أَحْصَيْنَاهُ حَفِظْنَاهُ وَعَدَدْنَاهُ، وَطَلاَقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، وَيُشْهِدُ شَاهِدَيْنِ.
(پورے تین طہر یا تین حیض) اور سنت کے مطابق یہی ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہمبستری نہ کی ہو اور اس پر دو گواہ مقرر کرے۔ لفظ «أحصيناه» کے معنی ہم نے اسے یاد کیا اور شمار کرتے رہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، "أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: "طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لِيُرَاجِعْهَا، قُلْتُ: تُحْتَسَبُ، قَالَ: فَمَهْ". وَعَنْ قَتَادَةَ، عَنْيُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، قُلْتُ: تُحْتَسَبُ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے انس بن سیرین نے، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ چاہیے کہ رجوع کر لیں۔ (انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ)میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا یہ طلاق، طلاق سمجھی جائے گی؟ انہوں نے کہا کہ چپ رہ۔ پھر کیا سمجھی جائے گی؟ اور قتادہ نے بیان کیا، ان سے یونس بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) فرمایا کہ اسے حکم دو کہ رجوع کر لے (یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ) میں نے پوچھا، کیا یہ طلاق طلاق سمجھی جائے گی؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تو کیا سمجھتا ہے اگر کوئی کسی فرض کے ادا کرنے سے عاجز بن جائے یا احمق ہو جائے۔ تو وہ فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ابومعمر عبداللہ بن عمرو منقری نے کہا (یا ہم سے بیان کیا) کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ: أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، "أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا: لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ الْحَقِي بِأَهْلِكِ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، رَوَاهُ حَجَّاجُ بْنُ أَبِي مَنِيعٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ.
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کن بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جون کی بیٹی (امیمہ یا اسماء) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں(نکاح کے بعد) لائی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے، اپنے میکے چلی جاؤ۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حجاج بن یوسف بن ابی منیع سے، اس نے بھی اپنے دادا ابومنیع (عبیداللہ بن ابی زیاد) سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَسِيلٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ: الشَّوْطُ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْلِسُوا هَا هُنَا، وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِيَ بِالْجَوْنِيَّةِ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتِ أُمَيْمَةَ بِنْتِ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: هَبِي نَفْسَكِ لِي، قَالَتْ: وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ ؟ قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ، فَقَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ: قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: يَا أَبَا أُسَيْدٍ، اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے بیان کیا، ان سے حمزہ بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے اور ایک باغ میں پہنچے جس کا نام شوط تھا۔ جب وہاں جا کر اور باغوں کے درمیان پہنچے تو بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہیں بیٹھو، پھر باغ میں گئے، جونیہ لائی جا چکی تھیں اور انہیں کھجور کے ایک گھر میں اتارا۔ اس کا نام امیمہ بنت نعمان بن شراحیل تھا۔ ان کے ساتھ ایک دایہ بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو فرمایا کہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے۔ اس نے کہا کیا کوئی شہزادی کسی عام آدمی کے لیے اپنے آپ کو حوالہ کر سکتی ہے؟ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا شفقت کا ہاتھ ان کی طرف بڑھا کر اس کے سر پر رکھا تو اس نے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اسی سے پناہ مانگی جس سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ابواسید! اسے دو رازقیہ کپڑے پہنا کر اسے اس کے گھر پہنچا آؤ۔
وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّيْسَابُورِيُّ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، قَالَا: تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ". حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ،عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ بِهَذَا.
اور حسین بن الولید نیساپوری نے بیان کیا کہ ان سے عبدالرحمٰن نے، ان سے عباس بن سہل نے، ان سے ان کے والد (سہل بن سعد)اور ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا تھا، پھر جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لائی گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے ناپسند کیا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان کا سامان کر دیں اور رازقیہ کے دو کپڑے انہیں پہننے کے لیے دے دیں۔
وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ الْوَلِيدِ النَّيْسَابُورِيُّ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، قَالَا: تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ". حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ،عَنْ أَبِيهِ، وَعَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ بِهَذَا.
اور حسین بن الولید نیساپوری نے بیان کیا کہ ان سے عبدالرحمٰن نے، ان سے عباس بن سہل نے، ان سے ان کے والد (سہل بن سعد)اور ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا تھا، پھر جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لائی گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے اس نے ناپسند کیا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان کا سامان کر دیں اور رازقیہ کے دو کپڑے انہیں پہننے کے لیے دے دیں۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "قُلْت لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَقَالَ: تَعْرِفُ ابْنَ عُمَرَ، إِنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَإِذَا طَهُرَتْ فَأَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا، قُلْتُ: فَهَلْ عَدَّ ذَلِكَ طَلَاقًا ؟ قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوغالب یونس بن جبیر نے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: ایک شخص نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی جب وہ حائضہ تھی (اس کا کیا حکم؟) اس پر انہوں نے کہا تم ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جانتے ہو؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو اس وقت طلاق دی تھی جب وہ حائضہ تھیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ (ابن عمر اس وقت اپنی بیوی سے) رجعت کر لیں، پھر جب وہ حیض سے پاک ہو جائیں تو اس وقت اگر ابن عمر چاہیں، انہیں طلاق دیں۔ میں نے عرض کیا: کیا اسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق شمار کیا تھا؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اگر کوئی عاجز ہے اور حماقت کا ثبوت دے تو اس کا علاج ہے۔
لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229.
اور اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں فرمایا طلاق دو بار ہے۔ اس کے بعد یا دستور کے موافق عورت کو رکھ لینا چاہیئے یا اچھی طرح رخصت کر دینا۔ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا اگر کسی بیمار شخص نے اپنی عورت کو طلاق بائن دے دی تو وہ اپنے خاوند کی وارث نہ ہو گی اور عامر شعبی نے کہا وارث ہو گی۔ (اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا) اور ابن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نے شعبی سے کہا، کیا وہ عورت عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ ابن شبرمہ نے کہا، پھر اگر اس کا دوسرا خاوند بھی مر جائے (تو وہ کیا دونوں کی وارث ہو گی؟) اس پر شعبی نے اپنے فتوے سے رجوع کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، "أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ عویمر العجانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ اے عاصم! تمہارا کیا خیال ہے، اگر کوئی اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو دیکھے تو کیا اسے وہ قتل کر سکتا ہے؟ لیکن پھر تم قصاص میں اسے (شوہر کو) بھی قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے گا؟ عاصم میرے لیے یہ مسئلہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ دیجئیے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات عاصم رضی اللہ عنہ پر گراں گزرے اور جب وہ واپس اپنے گھر آ گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے آ کر ان سے پوچھا کہ بتائیے آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ عاصم نے اس پر کہا تم نے مجھ کو آفت میں ڈالا۔ جو سوال تم نے پوچھا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا۔ عویمر نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ مسئلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر میں باز نہیں آؤں گا۔ چنانچہ وہ روانہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان میں تشریف رکھتے تھے۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر کو پا لیتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے؟ لیکن اس صورت میں آپ اسے قتل کر دیں گے یا پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں وحی نازل کی ہے، اس لیے تم جاؤ اور اپنی بیوی کو بھی ساتھ لاؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر دونوں (میاں بیوی) نے لعان کیا۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت موجود تھا۔ لعان سے جب دونوں فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس کے بعد بھی میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) میں جھوٹا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاق دی۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والے کے لیے یہی طریقہ جاری ہو گیا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّعَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، "أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلَاقِي، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ الْقُرَظِيَّ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی تھی اور طلاق بھی بائن، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے (یعنی وہ نامرد ہیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ، فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ: لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عمر عمری نے، کہا کہ مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی۔ ان کی بیوی نے دوسری شادی کر لی، پھر دوسرے شوہر نے بھی (ہمبستری سے پہلے) انہیں طلاق دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کیا پہلا شوہر اب ان کے لیے حلال ہے (کہ ان سے دوبارہ شادی کر لیں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، یہاں تک کہ وہ یعنی شوہر ثانی اس کا مزہ چکھے جیسا کہ پہلے نے مزہ چکھا تھا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28.
اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الاحزاب میں) فرمان «قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين أمتعكن وأسرحكن سراحا جميلا» کہ آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کا مزہ چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ متاع (دنیوی)دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "خَيَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَرْنَا اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَلَمْ يَعُدَّ ذَلِكَ عَلَيْنَا شَيْئًا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے مسلم بن صبیح نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو ہی پسند کیا تھا لیکن اس کا ہمارے حق میں کوئی شمار (طلاق) میں نہیں ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْخِيَرَةِ ؟ فَقَالَتْ: "خَيَّرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَفَكَانَ طَلَاقًا ؟"قَالَ مَسْرُوقٌ: لَا أُبَالِي أَخَيَّرْتُهَا وَاحِدَةً أَوْ مِائَةً بَعْدَ أَنْ تَخْتَارَنِي.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، کہا ہم سے عامر نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اختیار کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا محض یہ اختیار طلاق بن جاتا۔ مسروق نے کہا کہ اختیار دینے کے بعد اگر تم مجھے پسند کر لیتی ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، چاہے میں ایک مرتبہ اختیار دوں یا سو مرتبہ (طلاق نہیں ہو گی)۔
أَوِ الْخَلِيَّةُ أَوِ الْبَرِيَّةُ أَوْ مَا عُنِيَ بِهِ الطَّلاَقُ، فَهُوَ عَلَى نِيَّتِهِ، وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 49، وَقَالَ: وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28، وَقَالَ: فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، وَقَالَ: أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ سورة الطلاق آية 2، وَقَالَتْ عَائِشَةُ: "قَدْ عَلِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ".
یا میں نے رخصت کیا، یا یوں کہے کہ اب تو خالی ہے یا الگ ہے کہ آؤ میں تم کو اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔ اسی طرح سورۃ البقرہ میں فرمایا اسی طرح کا کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس سے طلاق بھی مراد لی جا سکتی ہے تو اس کی نیت کے مطابق طلاق ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے «وسرحوهن سراحا جميلا» انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو اور اسی سورت میں فرمایا«فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسانا» اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہے قاعدہ کے مطابق یا خوش اخلاقی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) «فراق»کا مشورہ دے ہی نہیں سکتے (یہاں «فراق» سے طلاق مراد ہے)۔
وَقَالَ الْحَسَنُ: نِيَّتُهُ، وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: إِذَا طَلَّقَ ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ فَسَمَّوْهُ حَرَامًا بِالطَّلَاقِ وَالْفِرَاقِ وَلَيْسَ هَذَا كَالَّذِي يُحَرِّمُ الطَّعَامَ لِأَنَّهُ لَا يُقَالُ لِطَعَامِ الْحِلِّ حَرَامٌ، وَيُقَالُ لِلْمُطَلَّقَةِ حَرَامٌ، وَقَالَ: فِي الطَّلَاقِ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
امام حسن بصری نے کہا کہ اس صورت میں فتویٰ اس کی نیت پر ہو گا اور اہل علم نے یوں کہا ہے کہ جب کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی۔ یہاں طلاق اور «فراق» کے الفاظ کے ذریعہ حرمت ثابت کی اور عورت کو اپنے اوپر حرام کرنا کھانے کو حرام کی طرح نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حلال کھانے کو حرام نہیں کہہ سکتے اور طلاق والی عورت کو حرام کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تین طلاق والی عورت کے لیے یہ فرمایا کہ وہ اگلے خاوند کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: "كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا، قَالَ: لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ".
اور لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر ایسے شخص کا مسئلہ پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوتی، تو وہ کہتے اگر تو ایک بار یا دو بار طلاق دیتا تو رجوع کر سکتا تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا تھا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دی تو وہ عورت اب تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا اور کسی شخص سے نکاح کرے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَهُ، فَطَلَّقَهَا، وَكَانَتْ مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ، فَلَمْ تَصِلْ مِنْهُ إِلَى شَيْءٍ تُرِيدُهُ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ طَلَّقَهَا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ زَوْجِي طَلَّقَنِي وَإِنِّي تَزَوَّجْتُ زَوْجًا غَيْرَهُ فَدَخَلَ بِي وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ الْهُدْبَةِ فَلَمْ يَقْرَبْنِي إِلَّا هَنَةً وَاحِدَةً لَمْ يَصِلْ مِنِّي إِلَى شَيْءٍ، فَأَحِلُّ لِزَوْجِي الْأَوَّلِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحِلِّينَ لِزَوْجِكِ الْأَوَّلِ حَتَّى يَذُوقَ الْآخَرُ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک شخص رفاعی نے اپنی بیوی (تمیمہ بنت وہب) کو طلاق دے دی، پھر ایک دوسرے شخص سے ان کی بیوی نے نکاح کیا لیکن انہوں نے بھی ان کو طلاق دے دی۔ ان دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزہ جیسا وہ چاہتی تھی نہیں ملا۔ آخر عبدالرحمٰن نے تھوڑے ہی دنوں رکھ کر اس کو طلاق دے دی۔ اب وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی، پھر میں نے ایک دوسرے مرد سے نکاح کیا۔ وہ میرے پاس تنہائی میں آئے لیکن ان کے ساتھ تو کپڑے کے پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کل ایک ہی بار اس نے مجھ سے صحبت کی وہ بھی بیکار (دخول ہی نہیں ہوا اوپر ہی اوپر چھو کر رہ گیا) کیا اب میں اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک دوسرا خاوند تیری شیرینی نہ چکھے۔
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ، سَمِعَ الرَّبِيعَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: "إِذَا حَرَّمَ امْرَأَتَهُ لَيْسَ بِشَيْءٍ، وَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
مجھ سے حسن بن الصباح نے بیان کیا، انہوں نے ربیع بن نافع سے سنا کہ ہم سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے یعلیٰ بن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کہا تو یہ کوئی چیز نہیں اور فرمایا کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی عمدہ پیروی ہے۔
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْتَقُلْ إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 1 - 4 لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ سورة التحريم آية 3 لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
مجھ سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد اعور نے، ان سے ابن جریج نے کہ عطاء بن ابی رباح نے یقین کے ساتھ کہا کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں ٹھہرتے تھے اور ان کے یہاں شہد پیا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے مل کر صلاح کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے جس کے یہاں بھی تشریف لائیں تو آپ سے یہ کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر (ایک خاص قسم کے بدبودار گوند) کی مہک آتی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد ہم میں سے ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے، اب دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك» کہ اے نبی! آپ وہ چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ سے «إن تتوبا إلى الله» تک۔ یہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور حفصہ رضی اللہ عنہما کی طرف خطاب ہے «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه» ۔ حدیث سے آپ کا یہی فرمانا مراد ہے کہ میں نے مغافیر نہیں کھایا بلکہ شہد پیا ہے۔
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْعَسَلَ وَالْحَلْوَاءَ، وَكَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الْعَصْرِ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْ إِحْدَاهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ فَاحْتَبَسَ أَكْثَرَ مَا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَغِرْتُ فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَقُلْتُ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: إِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَإِذَا دَنَا مِنْكِ فَقُولِي: أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ الَّتِي أَجِدُ مِنْكَ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ وَسَأَقُولُ ذَلِكِ، وَقُولِي أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ ذَاكِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَامَ عَلَى الْبَابِ فَأَرَدْتُ أَنْ أُبَادِيَهُ بِمَا أَمَرْتِنِي بِهِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهَا، قَالَتْ لَهُ سَوْدَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ ؟ قَالَ: لَا، قَالَتْ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ الَّتِي أَجِدُ مِنْكَ، قَالَ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقَالَتْ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَيَّ قُلْتُ لَهُ نَحْوَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَى صَفِيَّةَ، قَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ ؟ قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد اور میٹھی چیزیں پسند کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب واپس آتے تو اپنی ازواج کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور بعض سے قریب بھی ہوتے تھے۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر ان کے گھر ٹھہرے۔ مجھے اس پر غیرت آئی اور میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو ان کی قوم کی کسی خاتون نے انہیں شہد کا ایک ڈبہ دیا ہے اور انہوں نے اسی کا شربت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے۔ میں نے اپنے جی میں کہا: اللہ کی قسم! میں تو ایک حیلہ کروں گی، پھر میں نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں گے اور جب آئیں تو کہنا کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے مغافیر کھا رکھا ہے؟ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں انکار کریں گے۔ اس وقت کہنا کہ پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے معلوم کر رہی ہوں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے کہ حفصہ نے شہد کا شربت مجھے پلایا ہے۔ تم کہنا کہ غالباً اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہو گا۔ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہوں گی اور صفیہ تم بھی یہی کہنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جونہی دروازے پر آ کر کھڑے ہوئے تو تمہارے خوف سے میں نے ارادہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات کہوں جو تم نے مجھ سے کہی تھی۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا، پھر یہ بو کیسی ہے جو آپ کے منہ سے محسوس کرتی ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حفصہ نے مجھے شہد کا شربت پلایا ہے۔ اس پر سودہ رضی اللہ عنہ بولیں اس شہد کی مکھی نے مغافیر کے درخت کا عرق چوسا ہو گا۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے بھی یہی بات کہی اس کے بعد جب صفیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی اسی کو دہرایا۔ اس کے بعد جب پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ شہد پھر نوش فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر سودہ بولیں، واللہ! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکنے میں کامیاب ہو گئے، میں نے ان سے کہا کہ ابھی چپ رہو۔
وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 49. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "جَعَلَ اللَّهُ الطَّلَاقَ بَعْدَ النِّكَاحِ"، وَيُرْوَى فِي ذَلِكَ عَنْ عَلِيٍّ وسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وأَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وعَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وشُرَيْحٍ وسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ والقَاسِمِ وسَالِمٍ وطَاوُسٍ والْحَسَنِ وعِكْرِمَةَ وعَطَاءٍ وعَامِرِ بْنِ سَعْدٍ وجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ونَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ ومُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ وسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ومُجَاهِدٍ والْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وعَمْرِو بْنِ هَرِمٍ والشَّعْبِيِّ: أَنَّهَا لَا تَطْلُقُ.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها فمتعوهن وسرحوهن سراحا جميلا» اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو۔ قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو اب ان پر کوئی عدت ضروری نہیں ہے جسے تم شمار کرنے لگو تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے اچھی طرح رخصت کر دو۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد رکھا ہے۔ (اس کو امام احمد اور بیہقی اور ابن خزیمہ نے نکالا) اور اس سلسلے میں علی رضی اللہ عنہ، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابان بن عثمان، علی بن حسین، شریح، سعید بن جبیر، قاسم، سالم، طاؤس، حسن، عکرمہ، عطاء، عامر بن سعد، جابر بن زید، نافع بن جبیر، محمد بن کعب، سلیمان بن کعب، سلیمان بن یسار، مجاہد، قاسم بن عبدالرحمٰن، عمرو بن حزم اور شعبی رحمۃ اللہ علیہم ان سب بزرگوں سے ایسی ہی روایتیں آئی ہیں۔ سب نے یہی کہا ہے کہ طلاق نہیں پڑے گی۔
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِسَارَةَ: هَذِهِ أُخْتِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ کو کہا کہ یہ میری بہن ہے (یعنی اللہ کی راہ میں دینی بہن)۔
وَالْكُرْهِ وَالسَّكْرَانِ وَالْمَجْنُونِ وَأَمْرِهِمَا، وَالْغَلَطِ وَالنِّسْيَانِ فِي الطَّلاَقِ وَالشِّرْكِ وَغَيْرِهِ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى». وَتَلاَ الشَّعْبِيُّ: لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا وَمَا لاَ يَجُوزُ مَنْ إِقْرَارِ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّذِي أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ: «أَبِكَ جُنُونٌ». وَقَالَ عَلِيٌّ بَقَرَ حَمْزَةُ خَوَاصِرَ شَارِفَيَّ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ هَلْ أَنْتُمْ إِلاَّ عَبِيدٌ لأَبِي فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ، وَقَالَ عُثْمَانُ لَيْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَكْرَانَ طَلاَقٌ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالْمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ. وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ لاَ يَجُوزُ طَلاَقُ الْمُوَسْوِسِ. وَقَالَ عَطَاءٌ إِذَا بَدَا بِالطَّلاَقِ فَلَهُ شَرْطُهُ. وَقَالَ نَافِعٌ طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ إِنْ خَرَجَتْ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَدْ بُتَّتْ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ تَخْرُجْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِيمَنْ قَالَ إِنْ لَمْ أَفْعَلْ كَذَا وَكَذَا فَامْرَأَتِي طَالِقٌ ثَلاَثًا يُسْئَلُ عَمَّا قَالَ، وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ، حِينَ حَلَفَ بِتِلْكَ الْيَمِينِ، فَإِنْ سَمَّى أَجَلاً أَرَادَهُ وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ حِينَ حَلَفَ، جُعِلَ ذَلِكَ فِي دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ إِنْ قَالَ لاَ حَاجَةَ لِي فِيكِ. نِيَّتُهُ، وَطَلاَقُ كُلِّ قَوْمٍ بِلِسَانِهِمْ. وَقَالَ قَتَادَةُ إِذَا قَالَ إِذَا حَمَلْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ. ثَلاَثًا، يَغْشَاهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ مَرَّةً، فَإِنِ اسْتَبَانَ حَمْلُهَا فَقَدْ بَانَتْ. وَقَالَ الْحَسَنُ إِذَا قَالَ الْحَقِي بِأَهْلِكِ. نِيَّتُهُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الطَّلاَقُ عَنْ وَطَرٍ، وَالْعَتَاقُ مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ. وَقَالَ الزُّهْرِيُّ إِنْ قَالَ مَا أَنْتِ بِامْرَأَتِي. نِيَّتُهُ، وَإِنْ نَوَى طَلاَقًا فَهْوَ مَا نَوَى. وَقَالَ عَلِيٌّ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلاَثَةٍ عَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ. وَقَالَ عَلِيٌّ وَكُلُّ الطَّلاَقِ جَائِزٌ إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ.
اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا، اسی طرح بھول چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک (بعضوں نے یہاں لفظ «واشك» نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی «لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا» اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کر رہا تھا۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے (ان کے گوشت کے کباب بنائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ملامت کرنی شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں۔ انہوں نے (نشہ کی حالت میں) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا کہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں، آپ نکل کر چلے آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی (اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نشے اور زبردستی کی طلاق نہیں پڑے گی (اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا)۔ اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کا وسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی۔ اور عطاء بن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( «انت طالق») کہا اس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیا حکم ہے۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا (اسے عبدالرزاق نے نکالا)۔ اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہا تھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی (یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا (وہ جانے اس کا کام جانے)۔ اور ابراہیم نخعی نے کہا (اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا۔ اور ابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہو گی۔ اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہو جائے گی۔ اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نیت کی تو طلاق پڑ جائے گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا طلاق تو (مجبوری سے) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضا مندی کے لیے ہوتا ہے۔ اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے۔ اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑ جائے گی اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (جسے بغوی نے جعدیات میں وصل کیا) عمر! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں (یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو۔ اور علی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک کی طلاق پڑ جائے گی مگر نادان، بیوقوف (جیسے دیوانہ، نابالغ، نشہ میں مست وغیرہ) کی طلاق نہیں پڑے گی۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ". قَالَ قَتَادَةُ: إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ، فَلَيْسَ بِشَيْءٍ.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے زرارہ بن اوفی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو خیالات فاسدہ کی حد تک معاف کیا ہے، جب تک کہ اس پر عمل نہ کرے یا اسے زبان سے ادا نہ کرے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے دل میں طلاق دے دی تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا جب تک زبان سے نہ کہے۔
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرٍ، "أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لِشِقِّهِ الَّذِي أَعْرَضَ، فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَدَعَاهُ، فَقَالَ: هَلْ بِكَ جُنُونٌ ؟ هَلْ أَحْصَنْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ جَمَزَ حَتَّى أُدْرِكَ بِالْحَرَّةِ، فَقُتِلَ".
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑ لیا لیکن پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے (اور زنا کا اقرار کیا) پھر انہوں نے اپنے اوپر چار مرتبہ شہادت دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پاگل تو نہیں ہو، کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں، پھر آپ نے پوچھا کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ہو چکی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عیدگاہ پر رجم کرنے کا حکم دیا۔ جب انہیں پتھر لگا تو وہ بھاگنے لگے لیکن انہیں حرہ کے پاس پکڑا گیا اور جان سے مار دیا گیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أن أبا هريرة، قَالَ: "أَتَى رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْأَخِرَ قَدْ زَنَى يَعْنِي نَفْسَهُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لِشِقِّ وَجْهِهِ الَّذِي أَعْرَضَ قِبَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْأَخِرَ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لِشِقِّ وَجْهِهِ الَّذِي أَعْرَضَ قِبَلَهُ، فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لَهُ الرَّابِعَةَ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ دَعَاهُ، فَقَالَ: هَلْ بِكَ جُنُونٌ ؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ، وَكَانَ قَدْ أُحْصِنَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا اور عرض کیا کہ انہوں نے زنا کر لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ موڑ لیا ہے لیکن وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس رخ کی طرف مڑ گیا، جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک پھیر لیا تھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دوسرے (یعنی خود) نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس رخ کی طرف آ گیا جدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا تھا اور یہی عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان سے منہ موڑ لیا، پھر جب چوتھی مرتبہ وہ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گیا اور اپنے اوپر اس نے چار مرتبہ (زنا کی) شہادت دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم پاگل تو نہیں ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور سنگسار کرو کیونکہ وہ شادی شدہ تھے۔
وَعَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: "كُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى بِالْمَدِينَةِ، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ جَمَزَ حَتَّى أَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ فَرَجَمْنَاهُ حَتَّى مَاتَ".
اور زہری سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جنہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان صحابی کو سنگسار کیا تھا۔ ہم نے مدینہ منورہ کی عیدگاہ پر سنگسار کیا تھا۔ جب ان پر پتھر پڑا تو وہ بھاگنے لگے لیکن ہم نے انہیں حرہ میں پھر پکڑ لیا اور انہیں سنگسار کیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ: الظَّالِمُونَ سورة البقرة آية 229 وَأَجَازَ عُمَرُ الْخُلْعَ دُونَ السُّلْطَانِ، وَأَجَازَ عُثْمَانُ الْخُلْعَ دُونَ عِقَاصِ رَأْسِهَا، وَقَالَ طَاوُسٌ: إِلا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ سورة البقرة آية 229 فِيمَا افْتَرَضَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ فِي الْعِشْرَةِ وَالصُّحْبَةِ، وَلَمْ يَقُلْ قَوْلَ السُّفَهَاءِ: لَا يَحِلُّ حَتَّى تَقُولَ: لَا أَغْتَسِلُ لَكَ مِنْ جَنَابَةٍ.
اور خلع میں طلاق کیونکر پڑے گی؟ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا» کہ اور تمہارے لیے (شوہروں کے لیے) جائز نہیں کہ جو (مہر) تم انہیں (اپنی بیویوں کو) دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس لو، سوا اس صورت کے جبکہ زوجین اس کا خوف محسوس کریں کہ وہ (ایک ساتھ رہ کر) اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خلع جائز رکھا ہے۔ اس میں بادشاہ یا قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر جورو اپنے سارے مال کے بدلہ میں خلع کرے صرف جوڑا باندھنے کا دھاگہ رہنے دے تب بھی خلع کرانا درست ہے۔ طاؤس نے کہا کہ «إلا أن يخافا أن لا يقيما حدود الله» کا یہ مطلب ہے کہ جب جورو اور خاوند اپنے اپنے فرائض کو جو حسن معاشرت اور صحبت سے متعلق ہیں ادا نہ کر سکیں (اس وقت خلع کرانا درست ہے)۔ طاؤس نے ان بیوقوفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ خلع اسی وقت درست ہے جب عورت کہے کہ میں جنابت یا حیض سے غسل ہی نہیں کروں گی۔
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: لَا يُتَابَعُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
ہم سے ازہر بن جمیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی۔(کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، "أَنَّ أُخْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ بِهَذَا، وَقَالَ: تَرُدِّينَ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْهَا، وَأَمَرَهُ يُطَلِّقْهَا". وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَطَلِّقْهَا.
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے کہ عبداللہ بن ابی(منافق) کی بہن جمیلہ رضی اللہ عنہا (جو ابی کی بیٹی تھی) نے یہ بیان کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا تم ان (ثابت رضی اللہ عنہ) کا باغ واپس کر دو گی؟ انہوں نے عرض کیا ہاں کر دوں گی۔ چنانچہ انہوں نے باغ واپس کر دیا اور انہوں نے ان کے شوہر کو حکم دیا کہ انہیں طلاق دے دیں۔ اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا کہ ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور (اس روایت میں بیان کیا کہ) ان کے شوہر (ثابت رضی اللہ عنہ) نے انہیں طلاق دے دی۔
وَعَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: "جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ وَلَكِنِّي لَا أُطِيقُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ".
اور ابن ابی تمیمہ سے روایت ہے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ثابت کے دین اور ان کے اخلاق کی وجہ سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن میں ان کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر کیا تم ان کا باغ واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الْكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مبارک مخری نے کہا، کہا ہم سے قراد ابونوح نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت رضی اللہ عنہ کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ جَمِيلَةَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن یزید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے ان سے عکرمہ نے یہی قصہ (مرسلاً)نقل کیا اور اس میں خاتون کا نام جمیلہ آیا ہے۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِلَى قَوْلِهِ: خَبِيرًا سورة النساء آية 35.
اور اللہ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكما من أهله وحكما من أهلها» اگر تم میاں بیوی کی نااتفاقی سے ڈرو تو ایک پنچ مرد والوں میں سے بھیجو اور ایک پنچ عورت کی طرف سے مقرر کرو۔ (آخر آیت تک)۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ، إِحْدَى السُّنَنِ أَنَّهَا أُعْتِقَتْ، فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَلَمْ أَرَ الْبُرْمَةَ فِيهَا لَحْمٌ ؟ قَالُوا: بَلَى، وَلَكِنْ ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، قَالَ: عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے دین کے تین مسئلے معلوم ہو گئے۔ اول یہ کہ انہیں آزاد کیا گیا اور پھر ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا (کہ چاہیں ان کے نکاح میں رہیں ورنہ الگ ہو جائیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں کے بارے میں) فرمایا کہ ولاء اسی سے قائم ہوتی ہے جو آزاد کرے اور ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو ایک ہانڈی میں گوشت پکایا جا رہا تھا، پھر کھانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن پیش کیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو دیکھا کہ ہانڈی میں گوشت بھی پک رہا ہے؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں لیکن وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ نہیں کھاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے بریرہ کی طرف سے تحفہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَهَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "رَأَيْتُهُ عَبْدًا يَعْنِي زَوْجَ بَرِيرَةَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ اور ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے انہیں غلام دیکھا تھا۔ آپ کی مراد بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر (مغیث) سے تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "ذَاكَ مُغِيثٌ عَبْدُ بَنِي فُلَانٍ يَعْنِي زَوْجَ بَرِيرَةَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتْبَعُهَا فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ يَبْكِي عَلَيْهَا".
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ یہ مغیث بنی فلاں کے غلام تھے۔ آپ کا اشارہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کی طرف تھا۔ گویا اس وقت بھی میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ مدینہ کی گلیوں میں وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ عَبْدًا لِبَنِي فُلَانٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ وَرَاءَهَا فِي سِكَكِ الْمَدِينَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک حبشی غلام تھے۔ ان کا مغیث نام تھا، وہ بنی فلاں کے غلام تھے۔ جیسے وہ منظر اب بھی میری آنکھوں میں ہے کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعبَّاسٍ: يَا عَبَّاسُ، أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَاجَعْتِهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَأْمُرُنِي ؟ قَالَ: إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کاش! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، "أَنَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَأَبَى مَوَالِيهَا إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ، وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَقِيلَ: إِنَّ هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ". حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَزَادَ: فَخُيِّرَتْ مِنْ زَوْجِهَا.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں حکم نے، انہیں ابراہیم نخعی سے اور وہ اسود سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا لیکن ان کے مالکوں نے کہا کہ وہ اسی شرط پر انہیں بیچ سکتے ہیں کہ بریرہ کا ترکہ ہم لیں اور ان کے ساتھ ولاء (آزادی کے بعد) انہیں سے قائم ہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے کیا تو آپ نے فرمایا کہ انہیں خرید کر آزاد کر دو۔ ترکہ تو اسی کو ملے گا جو لونڈی غلام کو آزاد کرے اور ولاء بھی اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت لایا گیا پھر کہا کہ یہ گوشت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ کیا گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ان کا تحفہ ہے۔ ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا اور اس روایت میں یہ اضافہ کیا کہ پھر (آزادی کے بعد) انہیں ان کے شوہر کے متعلق اختیار دیا گیا(کہ چاہیں ان کے پاس رہیں اور اگر چاہیں ان سے اپنا نکاح توڑ لیں)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ نِكَاحِ النَّصْرَانِيَّةِ، وَالْيَهُودِيَّةِ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْمُشْرِكَاتِ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَلَا أَعْلَمُ مِنَ الْإِشْرَاكِ شَيْئًا أَكْبَرَ مِنْ أَنْ تَقُولَ الْمَرْأَةُ: رَبُّهَا عِيسَى وَهُوَ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر یہودی یا انصاری عورتوں سے نکاح کے متعلق سوال کیا جاتا تو وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک عورتوں سے نکاح مومنوں کے لیے حرام قرار دیا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے بڑھ کر اور کیا شرک ہو گا کہ ایک عورت یہ کہے کہ اس کے رب عیسیٰ علیہ السلام ہیں حالانکہ وہ اللہ کے مقبول بندوں میں سے ایک مقبول بندے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَقَالَ عَطَاءٌ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "كَانَ الْمُشْرِكُونَ عَلَى مَنْزِلَتَيْنِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ، كَانُوا مُشْرِكِي أَهْلِ حَرْبٍ يُقَاتِلُهُمْ وَيُقَاتِلُونَهُ وَمُشْرِكِي أَهْلِ عَهْدٍ لَا يُقَاتِلُهُمْ وَلَا يُقَاتِلُونَهُ، وَكَانَ إِذَا هَاجَرَتِ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ لَمْ تُخْطَبْ حَتَّى تَحِيضَ وَتَطْهُرَ، فَإِذَا طَهُرَتْ حَلَّ لَهَا النِّكَاحُ، فَإِنْ هَاجَرَ زَوْجُهَا قَبْلَ أَنْ تَنْكِحَ رُدَّتْ إِلَيْهِ وَإِنْ هَاجَرَ عَبْدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَمَةٌ فَهُمَا حُرَّانِ وَلَهُمَا مَا لِلْمُهَاجِرِينَ"، ثُمَّ ذَكَرَ مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ مِثْلَ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ: وَإِنْ هَاجَرَ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ أَهْلِ الْعَهْدِ لَمْ يُرَدُّوا وَرُدَّتْ أَثْمَانُهُمْ.
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے کہ عطاء راسانی نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے لیے مشرکین دو طرح کے تھے۔ ایک تو مشرکین لڑائی کرنے والوں سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے جنگ کرتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے تھے۔ دوسرے عہد و پیمان کرنے والے مشرکین کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے جنگ نہیں کرتے تھے اور نہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے تھے اور جب اہل کتاب حرب کی کوئی عورت (اسلام قبول کرنے کے بعد) ہجرت کر کے (مدینہ منورہ) آتی تو انہیں اس وقت تک پیغام نکاح نہ دیا جاتا یہاں تک کہ انہیں حیض آتا اور پھر وہ اس سے پاک ہوتیں، پھر جب وہ پاک ہو جاتیں تو ان سے نکاح جائز ہو جاتا، پھر اگر ان کے شوہر بھی، ان کے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لینے سے پہلے ہجرت کر کے آ جاتے تو یہ انہیں کو ملتیں اور اگر مشرکین میں سے کوئی غلام یا لونڈی مسلمان ہو کر ہجرت کرتی تو وہ آزاد سمجھے جاتے اور ان کے وہی حقوق ہوتے جو تمام مہاجرین کے تھے۔ پھر عطاء نے معاہد مشرکین کے سلسلے میں مجاہد کی حدیث کی طرح سے صورت حال بیان کی کہ اگر معاہد مشرکین کی کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آ جاتی تو انہیں ان کے مالک مشرکین کو واپس نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ جو ان کی قیمت ہوتی وہ واپس کر دی جاتی تھی۔
وَقَالَ عَطَاءٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: كَانَتْ قَرِيبَةُ بِنْتُ أَبِي أُمَيَّةَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَكَانَتْ أُمُّ الْحَكَمِ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ تَحْتَ عِيَاضِ بْنِ غَنْمٍ الْفِهْرِيِّ، فَطَلَّقَهَا فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمانَ الثَّقَفِيُّ.
اور عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ قریبہ بنت ابی امیہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے (مشرکین سے نکاح کی مخالفت کی آیت کے بعد) انہیں طلاق دے دی تو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے ان سے نکاح کر لیا اور ام الحکم بنت ابی سفیان عیاض بن غنم فہری کے نکاح میں تھیں، اس وقت اس نے انہیں طلاق دے دی (اور وہ مدینہ ہجرت کر کے آ گئیں) اور عبداللہ بن عثمان ثقفی نے ان سے نکاح کیا۔
وَقَالَ عَبْدُ الْوَارِثِ: عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "إِذَا أَسْلَمَتِ النَّصْرَانِيَّةُ قَبْلَ زَوْجِهَا بِسَاعَةٍ حَرُمَتْ عَلَيْهِ".
اور عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اگر کوئی نصرانی عورت اپنے شوہر سے تھوڑی دیر پہلے اسلام لائی تو وہ اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور داؤد نے بیان کیا کہ ان سے ابراہیم الصائغ نے کہ عطاء سے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جو ذمی قوم سے تعلق رکھتی ہو اور اسلام قبول کر لے، پھر اس کے بعد اس کا شوہر بھی اس کی عدت کے زمانہ ہی میں اسلام لے آئے تو کیا وہ اسی کی بیوی سمجھی جائے گی؟ فرمایا کہ نہیں البتہ اگر وہ نیا نکاح کرنا چاہے، نئے مہر کے ساتھ (تو کر سکتا ہے) مجاہد نے فرمایا کہ (بیوی کے اسلام لانے کے بعد) اگر شوہر اس کی عدت کے زمانہ میں ہی اسلام لے آیا تو اس سے نکاح کر لینا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «لا هن حل لهم ولا هم يحلون لهن» کہ نہ مومن عورتیں مشرک مردوں کے لیے حلال ہیں اور نہ مشرک مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ اور حسن اور قتادہ نے دو مجوسیوں کے بارے میں (جو میاں بیوی تھے) جو اسلام لے آئے تھے، کہا کہ وہ دونوں اپنے نکاح پر باقی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے (اسلام میں)سبقت کر جائے اور دوسرا انکار کر دے تو عورت اپنے شوہر سے جدا ہو جاتی ہے اور شوہر اسے حاصل نہیں کر سکتا (سوا نکاح جدید کے)اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ مشرکین کی کوئی عورت (اسلام قبول کرنے کے بعد) اگر مسلمانوں کے پاس آئے تو کیا اس کے مشرک شوہر کو اس کا مہر واپس کر دیا جائے گا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «وأتوهم ما أنفقوا» اور انہیں وہ واپس کر دو جو انہوں نے خرچ کیا ہو۔ عطاء نے فرمایا کہ نہیں، یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور معاہد مشرکین کے درمیان تھا اور مجاہد نے فرمایا کہ یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان باہمی صلح کی وجہ سے تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كَانَتِ الْمُؤْمِنَاتُ إِذَا هَاجَرْنَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْمِحْنَةِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْرَرْنَ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ، قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْطَلِقْنَ فَقَدْ بَايَعْتُكُنَّ، لَا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ، غَيْرَ أَنَّهُ بَايَعَهُنَّ بِالْكَلَامِ، وَاللَّهِ مَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النِّسَاءِ إِلَّا بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ: يَقُولُ لَهُنَّ: إِذَا أَخَذَ عَلَيْهِنَّ قَدْ بَايَعْتُكُنَّ كَلَامًا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مومن عورتیں جب ہجرت کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں آزماتے تھے بوجہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے «يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لے آئے ہو، جب مومن عورتیں تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو انہیں آزماؤ ۔ آخر آیت تک۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ان (ہجرت کرنے والی) مومن عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتی (جس کا ذکر اسی سورۃ الممتحنہ میں ہے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گی ) تو وہ آزمائش میں پوری سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ جب وہ اس کا اپنی زبان سے اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے کہ اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ ہرگز نہیں! واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے (بیعت لیتے وقت) کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے صرف زبان سے (بیعت لیتے تھے)۔ واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے صرف انہیں چیزوں کا عہد لیا جن کا اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔ یہ آپ صرف زبان سے کہتے کہ میں نے تم سے بیعت لے لی۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: "آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ وَكَانَتِ انْفَكَّتْ رِجْلُهُ، فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ نَزَلَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی عبدالحمید نے، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے حمید طویل نے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالا خانہ میں انتیس دن تک قیام فرمایا، پھر آپ وہاں سے اترے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يَقُولُ فِي الْإِيلَاءِ الَّذِي سَمَّى اللَّهُ: "لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدَ الْأَجَلِ إِلَّا أَنْ يُمْسِكَ بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يَعْزِمَ بِالطَّلَاقِ كَمَا أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ". وقَالَ لِي إِسْمَاعِيلُ: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، "إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ حَتَّى يُطَلِّقَ وَلَا يَقَعُ عَلَيْهِ الطَّلَاقُ حَتَّى يُطَلِّقَ"، وَيُذْكَرُ ذَلِكَ عَنْ عُثْمَانَ، وعَلِيٍّ، وأَبِي الدَّرْدَاءِ، وعَائِشَةَ، واثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اس ایلاء کے بارے میں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، فرماتے تھے کہ مدت پوری ہونے کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں، سوا اس کے کہ قاعدہ کے مطابق (اپنی بیوی کو) اپنے پاس ہی روک لے یا پھر طلاق دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا کہ ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ چار مہینے گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ طلاق دیدے اور طلاق اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک طلاق دی نہ جائے اور عثمان، علی، ابودرداء اور عائشہ اور بارہ دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
وَقَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: "إِذَا فُقِدَ فِي الصَّفِّ عِنْدَ الْقِتَالِ تَرَبَّصُ امْرَأَتُهُ سَنَةً وَاشْتَرَى ابْنُ مَسْعُودٍ جَارِيَةً وَالْتَمَسَ صَاحِبَهَا سَنَةً، فَلَمْ يَجِدْهُ وَفُقِدَ، فَأَخَذَ يُعْطِي الدِّرْهَمَ وَالدِّرْهَمَيْنِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَنْ فُلَانٍ فَإِنْ أَتَى فُلَانٌ فَلِي وَعَلَيَّ، وَقَالَ: هَكَذَا فَافْعَلُوا بِاللُّقَطَةِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي الْأَسِيرِ: يُعْلَمُ مَكَانُهُ لَا تَتَزَوَّجُ امْرَأَتُهُ وَلَا يُقْسَمُ مَالُهُ، فَإِذَا انْقَطَعَ خَبَرُهُ فَسُنَّتُهُ سُنَّةُ الْمَفْقُودِ".
اور ابن المسیب نے کہا جب جنگ کے وقت صف سے اگر کوئی شخص گم ہوا تو اس کی بیوی کو ایک سال اس کا انتظار کرنا چاہیئے (اور پھر اس کے بعد دوسرا نکاح کرنا چاہے)۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی کسی سے خریدی (اصل مالک قیمت لیے بغیر کہیں چلا گیا اور گم ہو گیا) تو آپ نے اس کے پہلے مالک کو ایک سال تک تلاش کیا، پھر جب وہ نہیں ملا تو (غریبوں کو اس لونڈی کی قیمت میں سے) ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! یہ فلاں کی طرف سے ہے (جو اس کا پہلا مالک تھا اور جو قیمت لیے بغیر کہیں گم ہو گیا تھا) پھر اگر وہ (آنے کے بعد) اس صدقہ سے انکار کرے گا (اور قیمت کا مطالبہ کرے گا تو اس کا ثواب) مجھے ملے گا اور لونڈی کی قیمت کی ادائیگی مجھ پر واجب ہو گی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح تم لقطہٰ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو راستے میں پڑی ہوئی کسی کو مل جائے، کے ساتھ کیا کرو۔ زہری نے ایسے قیدی کے بارے میں جس کی جائے قیام معلوم ہو، کہا کہ اس کی بیوی دوسرا نکاح نہ کرے اور نہ اس کا مال تقسیم کیا جائے، پھر اس کی خبر ملنی بند ہو جائے تو اس کا معاملہ بھی مفقود الخبر کی طرح ہو جاتا ہے۔
وَقَالَ لِي إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ يُوقَفُ حَتَّى يُطَلِّقَ، وَلاَ يَقَعُ عَلَيْهِ الطَّلاَقُ حَتَّى يُطَلِّقَ. وَيُذْكَرُ ذَلِكَ عَنْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَعَائِشَةَ وَاثْنَيْ عَشَرَ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے اسماعیل نے بیان کہا کہ ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب چار مہینے گذر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ طلاق دیدے، اور طلاق اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک طلاق دی نہ جائے، اور عثمان، علی، ابودرداء اور عائشہ اور بارہ دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ ؟ فَقَالَ: خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا الْحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ تَشْرَبُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ: اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ". قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ سُفْيَانُ: وَلَمْ أَحْفَظْ عَنْهُ شَيْئًا غَيْرَ هَذَا، فَقُلْتُ: أَرَأَيْتَ حَدِيثَ يَزِيدَ مَوْلَى المُنْبَعِثِ فِي أَمْرِ الضَّالَّةِ هُوَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ يَحْيَى: وَيَقُولُ رَبِيعَةُ: عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ سُفْيَانُ: فَلَقِيتُ رَبِيعَةَ فَقُلْتُ لَهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے منبعث کے مولیٰ یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ یا وہ تمہاری ہو گی (اگر ایک سال تک اعلان کے بعد اس کا مالک نہ ملا)۔ تمہارے کسی بھائی کی ہو گی یا پھر بھیڑیے کی ہو گی (اگر انہی جنگلوں میں پھرتی رہی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئے ہوئے اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ ہو گئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس سے کیا غرض! اس کے پاس (مضبوط) کھر ہیں (جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہو گی) اس کے پاس مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رسی کا (جس سے وہ بندھا ہو) اور اس کے ظرف کا (جس میں وہ رکھا ہو) اعلان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اگر کوئی ایسا شخص آ جائے جو اسے پہچانتا ہو (اور اس کا مالک ہو تو اسے دے دو) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ پھر میں ربیعہ بن عبدالرحمٰن سے ملا اور مجھے ان سے اس کے سوا اور کوئی چیز محفوظ نہیں ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ گم شدہ چیزوں کے بارے میں منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ زید بن خالد سے منقول ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں (سفیان نے بیان کیا کہ ہاں) یحییٰ نے بیان کیا کہ ربیعہ نے منبعث کے مولیٰ یزید سے بیان کیا، ان سے زید بن خالد نے۔ سفیان نے بیان کیا کہ پھر میں نے ربیعہ سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق پوچھا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا إِلَى قَوْلِهِ: فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا سورة المجادلة آية 1 - 4. وَقَالَ لِي إِسْمَاعِيلُ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ، عَنْ ظِهَارِ الْعَبْدِ، فَقَالَ: نَحْوَ ظِهَارِ الْحُرِّ، قَالَ مَالِكٌ: وَصِيَامُ الْعَبْدِ شَهْرَانِ، وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ: ظِهَارُ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ مِنَ الْحُرَّةِ وَالْأَمَةِ سَوَاءٌ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: إِنْ ظَاهَرَ مِنْ أَمَتِهِ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا الظِّهَارُ مِنَ النِّسَاءِ وَفِي الْعَرَبِيَّةِ لِمَا قَالُوا أَيْ فِيمَا قَالُوا، وَفِي بَعْضِ مَا قَالُوا: وَهَذَا أَوْلَى لِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَدُلَّ عَلَى الْمُنْكَرِ وَقَوْلِ الزُّورِ.
اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ المجادلہ میں فرمانا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے، اپنے شوہر کے بارے میں بحث کرتی تھی۔ آیت«فمن لم يستطع فإطعام ستين مسكينا» تک، اور مجھ سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے ابن شہاب سے کسی نے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ اس کا ظہار بھی آزاد کے ظہار کی طرح ہو گا۔ امام مالک نے بیان کیا کہ غلام روزے دو مہینے کے رکھے گا۔ حسن بن حر نے کہا کہ آزاد مرد یا غلام کا ظہار آزاد عورت یا لونڈی سے یکساں ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی سے ظہار کرے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ظہار اپنی بیویوں سے ہوتا ہے اور عربی زبان میں «لام فى» کے معنوں میں آتا ہے تو «يعودون لما قالوا» کا یہ معنی ہو گا کہ پھر اس عورت کو رکھنا چاہیں اور ظہار کے کلمہ کو باطل کرنا اور یہ ترجمہ اس سے بہتر ہے کیونکہ ظہار کو اللہ نے بری بات اور جھوٹ فرمایا ہے اس کو دہرانے کے لیے کیسے کہے گا۔
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يُعَذِّبُ اللَّهُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا، فَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ"، وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: أَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَيْ خُذْ النِّصْفَ، وَقَالَتْ أَسْمَاءُ: "صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكُسُوفِ، فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا شَأْنُ النَّاسِ وَهِيَ تُصَلِّي ؟ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى الشَّمْسِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ"، وَقَالَ أَنَسٌ: أَوْمَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَتَقَدَّمَ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَوْمَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ لَا حَرَجَ، وَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ: "آحَدٌ مِنْكُمْ أَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ عَلَيْهَا أَوْ أَشَارَ إِلَيْهَا، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَكُلُوا".
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو پر عذاب نہیں دے گا لیکن اس پر عذاب دے گا، اس وقت آپ نے زبان کی طرف اشارہ کیا (کہ نوحہ عذاب الٰہی کا باعث ہے)۔ اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک قرض کے سلسلہ میں جو میرا ایک صاحب پر تھا) میری طرف اشارہ کیا کہ آدھا لے لو(اور آدھا چھوڑ دو)۔ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھ رہے تھے (میں پہنچی اور) عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز پڑھ رہی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے سر سے سورج کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ سورج گرہن کی نماز ہے) میں نے کہا، کیا یہ کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اپنے سر کے اشارہ سے بتایا کہ ہاں اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ آگے بڑھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ کوئی حرج نہیں اور ابوقتادہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شکار کے سلسلے میں دریافت فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے شکاری کو شکار مارنے کے لیے کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر (اس کا گوشت) کھاؤ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعِيرِهِ، وَكَانَ كُلَّمَا أَتَى عَلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ وَكَبَّرَ، وَقَالَتْ زَيْنَبُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فُتِحَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَعَقَدَ تِسْعِينَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رکن کے پاس آتے تو اس کی طرف اشارہ کر کے تکبیر کہتے اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج کے دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنایا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَسَأَلَ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ"، وَقَالَ بِيَدِهِ وَوَضَعَ أُنْمُلَتَهُ عَلَى بَطْنِ الْوُسْطَى وَالْخِنْصِرِ، قُلْنَا: يُزَهِّدُهَا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن علقمہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے جو مسلمان بھی اس وقت کھڑا نماز پڑھے اور اللہ سے کوئی خیر مانگے تو اللہ اسے ضرور دے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس ساعت کی وضاحت کرتے ہوئے) اپنے دست مبارک سے اشارہ کیا اور اپنی انگلیوں کو درمیانی انگلی اور چھوٹی انگلی کے بیچ میں رکھا جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ اس ساعت کو بہت مختصر ہونے کو بتا رہے ہیں۔
وَقَالَ الْأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "عَدَا يَهُودِيٌّ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَارِيَةٍ، فَأَخَذَ أَوْضَاحًا كَانَتْ عَلَيْهَا، وَرَضَخَ رَأْسَهَا، فَأَتَى بِهَا أَهْلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ فِي آخِرِ رَمَقٍ وَقَدْ أُصْمِتَتْ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَتَلَكِ ؟ فُلَانٌ لِغَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ لَا، قَالَ: فَقَالَ لِرَجُلٍ آخَرَ غَيْرِ الَّذِي قَتَلَهَا، فَأَشَارَتْ أَنْ لَا، فَقَالَ: فَفُلَانٌ لِقَاتِلِهَا، فَأَشَارَتْ أَنْ نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُضِخَ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
اور اویسی نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے ہشام بن یزید نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لڑکی پر ظلم کیا، اس کے چاندی کے زیورات جو وہ پہنے ہوئے تھی چھین لیے اور اس کا سر کچل دیا۔ لڑکی کے گھر والے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو اس کی زندگی کی بس آخری گھڑی باقی تھی اور وہ بول نہیں سکتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ فلاں نے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ سے غیر متعلق آدمی کا نام لیا۔ اس لیے اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے شخص کا نام لیا اور وہ بھی اس واقعہ سے غیر متعلق تھا تو لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا کہ نہیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ تو اس لڑکی نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ: "الْفِتْنَةُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَشَارَ إِلَى الْمَشْرِقِ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فتنہ ادھر سے اٹھے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: "كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ لِرَجُلٍ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لِي، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ، فَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ، فَقَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق شیبانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی اوفی نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ جب سورج ڈوب گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی (بلال رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ اتر کر میرے لیے ستو گھول (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے) انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اندھیرا ہونے دیں تو بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ اتر کر ستو گھول۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ اور اندھیرا ہو لینے دیں تو بہتر ہے، ابھی دن باقی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اترو اور ستو گھول لو۔ آخر تیسری مرتبہ کہنے پر انہوں نے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ستو گھولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا، پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار کو افطار کر لینا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ"، أَوْ قَالَ: "أَذَانُهُ مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّمَا يُنَادِي"، أَوْ قَالَ: "يُؤَذِّنُ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ"وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ كَأَنَّهُ يَعْنِي الصُّبْحَ أَوِ الْفَجْرَ، وَأَظْهَرَ يَزِيدُ يَدَيْهِ، ثُمَّ مَدَّ إِحْدَاهُمَا مِنَ الْأُخْرَى.
ہم سے عبداللہ بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سلیمان تیمی نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کو (سحری کھانے سے) بلال کی پکار نہ روکے یا آپ نے فرمایا کہ ان کی اذان کیونکہ وہ پکارتے ہیں، یا فرمایا، اذان دیتے ہیں تاکہ اس وقت نماز پڑھنے والا رک جائے۔ اس کا اعلان سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ صبح صادق ہو گئی۔ اس وقت یزید بن زریع نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے (صبح کاذب کی صورت بتانے کے لیے) پھر ایک ہاتھ کو دوسرے پر پھیلایا (صبح صادق کی صورت کے اظہار کے لیے)۔
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُنْفِقِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ لَدُنْ ثَدْيَيْهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَأَمَّا الْمُنْفِقُ فَلَا يُنْفِقُ شَيْئًا إِلَّا مَادَّتْ عَلَى جِلْدِهِ حَتَّى تُجِنَّ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَأَمَّا الْبَخِيلُ فَلَا يُرِيدُ يُنْفِقُ إِلَّا لَزِمَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَوْضِعَهَا فَهُوَ يُوسِعُهَا فَلَا تَتَّسِعُ"، وَيُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ إِلَى حَلْقِهِ.
اور لیث نے بیان کیا کہ ان سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخیل اور سخی کی مثال دو آدمیوں جیسی ہے جن پر لوہے کی دو زرہیں سینے سے گردن تک ہیں۔ سخی جب بھی کوئی چیز خرچ کرتا ہے تو زرہ اس کے چمڑے پر ڈھیلی ہو جاتی ہے اور اس کے پاؤں کی انگلیوں تک پہنچ جاتی ہے (اور پھیل کر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ) اس کے نشان قدم کو مٹاتی چلتی ہے لیکن بخیل جب بھی خرچ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ کا ہر حلقہ اپنی اپنی جگہ چمٹ جاتا ہے، وہ اسے ڈھیلا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ ڈھیلا نہیں ہوتا۔ اس وقت آپ نے اپنی انگلی سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ إِلَى قَوْلِهِ: إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 - 9 فَإِذَا قَذَفَ الْأَخْرَسُ امْرَأَتَهُ بِكِتَابَةٍ أَوْ إِشَارَةٍ أَوْ بِإِيمَاءٍ مَعْرُوفٍ فَهُوَ كَالْمُتَكَلِّمِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَازَ الْإِشَارَةَ فِي الْفَرَائِضِ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا سورة مريم آية 29، وَقَالَ الضَّحَّاكُ: إِلا رَمْزًا سورة آل عمران آية 41 إِلَّا إِشَارَةً، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَا حَدَّ وَلَا لِعَانَ، ثُمَّ زَعَمَ: أَنَّ الطَّلَاقَ بِكِتَابٍ أَوْ إِشَارَةٍ أَوْ إِيمَاءٍ جَائِزٌ وَلَيْسَ بَيْنَ الطَّلَاقِ وَالْقَذْفِ فَرْقٌ، فَإِنْ قَالَ: الْقَذْفُ لَا يَكُونُ إِلَّا بِكَلَامٍ، قِيلَ لَهُ: كَذَلِكَ الطَّلَاقُ لَا يَجُوزُ إِلَّا بِكَلَامٍ، وَإِلَّا بَطَلَ الطَّلَاقُ وَالْقَذْفُ، وَكَذَلِكَ الْعِتْقُ وَكَذَلِكَ الْأَصَمُّ يُلَاعِنُ. وَقَالَ الشَّعْبِيُّ وَقَتَادَةُ إِذَا قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ. فَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ، تَبِينُ مِنْهُ بِإِشَارَتِهِ. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ الأَخْرَسُ إِذَا كَتَبَ الطَّلاَقَ بِيَدِهِ لَزِمَهُ. وَقَالَ حَمَّادٌ الأَخْرَسُ وَالأَصَمُّ إِنْ قَالَ بِرَأْسِهِ جَازَ.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) فرمایا «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس ان کی ذات کے سوا کوئی گواہ نہ ہو۔ آخر آیت «من الصادقين» تک۔ اگر گونگا اپنی بیوی پر لکھ کر، اشارہ سے یا کسی مخصوص اشارہ سے تہمت لگائے تو اس کی حیثیت بولنے والے کی سی ہو گی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض میں اشارہ کو جائز قرار دیا ہے اور یہی بعض اہل حجاز اور بعض دوسرے اہل علم کا فتویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فأشارت إليه قالوا كيف نكلم من كان في المهد صبيا» اور (مریم علیہا السلام نے) ان کی (عیسیٰ علیہ السلام) طرف اشارہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ ہم اس سے کس طرح گفتگو کر سکتے ہیں جو ابھی گہوارہ میں بچہ ہے۔ اور ضحاک نے کہا کہ «إلا رمزا» بمعنی «إشارة.» ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ( «إشارة.» سے) حد اور لعان نہیں ہو سکتی ہے۔ جبکہ وہ یہ مانتے ہیں کہ طلاق کتابت، اشارہ اور ایماء سے ہو سکتی ہے۔ حالانکہ طلاق اور تہمت صرف کلام ہی کے ذریعہ مانی جائے گی تو ان سے کہا جائے گا کہ پھر یہی صورت طلاق میں بھی ہونی چاہیئے اور وہ بھی صرف کلام ہی کے ذریعہ معتبر مانا جانا چاہیئے ورنہ طلاق اور تہمت (اگر اشارہ سے ہو) تو سب کو باطل ماننا چاہیئے اور (اشارہ سے غلام کی) آزادی کا بھی یہی حشر ہو گا اور یہی صورت لعان کرنے والے گونگے کے ساتھ بھی پیش آئے گی۔ اور شعبی اور قتادہ نے بیان کیا کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے اور اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا تو وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی۔ ابراہیم نے کہا کہ گونگا اگر طلاق اپنے ہاتھ سے لکھے تو وہ پڑ جاتی ہے۔ حماد نے کہا کہ گونگے اور بہرے اپنے سر سے اشارہ کریں تو جائز ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَنُو النَّجَّارِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ بَنُو سَاعِدَةَ، ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ فَقَبَضَ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ بَسَطَهُنَّ كَالرَّامِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے اور انہوں نے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بتاؤں کہ قبیلہ انصار کا سب سے بہتر گھرانہ کون سا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ضرور بتائیے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو نجار کا۔ اس کے بعد ان کا مرتبہ ہے جو ان سے قریب ہیں یعنی بنو عبدالاشہل کا، ان کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنی الحارث بن خزرج کا۔ اس کے بعد وہ ہیں جو ان سے قریب ہیں، بنو ساعدہ کا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنی مٹھی بند کی، پھر اسے اس طرح کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھ کی چیز کو پھینکتا ہے پھر فرمایا کہ انصار کے ہر گھرانہ میں خیر ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، أَوْ كَهَاتَيْنِ، وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ابوحازم نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری بعثت قیامت سے اتنی قریب ہے جیسے اس کی اس سے (یعنی شہادت کی انگلی بیچ کی انگلی سے) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (راوی کو شک تھا) کہ جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں اور آپ نے شہادت کی اور بیچ کی انگلیوں کو ملا کر بتایا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي ثَلَاثِينَ، ثُمَّ قَالَ: وَهَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي تِسْعًا وَعِشْرِينَ، يَقُولُ مَرَّةً ثَلَاثِينَ وَمَرَّةً تِسْعًا وَعِشْرِينَ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جبلہ بن سحیم نے بیان کیا، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ اتنے، اتنے اور اتنے دنوں کا ہوتا ہے۔ آپ کی مراد تیس دن سے تھی۔ پھر فرمایا اور اتنے، اتنے اور اتنے دنوں کا بھی ہوتا ہے۔ آپ کا اشارہ انتیس دنوں کی طرف تھا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس کی طرف اشارہ کیا اور دوسری مرتبہ انتیس کی طرف۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: "وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ الْإِيمَانُ هَا هُنَا مَرَّتَيْنِ، أَلَا وَإِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ رَبِيعَةَ وَمُضَرَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ برکتیں ادھر ہیں۔ دو مرتبہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا) ہاں اور سختی اور قساوت قلب ان کی کرخت آواز والوں میں ہے جہاں سے شیطان کی دونوں سینگیں طلوع ہوتی ہیں یعنی ربیعہ اور مضر میں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا".
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالعزیز بن ابی حازم نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ کھلی رکھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ لِي غُلَامٌ أَسْوَدُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا أَلْوَانُهَا ؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنَّى ذَلِكَ ؟ قَالَ: لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ: فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے یہاں تو کالا کلوٹا بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ بھی ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سرخ رنگ کے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ان میں کوئی سیاہی مائل سفید اونٹ بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر یہ کہاں سے آ گیا؟ انہوں نے کہا کہ اپنی نسل کے کسی بہت پہلے کے اونٹ پر یہ پڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح تمہارا یہ لڑکا بھی اپنی نسل کے کسی دور کے رشتہ دار پر پڑا ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَذَفَ امْرَأَتَهُ فَأَحْلَفَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ نے کہقبیلہ انصار کے ایک صحابی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی سے قسم کھلوائی اور پھر دونوں میں جدائی کرا دی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، "أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، فَجَاءَ فَشَهِدَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، کہا کہ ہم سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی، پھر وہ آئے اور گواہی دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی (جو واقعی گناہ کا مرتکب ہوا ہو)رجوع کرے گا؟ اس کے بعد ان کی بیوی کھڑی ہوئیں اور انہوں نے گواہی دی اپنے بَری ہونے کی۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، "أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ تَلَاعُنِهِمَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
ہم سے اسماعیل بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی نے خبر دی کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی انصاری کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ عاصم آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے تو کیا اسے قتل کر دے گا لیکن پھر آپ لوگ اسے بھی قتل کر دیں گے۔ آخر اسے کیا کرنا چاہیئے؟ عاصم! میرے لیے یہ مسئلہ پوچھ دو۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا۔ نبی کریم نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اظہار ناگواری کیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اس کا بہت اثر لیا۔ پھر جب گھر واپس آئے تو عویمر ان کے پاس آئے اور پوچھا۔ عاصم! آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا جواب دیا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا، عویمر! تم نے میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں کیا، جو مسئلہ تم نے پوچھا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک میں یہ مسئلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہ کر لوں، باز نہیں آؤں گا۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت صحابہ کے درمیان میں موجود تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا اس شخص کے متعلق کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا اسے قتل کر دے؟ لیکن پھر آپ لوگ اسے (قصاص) میں قتل کر دیں گے، تو پھر اسے کیا کرنا چاہیئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں ابھی وحی نازل ہوئی ہے۔ جاؤ اور اپنی بیوی کو لے کر آؤ۔ سہل نے بیان کیا کہ پھر ان دونوں نے لعان کیا۔ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت موجود تھا۔ جب لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر اب بھی میں اسے (اپنی بیوی کو) اپنے ساتھ رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے انہیں تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی دے دیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر لعان کرنے والوں کے لیے سنت طریقہ مقرر ہو گیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنِ الْمُلَاعَنَةِ وَعَنِ السُّنَّةِ فيها، عَنْ حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَخِي بَنِي سَاعِدَةَ، "أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي شَأْنِهِ مَا ذَكَرَ فِي الْقُرْآنِ مِنْ أَمْرِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ قَضَى اللَّهُ فِيكَ وَفِي امْرَأَتِكَ، قَالَ: فَتَلَاعَنَا فِي الْمَسْجِدِ وَأَنَا شَاهِدٌ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ فَرَغَا مِنَ التَّلَاعُنِ، فَفَارَقَهَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَاكَ تَفْرِيقٌ بَيْنَ كُلِّ مُتَلَاعِنَيْنِ. قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتِ السُّنَّةُ بَعْدَهُمَا أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَكَانَتْ حَامِلًا وَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى لِأُمِّهِ، قَالَ: ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي مِيرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَيَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أُرَاهَا إِلَّا قَدْ صَدَقَتْ وَكَذَبَ عَلَيْهَا، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْمَكْرُوهِ مِنْ ذَلِكَ".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے لعان کے بارے میں اور یہ کہ شریعت کی طرف سے اس کا سنت طریقہ کیا ہے، خبر دی بنی ساعدہ کے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس شخص کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے، کیا وہ اسے قتل کر دے یا اسے کیا کرنا چاہیئے؟ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی وہ آیت نازل کی جس میں لعان کرنے والوں کے لیے تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیوی کے بارے میں فیصلہ کر دیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر دونوں نے مسجد میں لعان کیا، میں اس وقت وہاں موجود تھا۔ جب دونوں لعان سے فارغ ہوئے تو انصاری صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اب بھی میں اسے اپنے نکاح میں رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی۔ چنانچہ لعان سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی انہیں تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہی انہیں جدا کر دیا۔ (سہل نے یا ابن شہاب نے) کہا کہ ہر لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان یہی جدائی کا سنت طریقہ مقرر ہوا۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ ان کے بعد شریعت کی طرف سے طریقہ یہ متعین ہوا کہ دو لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی جایا کرے۔ اور وہ عورت حاملہ تھی۔ اور ان کا بیٹا اپنی ماں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ بیان کیا کہ پھر ایسی عورت کے میراث کے بارے میں بھی یہ طریقہ شریعت کی طرف سے مقرر ہو گیا کہ بچہ اس کا وارث ہو گا اور وہ بچہ کی وارث ہو گی۔ اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سلسلہ میں فرض کیا ہے۔ ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے، اسی حدیث میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر (لعان کرنے والی خاتون) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جیسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔ (عورت جھوٹی ہے) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا (یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بدنام ہوئی تھی)۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّهُ ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ، كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَجَاءَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ فَلَاعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا. قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ ؟ فَقَالَ: لَا، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ. قَالَ أَبُو صَالِحٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ: آدَمَ خَدِلًا.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لعان کا ذکر ہوا اور عاصم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں کوئی بات کہی (کہ میں اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو وہیں قتل کر دوں) اور چلے گئے، پھر ان کی قوم کے ایک صحابی (عویمر رضی اللہ عنہ) ان کے پاس آئے یہ شکایت لے کر کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے آج یہ ابتلاء میری اسی بات کی وجہ سے ہوا ہے (جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہی تھی) پھر وہ انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ واقعہ بتایا جس میں ملوث اس صحابی نے اپنی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت والے (پتلے دبلے) اور سیدھے بال والے تھے اور جس کے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ (تنہائی میں) پایا، وہ گھٹے ہوئے جسم کا، گندمی اور بھرے گوشت والا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس معاملہ کو صاف کر دے۔ چنانچہ اس عورت نے بچہ اسی مرد کی شکل کا جنا جس کے متعلق شوہر نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کے درمیان لعان کرایا۔ ایک شاگرد نے مجلس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا یہی وہ عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت کے سنگسار کر سکتا تو اس عورت کو سنگسار کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں (یہ جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس عورت کے متعلق فرمایا تھا جس کی بدکاری اسلام کے زمانہ میں کھل گئی تھی۔ ابوصالح اور عبداللہ بن یوسف نے اس حدیث میں بجائے «خدلا.» کے کسرہ کے ساتھ دال «خدلا.» روایت کیا ہے لیکن معنی وہی ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ"رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: فَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ فَأَبَيَا، وَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ فَأَبَيَا، فَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا". قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: إِنَّ فِي الْحَدِيثِ شَيْئًا لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي، قَالَ: قِيلَ: لَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل نے خبر دی، انہیں ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کا حکم پوچھا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان ایسی صورت میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ تو کیا تم میں سے ایک (جو واقعی گناہ میں مبتلا ہو) رجوع کرے گا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کر دی۔ اور بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے فرمایا کہ حدیث کے بعض اجزاء میرا خیال ہے کہ میں نے ابھی تم سے بیان نہیں کئے ہیں۔ فرمایا کہ ان صاحب نے (جنہوں نے لعان کیا تھا) کہا کہ میرے مال کا کیا ہو گا (جو میں نے مہر میں دیا تھا) بیان کیا کہ اس پر ان سے کہا گیا کہ وہ مال (جو عورت کو مہر میں دیا تھا) اب تمہارا نہیں رہا۔ اگر تم سچے ہو (اس تہمت لگانے میں تب بھی کیونکہ)تم اس عورت کے پاس تنہائی میں جا چکے ہو اور اگر تم جھوٹے ہو تب تو تم کو اور بھی مہر نہ ملنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ حَدِيثِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ: "حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا، قَالَ: مَالِي ؟ قَالَ: لَا مَالَ لَكَ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَاكَ أَبْعَدُ لَكَ"، قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو. وَقَالَ أَيُّوبُ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ لَاعَنَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ، وَفَرَّقَ سُفْيَانُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، فَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: "اللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"، قَالَ سُفْيَانُ: حَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو وأَيُّوبَ كَمَا أَخْبَرْتُكَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے لعان کرنے والوں کا حکم پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہارا حساب تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے ایک جھوٹا ہے۔ اب تمہیں تمہاری بیوی پر کوئی اختیار نہیں۔ ان صحابی نے عرض کیا کہ میرا مال واپس کرا دیجئیے (جو مہر میں دیا گیا تھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں ہے۔ اگر تم اس کے معاملہ میں سچے ہو تو تمہارا یہ مال اس کے بدلہ میں ختم ہو چکا کہ تم نے اس کی شرمگاہ کو حلال کیا تھا اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی پھر تو وہ تم سے بعید تر ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ یہ حدیث میں نے عمرو سے یاد کی اور ایوب نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے اپنی بیوی سے لعان کیا ہو تو آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کیا۔ سفیان نے اس اشارہ کو اپنی دو شہادت اور بیچ کی انگلیوں کو جدا کر کے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی کے درمیان جدائی کرائی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کر لے گا؟ آپ نے تین مرتبہ یہ فرمایا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ سفیان بن عیینہ نے مجھ سے کہا، میں نے یہ حدیث جیسے عمرو بن دینار اور ایوب سے سن کر یاد رکھی تھی ویسی ہی تجھ سے بیان کر دی۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَرَّقَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَةٍ قَذَفَهَا وَأَحْلَفَهُمَا".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تھی جنہوں نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تھی اور دونوں سے قسم لی تھی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "لَاعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، کہا مجھے نافع نے خبر دی اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب اور ان کی بیوی کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرایا تھا اور دونوں کے درمیان جدائی کرا دی تھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاعَنَ بَيْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَتِهِ، فَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہ ہم سے مالک نے، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب اور ان کی بیوی کے درمیان لعان کرایا تھا۔ پھر ان صاحب نے اپنی بیوی کے لڑکے کا انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور لڑکا عورت کو دے دیا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: "ذُكِرَ الْمُتَلَاعِنَانِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَذَكَرَ لَهُ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا، قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبْطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ خَدْلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، جَعْدًا، قَطَطًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ لَرَجَمْتُ هَذِهِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا، تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ السُّوءَ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن قاسم نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ لعان کرنے والوں کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوا تو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس پر ایک بات کہی (کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو پاؤں تو وہیں قتل کر ڈالوں) پھر واپس آئے تو ان کی قوم کے ایک صاحب ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس معاملہ میں میرا یہ ابتلاء میری اس بات کی وجہ سے ہوا ہے (جس کے کہنے کی جرات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کی تھی) پھر وہ ان صاحب کو ساتھ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت سے مطلع کیا جس میں انہوں نے اپنی بیوی کو پایا تھا۔ یہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت والے اور سیدھے بالوں والے تھے اور وہ جسے انہوں نے اپنی بیوی کے پاس پایا تھا گندمی رنگ، گھٹے جسم کا زرد، بھرے گوشت والا تھا اس کے بال بہت زیادہ گھونگھریالے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! معاملہ صاف کر دے چنانچہ ان کی بیوی نے جو بچہ جنا وہ اسی شخص سے مشابہ تھا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کے پاس اسے پایا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شاگرد نے مجلس میں پوچھا، کیا یہ وہی عورت ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا شہادت سنگسار کرتا تو اسے کرتا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں۔ یہ دوسری عورت تھی جو اسلام کے زمانہ میں اعلانیہ بدکاری کیا کرتی تھی۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، "أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، ثُمَّ طَلَّقَهَا، فَتَزَوَّجَتْ آخَرَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّهُ لَا يَأْتِيهَا وَأَنَّهُ لَيْسَ مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةٍ، فَقَالَ: لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ".
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون سے نکاح کیا، پھر انہیں طلاق دے دی، اس کے بعد ایک دوسرے صاحب نے ان خاتون سے نکاح کر لیا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے دوسرے شوہر کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ تو ان کے پاس آتے ہی نہیں اور یہ کہ ان کے پاس کپڑے کے پلو جیسا ہے (انہوں نے پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی خواہش ظاہر کی لیکن)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، جب تک تم اس (دوسرے شوہر) کا مزا نہ چکھ لو اور یہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: إِنْ لَمْ تَعْلَمُوا يَحِضْنَ أَوْ لَا يَحِضْنَ، وَاللَّائِي قَعَدْنَ عَنِ الْمَحِيضِ، وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ سورة الطلاق آية 4 فَعِدَّتُهُنَّ ثَلاثَةُ أَشْهُرٍ سورة الطلاق آية 4.
یعنی تمہاری مطلقہ بیویوں میں سے جو حیض آنے سے مایوس ہو چکی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو کی تفسیر مجاہد نے کہا یعنی جن عورتوں کا حال تم کو معلوم نہ ہو کہ ان کو حیض آتا ہے یا نہیں آتا۔ اسی طرح وہ عورتیں جو بڑھاپے کی وجہ سے حیض سے مایوس ہو گئی ہیں۔ اسی طرح وہ عورتیں جو نابالغی کی وجہ سے ابھی حیض والی ہی نہیں ہوئی ہیں۔ ان سب قسم کی عورتوں کی عدت تین مہینے ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهَا: سُبَيْعَةُ كَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَخَطَبَهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا يَصْلُحُ أَنْ تَنْكِحِيهِ حَتَّى تَعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، فَمَكُثَتْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ لَيَالٍ، ثُمَّ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: انْكِحِي".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، کہا کہ مجھے خبر دی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ زینب ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ ایک خاتون جو اسلام لائی تھیں اور جن کا نام سبیعہ تھا، اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں، شوہر کا جب انتقال ہوا تو وہ حاملہ تھیں۔ ابوسنان بن بعکک رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کیا۔ ابوالسنابل نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک عدت کی دو مدتوں میں سے لمبی نہ گزار لوں گی، تمہارے لیے اس سے (جس سے نکاح وہ کرنا چاہتی تھیں) نکاح کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ پھر وہ (وضع حمل کے بعد) تقریباً دس دن تک رکی رہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نکاح کر لو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ اللَّيْثِ، عَنْ يَزِيدَ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ كَتَبَ إِلَيْهِ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، عَنْأَبِيهِ، أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى ابْنِ الْأَرْقَمِ أَنْ يَسْأَلَ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ، "كَيْفَ أَفْتَاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَتْ: أَفْتَانِي إِذَا وَضَعْتُ أَنْ أَنْكِحَ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے یزید نے کہ ابن شہاب نے انہیں لکھا کہ عبیداللہ بن عبداللہ نے اپنے والد(عبداللہ بن عتبہ بن مسعود) سے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ابن الارقم کو لکھا کہ سبیعہ اسلمیہ سے پوچھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق کیا فتویٰ دیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ جب میرے یہاں بچہ پیدا ہو گیا تو نبی کریم نے مجھے فتویٰ دیا کہ اب میں نکاح کر لوں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، "أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْهُ أَنْ تَنْكِحَ، فَأَذِنَ لَهَا، فَنَكَحَتْ".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے مسور بن مخرمہ نے کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد چند دنوں تک حالت نفاس میں رہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر انہوں نے نکاح کی اجازت مانگی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور انہوں نے نکاح کیا۔
وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ فِيمَنْ تَزَوَّجَ فِي الْعِدَّةِ فَحَاضَتْ عِنْدَهُ ثَلَاثَ حِيَضٍ بَانَتْ مِنَ الْأَوَّلِ وَلَا تَحْتَسِبُ بِهِ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: تَحْتَسِبُ وَهَذَا أَحَبُّ إِلَى سُفْيَانَ يَعْنِي قَوْلَ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: يُقَالُ: أَقْرَأَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا دَنَا حَيْضُهَا وَأَقْرَأَتْ إِذَا دَنَا طُهْرُهَا، وَيُقَالُ: مَا قَرَأَتْ بِسَلًى قَطُّ إِذَا لَمْ تَجْمَعْ وَلَدًا فِي بَطْنِهَا".
اور ابراہیم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جس نے کسی عورت سے عدت ہی میں نکاح کر لیا اور پھر وہ اس کے پاس تین حیض کی مدت گزرنے تک رہی کہ اس کے بعد وہ پہلے ہی شوہر سے جدا ہو گی۔ (اور یہ صرف اس کی عدت سمجھی جائے گی) دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہو گا لیکن زہری نے کہا کہ اسی میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار بھی ہو گا، یہی یعنی زہری کا قول سفیان کو زیادہ پسند تھا۔ معمر نے کہا کہ «أقرأت المرأة» اس وقت بولتے ہیں جب عورت کا حیض قریب ہو۔ اسی طرح «أقرأت» اس وقت بھی بولتے ہیں جب عورت کا طہر قریب ہو، جب کسی عورت کے پیٹ میں کبھی کوئی حمل نہ ہوا ہو تو اس کے لیے عرب کہتے ہیں «ما قرأت بسلى قط» یعنی اس کو کبھی پیٹ نہیں رہا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ: وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا سورة الطلاق آية 1 أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِنْ كُنَّ أُولاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ: بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا سورة الطلاق آية 1 - 7.
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتے رہو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدود سے بڑھے گا، اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تجھے خبر نہیں شاید کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔ ان مطلقات کو اپنی حیثیت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے انہیں تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ حمل والیاں ہوں تو انہیں خرچ بھی دیتے رہو۔ ان کے حمل کے پیدا ہونے تک۔ آخر آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد «بعد عسر يسرا» تک۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ، "أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُأُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا"، قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الحَكَمِ: إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر(جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو۔ جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑتا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا)۔ مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُمَا يَذْكُرَانِ، "أَنَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ طَلَّقَ بِنْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَكَمِ، فَانْتَقَلَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَرْسَلَتْ عَائِشَةُأُمُّ الْمُؤْمِنِيِنَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ: اتَّقِ اللَّهَ وَارْدُدْهَا إِلَى بَيْتِهَا"، قَالَ مَرْوَانُ فِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ: إِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَكَمِ غَلَبَنِي، وَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ: أَوَمَا بَلَغَكِ شَأْنُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، قَالَتْ: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَذْكُرَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ مَرْوَانُ بْنُ الحَكَمِ: إِنْ كَانَ بِكِ شَرٌّ فَحَسْبُكِ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ مِنَ الشَّرِّ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار نے، وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن العاص نے عبدالرحمٰن بن حکم کی صاحبزادی (عمرہ) کو طلاق دے دی تھی اور ان کے باپ عبدالرحمٰن انہیں ان کے (شوہر کے) گھر سے لے آئے (عدت کے ایام گزرنے سے پہلے)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے مروان بن حکم کے یہاں، جو اس وقت مدینہ کا امیر تھا، کہلوایا کہ اللہ سے ڈرو اور لڑکی کو اس کے گھر(جہاں اسے طلاق ہوئی ہے) پہنچا دو۔ جیسا کہ سلیمان بن یسار کی حدیث میں ہے۔ مروان نے اس کو جواب یہ دیا کہ لڑکی کے والد عبدالرحمٰن بن حکم نے میری بات نہیں مانی اور قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ (مروان نے ام المؤمنین کو یہ جواب دیا کہ) کیا آپ کو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے معاملہ کا علم نہیں ہے؟ (انہوں نے بھی اپنے شوہر کے گھر عدت نہیں گزاری تھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ اگر تم فاطمہ کے واقعہ کا حوالہ نہ دیتے تب بھی تمہارا کچھ نہ بگڑتا (کیونکہ وہ تمہارے لیے دلیل نہیں بن سکتا)۔ مروان بن حکم نے اس پر کہا کہ اگر آپ کے نزدیک (فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ان کے شوہر کے گھر سے منتقل کرنا) ان کے اور ان کے شوہر کے رشتہ داری کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے تھا تو یہاں بھی یہی وجہ کافی ہے کہ دونوں (میاں بیوی) کے درمیان کشیدگی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "مَا لِفَاطِمَةَ أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ ؟ يَعْنِي فِي قَوْلِهَا: لَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَةَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا فاطمہ بنت قیس، اللہ سے ڈرتی نہیں! ان کا اشارہ ان کے اس قول کی طرف تھا (کہ مطلقہ بائنہ کو) «نفقة وسكنى» دینا ضروری نہیں جو کہتی ہے کہ طلاق بائن جس عورت پر پڑے اسے مسکن اور خرچہ نہیں ملے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "مَا لِفَاطِمَةَ أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ ؟ يَعْنِي فِي قَوْلِهَا: لَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَةَ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا فاطمہ بنت قیس، اللہ سے ڈرتی نہیں! ان کا اشارہ ان کے اس قول کی طرف تھا (کہ مطلقہ بائنہ کو) «نفقة وسكنى» دینا ضروری نہیں جو کہتی ہے کہ طلاق بائن جس عورت پر پڑے اسے مسکن اور خرچہ نہیں ملے گا۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ لِعَائِشَةَ: "أَلَمْ تَرَيْ إِلَى فُلَانَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فَخَرَجَتْ، فَقَالَتْ: بِئْسَ مَا صَنَعَتْ، قَالَ: أَلَمْ تَسْمَعِي فِي قَوْلِ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا خَيْرٌ فِي ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ"، وَزَادَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْأَبِيهِ، عَابَتْ عَائِشَةُ أَشَدَّ الْعَيْبِ، وَقَالَتْ: "إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے کہ عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ (عمرہ بنت حکم) بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں۔ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی اور وہ وہاں سے نکل آئیں (عدت گزارے بغیر)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا۔ بتلایا کہ اس کے لیے اس حدیث کو ذکر کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے اور ابن ابی زناد نے ہشام سے یہ اضافہ کیا ہے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (عمرہ بنت حکم کے معاملہ پر) اپنی شدید ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا تو ایک اجاڑ جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں سے منتقل ہونے کی) انہیں اجازت دے دی تھی۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ لِعَائِشَةَ: "أَلَمْ تَرَيْ إِلَى فُلَانَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فَخَرَجَتْ، فَقَالَتْ: بِئْسَ مَا صَنَعَتْ، قَالَ: أَلَمْ تَسْمَعِي فِي قَوْلِ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا خَيْرٌ فِي ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ"، وَزَادَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْأَبِيهِ، عَابَتْ عَائِشَةُ أَشَدَّ الْعَيْبِ، وَقَالَتْ: "إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے کہ عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ (عمرہ بنت حکم) بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں۔ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی اور وہ وہاں سے نکل آئیں (عدت گزارے بغیر)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا۔ بتلایا کہ اس کے لیے اس حدیث کو ذکر کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے اور ابن ابی زناد نے ہشام سے یہ اضافہ کیا ہے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (عمرہ بنت حکم کے معاملہ پر) اپنی شدید ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا تو ایک اجاڑ جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں سے منتقل ہونے کی) انہیں اجازت دے دی تھی۔
حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، "أَنَّ عَائِشَةَ أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ".
مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کا (کہ مطلقہ بائنہ کو «نفقة وسكنى» نہیں ملے گا)انکار کیا۔
حَدَّثَنِي حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، "أَنَّ عَائِشَةَ أَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَلَى فَاطِمَةَ".
مجھ سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کا (کہ مطلقہ بائنہ کو «نفقة وسكنى» نہیں ملے گا)انکار کیا۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ، إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى بَابِ خِبَائِهَا كَئِيبَةً، فَقَالَ لَهَا: "عَقْرَى أَوْ حَلْقَى إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا، أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفِرِي إِذًا".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمہ کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ «عقرى» یا(فرمایا راوی کو شک تھا) «حلقى» معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں روک دو گی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف کر لیا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلو۔
فِي الْعِدَّةِ، وَكَيْفَ يُرَاجِعُ الْمَرْأَةَ إِذَا طَلَّقَهَا وَاحِدَةً أَوْ ثِنْتَيْنِ.
اور اس بات کا بیان کہ جب عورت کو ایک یا دو طلاق دی ہوں تو کیونکر رجعت کرے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "زَوَّجَ مَعْقِلٌ أُخْتَهُ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً".
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، ان سے یونس بن عبید نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن جمیلہ کا نکاح کیا، پھر (ان کے شوہر نے) انہیں ایک طلاق دی۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، "أَنَّ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ كَانَتْ أُخْتُهُ تَحْتَ رَجُلٍ، فَطَلَّقَهَا، ثُمَّ خَلَّى عَنْهَا حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ خَطَبَهَا، فَحَمِيَ مَعْقِلٌ مِنْ ذَلِكَ أَنَفًا، فَقَالَ: خَلَّى عَنْهَا وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهَا، ثُمَّ يَخْطُبُهَا، فَحَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ سورة البقرة آية 232 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ، فَتَرَكَ الْحَمِيَّةَ وَاسْتَقَادَ لِأَمْرِ اللَّهِ".
مجھ سے محمد بن مثنٰی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھیں، پھر انہوں نے انہیں طلاق دے دی، اس کے بعد انہوں نے تنہائی میں عدت گزاری۔ عدت کے دن جب ختم ہو گئے تو ان کے پہلے شوہر نے ہی پھر معقل رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا۔ معقل کو اس پر بڑی غیرت آئی۔ انہوں نے کہا جب وہ عدت گزار رہی تھی تو اسے اس پر قدرت تھی(کہ دوران عدت میں رجعت کر لیں لیکن ایسا نہیں کیا) اور اب میرے پاس نکاح کا پیغام بھیجتا ہے۔ چنانچہ وہ ان کے اور اپنی بہن کے درمیان میں حائل ہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن» اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ چکیں تو تم انہیں مت روکو۔ آخر آیت تک پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر یہ آیت سنائی تو انہوں نے ضد چھوڑ دی اور اللہ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، "أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ"، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ لِأَحَدِهِمْ: إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ. وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ. عَنْ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے کہانہوں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو اس وقت وہ حائضہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ رجعت کر لیں اور انہیں اس وقت تک اپنے ساتھ رکھیں جب تک وہ اس حیض سے پاک ہونے کے بعد پھر دوبارہ حائضہ نہ ہوں۔ اس وقت بھی ان سے کوئی تعرض نہ کریں اور جب وہ اس حیض سے بھی پاک ہو جائیں تو اگر اس وقت انہیں طلاق دینے کا ارادہ ہو تو طہر میں اس سے پہلے کہ ان سے ہمبستری کریں، طلاق دیں۔ پس یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر اس کے (مطلقہ ثلاثہ کے) بارے میں سوال کیا جاتا تو سوال کرنے والے سے وہ کہتے کہ اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر تمہاری بیوی تم پر حرام ہے۔ یہاں تک کہ وہ تمہارے سوا دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔«غير قتيبة» (ابوالجہم) کے اس حدیث میں لیث سے یہ اضافہ کیا ہے کہ (انہوں نے بیان کیا کہ) مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی ہو۔ (تو تم اسے دوبارہ اپنے نکاح میں لا سکتے ہو)کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا تھا۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ جُبَيْرٍ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: "طَلَّقَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا، ثُمَّ يُطَلِّقَ مِنْ قُبُلِ عِدَّتِهَا، قُلْتُ: فَتَعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ".
ہم سے حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، کہا مجھ سے یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اس وقت وہ حائضہ تھیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن عمر اپنی بیوی سے رجوع کر لیں۔ پھر جب طلاق کا صحیح وقت آئے تو طلاق دیں (یونس بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) میں نے پوچھا کہ کیا اس طلاق کا بھی شمار ہوا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر کوئی طلاق دینے والا شرع کے احکام بجا لانے سے عاجز ہو یا احمق بیوقوف ہو (تو کیا طلاق نہیں پڑے گی؟)۔
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: "لَا أَرَى أَنْ تَقْرَبَ الصَّبِيَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا الطِّيبَ لِأَنَّ عَلَيْهَا الْعِدَّةَ".
زہری نے کہا کہ کم عمر لڑکی کا شوہر بھی اگر انتقال کر گیا ہو تو میں اس کے لیے بھی خوشبو کا استعمال جائز نہیں سمجھتا کیونکہ اس پر بھی عدت واجب ہے۔ ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے، انہیں حمید بن نافع نے اور انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان تین احادیث کی خبر دی۔
قَالَتْ زَيْنَبُ: فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمّ قَالَتْ: أَمَا وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت گئی جب ان کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا۔ ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی اور ام المؤمنین نے خود اپنے رخساروں پر اسے لگایا۔ اس کے بعد کہا کہ واللہ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے (کہ اس کا سوگ) چار مہینے دس دن کا ہے۔
قَالَتْ زَيْنَبُ: وَسَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، تَقُولُ: "جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا، أَفَتَكْحُلُهَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ: لَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ". قَالَ حُمَيْدٌ: فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ: وَمَا تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ ؟
زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں اس وقت گئی جب ان کے بھائی کا انتقال ہوا۔ انہوں نے بھی خوشبو منگوائی اور استعمال کیا کہا کہ واللہ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے۔
قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَقَدِ اشْتَكَتْ عَيْنَهَا أَفَتَكْحُلُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ». مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لاَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ، وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ».
زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ کہتے سنا کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری لڑکی کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو کیا وہ سرمہ لگا سکتی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ نہیں، دو تین مرتبہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا) ہر مرتبہ یہ فرماتے تھے کہ نہیں! پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ (شرعی عدت) چار مہینے اور دس دن ہی کی ہے۔ جاہلیت میں تو تمہیں سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی (جب کہیں عدت سے باہر ہوتی تھی)۔
قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلاَّ مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً فَتَرْمِي، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ. سُئِلَ مَالِكٌ مَا تَفْتَضُّ بِهِ قَالَ تَمْسَحُ بِهِ جِلْدَهَا.
حمید نے بیان کیا کہ میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی۔ سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبو کا استعمال ترک کر دیتی۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا پھر کسی چوپائے گدھے یا بکری یا پرندہ کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہر آنے کے لیے اس پر ہاتھ پھیرتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ کسی جانور پر ہاتھ پھیر دے اور وہ مر نہ جائے۔ اس کے بعد وہ نکالی جاتی اور اسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اب وہ خوشبو وغیرہ کوئی بھی چیز استعمال کر سکتی تھی۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ «تفتض به» کا کیا مطلب ہے تو آپ نے فرمایا وہ اس کا جسم چھوتی تھی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّيَ زَوْجُهَا، فَخَشُوا عَلَى عَيْنَيْهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنُوهُ فِي الْكُحْلِ، فَقَالَ: لَا تَكَحَّلْ، قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِي شَرِّ أَحْلَاسِهَا أَوْ شَرِّ بَيْتِهَا، فَإِذَا كَانَ حَوْلٌ فَمَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعَرَةٍ، فَلَا حَتَّى تَمْضِيَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے حمید بن نافع نے، ان سے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ سے کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرمہ (زمانہ عدت میں) نہ لگاؤ۔ (زمانہ جاہلیت میں) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا، یا (راوی کو شک تھا کہ یہ فرمایا کہ) بدترین گھر میں وقت (عدت) گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی (جب عدت سے باہر آتی) پس سرمہ نہ لگاؤ۔ یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں۔
وَسَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
اور میں نے زینب بنت ام سلمہ سے سنا، وہ ام حبیبہ سے بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی (کی وفات) کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ: "نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بنت علقمہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں منع کیا گیا ہے کہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائیں۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَطَّيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ".
مجھ سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حفصہ نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتے نہ خوشبو استعمال کرتے اور نہ رنگا کپڑا پہنتے تھے۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جس کا (دھاگا) بننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض کے بعد غسل کرے تو اس وقت اظفار کا تھوڑا سا عود استعمال کر لے اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا لَا تَكْتَحِلُ وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ".
ہم سے فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالسلام بن حرب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے سوا شوہر کے وہ اس کے سوگ میں نہ سرمہ لگائے نہ رنگا ہوا کپڑا پہنے مگر یمن کا دھاری دار کپڑا (جو بننے سے پہلے ہی رنگا گیا ہو)۔
وَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَتْنَا حَفْصَةُ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ، "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَمَسَّ طِيبًا إِلَّا أَدْنَى طُهْرِهَا إِذَا طَهُرَتْ نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْقُسْطُ وَالْكُسْتُ مِثْلُ الْكَافُورِ وَالْقَافُورِ.
امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ انصاری نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ (کسی میت پر) خاوند کے سوا تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے اور (فرمایا کہ)خوشبو کا استعمال نہ کرے، سوا طہر کے وقت جب حیض سے پاک ہو تو تھوڑا سا عود (قسط) اور (مقام) اظفار (کی خوشبو استعمال کر سکتی ہے)، ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ «قسط» اور «الكست» ایک ہی چیز ہیں، جیسے کافور اور قافور دونوں ایک ہیں۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ"وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ: كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ سورة البقرة آية 240، قَالَ: جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَصِيَّةً، إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ سورة البقرة آية 240"، فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا زَعَمَ ذَلِكَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَقَالَعَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240، وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهَا وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ: فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ سورة البقرة آية 234، قَالَ عَطَاءٌ: ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ، فَنَسَخَ السُّكْنَى، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَلَا سُكْنَى لَهَا.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شبل بن عباد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے آیت کریمہ «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ کے متعلق کہا کہ یہ عدت جو شوہر کے گھر والوں کے پاس گزاری جاتی تھی، پہلے واجب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف» الخ، یعنی اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں (ان پر لازم ہے کہ) اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت کر جائیں کہ وہ ایک سال تک (گھر سے) نہ نکالی جائیں لیکن اگر وہ (خود) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اس باب میں جسے وہ (بیویاں) اپنے بارے میں دستور کے مطابق کریں۔ مجاہد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیوہ کے لیے سات مہینے بیس دن سال بھر میں سے وصیت قرار دی۔ اگر وہ چاہے تو شوہر کی وصیت کے مطابق وہیں ٹھہری رہے اور اگر چاہے (چار مہینے دس دن کی عدت) پوری کر کے وہاں سے چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم» تک یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ البتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ کا یہی منشا ہے۔ پس عدت تو جیسی کہ پہلے تھی، اب بھی اس پر واجب ہے۔ ابن ابی نجیح نے اسے مجاہد سے بیان کیا اور عطاء نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس پہلی آیت نے بیوہ کو خاوند کے گھر میں عدت گزارنے کے حکم کو منسوخ کر دیا، اس لیے اب وہ جہاں چاہے عدت گزارے اور (اسی طرح اس آیت نے) اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج» یعنی انہیں نکالا نہ جائے۔ (کو بھی منسوخ کر دیا ہے)۔ عطاء نے کہا کہ اگر وہ چاہے تو اپنے (شوہر کے) گھر والوں کے یہاں ہی عدت گزارے اور وصیت کے مطابق قیام کرے اور اگر چاہے وہاں سے چلی آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «فلا جناح عليكم فيما فعلن» الخ، یعنی پس تم پر اس کا کوئی گناہ نہیں، جو وہ اپنی مرضی کے مطابق کریں۔ عطاء نے کہا کہ اس کے بعد میراث کا حکم نازل ہوا اور اس نے مکان کے حکم کو منسوخ کر دیا۔ پس وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے اور اس کے لیے (شوہر کی طرف سے) مکان کا انتظام نہیں ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْزَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، لَمَّا جَاءَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا، وَقَالَتْ: مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم نے بیان کیا، ان سے حمید بن نافع نے بیان، ان سے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا اور ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ان کے والد کی وفات کی خبر پہنچی تو انہوں نے خوشبو منگوائی اور اپنے دونوں بازؤں پر لگائی پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوا شوہر کے کہ اس کے لیے چار مہینے دس دن ہیں۔
وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا تَزَوَّجَ مُحَرَّمَةً وَهُوَ لَا يَشْعُرُ فُرِّقَ بَيْنَهُمَا، وَلَهَا مَا أَخَذَتْ وَلَيْسَ لَهَا غَيْرُهُ، ثُمَّ قَالَ: بَعْدُ لَهَا صَدَاقُهَا.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص نہ جان کر کسی محرمہ عورت سے نکاح کرے تو ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی اور وہ کچھ مہر لے چکی ہے وہ اسی کا ہو گا۔ اس کے سوا اور کچھ اسے نہیں ملے گا، پھر اس کے بعد کہ اسے اس کا مہر مثل دیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، کاہن کی کمائی اور زانیہ عورت کے زنا کی کمائی کھانے سے منع فرمایا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ، وَآكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَنَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَكَسْبِ الْبَغِيِّ وَلَعَنَ الْمُصَوِّرِينَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْإِمَاءِ".
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں محمد بن جحادہ نے، انہیں ابوحازم نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے زنا کی کمائی سے منع فرمایا۔
وَكَيْفَ الدُّخُولُ، أَوْ طَلَّقَهَا قَبْلَ الدُّخُولِ وَالْمَسِيسِ.
اور صحبت کے کیا معنی ہیں اور دخول اور مساس سے پہلے طلاق دے دینے کا حکم (جماع کرنا یا خلوت ہو جانا)۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: "رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: فَرَّقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ فَأَبَيَا، فَقَالَ: اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ؟ فَأَبَيَا، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا"، قَالَ أَيُّوبُ: فَقَالَ لِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: فِي الْحَدِيثِ شَيْءٌ لَا أَرَاكَ تُحَدِّثُهُ، قَالَ: قَالَ الرَّجُلُ: مَالِي ؟ قَالَ: لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، فَقَدْ دَخَلْتَ بِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَهُوَ أَبْعَدُ مِنْكَ.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے اور ان سے سعید بن کبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی ہو تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی عجلان کے میاں بیوی میں جدائی کرا دی تھی اور فرمایا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا وہ رجوع کرے گا؟ لیکن دونوں نے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے اسے جو تم میں سے ایک جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟ لیکن دونوں نے پھر توبہ سے انکار کیا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں جدائی کرا دی۔ ایوب نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن دینار نے کہا کہ یہاں حدیث میں ایک چیز اور ہے میں نے تمہیں اسے بیان کرتے نہیں دیکھا۔ وہ یہ ہے کہ (تہمت لگانے والے) شوہر نے کہا تھا کہ میرا مال (مہر) دلوا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ تمہارا مال ہی نہیں رہا، اگر تم سچے بھی ہو تو تم اس سے خلوت کر چکے ہوا اور اگر جھوٹے ہو تب تو تم کو بطریق اولیٰ کچھ نہ ملنا چاہیئے۔
لِقَوْلِهِ تَعَالَى: لاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ: إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَقَوْلِهِ: وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُلاَعَنَةِ مُتْعَةً حِينَ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا.
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا «لا جناح عليكم إن طلقتم النساء ما لم تمسوهن» یعنی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ان بیویوں کو جنہیں تم نے نہ ہاتھ لگایا ہو اور نہ ان کے لیے مہر مقرر کیا ہو طلاق دے دو تو ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ۔ ارشاد «إن الله بما تعملون بصير» تک۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا طلاق والی عورتوں کے لیے دستور کے موافق دینا پرہیزگاروں پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے کھول کر اپنے احکام بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم سمجھو۔ اور لعان کے موقع پر، جب عورت کے شوہر نے اسے طلاق دی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متاع کا ذکر نہیں فرمایا تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: «حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ، لاَ سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا». قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِي. قَالَ: «لاَ مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا، فَهْوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا، فَذَاكَ أَبْعَدُ وَأَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا».
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے فرمایا کہ تمہارا حساب اللہ کے یہاں ہو گا۔ تم میں سے ایک تو یقیناً جھوٹا ہے۔ تمہارے یعنی (شوہر کے) لیے اسے (بیوی کو) حاصل کرنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ شوہر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا مال؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب وہ تمہارا مال نہیں رہا۔ اگر تم نے اس کے متعلق سچ کہا تھا تو وہ اس کے بدلہ میں ہے کہ تم نے اس کی شرمگاہ اپنے لیے حلال کی تھی اور اگر تم نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو اور زیادہ تجھ کو کچھ نہ ملنا چاہیئے۔