جامع ترمذی

طہارت کے احکام و مسائل

وضو (طہارت) کے بغیر نماز مقبول نہ ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْسِمَاكٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ ". قَالَ هَنَّادٌ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ " إِلَّا بِطُهُورٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ،‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُهُ عَامِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْهُذَلِيُّ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز بغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیا جاتا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے ۳؎۔ ۲- اس باب میں ابوالملیح کے والد اسامہ، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۲ (۲۲۴) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲ (۲۷۲) (تحفة الأشراف : ۷۴۵۷) مسند احمد (۲۰۲، ۳۹، ۵۱، ۵۷، ۷۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : طہارت کا لفظ عام ہے وضو اور غسل دونوں کو شامل ہے ، یعنی نماز کے لیے حدث اکبر اور اصغر دونوں سے پاکی ضروری ہے ، نیز یہ بھی واضح ہے کہ دونوں حدثوں سے پاکی (معنوی پاکی) کے ساتھ ساتھ حسّی پاکی (مکان ، بدن اور کپڑا کی پاکی) بھی ضروری ہے ، نیز دیگر شرائط نماز بھی ، جیسے رو بقبلہ ہونا ، یہ نہیں کہ صرف حدث اصغر و اکبر سے پاکی کے بعد مذکورہ شرائط کے پورے کئے بغیر صلاۃ ہو جائے گی۔ ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے وضو شرط ہے خواہ نفل ہو یا فرض ، یا نماز جنازہ۔ ۳؎ : " یہ حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور حسن ہے " اس عبارت سے حدیث کی صحت بتانا مقصود نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس باب میں یہ روایت سب سے بہتر ہے خواہ اس میں ضعف ہی کیوں نہ ہو ، یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے اس باب میں سب سے صحیح حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ہے جو صحیحین میں ہے (بخاری : الوضوء باب ۲ ، (۱۳۵)و مسلم : الطہارۃ ۲ (۲۷۵)اور مولف کے یہاں بھی آ رہی ہے (رقم ۷۶)نیز یہ بھی واضح رہے کہ امام ترمذی کے اس قول " اس باب میں فلاں فلاں سے بھی حدیث آئی ہے " کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں اس صحابی سے جن الفاظ کے ساتھ روایت ہے ٹھیک انہی الفاظ کے ساتھ ان صحابہ سے بھی روایت ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مضمون و معنی کی حدیث فی الجملہ ان صحابہ سے بھی ہے۔

طہارت کی فضیلت کا بیان

حد یث نمبر - 2

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْمَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ، ‏‏‏‏‏‏أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَتْ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْهَا بِعَيْنَيْهِ مَعَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ أَوْ نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْهِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْهَا يَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنَ الذُّنُوبِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُهَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُهَيْلٍ هُوَ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ، ‏‏‏‏‏‏وَاسْمُهُ ذَكْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو هُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ عَبْدُ شَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا قَالَ:‏‏‏‏ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل وَهُوَ الْأَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ،‏‏‏‏ وَثَوْبَانَ،‏‏‏‏ وَالصُّنَابِحِيِّ،‏‏‏‏ وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ،‏‏‏‏ وَسَلْمَانَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَهُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَاسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏رَحَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصُّنَابِحُ بْنُ الْأَعْسَرِ الْأَحْمَسِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا حَدِيثُهُ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ فَلَا تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا اور اپنا چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں ۱؎، جو اس کی آنکھوں نے کیے تھے یا اسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی، پھر جب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎، ۲- اس باب میں عثمان بن عفان، ثوبان، صنابحی، عمرو بن عبسہ، سلمان اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صنابحی جنہوں نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ان کا سماع رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ، اور کنیت ابوعبداللہ ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سفر کیا، راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا، انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اور صنابح بن اعسرا حمسی صحابی رسول ہیں، ان کو صنابحی بھی کہا جاتا ہے، انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پر فخر کروں گا تو میرے بعد تم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۱ (۲۴۴) (تحفة الأشراف : ۱۲۷۴۲) موطا امام مالک/الطہارة ۶ (۳۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : گناہ جھڑ جاتے ہیں کا مطلب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ، اور گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ خالص توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو جسمانی نظافت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت کا بھی ذریعہ ہے۔ ۳؎ : بظاہر یہ ایک مشکل عبارت ہے کیونکہ اصطلاحی طور پر حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہے ، تو اس فرق کے باوجود ان دونوں کو ایک ہی جگہ میں کیسے جمع کیا جا سکتا ہے ؟ اس سلسلہ میں مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ، سب سے عمدہ توجیہ حافظ ابن حجر نے کی ہے (الف) اگر حدیث کی دو یا دو سے زائد سندیں ہوں تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ حدیث ایک سند کے لحاظ سے حسن اور دوسری سند کے لحاظ سے صحیح ہے ، اور اگر حدیث کی ایک ہی سند ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طبقہ کے یہاں یہ حدیث حسن ہے اور دوسرے کے یہاں صحیح ہے ، یعنی محدث کے طرف سے اس حدیث کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ حسن ہے یا صحیح۔

وضو نماز کی کنجی ہے

حد یث نمبر - 3

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ:‏‏‏‏ هُوَ صَدُوقٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ وَالْحُمَيْدِيُّ يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَهُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز کی کنجی وضو ہے، اور اس کا تحریمہ صرف «اللہ اکبر» کہنا ہے ۱؎ اور نماز میں جو چیزیں حرام تھیں وہ «السلام علیکم ورحمة اللہ» کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے، ۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں ۳؎، بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اور حمیدی: عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے، اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۱ (۶۱) سنن ابن ماجہ/الطہارة۳ (۲۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۶۵) مسند احمد (۱/۱۲۳، ۱۲۹) سنن الدارمی/ الطہارة ۲۲ (۷۱۴) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ اکبر ہی کہہ کر نماز میں داخل ہونے سے وہ سارے کام حرام ہوتے ہیں جنہیں اللہ نے نماز میں حرام کیا ہے ، «اللہ اکبر» کہہ کر نماز میں داخل ہونا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا دائمی عمل تھا ، اس لیے کسی دوسرے عربی لفظ یا عجمی لفظ سے نماز کی ابتداء صحیح نہیں ہے۔ ۲؎ : یعنی صرف «السلام علیکم ورحمة اللہ» ہی کے ذریعہ نماز سے نکلا جا سکتا ہے۔ دوسرے کسی اور لفظ یا عمل کے ذریعہ نہیں۔ ۳؎ : یہ کلمات تعدیل میں سے ہے اور جمہور کے نزدیک یہ کلمہ راوی کے تعدیل کے چوتھے مرتبے پر دلالت کرتا ہے جس میں راوی کی عدالت تو واضح ہوتی ہے لیکن ضبط واضح نہیں ہوتا ، امام بخاری رحمہ اللہ جب کسی کو صدوق کہتے ہیں تو اس سے مراد ثقہ ہوتا ہے جو تعدیل کا تیسرا مرتبہ ہے۔ ۴؎ : مقارب الحدیث حفظ و تعدیل کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے ، لفظ مقارب دو طرح پڑھا جاتا ہے : راء پر زبر کے ساتھ ، اور راء کے زیر کے ساتھ ، زبر کے ساتھ مقارَب الحدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی حدیث اس کی حدیث سے قریب ہے ، اور زیر کے ساتھ مقارِب الحدیث سے یہ مراد ہے کہ اس کی حدیث دیگر ثقہ راویوں کی حدیث سے قریب تر ہے ، یعنی اس میں کوئی شاذ یا منکر روایت نہیں ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صیغہ ولید بن رباح اور عبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں استعمال کیا ہے۔

وضو نماز کی کنجی ہے

حد یث نمبر - 4

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ الْبَغْدَادِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْقَتَّاتِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلَاةُ وَمِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الْوُضُوءُ ".

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز جنت کی کنجی ہے، اور نماز کی کنجی وضو ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۵۷۶) وانظر مسند احمد (۳/۳۳۰) (ضعیف) (سند میں سلیمان بن قرم اور أبویحیی القتات دونوں ضعیف ہیں، مگر آخری ٹکڑا ’’ مفتاح الصلاة الوضوء ‘‘ پچھلی حدیث کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے)

بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا

حد یث نمبر - 5

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ " قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ وَقَدْ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ " أَوْ " الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ مَسْعُودٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ،‏‏‏‏ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ:‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ شُعْبَةُ،‏‏‏‏ وَمَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مَعْمَرٌ:‏‏‏‏ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَقَالَ:‏‏‏‏ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ قَتَادَةُ رَوَى عَنْهُمَا جَمِيعًا.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبيث أو الخبث والخبائث» "اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اور ناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اور ناپاک جنیوں سے" ۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیز نے دوسری بار «اللهم إني أعوذ بك» کے بجائے «أعوذ بالله» کہا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، زید بن ارقم، جابر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اور عمدہ ہے، ۳- زید بن ارقم کی سند میں اضطراب ہے، امام بخاری کہتے ہیں: کہ ہو سکتا ہے قتادہ نے اسے (زید بن ارقم سے اور نضر بن انس عن أبیہ)دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۹ (۱۴۲) والدعوات ۱۵ (۶۳۲۲) صحیح مسلم/الحیض ۳۲ (۳۷۵) سنن ابی داود/ الطہارة ۳ (۴) سنن النسائی/الطہارة ۱۸ (۱۹) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۹ (۲۹۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۲) مسند احمد (۳/۱۰۱/۲۸۲) سنن الدارمی/الطہارة۹ (۶۹۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مذکورہ دعا پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیئے ، اور اگر کوئی کھلی فضا میں قضائے حاجت کرنے جا رہا ہو تو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھانے سے پہلے یہ دعا پڑھے۔

بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا

حد یث نمبر - 6

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» "اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۰۱۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : گندی جگہوں میں گندگی سے انس رکھنے والے جن بسیرا کرتے ہیں ، اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنیوں سے پناہ مانگتے تھے ، انسان کی مقعد بھی قضائے حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے اس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کو اذیت پہنچاتے ہیں ، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھی جاتی ہیں۔

بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے وقت کی دعا

حد یث نمبر - 7

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " غُفْرَانَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الْأَشْعَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلَّا حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے بعد جب پاخانہ سے نکلتے تو فرماتے: «غفرانك‏» یعنی "اے اللہ: میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۷ (۳۰) سنن ابن ماجہ/الطہارة۱۰ (۳۰۰) (تحفة الأشراف : ۱۷۹۴) سنن الدارمی/الطہارة ۱۷ (۷۰۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ " کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے ، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کا اعتراف کرے ، اس موقع کی دوسری دعا " سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا اور مجھے عافیت دی " کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث حسن غریب ہے ، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیونکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہو سکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو ، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں ، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں ، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں ، ایک «لانعرفه إلامن هذا الوجه» ہے ، اور دوسرا «وإسناده ليس بمتصل» پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے ، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو ، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور «إسناده ليس بمتصل» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔ ۳؎ : یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی الله عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔

پیشاب یا پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت

حد یث نمبر - 8

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءَ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْأَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلَا بَوْلٍ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا ". فقَالَ أَبُو أَيُّوبَ:‏‏‏‏ فَقَدِمْنَا الشَّامَ فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ مُسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةِ فَنَنْحَرِفُ عَنْهَا وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيِّ،‏‏‏‏ وَمَعْقِلِ بْنِ أَبِي الْهَيْثَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ مَعْقِلُ بْنُ أَبِي مَعْقِلٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو أَيُّوبَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ خَالِدُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالزُّهْرِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْيَتُهُ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ إِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلَا بِبَوْلٍ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا " إِنَّمَا هَذَا فِي الْفَيَافِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا فِي الْكُنُفِ الْمَبْنِيَّةِ لَهُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَسْتَقْبِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا قَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلَا يَسْتَقْبِلُهَا كَأَنَّهُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلَا فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ.

ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو" ۱؎۔ ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھا کہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں تو قبلہ کی سمت سے ترچھے مڑ جاتے اور ہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی، معقل بن ابی ہیشم (معقل بن ابی معقل) ابوامامہ، ابوہریرہ اور سہل بن حنیف رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور سب سے صحیح ہے، ۳- ابوالولید مکی کہتے ہیں: ابوعبداللہ محمد بن ادریس شافعی کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، اس سے مراد صرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے، رہے بنے بنائے پاخانہ گھر تو ان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائز ہے، اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے، احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے، رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائز نہیں، گویا کہ (امام احمد)قبلہ کی طرف منہ کرنے کو نہ صحراء میں جائز قرار دیتے ہیں اور نہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں (البتہ پیٹھ کرنے کو بیت الخلاء میں جائز سمجھتے ہیں)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الوضوء ۱۱ (۱۴۴) والصلاة ۲۹ (۳۹۴) صحیح مسلم/الطہارة ۱۷ (۲۶۴) سنن ابی داود/ الطہارة ۴ (۹) سنن النسائی/الطہارة ۱۹، ۲۰، ۲۱ (۲۰، ۲۱، ۲۲) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۷ (۱۸) (تحفة الأشراف : ۲۴۷۸) موطا امام مالک/القبلة ۱ (۱) مسند احمد (۵/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۲۱) سنن الدارمی/ الطہارة۶ (۶۹۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ خطاب اہل مدینہ سے اور ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اور بیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے ، اور اسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق (پورب) یا مغرب (پچھم) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھیں۔

قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت

حد یث نمبر - 9

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں، پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوقتادہ، عائشہ، اور عمار بن یاسر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة (۱۳) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۸ (۳۲۵) (تحفة الأشراف : ۲۵۷۴) (صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق صدوق ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)

قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت

حد یث نمبر - 10

وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، وَحَدِيثُ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.

عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیر سے اور ابوالزبیر نے جابر رضی الله عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جابر رضی الله عنہ کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث (جس میں جابر کے بعد ابوقتادہ رضی الله عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے، ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبار سے تضعیف کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۰۸۱) (ضعیف الإسناد)

قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت

حد یث نمبر - 11

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ رَقِيتُ يَوْمًا عَلَى بَيْتِ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَلَى حَاجَتِهِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ مُسْتَدْبِرَ الْكَعْبَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ رضی الله عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۱۲ (۱۴۵) صحیح مسلم/الطہارة ۱۷ (۶۱۱) سنن ابی داود/ الطہارة ۵ (۱۲) سنن النسائی/الطہارة ۲۲ (۲۳) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۸ (۳۲۲) (تحفة الأشراف : ۸۵۵۲) موطا امام مالک/القبلة ۲ (۳) مسند احمد (۲/۱۲، ۱۳) سنن الدارمی/الطہارة ۸ (۶۹۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور امت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ فعل قطعاً معارض ہے ، اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔ (تحفۃ الأحوذی : ۱/۲۲ ، ونیل الأوطارللشوکانی)

کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت

حد یث نمبر - 12

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقُوهُ مَا كَانَ يَبُولُ إِلَّا قَاعِدًا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَبُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ عُمَرَ إِنَّمَا رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبُولُ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا عُمَرُ لَا تَبُلْ قَائِمًا "،‏‏‏‏ فَمَا بُلْتُ قَائِمًا بَعْدُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَإِنَّمَا رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏ضَعَّفَهُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَتَكَلَّمَ فِيهِ،‏‏‏‏ وَرَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ مَا بُلْتُ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ،‏‏‏‏ وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ فِي هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى النَّهْيِ عَنِ الْبَوْلِ قَائِمًا عَلَى التَّأْدِيبِ لَا عَلَى التَّحْرِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنَ الْجَفَاءِ أَنْ تَبُولَ وَأَنْتَ قَائِمٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جو تم سے یہ کہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا، آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمر، بریدہ، عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا کی یہ حدیث سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے، ۳- عمر رضی الله عنہ کی حدیث میں ہے کہ مجھے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "عمر! کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو"، چنانچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی بھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کو عبدالکریم ابن ابی المخارق نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ایوب سختیانی نے ان کی تضعیف کی ہے اور ان پر کلام کیا ہے، نیز یہ حدیث عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے کہ عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ یہ حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق کی حدیث سے(روایت کے اعتبار سے) زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۴- اس باب میں بریدۃ رضی الله عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے، ۵- کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت ادب کے اعتبار سے ہے حرام نہیں ہے ۳؎، ۶- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ تم کھڑے ہو کر پیشاب کرو یہ پھوہڑ پن ہے ۴؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۲۵ (۲۹) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۴ (۳۰۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۴۷) ، مسند احمد (۶/۱۳۶، ۱۹۲، ۲۱۳) (صحیح) (تراجع الالبانی /۱۲، الصحیحہ: ۲۰۱)

وضاحت: ۱؎ : ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا یہ دعویٰ اپنے علم کے لحاظ سے ہے ، ورنہ بوقت ضرورت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر بھی پیشاب کیا ہے جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے ، ہاں آپ کی عادت مبارکہ عام طور پر بیٹھ ہی کر پیشاب کرنے کی تھی ، اور گھر میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔ ۲؎ : یعنی عبدالکریم کی مرفوع روایت کہ (نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب سے روکا) ضعیف ہے ، جبکہ عبیداللہ العمری کی موقوف روایت صحیح ہے۔ ۳؎ : یعنی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں بلکہ منع ہے۔ ۴؎ : دونوں (مرفوع و موقوف) حدیثوں میں فرق یوں ہے کہ مرفوع کا مطلب ہے : نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ کو جب سے منع کیا تب سے انہوں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا ، اور موقوف روایت کا مطلب ہے کہ عمر رضی الله عنہ اپنی عادت بیان کر رہے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔

کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت کا بیان

حد یث نمبر - 13

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوءٍ فَذَهَبْتُ لِأَتَأَخَّرَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَانِي حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ، ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ:‏‏‏‏ هَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ،‏‏‏‏ وسَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَكِيعًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَهَكَذَا رَوَى مَنْصُورٌ،‏‏‏‏ وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ،‏‏‏‏ وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَى عَنْهُ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ،‏‏‏‏ وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏يُرْوَى عَنْ عَبِيدَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَنَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ هُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَيُكْنَى:‏‏‏‏ أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ.

حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا، اسے رکھ کر میں پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا، میں (آ کر) آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا ہو گیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ ۲- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے) زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۳- محدثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۰ (۲۲۴) و۶۱ (۲۲۵) و۶۲ (۲۲۶) والمظالم ۲۷ (۲۴۷۱) صحیح مسلم/الطہارة۲۲ (۲۷۳) سنن ابی داود/ الطہارة۱۲ (۲۳) سنن النسائی/الطہارة۱۷، ۲۴ (۱۸، ۲۶، ۲۷، ۲۸) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۳ (۳۰۵) (تحفة الأشراف : ۳۳۳۵) مسند احمد (۵/۳۹۴) سنن الدارمی/الطہارة ۹ (۶۹۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی حماد اور عاصم نے بھی ابووائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابووائل نے حذیفہ کے علاوہ " مغیرہ بن شعبہ " رضی الله عنہ سے بھی روایت کیا ہے ، ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دو دو راویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابووائل نے دونوں صحابیوں سے سنا ہو۔ ۲؎ : کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے ، (معاملہ صرف " زیادہ صحیح " ہونے کا ہے)۔

قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 14

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلَائِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى وَكِيعٌ،‏‏‏‏ وَأَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ ". وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُرْسَلٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ لَمْ يَسْمَعْ الْأَعْمَشُ مِنْ أَنَسٍ وَلَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ نَظَرَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ عَنْهُ حِكَايَةً فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَعْمَشُ اسْمُهُ:‏‏‏‏ سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ أَبُو مُحَمَّدٍ الْكَاهِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مَوْلًى لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْأَعْمَشُ:‏‏‏‏ كَانَ أَبِي حَمِيلًا فَوَرَّثَهُ مَسْرُوقٌ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہو جاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔ دوسری سند میں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہو جاتے نہیں اٹھاتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ دونوں احادیث مرسل ہیں، اس لیے کہ کہا جاتا ہے: دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک رضی الله عنہ سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اور صحابی سے، صرف اتنا ہے کہ انس کو صرف انہوں نے دیکھا ہے، اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا ہے پھر ان کی نماز کی کیفیت بیان کی۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶ (۱۴) (تحفة الأشراف : ۸۹۲) سنن الدارمی/ الطہارة۷ (۶۹۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہاں مرسل سے " منقطع " مراد ہے ، اس کی تشریح خود امام ترمذی نے کر دی ہے کہ اعمش کا انس رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے ، ویسے عام اصطلاحی مرسل : وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد والا راوی ساقط ہو ، ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصال سند مفقود ہوتا ہے جو صحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے ، اسی طرح محذوف راوی کا کوئی تعین نہیں ہوتا ، ممکن ہے وہ کوئی غیر صحابی ہو ، اس صورت میں اس کے ضعیف ہونے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ اور انقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہوا ہے۔

داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کی کراہت

حد یث نمبر - 15

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ يَمَسَّ الرَّجُلُ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ ". وَفِي هَذَا الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَسَلْمَانَ،‏‏‏‏ وَأبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ كَرِهُوا الِاسْتِنْجَاءَ بِالْيَمِينِ.

ابوقتادہ حارث بن ربعی انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے ۱؎۔ اس باب میں عائشہ، سلمان، ابوہریرہ اور سھل بن حنیف رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے کو مکروہ جانا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۱۸ (۱۵۳) و۱۹ (۱۵۴) والأشربة ۲۵ (۵۶۳۰) صحیح مسلم/الطہارة ۱۸ (۳۶۷) سنن ابی داود/ الطہارة ۱۸ (۳۱) سنن النسائی/الطہارة ۲۳ (۲۴، ۲۵) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۵ (۳۱۰) (تحفة الأشراف : ۱۲۱۰۵) مسند احمد (۵/۲۹۶، ۳۰۰، ۳۱۰) سنن الدارمی/ الطہارة ۱۳ (۷۰۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ناپسندیدہ کاموں کے لیے بائیاں ہاتھ استعمال کیا جائے تاکہ دائیں ہاتھ کا احترام و وقار قائم رہے۔

پتھر سے استنجاء کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 16

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ لِسَلْمَانَ:‏‏‏‏ قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سَلْمَانُ:‏‏‏‏ " أَجَلْ،‏‏‏‏ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ أَوْ أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَخَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ سَلْمَانَ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ:‏‏‏‏ رَأَوْا أَنَّ الِاسْتِنْجَاءَ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِئُ وَإِنْ لَمْ يَسْتَنْجِ بِالْمَاءِ إِذَا أَنْقَى أَثَرَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ،‏‏‏‏ وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاقُ.

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی الله عنہ سے بطور طنز یہ بات کہی گئی کہ تمہارے نبی نے تمہیں ساری چیزیں سکھائی ہیں حتیٰ کہ پیشاب پاخانہ کرنا بھی، تو سلمان فارسی رضی الله عنہ نے بطور فخر کہا: ہاں، ایسا ہی ہے ہمارے نبی نے ہمیں پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجاء کرنے، اور تین پتھر سے کم سے استنجاء کرنے، اور گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے ہمیں منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ، خزیمہ بن ثابت جابر اور خلاد بن السائب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- سلمان رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ۳- صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ پتھر سے استنجاء کر لینا کافی ہے جب وہ پاخانہ اور پیشاب کے اثر کو زائل و پاک کر دے اگرچہ پانی سے استنجاء نہ کیا گیا ہو، یہی قول ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۷ (۲۶۲) سنن ابی داود/ الطہارة ۴ (۷) سنن النسائی/الطہارة ۳۷ (۴۱) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۶ (۳۱۶) (تحفة الأشراف : ۴۵۰۵) مسند احمد (۵/۴۳۷، ۴۳۸، ۴۳۹) (صحیح)

دو پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 17

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ " الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّهَا رِكْسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَكَذَا رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى مَعْمَرٌ،‏‏‏‏ وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى زُهَيْرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا فِيهِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ:‏‏‏‏ هَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق أَصَحُّ ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ،‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ وَكَأَنَّهُ رَأَى حَدِيثَ زُهَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَشْبَهَ وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ،‏‏‏‏ وَقَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق مِنْ هَؤُلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق إِلَّا لِمَا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَزُهَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاق لَيْسَ بِذَاكَ لِأَنَّ سَمَاعَهُ مِنْهُ بِآخِرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُهَيْرٍ فلا تبالي أن لا تسمعه من غيرهما إلا حديث أبي إسحاق، ‏‏‏‏‏‏وأبو إسحاق اسمه:‏‏‏‏ عمرو بن عبد الله السبيعي الهمداني،‏‏‏‏ وأبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه ولا يعرف اسمه.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا: "میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ"، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا: "یہ ناپاک ہے" ۱؎۔

(ابواسحاق سبیعی ثقہ اور مدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہو گیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے)۔

امام ترمذی نے یہاں: ابن مسعود کی اس حدیث کو بسند «اسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود» روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکر کیا ہے، پھر بسند «معمر و عمار بن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود» کی روایت ذکر کی ہے، پھر بسند «زکریا بن ابی زائدہ و زہیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یزید عن اسود بن یزید عن عبداللہ بن مسعود» روایت ذکر کی اور فرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے، نیز اسرائیل کی روایت کو صحیح ترین قرار دیا، یہ بھی واضح کیا کہ ابو عبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھر واضح کیا کہ زہیر نے اس حدیث کو بسند «ابواسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود»روایت کیا ہے، تو ان محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکر کر دیا ہے، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ «اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق» زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ و متقن ہیں، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے، اور واضح رہے کہ زہیر نے ابواسحاق سے آخر میں اختلاط کے بعد سنا ہے، اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف بہذا السند (تحفة الأشراف ۹۶۲۲) ، وأخرجہ کل من صحیح البخاری/الطہارة ۲۱ (۱۵۶) و سنن النسائی/الطہارة ۳۸ (۴۲) وسنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۶ (۳۱۴) من طریق الأسود بن یزید عنہ کما في تحفة الأشراف : ۹۱۷۰) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، لیکن اس کی سند میں ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مولف نے بیان کر دیا ہے۔)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی ، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں «ائتني بغيرها» " اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ " کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے ، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جا سکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہیئے ، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہیئے۔ ۲؎ : متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے ، اس کے جاننے کا یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔ ۳؎ : واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔ (الف) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل : زہیر ، معمر اور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابواسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔ (ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔ (ج) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے ، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے برخلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے ، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں ، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج ۱ ص ۲۸۔ صاحب تحفۃ الاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱)بقول امام ابوداؤد : زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں اثبت ہیں۔ (۲)زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔ (۳)بقول ذہبی : امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے ، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابوعبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کی اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کو ضعیف ماننا پڑے گا ، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے ، اور اکثر ائمہ نے اسے صحیح ہی قرار دہا ہے۔

کن کن چیزوں سے استنجاء کرنا مکروہ ہے

حد یث نمبر - 18

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍقَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ". وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَسَلْمَانَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الشَّعْبِيُّ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ "،‏‏‏‏ وَكَأَنَّ رِوَايَةَ إِسْمَاعِيل أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے"۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ، سلمان، جابر، ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں۔ ۲- اسماعیل بن ابراہیم وغیرہ نے بسند «داود ابن ابی ہند عن شعبی عن علقمہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ «لیلة الجن» میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۲؎ آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی جو لمبی ہے، شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے بھائیوں (جنوں) کی خوراک ہے، ۳- گویا اسماعیل بن ابراہیم کی روایت حفص بن غیاث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎، ۴- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، ۵- اور اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف : ۹۴۶۵)

وضاحت: ۱؎ : یہی صحیح ہے کہ ہڈی اور گوبر دونوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنوں کا توشہ قرار دیا ، اور وہ روایتیں ضعیف ہیں جن میں ہے کہ ہڈی جنوں کا ، اور گوبر ان کے جانوروں کا توشہ ہے (دیکھئیے ضعیفہ رقم : ۱۰۳۸)۔ ۲؎ : امام ترمذی نے اس سند سے جس لمبی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو خود وہ سورۃ الاحقاف کی تفسیر میں (رقم : ۳۲۵۸)لائے ہیں (نیز یہ حدیث مسلم (رقم ۴۵۰)میں بھی ہے) اس میں تو صاف ذکر ہے کہ سوال کرنے پر عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے اپنے کو «لیلۃ الجن» میں موجود ہونے سے انکار کیا ، اور صحیح بات یہی ہے کہ ابن مسعود رضی الله عنہ کے اس «لیلۃ الجن» میں موجود رہنے کی تمام روایات ضعیف ہیں ، جن میں جنوں نے اپنے کھانے کا سوال کیا تھا ، یا جس میں نبیذ سے وضو کا ذکر ہے ، ہاں دو تین بار کسی اور موقع سے جنوں سے ملاقات کی رات آپ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھے (الکوکب الدری فی شرح الترمذی) ۳؎ : حفص بن غیاث اور اسماعیل بن ابراہیم کی حدیثوں میں فرق یہ ہے کہ حفص کی روایت سے «لا تستنجوا ……» کی حدیث متصل مرفوع ہے ، جبکہ اسماعیل کی روایت سے یہ شعبی کی مرسل حدیث ہو جاتی ہے (اور اس ارسال پر دیگر بہت سے ثقات نے اسماعیل کی متابعت کی ہے) اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے ، مگر صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت (جس کا تذکرہ مؤلف نے کیا ہے) اس کی صحیح شاہد ہے ، نیز دیگر شواہد سے اصل حدیث ثابت ہے۔

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 19

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ البصري،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يَخْتَارُونَ الِاسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ الِاسْتِنْجَاءُ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِئُ عِنْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الِاسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ وَرَأَوْهُ أَفْضَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے (یہ بات کہتے) شرما رہی ہوں، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی، انس، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے ۱؎، وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسند کرتے ہیں اگرچہ پتھر سے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھر بھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اور افضل قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۴۱ (۴۶) (تحفة الأشراف : ۱۷۹۷۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہاں بار بار آپ احادیث میں یہ جملہ پڑھ رہے ہیں : اسی پر اہل علم کا عمل ہے ، تو اہل علم سے مراد محدثین فقہاء اور قرآن وسنت کا صحیح فہم رکھنے والے لوگ ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قضائے حاجت کے لیے دور تشریف لے جانے کا بیان

حد یث نمبر - 20

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ فَأَبْعَدَ فِي الْمَذْهَبِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي قَتَادَةَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ وَأَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَرْتَادُ لِبَوْلِهِ مَكَانًا كَمَا يَرْتَادُ مَنْزِلًا،‏‏‏‏ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو بہت دور نکل گئے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن ابی قراد، ابوقتادہ، جابر، یحییٰ بن عبید عن أبیہ، ابو موسیٰ، ابن عباس اور بلال بن حارث رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- روایت کی جاتی ہے کہ نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پیشاب کے لیے اس طرح جگہ ڈھونڈتے تھے جس طرح مسافر اترنے کے لیے جگہ ڈھونڈتا ہے۔ ۴- ابوسلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة (۱) سنن النسائی/الطہارة ۱۶ (۱۷) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۲ (۳۳۱) سنن ابی داود/ الطہارة ۴ (۶۸۶) (تحفة الأشراف : ۷۵۴۰) مسند احمد (۴/۲۴۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ایسا صرف لوگوں کی نظروں سے دور ہو جانے کے لیے کرتے تھے ، اب یہ مقصد تعمیر شدہ بیت الخلاء سے حاصل ہو جاتا ہے۔

غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کراہت

حد یث نمبر - 21

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى مَرْدَوَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْأَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَبُولَ الرَّجُلُ فِي مُسْتَحَمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ أَشْعَثُ الْأَعْمَى، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبَوْلَ فِي الْمُغْتَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ عَامَّةُ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ يُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَبُّنَا اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ،‏‏‏‏ وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ قَدْ وُسِّعَ فِي الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ إِذَا جَرَى فِيهِ الْمَاءُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حِبَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ.

عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ۱؎ اور فرمایا: "زیادہ تر وسوسے اسی سے پیدا ہوتے ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے، ۲- یہ حدیث غریب ہے، ۲؎ ہم اسے صرف اشعث بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، انہیں اشعث اعمی بھی کہا جاتا ہے، ۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں، ۴- بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے جن میں سے ابن سیرین بھی ہیں، ابن سیرین سے کہا گیا: کہا جاتا ہے کہ اکثر وسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ۳؎، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس میں سے پانی بہ جاتا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۵ (۲۷) ، سنن النسائی/الطہارة ۳۲ (۳۶) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲ (۳۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۹۶۴۸) ، مسند احمد (۵/۵۶) (صحیح) (سند میں حسن بصری مدلس راوی ہیں، جن کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا دوسری روایات سے تقویت پا کر صحیح ہے، اور دوسرا ٹکڑا ضعیف ہے، دیکھئے: ضعیف ابی داود رقم: ۶، وصحیح ابی داود رقم: ۲۲)

وضاحت: ۱؎ : یہ ممانعت ایسے غسل خانوں کے سلسلے میں ہے جن میں پیشاب زمین میں جذب ہو جاتا ہے ، یا رک جاتا ہے ، پختہ غسل خانے جن میں پیشاب پانی پڑتے ہی بہہ جاتا ہے ان میں یہ ممانعت نہیں (ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ رقم : ۳۰۴)۔ ۲؎ : امام ترمذی کسی حدیث کے بارے میں جب لفظ "غریب" کہتے ہیں تو ایسی حدیثیں اکثر ضعیف ہوتی ہیں ، ایسی ساری احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے (ضعیف ابی داود رقم ۶)البتہ " غسل خانہ میں پیشاب کی ممانعت " سے متعلق پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ ۳؎ : مطلب یہ ہے جو بھی وسوسے پیدا ہوتے ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے ، غسل خانوں کے پیشاب کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

مسواک کا بیان

حد یث نمبر - 22

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِلَاهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحَّ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل فَزَعَمَ أَنَّ حَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ،‏‏‏‏ وَعَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَحُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَأُمِّ حَبِيبَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَتَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ،‏‏‏‏ وَأَبِي مُوسَى.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بروایت ابوسلمہ، ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی الله عنہما کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، محمد بن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زید بن خالد رضی الله عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ۲؎، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، علی، عائشہ، ابن عباس، حذیفہ، زید بن خالد، انس، عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، ام حبیبہ، ابوامامہ، ابوایوب، تمام بن عباس، عبداللہ بن حنظلہ، ام سلمہ، واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۸ (۸۸۷) ، والتمنی ۹ (۷۲۴۰) ، صحیح مسلم/الطہارة ۱۵ (۲۵۲) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۲۵ (۴۶) ، سنن النسائی/الطہارة ۷ (۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷ (۲۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۰۵۶) ، موطا امام مالک/الطہارة ۳۲ (۱۴) ، سنن الدارمی/الطہارة ۱۷ (۷۱۰) ، والصلاة ۱۶۸ (۱۵۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۰۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت و حرج کو دور رکھنا ہے ، اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے ، رہا مسواک کا مسنون ہونا تو وہ علی حالہ باقی ہے۔ ۲؎ : امام بخاری نے اس طریق کو دو وجہوں سے راجح قرار دیا ہے : ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابوسلمہ کا یہ کہنا ہے کہ زید بن خالد مسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے ، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمد نے کی ہے۔

مسواک کا بیان

حد یث نمبر - 23

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَلَأَخَّرْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ ". قال:‏‏‏‏ فَكَانَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ يَشْهَدُ الصَّلَوَاتِ فِي الْمَسْجِدِ وَسِوَاكُهُ عَلَى أُذُنِهِ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْكَاتِبِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ إِلَّا أُسْتَنَّ ثُمَّ رَدَّهُ إِلَى مَوْضِعِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "اگر مجھے اپنی امت کو حرج و مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر صلاۃ کے وقت (وجوباً) مسواک کرنے کا حکم دیتا، نیز میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرتا (راوی حدیث) ابوسلمہ کہتے ہیں: اس لیے زید بن خالد رضی الله عنہ نماز کے لیے مسجد آتے تو مسواک ان کے کان پر بالکل اسی طرح ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم ہوتا ہے، وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے پھر اسے اس کی جگہ پر واپس رکھ لیتے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۲۵ (۴۷) (تحفة الأشراف : ۳۷۶۶) مسند احمد (۴/۱۱۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ہر نماز کے وقت مسواک مسنون ہے ، «عند كل صلاة» " ہر نماز کے وقت " سے جو مقصد ہے وہ مسجد میں داخل ہو کر ، وضو خانہ میں ، یا نماز کے وقت وضو کے ساتھ مسواک کر لینے سے بھی پورا ہو جاتا ہے ، یہ ہندوستان اور پاکستان کے باشندے عموماً نیم یا کیکر کی مسواک کرتے ہیں اور عرب میں پیلو کی مسواک کا استعمال بہت زیادہ ہے ، اور یہاں لوگ نماز کے وقت بکثرت مسواک کرتے ہیں۔

جب آدمی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے

حد یث نمبر - 24

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، يُقَالُ هُوَ:‏‏‏‏ مِنْ وَلَدِ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ،‏‏‏‏ وَأبِى سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَأُحِبُّ لِكُلِّ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ قَائِلَةً كَانَتْ أَوْ غَيْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا يُدْخِلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَدْخَلَ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا كَرِهْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْمَاءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ نَجَاسَةٌ،‏‏‏‏ وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:‏‏‏‏ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ مِنَ اللَّيْلِ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْجَبُ إِلَيَّ أَنْ يُهْرِيقَ الْمَاءَ،‏‏‏‏ وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ أَوْ بِالنَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی رات کو نیند سے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پر دو یا تین بار پانی نہ ڈال لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر، جابر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- شافعی کہتے ہیں: میں ہر سو کر اٹھنے والے کے لیے - چاہے وہ دوپہر میں قیلولہ کر کے اٹھا ہو یا کسی اور وقت میں - پسند کرتا ہوں کہ وہ جب تک اپنا ہاتھ نہ دھوئے اسے وضو کے پانی میں نہ ڈالے اور اگر اس نے دھونے سے پہلے ہاتھ ڈال دیا تو میں اس کے اس فعل کو مکروہ سمجھتا ہوں لیکن اس سے پانی فاسد نہیں ہو گا بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو۲؎، احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب کوئی رات کو جاگے اور دھونے سے پہلے پانی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی کو میرے نزدیک بہا دینا بہتر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب وہ رات یا دن کسی بھی وقت نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۲۶ (۱۶۲) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲۶ (۲۷۸) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۴۹ (۱۰۳) ، سنن النسائی/الطہارة ۱ (۱) ، و۱۱۶ (۱۶۱) ، والغسل ۲۹ (۴۴۲) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۴۰ (۳۹۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۱۸۹ و۱۵۲۰۳) ، موطا امام مالک/الطہارة ۱۲ (۹) ، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۹، ۳۸۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : برتن کی قید سے حوض ، تالاب اور نہر وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتا ہے ، پس سو کر اٹھنے کے بعد ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے ، یہی جمہور کا قول ہے ، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے ، لیکن احمد نے اسے رات کی نیند کے ساتھ خاص کر دیا ہے اور اسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھا ہے ، صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قرار دیا ہے ، احتیاط اسی میں ہے ، رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتا ہے ، نیز صحیحین کی روایات میں«من الليل» کی بجائے «ممن نومه» " اپنی نیند سے " ہے تو یہ رات اور دن ہر نیند کے لیے عام ہوا۔

وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کا بیان

حد یث نمبر - 25

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:‏‏‏‏ لَا أَعْلَمُ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثًا لَهُ إِسْنَادٌ جَيِّدٌ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ إِسْحَاقُ:‏‏‏‏ إِنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ عَامِدًا أَعَادَ الْوُضُوءَ وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلًا أَجْزَأَهُ،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ:‏‏‏‏ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهَا،‏‏‏‏ وَأَبُوهَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو ثِفَالٍ الْمُرِّيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ ثُمَامَةُ بْنُ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ أَبُو بَكْرِ بْنُ حُوَيْطِبٍ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حُوَيْطِبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَنَسَبَهُ إِلَى جَدِّهِ.

سعید بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو «بسم اللہ» کر کے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، سہل بن سعد اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سند عمدہ ہو، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگر کوئی قصداً «بسم اللہ» کہنا چھوڑ دے تو وہ دوبارہ وضو کرے اور اگر بھول کر چھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو یہ اسے کافی ہو جائے گا، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمٰن کی ہے، یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۴۱ (۳۹۸) (تحفة الأشراف : ۴۴۷۰) مسند احمد (۴/۷۰) و (۵/۳۸۱-۳۸۲) و۶/۳۸۲) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ «بسم اللہ» کا پڑھنا وضو کے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضو صحیح نہیں ہو گا ، کیونکہ«لاوضوئ» سے صحت اور وجود کی نفی ہو رہی ہے نہ کہ کمال کی ، بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیر «بسم اللہ» کیے بھی وضو صحیح ہو جائے گا لیکن وضو کامل نہیں ہو گا ، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ «لا» کو اپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لینا ہی حقیقت ہے ، اور " نفی کمال " کے معنی میں لینا مجاز ہے اور یہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے ، " نفی کمال " کے معنی میں آئی احادیث ثابت نہیں ہیں ، امام احمد کے نزدیک راجح «بسم اللہ» کا وجوب ہے۔

وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کا بیان

حد یث نمبر - 26

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ، عَنْ جَدَّتِهِ بِنْتِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهَا،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.

اس سند سے بھی سعید بن زید رضی الله عنہ سے اوپر والی حدیث کے مثل مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن)

وضو اور غسل میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بیان

حد یث نمبر - 27

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ وَجَرِيرٌ،‏‏‏‏ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَثِرْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اسْتَجْمَرْتَ فَأَوْتِرْ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ وَلَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَرَكَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ حَتَّى صَلَّى، ‏‏‏‏‏‏أَعَادَ الصَّلَاةَ وَرَأَوْا ذَلِكَ فِي الْوُضُوءِ وَالْجَنَابَةِ سَوَاءً وَبِهِ. يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى،‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ الِاسْتِنْشَاقُ أَوْكَدُ مِنَ الْمَضْمَضَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يُعِيدُ فِي الْجَنَابَةِ وَلَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ طَائِفَةٌ:‏‏‏‏ لَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ لِأَنَّهُمَا سُنَّةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ عَلَى مَنْ تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ فِي آخِرَةٍ.

سلمہ بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجاء کرو تو طاق ڈھیلے لو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، لقیط بن صبرہ، ابن عباس، مقدام بن معدیکرب، وائل بن حجر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲-سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- جو کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑ دے اور نماز پڑھ لے تو وہ نماز کو لوٹائے ۱؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضو اور جنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے، ابن ابی لیلیٰ، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں، امام احمد (مزید) کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اور ناک نہ جھاڑنے کی صورت میں نماز لوٹائے اور وضو میں نہ لوٹائے ۲؎ یہ سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا قول ہے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نہ وضو میں لوٹائے اور نہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں، تو جو انہیں وضو اور جنابت میں چھوڑ دے اس پر نماز لوٹانا واجب نہیں، یہ مالک اور شافعی کا آخری قول ہے ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۷۲ (۸۹) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۴۴ (۴۰۶) (تحفة الأشراف : ۴۵۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اور غسل دونوں میں فرض ہیں ، ان کی دلیل یہی حدیث ہے ، اس میں "امر" کا صیغہ استعمال ہوا ہے ، اور "امر" کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ، الا یہ کہ کوئی قرینہ ایسا قرینہ موجود ہو جس سے "امر" کا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جو ان کے بقول یہاں نہیں ہے ، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے موید ہیں۔ ۲؎ : ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اور جنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے۔ ۳؎ : یہی جمہور علماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سوا کسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیر کلی اور ناک جھاڑے پڑھی ہوئی نماز دہرانے کے قائل ہو ، گویا یہ مسنون ہوا فرض اور واجب نہیں۔

ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا بیان

حد یث نمبر - 28

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى مَالِكٌ،‏‏‏‏ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْحَرْفَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّمَا ذَكَرَهُ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ يُجْزِئُ،‏‏‏‏ وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ تَفْرِيقُهُمَا أَحَبُّ إِلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ إِنْ جَمَعَهُمَا فِي كَفٍّ وَاحِدٍ فَهُوَ جَائِزٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ فَرَّقَهُمَا فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا.

عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین بار آپ نے ایسا کیا۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- عبداللہ بن زید رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۳-مالک، سفیان، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ بات ذکر نہیں کی کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اسے صرف خالد ہی نے ذکر کیا ہے اور خالد محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہو گا، اور بعض نے کہا ہے کہ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینا ہمیں زیادہ پسند ہے، شافعی کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں کو ایک ہی چلو میں جمع کرے تو جائز ہے لیکن اگر الگ الگ چلّو سے کرے تو یہ ہمیں زیادہ پسند ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۸ (۱۸۵) ، و۳۹ (۱۸۶) ، و۴۱ (۱۹۱) ، و۴۲ (۱۹۲) ، و۴۵ (۱۹۷) ، صحیح مسلم/الطہارة ۷ (۲۳۵) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۵۰ (۱۱۸) ، سنن النسائی/الطہارة ۸۰-۸۲ (۹۷، ۹۸، ۹۹) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۵۱ (۴۳۴) (نحوہ) و ۶۱ (۴۷۱) (مختصرا) (تحفة الأشراف : ۵۳۰۸) موطا امام مالک/الطہارة ۱ (۱) ، مسند احمد (۴/۳۸، ۳۹) ، سنن الدارمی/ الطہارة ۲۸ (۷۲۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانا افضل ہے دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بھی احادیث آئی ہیں لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنے کی احادیث زیادہ اور صحیح ترین ہیں ، دونوں صورتیں جائز ہیں ، لیکن ایک چلو سے دونوں میں پانی ڈالنا زیادہ اچھا ہے ، علامہ محمد بن اسماعیل الأمیرالیمانی "سبل السلام" میں فرماتے ہیں : اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اختیار ہے اور ہر ایک سنت ہے ، گرچہ دونوں کو ایک کلی میں جمع کرنے کی روایات زیادہ ہیں اور صحیح تر ہیں ، واضح رہے کہ اختلاف زیادہ بہتر ہونے میں ہے جائز اور ناجائز کی بات نہیں ہے۔ ۲؎ : امام شافعی سے اس سلسلہ میں دو قول مروی ہیں ایک تو یہی جسے امام ترمذی نے یہاں نقل کیا ہے اور دوسرا ایک ہی چلو میں دونوں کو جمع کرنے کا اور یہ ان کا مشہور قول ہے۔

داڑھی کے خلال کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 29

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلَالٍ، قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ تَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَتُخَلِّلُ لِحْيَتَكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا يَمْنَعُنِي وَلَقَدْ " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ ".

حسان بن بلال کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال کیا ۱؎ ان سے کہا گیا یا راوی حدیث حسان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا: کیا آپ اپنی داڑھی کا خلال کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو داڑھی کا خلال کرتے دیکھا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۰ (۴۲۹) (تحفة الأشراف : ۱۰۳۴۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی کا خلال مسنون ہے ، بعض لوگ وجوب کے قائل ہیں ، لیکن تمام دلائل کا جائزہ لینے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سنت ہے واجب نہیں ، جمہور کا یہی قول ہے۔

داڑھی کے خلال کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 30

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ عَمَّارٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وسَمِعْت إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ:‏‏‏‏ لَمْ يَسْمَعْ عَبْدُ الْكَرِيمِ مِنْ حَسَّانَ بْنِ بِلَالٍ حَدِيثَ التَّخْلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ محمد بْنُ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وقَالَ بِهَذَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَعْدَهُمْ رَأَوْا تَخْلِيلَ اللِّحْيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ إِنْ سَهَا عَنْ تَخْلِيلِ اللِّحْيَةِ فَهُوَ جَائِزٌ،‏‏‏‏ وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ إِنْ تَرَكَهُ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلًا أَجْزَأَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَرَكَهُ عَامِدًا أَعَادَ.

اس سند سے بھی عمار بن یاسر سے اوپر ہی کی حدیث کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عائشہ، ام سلمہ، انس، ابن ابی اوفی اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامر بن شقیق کی ہے، جسے انہوں نے ابووائل سے اور ابووائل نے عثمان رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے (جو آگے آ رہی ہے)، ۳- صحابہ اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں، ان لوگوں کی رائے ہے کہ داڑھی کا خلال (مسنون) ہے اور اسی کے قائل شافعی بھی ہیں، احمد کہتے ہیں کہ اگر کوئی داڑھی کا خلال کرنا بھول جائے تو وضو جائز ہو گا، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کر چھوڑ دے یا خلال والی حدیث کی تاویل کر رہا ہو تو اسے کافی ہو جائے گا اور اگر قصداً جان بوجھ کر چھوڑے تو وہ اسے (وضو کو) لوٹائے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

داڑھی کے خلال کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 31

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۰ (۴۳۰) (تحفة الأشراف : ۹۸۰۹) (صحیح)

سر کے اگلے حصہ سے مسح شروع کرنے اور پچھلے حصہ تک لے جانے کا بیان

حد یث نمبر - 32

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق 1.

عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے سر کا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے شروع کیا پھر انہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا، پھر آپ نے دونوں پیر دھوئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدیکرب اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے اور اسی کے قائل شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر رقم: ۲۸ (صحیح)

مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 33

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِهِ ثُمَّ بِمُقَدَّمِهِ وَبِأُذُنَيْهِ كِلْتَيْهِمَا ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ مِنْ هَذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ.

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا دو مرتبہ ۱؎ مسح کیا، آپ نے (پہلے) اپنے سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا ۲؎، پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سند کے اعتبار سے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے، ۲- اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۰ (۱۲۶) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۹ (۳۹۰) ، و۵۲ (۴۴۰) (تحفة الأشراف : ۱۵۸۳۷) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : حقیقت میں یہ ایک ہی مسح ہے آگے اور پیچھے دونوں کو راوی نے الگ الگ مسح شمار کر کے اسے «مرتین» " دو بار " سے تعبیر کیا ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سر کا مسح سر کے پچھلے حصہ سے شروع کیا جائے ، لیکن عبداللہ بن زید کی متفق علیہ روایت جو اوپر گزری اس کے معارض اور اس سے زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ ربیع کی حدیث میں ایک راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لی جائے تو ممکن ہے آپ نے بیان جواز کے لیے ایسا بھی کیا ہو۔ ۳؎ : یہ مرجوح مذہب ہے ، راجح سر کے اگلے حصہ ہی سے شروع کرنا ہے ، جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا۔

سر کا مسح صرف ایک بار ہے

حد یث نمبر - 34

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَتَوَضَّأُ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَسَحَ رَأْسَهُ وَمَسَحَ مَا أَقْبَلَ مِنْهُ وَمَا أَدْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَصُدْغَيْهِ وَأُذُنَيْهِ مَرَّةً وَاحِدَةً ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَدِّ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفِ بْنِ عَمْرٍو. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ الرُّبَيِّعِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ رَأَوْا مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مَسْحِ الرَّأْسِ:‏‏‏‏ أَيُجْزِئُ مَرَّةً ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِي وَاللَّهِ.

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے اپنے سر کا ایک بار مسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اور پچھلے حصہ کا بھی اور اپنی دونوں کنپٹیوں اور کانوں کا بھی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ربیع رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور بھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح ایک بار کیا، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور جعفر بن محمد، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۵- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سر کے مسح کے بارے میں پوچھا: کیا ایک مرتبہ سر کا مسح کر لینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا رد کرنا چاہتے ہیں جو تین بار مسح کے قائل ہیں۔ ۲؎ : امام ترمذی نے امام شافعی سے ایسا ہی نقل کیا ہے ، مگر بغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بار مسح کرنے کا قول نقل کیا ہے ، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پر ہے ، مگر یا تو یہ دیگر اعضاء پر قیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے ، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے (صحیحین کی نیز دیگر احادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے)۔

سر کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کا بیان

حد یث نمبر - 35

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ وَرِوَايَةُ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يَأْخُذَ لِرَأْسِهِ مَاءً جَدِيدًا.

عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سر کا مسح کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسند «حبان بن واسع عن أبیہ» روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے کہا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا، ۳- عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۱؎ کیونکہ اور بھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا، ۴- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۷ (۲۳۶) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۵۰ (۱۲۰) ، وانظر أیضا رقم: ۲۸ (تحفة الأشراف : ۵۳۰۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مؤلف نے عمرو بن حارث کی روایت کے لیے " زیادہ صحیح " کا لفظ اس لیے اختیار کیا ہے کہ " ابن لہیعہ " کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے ، اور عبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے ، لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں ، اس لیے ان کی روایت " عمرو بن حارث " کی روایت کے مقابلہ میں شاذ ہے اور عمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے۔

دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کے مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 36

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مَسْحَ الْأُذُنَيْنِ ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ربیع رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی دونوں حصوں کا مسح کیا جائے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۷ (۱۴۰) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۵۲ (۱۳۷) ، سنن النسائی/الطہارة ۸۴ (۱۰۱، ۱۰۲) ، (تحفة الأشراف : ۵۹۷۸) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں ، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے ، اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔

وضو میں دونوں کانوں کے سر میں داخل ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 37

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي هَذَا مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مِنْ قَوْلِ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَعْدَهُمْ أَنَّ الْأُذُنَيْنِ مِنَ الرَّأْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ مَا أَقْبَلَ مِنَ الْأُذُنَيْنِ فَمِنَ الْوَجْهِ وَمَا أَدْبَرَ فَمِنَ الرَّأْسِ،‏‏‏‏ قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ وَأَخْتَارُ أَنْ يَمْسَحَ مُقَدَّمَهُمَا مَعَ الْوَجْهِ وَمُؤَخَّرَهُمَا مَعَ رَأْسِهِ،‏‏‏‏ وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ هُمَا سُنَّةٌ عَلَى حِيَالِهِمَا يَمْسَحُهُمَا بِمَاءٍ جَدِيدٍ.

ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا اور فرمایا:"دونوں کان سر میں داخل ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قتیبہ کا کہنا ہے کہ حماد کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قول ہے یا ابوامامہ کا، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور اسی کے قائل سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ ہیں ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ کان کے سامنے کا حصہ چہرہ میں سے ہے (اس لیے اسے دھویا جائے) اور پیچھے کا حصہ سر میں سے ہے ۲؎۔ (اس لیے مسح کیا جائے) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کان کے سامنے کے حصہ کا مسح چہرہ کے ساتھ کرے (یعنی چہرہ کے ساتھ دھوئے) اور پچھلے حصہ کا سر کے ساتھ ۳؎، شافعی کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنت ہیں (اس لیے) دونوں کا مسح نئے پانی سے کرے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۰ (۱۳۴) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۳ (۴۴۴) (تحفة الأشراف : ۴۸۸۷) مسند احمد (۵/۲۵۸، ۲۶۸) (صحیح) (سند میں دو راوی ’’ سنان ‘‘ اور ’’ شہر ‘‘ ضعیف ہیں، لیکن دیگر احادیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : یہی قول راجح ہے۔ ۲؎ : یہ شعبی اور حسن بن صالح اور ان کے اتباع کا مذہب ہے۔ ۳؎ : امام ترمذی نے یہاں صرف تین مذاہب کا ذکر کیا ہے ، ان تینوں کے علاوہ اور بھی مذاہب ہیں ، انہیں میں سے ایک مذہب یہ ہے کہ دونوں کان چہرے میں سے ہیں ، لہٰذا یہ چہرے کے ساتھ دھوئے جائیں گے ، اسی طرف امام زہری اور داود ظاہری گئے ہیں ، اور ایک قول یہ ہے کہ انہیں چہرے کے ساتھ دھویا جائے اور سر کے ساتھ ان کا مسح کیا جائے۔

انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان

حد یث نمبر - 38

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلِ الْأَصَابِعَ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَالْمُسَتَوْرِدِ وَهُوَ:‏‏‏‏ ابْنُ شَدَّادٍ الْفِهْرِيُّ،‏‏‏‏ وَأبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ،‏‏‏‏ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ فِي الْوُضُوءِ،‏‏‏‏ وَأَبُو هَاشِمٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ إِسْمَاعِيل بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ.

لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عباس، مستورد بن شداد فہری اور ابوایوب انصاری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضو میں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۵ (۱۴۲) سنن النسائی/الطہارة ۷۱ (۸۷) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۴۴ (۴۰۷) ویأتي عند المؤلف فی الصیام (۷۸۸) (تحفة الأشراف : ۱۱۱۷۲) مسند احمد (۴/۳۳) سنن الدارمی/الطہارة ۳۴ (۷۳۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں پیروں اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہے ، کیونکہ امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے ، اس بابت انگلیوں کے درمیان پانی پہنچنے نہ پہنچنے میں کوئی فرق نہیں۔

انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان

حد یث نمبر - 39

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ وَهُوَ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۴ (۴۴۷) (تحفة الأشراف : ۵۶۸۵) (حسن صحیح) (سند میں صالح مولی التوامہ مختلط راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

انگلیوں کے (درمیان) خلال کا بیان

حد یث نمبر - 40

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ الْفِهْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ دَلَكَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ بِخِنْصَرِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ.

مستورد بن شداد فہری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں کو اپنے«خنصر» (ہاتھ کی چھوٹی انگلی) سے ملتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ابن لھیعہ کے طریق ہی سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۸ (۱۴۸) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۵۴ (۴۴۶) (تحفة الأشراف : ۱۱۲۵۶) مسند احمد (۴/۲۲۹) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن لھیعہ ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)

وضو میں ایڑیاں دھونے میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے وارد وعید کا بیان

حد یث نمبر - 41

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيُّ،‏‏‏‏ وَمُعَيْقِيبٍ،‏‏‏‏ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ،‏‏‏‏ وَشُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ،‏‏‏‏ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنَ النَّارِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِمَا خُفَّانِ أَوْ جَوْرَبَانِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی برتنے والوں کے لیے خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے"۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عائشہ، جابر، عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی معیقیب، خالد بن ولید، شرحبیل بن حسنہ، عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ "ان ایڑیوں اور قدم کے تلوؤں کے لیے جو وضو میں سوکھی رہ جائیں خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے" اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ پیروں کا مسح جائز نہیں اگر ان پر موزے یا جراب نہ ہوں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۱۷) وانظر: مسند احمد (۲/۲۸۴۲۲۸۲، ۴۰۶، ۴۰۷، ۴۰۹، ۴۲۰، ۴۸۲، ۴۹۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر پیروں میں موزے یا جراب نہ ہو تو ان کا دھونا واجب ہے ، مسح کافی نہیں جیسا کہ شیعوں کا مذہب ہے ، کیونکہ اگر مسح سے فرض ادا ہو جاتا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم «ويل للأعقاب وبطون الأقدام من النار» نہ فرماتے۔

اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 42

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَقُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ. ح قَالَ:‏‏‏‏ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَبُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ وَأبِي رَافِعٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْفَاكِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً. قَالَ:‏‏‏‏ وَلَيْسَ هَذَا بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى ابْنُ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو ایک ایک بار دھوئے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمر، جابر، بریدۃ، ابورافع، اور ابن الفاکہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عباس کی یہ حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ۳- رشدین بن سعد وغیرہ بسند «ضحاک بن شرحبیل عن زید بن اسلم عن أبیہ» سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ فرماتے ہیں: "نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا"، یہ (روایت) کچھ بھی نہیں ہے صحیح وہی روایت ہے جسے ابن عجلان، ہشام بن سعد، سفیان ثوری اور عبدالعزیز بن محمد نے بسند «زید بن اسلم عن عطاء بن یسار عن ابن عباس عن النبی کریم صلی الله علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۲۲ (۱۵۷) ، سنن ابی داود/ الطھارة ۵۳ (۱۳۸) ، سنن النسائی/الطھارة ۶۴ (۸۰) ، ق ۴۵ (۴۱۱) (تحفة الأشراف : ۵۹۷۶) مسند احمد (۱/۳۳۲) ، سنن الدارمی/الطھارة ۲۹ (۷۲۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ فرض تعداد ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کبھی کبھی بیان جواز کے لیے ایسا کرتے تھے ، ورنہ سنت دو مرتبہ اور تین مرتبہ دھونا ہے۔ ۲؎ : یعنی اعضائے وضو کو دھونے کے بارے میں زید بن اسلم کے طریق سے جو روایت آتی ہے ، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ مذکورہ سند سے ابن عباس رضی الله عنہما کی مسند سے ہے ، نہ کہ عمر رضی الله عنہ کی مسند سے ، رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں۔

اعضائے وضو کے دو دو بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 43

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ هُوَ الْأَعْرَجُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى هَمَّامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو دو دو بار دھوئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- ہم یہ جانتے ہیں کہ اسے صرف ابن ثوبان نے عبداللہ بن فضل سے روایت کیا ہے اور یہ سند حسن صحیح ہے، ۴- ھمام نے بسند «عامر الا ٔ حول عن عطاء عن ابی ہریرہ» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۲ (۱۳۶) (تحفة الأشراف : ۱۳۹۴۰) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ہمام بن یحییٰ اور عامر الاحول دونوں سے وہم ہو جایا کرتا تھا ، تو ایسا نہ ہو کہ اس روایت میں ان دونوں میں سے کسی سے وہم ہو گیا ہو اور بجائے دو دو کے تین تین روایت کر دی ہو ، ویسے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک دوسری (ضعیف) سند سے ابن ماجہ (رقم : ۴۱۵)میں ایسی ہی روایت ہے۔

اعضائے وضو تین تین بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 44

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالرُّبَيِّعِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْروٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوُضُوءَ يُجْزِئُ مَرَّةً مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏وَمَرَّتَيْنِ أَفْضَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَفْضَلُهُ ثَلَاثٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ لَا آمَنُ إِذَا زَادَ فِي الْوُضُوءِ عَلَى الثَّلَاثِ أَنْ يَأْثَمَ،‏‏‏‏ وقَالَ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ لَا يَزِيدُ عَلَى الثَّلَاثِ إِلَّا رَجُلٌ مُبْتَلًى.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عائشہ، ربیع، ابن عمر، ابوامامہ، ابورافع، عبداللہ بن عمرو، معاویہ، ابوہریرہ، جابر، عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- علی رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے کیونکہ یہ علی رضی الله عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے،۳- اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا کافی ہے، دو دو بار افضل ہے اور اس سے بھی زیادہ افضل تین تین بار دھونا ہے، اس سے آگے کی گنجائش نہیں، ابن مبارک کہتے ہیں: جب کوئی اعضائے وضو کو تین بار سے زیادہ دھوئے تو مجھے اس کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: تین سے زائد بار اعضائے وضو کو وہی دھوئے گا جو (دیوانگی اور وسوسہ) میں مبتلا ہو گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة۵۰ (۱۱۶) سنن النسائی/الطہارة۷۹ (۹۶) و۹۳ (۱۱۵) و۱۰۳ (۱۳۶) (تحفة الأشراف : ۱۰۳۲۱، و۱۰۳۲۲) مسند احمد (۱/۱۲۲) ویأتي برقم: ۴۸، وانظر ما یأتي برقم ۴۹ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اگر کسی کو شک ہو جائے کہ تین بار دھویا ہے یا دو ہی بار ، تب بھی اسی پر اکتفا کرے کیونکہ اگر تین بار نہیں دھویا ہو گا تو دو بار تو دھویا ہی ہے ، جو کافی ہے۔

اعضائے وضو کو ایک ایک بار ، دو دو بار اور تین تین بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 45

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَكَجَابِرٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً،‏‏‏‏ وَمَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ،‏‏‏‏ وَثَلَاثًا ثَلَاثًا "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ.

ابوحمزہ ثابت بن ابی صفیہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے پوچھا: کیا جابر رضی الله عنہما نے آپ سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو ایک ایک بار، دو دو بار، اور تین تین بار دھوئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جی ہاں (بیان کیا ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۴۵ (۴۱۰) (تحفة الأشراف : ۲۵۹۲) (ضعیف) (سند میں ابو حمزہ ثابت بن ابی صفیہ الثمالی، و اور شریک بن عبداللہ القاضی دونوں ضعیف ہیں، نیز یہ آگے آنے والی حدیث کے مخالف بھی ہے، جس کے بارے میں امام ترمذی کا فیصلہ ہے کہ وہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے)

اعضائے وضو کو ایک ایک بار ، دو دو بار اور تین تین بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 46

قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَوَى وَكِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّةَ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَكَ 26 جَابِرٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ. وحَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَقُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّة، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ نَحْوَ رِوَايَةِ وَكِيعٍ،‏‏‏‏ وَشَرِيكٌ كَثِيرُ الْغَلَطِ، ‏‏‏‏‏‏وَثَابِتُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ هُوَ أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ.

یہ حدیث وکیع نے ثابت بن ابی صفیہ سے روایت کی ہے، میں نے ابو جعفر (محمد بن علی بن حسین الباقر) سے پوچھا کہ آپ سے جابر رضی الله عنہما نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو کو ایک بار دھو دیا، انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ ثابت سے وکیع کی روایت کی طرح اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۲- اور شریک کثیر الغلط راوی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: (صحیح) (سابقہ ابن عباس کی حدیث اور اس میں مذکور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضو میں بعض اعضاء دو بار دھونے اور بعض تین بار دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 47

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذُكِرَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ بَعْضَ وُضُوئِهِ مَرَّةً وَبَعْضَهُ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ:‏‏‏‏ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بَعْضَ وُضُوئِهِ ثَلَاثًا وَبَعْضَهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ مَرَّةً.

عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا تو آپ نے اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پیر دو دو بار دھوئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کے علاوہ اور بھی حدیثوں میں یہ بات مذکور ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعض اعضائے وضو کو ایک ایک بار اور بعض کو تین تین بار دھویا، ۳- بعض اہل علم نے اس بات کی اجازت دی ہے، ان کی رائے میں وضو میں بعض اعضاء کو تین بار، بعض کو دو بار اور بعض کو ایک بار دھونے میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: (صحیح الإسناد) (وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ مَرَّتَيْنِ میں مرتين کا لفظ شاذ ہے، صحیح ابی داود ۱۰۹)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کیسا تھا

حد یث نمبر - 48

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَقُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي حَيَّةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " رَأَيْتُ عَلِيًّا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ حَتَّى أَنْقَاهُمَا ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةً،‏‏‏‏ ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ فَضْلَ طَهُورِهِ فَشَرِبَهُ وَهُوَ قَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَحْبَبْتُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ طُهُورُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَالرُّبَيِّعِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ.

ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا، تین بار اپنا چہرہ دھویا اور ایک بار اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ۱؎، پھر کہا: میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا وضو کیسے ہوتا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان، عبداللہ بن زید، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، ربیع، عبداللہ بن انیس اور عائشہ رضوان اللہ علیہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر رقم: ۴۴ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : صحیح بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کہا : لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز نہیں سمجھتے ، حالانکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے کیا ہے ، اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں ، ۱- کھڑے ہو کر کبھی کبھی پانی پینا جائز ہے ، ۲- وضو سے بچے ہوئے پانی میں برکت ہوتی ہے اس لیے آپ نے اسے پیا اور کھڑے ہو کر پیا تاکہ لوگ یہ عمل دیکھ لیں ، نہ یہ کہ وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر ہی پینا چاہیئے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کیسا تھا

حد یث نمبر - 49

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ذَكَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي حَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّ عَبْدَ خَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ طُهُورِهِ أَخَذَ مِنْ فَضْلِ طَهُورِهِ بِكَفِّهِ فَشَرِبَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَيَّةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ خَيْرٍ،‏‏‏‏ وَالْحَارِثِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيثَ الْوُضُوءِ بِطُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ فَأَخْطَأَ فِي اسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَالِكُ بْنُ عُرْفُطَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ قَالَ:‏‏‏‏ وَرُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ عُرْفُطَةَ مِثْلُ رِوَايَةِ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ.

عبد خیر نے بھی علی رضی الله عنہ سے، ابوحیہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کی ہے، مگر عبد خیر کی روایت میں ہے کہ جب وہ اپنے وضو سے فارغ ہوئے تو بچے ہوئے پانی کو انہوں نے اپنے چلو میں لیا اور اسے پیا۔

امام ترمذی نے اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۰ (۱۱۱) سنن النسائی/الطہارة ۷۴ (۹۱) و۷۵ (۹۲) و۷۶ (۹۳) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۰۳) مسند احمد (۱/۱۲۲) سنن الدارمی/الطہارة ۳۱ (۷۲۸) وانظر رقم: ۴۴ (صحیح)

وضو کے بعد (شرمگاہ پر) پانی چھڑکنے کا بیان

حد یث نمبر - 50

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللَّهِ السَّلِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " جَاءَنِي جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍ الْهَاشِمِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَوْ الْحَكَمُ بْنُ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَاضْطَرَبُوا فِي هَذَا الْحَدِيثِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس جبرائیل نے آ کر کہا: اے محمد! جب آپ وضو کریں تو (شرمگاہ پر) پانی چھڑک لیں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے سنا ہے کہ حسن بن علی الھاشمی منکر الحدیث راوی ہیں ۲؎، ۳- اس حدیث کی سند میں لوگ اضطراب کا شکار ہیں، ۴- اس باب میں ابوالحکم بن سفیان، ابن عباس، زید بن حارثہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ الطہارة ۵۸ (۴۶۳) (تحفة الأشراف : ۱۳۶۴۴) (ضعیف) (اس کے راوی حسن بن علی ہاشمی ضعیف ہیں، قولی حدیث ثابت نہیں، فعل رسول صلی الله علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے، دیکھئے: الضعیفة ۱۳۱۲، والصحیحة ۸۴۱)

وضاحت: ۱؎ : اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے یہ وسوسہ ختم ہو جاتا ہے کہ شاید شرمگاہ کے پاس کپڑے میں جو نمی ہے وہ ہو نہ ہو پیشاب کے قطروں سے ہو ، اور ظاہر بات ہے کہ وضو کے بعد اس طرح کی نمی ملنے پر یہ شک ہو گا ، لیکن اگر پیشاب کے بعد اور وضو سے پہلے نمی ہو گی تو وہ پیشاب ہی کی ہو گی۔ ۲؎ : حسن بن علی نوفلی ہاشمی کی وجہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث ضعیف ہے ، مگر اس باب میں دیگر صحابہ سے فعل رسول ثابت ہے۔

کامل طور سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 51

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ " قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی چیزیں نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتا ہے؟"لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں، آپ ضرور بتائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "ناگواری کے باوجود مکمل وضو کرنا ۱؎ اور مسجدوں کی طرف زیادہ چل کر جانا ۲؎ اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا، یہی سرحد کی حقیقی پاسبانی ہے" ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الطہارة ۱۴ (۲۵۱) سنن النسائی/الطہارة۱۰۷ (۱۴۳) (تحفة الأشراف : ۱۳۹۸۱) موطا امام مالک/السفر۱۸ (۵۵) مسند احمد (۲/۲۷۷، ۳۰۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ناگواری کے باوجود مکمل وضو کرنے کا مطلب ہے سخت سردی میں اعضاء کا مکمل طور پر دھونا ، یہ طبیعت پر نہایت گراں ہوتا ہے اس کے باوجود مسلمان محض اللہ کی رضا کے لیے ایسا کرتا ہے اس لیے اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے۔ ۲؎ : مسجد کا قرب بعض اعتبار سے مفید ہے لیکن گھر کا مسجد سے دور ہونا اس لحاظ سے بہتر ہے کہ جتنے قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔ ۳؎ : یعنی یہ تینوں اعمال اجر و ثواب میں سرحدوں کی پاسبانی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی طرح ہیں ، یا یہ مطلب ہے کہ جس طرح سرحدوں کی نگرانی کے سبب دشمن ملک کے اندر گھس نہیں پاتا اسی طرح ان اعمال پر مواظبت سے شیطان نفس پر غالب نہیں ہو پاتا۔

کامل طور سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 52

وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَعَبِيدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ عُبَيْدَةُ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيِّ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْبَابِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ الْجُهَنِيُّ الْحُرَقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اس طرح روایت ہے، لیکن قتیبہ نے اپنی روایت میں «فذلكم الرباط فذلكم الرباط فذلكم الرباط»تین بار کہا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، عبیدہ - یا۔۔۔ عبیدہ بن عمرو - عائشہ، عبدالرحمٰن بن عائش الحضرمی اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۴۰۷۱) (صحیح)

وضو کے بعد رومال سے بدن پونچھنے کا بیان

حد یث نمبر - 53

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِرْقَةٌ يُنَشِّفُ بِهَا بَعْدَ الْوُضُوءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ لَيْسَ بِالْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مُعَاذٍ يَقُولُونَ:‏‏‏‏ هُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضو کے بعد اپنا بدن پونچھتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی روایت درست نہیں ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے، ابومعاذ سلیمان بن ارقم محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ۲- اس باب میں معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المولف (تحفة الأشراف : ۱۶۴۵۷) (حسن) (سند میں ’’ ابو معاذ سلیمان بن ارقم ‘‘ ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ۵۰۲، والصحیحہ ۲۰۹۹)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، نیز اس باب میں وارد کوئی بھی صریح حدیث صحیح نہیں ہے جیسا کہ امام ترمذی نے صراحت کی ہے ، مگر ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث جو صحیحین کی حدیث سے اس سے اس کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے ، اس میں ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد ام سلمہ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو تولیہ پیش کیا تو آپ نے نہیں لیا ، اس سے ثابت ہوا کہ غسل کے بعد تولیہ استعمال کرنے کی عادت تھی تبھی تو ام سلمہ رضی الله عنہا نے پیش کیا ، مگر اس وقت کسی وجہ سے آپ نے اسے استعمال نہیں کیا اور ایسا بہت ہوتا ہے۔

وضو کے بعد رومال سے بدن پونچھنے کا بیان

حد یث نمبر - 54

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ وَجْهَهُ بِطَرَفِ ثَوْبِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي التَّمَنْدُلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَرِهَهُ إِنَّمَا كَرِهَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّهُ قِيلَ إِنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ،‏‏‏‏ وَالزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ مُجَاهِدٍ عَنِّي وَهُوَ عِنْدِي ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَعْلَبَة، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا كُرِهَ الْمِنْدِيلُ بَعْدَ الْوُضُوءِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ.

معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو چہرے کو اپنے کپڑے کے کنارے سے پونچھتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے، رشدین بن سعد اور عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم الافریقی دونوں حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں، ۲- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کے ایک گروہ نے وضو کے بعد رومال سے پونچھنے کی اجازت دی ہے، اور جن لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے تو محض اس وجہ سے کہا ہے کہ کہا جاتا ہے: وضو کو (قیامت کے دن) تولا جائے گا، یہ بات سعید بن مسیب اور زہری سے روایت کی گئی ہے، ۳- زہری کہتے ہیں کہ وضو کے بعد تولیہ کا استعمال اس لیے مکروہ ہے کہ وضو کا پانی (قیامت کے روز) تولا جائے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفردبہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۳۴) (ضعیف الإسناد) (سند میں رشدین بن سعد اور عبدالرحمن افریقی دونوں ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎ : اس معنی میں بھی کوئی مرفوع صحیح حدیث وارد نہیں ہے ، اور قیامت کے دن وزن کیے جانے کی بات اجر و ثواب کی بات ہے کوئی چاہے تو اپنے طور پر یہ اجر حاصل کرے ، لیکن اس سے یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ تولیہ کا استعمال ہی مکروہ ہے۔

وضو کے بعد کیا دعا پڑھی جائے ؟

حد یث نمبر - 55

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، وَأَبيِ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ، ‏‏‏‏‏‏فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عُمَرَ قَدْ خُولِفَ زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَوَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فِي هَذَا الْبَابِ كَبِيرُ شَيْءٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَأَبُو إِدْرِيسَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ شَيْئًا.

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے" تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- امام ترمذی نے عمر رضی الله عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے، ۳- اس باب میں زیادہ تر چیزیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۰۸۰) وأخرجہ بدون قولہ ’’ اللھم اجعلني … ‘‘ کل من: صحیح مسلم/الطھارة ۶ (۲۳۴) ، والطھارة ۶۵ (۱۶۹) ، و سنن النسائی/الطھارة ۱۰۹ (۱۴۸) ، والطھارة ۶۰ (۴۷۰) ، و مسند احمد (۱/۱۴۶، ۱۵۱، ۱۵۳) من طریق عقبة بن عامر عن عمر (تحفة الأشراف : ۱۰۶۰۹) (صحیح) (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۱۶۲)

وضاحت: ۱؎ : عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم : ۲۳۴)اور اس میں «اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» کا اضافہ نہیں ہے ، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے ، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہر عضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں : مثلاً چہرہ دھونے کے وقت «اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه» اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت«اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً» ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ۳؎ : ترمذی کی سند میں ابو ادریس " کی روایت براہ راست عمر رضی الله عنہ سے ہے ، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں " ابو ادریس " کے بعد "جبیر بن نفیر عن عقبہ بن عامر ، عن عمر" ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے ، بہرحال ترمذی کی روایت میں «اللهم أجعلني …» کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی الله عنہ کی حدیث میں موجود ہے ، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو : الإرواء رقم ۹۶ ، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)

ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 56

وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،‏‏‏‏ وَعَليُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ، عَنْ سَفِينَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَفِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو رَيْحَانَةَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَطَرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ وَالْغُسْلَ بِالصَّاعِ،‏‏‏‏ وقَالَ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ لَيْسَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى التَّوَقِّي أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَكْثَرُ مِنْهُ وَلَا أَقَلُّ مِنْهُ وَهُوَ قَدْرُ مَا يَكْفِي.

سفینہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، جابر اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مد پانی سے وضو کیا جائے اور ایک صاع پانی سے غسل، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصود تحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یا کم جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدار ایسی ہے جو کافی ہوتی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض۱۰ (۳۲۶) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱ (۲۶۷) (تحفة الأشراف : ۴۴۷۹) مسند احمد (۵/۲۲۲) سنن الدارمی/الطہارة ۲۳ (۷۱۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور صاع چار مد کا ہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔ ۲؎ : مسلم میں ایک «فرق» پانی سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے ، «فرق» ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتا تھا ، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک «فرق» پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے ، یہ سب آدمی کے مختلف حالات اور مختلف آدمیوں کے جسموں پر منحصر ہے ، ایک ہی آدمی جاڑا اور گرمی ، یا بدن کی زیادہ یا کم گندگی کے سبب کم و بیش پانی استعمال کرتا ہے ، نیز بعض آدمیوں کے بدن موٹے اور لمبے چوڑے ہوتے ہیں اور بعض آدمیوں کے ناٹے اور دبلے پتلے ہوتے ہیں ، اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے ، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔

وضو میں پانی کے بے جا استعمال کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 57

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاودَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ لِلْوُضُوءِ شَيْطَانًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الْوَلَهَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاءِ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَالصَّحِيْحَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَأَنَّا لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ خَارِجَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْحَسَنِ قَوْلَهُ:‏‏‏‏ وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَخَارِجَةُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَصْحَابِنَا وَضَعَّفَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ.

ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "وضو کے لیے ایک شیطان ہے، اسے ولہان کہا جاتا ہے، تم اس کے وسوسوں کے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے بچو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابی بن کعب کی حدیث غریب ہے، ۳- اس کی سند محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہم نہیں جانتے کہ خارجہ کے علاوہ کسی اور نے اسے مسنداً روایت کیا ہو، یہ حدیث دوسری اور سندوں سے حسن(بصریٰ) سے موقوفاً مروی ہے (یعنی اسے حسن ہی کا قول قرار دیا گیا ہے) اور اس باب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز صحیح نہیں اور خارجہ ہمارے اصحاب۱؎ کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں، ابن مبارک نے ان کی تضعیف کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة۴۸ (۴۲۱) (تحفة الأشراف : ۶۶) ، و مسند احمد (۵/۱۳۶) (ضعیف جدا) (خارجہ بن مصعب متروک ہے)

وضاحت: ۱؎ : امام ترمذی جب «اصحابنا» کہتے ہیں تو اس سے محدثین مراد ہوتے ہیں۔

ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 58

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ "،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَنَسٍ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوءًا وَاحِدًا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَشْهُورُ عَنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَى الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ اسْتِحْبَابًا لَا عَلَى الْوُجُوبِ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے باوضو ہوتے یا بے وضو۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضو کرتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سند سے غریب ہے، اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامر والی حدیث ہے جو بواسطہ انس مروی ہے، اور بعض اہل علم ۲؎ کی رائے ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو مستحب ہے نہ کہ واجب۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۴۰) (ضعیف) (محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحاق مدلس، اور روایت ’’ عنعنہ ‘‘ سے ہے، لیکن متابعت جو حدیث: ۶۰ پر آ رہی ہے کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : ایک ہی وضو سے کئی کئی نمازیں پڑھتے تھے۔ ۲؎ : بلکہ اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔

ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 59

وَقَدْ رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَفْرِيقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ، وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ:‏‏‏‏ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ:‏‏‏‏ ذَكَرَ لِهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا إِسْنَادٌ مَشْرِقِيٌ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو وضو پر وضو کرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث افریقی نے ابوغطیف سے اور ابوغطیف نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ہم سے اسے حسین بن حریث مروزی نے محمد بن یزید واسطی کے واسطے سے بیان کیا ہے اور محمد بن یزید نے افریقی سے روایت کی ہے اور یہ سند ضعیف ہے، ۲- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: انہوں نے اس حدیث کا ذکر ہشام بن عروہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سند مشرقی ہے ۱؎، ۳- میں نے احمد بن حسن کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ہے: میں نے اپنی آنکھ سے یحییٰ بن سعید القطان کے مثل کسی کو نہیں دیکھا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة۳۲ (۶۲) سنن ابن ماجہ/الطہارة۷۳ (۵۱۲) (تحفة الأشراف : ۸۵۹۰) (ضعیف) (سند میں عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں، اور ابو غطیف مجہول ہیں)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کے رواۃ مدینہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ اہل مشرق (اہل کوفہ اور بصرہ) ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے معتبر نہیں ہیں جتنا اہل مدینہ ہیں۔

ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 60

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ مَهْدِيّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأنْصَارِيِّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَأَنْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.

عمرو بن عامر انصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، میں نے (انس سے) پوچھا: پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم «حدث» نہ کرتے ساری نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطہارة ۵۴ (۲۱۴) سنن النسائی/الطہارة ۱۰۱ (۱۳۱) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۲ (۵۰۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۱۰) مسند احمد (۳/۱۳۲، ۱۹۴، ۲۶۰) ، سنن الدارمی/ الطہارة ۴۶ (۷۴۷) (صحیح)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 61

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَهُ. قَالَ:‏‏‏‏ " عَمْدًا فَعَلْتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَزَادَ فِيهِ:‏‏‏‏ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ،‏‏‏‏ وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَارِبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَعْضُهُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ "،‏‏‏‏ وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ.

بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: "میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ "آپ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا"، ۳- سفیان ثوری نے بسند «محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» (مرسلاً روایت کیا ہے) کہ"نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے"، ۴- اور اسے وکیع نے بسند «سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ»سے روایت کیا ہے، ۵- نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند «سفیان عن محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎، ۶- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، جب تک «حدث» نہ ہو، ۷- بعض اہل علم استحباب اور فضیلت کے ارادہ سے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، ۸- نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسند «ابی غطیفعن ابن عمر» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو وضو پر وضو کرے گا تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا" اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۹- اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک وضو سے ظہر اور عصر دونوں پڑھیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۲۵ (۲۷۷) سنن ابی داود/ الطہارة ۶۶ (۱۷۲) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۲ (۵۱۰) (تحفة الأشراف : ۱۹۲۸) مسند احمد (۵/۳۵۰، ۳۵۱، ۳۵۸) سنن الدارمی/الطہارة ۳ (۶۸۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں ، لیکن عبدالرحمٰن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مولف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے ، فافہم۔

مرد اور عورت دونوں کے ایک ہی برتن سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 62

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنَ الْجَنَابَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ:‏‏‏‏ أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ هَانِئٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ صُبَيَّةَ الْجُهَنِيَّةِ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عُمَرَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے میمونہ رضی الله عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے کہ مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں، ۳- اس باب میں علی، عائشہ، انس، ام ہانی، ام حبیبہ، ام سلمہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض۱۰ (۳۲۲) سنن النسائی/الطہارة ۱۴۶ (۲۳۷) سنن ابن ماجہ/الطہارة۳۵ (۳۷۷) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۹۷) مسند احمد (۶/۳۲۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 63

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي حَاجِبٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَكَرِهَ بَعْضُ الْفُقَهَاءِ الْوُضُوءَ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ كَرِهَا فَضْلَ طَهُورِهَا وَلَمْ يَرَيَا بِفَضْلِ سُؤْرِهَا بَأْسًا.

قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی (حکم بن عمرو) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے (وضو کرنے سے)منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن سرجس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- بعض فقہاء نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ان دونوں نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو مکروہ کہا ہے لیکن اس کے جھوٹے کے استعمال میں ان دونوں نے کوئی حرج نہیں جانا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة۴۰ (۸۲) سنن النسائی/المیاہ۱۲ (۳۴۵) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۴ (۳۷۳) (تحفة الأشراف : ۳۴۲۱) ، مسند احمد (۴/۲۱۳، ۶۶۵) (صحیح)

عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 64

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا حَاجِبٍيُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ "،‏‏‏‏ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ " بِسُؤْرِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَاجِبٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ سَوَادَةُ بْنُ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ "،‏‏‏‏ وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ.

حکم بن عمرو غفاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کو منع فرمایا ہے، یا فرمایا: عورت کے جھوٹے سے وضو کرے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور محمد بن بشار اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے ۱؎، اور محمد بن بشار نے اس روایت میں - «أو بسؤرها» والا شک بیان نہیں کیا ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظرما قبلہ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس نہی سے نہی تنزیہی مراد ہے ، یعنی نہ استعمال کرنا بہتر ہے ، اس پر قرینہ وہ احادیث ہیں جو جواز پر دلالت کرتی ہیں ، یا یہ ممانعت محمول ہو گی اس پانی پر جو اعضائے وضو سے گرتا ہے کیونکہ وہ «ماء» مستعمل استعمال ہوا پانی ہے۔ ۲؎ : مطلب یہ کہ محمود بن غیلان کی روایت شک کے صیغے کے ساتھ ہے اور محمد بن بشار کی بغیر شک کے صیغے سے۔

عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کے جائز ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 65

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَفْنَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَوَضَّأَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ وَمَالِكٍ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيِّ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک بیوی نے ایک لگن (ٹب) سے (پانی لے کر) غسل کیا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس (بچے ہوئے پانی) سے وضو کرنا چاہا، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی، آپ نے فرمایا: پانی جنبی نہیں ہوتا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی سفیان ثوری، مالک اور شافعی کا قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۵ (۶۸) سنن النسائی/المیاہ ۱ (۳۲۶) (بلفظ ’’ لاینجسہ شیٔ ‘‘ ۳۳ (۳۷۰، ۳۷۱) (تحفة الأشراف : ۶۱۰۳) مسند احمد (۱/۲۴۳) سنن الدارمی/الطہارة ۵۷ (۷۶۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت (غسل اور وضو) حاصل کرنا جائز ہے۔

پانی کو کوئی چیز نجس اور ناپاک نہیں کرتی

حد یث نمبر - 66

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، والحَسنُ بن علِيّ الْخَلالُ،‏‏‏‏ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ وَهِيَ بِئْرٌ يُلْقَى فِيهَا الْحِيَضُ وَلُحُومُ الْكِلَابِ وَالنَّتْنُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ جَوَّدَ أَبُو أُسَامَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ فِي بِئْرِ بُضَاعَةَ أَحْسَنَ مِمَّا رَوَى أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ۱؎ سے وضو کریں اور حال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آ کر گرتی ہیں؟۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بئر بضاعہ والی ابو سعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اور نے روایت نہیں کی ہے ۳؎، ۳- یہ حدیث کئی اور طریق سے ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مروی ہے، ۴- اس باب میں ابن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۴ (۶۶) سنن النسائی/المیاہ ۲ (۳۲۷، ۳۲۸) (تحفة الأشراف : ۴۱۴۴) مسند احمد (۳/۱۵، ۱۶، ۳۱، ۸۶) (صحیح) (سند میں عبید اللہ بن عبد اللہ رافع مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : بئر بضاعہ مدینہ کے ایک مشہور کنویں کا نام ہے۔ ۲؎ : «إن الماء طهور» میں «المائ» میں جو " لام " ہے وہ عہد کا " لام " ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سائل کے ذہن میں جس کنویں کا پانی ہے وہ نجاست گرنے سے پاک نہیں ہو گا کیونکہ اس کنویں کی چوڑائی چھ ہاتھ تھی اور اس میں ناف سے اوپر پانی رہتا تھا اور جب کم ہوتا تو ناف سے نیچے ہو جاتا ، جیسا کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اس کا ذکر کیا ہے ، یہ ہے کہ جب پانی کثیر مقدار میں ہو (یعنی دو قلہ سے زیادہ ہو) تو محض نجاست کا گر جانا اسے ناپاک نہیں کرتا ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مطلق پانی میں نجاست گرنے سے وہ ناپاک نہیں ہو گا ، چاہے وہ کم ہو ، یا چاہے اس کا مزہ اور مہک بدل جائے۔ ۳؎ : مولف کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے کئی طرق سے مروی ہے ان میں سب سے بہتر طریق یہی ابواسامہ والا ہے ، تمام طرق سے مل کر یہ حدیث صحیح (لغیرہ) کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 67

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُسْأَلُ عَنِ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ مِنَ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُهُ مِنَ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ ". قَالَ عَبْدَةُ:‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق:‏‏‏‏ الْقُلَّةُ هِيَ:‏‏‏‏ الْجِرَارُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقُلَّةُ الَّتِي يُسْتَقَى فِيهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْهُ شَيْءٌ مَا لَمْ يَتَغَيَّرْ رِيحُهُ أَوْ طَعْمُهُ،‏‏‏‏ وَقَالُوا:‏‏‏‏ يَكُونُ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ قِرَبٍ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو میدان میں ہوتا ہے اور جس پر درندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا، اسے دفع کر دے گا" ۲؎۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ (ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی قول شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دو قلہ ہو تو اسے کوئی چیز نجس نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ دو قلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۳ (۶۳) ، سنن النسائی/الطہارة ۴۴ (۵۲) ، والمیاہ ۲ (۳۲۹) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۵ (۵۱۷، ۵۱۸) (تحفة الأشراف : ۷۳۰۵) ، مسند احمد (۱/۱۲، ۲۶، ۳۸، ۱۰۷) ، سنن الدارمی/الطہارة ۵۵ (۷۵۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : قلّہ کے معنی مٹکے کے ہیں ، یہاں مراد قبیلہ ہجر کے مٹکے ہیں ، کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور و معروف تھے ، اس مٹکے میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی ، لہٰذا دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی جو موجودہ زمانہ کے پیمانے کے مطابق دو کوئنٹل ستائیس کلو گرام ہوتی ہے۔ ۲؎ : کچھ لوگوں نے «لم يحمل الخبث» کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہو گا یعنی نجس ہو جائے گا ، لیکن یہ ترجمہ دو اسباب کی وجہ سے صحیح نہیں ، ایک یہ کہ ابوداؤد کی ایک صحیح روایت میں «اذابلغ الماء قلتین فإنہ لاینجس» ہے ، یعنی : اگر پانی اس مقدار سے کم ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک ہو جائے گا ، چاہے رنگ مزہ اور بو نہ بدلے ، اور اگر اس مقدار سے زیادہ ہو تو نجاست گرنے سے ناپاک نہیں ہو گا ، الا یہ کہ اس کا رنگ ، مزہ ، اور بو بدل جائے ، لہٰذا یہ روایت اسی پر محمول ہو گی اور «لم يحمل الخبث» کے معنی «لم ينجس» کے ہوں گے ، دوسری یہ کہ «قلتين» " دو قلے " سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پانی کی تحدید فرما دی ہے اور یہ معنی لینے کی صورت میں تحدید باطل ہو جائے گی کیونکہ قلتین سے کم اور قلتین دونوں ایک ہی حکم میں آ جائیں گے۔

ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 68

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۸ (۲۳۹) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲۸ (۲۸۲) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۳۶ (۶۹) ، سنن النسائی/الطہارة ۴۷ (۵۸) ، و۱۳۹ (۲۲۱) ، و۱۴۰ (۲۲۲) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۵ (۳۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۷۲۲) ، مسند احمد (۲/۳۱۶، ۳۶۲، ۳۶۴) ، سنن الدارمی/ الطہارة ۵۴ (۷۵۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد ایسا پانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہو جیسے حوض اور تالاب وغیرہ کا پانی ، ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہو گا ، یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہیئے تاکہ اس میں مزید بدبو نہ ہو ، ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیدا ہو جاتی ہے ، اگر اس میں نجاست (گندگی) ڈال دی جائے تو اس کی سڑاند بڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔

سمندر کے پانی کے پاک ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 69

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ إِسْحَاق بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَالْفِرَاسِيِّ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ،‏‏‏‏ وَابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِمَاءِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوُضُوءَ بِمَاءِ الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو:‏‏‏‏ هُوَ نَارٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں گے، تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:"سمندر کا پانی پاک ۱؎ ہے، اور اس کا مردار حلال ہے" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن عبداللہ اور فراسی رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- اور یہی صحابہ کرام رضی الله عنہم میں سے اکثر فقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر، عمر اور ابن عباس بھی ہیں کہ سمندر کے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بعض صحابہ کرام نے سمندر کے پانی سے وضو کو مکروہ جانا ہے، انہیں میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمرو کا کہنا ہے کہ سمندر کا پانی آگ ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۴۱ (۸۳) سنن النسائی/الطہارة ۴۷ (۵۹) والمیاہ ۵ (۳۳۳) والصید ۳۵ (۴۳۵۵) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۹ (۳۸۶) (تحفة الأشراف : ۱۴۶۱۸) موطا امام مالک/الطہارة ۳ (۱۲) مسند احمد (۲/۲۳۷، ۳۶۱، ۳۷۸) سنن الدارمی/الطہارة ۵۳ (۷۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی «طاہر» (پاک) اور «مطہر» (پاک کرنے والا) دونوں ہے۔ ۲؎ : سمندر کے مردار سے مراد وہ سمندری اور دریائی جانور ہے جو صرف پانی ہی میں زندہ رہتا ہو ، نیز مردار کا لفظ عام ہے ہر طرح کے جانور جو پانی میں رہتے ہوں خواہ وہ کتے اور خنزیر کے شکل کے ہی کے کیوں نہ ہوں ، بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے : " دو مردے حلال ہیں : مچھلی اور ٹڈی ، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ خشکی میں جس حیوان کے نظیر و مثال جانور کھائے جاتے وہی سمندری مردار حلال ہے ، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ سمندر کا ہر وہ جانور (زندہ یا مردہ) حلال ہے جو انسانی صحت کے لیے عمومی طور پر نقصان دہ نہ ہو ، اور نہ ہی خبیث قسم کا ہو جیسے کچھوا ، اور کیکڑا وغیرہ ، یہ دونوں اصول ضابطہٰ سمندری غیر سمندری ہر طرح کے جانور کے لیے ہیں۔

پیشاب کے بارے میں وارد وعید کا بیان

حد یث نمبر - 70

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَأَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى قَبْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّهُمَا يُعَذَّبَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ:‏‏‏‏ أَمَّا هَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا هَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ،‏‏‏‏ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي بَكْرَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى مَنْصُورٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ الْبَلْخِيَّ مُسْتَمْلِي وَكِيعٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَكِيعًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا: "یہ دونوں قبر والے عذاب دیئے جا رہے ہیں، اور کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے (کہ جس سے بچنا مشکل ہوتا) رہا یہ تو یہ اپنے پیشاب سے بچتا نہیں تھا ۱؎ اور رہا یہ تو یہ چغلی کیا کرتا تھا" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوموسیٰ، عبدالرحمٰن بن حسنہ، زید بن ثابت، اور ابوبکرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۵ (۲۱۶) و۵۶ (۲۱۸) والجنائز ۹۱ (۱۳۶۱) و۸۸ (۱۳۷۸) والأدب ۴۶ (۶۰۵۲) و۴۹ (۶۰۵۵) صحیح مسلم/الطہارة ۳۴ (۲۹۲) سنن ابی داود/ الطہارة ۱۱ (۲۰) سنن النسائی/الطہارة ۲۷ (۳۱) والجنائز ۱۱۶ (۲۰۷۰) سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۶ (۳۴۷) (تحفة الأشراف : ۵۷۴۷) مسند احمد (۱/۲۲۵) سنن الدارمی/ الطہارة ۶۱ (۷۶۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی پیشاب کرتے وقت احتیاط نہیں کرتا تھا ، پیشاب کے چھینٹے اس کے بدن یا کپڑوں پر پڑ جایا کرتے تھے ، جو قبر میں عذاب کا سبب بنے ، اس لیے اس کی احتیاط کرنی چاہیئے ، اور یہ کوئی بہت بڑی اور مشکل بات نہیں۔ ۲؎ : چغلی خود گرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے بچنا کوئی مشکل بات نہیں ، اس لحاظ سے فرمایا کہ کسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں۔

دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک لینا کافی ہے

حد یث نمبر - 71

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَالَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا بِمَاءٍ فَرَشَّهُ عَلَيْهِ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَزَيْنَبَ،‏‏‏‏ وَلُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ وَهِيَ أُمُّ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي السَّمْحِ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَأَبِي لَيْلَى،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا طَعِمَا غُسِلَا جَمِيعًا.

ام قیس بنت محصن رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، وہ ابھی تک کھانا نہیں کھاتا تھا ۱؎، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پر چھڑک لیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی، عائشہ، زینب، فضل بن عباس کی والدہ لبابہ بنت حارث، ابوالسمح، عبداللہ بن عمرو، ابولیلیٰ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں کا یہی قول ہے کہ بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے، اور یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دونوں کھانا نہ کھانے لگ جائیں، اور جب وہ کھانا کھانے لگ جائیں تو بالاتفاق دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۹ (۲۲۳) ، والطب ۱۰ (۵۶۹۳) ، صحیح مسلم/الطہارة ۳۴ (۲۸۷) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۷ (۳۷۴) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۹ (۳۰۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۷ (۵۲۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۳۴۲) موطا امام مالک/۳۰ (۱۱۰) ، مسند احمد (۶/۳۵۵، ۳۵۶) ، سنن الدارمی/الطہارة ۶۲ (۷۶۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کی غذا صرف دودھ تھی ، ابھی اس نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔

جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم

حد یث نمبر - 72

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةُ،‏‏‏‏ وَثَابِتٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا "،‏‏‏‏ فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ وَارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ مِنْ خِلَافٍ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ وَأَلْقَاهُمْ بِالْحَرَّةِ. قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَكُنْتُ أَرَى أَحَدَهُمْ يَكُدُّ الْأَرْضَ بِفِيهِ حَتَّى مَاتُوا، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ يَكْدُمُ الْأَرْضَ بِفِيهِ حَتَّى مَاتُوا. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ بِبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: "تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو" (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا تھا کہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے) اپنے منہ سے زمین چاٹ رہا تھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مر گئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے، ۲- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانور کا گوشت کھایا جاتا ہو اس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۶ (۲۳۳) ، والزکاة ۶۸ (۱۵۰۱) ، والجہاد ۱۵۲ (۳۰۱۸) ، والمغازی ۳۶ (۴۹۲) ، وتفسیر المائدة ۵ (۴۶۱۰) ، والطب ۵ (۵۶۸۵) ، و۶ (۵۶۸۶) ، و۲۹ (۵۷۲۷) ، والحدود ۱۵ (۶۸۰۲) ، و۱۷ (۶۸۰۴) ، و۱۸ (۶۸۰۵) ، والدیات ۲۲ (۶۸۹۹) ، صحیح مسلم/القسامة ۱۳ (۱۶۷۱) ، سنن ابی داود/ الحدود ۳ (۴۳۶۷، وأیضا۳۶۴) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۹۱ (۳۰۵) ، والمحاربة ۷ (۴۰۲۹، ۴۰۳۲) ، و۸ (۴۰۳۳ - ۴۰۴۰) ، و۹ (۴۰۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الطب ۳۰ (۳۵۰۳) (تحفة الأشراف : ۳۱۷) ، مسند احمد (۳/۱۰۷، ۱۶۱، ۱۶۳، ۱۷۰، ۱۷۷، ۱۹۸، ۲۰۵، ۲۳۳، ۲۸۷، ۲۹۰، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۸۴۵و۲۰۴۲ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے ، اور یہی محققین محدثین کا قول ہے ، ناپاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔

جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم

حد یث نمبر - 73

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْتَّيْمِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْيُنَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُمْ سَمَلُوا أَعْيُنَ الرُّعَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَهُ غَيْرَ هَذَا الشَّيْخِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مَعْنَى قَوْلِهِ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ سورة المائدة آية 45، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا فَعَلَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لیے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اور اللہ تعالیٰ کے فرمان «والجروح قصاص» کا یہی مفہوم ہے، محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ساتھ یہ معاملہ حدود (سزاؤں) کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۵ (الحدود) ۲ (۱۴/۱۶۷۱) سنن النسائی/المحاربة ۹ (۴۰۴۸) (تحفة الأشراف : ۸۷۵) (صحیح)

ہوا خارج ہونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان

حد یث نمبر - 74

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بو نہ آئے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۴ (۵۱۵) (تحفة الأشراف : ۱۲۶۸۳) مسند احمد (۲/۴۱۰، ۴۳۵، ۴۷۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شک کی وجہ سے کہ ہوا خارج ہوئی یا نہیں وضو نہیں ٹوٹتا ، اور اس سے ایک اہم اصول کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ ہر چیز اپنے حکم پر قائم رہتی ہے جب تک اس کے خلاف کوئی بات یقین و وثوق سے ثابت نہ ہو جائے ، محض شبہ سے حکم نہیں بدلتا۔

ہوا خارج ہونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان

حد یث نمبر - 75

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَوَجَدَ رِيحًا بَيْنَ أَلْيَتَيْهِ فَلَا يَخْرُجْ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدَثٍ يَسْمَعُ صَوْتًا أَوْ يَجِدُ رِيحًا، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ إِذَا شَكَّ فِي الْحَدَثِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ اسْتِيقَانًا يَقْدِرُ أَنْ يَحْلِفَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا خَرَجَ مِنْ قُبُلِ الْمَرْأَةِ الرِّيحُ وَجَبَ عَلَيْهَا الْوُضُوءُ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی مسجد میں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہوا کے خارج ہونے کی آواز نہ سن لے، یا بغیر آواز کے پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا کی بو نہ محسوس کر لے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید، علی بن طلق، عائشہ، ابن عباس، ابن مسعود اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور یہی علماء کا قول ہے کہ وضو «حدث» ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ «حدث» کی آواز سن لے یا بو محسوس کر لے، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب«حدث» میں شک ہو تو وضو واجب نہیں ہوتا، جب تک کہ ایسا یقین نہ ہو جائے کہ اس پر قسم کھا سکے، نیز کہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہو تو اس پر وضو واجب ہو جاتا ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۲۶ (۳۶۲) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۶۸ (۱۷۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۱۸) ، مسند احمد (۲/۳۰، ۴۱۴) سنن الدارمی/الطہارة ۴۷ (۷۴۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مقصود یہ ہے کہ انسان کو ہوا خارج ہونے کا یقین ہو جائے خواہ ان دونوں ذرائع سے یا کسی اور ذریعہ سے ، ان دونوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر محض اس لیے کیا گیا ہے کہ اس باب میں عام طور سے یہی دو ذریعے ہیں جن سے اس کا یقین ہوتا ہے۔

ہوا خارج ہونے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا بیان

حد یث نمبر - 76

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں کسی کو «حدث» ہو جائے (یعنی اس کا وضو ٹوٹ جائے) ۱؎ تو اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۲ (۱۳۵) ، والحیل ۲ (۶۹۵۴) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲ (۲۲۵) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۳۱ (تحفة الأشراف : ۱۴۶۹۴) ، مسند احمد (۲/۳۱۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اسی جملہ میں باب سے مطابقت ہے ، یعنی : ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

نیند سے وضو کا بیان

حد یث نمبر - 77

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى كُوفِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَهَنَّادٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلَائِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالَانِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ وَهُوَ سَاجِدٌ حَتَّى غَطَّ أَوْ نَفَخَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قَدْ نِمْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا عَلَى مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَبُو خَالِدٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سجدے کی حالت میں سو گئے یہاں تک کہ آپ خرانٹے لینے لگے، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تو سو گئے تھے؟ آپ نے فرمایا: "وضو صرف اس پر واجب ہوتا ہے جو چت لیٹ کر سوئے اس لیے کہ جب آدمی لیٹ جاتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

اس باب میں عائشہ، ابن مسعود، اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۸۰ (۲۰۲) ، (تحفة الأشراف : ۵۴۲۵) ، مسند احمد (۱/۲۴۵، ۳۴۳) (ضعیف) (ابو خالد یزید بن عبدالرحمن دارمی دالانی مدلس ہیں، انہیں بہت زیادہ وہم ہو جایا کرتا تھا، شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے یہ حدیث ابو العالیہ سے نہیں سنی ہے یعنی اس میں انقطاع بھی ہے)

وضاحت: ۱؎ : چت لیٹنے کی صورت میں ہوا کے خارج ہونے کا شک بڑھ جاتا ہے جب کہ ہلکی نیند میں ایسا نہیں ہوتا ، یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ، مگر اس کے " لیٹ کر سونے سے وضو ٹوٹ جانے والے " ٹکڑے کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے۔

نیند سے وضو کا بیان

حد یث نمبر - 78

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُومُونَ فَيُصَلُّونَ وَلَا يَتَوَضَّئُونَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت صَالِحَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَمَّنْ نَامَ قَاعِدًا مُعْتَمِدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وُضُوءَ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَبَا الْعَالِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرْفَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى أَكْثَرُهُمْ أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ إِذَا نَامَ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنَامَ مُضْطَجِعًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا نَامَ حَتَّى غُلِبَ عَلَى عَقْلِهِ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ مَنْ نَامَ قَاعِدًا فَرَأَى رُؤْيَا أَوْ زَالَتْ مَقْعَدَتُهُ لِوَسَنِ النَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْهِ الْوُضُوءُ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم (بیٹھے بیٹھے) سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے صالح بن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو بیٹھے بیٹھے سو جائے تو انہوں نے کہا کہ اس پر وضو نہیں، ۳- ابن عباس والی حدیث کو سعید بن ابی عروبہ نے بسند «قتادہ عن ابن عباس» (موقوفاً) روایت کیا ہے اور اس میں ابولعالیہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- نیند سے وضو کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ کوئی کھڑے کھڑے سو جائے تو اس پر وضو نہیں جب تک کہ وہ لیٹ کر نہ سوئے، یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور احمد کہتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جب نیند اس قدر گہری ہو کہ عقل پر غالب آ جائے تو اس پر وضو واجب ہے اور یہی اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، شافعی کا کہنا ہے کہ جو شخص بیٹھے بیٹھے سوئے اور خواب دیکھنے لگ جائے، یا نیند کے غلبہ سے اس کی سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۳۳ (۱۲۳/۳۷۶) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۸۰ (۲۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۱) ، مسند احمد (۳/۲۷۷ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان تینوں میں راجح پہلا مذہب ہے۔

آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو کا بیان

حد یث نمبر - 79

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّهْنِ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الْحَمِيمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا. قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وأُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا "آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو ہے اگرچہ وہ پنیر کا کوئی ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو"، اس پر ابن عباس نے ان سے کہا: ابوہریرہ رضی الله عنہ (بتائیے) کیا ہم گھی اور گرم پانی (کے استعمال) سے بھی وضو کریں؟ تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: بھتیجے! تم جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنو تو اس پر (عمل کرو) باتیں نہ بناؤ۔ (اور مثالیں بیان کر کے قیاس نہ کرو)۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ام حبیبہ، ام سلمہ، زید بن ثابت، ابوطلحہ، ابوایوب انصاری اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲-بعض اہل علم کی رائے ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو ہے، لیکن صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا مذہب ہے کہ اس سے وضو نہیں، (دلیل اگلی حدیث ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۵ (۴۸۵) (تحفة الأشراف : ۱۵۰۳۰) مسند احمد (۲/۲۶۵، ۲۷۱، ۴۵۸، ۴۷۰، ۴۷۹، ۵۰۲) (حسن)

آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہ ٹوٹنے کا بیان

حد یث نمبر - 80

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، سَمِعَ جَابِرًا، قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَتْ لَهُ شَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلَ وَأَتَتْهُ بِقِنَاعٍ مِنْ رُطَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ تَوَضَّأَ لِلظُّهْرِ وَصَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَتْهُ بِعُلَالَةٍ مِنْ عُلَالَةِ الشَّاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلَ ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي رَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ الْحَكَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَلَا يَصِحُّ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ فِي هَذَا الْبَابِ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا رَوَاهُ حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّحِيحُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا هُوَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَاهُ الْحُفَّاظُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعِكْرِمَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق رَأَوْا تَرْكَ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا آخِرُ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ نَاسِخٌ لِلْحَدِيثِ الْأَوَّلِ حَدِيثِ الْوُضُوءِ، ‏‏‏‏‏‏مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم (مدینہ میں) نکلے، میں آپ کے ساتھ تھا، آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے، اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا، وہ تر کھجوروں کا ایک طبق بھی لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے بھی کھایا، پھر ظہر کے لیے وضو کیا اور ظہر کی نماز پڑھی، آپ نے واپس پلٹنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوئے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کر آئی تو آپ نے (اسے بھی) کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور (دوبارہ) وضو نہیں کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، ابورافع، ام الحکم، عمرو بن امیہ، ام عامر، سوید بن نعمان اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ابوبکر کی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ ۲- صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا اسی پر عمل ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں، اور یہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا آخری فعل ہے، گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۳۶۸) وانظر مسند احمد (۳/۱۲۵، ۲۶۹) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : سوائے اونٹ کے گوشت کے ، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے ، اونٹ کے گوشت میں ایک خاص قسم کی بو اور چکناہٹ ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے ناقض وضو کہا گیا ہے ، اس سلسلے میں وارد وضو کو صرف ہاتھ منہ دھو لینے کے معنی میں لینا شرعی الفاظ کو خواہ مخواہ اپنے حقیقی معنی سے ہٹانا ہے۔

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 81

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " تَوَضَّئُوا مِنْهَا "،‏‏‏‏ وَسُئِلَ عَنِ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَتَوَضَّئُوا مِنْهَا ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ذِي الْغُرَّةِ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ فَأَخْطَأَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ وَالصَّحِيحُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ صَحَّ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثَانِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثُ الْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.

براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے وضو کرو اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "اس سے وضو نہ کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہی قول احمد، عبداللہ اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، ۳-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس باب میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے دو حدیثیں صحیح ہیں: ایک براء بن عازب کی (جسے مولف نے ذکر کیا اور اس کے طرق پر بحث کی ہے) اور دوسری جابر بن سمرہ کی، ۴- یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۷۲ (۱۸۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۷ (۴۹۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۸۳) ، مسند احمد (۴/۲۸۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : لوگ اوپر والی روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہاں وضو سے مراد وضو لغوی ہے ، لیکن یہ بات درست نہیں ، اس لیے کہ وضو ایک شرعی لفظ ہے جسے بغیر کسی دلیل کے لغوی معنی پر محمول کرنا درست نہیں۔

شرمگاہ (عضو تناسل) چھونے پر وضو کا بیان

حد یث نمبر - 82

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وأَرْوَى ابْنَةِ أُنَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرَةَ.

بسرہ بنت صفوان رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنی شرمگاہ (عضو تناسل) چھوئے تو جب تک وضو نہ کر لے نماز نہ پڑھے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام حبیبہ، ابوایوب، ابوہریرہ، ارویٰ بنت انیس، عائشہ، جابر، زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اور عروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۷۰ (۱۸۱) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۱۸ (۱۶۳) ، والغسل ۳۰ (۱۴۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۳ (۶۷۹) (تحفة الأشراف : ۱۵۷۸۵) ، موطا امام مالک/الطہارة ۱۵ (۵۸ مسند احمد (۶/۴۰۶) ، ۴۰۷) ، سنن الدارمی/الطہارة ۵۰ (۷۵۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہشام کے بعض شاگردوں نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ، اور بعض نے عروہ اور بسرۃ کے درمیان مروان کے واسطے کا ذکر کیا ہے ، جن لوگوں نے عروۃ اور بسرۃ کے درمیان کسی اور واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے ان کی روایت منقطع نہیں ہے کیونکہ عروہ کا بسرۃ سے سماع ثابت ہے ، پہلے عروہ نے اسے مروان کے واسطے سے سنا پھر بسرۃ سے جا کر انہوں نے اس کی تصدیق کی جیسا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔

شرمگاہ (عضو تناسل) چھونے پر وضو کا بیان

حد یث نمبر - 83

وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ،‏‏‏‏ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَرْوَانَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ بِهَذَا.

ابواسامہ اور کئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند «ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرة عن النبی صلی الله علیہ وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

شرمگاہ (عضو تناسل) چھونے پر وضو کا بیان

حد یث نمبر - 84

وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ بُسْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ بُسْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَأَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ بُسْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَبُو زُرْعَةَ:‏‏‏‏ حَدِيثُ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثُ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَكْحُولٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ لَمْ يَسْمَعْ مَكْحُولٌ مِنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى مَكْحُولٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَنْبَسَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَأَنَّهُ لَمْ يَرَ هَذَا الْحَدِيثَ صَحِيحًا.

نیز اسے ابوالزناد نے «بسند عروہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم» اسی طرح روایت کیا ہے۔ ۱- یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی، شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ ہیں، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے، ۳- ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث ۱؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے۲؎، اور مکحول نے ایک آدمی سے اور اس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ام حبیبہ رضی الله عنہا کی حدیث کی تخریج ابن ماجہ نے کی ہے (دیکھئیے : «باب الوضوء من مس الذكر» رقم ۴۸۱)۔ ۲؎ : یحییٰ بن معین ، ابوزرعہ ، ابوحاتم اور نسائی نے بھی یہی بات کہی ہے ، لیکن عبدالرحمٰن دحیم نے ان لوگوں کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے مکحول کا عنبسہ سے سماع ثابت کیا ہے (دحیم اہل شام کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہیں)۔

عضو تناسل کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا

حد یث نمبر - 85

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ هُوَ الْحَنَفِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " وَهَلْ هُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْهُ ؟ أَوْ بَضْعَةٌ مِنْهُ ؟ ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَعْضِ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا الْحَدِيثُ أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَيُّوبَ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ مُلَازِمِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَصَحُّ وَأَحْسَنُ.

طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: "یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوامامہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضو تناسل کے چھونے سے وضو واجب نہیں، اور یہی اہل کوفہ اور ابن مبارک کا قول ہے، ۳- اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے، ۴-ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کو قیس بن طلق نے «عن أبیہ» سے روایت کیا ہے۔ بعض محدثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے، ۵- ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے، سب سے صحیح اور اچھی ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۷۱ (۱۸۲) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۱۹ (۱۶۵) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۴ (۴۸۳) (تحفة الأشراف : ۵۰۲۳) مسند احمد (۴/۲۲، ۲۳) (صحیح) (سند میں قیس کے بارے میں قدرے کلام ہے، لیکن اکثر علماء نے توثیق کی ہے)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث اور پچھلی حدیث میں تعارض ہے ، اس تعارض کو محدثین نے ایسے دور کیا ہے کہ طلق بن علی کی یہ روایت بسرہ رضی الله عنہا کی روایت سے پہلے کی ہے ، اس لیے طلق رضی الله عنہ کی حدیث منسوخ ہے ، رہی ان تابعین کی بات جو عضو تناسل چھونے سے وضو ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو بسرہ کی حدیث نہیں پہنچی ہو گی۔ کچھ علما نے اس تعارض کو ایسے دور کیا ہے کہ بسرہ کی حدیث بغیر کسی حائل (رکاوٹ) کے چھونے کے بارے میں ہے ، اور طلق کی حدیث بغیر کسی حائل (پردہ) کے چھونے کے بارے میں ہے۔ ۲؎ : طلق بن علی رضی الله عنہ کی اس حدیث کے تمام طریق میں ملازم والا طریق سب سے بہتر ہے ، نہ یہ کہ بسرہ کی حدیث سے طلق کی حدیث بہتر ہے۔

بوسہ لینے سے وضو کے نہ ٹوٹنے کا بیان

حد یث نمبر - 86

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَأَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ وأَبو عَمَّارٍ الْحسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هِيَ إِلَّا أَنْتِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَضَحِكَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ،‏‏‏‏ وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق:‏‏‏‏ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا تَرَكَ أَصْحَابُنَا حَدِيثَ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ لَا يَصِحُّ عِنْدَهُمْ لِحَالِ الْإِسْنَادِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ هَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هُوَ شِبْهُ لَا شَيْءَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ،‏‏‏‏ وقَالَ:‏‏‏‏ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ،‏‏‏‏ وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ لِإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْءٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا، پھر آپ نماز کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنی خالہ ام المؤمنین عائشہ سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی؟ تو وہ ہنس پڑیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اور یہی قول سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو(واجب) نہیں ہے، مالک بن انس، اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو (واجب) ہے، یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے، ۲- ہمارے اصحاب نے عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث پر جو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ۲؎، ۳- یحییٰ بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ «لاشیٔ» کے مشابہ ہے ۳؎، ۴- نیز میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) کو بھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا، انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے، ۵- نیز ابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔ لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔ اس باب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶۹ (۱۷۹، ۱۸۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۲۱ (۱۷۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۹ (۵۰۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۷۱) ، مسند احمد (۶/۲۰۷) (صحیح) (سند میں حبیب بن ابی ثابت اور عروہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مؤلف نے صراحت کی ہے، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : یعنی آپ نے سابق وضو ہی پر نماز پڑھی ، بوسہ لینے سے نیا وضو نہیں کیا ، اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور یہی قول راجح ہے۔ ۲؎ : لیکن امام شوکانی نے نیل الأوطار میں اور علامہ البانی نے صحیح أبی داود (رقم ۱۷۱- ۱۷۲)میں متابعات اور شواہد کی بنیاد پر اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ، نیز دیگر بہت سے ائمہ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھئیے مذکورہ حوالے)۔ ۳؎ : " «لاشئی» کے مشابہ" ہے یعنی ضعیف ہے۔

قے اور نکسیر سے وضو کا بیان

حد یث نمبر - 87

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَهُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا،‏‏‏‏ وَقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَضَّأ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَهُ وَضُوءَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وقَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ:‏‏‏‏ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَابْنُ أَبِي طَلْحَةَ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏الْوُضُوءَ مِنَ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَيْسَ فِي الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وُضُوءٌ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْأَوْزَاعِيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا هُوَ:‏‏‏‏ مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ.

ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قے کی تو روزہ توڑ دیا اور وضو کیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی الله عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ابو الدرداء نے سچ کہا، میں نے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم پر پانی ڈالا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا) ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ قے اور نکسیر سے وضو نہیں ٹوٹتا یہ مالک اور شافعی کا قول ہے ۲؎، ۲- حدیث کے طرق کو ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصوم ۳۲ (۲۳۹۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۹۶۴) ، مسند احمد (۵/۱۹۵، و۶/۴۴۳) ، سنن الدارمی/الصوم ۲۴ (۱۷۶۹) ، (ولفظ الجمیع ’’ قاء فأفطر ‘‘) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل باب کی یہی حدیث ہے ، لیکن اس حدیث سے استدلال دو باتوں پر موقوف ہے : ایک یہ کہ : حدیث میں لفظ یوں ہو «قاء فتوضأ» " قے کی تو وضو کیا " جب کہ یہ لفظ محفوظ نہیں ہے ، زیادہ تر مصادر حدیث میں زیادہ رواۃ کی روایتوں میں «قاء فأفطر» " قے کی تو روزہ توڑ لیا " ہے«فأفطر» کے بعد بھی «فتوضأ» کا لفظ نہیں ہے ، یا اسی طرح ہے جس طرح اس روایت میں ہے ، یعنی «قاء فأفطرفتوضأ» " یعنی قے کی تو روزہ توڑ لیا ، اور اس کے بعد وضو کیا " اور اس لفظ سے وضو کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ قے کے بعد آدمی کمزور ہو جاتا ہے اس لیے روزہ توڑ لیتا ہے ، اور نظافت کے طور پر وضو کر لیتا ہے ، اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تو اور زیادہ نظافت پسند تھے ، نیز یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا صرف فعل تھا جس کے ساتھ آپ کا کوئی حکم بھی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر «قاء فتوضأ» کا لفظ ہی محفوظ ہو تو «فتوضأ» کی " فاء " سبب کے لیے ہو ، یعنی یہ ہوا کہ " قے کی اس لیے وضو کیا " اور یہ بات متعین نہیں ہے ، بلکہ یہ " فاء " تعقیب کے لیے بھی ہو سکتی ہے ، یعنی یہ ہوا کہ " قے کی اور اس کے بعد وضو کیا "۔ ۲؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی وہ روایت ہے جسے امام بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع میں تھے کہ ایک شخص کو ایک تیر آ کر لگا اور خون بہنے لگا لیکن اس نے اپنی نماز جاری رکھی اور اسی حال میں رکوع اور سجدہ کرتا رہا ظاہر ہے اس کی اس نماز کا علم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو یقیناً رہا ہو گا کیونکہ اس کی یہ نماز بحالت پہرہ داری تھی جس کا حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اسے دیا تھا ، اس کے باوجود آپ نے اسے وضو کرنے اور نماز کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

نبیذ سے وضو کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 88

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا فِي إِدَاوَتِكَ ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَبِيذٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَهُورٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو زَيْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُعْرَفُ لَهُ رِوَايَةٌ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالنَّبِيذِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق،‏‏‏‏ وقَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ إِنِ ابْتُلِيَ رَجُلٌ بِهَذَا فَتَوَضَّأَ بِالنَّبِيذِ وَتَيَمَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَوْلُ مَنْ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ أَقْرَبُ إِلَى الْكِتَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْبَهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: "تمہارے مشکیزے میں کیا ہے؟" تو میں نے عرض کیا: نبیذ ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: "کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے" تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوزید محدثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اور روایت ان سے جانی نہیں جاتی، ۲- بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائز ہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں ۲؎ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو یہی کرنا پڑ جائے تو وہ نبیذ سے وضو کر کے تیمم کر لے، یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، ۳- جو لوگ نبیذ سے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اور زیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» "جب تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو" (النساء: 43) پوری آیت یوں ہے: «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغآئط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحواء بوجوهكم وأيديكم إن الله كان عفوا غفورا» 

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۴۲ (۸۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۷ (۳۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۹۶۰۳) ، مسند احمد (۱/۴۰۲) (ضعیف) (سند میں ابو زید مجہول راوی ہیں۔)

وضاحت: ۱؎ : نبیذ ایک مشروب ہے جو کھجور ، کشمش ، شہد گیہوں اور جو وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔ ۲؎ : یہی جمہور علما کا قول ہے ، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : «فإن لم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا» (سورة النساء : 43) تو جب پانی نہ ہو تو نبیذ سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کر لینا چاہیئے ، اور باب کی اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جو استدلال کے لیے احتجاج کے لائق نہیں۔

دودھ پینے پر کر کلی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 89

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ لَبَنًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا بِمَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَضْمَضَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ لَهُ دَسَمًا ". قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا عِنْدَنَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمُ الْمَضْمَضَةَ مِنَ اللَّبَنِ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو پانی منگوا کر کلی کی اور فرمایا: "اس میں چکنائی ہوتی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سہل بن سعد ساعدی، اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے، اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ۱؎ ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۲ (۲۱۱) ، والأشربة ۱۲ (۵۶۰۹) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲۴ (۳۵۸) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۷۷ (۱۹۶) ، سنن النسائی/الطہارة ۲۵ (۱۸۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۸ (۴۹۸) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۳۳) ، مسند احمد (۱/۲۲۳، ۲۲۷، ۳۲۹، ۳۳۷، ۳۷۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : بعض لوگوں نے اسے واجب کہا ہے ، ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ابن ماجہ کی ایک روایت (رقم ۴۹۸)میں «مضمضوا من اللبن» امر کے صیغے کے ساتھ آیا ہے اور امر میں اصل وجوب ہے ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب استحباب پر محمول کرنے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور یہاں استحباب پر محمول کئے جانے کی دلیل موجود ہے کیونکہ ابوداؤد نے (برقم ۱۹۶)انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دودھ پیا تو نہ کلی کی اور نہ وضو ہی کیا ، اس کی سند حسن ہے۔

بغیر وضو سلام کا جواب دینے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 90

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَليٍّ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَبُولُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا يُكْرَهُ هَذَا عِنْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ عَلَى الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَرَاءِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ پیشاب کر رہے تھے، تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یا پیشاب کر رہا ہو، بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیر کی ہے ۱؎، ۲- یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے، ۳- اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ، عبداللہ بن حنظلہ، علقمہ بن شفواء، جابر اور براء بن عازب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض۲۸ (۳۷۰) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۸ (۱۶) ، سنن النسائی/الطہارة ۳۳ (۳۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۲۷ (۳۵۳) ، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۷۲۰ (تحفة الأشراف : ۷۶۹۶) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اور یہی راجح ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پیشاب کی حالت میں ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا ، نہ کہ وضو کے بغیر سلام کا جواب جائز نہیں ، اور جن حدیثوں میں ہے کہ " نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فراغت کے بعد وضو کیا اور پھر آپ نے جواب دیا " تو یہ استحباب پر محمول ہے ، نیز یہ بات آپ کو خاص طور پر پسند تھی کہ آپ اللہ کا نام بغیر طہارت کے نہیں لیتے تھے ، اس حدیث سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے کہ پائخانہ پیشاب کرنے والے پر سلام ہی نہیں کرنا چاہیئے ، یہ حکم وجوبی ہے۔

کتے کے جھوٹے کا بیان

حد یث نمبر - 91

حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " يُغْسَلُ الْإِنَاءُ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولَاهُنَّ أَوْ أُخْرَاهُنَّ بِالتُّرَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ إِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "برتن میں جب کتا منہ ڈال دے تو اسے سات بار دھویا جائے، پہلی بار یا آخری بار اسے مٹی سے دھویا جائے ۱؎، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویا جائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک بار دھونے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، ۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۷ (۷۲) ، وانظر أیضا: صحیح البخاری/الوضوء ۳۳ (۱۷۲) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲۷ (۲۷۹) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۳۷ (۷۱) ، سنن النسائی/الطہارة ۵۱ (۶۳) ، والمیاہ ۷ (۳۳۶) ، و (۳۴۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۱ (۳۶۳، ۳۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۵۰۹) ، موطا امام مالک/الطہارة ۶ (۲۵) ، مسند احمد (۲/۲۴۵، ۲۵۳، ۲۶۵، ۲۷۱، ۳۶۰، ۳۹۸، ۴۲۴، ۴۲۷، ۴۴۰، ۴۸۰، ۵۰۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے ، احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں ، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی الله عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیئے ، حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے ، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے ، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے ، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں ، تفصیل کے لیے دیکھئیے (تحفۃ الاحوذی ، ج ۱ ص ۹۳)۔

بلی کے جھوٹے کا بیان

حد یث نمبر - 92

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَتْ عِنْدَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَسَكَبْتُ لَهُ وَضُوءًا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَجَاءَتْ هِرَّةٌ تَشْرَبُ فَأَصْغَى لَهَا الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ،‏‏‏‏ قَالَتْ كَبْشَةُ:‏‏‏‏ فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْجَبِينَ يَا بِنْتَ أَخِي ؟ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ "،‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ عِنْدَ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّحِيحُ ابْنُ أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق لَمْ يَرَوْا بِسُؤْرِ الْهِرَّةِ بَأْسًا، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ جَوَّدَ مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَأْتِ بِهِ أَحَدٌ أَتَمَّ مِنْ مَالِكٍ.

کبشہ بنت کعب (جو ابن ابوقتادہ کے نکاح میں تھیں) کہتی ہیں کہ ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا، اتنے میں ایک بلی آ کر پینے لگی تو انہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے، کبشہ کہتی ہیں: ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا: بھتیجی! کیا تم کو تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "یہ (بلی) نجس نہیں، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث مروی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۳۸ (۷۵) ، سنن النسائی/الطہارة ۵۴ (۶۸) ، والمیاہ ۹ (۳۴۱) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۳۲ (۳۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۱۴۱) ، مسند احمد (۵/۲۹۶، ۳۰۳، ۳۰۹) ، سنن الدارمی/الطہارة ۵۸ (۷۶۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے ، بشرطیکہ اس کے منہ پر نجاست نہ لگی ہو ، اس حدیث میں بلی کو گھر کے خادم سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خادموں کی طرح اس کا بھی گھروں میں آنا جانا بہت رہتا ہے ، اگر اسے نجس و ناپاک قرار دے دیا جاتا تو گھر والوں کو بڑی دشواری پیش آتی۔

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 93

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:‏‏‏‏ بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ أَتَفْعَلُ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا يَمْنَعُنِي وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ. قَالَ إِبْرَاهِيمُ:‏‏‏‏ وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ هَذَا قَوْلُ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي كَانَ يُعْجِبُهُمْ،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعْدٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَلْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ ابْنُ عِمَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُبَيُّ بْنُ عِمَارَةَ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ جَرِيرٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہا گیا: کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کام سے کون سی چیز روک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جریر رضی الله عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیونکہ ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد کا ہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جریر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، حذیفہ، مغیرہ، بلال، ابوایوب، سلمان، بریدۃ، عمرو بن امیہ، انس، سہل بن سعد، یعلیٰ بن مرہ، عبادہ بن صامت، اسامہ بن شریک، ابوامامہ، جابر، اسامہ بن زید، ابن عبادۃ جنہیں ابن عمارہ اور ابی بن عمارہ بھی کہا جاتا ہے رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۲۵ (۳۷۸) ، صحیح مسلم/الطہارة ۲۲ (۲۷۲) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۵۹ (۱۵۴) ، سنن النسائی/الطہارة ۹۶ (۱۱۸) ، والقبلة ۲۳ (۷۷۵) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۴ (۵۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۳۲۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے ، موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی (۸۰)صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں ، علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے ، امام کرخی کی رائے ہے کہ «مسح علی خفین» " موزوں پر مسح " کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفر کا اندیشہ ہے ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ «مسح علی خفین» کی حدیث کے راوی جریر رضی الله عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے ، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اور مخص ہیں ، یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں ، رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیا جائے۔

موزوں پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 94

وَيُرْوَى عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ "،‏‏‏‏ فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَسْلَمْتُ إِلَّا بَعْدَ الْمَائِدَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ التِّرْمِذِيُّ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قال:‏‏‏‏ وَرَوَى بَقِيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَدْهَمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ بَعْضَ مَنْ أَنْكَرَ الْمَسْحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ تَأَوَّلَ أَنَّ مَسْحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخُفَّيْنِ كَانَ قَبْلَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَ جَرِيرٌ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ.

شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے ان سے پوچھا: آپ کا یہ عمل سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے، یا بعد کا؟ تو کہا: میں تو سورۃ المائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایا ہوں، یہ حدیث آیت وضو کی تفسیر کر رہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پر مسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزوں پر جو مسح کیا تھا وہ آیت مائدہ کے نزول سے پہلے کا تھا، جبکہ جریر رضی الله عنہ نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۲۱۳) (صحیح) (سند میں شہر بن حوشب میں کلام ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، الإرواء ۱/۱۳۷)

مسافر اور مقیم کے مسح کی مدت کا بیان

حد یث نمبر - 95

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةٌ وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ "،‏‏‏‏ وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ صَحَّحَ حَدِيثَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ فِي الْمَسْحِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَرِيرٍ.

خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "مسافر کے لیے تین دن ہے اور مقیم کے لیے ایک دن"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یحییٰ بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے مسح کے سلسلہ میں خزیمہ بن ثابت کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،۳- اس باب میں علی، ابوبکرۃ، ابوہریرہ، صفوان بن عسال، عوف بن مالک، ابن عمر اور جریر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶۰ (۱۵۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۶ (۵۵۳) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۲۸) ، مسند احمد (۵/۲۱۳) (صحیح)

مسافر اور مقیم کے مسح کی مدت کا بیان

حد یث نمبر - 96

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ،‏‏‏‏ وَحَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَصِحُّ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ:‏‏‏‏ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:‏‏‏‏ قَالَ شُعْبَةُ:‏‏‏‏ لَمْ يَسْمَعْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ مِنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ حَدِيثَ الْمَسْحِ. وقَالَ زَائِدَةُ:‏‏‏‏ عَنْ مَنْصُورٍ كُنَّا فِي حُجْرَةِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ وَمَعَنَا إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمْ لَمْ يُوَقِّتُوا فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَالتَّوْقِيتُ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ عَاصِمٍ.

صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافر ہوتے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک، پیشاب، پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں، الا یہ کہ جنابت لاحق ہو جائے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے، ۳-اکثر صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثر اہل علم مثلاً: سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے، اور مسافر تین دن اور تین رات، بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ (جب تک دل چاہے کر سکتا ہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے، لیکن تحدید والا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۹۸، ۱۱۳، ۱۱۴ (۱۲۶) ، و۱۱۳ (۱۵۸) ، و۱۱۴ (۱۵۹) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۳ (۴۷۸) ، ویأتي برقم: ۳۵۳۵ (تحفة الأشراف : ۴۹۵۲) ، مسند احمد (۴/۲۳۹، ۲۴۰) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث موزوں پر مسح کی مدت کی تحدید پر دلالت کرتی ہے : مسافر کے لیے تین دن تین رات ہے اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات ، یہ مدت وضو کے ٹوٹنے کے وقت سے شمار ہو گی نہ کہ موزہ پہننے کے وقت سے ، حدث لاحق ہونے کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے ، نیز مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

موزے کے اوپر اور نیچے دونوں طرف مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 97

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ أَعْلَى الْخُفِّ وَأَسْفَلَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا مَعْلُولٌ لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ غَيْرُ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ لَيْسَ بِصَحِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ رَوَى هَذَا عَنْ ثَوْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حُدِّثْتُ عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ مُرْسَلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ الْمُغِيرَةُ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے اور مالک، شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۲- یہ حدیث معلول ہے۔ میں نے ابوزرعہ اور محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو ان دونوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶۳ (۱۶۵) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۵ (۵۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۵۳۷) (ضعیف) (سند میں انقطاع ہے، راوی ثور بن یزید کا رجاء بن حیوہ سے سماع نہیں ہے، اسی طرح ابو زرعہ اور بخاری کہتے ہیں کہ حیوہ کا بھی کاتب مغیرہ بن شعبہ کا وراد سے سماع نہیں ہے، نیز یہ کاتب مغیرہ کی مرسل روایت ثابت ہے۔) نوٹ: ابن ماجہ (۵۵۰) ابوداود (۱۶۵) میں غلطی سے موطأ، مسند احمد اور دارمی کا حوالہ آ گیا ہے، جب کہ ان کتابوں میں مسح سے متعلق مغیرہ بن شعبہ کی متفق علیہ حدیث آئی ہے جس میں اوپر نیچے کی صراحت نہیں ہے، ہاں آگے آنے والی حدیث (۹۸) میں مغیرہ سے صراحت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی نے خود اس کی صراحت کر دی ہے۔ ۲؎ : مولف نے یہاں حدیث علت کی واضح فرمائی ہے ان سب کا ماحصل یہ ہے کہ یہ حدیث مغیرہ کی سند میں سے نہیں بلکہ کاتب مغیرہ (تابعی) سے مرسلاً مروی ہے ، ولید بن مسلم کو اس سلسلے میں وہم ہوا ہے کہ انہوں نے اسے مغیرہ کی مسند میں سے روایت کر دیا ہے ، ترمذی نے «لم یسندہ عن ثوربن یزید غیر الولید بن مسلم» کہہ کر اسی کی وضاحت ہے۔ مغیرہ رضی الله عنہ سے مسنداً روایت اس کے برخلاف ہے جو آگے آ رہی ہے اور وہ صحیح ہے۔

موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 98

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ عَلَى ظَاهِرِهِمَا غَيْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُشِيرُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتا جس نے بسند «عروہ عن مغیرہ»دونوں موزوں کے "اوپری حصہ" پر مسح کا ذکر کرتا ہو ۲؎ اور یہی کئی اہل علم کا قول ہے اور یہی سفیان ثوری اور احمد بھی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶۳ (۱۶۱) ، (وراجع أیضا ما عندہ برقم: ۱۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۵۱۲) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اور یہ روایت متصلاً و مسنداً حسن صحیح ہے۔ ۲؎ : یعنی «على ظاهرهما» کے الفاظ ذکر کرنے میں عبدالرحمٰن بن ابی زناد منفرد ہیں۔

دونوں پاتابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 99

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَمْسَحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں اور جوتوں پر مسح کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی اہل علم کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاتابوں پر مسح کرے گرچہ جوتے نہ ہوں جب کہ پاتا بے موٹے ہوں، ۳- اس باب میں ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے، ۴- ابومقاتل سمرقندی کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس ان کی اس بیماری میں گیا جس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے پانی منگایا، اور وضو کیا، وہ پاتا بے پہنے ہوئے تھے، تو انہوں نے ان پر مسح کیا، پھر کہا: آج میں نے ایسا کام کیا ہے جو میں نہیں کرتا تھا۔ میں نے پاتابوں پر مسح کیا ہے حالانکہ میں نے جوتیاں نہیں پہن رکھیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۶۱ (۱۵۹) ، سنن النسائی/الطہارة ۹۶ (۱۲۳) ، و۹۷/۱ (۱۲۵/م) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۸ (۵۵۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۵۳۴) ، مسند احمد (۳/۲۵۲) (صحیح)

عمامہ پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 100

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْالْحَسَنِ، عَنْ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قال:‏‏‏‏ " تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْعِمَامَةِ ". قَالَ بَكْرٌ:‏‏‏‏ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى نَاصِيَتِهِ وَعِمَامَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏ذَكَرَ بَعْضُهُمُ الْمَسْحَ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْضُهُمُ النَّاصِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةِ،‏‏‏‏ وَسَلْمَانَ،‏‏‏‏ وَثَوْبَانَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ،‏‏‏‏ وَأَنَسٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الْأَوْزَاعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ،‏‏‏‏ وقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ:‏‏‏‏ " لَا يَمْسَحُ عَلَى الْعِمَامَةِ إِلَّا بِرَأْسِهِ مَعَ الْعِمَامَةِ "،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنْ مَسَحَ عَلَى الْعِمَامَةِ يُجْزِئُهُ لِلْأَثَرِ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا اور دونوں موزوں اور عمامے پر مسح کیا۔ محمد بن بشار نے ایک دوسری جگہ اس حدیث میں یہ ذکر کیا ہے کہ "آپ نے اپنی پیشانی اور اپنے عمامے پر مسح کیا"، یہ حدیث اور بھی کئی سندوں سے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی گئی ہے، ان میں سے بعض نے پیشانی اور عمامے پر مسح کا ذکر کیا ہے اور بعض نے پیشانی کا ذکر نہیں کیا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن امیہ، سلمان، ثوبان اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا بھی یہی قول ہے۔ ان میں سے ابوبکر، عمر اور انس رضی الله عنہم ہیں اور اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عمامہ پر مسح کرے، صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا کہنا ہے کہ عمامہ پر مسح نہیں سوائے اس صورت کے کہ عمامہ کے ساتھ (کچھ)سر کا بھی مسح کرے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی اسی کے قائل ہیں، ۴- وکیع بن جراح کہتے ہیں کہ اگر کوئی عمامے پر مسح کر لے تو حدیث کی رو سے یہ اسے کافی ہو گا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۵۹ (۱۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۴۹۲) ، مسند احمد (۴/۲۴۴، ۲۴۸، ۲۵۰، ۲۵۴) (صحیح)

عمامہ پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 101

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ بِلَالٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَالْخِمَارِ ".

بلال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دونوں موزوں پر اور عمامے پر مسح کیا۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۲۳ (۲۷۵) ، سنن النسائی/الطہارة ۸۶ (۱۰۴، ۱۰۶) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۹ (۵۶۱) ، (تحفة الأشراف : ۲۰۴۷) ، مسند احمد (۶/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵) (صحیح)

عمامہ پر مسح کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 102

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق هُوَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " السُّنَّةُ يَا ابْنَ أَخِي "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْعِمَامَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " أَمِسَّ الشَّعَرَ الْمَاءَ ".

ابوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے دونوں موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میرے بھتیجے!(یہ) سنت ہے۔ وہ کہتے ہیں اور میں نے عمامہ پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: بالوں کو چھوؤ۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۱۶۵) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : یعنی : پانی سے بالوں کو مس کرو ، یعنی : عمامہ پر مسح نہ کرو۔

غسل جنابت کا بیان

حد یث نمبر - 103

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِمَيْمُونَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ فَأَفَاضَ عَلَى فَرْجِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَلَكَ بِيَدِهِ الْحَائِطَ أَوِ الْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.

ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے نہانے کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا، تو برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر جھکایا اور اپنے پہونچے دھوئے، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر تین مرتبہ سر پر پانی بہایا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر وہاں سے پرے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ، جابر، ابوسعید جبیر بن مطعم اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۱ (۲۴۹) ، و۵ (۲۵۷) ، و۷ (۲۵۹) ، و۸ (۲۶۰) ، و۱۰ (۲۶۵) ، و۱۱ (۲۶۶) ، و۱۶ (۲۷۴) ، و۱۸ (۲۷۶) ، و۲۱ (۲۸۱) ، صحیح مسلم/الحیض ۹ (۳۱۷) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۹۸ (۲۴۵) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۱ (۲۵۴) ، والغسل ۷ (۴۰۸) ، و۱۴ (۴۱۸) ، و۲۲ (۴۲۸) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۹۴ (۵۷۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۰۶۴) ، مسند احمد (۶/۳۳۰، ۳۳۶) ، سنن الدارمی/الطہارة ۳۹ (۷۳۸) ، و۶۶ (۷۷۴) (صحیح)

غسل جنابت کا بیان

حد یث نمبر - 104

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الْإِنَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُشَرِّبُ شَعْرَهُ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَحْثِي عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنِ انْغَمَسَ الْجُنُبُ فِي الْمَاءِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَجْزَأَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر شرمگاہ دھوتے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر بال پانی سے بھگوتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیار کیا ہے کہ وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالے، پھر اپنے پورے بدن پر پانی بہائے، پھر اپنے پاؤں دھوئے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، نیز ان لوگوں نے کہا کہ اگر جنبی پانی میں غوطہٰ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہو گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل۱ (۲۴۸) ، و۹ (۲۶۲) ، و۱۵ (۲۷۲) ، صحیح مسلم/الحیض ۹ (۳۱۶) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۹۸ (۲۴۲) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۶ (۲۴۸) ، و۱۵۷ (۲۴۹، ۲۵۰) ، والغسل ۱۶ (۴۲۰) ، و۱۹ (۴۲۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۹۳۵) ، موطا امام مالک/الطہارة۱۷ (۶۷) ، مسند احمد (۶/۵۲، ۱۰۱) ، ہذا من طریق عروة عنہا، ولہ طرق عنہا، انظر: صحیح البخاری/الغسل ۶ (۲۵۸) ، صحیح مسلم/الحیض ۹ (۳۱۸) ، و۱۰ (۳۲۰، ۳۲۱) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۹۸ (۲۴۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۲ (۲۴۴) ، و۲۵۳، و۱۵۴ (۲۴۶) ، و۱۵۵ (۲۴۷) ، والغسل ۱۹ (۴۲۴) ، مسند احمد (۶/۱۴۳، ۱۶۱، ۱۷۳) (صحیح)

کیا عورت غسل کے وقت اپنے بال کھولے

حد یث نمبر - 105

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي أَفَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِينَ عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ مَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ " أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ " فَإِذَا أَنْتِ قَدْ تَطَهَّرْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنَ الْجَنَابَةِ فَلَمْ تَنْقُضْ شَعْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُهَا بَعْدَ أَنْ تُفِيضَ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهَا.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔ کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں؟ آپ نے فرمایا: "تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے۔ پھر پورے بدن پر پانی بہا دو تو پاک ہو گئی، یا فرمایا: جب تم ایسا کر لے تو پاک ہو گئی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اہل علم کا اسی پر عمل پر ہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے، اور اپنے بال نہ کھولے تو یہ اس کے لیے اس کے بعد کہ وہ اپنے سر پر پانی بہا لے کافی ہو جائے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۲ (۳۳۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۰ (۲۴۲) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۸ (۶۰۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۱۷۲) ، مسند احمد (۶/۳۱۵) ، سنن الدارمی/الطہارة ۱۱۴ (۱۱۹۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہی جمہور کا مذہب ہے کہ عورت خواہ جنابت کا غسل کر رہی ہو یا حیض سے پاکی کا : کسی میں بھی اس کے لیے بال کھولنا ضروری نہیں لیکن حسن بصری اور طاؤس نے ان دونوں میں تفریق کی ہے ، یہ کہتے ہیں کہ جنابت کے غسل میں تو ضروری نہیں لیکن حیض کے غسل میں ضروری ہے ، اور عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کو جس میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے «انقضى رأسك وامتشطي» فرمایا ہے جمہور نے استحباب پر محمول کیا ہے۔

ہر بال کے نیچے جنابت ہے

حد یث نمبر - 106

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةٌ فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ وَأَنْقُوا الْبَشَرَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ وَجِيهٍ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ شَيْخٌ لَيْسَ بِذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ ابْنُ وَجْبَةَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بال کے نیچے جنابت کا اثر ہوتا ہے، اس لیے بالوں کو اچھی طرح دھویا کرو اور کھال کو اچھی طرح مل کر صاف کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قوی نہیں ہیں ۱؎، وہ اس حدیث کو مالک بن دینار سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۹۸ (۲۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۶ (۵۹۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۵۰۲) (ضعیف) (سند میں حارث وجیہ ضعیف راوی ہے)

وضاحت: ۱؎ : اس لفظ " قوی نہیں ہیں " کا تعلق جرح کے مراتب کے پہلے مرتبہ سے ہے ، ایسے راوی کی روایت قابل اعتبار یعنی تقویت کے قابل ہے اور اس کی تقویت کے لیے مزید روایات تلاش کی جا سکتی ہیں ، ایسا نہیں کہ اس کی روایت سرے سے درخوراعتناء ہی نہ ہو۔

غسل کے بعد وضو نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 107

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ أَنْ لَا يَتَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۶۰ (۱۵۳) ، والغسل ۲۴ (۴۳۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۹۶ (۵۷۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۰۲۵) ، مسند احمد (۶/۶۸، ۱۱۹، ۱۵۴، ۱۹۲، ۲۵۳، ۲۵۸) ، وانظر أیضا: سنن ابی داود/ الطہارة ۹۹ (۲۵۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی : درمیان غسل جو وضو کر چکا ہے وہ کافی ہے۔

مرد اور عورت کی شرمگاہ مل جانے سے غسل کے واجب ہو جانے کا بیان

حد یث نمبر - 108

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلْتُهُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلْنَا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب مرد کے ختنہ کا مقام (عضو تناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا ۱؎، میں نے اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ہم نے غسل کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۱ (۲۰۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۴۹۹) ، وراجع أیضا: صحیح مسلم/الحیض ۲۲ (۳۴۹) ، وط/الطہارة ۱۸ (۷۳) ، و مسند احمد (۶/۴۷، ۹۷، ۱۱۲، ۲۲۷، ۲۳۹، ۲۶۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : گرچہ انزال نہ ہو تب بھی غسل واجب ہو گیا ، پہلے یہ مسئلہ تھا کہ جب انزال ہو تب غسل واجب ہو گا ، جو بعد میں اس حدیث سے منسوخ ہو گیا ، دیکھئیے اگلی حدیث۔

مرد اور عورت کی شرمگاہ مل جانے سے غسل کے واجب ہو جانے کا بیان

حد یث نمبر - 109

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفُقَهَاءِ مِنَ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ وَجَبَ الْغُسْلُ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مرد کے ختنے کا مقام عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ رضی الله عنہا کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مرفوع حدیث مروی ہے کہ "جب ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے" صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ان میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور عائشہ رضی الله عنہم بھی شامل ہیں، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بھی اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ جب دونوں ختنوں کے مقام آپس میں چھو جائیں تو غسل واجب ہو گیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۶۱۱۹) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)

منی نکلنے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 110

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نُهِيَ عَنْهَا ".

ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پر غسل واجب ہوتا ہے، یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی، پھر اس سے روک دیا گیا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۸۴ (۲۱۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۱ (۹۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۷) ، مسند احمد (۵/۱۱۵، ۱۱۶) ، سنن الدارمی/الطہارة ۷۳ (۷۸۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اور حکم دیا گیا کہ منی خواہ نکلے یا نہ نکلے اگر ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہو جائے گا۔

منی نکلنے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 111

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ،‏‏‏‏ وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّهُ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فِي الْفَرْجِ وَجَبَ عَلَيْهِمَا الْغُسْلُ وَإِنْ لَمْ يُنْزِلَا.

اس سند سے بھی زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، ۳- اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما بھی شامل ہیں، مروی ہے، ۴- اور اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں (میاں بیوی) پر غسل واجب ہو جائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہوا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

منی نکلنے پر غسل کے واجب ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 112

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ فِي الِاحْتِلَامِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ سَمِعْت الْجَارُودَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ وَكِيعًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ نَجِدْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا عِنْدَ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏والزبير، ‏‏‏‏‏‏وطلحة، ‏‏‏‏‏‏وأبي أيوب، ‏‏‏‏‏‏وأبي سعيد، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ "منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے" کا تعلق احتلام سے ہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

اس باب میں عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، ابوایوب اور ابوسعید رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا منی نکلنے ہی پر غسل واجب ہوتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۰۸۰) (ضعیف الإسناد) (سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں، اور یہ موقوف ہے، لیکن اصل حدیث إنما الماء من الماء مرفوعا صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، اور مؤلف نے باب میں وارد احادیث کا ذکر کیا، لیکن مرفوع میں (في الاحتلام) کا لفظ نہیں ہے)

وضاحت: ۱؎ : یہ توجیہ حدیث «إنما الماء من الماء» " انزال ہونے پر غسل واجب ہے " کی ایک دوسری توجیہ ہے ، یعنی خواب میں ہمبستری دیکھے اور کپڑے میں منی دیکھے تب غسل واجب ہے ورنہ نہیں ، مگر بقول علامہ البانی ابن عباس رضی الله عنہما کا یہ قول بھی بغیر «في الاحتلام» کے ہے ، یہ لفظ ان کے قول سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے ، اور «إنما الماء من الماء» شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔

جاگنے پر تری دیکھنے اور احتلام کے یاد نہ آنے کا بیان

حد یث نمبر - 113

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ هُوَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " يَغْتَسِلُ "،‏‏‏‏ وَعَنِ الرَّجُلِ يَرَى أَنَّهُ قَدِ احْتَلَمَ وَلَمْ يَجِدْ بَلَلًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا غُسْلَ عَلَيْهِ "،‏‏‏‏ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَرَى ذَلِكَ غُسْلٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " نَعَمْ إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَإِنَّمَا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثَ عَائِشَةَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ:‏‏‏‏ إِذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَرَأَى بِلَّةً أَنَّهُ يَغْتَسِلُ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْغُسْلُ إِذَا كَانَتِ الْبِلَّةُ بِلَّةَ نُطْفَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا رَأَى احْتِلَامًا وَلَمْ يَرَ بِلَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَلَا غُسْلَ عَلَيْهِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے، آپ نے فرمایا: "وہ غسل کرے" اور اس شخص کے بارے میں (پوچھا گیا) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا: "اس پر غسل نہیں" ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے؟ آپ نے فرمایا: عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث کو جس میں ہے کہ آدمی تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ آئے صرف عبداللہ ابن عمر عمری ہی نے عبیداللہ سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن عمر عمری کی یحییٰ بن سعید نے حدیث کے سلسلے میں ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے ۱؎، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جب آدمی جاگے اور تری دیکھے تو غسل کرے، یہی سفیان ثوری اور احمد کا بھی قول ہے۔ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر غسل اس وقت واجب ہو گا جب وہ تری نطفے کی تری ہو، یہ شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور جب وہ احتلام دیکھے اور تری نہ پائے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۹۵ (۲۳۶) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۲ (۶۱۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۵۳۹) ، مسند احمد (۶/۲۵۶) (صحیح) (ام سلمہ (یا ام سلیم) کا قول صرف عبداللہ العمری کی اس روایت میں ہے اور وہ ضعیف ہیں، بقیہ ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں، ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابی داود ۲۳۴)

وضاحت: ۱؎ : فی الواقع عبداللہ العمری حفظ میں کمی کے سبب تمام ائمہ کے نزدیک ضعیف ہیں ، لیکن اس حدیث کا آخری ٹکڑا صحیحین میں ام سلمہ رضی الله عنہما کی حدیث سے مروی ہے ، اور پہلا ٹکڑا خولہ بنت حکیم کی حدیث جو حسن ہے سے تقویت پا کر صحیح ہے (خولہ کی حدیث ابن ماجہ میں ہے ، دیکھئیے رقم : ۶۰۲)۔

منی اور مذی کا بیان

حد یث نمبر - 114

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ. ح قَالَ:‏‏‏‏ وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْمَذْيِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " مِنَ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنَ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ،‏‏‏‏ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ:‏‏‏‏ مِنَ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ وَمِنَ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "مذی سے وضو ہے اور منی سے غسل" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے کئی سندوں سے مرفوعاً مروی ہے کہ "مذی سے وضو ہے، اور منی سے غسل"، ۴- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، اور سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة۷۰ (۵۰۴) ، مسند احمد (۱/۸۷، ۱۱۰، ۱۱۲، ۱۲۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۲۲۵) ، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الغسل ۱۳ (۲۶۹) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۸۳ (۲۰۶) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۱۲ (۱۵۲) ، والغسل ۲۸ (۴۳۶) ، مسند احمد (۱/ ۸۲، ۱۰۸) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎ : حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا ، اس سے صرف وضو ٹوٹتا ہے ، مذی سفید ، پتلا لیس دار پانی ہے جو بیوی سے چھیڑ چھاڑ کے وقت اور جماع کے ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔ ۲؎ : خواہ یہ منی جماع سے نکلے یا چھیڑ چھاڑ سے ، یا خواب (نیند) میں ، بہرحال اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔

کپڑے میں مذی لگ جانے کا بیان

حد یث نمبر - 115

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ هُوَ ابْنُ السَّبَّاقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَلْقَى مِنَ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَاءً فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْهُ الْغُسْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ "،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَتَنْضَحَ بِهِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَى أَنَّهُ أَصَابَ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق فِي الْمَذْيِ مِثْلَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا يُجْزِئُ إِلَّا الْغَسْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ يُجْزِئُهُ النَّضْحُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ أَرْجُو أَنْ يُجْزِئَهُ النَّضْحُ بِالْمَاءِ.

سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا تھا، میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ کپڑے میں لگ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اور اسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہو گا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمد بن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں، ۳- کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے، بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے، یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا۔ امام احمد کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہو گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۸۳ (۲۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۰ (۵۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۴۶۶۴) ، مسند احمد (۳/۴۸۵) ، سنن الدارمی/الطہارة ۴۹ (۷۵۰) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : اور یہی راجح ہے کیونکہ حدیث میں «نضح» " چھڑکنا " ہی آیا ہے ، ہاں بطور نظافت کوئی دھو لے تو یہ اس کی اپنی پسند ہے ، واجب نہیں۔

کپڑے میں منی لگ جانے کا بیان

حد یث نمبر - 116

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:‏‏‏‏ " ضَافَ عَائِشَةَ ضَيْفٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ صَفْرَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَامَ فِيهَا فَاحْتَلَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَحْيَا أَنْ يُرْسِلَ بِهَا وَبِهَا أَثَرُ الِاحْتِلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَغَمَسَهَا فِي الْمَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِأَصَابِعِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا فِي الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ:‏‏‏‏ يُجْزِئُهُ الْفَرْكُ وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى أَبُو مَعْشَرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ.

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔ وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا، ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا، تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی ۱؎ لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، گرچہ دھویا نہ جائے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۲ (۵۳۸) ، مسند احمد (۶/۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۶۷۷) ، وانظر أیضا: صحیح مسلم/الطہارة ۳۲ (۲۸۸) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۸۸ (۲۹۸) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۲ (۵۳۷) ، مسند احمد (۶/۶۷، ۱۲۵، ۱۳۵، ۲۱۳، ۲۳۹، ۲۶۳، ۲۸۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منی کو کپڑے سے دھونا واجب نہیں خشک ہو تو اسے کھرچ دینے اور تر ہو تو کسی چیز سے صاف کر دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے ، منی پاک ہے یا ناپاک اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے ، امام شافعی داود ظاہری اور امام احمد کی رائے ہے کہ منی ناک کے پانی اور منہ کے لعاب کی طرح پاک ہے ، صحابہ کرام میں سے علی ، سعد بن ابی وقاص ، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم کا بھی یہی مسلک ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کا بھی یہی مسلک ہے شیخ الاسلام کا فتوی " الفتاوی الکبریٰ " میں مفصل موجود ہے ، جسے ابن القیم نے بدائع النوائد میں بعض فقہاء کہہ کر ذکر کیا ہے اور جن حدیثوں میں منی دھونے کا تذکرہ ہے وہ بطور نظافت کے ہے ، وجوب کے نہیں (دیکھئیے اگلی حدیث کے تحت امام ترمذی کی توجیہ)۔

منی کے کپڑے سے دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 117

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّهَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏لَيْسَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْفَرْكِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّهُ وَإِنْ كَانَ الْفَرْكُ يُجْزِئُ فَقَدْ يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ لَا يُرَى عَلَى ثَوْبِهِ أَثَرُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ الْمَنِيُّ بِمَنْزِلَةِ الْمُخَاطِ فَأَمِطْهُ عَنْكَ وَلَوْ بِإِذْخِرَةٍ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اور عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث "کہ انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوئی" ان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ۱؎۔ اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے، لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیا جاتا ہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔ (کیونکہ مرد کو آدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھنا ہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں: منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے، لہٰذا تم اسے اپنے سے صاف کر لو چاہے اذخر (گھاس) ہی سے ہو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۴ (۲۲۹) ، و۶۵ (۲۳۲) ، صحیح مسلم/الطہارة ۳۲ (۲۸۹) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۶ (۳۷۳) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۷ (۲۹۶) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۱ (۵۳۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۳۵) ، مسند احمد (۲/۱۴۲، ۲۳۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس لیے کہ ان دونوں میں مطابقت واضح ہے ، جو لوگ منی کی طہارت کے قائل ہیں وہ دھونے والی روایت کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ دھونا بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطور نظافت تھا ، کیونکہ اگر دھونا واجب ہوتا تو خشک ہونے کی صورت میں بھی صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا ، حالانکہ عائشہ رضی الله عنہا نے صرف کھرچنے پر اکتفاء کیا۔

جنبی غسل کرنے سے پہلے سوئے اس کا بیان

حد یث نمبر - 118

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنَامُ وَهُوَ جُنُبٌ وَلَا يَمَسُّ مَاءً ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اور آپ جنبی ہوتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۹۰ (۲۲۸) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۹۸ (۵۸۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۰۲۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جنبی وضو اور غسل کے بغیر سو سکتا ہے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا یہ عمل بیان جواز کے لیے ہے تاکہ امت پریشانی میں نہ پڑے ، رہا اگلی حدیث میں آپ کا یہ عمل کہ آپ جنابت کے بعد سونے کے لیے وضو فرما لیا کرتے تھے تو یہ افضل ہے ، دونوں حدیثوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔

جنبی غسل کرنے سے پہلے سوئے اس کا بیان

حد یث نمبر - 119

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفِيانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ كَانَ يَتَوَضَّأُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ "،‏‏‏‏ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْ أَبِي إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ،‏‏‏‏ وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرَوْنَ أَنَّ هَذَا غَلَطٌ مِنْ أَبِي إِسْحَاق.

اس سند سے بھی ابواسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہی سعید بن مسیب وغیرہ کا قول ہے، ۲- کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سونے سے پہلے وضو کرتے تھے، ۳- یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث (رقم ۱۱۸) سے جسے انہوں نے اسود سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے، اور ابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ، ثوری اور دیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیال میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۶۰۲۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان کا سب کا ماحصل یہ ہے کہ اسود کے تلامذہ میں سے صرف ابواسحاق سبیعی نے اس حدیث کو «كان النبي صلى الله عليه وسلم ينام وهو جنب لايمس ماء» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ، اس کے برخلاف ان کے دوسرے تلامذہ نے اسے «إنه كان يتوضأ قبل أن ينام» کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ، لیکن کسی ثقہ راوی کا کسی لفظ کا اضافہ جو مخالف نہ ہو حدیث کے صحیح ہونے سے مانع نہیں ہے ، اور ابواسحاق سبیعی ثقہ راوی ہیں ، نیز یہ کہ احمد کی ایک روایت (۶/۱۰۲)میں اسود سے سننے کی صراحت موجود ہے ، نیز سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سبیعی سے یہ روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی سے ان کی روایت سب سے معتبر مانی جاتی (دیکھئیے صحیح ابوداودرقم : ۲۳۴ ، اور سنن ابن ماجہ رقم : ۵۸۳)۔

جنبی جب سونا چاہے تو وضو کر لے

حد یث نمبر - 120

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٍ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عُمَرَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَنَامَ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ.

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، جب وہ وضو کر لے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمار، عائشہ، جابر، ابوسعید اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عمر رضی الله عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے، ۳- یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب اور تابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تو وہ سونے سے پہلے وضو کر لے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۵۵۲) ، مسند احمد (۱/۱۷، ۳۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد وضو شرعی ہے لغوی نہیں ، یہ وضو واجب ہے یا غیر واجب اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے ، جمہور اس بات کی طرف گئے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے اور داود ظاہری اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واجب ہے۔ اور پہلا قول ہی راجح ہے جس کی دلیل پچھلی حدیث ہے۔ ۲؎ : یعنی مستحب ہے کہ وضو کر لے ، یہی جمہور کا مذہب ہے۔

جنبی سے مصافحہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 121

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ ؟ "،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي:‏‏‏‏ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے (راوی کو شک ہے)۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ان کے قول «فانخنست» کے معنی «تنحیت عنہ» کے ہیں "یعنی میں نظر بچا کر نکل گیا"، ۴- بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۲۳ (۲۸۳) ، صحیح مسلم/الحیض ۲۹ (۳۷۱) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۹۲ (۲۳۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۲ (۲۷۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸۰ (۵۳۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۶۴۸) ، مسند احمد (۲/۲۳۵، ۲۸۲، ۴۷۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اور جب پسینے میں کوئی حرج نہیں تو بغیر پسینے کے بدن کی جلد (سے پاک آدمی کے ہاتھ اور جسم کے ملنے) میں بدرجہ اولیٰ کوئی حرج نہیں۔

عورت کے خواب میں وہی چیز دیکھنے کا بیان جو مرد دیکھتا ہے

حد یث نمبر - 122

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِنْتُ مِلْحَانَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَعْنِي غُسْلًا إِذَا هِيَ رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " نَعَمْ إِذَا هِيَ رَأَتِ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ "،‏‏‏‏ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ فَضَحْتِ النِّسَاءَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَى الرَّجُلُ فَأَنْزَلَتْ أَنَّ عَلَيْهَا الْغُسْلَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَخَوْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ.

ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: اللہ کے رسول! اللہ حق سے نہیں شرماتا ۱؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے، جب وہ خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے ۲؎ آپ نے فرمایا: "ہاں، جب وہ منی دیکھے تو غسل کرے" ۳؎ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے ام سلیم سے کہا: ام سلیم! آپ نے تو عورتوں کو رسوا کر دیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بیشتر فقہاء کا قول ہے کہ عورت جب خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے پھر اسے انزال ہو جائے (یعنی منی نکل جائے) تو اس پر غسل واجب ہے، یہی سفیان ثوری اور شافعی بھی کہتے ہیں، ۳- اس باب میں ام سلیم، خولہ، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۵۰ (۱۳۰) ، والغسل ۲۲ (۲۸۲) ، والأنبیاء ۱ (۳۳۲۸) ، والأدب ۶۸ (۶۰۹۱) ، و۷۹ (۶۱۲۱) ، صحیح مسلم/الحیض ۷ (۳۱۳) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۱ (۱۹۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۷ (۶۱۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۶۴) ، مسند احمد (۶/۲۹۲، ۳۰۲، ۳۰۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرم و حیاء کی وجہ سے حق کے بیان کرنے سے نہیں رکتا ، تو میں بھی ان مسائل کے پوچھنے سے باز نہیں رہ سکتی جن کی مجھے احتیاج اور ضرورت ہے۔ ۲؎ : " جو مرد دیکھتا ہے " سے مراد احتلام ہے۔ ۳؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منی کے نکلنے سے عورت پر بھی غسل واجب ہو جاتا ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے۔

غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان

حد یث نمبر - 123

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حُرَيْثٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " رُبَّمَا اغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَدْفَأَ بِي فَضَمَمْتُهُ إِلَيَّ وَلَمْ أَغْتَسِلْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ وَالتَّابِعِينَ:‏‏‏‏ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اغْتَسَلَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَسْتَدْفِئَ بِامْرَأَتِهِ وَيَنَامَ مَعَهَا قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ۱؎، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کر لے تو اپنی بیوی سے چمٹ کر گرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں، وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سو سکتا ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۹۷ (۵۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۶۲۰) (ضعیف) (سند میں حریث ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎ : یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے ، اس کے راوی «حریث بن ابی المطر» ضعیف ہیں (جیسا کہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے ، جو عبدالرحمٰن افریقی کے طریق سے ہے ، عبدالرحمٰن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں ، لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتا ہے ، نیز صحیحین میں عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے ، وہ یہ ہے : " ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے ، پھر ہم سے چمٹتے تھے " واللہ اعلم۔

پانی نہ پانے پر جنبی تیمم کر لے

حد یث نمبر - 124

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْأَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَهُورُ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ ". وقَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَلَمْ يُسَمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْجُنُبَ وَالْحَائِضَ إِذَا لَمْ يَجِدَا الْمَاءَ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى التَّيَمُّمَ لِلْجُنُبِ وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَتَيَمَّمُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ،‏‏‏‏ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاقُ.

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے"۔ محمود (محمود بن غیلان) نے اپنی روایت میں یوں کہا ہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں تو تیمم کر کے نماز پڑھیں، ۴- ابن مسعود رضی الله عنہ جنبی کے لیے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا، تیمم کرے گا، یہی سفیان ثوری، مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۲۰۳ (۳۲۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۹۷۱) ، مسند احمد (۵/۱۵۵، ۱۸۰) (صحیح) (سند میں عمروبن بجدان، مجہول ہیں، لیکن بزار وغیرہ کی روایت کردہ ابوہریرہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبی داود ۳۵۷، والإرواء ۱۵۳)

مستحاضہ کا بیان

حد یث نمبر - 125

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدَةُ،‏‏‏‏ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي ". قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ " تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ جَاءَتْ فَاطِمَةُ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٌ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ إِذَا جَاوَزَتْ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا اغْتَسَلَتْ وَتَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کا خون ۱؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو۔ اور جب وہ چلا جائے (یعنی حیض کے دن پورے ہو جائیں) تو خون دھو کر (غسل کر کے) نماز پڑھو"، ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر نماز کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کا وقت) آ جائے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے، اور یہی سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گزر جائیں تو وہ غسل کرے اور ہر نماز کے لیے (تازہ) وضو کرے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۳ (۲۲۸) ، والحیض ۸ (۳۰۶) ، و۱۹ (۳۲۰) ، و۲۴ (۳۲۵) ، و۲۸ (۳۳۱) ، صحیح مسلم/الحیض ۱۴ (۳۳۳) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۹ (۲۸۲) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۵ (۲۱۳) ، و۱۳۸ (۲۱۹، ۲۲۰) ، والحیض ۴ (۳۵۹) ، و۶ (۳۶۵، ۳۶۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۵ (۶۲۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۰۷۰، ۱۷۱۹۶، ۱۷۲۵۹) ، مسند احمد (۶/۸۳، ۱۴۱، ۱۸۷) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۳ (۸۰۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : عورت کی شرمگاہ سے تین طرح کا خون خارج ہوتا ہے : ایک حیض کا خون جو عورت کے بالغ ہونے سے بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ ہر ماہ اس کے رحم سے چند مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے اور اس کا رنگ کالا ہوتا ہے ، دوسرا نفاس کا خون ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعد چالیس دن یا اس سے کم و بیش زچگی میں آتا ہے ، تیسرا استحاضہ کا خون ہے ، یہ ایک عاذل نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بیماری کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، اس کے جاری ہونے کا کوئی مقرر وقت نہیں ہے کسی بھی وقت جاری ہو سکتا ہے۔

مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے وضو کرے

حد یث نمبر - 126

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ:‏‏‏‏ " تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيهَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَتَصُومُ وَتُصَلِّي ".

عدی کے دادا عبید بن عازب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا: "وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتا ہو نماز چھوڑے رہے، پھر وہ غسل کرے، اور (استحاضہ کا خون آنے پر) ہر نماز کے لیے وضو کرے، روزہ رکھے اور نماز پڑھے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۱۳ (۳۹۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۵ (۶۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۴۲) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۳ (۸۲۰) (صحیح) (اس کی سند میں ابو الیقظان ضعیف، اور شریک حافظہ کے کمزور ہیں، مگر دوسری سندوں اور حدیثوں سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)۔

مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے وضو کرے

حد یث نمبر - 127

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شُرَيْكٌ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ قَدْ تَفَرَّدَ بِهِ شَرِيكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ جَدُّ عَدِيٍّ مَا اسْمُهُ ؟ فَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ اسْمَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرْتُ لِمُحَمَّدٍ قَوْلَ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ أَنَّ اسْمَهُ:‏‏‏‏ دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَعْبَأْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق في المستحاضة:‏‏‏‏ إِنِ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ هُوَ أَحْوَطُ لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ أَجْزَأَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ جَمَعَتْ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَهَا.

اس سند سے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، ۲- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ ہر نماز کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگر وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے تو یہ اس کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ایک غسل سے دو نمازیں جمع کرے تو بھی کافی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کر سکتی ہے

حد یث نمبر - 128

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلَاةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ "،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَتَلَجَّمِي "،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَاتَّخِذِي ثَوْبًا "،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ "،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اغْتَسِلِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَافْعَلِي وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ "،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ وَابْنُ جُرَيْجٍ،‏‏‏‏ وَشَرِيكٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ وَالصَّحِيحُ:‏‏‏‏ عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:‏‏‏‏ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق فِي الْمُسْتَحَاضَةِ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَتُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفْ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ،‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلَاةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثَةٌ وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ عَنْهُ خِلَافُ هَذَا،‏‏‏‏ وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ:‏‏‏‏ أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي عُبَيْدٍ.

حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہو جائے گا"، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا: "تو لنگوٹ باندھ لیا کرو"، کہا: خون اس سے بھی زیادہ آ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: "تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو"، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "تو میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو"، آپ نے فرمایا: "یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں، اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے پاک صاف ہو جا اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اگر تم قادر ہو تو اس طرح کرو اور روزے رکھو"، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اور جانے کو جانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تو اس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے (حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ اور جب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کا حکم حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۴؎ اسی طرح ابو عبید نے کہا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: جب مستحاضہ کو پہلی بار جب اس نے خون دیکھا تبھی سے برابر خون جاری رہے تو وہ خون شروع ہونے سے لے کر پندرہ دن تک نماز چھوڑے رہے گی، پھر اگر وہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے، تو وہ چودہ دن کی نماز قضاء کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی نماز چھوڑ دے گی، ۴- حیض کی کم سے کم مدت اور سب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۱۰ (۲۸۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۵ (۶۲۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۸۲۱) ، مسند احمد (۶/۴۳۹) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۳ (۸۱۲) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : ان دونوں باتوں سے مراد : یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔۲؎ : یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے ، دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجر کے لیے۔ ۳؎ : یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے گی۔ ۴؎ : یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی ، پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔

مستحاضہ عورت ہر نماز کے وقت غسل کرے

حد یث نمبر - 129

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ ابْنَةُ جَحْشٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسِلِي ثُمَّ صَلِّي "،‏‏‏‏ فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ. قَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّيْثُ:‏‏‏‏ لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أُمَّ حَبِيبَةَ أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهُ شَيْءٌ فَعَلَتْهُ هِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ الْمُسْتَحَاضَةُ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ،‏‏‏‏ وَرَوَى الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ وَعَمْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔ تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، یہ تو محض ایک رگ ہے، لہٰذا تم غسل کرو پھر نماز پڑھو"، تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی الله عنہا کو ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، بلکہ یہ ایسا عمل تھا جسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نیز یہ حدیث زہری سے «عن عمرة عن عائشہ» کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، ۲- بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مستحاضہ ہر نماز کے وقت غسل کرے گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۴ (۳۳۴) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۸ (۲۷۹) ، و۱۱۱ (۲۸۸) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۴ (۲۰۷) ، والحیض ۳ (۳۵۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۶ (۶۲۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۵۸۳) ، مسند احمد (۶/۸۳، ۱۴۱، ۱۸۷) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۳ (۸۰۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : کسی بھی صحیح روایت میں نہیں آتا کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی الله عنہا کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا تھا ، جو روایتیں اس بارے میں ہیں سب ضعیف ہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ وہ بطور خود (استحبابی طور سے) ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔

حائضہ کے نماز قضاء نہ کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 130

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ أَتَقْضِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا أَيَّامَ مَحِيضِهَا ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ " أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ فَلَا تُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْحَائِضَ لَا تَقْضِي الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ، ‏‏‏‏‏‏لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ فِي أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ.

معاذہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: کیا ہم حیض کے دنوں والی نماز کی قضاء کیا کریں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ ہے؟ ہم میں سے ایک کو حیض آتا تھا تو اسے قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور عائشہ سے اور کئی سندوں سے بھی مروی ہے کہ حائضہ نماز قضاء نہیں کرے گی، ۳- اکثر فقہاء کا یہی قول ہے۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ روزہ قضاء کرے گی اور نماز قضاء نہیں کرے گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۰ (۳۲۱) ، صحیح مسلم/الحیض ۱۵ (۳۳۵) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۵ (۲۶۲) ، سنن النسائی/الحیض ۱۷ (۳۸۲) ، والصوم ۳۶ (۲۳۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۹ (۶۳۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۹۶۴) ، مسند احمد (۶/۳۲، ۹۷، ۱۲۰، ۱۸۵، ۲۳۱) ، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۲ (۱۰۲۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : حروریہ منسوب ہے حروراء کی طرف جو کوفہ سے دو میل کی دوری پر ایک بستی کا نام تھا ، خوارج کو اسی گاؤں کی نسبت سے حروری کہا جاتا ہے ، اس لیے کہ ان کا ظہور اسی بستی سے ہوا تھا ، ان میں کا ایک گروہ حیض کے دنوں کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کو ضروری قرار دیتا ہے اسی لیے عائشہ رضی الله عنہا نے اس عورت کو حروریہ کہا ، مطلب یہ تھا کہ کیا تو خارجی عورت تو نہیں ہے جو ایسا کہہ رہی ہے۔

جنبی اور حائضہ کے قرآن نہ پڑھنے کا بیان

حد یث نمبر - 131

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَقْرَأْ الْجُنُبُ وَلَا الْحَائِضُ "،‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏مِثْلِ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا طَرَفَ الْآيَةِ وَالْحَرْفَ وَنَحْوَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصُوا لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ فِي التَّسْبِيحِ وَالتَّهْلِيلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ إِسْمَاعِيل بْنَ عَيَّاشٍ يَرْوِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ، ‏‏‏‏‏‏كَأَنَّهُ ضَعَّفَ رِوَايَتَهُ عَنْهُمْ فِيمَا يَنْفَرِدُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا حَدِيثُ إِسْمَاعِيل بْنَ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَهْلِ الشَّامِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:‏‏‏‏ إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ مِنْ بَقِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنِ الثِّقَاتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ذَلِكَ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ جس میں ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جنبی اور حائضہ (قرآن) نہ پڑھیں"، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اور ان کے بعد کے لوگ مثلاً سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ حائضہ اور جنبی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک آدھ حرف کے سوا قرآن سے کچھ نہ پڑھیں، ہاں ان لوگوں نے جنبی اور حائضہ کو تسبیح و تہلیل کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۵ (۵۹۵) ، (تحفة الأشراف : ۸۴۷۴) (منکر) (سند میں راوی اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہوتی ہے، اور موسیٰ بن عقبہ مدنی ہیں)۔

حائضہ کے ساتھ بوس و کنار کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 132

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مِنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حِضْتُ يَأْمُرُنِي أَنْ أَتَّزِرَ ثُمَّ يُبَاشِرُنِي ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ وَمَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جب حیض آتا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مجھے تہ بند باندھنے کا حکم دیتے پھر مجھ سے چمٹتے اور بوس و کنار کرتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ صحابہ کرام و تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۲- اس باب میں ام سلمہ اور میمونہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۵ (۳۰۰) ، صحیح مسلم/الحیض ۱ (۲۹۳) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۷ (۲۶۷) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۰ (۲۸۶) ، والحیض ۱۲ (۳۷۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲۱ (۶۳۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۹۸۲) (صحیح)

حائضہ کے ساتھ کھانے اور اس کے جھوٹے کا بیان

حد یث نمبر - 133

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " وَاكِلْهَا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بِمُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ بَأْسًا، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفُوا فِي فَضْلِ وَضُوئِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ فَضْلَ طَهُورِهَا.

عبداللہ بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "اس کے ساتھ کھاؤ" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن سعد رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عائشہ اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے: یہ لوگ حائضہ کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔ البتہ اس کے وضو کے بچے ہوئے پانی کے سلسلہ میں ان میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض نے اس کی طہارت سے بچے ہوئے پانی کو مکروہ کہا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۸۳ (۲۱۱) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۳۰ (۶۵۱) ، (تحفة الأشراف : ۵۳۲۶) ، مسند احمد (۵/۲۹۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث آیت کریمہ : «فاعتزلوا النساء في المحيض» (البقرة : 222) کے معارض نہیں کیونکہ آیت میں جدا رہنے سے مراد وطی سے جدا رہنا ہے۔

حائضہ ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے

حد یث نمبر - 134

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ثابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ لِيعَائِشَةُ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ " قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي حَائِضٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ بِأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْحَائِضُ شَيْئًا مِنَ الْمَسْجِدِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "مسجد سے مجھے بوریا اٹھا کر دو"، تو میں نے عرض کیا: میں حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: "تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ ہم اس مسئلہ میں کہ "حائضہ کے مسجد سے کوئی چیز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں" ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۲ (۲۹۸) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۴ (۲۶۱) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۳ (۲۷۲) ، والحیض ۱۸ (۳۸۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲۰ (۶۳۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۴۴۶) ، مسند احمد (۶/۴۵، ۱۰۱، ۱۱۲، ۱۴۱، ۱۷۳، ۲۱۴، ۲۲۹، ۲۴۵) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۱ (۷۹۸) (صحیح)

حائضہ سے جماع کے جائز نہ ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 135

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ،‏‏‏‏ وَبَهْزُ بْنُ أَسَدٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ سَلَمَةِ، عَنْحَكِيمٍ الْأَثْرَمِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ " صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ لَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّغْلِيظِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَتَى حَائِضًا فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ "،‏‏‏‏ فَلَوْ كَانَ إِتْيَانُ الْحَائِضِ كُفْرًا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِالْكَفَّارَةِ،‏‏‏‏ وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی حائضہ کے پاس آیا یعنی اس سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا، یا کسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کا حال جاننے کے لیے) آیا تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (صلی الله علیہ وسلم) پر نازل کی گئی ہیں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اہل علم کے نزدیک نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفر ہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا"، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطب۲۱ (۳۹۰۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲۲ (۶۳۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۵۳۶) ، مسند احمد (۲/۴۲۹) (صحیح) (سند میں حکیم الأثرم میں کچھ ضعف ہے، تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے، الإ رواء: ۲۰۰۶)

وضاحت: ۱؎ : آپ کا یہ فرمانا تغلیظاً ہے جیسا کہ خود امام ترمذی نے اس کی وضاحت کر دی ہے۔

حائضہ سے جماع کے کفارہ کا بیان

حد یث نمبر - 136

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " يَتَصَدَّقُ بِنِصْفِ دِينَارٍ ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس آدمی کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتا ہے فرمایا:"وہ آدھا دینار صدقہ کرے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۰۶ (۲۶۴) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۲ (۲۹۰) ، والحیض ۹ (۳۷۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲۳ (۱۴۰) ، و۱۲۹ (۲۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۶۴۸۶) ، مسند احمد (۱/۲۳۷، ۲۷۲، ۲۸۶، ۳۱۲، ۳۲۵، ۳۶۳، ۳۶۷) ، سنن الدارمی/الطہارة ۱۱۱ (۱۱۴۵) (ضعیف) (اس لفظ سے ضعیف ہے، سند میں شریک بن عبداللہ القاضی ضعیف ہیں اور خصیف بن عبدالرحمن الجزری بھی سیٔ الحفظ اور اختلاط کا شکار راوی ہیں، لیکن حدیث ...دينار أو نصف دينار کے لفظ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی ۳۳۴، صحیح سنن ابی داود ۲۵۶، ضعیف أبی داود ۴۲)

حائضہ سے جماع کے کفارہ کا بیان

حد یث نمبر - 137

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا كَانَ دَمًا أَحْمَرَ فَدِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا كَانَ دَمًا أَصْفَرَ فَنِصْفُ دِينَارٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ الْكَفَّارَةِ فِي إِتْيَانِ الْحَائِضِ قَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا وَمَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ يَسْتَغْفِرُ رَبَّهُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ قَوْلِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ بَعْضِ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ:‏‏‏‏ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ عُلَمَاءِ الْأَمْصَارِ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب خون سرخ ہو (اور جماع کر لے تو) ایک دینار اور جب زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرے)"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حائضہ سے جماع کے کفارے کی حدیث ابن عباس سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے مروی ہے، ۲- اور بعض اہل علم کا یہی قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اپنے رب سے استغفار کرے گا، اس پر کوئی کفارہ نہیں، ابن مبارک کے قول کی طرح بعض تابعین سے بھی مروی ہے جن میں سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی بھی شامل ہیں۔ اور اکثر علماء امصار کا یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۴۹۱) (ضعیف) (سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ضعیف ہیں، یہ مفصل مرفوع روایت ضعیف ہے، لیکن موقوف یعنی ابن عباس کے قول سے صحیح ہے، دیکھئے صحیح ابی داود رقم: ۲۵۸)

کپڑے سے حیض کا خون دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 138

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثَّوْبِ يُصِيبُهُ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " حُتِّيهِ ثُمَّ اقْرُصِيهِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيهِ وَصَلِّي فِيهِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَى الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْهَمِ فَلَمْ يَغْسِلْهُ وَصَلَّى فِيهِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَجِبُ عَلَيْهِ الْغَسْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْهَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ.

اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- کپڑے میں جو خون لگ جائے اور اسے دھونے سے پہلے اس میں نماز پڑھ لے … اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار میں ہو اور دھوے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز دہرائے ۱؎، اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو تو نماز دہرائے ورنہ نہیں، یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے نماز کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎، جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو، اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۳ (۲۲۷) ، والحیض ۹ (۳۰۷) ، صحیح مسلم/الطہارة ۳۳ (۲۹۱) ، و۱۳۲ (۲۹۱) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۲ (۳۶۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۵ (۲۹۴) ، والحیض ۲۶ (۳۹۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۸ (۶۲۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۷۴۴) ، موطا امام مالک/الطہارة ۲۸ (۱۰۳) ، سنن الدارمی/الطہارة ۸۲ (۷۹۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں «إذا كان في الثوب قدر الدرهم من الدم غسل الثوب وأعيدت الصلاة» امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکر الحدیث ہے۔ ۲؎ : اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفوعنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔ ۳؎ : ان لوگوں کی دلیل جابر رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں«إن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمى رجل بسهم فنزفه الدم فركع وسجد ومضى في صلاته» لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون ، اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔ ۴؎ : کیونکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں ، نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔

نفاس والی عورتیں (صوم و صلاۃ سے) کب تک رکی رہیں

حد یث نمبر - 139

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ أَبُو بَدْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِي سَهْلٍ، عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَاسْمُ أَبِي سَهْلٍ:‏‏‏‏ كَثِيرُ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو سَهْلٍ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَهْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ عَلَى أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّهَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَاءِ،‏‏‏‏ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ خَمْسِينَ يَوْمًا إِذَا لَمْ تَرَ الطُّهْرَ وَيُرْوَى عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ،‏‏‏‏ وَالشَّعْبِيِّ سِتِّينَ يَوْمًا.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں، اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف ابوسہل ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے تمام اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک نماز نہیں پڑھیں گی۔ البتہ اگر وہ اس سے پہلے پاک ہو لیں تو غسل کر کے نماز پڑھنے لگ جائیں، اگر چالیس دن کے بعد بھی وہ خون دیکھیں تو اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ چالیس دن کے بعد وہ نماز نہ چھوڑیں، یہی اکثر فقہاء کا قول ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ پچاس دن تک نماز چھوڑے رہے جب وہ پاکی نہ دیکھے، عطاء بن ابی رباح اور شعبی سے ساٹھ دن تک مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۲۱ (۳۱۱) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۲۸ (۶۴۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۸۷) ، مسند احمد (۶/۳۰۰، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۰) (حسن صحیح) (سند میں مُسّہ ازدیہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے)

کئی بیویوں سے صحبت کرنے کے بعد آخر میں غسل کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 140

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَعُودَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو عُرْوَةَ هُوَ:‏‏‏‏ مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ قَتَادَةُ بْنُ دِعَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ خَطَأٌ وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي عُرْوَةَ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ہی غسل میں سبھی بیویوں کا چکر لگا لیتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابورافع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳- بہت سے اہل علم کا جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں یہی قول ہے کہ وضو کرنے سے پہلے دوبارہ جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۹) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۰ (۲۶۴) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۱ (۵۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۳۶) ، مسند احمد (۳/۲۲۵) ، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الغسل ۱۲ (۲۶۸) ، و۲۴ (۲۸۴) ، والنکاح ۴ (۵۰۶۸) ، و۱۰۲ (۵۲۱۵) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۸۵ (۲۱۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی سب سے صحبت کر کے اخیر میں ایک غسل کرتے تھے۔

بیوی سے دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ کرنے پر جنبی وضو کر لے

حد یث نمبر - 141

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ بَيْنَهُمَا وُضُوءًا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ قَبْلَ أَنْ يَعُودَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کر لے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے، ۲- ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کا قول ہے، اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی کہا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو جماع سے پہلے دوبارہ وضو کرے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۸) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۸۶ (۲۲۰) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۹ (۲۶۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۰ (۵۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۴۲۵۰) ، مسند احمد (۳/۷، ۲۱، ۲۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ دھونا ہے ، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں «فليتوضأ وضوئه للصلاة» آیا ہے اس کی نفی ہوتی ہے ، صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے ، جمہور نے «فليتوضأ» میں امر کے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے ، لیکن ظاہر یہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے ، جمہور کی دلیل عائشہ رضی الله عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ہے «كان للنبي صلى الله عليه وسلم يجامع ثم يعودو لايتوضأ» نیز صحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں «فإنه أنشط للعود» کا ٹکڑا وارد ہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امر کا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔

جب نماز کھڑی ہو جائے اور آدمی کو پاخانے کی حاجت ہو تو پہلے پاخانہ جائے

حد یث نمبر - 142

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ، قَالَ:‏‏‏‏ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَدَّمَهُ وَكَانَ إِمَامَ قَوْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمُ الْخَلَاءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَثَوْبَانَ،‏‏‏‏ وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى وُهَيْبٌ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ لَا يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَهُوَ يَجِدُ شَيْئًا مِنَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَا:‏‏‏‏ إِنْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَلَا يَنْصَرِفْ مَا لَمْ يَشْغَلْهُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ وَبِهِ غَائِطٌ أَوْ بَوْلٌ مَا لَمْ يَشْغَلْهُ ذَلِكَ عَنِ الصَّلَاةِ.

عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم رضی الله عنہ اپنی قوم کے امام تھے، نماز کھڑی ہوئی تو انہوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "جب نماز کے لیے اقامت ہو چکی ہو اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو وہ پہلے قضائے حاجت کے لیے جائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن ارقم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، ثوبان اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور یہی قول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ اور تابعین میں کئی لوگوں کا ہے۔ احمد، اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آدمی کو پیشاب پاخانہ کی حاجت محسوس ہو تو وہ نماز کے لیے نہ کھڑا ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ نماز میں شامل ہو گیا، پھر نماز کے دوران اس کو اس میں سے کچھ محسوس ہو تو وہ اس وقت تک نماز نہ توڑے جب تک یہ حاجت (نماز سے) اس کی توجہ نہ ہٹا دے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پاخانے یا پیشاب کی حاجت کے ساتھ نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ چیزیں نماز سے اس کی توجہ نہ ہٹا دیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۴۳ (۸۸) ، سنن النسائی/الإمامة ۵۱ (۸۵۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۱۴ (۶۱۶) ، (تحفة الأشراف : ۵۱۴۱) ، موطا امام مالک/ صلاة السفر ۱۷ (۴۹) ، مسند احمد (۴/۳۵) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۷ (۱۴۶۷) (صحیح)

گندی جگہوں پر سے ننگے پاؤں گزرنے سے پاؤں دھونے کا بیان

حد یث نمبر - 143

حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُطَهِّرُهُ مَا بَعْدَهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَتَوَضَّأُ مِنَ الْمَوْطَإِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا وَطِيءَ الرَّجُلُ عَلَى الْمَكَانِ الْقَذِرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ غَسْلُ الْقَدَمِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَطْبًا فَيَغْسِلَ مَا أَصَابَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِهُودِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَهُوَ وَهَمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ابْنٌ يُقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ هُودٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا هُوَ:‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَهَذَا الصَّحِيحُ.

عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے کہا: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کر دیتی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ گندی جگہوں پر سے گزرنے کے بعد پاؤں نہیں دھوتے تھے، ۲- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ جب آدمی کسی گندے راستے سے ہو کر آئے تو اسے پاؤں دھونے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ گندگی گیلی ہو تو ایسی صورت میں جو کچھ لگا ہے اسے دھو لے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة۴۰ (۳۸۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۹ (۵۳۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۹۶) ، موطا امام مالک/الطہارة ۴ (۱۶) ، مسند احمد (۶/۲۹۰، ۳۱۶) ، سنن الدارمی/الطہارة ۶۳ (۷۶۹) (صحیح) (سند میں ام ولد عبدالرحمن یا ام ولد ابراہیم بن عبدالرحمن مبہم ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)

تیمم کا بیان

حد یث نمبر - 144

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَهُ بِالتَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَمَّارٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ عَلِيٌّ،‏‏‏‏ وَعَمَّارٌ،‏‏‏‏ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْهُمْ الشَّعْبِيُّ،‏‏‏‏ وَعَطَاءٌ،‏‏‏‏ وَمَكْحُولٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ ابْنُ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَجَابِرٌ،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمُ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَضَرْبَةٌ لِلْيَدَيْنِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ،‏‏‏‏ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَمَالِكٌ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ،‏‏‏‏ فَضَعَّفَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ حَدِيثَ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏لَمَّا رُوِيَ عَنْهُ حَدِيثُ الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ الْحَنْظَلِيُّ:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ عَمَّارٍ تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ لَيْسَ هُوَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏لِأَنَّ عَمَّارًا لَمْ يَذْكُرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلْنَا كَذَا وَكَذَا فَلَمَّا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ بِالْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْتَهَى إِلَى مَا عَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالدَّلِيلُ عَلَى ذَلِكَ مَا أَفْتَى بِهِ عَمَّارٌ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّيَمُّمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ،‏‏‏‏ فَفِي هَذَا دَلَالَةٌ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى مَا عَلَّمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَّمَهُ إِلَى الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَمْ أَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ،‏‏‏‏ وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ،‏‏‏‏ وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ الْفَلَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو زُرْعَةَ:‏‏‏‏ وَرَوَى عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا.

عمار بن یاسر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے تیمم کا حکم دیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمار رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا قول ہے جن میں علی، عمار، ابن عباس رضی الله عنہم شامل ہیں اور تابعین میں سے بھی کئی لوگوں کا ہے جن میں شعبی، عطاء اور مکحول بھی ہیں، ان سب کا کہنا ہے کہ تیمم چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی بار مارنا ہے، اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں، ۴- بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر رضی الله عنہم، ابراہیم نخعی اور حسن بصری شامل ہیں کہتے ہیں کہ تیمم چہرہ کے لیے ایک ضربہ اور دونوں ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک ایک ضربہ ہے، اس کے قائل سفیان ثوری، مالک، ابن مبارک اور شافعی ہیں، ۵- تیمم کے سلسلہ میں عمار سے یہ حدیث جس میں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ کا ذکر ہے اور بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۶- عمار رضی الله عنہ سے تیمم کی حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شانوں اور بغلوں تک تیمم کیا۔۷- بعض اہل علم نے تیمم کے سلسلہ میں عمار کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں والی حدیث کی تضعیف کی ہے کیونکہ ان سے شانوں اور بغلوں والی حدیث بھی مروی ہے،۸- اسحاق بن ابراہم مخلد حنظلی (ابن راہویہ) کہتے ہیں کہ چہرہ اور دونوں کہنیوں کے لیے ایک ہی ضربہ والی تیمم کے سلسلہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۹- عمار رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شانوں اور بغلوں تک تیمم کیا چہرے اور دونوں ہتھیلیوں والی حدیث کے مخالف نہیں کیونکہ عمار رضی الله عنہ نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اس کا حکم دیا تھا بلکہ انہوں نے صرف اتنا کہا ہے کہ ہم نے ایسا ایسا کیا، پھر جب انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے انہیں صرف چہرے اور دونوں کا حکم دیا، تو وہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں ہی پر رک گئے۔ جس کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی، اس کی دلیل تیمم کے سلسلہ کا عمار رضی الله عنہ کا وہ فتویٰ ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد دیا ہے کہ تیمم صرف چہرے اور دونوں ہتھیلیوں ہی کا ہے، اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ وہ اسی جگہ رک گئے جس کی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تعلیم دی ۱؎ اور آپ نے انہیں جو تعلیم دی تھی وہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں تک ہی محدود تھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التیمم ۴ (۳۳۸) ، و۶ (۳۳۹، ۳۴۰، ۳۴۱، ۳۴۲) ، صحیح مسلم/الحیض ۲۸ (۱۱۲/۳۶۸) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۲۳ (۳۲۲) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۹۶ (۳۱۳) ، و۲۰۰ (۳۱۸) ، و۲۰۲ (۳۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۹ (۵۶۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۳۶۲) ، مسند احمد (۴/۲۶۳، ۲۶۵، ۳۱۹، ۳۲۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎: بعض نسخوں میں یہاں سے اخیر تک کا ٹکڑا نہیں ہے۔

تیمم کا بیان

حد یث نمبر - 145

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْقُرَشِيِّ، عَنْ دَاودَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ التَّيَمُّمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَالَ فِي كِتَابِهِ حِينَ ذَكَرَ الْوُضُوءَ:‏‏‏‏ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ سورة المائدة آية 6، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِي التَّيَمُّمِ:‏‏‏‏ فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ سورة المائدة آية 6، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا سورة المائدة آية 38، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتِ السُّنَّةُ فِي الْقَطْعِ الْكَفَّيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا هُوَ الْوَجْهُ وَالْكَفَّانِ " يَعْنِي التَّيَمُّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عکرمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے تیمم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس وقت وضو کا ذکر کیا تو فرمایا"اپنے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ"، اور تیمم کے بارے میں فرمایا: "اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو"، اور فرمایا: "چوری کرنے والے مرد و عورت کی سزا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دو" تو ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں سنت یہ تھی کہ (پہنچے تک) ہتھیلی کاٹی جاتی، لہٰذا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں ہی تک ہو گا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۰۷۷) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن خالد قرشی مجہول ہیں، لیکن یہ مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)۔

آدمی ہر حال میں قرآن پڑھ سکتا ہے جب تک کہ وہ جنبی نہ ہو

حد یث نمبر - 146

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،‏‏‏‏ وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏وَابْنُ أَبِي لَيْلَى،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا ". قال أبو عيسى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ قَالَ:‏‏‏‏ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاقُ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔ خواہ کوئی بھی حالت ہو جب تک کہ آپ جنبی نہ ہوتے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎، ۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی وضو کے بغیر قرآن پڑھ سکتا ہے، لیکن مصحف میں دیکھ کر اسی وقت پڑھے جب وہ باوضو ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة۹۱ (۲۲۹) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۱ (۲۶۶، ۲۶۷) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۱۰۵ (۵۹۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۱۸۶) (ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلمہ کا حافظہ آخری دور میں کمزور ہو گیا تھا، اور یہ روایت اسی دور کی ہے)

وضاحت: ۱؎ : بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ تخریج میں گزرا۔

جس زمین پر پیشاب لگ جائے

حد یث نمبر - 147

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،‏‏‏‏ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا "،‏‏‏‏ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ بَالَ فِي الْمَسْجِدِ فَأَسْرَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَهْرِيقُوا عَلَيْهِ سَجْلًا مِنْ مَاءٍ أَوْ دَلْوًا مِنْ مَاءٍ " ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اس نے نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکا تو کہا: اے اللہ تو مجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم مت فرما۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: "تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی رحمت الٰہی) کو تنگ کر دیا"، پھر ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ مسجد میں جا کر پیشاب کرنے لگا، لوگ تیزی سے اس کی طرف بڑھے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اس پر ایک ڈول پانی بہا دو، پھر آپ نے فرمایا: "تم تو آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہونا کہ سختی کرنے والے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۸ (۳۸۰) ، سنن النسائی/السہو ۲۰ (۱۳۱۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۱۳۹) ، مسند احمد (۲/۲۳۹) (صحیح) وراجع أیضا: صحیح البخاری/الوضوء ۵۸ (۲۲۰) ، والأدب ۲۷ (۶۰۱۰) ، و۸۰ (۶۱۲۸) ، سنن النسائی/الطہارة ۴۴ (۵۶) ، والمیاہ ۲ (۳۳۱) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۸ (۵۲۹) ، مسند احمد (۲/۲۸۳، ۵۰۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۱۱۱، ۱۵۰۷۳)

وضاحت: ۱؎ : آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ بات صحابہ سے ان کے اس اعرابی کو پھٹکارنے پر فرمائی ، یعنی نرمی سے اس کے ساتھ معاملہ کرو ، سختی نہ برتو۔

جس زمین پر پیشاب لگ جائے

حد یث نمبر - 148

قَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَ هَذَا. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يُونُسُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

اس سند سے انس بن مالک سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، ابن عباس اور واثلہ بن اسقع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۵۶ (۲۱۹) ، و۵۷ (۲۲۱) ، والأدب ۳۵ (۶۰۲۵) ، صحیح مسلم/الطہارة ۳۰ (۲۸۴) ، سنن النسائی/الطہارة ۴۵ (۵۳، ۵۴، ۵۵) ، والمیاہ ۳ (۳۳۰) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۷۸ (۵۲۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۵۷، ولم یذکر الترمذيَّ) ، مسند احمد (۳/۱۱۰، ۱۱۴، ۱۶۷) ، سنن الدارمی/الطھارة ۶۲ (۷۶۷) (صحیح)