لغت میں عدت کے معنی ہیں شمار کرنا اور اصطلاح شریعت میں عدت اسے کہتے ہیں کہ جب کسی عورت کو اس کا خاوند طلاق دیدے یا خلع و ایلاء وغیرہ کے ذریعہ نکاح یا نکاح جیسی چیز مثلاً نکاح فاسد ٹوٹ جائے بشرطیکہ اس نکاح میں جماع یا خلوت صحیحہ ہو چکی ہو یا شوہر مر جائے تو وہ مقررہ مدت کہ جس کی تفصیل آگے آئے گی) گھر میں رکی رہے جب تک وہ مدت ختم نہ ہو جائے تب تک نہ کہیں جائے اور نہ کسی دوسرے مرد سے ملاقات کرے جب مدت پوری ہو جائے تو جہاں چاہے جائے اور جس طرح چاہے نکاح کرے۔
جس آزاد عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی ہو یا نکاح فسخ ہو گیا ہو اور اس کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت تین حیض ہے یعنی وہ تین حیض آنے تک شوہر ہی کے گھر میں جہاں طلاق ملی ہو بیٹھی رہے اس گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی سے نکاح کرے اسی طرح جس عورت کے ساتھ شبہ میں جماع ہو گیا ہو اس کی عدت کی مدت بھی تین حیض ہے یعنی کسی مرد نے کسی غیر عورت کو اپنی بیوی سمجھ کر دھوکہ سے صحبت کر لی تو اس عورت کو بھی تین حیض آنے تک عدت میں بیٹھنا ہو گا جب تک عدت ختم نہ ہو جائے تب تک وہ اپنے شوہر کو جماع نہ کرنے دے جس عورت کے ساتھ بے قاعدہ یعنی فاسد نکاح ختم ہوا ہو جیسے موقت نکاح اور پھر تفریق کرا دی گئی یا تفریق کرانے سے پہلے ہی خاوند مر گیا ہو تو اس عدت کی مدت بھی تین حیض ہے۔ ام ولد جب کہ آزاد کر دی جائے یا اس کا مولی مر جائے تو اس کی عدت بھی تین حیض ہیں۔
اگر کسی عورت کو کم سن ہونے کی وجہ سے یا بانجھ ہونے کی وجہ سے اور یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔
جس آزاد عورت کا خاوند مر گیا اور اس کی عدت چار مہینہ دس دن ہے خواہ اس عورت سے جماع کیا گیا ہو یا جماع نہ کیا گیا ہو خواہ وہ مسلمان عورت ہو یا مسلمان مرد کے نکاح میں یہودیہ اور نصرانیہ ہو خواہ وہ بالغہ ہو یا نابالغہ اور یا آئسہ ہو خواہ اس کا شوہر آزاد ہو یا غلام ہو اور خواہ اس کی مدت میں اس کو حیض آئے یا نہ آئے۔
حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے خواہ اس عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دی ہو یا اس کا خاوند مر گیا ہو اور خواہ وہ عورت آزاد ہو یا لونڈی ولادت ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہو جائیگی اگرچہ خاوند کے طلاق دینے یا خاوند کے مرنے کے کچھ ہی دیر بعد ولادت ہو جائے یہاں تک کہ کتاب مبسوط میں لکھا ہے کہ اگر حاملہ عورت کا شوہر مر گیا ہو اور وہ ابھی تختہ پر نہلایا جا رہا تھا یا کفنایا جا رہا تھا کہ اس عورت کے ولادت ہو گئی تو اس صورت میں بھی اس کی عدت پوری
ہو جائے گی۔
جو عورت آزاد ہو یعنی کسی کی لونڈی ہو اور اس کا خاوند اس کو طلاق دے دے تو اس کی عدت دو حیض ہے بشرطیکہ اس کو حیض آتا ہو اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو پھر اس کی عدت ڈیڑھ مہینہ ہو گی اور اگر اسکا خاوند مر جائے تو تو اس کی عدت دو مہینے پانچ دن ہو گی خواہ اس کو حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔
طلاق کی صورت میں عدت کی ابتداء طلاق کے بعد سے ہو گی یعنی طلاق کے بعد جو تین حیض آئیں گے ان کا شمار ہو گا اگر کسی نے حیض کی حالت میں طلاق دی ہو گی تو اس حیض کا شمار نہ ہو گا بلکہ اس کے بعد کے تین حیض کا اعتبار کیا جائے گا اور وفات میں عدت کا شمار شوہر کی وفات کے بعد سے ہو گا اگر عورت کو طلاق یا وفات کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ عدت کی مدت گزر گئی تو اس کی عدت پوری ہو گی عدت کے مسائل کی باقی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ابو سلمہ فاطمہ بن قیس سے نقل کرتے ہیں کہ ابو عمرو بن حفص نے فاطمہ بن قیس کو جو ان کی بیوی تھیں تین طلاقیں دیں جب کہ وہ خود موجود نہیں تھے یعنی عمرو کہیں باہر تھے وہیں سے انہوں نے کسی کی زبانی کہلا کر بھیجا کہ میں نے طلاق دی پھر ابو عمرو کے وکیل کارندے نے بطور نفقہ فاطمہ کے پاس کچھ جو بھیجے فاطمہ کے خیال میں جو کی وہ مقدار بہت کم تھی اس لئے وہ اس پر ناراض ہوئیں وکیل نے کہا کہ خدا کی قسم ہم پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے (کیونکہ تمہیں تین طلاقیں مل چکی اس کے نفقہ کا کوئی حکم نہیں ہے اس وقت تمہیں جو کی جو بھی مقدار دی گئی ہے وہ محض احسان و سلوک کے طور پر ہے فاطمہ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا نفقہ ابو عمر پر واجب نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فاطمہ کو یہ حکم دیا کہ وہ ام شریک کے گھر عدت میں بیٹھ جائیں لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ام شریک کے گھر میں میرے صحابہ جو ام شریک کے عزیز و اقارب اور آل اولاد ہیں آتے جاتے ہیں اس لئے ان کے گھر میں تمہارا بیٹھنا مناسب نہیں ہو گا البتہ تم ابن مکتوم کے ہاں عدت کے دن گزار لو کیونکہ وہ اندھے ہیں وہاں تم اپنے کپڑے رکھ سکتی ہو اور جب تم حلال ہو جاؤ یعنی تمہاری عدت کے دن پورے ہو جائیں تو مجھے اطلاع کر دینا تا کہ میں تمہارے دوسرے نکاح کی فکر کروں فاطمہ کہتی ہیں کہ پھر جب میں حلال ہو گی تو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ معاویہ ابن ابی سفیان اور ابوجہم نے میرے پاس نکاح کا پیغام بھیجا ہے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کیا رائے ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابوجہم کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی لاٹھی اپنے کاندھے سے کبھی رکھتے ہیں نہیں اور معاویہ غریب آدمی ہیں جن کے پاس مال و اسباب نہیں ہے لہذا میری رائے میں تو مناسب یہ ہے کہ تم اسامہ ابن زید سے نکاح کر لو چنانچہ میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا اور اللہ تعالی نے اس نکاح اور اسامہ کی رفاقت میں خیر و برکت عطاء فرمائی اور مجھ پر رشک کیا جانے لگا (یعنی ہم دونوں کی رفاقت اتنی راس آئی اور ہم میں اتنی الفت و محبت پیدا ہوئی کہ جو بھی دیکھتا مجھ پر رشک کرتا) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ فاطمہ کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابوجہم ایک ایسا مرد ہے جو عورتوں کو بہت مارتا ہے (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ فاطمہ کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دی تھیں چنانچہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا نفقہ تمہارے شوہر کے ذمہ نہیں ہے ہاں اگر تم حاملہ ہوتیں تو اس پر تمہارا نفقہ واجب ہوتا)
تشریح
وہاں تم اپنے کپڑے رکھ سکتی ہو کا مطلب یہ ہے کہ ابن ام مکتوم چونکہ نابینا ہیں اس لئے تمہیں وہاں پردے کی احتیاط کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی اور اگر یہ ترجمہ کیا جائے کہ وہاں تم اپنے کپڑے رکھ دو تو پھر مطلب یہ ہو گا کہ وہاں تم جب تک عدت میں رہو زینت و آرائش کے کپڑے نہ پہننا یا پھر اس جمہ کے ذریعہ کنایۃً یہ اظہار مقصود تھا کہ ایام عدت میں گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کو اجنبی مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے بشرطیکہ وہ اجنبی مرد اس کو نہ دیکھے لیکن یہ استدلال کمزور و ضعیف ہے اور صحیح وہی بات ہے جو اکثر علماء کا قول ہے کہ جس طرح اجنبی مرد کو اجنبی عورت دیکھنا حرام ہے اسی طرح اجنبی عورت کو بھی اجنبی مرد کی طرف دیکھنا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح مردوں کے حق میں یہ حکم دیا ہے کہ
آیت (قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ) 24۔ النور:30)
اے محمد آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (آخر آیت تک)
اسی طرح عورتوں کے حق میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے
آیت (وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ) 24۔ النور:31)
اور مسلمان عورتوں سے بھی یہی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (آخر آیت تک)
نیز اس سلسلہ میں حضرت ابن ام مکتوم سے متعلق ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کی وہ روایت بھی ایک بڑی واضح دلیل ہے جس میں حضرت ام سلمہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ آنحضرت کے پاس تھیں کہ اچانک حضرت ابن ام مکتوم آ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں سے فرمایا کہ پردہ کر لو حضرت ام سلمہ نے عرض کیا کہ یہ تو نابینا ہیں یہ ہمیں کہاں دیکھ رہے؟ کہ ہم ان سے پردہ کریں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
حدیث (افعمیا وان انتما الستما تبصرانہ)
کیا تم دونوں بھی اندھی ہو کیا تم ان کو نہیں دیکھ رہی ہو
پھر حضرت فاطمہ کی اس روایت سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابن ام مکتوم کو دیکھنا حضرت فاطمہ کے لئے جائز قرار دیا تھا بلکہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد تو صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں امن و حفاظت کے ساتھ رہو گی کیونکہ ان کے ہاں تمہیں کوئی دیکھے گا نہیں، اور جہاں تک حضرت فاطمہ کا سوال ہے تو انہیں خود ہی کتاب اللہ کا یہ حکم معلوم تھا کہ اجنبی مرد کو دیکھنا ممنوع ہے اس لئے ان سے یہ کیونکہ ممکن تھا کہ وہ حضرت ابن مکتوم کو دیکھتی ہوں گی؟
بہرکیف حضرت فاطمہ کی اس روایت سے بعض علماء نے عورت کو اجنبی مرد کے دیکھنے کا جو جواز ثابت کیا ہے اس کے متعلق اکثر جمہور علماء کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے۔
اب رہی بات حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے فقہی مسلک کی تو یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ ان کے نزدیک اجنبی مرد کو اس کے زیر ناف سے زیر زانو تک کے حصہ کے علاوہ دیکھنا عورت کے لئے جائز ہے بشرطیکہ وہ جنسی ترغیب شہوت سے محفوظ و مامون ہو اگر جنسی ترغیب سے مامون نہ ہو تو پھر اجنبی مرد کے پورے جسم کو دیکھنا اس کے لئے حرام ہو گا۔
ابوجہم اپنی لاٹھی اپنے کندھے سے رکھتے ہی نہیں اس سے ابوجہم کی تند خوئی اور درست مزاجی کی طرف اشارہ مقصود تھا کہ ابوجہم بہت سخت گیر اور تند خو ہیں۔ وہ عورتوں کو مارتے ہیں ان سے تمہارا نباہ مشکل ہو گا اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو مرد یا عورت کا کوئی عیب معلوم ہو تو منگنی کے وقت اس کا اظہار کر دینا جائز ہے تا کہ شادی کے بعد وہ دونوں ہی کسی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔
فاطمہ نے حضرت اسامہ کے انتخاب کو اس لئے ناپسند کیا کہ وہ اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام بیٹے تھے، دوسرا ان کا رنگ سیاہ تھا جبکہ حضرت فاطمہ قریشی تھیں اور خوبصورت بھی تھیں لیکن حضرت اسامہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت محبوب تھے اور انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں ایک مخصوص فضیلت اور تقرب حاصل تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ انکی سفارش کی جس کے بعد فاطمہ نے بھی انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور حکم نبوی کے مطابق حضرت اسامہ سے نکاح کر لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کے نکاح میں خیر و برکت عطا فرمائی اور ان کو اسامہ کی زوجیت و رفاقت میں چین و آرام نصیب ہوا۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس عورت کو طلاق بائن دی گئی ہو اور وہ حاملہ نہ ہو تو عدت پوری ہونے تک اس کا نفقہ (کھانے پینے اور کپڑے کا خرچ اور سکنی (رہنے کی جگہ) شوہر کے ذمہ ہے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض علماء کے نزدیک شوہر پر اس عورت کا نفقہ اور سکنی واجب ہے سکنی تو آیت سے ثابت ہے ارشاد باری تعالی ہے آیت (اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ) 65۔ الطلاق:6)
تم ان مطلقہ کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو
اور نفقہ کے اعتبار سے واجب ہے کہ وہ عورت اسی شوہر کی وجہ سے تمام پابندیوں کے ساتھ عدت میں بیٹھی ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق بھی اسی کے قائل تھے بلکہ وہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے تھے کہ ہم ایک عورت فاطمہ بنت قیس کے کہنے سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارا نفقہ اور سکنی تمہارے شوہر کے ذمہ نہیں ہے) کتاب اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے جس سے نفقہ اور سکنی کا واجب ہونا ثابت ہے ہو سکتا ہے کہ فاطمہ کو اشتباہ ہوا ہو یا نہیں آپ کا اصل ارشاد یاد نہ رہا ہو چنانچہ میں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس عورت کا نفقہ اور سکنی شوہر کے ذمہ ہے لیکن حضرت ابن ملک کہتے ہیں کہ یہ واقعہ صحابہ کے سامنے پیش آیا تھا ان صحابہ میں سے کسی نے فاطمہ کے قول کی تردید نہیں کی ہے اس لئے یہ بمنزلہ اجماع کے ہوا)
حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت کے لئے نہ تو نفقہ و اجب ہے اور نہ سکنی اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس آیت (اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ) 65۔ الطلاق:6) کے موجب اس عورت کے لئے سکنی واجب ہے نفقہ واجب نہیں ہے ہاں اگر اسے حمل کی حالت میں طلاق دی گئی ہو تو اس حدیث کے مطابق اس کے لئے نفقہ واجب ہو گا۔
٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت قیس جس مقام میں رہتی تھی وہ ایک ویران جگہ تھی اور ہاں اس کے بارے میں اندیشہ رہتا تھا اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو عدت کے دنوں میں اپنے مکان سے ابن مکتوم کے مکان میں منتقل ہونے کی آسانی عطا فرما دی تھی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ فاطمہ کو کیا ہوا ہے کہ وہ اللہ سے نہیں ڈرتی؟ اس سے حضرت کی مراد فاطمہ کے اس قول کہ نہ نفقہ واجب ہے اور نہ سکنی کی تردید کرنا ہے (بخاری)
تشریح
حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مطلب ہے کہ فاطمہ بنت قیس جس مکان میں رہتی تھیں وہ ایک ویران جگہ میں تھا جہاں ہر وقت چور وغیرہ کا اندیشہ رہتا تھا اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس مکان سے حضرت ابن ام مکتوم کے مکان میں منتقل ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور اس بیان سے حضرت عائشہ کا مقصد یہ آگاہ کرنا تھا کہ فاطمہ اپنی عدت کے دنوں میں اپنے خاوند کے گھر کو چھوڑ کر غیر کے گھر میں جو بیٹھی تھیں اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین طلاقوں والی عورت کے لئے سکنی نہیں ہے اور وہ جہاں چاہے عدت میں بیٹھ جائے بلکہ فاطمہ کا اپنے خاوند کے مکان کو چھوڑ کر ایک دوسرے شخص کے مکان میں عدت گزارنے کا سبب یہ ہے جو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ نقل کیا کرتی تھیں کہ جس عورت کو طلاق بائن دی گئی ہو اس کے لئے نہ تو نفقہ ہے اور نہ سکنی ہے چنانچہ حضرت عائشہ نے ان کی اس بات کی تردید کی اور فرمایا کہ فاطمہ اس قول :نہ نفقہ اور نہ سکنی ہے: کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ہرگز نہیں فرمایا ہو گا بلکہ فاطمہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
گویا اس مسئلہ میں حضرت عائشہ کا بھی وہی مسلک تھا جو حضرت عمر کا تھا اور یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی مؤید ہے کہ طلاق بائن والی عورت کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی ہے۔
اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ فاطمہ کو عدت کے زمانہ میں اس کے خاوند کے گھر سے اس لئے منتقل کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے خاوند کے عزیزوں سے زبان درازی کیا کرتی تھیں (شرح السنۃ)
رکھنے کی کوشش کرو اگر اس پر زبانی نصیحت تنبیہ کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر اس کو مارو لیکن بے رحمی کے ساتھ نہ مارو بلکہ ہلکے سے اور تھوڑا سا مارو
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری خالہ کو تین طلاقیں دی گئی اور وہ عدت میں بیٹھ گئیں پھر ایک دن انہوں نے ارادہ کیا کہ گھر سے باہر جا کر کھجوریں توڑ لائیں تو ایک شخص نے انہیں گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ واقعہ بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جاؤ اور اپنے درخت سے کھجوریں توڑ لاؤ کیونکہ شاید تم وہ کھجوریں اللہ تعالی کی راہ میں دو یا ان کے ذریعہ احسان کرو (مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ کھجوریں اتنی مقدار میں ہو جائیں گی کہ ان پر زکوٰۃ واجب ہو جائے تم ان کی زکوٰۃ ادا کرو گی اور اگر بقدر نصاب نہیں ہوں گی تو پھر تم ان کے ذریعے احسان و سلوک کرو گی بایں طور کہ اپنے ہمسایوں اور فقراء کو نقل صدقہ کے طور پر دو گی یا لوگوں کے پاس بطور تحفہ بھیجو گی اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ صدقہ نہ کرتیں تو ان کے لئے گھر سے باہر نکلنا جائز نہ ہوتا۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو عورت طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو اپنی کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنا جائز ہے اس مسئلہ میں حنفیہ کا جو مسلک ہے وہ ام عطیہ کی روایت کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے جو آگے آئے گی۔
اور حضرت مسور ابن مخرمہ کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ دنوں ہی کے بعد ولادت ہوئی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور انہوں نے نکاح کر لیا (بخاری)
تشریح
سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کی وفات کے وقت حاملہ تھیں چنانچہ خاوند کی وفات کے چند ہی دنوں بعد ان کے ہاں ولادت ہو گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔
علماء لکھتے ہیں کہ اگر خاوند کی وفات یا طلاق کے بعد عورت کے ہاں ولادت ہو جائے تو وہ عدت سے نکل آتی ہے اور اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے اگرچہ ولادت یا وفات کے تھوڑی ہی دیر بعد ہو۔
اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میری لڑکی کا خاوند مر گیا ہے جس کی وجہ سے وہ عدت میں ہے اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں تو کیا میں اس کی آنکھوں میں سرمہ لگا دوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں اس عورت نے یہ دو بار یا تین بار پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر بار یہی جواب دیتے تھے کہ نہیں پھر فرمایا کہ عدت چار مہینہ اور دس دن ہے جب کہ ایام جاہلیت میں تم میں کی ایک عورت یعنی بیوہ سال بھر کے بعد مینگنیاں پھینکتی تھی (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث بظاہر امام احمد کی دلیل ہے کہ کیونکہ ان کے نزدیک اس عورت کو سرمہ لگانا جائز نہیں ہے جس کا خاوند مر گیا ہو اور وہ عدت میں بیٹھی ہو خواہ آنکھیں دکھنے کی وجہ سے اس کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہو اور خواہ وہ محض زینت یا عادت کی بناء پر لگانا چاہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک مجبوری کی حالت میں مثلاً آنکھ دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانا جائز ہے اور حضرت امام شافعی بھی آنکھیں دکھنے کی صورت میں سرمہ لگانے کی اجازت دیتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ رات میں لگائے اور دن میں پونچھ لے۔
اس حدیث کے بارے میں حنفی علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس عورت نے زینت کے لئے سرمہ لگانا چاہا ہو گا مگر بہانہ کیا ہو گا آنکھ دکھنے کا اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا علم ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سرمہ لگانے کی اجازت دینے سے انکار فرما دیا۔
حدیث کے آخری جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جس عورت کا خاوند مر جاتا وہ ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں بیٹھی رہتی اور بہت خراب کپڑے جو اکثر و بیشتر ٹاٹ اور نمدے کی صورت میں ہوتا تھا پہنے رہا کرتی تھی زینت کی کوئی چیز استعمال نہیں کرتی تھی خوشبو بھی نہیں لگاتی تھی غرض کہ پورے ایک سال تک اسی حالت میں رہتی پھر جس دن سال ختم ہوتا اس دن اس کے پاس گدھا یا بکری اور یا کوئی بھی جانور و پرندہ لایا جاتا جس سے وہ اپنی شرمگاہ رگڑتی اور اس کے بعد اس کوٹھڑی سے باہر نکلتی پھر اس کے ہاتھ میں چند مینگنیاں دی جاتیں جن کو وہ پھینکتی اور اس کے ساتھ ہی عدت سے نکل آتی۔ لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی رسم کی طرف اشارہ فرمایا کہ پچھلے زمانہ میں عدت کی مدت بھی بہت زیادہ تھی اور اس میں خرابیاں اور پریشانیاں بھی بہت تھیں جب کہ اسلام میں عدت کی مدت بھی بہت کم ہے یعنی چار مہینہ دس دن زیادہ تھی اور اس میں خرابی اور پریشانی بھی نہیں ہے تو پھر اتنا اضطراب کیوں ہے؟
اور حضرت ام حبیبہ اور حضرت زینب بنت جحش نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو بھی عورت اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے یہ درست نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے ہاں اپنے شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک کیا کرے (بخاری و مسلم)
تشریح
سوگ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بناؤ سنگھار ترک کر دے اور خوشبو و سرمہ وغیرہ لگانے سے پرہیز کرے چنانچہ یہ سوگ کرنا کسی دوسری میت پر تو تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ لیکن اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینے دس دن تک یعنی ایام عدت میں سوگ کرنا واجب ہے۔
اب رہی یہ بات کہ چار مہینہ دس دن یعنی عدت کی مدت کی ابتداء کب سے ہو گی تو جمہور علماء کے نزدیک اس مدت کی ابتداء خاوند کی موت کے بعد سے ہو گی لیکن حضرت علی اس کے قائل تھے کہ عدت کی ابتداء اس وقت سے ہو گی جس وقت کہ عورت کو خاوند کے انتقال کی خبر ہوئی ہے لہذا اگر کسی عورت کا خاوند کہیں باہر سفر وغیرہ میں مر گیا اور اس عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر گئے تو جمہور علماء کے نزدیک عدت پوری ہو گئی جب کہ حضرت علی کے قول کے مطابق اس کی عدت پوری نہیں ہو گی بلکہ اس کو خبر ہونے کے وقت سے چار مہینے دس دن تک عدت میں بیٹھنا ہو گا۔
اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی عورت کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے ہاں اپنے شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے اور ان ایام یعنی زمانہ عدت میں عصب کے علاوہ نہ تو کوئی رنگین کپڑا پہنے نہ سرمہ لگائے اور نہ خوشبو لگائے البتہ حیض سے پاک ہوتے وقت تھوڑا سا قسط یا اظفار استعمال کرے تو قباحت نہیں (بخاری و مسلم)
تشریح
رنگین کپڑے سے مراد وہ کپڑا ہے جو کسم، زعفران اور گیرو وغیرہ کے تیز اور شوخ رنگ میں رنگا گیا ہو اور عام طور پر زینت و آرائش کے طور پر پہنا جاتا ہو اور کتاب کافی میں لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کے پاس رنگین کپڑوں کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہ ہو تو وہ رنگین کپڑا بھی پہن سکتی ہے کیونکہ اس کی ستر پوشی بہرحال زیادہ ضروری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان رنگین کپڑوں کو زیب و زینت کے مقصد سے استعمال نہ کرے۔
عصب اس زمانہ میں ایک خاص قسم کی چادر کو کہتے تھے جو اس طور پربنی ہوتی تھی کہ پہلے سوت کو جمع کر کے ایک جگہ باندھ لیتے تھے پھر اس کو کسم میں رنگتے تھے اور اس کے بعد اس کو بنتے تھے چنانچہ وہ سرخ رنگ کی ایک چادر ہو جاتی تھی جس میں سفید دھاریاں بھی ہوتی تھیں کیونکہ سوت کو باندھ کر رنگنے کی وجہ سے سوت کا وہ حصہ سفید رہ جاتا تھا جو بندھا ہوا ہوتا تھا۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ عدت والی عورت کو رنگین کپڑا پہننے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس کپڑے سے ہے جو بننے کے بعد رنگا گیا ہو تو اس کا پہننا بھی درست ہے۔
علامہ ابن ہمام حنفی یہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب کا پہننا بھی درست نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک عدت والی عورت کو عصب پہننا جائز ہے خواہ وہ موٹا ہو یا مہین ہو جب کہ حضرت امام مالک مہین عصب کو پہننے سے منع کرتے ہیں موٹے عصب کو منع نہیں کرتے۔
سرمہ لگانے کے سلسلہ میں ائمہ کے جو اختلافی اقوال ہیں وہ پیچھے حضرت ام سلمہ کی روایت کے ضمن میں بیان کئے جا چکے ہیں علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ حنفی مسلک کے مطابق عدت والی عورت کو مجبوری کی حالت میں سرمہ لگانا جائز ہے ویسے جائز نہیں ہے۔
قسط اور اظفار یہ دونوں ایک قسم کی خوشبو ہیں قسط تو عود کو کہتے ہیں جس عام طور پر عورتیں یا بچے دھونی لیتے ہیں کرمانی نے کہا ہے کہ قسط عود ہندی کو کہتے ہیں جسے اگر یا کوٹ کہا جاتا ہے۔
اظفار ایک قسم کا عطر ہوتا تھا یہ دونوں خوشبوئیں اس زمانہ میں عام طور پر عرب کی عورتیں حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے شرمگاہ میں استعمال کرتی تھیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عدت والی عورت کو خوشبو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن حائضہ کو حیض سے پاک ہوتے وقت بدبو دور کرنے کے لئے ان دونوں خوشبوؤں کے استعمال کی اجازت دے دی۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر گیا ہو اس پر عدت کے زمانہ میں سوگ کرنا واجب ہے چنانچہ اس پر تمام علماء کا اجماع و اتفاق ہے البتہ سوگ کی تفصیل میں اختلافی اقوال ہیں۔
حضرت امام شافعی اور جمہور علماء تو یہ کہتے ہیں کہ خاوند کی وفات کے بعد ہر عدت والی عورت پر سوگ کرنا واجب ہے خواہ وہ مدخول بہا ہو یعنی جس کے ساتھ جماع ہو چکا ہو یا غیر مدخول بہا ہو (یعنی جس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو) خواہ چھوٹی ہو یا بڑی خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ خواہ آزاد ہو یا لونڈی اور خواہ مسلمہ ہو یا کافرہ۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک سات قسم کی عورتوں پر سوگ واجب نہیں ہے جس کی تفصیل درمختار کے مطابق یہ ہے کہ
(١) کافرہ (٢) مجنونہ (٣) صغیرہ (٤) معتدہ عتق یعنی وہ ام ولد جو اپنے مولی کی طرف سے آزاد کئے جانے یا اپنے مولی کے مر جانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٥) وہ عورت جو نکاح فاسد کی عدت میں بیٹھی ہو (٦) وہ عورت جو وطی بالشبہ کی عدت میں بیٹھی ہو یعنی جس سے کسی غیر مرد نے غلط فہمی میں جماع کر لیا ہو اور اس کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو (٧) وہ عورت جو طلاق رجعی کی عدت میں بیٹھی ہو۔
جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ خاوند کے علاوہ کسی کے مرنے پر عورت کو تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے اور تین دن تک بھی صرف مباح ہے واجب نہیں ہے چنانچہ اگر تین دنوں میں بھی خاوند سوگ کرنے سے منع کرے تو اس کو اس کا حق ہے کیونکہ بیوی کے بناؤ سنگار کا تعلق خاوند کے حق سے ہے اگر تین دنوں میں خاوند کی خواہش یہ ہو کہ وہ سوگ ترک کر کے بناؤ سنگار کرے اور بیوی خاوند کا کہنا نہ مانے تو اس بات پر بیوی کو مارنا خاوند کے لئے جائز ہے کیونکہ سوگ کرنے میں خاوند کا حق فوت ہو جاتا ہے۔
جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہو اس کی عدت تو فقط اتنی ہی ہے کہ وہ مقررہ مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے اور نہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اس کے لئے بناؤ سنگھار وغیرہ درست ہے اور جس عورت کو جو مکلفہ مسلمہ یعنی بالغ و عاقل اور مسلمان ہو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یا خاوند مر گیا تو ان سب صورتوں میں اس کے لئے یہ حکم ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے اور نہ بناؤ سنگھار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگھار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔
جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی مسلنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں ممنوع ہیں۔ ہاں مجبوری کی حالت میں اگر ان میں سے کوئی چیز اختیار کی گئی تو کوئی مضائقہ نہیں مثلاً سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو بغیر خوشبو کا تیل ڈالنا درست ہے اسی طرح دوا کے لیے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے۔
جس عورت کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بلکہ بے قاعدہ ہو گیا تھا اور وہ فسخ کرا دیا گیا یا خاوند مر یا تو ایسی عورت پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔ اسی طرح جو عورت عتق یعنی آزادی کی عدت میں ہو جیسے ام ولد کو اس کا مولی آزاد کر دے اور وہ اس کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو تو اس پر سوگ کرنا واجب نہیں ہے۔
جو عورت عدت میں بیٹھی ہو اس کے پاس نکاح کا پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے ہاں نکاح کا کنایۃ یعنی یہ کہنا کہ میں اس عورت سے نکاح کرنے کی خواہش رکھتا ہوں یا اس سے نکاح کرنے کا میں ارادہ رکھتا ہوں جائز ہے، مگر یہ بھی اس صورت میں جائز ہے کہ جب کہ وہ عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو اگر طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔
جو عورت طلاق کی عدت میں بیٹھی ہو اس کو تو کسی بھی وقت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے ہاں جو عورت وفات کی عدت میں بیٹھی ہو وہ دن میں نکل سکتی ہے اور کچھ رات تک نکل سکتی ہے مگر رات اپنے گھر سے علاوہ دوسری جگہ بسر نہ کرے لونڈی اپنے آقا کے کام سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔
معتدہ (عدت والی عورت) کو اپنی عدت کے دن اسی مکان میں گزارنے چاہئیں جس میں وہ فسخ و طلاق یا خاوند کی موت کے وقت سکونت پذیر ہو ہاں اگر اس مکان سے زبردستی نکالا جائے اس مکان میں اپنے مال و اسباب کے ضائع ہونے کا خوف ہو یا اس مکان کے گر پڑنے کا خطرہ ہو اور یا اس مکان کا کرایہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو ان صورتوں میں کسی دوسرے مکان میں عدت بیٹھنا جائز ہے۔
اسی طرح اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ میاں بیوی ایک ہی مکان میں رہیں اگرچہ وہ طلاق بائن کی عدت میں بیٹھی ہو بشرطیکہ دونوں کے درمیان پردہ حائل رہے ہاں اگر خاوند فاسق اور ناقابل اعتماد ہو یا مکان تنگ ہو تو عورت اس گھر سے منتقل ہو جائے اگرچہ خاوند کا منتقل ہونا اولی ہے اور اگر میاں بیوی کے ایک ہی مکان میں رہنے کی صورت میں وہ دونوں اپنے ساتھ کسی ایسی معتمد عورت کو رکھ لیں جو دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر قادر ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔
اگر مرد عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے گیا اور پھر سفر کے دوران اس کو طلاق بائن یا تین طلاقیں دے دیں یا مرد مر گیا اور عورت کا شہر یعنی اس کا وطن اس جگہ سے کہ جہاں طلاق یا وفات واقع ہوئی ہے سفر شرعی یعنی تین دن کے سفر سے کم مسافت پر واقع ہو تو وہ اپنے شہر واپس آ جائے اور اگر اس مقام سے جہاں طلاق یا وفات ہوئی ہے اس کا شہر سفر شرعی (یعنی تین دن کی مسافت) کے بقدر یا اس سے زائد فاصلہ پر واقع ہے اور وہ منزل مقصود (جہاں کے لئے سفر اختیار کیا تھا) اس مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے تو اپنے شہر واپس آنے کی بجائے منزل مقصود چلی جائے اور ان دونوں صورتوں میں خواہ اس کا ولی اس کے ساتھ ہو یا ساتھ نہ ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ عورت طلاق یا وفات کے وقت کسی شہر میں ہو تو وہاں سے عدت گزارے بغیر نہ نکلے تو کسی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو تو پھر عدت سے پہلے بھی اس شہر سے نکل سکتی ہے۔
حضرت زینب بنت کعب فرماتی ہیں کہ فریعہ بنت مالک بن سنان نے جو حضرت ابوسعید خدری کی بہن ہیں مجھے بتایا کہ وہ فریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئیں کہ کیا وہ اپنی عدت گزارنے کے لئے اپنے میکہ بنی خدرہ میں منتقل ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں گئے تھے کہ ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا چنانچہ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میں اپنے میکے میں آ جاؤں کیونکہ میرے شوہر نے مجھے جس مکان میں چھوڑا ہے وہ اس کے مالک نہیں تھے (یعنی میں جس مکان میں رہتی ہوں وہ ان کی ملکیت میں نہیں تھا) اور نہ ہی میرے پاس کھانے پینے کے خرچ کا کوئی انتظام ہے۔ فریعہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ چنانچہ میں یہ اجازت حاصل کر کے واپس ہوئی اور جب حجرہ مبارکہ کے صحن میں یا مسجد نبوی میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے پھر بلایا اور فرمایا تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو جس میں تمہارے شوہر کے مرنے کی خبر آئی ہے اگرچہ وہ تمہارے شوہر کی ملکیت میں نہیں ہے تاآنکہ کتاب یعنی عدت اپنی مدت تک پہنچ جائے فریعہ کہتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کے مطابق چار مہینہ دس دن تک اسی مکان میں عدت میں بیٹھی رہی (مالک ترمذی ابوداؤد نسائی ابن ماجہ دارمی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معتدہ (یعنی عدت میں بیٹھی ہوئی عورت) کو بلا ضرورت ایک مکان سے دوسرے مکان میں اٹھ آنا درست نہیں ہے۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جو عورت اپنے خاوند کے مر جانے کی وجہ سے عدت میں بیٹھی ہو اس کے لیے سکنی یعنی شوہر ہی کے مکان میں عدت گزارنا) ضروری ہے یا نہیں چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت امام شافعی کے دو قول ہیں جس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس کے لیے سکنی ضروری ہے حضرت عمر حضرت عثمان حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر بھی اسی کے قائل تھے ان کی طرف سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تو فریعہ کو مکان منتقل کرنے کی اجازت دے دی مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو منتقل ہونے سے منع کر دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے اسی مکان میں عدت کے دن گزاریں اس سے ثابت ہوا کہ فریعہ کو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اجازت دینا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حدیث (امکثی فی بیتک) الخ تم اپنے اسی گھر میں عدت میں بیٹھو) کے ذریعہ منسوخ ہو گیا۔
حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ معتدہ وفات کے لئے سکنی ضروری نہیں ہے بلکہ وہ جہاں چاہے عدت میں بیٹھ جائے اور یہی قول حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ کا بھی تھا اس قول کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فریعہ کو مکان میں منتقل ہونے کی اجازت عطا فرما دی تھی اور پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے ہی مکان میں عدت گزارنے کا جو حکم فرمایا وہ استحباب کے طور پر تھا اس مسئلہ میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا جو مسلک ہے وہ ان شاء اللہ باب النفقات کے ابتداء میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
اور حضرت ام سلمہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ہیں روایت کرتی ہیں کہ جب میرے پہلے شوہر ابو سلمہ کا انتقال ہوا اور میں عدت میں بیٹھی ہوئی تھی تو ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میں نے اپنے منہ پر ایلوا لگا رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ ام سلمہ یہ کیا ہے یعنی تم نے عدت کے دنوں میں منہ پر یہ کیا لگا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ تو ایلوا ہے جس میں کسی قسم کی کوئی خوشبو نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مگر ایلوا چہرے کو جوان بنا دیتا ہے یعنی ایلوا لگانے سے چہرہ چمکدار ہو جاتا ہے اور اسکا رنگ نکھر جاتا ہے لہذا تم اس کو نہ لگاؤ ہاں اگر کسی وجہ سے لگانا ضروری ہی ہو تو) رات میں لگا لو اور دن میں صاف کر ڈالو کیونکہ رات میں استعمال کرنے سے بناؤ سنگار کا گمان ہوتا ہے) اسی طرح خوشبو دار کنگھی بھی نہ کرو اور نہ مہندی کے ساتھ کنگھی کرو کیونکہ مہندی سرخ رنگ لئے ہوتی ہے اور اس میں خوشبو ہوتی ہے جب کہ یہ سوگ کی حالت میں ممنوع ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! پھر میں کس چیز کے ساتھ کنگھی کروں یعنی اپنے بالوں کو کس چیز سے صاف کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بیری کے پتوں کے ساتھ کنگھی کرو اور ان پتوں سے اپنے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لو یعنی بیری کے پتے اپنے سر پر اتنی مقدار میں ڈالو کہ وہ تمہارے سر کو غلاف کی طرح ڈھانپ لیں (ابوداؤد نسائی)
تشریح
خوشبودار تیل کے بارے میں تو علماء کا اتفاق و اجماع ہے کہ عدت والی عورت اس کا استعمال نہ کرے البتہ بغیر خوشبو کے تیل مثلاً روغن زیتون و تل کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی تو بغیر خوشبو کا تیل لگانے بھی منع کرتے ہیں البتہ ضرورت و مجبوری کی حالت میں اس کی اجازت دیتے ہیں اور حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور علماء ظواہر نے عدت والی عورت کے لئے ایسے تیل کے استعمال کو جائز رکھا ہے جس میں خوشبو نہ ہو۔
اور حضرت ام سلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس عورت کا خاوند مر جائے وہ نہ کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ گیرہ میں رنگا ہوا کپڑا پہنے نہ زیور پہنے نہ ہاتھ پاؤں اور بالوں پر مہندی لگائے اور نہ سرمہ لگائے (ابوداؤد نسائی)
تشریح
اگر سیاہ اور خاکستری رنگ کے کپڑے پہنے تو کوئی مضائقہ نہیں اسی طرح کسم میں زیادہ دنوں کا رنگا ہوا کپڑا کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو پہننا بھی درست ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا عورت کو کسی عذر مثلاً کھجلی یا جوئیں یا کسی بیماری کی وجہ سے ریشمی کپڑا پہننا بھی جائز ہے۔
حضرت سلیمان ابن یسار کہتے ہیں کہ احوص نے ملک شام میں اس وقت وفات پائی جب کہ ان کی بیوی کا تیسرا حیض شروع ہو چکا تھا اور احوص نے اپنے مرنے سے پہلے ان کو طلاق دے دی تھی چنانچہ حضرت معاویہ ابن ابوسفیان نے اس مسئلہ کو دریافت کرنے کے لئے حضرت زید ابن ثابت کو خط لکھا، حضرت زید نے حضرت معاویہ کو جواب میں لکھا کہ جب اس عورت کا تیسرا حیض شروع ہو گیا تو وہ احوس سے الگ ہو گئی اور احوس اس سے الگ ہو گئے نہ تو احوس اس کے وارث ہوئے اور نہ وہ احوص کی وارث ہوئی (مالک)
تشریح
صورت مسئلہ یہ تھی کہ حضرت احوص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ تین حیض آنے تک کے لئے عدت میں بیٹھ گئیں جیسا کہ طلاق کی عدت کا حکم ہے پھرابھی ان کی عدت پوری نہیں ہوئی تھی اور تیرا حیض شروع ہوا تھا کہ احوص کا انتقال ہو گیا اس صورت میں انہیں چار مہینے دس دن تک وفات کی عدت میں بیٹھنا چاہئے تھا چنانچہ حضرت معاویہ نے حضرت زید ابن ثابت سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اس صورت میں عورت خاوند کی وارث ہو گی یا نہیں؟ حضرت زید نے حضرت معاویہ کو لکھا کہ جب تیسرا حیض شروع ہو گیا تو محض تیسرے حیض کا خون دیکھتے ہی اس کا تعلق منقطع ہو گیا۔ اور زوجیت کی پابندی سے آزاد ہو گئی کیونکہ اس صورت میں طلاق کی عدت یا تو اس اعتبار سے کہ اس کی عدت کا زیادہ حصہ گزر گیا ہے یا اس اعتبار سے کہ تیسرا حیض شروع ہو گیا پوری ہو گئی ہے اس صورت میں وفات کی عدت ساقط ہو گئی لہذا جس طرح طلاق کی عدت پوری ہو جانے پر اگر مرد زندہ ہوتا تو وہ عورت کا وارث نہیں ہو سکتا تھا اسی طرح اب مذکورہ مسئلہ میں جب کہ مرد مرگیا ہو تو عورت اس کی وارث نہیں ہو گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت معاویہ کا مقصد صرف یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ عورت احوص کی وارث ہو گی یا نہیں؟ جبکہ یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت معاویہ کا مقصد عدت کے بارے میں معلوم کرنا تھا کہ آیا یہ عورت اپنی طلاق کی عدت جاری رکھے یعنی تیسرا حیض جو شروع ہو چکا ہے اس سے پاک ہو کر عدت سے نکل آئے یا اب وفات کی عدت بیٹھ جائے۔
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ اس موقع پر طیبی (شافعی) نے لکھا ہے کہ اس سے صریحاً یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں جو یہ حکم دیا ہے کہ
آیت (والمطلقت یتربصن بانفسہن ثلثۃ قروء)
اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو روکے رکھیں تین حیض ختم ہونے تک
تو اس میں قروء سے مراد طہر ہیں گویا طیبی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ حدیث شوافع کی دلیل ہے کیونکہ ان کے نزدیک مطلقہ کی عدت تین حیض نہیں بلکہ تین طہر ہیں حالانکہ طیبی کی یہ بات کہ اس حدیث سے شوافع کا مسلک ثابت ہوتا ہے کوئی مضبوط بات نہیں ہے کیونکہ اول تو یہ ایک صحابی حضرت زید بن ثابت کا مسلک ہے دوسرے یہ کہ خود انہی حضرت زید سے اس امر کے برخلاف بھی منقول ہے چنانچہ ان سے یہ منقول ہے کہ حدیث (عدۃ لامۃ حیضتان) یعنی لونڈی کی عدت دو حیض ہیں پھر اسکے علاوہ یہ قطعاً معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت معاویہ نے حضرت زید کے قول پر عمل بھی کیا تھا یا نہیں۔
حنفیہ کے نزدیک ثلثۃ قروء سے مراد تین حیض ہیں چنانچہ خلفاء راشدین اور اکثر صحابہ کا بھی یہ قول ہے نیز تیرہ صحابیوں سے منقول ہے کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ بیوی طلاق کی عدت میں جب تک تیسرے حیض سے پاک نہ ہو جائے مرد یعنی خاوند کہ جس نے اس کو طلاق دی ہے اس کا زیادہ حق رکھتا ہے (مطلب یہ کہ تیسرے حیض سے پاک ہونے کے بعد ہی عدت کی مدت پوری ہوتی ہے اور اس بیوی سے مرد کا مکمل انقطاع ہو جاتا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ قروء سے حیض مراد ہیں ملا علی قاری نے اپنی کتاب میں اس موقع پر تفصیلی بحث کی ہے اور حنفیہ کے بہت سے دلائل لکھے ہیں۔
اور سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو اور اس کو ایک یا دو بار حیض آ کر پھر موقوف ہو گیا ہو تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے اگر اس عرصہ میں حمل ظاہر ہو جائے تو اس کا حکم ظاہر ہے کہ جب ولادت ہو گی تو عدت پوری ہو گی اور حمل ظاہر نہ ہو تو پھر نو مہینے کے بعد تین مہینہ تک عدت کے دن گزارے اور اس کے بعد حلال ہو یعنی عدت سے نکل آئے) مالک)