو گی، واضح رہے کہ یزید بن رکانہ کی یہ حدیث ضعیف ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ رُكَانَةَ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی رکانہ بن عبد یزید سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۳۶۱۳) (ضعیف)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَا أَرَدْتَ ؟"قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: "آللَّهِ ؟"قَالَ: آللَّهِ ؟ قَالَ: "هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ. وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: "تم نے کیا نیت کی تھی؟" انہوں نے کہا: ایک کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو؟" انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہو گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع(جو ایک مجہول ہے) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، (دیکھئیے حدیث نمبر: ۲۰۹۶)
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۰۶)، (تحفة الأشراف: ۳۶۱۳) (اس کے تین رواة ضعیف ہیں ، دیکھئے : إرواء الغلیل: ۲۰۶۳) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ، وَبِمَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۶ (۲۵۲۸)، والطلاق ۱۱ (۵۲۶۹)، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۵۸ (۱۲۷)، سنن الترمذی/الطلاق ۸ (۱۱۸۳)، سنن النسائی/الطلاق ۲۲ (۳۴۶۴، ۳۴۶۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۴ (۲۰۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۹۳، ۳۹۸، ۴۲۵، ۴۷۴، ۴۸۱، ۴۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دل میں طلاق کا صرف خیال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، وَخَالِدٌ الطَّحَّانُ الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُخْتُكَ هِيَ"، فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ.
ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ تیری بہن ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۹۹، ۱۸۸۴۶) (اس کے راوی ابوتمیمة تابعی ہیں اس لئے مرسل ہے ) (ضعیف)
وضاحت: ۱؎ : اگرچہ اس کے کہنے سے وہ اس کی بہن نہیں ہو جائے گی مگر نامناسب بات زبان سے نکالنی مناسب نہیں، گو وہ اس کی دینی بہن ہو یا رشتہ میں بھی بہن کے مرتبہ کی ہو جیسے چچا یا پھوپھی یا خالہ کی بیٹی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَنَهَاهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو تمیمہ سے روایت ہے، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اور ابو تمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۹۹، ۱۸۸۴۶) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا، قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ"وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: "یہ تو میری بہن ہے"، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا"، اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۳۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۷)، والنکاح ۱۲(۵۰۱۲)، صحیح مسلم/الفضائل ۴۱ (۲۳۷۱)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأنبیاء (۳۱۶۵)، مسند احمد (۲/۴۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔ ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا ؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ’’ بڑے بت نے توڑا ‘‘، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ: عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ الْبَيَاضِيُّ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنَ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ"، قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لِأَمْرِ اللَّهِ، فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: "حَرِّرْ رَقَبَةً"، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، قَالَ: "فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلَّا مِنَ الصِّيَامِ، قَالَ: "فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ: "فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا"، فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي، أَوْ أَمَرَ لِي، بِصَدَقَتِكُمْ، زَادَ ابْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ.
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا تو میں خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری بات بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سلمہ! تم نے ایسا کیا؟" میں نے جواب دیا: ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سجھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک گردن آزاد کرو"، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو"، میں نے کہا: میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ"، میں نے جواب دیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا"، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۲۰ (۱۱۹۸)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۵ (۲۰۶۲)، (تحفة الأشراف: ۴۵۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷، ۵/۴۳۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۹ (۲۳۱۹) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو الإرواء : ۲۰۹۱) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۱۳)
وضاحت: ۱؎ : ظہار یہ ے کہ آدمی اپنی بیوی سے کہے «أنت علي كظهر أمي» یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے، زمانہ جاہلیت میں ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا، شریعت اسلامیہ میں ایسا کہنے والا گنہگار ہو گا اور اس پر کفارہ لازم ہو گا، جب تک کفارہ ادا نہ کر دے وہ بیوی کے قریب نہیں جا سکتا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَتْ: ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْكُو إِلَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَادِلُنِي فِيهِ، وَيَقُولُ: "اتَّقِي اللَّهَ، فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ"، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1 إِلَى الْفَرْضِ، فَقَالَ: "يُعْتِقُ رَقَبَةً"، قَالَتْ: لَا يَجِدُ، قَالَ: "فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ، قَالَ: "فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَتْ: مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ: "قَدْ أَحْسَنْتِ، اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ"، قَالَ: وَالْعَرَقُ سِتُّونَ صَاعًا. قَالَ أَبُو دَاوُد فِي هَذَا: إِنَّهَا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْتَأْمِرَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَخُو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "اللہ سے ڈر، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے"، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» "اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی" (سورۃ المجادلہ: ۱)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ ایک گردن آزاد کریں"، کہنے لگیں: ان کے پاس نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں"، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! وہ بوڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں"، کہنے لگیں: ان کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کہتی ہیں: اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آ گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول (آپ یہ دے دیجئیے) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد بھائی (یعنی شوہر) کے پاس لوٹ جاؤ"۔ راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۱۰) (حسن)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الْأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَالْعَرَقُ مِكْتَلٌ يَسَعُ ثَلَاثِينَ صَاعًا. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ آدَمَ.
اس سند سے بھی ابن اسحاق سے اسی طرح کی روایت منقول ہے لیکن اس میں ہے کہ «عرق» ایسی زنبیل ہے جس میں تیس صاع کے بقدر کھجور آتی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث یحییٰ بن آدم کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۵) (حسن)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: يَعْنِي بِالْعَرَقِ زِنْبِيلًا يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری کہتے ہیں کہ «عرق» سے مراد ایسی زنبیل ہے جس میں پندرہ صاع کھجوریں آ جائیں ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ، وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْ خَمْسَةِ عَشَرَ صَاعًا، قَالَ: "تَصَدَّقْ بِهَذَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَى أَفْقَرَ مِنِّي وَمِنْ أَهْلِي ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلْهُ أَنْتَ وَأَهْلُكَ".
سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں صدقہ کر دو"، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اور تمہارے گھر والے ہی انہیں کھا لو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۱۳)، (تحفة الأشراف: ۱۸۷۹۰) (حسن)
قَرَأْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ وَزِيرٍ الْمِصْرِيِّ، قُلْتُ لَهُ: حَدَّثَكُمْ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، عَنْ أَوْسٍأَخِي عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَعْطَاهُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَ عَطَاءٌ لَمْ يُدْرِكْ أَوْسًا، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَدِيمُ الْمَوْتِ. وَالْحَدِيثُ مُرْسَلٌ، وَإِنَّمَا رَوَوْهُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّ أَوْسًا.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بھائی اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پندرہ صاع جو دی تاکہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عطا نے اوس کو نہیں پایا ہے اور وہ بدری صحابی ہیں ان کا انتقال بہت پہلے ہو گیا تھا، لہٰذا یہ حدیث مرسل ہے، اور لوگوں نے اسے اوزاعی سے اوزاعی نے عطاء سے روایت کیا اس میں «عن أوس» کے بجائے «أوسا» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۳) (صحیح) (دیگر شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ منقطع ہے)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَنَّ جَمِيلَةَ كَانَتْ تَحْتَ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ وَكَانَ رَجُلًا بِهِ لَمَمٌ، فَكَانَ إِذَا اشْتَدَّ لَمَمُهُ ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ كَفَّارَةَ الظِّهَارِ".
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ جمیلہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، اور وہ عورتوں کے دیوانے تھے جب ان کی دیوانگی بڑھ جاتی تو وہ اپنی عورت سے ظہار کر لیتے، اللہ تعالیٰ نے انہیں کے متعلق ظہار کے کفارے کا حکم نازل فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، مِثْلَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی کے مثل مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۸۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ ثُمَّ وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنَّ يُكَفِّرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: "مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ"، قَالَ: رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ: "فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تُكَفِّرَ عَنْكَ".
عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی وہ اس سے صحبت کر بیٹھا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں اس فعل پر کس چیز نے آمادہ کیا؟" اس نے کہا: چاندنی رات میں میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر تم اس سے اس وقت تک الگ رہو جب تک کہ تم اپنی طرف سے کفارہ ادا نہ کر دو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱۹ (۱۱۹۹)، سنن النسائی/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح) (دیگر شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر روایت بھی صحیح ہے ورنہ خود یہ روایت مرسل ہے)
حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ رَجُلًا ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ فَرَأَى بَرِيقَ سَاقِهَا فِي الْقَمَرِ، فَوَقَعَ عَلَيْهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّرَ".
عکرمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کر لیا، پھر اس نے چاندنی میں اس کی پنڈلی کی چمک دیکھی، تو اس سے صحبت کر بیٹھا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اسے کفارہ ادا کرنے کا حکم فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح) (سابقہ روایت دیکھئے)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرِ السَّاقَ.
اس سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً اسی طرح روایت ہے لیکن اس میں پنڈلی کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، أَنَّ عَبْدَ الْعَزِيزِ بْنَ الْمُخْتَارِ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنِي مُحَدِّثٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِ حَدِيثِ سُفْيَانَ.
اس سند سے بھی عکرمہ سے سفیان کی حدیث (نمبر: ۲۲۲۱) کی طرح روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
قَالَ أَبُو دَاوُد: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عِيسَى يُحَدِّثُ بِهِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: عَنْ عِكْرِمَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: كَتَبَ إِلَيَّ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن عیسیٰ کو اسے بیان کرتے سنا ہے، وہ کہتے ہیں ہم سے معتمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: میں نے حکم بن ابان کو یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے وہ اسے عکرمہ سے روایت کر رہے تھے اس میں انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے حسین بن حریث نے لکھا وہ کہتے ہیں کہ مجھے فضل بن موسیٰ نے خبر دی ہے وہ معمر سے وہ حکم بن ابان سے وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم : ۲۲۲۱، (تحفة الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱۱(۱۱۸۷)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۱ (۲۰۵۵)، (تحفة الأشراف: ۲۱۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۷، ۲۸۳)، سنن الدارمی/الطلاق ۶ (۲۳۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، عَنْحَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ هَذِهِ ؟"فَقَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، قَالَ: "مَا شَأْنُكِ ؟"قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، وَذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ"، وَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ: "خُذْ مِنْهَا"، فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ هِيَ فِي أَهْلِهَا.
حبیبہ بنت سہل انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، ایک بار کیا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھنے کے لیے نکلے تو آپ نے حبیبہ بنت سہل کو اندھیرے میں اپنے دروازے پر پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کون ہے؟" بولیں: میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا بات ہے؟" وہ اپنے شوہر ثابت بن قیس کے متعلق بولیں کہ میرا ان کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا، پھر جب ثابت بن قیس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "یہ حبیبہ بنت سہل ہیں انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں جنہیں اللہ نے چاہا ذکر کی ہیں"، حبیبہ کہنے لگیں: اللہ کے رسول! انہوں نے جو کچھ مجھے (مہر وغیرہ) دیا تھا وہ سب میرے پاس ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے کہا: "اس (مال) میں سے لے لو"، تو انہوں نے اس میں سے لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھی رہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۳۴ (۳۴۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۹۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۱۱(۳۱)، مسند احمد (۶/۴۳۴)، سنن الدارمی/الطلاق ۷ (۲۳۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہی اسلام میں پہلا خلع تھا ، خلع سے نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، خلع کی عدت ایک حیض ہے، بعض علماء کے نزدیک خلع سے ایک طلاق پڑ جاتی ہے، اس لئے ان لوگوں کے نزدیک اس کی عدت طلاق کی عدت کی طرح ہے ، یعنی تین حیض ہے ، پہلا قول راجح ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو السَّدُوسِيُّ الْمَدِينِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ كَانَتْ عِنْدَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، فَضَرَبَهَا فَكَسَرَ بَعْضَهَا، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الصُّبْحِ فَاشْتَكَتْهُ إِلَيْهِ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَابِتًا، فَقَالَ: "خُذْ بَعْضَ مَالِهَا وَفَارِقْهَا"، فَقَالَ: وَيَصْلُحُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنِّي أَصْدَقْتُهَا حَدِيقَتَيْنِ، وَهُمَا بِيَدِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خُذْهُمَا فَفَارِقْهَا"، فَفَعَلَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان کو ان کے شوہر نے اتنا مارا کہ کوئی عضو ٹوٹ گیا، وہ فجر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے ان کی شکایت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو بلوایا، اور کہا کہ تم اس سے کچھ مال لے کر اس سے الگ ہو جاؤ، ثابت نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ایسا کرنا درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں"، وہ بولے، میں نے اسے دو باغ مہر میں دیئے ہیں یہ ابھی بھی اس کے پاس موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں لے لو اور اس سے جدا ہو جاؤ"، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْهُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَّتَهَا حَيْضَةً". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُرْسَلًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ان سے خلع کر لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک حیض مقرر فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عبدالرزاق نے معمر سے معمر نے عمرو بن مسلم سے عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۱۰ (۱۱۸۵)، (تحفة الأشراف: ۶۱۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "عِدَّةُ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ خلع کرانے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۳۹۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مُغِيثًا كَانَ عَبْدًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْفَعْ لِي إِلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا بَرِيرَةُ، اتَّقِي اللَّهَ، فَإِنَّهُ زَوْجُكِ وَأَبُو وَلَدِكِ"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَأْمُرُنِي بِذَلِكَ ؟ قَالَ: "لَا، إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ"، فَكَانَ دُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى خَدِّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ: "أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَبُغْضِهَا إِيَّاهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس سے میری سفارش کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بریرہ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے" کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں" مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: "کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفرت سے تعجب نہیں ہو رہا ہے؟"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۲)، ۱۶ (۵۲۸۳)، سنن النسائی/ آداب القضاء ۲۷ (۵۴۱۹) سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۵)، (تحفة الأشراف: ۶۰۴۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، مسند احمد (۱/۲۱۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُسَمَّى مُغِيثًا، فَخَيَّرَهَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک کالے کلوٹے غلام تھے جن کا نام مغیث رضی اللہ عنہ تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مغیث کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا اور (نہ رہنے کی صورت میں) انہیں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۵ (۵۲۸۰)، (تحفة الأشراف: ۶۱۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۸۱، ۳۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ، قَالَتْ: "كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بریرہ کے قصہ میں روایت ہے کہ اس کا شوہر غلام تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو(آزاد ہونے کے بعد) اختیار دے دیا تو انہوں نے اپنے آپ کو اختیار کیا، اگر وہ آزاد ہوتا تو آپ اسے (بریرہ کو) اختیار نہ دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/العتق ۲ (۱۵۰۴)، سنن الترمذی/الرضاع ۷ (۱۱۵۴)، والبیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، والوصایا ا۷ (۲۱۲۴)، والولاء ۱ (۲۱۲۵)، سنن النسائی/الزکاة ۹۹ (۲۶۱۵)، والطلاق ۲۹ (۳۴۷۷)، ۳۰ (۳۴۸۰)، ۳۱ (۳۴۸۳، ۳۴۸۴)، والبیوع ۷۸ (۴۶۴۶، ۷۴۶۴)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۴)، والأحکام ۳ (۲۳۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۷۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، والھبة ۷ (۲۵۸۷)، والنکاح ۱۸ (۵۰۹۷)، والطلاق ۱۴ (۵۲۷۹)، ۱۷ (۵۲۸۴)، والأطعمة ۳۱ (۵۰۳۰)، والأیمان ۸ (۶۷۱۷)، والفرائض ۲۲ (۶۷۵۱)، ۲۳ (۶۷۵۴)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۰(۲۵)، مسند احمد (۶/۴۶، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۷۲، ۱۷۵، ۱۷۸، ۱۹۱،۲۰۷)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۷) (صحیح) (لیکن ’’ اگروہ آزاد ہوتا تو… ‘‘ کا جملہ عروة کا اپنا قول ہے)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَالْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّ بَرِيرَةَ خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو اختیار دیا اس کا شوہر غلام تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ العتق ۲ (۱۵۰۴)، الزکاة ۵۲ (۱۰۷۵)، سنن النسائی/الکبری/ الفرائض (۶۴۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۹۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ حُرًّا حِينَ أُعْتِقَتْ، وَأَنَّهَا خُيِّرَتْ"، فَقَالَتْ: مَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ مَعَهُ وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد ہوئی اس وقت اس کا شوہر آزاد ۱؎ تھا، اسے اختیار دیا گیا، تو اس نے کہا کہ اگر مجھے اتنا اتنا مال بھی مل جائے تب بھی میں اس کے ساتھ رہنا پسند نہ کروں گی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : صحیح یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے جیسا کہ متعدد صحیح روایتیں اوپر گزریں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، وَعَنْأَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ بَرِيرَةَ أُعْتِقَتْ وَهِيَ عِنْدَ مُغِيثٍ عَبْدٍ لِآلِ أَبِي أَحْمَدَ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهَا: "إِنْ قَرِبَكِ فَلَا خِيَارَ لَكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا آزاد کی گئی اس وقت وہ آل ابواحمد کے غلام مغیث رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا اور اس سے کہا: "اگر اس نے تجھ سے صحبت کر لی تو پھر تجھے اختیار حاصل نہیں رہے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود ، (تحفة الأشراف: ۱۷۱۸۴، ۱۹۲۶۰) (حسن)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَعْتِقَ مَمْلُوكَيْنِ لَهَا زَوْجٌ، قَالَ: فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَبْدَأَ بِالرَّجُلِ قَبْلَ الْمَرْأَةِ". قَالَ نَصْرٌ: أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے لونڈی غلام کے ایک جوڑے کو آزاد کرنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ عورت سے پہلے مرد کو آزاد کریں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۲۸ (۳۴۷۶)، سنن ابن ماجہ/العتق ۱۰ (۲۵۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۳۴) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عبید اللہ بن عبد الرحمن ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً بَعْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص مسلمان ہو کر آیا پھر اس کے بعد اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی ہے تو آپ اسے میرے پاس لوٹا دیجئیے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۴۲ (۱۱۴۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶۰ (۲۰۰۸)، (تحفة الأشراف: ۶۱۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۲، ۳۲۳) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، اور یہاں بھی دونوں روایتوں میں اضطراب ظاہر ہے)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَزَوَّجَتْ، فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ وَعَلِمَتْ بِإِسْلَامِي، فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا الْآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت مسلمان ہو گئی اور اس نے نکاح بھی کر لیا، اس کے بعد اس کا شوہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں اسلام لے آیا تھا اور اسے میرے اسلام لانے کا علم تھا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شوہر سے اسے چھین کر اس کے پہلے شوہر کو لوٹا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۱۰۷) (ضعیف) (سابقہ حدیث دیکھئے )
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ لَمْ يُحْدِثْ شَيْئًا". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو فِي حَدِيثِهِ: "بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ"، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: "بَعْدَ سَنَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا: دو سال کے بعد۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۴۲ (۱۱۴۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۶۰ (۲۰۰۹)، (تحفة الأشراف: ۶۰۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۷، ۲۶۱، ۳۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ. ح وحَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ، ابْنِ عُمَيْرَةَ: وَقَالَ وَهْبٌ، الْأَسَدِيِّ: قَالَ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانُ نِسْوَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا". قَالَ أَبُو دَاوُد: وحَدَّثَنَا بِهِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: قَيْسُ بْنُ الْحَارِثِ مَكَانَ الْحَارِثِ بْنِ قَيْسٍ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: هَذَا هُوَ الصَّوَابُ يَعْنِي قَيْسَ بْنَ الْحَارِثِ.
حارث بن قیس اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کیا، میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں تو میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان میں سے چار کا انتخاب کر لو (اور باقی کو طلاق دے دو)"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۰ (۱۹۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَاضِي الْكُوفَةِ، عَنْ عِيسَى بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُمَيْضَةَ بْنِ الشَّمَرْدَلِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ، بِمَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی قیس بن حارث رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ: "طَلِّقْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ".
فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان دونوں میں سے جس کو چاہو طلاق دے دو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/النکاح ۳۳ (۱۱۲۹)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۹ (۱۹۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۳۲) (حسن)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي رَافِعِ بْنِ سِنَانٍ، أَنَّهُ أَسْلَمَ وَأَبَتِ امْرَأَتُهُ أَنْ تُسْلِمَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ابْنَتِي وَهِيَ فَطِيمٌ أَوْ شَبَهُهُ، وَقَالَ رَافِعٌ: ابْنَتِي، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْعُدْ نَاحِيَةً"، وَقَالَ لَهَا: "اقْعُدِي نَاحِيَةً"، قَالَ: "وَأَقْعَدَ الصَّبِيَّةَ بَيْنَهُمَا"، ثُمَّ قَالَ: "ادْعُوَاهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أُمِّهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ اهْدِهَا"، فَمَالَتِ الصَّبِيَّةُ إِلَى أَبِيهَا فَأَخَذَهَا.
رافع بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور آپ کے پاس آ کر کہنے لگی: بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گی) اس کا دودھ چھوٹ چکا تھا، یا چھوٹنے والا تھا، اور رافع نے کہا کہ بیٹی میری ہے (اسے میں اپنے پاس رکھوں گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کو ایک طرف اور عورت کو دوسری طرف بیٹھنے کے لیے فرمایا، اور بچی کو درمیان میں بٹھا دیا، پھر دونوں کو اپنی اپنی جانب بلانے کے لیے کہا بچی ماں کی طرف مائل ہوئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اسے ہدایت دے"، چنانچہ بچی اپنے باپ کی طرف مائل ہو گئی تو انہوں نے اسے لے لیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۵۲ (۳۴۹۵)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۲)، (تحفة الأشراف: ۳۵۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۴۶، ۴۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ باشعور بچے کو اختیار دیا جائیگا کہ ماں باپ میں سے جس کو چاہے اختیار کر لے ، اور دودھ پیتا بچہ ماں کے تابع ہو گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ قُرْآنٌ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا"، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا عُوَيْمِرٌ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں گزری، جب عاصم رضی اللہ عنہ گھر لوٹے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا؟ تو عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے سوال کیا اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا، وہ سیدھے آپ کے پاس پہنچ گئے اس وقت آپ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ (اجنبی) آدمی کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر آپ لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے، یا وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آؤ"، سہل کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان ۱؎ کیا، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، جب وہ (لعان سے) فارغ ہو گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (گویا) میں نے جھوٹ کہا ہے چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: تو یہی (ان دونوں) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۴۴ (۴۲۳)، تفسیر سورة النور ۱ (۴۷۴۵)، ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۴ (۵۲۵۹)، ۲۹ (۵۳۰۸)، ۳۰ (۵۳۰۹)، الحدود ۴۳ (۶۸۵۴)، الأحکام ۱۸ (۷۱۶۶)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۴)، صحیح مسلم/اللعان ۱(۱۴۹۲)، سنن النسائی/الطلاق ۳۵ (۳۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۱۳(۳۴)، مسند احمد (۵/۳۳۰، ۳۳۴، ۳۳۶، ۳۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : لعان کا مطلب کسی عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے یا یہ بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اللہ کی اس پر لعنت ہو، اب خاوند کے جواب میں بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے اور میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے خاوند حد قذف سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ: "أَمْسِكِ الْمَرْأَةَ عِنْدَكَ حَتَّى تَلِدَ".
سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "بچے کی ولادت تک عورت کو اپنے پاس روکے رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۷۹۶)، وقد أخرجہ: (حم ۵/۳۳۵) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: حَضَرْتُ لِعَانَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ خَرَجَتْ حَامِلًا، فَكَانَ الْوَلَدُ يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ "پھر وہ عورت حاملہ نکلی چنانچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود ، وانظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فِي خَبَرِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا كَاذِبًا"، قَالَ: فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ.
لعان والی حدیث میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس عورت پر نظر رکھو اگر بچہ سیاہ آنکھوں والا، بڑی سرینوں والا ہو تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس (شوہر) نے سچ کہا ہے، اور اگر سرخ رنگ گیرو کی طرح ہو تو میں سمجھتا ہوں کی وہ جھوٹا ہے"، چنانچہ اس کا بچہ ناپسندیدہ صفت پر پیدا ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَكَانَ يُدْعَى يَعْنِي الْوَلَدَ لِأُمِّهِ.
اس سند سے بھی سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: تو اسے یعنی لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيِّ، وَغَيْرِهِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ، قَالَ سَهْلٌ: حَضَرْتُ هَذَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَتِ السُّنَّةُ بَعْدُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ لَا يَجْتَمِعَانِ أَبَدًا.
اس سند سے بھی سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: انہوں (عاصم بن عدی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ فرما دیا، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں موجود تھا، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہو گیا کہ انہیں جدا کر دیا جائے، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: "شَهِدْتُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تَلَاعَنَا"، وَتَمَّ حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يُتَابِعْ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَحَدٌ عَلَى أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: "وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَكَانَتْ حَامِلًا، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ، أَنْ يَرِثَهَا وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهَا.
اس سند سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ: "وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا، چنانچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا تھا، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۸۰۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّا لَلَيْلَةُ جُمْعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ ؟ فَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ ؟ أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ ؟ فَقَالَ: "اللَّهُمَّ افْتَحْ"، وَجَعَلَ يَدْعُو فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 هَذِهِ الْآيَةَ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاعَنَا، فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، قَالَ: فَذَهَبَتْ لِتَلْتَعِنَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَهْ"، فَأَبَتْ، فَفَعَلَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ: "لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا"، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (ایک دفعہ) جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصار کا ایک شخص مسجد میں آیا، اور کہنے لگا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور (حقیقت حال) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگاؤ گے، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھنے، اللہ کی قسم، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور دریافت کروں گا، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور حقیقت حال بیان کرے تو (تہمت کی حد کے طور پر) آپ اسے کوڑے لگائیں گے، یا وہ قتل کر دے تو اسے قتل کر دیں گے، یا وہ خاموشی اختیار کر کے اندر ہی غصہ سے جلے بھنے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرنے لگے: "اے اللہ! معاملے کی وضاحت فرما دے"، چنانچہ لعان کی آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» "اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں"(سورۃ النور: ۶) آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا، اس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھہرو"، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا، تو جب وہ دونوں جانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے" چنانچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱۰ (۱۴۹۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۸)، (تحفة الأشراف: ۹۴۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۲۱، ۴۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَيِّنَةُ، أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الْبَيِّنَةُ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا، إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبْرِئُ بِهِ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَتْ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ لَمِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ ؟"ثُمَّ قَامَتْ، فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، وَقَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ"، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، حَدِيثُ ابْنِ بَشَّارٍ، حَدِيثُ هِلَالٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (زنا کی) تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ثبوت لاؤ ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے"، تو ہلال نے کہا کہ: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈنے جائے؟ اس پر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمائے جا رہے تھے کہ: "گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے"، تو ہلال نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا، چنانچہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» کی آیت نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے «من الصادقين» ۱؎ تک پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے؟" پھر عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ "اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو" تو لوگ اس سے کہنے لگے: یہ عذاب کو واجب کر دینے والا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آ جائے گی، لیکن پھر کہنے لگی: ہمیشہ کے لیے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگاؤں گی (یہ کہہ کر) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سرمگیں آنکھوں، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے"، چنانچہ انہیں صفات کا بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آ گیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا"، یعنی میں اس پر حد جاری کرتا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/تفسیر سورة النور (۳۱۷۹)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۷)، مسند احمد (۱/۲۷۳)، (تحفة الأشراف: ۶۲۲۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة النور ۲ (۴۷۴۶)، الطلاق ۲۹ (۵۳۰۸) (صحیح)
وضاحت: وضاحت ۱؎ : سورة النور: (۹-۶)
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشُّعَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلَاعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فِيهِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ، يَقُولُ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۴۰ (۳۵۰۳) (تحفة الأشراف: ۶۳۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عَشِيًّا، فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلًا فَرَأَى بِعَيْنِهِ وَسَمِعَ بِأُذُنِهِ، فَلَمْ يَهِجْهُ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَهُمْ رَجُلًا، فَرَأَيْتُ بِعَيْنَيَّ وَسَمِعْتُ بِأُذُنَيَّ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِهِ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَنَزَلَتْ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ سورة النور آية 6، الْآيَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَبْشِرْ يَا هِلَالُ، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا"، قَالَ هِلَالٌ: قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَلِكَ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَرْسِلُوا إِلَيْهَا"، فَجَاءَتْ، فَتَلَاهَا عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الْآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا، فَقَالَ هِلَالٌ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ كَذَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَاعِنُوا بَيْنَهُمَا"، فَقِيلَ لِهِلَالٍ: اشْهَدْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ، قِيلَ لَهُ: يَا هِلَالُ اتَّقِ اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا كَمَا لَمْ يُجَلِّدْنِي عَلَيْهَا، فَشَهِدَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ قِيلَ لَهَا: اشْهَدِي، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ، قِيلَ لَهَا: اتَّقِي اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ، فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي، فَشَهِدَتِ الْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَقَضَى أَنْ لَا يُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ وَلَا تُرْمَى وَلَا يُرْمَى وَلَدُهَا، وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، وَقَضَى أَنْ لَا بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ، وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلَاقٍ وَلَا مُتَوَفَّى عَنْهَا، وَقَالَ: "إِنْ جَاءَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ أُرَيْصِحَ أُثُيْبِجَ حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِهِلَالٍ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ"، فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جَمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا الْأَيْمَانُ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ". قَالَ عِكْرِمَةُ: فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مُضَرَ، وَمَا يُدْعَى لِأَبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (جو کہ ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے(ایک غزوہ میں پچھڑ جانے کی وجہ سے سرزنش کے بعد) توبہ قبول فرمائی تھی، وہ) اپنی زمین سے رات کو آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو پایا، اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھا، اور کانوں سے پوری گفتگو سنی، لیکن صبح تک اس معاملہ کو دبا کر رکھا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! رات کو میں گھر آیا تو اپنی بیوی کے پاس ایک مرد کو پایا، اپنی آنکھوں سے (سب کچھ) دیکھا، اور کانوں سے (سب) سنا، ان کی ان باتوں کو آپ نے ناپسند کیا اور ان پر ناگواری کا اظہار فرمایا، تو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم فشهادة أحدهم» "اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو"(سورۃ النور: ۷، ۶) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا: "ہلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کا راستہ نکال دیا ہے"، ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اپنے پروردگار سے اسی کی امید تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے بلواؤ"، تو وہ آئی تو آپ نے دونوں پر یہ آیتیں تلاوت فرمائیں، اور نصیحت کی نیز بتایا کہ: "آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے"۔ ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے اس کے متعلق جو کہا ہے سچ کہا ہے، وہ کہنے لگی: یہ جھوٹے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کے درمیان لعان کراؤ"، چنانچہ ہلال رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ گواہی دیں تو انہوں نے چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ وہ سچے ہیں، پانچویں کے وقت کہا گیا: ہلال! اللہ سے ڈرو کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس بار کی گواہی تمہارے لیے عذاب کو واجب کر دے گی، وہ بولے: اللہ کی قسم! جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے کوڑوں سے بچایا ہے اسی طرح عذاب سے بھی بچائے گا، چنانچہ پانچویں گواہی بھی دے دی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر عورت سے گواہی دینے کے لیے کہا گیا، تو اس نے بھی چار بار گواہی دی کہ وہ جھوٹے ہیں، پانچویں بار اس سے بھی کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس دفعہ کی گواہی عذاب کو واجب کر دے گی، یہ سن کر وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر بولی: اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی، چنانچہ پانچویں بار بھی گواہی دے دی کہ اگر وہ سچے ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان تفریق کرا دی، اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا لڑکا باپ کی طرف نہ منسوب کیا جائے، اور لڑکے اور عورت کو تہمت نہ لگائی جائے جو اس پر یا اس کے لڑکے پر اب تہمت لگائے گا تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اسے نان نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی، کیونکہ ان کی جدائی نہ تو طلاق کی بنا پر ہوئی ہے اور نہ شوہر کے انتقال کی وجہ سے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ بھورے بالوں والا، پتلی سرین والا، چوڑی پیٹھ والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ ہلال کا (نطفہ) ہے، اور اگر مٹیالے رنگ والا، گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا، اور بھاری سرین والا جنے تو اس کا جس کے نام کی تہمت لگائی گئی ہے"، چنانچہ اس عورت کا بچہ مٹیالے رنگ کا گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا اور بھاری سرین والا پیدا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر قسمیں نہ ہوتیں تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا"۔ عکرمہ کہتے ہیں: یہی بچہ آگے چل کر مضر کا امیر بنا، اسے باپ کی جانب منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: وانظر حدیث رقم (۲۲۵۴)، (تحفة الأشراف: ۶۱۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۸، ۲۴۵) (ضعیف)(اس کے راوی عباد بن منصور کی اکثر ائمہ نے تضعیف کی ہے اس لئے ان کی اس روایت کے جن بیانات کی متابعت سابقہ حدیث سے ہو جاتی ہے انہیں کو لیا جائیگا اور باقی منفرد بیانات سے قطع نظر کیا جائے گا)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: "حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي ؟ قَالَ: "لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَلِكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: "تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں"، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۲ (۵۳۱۲)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۳)، سنن النسائی/الطلاق ۴۴ (۳۵۰۶)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۲)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۶)، مسند احمد (۲/۱۲)، (۴۵۸۷)، سنن الدارمی/النکاح ۳۹ (۲۲۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: "اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟"يُرَدِّدُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَبَيَا فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو کہا کہ ایک شخص اپنی عورت کو تہمت لگائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے دونوں بھائی بہنوں ۱؎ کو (اس صورت میں) جدا کرا دیا تھا اور فرمایا تھا: "اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں ایک ضرور جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں کوئی توبہ کرنے والا ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو آپ نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۲ (۵۳۲۱)، ۵۲ (۵۳۴۹)، صحیح مسلم/اللعان ۱(۱۴۹۳)، سنن النسائی/الطلاق ۴۳ (۳۵۰۵)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۵۷، ۲/۴، ۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مراد عویمر اور ان کی بیوی ہیں، اور دونوں کو «تغلیبا اخوین» کہا گیا ہے، اور ان دونوں پر «اخوة» کا اطلاق «إنما المؤمنون اخوة» کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مَالِكٌ، قَوْلُهُ: "وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ". وقَالَ يُونُسُ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي حَدِيثِ اللِّعَانِ، "وَأَنْكَرَ حَمْلَهَا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی، اور بچے کو عورت سے ملا دیا۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جس کی روایت میں مالک منفرد ہیں وہ «وألحق الولد بالمرأة» کا جملہ ہے، اور یونس نے زہری سے انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: اس نے اس کے حمل کا انکار کیا تو اس (عورت) کا بیٹا اسی(عورت) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۳۵ (۵۳۵۱)، الفرائض ۱۷ (۶۷۴۸)، صحیح مسلم/اللعان ۱(۱۴۹۴)، سنن الترمذی/الطلاق ۲۲ (۱۲۰۳)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۲ ۲۰۶۹)، (تحفة الأشراف: ۷۰۵۰)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۱۳ (۳۵)، مسند احمد (۲/۷، ۳۸، ۶۴، ۷۱)، دی/ النکاح ۳۹ (۲۲۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے نسب اور وراثت میں ماں سے ملا دیا لہٰذا وہ ماں ہی کی طرف منسوب کیا جائے گا اور ماں اور بیٹا دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے برخلاف باپ کے نہ تو اس کی طرف وہ منسوب ہو گا اور نہ وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي جَاءَتْ بِوَلَدٍ أَسْوَدَ، فَقَالَ: "هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "مَا أَلْوَانُهَا ؟"قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: "فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟"قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: "فَأَنَّى تُرَاهُ ؟"قَالَ: عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: "وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی فزارہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا بچہ جنا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟" اس نے جواب دیا: ہاں، پوچھا: "کون سے رنگ کے ہیں؟" جواب دیا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا کوئی خاکستری بھی ہے؟" جواب دیا: ہاں، خاکی رنگ کا بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "پھر یہ کہاں سے آ گیا؟"، بولا: شاید کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہاں بھی ہو سکتا ہے (تمہارے لڑکے میں بھی) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، سنن الترمذی/الولاء ۴ (۲۱۲۹)، سنن النسائی/الطلاق ۴۶ (۳۵۸۰)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۸ (۲۲۰۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق ۲۶ (۵۳۰۵)، الحدود ۴۱ (۶۸۴۷)، الاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، مسند احمد (۲/۲۳۴، ۲۳۹، ۴۰۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس وقت کسی رگ میں سے جس میں کالا پن زیادہ تھا نطفہ میں سواد (کالا رنگ) زیادہ مل گیا ہو، اور اس کی وجہ سے لڑکا کالا اور سیاہ رنگ ہو تو اس قسم کے اختلاف سے اس کے نسب سے متعلق دل میں شبہ کرنا صحیح نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَهُوَ حِينَئِذٍ يُعَرِّضُ بِأَنْ يَنْفِيَهُ.
اس سند سے بھی زہری سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے لیکن اس میں یہ ہے کہ یہ کہہ کر اس کا مقصد اپنے سے بچہ کی نفی کرنی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، سنن النسائی/الطلاق ۴۶ (۳۵۰۹)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۳، ۲۷۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ،أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أُنْكِرُهُ. فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری عورت نے ایک کالا لڑکا جنا ہے اور میں اس کا انکار کرتا ہوں، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۱۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللَّهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، احْتَجَبَ اللَّهُ مِنْهُ وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت لعان نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس عورت نے کسی قوم میں ایسے فرد کو شامل کر دیا جو حقیقت میں اس قوم کا فرد نہیں ہے، تو وہ اللہ کی رحمت سے دور رہے گی، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں ہرگز داخل نہ کرے گا، اسی طرح جس شخص نے اپنے بچے کا انکار کیا حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس کا بچہ ہے، اسے اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب نہ ہو گا، اور وہ اگلی پچھلی ساری مخلوق کے سامنے اسے رسوا کرے گا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۴۷ (۳۵۱۱)، سنن ابن ماجہ/الفرائض ۱۳ (۲۷۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۷۲)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/ النکاح ۴۲ (۲۲۸۴) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن یونس مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : حاصل یہ ہے کہ نہ عورت کو چاہئے کہ حرام کا بچہ کسی غیر سے جن کر اس کو اپنے خاوند کی طرف منسوب کرے اور نہ مرد کو چاہئے کہ دیدہ و دانستہ اپنے بچے کا انکار کرے اور عورت پر زنا کی تہمت لگائے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ سَلْمٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزَّيَّادِ، حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا مُسَاعَاةَ فِي الْإِسْلَامِ، مَنْ سَاعَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَدْ لَحِقَ بِعَصَبَتِهِ، وَمَنِ ادَّعَى وَلَدًا مِنْ غَيْرِ رِشْدَةٍ فَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام میں اجرت پر بدکاری اور زنا نہیں ہے، جس نے زمانہ جاہلیت میں بدکاری اور زنا سے کمائی کی، تو زنا سے پیدا ہونے والا بچہ اپنے عصبہ (مالک) سے مل جائے گا اور جس نے بغیر نکاح یا ملک کے کسی بچے کا دعویٰ کیا تو نہ تو (بچہ) اس کا وارث ہو گا اور نہ وہ بچے کا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۶۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۶۲) (ضعیف) (اس کے سند میں ایک مبہم راوی ہے)
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ. ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ وَهُوَ أَشْبَعُ،عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ كُلَّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ، فَقَضَى أَنَّ كُلَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ مِمَّا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ، وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ، وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَمْ يَمْلِكْهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ بِهِ وَلَا يَرِثُ، وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنْيَةٍ مِنْ حُرَّةٍ كَانَ أَوْ أَمَةٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جس لڑکے کو اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس باپ سے ملایا جائے جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اور باپ کے وارث اسے اپنے سے ملانے کا دعویٰ کریں تو اگر اس کی پیدائش ایسی لونڈی سے ہوئی ہے جو صحبت کے دن اس کے ملکیت میں رہی ہو تو ملانے والے سے اس کا نسب مل جائے گا اور جو ترکہ اس کے ملائے جانے سے پہلے تقسیم ہو گیا ہے اس میں اس کو حصہ نہ ملے گا، البتہ جو ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے اس میں اسے حصہ دیا جائے گا، لیکن جس باپ سے اس کا نسب ملایا جاتا ہے اس نے (اپنی زندگی میں اس کے بیٹا ہونے سے) انکار کیا ہو تو وارثوں کے ملانے سے وہ نہیں ملے گا، اگر وہ لڑکا ایسی لونڈی سے ہو جس کا مالک اس کا باپ نہ تھا یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس کے باپ نے زنا کیا تو اس کا نسب نہ ملے گا اور نہ اس کا وارث ہو گا گرچہ جس کے نام سے اسے پکارا جاتا ہے اسی نے (اپنی زندگی میں) اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہو کیونکہ وہ زنا کی اولاد ہے آزاد عورت سے ہو یا لونڈی سے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفرائض ۱۴ (۲۷۴۶)، (تحفة الأشراف: ۸۷۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/ ۱۸۱، ۲۱۹)، سنن الدارمی/الفرائض ۴۵ (۳۱۵۴) (حسن)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رَاشِدٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ: "وَهُوَ وَلَدُ زِنَا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً، وَذَلِكَ فِيمَا اسْتُلْحِقَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، فَمَا اقْتُسِمَ مِنْ مَالٍ قَبْلَ الْإِسْلَامِ فَقَدْ مَضَى".
اس سند سے بھی محمد بن راشد سے اسی مفہوم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ ولد الزنا ہے اور اپنی ماں کے خاندان سے ملے گا چاہے وہ آزاد ہوں یا غلام، یہ شروع اسلام میں پیش آمدہ معاملہ کا حکم ہے، رہا جو مال قبل از اسلام تقسیم ہو چکا اس سے کچھ سروکار نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۷۱۲) (حسن)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُسَدَّدٌ وَ ابْنُ السَّرْحِ: يَوْمًا مَسْرُورًا، وَقَالَ عُثْمَانُ: يُعْرَفُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ: "أَيْ عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا الْمُدْلِجِيَّ رَأَى زَيْدًا وَ أُسَامَةَ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا بِقَطِيفَةٍ وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا ؟"فَقَالَ: "إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (مسدد اور ابن سرح کی روایت میں ہے) ایک دن خوش و خرم تشریف لائے (اور عثمان کی روایت میں ہے آپ کے چہرے پر خوشی کی لکیریں ۱؎ محسوس کی جا رہی تھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ! کیا تو نے دیکھا نہیں کہ مجزز مدلجی نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو اس حال میں دیکھا کہ وہ دونوں اپنے سر چادر سے ڈھانکے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسامہ کالے تھے اور زید گورے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۵)، وفضائل الصحابة ۱۷ (۳۷۳۱)، والفرائض ۳۱ (۶۷۷۰)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۱ (۱۴۵۹)، سنن الترمذی/الولاء ۵ (۲۱۲۹)، سنن النسائی/الطلاق ۵۱ (۳۵۲۳، ۳۵۲۴)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۱ (۲۳۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸۲، ۲۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : خوشی کی وجہ یہ تھی کہ لوگ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں ایسی باتیں کہتے تھے جنہیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف ہوتی تھی، زید گورے چٹے آدمی تھے اور اسامہ کا رنگ کالا تھا اس لئے لوگ شک کرتے تھے کہ اسامہ زید کے بیٹے ہیں یا کسی اور کے جب اس قیافہ شناس مجزز مدلجی نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ ان دونوں کے پیر ملتے جلتے ہیں تو آپ کو اس سے بے حد خوشی ہوئی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: قَالَتْ: "دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَسَارِيرُ وَجْهِهِ، لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَسَارِيرُ وَجْهِهِ هُوَ تَدْلِيسٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ، إِنَّمَا سَمِعَ الْأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِ الْزُهْرِيِّ. قَالَ: وَالْأَسَارِيرُ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ، وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ.
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ۱؎ اور زید رضی اللہ عنہ روئی کی طرح سفید۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْخَلِيلِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ: إِنَّ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَوْا عَلِيًّا يَخْتَصِمُونَ إِلَيْهِ فِي وَلَدٍ وَقَدْ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ لِاثْنَيْنِ مِنْهُمَا: طِيبَا بِالْوَلَدِ، لِهَذَا فَغَلَيَا، ثُمَّ قَالَ لِاثْنَيْنِ: طِيبَا بِالْوَلَدِ، لِهَذَا فَغَلَبَا، ثُمَّ قَالَ لِاثْنَيْنِ: طِيبَا بِالْوَلَدِ، لِهَذَا فَغَلَبَا، فَقَالَ: "أَنْتُمْ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ، إِنِّي مُقْرِعٌ بَيْنَكُمْ، فَمَنْ قُرِعَ فَلَهُ الْوَلَدُ وَعَلَيْهِ لِصَاحِبَيْهِ ثُلُثَا الدِّيَةِ"، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَجَعَلَهُ لِمَنْ قُرِعَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَضْرَاسُهُ أَوْ نَوَاجِذُهُ.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں یمن کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اہل یمن میں سے تین آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لڑکے کے لیے جھگڑتے ہوئے آئے، ان تینوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر (پاکی) میں جماع کیا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے دو، یہ سن کر وہ دونوں بھڑک گئے، پھر دو سے یہی بات کہی، وہ بھی بھڑک اٹھے، پھر دو سے اسی طرح گفتگو کی لیکن وہ بھی بھڑک اٹھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: "تم تو باہم ضد کرنے والے ساجھی دار ہو لہٰذا میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرتا ہوں، جس کے نام کا قرعہ نکلے گا، لڑکا اسی کو ملے گا اور وہ اپنے ساتھیوں کو ایک ایک تہائی دیت ادا کرے گا"، آپ نے قرعہ ڈالا اور جس کا نام نکلا اس کو لڑکا دے دیا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں یا کچلیاں نظر آنے لگیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۵۰ (۳۵۱۹)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۳۶۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ صَالِحٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثَةٍ وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَقَعُوا عَلَى امْرَأَةٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ ؟ قَالَا: لَا، حَتَّى سَأَلَهُمْ جَمِيعًا، فَجَعَلَ كُلَّمَا سَأَلَ اثْنَيْنِ، قَالَا: لَا، فَأَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالَّذِي صَارَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيِ الدِّيَةِ، قَالَ: فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تین آدمی (ایک لڑکے کے لیے جھگڑا لے کر) آئے جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی تھی، تو آپ نے ان میں سے دو سے پوچھا: کیا تم دونوں یہ لڑکا اسے (تیسرے کو) دے سکتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس طرح آپ نے سب سے دریافت کیا، اور سب نے نفی میں جواب دیا، چنانچہ ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور جس کا نام نکلا اسی کو لڑکا دے دیا، نیز اس کے ذمہ (دونوں ساتھیوں کے لیے) دو تہائی دیت مقرر فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ آیا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۵۰ (۳۵۱۸)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۰ (۲۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۳۶۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ سَمِعَ الشَّعْبِيَّ، عَنْ الْخَلِيلِ، أَوْ ابْنِ الْخَلِيلِ، قَالَ: "أُتِيَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي امْرَأَةٍ وَلَدَتْ مِنْ ثَلَاثَةٍ، نَحْوَهُ، لَمْ يَذْكُرِ الْيَمَنَ، وَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا قَوْلَهُ طِيبَا بِالْوَلَدِ".
خلیل یا ابن خلیل کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جس نے تین آدمیوں سے صحبت کے بعد ایک لڑکا جنا تھا، آگے اسی طرح کی روایت ہے اس میں نہ تو انہوں نے یمن کا ذکر کیا ہے، نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور نہ (علی رضی اللہ عنہ کے) اس قول کا کہ خوشی سے تم دونوں لڑکے کو اسے (تیسرے کو) دے دو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۶۹)، (تحفة الأشراف: ۳۶۶۹) (ضعیف) (اس کے راوی الخلیل لین الحدیث ہیں ، ان کے نام میں بھی اختلاف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے، کما تقدم)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، "أَنَّ النِّكَاحَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ، فَكَانَ مِنْهَا: نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلَانٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلَا يَمَسُّهَا أَبَدًا حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِنْ أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ يُسَمَّى نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ وَمَرَّ لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا، فَتَقُولُ لَهُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ، وَقَدْ وَلَدْتُ وَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلَانُ، فَتُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ مِنْهُمْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا، وَنِكَاحٌ رَابِعٌ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لَا تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا، كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ يَكُنَّ عَلَمًا لِمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ فَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَهُ، وَدُعِيَ ابْنَهُ لَا يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ نِكَاحَ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ، إِلَّا نِكَاحَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ الْيَوْمَ".
محمد بن مسلم بن شہاب کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ زمانہ جاہلیت میں چار قسم کے نکاح ہوتے تھے: ایک تو ایسے ہی جیسے اس زمانے میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے پاس اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے وہ مہر ادا کرتا ہے اور نکاح کر لیتا ہے۔ نکاح کی دوسری قسم یہ تھی کہ آدمی اپنی بیوی سے حیض سے پاک ہونے کے بعد کہہ دیتا کہ فلاں شخص کو بلوا لے، اور اس کا نطفہ حاصل کر لے پھر وہ شخص تب تک اپنی بیوی سے صحبت نہ کرتا جب تک کہ مطلوبہ شخص سے حمل نہ قرار پا جاتا، حمل ظاہر ہونے کے بعد ہی وہ چاہتا تو اس سے جماع کرتا، ایسا اس لیے کیا جاتا تھا تاکہ لڑکا نجیب (عمدہ نسب کا) ہو، اس نکاح کو نکاح استبضاع (نطفہ حاصل کرنے کا نکاح) کہا جاتا تھا۔ نکاح کی تیسری قسم یہ تھی کہ نو افراد تک کا ایک گروہ بن جاتا پھر وہ سب اس سے صحبت کرتے رہتے، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچے کی ولادت ہوتی تو ولادت کے کچھ دن بعد وہ عورت ان سب لوگوں کو بلوا لیتی، کوئی آنے سے انکار نہ کرتا، جب سب جمع ہو جاتے تو کہتی: تمہیں اپنا حال معلوم ہی ہے، اور میں نے بچہ جنا ہے، پھر وہ جسے چاہتی اس کا نام لے کر کہتی کہ اے فلاں! یہ تیرا بچہ ہے، اور اس بچے کو اس کے ساتھ ملا دیا جاتا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے اور ایک عورت سے صحبت کرتے، وہ کسی بھی آنے والے کو منع نہ کرتی، یہ بدکار عورتیں ہوتیں، ان کے دروازوں پر بطور نشانی جھنڈے لگے ہوتے، جو شخص بھی چاہتا ان سے صحبت کرتا، جب وہ حاملہ ہو جاتی اور بچہ جن دیتی تو سب جمع ہو جاتے، اور قیافہ شناس کو بلاتے، وہ جس کا بھی نام لیتا اس کے ساتھ ملا دیا جاتا، وہ بچہ اس کا ہو جاتا اور وہ کچھ نہ کہہ پاتا، تو جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا تو زمانہ جاہلیت کے سارے نکاحوں کو باطل قرار دے دیا سوائے اہل اسلام کے نکاح کے جو آج رائج ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۳۶ (۵۱۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۱۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: أَوْصَانِي أَخِي عُتْبَةُ إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبِضَهُ، فَإِنَّهُ ابْنُهُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي ابْنُ أَمَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ". زَادَ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ، وَقَالَ: "هُوَ أَخُوكَ يَا عَبْدُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے ساتھ کھلی مشابہت دیکھی (اس کے باوجود) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بچہ بستر والے کا ہے، اور زانی کے لیے سنگساری ہے، اور سودہ! تم اس سے پردہ کرو"۔ مسدد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کئے ہیں کہ "آپ نے فرمایا: عبد! یہ تیرا بھائی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۳ (۲۰۵۳)، ۱۰۰ (۲۲۱۸)، الخصومات ۶ (۲۴۲۱)، العتق ۸ (۲۷۴۵)، الوصایا ۴ (۲۷۴۵)، المغازي ۵۳ (۴۳۰۳)، الفرائض ۱۸ (۴۷۴۹)، ۲۸ (۶۷۶۵)، الحدود ۲۳ (۶۸۱۷)، الأحکام ۲۹ (۷۱۸۲)، صحیح مسلم/الرضاع ۱۰ (۱۴۵۷)، سنن النسائی/الطلاق ۴۹ (۳۵۱۷)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۹ (۲۰۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۳۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۲۱ (۲۰)، مسند احمد (۶/۱۲۹، ۲۷۳)، سنن الدارمی/النکاح ۴۱ (۲۲۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا ابْنِي عَاهَرْتُ بِأُمِّهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا دَعْوَةَ فِي الْإِسْلَامِ، ذَهَبَ أَمْرُ الْجَاهِلِيَّةِ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! فلاں میرا بیٹا ہے میں نے زمانہ جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام میں اس طرح کا مطالبہ صحیح نہیں، زمانہ جاہلیت کی بات ختم ہوئی، بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لیے سنگساری ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۸، ۲۰۷) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْالْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ رَبَاحٍ، قَالَ: "زَوَّجَنِي أَهْلِي أَمَةً لَهُمْ رُومِيَّةً فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي فَسَمَّيْتُهُ عَبْدَ اللَّهِ، ثُمَّ وَقَعْتُ عَلَيْهَا فَوَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ مِثْلِي فَسَمَّيْتُهُ عُبَيْدَ اللَّهِ، ثُمَّ طَبِنَ لَهَا غُلَامٌ لِأَهْلِي رُومِيٌّ، يُقَالُ لَهُ: يُوحَنَّهْ، فَرَاطَنَهَا بِلِسَانِهِ فَوَلَدَتْ غُلَامًا كَأَنَّهُ وَزَغَةٌ مِنَ الْوَزَغَاتِ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا هَذَا ؟ فَقَالَتْ: هَذَا لِيُوحَنَّهْ، فَرَفَعْنَا إِلَى عُثْمَانَ، أَحْسَبُهُ قَالَ: مَهْدِيٌّ، قَالَ: فَسَأَلَهُمَا فَاعْتَرَفَا، فَقَالَ لَهُمَا: أَتَرْضَيَانِ أَنْ أَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ، وَأَحْسَبُهُ قَالَ: فَجَلَدَهَا، وَجَلَدَهُ وَكَانَا مَمْلُوكَيْنِ".
رباح کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے اپنی ایک رومی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا، میں نے اس سے جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح کالا لڑکا جنا جس کا نام میں نے عبداللہ رکھا، میں نے پھر جماع کیا تو اس نے میری ہی طرح ایک اور کالے لڑکے کو جنم دیا جس کا نام میں نے عبیداللہ رکھا، اس کے بعد میرے خاندان کے یوحنا نامی ایک رومی غلام نے اسے پھانس لیا اور اس نے اس سے اپنی زبان میں بات کی چنانچہ گرگٹ جیسا (سرخ) رنگ کا بچہ اس سے پیدا ہوا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کہنے لگی: یہ یوحنا کا بچہ ہے تو ہم نے یہ معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا، تو انہوں نے ان سے بازپرس کی تو دونوں نے اعتراف کر لیا، پھر انہوں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم دونوں اس بات پر رضامند ہو کہ میں تمہارا فیصلہ اس طرح کر دوں جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا؟ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ "بچہ بستر والے کا ہے"۔ راوی کا خیال ہے کہ پھر ان دونوں کو کوڑے لگائے، (سنگسار نہیں کیا) کیونکہ وہ دونوں لونڈی و غلام تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۸۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۵۹، ۶۵، ۶۹) (ضعیف) (اس کے راوی رباح کوفی مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا كَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَاءً وَثَدْيِي لَهُ سِقَاءً وَحِجْرِي لَهُ حِوَاءً، وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحِي".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے، میرا پیٹ اس کا گھر رہا، میری چھاتی اس کے پینے کا برتن بنی، میری گود اس کا ٹھکانہ بنی، اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے، اور اسے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تک تو (دوسرا) نکاح نہیں کر لیتی اس کی تو ہی زیادہ حقدار ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۷۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۲، ۲۰۳) (حسن)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَأَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي زِيَادٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ، أَنَّ أَبَا مَيْمُونَةَ سَلْمَى مَوْلًى مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ رَجُلَ صِدْقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَارِسِيَّةٌ مَعَهَا ابْنٌ لَهَا فَادَّعَيَاهُ وَقَدْ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا، فَقَالَتْ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَرَطَنَتْ لَهُ بِالْفَارِسِيَّةِ، زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اسْتَهِمَا عَلَيْهِ، وَرَطَنَ لَهَا بِذَلِكَ، فَجَاءَ زَوْجُهَا، فَقَالَ: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي ؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَا أَقُولُ هَذَا إِلَّا أَنِّي سَمِعْتُ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِابْنِي وَقَدْ سَقَانِي مِنْ بِئْرِ أَبِي عِنَبَةَ وَقَدْ نَفَعَنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اسْتَهِمَا عَلَيْهِ"، فَقَالَ زَوْجُهَا: مَنْ يُحَاقُّنِي فِي وَلَدِي ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَذَا أَبُوكَ وَهَذِهِ أُمُّكَ، فَخُذْ بِيَدِ أَيِّهِمَا شِئْتَ"، فَأَخَذَ بِيَدِ أُمِّهِ فَانْطَلَقَتْ بِهِ.
ہلال بن اسامہ سے روایت ہے کہ ابومیمونہ سلمی جو اہل مدینہ کے مولی اور ایک سچے آدمی ہیں کا بیان ہے کہ میں ایک بار ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی دوران ان کے پاس ایک فارسی عورت آئی جس کے ساتھ اس کا لڑکا بھی تھا، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی اور وہ دونوں ہی اس کے دعویدار تھے، عورت کہنے لگی: ابوہریرہ! (پھر اس نے فارسی زبان میں گفتگو کی) میرا شوہر مجھ سے میرے بیٹے کو لے لینا چاہتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فارسی زبان ہی میں اس سے گفتگو کی، اتنے میں اس کا شوہر آیا اور کہنے لگا: میرے لڑکے کے بارے میں مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! میں نے تو یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ میں نے ایک عورت کو کہتے سنا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، وہ کہنے لگی: اللہ کے رسول! میرا شوہر میرے بیٹے کو مجھ سے لے لینا چاہتا ہے، حالانکہ وہ ابوعنبہ کے کنویں سے مجھے پانی لا کر پلاتا ہے اور وہ مجھے فائدہ پہنچاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں اس کے لیے قرعہ اندازی کرو"، اس کا شوہر بولا: میرے لڑکے کے متعلق مجھ سے کون جھگڑا کر سکتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تیرا باپ ہے، اور یہ تیری ماں ہے، ان میں سے تو جس کا بھی چاہے ہاتھ تھام لے"، چنانچہ اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا، اور وہ اسے لے کر چلی گئی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأحکام ۲۱ (۱۳۵۷)، سنن النسائی/الطلاق ۵۲ (۳۵۲۶)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۴۷)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : امام شافعی کی یہی دلیل ہے، ان کے نزدیک لڑکے کو اختیار ہو گا کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرلے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک کم سن ہے ماں کے ساتھ رہے گا، اور جب خود کھانے، پینے، پہنے اور استنجا کرنے لگے تو باپ کے ساتھ ہو جائے گا، یہ قول زیادہ قوی ہے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ إِلَى مَكَّةَ فَقَدِمَ بِابْنَةِ حَمْزَةَ، فَقَالَ جَعْفَرٌ أَنَا آخُذُهَا، أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي خَالَتُهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ، فَقَالَ عَلِيٌّ أَنَا أَحَقُّ بِهَا ابْنَةُ عَمِّي وَعِنْدِي ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ أَحَقُّ بِهَا، فَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَقُّ بِهَا أَنَا خَرَجْتُ إِلَيْهَا وَسَافَرْتُ وَقَدِمْتُ بِهَا، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ حَدِيثًا، قَالَ: "وَأَمَّا الْجَارِيَةُ، فَأَقْضِي بِهَا لِجَعْفَرٍ تَكُونُ مَعَ خَالَتِهَا وَإِنَّمَا الْخَالَةُ أُمٌّ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مکہ گئے تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو لے آئے، جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اسے میں لوں گا، میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز اس کی خالہ میرے پاس ہے، اور خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے، اور علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس کا زیادہ حقدار میں ہوں کیونکہ یہ میری چچا زاد بہن ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، وہ بھی اس کی زیادہ حقدار ہیں اور زید رضی اللہ عنہ نے کہا: سب سے زیادہ اس کا حقدار میں ہوں کیونکہ میں اس کے پاس گیا، اور سفر کر کے اسے لے کر آیا ہوں، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑکی کا فیصلہ میں جعفر کے حق میں کرتا ہوں وہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی اور خالہ ماں کے درجے میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۸، ۱۱۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، بِهَذَا الْخَبَرِ وَلَيْسَ بِتَمَامِهِ، قَالَ: "وَقَضَى بِهَا لِجَعْفَرٍ"، وَقَالَ: "إِنَّ خَالَتَهَا عِنْدَهُ".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے یہی حدیث مروی ہے لیکن پوری نہیں ہے اس میں ہے کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ لڑکی جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے گی، کیونکہ ان کے نکاح میں اس کی خالہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۹۷۳، ۱۰۲۲۳) (صحیح) (یہ روایت خود تو مرسل ہے، اس لئے پچھلی روایت سے تقویت پاکر صحیح مانی گئی ہے)
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، أَنَّ إِسْمَاعِيلَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئٍ، وَهُبَيْرَةَ، عَنْعَلِيٍّ، قَالَ: لَمَّا خَرَجْنَا مِنْ مَكَّةَ تَبِعَتْنَا بِنْتُ حَمْزَةَ تُنَادِي يَا عَمُّ يَا عَمُّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ: دُونَكِ بِنْتَ عَمِّكِ فَحَمَلَتْهَا، فَقَصَّ الْخَبَرَ، قَالَ: وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ: "الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مکہ سے نکلے تو ہمارے پیچھے پیچھے حمزہ کی لڑکی چچا چچا پکارتی آ گئی، علی رضی اللہ عنہ ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے آئے اور (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) کہا: اپنے چچا کی لڑکی کو لو، انہوں نے اسے اٹھا لیا، راوی نے پھر پورا قصہ بیان کیا اور کہا کہ: جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا: "خالہ ماں کے درجے میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۸، ۱۰۸، ۱۱۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الْأَنْصَارِيَّةِ، "أَنَّهَا طُلِّقَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَكُنْ لِلْمُطَلَّقَةِ عِدَّةٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ طُلِّقَتْ أَسْمَاءُ بِالْعِدَّةِ لِلطَّلَاقِ، فَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ أُنْزِلَتْ فِيهَا الْعِدَّةُ لِلْمُطَلَّقَاتِ".
اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہیں طلاق دے دی گئی، اس وقت مطلقہ کی کوئی عدت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا چنانچہ یہی پہلی خاتون ہیں جن کے متعلق مطلقہ عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۷۸) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ سورة البقرة آية 228، وَقَالَ: وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ سورة الطلاق آية 4، فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ سورة البقرة آية 237 فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا سورة الأحزاب آية 49.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: «والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء» "اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو تین طہر تک روکے رکھیں" (سورۃ البقرہ: ۲۲۸) اور فرمایا: «واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر» "اور تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے"(سورۃ الطلاق: ۴) تو یہ عورتیں پہلی آیت کے حکم سے نکال لی گئیں ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإن طلقتموهن من قبل أن تمسوهن» "اگر تم انہیں چھونے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو انہیں کوئی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں" (سورۃ الاحزاب: ۴۹) اس آیت میں مذکور عورتوں کو بھی پہلی آیت کے حکم سے نکال دیا گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۱۹۵)، (تحفة الأشراف: ۶۲۵۳) (حسن)
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ ثُمَّ رَاجَعَهَا".
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کر لی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۷۶ (۳۵۹۰)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱ (۲۰۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۹۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطلاق ۲ (۲۳۱۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلَهُ بِشَعِيرٍ فَتَسَخَّطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا: "لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ"، وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ تِلْكَ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي، اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى، تَضَعِينَ ثِيَابَكِ، وَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي"، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَ أَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: "انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ"، فَنَكَحْتُهُ فَجَعَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا وَاغْتَبَطْتُ بِهِ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ابوعمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی ۱؎ ابوعمرو موجود نہیں تھے تو ان کے وکیل نے فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے، اس پر وہ برہم ہوئیں، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں بنتا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ماجرا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے فرمایا: "اس کے ذمہ تمہارا نفقہ نہیں ہے" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ایک ایسی عورت ہے کہ اس کے پاس میرے صحابہ کا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے، لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں، پردے کی دقت نہ ہو گی، تم اپنے کپڑے اتار سکو گی، اور جب عدت مکمل ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا"۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب عدت گزر گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہما کے پیغام کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رہے ابوجہم تو وہ کندھے سے لاٹھی ہی نہیں اتارتے (یعنی بہت زدو کوب کرنے والے شخص ہیں) اور جہاں تک معاویہ کا سوال ہے تو وہ کنگال ہیں، ان کے پاس مال نہیں ہے۲؎، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو"، فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ مجھے پسند نہیں آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو، چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اس قدر بھلائی رکھی کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن النسائی/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، الطلاق ۷۳ (۳۵۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح ۳۷ (۱۱۳۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۰ (۱۸۶۹) الطلاق ۴ (۲۰۲۴)، ۹ (۲۰۳۲)، ۱۰ (۲۰۳۵)، موطا امام مالک/الطلاق ۲۳ (۶۷)، مسند احمد (۶/ ۴۱۲، ۴۱۳، ۴۱۴ ، ۴۱۵)، سنن الدارمی/النکاح ۷ (۲۲۲۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض روایتوں میں ہے ’’انہیں تین طلاق دی‘‘ اور بعض میں ہے ’’انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق دی‘‘ اور بعض میں ہے ’’انہیں ایک طلاق بھیجی جو باقی رہ گئی تھی‘‘ ان روایات میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ وہ انہیں اس سے پہلے دو طلاق دے چکے تھے اور اس بار تیسری طلاق دی، تو جس نے یہ روایت کیا ہے کہ انہوں نے تین طلاق میں سے آخری طلاق دی یا وہ طلاق دی جو باقی رہ گئی تھی تو وہ اصل صورت حال کے مطابق ہے اور جس نے روایت کی ہے کہ طلاق بتہ دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ ایسی طلاق دی جس سے وہ مبتوتہ ہو گی اور جس نے روایت کی ہے کہ تین طلاق دی تو اس کی مراد یہ ہے کہ تین میں جو کمی رہ گئی تھی اسے پورا کر دیا۔ ۲؎ : صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا درست ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ فِيهِ. وَأَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَنَفَرًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، وَإِنَّهُ تَرَكَ لَهَا نَفَقَةً يَسِيرَةً، فَقَالَ: "لَا نَفَقَةَ لَهَا"، وَسَاقَ الْحَدِيثَ. وَحَدِيثُ مَالِكٍ أَتَمُّ.
یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ ابو حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور بنی مخزوم کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! ابو حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی ہیں، اور اسے معمولی نفقہ (خرچ) دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے لیے نفقہ نہیں ہے"، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، یہ مالک کی روایت زیادہ کامل ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۰۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ تین طلاق دی ہوئی عورت کے لئے نہ نفقہ ہے، اور نہ سکنی (رہائش)، نفقہ و سکنی رجعی طلاق میں ہے، اس امید میں کہ شاید شوہر کے دل کے اندر رجوع کی بات پیدا ہو جائے، اور رجوع کر لے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو،عَنْ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَخَبَرَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَال: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ وَلَا مَسْكَنٌ"، قَالَ فِيهِ: وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ مجھ سے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوعمرو بن حفص مخزومی رضی اللہ عنہ نے انہیں تینوں طلاقیں دے دیں، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ والا قصہ بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "نہ تو اس کے لیے نفقہ ہے اور نہ رہائش"، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ خبر بھیجی کہ تو اپنے بارے میں مجھ سے سبقت نہ کرنا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۲۲۸۴، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مجھ سے پوچھے بغیر شادی نہ کر لینا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ، ثُمَّ سَاقَ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ، قَالَ فِيهِ: "وَلَا تُفَوِّتِينِي بِنَفْسِكِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الشَّعْبِيُّ وَ الْبَهِيُّ وَ عَطَاءٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَاصِمٍ وَ أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ، كُلُّهُمْ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا.
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں قبیلہ بنی مخروم کے ایک شخص کے نکاح میں تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی، پھر راوی نے مالک کی حدیث کے مثل حدیث بیان کی اس میں «ولا تفوتيني بنفسك» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے شعبی اور بہی نے اور عطاء نے بواسطہ عبدالرحمٰن بن عاصم اور ابوبکر بن جہم اور سبھوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ "انہیں ان کے شوہر نے تین طلاق دی" (نہ کہ طلاق بتہ) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، "أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَقَةً وَلَا سُكْنَى".
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو انہیں نفقہ دلایا، اور نہ ہی رہائش دلائی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶(۱۴۸۰)، سنن الترمذی/الطلاق ۵ (۱۱۸۰)، سنن النسائی/الطلاق ۷۲ (۳۵۸۱)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۰ (۲۰۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۵)، وقد أخرجہ: دی/الطلاق ۱۰ (۳۲۲۰) ویأتی ہذا الحدیث برقم (۲۲۹۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، "أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَأَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا، فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى، فَأَبَى مَرْوَانُ أَنْ يُصَدِّقَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا، قَالَ عُرْوَةُ: وَأَنْكَرَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، وَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، كُلُّهُمْ عَنْ الزُّهْرِيِّ. قَالَ أَبُو دَاوُد: شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَاسْمُ أَبِي حَمْزَةَ دِينَارٌ وَهُوَ مَوْلَى زِيَادٍ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف الزہری کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ وہ ابوحفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور ابوحفص نے انہیں تین طلاق میں سے آخری طلاق بھی دے دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے گھر نکلنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے انہیں نابینا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جانے کا حکم دیا ۱؎۔ مروان نے یہ حدیث سنی تو مطلقہ کے گھر سے نکلنے کے سلسلہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تصدیق کرنے سے انکار کیا، عروہ کہتے ہیں: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی بات کا انکار کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلقہ کا عدت گزارنے کے لئے گھر سے نکل کر کسی اور جگہ رہنا درست نہیں ہے، الا یہ کہ کوئی سخت ضرورت لاحق ہو جائے مثلا کرائے کا مکان ہو، اور کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو، یا مکان گر پڑے، یا مالک مکان جبرا نکال دے، یا علاج و معالجہ کی ضرورت ہو، یا کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہو۔
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَرْسَلَ مَرْوَانُ إِلَى فَاطِمَةَفَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ أَبِي حَفْصٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّرَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَعْنِي عَلَى بَعْضِ الْيَمَنِ، فَخَرَجَ مَعَهُ زَوْجُهَا فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ لَهَا، وَأَمَرَ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ أَنْ يُنْفِقَا عَلَيْهَا، فَقَالَا: وَاللَّهِ مَا لَهَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَا نَفَقَةَ لَكِ إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلًا"، وَاسْتَأْذَنَتْهُ فِي الِانْتِقَالِ، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ"، وَكَانَ أَعْمَى، تَضَعُ ثِيَابَهَا عِنْدَهُ وَلَا يُبْصِرُهَا، فَلَمْ تَزَلْ هُنَاكَ حَتَّى مَضَتْ عِدَّتُهَا فَأَنْكَحَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ، فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ مَرْوَانُ: لَمْ نَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنَ امْرَأَةٍ، فَسَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ حِينَ بَلَغَهَا ذَلِكَ: بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّه، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ حَتَّى لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا سورة الطلاق آية 1، قَالَتْ: فَأَيُّ أَمْرٍ يُحْدِثُ بَعْدَ الثَّلَاثِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَأَمَّا الزُّبَيْدِيُّ، فَرَوَى الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا، حَدِيثَ عُبَيْدِ اللهِ بمَعْنى مَعْمَرٍ، وَحَدِيثَ أَبي سلَمَةَ بمَعْنى عَقِيلٍ. قال أَبُو دَاوُدَ: وَرَوَاهُ مُحمَّدُ بنُ إِسْحاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ حَدَّثَهُ، بِمَعْنًى دَلَّ عَلَى خَبَرِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، حِينَ قَالَ: فَرَجَعَ قَبِيصَةُ إِلَى مَرْوَانَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ.
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ مروان نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو بلوایا، اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ابوحفص رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا یعنی یمن کے بعض علاقے کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے شوہر بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے اور وہیں سے انہیں بقیہ ایک طلاق بھیج دی، اور عیاش بن ابی ربیعہ اور حارث بن ہشام کو انہیں نفقہ دینے کے لیے کہہ دیا تو وہ دونوں کہنے لگے: اللہ کی قسم حاملہ ہونے کی صورت ہی میں وہ نفقہ کی حقدار ہو سکتی ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں (اور آپ سے دریافت کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے نفقہ صرف اس صورت میں ہے کہ تم حاملہ ہو"، پھر فاطمہ نے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، پھر فاطمہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں کہاں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر رہو، وہ نابینا ہیں، سو وہ ان کے پاس کپڑے بھی اتارتی تھیں تو وہ اسے دیکھ نہیں پاتے تھے"، چنانچہ وہ وہیں رہیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہو گئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اسامہ رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ تو قبیصہ ۱؎ مروان کے پاس واپس آئے اور انہیں اس کی خبر دی تو مروان نے کہا: ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت کے منہ سے سنی ہے ہم تو اسی مضبوط اور صحیح بات کو اپنائیں گے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے، فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہوا تو کہنے لگیں: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی، اللہ کا فرمان ہے «فطلقوهن لعدتهن» ، «لا تدري لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا» ۲؎ تک"یعنی خاوند کا دل مائل ہو جائے اور رجوع کر لے" فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تین طلاق کے بعد کیا نئی بات ہو گی؟ ۳؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح اسے یونس نے زہری سے روایت کیا ہے، رہے زبیدی تو انہوں نے دونوں حدیثوں کو ملا کر ایک ساتھ روایت کیا ہے یعنی عبیداللہ کی حدیث کو معمر کی حدیث کے ہم معنی اور ابوسلمہ کی حدیث کو عقیل کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ اور اسے محمد بن اسحاق نے زہری سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ قبیصہ بن ذویب نے ان سے اس معنی کی حدیث بیان کی ہے جس میں عبیداللہ بن عبداللہ کی حدیث پر دلالت ہے جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ قبیصہ مروان کے پاس لوٹے اور انہیں اس واقعہ کی خبر دی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۰)، سنن النسائی/النکاح ۸ (۳۲۲۴)، الطلاق ۷۳ (۳۵۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جیسا کہ آگے اس کی تصریح آ رہی ہے۔ ۲؎ : انہیں ان کی عدت میں یعنی طہر کے شروع میں طلاق دو، اور مدت کا حساب رکھو، اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے، اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا، تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ۳؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے نہ نکلنا یا نہ نکالنا صرف پہلی اور دوسری طلاق کے بعد ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ مَعَالْأَسْوَدِ، فَقَالَ: أَتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "مَا كُنَّا لِنَدَعَ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ ذَلِكَ أَمْ لَا".
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود کے ساتھ جامع مسجد میں تھا تو انہوں نے کہا: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے، پتا نہیں اسے یہ(اصل بات) یاد بھی ہے یا بھول گئی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۲۲۸۸) (تحفة الأشراف: ۱۰۴۰۵، ۱۸۰۲۵) (صحیح موقوف)
وضاحت: ۱؎ : کتاب اللہ سے مراد سورہ طلاق کی آیت «لعل الله يحدث بعد ذلك أمرا» ، اور سنت سے مراد عمر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس میں ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ مطلقہ ثلاثہ کو نفقہ اور سکنی ملے گا، لیکن یہ روایت محفوظ نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقَدْ عَابَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَشَدَّ الْعَيْبِ يَعْنِي حَدِيثَ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، وَقَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ رَخَّصَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عروہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث پر سخت نکیر کرتی تھیں اور کہتی تھیں: چونکہ فاطمہ ایک ویران مکان میں رہتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے بارے میں خدشہ لاحق ہوا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (مکان بدلنے کی) رخصت دی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۴۱ (۵۳۲۶)تعلیقاً، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۸ (۲۰۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۰۱۸) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ قِيلَلِعَائِشَةَ: أَلَمْ تَرَيْ إِلَى قَوْلِ فَاطِمَةَ ؟ قَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لَا خَيْرَ لَهَا فِي ذِكْرِ ذَلِكَ.
عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے فاطمہ (فاطمہ بنت قیس) رضی اللہ عنہا کے بیان پر اظہار خیال کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا اس میں اس کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، ، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ فِي خُرُوجِ فَاطِمَةَ، قَالَ: "إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ سُوءِ الْخُلُقِ".
سلیمان بن یسار سے بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلنے کا قصہ مروی ہے وہ کہتے ہیں: یہ بد خلقی کی بنا پر ہوا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۳) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے ، سلیمان بن یسار تابعی ہیں)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ الْبَتَّةَ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَقَالَتْ لَهُ: "اتَّقِ اللَّهَ، وَارْدُدِ الْمَرْأَةَ إِلَى بَيْتِهَا"، فَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: "إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ غَلَبَنِي"، وَقَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ الْقَاسِمِ: "أَوَ مَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ؟"فَقَالَتْ عَائِشَةُ: "لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ"، فَقَالَ مَرْوَانُ: "إِنْ كَانَ بِكِ الشَّرُّ، فَحَسْبُكِ مَا كَانَ بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ".
یحییٰ بن سعید قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان دونوں کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی بیٹی کو تین طلاق دے دی تو عبدالرحمٰن نے انہیں اس گھر سے منتقل کر لیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت مدینہ کے امیر مروان بن حکم کو کہلا بھیجا کہ اللہ کا خوف کھاؤ اور عورت کو اس کے گھر واپس بھیج دو، بروایت سلیمان: مروان نے کہا: عبدالرحمٰن مجھ پر غالب آ گئے یعنی انہوں نے میری بات نہیں مانی، اور بروایت قاسم: کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا قصہ معلوم نہیں؟ تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: فاطمہ والی حدیث نہ بیان کرو تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے، تو مروان نے کہا: اگر آپ نزدیک وہاں برائی کا اندیشہ تھا تو سمجھ لو یہاں ان دونوں (عمرہ اور ان کے شوہر یحییٰ) کے درمیان بھی اسی برائی کا اندیشہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق (۵۳۲۱)، صحیح مسلم/الطلاق ۶ (۱۴۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۳۷، ۱۷۵۶۰، ۱۸۰۲۲، ۱۸۰۳۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۲۲ (۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدُفِعْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، فَقُلْتُ: "فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ طُلِّقَتْ فَخَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا"، فَقَالَ سَعِيدٌ: "تِلْكَ امْرَأَةٌ فَتَنَتِ النَّاسَ، إِنَّهَا كَانَتْ لَسِنَةً فَوُضِعَتْ عَلَى يَدَيْ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى".
میمون بن مہران کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو سعید بن مسیب کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو طلاق دی گئی تو وہ اپنے گھر سے چلی گئی (ایسا کیوں ہوا؟) تو سعید نے جواب دیا: اس عورت نے لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ وہ زبان دراز تھی لہٰذا اسے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس رکھا گیا جو نابینا تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۲۱) (صحیح) (لیکن ابن المسیب کا یہ بیان خلاف واقعہ ، یعنی ، فاطمہ کی منتقلی تین طلاق کے سبب تھی)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: طُلِّقَتْ خَالَتِي ثَلَاثًا فَخَرَجَتْ تَجُدُّ نَخْلًا لَهَا، فَلَقِيَهَا رَجُلٌ فَنَهَاهَا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهَا: "اخْرُجِي فَجُدِّي نَخْلَكِ لَعَلَّكِ أَنْ تَصَدَّقِي مِنْهُ أَوْ تَفْعَلِي خَيْرًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئیں، وہ اپنی کھجوریں توڑنے نکلیں، راستے میں ایک شخص ملا تو اس نے انہیں نکلنے سے منع کیا چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور اپنی کھجوریں توڑو، ہو سکتا ہے تم اس میں سے صدقہ کرو یا اور کوئی بھلائی کا کام کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطلاق ۷ (۱۴۸۱)، سنن النسائی/الطلاق ۷۱ (۳۵۸۰)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۹ (۲۰۳۴)، (تحفة الأشراف: ۲۷۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۲۱)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، "وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، فَنُسِخَ ذَلِكَ بِآيَةِ الْمِيرَاثِ بِمَا فُرَضَ لَهُنَّ مِنَ الرُّبُعِ وَالثُّمُنِ، وَنُسِخَ أَجَلُ الْحَوْلِ بِأَنْ جُعِلَ أَجَلُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کا فرمان «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج» "اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ وصیت کر جائیں کہ ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے" (سورۃ البقرہ: ۲۴۰) میراث کی آیت نازل ہو جانے کے بعد منسوخ ہو گیا کیونکہ اس میں ان کے لیے چوتھائی اور آٹھواں حصہ مقرر کر دیا گیا ہے اسی طرح ایک سال تک نہ نکلنے کا حکم چار مہینے دس دن کی عدت کا حکم آ جانے کے بعد منسوخ ہو گیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۶۹ (۳۵۷۳)، (تحفة الأشراف: ۶۲۵۰، ۱۹۱۱۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التفسیر ۴۱ (۴۵۳۱)، الطلاق ۵۰(۵۳۴۴) (حسن)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: "کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے"۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جس وقت کہ ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا تھا، انہوں نے (بھی) خوشبو منگا کر لگائی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں نے ایسا صرف اس بنا پر کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: "کسی بھی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ہاں شوہر کی وفات پر سوگ چار مہینے دس دن ہے"۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اپنی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اسے سرمہ لگا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں"، اس نے دو بار یا تین بار پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار فرمایا:"نہیں"، پھر فرمایا: "تم چار مہینے دس دن صبر نہیں کر سکتی، حالانکہ زمانہ جاہلیت میں جب تم میں سے کسی عورت کا شوہر مر جاتا تھا تو ایک سال پورے ہونے پر اسے مینگنی پھینکنی پڑتی تھی"۔ حمید راوی کہتے ہیں میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے پوچھا: مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک معمولی سی جھونپڑی میں رہائش اختیار کرتی، پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑے پہنتی، نہ خوشبو استعمال کر سکتی اور نہ ہی کوئی زینت و آرائش کر سکتی تھی، جب سال پورا ہو جاتا تو اسے گدھا یا کوئی پرندہ یا بکری دی جاتی جسے وہ اپنے بدن سے رگڑتی، وہ جانور کم ہی زندہ رہ پاتا، پھر اس کو مینگنی دی جاتی جسے وہ سر پر گھما کر اپنے پیچھے پھینک دیتی، اس کے بعد وہ عدت سے باہر آتی اور زیب و زینت کرتی اور خوشبو استعمال کرتی۔ ابوداؤد کہتے ہیں:«حفش» چھوٹے گھر (تنگ کوٹھری) کو کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۱)، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۶)، ۴۷ (۵۳۳۸)، ۵۰ (۵۳۴۵)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۱۴۸۸)، سنن النسائی/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۰)، ۵۹ (۳۵۵۷)، ۶۳ (۳۵۶۳)، ۶۷ (۳۵۶۸)، سنن الترمذی/الطلاق ۱۸ (۱۱۹۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۷۶، ۱۸۲۵۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۵ (۱۰۱)، مسند احمد (۶/۳۲۵، ۳۲۶)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عَجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عَجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، فَإِنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، فَإِنِّي لَمْ يَتْرُكْنِي فِي مَسْكَنٍ يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةٍ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَعَمْ"، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ أَوْ فِي الْمَسْجِدِ، دَعَانِي أَوْ أَمَرَ بِي، فَدُعِيتُ لَهُ، فَقَالَ: "كَيْفَ قُلْتِ ؟"فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَتْ: فَقَالَ: "امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ"، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ.
زینب بنت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا وہ قبیلہ بنی خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہ سکتی ہیں؟ کیونکہ ان کے شوہر جب اپنے فرار ہو جانے والے غلاموں کا پیچھا کرتے ہوئے طرف القدوم نامی مقام پر پہنچے اور ان سے جا ملے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤں؟ کیونکہ انہوں نے مجھے جس مکان میں چھوڑا تھا وہ ان کی ملکیت میں نہ تھا اور نہ ہی خرچ کے لیے کچھ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں (وہاں چلی جاؤ)" فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (یہ سن کر) میں نکل پڑی لیکن حجرے یا مسجد تک ہی پہنچ پائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا لیا، یا بلانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کہا، (میں آئی) تو پوچھا: "تم نے کیسے کہا؟" میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے اپنے شوہر کے متعلق ذکر کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے اسی گھر میں رہو یہاں تک کہ قرآن کی بتائی ہوئی مدت (عدت) پوری ہو جائے" فریعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں نے عدت کے چار مہینے دس دن اسی گھر میں پورے کئے، جب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے مجھے بلوایا اور اس مسئلہ سے متعلق مجھ سے دریافت کیا، میں نے انہیں بتایا تو انہوں نے اسی کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطلاق ۲۳ (۱۲۰۴)، سنن النسائی/الطلاق ۶۰ (۳۵۵۸)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۱ (۲۰۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۴۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق ۳۱ (۸۷)، مسند احمد (۶/۳۷۰، ۴۲۰)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۴ (۲۳۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ: قَالَ عَطَاءٌ: قَالَابْنُ عَبَّاسٍ: "نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240". قَالَ عَطَاءٌ: "إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ سورة البقرة آية 240"، قَالَ عَطَاءٌ: "ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ فَنَسَخَ السُّكْنَى تَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں «غير إخراج» (سورة البقرہ: ۲۴۰) والی آیت جس میں عورت کو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارنے کا حکم ہے منسوخ کر دی گئی ہے، اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے، عطاء کہتے ہیں: اگر چاہے تو شوہر کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے اور شوہر کی وصیت سے فائدہ اٹھا کر وہیں سکونت اختیار کرے، اور اگر چاہے تو اللہ کے فرمان «فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن» "اگر وہ خود نکل جائیں تو ان کے کئے ہوئے کا تم پر کوئی گناہ نہیں" کے مطابق نکل جائے، عطاء کہتے ہیں کہ پھر جب میراث کا حکم آ گیا، تو شوہر کے مکان میں رہائش کا حکم منسوخ ہو گیا اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التفسیر ۴۱ (۴۵۳۱)، الطلاق ۵۰ (۵۳۴۴)، سنن النسائی/ الکبری/ الطلاق (۵۷۲۵)، (تحفة الأشراف: ۵۹۰۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ الْقُهِسْتَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ، عَنْ هِشَامٍ، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْجَرَّاحِ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تُحِدُّ الْمَرْأَةُ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَلَا تَكْتَحِلُ وَلَا تَمَسُّ طِيبًا إِلَّا أَدْنَى طُهْرَتِهَا إِذَا طَهُرَتْ مِنْ مَحِيضِهَا بِنُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ أَوْ أَظْفَارٍ". قَالَ يَعْقُوبُ مَكَانَ عَصْبٍ: "إِلَّا مَغْسُولًا". وَزَادَ يَعْقُوبُ: "وَلَا تَخْتَضِبُ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے شوہر کے، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی (اس عرصہ میں) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے، نہ سرمہ لگائے، اور نہ خوشبو استعمال کرے، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو (حیض کے مقام پر) استعمال کرے"۔ راوی یعقوب نے: "سفید سیاہ دھاری دار کپڑے" کے بجائے: "دھلے ہوئے کپڑے" کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۲ (۳۱۳)، الجنائز ۳۰ (۱۲۷۸)، الطلاق ۴۷ (۵۳۳۹)، ۴۹ (۵۳۴۲)، صحیح مسلم/الطلاق ۹ (۹۳۸)، سنن النسائی/الطلاق ۶۴ (۳۵۶۴)، ۶۵ (۳۵۶۶)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۵ (۲۰۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۶۵)، سنن الدارمی/الطلاق ۱۳ (۲۳۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَمَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمِسْمَعِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْحَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ. وَلَيْسَ فِي تَمَامِ حَدِيثِهِمَا. قَالَ الْمِسْمَعِيُّ: قَالَ يَزِيدُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ فِيهِ: "وَلَا تَخْتَضِبُ". وَزَادَ فِيهِ هَارُونُ: "وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے، لیکن ان دونوں راویوں کی حدیثوں میں پوری مشابہت نہیں ہے، مسمعی کا بیان ہے کہ یزید کہتے ہیں میں تو صرف یہی جانتا ہوں کہ اس میں ہے کہ "خضاب نہ لگائے" اور ہارون نے اس میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ: "رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے سوائے سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنِي بُدَيْلٌ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا لَا تَلْبَسُ الْمُعَصْفَرَ مِنَ الثِّيَابِ وَلَا الْمُمَشَّقَةَ وَلَا الْحُلِيَّ وَلَا تَخْتَضِبُ وَلَا تَكْتَحِلُ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت کا شوہر انتقال کر جائے وہ نہ زرد اور گیروے رنگ کا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے، نہ خضاب (مہندی وغیرہ) لگائے، اور نہ سرمہ لگائے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۶۴ (۳۵۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ تمام کام بناؤ سنگار کے ہیں، اس لئے عدت میں ان سے پرہیز ضروری ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ الضَّحَّاكِ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ حَكِيمٍ بِنْتُ أَسِيدٍ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ زَوْجَهَا تُوُفِّيَ وَكَانَتْ تَشْتَكِي عَيْنَيْهَا فَتَكْتَحِلُ بِالْجِلَاءِ، قَالَ أَحْمَدُ: الصَّوَابُ: بِكُحْلِ الْجِلَاءِ، فَأَرْسَلَتْ مَوْلَاةً لَهَا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَتْهَا عَنْ كُحْلِ الْجِلَاءِ، فَقَالَتْ: لَا تَكْتَحِلِي بِهِ إِلَّا مِنْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ يَشْتَدُّ عَلَيْكِ فَتَكْتَحِلِينَ بِاللَّيْلِ وَتَمْسَحِينَهُ بِالنَّهَارِ، ثُمّ قَالَتْ عِنْدَ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُو سَلَمَةَ وَقَدْ جَعَلْتُ عَلَى عَيْنِي صَبْرًا، فَقَالَ: "مَا هَذَا يَا أُمَّ سَلَمَةَ ؟"فَقُلْتُ: إِنَّمَا هُوَ صَبْرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ فِيهِ طِيبٌ، قَالَ: "إِنَّهُ يَشُبُّ الْوَجْهَ، فَلَا تَجْعَلِيهِ إِلَّا بِاللَّيْلِ وَتَنْزَعِينَهُ بِالنَّهَارِ، وَلَا تَمْتَشِطِي بِالطِّيبِ وَلَا بِالْحِنَّاءِ فَإِنَّهُ خِضَابٌ"، قَالَتْ: قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ أَمْتَشِطُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "بِالسِّدْرِ تُغَلِّفِينَ بِهِ رَأْسَكِ".
ام حکیم بنت اسید اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا، ان کی آنکھوں میں تکلیف رہتی تھی تو وہ «جلاء»(سرمہ) لگا لیتیں تو اپنی ایک لونڈی کو انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا تاکہ وہ «جلاء» کے سرمہ کے متعلق ان سے پوچھے، انہوں نے کہا: اس کا سرمہ نہ لگاؤ جب تک ایسی سخت ضرورت پیش نہ آ جائے جس کے بغیر چارہ نہ ہو اس صورت میں تم اسے رات میں لگاؤ، اور دن میں پونچھ لیا کرو، پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسی وقت یہ بھی بتایا کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور میں نے اپنی آنکھ میں ایلوا لگا رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "ام سلمہ یہ کیا ہے؟" میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! یہ ایلوا ہے اور اس میں خوشبو نہیں ہے، فرمایا: "یہ چہرے میں حسن پیدا کرتا ہے لہٰذا اسے رات ہی میں لگاؤ، اور دن میں ہٹا دو، اور خوشبو لگا کر کنگھی نہ کرو، اور نہ مہندی لگا کر، کیونکہ وہ خضاب ہے" میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کنگھی کس چیز سے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیری کے پتوں کو اپنے سر پر لپیٹ کر"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۶۶ (۳۵۶۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۰۰) (ضعیف) (اس کے راوی مغیرہ بن الضحاک لین الحدیث ہیں ، اور ام حکیم اور ان کی ماں دونوں مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، "أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ يَأْمُرُهُ، أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ، أَنَّ سُبَيْعَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَهُوَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاكِ مُتَجَمِّلَةً، لَعَلَّكِ تَرْتَجِينَ النِّكَاحَ، إِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، قَالَتْ سُبَيْعَةُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذَلِكَ، جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي، وَأَمَرَنِي بِالتَّزْوِيجِ إِنْ بَدَا لِي". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَا أَرَى بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِينَ وَضَعَتْ وَإِنْ كَانَتْ فِي دَمِهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتَّى تَطْهُرَ.
ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر ان کی حدیث معلوم کریں، نیز معلوم کریں کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے کیا ارشاد فرمایا؟ چنانچہ عمر بن عبداللہ نے عبداللہ بن عتبہ کو لکھا، وہ انہیں بتا رہے تھے کہ انہیں سبیعہ نے بتایا ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں (وہ بنی عامر بن لوی کے ایک فرد، اور بدری صحابی ہیں) حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب وہ حاملہ تھیں تو ان کا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد انہوں نے بچہ جنا، جب نفاس سے پاک ہو گئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کیا تو بنی عبدالدار کا ایک شخص ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: میں تمہیں بنی سنوری ہوئی دیکھ رہا ہوں، شاید نکاح کرنا چاہتی ہو، اللہ کی قسم! تم چار مہینے دس دن (کی عدت) گزارے بغیر نکاح نہیں کر سکتی۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: جب انہوں نے مجھ سے اس طرح کی گفتگو کی تو میں شام کے وقت پہن اوڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسئلہ بتایا اور فرمایا کہ بچہ جننے کے بعد ہی میں حلال ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اگر میں چاہوں تو شادی کر سکتی ہوں۔ ابن شہاب کہتے ہیں: میرے خیال میں بچہ جننے کے بعد عورت کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں گرچہ وہ حالت نفاس ہی میں ہو البتہ پاک ہونے تک شوہر صحبت نہیں کرے گا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۱۰ (۳۹۹۱ تعلیقًا)، الطلاق ۳۹ (۵۳۲۰)، صحیح مسلم/الطلاق ۸ (۱۴۸۴)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۱۸، ۳۵۱۹)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۳۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پہلے یہ آیت اتری تھی : «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرا» یہ آیت سورہ بقرہ (آیت: ۲۳۴) کی ہے، اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں داخل تھیں ، پھر سورہ طلاق والی آیت نمبر (۴) «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» نازل ہوئی تو حاملہ کی عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش) قرار پائی اور غیر حاملہ کی چار مہینہ دس دن پہلی آیت کے موافق برقرار رہی اکثر علماء کا یہی مذہب ہے اور بعض علماء کے نزدیک چونکہ دونوں آیتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں میں سے جو مدت لمبی «أبعد الأجلين» ہو اسے اختیار کرے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَاالْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "مَنْ شَاءَ لَاعَنْتُهُ لَأُنْزِلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الْأَرْبَعَةِ الْأَشْهُرِ وَعَشْرًا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو بھی چاہے مجھ سے اس بات پر لعان ۱؎ کر لے کہ چھوٹی سورۃ نساء (سورۃ الطلاق) چار مہینے دس دن والے حکم کے بعد نازل ہوئی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ تفسیرسورة الطلاق ۲ (۴۹۰۹)، سنن النسائی/الطلاق ۵۶ (۳۵۵۲)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۷ (۲۰۳۰)، (تحفة الأشراف: ۹۵۷۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد مباہلہ ہے۔ ۲؎ : جو کہ سورہ البقرہ میں ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ کہ ’’ عام متوفی عنہا زوجہا کے چار ماہ دس دن عدت گزارنے کا حکم سورہ بقرہ میں ہے ‘‘، اور ’’حاملہ متوفی عنہا زوجہا کی عدت صرف وضع حمل تک ہے ‘‘ کا تذکرہ سورہ طلاق کے اندر ہے جو کہ سورہ بقرہ کے بعد اتری ہے اس لئے یہ حکم خاص اس حکم عام کو خاص کرنے والا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُمْ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْمَطَرٍ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: "لَا تُلَبِّسُوا عَلَيْنَا سُنَّةً"، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: "سُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ"، يَعْنِي أُمَّ الْوَلَدِ.
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت کو ہم پر گڈمڈ نہ کرو، (سنت یہ ہے کہ) جس کا شوہر فوت ہو جائے اس کی یعنی ام ولد ۱؎ کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطلاق ۳۳ (۲۰۸۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ام ولد: ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک سے بچہ جنا ہو۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ يَعْنِي ثَلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَدَخَلَ بِهَا ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُوَاقِعَهَا، أَتَحِلُّ لِزَوْجِهَا الْأَوَّلِ ؟ قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ حَتَّى تَذُوقَ عُسَيْلَةَ الْآخَرِ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطلاق ۹ (۳۴۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۵۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات ۳ (۲۶۳۹)، والطلاق ۴ (۵۲۶۰)، والساعة ۳۷ (۵۷۹۲)، واللباس ۶ (۵۸۲۵)، والأدب ۶۸ (۶۰۸۴)، صحیح مسلم/النکاح ۱۷ (۱۴۳۳)، سنن الترمذی/النکاح ۲۷ (۱۱۱۸)، سنن النسائی/النکاح ۴۳ (۳۲۸۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۳۲ (۱۹۳۲)، مسند احمد (۶/۳۴، ۳۷، ۱۹۲، ۲۲۶، ۲۲۹)، سنن الدارمی/الطلاق ۴ (۲۳۱۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ہم بستری اور صحبت کے بعد طلاق واقع ہونے کی صورت میں نکاح جدید سے وہ پہلے شوہر کی بیوی بن سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ ؟ قَالَ: "أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: "أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مَخَافَةَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: "أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ"، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى تَصْدِيقَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68 الْآيَةَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے"، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا"، میں نے کہا پھر اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو"، نیز کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون الخ (سورۃ الفرقان: ۶۸) "جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے اور ناحق اس نفس کو قتل نہیں کرتے جس کے قتل کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ زنا کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ تفسیر سورة البقرة ۳ (۴۴۷۷)، والأدب ۲۰ (۴۷۶۱)، والحدود ۲۰ (۶۸۱۱)، والدیات ۲ (۶۸۶۱)، والتوحید ۴۰ (۷۵۲۰)، ۴۶ (۷۵۳۲)، صحیح مسلم/الایمان ۳۷ (۸۶)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الفرقان (۳۱۸۲)، (تحفة الأشراف: ۹۴۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۰، ۴۷۱، ۴۲۴، ۴۳۴، ۴۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: "جَاءَتْ مُسَيْكَةُ مِسْكِينَةٌ لِبَعْضِ الأَنْصَارِ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَيِّدِي يُكْرِهُنِي عَلَى الْبِغَاءِ، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ سورة النور آية 33".
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ ایک انصاری شخص کی مسکینہ لونڈی آ کر کہنے لگی کہ میرا مالک مجھے بدکاری کے لیے مجبور کرتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ولا تكرهوا فتياتكم على البغاء» (سورۃ النور: ۳۳) "تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۸۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، أَخْبَرَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ وَمَنْ يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 33، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ: "غَفُورٌ لَهُنَّ الْمُكْرَهَاتِ".
سیلمان تیمی سے روایت ہے کہ آیت کریمہ: «ومن يكرههن فإن الله من بعد إكراههن غفور رحيم» (النور: ۳۳) "اور جو انہیں مجبور کرے تو اللہ تعالیٰ مجبور کرنے کی صورت میں بخشنے ولا رحم کرنے والا ہے" کے متعلق سعید بن ابوالحسن نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں زنا کے لیے مجبور کیا گیا، اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۶۸۹) (صحیح)