مشکوٰة شر یف

غصب اور عاریت کا بیان

غصب اور عاریت کا بیان

غصب کے معنی چھیننے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں غصب کہتے ہیں چوری کے بغیر از راہ ظلم و جور کسی کا مال زبردستی چھین لینا ایسے شخص کو کہ جو کسی کی کوئی چیز زبردستی چھین لے یا ہڑپ کر لے غاصب کہتے ہیں اور مغصوب اس چھینی ہوئی یا ہڑپ کی ہوئی چیز کو کہتے ہیں خواہ وہ کچھ ہو۔

عاریت کے معنی ہیں ما ں گی ہوئی چیز اصطلاحی طور پر بغیر کسی عوض کے کسی دوسرے شخص کو اپنی کسی چیز کے نفع و فائدہ کا مالک بنا دینا عاریت کہلاتا ہے۔

غصب کرنے والے والے کی سزا

حضرت سعید ابن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی از راہ ظلم لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کسی کی کوئی بھی چیز خواہ وہ زیادہ ہو یا کتنی کم ہو اور راہ زور زبردستی چھین لینا یا ہڑپ کر لینا نہ صرف سماجی طور پر ایک ظلم اور اخلاقی طور پر ایک بھیانک برائی ہے بلکہ شرعی طور پر بھی انتہائی سخت جرم اور گناہ ہے۔ اسلام نے انسانی حقوق کے تحفظ کا جو اعلی تصور پیش کیا ہے اور اسلامی شریعت نے حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو جن سخت سزاؤں اور عقوبتوں کا مستوجب گردانا ہے۔ یہ حدیث گرامی اس کا ایک نمونہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھر حصہ بھی زبردستی ہتھیائے گا اسے اس کے ظلم و جور کی یہ سزا دی جائے گی کہ قیامت کے دن زمین کا صرف وہی حصہ نہیں جو وہ غصب کریگا بلکہ ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین لے کر اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی العیاذ باللہ۔

شرح السنۃ میں طوق ڈالنے کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی زمین کا بالشت بھر حصہ بھی غصب کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے زمین میں دھنسائے گا چنانچہ زمین کا وہ قطعہ جو اس نے غصب کیا ہو گا اس کے گلے کو طوق کی مانند جکڑ لے گا۔

کسی جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہو

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے جانور کا دودھ اس کی اجازت یعنی اس کے حکم و رضا کے بغیر نہ دوہے کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خزانہ یعنی اس کے غلہ کو گودام میں آئے اور اس کا خزانہ گودام کھول دے یہاں تک کہ اس کا غلہ اٹھا لیا جائے اسی طرح جان لو کہ دوسروں کے جانوروں کے تھن ان کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کی حفاظت کرتے ہیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 جانوروں کے تھن کو غلہ وغیرہ کے گودام سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح تم اپنے غلوں کو گوداموں میں بھر کر محفوظ رکھتے ہو اسی طرح دوسرے لوگوں کے جانور اپنے تھنوں میں اپنے مالک کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کو محفوظ رکھتے ہیں لہذا جس طرح تم اس بات کو کبھی بھی پسند و گوارا نہیں کر سکتے کہ کوئی دوسرا شخص تمہارے گوداموں اور تمہارے خزانوں کو غیر محفوظ بن کر وہاں سے غلہ یا دوسری محفوظ اشیاء نکال لے اسی طرح تمہارا یہ فعل بھی جانوروں کے مالکوں کو کیسے گوارہ ہو سکتا ہے کہ تم ان جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکال لو۔ حاصل یہ کہ تم دوسروں کے مال پر بری نگاہ نہ ڈالو اور دوسروں کے حقوق کو غصب نہ کرو تا کہ کوئی دوسرا تمہارے مال کو غصب نہ کرے۔ اور جس طرح تم اپنا مال غصب کیا جانا گوارہ نہیں کر سکتے اسی طرح کسی دورے کا مال خود غصب کرنا بھی گوارہ نہ کرو۔

شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اکثر علماء نے اس ارشاد گرامی پر عمل کرتے ہوئے یہ فتوی دیا ہے کہ کسی کے جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص بھوک سے بے حال ہو رہا ہو تو اس کے لیے اتنی اجازت ہے کہ وہ بقدر ضرورت کسی کے جانور کا دودھ پی لے مگر پھر اس کی قیمت ادا کرے۔ اگر اس کے پاس موجود ہو تو اسی وقت یہ قیمت دے دے ورنہ بعد میں جب بھی قادر ہو قیمت کی ادائے گی کر دے۔

ایک واقعہ

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کسی زوجہ مطہرہ (یعنی حضرت عائشہ) کے ہاں قیام فرماتے کہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے (یعنی حضرت زینب یا حضرت صفیہ اور یا حضرت ام سلمہ نے) ایک رکابی بھیجی جس میں کھانے کی کوئی چیز تھی اسے دیکھتے ہی ان زوجہ مطہرہ نے کہ جن کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم قیام فرما تھے (یعنی حضرت عائشہ نے) خادم کے ہاتھ پر اس طرح مارا کہ وہ رکابی گر پڑی اور ٹوٹ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکابی کے وہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اکٹھا کئے اور پھر ان ٹکڑوں میں کھانے کی وہ چیز جمع کی جو رکابی میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آ گئی تھی بہرکیف آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ دیر خادم کو روکے رکھا یہاں تک کہ جن زوجہ مطہرہ کے گھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم قیام فرما تھے (یعنی حضرت عائشہ انکے ہاں سے دوسری رکابی مہیا کی گئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی خادم کے ذریعہ ان زوجہ مطہرہ کے ہاں کہ جن کے ہاں رکابی ٹوٹ گئی تھی وہ صحیح وسالم رکابی بھیج دی اور وہ ٹوٹی ہوئی رکابی ان زوجہ مطہرہ کے گھر رکھ لی جنہوں نے اس رکابی کو توڑا تھا (بخاری)

 

تشریح

 

 خادم غلام کو بھی کہتے ہیں اور لونڈی کو بھی چنانچہ یہاں خادم سے مراد لونڈی ہی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کے ہاں لونڈی ہی وہ رکابی اور اس میں کھانے کی کوئی چیز لے کر آئی تھی۔ جب وہ رکابی گر کر ٹوٹ گئی اور اس میں سے کھانے کی وہ چیز بھی زمین پر گر گئی جو اس رکابی میں تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف رکابی کے ٹکڑوں کو اکٹھا کیا بلکہ کھانے کی اس چیز کو بھی نہایت احتیاط کے ساتھ جمع کیا اس فعل سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال تحمل انتہائی تواضع اور ازواج مطہرات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش مزاجی اور عفو درگزر کے عالی جذبات ہی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ تمہاری ماں کو غیرت آ گئی تھی یہ دراصل اس واقعہ کو سننے پڑھنے والوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خطاب عام ہے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ کی طرف سے عذر بیان کیا کہ حضرت عائشہ سے جو یہ اضطراری فعل صادر ہوا وہ درحقیقت اس غیرت کی بناء پر تھا جو ہر عورت کی جبلت و سرشت میں داخل ہے کہ کوئی بھی عورت خواہ وہ کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز ہو اپنی سوکن کے تئیں مخصوص رقیبانہ اور رشک آمیز جذبات و احساسات سے عاری نہیں ہو سکتی اور نہ کسی بھی عورت کے بس کی یہ بات ہے کہ وہ اپنی طبیعت اور اپنے نفس کو اس طبعی اور جبلی جذبہ سے محفوظ رکھ لے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تاکہ لوگ حضرت عائشہ کے اس فعل کو برائی پر محمول نہ کریں بلکہ یہ جان لیں کہ ان سے یہ فعل بتقاضائے بشریت سرزد ہو گیا تھا جس میں ان کے مقصد و ارادے یا کسی برائی کا قطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔

قاضی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ رکابی توڑ دینا ایک طرح کا غصب تھا کیونکہ اس سے ایک دوسرئے کا مال تلف ہوا اگرچہ اس کا سبب خواہ کچھ ہی رہا ہو۔ یا پھر یہ کہ کھانے کی جو چیز بھیجی گئی تھی وہ تو تحفہ کے طور پر تھی لیکن جس رکابی میں وہ چیز بھیجی گئی تھی وہ بطریق عاریت کے تھی اس لئے اس مناسبت سے یہ حدیث اس باب میں ذکر کی گئی ہے۔

کسی مسلمان کا مال لوٹنا حرام ہے

اور حضرت عبداللہ بن یزید نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوٹنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری)

 

تشریح

 

 کسی مسلمان کا مال لوٹنا حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ غیر مسلم کا مال لوٹنا حرام نہیں ہے بلکہ مقصد تو صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مال کو ناحق طور پر اور زور زبردستی سے لوٹ مار لیں کیونکہ اس کا تعلق صرف حقوق العباد کی پامالی ہی سے نہیں ہے بلکہ معاشرہ اور سوسائٹی کے امن و سکون کی مکمل تباہی سے بھی ہے لہذا امن و سلامتی کے سرچشمہ اسلام کا تابعدار ہونے کے ناطے ایک مسلمان پر یہ ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاشرہ اپنی قوم اور اپنے ملک کے نظام امن و امان کو درہم برہم ہونے اور لاقانونیت پھیلنے سے بچائے جس کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ دوسرے کے مال دوسرے کی جائیداد اور دوسرے کے حقوق کی پامالی اور لوٹ مار کو اسی طرح ناقابل برداشت سمجھا جائے جس طرح اپنے مال اپنی جائیداد اور اپنے حقوق پر کسی کی دست درازی قطعاً برداشت نہیں ہو سکتی۔

مثلہ جسم کے کسی عضو مثلاً ناک اور کان وغیرہ کاٹ ڈالنے کو کہتے ہیں اسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح خدا کی تخلیق میں بگاڑ اور بد نمائی پیدا کرنا لازم آتا ہے۔

حاجیوں کا سامان چرانے والے کا عبرتناک حشر

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات کے دن سورج گرہن ہوا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو سورج گرہن کی نماز چھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائی (یعنی دو رکعتیں پڑھیں اور ہر رکعت میں تین تین رکوع اور دو دو سجدے کئے) اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوۓ تو سورج پہلے کی طرح روشن ہو چکا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس چیز کا یعنی جنت اور دوزخ کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ میں آج اپنی اس نماز میں دیکھ لی ہے چنانچہ دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب نماز کے دوران تم نے مجھے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا تھا اور میں اس خوف سے پیچھے ہٹ گیا تھا کہ کہیں اس کی گرمی مجھ تک نہ پہنچ جائے میں نے اس وقت دوزخ میں خمدار لکڑی والے یعنی عمرو ابن لحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس میں اپنی انتڑیوں کو کھینچ رہا تھا یہ شخص اپنی خمدار لکڑی کے ذریعہ حاجیوں کا سامان چرایا کرتا تھا (جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ چلتے چلتے کسی کی کوئی چیز اپنی خمدار لکڑی میں الجھا لیتا تھا) اگر کوئی اس کی یہ حرکت دیکھ لیتا تو وہ یہ کہہ دیتا کہ یہ چیز اپنے آپ میری لکڑی میں الجھ آئی ہے اور اگر کوئی نہ دیکھ پاتا تو وہ اس چیز کو غائب کر دیتا تھا۔ نیز میں نے اس وقت دوزخ میں اس بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی جسے نہ وہ کچھ کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ حشرات الارض یعنی چوہے وغیرہ کھا لے یہاں تک کہ وہ بلی مارے بھوک کے مر گئی۔ پھر میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب تم نے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا مگر پھر میں اپنی جگہ ٹھہر گیا اور میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ میں اس کے پھل توڑ لوں جسے تم بھی دیکھ لو لیکن میں نے سوچا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تاکہ تمہارے ایمان بالغیب میں رخنہ نہ پڑے) (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ جنت اور دوزخ عالم وجود میں آ چکی ہیں اور موجود ہیں چنانچہ اہل سنت کا یہی مسلک ہے دوم یہ کہ عذاب اور ہلاکت کی جگہ سے ہٹ جانا سنت ہے سوم یہ کہ بعض لوگ اس وقت بھی دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہیں اور چہارم یہ کہ تھوڑا سا عمل نماز کو باطل نہیں کرتا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے دوران جنت اور دوزخ کو دیکھ کر آگے بڑھے اور پیچھے ہٹے۔

جانور کا عاریۃً مانگ لینا جائز ہے

اور حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک دن(ایک دن اس خیال سے کہ کفار کا لشکر مدینہ کے قریب آگیا ہے) مدینہ میں گھبراہٹ اور خوف کی ایک فضا پیدا ہو گئی ہے۔ (یہ دیکھ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت طلحہ کا گھوڑا کہ جسے مندوب یعنی سست کہا جاتا تھا عاریۃً مانگا اور اس پر سوار ہو کر تحقیق حال کے لیے مدینہ سے باہر نکلے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم واپس آئے تو فرمایا کہ میں نے خوف و گھبراہٹ کی کوئی چیز نہیں دیکھی ہے نیز میں نے اس گھوڑے کو کشادہ قدم یعنی تیز رفتار پایا ہے (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 حضرت ابو طلحہ کا گھوڑا پہلے بہت ڈھیلا اور سست رفتار تھا اسی واسطے اس کا نام ہی مندوب یعنی سست رکھ دیا گیا تھا مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس پر سوار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے وہ گھوڑا بڑا چاق و چوبند اور تیز رفتار ہو گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو عاریۃً مانگنا اور اسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے نیز کسی جانور کو کسی نام سے موسوم کر دینا بھی جائز ہے اسی طرح سامان جنگ کا نام رکھنا بھی جائز ہے۔

یہ حدیث جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شجاعت و بہادری اور کمال جانبازی کو ظاہر کرتی ہے کہ جب دشمن کی فوج کے مدینہ کے قریب آ جانے کے خوف سے پورے مدینہ میں اضطراب و گھبراہٹ کی ایک عام فضا پیدا ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بالکل بے خوف ہو کر تحقیق حال کے لے تن تنہا مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے وہیں یہ حدیث اس بات کی بھی غماز ہے کہ دشمنوں کی ٹوہ لینی اور ان کے حالات پر مطلع ہونے کے لئے سعی کرنا ضروری ہے۔ نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی خوف و اضطراب کے موقع پر خوف کے خاتمہ کی خوشخبری لوگوں کو دینا مستحب ہے۔

بنجر زمین کا آباد کرنے والا اس زمین کا مالک ہے

حضرت سعید بن زید نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مردہ زمین کو زندہ کرے یعنی بنجر وویران زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے اور ظالم کی رگ کا کوئی استحقاق نہیں ہے اس روایت کو احمد ترمذی ابو داؤد نے بطریق اتصال نقل کیا ہے جب کہ مالک نے اس روایت کو عروہ سے بطریق ارسال کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی زمین ویران و بنجر پڑی ہوئی ہو اور کوئی شخص اپنی محنت و مشقت سے اس زمین کو قابل کاشت بنائے یا اس کو آباد کرے تو وہ زمین اس شخص کی ملکیت ہو جاتی ہے بشرطیکہ وہ پہلے کسی مسلمان کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ شہر و گاؤں کی کسی ضرورت و مصلحت سے متعلق ہو جیسے وہ جانوروں کے بیٹھنے کی جگہ ہو کھلیان کے کام آتی ہو یا دھوبی کپڑے دھو کر وہاں پھیلاتے ہوں اور یا اس سے کسی بھی عوامی فائدہ کا تعلق ہو، حضرت امام اعظم کے نزدیک بنجر و ویران زمین کو قابل کاشت یا قابل آبادی کر کے اپنی ملکیت بنانے کی ایک شرط امام یعنی حکومت وقت کی اجازت بھی ہے اگر اسے سرکار کی طرف سے اجازت مل جائے تب وہ اس کا مالک ہو سکتا ہے جبکہ حضرت امام شافعی حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے ہاں یہ اجازت شرط نہیں ہے ان سب کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

اور ظالم کی رگ کا کوئی استحقاق نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی آباد کی ہوئی زمین میں کاشت کرے یا اس میں کوئی درخت لگا لے تو وہ اس کی وجہ سے اس زمین کا مالک نہیں بن جائے گا۔

کسی دوسرے کا مال بغیر اجازت حلال نہیں ہے

اور حضرت ابو حرہ رقاشی تابعی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا جان لو کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا اس کی مرضی و خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ اس روایت و بیہقی نے شعب الایمان میں اور دارقطنی نے مجتبی میں نقل کیا ہے۔

کسی کا مال لوٹنے والا اسلامی برادری کا فرد بننے کے قابل نہیں

اور حضرت عمران بن حصین نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ جلب جائز ہے اور نہ جنب اور نہ شغار اسلام میں جائز ہے اور یاد رکھو جو شخص کسی کو لوٹتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی وہ ہماری جماعت میں سے نہیں ہے یا ہمارے طریقہ پر نہیں ہے حاصل یہ کہ ایسا شخص اس قابل نہیں کہ اسے اسلامی برادری کا ایک فرد سمجھ جائے (ترمذی)

 

تشریح

 

 جلب اور جنب یہ دو اصطلاحی الفاظ ہیں۔ ان کا تعلق سباق سے بھی ہے اور صدقہ سے بھی سباق و مسابقت یعنی گھوڑ دوڑ کے مقابلے کو کہتے ہیں مثلاً دو آدمی اس شرط کے ساتھ آپس میں گھوڑے دوڑائیں کہ دیکھیں کون آگے نکل جاتا ہے لہذا سباق میں جلب یہ ہے کہ گھوڑا دوڑانے والا ایک آدمی اپنے گھوڑے کے پیچھے رکھے جس کا کام یہ ہو کہ وہ گھوڑے کو مارے آوازیں لگائے اور اس کو دوڑائے۔ اور جنب یہ ہے کہ گھوڑا اپنے ساتھ رکھے تاکہ سواری کا گھوڑا اگر تھک جائے تو اس دوسرے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے نکل جائے۔

صدقہ میں جلب کی صورت یہ ہے کہ صدقات و زکوٰۃ وصول کرنے والا جب صدقہ و زکوٰۃ وصول کرنے لوگوں کے پاس جائے تو آبادی سے باہر یا ان لوگوں سے دور کہیں بھی دوسری جگہ ٹھہر جائے اور کسی دوسرے آدمی کو ان لوگوں کے پاس یہ کہلا کر بھیجے کہ جن جن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہے وہ اپنی زکوٰۃ کا مال لیکر یہاں آ جائیں۔ اسی طرح جنب یہ ہے کہ جس شخص پر زکوٰۃ واجب ہو وہ اپنا مال لے کر اپنے مکان سے کہیں دور چلا جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والے سے کہے کہ وہ اس کے پاس وہیں پہنچ کر زکوٰۃ وصول کرے اس کا بیان کتاب زکوٰۃ میں گزر چکا ہے چنانچہ یہاں بھی جلب و جنب سے منع فرمایا گیا ہے خواہ ان کا تعلق سباق سے یا ہو صدقہ سے۔

شغار یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح کسی سے اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کر دے اور مہر کچھ نہ مقرر ہو بلکہ یہ شرط ہی مہر کے قائم مقام ہو۔ حدیث میں اس قسم کے عقد کو اسلام کے طریقہ کے خلاف فرمایا گیا ہے چنانچہ اکثر علماء کے نزدیک ایسا عقد فاسد ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ اور سفیان کے نزدیک یہ عقد نہ کرنا چاہئے۔

کسی کی کوئی چیز ہنسی مذاق میں لیکر ہڑپ نہ کر جاؤ

اور حضرت سائب بن یزید اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بھائی کا عصا (لاٹھی) ہنسی مذاق میں اس مقصد سے نہ لے کہ وہ اس کو رکھ لے گا جو شخص اپنے کسی بھائی سے عصا لے تو اسے واپس کر دینا چاہئے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص کسی سے اس کی لاٹھی یا چھڑی بظاہر تو ہنسی مذاق میں لے مگر مقصد یہ ہو کہ اسے ہڑپ کر لوں گا جیسا کہ آج کل اس کا بہت رواج ہے کہ ایک دوسرے کی چیز ہنسی مذاق میں چھپا دی جاتی ہے اگر مالک کو اس کا علم ہو جاتا ہے تو وہ چیز اسے واپس دے دی جاتی ہے اگر اسے علم نہیں ہو پاتا تو پھر ہمیشہ کے لئے غائب کر دی جاتی ہے اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ حدیث میں بطور خاص عصاء کا ذکر بطریق مبالغہ ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اتنی حقیر اور کم تر چیز کا لینا منع ہے تو اس سے زیادہ حیثیت کی چیز کا لینا بطریق اولی ممنوع ہو گا۔

اپنا چوری کا مال جس کے پاس دیکھو اس سے لے لو

اور حضرت سمرۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا مال بعینہ کسی کے پاس دیکھے تو وہ اس کو لے لینے کا حقدار ہے اور اس کو خریدنے والا اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اسے بیچا ہے (احمد ابو داؤد نسائی)

 

تشریح

 

 حدیث کے مفہوم کا حاصل یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی کا کوئی مال غصب کیا یا کسی کی کوئی چیز چوری کی یا کسی شخص کی کوئی گمشدہ چیز اس کے ہاتھ لگ گئی اور اس نے وہ چیز کسی دوسرے شخص کو بیچ دی تو اب اگر مالک اپنی وہ چیز خریدنے والے کے پاس دیکھے تو اسے اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی چیز اس سے لے لے اور خریدنے والے نے وہ چیز جس سے خریدی ہے اس کا پیچھا کر کے اس سے اپنی قیمت واپس لے لے۔

جس سے کوئی چیز لو اس کو واپس کر دو

اور حضرت سمرۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی سے لی گئی چیز لینے والے کے ہاتھ کے اوپر ہے جب تک کہ وہ واپس نہ کر دی جائے (ترمذی ابو داؤد، ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے کسی سے کوئی چیز لی ہے وہ اس کے ذمہ واجب الاداء جب تک کہ وہ چیز اس کے مالک کو واپس نہ کر دی جائے۔ حاصل یہ کہ اگر کسی شخص نے کسی کی کوئی چیز چھین رکھی ہے یا کسی کی کوئی چیز چرا رکھی ہے یا کسی کی کوئی چیز مستعار لے رکھی ہے اور یا کسی کی کوئی چیز اپنے پاس بطور امانت رکھ چھوڑی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس چیز کو مالک کے حوالے کر دے لہذا چھینا ہوا مال اس کے مالک کو واپس کرنا واجب ہے اگرچہ مالک اس کا مطالبہ نہ کرے اسی طرح عاریۃً لی ہوئی چیز وہ مدت پوری ہو جانے کے بعد مالک کو واپس کر دینا ضروری ہے اگر کوئی مدت مقرر کی گئی ہو جو چیز بطور امانت اپنے پاس رکھی ہوئی ہو اس کو اسی وقت واپس کرنا لازم ہو گا جب کہ مالک مطالبہ کرے مالک کے مطالبہ سے پہلے واپس کرنا واجب نہیں ہے۔

کسی کے باغ وغیرہ کو جانور کے نقصان پہچانے کا مسئلہ

اور حضرت حرام بن سعد بن محیصہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت بار بن عازب کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور باغ کو خراب کر ڈالا جب یہ معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ دن میں باغات کی حفاظت باغ والوں کے ذمہ ہے اور جو جانور رات میں باغات کو خراب کریں تو اس کا ضمان یعنی تاوان جانوروں کے مالکوں پر ہے (مالک ابو داؤ ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی جانور دن میں کسی کے باغ کو خراب کر دے تو اس کا تاوان جانور کے مالک پر نہیں آتا کیونکہ دن میں باغ کی حفاظت کرنا باغ والے کی ذمہ داری ہے لہذا یہ اس کی اپنی کوتاہی ہے کہ اس نے اپنے باغ کی نگہبانی کیوں نہیں کی اور کسی جانور کو باغ میں کیوں گھسنے دیا۔ اور اگر کوئی جانور رات میں کسی کے باغ کو نقصان پہنچائے تو اس کا تاوان اس جانور کے مالک پر واجب ہو گا کیونکہ یہ جانور کے مالک کا قصور ہے کہ جب رات میں اپنے جانوروں کی نگہبانی اس کے ذمہ ہے تو اس نے اپنے جانور کو آزاد چھوڑ کر ایک دوسرے شخص کے نقصان کا باعث کیوں بنا؟

یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ جانور کا مالک جانور کے ساتھ نہ ہو اگر مالک جانور کے ساتھ ہو گا خواہ وہ جانور پر سوار ہو یا اسے کھینچ کر لائے جا رہا ہو تو پھر دن میں بھی جانور کے پہنچائے ہوئے نقصان کا تاوان جانور کے مالک پر ہو گا چاہے وہ جانور اپنے ہاتھ پاؤں سے نقصان پہنچائے چاہے منہ سے۔

 یہ تو حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا مسلک ہے اس بارے میں حنفی مسلک یہ ہے کہ اگر جانور کے ساتھ نہ ہو تو پھر اس پر نقصان کا تاوان واجب نہیں ہوتا خواہ وہ جانور دن میں نقصان پہنچائے خواہ رات میں۔

 

 

 

٭٭ اور حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پاؤں کا روندا ہوا معاف ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آگ کا جلایا ہوا معاف ہے (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 یعنی اگر کوئی جانور کسی کی چیز کو پاؤں سے روند کچل کر تلف و ضائع کر دے تو اس کی وجہ سے اس جانور کے مالک پر تاوان واجبہ نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ مالک جانور کے ساتھ نہ ہو اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی برے مقصد مثلاً ایذاء رسانی وغیرہ کے بغیر محض اپنی ضرورت یا کسی اور وجہ سے آگ جلائی اور اس کی کوئی چنگاری ہوا میں اڑ کر کسی دوسرے کے سامان پر جا پڑی جس سے وہ سامان جل گیا تو اس صورت میں آگ جلانے والے پر نقصان کا تاوان نہیں واجب ہو گا بشرطیکہ اس نے جس وقت آگ جلائی ہو اس وقت ہوا ٹھہری ہوئی ہو اور آگ جلنے کے بعد چلی ہو اور اگر اس نے ایسے وقت آگ جلائی جب کہ ہوا چل رہی تھی اور اس کی وجہ سے آگ سے نقصان پہنچ جانے کا احتمال تھا تو پھر اس پر تاوان واجب ہو گا۔

حالت اضطرار میں دوسرے کے جانور کا دودھ پینے کی اجازت

اور حضرت حسن حضرت سمرہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص دودھ کے جانوروں کے پاس آئے تو اگر وہاں ان جانوروں کا مالک موجود ہو تو اس سے دودھ پینے کی اجات مانگے اور اگر وہاں موجود نہ ہو تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ تین مرتبہ آواز دے اس کی آواز سن کر اگر کوئی جواب دے تو اس سے پوچھ لے اور اگر کوئی جواب نہ دے تو وہ بقدر ضرورت دودھ دھو کر پی لے مگر دودھ اپنے ساتھ بالکل نہ لے جائے (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں مذکورہ ہدایت کا تعلق اس شخص سے ہے جو حالت اضطرار کو پہنچ چکا ہو یعنی بھوک کے مارے مرا جا رہا ہو ایسے شخص کے لئے یہ اجازت ہے کہ اگر وہ دودھ کے جانور کے پاس ہو اور وہاں ان کا مالک موجود نہ ہو جس سے وہ اجازت لے کر دودھ پی سکے تو وہ مذکورہ ہدایت کے مطابق ان جانوروں کا بقدر ضرورت دودھ پی لے۔

دوسرے کے باغ کا پھل مالک کی اجازت کے بغیر کھانے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی دوسرے شخص کے باغ میں جائے تو اسے چاہئے کہ وہ وہاں کے پھل کھا لے جیب اور جھولے میں بھر کر نہ لے جائے (ترمذی ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے

 

تشریح

 

 اس حدیث کا مقصد اس بات کی عام اجات دینا نہیں ہے کہ جو بھی چاہے کسی غیر شخص کے باغ میں جا کر پھل توڑے اور کھا لے کیونکہ کسی دوسرے کی کوئی بھی چیز اس کی اجازت و مرضی کے بغیر لینا اور کھانا مطلقاً درست نہیں ہے بلکہ یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح یا تو حالت اضطرار پر محمول ہے یا اس کا تعلق ایسے مقامات سے ہے جہاں کسی کے باغ میں پہنچ کر باغ والے کی اجازت کے بغیر پھل کھا لینا ممنوع نہیں ہوتا۔

مستعار لی ہوئی چیز امانت کے حکم میں ہے

اور حضرت امیہ بن صفوان اپنے والد (صفوان) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین کی جنگ کے دن ان (صفوان) سے کئی زرہیں عاریۃً لیں انہوں نے پوچھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ زرہیں غصب کے طریقہ پر لے رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ عاریۃً لے رہا ہوں جو کہ واپس کر دی جائیں گی (أبوداؤد)

 

تشریح

 

 غزوۃ حنین کے موقع پر جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ زرہیں صفوان سے مستعار لیں تو چونکہ صفوان اسلام کی دولت سے بہرہ ور نہیں تھے اسی لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زرہیں دیتے ہوئے جو سوال کیا وہ بظاہر حد ادب سے گرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں صفوان اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئے تھے رضی اللہ عنہ۔

حضرت شریح، حضرت نخعی حضرت سفیان ثوری اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ جو چیز مستعار لی جاتی ہے وہ مستعار لینے والے کے پاس بطور امانت ہوتی ہے کہ اگر وہ تلف و ضائع ہو جائے تو اس کا بدلہ دینا واجب نہیں ہوتا ہاں اگر مستعار لینے والا اس چیز کو قصداً ضائع کر دے تو پھر اس پر اس چیز کا بدل واجب ہوتا ہے لیکن حضرت ابن عباس حضرت ابو ہریرہ حضرت امام شافعی اور امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ اگر وہ چیز ضائع و تلف ہو جائے تو مستعار لینے اولے پر اس کا بدل یعنی اس چیز کی قیمت ادا کرنا واجب ہوتا ہے اسی لئے ان حضرات کے نزدیک لفظ مضمونۃ جو واپس کر دی جائیں گی کے یہ معنی ہیں تلف ہو جانے کی صورت میں ان کا بدل ادا کیا جائے گا۔

مستعار چیز کو واپس کر دینا واجب ہے

اور حضرت ابو امامۃ کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ مستعار چیز واپس کی جائے (یعنی کسی کی کوئی چیز مستعار لینے والے پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو اس کے مالک کے پاس واپس پہنچا دے) منحہ کا واپس کرنا ضروری ہے قرض کو ادا کیا جائے یعنی قرض کو ادا کرنا واجب ہے اور ضامن ضمانت پوری کرنے پر مجبور ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کے قرض وغیرہ کا ضامن ہو تو اس کی ادائے گی اس پر لازم ہے (ترمذی ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 منحہ اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کو اپنا جانور دودھ پینے کے لئے دے دے یا کسی کو اپنی زمین یا اپنا باغ پھل وغیرہ کھانے کے لئے دے دے لہذا منحہ میں چونکہ صرف منفعت کا مالک بنایا جاتا ہے نہ کہ اصل اس چیز کا اس لئے اس چیز مثلاً جانور سے فائدہ اٹھانے کے بعد اسے مالک کو واپس کر دینا واجب ہے۔

درخت سے گرے ہوئے پھل اٹھانے کا مسئلہ

اور حضرت رافع عمرو غفاری کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا ایک دین انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے! تو کھجوروں پر پتھر کیوں پھینکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کھجوریں کھاتا ہوں (یعنی کھجوریں کھانے کے لئے ان کے درختوں پر پتھر مارتا ہوں کسی اور مقصد سے پتھر نہیں پھینکتا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پتھر نہ پھینکا کر وہاں جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں ان کو کھا لیا کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ تو اس کا پیٹ بھر (ترمذی، ابو داؤد ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رافع کو درخت کے نیچے گری پڑی کھجوریں کھا لینے کی اجازت اس لئے عطا فرمائی کہ عام طور پر درختوں پر سے گرے ہوئے پھلوں کو کھانے سے کوئی منع نہیں کرتا۔ خاص طور پر بچے چونک کچے پکے اور گرے پڑے پھلوں کی طرف بہت راغب ہوتے ہیں اس لئے ان کو اس سے کوئی بھی منع نہیں کرتا تاکہ وہ درخت کے نیچے گرے پڑے پھل اٹھا کر کھا لیں۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر رافع حالت اضطرار میں ہوتے یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں گرے پڑے پھلوں ہی کے کھانے کی اجازت دینے پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ درخت پر سے کھجوریں توڑ کر کھا لینے کی بھی اجازت دے دیتے۔

وسنذکر حدیث عمرو بن شعیب فی باب اللقطۃ ان شاء اللہ تعالی۔

زمین غصب کرنے کی سزا

حضرت سالم اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کیا کہ جو شخص زمین کا کوئی حصہ بھی ناحق لے گا (یعنی کسی کی زمین کا کوئی بھی قطعہ از راہ ظلم و زبردستی لے گا) تو قیامت کے دن اسے زمین کے ساتویں طبقہ تک دھنسایا جائے گا (بخاری)

 اور حضرت یعلی بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے تھے کہ جو شخص زمین کا کوئی بھی حصہ ناحق (یعنی از راہ ظلم) لے گا اسے حشر کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس زمین کی ساری مٹی اپنے سر پر اٹھائے (احمد)

 

تشریح


 از راہ ظلم کسی کی زمین غصب کرنے والے کی مختلف سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے پہلی فصل میں تو یہ فرمایا گیا تھا کہ قیامت کے دن ایسے شخص کے گلے میں زمین کا وہ قطعہ طوق بنا کر ڈالا جائے گا جو اس نے کسی سے زبردستی ہتھیایا ہو گا اوپر کی حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے والا قیامت کے دن زمین کے ساتویں طبقہ تک دھنسایا جائے گا۔ یہاں اس حدیث میں یہ سزا ذکر کی گئی ہے کہ کسی کی زمین پر ناجائز طریقہ سے قبضہ کرنے والا حشر کے دن اس بات پر مجبور کیا جائے گا کہ اس زمین کی ساری مٹی اپنے سرپر اٹھائے۔ آنے والی حدیث اس بارے میں سزا کی ایک اور قسم کو بیان کر رہی ہے۔ گویا عذاب و سزا کی مختلف صورتیں اور قسمیں ہیں چنانچہ کسی کو اس طرح عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور کسی کو اس طرح سزا دی جائے گی۔

 

 

٭٭ اور حضرت یعلی بن مرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر بھی زمین از راہ ظلم لے گا سے اس کی قبر میں اللہ تعالیٰ اس بات پر مجبور کریگا کہ وہ اس زمین کو ساتویں طبقہ زمین تک کھودتا رہے پھر وہ زمین اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی اور وہ قیامت تک اسی حال میں رہے گا حتی کہ قیامت کے دن لوگوں کا حساب کتاب ہو جائے (احمد)