اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جو عورتوں کے ساتھ صحبت و اختلاط اور حسن معاشرت اور ہر ایک عورت کے حق کے بارے میں منقول ہیں۔ عنوان میں ہر ایک عورت کے حقوق کہنے کی بجائے عورتوں کے حقوق کہنا بظاہر زیادہ مناسب تھا لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ یہاں عورتوں کی جنس مراد نہیں ہے بلکہ عورتوں کی اقسام مراد ہے یعنی جن عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں کوئی تو باکرہ ہوتی ہے اور کوئی ثیبہ ہوتی ہے اور کوئی خوش خلق ہوتی ہے کوئی بد خلق ہوتی ہے اسی طرح کوئی عورت مالدار ہوتی ہے اور کوئی مفلس ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا یہاں چونکہ عورتوں کی یہ اقسام مراد تھیں اس لئے عنوان میں ہر ایک عورت کے حقوق کہا گیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں جو ٹیڑھی ہے اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اس پسلی میں ہے جو اوپر کی ہے لہٰذا اگر تم پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر پسلی کو اپنے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی اس لئے عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو (بخاری و مسلم)
تشریح
اس ارشاد گرامی نے عورتوں کی خلقت و طبیعت کے بارے میں دو بنیادی نکتے بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ عورتوں کی اصل و بنیاد حضرت حوا ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کی اوپر کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں جو بہت زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے لہٰذا عورتوں کی اصل خلقت ہی میں ٹیڑھا پن ہے جسے کوئی درست نہیں کر سکتا۔ دوم یہ کہ جس طرح پسلی کا حال ہے کہ اگر کوئی اسے سیدھا کرنا چاہے تو سیدھی نہیں ہو گی بلکہ ٹوٹ جائے گی اور اگر اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی ٹھیک اسی طرح عورتوں کا حال ہے کہ ان کی اصل خلقت ہی میں چونکہ اعمال و اخلاق کی کجی ہے اس لئے اگر مرد چاہیں کہ ان کی جی کو درست کر دیں تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ اس کو توڑ ڈالیں گے (توڑنے سے مراد طلاق دینا ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا)۔ لہٰذا عورتوں سے فائدہ اٹھانا اور ان کا کار آمد رہنا اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ان کو ان کے خلقی ٹیڑھے پن پر چھوڑے رکھا جائے پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ عورتوں کی اصلاح و درستگی کا م،عاملہ بہت پیچیدہ اور نازک ہے ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر سخت روی اور غیظ و غضب کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور اس بنیادی نکتہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ان کے ٹیڑھے پن کو درست کرنے کے لئے اگر سختی سے کام لیا جائے گا۔ اس کا انجام ان کی توڑ پھوڑ یعنی طلاق کی صورت میں ظاہر ہو گا جو ان عورتوں ہی کے لئے تباہی کا باعث نہی ہو گا بلکہ خود اپنی زندگی کے لئے بھی نقصان دہ اور اضطراب انگیز ہو گا۔ اس لئے اپنی عورتوں کے ساتھ نرم معاملہ رکھو اور ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرو اور یہ طریقہ چھوڑ دو کہ وہ سب باتوں میں تمہاری مرضی اور تمہاری خواہش کے مطابق عمل کریں گی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا ٹیڑھا پن اگر روز مرہ کی گھریلو زندگی اور معاشرتی امور سے گزر کر گناہ و معصیت کی حدود میں پہنچ جائے تب بھی اس پر صبر کیا جائے بلکہ ان کے ٹیڑھے پن پر صبر کرنا اور اس سے چشم پوشی کرنا اس وقت تک مناسب ہو گا۔ جب تک کوئی گناہ لازم نہ آئے۔ اگر گناہ لازم آئے تو پھر تغافل اور چشم پوشی بالکل مناسب نہیں ہو گی۔
٭٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت کی اصل اور بنیاد یعنی اس کی ماں حوا چونکہ (حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اس لئے تمہارے لئے کسی ایک راہ پر ہرگز سیدھی نہیں ہو گی۔ لہٰذا اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں اس سے ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاؤ اور اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا کہ تم اسے توڑ ڈالو گے اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے (مسلم)
تشریح
ہرگز سیدھی نہیں ہو گی کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم یہ چاہو کہ کوئی عورت کسی ایک حالت پر ہمیشہ قائم رہے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ اس کی خلقت ہی میں چونکہ کجی ہے اسی لئے اس کی حالت بدلتی سدلتی رہے گی کبھی شکر گزاری کی راہ چھوڑ کر ناشکری کا راستہ اختیار کرے گی کبھی طاعت و فرمانبرداری کے راستہ پر چلتے چلتے نافرمانی کی راہ پر پڑھ جائے گی کبھی قناعت کو بالائے طاق رکھ کر طمع و حرص کے جال میں پھنس جائے گی غرضیکہ اسی طرح اس کے مزاج و عمل میں دوسرے تغیرات پیدا ہوتے رہیں گے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے اگر اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی خصلت و عادت ناپسندیدہ ہو گی تو کوئی دوسری خصلت و عادت پسندیدہ بھی ہو گی (مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کے تمام افعال و خصائل برے نہیں ہوتے بلکہ اگر اس کے کچھ افعال و خصائل برے ہوتے ہیں تو اس میں کچھ اچھی عادتیں اور اچھے خصائل بھی ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان مرد کو چاہئے کہ وہ اپنی عورت کے ان اچھے افعال و اخلاق کو پیش نظر رکھے جو اس کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور جو افعال و اخلاق برے ہوں ان پر صبر و تحمل کرے گویا اس ارشاد کا مقصد اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرو ان کی معیت میں خوشگوار و پُر مسرت زندگی گزارنے کی کوشش کرو اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایسی کوتاہی یا غلطی ہو جائے یا ان میں کوئی ایسی بری عادت و خصلت ہو جس سے تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف پر صبر کرو۔
اس حدیث میں ایک بہت بڑے لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بے عیب یار اور اپنے مزاج کے بالکل موافق ہاتھ نہیں لگا کرتا۔ اگر کوئی شخص بالکل بے عیب یار ڈھونڈھنے لگے تو وہ ہمیشہ بے یار ہی رہے گا کیونکہ ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس میں کوئی عیب اور کوئی ناپسندیدہ بات نہ ہو اس طرح کوئی انسان خصوصاً مسلمان اچھے خصائل اور اچھی عادتوں سے بالکل بھی خالی نہیں ہوتا لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہونا چاہئے کہ اس کے ان اچھے خصائل کو تو پیش نظر رکھا جائے اور برے خصائل سے چشم پوشی کی جائے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ان کی قوم بنی اسرائیل یعنی یہودیوں کے لئے جنگل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے من و سلوی ٰ کا خوان نعمت اترا کرتا تھا اور اس کا یہ حکم تھا کہ انہیں جتنی ضرورت ہو اسی کے بقدر اس میں سے لے لیا کریں ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ نہ کریں مگر وہ یہودی کیا جو اپنی کج فطرتی اور خدا کی نافرمانی سے باز آ جائیں چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے حکم خداوندی کی نافرمانی کی اور اس خوان نعمت سے اپنی ضرورت سے زائد لے کر ذخیرہ کرنے لگے، مگر قدرت کا کرنا ایسا ہوتا کہ جب وہ ذخیرہ کرتے تو وہ گوشت سڑ جاتا تھا۔ چنانچہ یہ گوشت کا سڑنا ان کے اس فعل بد یعنی اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد نہ کرنے اور محض حرص و طمع کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی سزا کے طور پر تھا اس کے بعد نظام قدرت نے ہمیشہ کے لئے گوشت کا سڑنا لازم کر دیا لہٰذا اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل اس بری عادت میں مبتلا نہ ہوتے اور ان کو یہ سزا نہ ملتی تو گوشت سڑا نہ کرتا بلکہ جب تک لوگ چاہتے اسے اپنی ضرورت کے مطابق رکھا کرتے۔
یہاں خیانت کے وہ معنی مراد نہیں ہیں جو امانت و دیانت کی ضد ہے بلکہ خیانتسے ناراستی یعنی کجی مراد ہے لہٰذا حضرت حوا کی کجی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کا وہ درخت کھانے کی ترغیب دی جس سے اللہ تعالیٰ نے روک رکھا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو کجی حضرت حوا سے سرزد ہو گئی تھی وہ ہر ایک عورت کی سرشت کا جزو بن گئی ہے اگر حضرت حوا سے یہ کجی سرزد نہ ہوتی تو کسی بھی عورت میں کجی کا خمیر نہ ہوتا اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ کجروی کا کوئی بھی برتاؤ نہ کرتی۔
اور حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح (بددلی سے) نہ مارے اور پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے جماع کرے (ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے حالانکہ یہ نہیں سوچتا کہ شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر ہو) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ریح خارج ہونے پر ہنسنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس چیز پر کیوں ہنستا ہے جس کو وہ خود بھی کرتا ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
اور پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے جماع کرے۔ اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی سے جنسی لذت حاصل کرتا ہے اس کے لئے یہ بات کس طرح مناسب ہو سکتی ہے کہ ایک طرف تو اس کے ساتھ ایسا پُرکیف معاملہ ہو دوسری طرف اس کے ساتھ اتنا وحشیانہ اور بے دردانہ سلوک کرے؟ اگرچہ اپنی بیوی کو اس کی مسلسل نافرمانی اور سرکشی پر مارنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح نہیں کہ غلاموں کی طرح بے دردی سے اسے مارا پیٹا جائے۔ یہ ایک غیر شرعی فعل ہی نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب حرکت بھی ہے! اس سے معلوم ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ پیار و محبت اور اتفاق و سلوک کے ساتھ رہنا چاہئے۔
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا کسی ایسی عجیب بات پر ہنسنا تو اچھا معلوم ہوتا ہے جو عام طور پر نہ پائی جاتی ہو لیکن جب ایک چیز خود اپنے اندر موجود ہے تو پھر جب وہ کسی دوسرے سے سرزد ہوتی ہے تو اس پر ہنسنے کا کیا موقع ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی ریح خاج ہو جائے تو اس سے تغافل کیا جائے تا کہ وہ خجالت اور شرمندگی کر کے کبیدہ خاطر نہ ہو۔
اس سلسلہ میں یہ سبق آموز واقعہ پڑھنے کے قابل ہے کہ ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں جن کا نام اصم تھا یہ اگرچہ حقیقت میں بہرے نہیں تھے لیکن انہوں نے دنیا کی نظروں میں اپنے آپ کو بہرا بنا رکھا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دن ایک عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے ان کے پاس آئی جب وہ ان سے مسئلہ پوچھ رہی تھی تو اسی اثناء میں اس کی ریح خارج ہو گئی۔ اصم نے سوچا کہ یہ عورت ذات ہے اب یہ بہت زیادہ شرمندگی و خجالت محسوس کر رہی ہو گی لہٰذا انہوں نے اس کی شرمندگی و خجالت دور کرنے کے لئے کہا کہ ذرا زور سے کہو کیا کہہ رہی ہو؟ گویا انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ میں اونچا سنتا ہوں وہ عورت بڑی خوش ہوئی اس نے بتایا کہ یہ تو بہرے ہیں انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں اور اس طرح اس کی شرمندگی دور ہو گئی مگر اصم نے پھر اپنی اس بات کو نباہنے کے لئے اپنے آپ کو ہمیشہ بہر بنائے رکھا۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ تنبیہ پوشیدہ ہے کہ ہر عقل مند انسان کو چاہئے کہ جب وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب گیری کا ارادہ کرے تو اپنے دل میں سوچے کہ آیا یہ عیب یا اسی طرح کا کوئی اور عیب میری ذات میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اگر وہ اپنے آپ کو کسی عیب سے پاک نہ پائے تو پھر اس کے لئے اس مسلمان بھائی کی عیب گیری سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس عیب سے پاک کرنے پر توجہ دے کسی مرد دانا نے کیا خوب کہا ہے کہ میں اکثر لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ دوسروں کے عیوب تو دیکھ لیتے ہیں لیکن خود ان کے اندر جو عیوب ہیں ان سے وہ اندھے ہیں۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں چھوٹی تھی اور میری شادی کا ابتدائی دور تھا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری ہمجولیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں اور پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف لاتے تو میری ہم جولیاں شرم کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چھپ جاتی تھیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتی تھیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں گویا اس بات کا بیان ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہنا اس کے جائز جذبات و شوق کا لحاظ رکھنا ایک پُر مسرت زندگی کا بنیادی باب ہے جس کے بغیر انسان کو اطمینان و سکون کی دولت نصیب نہیں ہوتی۔ گڑیوں سے کھیلنے کے بارے میں جو حکم و تفصیل ہے۔ باب الولی میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔
٭٭ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے حجرہ مبارک کے دروازہ پر کھڑے تھے اور حبشی لوگ مسجد میں اپنی برچھیوں کے کرتب دکھا رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر سے میرے لئے پردہ کر رکھا تھا تا کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کان اور مونڈھے کے درمیان سے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دیکھتی رہوں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت تک پردہ کئے کھڑے رہے جب تک کہ میں خود وہاں سے نہ ہٹ گئی اس سے تم اس عرصہ کا اندازہ کر لو جس میں ایک صغیر السن لڑکی جو کھیل تماشہ کی شائق ہو کھڑی رہ سکتی ہے (یعنی خیال کرو کہ خورد سال لڑکیاں کھیل تماشہ دیکھنے کی کتنی شائق ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ دیر تک کھڑے رہنا بھی ان کے لئے ایک معمولی بات ہوتی ہے چنانچہ میں بھی اس وقت جتنی دیر کھڑی رہی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی میری وجہ سے پردہ کئے کھڑے رہے، حاصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت دیر تک وہاں کھڑے ہو کر مجھے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دکھاتے رہے)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مسجد سے مراد رحبہ مسجد ہے جو مسجد سے ملا ہوا ایک چبوترہ تھا، یعنی وہ حبشی مسجد میں اپنا کرتب نہیں دکھا رہے تھے بلکہ مسجد سے متصل رحبہ میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اگر نفس مسجد ہی مراد لی جائے یعنی یہ کہا جائے کہ ان کا کھیل کرتب مسجد ہی کے اندر ہو رہا تھا تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ ان کا برچھیوں کا کرتب دکھانا گویا جہاد کی ایک علامتی مشق تھی لہٰذا تیر اندازی کی طرح ان کا یہ کھیل کرتب بھی عبادت کی مانند تھا، ایسے ہی ان کا کھیل دیکھنا بھی پسندیدہ تھا بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے فرمانے لگے کہ جس وقت تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو میں جان جاتا ہوں اور جب تم کسی دنیوی معاملہ میں مجھ سے ناراض ہوتی ہو جیسا کہ میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر خفگی ہو جاتی ہے تو مجھے وہ بھی معلوم ہو جاتا ہے میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کس طرح پہچان لیتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس طرح کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اس طرح کہا کرتی ہو یہ بات نہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پروردگار کی قسم اور جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو اس طرح کہتی ہو کہ یہ بات نہیں ہے ابراہیم علیہ السلام کے پروردگار کی قسم یعنی جب تم مجھ سے خفا ہونے کی حالت میں قسم کھاتی ہو تو میرا نام نہیں لیتیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام کا پروردگار کہتی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! یہ بات ٹھیک ہے، لیکن میں صرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
لیکن میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔ کا مطلب یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں مغلوب العقل ہو جاتی ہوں اگرچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام نہیں لیتی مگر میرے دل میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے پیار و محبت کا جو دریا موجزن ہے اس کے تلاطم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں ہوتی، بلکہ میرا دل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت میں جوں کا توں مستغرق رہتا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لئے بلائے اور وہ عورت انکار کر دے۔ اور پھر شوہر اس کے انکار کی وجہ سے رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں یعنی جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے، جو شخص اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو وہ جو آسمان میں ہے اس سے اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو۔
تشریح
یہ وعید اس صورت میں ہے جب کہ بیوی کوئی شرعی عذر نہ ہونے کے باوجود شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کر دے۔ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حیض ایسا عذر نہیں ہے جس کی موجودگی میں بیوی کو شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کر دینے کا حق پہنچتا ہو، کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک شوہر کو اس صورت میں بھی کپڑوں کے اوپر سے جنسی لطف حاصل کرنا (یعنی بدن سے بدن ملانا اور بوسہ وغیرہ لینا) جائز ہے اور بعض علماء کے نزدیک شرم گاہ کے علاوہ جسم کے بقیہ حصوں سے لطف اندوزی جائز ہے۔
صبح تک غالب کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی اکثر یہ صورت حال چونکہ رات میں پیش آتی ہے اس لئے صبح تک کا ذکر کیا گیا ورنہ اگر شوہر کی طرف خواہش اور بیوی کی طرف سے انکار کی یہ صورت حال دن میں پیش آئے اور اس کی وجہ سے شوہر دن بھر ناراض رہے تو فرشتے اسی طرح شام تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
وہ جو آسمان میں ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کا حکم آسمانوں میں جاری ہے۔ یا وہ ذات جس کی آسمانوں میں عبادت کی جاتی ہے اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یوں تو اللہ تعالیٰ زمین اور زمین کی ساری مخلوقات کا بھی معبود اور آسمان اور آسمان کی ساری مخلوقات کا بھی معبود ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وھو الذی فی السماء الٰہ وفی الارض الہ)، اور وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے۔
لیکن حدیث میں صرف آسمان کا معبود اس لئے کہا گیا ہے کہ زمین کی بہ نسبت آسمان زیادہ شرف رکھتا ہے اور صرف آسمان کا ذکر اظہار مقصد کے لئے کافی ہے تاہم یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جو آسمان میں ہے سے فرشتے مراد ہوں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے اور جب جنسی جذبات کی تسکین کے بارے میں خاوند کی ناراضگی کی یہ اہمیت ہے تو کسی دنیوی معاملہ میں خاوند کی ناراضگی کی کتنی اہمیت ہو گی۔
اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ایک سوکن ہے اگر میں اس کے سامنے اپنے خاوند کی کسی ایسی چیز کا اظہار کروں جو اس نے مجھے نہیں دی ہے تو کیا یہ گناہ ہے؟ یعنی میرا خاوند مجھے جو کچھ دیتا ہے اگر میں اپنی سوکن کو جلانے کے لئے اس کے سامنے اس چیز کو زیادہ کر کے بیان کروں کہ دیکھو مجھے تم سے زیادہ ملتا ہے تو کیا اس میں کوئی برائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں بہت بری بات ہے کیونکہ نہ دی ہوئی چیز کا اظہار کرنے والا دو جھوٹ موٹ کے کپڑے پہننے والے کے مانند ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دو کپڑوں سے مراد چادر اور تہبند ہیں اور جھوٹ موٹ کے کپڑے پہننے والے سے وہ شخص مراد ہے جو کسی کا مانگا ہوا یا کسی کی امانت کا کپڑا پہنے اور ظاہر یہ کرے کہ گویا وہ کپڑے اسی شخص کے ہیں یا وہ شخص مراد ہے جو زاہدوں اور بزرگوں کا لباس پہنے حالانکہ واقعۃً اسے زہد و بزرگی سے کوئی نسبت نہ ہو بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حدیث میں اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو ایسا قمیص و کرتہ پہنے جس کی آستینوں کے نیچے دو اور آستینیں لگی ہوئی ہوں تا کہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ دو کپڑے پہن رکھے ہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عرب میں ایک شخص تھا جو محض اس لئے وہ بہت عمدہ اور نفیس کپڑے پہنتا تھا تاکہ لوگ اسے عزت و احترام کی نظر دیکھیں اور اگر وہ کوئی جھوٹی گواہی دے تو کوئی آدمی اس کی کسی گواہی کو جھوٹ نہ جانے لہٰذا حدیث میں اسی شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا اور اسی زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتیس راتوں تک بالا خانہ ہی پر رہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیچے تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو ایک مہینہ کا ایلاء کیا تھا اور مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے پھر آپ انتیس دن کے بعد کیوں اتر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ (بخاری)
تشریح
ایلاء کے لغوی معنی ہیں قسم کھانا اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس بات کی قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زیادہ تک اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا یعنی اس سے جماع نہیں کروں گا اگر قسم پوری ہو جائے یعنی وہ شخص اپنی قسم کے مطابق چار مہینہ تک یا اس سے بھی زائد اس مدت تک جو اس نے متعین کی ہو، اپنی بیوی کے پاس نہ جائے تو طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اگر وہ قسم پوری نہ کرے یعنی اس مدت کے پوری ہونے سے پہلے بیوی کے پاس چلا جائے تو ایلاء ساقط ہو جاتا ہے اور اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ واجب ہو جاتا ہے یا جزا لازم ہو جاتی ہے اور اگر کسی شخص کے نکاح میں کسی کی لونڈی ہو یعنی اس کی بیوی آزاد عورت نہ ہو بلکہ کسی کی لونڈی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرے تو اس کی کم سے کم مدت بجائے چار مہینہ کے دو مہینہ ہو گی اور اگر کسی شخص نے آزاد عورت کے حق میں چار مہینہ سے کم اور لونڈی کے حق میں دو مہینہ سے کم مدت کے لئے قسم کھائی تو یہ ایلاء شرعی نہیں کہلائے گا چنانچہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف جس ایلاء کی نسبت کی گئی ہے وہ شرعی ایلاء نہیں ہے۔ بلکہ ایلاء لغوی مراد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ قسم کھائی تھی کہ میں اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا جس کا سبب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ زیادہ نفقہ کا مطالبہ کیا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سخت ناگواری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کے ساتھ یہ عہد کیا کہ میں ان بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا انہیں دنوں میں یہ حادثہ پیش آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے سے گر پڑے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پائے مبارک میں چوٹ آ گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مہینہ بالا خانہ پر ہی رہے نیچے نہیں آئے مگر وہ مہینہ غالباً انتیس دن کا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتیس دن پر اکتفا کیا اور نیچے تشریف لے آئے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں سے ایک مہینہ کی علیحدگی اختیار کئے ہوئے مکان میں گوشہ نشین تھے تو ایک دن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت کے طلب گار ہوئے انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازہ پر لوگ جمع ہیں۔ اور کسی کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں مل رہی مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں چلے گئے پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت مانگی ان کو بھی اجازت مل گئی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس حالت میں پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اردگرد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویاں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت غمگین اور خاموش تھے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ اس وقت مجھے کوئی ایسی بات کہنی چاہئے۔ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنس پڑیں، چنانچہ انہوں کہا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ دیکھیں کہ خارجہ کی بیٹی یعنی میری بیوی مجھ سے روٹی پانی کا خرچ معمول سے زیادہ طلب کرے تو میں کھڑا ہو کر اس کی گردن پر مار لگاؤں۔ حضرت عمر نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنس پڑے اور پھر فرمایا کہ یہ میری عورتیں جنہیں تم میرے اردگرد بیٹھی دیکھ رہے مجھ سے معمول سے زیادہ خرچ مانگ رہی ہیں یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ کی گردن پر مارنے لگے، اسی طرح حضرت عمر بھی کھڑے ہوئے اور وہ بھی اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کی گردن پر مارنے لگے اور پھر ان دونوں یعنی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا تم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس چیز کا مطالبہ کر رہی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس موجود نہیں ہے یعنی یہ بات کتنی غیر مناسب ہے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مالی حالت جانتی ہو اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اتنے خرچ کا مطالبہ کرتی ہو جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورا کرنے پر قادر نہیں ہیں کیا تمہارا یہ مطالبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف نہیں ہے ان عورتوں نے کہا کہ بے شک ہم نے بے جا مطالبہ کیا تھا جس پر ہم نادم ہیں اور آئندہ کے لئے ہم عہد کرتی ہیں کہ خدا کی قسم اب ہم کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نہ ہو۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چونکہ علیحدگی کی قسم کھا لی تھی اس لئے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مہینہ تک یا انتیس دن تک اپنی بیویوں سے علیحدہ رہے (اس جگہ حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا کہ حضرت جابر نے یہاں ایک مہینہ کہا تھا یا انتیس دن کہا تھا) پھر یہ آیات۔ (یٰٓاَیهَا النَّبِی قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَینَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحاً جَمِیلاً 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْراً عَظِیماً29) 33۔ الاحزاب:28۔ 29)۔ تک نازل ہوئی حضرت جابر کہتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب سے پہلے حضرت عائشہ سے رابطہ قائم کیا کیونکہ تمام ازواج مطہرات میں وہی سب سے زیادہ عقل مند اور افضل تھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ عائشہ میں تمہارے سامنے ایک بات پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ اس کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کر لو۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! فرمائیے وہ کیا بات ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے سامنے مذکورہ بالا آیت پڑھی، حضرت عائشہ نے یہ آیت سن کر کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ لوں یعنی مشورہ تو اس معاملہ میں کیا جاتا ہے جس میں کوئی تردد ہو جب کہ اس معاملہ میں مجھے کوئی تردد نہیں ہے۔ بلکہ میں اللہ اور اللہ کے رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کر لیا یعنی میں اس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مرضی وخواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہوں کہ اسی میں میرے لئے دنیا کی بھی بھلائی ہے اور آخرت کی کامیابی بھی ہے مگر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو کچھ عرض کیا ہے اس کا ذکر اپنی کسی اور بیوی سے نہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی بیوی مجھ سے یہ پوچھے گی تو میں اس کے سامنے ضرور ذکر کروں گا، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں کسی کو رنج پہنچاؤں یا کسی کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا کروں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں مخلوق خدا کو دین کے احکام سکھاؤں اور آسانی (یعنی دینی دنیوی راحت) سے ہمکنار کروں (مسلم)
تشریح
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس حال میں پایا الخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے کیونکہ اگر پردہ واجب ہو چکا ہوتا تو نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس طرح زنانہ خانہ میں عورتوں کے سامنے جاتے اور نہ عورتیں ان کے سامنے ہوتیں۔
جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنس پڑیں اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ میں کوئی دلچسپ بات کہہ دوں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غم و ملال زائل ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو جائیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست و عزیز کو غمگین دیکھے تو وہ اس کے سامنے کوئی بات ذکر کرے جس سے وہ ہنس پڑے اور خوش ہو جائے اور خود بھی اس بات میں شریک ہو کر اپنا رنج و غم بھول جائے چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنے کسی صحابی کو غمگین دیکھتے تو اس کو خوش طبعی اور ہنسی مذاق کے ذریعہ خوش کر دیتے تھے۔
حدیث میں جس آیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے
آیت (یٰٓاَیهَا النَّبِی قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَینَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحاً جَمِیلاً 28 وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْراً عَظِیماً 29) 33۔ الاحزاب:29-28)۔
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ (میں نے تو فقر کو اختیار کیا ہے) اگر تم میرے فقر پر راضی نہیں ہو بلکہ دنیا کی آرام دہ زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو مجھے بتا دو اور آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کر دوں (یعنی ہمیشہ کے لئے تم سے علیحدگی اختیار کر لوں) اور اگر تم میرے فقر پر راضی ہو اور یہ چاہتی ہو کہ تمہیں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رضا مندی حاصل ہو اور جنت تمہارا ٹھکانا بنے تو سن لو کہ تم میں جو نیکو کاری کرنے والی ہیں ان کے لئے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے (یعنی تمہاری اس مشقت کے عوض جو تمہیں میری فقر و فاقہ کی زندگی کی رفیق بننے میں اٹھانی پڑے گی اللہ تعالیٰ تمہیں بے اندازہ اجر و ثواب عطا کرے گا۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیویوں میں سب سے پہلے حضرت عائشہ سے رابطہ قائم کیا اور ان کے سامنے اس آسمانی ہدایت کو رکھنے سے پہلے ان پر واضح کر دیا کہ میں تمہارے سامنے جو ہدایت و ضابطہ رکھنے والا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کا حکم اس لئے دیا کہ حضرت عائشہ اگرچہ سب سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند تھیں مگر بہرحال صغیر السن تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ خوف تھا کہ کہیں عائشہ کم عمری کے جذبات میں نہ بہہ جائیں اور وہ دنیا کی عیش و عشرت کی خاطر مجھے چھوڑ کر آخرت کی ابدی سعادتوں سے منہ نہ موڑ لیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس سے صرف عائشہ ہی کو نقصان اور تباہی سے دو چار ہونا نہیں پڑے گا، بلکہ ان کے والدین کو بھی سخت اذیت اور تکلیف پہنچے گی لیکن اگر اس معاملہ میں اپنے والدین سے مشورہ کریں تو وہ انہیں وہی صلاح دیں گے جو ان کی دنیا اور ان کے دین کی بھلائی اور بہتری کے مطابق ہو گی۔ مگر یہ حضرت عائشہ کی فطری سعادت کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے والدین کے مشورہ کے بغیر اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ میں دنیا کی آرام دہ زندگی پر آخرت کی ابدی سعادتوں کو ترجیح دیتی ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی مرضی و منشا ہی کو اختیار کرتی ہوں۔
حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ جو درخواست کی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو کچھ جواب دیا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی کسی اور بیوی سے ذکر نہ کریں تو ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس موقعہ پر کوئی بیوی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فقر پر راضی نہ ہو کہ دنیا کی آرام دہ زندگی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علیحدہ ہو جائے اس لئے انہوں نے سوچا کہ اگر کسی بیوی کو میرے اس ایمان و یقین سے بھرپور فیصلہ کا علم ہوا تو شاید اسے بھی راہنمائی مل جائے اور وہ بھی ایسا ہی فیصلہ کرے لیکن اگر میرے اس فیصلہ سے لاعلمی رہے گی تو بہت ممکن ہے کہ کوئی بیوی دنیا کے عیش و آرام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پر مشقت رفاقت پر ترجیح دے اس لئے اچھا ہی ہو گا اگر کوئی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح سے نکل جائے گویا حضرت عائشہ کی اس خواہش کا محرک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کی وہ بے پناہ محبت تھی جس میں وہ کسی دوسری عورت کو شریک دیکھنا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ لیکن بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں تمام بیویوں کی بھلائی و برائی یکساں حیثیت رکھتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ ایک بیوی تو آخرت کی سعادتوں سے نوازی جائے اور دوسری بیوی دنیا کو اختیار کر کے تباہی کے راستہ پر لگ جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ان پر واضح کر دیا، کہ مجھ سے جو بھی بیوی پوچھے گی میں اس کو بتا دوں گا کیونکہ اس کی بھلائی اسی میں پوشیدہ ہے اگر میں کسی کو نہ بتاؤں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں نے اس تئیں شفقت کا رویہ نہیں اپنایا اور اس کو وہ راستہ نہیں دکھایا جو اس کی راحت، اس کی بھلائی اور اس کی اخروی فلاح کے لئے ضروری ہے حالانکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث نہیں کیا ہے کہ میں لوگوں کے حق میں بد خواہی کروں یا کسی کو تکلیف و مصیبت اور رنج و غم میں مبتلا کروں اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ کائنات انسانی کے ہر فرد کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی تعلیم دوں اور ہر انسان کو اس کے دینی دنیاوی معاملات میں آسانی و سہولت کی راہ دکھاؤں۔
٭٭ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں ان عورتوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی جو اپنے نفس کو رسول اللہ کے لئے ہبہ کر دیتی تھیں چنانچہ میں کہا کرتی تھی کہ کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کر سکتی ہے؟ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی۔ اے محمد! ان عورتوں میں سے جس کو آپ چاہیں علیحدہ کر دیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس جگہ دیں اور جن عورتوں کو آپ نے علیحدہ کر دیا ہے اگر ان میں سے کسی کو آپ بلائی تو کوئی گناہ نہیں۔ تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پروردگار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مرضی و خواہش کو جلد پورا کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو عورتیں اپنا نفس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہبہ کر دیتی تھیں ان کو حضرت عائشہ اس لئے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں کہ کسی عورت کا اپنے نفس کو کسی غیر مرد کو ہبہ کر دینا گویا عورت کی عزت و شرف کے منافی ہے اور اس کی حرص و قلت حیاء پر دلالت کرتا ہے اگرچہ جو عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنا نفس ہبہ کر دیتی تھیں ان عورتوں کے نقطہ نظر سے اور واقعۃً بھی ان کا یہ ہبہ ان کے لئے باعث عزت ہوتا تھا جسے وہ اپنی خوش قسمتی تصور کرتی تھیں۔
کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کر سکتی ہے حضرت عائشہ یہ بات ان عورتوں کے ہبہ کی مخالفت میں کہا کرتی تھیں جس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کسی عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا نفس کسی غیر مرد کو ہبہ کر دے اور ایک روایت میں حضرت عائشہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ کیا عورت اپنا نفس ہبہ کرتے ہوئے کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتی؟
مذکورہ آیت کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنا ہم بستر بنائیں اور جس کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج میں سے جس کو چاہیں اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیں یعنی طلاق دے دیں اور یا یہ مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی امت کی عورتوں میں جس سے چاہیں نکاح کر لیں اور جس سے چاہیں نکاح نہ کریں۔
اور امام بغوی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت دراصل اس آیت (لَا یحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ) 33۔ الاحزاب:52) کی ناسخ ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ازواج مطہرات کے علاوہ اور بھی عورتیں مباح رکھی تھیں۔
مشہور مفسر امام بغوی یہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ آیت کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ آیت دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات کی باری کے سلسلہ میں نازل ہوئی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنا پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھی واجب تھا لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ وجوب آپ کے حق میں ساقط ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار مل گیا کہ اپنی بیویوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باری سے الگ کر دیا ہے اور ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلانا اور ہم بستر ہونا چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا کر سکتے ہیں اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے امت کے دوسرے مردوں پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فضیلت و برتری ظاہر کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے لئے باری مقرر کرنے کے حکم پر عمل نہ کرنا آپ کے لئے مباح کر دیا کہ جس بیوی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خواہش ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی باری کے علاوہ بھی اپنا ہم بستر بنا سکتے ہیں اور اگر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی کسی بیوی کو اس باری میں بھی اپنے پاس سلانا نہ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اس کی بھی اجازت ہے۔
(ما اریٰ ربک) الخ کے معنی یہ ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس چیز کی خواہش کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پروردگار اسے جلد پورا کر دیتا ہے۔ علامہ نووی کہتے ہیں اس بات سے حضرت عائشہ کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض احکام کی پابندی کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں نرم کر دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر عمل نہ کرنے کی آسانی فرما دیتا ہے اسی لئے مذکورہ بالا معاملہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی مرضی و خواہش کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون خاتون تھیں جنہوں نے اپنا نفس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہبہ کیا تھا؟ چنانچہ بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ تھیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ حضرت ام شریک تھیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ حضرت زینب بنت خزیمہ تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ خولہ بنت حکیم تھیں لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ کئی عورتیں تھیں۔ وحدیث جابر (اتقوا اللہ فی النساء ذکر فی قصۃ حضۃ الوداع)۔ اور حضرت جابر کی حدیث (اتقو اللہ فی النساء) الخ حجۃ الوداع کے بیان میں نقل کی جا چکی ہے۔
حضرت عائشہ جو ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھیں کہتی ہیں کہ اس سفر میں ایک موقع پر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنے پیروں کے ذریعہ دوڑی یعنی ہم دونوں نے دوڑ میں باہم مقابلہ کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آگے نکل گئی پھر جب میں عرصہ دراز کے بعد فربہ ہو گئی تو پھر ہم دونوں کی دوڑ ہوئی اور اس مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے آگے نکل گئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس مرتبہ میرا آگے نکل جانا پہلی مرتبہ تمہارے آگے نکل جانے کے بدلہ میں ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ تم جیت گئی تھیں اس مرتبہ میں جیت گیا لہٰذا دونوں برابر رہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
اپنے پیروں کے ذریعہ سے اس بات کو مؤکد کرنا مقصود ہے کہ میں کسی سواری پر بیٹھ کر نہیں دوڑی تھی بلکہ اپنے پیروں پر دوڑی تھی چنانچہ طیبی نے یہی فرمایا ہے کہ اس جملہ سے تاکید مقصود ہے جیسا کہ کوئی یوں کہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے یا میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔
یہ روایت اپنی بیویوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حسن معاشرت کی ایک مثال ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج کے ساتھ ایک پر مسرت اور خوشگوار زندگی بسر کرتے تھے اور اپنی بیویوں کے حق میں انتہائی مہربان اور ہنس مکھ تھے۔ نیز اس روایت میں امت کے لئے بھی یہ سبق ہے کہ اپنی عائلی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس حسن معاشرت کی پیروی کی جائے اور اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور باہمی پیار و محبت کے ساتھ رہا جائے۔
قاضی خان رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ سباق یعنی باہمی دوڑ وغیرہ کا مقابلہ چار چیزوں میں جائز ہے اونٹ میں، گھوڑے خچر میں، تیر اندازی میں اور پیادہ پا چلنے دوڑے نے میں۔ نیز یہ مقابلہ اگر کسی شخص سے کسی شرط کے ساتھ ہو تو وہ ایسی صورت میں جائز ہو گا جب کہ دونوں مقابل میں سے صرف ایک طرف سے شرط ہو یعنی مثلاً زید اور بکر کے درمیان مقابلہ ہوا اور زید بکر سے یہ کہے کہ اگر میں جیت گیا تو میں اتنے روپیہ یا فلاں چیز لے لوں گا اور اگر میرے مقابلہ تم جیت گئے تو تمہیں کچھ نہیں ملے گا اور اگر دونوں طرف سے شرط ہو یعنی دونوں مقابل ایک دوسرے کے ساتھ یہ شرط کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی جیت جائے گا اسے اتنے روپے یا فلاں چیز ملے گی تو یہ حرام ہے کیونکہ یہ جوا ہو جاتا ہے ہاں اگر دونوں مقابل ایک محلل کو یعنی دونوں کی شرط حلال کرانے والے ایک تیسرے شخص کو اپنے میں شامل کریں تو اس صورت میں دونوں طرف سے شرط بھی جائز ہو جائے گی۔ محلل کو اپنے میں شامل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً زید اور بکر آپ میں یہ شرط کریں کہ ہماری باہمی دوڑ میں ہم دونوں سے جو بھی آگے نکل جائے گا تو اپنے روپے یا فلاں چیز اسے مل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک تیسرے شخص مثلاً خالد کو بھی اپنی دوڑ میں شامل کر لیں اور یہ طے ہو جائے کہ اگر یہ تیسرا شخص یعنی خالد آگے نکل جائے گا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا یہ صورت جائز ہے اور حلال ہے لیکن جائز ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں جیتنے والے کو جو چیز ملے گی وہ اس کے حق میں حلال اور طیب مال ہو گا نہ یہ کہ وہ اس چیز کا شرعی طور پر کوئی استحقاق رکھے گا کیونکہ شریعت کی نظر میں جیتنے والا محض اس مقابلہ سے اس روپیہ پر کوئی قانونی حق نہیں رکھتا دوڑ کے انعامی مقابلے جائز ہیں یعنی کسی فرد یا ادارہ کی طرف سے بطور انعام کچھ روپے یا کوئی چیز مقرر کر کے دوڑنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ تم میں سے جو شخص بھی آگے نکل جائے گا اسے یہ روپے یا چیز دی جائے گی فقہاء نے اسے جائز کہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل بیوی بچوں اقرباء اور خدمت گاروں کے حق میں بہترین ہو اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں یعنی اپنے اہل و عیال سے جتنا بہتر سلوک میں کرتا ہوں اپنے اہل و عیال کے ساتھ اتنا بہتر سلوک تم میں سے کوئی بھی نہیں کرتا اور جب تمہارا صاحب مر جائے تو اس کو چھوڑ دو۔ (ترمذی و دارمی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابن عباس سے لفظ لاھلی تک نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کے معنی یہ ہیں کہ خدا اور خدا کی مخلوق کے نزدیک تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی اپنے بچوں، اپنے عزیزوں و اقارب اور اپنے خدمت گاروں و ماتحتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرتا ہے کیونکہ اس کا بھلائی اور اچھا سلوک کرنا اس کی خوش اخلاقی و خوش مزاجی پر دلالت کرتا ہے۔
اور جب تمہارا صاحب مر جائے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارا کوئی عزیز و رشتہ دار یا دوست وغیرہ مر جائے تو اس کی برائیوں کو ذکر کرنا چھوڑ دو۔ گویا اس جملہ کے ذریعہ یہ تعلیم مقصود ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے اٹھ چکے ہیں ان کی غیبت نہ کرو۔ جیسا کہ ایک روایت میں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے مرے ہوئے لوگوں کو بھلائی کے ساتھ یاد کرو یعنی صرف ان کی خوبیاں ہی ذکر کرو ان کی برائیوں کا تذکرہ نہ کرو۔
بعض علماء نے اس جملہ کی یہ مراد بیان کی ہے کہ جب کوئی شخص مر جائے تو اس کی محبت اور اس کی موت پر رونا دھونا چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ اب اس کے ساتھ تمہارا کوئی جسمانی تعلق باقی نہیں رہا ہے۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جملہ میں صاحب سے اپنی ذات مبارک مراد رکھی ہے جس کا مطلب امت کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو تم تاسف اور تحیر و اضطراب کا اظہار نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے جس ذات پاک نے میری حیات کو تمہاری ہدایت و سعادت کا ذریعہ بنایا تھا، وہی ذات پاک میرے انتقال کے بعد بھی تمہیں اسی ہدایت و سعادت پر قائم رکھے گی۔
بعض حضرات نے اس جملہ کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو تم مجھے چھوڑے رکھنا بایں معنی کہ میرے اہل بیت، میرے صحابہ اور میری شریعت کے متبعین یعنی علماء و اولیاء کو ایذاء پہنچا کر مجھے ایذاء پہنچانے کا سبب نہ بننا کیونکہ اگر تم انہیں تکلیف و ایذاء پہنچاؤ گے تو ان کی تکلیف سے مجھے تکلیف پہنچے گی۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس عورت نے اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے ادا اور قضاء روزے رکھے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی یعنی فواحش اور بری باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا اور اپنے خاوند کی ان چیزوں میں فرمانبرداری کی جن میں فرمانبرداری کرنا اس کے لئے ضروری ہے تو اس عورت کے لئے یہ بشارت کہ وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے، اس روایت کو ابو نعیم نے حلیۃ الابراء میں نقل کیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں کسی کو یہ حکم کر سکتا کہ وہ کسی غیر اللہ کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ رب معبود کے علاوہ اور کسی کو سجدہ کرنا درست نہیں ہے اگر کسی غیر اللہ کو سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر اس کے خاوند کے بہت زیادہ حقوق ہیں جن کی ادائے گی شکر سے وہ عاجز ہے گویا اس ارشاد گرامی میں اس بات کی اہمیت و تاکید کو بیان کیا گیا ہے کہ بیوی پر اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری واجب ہے۔
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی و خوش ہو، تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ (ترمذی)
تشریح
جو شوہر عالم و متقی ہو اس کی رضا مندی اور خوشنودی کا یہ اجر بیان کیا گیا ہے، فاسق و جاہل شوہر کی رضامندی خوشنودی کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔
حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے (یعنی جماع کے لئے) بلائے تو بیوی کو شوہر کے پاس پہنچ جانا چاہئے اگرچہ وہ چولہے کے پاس ہو۔ (ترمذی)
تشریح
اگرچہ وہ چولہے کے پاس ہو کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کسی ضروری کام میں مشغول ہو اور کسی چیز کے نقصان کا احتمال بھی ہو تب بھی شوہر کی اطاعت کی جائے اور اس کے بلانے پر فوراً اس کے پاس پہنچ جانا چاہئے مثلاً بیوی چولہے کے پاس ہو اور روٹی توے پر ڈال رکھی اور اسی حالت میں شوہر جماع کے لئے بلائے تو اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ آٹے روٹی کا نقصان ہو جائے گا شوہر کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچ جائے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو اس کی جنت والی بیوی یعنی بڑی آنکھوں والی حور کہتی ہے کہ تجھ پر اللہ کی مار پڑے (یعنی اللہ تجھے جنت اور اپنی رحمت سے دور رکھے) اپنے شوہر کو تکلیف نہ پہنچا کیونکہ وہ دنیا میں تیرا مہمان ہے جو جلد ہی تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس جنت میں آئے گا۔ (ترمذی اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے)
تشریح
ایک دوسری روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ حدیث (لعن الملائکۃ لعاصیۃ الزوج) یعنی فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے ان دونوں روایتوں سے جہاں شوہر کی نافرمانی کرنے یا اس کو تکلیف پہنچانے کی سخت برائی ثابت ہو رہی ہے وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ ملاء اعلیٰ یعنی آسمان کے رہنے والوں کے علم میں آ جاتا ہے۔
حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس کے شوہر پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اس کو بھی پہناؤ یعنی جس طرح تم کھاؤ پہنو اسی طرح اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔ اس کے منہ پر نہ مارو نہ اس کو برا کہو اور نہ یہ کہو کہ اللہ تیرا برا کرے اور اس سے صرف گھر کے اندر ہی علیحدگی اختیار کرو۔ (احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ)
تشریح
بطور خاص منہ پر نہ مارنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تمام اعضا میں منہ ہی افضل ہے اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کہ کسی معقول وجہ کی بنیاد پر مثلاً فواحش کے صدور پر یا فرائض ترک کر دینے پر اور یا مصلحت تادیب کے پیش نظر منہ کے علاوہ کسی اور جگہ پر مارے تو جائز ہے اور منہ پر مارنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد و عورت انسانی نقطہ نظر سے یکساں مرتبہ کے حامل ہیں اور اسلام کی نظر میں عورت کو بھی وہ شرف و مرتبہ حاصل ہے جو ایک مرد کو ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک دوسرے کے رفیق حیات بن جاتے ہیں تو ان دونوں کی شرعی اور معاشرتی حیثیت میں تھوڑا سا فرق ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ خاوند کو قدرتی طور پر ایک مخصوص قسم کی برتری حاصل ہو جاتی ہے جس کا تعلق انسانی شرف و مرتبہ کے فرق و امتیاز سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے باہمی رشتہ کے تقاضوں اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائے گی سے ہوتا ہے چنانچہ شوہر اپنی اسی مخصوص برتری کی بنیاد پر بیوی کو ان معاملات میں اپنے حکم کا پابند بنانے کا اختیار رکھتا ہے جن کا شریعت نے اسے استحقاق عطا کیا ہے یا جن کا تعلق شرع فرائض و واجبات کی ادائے گی سے ہے لہٰذا اگر کوئی بیوی ان معاملات میں اپنے شوہر کے حکم کی پابندی نہ کرے اور شوہر کے کہنے سننے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا ہے، یعنی زبانی نصیحت وتنبیہ کا کوئی اثر قبول نہ کرتی ہو اور شوہر کو یقین ہو جائے کہ اب یہ بغیر سختی کے راہ راست پر نہیں آئے گی تو اسے بیوی کو مارنے کی اجازت ہو گی لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ ہونی چاہئے کہ بیوی کی ایسی نافرمانی کہ جس پر اس کا شوہر اس کو مار سکتا ہے صرف انہی امر میں معتبر ہو گی جن کی شریعت نے وضاحت کر دی ہے چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو چار باتوں پر مار سکتا ہے۔
١۔ شوہر کی خواہش و حکم کے باوجود بیوی زینت و آرائش نہ کرے۔
٢۔ شوہر جماع کا خواہش مند ہو مگر بیوی کوئی عذر جیسے حیض وغیرہ نہ ہونے کے باوجود انکار کر دے۔
٣۔ اسلامی فرائض جیسے نماز پڑھنا چھوڑ دے، جنابت و ناپاکی کے بعد بیوی کا نہ نہانا بھی ترک فرائض کے حکم میں ہے یعنی اگر بیوی ناپاکی اور حیض کا غسل کرنے سے انکار کرتی ہو تو شوہر اس پر بھی مار سکتا ہے۔
۴۔ بیوی اپنے شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر گھر سے باہر جاتی ہو۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی نافرمانی یا اس کی کسی بات پر ناراضگی کی وجہ سے اس سے جدائی اختیار کرنے ہی میں مصلحت ہو تو ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کرنے کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنے بستر پر اس سے جدائی اختیار کر لو یعنی اس کے ساتھ لیٹنا چھوڑ دو اور رات کو گھر میں نہ رہو تا کہ وہ تمہارے اس طرز عمل کو اپنے حق میں سزا سمجھ کر راہ راست پر آ جائے اور ہمیشہ کی جدائی یعنی طلاق کی نوبت نہ آئے چنانچہ قرآن کریم میں اس بات کو یوں فرمایا گیا ہے۔ آیت (واللاتی تخافون نشوزہن فعظوہن واہجروہن فی المضاجع واضربوہن)۔ (النساء ٤: ٣٤) اگر جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بد دماغی یعنی نافرمانی کا احتمال ہو تو ان کو پہلے زبانی نصیحت کرو اور پھر ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو۔ یعنی ان کے پاس مت لیٹو۔ اور پھر اعتدال سے ان کو مارو۔
حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ایک عورت ہے جس کی زبان میں کچھ ہے یعنی وہ زبان دراز ہے اور فحش بکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر تم اس کی زبان درازی اور فحش گوئی کی ایذاء پر صبر نہیں کر سکتے تو بہتر یہ ہے کہ تم اس کو طلاق دے دو گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم بطور اباحت دیا میں نے عرض کیا کہ اس کے بطن سے میرے ہاں اولاد ہے اور اس کے ساتھ پرانی رفاقت اور صحبت ہے اس لئے اس کو طلاق دینا بھی میرے لئے مشکل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر اس کو حکم کرو، یعنی اس کو زبان درست کرنے اور اپنی عادات و اطوار ٹھیک کرنے کی نصیحت کرو، اگر اس میں کچھ بھی بھلائی ہو گی تو وہ تمہاری نصیحت کو قبول کر لے گی اور اس کو لونڈی کی مار نہ مارو۔ (ابو داؤد)
تشریح
(یقول عظہا) کے الفاظ راوی کے ہیں جن کے ذریعہ وضاحت مقصود ہے کہ اس ارشاد فمرہا (تو پھر اس کو حکم کرو) سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ تھی کہ اس کو نصیحت کرو۔ حدیث کے آخری جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو زبانی نصیحت وتنبیہ کے ذریعہ زبان درازی اور فحش گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرو اگر اس پر زبانی نصیحت و تنبیہ کا کوئی اثر نہ ہو تو پھر اس کو مارو لیکن بے رحمی کے ساتھ نہ مارو بلکہ ہلکے سے تھوڑا سا مارو۔
اور حضرت ایاس ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کی لونڈیوں (یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد حضرت عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چونکہ عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے اس لئے عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہو گئیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کی کہ وہ ان کو مارتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں یہ لوگ جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں (ابو داؤد ابن ماجہ دارمی)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں یا مطلق مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں بلکہ بہتر لوگ وہی ہیں جو اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ان کی ایذاء اور تکلیف دہی پر صبر و تحمل کرتے ہیں یا ان کو اتنا زیادہ نہیں مارتے جو ان کی شکایت کا باعث ہو بلکہ بطور تادیب تھوڑا سا مارتے ہیں۔
شرح السن میں لکھا ہے کہ اس روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے حقوق نکاح کی ادائے گی سے انکار کرے تو اس کو مارنا مباح ہے لیکن بہت نہیں مارنا چاہئے۔
پچھلے صفحات میں حضرت حکیم ابن معاویہ کی جو روایت ٢٠ گزری ہے اور اس کی تشریح میں جو آیت نقل کی گئی ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بطور تادیب اپنی بیویوں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ اس روایت سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ؟ گویا دونوں میں بظاہر تضاد و تعارض معلوم ہوتا ہے لہذا اس تضاد و تعارض کو حضرت امام شافعی سے منقول اس وجہ تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے عورتوں کو مارنے سے منع کیا ہو گا پھر جب عورتیں شوہروں پر غالب ہو گئیں اور ان کی جرات و دلیری بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مارنے کی اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی توثیق میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن اس کے بعد جب عورتوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی کہ ان کے خاوند ان کو بہت مارتے ہیں تو آپ نے اعلان کیا کہ اگرچہ بیوی کی بد اطواری پر اسکو مارنا مباح ہے لیکن اس کی بد اطواری پر صبر و تحمل کرنا اور ان کو نہ مارنا ہی بہتر و افضل ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ شخص ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے جو کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف یا کسی غلام کو اس کے آقا کے خلاف بدراہ کرے (ابو داؤد)
تشریح
کسی بیوی کو اس کے خاوند کے خلاف یا کسی غلام و لونڈی کو اس کے مالک کے خلاف گمراہ کرنا انتہائی نازیبا فعل ہے چنانچہ اس حدیث کا یہی مطلب ہے کہ وہ شخص ہمارے تابعداروں میں سے نہیں ہے جو کسی بیوی کا دل اس کے خاوند کی طرف سے برا کرے مثلاً بیوی کے سامنے اس کے خاوند کی برائی کرے یا اس کے سامنے کسی اجنبی شخص کی خوبیاں اور بڑائیاں بیان کرے۔ یا اس کو بہکائے کہ اپنے خاوند سے زیادہ مال و اسباب کا مطالبہ کرو یا اپنے شوہر کی خدمت و اطاعت نہ کرو اسی طرح کسی غلام و نوکر کو بہکائے کہ تم اپنے مالک کا گھر چھوڑ کر چلے جاؤ یا اس کی خدمت میں کوتاہی کرو اسی طرح بیوی کے خلاف خاوند کو یا لونڈی کو اس کے مالک کے خلاف یا مالک کو اس کے غلام و لونڈی کے خلاف بہکانا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مؤمنین میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو خوش اخلاق ہو اور اپنے اہل و عیال پر بہت مہربان ہو (ترمذی)
تشریح
خوش اخلاق اور اپنے اہل و عیال پر بہت مہربان مسلمان کو کامل ترین مؤمن اس لئے فرمایا گیا ہے کہ کمال ایمان خوش اخلاقی اور مخلوق خدا بالخصوص اپنے اہل و عیال کے حق میں سراپا مہربان و خوش اخلاق ہو گا۔
٭٭ اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مؤمنین میں کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں بہت زیادہ خوش اخلاق ہو (یعنی پوری مخلوق خدا کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کر) اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے (کیونکہ عورتیں اپنے عجز و کمزوری کی بناء پر زیادہ مہربانی اور مروت کی مستحق ہیں) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے نیز امام ابو داؤد نے اس روایت کو لفظ خلقا تک نقل کیا ہے۔
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک یا غزوہ حنین سے واپس گھر تشریف لائے تو اس وقت ان کے یعنی حضرت عائشہ کے گھر کے دریچہ پر پردہ پڑا ہوا تھا جب ہوا چلی تو اس پردہ کا ایک کونا کھل گیا جس سے عائشہ کے کھیلنے کی گڑیاں نظر آئیں جو اس دریچہ میں رکھی ہوئی تھیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ عائشہ یہ کیا ہے؟ عائشہ نے کہا کہ یہ میری گڑیاں ہیں ان گڑیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے کپڑے یا کاغذ کے دو پر تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر پوچھا کہ ان گڑیوں کے درمیان جو چیز میں دیکھ رہا ہوں یہ کیا بات ہے؟ حضرت عائشہ نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جو گھوڑے تھے ان کے پر تھے) حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میرا یہ جواب سن کر ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچلیاں دیکھیں (ابو داؤد)
تشریح
تبوک یا حنین میں حرف یا راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی کو یقین کے ساتھ یاد نہیں ہے کہ حضرت عائشہ نے اس موقع پر غزہ تبوک کا ذکر کیا تھا یا غزوہ حنین کا؟
تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ سے ٤٦٥ میل کے فاصلہ پر دمشق اور مدینہ کے درمیانی راستہ پر واقع ہے ٩ھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہاں فوج لے کر گئے تھے لیکن دشمن کو مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی اس لئے جنگ نہیں ہو سکی۔
حینین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے راستہ میں واقع ہے اس کو وادی اوطاس بھی کہا جاتا ہے ٨ھ میں فتح مکہ کے کچھ ہی دنوں بعد مشہور غزوہ حنین یہیں ہوا تھا گڑیوں سے بچیوں کے کھیلنے کا جو شرعی حکم ہے اس کی تفصیل باب الولی میں گزر چکی ہے۔
حضرت قیس ابن سعد کہتے ہیں کہ میں کوفہ کے قریب ایک شہر حیرہ پہنچا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ اس کے مستحق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کیا جائے چنانچہ جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا کہ میں حیرہ گیا تو وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کیا جائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے بتاؤ اگر تم میری قبر پر جاؤ تو کیا تم میری قبر کو سجدہ کرو گے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر میری زندگی میں بھی ایسا نہ کرو اگر میں کسی کو یہ حکم کر سکتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورتوں کو حکم کرتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر مردوں کا بہت زیادہ حق مقرر کیا ہے (ابوداؤد) اس روایت کو احمد نے بھی معاذ ابن جبل سے نقل کیا ہے۔
تشریح
حضرت قیس ابن سعد نے جب حیرہ میں لوگوں کو اپنے سردار کو سجدہ کرتے دیکھا تو ان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ اگر یہ لوگ اپنے سردار کی عظمت و مرتبہ کے پیش نظر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو کائنات انسانی میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ عظمت و مرتبہ کا حامل کون شخص ہو سکتا ہے تو کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کیا جائے چنانچہ ان کے اس خیال نے بارگاہ رسالت میں عرض کی صورت اختیار کر لی جہاں اس عرض کو بڑے لطیف انداز میں رد کر دی گیا اور یہ واضح کر دیا گیا کہ انسان کی پیشانی اتنی مقدس ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خالق ہی کے سامنے سجدہ ریز ہو سکتی ہے کسی مخلوق کے سامنے نہیں جھک سکتی خواہ وہ مخلوق کتنی ہی با عظمت و با فضلیت ذات کیوں نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
آیت (لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقہن ان کنتم ایاہ تعبدون) (فصلت ٤١: ٣٧)
نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو سجدہ کرو بلکہ صرف اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر تم اللہ کی عبادت کرتے ہو۔
اور حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر مرد اپنی عورت و کسی معقول چیز پر مارے تو قابل مواخذہ نہیں ہوتا ((ابو داؤد، ابن ماجہ)
تشریح
قابل مواخذہ نہیں ہوتا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو مارنے سے کوئی گناہ لازم نہیں ہوتا کہ جس پر اس سے دنیا اور آخرت میں باز پرس ہو بشرطیکہ بیوی کو مارنے کی جو قیود و شرائط ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔
لفظ علیہ کی ضمیر مجرور حرف ما کی طرف راجع ہے اور ما سے مراد نشوز نافرمانی ہے جو اس آیت (وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ) 4۔ النساء:34) میں مذکور ہے لہذا اس جملہ اس چیز پر مارنے کا حاصل یہ ہو گا جو مرد اپنی بیوی کو اس کی نافرمانی پر مارے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرا شوہر صفوان ابن معطل جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھے مارتا ہے اور جب روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اور وہ خود فجر کی نماز اس وقت پڑھتا ہے جب کہ سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جس وقت صفوان کی بیوی یہ شکایت کر رہی تھی اس وقت صفوان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہی موجود تھے راوی کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان سے ان کی بیوی کی ذکر کردہ باتوں کے بارے میں پوچھا تو صفوان نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !میری بیوی کا کہنا کہ جب میں نماز پڑھتی ہوں تو مجھ کو مارتا ہے اس کیوجہ یہ ہے کہ یہ نماز کی ایک ہی رکعت میں یا دو رکعتوں میں دو لمبی لمبی سورتیں پڑھتی ہے حالانکہ میں نے اس کو لمبی لمبی سورتیں پڑھنے سے منع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان کی تصدیق کے لئے فرمایا سورۃ فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنا لوگوں کے لئے کافی ہوتا ہے پھر صفوان نے کہا اور اس کا کہنا کہ جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ تڑوا دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روزے رکھے چلی جاتی ہے (یعنی ہمیشہ نفلی روزے رکھتی ہے رہتی ہے) اور میں ایک جوان آدمی ہوں اور چونکہ رات میں مجھے مباشرت کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے اگر دن میں مجھے جماع کی خواہش ہوتی ہے تو میں صبر نہیں کر سکتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے پھر صفوان نے کہا کہ اور اس کا یہ کہنا کہ میں سورج نکلنے کے وقت نماز پڑھتا ہوں اس کا سبب یہ ہے کہ ہم کام کاج والے لوگ ہیں زیادہ رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے رات میں سونا میسر نہیں ہوتا) اور ہم لوگوں کی یہ عادت ہو گئی ہے کہ جب ہم رات کے آخری حصہ میں سوتے ہیں تو اس وقت جاگتے ہیں جب سورج یا تو نکلنے کے قریب ہوتا ہے یا نکل چکا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عذر سن کر فرمایا کہ صفوان جس وقت آنکھ کھلے نماز پڑھ لو (ابوداؤد ابن ماجہ)
تشریح
صفوان زراعت پیشہ آدمی تھے اور بہت رات گئے تک اپنے کھیتوں اور باغوں میں پانی دیتے تھے اور پھر وہیں پڑ کر سو جاتے تھے اور چونکہ وہاں جگانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اس لیے ان کی آنکھ دیر سے کھلتی تھی اس اعتبار سے وہ گویا معذور تھے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے عذر کی بناء پر ان کو حکم دیا کہ اگر تمہاری آنکھ وقت پر نہ کھل سکے تو جب بھی جاگو پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کسی اور کام میں لگو
اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا (یہ دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ جب چوپایہ جانور اور درخت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرتے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و احترام کے مکلف بھی نہیں ہیں) تو ہم ان سے زیادہ اس لائق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو اگر میں کسی کو کسی غیر اللہ کا سجدہ کرنے کا حکم دے سکتا تو یقیناً عورت کو یہ حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اگر اس کا شوہر اس کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو اس عورت کے لئے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لائے (احمد)
تشریح
اپنے پروردگار کی عبادت کرو کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ دراصل عبادت ہے اور عبادت کا مستحق صرف پروردگار ہے اللہ کے علاوہ کوئی بھی ذات خواہ نبی ہی کیوں نہ ہو کسی کا معبود نہیں بن سکتی تو مجھے اپنا مسجود بنا کر گویا مجھے خدا کی بندگی میں شریک کرناچاہتے ہو حالانکہ خدا نے مجھے نبی بنا کر تمہارے درمیان اس لئے نہیں بھیجا ہے کہ میں تم سے اپنی عبادت کرا کر تمہیں شرک کی آلائش میں مبتلا کروں بلکہ میں تو اس دنیا میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں شرک کی ظلمت سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی کے راستہ پر لگا دوں اور تمہیں یہ تعلیم دوں کہ تمہاری اس مقدس پیشانی کو صرف خدا کے سامنے جھکنا چاہئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا قرآن کریم کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آیت (وما کان لبشر ان یؤتیہ اللہ الکتاب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ ولکن کونوا ربانیین) (آل عمران ٣: ٧٩)
کسی آدمی کو شایاں نہیں کہ خدا تو اسے کتاب دین کا فہم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ بلکہ اس کو کہنا چاہئے کہ اے لوگو تم اللہ والے بن جاؤ!
جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اونٹ کے سجدہ کرنے کا سوال ہے تو اس میں کوئی خلجان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اونٹ کا سجدہ کرنا خرق عادت یعنی عادت او قانون قدرت کے خلاف ایک انوکھی بات ہونے کے طور پر تھا جو اونٹ کو اللہ تعالیٰ کے مسخر کر دینے کے سبب واقع ہوا تھا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم و فعل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی دخل نہیں تھا پھر یہ کہ اونٹ معذور محض تھا کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں اور فرشتوں کا حق حضرت علیہ السلام کو سجدہ کرنا اس وجہ سے محل اشکال نہیں ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری پر مجبور تھے اسی طرح اونٹ کو بھی حق تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرے اور وہ اس حکم کی تعمیل پر مجبور تھا۔
اور اپنے بھائی کی یعنی میری تعظیم کرو کا مطلب یہ ہے کہ میری ذات اور میرے منصب کے تئیں تمہاری عقیدت ومحبت کا بس اتنا تقاضہ ہونا چاہئے کہ تم اپنے دل میں میری محبت رکھو اور ظاہر و باطن میں میری اطاعت کرو۔
پہاڑوں کے رنگ کا مقصد ان پہاڑوں کے درمیان فاصلہ کی مسافت ودوری کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے کیونکہ اس طرح کے پہاڑ ایک دوسرے کے قریب نہیں پائے جاتے لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو پہاڑ ایک دوسرے سے بہت دور واقع ہوں اور خاوند اپنی بیوی کو یہ حکم دے کہ ایک پہاڑ سے پتھر اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر جاؤ تو بیوی کو اس سخت حکم کی تعمیل کرنی چاہئے۔ حاصل یہ کہ اگر خاوند اپنی بیوی کو اتنا سخت ترین حکم بھی دے تو بیوی کے یہی لائق ہے کہ وہ اس حکم کو بجا لائے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ایسے تین شخص ہیں جن کی نماز پوری طرح قبول نہیں ہوتی اور نہ ان کی کوئی نیکی اوپر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے ایک تو بھاگا ہوا غلام جب تک کہ وہ اپنے مالکوں کے پاس واپس آ کر ان کے ہاتھ اپنا ہاتھ نہ رکھ دے یعنی جب تک واپس آ کر اپنے آپ کو اپنے مالکوں کے حوالے نہ کر دے اور ان کی اطاعت نہ کرنے لگے اس کی نماز پوری طرح قبول نہیں ہوتی دوسری وہ عورت جس کا خاوند اس سے ناراض ہو اور تیسرا نشہ باز جب تک ہوش میں نہ آئے (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)
تشریح
مالکوں یعنی جمع کے صیغہ میں گویا مالک اور اس کی اولاد کی طرف اشارہ ہے کہ غلام کو صرف اپنے مالک ہی کی نہیں بلکہ اس کی اولاد کی بھی وفاداری کرنی چاہئے۔
ایک اور روایت میں لفظ (زوجہا) کے بعد (حتی یرضاعنہا) کے الفاظ بھی منقول ہیں یعنی جس عورت کا خاوند اس سے ناراض ہو اس کی نماز اس وقت تک پوری طرح قبول نہیں ہوتی اور اس کی کوئی نیکی اوپر نہیں چڑھتی جب تک کہ اس کا خاوند اس سے خوش نہ ہو جائے اس روایت میں ان الفاظ کو اس لئے نقل نہیں کیا کہ یہ مفہوم خود بخود واضح ہے اور مراد یہ ہے کہ یا تو اس کا خاوند اس سے خوش ہو جائے یا اس کو طلاق دیدے۔