اور حضرت براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خندق کھودے جانے کے دن خود بنفس نفیس مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے یعنی غزوہ احزاب کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی تو سرکار دو عالم بنفس نفیس سارے کام میں شریک تھے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ بھی بڑے بڑے پتھر اٹھاتے اور مٹی اٹھا اٹھا کر پھینکتے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شکم مبارک غبار آلود ہو گیا تھا اور اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا یہ رجزیہ کلام پڑھتے جاتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے۔
خدا کی قسم اگر اللہ کی ہدایت نہ ہوتی تو ہم راہ راست نہیں پا سکتے تھے نہ ہم صدقہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے تھے۔
پس اے اللہ ہم پر وقار اور اطمینان نازل فرما و رجب دشمنان دین سے ہماری مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔
بے شک کفار مکہ نے ہم پر اس لیے زیادتی کی ہے جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلا کرنے یعنی کفر کی طرف واپس لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم انکار کر دیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلمان اشعار کو بلند آواز سے پڑھتے تھے خصوصاً ابینا ابینا پر آواز بلند ہو جاتی تھی۔
تشریح
یرفع بھا صوتہ میں بھا کی ضمیر لفظ ابینا کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا سے پہلے لفظ قائلا مقدر ہے مطلب یہ ہے کہ آپ ان اشعار کو پڑھتے تو آخر میں لفظ ابینا کو بار بار دہراتے اور اس وقت آپ کی آواز کو زیادہ بلند کرتے اور اس سے مقصد اس لفظ کے مفہوم کو مؤکد کرنا ، تلذذ و حظ حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں اور کافروں کے کانوں تک پہنچانا تھا۔طبی نے یہ لکھا ہے کہ بھا کی ضمیر ان اشعار کی طرف راجع ہے اور ابینا ابینا اس جملہ میں حال واقع ہو رہا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آپ تمام اشعار کو با آواز بلند پڑھتے تھے اور لفظ ابینا پر پہنچ کر آواز کو خصوصیت سے بلند کر دیتے تھے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب غزوہ احزاب کے موقع پر مہاجرین اور انصار نے خندق کھودنا اور مٹی کو اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کیا تو وہ اس دوران یہ رجز پڑھتے جاتے تھے۔
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک جہاد کرتے رہنے کے لیے محمد کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔
اور رسول اللہ ان کے اس رجز کے جواب میں یہ دعا فرماتے جاتے تھے کہ اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔ (بخاری ، مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم گویا ان دعائیہ الفاظ کے ذریعہ صحابہ کو تسلی دیتے تھے کہ تمہیں اس موقع پر جو محنت و مشقت برداشت کرنا پڑ رہی ہے اور تم جن سخت حالات سے دوچار ہو ان پر صبر کرو اللہ تعالیٰ کا انعام تمہارے لیے مقدر ہے اور اس دنیا میں تمہیں راحت و سکون ملے یا نہ ملے لیکن آخرت کی زند گی میں تمہیں اپنی اس محنت و مشقت کے عوض بے شمار انعامات ملیں گے نیز اصل انعامات آخرت ہی کے ہیں بایں طور کہ زندگی بس آخرت ہی کی زندگی ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جب کہ اس دنیا کی کیا راحت و کیا مصیبت سب کو آخرکار معدوم ہو جانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وماالحیوۃ الدنیا الامتاع الغرور)۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو! کسی شخص کا پیٹ کو پیپ سے بھرنا جو اس کے پیٹ کو خراب کر دے اس سے بہتر ہے کہ پیٹ کو مذموم اشعار سے بھرا جائے۔ (بخاری، مسلم)
تشریح
اس حدیث کے ذریعہ ایسی شاعری کی مذمت کی گئی ہے جو انسان کو ہر طرف سے غافل کر دے چنانچہ جو شاعر ہر وقت مضامین بندی اور تخلیق شعر میں مستغرق رہ کر فرائض و عبادت و تلاوت قرآن و ذکر خداوندی اور علوم شرعیہ سے غافل ہو جاتے ہیں ان کے اشعار برائی اور قابل نفرین ہونے کے اعتبار سے اس پیپ سے بھی بدتر ہیں جو زخم میں پڑ جاتی ہے خواہ وہ اشعار کسی بھی طرح کے ہوں اور کیسے بھی اچھے مضامین کے حامل کیوں نہ ہوں۔ یا اس سے ارشاد گرامی میں محض ان اشعار کی مذمت مراد ہے جو فحش و بے حیائی ، کفر و فسق اور ناشائستہ وغیرہ صالح مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے برے اشعار کہتے جاتے ہیں۔
اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ اللہ نے شعر و شاعری کے حق میں جو حکم دیا ہے وہ آیت ظاہر ہے جو اس نے نازل فرمائی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس بات کے جواب میں فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم کافروں کو اشعار کے ذریعہ اسی طرح زخم پہنچاتے ہو جس طرح تیروں کے ذریعہ۔ (محی السنہ)
اور عبدالبر کی کتاب استیعاب میں یوں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ شعر و شاعری کے متعلق آپ کیا حکم فرماتے ہو یہ کوئی اچھی چیز ہے یا بری؟آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور اپنی زبان سے بھی۔
تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ تین حضرات شعراء اسلام میں ممتاز اور برتر حیثیت رکھتے ہیں ان میں ایک تو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے دوسرے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور تیسرے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ تینوں حضرات اپنا الگ الگ شعری انداز و رخ رکھتے ہیں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے اشعار خصوصیت سے ایسے مضامین پر مشتمل ہوتے تھے جو کفار و مشرکین کو جنگ و جہاد کے خوف میں مبتلا کرتے تھے ، اور ان کے دلوں پر رعب و ہیبت کے اثرات مرتب کرتے تھے ، حضرت حسان رضی اللہ عنہ اپنے اشعار کے ذریعہ دشمنان دین اور دشمنان رسول کے حسب و نسب پر طعن و تشنیع کے تیر چلاتے تھے اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے اشعار کا رخ کفار مشرکین کی توبیخ و سرزنش کی طرف رہتا تھا۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ نے قرآن کریم کی یہ آیت (وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہمُ الْغَاوٗنَ) 26۔ الشعراء:224)، نازل فرمائی اور اس کے ذریعہ شعر و شاعری کی برائی اور اپنے احوال کے ذریعہ ان پر ظاہر فرمایا کہ شعر و شاعری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ اس میں برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کو غیر شرعی باتوں اور نامناسب مضامین کے اظہار کا ذریعہ بنایا جائے اور چونکہ عام طور پر شعراء فکر و خیال کی گمراہی اور زبان کلام کی بے اعتدالیوں کا شکار ہوتے ہیں اس لیے اللہ نے اس کی مذمت میں مذکورہ آیت نازل فرمائی ورنہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی شخص اپنے اشعار کو حق و صداقت کے اظہار باطل و ناحق کی تردید کا ذریعہ بنائے تو اس کی شعر و شاعری اس آیت کا محمول نہیں ہو گی بلکہ جو شعراء اپنے اشعار کے ذریعہ خدا اور خدا کے رسول کی خاطر کفار کا شعری مقابلہ کرتے ہیں اور ان کی ہجو کا جواب ہجو دے دے کر گویا دین اسلام کی تائید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں لہذا تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے کہ نہ تمہارے اشعار اس آیت کی روشنی میں قابل مذمت ہیں اور نہ تم ان شعراء میں داخل ہو جن کی برائی ظاہر کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی گئی ہے کیونکہ خود اللہ نے تم جیسے شعراء کو اپنے اس قول کے ذریعہ مذکورہ آیت کے حکم سے باہر رکھا ہے کہ۔ آیت (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰہ كَثِيْراً)26۔ الشعراء:227)
اور حضرت ابوامامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا شرم و حیا اور زبان کو قابو میں رکھنا ایمان کی دو شاخیں ہیں جب کہ فحش گوئی اور لاحاصل بکواس نفاق کی دو شاخیں ہیں۔ (ترمذی)
تشریح
شرم و حیا کا ایمان کی شاخ ہونا ایک ظاہر و معروف بات ہے اور اس کا تفصیلی ذکر باب الایمان میں گزر چکا ہے۔زبان کو قابو میں رکھنے کا ایمان کی شاخ ہونا اور فحش گوئی و لا حاصل بکواس کا نفاق کی شاخ ہونا اس اعتبار سے ہے کہ مومن اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرم و حیاء انکساری مسکینی و سلامتی طبع کے جن اوصاف سے مزین ہوتا ہے وہ اپنے خدا کی عبادت، اپنے خدا کی مخلوق کی خدمت اور اپنے باطن کی اصلاح میں جس طرح مشغول و منہمک رہتا ہے اس کی بناء پر اس کے بے فائدہ تقریر بیان پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی وہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوتا کہ اپنے مفہوم و مدعا کو مبالغہ آرائی اور زبان کی تیز و طرار کے ذریعہ ثابت و ظاہر کر سکے بلکہ وہ اس خوف سے کم گوئی کو اختیار کرتا ہے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے کہ مبادا زبان سے کوئی بڑی بات نکل جائے اور وہ فحش گوئی اور بد زبانی کا مرتکب ہو جائے اس کے برخلاف منافق کی شان ہی ہوتی ہے کہ وہ چرب زبانی یا وہ کوئی اور مبالغہ آمیزی کی راہ اختیار کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ بے فائدہ تقریر و بیان، زبان درازی، اور فحش گوئی پر قادر و دلیر ہو جاتا ہے۔
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن مجھ کو سب سے زیادہ عزیز و محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے زیادہ خوش اخلاق ہیں اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے برے اور مجھ سے سے سب سے زیادہ وہ دور لوگ ہوں گے جو تم میں بد اخلاق ہیں ، بد اخلاق سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت بنا بنا کر باتیں کرتے ہیں بغیر احتیاط کے بک بک لگاتے ہیں اور متفیہقین اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور ترمذی نے بھی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ثرثارون اور متشدقون کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں متفیھقون سے کیا مراد ہے یعنی متفیھق کسے کہتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تکبر کرنے والے۔
تشریح
فیھق،،ضرورت سے زیادہ باتیں کرنا اور منہ پھیر کر کوئی بات کہنے کو کہتے ہیں جیسا کہ تکبر وغیرہ میں مبتلا لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جو وہ کسی سے بات چیت کرتے ہیں تو ان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے مخاطب کو بہت حقیر و ذلیل سمجھ رہے ہوں اور یہ بھی گوارا نہیں ہو رہا ہے کہ اس کی طرف منہ اٹھا کر ہی بات کریں بلکہ اس کی طرف سے چہرہ پھیر پھیر کر بات کرتے ہیں چنانچہ اسی معنوی لزوم کی وجہ سے متفیھقین کی وضاحت متکبرین کے ذریعہ کی گئی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بک بک لگانا، بے فائدہ و لا حاصل گفتگو کرنا بنا بنا کر باتیں کرنا اور بیا آرائی و مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقریریں کرنا مکروہ مذموم ہے لیکن حق کے تئیں لوگوں کے ذہن و فکر کو متاثر کرنے قلوب کو نرمانے اور عبادات و طاعت کی طرف سے متوجہ و راغب کرنے کے لیے وعظ و نصیحت میں جو بیان آرائی کی جائے اور طول بیان کی جاتی ہے وہ مذموم و مکروہ نہیں ہے لیکن اس صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ کہ انداز بیان اور طرز کلام ایسا اختیار کرنا چاہیے کہ جو آسانی سے لوگوں کو مقصد تک پہنچا دے اس کے برخلاف پیچیدہ و رقیق انداز مشکل لغات و الفاظ اور ایسی نکتہ چینی و حکمت آفرینی اختیار کرنا جو عام ذہن و فہم سے بالا تر ہو اور جس کی وجہ سے ان پڑھ لوگ اس کے وعظ و تقریر سے کما حقہ فائدہ نہ اٹھا سکیں مناسب موزوں نہیں ہے۔
اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ ایک ایسی جماعت پیدا نہیں ہو جائے گی جو اپنی زبانوں کے ذریعہ اس طرح کھائے گی جس طرح گائیں اپنی زبانوں سے کھاتی ہیں (احمد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی زبانوں کو کھانے پینے کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے بایں طور کہ وہ خوشامد چاپلوسی کی خاطر لوگوں کی جھوٹی تعریفیں بیان کریں گے یا بغض وحسد کی بنا پر ان کی جھوٹی مذمت کریں اور وہ اپنی تقریر و تحریر میں زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کا جھوٹا مظاہرہ کریں گے تاکہ لوگ دام فریب میں مبتلا کریں اور ان سے دنیا کا مال و زر حاصل کریں اور اپنی خواہشات کی تکمیل کرائیں۔ جس طرح گائیں اپنی زبان کے ذریعے کھاتی ہیں کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح گائیں اپنی زبان سے کھاتی ہیں اور چارا چرتے وقت یہ تمیز نہیں کرتیں کہ وہ چارہ خشک ہے یا تر اور شیریں ہے یا تلخ اور جائز ہے کہ نا جائز، اسی طرح وہ لوگ بھی جو اپنی زبانوں کو اپنے نا جائز مقاصد اور ناروا خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ و ذریعہ بنائیں گے ، حق و باطل اور سچ جھوٹ کے درمیان قطعاً کوئی تمیز نہیں کریں گے اور نہ حلال و حرام کے درمیان کوئی فرق کریں گے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص سخت ناپسندیدہ ہے جو کلام و بیان میں حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرے بایں طور کہ وہ اپنی زبان کو اس طرح لپیٹ لپیٹ کر باتیں کرے جس طرح گائے اپنے چارے کو لپیٹ لپیٹ کر جلدی جلدی اپنی زبان سے کھاتی ہیں اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ زبان درازی اور طاقت نسائی کوئی اچھی چیز نہیں ہے اپنی زبان اور کلام میں خواہ مخواہ کے لیے حد سے زیادہ فصاحت و بلاغت کا مظاہرہ کرنا، حاشیہ آرائی اور مبالغہ آمیزی کے ساتھ اپنی بات کو پیش کرنا اور الفاظ کو چبا چبا کر اور زبان کو لپیٹ لپیٹ کر چکنی چپٹی باتیں کرنا احمق لوگ کے نزدیک تو ایک وصف سمجھا جاتا ہے لیکن جو دانش مند اور عاقل لوگ اس وصف کے پیچھے چھپی ہوئی برائی کو دیکھتے ہیں کہ عام طور پر اس طرح باتیں بنانے والے لوگ جھوٹے اور حیلہ باز ہوتے ہیں ان کے نزدیک اس وصف کا کوئی اعتبار نہیں اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایسا شخص خدا کے نزدیک ناپسندیدہ ہے لہذا چھا کلام وہی ہے جو ضرورت کے بقدر اور سیدھا سادا ہو نیز جس سے یہ واضح ہو کہ متکلم کے ظاہری الفاظ، اس کی باطنی کیفیات کے ہم آہنگ ہیں جو شریعت کا تقاضا بھی ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہو جن کی زبانیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں، میں نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے واعظ و خطیب ہیں جو ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں ان واعظوں اور خطیبوں کے لیے سخت تنبیہ وعید ہے جو دوسروں کو نیک کام کرنے کو کہتے ہیں لیکن خود نیک کام نہیں کرتے تاہم واضح رہے کہ یہ حدیث ان واعظوں اور خطیبوں کی بے عملی کی مذمت کو ظاہر کرتی ہے نہ کہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کی برائی کو بیان کرنا ہے کہ وہ نیک کام کے لیے کیوں کہتے ہیں اگرچہ وہ خود نیک کام نہیں کرتے اسی بنیاد پر علماء لکھتے ہیں کہ امر بالمعروف میں فعل شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ نیک کام کے لیے وہی شخص کہہ سکتا ہے جو خود بھی اس پر عمل کرے البتہ یہ بہتر ہے کہ امر بالمعروف کرنے والا اپنے کہے پر خود بھی عمل کرے ، کیوں کہ جس امر بالمعروف کی بنیا د محض قول پر ہوتی ہے عمل پر نہیں ہوتی اس کا اثر نہیں ہوتا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس مقصد کے لیے گھما پھرا کر بات کرنے کا سلیقہ سیکھے کہ وہ اس کے مردوں کے دلوں یا لوگوں کے دلوں پر قابو حاصل کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ اس کی نفل عبادت قبول کرے گا اور نہ فرض۔
تشریح
مذکورہ وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو چرب زبانی کرے ضرورت سے زیادہ باتیں بنائے اپنے مقصد کو اس طرح گھما پھرا کر بیان کرے کہ حقیقت ظاہر نہ ہو سکے اور یا اپنے کلام کو ضرورت سے زیادہ فصاحت و بلاغت نیز مبالغہ آرائی کے ساتھ آراستہ و مزین کرے اور ان چیزوں محض یہ ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی باتوں سے اثر قبول کر کے اس کے مقصد کو پورا کریں۔
اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے اس وقت فرمایا جب کہ ایک شخص (وعظ کہنے یا خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی خاطر) بہت لمبی تقریر کی یہاں تک کہ سننے والے اکتا گئے چنانچہ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر تم اپنی تقریر میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیتے تو بے شک وہ تقریر سننے والوں کے حق میں بہت بہتر ہوتی ہے میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سمجھ لیا ہے یا یہ فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تقریر میں گفتگو میں اختصار کروں حقیقت یہ ہے کہ مختصر تقریر بہتر ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
روایت میں فقال عمرو کے الفاظ طول کلام کے سبب مکرر نقل کیے گیے ہیں کیونکہ ولوقصد..الخ۔ مقولہ ہے کہ قال یوما کا اور قام رجل حال ہے اور ظاہر ہے کہ حال کی وجہ سے قول و مقولہ کے درمیان خاصا فرق ہو گیا اس لیے فقال عمرو دوبارہ کہہ کر گویا قول کا اعادہ کیا۔
اور حضرت صخرا بن عبداللہ ابن بریدہ اپنے والد (حضرت عبداللہ) سے اور وہ صخر کے دادا حضرت بریدہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بعض بیان جادو کی مانند ہوتے ہیں بعض علم جہالت ہوتے ہیں بعض اشعار فائدہ مند یعنی حکمت و دانائی سے پر ہوتے ہیں اور بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)۔
تشریح
بعض علم جہالت ہوتے ہیں کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کسی شخص نے ایسا علم حاصل کیا جو بذات خود نہ تو فائدہ مند ہو اور نہ اس کی طرف احتیاج و ضرورت ہو جیسے علم جعفر و رمل یا علم نجوم و فلاسفہ وغیرہ، اور اس بے فائدہ علم میں مشغولیت کی وجہ سے وہ ضروری علوم حاصل کرنے سے محروم رہا ہے جن سے لوگوں کی احتیاج و ضرورت وابستہ ہوتی ہے جیسے قرآن و حدیث اور دین کے علوم، تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس شخص نے جو بے فائدہ علم حاصل کیا اس علم نے دوسرے ضروری علوم سے اس کی محرومی و جاہل رکھا ہے جس کا حاصل یہ ہو کہ بعض علوم درحقیقت جہل کو لازم کرتے ہیں اور اسی اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بعض علم جہالت ہوتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ علم حاصل کرنے والا اپنے علم پر عمل پیرا نہ ہوا، اس اعتبار سے وہ شخص عالم ہونے کے باوجود جاہل قرار پائے گا کیوں کہ جو شخص علم رکھے اور عمل نہ کرے تو وہ گویا جاہل ہے۔علاوہ ازیں اس ارشاد گرامی سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو شخص علم کا دعوی کرتا ہے اور اپنے گمان کے مطابق خود کو عالم سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ عالم نہیں ہے تو اس کا یہ علم جس کا اس نے دعوی کیا ہے علم نہیں ہے بلکہ سراسر جہالت و نادانی ہے۔ بعض قول و کلام وبال جان ہوتا ہے ، کا مطلب ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی جس کی وجہ سے وہ خود کسی آفت میں مبتلا ہو گیا یا جس شخص نے اس بات کو سنا وہ کسی ملال و دل برداشتگی میں مبتلا ہو گیا، بایں طور کہا گر وہ سننے والا جاہل تھا تو وہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی اور اگر عالم تھا تو اس کے لیے لاحاصل تھی یا وہ کوئی ایسی بات جس کو سننے والا پسند نہیں کرتا اور اس بت کی وجہ سے اس کو رنج و ملال ہوتا ہے تو ان صورتوں میں یہی کہا جائے گا کہ کہنے والے وہ قول و کلام وبال و ملال کا ذریعہ بن گیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں مشہور شاعر اسلام حضرت حسان کے لیے منبر رکھوا دیتے جس پر وہ کھڑے ہو کر اپنے اشعار سناتے اور ان اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اظہار فخر کرتے تھے یا یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کفار کے دین مخالف اشعار اور ہجو کا مقابلہ کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کرتا ہے جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یا یہ الفاظ ہیں کہ جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اظہار فخر کرتے ہیں۔ (بخاری)۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک حدی خواں تھے جن کا نام ابخشہ تھا وہ بہت خوش آواز تھے ایک سفر کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ابخشہ اونٹوں کو آہستہ آہستہ ہانکو اور شیشوں کونہ توڑو۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث کے ایک راوی کہتے ہیں کہ شیشوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد عورتیں تھیں۔ (بخاری)
تشریح
حدی صراح کے مطابق اس بلند آواز گانے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اونٹوں کو ہانکا جاتا ہے لغت کی بعض دوسری کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ حدی،عرب شتربانوں کے نغمہ کو کہتے ہیں چنانچہ عرب میں دستور ہے کہ شتربان اونٹ ہانکنے والا جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تھک گیا ہے یا اس کی چال سست ہو گئی ہے تو بلند آواز اور خوش گوئی کے ساتھ گانے لگتا ہے اس گانے کی آواز گویا اونٹ میں چستی و گرمی پیدا کر دیتی ہے جس سے وہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنے لگتا ہے کتابوں میں لکھا ہے کہ حدی جو گانے ہی کی ایک قسم ہے مباح ہے اور اس کے بارے میں علماء میں سے کسی کا کوئی اختلافی قول نہیں ہے۔
قواریر قارورہ کی جمع ہے جس کے معنی شیشہ کے ہیں، اس ارشاد گرامی شیشوں کونہ توڑو کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ عورتوں کے بدن میں جو فطری نزاکت و کمزوری ہوتی ہے اس کی بنا پر اونٹوں کا تیز چلنا اور ہچکولے لگنا ان کے سخت تعجب و تکلیف کا موجب بن جاتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے شتربان ابخشہ کو حکم دیا کہ اونٹ کو اتنی تیزی کے ساتھ نہ بھگاؤ کہ اس پر سوار عورتیں ہچکولے کھانے لگیں اور اس کی وجہ سے ان کو تکلیف و پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ عورتوں کے دل کی کمزوری و نرمی کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابخشہ کو ہدایت کی اس طرح حدی خوانی نہ کرو جس سے عورتوں کے دل کمزور ، متاثر ہو جائیں اور تمہارے گانے کی وجہ سے ان کے ذہن و دماغ اور جذبات میں ہلچل پیدا ہو جائے اور وہ کسی برے خیال میں مبتلا ہو جائیں کیونکہ گانے کی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ طبیعت کو بھڑکاتا ہے اور جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے اگرچہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس موقع پر یہ ارشاد فرمایا اس وقت اونٹ پر ازواج مطہرات میں سے کوئی زوجہ مطہرہ سوار ہوں گی اور اس صورت میں مطلب غیر موزوں معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ احتمال یعنی گانے کی آواز سن کر جذبات میں ہلچل پیدا ہو جانا ازواج مطہرات کے حق میں نہایت کمزور ضعیف ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کسی برے خیال کا پیدا ہو جانا اور طبیعت و دل کا کسی وسوسے میں مبتلا ہو جانا ایک طبعی چیز جو کسی انسان کے اختیار کی پابند نہیں ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو مناسب سمجھا کہ احتیاط کی راہ ظاہر فرما دیں کہ بہر صورت احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اولیٰ ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا تعلق درحقیقت امت کے لوگوں کوتعلیم و تلقین سے ہے یعنی آپ نے اس موقع پر مذکورہ ارشاد کے ذریعہ پوری امت کو ہدایت فرمائی کہ جب اونٹ پر عورتیں سوار ہوں تو ان کی موجودگی کو ملحوظ رکھا جائے اور حدی خوانی میں احتیاط و مصلحت کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اوپر جو دو معنی بیان کیے گئے ہیں ان میں سے دوسرے مطلب کو اکثر شارحین نے ترجیح دی ہے لیکن روایت کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ پہلا مطلب صحیح مانا جائے۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے شعر کا ذکر کیا گیا، یعنی یہ دریافت کیا گیا شعر و شاعری کوئی اچھی چیز ہے یا بری؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شعر بھی ایک کلام ہے چنانچہ اچھا شعر اچھا کلام ہے اور برا شعر برا کلام ہے۔
تشریح
شعر و شاعری کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے اور حدیث بھی اسی بات کو واضح کرتی ہے کہ شعر کہنا یا پڑھنا سننا بذات خود کوئی برائی نہیں رکھتا بلکہ اس کی اچھائی اور برائی کا دارومدار شعر کے مضمون پر ہوتا ہے اگر شعر کا مضمون ایسا ہے جو شریعت کے حکم و منشاء اور دینی تقاضوں کے خلاف نہیں ہے تو اس شعر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ ایسے مضمون کا حامل شعر کہا، اور سنا جائے جس سے دین کی بات پھیلتی اور ثابت ہوتی ہے یا جس سے خدا کی وحدانیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و منقبت اور دین و خادمان دین کی عظمت ظاہر ہوتی ہو تو یقیناً ایسا شعر مستحسن و محمود بھی ہو گا اس کے برخلاف جس شعر کا مضمون شریعت کے حکم و منشاء کے خلاف ہو تو اس کو برا کہا جائے گا۔
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر کے دوران عرج میں تھے کہ اچانک ایک شاعر سامنے سے نمودار ہوا جو اشعار پڑھنے میں مشغول تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ اس شیطان کو پکڑ لو یا یہ فرمایا کہ اس شیطان کو جانے دو یعنی اس کو شعر پڑھنے سے روک دیا، یاد رکھو! انسان کا اپنے پیٹ کو پیپ سے بھرنا اس میں اشعار بھرنے سے بہتر ہے۔ (مسلم)
تشریح
عرج، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستہ میں پڑنے والی ایک گھاٹی کا نام ہے جہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی ہے اس راستے پر چلنے والے قافلے یہاں منزل کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی سفر ہجرت اور حجۃ الوداع میں اس جگہ سے گزرے تھے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ حجۃالوداع کے سفر کے دوران کا ہے۔ بہرحال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ شعر پڑھنے میں بری طرح مشغول ہے یہاں تک کہ اس کو وہاں موجود مسلمانوں کی طرف بھی کوئی التفات نہیں ہے بلکہ ایک طرح سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام مسلمانوں سے صرف نظر کیے ہوئے بے محابا چلا جا رہا ہے۔ اور اس کو شوق شعر و شاعری نے اس درجہ بے باک بنا دیا ہے کہ وہ انسانی اور اخلاقی تقاضوں اور آداب زندگی کو فراموش کر بیٹھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رگ و پے میں صرف شعر و شاعری ہی سرایت کیے ہوئے اور وہ پرلے درجے کا بے حیا و بے ادب بن گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو شیطان فرمایا جس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص رحمت الٰہی اور قرب خداوندی سے بعد اختیار کیے ہوئے اور ظاہر ہے کہ اس سے صورت حال کا صدور محض اس لیے ہوا کہ وہ اپنی شعر و شاعری کے غرور نخوت میں مبتلا تھا اس لیے آپ نے شعر کی مذمت کی۔
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، راگ و گانا دل میں نفاق کو اس طرح اگاتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔ (بیہقی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ راگ و گانا انسانی قلب و روح کے لیے ایک آزار ہے کہ جس کا ثمرہ نفاق ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ راگ و گانا انسان میں نفاق و فساد باطن کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے۔ دیلمی کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی یوں نقل کیا گیا ہے کہ،
حقیقت یہ ہے کہ راگ و گانا اور کھیل کود یہ دونوں نفاق کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کا اگاتا ہے اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے قرآن اور ذکر الٰہی یہ دونوں قلب میں ایمان کو اس طرح اگاتے ہیں جس طرح پانی سبزی کو اگاتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ راگ و گانے اور کھیل کود جیسی لاحاصل چیزوں سے اجتناب کرے بلکہ اپنے اوقات کو تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی سے معمور رکھے کیوں کہ یہ چیزیں قلب و روح کو جلا بخشتی ہیں اور ایمان و اخلاق کو مضبوط بناتی ہیں۔ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کتاب روضہ میں لکھا ہے کہ محض آواز کے ساتھ گانا مکروہ ہے اور اس کا سننا بھی مکروہ ہے نیز اجنبی عورت سے سننا سخت مکروہ ہے اور ساز جیسے عود و طنبور اور دیگر باجوں کے ساتھ شراب نوشوں کا خاص مشغلہ ہوتا ہے حرام ہے اور اس کا سننا بھی حرام ہے۔
اور حضرت نافع تابعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ راستہ میں تھا یعنی ہم دونوں کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی آواز سنی اور فوراً اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیں نیز راستہ سے ہٹ کر دوسری طرف ہولیے تاکہ اس آواز سے اپنے آپ کو بچا سکیں پھر اس راستہ سے ہٹنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نافع کیا تم بھی کچھ سن رہے ہو یعنی کہ جو آواز آ رہی تھی وہ اب بھی آ رہی ہے یا بند ہو گئی ہے؟میں نے کہا نہیں اب وہ آواز بند ہو گئی ہے انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں سے نکال لیں اور پھر بیان کیا کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نے کی آواز سنی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی کیا جو اس وقت میں نے کیا ہے۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں ایک چھوٹی عمر کا لڑکا تھا۔ (احمد، ابوداؤد)
تشریح
حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو اس روایت کے آخر میں جو یہ واضح کیا کہ میں نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب میں بہت چھوٹا تھا اس سے ان کا مقصد اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اس وقت چونکہ میں چھوٹی عمر کا تھا اور شرعی طور پر مکلف نہیں تھا اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آواز کو سننے سے مجھ کو منع نہیں کیا اگر میں شرعی طور پر مکلف ہوتا تو وہ یقیناً مجھ کو یہ ہدایت کرتے کہ ان کی طرح میں بھی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لوں لہذا کسی کو یہ وہم نہیں ہونا چاہیے کہ اس آواز میں کراہت تنزیہی تھی اس لیے انہوں نے مجھ کو اس آواز کے سننے سے منع نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس آواز کو سننا مکروہ تحریمی تھا اور مجھے منع نہ کرنے کا تعلق میرے غیر مکلف ہونے سے تھا۔ رہی یہ بات کہ جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تھیں تو راستہ چھوڑ دینے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا تعلق کمال تقویٰ اور ورع سے تھا یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احتیاط و تقویٰ کا تقاضہ یہی سمجھا کہ اس راستہ سے ہی ہٹ جائیں ورنہ اگر اس راستے کو چھوڑ دینا بھی شرعی طور پر ضروری ہوتا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یقیناً حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو بھی وہ راستہ چھوڑ دینے کا حکم دیتے۔ واضح رہے کہ گانے بجانے کا مسئلہ بہت تفصیل طلب ہے خلاصہ کے طور پر اتنا جان لینا کافی ہے کہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس سے گانے کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہو مشائخ کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اظہار ممانعت کے طور پر جو کچھ منقول ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ گانا ممنوع ہے جس کے ساز اور باجا بھی شامل ہو البتہ فقہاء نے اس مسئلہ میں بڑی شدت اختیار کی ہے جس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ لہو و لعب کی چیزوں یعنی ساز اور باجوں کو سننا حرام اور سخت گناہ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، باجوں کا سننا گناہ ہے اس پر بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفریات میں سے ہے ، ہاں اگر کسی شخص کے کان میں باجے کی آواز ناگہانی طور پر آ جائے تو اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس پر واجب ہو گا کہ وہ اس بات کی پوری کوشش کرے کہ وہ اس آواز کو سن نہ سکے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باجے کی آواز سے بچنے کے لیے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھیں۔