حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار کیا تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار تیز تھی اور جہاں کہیں کشادہ راستہ ملتا (اپنی سواری) دوڑاتے۔ (بخاری و مسلم)
٭٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منیٰ کی طرف) واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا) شور و شغب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات سنیں) اور فرمایا لوگوں! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری)
تشریح
دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے ، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہو گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرفات سے مزدلفہ تک تو اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا تھا، اور ان دونوں کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمرہ عقبہ پر کنکری ماری (یعنی قربانی کے دن جب جمرہ عقبہ پر پہلی ہی کنکری ماری تو تلبیہ موقوف کر دیا) (بخاری و مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا (یعنی عشاء کے وقت دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا) اور ان میں سے ہر ایک کے لئے تکبیر کہی گئی (یعنی مغرب کے لئے علیحدہ تکبیر ہوئی اور عشاء کے لئے علیحدہ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو ان دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھی اور نہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعد۔ (بخاری)
تشریح
ان نمازوں کے بعد نفل پڑھنے کی جو نفی کی گئی ہے تو اس سے ان دونوں کے بعد سنتیں اور وتر پڑھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔
باب قصۃ حجۃ الوداع میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث گزری ہے اس کے ان الفاظ لم یسبح بینہما شیأ کی وضاحت میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ جب مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ چکے تو مغرب و عشاء کی سنتیں اور نماز وتر بھی پڑھی۔ چنانچہ ایک روایت میں بھی یہ منقول ہے کہ نیز شیخ عابد سندھی نے در مختار کے حاشیہ میں اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال نقل کرنے کے بعد یہی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء کی نماز کے بعد سنتیں اور وتر پڑھی۔
٭٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں پڑھی ہو سوائے دو نمازوں کے کہ وہ مغرب و عشاء کی ہیں جو مزدلفہ میں پڑھی گئی تھیں (یعنی مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی) اور اس دن (یعنی مزدلفہ میں قربانی کے دن) فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وقت سے پہلے پڑھی تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہاں صرف مغرب و عشاء کی نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھی تھی کہ عصر کی نماز مقدم کر کے ظہر کے وقت ہی پڑھ لی گئی تھی، لہٰذا یہاں ان دونوں نمازوں کو اس سبب سے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دن کا وقت تھا، سب ہی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عصر کی نماز کو مقدم کر کے ظہر کے وقت پڑھا ہے اس لئے اس کو بطور خاص ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن فجر کی نماز وقت معمول یعنی اجالا پھیلنے سے پہلے تاریکی ہی میں پڑھ لی تھی، یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کے وقت سے پہلے پڑھی تھی کیونکہ تمام ہی علماء کے نزدیک فجر کی نماز، فجر سے پہلے پڑھنی جائز نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اہل و عیال کے کمزور ضعیف لوگوں کے جس زمرے کو مزدلفہ کی رات میں پہلے ہی بھیج دیا تھا اسی میں میں بھی شامل تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کمزور و ضعیف لوگوں سے مراد عورتیں اور بچے ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دسویں ذی الحجہ کو پہلے ہی سے منیٰ روانہ کر دیا تھا ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آفتاب طلوع ہونے سے پہلے اور صبح روشن ہو جانے کے بعد منیٰ کے لئے سوار ہوئے جیسا کہ سنت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہی عیال کو پہلے اس لئے بھیج دیا تھا تاکہ ہجوم کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو اور ایسا کرنا جائز ہے۔
ایک اور روایت میں جو آگے آ رہی ہے یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو پہلے سے روانہ کر دیا اور ان سے فرمایا کہ رمی جمرہ عقبہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد ہی کرنا، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے کہ رمی جمرہ عقبہ کا وقت دسویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن بعض روایت میں یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں سے بس اتنا ہی فرمایا تھا کہ جاؤ اور رمی جمرہ عقبہ کرو، اس روایت میں طلوع آفتاب کی قید نہیں ہے ، چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد نے اسی روایت پر عمل کیا کہ ان کے ہاں رمی جمرہ عقبہ کا وقت نصف شب کے بعد ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے جو (مزدلفہ سے منیٰ آتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، بیان کیا کہ جب عرفہ کی شام کو (عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے) اور مزدلفہ کی صبح کو (مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے) لوگوں نے سواریوں کو تیزی سے ہانکنا اور مارنا شروع کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اطمینان و آہستگی کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے اور اس وقت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے بڑھا رہے تھے ، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محسر میں جو منیٰ (کے قریب مزدلفہ کے آخری حصہ) میں ہے پہنچے تو فرمایا کہ تمہیں (اس میدان سے) خذف کی کنکریاں اٹھا لینی چاہئیں جو جمرہ (یعنی مناروں) پر ماری جائیں گی۔ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمی جمرہ تک برابر لبیک کہتے رہے تھے (یعنی جمرہ عقبہ پر پہلی کنکری ماری تو لبیک کہنا موقوف کر دیا)۔ (مسلم)
تشریح
عرفہ کے دن شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میدان عرفات سے مزدلفہ کو چلے تو اس وقت حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔
خذف اصل میں تو چھوٹی کنکری یا کھجور کی گٹھلی دونوں شہادت کی انگلیوں میں رکھ کر پھینکنے کو کہتے ہیں۔ اور یہاں خذف کی مانند کنکریوں سے مراد یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی کنکریاں جو چنے کے برابر ہوتی ہیں یہاں سے اٹھا لو جو رمی جمار کے کام آئیں گی۔
اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ رمی جمار کے واسطے کنکریاں مزدلفہ سے روانگی کے وقت وہیں سے یا راستہ میں سے اور یا جہاں سے جی چا ہے لے لی جائیں ہاں جمرہ کے پاس سے وہ کنکریاں نہ لی جائیں جو جمرہ پر ماری جا چکی ہیں کیونکہ یہ مکروہ ہے ویسے اگر کوئی شخص جمرہ کے پاس ہی سے پہلے پھینکی گئی کنکریاں اٹھا کر مارے تو یہ جائز تو ہو جائے گا مگر خلاف اولیٰ ہو گا۔ چنانچہ شمنی نے شرح نقایہ میں لکھا ہے کہ ان کنکریوں سے رمی کافی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا برا ہے۔
اس بارہ میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ کنکریاں کتنی اٹھائی جائیں؟ آیا صرف اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے لئے سات کنکریاں اٹھائی جائیں یا ستر کنکریاں اٹھائی جائیں جن میں سات تو اسی دن رمی جمرہ عقبہ کے کام آئیں اور تریسٹھ بعد کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات پر پھینکی جائیں گی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (منیٰ کے لئے) مزدلفہ سے چلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفتار میں سکون و وقار تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرے لوگوں کو بھی سکون و اطمینان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ ہاں میدان محسر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی کو تیز رفتاری کے ساتھ گزارا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ خذف کی کنکریوں جیسی (یعنی چنے کی برابر) سات کنکریوں سے رمی کریں، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) یہ بھی فرمایا کہ شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہیں دیکھوں گا۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے یہ حدیث بخاری و مسلم میں تو پائی نہیں۔ ہاں ترمذی میں یہ حدیث کچھ تقدیم و تاخیر کے ساتھ مذکور ہے۔
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ سال میری دنیاوی زندگی کا آخری سال ہے ، آئندہ سال میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، اس لئے تم لوگ مجھ سے دین کے احکام اور حج کے مسائل سیکھ لو۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس حج کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کہ اسی حج کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دین کے احکام پورے طور پر لوگوں تک پہنچا دئیے اور اپنے صحابہ کو رخصت و وداع کیا، پھر اگلے سال یعنی بارہ ہجری کے ماہ ربیع الاول میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا۔
صاحب مشکوٰۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے اس حدیث کو پہلی فصل میں نقل کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم کی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اس لئے صاحب مصابیح کو چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس روایت کو پہلی فصل کی بجائے دوسری فصل میں نقل کرتے۔ اگرچہ اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا اعتراض پھر بھی باقی رہتا۔
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایام جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) لوگ عرفات سے اس وقت واپس ہوتے جب آفتاب غروب ہونے سے پہلے مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا (یعنی عرفات سے غروب آفتاب سے پہلے چلتے) اور مزدلفہ سے طلوع آفتاب کے بعد اس وقت روانہ ہوتے جب آفتاب مردوں کے چہروں پر پگڑیوں کی طرح نظر آتا ، مگر ہم عرفات سے اس وقت تک نہیں چلیں گے جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہو جائے اور مزدلفہ سے ہم سورج نکلنے سے پہلے روانہ ہوں گے کیونکہ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور مشرکین سے مختلف ہے۔۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں لوگ عرفات سے ایسے وقت چلتے تھے جب آفتاب آدھا تو غروب ہو چکا ہوتا اور اس کا آدھا حصہ باہر ہوتا آفتاب کی اسی صورت کو پگڑی سے مشابہت دی گئی ہے کہ آفتاب کا آدھا گروہ پگڑی کی شکل کا ہوتا ہے ، اسی طرح مزدلفہ سے ایسے وقت روانہ ہوتے جب آفتاب کا آدھا حصہ طلوع ہو چکا ہوتا اور آدھا حصہ اندر رہتا۔
صاحب مشکوۃ کو اس کی تحقیق نہیں ہو سکی تھی کہ یہ روایت کس نے نقل کی ہے ، چنانچہ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ چھوٹی ہوئی ہے البتہ ایک دوسرے صحیح نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ رواہ البیہقی فی شعب الایمان وقال خطبنا وساقہ نحوہ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں مزدلفہ کی رات (یعنی شب عیدالاضحی) میں (منیٰ کے لئے) روانہ کیا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ہم کئی بچے تھے (جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رات میں روانہ کیا تھا اور گدھے ہماری سواری تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ہماری روانگی کے وقت از راہ محبت و الفت) ہماری رانوں پر ہاتھ مارتے اور فرماتے تھے۔ میرے چھوٹے بچو! جب تک سورج نہ نکلے تم منارے (یعنی جمرہ عقبہ) پر کنکریاں نہ پھینکنا۔ (ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رات میں رمی جائز نہیں ہے چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں آدھی رات کے بعد سے رمی جائز ہے ، نیز طلوع فجر کے بعد اور آفتاب نکلنے سے پہلے رمی اگرچہ تمام علماء کے نزدیک جائز ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کراہت کے ساتھ جواز کے قائل ہیں، حنفی مسلک کے مطابق طلوع آفتاب کے بعد رمی مستحب ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بقر عید کی رات میں (مزدلفہ سے منیٰ) بھیج دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے (وہاں پہنچ کر) فجر سے پہلے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں اور پھر وہاں سے (مکہ) آئیں اور طواف افاضہ (جو فرض ہے) کیا اور یہ وہ دن تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تھے یعنی یہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ میں دراصل اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو اس رات میں منیٰ کیوں بھیجا، انہوں نے رات میں رمی کیوں کی اور دن ہی میں طواف افاضہ سے فارغ کیوں ہو گئیں جب کہ دیگر ازواج مطہرات نے اگلی رات میں طواف افاضہ کیا؟
حضرت امام شافعی فجر سے پہلے رمی جمرہ کے جواز کے لئے اس حدیث کو دلیل قرار دیتے ہیں اگرچہ افضل فجر کے بعد ہے حضرت امام شافعی کے علاوہ دیگر علماء اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ سہولت و رعایت ہے جو صرف حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دی گئی تھی دوسروں کے لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا روایت کے پیش نظر فجر سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں فجر سے مراد نماز فجر ہو کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نماز فجر سے پہلے اور طلوع فجر کے بعد رمی کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مقیم اور عمرہ کرنے والا حجر اسود کو بوسہ دینے تک لبیک کہتا رہے۔ ابوداؤد نے اس روایت کو (بطریق مرفوع) نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔
تشریح
مقیم سے مراد مکہ کا رہنے والا ہے جو عمرہ کرے اور عمرہ کرنے والا سے غیر مکی مراد ہے جو عمرہ کے لئے مکہ آیا ہو، لہٰذا جملہ۔ یلبی المقیم اوالمعتمر۔ میں حرف ، او، تنویع کے لئے ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح حج میں رمی جمرہ عقبہ پر تلبیہ کو موقوف کرتے ہیں اسی طرح عمرہ میں حجر اسود کو چومتے ہی تلبیہ موقوف کر دیا جائے۔
حضرت یعقوب بن عاصم بن عروہ (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت شرید رضی اللہ عنہ (صحابی) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں (عرفات) واپسی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک زمین پر نہیں گئے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس روایت کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات سے مزدلفہ تک کا پورا راستہ سواری پر طے کیا پیدل نہیں چلے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورے راستہ میں زمین پر قدم ہی نہیں رکھے کیونکہ صحیح بخاری میں منقول ہے کہ عرفات سے واپسی کے موقع پر راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (سواری سے اتر کر) پہاڑ کے ایک درہ کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں پیشاب کیا اور پھر وضو کیا یہ دیکھ کر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا نماز کا وقت آ گیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز تو آگے آ رہی ہے (یعنی مزدلفہ پہنچ کر پڑھیں گے)۔
اور حضرت عطاء خراسانی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو کہ اس سے بغض و کینہ جاتا رہے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ بھیجتے رہا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے امام مالک نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
٭٭اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے دوپہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی اس نے گویا ان چار رکعتوں کو شب قدر میں پڑھا اور دو مسلمان جب آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے درمیان کوئی گناہ باقی نہیں رہتا بلکہ جھڑ جاتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ گناہوں سے مراد عام گناہ ہیں لیکن طیبی نے کہا ہے کہ گناہ سے مراد بغض و کینہ اور دشمنی ہے جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں بیان کیا گیا۔
کھڑے ہونے سے مراد کسی کے لیے تعظیماً کھڑے ہونا، بعض علماء نے لکھا ہے کہ مجلس میں یا اپنے پاس آنے والے شخص کی تعظیم و توقیر کے لیے کھڑے ہو جانا مسنون ہے۔ ان حضرات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی سے استدلال کیا ہے کہ قومواالی سیدکم جیسا کہ آگے حدیث میں آ رہا ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکروہ و بدعت ہے اور اس کی ممانعت ثابت ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس طرح عجمی کھڑے ہو جاتے ہیں اس طرح تم نہ اٹھو اور فرمایا کہ یہ عجمیوں کا دستور ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بنو قریظہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حکم و ثالث بنانے پر اتر آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی شخص کو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو بلائے اور وہ آ کر بنو قریظہ کا مطالبہ طے کریں) اس وقت حضرت ابوسعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کے قریب ہی فروکش تھے چنانچہ وہ خر پر بیٹھ کر آئے اور جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھ کر یہ فرمایا اے انصار تم اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ (بخاری و مسلم) اور یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ قیدیوں کے باب میں گزر چکی ہے۔
تشریح
بنو قریظہ مدینہ کے یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام ہے ، سن ٥ھ میں غزوہ خندق کے دوران ان یہودیوں نے جو منافقانہ کردار کیا اور باوجودیکہ سابقہ معاہدہ کے تحت مدینہ کے اس دفاعی مورچہ پر ان یہودیوں کو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کفار عرب کی جارحیت کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اپنی روایتی بدعہدی اور شرارت کا مظاہرہ کیا اور مختلف قسم کی سازشوں کے ذریعہ اس دفاعی مورچہ کو توڑنے کے لیے کفار عرب کے آلہ کار بن گئے ان کی اس بدعہدی اور سازشی کاروائیوں کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ خندق کی فتح سے فارغ ہوتے ہی ان بنو قریظہ کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا اور ان سب یہودیوں کو ان کے قلعہ میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا مسلمانوں کی طرف سے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ ٢٥ دن تک جاری رہا آخر کار انہوں نے یہ تجویز رکھی کہ ہمارا معاملہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا جائے جو قبیلہ اوس کے سردار تھے اور قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف ان یہودیوں نے کہا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو پنچ اور حکم تسلیم کرتے ہیں وہ ہمارے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس کو بے چون چرا مان لیں گے یہودیوں کا خیال تھا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ چونکہ ہمارے حلیف قبیلے سردار ہیں اور ان کے اور ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت ہے اس لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ یقیناً ہمارے حق میں فیصلہ دیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا کہ وہ آ کر اس معاملہ میں اپنا فیصلہ دیں، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اگرچہ اس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قیام گاہ کے قریب ہی فروکش تھے لیکن چونکہ غزوہ خندق میں وہ بہت سخت مجروح ہو گئے تھے اور خاص طور پر رگ ہفت اندام پر ایک زخم پہنچا تھا جس سے خون برابر جاری تھا اس لیے خچر پر بیٹھ کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اس وقت تک ان کے زخم سے خون جاری تھا لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اعجاز تھا کہ جب آپ نے ان کو بلوا بھیجا تو خون رک گیا بہر حال حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے پورے معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے اور ان کے جرم بد عہدی و غداری کی بنا پر انہی کی شریعت کے مطابق جو فیصلہ دیا اس کا اصل یہ تھا کہ ان کے لڑ سکنے والے مرد قتل کر دیئے جائیں، عورتیں اور بچے غلام بنا لیے جائیں اور ان کے مال و اسباب کو تقسیم کر دیا جائے اس فیصلہ پر کسی حد تک عمل بھی ہوا۔
یہاں حدیث میں اسی وقت کے واقعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے کہا کہ دیکھو تمہارے سردار آ رہے ہیں کھڑے ہو جاؤ چنانچہ اکثر علماء اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فضل و قابل تکریم شخص آئے تو اس کے اعزاز و احترام کے لیے کھڑے ہو جانا چاہیے ، اس کے برخلاف بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ قوموا الی سیدکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ مراد نہیں تھی سعد رضی اللہ عنہ کی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہو جاؤ جیسا کہ کسی بڑے آدمی کے آ جانے پر کھڑے ہونے کا رواج ہے اور جس کی ممانعت ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ چیز عجمیوں کے رائج کردہ تکلفات میں سے ہے نیز یہ عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک آخر زمانہ حیات تک ناپسندیدہ رہا، یحییٰ کہتے ہیں کہ اگر اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہو جانے کا حکم دینا ہوتا تو آپ اس موقع پر قوموا الی سیدکم، نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ قوموا السیدکم ، لہذا ان کے علماء کے مطابق اس حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ دیکھو تمہارے سردار سعد آ رہے ہیں ان کی حالت اچھی نہیں ہے جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس جاؤ سواری سے اترنے میں ان کی مدد کرو تاکہ اترتے وقت ان کو تکلیف نہ ہو اور زیادہ حرکت کی بناء پر زخم سے خون نہ بہنے لگے۔ ان علماء کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روایت ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے تھے ، یا حضرت عدی ابن حاتم کی جو یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ میرے لیے یا تو کھڑے ہو جاتے یا اپنی جگہ سے ہل جایا کرتے تھے تو ان روایتوں سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ محدثین نے ان روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔
جو حضرات اہل فضل و کمال کے آنے پر کھڑے ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں ان کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عکرمہ اور حضرت عدی کے بارے میں مذکورہ بالا روایتیں ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر اس روایت کے بارے میں کیا کہا جائے گا جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے لیے کھڑی ہو جاتی تھیں اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لیے کھڑے ہو جاتے اگر اس روایت کی یہ تاویل کی جائے کہ ان کا کھڑا ہونا اظہار محبت و اتقبال کے طور پر ہوتا نہ کہ تعظیم و اجلال کے طور پر تو یہ تاویل بعید از حقیقت سمجھے جانے سے خالی نہیں ہو گی علاوہ ازیں خود طیبی نے محیی السنۃ سے نقل کیا ہے کہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اہل فضل و کمال جیسے علماء و صلحاء اور بزرگان دین کا اعزاز و اکرام کرنا جائز ہے علاوہ ازیں محی السنۃ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ کھڑا ہونا اہل فضل کے آنے کے وقت مستحب ہے اور نہ صرف یہ کہ اس سلسلے میں احادیث بھی منقول ہیں بلکہ اس کی صریح ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
مطالب المومنین میں قنیہ کے حوالہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنے والے کی تعظیم کے طور پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا قیام یعنی کھڑے ہو جانا مکروہ نہیں ہے اور یہ کہ قیام بنفسہ مکروہ نہیں ہے بلکہ قیام کی طلب و پسندیدگی مکروہ ہے چنانچہ وہ قیام ہرگز مکروہ نہیں ہو گا جو کسی ایسے شخص کے لیے کیا جائے جو نہ تو اپنے لیے قیام کی طلب رکھتا ہو اور نہ اس کو پسند کرتا ہو۔قاضی عیاض مالکی نے یہ لکھا ہے کہ کھڑے ہونے کی ممانعت کا تعلق اس شخص کے حق میں ہے جو بیٹھا ہوا ہو اور بیٹھے رہنے تک لوگ اس کے سامنے کھڑے رہیں جیسا کہ ایک حدیث میں منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علم و فضل اور بزرگی کا حامل ہو تو اس کی تعظیم و توقیر کے طور پر کھڑے ہو جانا جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ ایسے شخص کے آنے پر کھڑے ہونا جو نہ صرف یہ کہ اس اعزاز کا مستحق نہ ہو بلکہ اپنے آنے پر لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب و خواہش رکھتا ہو ، مکروہ ہے اور اسی طرح بیجا خوشامد و چاپلوسی کے طور پر کھڑے ہونا بھی مکروہ ہے ، نیز دنیا داروں کے لیے کھڑے ہونا اور ان کی تعظیم کرنا بھی نہایت مکروہ ہے اور اس بارے میں سخت وعید منقول ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا نہ ہونا چاہیے کہ جو آدمی جس جگہ بیٹھ گیا ہو کوئی شخص اس کو وہاں سے اٹھا کر خود اس جگہ بیٹھ جائے ، البتہ بیٹھنے کی جگہ کو کشادہ رکھو اور آنے والے کو جگہ دو تاکہ اٹھانے کی حاجت نہ پڑے۔ (بخاری ، مسلم)
تشریح
بعض حضرات نے یہ کہا کہ ولکن کے بعد لیقل کا لفظ مقدر ہے یعنی مفہوم کے اعتبار سے اصل عبارت یوں ہے کہ ولکن لیقل تفسحو ا وتوسعوا، اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ کوئی شخص کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر وہاں نہ بیٹھے) بلکہ اس سے یہ کہنا چاہیے کہ کشادگی کے ساتھ بیٹھو اور آنے والے کو جگہ دو۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ پہلے پہنچ کر بیٹھ جائے جو کسی کے لیے مخصوص نہیں ہے مثلاً جمعہ وغیرہ کے دن مسجد وغیرہ میں پہلے پہنچ جائے اور آگے کی صف میں بیٹھ جائے یا اس کے علاوہ کسی اور مجلس میں پہلے پہنچ کر کسی عام جگہ پر بیٹھ جائے تو اس جگہ بیٹھنے کا سب سے بڑا حق دار وہی ہو گا دوسرے کسی شخص کے لیے یہ حرام ہو گا کہ وہ اس شخص کو اس جگہ سے اٹھا کر وہاں خود بیٹھ جائے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر وہاں واپس آئے تو اس جگہ کا زیادہ حق دار وہی ہو گا۔ (مسلم)
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ وہ شخص اپنی جگہ سے اس ارادہ نیت کے ساتھ اٹھ کر گیا ہو کہ پھر جلدی اس جگہ واپس آئے گا مثلاً وہ وضو کے لیے اٹھ کر گیا ہو یا اس کو کوئی ایسی ضرورت پیش آ گئی ہو جس کی بنا پر اس کو تھوڑی دیر کے لیے وہاں سے اٹھ کر جانا ضروری ہو گیا ہو وہ وضو کر کے یا اس کام کو پورا کر کے جلد ہی واپس آ گیا ہو تو اس جگہ کا زیادہ مستحق وہی شخص ہو گا چنانچہ اس صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص آ کر اس جگہ بیٹھ گیا تو اس کو اٹھانا درست ہو گا کیوں کہ وہ پہلا شخص اس جگہ بیٹھنے کے اپنے حق سے محروم نہیں ہوا ہے بایں طور کہ عارضی طور پر کسی ضرورت سے اٹھ کر جانے اور پھر جلدی ہی اپنی جگہ پر واپس آ جانے کی وجہ سے اس جگہ پر اس کا حق قرار رہے گا اس کی تائید آگے آنے والی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی جگہ تشریف رکھتے اور پھر وہاں سے اٹھ کر کہیں جانے کی ضرورت پیش آتی اور واپس آنے کا ارادہ ہوتا تو آپ اپنی جگہ پر اپنی جوتیاں چھوڑ جاتے۔تاہم یہ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جگہ چھوڑ کر مجلس سے اٹھا اور کسی ضرورت سے کہیں دور دراز یا طویل وقفہ کے لیے چلا گیا اور پھر واپس آیا تو اس صورت میں وہ اپنی سابقہ جگہ کا مستحق نہیں رہے گا اگرچہ اس جگہ پر وہ اپنی کوئی چیز ہی چھوڑ کر کیوں نہ گیا ہو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ محبوب و عزیز کوئی اور شخص نہیں تھا لیکن اس محبت و تعلق کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کھڑے ہونے کو پسند نہیں فرماتے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی انکساری کے اظہار اور اہل تکبر کے طور طریقوں کی مخالفت کی بنا پر اس بات کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ جب آپ مجلس میں تشریف لائیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو جائیں بلکہ آپ کھڑے ہونے ، بیٹھنے ، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور دیگر افعال و اخلاق میں ترک....پر قائم و عامل تھے جو اہل عرب کی عادت تھی اس لیے آپ نے فرمایا میں اور میری امت کے متقی لوگ، تکلف سے بیزار ہیں اور طیبی کہتے ہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرنا کمال محبت، صفائی باطن، اور اتحاد قلوب کی بنا پر تھا کہ قلبی اتحاد اور تعلق کا کمال اس طرح کے .....کا متقاضی نہیں ہوتا۔ حاصل یہ ہے کہ تعظیما کھڑے ہونا اور کھڑے نہ ہونا دونوں کا تعلق وقت و حالات اور اشخاص و تعلقات کے تفاوت پر مبنی ہوتا ہے کہ بعض وقت اور بعض حالات میں آنے والے کے لیے احتراماً کھڑے ہو جانا مناسب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں کھڑے نہ ہونا ہی مناسب ہوتا ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ آنے والا کھڑے ہونے کو پسند نہیں کرتا یا آپ کے تعلقات....کے محتاج نہیں ہیں، نیز کسی ایسے شخص کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی دینی فضیلت نہیں رکھتا بلکہ کوئی دنیاوی حیثیت رکھتا ہے۔
اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے سامنے سیدھے کھڑے رہیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بیٹھنے کی جگہ دوزخ میں تیار کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی)
تشریح
تیار کرے یہ امر خبر کے معنی میں ہے یعنی اس اسلوب بیان کے ذریعہ آپ نے گویا یہ خبر دی ہے کہ جو شخص اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے رہیں تو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ میں داخل ہونے کا مستوجب بنا لیا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو بطریق تکبر اور اپنی تعظیم کرانے کے لیے اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے رہنے کو پسند کرتا ہوں ہاں اگر کوئی شخص اس طرح کی طلب و خواہش نہ رکھتا ہو بلکہ لوگ خود اپنی خوشی سے اس کی خدمت میں طلب ثواب کی خاطر یا بطور تواضع و انکساری اس کے سامنے کھڑے رہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ مکروہ و ممنوع یہ چیز ہے کہ اپنی تعظیم و احترام کرانے کے اور اپنی بڑائی کے اظہار کے لیے اپنے سامنے لوگوں کو کھڑے رہنے کو پسند کیا جائے اور گریہ صورت نہ ہو تو پھر مکروہ و ممنوع نہ ہو گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں خطابی سے یہ نقل کیا ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وعید کا تعلق اس شخص کی ذات سے ہے جو بطریق تکبر و نخوت لوگوں کو یہ حکم دے کہ وہ اس کے سامنے کھڑے رہیں یا وہ لوگوں کے لیے ضروری قرار دیدے کہ وہ جب بھی اس کے سامنے آئیں کھڑے رہیں، نیز کہا کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو حدیث گزری ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ سردار و امیر، فاضل والی، اور عادل و منصف کے سامنے کسی شخص کا با ادب کھڑے رہنا جیسا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے کھڑا رہتا ہے مستحب ہے نہ کہ مکروہ اور بیہقی نے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ لوگوں کے کھڑے رہنا دراصل بھلائی حاصل کرنے اور تکریم و توقیر کے طور پر کھڑے ہو جانے کے مترادف ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم پر انصار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑے ہوئے تھے یا حضرت طلحہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہما کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے تاہم یہ ملحوظ رہے کہ جو شخص اس طرح کی حیثیت و فضیلت رکھتا اس کے سامنے احتراما کھڑے ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کے لیے بھی قطعاً مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے سامنے لوگوں کے کھڑے ہو جانے کی طلب رکھے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کھڑا نہ ہو تو وہ اس سے کینہ رکھے ، یا اس کا شکوہ کرے اور یا اس سے ناراض ہو جائے۔
اور حضرت امامہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عصاء مبارک پر سہارا دیئے ہوئے باہر تشریف لائے تو ہم آپ کے احترام میں کھڑے ہو گئے آپ نے فرمایا تم لوگ اس طرح کھڑے نہ ہو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں بعض بعض کی تعظیم کرتے ہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
آنحضرت کی یہ مراد تھی کہ یہ عجمی لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کا کوئی سردار یا بڑا آدمی ان کی مجلس میں آتا ہے تو محض اس کو دیکھتے ہی بڑا بڑا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اور پھر اس کے سامنے با ادب دست بستہ کھڑے رہتے ہیں، چنانچہ آپ نے اس ارشاد یعظم بعضھا بعضا کے ذریعہ اسی طرف اشارہ فرمایا کہ ان کے چھوٹے و کم تر لوگ اپنے بڑے اور اونچی حیثیت کے لوگوں کو محض دیکھ کر اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ کھڑے نہ ہوئے تو وہ بڑے لوگ ان سے ناراض ہو جائیں گے اور پھر تعظیماً ان کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اس توجیہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں حدیث میں اصل قیام کا ممنوع ہونا ثابت نہیں ہوتا جس کا جواز دیگر احادیث سے ثابت ہے بلکہ وہ قیام ممنوع ہے جو شان و شکوہ کے اظہار اور تکبر و نخوت کے طور پر ہو، زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تواضع و انکساری کی بنا پر صحابہ کو کھڑے ہونے سے منع فرمایا جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے۔
اور حضرت سعید ابن ابوالحسن ،جو ایک جلیل القدر اور ثقہ تابعی ہیں اور حضرت حسن بصری کے بھائی ہیں کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس ایک ایسے مقدمہ میں گواہی دینے کے لیے تشریف لائے جس میں وہ گواہ تھے ایک شخص اس کے احترام میں اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہو گیا تاکہ وہ اس جگہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے اس جگہ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے یعنی آپ نے اس جگہ پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں کوئی شخص پہلے سے بیٹھا ہوا ہو اور عارضی طور پر اس جگہ سے اٹھ گیا ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی کسی ایسے شخص کے کپڑے سے اپنے ہاتھ پونچھے جس کو اس نے کپڑا نہیں پہنایا۔ (ابو داؤد)
تشریح
حدیث میں مذکور دوسری ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کھانے وغیرہ میں ہاتھ بھر گئے ہوں تو ان ہاتھوں کو کسی اجنبی کے کپڑے سے نہ پونچھے بلکہ ایسے کپڑے سے ہاتھ پونچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جس کو اس نے کپڑے پہنائے اور دیے ہوں جیسے اپنی اولاد، یا غلام، یا خادم، وغیرہ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس اجنبی کے کپڑے سے پونچھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں جو اس بات پر راضی ہو۔ اس پر حدیث کے پہلے جزو کے مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے بخوشی اٹھا ہے تو اس کی جگہ بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ اس آیت (تَفَسَّحُوْا فِي الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا يَفْسَحِ اللّٰہ لَكُمْ) 58۔ المجادلہ:11) سے مفہوم ہوتا ہے اور جیسا کہ اس پر حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ نیز اس طرح اور بہت سے منقولات ہیں جن سے یہ وضاحت مفہوم ہوتی ہے رہی یہ بات کہ جب وہ شخص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے اپنی مرضی سے جگہ چھوڑ کر اٹھا تھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے کیوں انکار کیا؟ تو ان کے انکار کا سبب یہ تھا کہ ان کو اس شخص کی رضا مندی کے بارے میں شک ہوا ہو گا اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص از خود بطیب خاطر اپنی جگہ سے نہیں اٹھا ہے بلکہ کسی اور شخص کے کہنے سے اٹھا ہے یا شرم حضوری میں اٹھا ہے اور یا یہ کہ اس شخص کی رضا مندی جاننے کے باوجود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے احتیاط و تقویٰ اسی میں دیکھا ہو گا کہ وہ اس کی جگہ پر نہ بیٹھیں یا انہوں نے ممانعت کی حدیث کو اطلاق پر محمول کیا ہو گا اور رضا مندی کو بھی عدم ممانعت کا سبب نہیں سمجھتے ہوں گے۔
اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب تشریف رکھتے اور ہم آپ کے گرد بیٹھتے اور پھر آپ واپس آنے کے ارادہ سے گھر میں جانے کے لیے اٹھتے تو اپنی جگہ پر جوتیاں اتار کر رکھ جاتے اور ننگے پیر چلتے جاتے یا اپنے بدن پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ اس جگہ چھوڑ جاتے اس سے آپ کے صحابہ جان لیتے کہ آپ مجلس میں پھر آئیں گے ، چنانچہ وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔
تشریح
آپ کے گرد سے مراد آپ کے دائیں طرف بائیں طرف اور سامنے بیٹھنا ہے یعنی کچھ صحابہ آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف بیٹھتے کچھ بائیں ہاتھ کی طرف اور کچھ سامنے کی طرف، یہ معنی اس لیے بیان کیے گئے ہیں کہ اگر گرد سے مراد چاروں اطراف لی جائیں تو یہ صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حلقہ کے درمیان بیٹھنے کی ممانعت منقول ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو بیٹھے ہوئے آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر جدائی ڈالے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر دو آدمی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں تو کسی تیسرے شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان دونوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جائے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں آدمی آپس میں محبت و تعلق رکھتے ہوں، اور راز دارانہ طور پر ایک دوسرے سے کوئی بات چیت کرنا چاہتے ہوں اگر کوئی تیسرا آدمی ان کے درمیان حائل ہو جائے گا تو اس کا وہاں بیٹھنا ان پر شاق گزرے گا، علماء نے یہ وضاحت کی ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ دونوں بیٹھے ہوئے آدمی آپس میں محبت و تعلق رکھتے ہیں تو ان کے درمیان نہ بیٹھے اور اگر یہ معلوم ہو کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد و محبت کا علاقہ نہیں ہے تو اس صورت میں ان کے درمیان بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اور اگر ان دونوں کے درمیان تعلق مبہم ہو یعنی یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے درمیان محبت کا علاقہ ہے کہ نہیں یا سرے سے یہ معلوم ہی نہ ہو تو اس صورت میں احتیاط کا پہلو یہ ہو گا کہ ان کے درمیان نہ بیٹھے۔
٭٭اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلے سے بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان نہ بیٹھو الا یہ کہ ان کی اجازت حاصل ہو۔ (ابوداؤد)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھتے اور باتیں کیا کرتے پھر جب مجلس سے آپ اٹھتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے اور دیر تک کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہم دیکھتے کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کے گھر میں تشریف لے گئے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مجلس سے اٹھتے تو اس وقت صحابہ کا کھڑا ہونا احترام کھڑے ہو جانا کے طور پر نہیں تھا بلکہ مجلس کے برخاست ہو جانے کی وجہ سے ہوتا تھا اور ظاہر بھی ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی تشریف آوری کے وقت نہیں کھڑے ہوتے تھے تو جانے کے وقت کیوں کھڑے ہوتے تھے رہی یہ بات کہ اس وقت صحابہ دیر تک کیوں کھڑے رہتے تھے تو اس کی وجہ شاید یہ ہو گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مجلس سے اٹھ کر جانے لگتے تو صحابہ کرام اس انتظار میں رک جاتے کہ شاید آپ کسی کام کے لیے فرمائیں گے یا یہ امید ہوتی تھی کہ آپ دوبارہ تشریف لائیں گے اور مجلس برقرار رہے گی لیکن جب یہ امید ختم ہو جاتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی اپنی راہ پکڑتے۔
اور حضرت واثلہ بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جب کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو جگہ دینے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کی اور ایک طرف کھسک گئے اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مکان میں جگہ بیٹھنے کی کافی کشادہ ہے میں کہیں بھی بیٹھ جاؤں گا آپ نے میرے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرنے اور کھسکنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ مسلمان کا حق ہے کہ جب اس کو اس کا مسلمان بھائی مجلس میں یا اپنے پاس آتا دیکھے تو جگہ کی فراخی و تنگی سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دے اور ایک طرف کو کھسک جائے یعنی آنے والے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کرنا اور کھسک جانا دراصل اس کا اکرام و اعزاز ہے اور ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر اس اکرام و اعزاز کا بجا طور پر حق رکھتا ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خانہ کعبہ کے صحن میں اپنے ہاتھوں کے ذریعہ گوٹ مار کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔
تشریح
گوٹ مار کر بیٹھنا نشست کا ایک خاص طریقہ ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دونوں زانوں کھڑے کر لیے جاتے ہیں تلوے زمین پر رہتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے پنڈلیوں پر حلقہ باندھ لیتے ہیں اور کولہے خواہ زمین پر ٹکے رہتے ہیں ، خواہ اوپر اٹھے رہتے ہیں، بسا اوقات پنڈلیوں پر ہاتھوں کے ذریعہ حلقہ باندھنے کی بجائے ان پر کوئی کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا بھی منقول ہے۔ بہرحال بیٹھنے کا یہ طریقہ اہل عرب میں بہت رائج تھا اور اکثر و بیشتر وہ لوگ اسی طرح بیٹھا کرتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح بیٹھنا جائز بلکہ مستحب ہے۔
اور حضرت عبادہ بن تمیم تابعی اپنے چچا حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ صحابی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا میں نے ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد میں اس طرح چت لیٹے ہوئے دیکھا کہ آپ کا ایک قدم دوسرے قدم پر رکھا ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
قدم کو قدم پر رکھ کر لیٹنے سے ستر نہیں کھلتا جب کہ اس طرح لیٹنا کہ پاؤں پر پاؤں رکھا ہوا ہو بسا اوقات ستر کھل جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس مطلب کے ذریعہ اس حدیث اور ان احادیث کے درمیان مطابقت پیدا ہو جاتی ہے جو آگے آ رہی ہے اور جن سے واضح ہوتا ہے کہ پاؤں کو پاؤں پر رکھ کر لیٹنا ممنوع ہے اس مسئلہ کی مزید تفصیل آگے بیان ہو گی۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس طرح لیٹنا کبھی کبھی ہوتا تھا اور وہ بھی یا تو بیان جواز کی خاطر یا کچھ دیر آرام کر کے تکان کو دور کرنے کے لیے ورنہ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے معمول کا تعلق ہے آپ کسی بھی ایسی جگہ جہاں کچھ لوگ موجود ہوں چار زانو، با وقار اور تواضع و انکسار کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص ایک پاؤں کھڑا کر کے دوسرا پاؤں اس پر رکھ لے درآنحالیکہ وہ چت ہوا ہو۔ مسلم
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس طرح چت نہ لیٹے کہ ایک پاؤں کھڑا کر کے اس پر دوسرا پاؤں رکھ لے۔ مسلم
تشریح
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا دونوں حدیثیں بظاہر عباد بن تمیم کی روایت کے منافی معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی منافات و تضاد نہیں ہے کیوں کہ پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹنا دو طرح سے ہوتا ہے کہ ایک تو یہ کہ دونوں ٹانگیں پھیلی ہوئی ہوں اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی ہو اس طریقہ سے لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں کہ اس صورت میں ستر کھل جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا عباد بن تمیم کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ آپ ایک قدم کو دوسرے قدم پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے تھے تو اس سے یہی صورت مراد ہے ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چت لیٹ کر ایک ٹانگ کے گھٹنے کو کھڑا کر لیا جائے اور دوسری ٹانگ کے پیر کو اس کھڑے ہوئے گھٹنے پر رکھ لیا جائے یہ طریقہ ممنوع ہے لیکن یہ ممانعت بھی اس صورت میں ہے کہ جب ستر کھل جانے کا اندیشہ ہو مثلاً کسی شخص نے پاجامہ نہ پہن رکھا ہو بلکہ نہ بند باندھ رکھا ہو اور وہ تہہ بند یا کرتے کا دامن اتنا چھوٹا ہو کہ اس طریقہ سے لیٹنے کی وجہ سے ستر کھل سکتا ہو اور اگر ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو پھر اس طریقہ سے لیٹنا بھی جائز ہو گا حاصل یہ نکلا کہ ممانعت اور جواز کا اصل مدار ستر کے کھلنے یا ستر کے نہ کھلنے پر ہے چنانچہ علماء نے بھی یہی بیان کیا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک شخص دو دھاری دار کپڑوں میں ملبوس اتراہٹ اور اکڑ کے ساتھ چل رہا تھا نیز وہ ان کپڑوں کو اتنا نفیس اور برتر سمجھ رہا تھا کہ اس کے نفس نے اس کو غرور میں مبتلا کر دیا تھا اس کا انجام یہ ہوا کہ زمین نے اس شخص کو نگل لیا چنانچہ وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔
تشریح
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے وہ قارون تھا جب کہ نووی نے یہ لکھا ہے کہ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ شخص کسی امت کا کوئی فرد ہو گا یا کسی پچھلی امت میں کوئی شخص ہو گا۔ بہر حال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ تکبر و گھمنڈ اور اتراہٹ و اکڑ کے ساتھ چلنا برا ہے اور اس کا انجام نہایت برا ہے۔ اعاذنااللہ من ذالک۔
واضح رہے کہ انسان کی چال اس کے مزاج و احوال اور عادات و اطوار کی بڑی حد تک غماز ہوتی ہے اسی طرح اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے چلنے کا انداز ایسا نہ رکھنا چاہیے جس سے اس کی شخصیت میں کسی نقص و بے راہ روی اور اس کے طبعی احوال و کیفیات میں کسی کجی کا اظہار ہو۔عام طور چال کی دس قسمیں بیان کی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر قسم کو عربی میں ایک مستقل لفظ کے ساتھ موسوم کیا گیا جن کا تفصیلی ذکر دوسری کتابوں میں موجود ہے جو قسم سب سے اچھی اور افضل سمجھی گئی ہے اس کو ھون کا نام دیا گیا ہے۔ لغت کے اعتبار سے ھون کے معنی ہیں سکون و قرار چنانچہ عربی کا یہ مشہور محاورہ ہے امش علی ھونک یعنی اپنی پرورش پر چلو جس چال کو ہون کہا جاتا ہے وہ ایسی چال ہے جس میں حرکت تو پوری ہو لیکن قدم آہستہ آہستہ قدرے سرعت کے ساتھ اٹھیں نہ تو خشک لکڑی کی مانند اسی مری ہوئی چال جیسے مردہ دل افسر لوگ چلتے ہیں اور نہ تیزی اور بھاگ دوڑ کی چال جو جلد باز اور گھبراہٹ میں مبتلا لوگ چلتے ہیں چال کی یہ دونوں صورتیں بہت ہی بری ہیں اور چلنے والے کی مردہ دلی یا بے عقلی کو ظاہر کرتی ہیں قرآن شریف میں اللہ نے ھون کی تعریف کی ہے اور اس چال کو اپنے خاص بندوں کی صفت قرار دیا ہے۔
آیت (وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا)۔ اور رحمن(اللہ) کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر نرمی آہستگی اور سکون وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ تکیہ آپ کے بائیں جانب رکھا ہوا تھا۔ (ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تکیہ لگا کر بیٹھنا مستحب ہے اور یہ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ کو پسند فرماتے تھے نیز آپ نے خوشبو کی طرح تکیہ کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تکیہ پیش کرے تو اس کو قبول کرنے سے انکار نہ کیا جائے۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں بیٹھتے تو دونوں ران کھڑے کر لیتے اور پنڈلیوں پر دونوں ہاتھوں سے حلقہ باندھ لیتے۔ (رزین)
اور حضرت قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد میں بہ ہیبت قرفضا بیٹھے ہوئے دیکھا قیلہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح انتہائی فروتنی وانکساری ، خشوع و خضوع اور استغراق و حضوری کے عالم میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں مارے ہیبت کے کانپ گئی۔ (ابوداؤد)
تشریح
قرفصاء قاف کے پیش ، راء کے جزم اور فاء کے پیش اور زبر کے ساتھ کے معنی ہیں اکڑوں بیٹھنا اور ہاتھوں کو ٹانگوں کے گرد باندھنا چنانچہ اس نشست یعنی قرفصاء کی صورت یہ ہوتی ہے دونوں زانوؤں کو کھڑا کے سرینوں (کولھوں) پر بیٹھ جاتے ہیں زانوؤں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کو پنڈلیوں پا باندھ لیتے ہیں۔قرفضاء کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں زانوؤں کو زمین پر ٹیک کر رانوں کو پیٹ سے لگا لیتے ہیں اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں دونوں بغلوں میں داب لی جاتی ہیں اس طرح کہ دائیں ہتھیلی بائیں بغل میں اور بائیں ہتھیلی دائیں بغل میں رہتی ہیں بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ عام طور پر عرب کے ان غیر متمدن لوگوں میں رائج تھا جو جنگلات میں بود و باش رکھتے تھے نیز وہ مسکین غریب لوگ بھی اس طرح بیٹھتے ہیں جو تفکرات و خیالات اور غم و آلام میں مبتلا ہوتے ہیں چونکہ یہ نشست انتہائی عجز و بے چارگی اور کمال انکسار فروتنی کو ظاہر کرتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس ہیئت کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔
اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب فجر کی نماز پڑھ چکتے تو چار زانو بیٹھ جاتے ہیں اور سورج اچھی طرح روشن ہو جانے تک اسی طرح بیٹھے رہتے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کے دوران آرام کرنے اور سونے کے لیے کسی جگہ رات میں اترتے تو دائیں کروٹ لیٹتے تھے جب صبح کے قریب اترتے تو اس طرح لیٹتے کہ اپنا ایک ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک رکھ لیتے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب آپ سفر میں ہوتے اور رات کا وقت کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے اور رات کا کچھ حصہ باقی رہتا تو داہنی کروٹ پر لیٹ کر آرام فرماتے جیسا کہ سفر میں داہنی کروٹ پر لیٹنے کی آپ کی عادت تھی اور اگر ایسے وقت پڑاؤ ڈالتے کہ رات کا تقریباً پورا حصہ گزر چکا ہوتا اور صبح ہونے والی ہوتی تو اس صورت میں آپ پوری طرح لیٹنے کی بجائے دست مبارک کو کھڑا کر لیتے اور اس کی ہتھیلی پر سر رکھ کر آرام فرما لیتے ایسا اس وجہ سے کیا کرتے تھے تاکہ غفلت کی نیند نہ آ جائے اور فجر کی نماز قضا نہ ہو جائے اگرچہ داہنی کروٹ پر سونے کی صورت میں بھی غفلت کی نیند طاری نہیں ہوتی کیونکہ داہنی کروٹ پر لیٹنے سے لٹکا رہتا ہے اور اس کو قرار کم ملتا ہے جب کہ بائیں کروٹ پر لیٹنے سے دل اپنے ٹھکانے پر ہوتا ہے اور آرام بھی پاتا ہے جس کی وجہ سے نیند بھی اطمینان و سکون کی آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اطباء نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی بائیں کروٹ سونے کا مشورہ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بائیں کروٹ پر سونے سے دل چونکہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اس لیے دل کے مطمئن و پر سکون ہونے کی وجہ سے نہ صرف آرام ملتا ہے اور چین کی نیند طاری ہوتی ہے بلکہ کھانا بھی خوب اچھی طرح ہضم ہوتا ہے کیوں کہ اس صورت میں جسم کے باہر کی حرارت بدن کے اندر رک جاتی ہے جو نظام ہضم کو بہتر معتدل بنانے کا سبب ہے بعض روایتوں میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سفر کے دوران جب رات کے آخری حصے میں کہیں اترتے تو سر مبارک کے نیچے کوئی اینٹ رکھ لیتے اور جب صبح کے وقت کے قریب اترتے تو ہاتھ کھڑا کر کے اس کی ہتھیلی پر سر مبارک کر کچھ دیر کے لیے لیٹ رہتے۔
اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک لڑکے کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس کپڑے کی مانند تھا جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی۔ (ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جس بچھونے پر استراحت فرماتے تھے اس کی لمبائی چوڑائی اس کپڑے کے تقریباً برابر تھی جو آپ کی قبر شریف میں رکھا گیا تھا اور اس کپڑے کو کچھ لوگوں نے دیکھ رکھا تھا کہ وہ ایک مختصر سا کپڑا تھا جو زیادہ لمبا چوڑا نہ تھا۔ بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بچھونا اس کپڑے کی قسم سے تھا جو آپ کی قبر مبارک میں رکھا گیا تھا اور جو کپڑا قبر مبارک میں رکھا گیا تھا وہ دراصل ایک سرخ چادر تھی جو بیماری کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نیچے رہتی تھی آپ کا وصال ہوا تو شقران نے صحابہ کی رائے کے بغیر اس چادر کو قبر شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد مبارک کے نیچے رکھ دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کپڑا آپ کے بعد کوئی دوسرا شخص پہنے یا استعمال کرے تاہم صحیح قول یہ ہے کہ صحابہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے قبر شریف بند کیے جانے سے پہلے اس چادر کو نکال لیا تھا واضح رہے کہ حدیث میں اس جگہ لفظ یوضع کے بجائے وضع ہونا چاہیے تھا لیکن راوی کا مقصد چونکہ حکایت بزمانہ حال تھا اس لیے ماضی کے صیغہ کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا۔
حدیث کے دوسرے جز اور مسجد آپ کے سر مبارک کے قریب رہا کرتی تھی کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ استراحت فرماتے تو اس زاویہ سے لیٹتے کہ سر مبارک مسجد کی طرف رہتا کیونکہ آپ کا حجرہ شریف مسجد کے بائیں جانت تھا اور چونکہ آپ رو بقبلہ لیٹا کرتے تھے اس لیے ظاہر ہے کہ اگر اس حجرہ شریف میں رو بقبلہ لیٹا جائے تو مسجد سرہانے کی طرف رہے گی۔ مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں لفظ مسجد جیم کے زبر کے ساتھ جس کے معنی مصلی کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ استراحت کے وقت آپ کے سرہانے رکھا رہتا تھا تاکہ جب نماز پڑھنی ہو تو اس کو فوراً بچھا لیا جائے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اس طرح سے لیٹنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ترمذی)
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ لیٹنے کی چار صورتیں ہیں ایک تو چت لیٹنا لیٹنے کا طریقہ اہل عبرت کا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازیوں اور عجائبات قدرت کو دیکھ کر ایمان باللہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ چت لیٹتے ہیں تاکہ وہ آسمان اور ستاروں کی طرف بنظر اشتہاد دیکھتے رہیں اور خدا کی قدرت و حکمت کرد گاری کی دلیل حاصل کریں دوسری صورت دائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ اہل کبار رو کے لیٹنے کا طریقہ ہے جو لوگ خدا کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور شب بیداری کرنا چاہتے ہیں وہ دائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں تاکہ غفلت کی نیند طاری نہ ہو اور وقت پر اٹھ کر نماز وظائف اور اپنے مولی کے ذکر میں مشغول ہو سکیں۔تیسری صورت بائیں کروٹ پر لیٹنا ہے یہ آرام و راحت کے طلب گاروں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہو جائے چین سکون کی نیند سو سکیں اور جسم کو پوری طرح آرام و راحت ملے وہ بائیں کروٹ پر لیٹ کر سوتے ہیں اور چوتھی صورت اوندھا یعنی پیٹ کے بل لیٹنا ہے یہ اہل غفلت اور نادان لوگوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے کیونکہ اس طرح لیٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سینہ اور منہ جو برتر اعضاء ہیں اور اجزائے جسم میں سے سب سے افضل جز ہیں ان کو بلا قصد و طاعت و سجدہ خاک و ذلت پر اوندھا ڈال دیا جائے جو ان اعضاء کے عز و شرف کے منافی ہے نیز چونکہ اغلام کرانے والوں کی عادت ہے اس لیے اوندھا لیٹنا اتنی ذلیل ترین برائی کی مشابہت اختیار کرنا ہے جو خود انتہائی بری بات ہے۔
٭٭اور حضرت یعیش ابن طخفہ ابن قیس عفاری اپنے والد ماجد سے جو اصحاب صفہ میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی (حضرت طخفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن میں سینہ کی درد کی وجہ سے پیٹ کے بل اوندھا لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی شخص مجھے اپنے پاؤں سے ہلا رہا ہے اور پھر میں نے سنا کہ وہ شخص کہہ رہا ہے لیٹنے کے اس طریقہ کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے اور پھر میں پلٹ کر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں حضرت طخفہ رضی اللہ عنہ کا وہ عذر نہیں ہو گا جس کی وجہ سے وہ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے تھے اس لیے آپ نے مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کا عذر آپ کے علم میں تھا تو پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ آپ کا ارشاد احتیاط و تقویٰ کی بناء پر تھا اور یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ عام حالات میں بلاکسی عذر کے پیٹ کے بل لیٹنا سخت برا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود تھا کہ اگر سینہ کے درد کا دفاع ہی مقصود تھا تو اس صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ وہ پیروں کو پھیلائے بغیر ٹانگوں کی طرف جھک کر سینے کے دونوں رانوں کو دبا لیتے۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بن شیبان کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں گھر کی ایسی چھت پر سوئے جس پر پردہ نہ ہو اور روایت میں یوں ہے کہ جس کے گرد رکاوٹ والی کوئی چیز نہ ہو تو اس سے ذمہ جاتا رہا۔ (ابوداؤد)
اور خطابی کی کتاب معالم السنن میں لفظ حجاب کے بجائے حجی کا لفظ ہے۔
تشریح
ایک ہی مضمون کی تین روایتوں میں تین الگ الگ لفظ ہیں ایک روایت میں حجاب کا لفظ ہے جس کے معنی پردہ کے ہیں اور اس سے مراد وہ دیوار ہے جو چھت کو بے پردگی سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی وجہ سے اس چھت پر سے کسی کے گرنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا دوسری روایت میں حجار کے لفظ ہے جو حجر کی جمع ہے اور اس کے معنی اس چیز کے ہیں جو چھت کو اس طرح گھیر دے کہ کوئی گرنے نہ پائے خواہ دیوار ہو یا جنگلہ وغیرہ اور تیسری روایت میں حجی کا لفظ ہے یہ لفظ حاء کے زیر کے ساتھ بھی ہے اور اس کے زبر کے ساتھ بھی،دونں ہی صورتوں میں یہ لفظ پردہ کے مفہوم میں ہے ویسے لغت کے اعتبار سے حجی جاء کے زیر کے ساتھ کے معنی ہیں عقل وزیر کی لہذا کہا جائے گا کہ پردہ عقل کے ساتھ اس لیے مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح عقل انسان کو نشائستہ اور نقصان دہ امور سے روکتی ہے اس طرح پردہ بھی انسان کو چھت پر سے گرنے سے روکتا ہے اسی طرح حاء کے زبر کے ساتھ کے معنی کنارہ اور گوشہ کے ہیں اور ظاہر ہے کہ چھت پردہ چھت کے کناروں پر کھڑی گئی دیوار وغیرہ ہی کی صورت میں ہوتا ہے اس اعتبار سے اس کو حجی کہا گیا ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ نے ہر انسان کی نگہبانی و حفاظت کا ذمہ و عہد لیا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ملائکہ مقرر کیے ہیں اور ایسے اسباب و ذرائع پیدا فرمائے جن کو اختیار کر کے انسان اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے لیکن عام اگر کوئی شخص ایسی چھت پر سوتا ہے جس کے گرد کوئی پردہ و رکاوٹ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ سو رہا ہے جو عام طور پر ہلاکت و ضرر کا سبب بن سکتی ہے اور جب اس شخص نے خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا تو اب قدرت کو کیا ضرورت ہے کہ اس کی حفاظت کرے لہذا اس کی محافظت کا خدائی ذمہ و عہد ساقط ہو گیا۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کوٹھے پر سونے سے منع فرمایا ہے جس پر پردہ کی دیوار نہ ہو۔ترمذی)
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک کے ذریعہ اس شخص کو ملعون قرار دیا گیا ہے جو حلقہ کے درمیان بیٹھے۔
تشریح
اس حدیث کے محمول کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور مختلف اقوال ہیں ایک تو یہ کہ مثلاً کسی جگہ لوگ حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور بجائے اس کے وہ جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا درمیان میں جا کر بیٹھ جائے چنانچہ ایسے شخص کو ملعون کہا گیا ہے دوسرے یہ کہ کوئی شخص کچھ لوگوں کے حلقہ کے درمیان اس طرح بیٹھ گیا کہ ان میں سے بعضوں کے چہرے ایک دوسرے سے چھپ گئے اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے چہرے نہ دیکھ سکنے سے اور اپنے درمیان خلل پڑ جانے کی وجہ سے اس شخص کو تکلیف و ضرر کا باعث محسوس کیا لہذا ایسا شخص مذکورہ حدیث کا محمول ہے اور تیسرے یہ کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو مسخرا پن کرنے لیے حلقہ کے بیچ میں جا کربیٹھ جائے تاکہ لوگوں کو ہنسائے۔
حضرت ابن شہاب رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سالم رحمۃ اللہ نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد؟) اس کا جواب سالم نے دیا کہ اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح کیا تھا؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری)
تشریح
جو شخص اسلامی تاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے وہ حجاج بن یوسف کے نام سے بخوبی واقف ہو گا۔ یہ نام ظلم و بربریت کی داستانوں میں اپنی ایک بڑی ہی وحشت ناک داستان کا حامل ہے۔ حجاج بن یوسف جس کے نام کا جز ہی ظالم بن چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں کو باندھ کر قتل کرایا تھا۔ عبدالملک بن مروان کی طرف سے اسی ظالم نے مکہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر چڑھائی کی تھی اور ان جلیل القدر صحابی کو اس نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد اسی سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چنانچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔