مشکوٰة شر یف

عیدین کا بیان

قربانی کا وقت

اور حضرت براء راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے (قربانی کا جانور) نماز سے پہلے ذبح کیا تو گویا اس نے اپنے (محض کھانے کے) واسطے ذبح کیا (اس لئے اسے قربانی کا ثواب حاصل نہیں ہوا) جس آدمی نے نماز کے بعد ذبح کیا تو بلا شبہ اس کی قربانی ادا ہو گئی اور (اس طرح) اس نے مسلمانوں کے طریقے کو اپنایا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

قربانی کا وقت

تشریح

 

 جمہور علماء کا مسلک یہی ہے مگر تعجب ہے کہ اتنی واضح اور صحیح احادیث کے باوجود حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ معلوم کیوں جمہور علماء کے مسلک کے خلاف یہ کہا کہ قربانی کا وقت شروع ہو جانے کی بعد قربانی کر لینی جائز ہے۔ خواہ نماز ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو جیسا کہ ابھی پیچھے ان کا مسلک نقل کیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدگاہ میں قربانی کرتے تھے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ میں ذبح اور نحر کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدگاہ میں قربانی کرتے تھے

تشریح

 

 بکری ، دنبہ بھیڑ ، گائے بھینس اور اونٹ یہ جانور خواہ نر ہوں یا مادہ ، ان کے علاوہ دوسرے جانور کی قربانی جائز نہیں، اونٹ کے علاوہ بقیہ جانوروں کے حلال کرنے کو  ذبح کہتے ہیں اور اونٹ کے حلال کرنے کو  نحر  کہتے ہیں نحر کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے اس کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے جس سے وہ گر پڑتا ہے۔ اگرچہ اونٹ کو ذبح کرنا بھی جائز ہے لیکن نحر افضل ہے۔

مسلمانوں کے لیے خوشی کے دو دن

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ  یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن ہیں۔ (ابوداؤد)

 

مسلمانوں کے لیے خوشی کے دو دن

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لیے دو دن مقرر تھے جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے ان میں سے ایک دن  نوروز تھا اور دوسرا دن  مہر جان۔ نوروز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے۔ چونکہ ان دونوں دنوں میں آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ اور رات دن برابر ہوتے ہیں اس لیے ان دنوں کو حکام نے خوشی منانے کی لیے مقرر کر لیا تھا چنانچہ وہی رسم لوگوں میں چلی آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو شروع میں پرانی عادت کے مطابق ان دونوں میں پہلے زمانے کی طرح خوشی منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی تو وہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہ کر سکے صرف اتنا بتا سکے کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے اور ان دنوں سے ہم اسی طرح خوشی مناتے چلے آتے ہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دنوں سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دنوں سے بہتر تمہیں عیدین کے دو دن عنایت فرما دئیے ہیں تم ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکتے ہو۔ گویا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرف تو یہ اشارہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی عید اور خوشی عبادت کے دن منائے۔ لہٰذا اس حدیث میں عیدین کے دن لہو و لعب میں مشغول ہونے کی ممانعت ہے۔ دوسری طرف یہ اشارہ خفی ہے کہ عیدین میں بہت معمولی طریقے پر کھیل کود اور اس انداز اور اس طریقے سے خوشی منانا کہ جس میں حدود شریعت سے تجاوز اور فحاشی نہ ہو جائز ہے۔

یہ حدیث نہایت طبع انداز میں یہ بتا رہی ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار کی تعظیم کرنا اور ان میں خوشی منانا، نیز ان کی رسموں کو اپنانا ممنوع ہے نیز یہ حدیث غیر مسلموں کی عید و تہوار میں شرکت و حاضری کی ممانعت کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ بعض علماء نے تو اسے سخت جانا ہے کہ اس عمل پر کفر کا حکم لگایا ہے چنانچہ ابو حفص کبیر حنفی فرماتے ہیں کہ جو آدمی نوروز کی عظمت و توقیر کے پیش نظر اس دن مشرکوں کو تحفہ میں انڈا بھیجے (جیسا کہ اس روز مشرکین کا طریقہ ہے) تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کے تمام اعمال نابود ہو جاتے ہیں۔

حضرت قاضی ابو المحاسن ابن منصور حنفی کا قول ہے کہ  اگر کوئی اس دن وہ چیزیں خریدے جو دوسرے دنوں میں نہیں خریدتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہاں دیوالی کے روز کھیلیں اور مٹھائی بنے ہوئے کھلونے وغیرہ خریدے جاتے ہیں یا اس دن کسی کو تحفہ بھیجتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرک اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو وہ آدمی کافر ہو جاتا ہے ، اور اگر کوئی آدمی محض اپنے استعمال اور فائدہ اٹھانے یا حسب عادت کسی کو ہدیہ بھیجنے کی نیت سے خریدتا ہے۔ تو کافر نہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے لیکن اس طرح کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لیے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔

اس طرح اگر کوئی آدمی عاشورہ کے دن خوشی مناتا ہے تو خوارج کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر اس دن غم و الم ظاہر کرنے والی چیزیں اختیار کرتا ہے تو روافض کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے۔ یہ بات بھی جانے لیجئے کہ نوروز کی عظمت و توقیر کے سلسلہ میں روافض مجوسیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دن حضرت عثمان شہید کئے گئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خلاف منعقد ہوئی تھی۔

فتاوی ذخیرہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ہولی اور دیوالی دیکھنے کے لیے بطور خاص نکلتا ہے وہ حدود کفر سے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ اسی میں اعلان کفر ہوتا ہے لہٰذا ایسا آدمی گویا اپنے عمل سے فکر کی مدد کرتا ہے اسی پر  نوروز دیکھنے کے لیے نکلنے کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی موجب کفر ہے۔

 

مسلمانوں کے لیے خوشی کے دو دن

تجنیس میں مذکور ہے کہ ہمارے مشائخ اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس آدمی نے اہل کفار کے معتقدات و معاملات میں سے کسی چیز کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھا تو وہ حدود کفر میں داخل ہو جائے گا۔ اسی پر اس مسئلہ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسے ہال ہوا و ہوس انسان مثلاً شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے نام نہاد صوفیا کے کسی کلام یا کسی قول کے بارہ میں اچھا خیال رکھے اور یہ کہے کہ یہ کلام معنوی ہے یا یہ کہے کہ فلاں قول ایسا ہے جس کے معنی صحیح ہیں تو اگر حقیقت میں وہ کلام و قول کفر آمیز ہو تو اس کے بارہ میں اچھا عقیدہ رکھنے والا اور اسے صحیح کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح  نوادر الفتاویٰ میں منقول ہے کہ جو آدمی غیر مسلموں کی رسومات کو اچھا جانے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ عمدۃ الاسلام میں لکھا ہے کہ جو آدمی کافروں کی رسومات ادا کرے مثلاً نئے مکان میں بیل اور گائے اور گھوڑے کو زرد و سرخ رنگ کرے یا بندھن دار باندھے تو کافر ہو جاتا ہے۔

حاصل یہ کہ ان معتقدات و رسومات سے قطعاً احتراز کرنا چا ہے جن سے اسلام اور شریعت کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ ان کی بنیاد خالص غیر اسلامی و غیر شرعی چیزوں پر ہے۔

عید میں نماز سے پہلے اور بقر عید میں نماز کے بعد کھانا پینا چاہیے

حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم عید کے دن بغیر کچھ کھائے پئے عید گاہ تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ اور بقر عید کے دن بغیر نماز پڑھے کچھ نہیں کھاتے پیتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

عید میں نماز سے پہلے اور بقر عید میں نماز کے بعد کھانا پینا چاہیے

تشریح

 

 عید کے روز نماز سے پہلے کھانے پینے کا سبب گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے۔ بقر عید کے روز آپ غرباء و مساکین کا ساتھ دینے اور ان کی دلجوئی کی خاطر بقر عید کی نماز کے بعد ہی کچھ تناول فرماتے تھے۔ کیونکہ غرباء و مساکین کو تو کچھ کھانا پینا اسی وقت نصیب ہوتا تھا جب قربانی ہو جاتی اور اس کا گوشت ان لوگوں میں تقسیم ہو جاتا اس لیے آپ ان کی وجہ سے خود بھی کھانے پینے میں تاخیر فرماتے تھے۔

 

تکبیرات عیدین

اور حضرت کیثر ابن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ کیثر کے دادا سے یعنی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (جامع ترمذی ، ابن ماجۃ، دارمی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے تحریمہ اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات تکبیریں کہیں۔ اسی طرح دوسری رکعت میں قیام اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ پانچ تکبیریں کہیں۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسی پر عمل ہے اس سلسلہ میں مفصل بحث آگے آ رہی ہے۔

تکبیرات عیدین

٭٭ اور حضرت جعفر ابن محمد مرسلا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما عیدین اور استسقاء کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہا کر تھے اور (عیدین و استسقاء کی) نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے ، نیز قرأت بآواز بلند پڑھتے تھے۔ (شامی)

 

تشریح

 

  جعفر سے مراد امام جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی یعنی امام زین العابدین ابن حضرت امام حسین ابن علی ابن حضرت علی کرم اللہ وجہ ہیں۔ سات اور پانچ کی وضاحت حدیث بالا تاکید کی ہے کہ پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرار سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے ، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے۔

تکبیرات عیدین

٭٭اور حضرت سعید ابن عاص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو موسیٰ و حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم عید و بقر عید کی نماز میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ تو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ  جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم جنازہ میں چار تکبیریں کہتے تھے اسی طرح عیدین کی نماز میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے حضرت حذیفہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ  ابو موسیٰ نے سچ کہا  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حضرت ابو موسیٰ کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کی نماز میں بھی ہر رکعت میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اس طرح کہ پہلی رکعت میں تو قرأت سے پہلے تکبیر تحریمہ سمیت چار تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع کی تکبیر سمیت چار تکبیریں کہتے تھے۔

اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ تکبیرات عید کے سلسلہ میں متضاد احادیث منقول ہیں اسی وجہ سے ائمہ کے مسلک میں بھی اختلاف ظاہر ہوا ہے چنانچہ تینوں اماموں کے نزدیک عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے ہاں تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں مع تکبیر تحریمہ کے ہیں اور اسی طرح دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام سمیت ہیں جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام کے علاوہ ہیں۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تین تکبیریں پہلی رکعت میں اور تکبیر رکوع کے علاوہ تین تکبیریں دوسری رکعت میں ہیں جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز اسی کو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بھی اختیار کیا ہے جبکہ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباس کا مسلک ہے یہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے حضرت امام شافعی استدلال کرتے ہیں تو ان کی صحت و ضعف اور ان کی اسناد و طرق کے بارہ میں بہت زیادہ اعتراضات ہیں جس کو یہاں نقل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ علماء حنیفہ اپنے مسلک کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے سلسلہ میں جب متضاد اور مختلف احادیث سامنے آئیں توہم نے ان میں سے ان احادیث کو اپنا معمول بہ قرار دیا جن میں تکبیرات کی تعداد کم منقول تھی کیونکہ عیدین کی زائد تکبیریں اور رفع یدین بہر حال خلاف معمول ہیں اس لیے کم تعداد کا اختیار کرنا ہی اولیٰ ہو گا۔

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کمان پیش کی گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس طرح عصاء وغیرہ ٹیک کر خطبہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصاء کے بجائے کمان ٹیک کر اس کے سہارے خطبہ ارشاد فرمایا۔

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

٭٭اور حضرت عطاء بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو اپنے نیزے پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔ (شافعی)

امام خطبہ دیتے عصا وغیرہ کا سہارا لے لے

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز میں شریک ہوا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان و تکبیر کے بغیر خطبہ سے پہلے نماز شروع فرمائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو (خطبہ کے لیے) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تعریف بیان فرمائی۔ لوگوں کو نصیحت کی اور انہیں عذاب و ثواب (کے احکام یاد دلائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے پر ترغیب دلائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے (وہاں بھی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا، ان کو نصیحت کی اور انہیں عذاب و ثواب (کے احکام) یاد دلائے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطیب کے لیے مناسب ہے کہ وہ خطبہ دیتے وقت کسی چیز مثلاً تلوار، کمان برچھی، عصا یا کسی آدمی کا سہارا لے کر کھڑا ہو۔

عید گاہ جانے کا طریقہ

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب عید کے دن (عید گاہ) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے تو واپس دوسرے راستہ سے ہوتے تھے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)

 

تشریح

 

 عیدگاہ جانے کے لیے ایک راستہ اختیار کرنا اور واپسی کے لیے دوسرا راستہ اختیار کرنا مسنون ہے ، اس کی حکمت اسی باب کی فصل میں ایک حدیث کی فائدہ کے ضمن میں بیان کی جا چکی ہے۔

عیدگاہ جاتے ہوئے۔ راستہ میں یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ و اللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد پڑھتے رہنا چاہیے۔ صاحبین کے نزدیک تو عید و بقر عید دونوں موقع پر راستہ میں یہ تکبیر بلند آواز سے پڑھنی چاہیے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ عید الفطر میں تو یہ تکبیر آہستہ آواز سے۔ اور بقر عید میں بلند آواز سے پڑھنا چاہیے۔

عذر کی وجہ سے عیدین کی نماز شہر کی مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) عید کے دن بارش ہونے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو مسجد میں نماز پڑھائی۔ (ابوداؤد ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کی نماز شہر سے باہر جنگل میں ادا فرماتے تھے مگر جب بارش ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی ہی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ عیدین کی نماز جنگل میں (یعنی عیدگاہ میں) ادا کرنا افضل ہے۔ ہاں کوئی عذر پیش آ جائے تو پھر شہر کی مسجد میں ادا کی جا سکتی ہے۔

اس سلسلہ میں اہل مکہ کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ عیدین کی نماز مسجد حرام ہی میں ادا کریں جیسا کہ آجکل عمل ہے اسی طرح اہل مدینہ بھی عیدین کی نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتے ہیں۔

عید کی نماز تاخیر سے اور بقر عید کی نماز جلدی پڑھ لینی چاہیے

اور حضرت ابی الحویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ کریم نے حضرت عمرو بن حز کو جو نجران میں تھے یہ (حکم لکھ کر بھیجا کہ بقر عید کی نماز جلدی اور عید کی نماز تاخیر سے ادا کرو نیز (خطبہ میں) لوگوں کو پند و نصیحت کرو۔ (شافعی)

 

 

تشریح

 

 نجران ایک شہر کا نام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمرو ابن حزم کو وہاں کا عامل بنا کر بھیجا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ احکام لکھ کر بھیجے تھے تاکہ وہ اس پر عمل کریں۔ بقر عید کی نماز جلدی ادا کر لینے کے لیے اس واسطے فرمایا تاکہ لوگ نماز سے جلدی فارغ ہو کر قربانی وغیرہ میں مشغول ہو جائیں۔ اس طرح عید کی نماز تاخیر سے ادا کرنے کے لیے اس واسطے فرمایا بلکہ لوگ سے پہلے صدقہ فطر ادا کر لیں۔

چاند کی شہادت زوال کے بعد آئے تو عید کی نماز دوسرے دن پڑھی جائے

اور حضرت عمیر بن انس اپنے چچاؤں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے تھے ، نقل کرتے ہیں کہ  ایک قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل عید کا چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح عید گاہ جائیں۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

 رمضان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو اہل مدینہ نے عید کا چاند نہیں دیکھا چنانچہ انہوں نے تیس تاریخ کو روزہ رکھا۔ اتفاق سے اسی روز ایک قافلہ باہر سے مدینہ آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس بات کی شہادت دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قافلہ کی شہادت کو مانتے ہوئے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر دیں۔ اور چونکہ چاند ہونے کی یہ شہادت زوال آفتاب کے بعد آئی تھی اور نماز عید کا وقت نہ رہا تھا۔ جیسا کہ ایک روایت میں یہ صراحت بھی ہے کہ انھم قدموا اخر النھار (یعنی قافلہ دن کے آخری حصہ میں مدینہ پہنچا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز عید کا کے بارہ میں یہ حکم دیا کہ کل صبح ادا کی جائے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسی پر عمل ہے کہ آفتاب بلند ہونے کے بعد نماز عید کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے۔

شرح منیہ لکھا کہ  اگر کوئی ایسا عذر پیش آ جائے جو عید الفطر کے روز زوال آفتاب سے پہلے نماز عید کی ادائیگی کے لیے مانع ہو تو عید کی نماز اس روز پڑھنے کی بجائے دوسرے روز زوال آفتاب سے پہلے ادا کر لی جائے۔ اگر دوسرے دن بھی کوئی عذر نماز کی ادائیگی کے لیے مانع ہو تو پھر نماز نہ پڑھی جائے۔

بخلاف بقر عید کی نماز کے کہ اگر اس کی ادائیگی کے لیے کوئی عذر پہلے اور دوسرے روز مانع ہو تو تیسرے روز بھی اس کی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ ویسے بقر عید کی نماز میں بلا عذر بھی دوسرے یا تیسرے دن تک تاخیر جائز ہے مگر مکروہ ہے۔

عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر نہیں ہے

ابن جریج فرماتے ہیں کہ عطا نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ  نہ تو عید کے دن (نماز عید کے لیے) اذان دی جاتی تھی اور نہ بقر عید کے دن  ابن جریج فرماتے ہیں کہ  کچھ مدت کے بعد پھر میں نے دوبارہ عطاء سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ  مجھے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا ہے کہ عید کے دن نماز عید کے لیے اذان نہیں ہے نہ تو امام کے باہر آنے کے وقت اور نہ امام کے باہر آ جانے پر ، اور نہ تکبیر ہے اور نہ نداء ہے اور نہ کچھ اور ، اس دن نہ نداء ہے نہ تکبیر۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 ابن جریج نے یا تو عطاء سے دوبارہ اس مسئلہ کی تفصیل معلوم کی ہو گی یا بعینہ وہی مسئلہ پوچھا ہو گا۔ بہر حال عطاء نے دوسری مرتبہ کے جواب میں صرف عیدالفطر کا ذکر کیا عید الاضحیٰ کا نہیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھے کہ صرف عید الفطر کا ذکر کر دینا ہی کافی ہے سائل عیدالفطر پر عید الا ضحیٰ کو بھی قیاس کر لے گا۔

 نداء سے  الصلوٰۃ الصلوٰۃ  یا اس طرح کہ دوسرے الفاظ جو نماز کی اطلاع دینے کے لیے استعمال کئے جائیں کہنا مراد ہے  لانداء کے بعد لفظ  لاشی لانداء کی تاکید کہ لیے لایا گیا ہے ، پھر اس کے بعد حدیث کے آخری الفاظ لا نداء یومذ ولا اقامۃ بھی تاکید کے لیے دوبارہ استعمال کئے گئے ہیں۔ (شیخ عبدالحق)

ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ  لانداء اول سے آخر تک پہلے جملہ کی تاکید ہے اور مناسب یہ ہے کہ لفظ نداء سے اذان مراد لی جائے کیونکہ عیدین کے موقع پر اذان و تکبیر کی بجائے الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ گویا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کے مطابق حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ عیدین کی نماز کے لیے جس طرح اذان و تکبیر مشروع نہیں ہے اسی طرح نماز کی اطلاع کے لیے کوئی اور لفظ مثلاً  الصلوٰۃ جامعہ پکارنا بھی مشروع نہیں ہے جب کہ حضرت ملا علی قاری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی نماز میں اذان و تکبیر تو مشروع نہیں ہاں نماز کی اطلاع دینے کے لیے نداء یعنی  الصلوٰۃ جامعۃ پکار کر کہنا مستحب ہے۔

لہٰذا ان دونوں اقوال کے باہم اختلاف و تضاد کو اس تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جائے حضرت شیخ نے نداء کی جو نفی کی ہے وہ عیدگاہ کے اندر بطریقہ التزام کے ہے یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ اول تو عید گاہ کے اندر اور دوسرے بطریق التزام نداء نہ دی جائے اور حضرت ملا علی قاری نے نداء کو جو مستحب لکھا ہے تو اس کا تعلق عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی کہنے سے ہے یعنی  الصلوٰۃ جامعۃ عید گاہ سے باہر اور کبھی کبھی پکار کر کہنا مستحب ہے۔ وا اللہ اعلم۔

عیدین میں خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہے

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بقر عید کے دن (عید گاہ) جاتے تو (پہلے) نماز شروع کرتے جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو (خطبہ کے لیے) کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ، لوگ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہے چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہیں لشکر بھیجنا ہوتا تو (اس وقت) لوگوں کے سامنے اس کا ذکر فرماتے ہیں اور لشکر بھیجتے یا لوگوں کی کوئی اور حاجت ہوتی (یعنی مسلمانوں کے فائدہ کی کوئی بات ہوئی) تو اس کے بارہ میں حکم فرماتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے خطبہ کے دوران) یہ فرمایا کرتے تھے صدقہ دو ، صدقہ دو، صدقہ دو ، چنانچہ عورتیں زیادہ صدقہ خیرات یاد کرتیں تھیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مکان واپس تشریف لاتے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد چاروں خلفاء کے دور خلافت میں نیز اس کے بعد تک بھی) یہی معمول جاری رہا (کہ خطبہ نماز کے بعد ہوتا اور خطبہ منبر پر نہیں بلکہ زمین ہی پر کھڑے ہو کر پڑھا جاتا رہا) یہاں تک کہ (امیر معاویہ کی جانب سے مدینہ کا حکم) مروان ابن حکم مقرر ہوا (ایک مرتبہ عید کے دن) میں مروان ابن حکم ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے عید گاہ آیا (جب ہم عید گاہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ) وہاں کثیر ابن صلت نے مٹی اور کچی اینٹ کا منبر بنا رکھا تھا۔ اچانک مروان مجھے اپنے ہاتھ کے سامنے کھینچنے لگا گویا وہ مجھے منبر کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ نماز سے پہلے خطبہ پڑھے) اور میں اس کو نماز کی طرف کھینچ رہا تھا (تاکہ وہ پہلے نماز پھر خطبہ پڑھے) جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ پہلے خطبہ پڑھنے پر مصر ہے تو میں نے کہا کہ  ابو سعید ! جھگڑا نہ کرو، جس بات کو تم جانتے ہو اب وہ متروک ہے (یعنی میں نے مصلحت کے پیش نظر خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور مصلحت یہ ہے کہ اگر خطبہ نماز کے بعد پڑھا جائے گا تو لوگ اٹھ اٹھ کر جانے لگیں گے) میں نے کہا کہ ہر گز نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جو چیز میں جانتا ہوں تم اس سے بہتر چیز لا ہی نہیں سکتے میں نے یہ بات تین مرتبہ اس سے کہی۔ پھر (مروان کے اس فعل کی وجہ سے) ابو سعید (عید گاہ سے) چلے گئے (اور جماعت میں شریک نہیں ہوئے۔ (صحیح مسلم)

عیدین میں خطبہ نماز کے بعد پڑھنا چاہے

تشریح

 

 صدقہ و خیرات یعنی اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کی جو اہمیت و فضیلت ہے اس کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خطبہ میں لفظ تصدقوا تین مرتبہ تاکیداً فرمایا کرتے ہیں، یا یہ کہ تین مرتبہ فرمانا تین حالتوں کی طرف اشارہ ہے (١) صدقہ دو اپنی زندگی کے واسطہ (٢) صدقہ دو اپنی موت کے لیے (٣) اور صدقہ دو اپنی آخرت کے لیے۔

 مخاضر دو آدمیوں کے اس طرح باہم ہاتھ پکڑے ہوئے چلنے کو فرماتے ہیں کہ ہر ایک کا ہاتھ دوسرے کولھے کے قریب ہو۔

مروان ابن حکم ٢ھ میں پیدا ہوا تھا مگر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف زیارت حاصل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح کثیر ابن صلت کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے زمانہ مبارک ہی میں ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی وجہ سے صاحب جامع الاصول نے انہیں صحابہ میں شمار کیا جب کہ بعض محققین نے انہیں تابعی کہا ہے۔ ان کا مکان عید گاہ کے قریب تھا انہوں نے ہی عیدگاہ میں منبر بنایا تھا تاکہ عیدین کا خطبہ اس پر کھڑے ہو کر پڑھا جائے جیسا کہ جمعہ کا خطبہ منبر پر کھڑے ہو کر پڑھنا مسنون ہے۔ لہٰذا ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے مروان ابن حکم نے عید گاہ میں منبر بنوایا ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ ثم انصرف کے یہ معنی بھی محتمل ہو سکتے ہیں کہ مروان منبر کی طرف آیا تاکہ خطبہ پڑھے اور اس نے حضرت ابو سعید کی یہ بات نہ مانی کہ پہلے نماز پڑھی جائے پھر خطبہ پڑھا جائے۔

عیدین کی نماز کا طریقہ: عیدین کی نماز دو رکعت ہے جس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا نیت کر کے اور تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھے لے پھر سبحانک اللہم پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کے بعد لٹکا دے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر تو قف کرے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائے بلکہ ہاتھ باندھے لے اور اعوذ با اللہ ، بسم اللہ ، پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر رکوع و سجدہ کر کے کھڑا ہوا۔ پھر دوسری رکعت میں پہلے سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ پڑھ لے اس کے بعد تین تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں سبحانک اللہم پڑھ کر کہی تھی۔ لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور نماز پوری کرے۔ نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ وہ منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے پڑھے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام و مسائل بیان کرے اور عید الاضحیٰ کے خطبہ میں قربانی اور تکبیر تشریق کے احکام بیان کرے۔

تکبیر تشریق یعنی ہر فرض نماز کے بعد فرض نماز پڑھنے والے کے ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و للہ الحمد کہنا واجب ہے۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے۔ یہ تکبیر عورت اور مسافر پر واجب نہیں۔ ہاں اگر یہ لوگ کسی ایسے آدمی کی مقتدی ہوں جن پر تکبیر کہنا واجب ہے تو ان پر بھی تکبیر واجب ہو جائے گی۔ (علم الفقہ)

قربانی کا بیان

حنفی مسلک میں قربانی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو مقیم اور غنی ہو یعنی نصاب کا مالک ہوا گرچہ نصاب نامی نہ ہو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک قربانی سنت موکدہ ہے حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مشہور اور مختار قول یہی ہے۔

قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہیے

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دنبوں کی جو سینگوں والے (یعنی جن کے سینگ لمبے تھے یا یہ کہ سینگ ٹوٹے ہوئے نہ تھے) اور ابلق (یعنی سیاہ رنگ کے) تھے قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر (خود) اپنے ہاتھ سے انہیں ذبح کیا  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پہلو (یا کلے) پر پاؤں رکھے ہوئے تھے اور بسم اللہ وا اللہ اکبر کہتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

 قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اگر وہ ذبح کے آداب جانتا ہو تو قربانی کا جانور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ورنہ بصورت دیگر اپنی طرف سے کسی دوسری آدمی سے ذبح کرائے اور خود وہاں موجود رہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا (یعنی بسم اللہ کہنا) حنفیہ کے نزدیک شرط ہے اور تکبیر کہنی (یعنی و اللہ اکبر کہنا) علماء کے نزدیک مستحب ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویقول بسم اللہ و اللہ اکبر میں اس طرف اشارہ ہے کہ لفظ و اللہ اکبر واؤ کے ساتھ کہنا افضل ہے۔ ذبح کے وقت درود پڑھنا جمہور علماء کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک سنت ہے۔

قربانی کے دنبہ کی صفات

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (قربانی کے لیے) ایک ایسے سینگ دار دنبہ کے لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) سیاہی میں بیٹھا ہو (یعنی اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھا ہو (یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی ہو) چنانچہ (جب) آپ کے لیے قربانی کے واسطے ایسا دنبہ لایا گیا (تو) فرمایا کہ  عائشہ ! چھری لاؤ (جب چھری لائی تو) پھر فرمایا کہ اسے پتھر پر (رگڑ کر) تیز کرو، میں نے چھری تیز کی ، آپ نے چھری لی اور دنبے کو پکڑ کر اسے لٹایا پھر جب اسے ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللھم تقبل من محمد و ال محمد و من امۃ محمد (یعنی اے اللہ ! اسے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ، آل محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اور امت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی طرف سے قبول فرما) پھر اسے ذبح کر دیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 جب جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو، اس کے سامنے چھری تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آدمی کو درے سے مارا تھا جس نے ایسا کیا تھا۔ اسی طرح ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا بھی مکروہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کرتے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے اس سے مراد صرف ثواب میں امت کو شریک کرنا تھا نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کی طرف سے قربانی کی تھی کیونکہ ایک دنبہ یا ایک بکری کی قربانی کئی آدمیوں کی طرف سے درست نہیں ہے۔

کس عمر کے جانور کی قربانی کرنی چاہیے؟

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم (قربانی میں صرف) مسنہ جانور ذبح کرو، ہاں اگر مسنہ نہ پاؤ تو پھر دنبہ بھیڑ کا جزعہ ذبح کر لو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مسنہ یا جزعہ کسی خاص جانور کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک اصطلاح ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں مستعمل ہوتی ہے۔ چنانچہ حنفی مسلک کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے کہ اونٹوں میں وہ اونٹ مسنہ کہلاتا ہے جو پورے پانچ سال کی عمر کا ہو اور چھٹے برس میں داخل ہو چکا ہو۔ گائے ، بھینس اور بیل میں مسنہ اسے فرماتے ہیں جو پورے دو سال کی عمر کا ہو تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ بھیڑ اور دنبہ میں مسنہ وہ ہے جو اپنی عمر کو پورا ایک سال گزار کر دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔ لہٰذا ان جانوروں میں قربانی کے لیے جانور کا مسنہ ہونا ضروری ہے۔ ہاں دنبہ اور بھیڑ کا اگر جزعہ بھی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ جزعہ بھیڑ یا دنبہ کا وہ بچہ کہلاتا ہے جس کی عمر ایک برس سے تو کم ہو مگر چہ مہینہ سے زیادہ ہو۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جزعہ کی قربانی اس صورت میں جائز ہو گی جب کہ وہ اتنا فربہ ہو کہ اگر اسے مسنہ کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے تو دور سے دیکھنے والا اسے بھی مسنہ گمان کرے اگر وہ فربہ نہ ہو بلکہ چھوٹا ہو اور دبلا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔

بظاہر حدیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر مسنہ بہم نہ پہنچے یا اس کی قیمت میسر نہ ہو تو جزعہ کی قربانی درست ہے ورنہ بصورت دیگر اس کی قربانی درست نہیں ہو گی۔ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ استحباب پر محمول ہے یعنی مستحب تو یہی ہے کہ اگر مسنہ مل جائے اور اس کے خریدنے کی استطاعت ہو تو جزعہ کی قربانی نہ کرے۔ ویسے اگر مسنہ ہوتے ہوئے بھی کوئی جزعہ کی قربانی کرے گا تو درست ہو گئی۔

بکری کے بچہ کی قربانی

اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں بکریوں کا ایک ریوڑ دیا تاکہ وہ اسے صحابہ کرام میں بطریق قربانی کے تقسیم کر دیں چنانچہ (انہوں نے تقسیم کر دیا) تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا اور انہوں نے اس کے بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس کی قربانی تم کر لو  ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے ! دنبہ کا ایک بچہ ملا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اس کی قربانی کر لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

  عتود بکری کے اس بچہ کو فرماتے ہیں جو موٹا تازہ ہو اور ایک سال کی عمر کا ہو۔ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بکری کے ایک سال کے بچہ کی قربانی جائز ہے چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  عتود  بکری کے اس بچے کو فرماتے ہیں جو چھ مہینہ سے زیادہ کا ہو اس صورت میں یہ حکم صرف عقبہ ابن عامر کے ساتھ مخصوص ہو گا۔ دوسروں کے لیے عتود کی قربانی جائز نہیں ہو گی۔ جزعہ کے بارہ میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ یعنی دنبہ کا وہ بچے جو چھ مہینے سے زیادہ کا ہو۔

عید گاہ میں قربانی افضل ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عید گاہ میں قربانی کے جانور کو ذبح اور نحر کیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 باب صلوٰۃ العیدین کی پہلی فصل کے آخر میں ذبح اور نحر کے معنی اور ان کے باہم فرق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عید گاہ میں قربانی کرنا افضل ہے۔

قربانی کے حصے

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  قربانی کے لیے) گائے اور ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہے۔ (صحیح مسلم ، سنن ابوداؤد)

قربانی کرنے والے کے لیے کچھ ہدایتیں

اور حضرت ام سلمہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو تم میں سے جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ کرے وہ (اس وقت تک کہ قربانی نہ کرے) اپنے بال اور ناخن بالکل نہ کتروائے ایک روایت میں یوں ہے کہ  نہ بال کٹوائے اور نہ ناخن کتروائے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  جو آدمی بقر عید کا چاند دیکھے اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ (قربانی کے لینے تک) اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 بقر عید کا چاند دیکھنے لینے کے بعد قربانی کر لینے تک بال وغیرہ کٹوانے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے تاکہ احرام والوں کی مشابہت حاصل ہو جائے۔ لیکن یہ ممانعت تنزیہی ہے لہٰذا بال وغیرہ کا نہ کٹوانا مستحب ہے اور اس کے خلاف عمل کرنا ترک اولیٰ ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔

عشرہ ذی الحجہ کے نیک اعمال کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دنوں میں کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ان دس دنوں (ذی الحجہ کے پہلے عشرہ) سے زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا (ان ایام کے علاوہ دوسرے دنوں میں) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی (ان دنوں کے نیک اعمال کے برابر) نہیں ہے؟ فرمایا ہاں ! اس آدمی کا جہاد جو اپنی جان و مال کے ساتھ (اللہ کی راہ میں لڑنے) نکلا اور پھر واپس نہ ہوا (ان دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ افضل ہے۔) (صحیح البخاری ٰ

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر جہاد ایسا ہو جس میں مال و جان سب اللہ کی راہ میں قربان ہو جائے اور جہاد کرنے والا مرتبہ شہادت پا جائے تو وہ جہاد البتہ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں کے نیک اعمال سے بھی زیادہ محبوب ہے کیونکہ ثواب نفس کشی و مشقت کے بقدر ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینے سے زیادہ نفس کشی اور مشقت کیا ہو سکتی ہے؟

چونکہ رمضان کے نیک اعمال کی بھی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی مراد یہ ہو کہ ان دنوں کے نیک اعمال ایام رمضان کے نیک اعمال کے علاوہ دوسرے دنوں کے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں یا رمضان کے نیک اعمال اس حیثیت سے سب سے زیادہ محبوب نہیں کہ ان دنوں میں فرض روزے رکھے جاتے ہیں۔ اور بہت زیادہ برگزیدہ و مقدس ترین شب یعنی لیلۃ القدر بھی رمضان ہی میں آتی ہے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے اعمال اس اعتبار سے سب سے زیادہ محبوب ہیں کہ بہت زیادہ برگزیدہ اور با عظمت و فضیلت دن یعنی  عرفہ انہیں دنوں میں آتا ہے۔ اور افعال حج بھی انہیں ایام میں ہوتے ہیں

قربانی کے وقت کی دعا

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کے دن (یعنی عید قرباں کے دن) دو دنبے جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے ذبح کرنے چا ہے تو ان کو قبلہ رخ کیا اور یہ پڑھا۔ یعنی میں اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس حال میں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں جو توحید کو ماننے والے تھے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں بلاشبہ میری نماز، میری تمام عبادتیں، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں اے اللہ ! یہ قربانی تیری عطاء سے ہے اور خالص تیری ہی رضا کے لیے ہے تو اس کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کی امت کی جانب سے قبول فرما ساتھ نام اللہ کے اور اللہ بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کیا۔ (احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، دارمی) نیز مسند احمد سنن ابوداؤد اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (دونوں دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہیں کہا بسم اللہ و اللہ اکبر ، اے اللہ ! یہ قربانی میری جانب سے ہے اور میرے امت کے ہر اس فرد کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔

 

تشریح

 

 خصی سے مراد وہ ہے جس کے بیضے کوٹ کر اس کی شہوت ختم کر دی جاتی ہے اس کی قربانی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ایسا خصی فربہ ہوتا ہے اور اس کا گوشت لذیذ ہوتا ہے۔

 وما انا من المشرکین (اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں) اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نبوت ملنے سے پہلے کس شریعت کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے؟ چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ نبوت ملنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق ہوتی تھی، بعض علماء کا قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق اور بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق آپ عبادت کیا کرتے تھے۔

اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی شریعت کے مطابق عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی فہم اور اپنے وجدان کے موافق آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ البتہ یہ بات بالکل اجماعی طور پر محقق اور ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم زندگی کے کسی بھی دور میں بت برستی کی نجاست میں ملوث نہیں ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کس نوع اور کس طریقہ کی تھی؟ تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ وہ غیر معلوم ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کس طرح عبادت کرتے تھے؟

عن محمد وامتہ میں مشارکت یا تو ثواب پر محمول ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذبح کے وقت یہ الفاظ فرما کر اپنی قربانی کے ثواب میں اپنی امت کو بھی شریک فرما لیا۔ یا اسے حقیقت پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے مگر اس صورت میں کہا جائے گا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے۔ اس سلسلہ میں واضح ترین بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دنبہ تو اپنی طرف سے قربان کیا اور دوسرے دنبہ کی قربانی امت کی طرف سے کی۔

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر قربانی کرنے والا ذبح کرنے پر قادر ہو تو اس کے لیے اپنے ہاتھ سے قربانی کا جانور ذبح کرنا مستحب ہے اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔

میت کی طرف سے قربانی جائز ہے

 اور حضرت خش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو دو دنبے قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ کیا؟ یعنی جب ایک دنبہ کی قربانی کافی ہے تو دو دنبوں کی قربانی کیوں کرتے ہیں؟) انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یہ وصیت فرمائی تھی کہ (ان کے وصال کے بعد) میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 اس سلسلہ میں دونوں ہی احتمال ہیں یا تو حضرت علی المرتضیٰ اپنی قربانی کے علاوہ دو دنبے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے قربان کرتے ہوں گے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی زندگی میں دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے ، یا پھر یہ کہ حضرت علی المرتضیٰ ایک دنبہ کی قربانی تو اپنی طرف سے کرتے ہوں گے اور ایک دنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کا یہ ہمیشہ کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہر سال قربانی کرتے تھے۔

یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اگرچہ بعض علماء نے اسے جائز نہیں کہا ہے۔ ابن مبارک کا قول یہ ہے کہ  میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میت کی طرف سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اس کی طرف سے قربانی نہ کی جائے ، ہاں اگر میت کی طرف سے قربانی کی ہی جائے تو اس کا گوشت بالکل نہ کھایا جائے بلہ سب کا سب اللہ کے نام پر تقسیم کر دیا جائے 

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ، فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں  یہ روایات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ  والاذن ختم ہو گئی ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی کے نزدیک اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تھوڑا سا بھی کٹا ہوا ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے اگر کان آدھے سے کم کٹا ہوا ہو۔

حضرت امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی کا عمل اس حدیث پر ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے جو بہت جامع ہے کیونکہ اس مسلک سے اس حدیث میں اور فتادہ کی حدیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ  حضرت قتادہ حضرت ابن کلیب سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عضبائے قرن و اذن (کی قربانی) سے منع فرمایا ہے۔  قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید ابن المسیب سے پوچھا کہ  یہ عضائے اذن کیا ہے؟  تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔

حنیفہ کے نزدیک کیسے جانور کی قربانی جائز نہیں؟ اس مسئلہ میں حنیفہ کا جو مسلک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ  ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے جس کے کان پیدائشی نہ ہوں، اسی طرح ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جس کی دم اور ناک تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو، جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے جس جانور کے تھن خشک ہو گئے ہوں اس کی قربانی بھی درست نہیں او ایسے جانور کی بھی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو اور نہ ایسے لنگڑے کی جو قربانی کی جگہ تک نہ جا سکے اور نہ ایسے بیمار کی جو گھاس نہ کھا سکے نہ ایسے جانور کی جس کے خارش ہو، وہ بغیر دانت کے جانور کی جو گھاس نہ کھا سکتا اور نہ نجاست خور جانور کی ، ہاں ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا یا پیچھے کی طرف پھٹا ہوا، اس صورت میں کہا جائے گا یہ حدیث کہ جس سے ایسے جانور کی قربانی کی ممانعت معلوم ہو رہی ہے نہی تنز یہی پر محمول ہے۔

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ، راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کہ ہم ایسے جانور کی قربانی کر دیں جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ہوں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حنفی مسلک میں ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے جس کے پیدائش ہی سے سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں یا ان کا خول اتر گیا ہے لہٰذا یہ حدیث نہی تنزیہی پر محمول کی جائے گی۔ البتہ ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہو گی جس کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں۔

عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

٭٭اور حضرت براء ابن عازب راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھاگیا کہ کیسے جانور کی قربانی لائق نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانور قربانی کی قابل نہیں ہیں۔ (١) لنگڑا۔ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی جو چل نہ سکے۔ (٢) کا نا جس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی آنکھ سے بالکل دکھائی نہ دیتا ہو یا تہائی یا تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (٣) بیمار۔ جس کی بیماری ظاہر ہو یعنی جو بیماری کی وجہ سے گھاس نہ کھا سکے۔ (٤) ایسا دبلا کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (مالک ، احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

فربہ جانور کی قربانی بہتر ہے

اور حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ایسے سینگ دار فربہ دنبہ کی قربانی کرتے تھے جو سیاہی میں دیکھتا تھا یعنی اس کی آنکھوں کے گرد سیاہی تھی، سیاہی میں کھاتا تھا اس کا منہ سیاہ تھا اور سیاہی میں چلتا تھا یعنی اس کے پاؤں بھی سیاہ تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 علماء لکھتے ہیں کہ ایسے جانور کی قربانی کرنا جو بہت فربہ اور موٹا ہو مستحب ہے۔ چنانچہ ایک فربہ بکری کی قربانی دو دبلی بکریوں کی قربانی سے افضل ہے۔ ایسے ہی زیادہ گوشت والی بکری کی قربانی کم گوشت والی بکری کی قربانی سے افضل ہے بشرطیکہ گوشت خراب نہ ہو یعنی زیادہ گوشت والی بکری کا گوشت خراب ہو تو پھر اس کی قربانی افضل نہیں ہے۔

جذع کی قربانی

قبیلہ بنی سیلم کے (ایک فرد) حضرت مجاشع راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ جذع (یعنی وہ دنبہ یا بھیڑ جس کی عمر چھ مہینے سے زیادہ ہو) کافی ہے اس بچے سے کہ کفایت کرے اس کو  ثنی۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی ، ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس طرح کہ اس بکری کی قربانی جائز ہے جو ایک سال سے زیادہ کی ہو اسی طرح جزع کی قربانی بھی جائز ہے۔

 ثنی بھی ایک اصلاحی لفظ ہے جو قربانی کے جانور کی عمر کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بکری میں  ثنی وہ بکری کہلاتی ہے جو ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو۔ بیل اور گائے میں  ثنی وہ ہے جو دو سال کر کے تیسرے سال میں ہو، اونٹ میں  ثنی وہ ہے جو پانچ سال پورے کرنے کے بعد چھٹے سال میں داخل ہو چکا ہو۔

جذع کی قربانی

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنبہ کی جزع (یعنی چھ ماہ کے بچہ) کی قربانی بہتر ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 دنبہ کے جزع کی قربانی کی تعریف سے دراصل لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ دنبہ کے چھ مہینہ کے بچہ کی قربانی جائز ہے بخلاف بکری کے جزع کی کہ اس کی قربانی درست نہیں۔

قربانی میں شرکت

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم (ایک) سفر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے کہ عید قربان آ گئی، چنانچہ گائے (کی قربانی) میں ہم سات آدمی اور اونٹ (کی قربانی) میں دس آدمی شریک ہوئے (جامع ترمذی، سنن نسائی ، ابن ماجہ) امام جامع ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے

 

تشریح

 

 اسحٰق ابن راہو یہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر عمل کیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے لیے ایک اونٹ میں دس آدمیوں کو شریک ہو جانا چاہیے بلکہ تمام علماء کے نزدیک یہ اس حدیث کے ذریعہ منسوخ قرار دے دی گئی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ جس طرح گائے کی قربانی سات آدمیوں سے درست ہے اسی طرح اونٹ کی قربانی بھی سات آدمیوں کی طرف سے کی جا سکتی ہے۔

ایک سبق آموز واقعہ

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سوال کرنا ایک زخم ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا منہ زخمی کرتا ہے بایں طور کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت و آبرو کو خاک میں ملاتا ہے کہ یہ اپنے منہ کو زخمی کرنے ہی کے مترادف ہے لہٰذا جو شخص اپنی عزت و آبرو باقی رکھنا چا ہے کہ وہ سوال سے شرم کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی عزت و آبرو کو باقی رکھے اور کوئی شخص اپنی آبرو کو باقی رکھنا ہی نہیں چاہتا تو وہ لوگوں کے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت خاک میں ملا لے یعنی اسے باقی نہ رکھے یہ گویا سوال کرنے و الے کے لیے تہدید اور تنبیہ ہے کہ کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سوال ہی کرنا ہے تو پھر حاکم سے سوال کرے یا ایسی صورت میں سوال کرے کہ اس کے لیے کوئی واقعی ضرورت اور مجبوری ہو۔ (ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال ہی کرو تو کم سے کم ایسے شخص سے تو کرو جس پر تمہارا حق بھی ہے اور وہ حاکم یا بادشاہ ہے کہ جس کے تصرف میں بیت المال اور خزانہ ہو تم ان سے اپنا حق مانگو، اگر تم مستحق ہو گے وہ تمہیں بیت المال سے دیں گے۔ 

عطاء سلطانی کو قبول کرنے کا مسئلہ

علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا عطاء سلطانی بادشاہ و حاکم کا عطیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ اگر بیت المال اور خزانے میں حرام مال زیادہ ہو تو اس میں سے کچھ مانگنا یا اس سے عطیہ سلطانی قبول کرنا حرام ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر حلال ہے۔

 حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی واقعی مجبوری اور ضرورت ہو کہ کسی سے مانگے بغیر چارہ کار نہ ہو مثلاً کسی کا ضامن بن گیا ہو، طوفان و سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی تباہ ہو گئی ہو یا کسی حادثے و مصیبت کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو ایسی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کوئی شخص حالت اضطراری کو پہنچ گیا ہو خواہ وہ اضطراری حالت کپڑے کی طرف سے ہو کہ ستر چھپانے کو کپڑا نہ ہو یا کھانے کی طرف سے ہو کہ شدت بھوک سے جان نکلی جاتی ہو تو پھر ایسی صورت میں کسی سے مانگ کر اپنی اضطراری حالت کو دور کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

 امام غزالی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس شخص کے لیے بھی سوال کرنا واجب ہوتا ہے جو حج کی استطاعت رکھتا تھا مگر حج نہیں کیا یہاں تک کہ مفلس ہو گیا تو اب اسے چاہئے کہ وہ لوگوں سے سفر خرچ مانگ کر حج کے لیے جائے