عقیقہ عق سے مشتق ہے، لغت میں عق کے معنی ہیں چیرنا، پھاڑنا اصلاح میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو نوزائیدہ کے سر پر ہوتے ہیں۔ ان بالوں کو عقیقہ اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ وہ بال ساتویں دن مونڈے جاتے ہیں اور اس مناسبت سے عقیقہ اس بکری کو بھی کہتے ہیں جو بچے کے سر مونڈنے کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔
عقیقہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں، ائمہ ثلاثہ یعنی حضرت امام احمد، حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے نزدیک عقیقہ سنت ہے اور اکثر احادیث سے بھی اس کا سنت ہونا معلوم ہوتا ہے حضرت امام احمد سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔ جہاں تک حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک عقیقہ سنت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے جو سنت سے ثابت ہے۔ مشہور حنفی مجتہد حضرت امام محمد نے اپنی کتاب مؤطا میں یہ لکھا ہے کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ عقیقہ (اصل میں) زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی رائج رہی مگر پھر قربانی نے ہر اس ذبح (کے وجوب) کو منسوخ قرار دیا جو قربانی سے پہلے رائج تھا، رمضان کے روزوں نے ہر اس روزے (کے وجوب) کو منسوخ قرار دیا جو اس سے پہلے رائج تھا، غسل جنابت نے ہر اس غسل (کے وجوب کو) منسوخ قرار دے دیا جو اس سے پہلے رائج تھا، زکوٰۃ نے ہر اس صدقہ (کے وجوب) کو منسوخ قرار دے دیا جو اس سے پہلے رائج تھا۔
جو احکام و شرائط قربانی کے سلسلے میں منقول و معتبر ہیں وہی احکام و شرائط عقیقہ کے بارے میں بھی مقبول و معتبر ہیں۔
حضرت سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ کرنا (مسنون یا مستحب) ہے لہٰذا اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے ایذاء (یعنی اس کے سر کے بال اور میل کچیل) دور کرو)۔ (بخاری)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس (نو زائیدہ) بچے لائے جاتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے لئے برکت کی دعا کرتے یعنی ان کے سامنے فرماتے، بارک اللہ علیک اللہ تعالیٰ تجھ پر برکت و رحمت نازل فرمائے) اور ان کے تحنیک کرتے۔ (مسلم)
تشریح
تحنیک یہ ہے کہ کھجور یا کسی اور میٹھی چیز کو چبا کر بچے کے تالو میں لگایا جائے چنانچہ یہ تحنیک ایک مسنون عمل ہے اور بہتر یہ ہے کہ تحنیک کرنے والا کوئی نیک اور صالح آدمی ہو۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مکہ میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ ان کے پیٹ میں آئے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قباء کے مقام پر میرے ولادت ہوئی تو میں ان (عبداللہ) کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئی، اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں دے دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور منگائی، اور اس کو چبایا، پھر اپنا آب دہن ان کے منہ میں ڈالا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے، اس کھجور کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لعاب مبارک کے ساتھ مخلوط ہو گئی تھی، عبداللہ کے منہ میں رکھا اور پھر وہ کھجور ان کے تالو میں لگائی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لئے دعا کی اور برکت چاہی (یعنی یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر برکت نازل فرمائے) چنانچہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے، جو اسلام (کے عہد) میں پیدا ہوئے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
قبا مدینہ شہر سے جنوب مغربی سمت تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر ایک آبادی ہے۔ مکہ سے مدینہ کے لئے سفر ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ آخری منزل تھی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے اترے اور تین دن یا چار دن قیام فرمایا، جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام فرمایا تھا اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی، جس کو مسجد قبا کہتے ہیں، قبا اگرچہ مدینہ منورہ سے باہر ہے، لیکن اس کا تعلق ایک طرح سے ایسا ہی ہے جیسا کہ محلہ کا ہوتا ہے۔ اس جگہ بڑی شادابی ہے۔ اور مختلف پھلوں اور میووں کے باغات ہیں، اسی قبا میں بئراریس نامی کنواں ہے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چند صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی، اور جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ انگوٹھی گر گئی تھی، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین مہر لگایا کرتے تھے، اس کنویں کا پانی بہت کھارا تھا، کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا لعب دہن شامل فرمایا جب سے اس کا پانی میٹھا ہے، مگر اب یہ کنواں خشک ہو گیا ہے۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے الخ کا مطلب یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مہاجرین میں جو سب سے پہلا بچہ پیدا ہوا وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے، مہاجرین کی قید اس لئے لگائی گئی کہ ہجرت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے بھی پہلے مدینہ میں مسلمانوں کے یہاں سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں قرار دو، ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ۔ اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ (عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، اور اس میں تمہارے لئے کوئی نقصان نہیں ہے کہ وہ (بکری) نر ہو یا مادہ، یعنی اس بات کا لحاظ ضروری نہیں کہ لڑکے کے عقیقہ میں بکرے ذبح کئے جائیں اور لڑکی کے عقیقہ میں بکری ذبح کی جائے (ابوداؤد، ترمذی) نسائی کی روایت میں یقول عن الغلام سے آخر تک ہے۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
مکنات میم کے زبر اور کاف کے زیر اور زبر کے ساتھ ہے اور مشکوٰۃ کے ایک نسخہ میں کاف کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اس کے معنی مکان کے ہیں۔
اس ارشاد گرامی پرندوں کو ان کے گھونسلوں میں قرار دو کا مطلب یہ ہے کہ ان (پرندوں) کو ان کے گھونسلوں میں رہنے دو اڑاؤ نہیں۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مکنات اصل میں جمع ہے مکنۃ کی جس کے معنی
سو سمار (گوہ) کے انڈے کے ہیں، لیکن یہاں یہ لفظ مطلق انڈوں کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر پرندے انڈوں پر بیٹھے ہوں تو ان کے گھونسلوں کو ہلا کر ان کو ستاؤ مت۔ یا پھر اس ارشاد گرامی کا تعلق تطیر اور فال بد لینے کی ممانعت سے ہے، جیسا کہ عرب میں لوگوں کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا، یا کہیں کا سفر کرنے کا ارادہ کرتا، تو پرندے کے گھونسلے پر آتا اور اس کو چھیڑ کر اڑاتا، اگر وہ پرندہ داہنی طرف اڑتا تو مبارک جان کر اور فال نیک سمجھ کر اس کام کو کرتا، یا سفر پر روانہ ہو جاتا، اور اگر وہ پرندہ بائیں طرف اڑتا تو اس کو منحوس سمجھ کر اس کام یا سفر سے باز رہتا، اس کو تطیر کہتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا، کہ پرندہ جہاں ہو اس کو وہیں رہنے دو کہ اس کو مت اڑاؤ اور نہ اس سے بد فالی لو۔
اور حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر (بچہ) اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے (اس کی پیدائش کے) ساتویں دن اس کے (عقیقہ کے) لئے (جانور) ذبح کیا جائے (ساتویں ہی دن) اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، نسائی نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نسائی کی روایت میں مرتھن کے بجائے رھینۃ ہے اور احمد و ابوداؤد کی ایک روایت میں یسمی کے بجائے و یدمی ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ لفظ یسمی ہی زیادہ صحیح ہے۔
تشریح
ظاہر ہے کہ بچہ چونکہ مکلف نہیں ہے کہ اگر اس کا عقیقہ نہ کیا جائے تو اس کے ماخوذ و معتوب ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا، اس صورت میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عقیقہ کے عوض بچے کے گروی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ چنانچہ حضرت امام احمد نے تو اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ بیان کیا ہے، کہ جس بچے کا عقیقہ نہیں ہوتا اور وہ کم سنی میں مر جاتا ہے تو اس کو اپنے والدین کی شفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ جب تک والدین اس کا عقیقہ نہ کر دیں وہ اس کے حق میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہو گا۔ بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب تک والدین بچہ کا عقیقہ نہیں کرتے اس کو بھلائیوں سلامتی آفات اور بہتر نشو نما سے باز رکھا جاتا ہے اور پھر اس کے جو برے نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ حقیقت میں والدین کے مواخذہ کا سبب بنتے ہیں کہ ترک عقیقہ انہوں نے ہی کیا ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ گروی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے بالوں وغیرہ کی گندگی و اذیت میں مبتلا رہتا ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے۔ فامیطوا عنہ الاذی (بچے کو اذیت سے ہٹاؤ) یعنی اس کے بال میل کچیل اور خون وغیرہ صاف کرو) لہٰذا جب بچہ کا عقیقہ ہوتا ہے تو وہ گویا سر کے بال وغیرہ صاف ہو جانے سے اس اذیت سے نجات پا جاتا ہے۔
لفظ یدمی۔ یا کے پیش دال کے زبر اور میم مفتوحہ کی تشدید کے ساتھ تدمیہ سے مشتق ہے جس کے معنی، خون آلود کرنے۔ کے ہیں۔ لہٰذا ایک روایت میں ویسمی (اور اس کا نام رکھا جائے) کی جگہ ویدمی ہے۔ لیکن جیسا کہ ابوداؤد نے کہا ہے کہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس جگہ لفظ ویسمی ہی ہو نا چاہئے۔ تاہم قتادہ نے ویدمی کی تشریح یہ کی ہے کہ جب عقیقہ کے جانور کو ذبح کیا جائے تو اس کے تھوڑے سے بال لے کر اس کی گردن کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ (بال) اس کے خون سے آلودہ ہو جائیں جو ذبح کے وقت اس جانور کی گردن کی رگوں سے نکلے اور پھر وہ خون آلودہ بال اس بچے کی چندیا پر اس طرح رکھ دیا جائے کہ خون اس کی چندیا پر ایک لکیر کی صورت میں بہے اور اس کے بعد بچہ کا سر دھو کر منڈوا دیا جائے۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ یہ (تدمیہ) نہ کیا جائے کیونکہ روایت میں لفظ یدمی دراصل کسی راوی کی طرف سے تحریف ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تدمیہ ثابت ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کیا، لیکن یہ عملی (تدمیہ) نہیں کیا تھا، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل دراصل زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی جس کو منسوخ قرار دیا گیا ٫ جیسا کہ اس باب کی تیسری فصل میں آنے والی حدیث سے واضح ہو گا۔
علماء نے لکھا ہے کہ ابوداؤد کی روایت میں لفظ یدمی کا منقول ہونا حدیث کے ایک راوی ہمام کا وہم ہے اور قتادہ نے اس لفظ کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے وہ منسوخ ہے، خطابی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بچے کے بدن سے اذیت اور سوکھی پلیدی کو دور کرنے کا حکم فرمایا تو اس کے سر کو تر خون سے آلودہ کر کے نجس کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے، تاہم بعض علماء نے بچے کے سر کو خون سے آلودہ کرنے کے بجائے خلوق اور زعفران جیسی خوشبوؤں سے لتھیڑنا نقل کیا ہے۔
حضرت محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ (یعنی حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین شہید رضی اللہ عنہ) حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنے نواسے اور میرے بچے) حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح کی تھی اور فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ! اس (حسن رضی اللہ عنہ) کا سر مونڈو اور اس کے بال کے ہم وزن چاندی صدقہ کر دو۔ چنانچہ ہم نے ان بالوں کا وزن کیا تو وہ ایک درہم یا ایک درہم سے کم وزن کے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور اس کی اسناد متصل یعنی مسلسل نہیں ہے۔ کیونکہ محمد بن علی بن حسین نے حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے عقیقہ میں ایک بکری یا بکرا بھی ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ابوداؤد نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا، یہ حدیث آگے آ رہی ہے۔ لیکن نسائی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دو دو مینڈھے روایت کئے ہیں اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے مطلق نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقہ کیا۔ سفر السعادۃ کے مصنف نے لکھا ہے کہ اگرچہ ایک بکری کی روایت بھی صحیح ہے۔ لیکن زیادہ مضبوط اور زیادہ صحیح وہی روایت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکریاں ذبح کی جائیں، کیونکہ اس روایت کو صحابہ کی ایک پوری جماعت نے نقل کیا ہے نیز لڑکے کے عقیقہ میں دو بکری کو ذبح کرنے کو ترجیح دینے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ایک بکری ذبح کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ثابت ہے۔ اور دو بکریاں ذبح کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز قول سے ثابت ہو وہ فعل سے کہیں زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ مکمل سمجھی جاتی ہے، کیوں کہ فعل کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص حالت سے متعلق ہو، جب کہ قول میں عمومیت و اکملیت ہوتی ہے، اور ایک بات یہ بھی ہے کہ فعل تو محض جواز پر دلالت کرتا ہے اور قول سے جواز کے ساتھ استحباب بھی ثابت ہوتا ہے، ترمذی نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں جن صحابہ کی روایتیں منقول ہیں، وہ یہ ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ، حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ۔
اور ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے، احتمال ہے کہ لڑکے کے حق میں استحباب کا کم سے کم درجہ ایک بکری ہو اور کمال استحباب دو بکری ہو جس حدیث میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ حدیث کم سے کم درجہ پا اکتفا کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لئے ہو یا یہ کہ یہ حدیث دراصل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لازم اور ضروری نہیں ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں جو دو بکری یا جو دو منڈھے ذبح کئے جاتے ہیں، وہ دونوں ساتویں ہی دن ذبح ہوں، لہٰذا ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک بکری یا ایک ایک مینڈھا تو ان کی پیدائش کے دن ہی ذبح کر دیا ہو اور دوسری بکری یا دوسرے منڈھے کو ساتویں دن ذبح کیا ہو اس تاویل و توضیح کی صورت میں تمام روایتوں کے درمیان مطابقت و یکسانیت پیدا ہو جائے گی اور کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا، یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہی مینڈھا یا ایک بکری کے ذریعہ عقیقہ کیا اور اس کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ دوسرا مینڈھا یا دوسری بکری وہ ذبح کر دیں، لہٰذا جس روایت میں ایک بکری یا ایک منڈھے کا ذکر ہے اس میں تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ نسبت کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بکری یا ایک منڈھے کے ذریعہ عقیقہ کیا حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ اور جس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دو بکری یا دو دنبے کو ذبح کرنے کی نسبت کی گئی ہے وہ مجاز ہے۔
اس کا سر مونڈو ۔ یہ حکم یا تو حقیقۃً تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تم اپنے ہاتھ سے اس کا سر مونڈو، یا یہ مطلب تھا کہ کسی دوسرے شخص کو حکم دو کہ اس کا سر مونڈ دے۔ یہ امر (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے سر مونڈنے کا حکم دیا جاتا، استحباب کے طور پر ہے۔ اسی طرح بالوں کو وزن کرنے کا حکم بھی بطریق استحباب کے ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک مینڈھا ذبح کیا۔ (ابوداؤد، نسائی)
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا گیا،تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا۔گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا۔ اور پھر فرمایا کہ جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو اس کو چاہئے،کہ وہ اس لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ذبح کرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔(ابوداؤد و نسائی)
تشریح
اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا لڑکا بڑی عمر میں پہنچ کر والدین کے حق میں عاق نہ ہو یعنی والدین کی نافرمانی کرنے والا نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی چوٹی عمر میں عقیقہ (کا جانور) ذبح کرے، کیونکہ والدین کا عقوق (یعنی والدین کا اپنے بچے کا عقیقہ نہ کر کے گویا ایک طرح کی نافرمانی کرنا) دراصل لڑکے کے عقوق (یعنی لڑکے کے نا فرمانبردار ہو جانے) کا باعث ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں پسند نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے حدیث کے الفاظ گویا من ولد لہ (جس شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہو الخ) کی تمہید کے طور پر ہیں۔
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس فعل کو لفظ عقیقہ سے موسوم کئے جانے کو ناپسند فرمایا۔ روایت کے یہ الفاظ کسی راوی کے اپنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عقیقہ کو عقیقہ کے لفظ سے موسوم کئے جانے کو پسند نہیں فرمایا۔ تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ یہ عقیقہ عقوق سے مشتق ہے، جس کے معنی والدین سے سر کشی اور ان کی نافرمانی کرنا ہیں) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پسند فرمایا کہ اس کو اس سے بہتر نام جیسے ذبیحہ یا نسیکہ سے موسوم کیا جائے (نہایہ) لیکن تور پشی نے کہا ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اس بات کی نسبت کہ (گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقیقہ کہے جانے کو ناپسند فرمایا) غیر موزوں ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کتنے ہی ارشادات میں عقیقہ ہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک یہ لفظ ناپسندیدہ ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کا ذکر کیوں فرماتے، لیکن اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔ کہ یہ احتمال ہے کہ سوال کرنے والے نے یہ گمان کیا ہو کہ مادہ اشتقاق میں عقیقہ اور عقوق کا مشترک ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ حکم کے اعتبار سے عقیقہ کی زیادہ اہمیت نہ ہو۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جواب کے ذریعہ یہ واضح کر دیا کہ امر واقعی اس کے خلاف ہے۔
شیخ عبد الحق محد ث دہلوی نے نہایہ کی مذکورہ بالا وضاحت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جن احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا عقیقہ کا لفظ ذکر کرنا منقول ہے وہ اس کراہت سے پہلے کی ہوں گی۔
اور حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی، جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی، اور وہ اذان نماز کی اذان کی طرح تھی۔ (ترمذی، ابوداؤد،) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا سنت ہے۔ مسند ابولیلی موصلی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بطریق مرفوع( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد) نقل کیا ہے کہ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کے دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں تکبیر کہے، تو اس کو ام الصبیان سے ضرر نہیں پہنچے گا۔ نیز امام نووی کے کتاب الروضہ میں لکھا ہے کہ بچے کے کان میں یہ الفاظ کہنے بھی مستحب ہے۔ آیت (انی اعیذھا بک وذریتھا الشیطن الرجیم)۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارا یہ دستور تھا کہ جب ہم میں سے کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا تو وہ بکری ذبح کرتا اور اس (بکری) کا خون اس (لڑکے) کے سر پر لگاتا، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا، تو ہم (بچے کی پیدائش کے) ساتویں دن بکری ذبح کرتے، اس کا سر مونڈتے اور اس کے سر پر زعفران لگاتے (ابوداؤد) اور زرین کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ہم (ساتویں ہی دن) اس کا نام رکھتے۔
تشریح
واضح رہے کہ اکثر احادیث کے بموجب بچہ کا عقیقہ اس کی پیدائش کے ساتویں دن ہونا چاہئے، اور حضرت امام شافعی و حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اگر ساتویں دن عقیقہ کرنا ممکن نہ ہو سکے تو پھر چودھویں دن کیا جائے، اگر چودھویں دن بھی نہ کر سکے تو اکیسویں دن، ورنہ اٹھائیسویں دن، پھر پینتیسویں دن علی ہذا القیاس۔
ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا عقیقہ ظہور نبوت کے بعد کیا تھا، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ پیدائش کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عقیقہ ہوا تھا یا نہیں۔ لیکن اول تو اس روایت کی اسناد ضعیف ہے، دوسرے معنوی طور پر بھی یہ روایت بعد سے خالی نہیں ہے۔
حضرت امام مالک کے نزدیک عقیقہ کی ہڈیاں توڑنی درست نہیں (بلکہ گوشت نکال کر ہڈیوں کو دفن کر دیا جائے، جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کی ہڈیاں توڑنا درست ہے۔ نیز شوافع کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر عقیقہ کا گوشت پکا کر صدقہ کیا جائے تو بہتر ہے اور اگر حلاوت یعنی لڑکے کے اچھے اخلاق و اطوار کے ساتھ تفاول کے پیش نظر اس گوشت کو کوئی میٹھی چیز پکا کر صدقہ کی جائے تو اور بہتر ہے۔