مشکوٰة شر یف

غصہ اور تکبر کا بیان

نرمی، مہربانی، حیاء اور حسن خلق کا بیان

'رفق  عنف کی ضد ہے اور اس کے معنی ہیں نرمی و ملائمت اور فروتنی کا رویہ اختیار کرنا اپنے ساتھیوں کے حق میں مہربان نرم خو ہونا اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا اور ہر کام اطمینان و خوش اسلوبی سے کرنا۔

 حیاء سے مراد شرمندہ اور محبوب ہونا اور حیاء دراصل اس کیفیت کا نام ہے جو کسی انسان پر عیب برائی کے خوف و ندامت کے وقت طاری ہو اسی لیے کہا جاتا ہے کہ بہترین حیاء وہی ہے جو نفس کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے بری قرار دیا ہے۔ حضرت جنید کا یہ قول کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو اللہ کی نعمتوں کے حاصل ہونے اور ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے کی وجہ سے وحشت کے ساتھ دل میں پائی جائے اور حضرت رقاق کا قول یہ ہے کہ حیاء اس کیفیت کا نام ہے جو آقا کے سامنے درخواست و طلب سے باز رکھتی ہے۔

 حسن خلق یعنی خوش خلقی یا اچھے اخلاق کا سب سے واضح مطلب یہ ہے کہ اس چیز کی اتباع و پیروی کی جائے جس کو خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا کی طرف سے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا ہے یعنی شریعت، آداب طریقت اور احوال حقیقت و معرفت۔چنانچہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ اللہ نے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ آیت (وانک لعلی خلق عظیم)۔تو آپ کے وہ اخلاق کیا تھے جن کو خلق عظیم کہا گیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آپ کا خلق قرآن کریم ہے یعنی قرآن مجید میں اچھی خصلتیں اور اعلیٰ اوصاف بیان کیے گئے ہیں (خواہ ان کا تعلق اللہ کی نافرمانی سے ہو یا مخلوق خدا کے ساتھ بدمعالگی سے آپ ان سب سے اجتناب فرماتے تھے رہی اتباع درجات کی بات تو ظاہر ہے کہ اتباع بقدر محبت و توفیق متابعت کے حاصل ہوتی ہے یعنی جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت سے جتنا زیادہ سرشار ہوتا ہے اس کو اتباع کرنے کی جس قدر توفیق نصیب ہوتی ہے وہ اتنا ہی زیادہ اور اسی قدر اتباع بھی کرتا ہے اور جس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کا جتنا کم حصہ ہوتا ہے اور اتباع کرنے کی جس قدر کم توفیق نصیب ہوتی ہے وہ اتباع میں اسی قدر پیچھے رہتا ہے۔

نرمی و مہربانی کی فضیلت

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالی نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ تعالی اپنے بندوں پر خود بھی نرم و مہربان ہے اور ان کو ایسے امور کا مکلف قرار نہیں دیتا جو ان کی قوت برداشت سے باہر ہوں اور جن کی وجہ سسے وہ دشواریوں اور سختیوں میں مبتلا ہوں اور وہ بندے کے تئیں بھی اس بات کو پسند کرتا ہے اور اس سے راضی و خوشی ہوتا ہے کہ وہ آپس میں نرمی و مہربانی کریں اور ایک دوسرے کو سختیوں اور دشواریوں میں مبتلا نہ کریں۔ اس لیے وہ نرمی و مہربانی پر وہ چیز عطا فرماتا ہے جو درشتی سختی پر عطا نہیں فرماتا اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے وہ نرمی و مہربانی کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا۔ مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا نرمی و مہربانی کو لازمی طور پر اختیار کرو اور سختی اور بے حیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ کیونکہ جس چیز میں نرمی ہوتی ہے اور اس کو زینت بخشی جاتی ہے اور جس چیز میں سے نکالی جاتی ہے وہ عیب دار ہو جاتی ہے۔

 

تشریح

 

اللہ تعالی نرم و مہربان ہے اور نرمی و مہربانی کو پسند کرتا ہے، کے ذریعے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا نرمی و مہربانی کو پسند کرنا خود بندوں کے اس مفاد و مصالح کے پیش نظر ہے کہ آپس میں نرمی و مہربانی اور شفقت و مروت کے جذبات کو فروغ دینا ایک ایسی خوبی ہے جس کے ذریعہ معاشرہ کو مطمئن و پر سکون اور انسانی زندگیوں کو مختلف پریشانیوں اور بے چینیوں سے محفوظ رکھنا ہے چنانچہ جس معاشرہ کے افراد اپنے تمام امور میں ایک دوسرے سے نرم خوئی اور مہربانی کا برتاؤ کرتے ہیں ایک دوسرے کو سختیوں اور پریشانیوں میں مبتلا کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور باہمی معاملات کو سہولت و آسانی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں اور ان امور معاملات کا تعلق خواہ حصول معاش سے یا اس کے علاوہ معاشرتی زندگی کے کسی بھی پہلو سے ہو تو اس معاشرہ کا ہر فرد اپنے آپ کو فلاح یاب محسوس کرتا ہے اور پورے معاشرہ پر حق تعالی کی طرف سے خیر و برکت اور اس کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے چنانچہ، ویعطی علی الرفق۔ کے ذریعہ نہ صرف یہ ترغیب دلائی گئی کہ اپنے امور معاملات میں باہمی نرمی و مہربانی کو اختیار کرو تاکہ حصول مقصد کو پہنچ سکو بشارت بھی دی گئی ہے کہ جو لوگ سختی کے بجائے نرمی و مہربانی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ان کو حق تعالی اجر و ثواب عطا فرماتا ہے اور مقاصد میں کامیاب و کامران کرتا ہے۔

 اور نرمی و مہربانی پر جو چیز عطا کرتا ہے یہ جملہ ماقبل عبارت کے مفہوم کو ایک دوسرے انداز میں کر رہا ہے یعنی پہلے تو نرمی و مہربانی کو سختی پر ترجیح دی گئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اجر و ثواب اور حصول مقصد کی جو نعمت نرمی و مہربانی اختیار کرنے پر ہوتی ہے وہ سختی اختیار کرنے پر نہیں ہوتی اور پھر آگے اس جملہ کے ذریعہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ نرمی و مہربانی اپنی ضد یعنی سختی ہی پر نہیں بلکہ حصول مقصد کے اور دوسرے اسباب و وسائل پر بھی ترجیح و فضیلت رکھتی ہے البتہ اس موقع پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اسباب وسائل از قسم نرمی ہوں تو ترجیح و فضیلت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر از قسم سختی ہوں تو نرمی و مہربانی کا سختی پر فضیلت و ترجیح رکھنا ما قبل عبارت سے واضح ہو ہی چکا ہے اس کے بعد اسی مفہوم کو دو بارہ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ دونوں جملوں کی عبارت میں ظاہری طور پر تفاوت ہے مگر حقیقت میں یہ دوسرا جملہ ما قبل عبارت کو مؤکد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور دونوں جملوں کا مقصد اس بات کو زیادہ اہمیت دینا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنے مقاصد جیسے حصول معاش وغیرہ کی طلب اور سعی اور جدوجہد میں ایسا رویہ اختیار کرے جو نرم خوئی مہربانی اور ایک دوسرے کے ساتھ لحاظ و مروت کا ہو کیوں کہ انسان کو اس کی مطلوب چیز دینے والا حقیقت میں اللہ ہے اور چونکہ نرمی و مہربانی اس کے نزدیک محبوب ہے اس لیے وہ نرمی و مہربانی کا رویہ اختیار کرنے والے کو زیادہ عطا فرماتا ہے بہ نسبت اس شخص کے جو اپنے مقاصد کے حصول میں سختی و درشتی اور عامیانہ انداز و رویہ اختیار کرتا ہے۔

جس شخص میں نرمی و مہربانی نہ ہو وہ نیکی سے محروم رہتا ہے

اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس شخص کو نرمی و مہربانی سے محروم کیا جاتا ہے وہ گویا نیکی سے محروم سے کیا جاتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ خیبر کے ساتھ کلہ کا لفظ بھی ہے لہذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص نرمی و مہربانی کی خوبیوں سے عاری ہوتا ہے وہ تمام بھلائیوں سے محروم قرار پاتا ہے گویا اس ارشاد گرامی کا مقصد نرمی و مہربانی کے وصف کی فضیلت بیان کرنا اس عظیم وصف کو حاصل کرنے کی ترغیب دلانا اور سختی کی مذمت کرنا اور یہ بات واضح کرنا ہے کہ نرمی و مہربانی تمام بھلائیوں کے حاصل ہونے کا سبب ذریعہ ہے۔

حیا کی فضیلت

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا کہ اس کو کچھ مت کہو کیونکہ حیا ایک شاخ ہے ایمان کی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

وہ صحابی اپنے بھائی کو زیادہ حیا کرنے سے منع کر رہے تھے کہ جو شخص زیادہ حیا کرنے لگتا ہے وہ رزق علم حاصل کرنے سے باز رہتا ہے چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس طرح کہتے ہوئے سنا تو ان کو منع کیا کہ تم اپنے اس بھائی کو حیا کرنے سے نہ روکو کیونکہ حیا بذات خود بہت اعلیٰ وصف ہے اور ایمان کی ایک شاخ ہے۔طیبی نے لفظ یعظ سے مراد ینذر ہے یعنی وہ صحابی اپنے بھائی کو ڈرا دھمکا رہے تھے امام راعب نے لکھا ہے کہ وعظ کے معنی ہیں کسی کو اس طرح تنبیہ کرنا کہ اس میں کچھ ڈر بھی ہو۔خلیل نے یہ بیان کیا ہے کہ وعظ کہتے ہیں کہ خیر بھلائی کی اس طرح نصیحت کرنا کہ اس کے اس سے دل نرم ہو جائے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں وعظ عتاب کے معی میں ہے جیسا کہ ایک روایت میں یعظ کے بجائے یعاتب کا لفظ منقول ہے۔

 

 

 اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حیا نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی بات پیدا نہیں کرتا ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حیا کی تمام صورتیں بہتر ہیں۔

 

تشریح

 

یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بسا اوقات حیا بعض حقوق کی ادائیگی جیسے امر بالمعروف میں مخل ہوتی ہے تو اس اعتبار سے حیا کی تمام صورتیں کو بہتر قرار دینا کیسے درست ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو حیاء اظہار حقیقت اور حق کی ادائیگی سے باز رکھے اس کو حیا کہا جاتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کو عجز اور بزدلی کہیں گے جو ایک طرح کی خرابی اور نقصان ہے اور اگر اس کو حیا کہا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ مجازا کہا جا سکتا ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں حقیقی حیا وہی ہے کہ جو برائی کو ترک کرنے کا باعث بنے علاوہ ازیں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ حیا کے زیادہ صحیح معنی نفس کا برائی سے رک جانا خواہ وہ برائی طبعی ہو یا شرعی۔ اور شریعت میں جس حیا کو بہتر اور قابل تعریف کہا گیا ہے اس کی صحیح پہچان یہ ہے کہ نفس اس چیز کو اختیار کرنے سے باز رہے جس کو شریعت نے برائی قرار دیا ہے خواہ وہ حرام ہو یا مکروہ یا ترک اولی لہذا مذکورہ بالا اشکال کا زیادہ واضح جواب یہ ہے کہ یہ کلیہ حیاء خیر کلہ، حیا کی ان صورتوں کے ساتھ خاص ہے جو حق تعالی کی رضا و خوشنودی کے مطابق ہوں۔

ایک بہت پرانی بات جو پچھلے انبیاء سے منقول چلی آ رہی ہے

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا لوگوں نے پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام میں سے جو بات پائی ہے وہ یہ کہ جب تو بے شرم ہو جائے تو جو جی چاہے کرے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

ان مما ادرک الناس۔ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بات پہلے انبیاء پر اترنے والے کلام سے ماخوذ ہے اور جس کا حکم ابھی تک باقی ہے نہ اس کو منسوخ قرار دیا گیا ہے اور نہ اس میں کوئی تغیر و تبدل ہوا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ جملہ میں جو امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے یعنی جو جی چاہے کر اس سے حکم دینا طلب مراد نہیں ہے بلکہ یہ امر بطور خبر کے ہے جس کا مطلب ہے کہ جو چیز بری باتوں سے باز رکھتی ہے وہ حیا ہے اور جب حیا نہ رہے اور آدمی بے حیائی کا شیوہ اپنا لے تو پھر وہ جو چاہے کرے گا اور اس سے کسی گناہ اور کسی برائی کو اختیار کرنے میں کوئی باک نہیں ہو گا یا یہ کہ امر کا صیغہ بطور تہدید و توبیخ کے ہے اور اس سے مقصد یہ آگاہی دینا ہے کہ جب تم نے بے حیائی کی کمر باندھ لی تو جی چاہے کرو۔ لیکن یاد رکھو کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ جب تمہیں اپنے سارے کرتوتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آیت (اعملو ماشئتم)

نیکی اور گناہ کیا ہے؟

اور حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نیکی خوش خلقی کا نام ہے اور گناہ وہ کام ہے جو تمہارے دل میں تردد پیدا کرے اور تم اس بات کو پسند نہ کرو لوگ تمہارے اس کام سے واقف ہو جائیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

تردد پیدا کرے کا مطلب یہ ہے کہ جب تم ایسا کام کرو جس پر تمہارے دل کو اطمینان نہ ہو بلکہ اس کی وجہ سے دل و دماغ میں ایک خلش پیدا ہو جائے تو سمجھو کہ تمہارا وہ کام بہتر نہیں ہے بلکہ گناہ کا باعث ہے لیکن واضح رہے کہ اس بات کا تعلق اس شخص سے ہے جس کے سینے کو اللہ نے اسلام کی دولت کے لیے کھول دیا ہے اور اس کا دل نور تقوی سے روش ہو علاوہ ازیں کام سے مراد وہ اعمال نہیں ہیں جن کی برائی کو شریعت نے واضح کر دیا ہے اور جس کا گناہ ہونا کسی شک و شبہ سے بالاتر ہو بلکہ اس سے مراد کوئی ایسا فعل ہے جو ممنوع ہونا شارع سے واضح طور پر منقول نہ ہو۔ اور اس کے متعلق علماء کے اختلافی اقوال ہوں اور تم اس بات کو پسند نہ کرو یہ گویا گناہ کی دوسری پہچان بیان فرمائی لیکن اس کا تعلق بھی انہی لوگوں سے ہے جو اچھے احوال کے ہوں۔

اچھے اخلاق کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے وہ شخص مجھ کو بہت پیارا ہے جو اچھے اخلاق کا حامل ہو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک بہت محبوب ہے جو اچھے طور و عادات رکھتا ہو اور بہترین خصلتوں کا حامل ہو بایں طور کہ اللہ کے حقوق بھی ادا کرتا ہو اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی تقصیر و کوتاہی نہ کرتا ہو۔

اچھے اخلاق کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔

نرمی کی فضیلت و اہمیت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو نرمی میں سے حصہ دیا گیا اس کو گویا دنیا و آخرت کی بھلائیوں میں سے حصہ دیا گیا جو شخص نرمی میں سے اپنے حصے سے محروم رہا وہ گویا دنیا و آخرت کی بھلائیوں میں سے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ (شرح السنہ۔)

حیا ایمان کا جزء ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حیاء یعنی برے کاموں سے حجاب رکھنا ایمان کا جز ہے اور ایمان یعنی مومن جنت میں جائے گا اور بے حیائی بدی کا جز ہے اور بد دوزخ کی آگ میں جائے گا۔ (احمد، ترمذی)

خوش خلقی بہترین عطیہ خداوندی ہے

اور قبیلہ مزنیہ کے ایک شخص نے بیان کیا کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ جو چیزیں انسان کو عطا کی گئی ہیں ان میں سے بہترین چیز کیا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خوش خلقی اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور شرح السنہ میں یہ روایت اسامہ بن شریک سے منقول ہے۔

بد خلقی اور سخت کلامی کی مذمت

اور حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جنت میں نہ تو سخت کلام داخل ہو گا اور نہ بدخلق راوی کہتے ہیں کہ جواظ کے معنی ہیں سخت کلام اور بد خلق۔ اس روایت کو ابوداؤد نے اپنی سنن میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز صاحب جامع الاصول نے بھی جامع الاصول میں اس روایت کو حارثہ ہی سے نقل کیا ہے اور اسی طرح یہ روایت شرح السنہ میں حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ ہی سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے کہ جنت میں جواظ جعظری داخل نہیں ہوں گے۔گویا ان الفاظ میں جعظری کو جواظ کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ جعظری کے معنی ہیں بدخلق اور سخت کلام اور مصابیح کے بعض نسخوں میں یہ روایت حضرت عکرمہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ان میں یوں بیان کیا گیا ہے راوی نے کہا ہے کہ جواظ اس شخص کو کہتے ہیں جو مال و دولت جمع کرے لیکن سائل کو کچھ نہ دے۔ اور جعظری اس شخص کو کہتے ہیں جو سخت کلام اور بد خلق ہو۔

 

تشریح

 

جیسا کہ اوپر کی عبارتوں سے واضح ہوا کہ بعض روایتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جواظ اور جعظری دونوں ایک معنی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جواظ کے معنی متکبر کے ہیں اور جعظری کے معنی بدخلق لیکن ان سب روایتوں کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ معنی و مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب ہیں اور دونوں کے درمیان زیادہ تفاوت نہیں ہے۔

 اور ملا علی قاری کہتے ہیں کہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ جواظ اور جعظری سے مراد وہ شخص ہے جو سخت دل اور بدخلق ہو یعنی جس کے باطنی احوال کی گمراہیوں اور عادات و  اطوار کی خرابیوں نے اس کو شقی القلب بنا دیا ہے کہ نہ اس پر کسی وعظ کا اثر ہوتا ہو اور نہ اس کو خدا کا خوف برائیوں سے روکتا ہو اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اس کا قرینہ وہ روایت ہے جس کو خطیب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ہر چیز کے لیے توبہ ہے مگر بد خلق کے حق میں توبہ کارگر نہیں ہے کیونکہ وہ ایک تو گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے دوسرے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی بد چلنی اور بد اطواری اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔

لایدخل الجنۃ الجواظ ولاالجعظری میں لفظ جعظری سے پہلے لا زائد لانا اس بات کی طرف اشارہ ہے یہ جو شخص ان دونوں بری خصلتوں میں سے کسی بھی ایک خصلت میں مبتلا ہو گا اس کو جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا اگر وہ شخص منافقین میں سے ہے تو اس کا جنت میں داخل نہ کیا جانا مطلق معنی پر محمول ہو گا اور اگر اس کا تعلق مومنین سے ہو تو پھر کہا جائے گا کہ اس کے حق میں ان الفاظ کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا کا مطلب یہ ہے کہ وہ نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ ابتداء جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

خوش خلقی کی فضیلت اور فحش گوئی کی مذمت

اور حضرت ابودرداء نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کی میزان اعمال میں رکھی جانے والی چیزوں میں بہت سی وزنی چیز حسن خلق ہے اور اللہ تعالی فحش بکنے والے بے ہودہ گو سے سخت نفرت کرتے ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے نیز ابوداؤد نے بھی اس روایت کا حصہ یعنی خلق حسن نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

حضرت شیخ عبدالحق نے لفظ بذی کا ترجمہ بے ہودہ گو لیا لیکن ملا علی قاری نے کسی شارح سے اس لفظ کے معنی بد خلق نقل کیے ہیں اور لکھا ہے کہ یہی معنی موقع کے مناسب ہیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیث میں پہلے جملے کے مقابلہ پر جو دوسرا جملہ لایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن میزان اعمال میں بد خلقی بہت بے وزن چیز ہو گی۔

خوش خلقی اختیار کرنے والے کا مرتبہ

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مومن یعنی کامل مومن کہ جو عالم با عمل ہوتا ہے) خوش خلقی کے سبب وہ درجہ و مرتبہ حاصل کرتا ہے جو عبادت و ذکر الہی کے لیے شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے والے کو ملتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت سہیل فرماتے ہیں کہ خوش خلقی کا سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کیا جائے انتقام لینے سے گریز کیا جائے اور یہ کہ نہ صرف ظالم کے ظلم سے درگزر کیا جائے بلکہ اس کے حق میں مغفرت و بخشش کی دعا کی جائے اور اس کے تئیں رحم و شفقت کو اختیار کیا جائے۔

لوگوں سے جو معاملہ کرو خوش خلقی کے ساتھ کرو

اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا اللہ سے ڈرو تم جہاں کہیں بھی ہو اگر تم سے کوئی برائی سرزد ہو جائے تو اس کے بعد نیک کام ضرور کرو تاکہ اس برائی کو مٹا دے اور لوگوں سے خوش خلقی کے ساتھ معاملہ کرو۔ (احمد، ترمذی،دارمی)

 

تشریح

 

اللہ سے ڈرو، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن امور کو تم پر واجب کیا ہے ان سب کی بجا آوری و فرمانبرداری کرو اور جن چیزوں سے منع کیا ہے یعنی تمام طرح برائیاں ان سے اجتناب و پرہیز کرو۔ کہ اسی کو تقوی کہا گیا ہے اور تقوی دین کی بنیاد ہے جس کے ذریعہ ایقان و معرفت کے مراتب درجات حاصل ہوتے ہیں تقوی کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ شرک سے بے زاری و پاکی اختیار کی جائے اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ سے اعراض کیا جائے ان دونوں درجوں کے درمیان تقوی کے دوسرے مراتب ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر ترجیح حاصل ہے جیسے ممنوعات کو ترک کرنا ایک مرتبہ ہے اس سے برتر مرتبہ یہ ہے کہ مکروہات کو بھی ترک کیا جائے اور اس سے بھی برتر مرتبہ یہ ہے کہ جو چیزیں مباح ہیں ان میں سے بھی ان چیزوں کو ترک کیا جائے جو غیر ضروری اور بے فائدہ ہوں۔

 تم جہاں کہیں ہوں  کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا خدا سے ڈرنا یعنی احکام خداوندی پر عمل کرنا کسی خاص وقت کسی خاص جگہ اور کسی خاص حالت پر موقوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ تم خواہ سفر میں ہو یا حضر میں خواہ نعمتوں سے بہرہ مندی کی حالت میں ہوں یا آفات بلاؤں میں مبتلا ہوں اور خواہ جلت میں ہوں یا خلوت میں غرض تم کسی جگہ پر اور کسی حالت میں ہو اور اس وقت اس جگہ اور اس حالت سے متعلق جو بھی احکام خداوندی ہوں ان پر عمل پیرا ہوں کیونکہ خدا کے نزدیک تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں ہے اور وہ کسی بھی وقت تمہاری طرف سے غافل نہیں رہتا وہ جس طرح تمہاری ظاہری باتوں کو جانتا ہے اسی طرح تمہاری پوشیدہ باتیں بھی خوب جانتا ہے لہذا تمہارے لیے ضروری ہے اس کے احکام کی بجا آوری اور اس کی معصیت سے اجتناب کے جو تقاضے اور جو آداب ہیں ان کو بہر صورت نگاہ میں رکھو۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی کسی قبر کے پاس سے گزر رہے تھے کہ خدا نے ان پر اس قبر کے اندر کے حالات منکشف کیے بایں طور کہ انہوں نے سنا قبر کے اندر سے ایک آواز باہر آ رہی ہے جس میں مردہ کہہ رہا ہے کہ پروردگار کیا میں نے تیری نمازیں ادا نہیں کی ہیں کیا میں نے تیری زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے اور کیا میں نے یہ نہیں کیا ہے وہ نہیں کیا ہے؟ یعنی اس نے دنیا میں جتنے بھی نیک کام کیے تھے ان سب کو گنواتا رہا اس کی یہ بات سن کر فرشتوں نے جواب دیا کہ اے دشمن خدا بے شک تو نے یہ سب کام کیے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب تو خلوت میں ہوتا تھا اور اس وقت خدا کے خوف پر گناہوں کو ترجیح دیتا تھا اور تجھے اس بات کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا تھا کہ اس حالت میں بھی تو خدا کی نگاہ میں ہے۔

 اگر تم سے برائی سرزد ہو جائے  کا مطلب یہ ہے کہ انسان بہر حال انسان ہے یہ ضروری ہے کہ اس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور لغزشیں اس کے پائے استقامت پر اثر انداز نہ ہوں، لہذا اگر……بشریت تم سے کوئی گناہ صادر ہو جائے تو اس کے بعد فوراً نیک کام کر لو تاکہ وہ نیکی اس گناہ برائی کے اثرات کو مٹا دے۔ رہی یہ بات کہ نیک کام سے کیا مراد ہے؟ تو اس سے توبہ اور مطلق کوئی بھی مراد ہے یا یہ نیکی مراد ہے جو گناہ و برائی کی ضد ہو چنانچہ طیبی نے کہا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ نیک کام کرنے کے ذریعہ برائیوں کے اثرات مٹانے سے کسی بھی لمحہ غافل نہ رہے اس سے جو بھی برائی صادر ہو اس کے بدلہ میں اسی کی جنس سے کوئی نیک کام ضرور کر لے، اگر شراب نوشی کا گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے بدلے میں جو حلال چیزیں خدا کے واسطے لوگوں کو پلائے اگر کسی وقت تکبر میں مبتلا ہو جائے تو تواضع اختیار کرے اگر کسی جگہ گانا بجانا سننے کا اتفاق ہو جائے تو ان لوگوں کی ہم نشینی میں کچھ وقت گزارنا پڑا ہو جو گانے بجانے کی لغویت میں مبتلا ہوں تو اس کے بدلے میں قرآن پاک کی تلاوت سنے اور ذکر و نصیحت کی مجلس میں بیٹھے اور اسی طرح بخل کا تدارک، خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ کرے۔ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ تاکہ وہ نیکی اس برائی کو مٹا دے تو مٹانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ اس نیکی کے ذریعہ یا تو اس بندے کے دل پر سے برائی کے اثرات مٹا دیتا ہے یا اعمال لکھنے والے فرشتے کے رجسٹر میں سے اس برائی کو محو کر دیتا ہے اور یہ مٹانا بھی اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب کہ اس برائی کا تعلق کسی حقوق العباد سے ہوتا ہے بایں طور کہ کوئی شخص کسی کے حق کو تلف کرتا ہے یا کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس حق تلفی یا ظلم کا تدارک اس طرح کیا جاتا ہے کہ حق تلفی کرنے والے یا ظلم کرنے والے کے نامہ اعمال میں جو نیکیاں ہوتی ہیں ان میں سے اس کے بقدر نیکیاں صاحب حق کو دے دی جاتی ہیں یہ اور بات ہے کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے دوسرے اجر و انعامات کے ذریعہ صاحب حق کو خوش کر دے اور وہ اس شخص کو معاف کرنے پر راضی ہو جائے۔

منقول ہے کہ ایک بزرگ کا انتقال ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد ایک دوسرے بزرگ نے خواب دیکھا کہ تو پوچھا کہ اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ نے مجھ کو احسان و انعام سے نوازا اور میری بخشش فرما دی لیکن حساب کتاب ضرور ہوا یہاں تک کہ اس دن کے بارے میں بھی مجھ سے مواخذہ ہوا جب کہ میں روزے سے تھا اور ایک دوست کی دوکان پر بیٹھا ہوا تھا جب افطار کا وقت ہوا تو میں نے گیہوں کی ایک بوری میں سے گیہوں کا ایک دانہ اٹھا لیا اور اس کو توڑ کر کھانا ہی چاہتا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ یہ گیہوں میرا نہیں ہے چنانچہ میں نے وہ گیہوں فوراً اسی جگہ ڈال دیا جہاں سے اٹھایا تھا اور اب اس کا بھی حساب لیا گیا یہاں تک کہ اس گیہوں کے توڑے جانے کے نقصان کے بقدر میری نیکیاں مجھ سے لی گئی ہیں۔

بیضاوی نے لکھا ہے کہ نیکیاں صغیرہ گناہوں کا بھی کفارہ ہوتی ہیں اور کبائر میں بھی ان گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں جو پوشیدہ ہوں کیونکہ حق تعالی کا یہ ارشاد  آیت (لنکفرن عنکم سیاتکم) بھی عموم پر دلالت کرتا ہے اور مذکورہ بالا حدیث بھی مطلق اور عام ہے البتہ جو کبیرہ گناہ ظاہر ہو گئے ہیں اور حاکم قاضی کے نزدیک ثابت ہو جائیں ان پر حد یعنی شرعی سزا کا نفاذ ساقط نہیں ہو گا۔ اور نہ وہ توبہ سے معاف ہوں گے۔

نرم مزاج اور نرم خو شخص کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں بتاؤں کہ وہ شخص کون ہے جو آگ پر حرام ہو گا جس پر آگ حرام ہو گی، تو سنو دوزخ کی آگ ہر اس شخص پر حرام ہو گی جو نرم مزاج، نرم طبعیت، لوگوں سے نزدیک اور نرم خو ہو، اس روایت کو احمد، ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

سوال۔ کیا میں بتاؤں الخ میں از راہ مبالغہ و تاکید دونوں صورتیں یعنی اس شخص کا آگ پر حرام ہونا اور آگ کا اس شخص پر حرام ہونا ذکر فرمائیں اور چونکہ دونوں عبارتوں کا حاصل ایک ہی ہے یعنی اس شخص کا دوزخ کی آگ سے محفوظ رہنا اس لیے جواب میں دوسری ہی صورت کے بیان پر اکتفاء کیا اور ویسے بھی یہ بات عام بول چال کے زیادہ قریب ہے کیونکہ عام طور پر اس طرح کہا جاتا ہے کہ دوزخ کی آگ فلاں شخص پر حرام ہے۔

نیکوکار مومن کی تعریف

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

غر  کے معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص اسی طرح صراحی وغیرہ میں غر کے معنی نا آزمودہ یا  نا تجربہ کار نوجوان کے لکھے ہیں خب کے معنی ہیں وہ شخص جو دھوکہ دینے والا اور چالاک ہو۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکو کار شخص چونکہ طبعا مطیع و فرمانبردار ہونے کی وجہ سے نرم مزاج، شریف النفس اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لیے وہ ہر فریب کار شخص سے دھوکہ کھا جاتا ہے وہ نہ تو لوگوں کے مکر و فریب سے آگاہ ہوتا ہے اور نہ مکر و فریب کی باتوں اور چالوں کی چھان بین اور دھوکہ بازوں کے احوال کی تحقیق و جستجو کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جاہل و نادان ہوتا ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے مزاج کی نرمی و مروت حلم و کرم،عفو، درگزر کرنے کی عادت اور خوش خلقی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کا مطلب اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ نیکوکار شخص چونکہ سلیم القلب اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لیے وہ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھتا ہے کسی کے اندر کیا ہے اس کو وہ نہیں دیکھتا جس کے سینے میں کینہ ہوتا ہے اس کو وہ پہچانتا نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اس کے سامنے جو کچھ کہہ دیتا ہے اس کو مان لیتا ہے اور دھوکہ کھا جاتا ہے ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے آخرت کے معاملات اور نفس کی اصلاح کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور دنیا کے معاملات اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہذا وہ اپنے نفس کی اصلاح اور آخرت کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اور دنیا کے کاموں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اس لیے اگرچہ وہ دنیاوی معاملات میں دھوکہ کھا جاتا ہے مگر آخرت کے معاملات میں ہوشیار اور عقل میں کام ہوتا ہے نیکو کار مومن کی اس حالت کو اگرچہ تعریف کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے مگر اس کے باوجود حضور نے اپنے اس ارشاد لایلدغ المومن من جحر واحد مرتین کے ذریعہ آگاہ بھی فرمایا ہے کہ مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ غفلت اختیار کرے مسلسل دھوکہ کھاتا رہے اور ہوشیاری کے طریقہ کو بالکل ترک کر دے اور بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ لایلدغ المومن .. کے ذریعہ مومن کو جس ہوشیاری و بیداری مغزی کی تلقین کی گئی ہے اس کا تعلق دنیا و آخرت دونوں معاملات سے ہے اگرچہ بعض حضرات نے اس کو صرف اخروی معاملات کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ نیکوکار کے برخلاف فاجر یعنی منافق وغیرہ کی خصلت یہ بیان فرمائی گئی ہے چونکہ دھوکہ دہی اور مکاری اس کی فطرت ہی میں داخل ہوتی ہے، فتنہ و فساد پھلانا ہی اس کا شیوہ ہوتا ہے اور اس کے نزدیک چشم پوشی ایک بے معنی چیز ہوتی ہے اس لیے وہ جلد دھوکا نہیں کھاتا الاّ یہ کہ کوئی شخص اس سے بھی بڑا مکار و عیار ہو اور وہ اس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائے تاہم اگر وہ دانستہ دھوکا کھا بھی جاتا ہے تو اس کو برداشت نہیں کرتا بلکہ انتقام لینے کی سعی کرتا ہے۔

 

 

اور حضرت مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایمان رکھنے والے لوگ بردبار، نرم خو اور فرمانبردار ہوتے ہیں اس اونٹ کی طرح جس کی ناک میں نکیل میں پڑی ہو کہ اگر اس کو کھینچا جائے تو چلا آئے اور اگر پتھر پر بیٹھایا جائے تو پتھر پر بیٹھ جائے اس حدیث کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مومن طبعاً فرمان بردار ہوتا ہے وہ شریعت کا اتباع بلا چوں و چرا کرتا ہے، خدا اور خدا کے رسول کے احکامات جس طرح ہوتے ہیں ان کو اسی طرح بجا لاتا ہے ان میں اپنی طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں کرتا اور ان احکام کی بجا آوری اور شریعت کی اتباع میں جو مشقت پیش آتی ہے اس کو برضا و رغبت برداشت کرتا ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس حدیث میں مسلمانوں کی اس خصوصیت کو بیان کرنا مقصود ہو جو وہ آپس میں ایک دوسرے کی اتباع و فرمانبرداری اور ایک دوسرے کے ساتھ تواضع و انکساری اختیار کرنے اور غرور تکبر کرنے کی صورت میں رکھتے ہیں اور حقیقت میں یہ خصوصیت بھی احکام خداوندی کی اطاعت میں شامل ہے۔

لوگوں کے ساتھ رابطہ و اختلاط عزلت و گوشہ نشینی سے افضل ہے

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو مسلمان لوگوں کے ساتھ ربط و اختلاط رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرے وہ افضل ہے اس شخص سے جو لوگوں سے ربط و اختلاط نہ رکھے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے ساتھ ربط و اختلاط اور میل جول رکھنا عزلت و تنہائی اور گوشہ نشینی اختیار کرنے سے افضل ہے چنانچہ اکثر تابعین اس پر عامل تھے اور یہ چیز امر بالمعروف و نہی عن المنکر، خیر و بھلائی کے پھیلانے، باہمی امداد و تعاون اور دین و اسلام کی استعانت کے اعتبار سے بھی زیادہ کامل اور زیادہ افضل ہے، رہی یہ بات کہ عزلت و گوشہ نشینی کے بارے میں بھی احادیث منقول ہیں جس سے عزلت و گوشہ نشینی کا افضل و بہتر ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس سلسلے میں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس اختلاف کا تعلق زمان و مکان اور لوگوں کے احوال کے اختلاف سے ہے یعنی بعض موقعہ و مقام اور بعض لوگوں کے حالات کا تقاضا یہ ہوتا کہ ان کے ساتھ ربط و اختلاط رکھا جائے چنانچہ ایسی صورت میں لوگوں سے ملنا جلنا عزلت و گوشہ نشینی اور لوگوں سے الگ تھلگ رہنا ہی افضل و بہتر ہوتا ہے، تاہم اس بارے میں جس درمیانی راہ کو اختیار کرنے کی ہدایت ہے وہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر ضروری اور ناگزیر حالات کے علاوہ باقی اوقات میں عوام الناس سے الگ تھلگ رہا جائے اور جمعہ ان کے ساتھ اکٹھا ہونے پر اکتفا کیا جائے البتہ خواص یعنی صالحین وغیرہ کے ساتھ برابر ربط و اختلاط رکھا جائے اور ان سے عزلت و گوشہ نشینی اختیار نہ کی جائے لیکن عوام الناس سے عزلت و گوشہ نشینی اختیار کرنا اس صورت میں سود مند ہو گا جبکہ باعث عمل حاصل کیا جا چکا ہو اور زہد و توکل کا وہ درجہ نصیب ہو گیا ہو جہاں پہنچ کر انسان مخلوق سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی طرح کی طمع و خواہش نہیں رکھتا اسی لیے بعض عارفین نے کہا کہ عزلت و گوشہ نشینی بغیر علم کے ذلت و رسوائی ہے اور بغیر زہد و قناعت کے علت و خرابی ہے چنانچہ کامل صوفیاء جیسے نقشبندیہ، شاذلیہ اس طریقہ پر عامل تھے کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ بھی رہتے تھے اور پھر ان سے ربط و اختلاط بھی رکھتے تھے۔

غصہ پر قابو پانے کی فضیلت

اور حضرت سہل بن معاذ اپنے والد (حضرت معاذ) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے غصہ کو پی جائے باوجودیکہ وہ اس غصہ پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا اور اس کو یہ اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے پسند کر لے، اس روایت کو ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے، اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں کہ جو انہوں نے سوید بن وہب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی صحابی کے ایک صاحبزادے سے نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ حضور نے (تو قیامت کے دن اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا۔ الخ) کے بجائے اس طرح فرمایا کہ اللہ اس شخص کے دل کو امن و امان سے معمور کرے (جو اپنے غصہ کو پی جائے) اور حضرت سوید کی یہ روایت  من ترک لبس ثوب جمال۔ الخ۔ کتاب اللباس میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ اس کو مخلوق کے روبرو بلائے گا  کا مطلب یہ کہ حق تعالی قیامت کے دن ساری مخلوق کے درمیان اس شخص کو نیک شہرت دے گا، اس کی تعریف و توصیف کرے گا، اور اس پر فخر کا اظہار کرے گا نیز اس کے بارے میں اعلان کیا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے اندر اتنی بڑی خوبی تھی۔غصہ پر قابو پانے کی صفت کو اتنا اونچا مقام دینے کی وجہ یہ ہے کہ غصہ دراصل نفس امارہ کی ہیجانی کیفیت کا نام ہے اور جس نے اپنا غصہ پی لیا اس نے گویا اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالا اسی لیے غصہ پر قابو پانے والوں کی تعریف حق تعالی نے بھی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ آیت (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس) اور جو شخص اپنے نفس کو اس کی خواہش سے باز رکھتا ہے اس کا آخری ٹھکانہ جنت اور اس کا انعام حور عین ہے واضح رہے کہ جب اتنا عظیم اجر محض غصہ کو پی جانے پر حاصل ہو گا تو اس شخص کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے جو محض غصہ کو پی جانے پپر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ عفو و احسان کا برتاؤ بھی کرے چنانچہ امام ثوری فرماتے ہیں کہ اصل احسان یہی ہے کہ تم اس شخص پر احسان کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے کیونکہ جس شخص نے تم پر احسان کیا ہے اگر تم اس پر احسان کرتے ہو تو وہ تمہارا احسان نہیں بلکہ بدلہ چکانا ہے۔

حیاء کی تعریف و فضیلت

اور حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر دین اور مذہب میں ایک خلق ہے (یعنی ہر مذہب والوں میں ایک ایسی صفت و خصلت ہوتی ہے جو ان کی تمام صفتوں پر غالب اور ان کی ساری خصلتوں سے اعلیٰ ہوتی ہے) اور اسلام کا وہ خلق حیا ہے۔ اس روایت کو مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے (کیونکہ زید صحابی نہیں ہیں بلکہ تابعی ہیں نیز ابن ماجہ اور شعب الایمان میں بیہقی نے اس روایت کو حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

یہاں حیاء سے اس چیز میں شرم و حیا کرنا مراد ہے جس میں حیا کرنا مشروع ہے چنانچہ جن چیزوں میں شرم و حیاء کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسے تعلیم و تدریس، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ادائیگی حق کا حکم دینا خود حق کو ادا کرنا اور گواہی دینا وغیرہ وغیرہ ان میں شرم و حیاء کرنے کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔

حدیث کا زیادہ مفہوم بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دین کے لوگوں پر کوئی نہ کوئی وصف و خصلت غالب رہتی ہے چنانچہ اہل اسلام پر جس طبعی وصف و خصلت کو غالب قرار دیا گیا ہے وہ حیاء ہے اور باوجودیکہ حیا بھی ان اوصاف و خصائل میں سے ہے جو تمام ادیان و مذاہب کے لوگوں میں مشترک طور پر پائی جاتی ہیں لیکن اسی وصف و حیاء کو خاص طور پر اہل اسلام پر غالب کیا گیا ہے اور دوسرے مذہب کے لوگوں میں اس جوہر کو بہت کم رکھا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حیاء نہ صرف یہ کہ طبعی خاصیتوں اور خصلتوں میں سب سے اعلیٰ درجہ رکھتی ہے بلکہ یہ وہ جوہر ہے جس سے انسانی اخلاق و کردار کی تکمیل بھی ہوتی ہے اور چونکہ حضور نے فرمایا کہ  بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے دنیا میں بھیجا گیا ہوں) اس لیے اس جوہر کے ذریعہ ملت اسلامیہ کے اخلاق اوصاف کو کمال کے درجہ پر پہنچایا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ صرف حیاء ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے کی امتوں میں تمام ہی اخلاق و خصائل ناقص تھے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف لائے اور آپ کی برکت سے ملت اسلامیہ میں تمام اخلاق و خصائل کو کامل و مکمل کیا گیا اسی لیے ملت اسلامیہ کی اس خاصیت کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ  آیت (کنتم خیر امۃ اخرجت للناس) (تم کو دنیا والوں کے لیے سب سے بہتر امت بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ الخ۔)۔

ابن ماجہ اور بیہقی نے مذکورہ بالا روایت کو حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوفہ نقل نہیں کیا ہے جیسا کہ عبارت سے ظاہر اسلوب سے یہ گمان ہو سکتا ہے بلکہ بطریق مرفوع نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کے طور پر نقل کیا ہے نیز مذکورہ عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں یعنی ابن ماجہ اور بیہقی میں سے ہر ایک نے ان دونوں صحابی سے اس روایت کو نقل کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ مذکورہ عبارت میں ان دونوں کا ذکر علی الترتیب ہو یعنی ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے، لیکن جامع صغیر میں اس حدیث کو ابن ماجہ کے سلسلہ کے ساتھ بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو ان دونوں صحابی سے نقل کیا ہے۔

ایمان اور حیاء لازم ملزوم ہیں

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حیا اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے یعنی جو شخص ایمان سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا اور ایک دوسری روایت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے یوں ہے کہ ان دونوں میں سے جب ایک کو دور کیا جاتا ہے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

لفظ قرناء اصل میں قرین کی جمع ہے اس اعتبار سے یہ لفظ ان لوگوں کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اقل جمع کا اطلاق دو پر بھی ہوتا ہے ویسے بعض نسخوں میں یہ لفظ ماضی مجہول کے صیغہ تثنیہ کے ساتھ منقول ہے۔

خوش خلقی کی اہمیت

اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے جن باتوں کی نصیحت و وصیت فرمائی ان میں سب سے آخری وصیت جو آپ نے اس وقت فرمائی جب کہ میں نے (گھوڑے پر سوار ہونے کے لیے اپنا پاؤں رکھا تھا یہ تھی کہ معاذ لوگوں کی تربیت و تعلیم کے لیے خوش خلقی اختیار کرنا۔ (مالک)

 

تشریح

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانہ حیات میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا چنانچہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اپنا منصب سنبھالنے کے لیے یمن روانہ ہونے لگے تو حضور نے ان کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں گھوڑے پر سوار کرایا اور رخصت کرنے کے لیے خود پاپیادہ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ الفاظ بھی فرمائے کہ معاذ، شاید تم پھر مجھے نہ دیکھ پاؤ چنانچہ معاذ کو اس کے بعد سرکار رسالت پناہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی، وہ یمن ہی میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دنیا سے پردہ فرما لیا، بہرحال حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جس وصیت کا ذکر کیا ہے وہ اسی موقع پر ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری نصیحت تھی۔

سیوطی کہتے ہیں کہ یہاں  لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش خلقی اور نرمی و مہربانی کے مستحق ہوں ورنہ جہاں تک اہل کفر و فسق اور ظالموں کا تعلق ہے وہ اس دائرہ سے خارج ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا حکم ہے بلکہ سرکش لوگوں کے ساتھ اختیار کی جانے والی سختی درشتی کو ظاہر کرنا ہی حسن خلق میں داخل ہے کیونکہ نہ صرف ان کی تربیت و تہذیب اسی سختی و درشتی پر منحصر ہوتی ہے بلکہ ان کے ساتھ اختیار کیے جانے والے اس رویہ کے ساتھ دوسرے لوگوں کے حالات کی بہتری و سلامتی بھی وابستہ ہوتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سیوطی کے نزدیک گویا حدیث میں حسن خوش خلقی سے مراد نرمی و مہربانی اور عفو درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔

 

 

 اور حضرت مالک سے منقول ہے کہ ان تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں یعنی اس دنیا میں میری بعثت کا ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ انسانی اخلاق و اوصاف کو بیان کروں اور ان کو درجہ کمال تک پہنچا دوں۔ (موطا امام مالک اور احمد نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے

اپنی بہترین صورت و سیرت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔

 

 

 اور حضرت جعفر بن محمد اپنے والد بزرگوار حضرت امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، رسول اللہ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ اللہ کہ جس نے مجھ کو بہترین تخلیق سے نوازا میرے اخلاق و کردار کو اچھا بنایا اور مجھ میں ان چیزوں کو آراستہ جو میرے عیب و نقصان کا باعث ہیں، اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض آدمیوں کی جسمانی تخلیق میں کوئی عیب و نقصان ہوتا ہے کہ مثلاً کوئی شخص ایک ہاتھ سے یا ایک آنکھ سے محروم ہوتا ہے یا کسی شخص کو کوئی ٹانگ ٹیڑھی ہوتی ہے یا کوئی اور عضو ناقص ہوتا ہے اس طرح اللہ نے مجھ میں کوئی جسمانی عیب نقصان نہیں رکھا بلکہ مجھ کو تمام عیوب سے محفوظ رکھا ملا علی قاری کی وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے نقصان و عیب عام ہیں کہ اس کا تعلق خواہ جسمانی تخلیق و پیدائش سے ہو یا اخلاق و کردار سے، بہرحال یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیر و صورت بہت اعلیٰ اور بہت خوب تھی اور جیسا کہ طیبی نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد، بعثت لاتیمم....۔ کی وضاحت بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے حسن و صورت و حسن سیرت پر اللہ کا شکر ادا کرنا، اور اس کی حمد و ثناء کرنا، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس حمد و شکر کی طرح ہے جس کو قرآن میں اللہ نے یوں فرمایا، آیت (ولقد اٰتینا داؤد).........الخ۔ یعنی بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم سے مالا مال کیا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر فضیلت عطا فرمائی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آئینہ دیکھنا مستحب ہے اور اپنے حسن و صورت اور حسن سیرت پر اللہ کی حمد و ثناء کرنا بھی مستحب ہے کیونکہ یہ دونوں نعمتیں اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں لہذا ان پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے رہی یہ بات کہ ظاہری حسن و خوبصورتی ایک ایسی چیز ہے جس کو آئینہ میں دیکھا جا سکتا ہے لہذا آئینہ دیکھ کر اس پر شکر ادا کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کے ساتھ حسن سیرت یا حسن خلق کا ذکر سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ ایک پوشیدہ چیز ہے جس کا آئینہ میں دیکھا جانا ناممکن ہی نہیں ہے؟ اس کے جواب میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بے شک حسن سیرت کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے لیکن انسان کا ظاہر بہر حال اس کے باطن کی غمازی کرتا ہے اور کسی دوسرے کے بارے میں بات چاہے صحیح نہ ہو لیکن رسول خدا پر یہ بات ضرور صادق آتی ہے کہ حسن صورت سیرت کا ایک جلی عنوان ہوتا ہے جس کو دیکھ کر باطن کے احوال کا ادراک کیا جا سکتا ہے لہذا اس مناسبت سے حضور نے حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت کو بھی ذکر فرمایا اور اگر یہ سوال پیدا ہو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع میں آئینہ دیکھ کر مذکورہ طرح سے حمد و ثناء کریں یا اس طرح حمد و ثناء کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ وہ دعا پڑھیں جو آگے آنے والے حدیث میں نقل کی گئی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں حمد و ثناء اور شکر جو الفاظ مذکور ہیں ان کو ہر مومن پڑھ سکتا ہے کیونکہ انسان اس اعتبار سے کہ وہ اچھی صورت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے کہ اور وہ صاحب الایمان ہے بلا شک و شبہ خدا کی مخلوق کامل اور دین و اخلاق کے اوصاف سے مزین ہونا ہوتا ہے تاہم بعض حضرات نے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حمد و ثناء اور شکر کے مذکورہ الفاظ اپنی ذات کے تعلق سے فرمائے ہوئے تھے اور ظاہر ہے کہ حسن صورت اور حسن سیرت کا وصف جو کمال و نہایت کے ساتھ حضور کی ذات میں تھا وہ کسی دوسرے میں نہیں ہو سکتا اس لیے کسی دوسرے کے لیے ان الفاظ کو استعمال کرنا موزوں نہیں ہو گا امت کے بعض افراد کے اعتبار سے اس طرح کے الفاظ کے استعمال کو جائز نہ کہا جائے لیکن امت کے لیے بہتر یہی ہے کہ اسی دعا کو اختیار کیا جائے جو اگلی حدیث میں منقول ہے۔

حسن خلق کی دعا

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! تو نے میری جسمانی تخلیق کو اچھا کیا ہے لہذا میرے اخلاق کو بھی اچھا بنا۔ (احمد)

 

تشریح

 

یہ دعا یا تو آپ مطلق کسی بھی وقت فرماتے تھے یا آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر فرماتے تھے جیسا کہ جزری نے حصن حصین میں صراحت بھی کی ہے کہ اور پہلی حدیث کے مطابق یہی زیادہ موزوں ہے نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا تو امت کی تعلیم تلقین کے لیے تھی تاکہ امت کے لوگ اپنے حق میں اسی طرح دعا مانگا کریں اور یا اس دعا کا تعلق خود آپ کی ذات سے تھا اس صورت میں آپ کی مراد گویا یہ طلب درخواست تھی کہ خدایا اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمتوں کو پورا کر دے اس مراد کا قرینہ اس صورت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خلق کو اچھا اور مہذب کرنے کا ذریعہ قرآن کریم تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خلق کیا ہے آپ نے فرمایا قرآن۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے اخلاق کا اچھا ہونے کی دعا کرنا درحقیقت قرآن کو نازل کرنے اور اس کے نزول کو پورا کرنے کی طلب درخواست تھی۔

بہترین لوگ کون ہیں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں بہترین لوگ کون ہیں صحابہ نے عرض کیا ہاں ضرور بتائیں فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو لمبی عمر والے ہیں اور جن کے اخلاق اچھے ہیں۔ (احمد)

 

تشریح

 

ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے اخلاق و اطوار پاکیزہ اور اچھے ہوں گے ان کی عمر زیادہ ہو گی تو وہ نیکیاں اور عبادتیں بہت کریں گے جس کے نتیجے میں ان کو فضائل و کمالات بھی زیادہ حاصل ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی عمر کا دراز ہونا اس کے حق میں بہت مبارک ہے اور حقیقت میں دراز عمر شخص وہی ہے جو نیک کاموں میں مشغول رہے۔

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایمان میں کامل ترین لوگ وہی ہیں جن کے اخلاق بہتر ہیں۔ (ابوداؤد،دارمی)

تین خاص باتیں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کی سخت سست باتوں کو سن کر حیرت کرتے اور مسکراتے تھے یہاں تک کہ جب وہ شخص برا بھلا کہنے میں حد سے گزر گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی بعض باتوں کا جواب دیا یعنی انہوں نے بھی اس شخص کو برا بھلا کہا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ناراض ہو گئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے حضور کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ جب وہ شخص مجھ کو برا بھلا کہہ رہا تھا آپ وہاں بیٹھے رہے لیکن میں نے جب اس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے اور وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اس میں آپ کے اٹھنے کی کیا حکمت تھی حضور نے فرمایا اصل بات یہ ہے کہ جب تک تم خاموش رہے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا مگر جب تم نے خود جواب دیا تو شیطان درمیان میں کود پڑا پھر فرمایا تین باتیں ہیں اور وہ سب حق ہیں ایک تو یہ کہ جو بندہ کسی کے ظلم کا شکار ہوتا ہے محض اللہ کی رضا کے لیے نہ اپنے عجز کی وجہ سے اس ظالم سے چشم پوشی کرتا ہے یعنی اس سے درگزر کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے سبب یا اس کے اس وصف کے سبب پر دنیا و آخرت میں اپنی مدد کے ذریعہ اس بندہ کو مضبوط و قوی بناتا ہے دوسرے یہ کہ جو بھی بندہ اپنی عطاء و بخشش کا دروازہ کھولتا ہے کہ تاکہ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرے تو اللہ اس کے عطا و بخشش کے سبب اس کے مال و دولت میں اضافہ کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص سوال گدائی کا دروازہ کھولتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو بڑھائے تو اللہ اس کو گدائی کے سبب اس کے مال دولت میں کمی پیدا کر دیتا ہے اور اس کو نقصان و بربادی سے دوچار کر دیتا ہے یا اس کو خیر و برکت سے اس طرح محروم کر دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اپنے مال میں کمی نقصان کو محسوس کرتا رہتا ہے۔

 

تشریح

 

حیرت کرتے اور مسکراتے تھے میں حیرت کا تعلق تو اس شخص کی بدزبانی اور اس میں شرم و حجاب کی کمی سے تھا یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صبر و تحمل اور ان کے با وقار و بردبار رویہ سے تھا اور مسکرانے کا تعلق اس فرق سے تھا کہ جو آپ نے ان دونوں کے درمیان دیکھ رہے تھے علاوہ ازیں آپ کی نظر ان دونوں کے حق میں مرتب ہونے والے نتیجہ پر تھی کہ وہ شخص تو اپنی بدکلامی کے سبب عذاب کا مستوجب ہو رہا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے صبر تحمل کی چشم پوشی کے سبب رحمت الہی نازل ہو رہی تھی۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کی باتوں کا جواب دیا گویا انہوں نے اس موقع پر جواب دے کر رخصت و اجازت پر عمل کیا جو ایک عام آدمی کے لیے موزوں ہے اس عزیمت کو ترک کیا جو خواص کے مرتبہ و شان کے عین مطابق ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (جزاء سیئتۃ).....۔ برائی کا بدلہ اس برائی کے مطابق لیا جا سکتا ہے لیکن جو شخص درگزر کرے اور صبر اختیار کرے گویا دونوں پہلوں کی رعایت کی مگر نگاہ نبوت میں چونکہ ان کے لیے وہ مرتبہ کمال مطلوب تھا جو ان کی شان صدیقیت کے مطابق ہے اس لیے ان کا اس شخص کی بعض باتوں کا جواب دینا بھی حضور کو پسند نہیں آیا اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو ناراض ہو جانے والے شخص پر ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تاکہ ایک طرف تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رویہ پر ناپسندیدگی کا اظہار ہو جائے اور دوسری طرف اللہ کے اس ارشاد پر عمل بھی ہو جائے کہ، آیت (واذاسمعوا اللغو)......۔ یعنی جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں۔

 شیطان درمیان میں کود پڑا۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا یہ واضح فرمایا کہ جب تم خود جواب دینے لگے تو پھر شیطان کو دخل دینے کو موقع مل گیا اور وہ فرشتہ جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا آسمان پر چلا گیا اور تم یہ جانتے ہو کہ جب کسی معاملہ میں شیطان کود پڑتا ہے تو کیا کچھ نہیں ہو جاتا اور وہ بے حیائی و برائی پر اکسانے کے علاوہ اور کیا کرتا ہے چنانچہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں شیطان کا داؤد تم پر نہ چل جائے اور تم اپنے مخالف سے بدلہ لینے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جاؤ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم جو مظلوم تھے ظالم کی جگہ پر آ جاؤ جب کہ چاہیے یہ کہ تم اللہ کے مظلوم بندے بنو ظالم بندے نہ ہو۔

نرمی و مہربانی کرنے کا اثر

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ جن گھر والوں کے لیے نرمی و مہربانی پسند کرتا ہے اس کے ذریعہ ان کو نفع پہنچاتا ہے اور جن گھر والوں کو نرمی و مہربانی سے محروم رکھتا ہے اس کے ذریعہ ان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ (بیہقی)

فقراء کی فضیلت اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معاشی زندگی

غضب کے معنی ہیں غصہ ہونا، اور حقیقت میں غضب یا غصہ اس طبعی کیفیت کو کہتے ہیں جو طبیعت و مزاج کے خلاف پیش آنے والی بات پر نفس کو برانگیختہ کرنا اور ناپسندیدہ چیز میں مغضوب علیہ کی طرف میلان کرتی ہے تاکہ اس سے انتقام لے سکے اور طبیعت کے خلاف پیش آنے والی صورت حال کو دور کر سکے اسی وجہ سے غصہ کی حالت میں چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں اسی طرح خوشی کی حالت میں بھی روح باہر کی طرف میلان کرتی ہے تاکہ اس چیز کے سامنے آ جائے جو خوشی کا باعث بنی ہے چنانچہ غصہ یا خوشی کی زیادتی کے وقت ہلاکت کا خوف اس لیے ہوتا ہے کہ اسے موقع پر روح پوری طرح بالکل نکل آنا چاہتی ہے اس کے برخلاف غم یا خوف کی حالت میں روح اندر کی طرف چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے چہرہ پر زردی چھا جاتی ہے اور جسم کو کمزوری لاحق ہو جاتی ہے اس حالت میں بھی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے کیونکہ روح پوری طرح اندر کی طرف چلی جاتی ہے اور مطلق سرد ہو جاتی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف غضب و غصہ کی نسبت کرنا جیسا کہ ایک موقع پر فرمایا گیا ہے کہ من لم یسال اللہ یغضب علیہ۔ جو شخص اللہ کے سامنے دست دراز نہیں کرتا تو اللہ اس پر غصہ ہوتا ہے۔ مجاز ہے اور اللہ کے غصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بندے سے ناراض ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو کوئی بادشاہ غصہ کے وقت اپنی رعایا کے ساتھ کرتا ہے یعنی سزا دیتا ہے اور عذاب نازل کرتا ہے غضب کی ضد حلم ہے اور حلم دراصل نفس و طبیعت کے اس سکون و استقلال کو کہتے ہیں کہ جو محبوب ترین چیز کے قریب پہنچ جانے اور مقصود مراد کے بالکل سامنے ہونے کے وقت بھی انسان کو بے قرار نہیں ہونے دیتا جیسا کہ وفد عبدالقیس کے سردار حضرت منذر کے بارے میں یہ روایت منقول ہے کہ جب وہ اپنا وفد لے کر مدینہ پہنچے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر اس اضطراب بے قراری کا اظہار نہیں کیا جو ان کی قوم کے دوسرے لوگوں نے ظاہر کیا تھا اور اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حلم و وقار کی خوبیوں سے موصوف قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ غضب غصہ کوئی ایسی خصلت نہیں ہے جس کو بذات خود برا کہا جائے بلکہ اس میں برائی اس وقت آتی ہے جب اس کی وجہ سے راہ حق چھوٹ جائے اور احکام شریعت کی پابندی ترک ہو جائے چنانچہ جو غضب حق کی خاطر ہو اور حق کی راہ میں ہو اس کو محمود و مستحسن کہا جائے گا یہی وجہ ہے کہ راہ طریقت و سلوک میں ریاضت و مجاہدہ کا مقصد مطلق غضب و غصہ کو ختم کر دینا نہیں بلکہ اس کو قابو میں رکھنا اور حق کے تابع کرنا ہوتا ہے اور ویسے بھی قدرت نے غضب کو ایسی قوت بنایا ہے جو جسمانی نظام کو برقرار رکھنے کا ذریعہ اور بقاء حیات کا سبب ہے کیونکہ یہ قوت غضبیہ ایسی ہوتی ہے جو مضرات موذیات سے بچاتی ہے چنانچہ نباتات و جمادات کو نیست و نابود کرنے پر ہر کوئی اسی لیے قادر ہو جاتا ہے کہ حق تعالی نے ان دونوں کو قوت غضبیہ سے محروم رکھا ہے اس کے برخلاف حکمت کاملہ خداوندی نے حیوان میں نہ صرف یہ کہ قوت غضبیہ پیدا کی ہے بلکہ ان کے بعض جسمانی حصوں کو گویا ایسے آلات و ہتھیار کے طور پر بنایا جن سے وہ اپنے نقصان و ایذء سے اپنا دفاع کر سکیں جیسے سینگ اور دانت وغیرہ اور انسان میں اگرچہ اس طرح کی چیزیں پیدا نہیں کی ہیں لیکن اس کو وہ عقل و تدبیر دکھا دی ہے جس کے ذریعہ وہ ضرورت و حالت کے مطابق ایسے آلات و ہتھیار بنا سکتا ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والے سے محفوظ رکھتے ہیں

  کبر  کے اصل معنی تو بڑائی کے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد وہ کبر ہے جو عجب یعنی خود بینی و خود ستائی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے چنانچہ اپنے آپ کو اس طور پر سمجھنا اور بڑا ظاہر کرنا کہ جس کے سبب لوگوں پر اپنی فوقیت برتری جتانا مقصود ہو حق کو قبول کرنا اور حق کی فرمانبرداری سے انکار ہوتا ہو اور تمرد سرکشی ظاہر ہوتی ہو تکبر اور استکبار کہلائے گا واضح رہے کہ کبر اور تکبر اس صورت میں مذموم ہیں کہ جب کہ وہ واقع کے خلاف ہوں یعنی اگر کوئی شخص اپنی ذات میں ایسے اوصاف و فضائل اور کمالات کا دعوی کرے جن سے حقیقت میں وہ خالی ہو اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ان فضائل و کمالات سے متصف ظاہر کرتا ہو تو ایسا مذموم ہو گا اور اگر اس شخص کی ذات میں واقعتاً ایسے فضائل و کمالات ہوں جنکی بنا پر وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و بلند سمجھے اور یہ اس کو ظاہر کرتا ہو تو یہ مذموم نہیں ہو گا نیز یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تکبر کے مقابلہ میں تواضع ہے جو کبر اور صغر کے درمیان توسط اور راہ استدلال ہے چنانچہ کبر تو یہ ہے کہ کوئی شخص ان اوصاف و فضائل سے بھی زیادہ کا دعوی کرے جو وہ اپنے اندر رکھتا ہے اور صغر یہ ہے کہ اپنے اصل مقام سے بھی نیچے گر جائے اور وہ جس چیز کے دعوی کا حق رکھتا ہے کہ اس کو بھی ترک کر دے ان دونوں کے درمیان تواضع ہے جو توسط اور اعتدال کا مقام ہے یعنی اپنے آپ کو نہ تو حد سے زیادہ بڑھایا جائے اور نہ حد سے نیچے گرایا جائے بلکہ بین بین رکھا جائے کیونکہ ہر چیز اور ہر حالت کی طرح اس معاملہ میں بھی اصل کمال توسط اور اعتدال ہی ہے اگرچہ مشائخ اور صوفیا قدس اللہ ارواحھم کا معمول یہ رہا ہے کہ جب وہ اپنے نفس میں تکبر کا غلبہ دیکھتے تو اس کو زائل کرنے میں اتنا ہی مبالغہ کرتے کہ تواضع کے بجائے صغر کا مقام اختیار کرنے کی کوشش کرتے تاکہ نفس آخرالامر تواضع کے مقام پر رک جائے۔

غصہ سے اجتناب کی تاکید

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے عرض کیا مجھے کوئی نصیحت فرما دیجیے تاکہ میں اس پر عمل کر کے دین و دنیا کی بھلائی حاصل کروں آپ نے فرمایا غصہ مت کرو، اس شخص نے یہ بات کہ آپ مجھے کوئی نصیحت فرما دیں کئی مرتبہ کہی اور آپ نے ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ غصہ مت کرو۔ (بخاری

 

تشریح

 

چونکہ اس شخص میں غصہ کا مادہ زیادہ تھا اس لیے اس نے جتنی مرتبہ بھی یہ درخواست کی کہ مجھ کوئی نصیحت فرما دیجیے آپ نے یہی جواب دیا کہ غصہ مت کیا کرو چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہی تھا کہ سوال کرنے والا جس حالت و کیفیت کا حامل ہوتا اس کو جواب اسی حالت و کیفیت کے مطابق ارشاد فرماتے اور ہر ایک کے مرض کا علاج اس کے احوال کی مناسبت سے تجویز فرماتے اسی لیے آپ نے اس شخص کے حق میں اجتناب کے حکم کو بار بار ظاہر کرنا ہی مناسب جانا۔

بعض محققین کہتے ہیں کہ غضب و غصہ کی حالت دراصل شیطانی وسوسوں سے پیدا ہوتی ہے جس کے سبب انسان ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی اعتدال کی راہ سے گزر جاتا ہے اور شیطان کے جال میں پھنس جاتا ہے چنانچہ اس حالت میں وہ نہ صرف اس طرح اول فول بکنے لگتا ہے اور ایسے افعال و حرکات کا ارتکاب کرتا ہے جو شرعی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نہایت برے اور نازیبا ہوتے ہیں بلکہ دل میں کینہ اور بغض بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ ایسی اور بہت سی چیزیں اس سے صادر ہوتی ہیں جو بدخلقی وبد خوئی کی نشانیاں ہیں اور بسا اوقات تو غصہ کرنے والا اس درجہ مغلوب الغضب ہو جاتا ہے کہ اس سے کفر تک سرزد ہو جاتا ہے اس حقیقت سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ غضب و غصہ چونکہ انسان کو دین و دنیا کے سخت ترین نقصان میں مبتلا کر دیتا ہے اس لیے آپ نے مذکورہ شخص کے بار بار عرض گزار ہونے کے باوجود بس ایک ہی نصیحت کی کہ غصہ مت کرو اور ہر مرتبہ اسی کی تاکید کی گویا آپ نے اس کو یہ تعلیم ارشاد فرمائی کہ غصہ کا تعلق بد خلقی سے ہے اور بد خلقی محض ایک ہی برائی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے نہ معلوم کتنی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور کتنے ہی نقصانات کرنا پڑتے ہیں لہذا غصہ سے اجتناب و پرہیز کر کے خوش خلقی اختیار کرو جو دین و دنیا کی بھلائیوں اور دارین کی سعادتوں کی ضامن ہے۔

ایک بات یہ جان لینی چاہیے کہ غصہ کا علاج بھی تجویز کیا ہے جو علم و عمل یا ظاہر و باطن کا مرکب ہے چنانچہ اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آ جائے جو غصہ کا سبب ہو تو اس صورت میں علمی یا باطنی و قلبی علاج یہ ہے کہ دل میں یہ تصور کرے اور اس پر یقین رکھے کہ کوئی کام اللہ کے ارادہ و تقدیر کے بغیر نہیں ہوتا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، نفع نقصان سب اسی کے اختیار میں ہے، انسان تو ظاہر میں ایک آلہ ہے جس شخص کی طرف سے کوئی نقصان یا تکلیف پہنچے اس پر غصہ ہونا ایسا ہے جیسے کوئی شخص چھری یا چاقو پر غصہ ہو کر اس نے کیوں کاٹا علاوہ ازیں اپنے نفس کو سمجھائے کہ دیکھ اللہ تعالی کس قدر قادر ہے اور اس کا غضب کتنا ہی شدید ہے مگر اس کے باوجود وہ درگزر کرتا ہے بندے اس کی کسی طرح مخالفت کرتے ہیں اور اس کے احکام سے کس طرح سرکشی اختیار کرتے ہیں لیکن وہ ان پر غضب نازل نہیں کرتا ہے پھر تو اتنا بڑا کہاں آیا کہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا دوسرا علاج جو عملی یا ظاہری ہے وہ یہ کہ فوراً وضو کر ڈالے اور اعوذ پڑھنے لگے تاکہ پانی ٹھنڈک، غصہ کی حرارت کو فرد کر دے اور نفس دوسری طرف مشغول ہو جائے۔

طاقتور شخص

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور اور پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو پچھاڑ دے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اصل میں اگر کوئی چیز انسان کی سب سے بڑی دشمن اور اس کے مقابلہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ خود اس کا نفس ہے اگر کوئی شخص بڑے بڑے پہلوانوں کو پچھاڑتا رہا اور اپنے آپ کو طاقتور ترین دشمن کو بھی زیر کرتا رہا مگر خود اپنے نفس پر غالب نہیں آ سکا تو یہ کوئی کمال نہیں ہے اصل کمال تو یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو زیر کرے جو اس کا اصل دشمن ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے، تمہارے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔

واضح رہے کہ بدن کی قوت ظاہری اور جسمانی ہے جو زوال پذیر اور فنا ہو جانے والی ہے اس کے برخلاف جو قوت نفس کو زیر کرتی ہے وہ دینی اور روحانی ہے جو حق تعالی کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور ہمیشہ باقی رہتی ہے لہذا نفس امارہ کو مارنا وصف اور کمال کی بات ہے کہ جب کہ آدمی کو پچھاڑنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

مردے نہ بقوت بازو ست د زور کتف

بانفس اگر بآئی دانم کہ شاطرے

جنتی اور دوزخی لوگ

اور حضرت حارث بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں تمہیں جنتیوں کا بتلا دوں؟ یعنی کیا میں یہ کہوں کہ کون لوگ جنتی ہیں تو سنو ہر وہ ضعیف شخص جنتی ہے جس کو لوگ ضعیف و حقیر سمجھیں اور اس کی کمزوری و شکستہ حالی کی وجہ سے اس کے ساتھ جبر و تکبر کا معاملہ کریں حالانکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ ضعیف و کمزور اللہ کے نزدیک اس قدر اونچا مرتبہ رکھتا ہے کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر کسی بات پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اس کی قسم کو سچا کر دے اور کیا میں تمہیں وہ لوگ بتلا دوں جو دوزخی ہیں؟ تو سنو ہر وہ شخص دوزخی ہے جو جھوٹی باتوں اور لغو باتوں پر سخت گوئی کرنے والا جھگڑالو ہو مال جمع کرنے والا بخیل ہو، اور تکبر کرنے والا ہو۔ (بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ہر وہ شخص دوزخی ہے جو مال کو جمع کرنے والا اور حرام زادہ اور تکبر کرنے والا ہو۔

 

تشریح

 

ہر ضعیف جنتی ہے۔سے مراد وہ شخص ہے جو نہ تو گھمنڈ اور متکبر ہو اور نہ لوگوں پر جبر و زیادتی کرنے والا ہو۔ لفظ متضعف میں مشہور تو عین پر زبر ہی ہے اور ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے لیکن بعض حضرات نے عین کو زیر کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس لفظ کے معنی متواضع اور کمتر اور گمنام کے ہوں گے۔ہر ضعیف جنتی ہے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں جن لوگوں کی کثرت ہو گی وہ یہی لوگ ہوں گے اس طرح دوسری قسم کے لوگ یعنی دوزخی جن کو قرار دیا ہے سے بھی یہی مراد ہے کہ دوزخیوں کی اکثریت ان ہی لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ علماء نے لو اقسم علی اللہ کے معنی بیان کیے ہیں ایک تو یہ کہ اگر وہ شخص اللہ کے لطف و کرم پر اعتماد کر کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھا لے تو اللہ اس کو سچا کرتا ہے اور اس کے اعتماد کو پورا کرتا ہے یعنی اس کی قسم ٹوٹتی نہیں بلکہ پوری ہوتی ہے۔ترجمہ میں اس معنی کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ دوسرے یہ کہ اگر وہ شخص اپنے پروردگار سے کسی چیز کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کو قسم دے کر اپنی مراد پوری ہونے کی دعا کرتا ہے تو پروردگار اس کی قسم کی لاج رکھتا ہے اور اس کی مراد پوری کرتا ہے اور تیسرے یہ کہ اگر وہ شخص کسی کام کے بارے میں قسم کھا کر یہ کہتا ہے کہ حق تعالی اس کام کو کرے گا یا اس کام کو نہیں کرے گا تو اللہ اس کی قسم کو سچا کرتا ہے یعنی اس طرح کرتا ہے جو اس کی قسم کے مطابق ہوتا ہے۔

زنیم کے معنی کمینہ کے ہیں اور اس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کسی ایسی قوم یا طبقے کی طرف منسوب کر لے جس سے حقیقت میں وہ کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی لیے زنیم کا ترجمہ حرام زادہ کیا جاتا ہے چنانچہ عتل اور زنیم کے الفاظ قرآن کریم میں بھی آئے ہیں اور مذکورہ بالا معنی ہی ان میں الفاظ کا مصداق ولید بن مغیرہ کو قرار دیا گیا ہے جو کفار مکہ میں سے نہایت بدظن اور اسلام و پیغمبر اسلام کا سخت ترین دشمن تھا۔

متکبر جنت میں داخل نہیں ہو گا

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ایمان سے مراد اصل ایمان نہیں ہے بلکہ ایمان کے ثمرات مراد ہیں جن کو فضائل و اخلاق سے تعبیر کیا جاتا ہے خواہ ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اور جو نور ایمان اور ظہور ایقان سے صادر ہوتے ہیں جہاں تک اصلی ایمان کا تعلق ہے وہ چوں کہ تصدیق قلبی کا نام ہے اس لیے اس میں نہ تو زیادتی ہو سکتی ہے اور نہ کمی، اس اعتبار سے اس کو اجزاء میں منقسم بھی نہیں کیا جا سکتا البتہ اس کے شعبے اور شاخیں بہت ہیں جو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت سے خارج ہیں جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ اور اسی طرح اسلام کے ظاہری دوسرے تمام احکام یا جیسے تواضع اور ترحم اور اسی طرح وہ تمام چیزیں جو باطنی اوصاف و خصائل کا درجہ رکھتی ہیں چنانچہ اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ الایمان بضع و سبعون شعبۃ۔ ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں۔ظاہر ہے کہ شاخوں اور اس کی اصل کے درمیان اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اس کے باوجود حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے کوئی بھی شاخ اپنی اصل کا مترادف نہیں ہو سکتی اس طرح اصل ایمان ایک الگ چیز ہے اور اسلام کے تمام ظاہری احکام و باطنی اخلاق و خصائل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں جن کو اصل ایمان کی حقیقت و ماہیت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد الحیاء شعبۃ من الایمان۔ مذکورہ بالا قول کی دلیل ہے کیونکہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حیاء ایمان کے مفہوم میں داخل نہیں ہے۔

حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ اس کے نامہ اعمال میں تکبر کا گناہ موجود رہے گا جب وہ تکبر اور دوسری بری خصلتوں کی آلائش سے پاک و صاف ہو جائے گا تو اس وقت جنت میں داخل کیا جائے گا اور یہ کہ پاکی و صفائی یا تو اس صورت میں حاصل ہو گی کہ اللہ اس کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور وہ عذاب اس آلائش کو دھو دے گا یا اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس کو معاف کر دے گا اور معافی اس آلائش کو زائل کر دے گی، خطابی نے لکھا ہے کہ حدیث کے اس جزء کی دو تاویلیں ہیں ایک تو یہ کہ کبر سے کفر و شرک مراد ہے اور ظاہر ہے کہ کفر و شرک کے مرتکب پر جنت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ بند رہیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ کبر سے مراد تو اس کے اپنے معنی ہی ہیں یعنی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے برتر و بلند سمجھنا اور غرور گھمنڈ میں مبتلا ہونا البتہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ متکبر شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ اللہ کی رحمت اس پر متوجہ نہ ہو چنانچہ جب حق تعالی اس کو جنت میں داخل کرنا چاہے گا تو اس کے دل میں سے کبر کو نکال باہر کرے گا اور پھر اس کی کدورتوں سے پاک و صاف کر کے جنت میں داخل کر دے گا۔

تکبر کی حقیقت

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس عمدہ ہو اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالی جمیل یعنی اچھا اور آراستہ ہے اور جمال یعنی اچھائی و آراستگی کو پسند کرتا ہے اور تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ہٹ دھرمی کے ساتھ نہ مانا جائے اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھا جائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ذرہ سے یا تو چیونٹی مراد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جیسی سو چیونٹیاں مل کر ایک جو کے وزن کے برابر ہوتی ہیں یا وہ ریز و غبار مراد ہے جو ہوا میں باریک نظر آتا ہے اور روشنی کے وقت چمکتا ہے۔

ایک شخص نے عرض کیا......۔ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ ایک شخص سے کون صحابی مراد ہیں چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس وقت جن صحابی نے مذکورہ بات عرض کی تھی وہ معاذ بن جبل تھے بعض حضرات نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور بعض حضرات نے ربیعہ بن عامر کا نام ذکر کیا ہے۔

  کوئی آدمی یہ پسند کرتا ہے ان صحابی نے جو یہ سوال کیا تو اس کا ایک پس منظر تھا وہ یہ دیکھا کرتے تھے کہ جو لوگ غرور و تکبر کرتے ہیں اور اپنے علاوہ ہر ایک کو ذلیل و حقیر سمجھتے ہیں ان کے جسم پر اعلیٰ اور نفیس لباس ہوتا ہے ان کے پیروں میں نہایت اعلیٰ جوتیاں ہوتی ہیں اور ان کے کپڑے وغیرہ اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں چنانچہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مذکورہ ارشاد سنا تو ان کو گمان ہوا کہ کہیں یہ چیزیں تو تکبر کی نشانیاں نہیں ہیں اور اعلیٰ و نفیس لباس وغیرہ ہی سے تو تکبر پیدا نہیں ہوتا لہذا انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی محض اپنی ذاتی خواہش پسند اور استطاعت کی بنا پر اچھے اچھے کپڑے پہنے اور عمدہ جوتے وغیرہ استعمال کرے اور اس کے خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ وہ اپنے کپڑوں وغیرہ کے ذریعہ دوسروں پر اپنی امارت و بڑائی کا رعب ڈالے گا، لوگوں کو ذلیل و حقیر سمجھے گا اور اتراہٹ و گھمنڈ کرے گا اور اس شخص کی اس نیت کی علامت یہ ہو کہ وہ جس طرح لوگوں کے سامنے اچھے کپڑے وغیرہ استعمال کرنا پسند کرتا ہو اسی طرح تنہائی میں بھی ان چیزوں کو پسند کرتا ہو تو کیا ایسے شخص پر بھی تکبر کا اطلاق ہو گا، حضور نے اپنے مذکورہ جواب کے ذریعہ واضح فرمایا کہ ایسے شخص پر تکبر کا اطلاق نہیں ہو گا بلکہ اس کا لباس عمدہ زیب تن کرنا اور اچھے جوتے پہننا اس کی تہذیب و شائستگی اور اس کی خوش ذوقی کی علامت ہو گا جس سے شریعت نے منع نہیں کیا ہے اس کے بعد آپ نے کبر کی حقیقت بیان فرمائی کہ جس کبر کو مذموم قرار دیا گیا ہے وہ دراصل اس کیفیت و حالت کا نام ہے جو انسان کو حق آراستہ سے ہٹا دے یعنی توحید و عبادت خداوندی سے بے پرواہ بنا دے حق و صداقت سے سرکشی کرنے پر مائل کرے حقیقت تک پہنچنے سے روکے اور سچائی کو قبول کرنے سے باز رکھے اور مخلوق خدا کو ذلیل و حقیر سمجھنے پر مجبور کرے بعض حضرات نے بطر الحق کے معنی جمال حق کو باطل کرنا لکھے ہیں۔

 اللہ تعالی جمیل ہے  کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات میں اور اپنے افعال و قدرت میں اوصاف کاملہ سے موصوف ہے۔ اور تمام ظاہری و باطنی حسن و جمال اسی کے جمال کا عکس ہیں اور جمال و جلال بس اسی کی ذات پاک کا خاصہ ہے بعض حضرات نے جمیل کے معنی آراستہ کرنے والے اور جمال بخشنے والے بیان کیے ہیں، بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جمیل دراصل جلیل کے معنی میں ہے اس صورت میں اللہ جمیل کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام تر نور و بہجت اور حسن و جمال کا مالک ہے نیز بعض حضرات نے یہ معنی بھی بیان کیے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کا اچھا کارساز ہے۔

وہ تین لوگ جو قیامت کے دن خدا کی توجہ سے محروم رہیں گے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تین شخص ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا یعنی یا تو رضا و خوشنودی کا کلام نہیں کرے گا یا مطلق کوئی کام نہیں کرے گا اور نہ ان کی تعریف و ستائش کرے گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے دردناک عذاب ہو گا ایک تو زنا کار بڈھا،دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا تکبر کرنے والا مفلس۔ (مسلم)

 

تشریح

 

قیامت کے دن سے میدان حشر کا وقت مراد ہے جب اللہ کے فضل و عدل، غضب و ناراضگی اور رضا کا ظہور ہو گا اور جنتیوں و دوزخیوں کے بارے میں فیصلہ صادر کیے جائیں گے۔

 ولا یزکیھم  کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کیے گئے ہیں جب کہ اللہ میدان حشر میں اپنی تمام مخلوق کے سامنے اپنے مومن اور نیکوکار بندوں کی تعریف و ستائش کرے گا تو اس وقت ان تین طرح کے آدمیوں کو اس تعریف و ستائش سے خارج کر دیا جائے گا اور ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی ان تینوں طرح کے آدمیوں کو اپنے عفو و درگزر کے ذریعہ اپنے گناہوں کی نجاست سے پاک و صاف نہیں کرے گا۔ لھم عذاب الیم۔ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ جملہ دوسری روایت کا تتمہ ہے یا اس کا تعلق اصل حدیث سے ہے اور یہ دوسرا احتمال زیادہ قوی اور قابل اعتماد ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ باتیں دراصل اللہ کے غضب و کبر اور اس کی ناراضگی سے کنایہ ہیں، چنانچہ جو کوئی کسی شخص سے ناراض و خفا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہے نہ اس سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کی تعریف کرتا ہے بلکہ اس کو سزا و تنگی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

حدیث میں جن تین برائیوں کے مرتکبین کے بارے میں وعید بیان فرمائی گئی ہے وہ ہر حال میں مذموم اور مستوجب عذاب ہیں خواہ ان برائیوں کا مرتکب کسی درجہ کا کسی حیثیت کا اور کسی عمر کا آدمی ہو لیکن یہاں ان برائیوں کے تعلق سے جن تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے اعتبار سے ان برائیوں کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، مثلاً زنا ایک بہت برا فعل ہے اور جب یہ فعل جو ان کے حق میں بھی بہت بڑا گناہ ہے جو طبعی طور پر معذور بھی ہوتا ہے تو ایک بڈھے کے حق میں یہ فعل کہیں زیادہ برا ہو گا کہ کیونکہ نہ تو وہ طبعی طور پر اس کی احتیاج رکھتا ہے کہ اور نہ اس کی طبیعت پر جنسی خواہش اور قوت مروی کا وہ غلبہ ہوتا ہے جو بسا اوقات عقل و شعور سے بیگانہ اور خوف خداوندی سے غافل کر دیتا ہے لہذا جو بڈھا زنا کا مرتکب ہوتا ہے وہ گویا اپنی نہایت بے حیائی اور خبث طبیعت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح جھوٹ بولنا ہر شخص کے حق میں برا ہے لیکن بادشاہ کے حق میں بہت ہی برا ہے کیونکہ اس پر ملک کے انتظام رعایا کے مصالح و مفاد کی رعایت اور مخلوق خدا کے معاملات کی نگہداشت کی ذمہ داری ہوتی ہے اس کا ایک ادنی سا حکم پورے ملک کے نظم و نسق پر اثر انداز ہوتا ہے اگر وہ جھوٹ بولے تو اس کی اس برائی کی وجہ سے پورا ملک اور ملک کے تمام لوگ مختلف قسم کی برائیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں،علاوہ ازیں جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ عام طور پر اس برائی کا ارتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یا کسی نقصان کے دفعیہ کے لیے کرتے ہیں جب کہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیر جھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے، لہذا اس کا جھوٹ بولنا نہ صرف بالکل بے فائدہ بلکہ نہایت مذموم ہو گا اسی پر تکبر کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جو چیزیں عام طور پر انسان کو غرور و تکبر میں مبتلا کرتی ہیں جیسے مال و دولت اور جاہ اقتدار وغیرہ اور اگر کسی شخص میں پائی جائیں اور وہ ان چیزوں کی وجہ سے تکبر کرے تو اگرچہ اس شخص کو بھی برا کہیں گے مگر اس کا تکبر کرنا ایک طرح سے سمجھ میں آنے والی بات ہو گی اس کے برخلاف اگر کوئی فقیر و مفلس تکبر کرے کہ جو نہ تو مال و دولت رکھتا ہے اور نہ جاہ و اقتدار وغیرہ کا مالک ہے تو اس کا یہ فعل نہایت ہی برا ہو گا اور اس کے بارے میں اس کے علاوہ کیا کہا جائے گا کہ وہ خبث باطن اور طبیعت کی کمینگی میں مبتلا ہے۔

بعض حضرات نے عائل مستکبر میں لفظ عائل سے مفلس کے بجائے عیال دار مراد لیا ہے کہ یعنی جو لوگ بال بچے دار ہوں اور اپنی خستہ حالت کی وجہ سے اپنے متعلقین کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے پر قادر ہوں لیکن اس کے باوجود از راہ تکبر صدقہ و زکوٰۃ مال قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے ہوں لوگوں کی تواضع و امداد کو ٹھکراتے ہوں اور اسی طرح وہ اپنے اہل و عیال کی ضرورت کو پورا کرنے سے بے پرواہ ہو کر گویا ان کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرتے ہوں تو ایسے لوگ حدیث میں مذکورہ وعید کا مورد ہیں واضح رہے کہ خدا کی ذات پر توکل و اعتماد اور غیرت و خود داری کے تحت اپنی حالت کو چھپانا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے شرم و حیاء کرنا تو ایک الگ چیز ہے لیکن سخت احتیاج و اضطرار کے باوجود کبر و نخوت اختیار کرنا اور از راہ تکبر لوگوں کا احسان قبول نہ کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کو نہایت مذموم قرار دیا گیا ہے۔

شیخ زان  کے بارے میں بھی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد محصن شادی شدہ شخص بھی ہو سکتا ہے خواہ وہ بوڑھا یا جوان جیسا کہ اس منسوخ التلاوت الشیخ والشیخۃ اذا زنیا.............۔ میں شیخ سے مراد شادی شدہ مرد ہے چنانچہ ایسے شخص کے حق میں زنا کا زیادہ ہونا شرعاً بھی اور عرفا بھی بالکل ظاہر بات ہے اسی لیے ایسے شخص کو سنگسار کرنا واجب ہے اسی طرح ملک کذاب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ملک سے مراد غنی و مالدار شخص بھی ہو سکتا ہے چنانچہ کسی مفلس یا قلاش شخص کا جھوٹ بولنا تو ایک درجہ میں سمجھ آنے والی بات ہے کیونکہ وہ اپنی تنگ دستی و خستہ حالی کی وجہ سے بسا اوقات اپنی کسی سخت غرض اور شدید دنیاوی ضرورت کی وجہ سے جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کہ غنی و مالدار شخص اپنے مال و زر کی وجہ سے ایسی کوئی احتیاج نہیں رکھتا، اور وہ جھوٹ بولے بغیر بھی اپنی غرض پوری کر سکتا ہے لہذا جھوٹ بولنا اس کے حق میں زیادہ برا ہے۔عائل مستکبر کے بارے میں بھی ایک قول یہ ہے کہ یہاں عائل یعنی مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو فقراء و مساکین کے ساتھ تکبر کرے فقراء و مسکین کے ساتھ تکبر کرنا سخت برا ہے جب کہ مغرور کے ساتھ تکبر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس جملہ کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہاں مفلس سے مراد وہ شخص ہے جو کسب و کمائی اور محنت و مشقت کر کے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے پر قادر ہو مگر اس کے باوجود از راہ رعونت کوئی کسب و کمائی محنت مزدوری کرنے کو کسر شان سمجھتا ہو جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے اور ہٹے کٹے لوگ کام کاج کرنے اور محنت و مزدوری کرنے میں اپنی ذلت سمجھتے ہیں خواہ ان کو اور ان کے متعلقین کو فاقوں کی اذیت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑتی ہو یا ناروا طور پر دوسرے لوگوں کے کاندھوں کا بار ہی کیوں نہ ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگوں کا یہ طریقہ یقیناً تکبر کے ہم معنی ہیں اور یہ تکبر مالداروں کے تکبر سے زیادہ کہیں برا ہے کیونکہ اس کی بنیاد رعونت و نخوت بیجا شان دکھانے خواہ مخواہ کے لیے اپنے اور اپنے متعلقین کو تکلیف و ہلاکت میں مبتلا کرنے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ناجائز طور پر مال حاصل کرنے پر ہے خصوصاً ایسی صورت میں اس کی تکبر کی برائی اور کہیں بڑھ جاتی ہیں،جبکہ ایسا کوئی شخص اپنے دست و بازو کے ذریعہ اپنا اور اپنے متعلقین کا رزق حاصل کرنے کے بجائے دین کا لبادہ اوڑھ لے اور اپنی وضع قطع دین داروں اور بزرگوں کی سی بنا کر اپاہج کی طرح بیٹھ جائے اور سادہ لوح مسلمانوں پر اپنی مصنوعی بزرگی کا سکہ جما کر ان کے کاندھوں کا بار رہنا ہے۔

تکبر کرنا گویا شرک میں مبتلا ہونا ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ذاتی بزرگی میری چادر ہے اور صفاتی عظمت گویا تمہارے اعتبار سے میرا تہمد ہے پس جو ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ جھگڑا کرے گا یعنی جو تکبر کرے گا اس طرح وہ گویا میری ذات و صفات میں شرک کا ارتکاب کرے گا تو میں اس کو عذاب دینے والی آگ میں داخل کروں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو میں اس کو آگ میں پھینک دوں گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

میری چادر اور میرا تہمد ہے جیسے الفاظ حق تعالی نے مثال کے طور پر فرمائے ہیں اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ یہ دونوں صفتیں یعنی کبریائی اور عظمت صرف میری ذات سے تعلق رکھتی ہیں جن میں کوئی بھی میرا ساجھی شریک نہیں ہو سکتا جیسے کسی کے لباس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا چنانچہ حق تعالی کی کچھ صفات تو ایسی ہیں کہ جن میں کچھ حصہ بندوں کو بھی دیا گیا ہے جو صرف حق تعالی کی ذات کے لیے مخصوص ہیں اور جن کے ساتھ کوئی بندہ اپنے آپ کو بطریق مجاز بھی موصوف نہیں کر سکتا۔ اسی حقیقت کو مثال کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح کوئی شخص ان کپڑوں کو نہیں پہن سکتا جو کسی دوسرے شخص کے جسم پر ہوں اسی طرح کبریائی اور حقیقی عظمت بڑائی کا بھی کوئی بندہ دعوی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دونوں صفتیں صرف میری ذات کے لیے موزوں ہیں اور مخصوص ہیں۔

کبریاء، اور عظمہ، یہ دونوں لفظ لغت میں ایک ہی معنی کے حامل ہیں یعنی بزرگی اور بڑا ہونا لیکن حدیث کے ظاہری اسلوب سے ان دونوں کے درمیان فرق معلوم ہوتا ہے کہ ایک کو چادر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور دوسرے کو تہنمبد کے ساتھ لہذا اس فرق کو سامنے رکھتے ہوئے بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کبریا تو صفت ذاتی ہے یعنی اللہ کی ذات کبیر و متکبر ہے خواہ دوسری اس حقیقت کو جانے یا نہ جانے، اور عظمت کا لفظ حق تعالی کی اس برائی کو بیان کرتا ہے جس کا ظہور اس کے غیر پر بھی ہوتا ہے کہ ساری مخلوق جانتی ہے کہ وہ ایسا ربڑ ہے پس یہ حق تعالی کی صفت اضافی ہوئی اور ذاتی صفت کا اضافی صفت سے اعلیٰ ہونا ضروری ہوتا ہے لہذا کبریائی کو چادر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ چادر تہنمبد سے اعلیٰ ہوتی ہے اور عظمت کو تہمد کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔

تکبر نفس کا دھوکہ ہے

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی شخص اپنے نفس کو برابر کھینچا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا نام سرکشوں یعنی ظالم اور متکبر لوگوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے اور پھر جو چیز دنیا و آخرت کی آفت و بلا ان سرکشوں کو پہنچتی ہے وہی اس شخص کو بھی پہنچتی ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

لفظ بنفسیہ میں حرف باء اگر تعدیہ کے لیے ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنے نفس کو اوپر اٹھاتا ہے خود کو بلند مرتبہ سمجھ کر لوگوں سے دور رکھتا ہے اور اپنے آپ کو ہر ایک کے مقابلہ پر بزرگ و برتر جانتا ہے اور اگر حرف باء مصاحبت کے لئے ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا ہو کر اس کے ساتھ کبر و غرور کی طرف بڑھتا ہے اس کو عزت دیتا ہے اور اس کی تعظیم و توقیر کرتا ہے جیسا کہ دوست دوست کی تعظیم و توقیر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ متکبر و مغرور ہو جاتا ہے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے نفس کے دھوکے میں پڑ کر خود بینی و خود ستائی کا شکار ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو اپنے اصل مرتبہ و مقام سے اوپر اٹھا کر بڑے مرتبہ و مقام تک پہنچا دینے کی کوشش کرتا ہے نفس اس کو جس طرح مصنوعی بڑائی کی طرف بہکاتا رہتا ہے جدھر لے جانا چاہے ادھر جاتا ہے اور نفس پر قابو پانے کے بجائے خود اس کے قابو میں ہو جاتا ہے یہاں تک کہ تکبر اور سرکشی میں پوری طرح مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کے لیے دنیا و آخرت کا وہ عذاب مقدر ہو جاتا ہے جو سرکشوں کے لیے مخصوص ہے۔

تکبر کرنے والوں کا انجام

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے اور وہ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چھوٹی چیونٹیوں کی طرح مردوں کی صورت میں جمع کیا جائے گا یعنی ان کی شکل مردوں کی سی ہو گی لیکن جسم و جثہ چیونٹیوں کی مانند ہو گا اور ہر طرف سے ذلت و خواری کو پوری طرح گھیرے گی پھر ان کو جہنم کے ایک قید خانہ کی طرف کہ جس کا نام بولس ہے ہانکا جائے گا وہاں آگوں کی آگ ان پر چھا جائے گی۔ اور دوزخیوں کا نچوڑ یعنی دوزخیوں کے بدن سے بہنے والا خون، پیپ اور کچ لہو ان کو پلایا جائے گا۔ جس کا نام طینت الخبال ہے۔ (ترمذی

 

تشریح

 

چھوٹی چیونٹیوں کی طرح کے اصل مفہوم کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ چیونٹیوں کی تشبیہ دراصل اس بات سے کنایہ ہے کہ تکبر کرنے والے لوگ قیامت کے دن میدان حشر میں نہایت ذلت خواری کے ساتھ حاضر ہوں گے اور گویا وہ لوگوں کے پاؤں کے نیچے اس طرح پامال ہوں گے جس طرح چیونٹیوں کو روندا جاتا ہے ان حضرات کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ قیامت کے دن مخلوق کا اٹھنا اور ان کے اجسام کا دوبارہ بننا ان ہی اجزاء اصل کے ساتھ ہو گا جو وہ دنیا میں رکھتے تھے جیسا کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر شخص میدان حشر میں اپنے اجزاء اعضاء کے ساتھ اٹھ کر آئے گا جن پر دنیا میں اس کا جسم پر مشتمل تھا اور ظاہر ہے کہ چیونٹی کی صورت اس کا جثہ اس جسم و بدن کے اجزاء اصلی کے حامل نہیں ہو سکتا اس لیے حدیث فی الصور مردوں کی صورت میں کے الفاظ بھی اس قول پر دلالت کرتے ہیں۔

ملا علی قاری نے بھی اس کے بارے میں کئی اقوال نقل کیے ہیں اور پھر تور پشنی کی طرف منسوب کر کے یہ بیان کیا ہے کہ ہم اس حدیث کے ظاہری معنی اس لیے مراد لیتے نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب لوگ قیامت کے دن دوبارہ اٹھ کر میدان حشر میں آئیں تو ان کے جسم و بدن ان ہی اجزاء پر مشتمل ہوں گے جن پر دنیا میں ان کے جسم تھے۔ یہاں تک کہ ان کے عضو تناسل کی کھال کا وہ حصہ بھی لگا دیا جائے گا جو ختنہ کے وقت کاٹا جاتا ہے گویا سارے لوگ غیر مختون اٹھیں گے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے جسم کے سارے اجزاء یہاں تک کہ ناخن اور بال وغیرہ بھی ایک چیونٹی کے جثہ کے برابر ہو جمع ہو جائیں۔

آخر میں ملا علی قاری نے تورپشتی کے مذکورہ قول کے مخالفین کے جواب بھی نقل کیے ہیں اور ان پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اپنی تحقیق یہ لکھی ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے تو اس وقت اللہ دوسرے لوگوں کی طرح تکبر کرنے والوں کے جسم کو بھی دوبارہ بنائے گا۔ اور وہ بھی اپنے تمام اجزاء معدومہ کے ساتھ اپنے پورے جسم میں اٹھ کر آئیں گے تاکہ ہر ایک کی دوبارہ جسمانی تخلیق کی قدرت پوری طرح ثابت ہو جائے لیکن پھر ان لوگوں کو میدان حشر میں مذکورہ جسم و صورت میں تبدیل کر دے گا یعنی ان کے جسم چیونٹیوں کی طرح ہو جائیں گے اور ان کی صورت مردوں کی سی رہے گی اور یہ تبدیلی جسم اس لیے ہو گی کہ تاکہ ان کی ذلت و ہانت پوری مخلوق کے سامنے ظاہر ہو جائے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب مذکورہ لوگ حساب و کتاب کی جگہ آئیں گے اور ان کے سامنے عذاب الہی کی نشانیاں ظاہر ہوں گی تو اس وقت وہ ہیبت و دہشت کے سبب اس قدر گھٹ جائیں گے کہ ان کے جسم چیونٹیون کی طرح معلوم ہوں گے اور اہل دوزخ کا اپنی اپنی حالتوں اور گناہوں کے اعتبار سے مختلف صورتوں جیسے کتے سور، گدھے، وغیرہ کی شکلوں میں تبدیل ہو جانا مختلف منقولات سے ثابت ہے۔

لفظ بولس باء کے زبر، واؤ کے جزم اور لام کے زبر کے ساتھ، اور قاموس میں لکھا ہے کہ یہ لفظ با کے پیش کے اور لام کے زیر کے ساتھ ہے جو بلس سے مشتق ہے اور جس کے معنی تحیر اور ناامیدی کے ہیں شیطان کا نام ابلیس بھی اسی سے مشتق ہے۔

 آگوں کی آگ میں  کی طرف نسبت ایسی ہے جیسے آگ کی نسبت کسی ایسی چیز کی طرف کی جائے جس کو آگ جلا دیتی ہے مطلب یہ ہے کہ وہ آگ اس طرح کی ہو گی کہ وہ خود آگ کو لکڑی کی طرح جلائے گی۔

طینۃ الخیال میں لفظ خبال خاء کے زبر کے ساتھ ہے اور اس کے لغوی معنی فساد اور خرابی کے ہیں اور جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ 'طینۃ الخیال‘ ان دوزخ کے عصارہ کا نام ہے اور عصارہ اس پیپ، خون، اور کچ لہو کو کہتے ہیں جو دوزخیوں کے زخموں سے بہے گا۔

ناحق غصہ شیطانی اثر ہے

اور حضرت عطیہ بن عروہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا (ناحق) غصہ شیطانی اثر ہے (یعنی ناحق غصہ کرنا شیاطین کے مشتعل کرنے اور اس کے فریب میں آ جانے کا نتیجہ ہوتا ہے) اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اس لیے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وضو کر لے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

ٹھنڈا پانی استعمال کرنے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے جیسا کہ عام تجربہ سے ثابت ہے اور ٹھنڈے پانی کے استعمال کی بہترین صورت تو وضو کر لینا ہے لیکن ٹھنڈا پانی پینے کی یہ بھی خاصیت ہے اس حدیث میں تو صرف وضو کرنے کا ذکر ہے لیکن چاہیے کہ یہ جب غصہ آئے تو پہلے اعوذ باللہ پڑھے پھر جب دیکھے کہ غصہ ختم نہیں ہوا ہے تو اٹھ کر وضو کرے اور اللہ کے لیے دو رکعت نماز پڑھے۔

غصہ کا ایک نفسیاتی علاج

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور اس وقت کھڑا ہو تو فوراً بیٹھ جائے اگر غصہ جاتا رہے تو خیر ورنہ پھر پہلو پر لیٹ جائے۔ (احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

شرح السنہ میں لکھا ہے کہ غصہ کی حالت میں کھڑا رہنے کے بجائے بیٹھ جانے میں حکمت یہ ہے کہ عام طور پر غصہ کے وقت انسان بے قابو ہو جاتا ہے اور اگر وہ غصہ کے وقت کھڑا ہوا ہو تو اس بات کا زیادہ خوف ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر گزرے جس سے بعد میں پریشانی اٹھانی پڑے اور ظاہر ہے کہ بیٹھے ہوئے ہونے کی صورت میں کسی حرکت کا صادر ہونا اتنی سرعت اور آسانی کے ساتھ نہیں ہوتا جس قدر بیٹھے ہوئے ہونے کی صورت میں ہوتا ہے لیکن اس بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ غصہ کے وقت اپنی حالت میں اس طرح تبدیلی کر لینا کہ جس سے جسم و ذہن کو سکون و آرام ملے جیسے کھڑا ہو تو فوراً بیٹھ جائے یا بیٹھا ہوا ہو تو لیٹ جائے غصہ اور اشتعال کے دفعیہ کے لیے بہترین تاثیر رکھتا ہے۔

برے بندے کون ہیں؟

اور حضرت اسما بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ برا بندہ ہے جس نے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر جانا اور تکبر کیا اور خداوند بزرگ و برتر کو وہ بھول گیا (یعنی اس نے یہ فراموش کر دیا کہ بزرگی و بلندی و برتری صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے یا یہ بھول گیا کہ اس نے دنیا میں احتیاط و تقوی کی راہ چھوڑ کر جس برے راستہ کو اختیار کیا ہے اس کی جواب دہی اس کو آخرت میں کرنی ہو گی اور وہاں خدا کا عذاب بھگتنا ہو گا، برا بندہ ہے وہ بندہ جس نے لوگوں پر جبر و جور کیا اور ظلم و فساد ریزی میں حد سے بڑھ گیا اور خداوند جبار قہار کو بھول گیا جس کی قدرت و عزت سب سے بلند ہے برا بندہ وہ بندہ ہے جو دین کے کاموں کو بھول گیا اور دنیا داری میں مشغول رہا اور اس نے مقبروں کو اور خاک میں مل جانے والے جسم کی کہنے گی و بوسیدگی کو فراموش کر دیا۔، مقبروں کو بھولنا موت کو بھولنے سے کنایہ ہے یعنی اس نے یہ فراموش کر دیا کہ ایک دن موت کا پنجہ آ دبوچے گا اور اس وقت سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کے لیے کچھ تیاری کر لینی چاہیے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے فتنہ و فساد برپا کیا اور حد سے متجاوز ہو گیا اور اپنی ابتدا و انتہا کو بھول گیا، یعنی نہ تو اس کو یاد رہا کہ وہ کتنی ہی حقیر سی چیز سے پیدا کیا گیا ہے اور ابتدا میں وہ کس قدر عاجز و ناتواں تھا اور نہ اس کو اپنا انجام یاد رہا کہ ابھی اس کو کیا کیا دیکھنا ہے۔ اور آخرکار پیوند زمین ہو جانا ہے۔ برا بندہ وہ ہے جو دین کے ذریعہ دنیا حاصل کرے یعنی دنیا کو حاصل کرنے کے لیے دین کو وسیلہ بنائے یا یہ معنی ہیں کہ صلحا اور بزرگوں کی شکل اختیار کرے اور دین کا لبادہ اوڑھے اور اہل دنیا کو فریب دے تاکہ وہ اس کے معتقد و مداح ہو جائیں اور ان سے مال و جاہ حاصل کرے۔ برا بندہ وہ ہے جس نے مخلوق سے طمع و امید قائم کی اور حرص و طمع اس کو دنیا داروں کے دروازہ پر کھینچے پھرتی ہے اور جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے اور برا بندہ وہ ہے جس کو دنیا کی طرف اس کی رغبت و خواہش حصول دنیا کی حرص اور کثرت مال و جاہ کی ہوس ذلیل و خوار کرتی ہے اور اس کے دین کی آبرو  ریزی کرتی ہے، اس روایت کو ترمذی نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔ اور دونوں نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد قوی نہیں ہیں نیز ترمذی نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث محض ترمذی و بیہقی کی مذکورہ اسناد ہی سے منقول نہیں ہے بلکہ اس کو طبرانی نے بھی نقل کیا ہے اور ایک دوسرے موقع پر بیہقی نے نعیم بن ہماز سے نقل کیا ہے کہ نیز اس کو حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں نقل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کثرت طرق ضعیف حدیث کو قوی کر دیتا ہے اور اس کو حسن لغیرہ کے درجہ پر پہنچا دیتی ہے جس سے روایت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے جہاں تک ترمذی کے اس قول کا تعلق کہ یہ حدیث غریب ہے تو واضح رہے کہ اول تو غرابت صحت اور حسن کے منافی نہیں ہے دوسرے یہ کہ تمام محدثین کے نزدیک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جاتا ہے۔ لہذا وعظ و نصیحت کے موقع پر اس حدیث کو ذکر کرنا اور لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرنا بطریق اولی مناسب ہو گا۔

غصہ کو ضبط کرو

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بندہ کسی چیز کا ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیتا جو خدا کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے پی جاتا ہے۔ (احمد)

 

 

 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ کے اس ارشاد آیت(ادفع بالتی) ...کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ غصہ کے وقت صبر کرنا اور برائی کے وقت عفو درگزر کرنا اس ارشاد خداوندی کی مراد ہے لہذا جب صبر و عفو کرتے ہیں تو اللہ ان کو نفس اور مخلوقات کی آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کے دشمن اس طرح پست ہو جاتے ہیں جیسے وہ بہت قریبی دوست ہوں اس روایت کو بخاری نے بطریق تعلیل نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

روایت میں آیت کا جو ٹکڑا نقل کیا گیا ہے وہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح ہے آیت(ولاتستوی الحسنۃ ولاالسیئیۃ ادفع باللتی)....۔گویا آیت کی تعلیم یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے بلکہ برائی کا بدلہ نیکی ہے لہذا اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے تم اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ اور اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ برائی بھلائی کے ذریعہ دفع کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو صبر تحمل اختیار کرو اور اگر کسی سے کوئی برائی اور تکلیف پہنچے تو اس سے عفو و درگزر کرو۔

لفظ  قریب دراصل لفظ حمیم کی تفسیر ہے جس سے قرابتی مراد ہے اور یہ جملہ مذکورہ آیت کے اس آخری جزء کی تفسیر ہے آیت(فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ)41۔فصلت:34)۔ یعنی پھر اچانک تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کوئی قریبی دوست ہے۔

غصہ ایمان کو خراب کرتا ہے

اور حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ بہز کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا غصہ ایمان کو خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔

 

تشریح

 

 ایمان سے یا تو کمال ایمان مراد ہے یا نور ایمان، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات غصہ کی شدت اصل ایمان کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔

تواضع اختیار کرو

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن انہوں نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تواضع اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے لوگوں کے ساتھ تواضع اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے مرتبہ کو بلند کر دیتا ہے چنانچہ وہ اپنی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کو ذلت و حقارت کی نظر میں دیکھتا ہے اور جو شخص لوگوں کے ساتھ تکبر و غرور کرتا ہے اللہ اس کے مرتبہ کو گرا دیتا ہے چنانچہ وہ لوگوں کی نظر میں تو حقیر ہوتا ہے لیکن اپنی نظر میں خود کو بلند مرتبہ سمجھتا ہے یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے یا سور سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ متکبر و مغرور اگرچہ خود کو بڑا اور عزت دار سمجھتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنی مصنوعی بڑائی اور عزت دکھاتا ہے لیکن وہ خدا کے نزدیک بھی ذلیل و حقیر ہوتا ہے اور لوگوں کی نظروں میں بھی نہایت کمتر و بے وقعت رہتا ہے اس کے برخلاف جو شخص تواضع فروتنی اختیار کرتا ہے وہ اگرچہ اپنی نظر میں خود کو حقیر سمجھتا ہے اور لوگوں کے سامنے بھی اپنے آپ کو کم تر و بے وقعت ظاہر کرتا ہے مگر خدا کے نزدیک اس کا مرتبہ بہت بلند ہوتا ہے اور لوگوں کے نظروں میں بھی اس کی بڑی عزت وقعت ہوتی ہے۔

انتقام لینے پر قادر ہونے کے باوجود عفو درگزر کرنے کی فضیلت

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے عرض کیا میرے پروردگار تیرے بندوں میں سے کون بندہ تیرے نزدیک زیادہ عزیز ہے پروردگار نے فرمایا وہ بندہ جو قادر ہونے کے باوجود عفو و درگزر کرے۔

 

تشریح

 

یعنی اگر اس پر کسی شخص نے کوئی ظلم کیا اور اس کو رنج و تکلیف میں مبتلا کیا تو وہ اس سے انتقام لینے کی طاقت و قدرت رکھنے کے باوجود اس کو معاف کر دے حضرت موسیٰ کی طبیعت چونکہ جلالی کیفیت غالب تھی اس لیے اللہ تعالی نے اس جواب کے ذریعہ گویا ان کی تلقین کہ وہ عفو درگزر کا رویہ اختیار کریں۔

جامع صغیر کی ایک روایت میں منقول ہے جو شخص انتقام لینے کی طاقت و قدرت کے باوجود عفو درگزر کرے تو اللہ تعالی یوم عسرت یعنی قیامت کے دن اس کے ساتھ عفو و درگزر فرمائے گا۔

غصہ کو ضبط کرنے کا اجر

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اپنی زبان کو بلند رکھتا ہے اللہ اس کے عیوب کو ڈھانک لیتا ہے یعنی جو شخص لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں کو چھپانے اور بیان کرنے سے باز رہتا ہے جو اس کے علم میں ہوتی ہیں تو اللہ تعالی اس کے عیوب و معاصی کو لوگوں کی نگاہوں سے یا اعمال لکھنے والے فرشتوں سے اور یا دونوں سے چھپاتا ہے جو شخص اپنے غصہ کو ضبط کرتا ہے تو اللہ اس کو قیامت کے دن اپنے عذاب سے بچائے گا اور جو شخص اپنے گناہ و تقصیر پر نادم ہو کر اللہ تعالی سے عفو و درگزر کرے گا تو اللہ اس کی عفو خواہی کو قبول کرتا ہے۔

وہ تین چیزیں جو نجات کا ذریعہ ہیں اور وہ تین چیزیں جو اخروی ہلاکت کا باعث ہیں

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں نجات دینے والی ہیں اور تین چیزیں آخرت میں ہلاک کرنے والی ہیں جو چیزیں نجات دینے والی ہیں ان میں سے ایک تو ظاہر میں خدا سے ڈرنا ہے یعنی جلوت و خلوت ہر حالت میں اور ہر حرکت و عمل کے وقت خدا کا خوف غالب ہو یا یہ کہ بندہ کا ظاہر بھی خوف خدا کے احساس کا مظہر ہو اور اس کا باطن بھی خوف خدا سے معمور ہو) دوسری چیز خوشی و ناخوشی ہر حالت میں حق بات کہنا ہے، تیسری چیز دولت مندی و فقیری دونوں حالتوں کے درمیان میانہ روی اختیار کرنا ہے اور جو چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جائے دوسری چیز حرص و بخل ہے انسان جس کا غلام بن جائے اور وہ تیسری چیز مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا ہے۔ اور یہ تیسری چیز ان سب میں بدترین خصلت ہے مذکورہ بالا پانچوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

خوشی و ناخوشی میں حق بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت بیانی اور حق گوئی کو اپنی کسی مصلحت کسی مفاد اور اپنے کسی جذبہ پر خوشی و ناخوشی کا پابند نہیں بنانا چاہیے بلکہ اگر کسی سے راضی و خوشی ہے تو اس کے سامنے بھی وہی بات کہے جو حق ہے اور اگر اس سے ناراض ہو تو اس صورت میں بھی حق بات ہی کہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص خود کو کسی ایسے شخص سے کوئی نفع و فائدہ پہنچتا ہے دوسروں کے ساتھ جس کا ظلم اور جس کا فسق ظاہر ثابت ہو تو اس کی ناحق تعریف و ستائش اور خلاف واقعہ بات محض اس لیے بیان نہ کرے کہ ذاتی فائدہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس سے خوش ہے اس طرح اگر کسی صالح و بزرگ شخصیت سے کسی معاملہ میں کوئی اختلاف اور ناراضگی کی صورت پیدا ہو جائے تو محض اپنی ذاتی ناراضگی کی وجہ سے اس کی برائی اور مذمت نہ کرے حاصل یہ کہ خواہ کسی سے خوش ہو یا ناراض،دونوں صورتوں میں راہ استقامت پر گامزن رہے اور حق گوئی کے فریضہ کو کسی بھی حالت میں پس پشت نہ ڈالے۔

میانہ روی اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خرچ و اخراجات میں نہ تو اس قدر وسعت و فراخ دستی کا طور اپنائے کہ اس پر اسراف کا اطلاق ہونے لگے اور نہ اس قدر تنگی و سختی اختیار کرے کہ فقر و افلاس ظاہر ہونے لگے یا یہ کہ مراد ہے کہ فقر غنا کے درمیان اعتدال قائم کرے اور درمیانی راستہ کو اختیار کرے کہ جیسا کہ علما نے کہا ہے کہ حصول معاش کی جدوجہد میں اس حد پر اکتفا کرنا کہ جس سے ضروریات زندگی کی تکمیل اور بقا کا سامان فراہم ہو جاتا ہو غنا اور فقر دونوں سے افضل ہے۔

خواہش نفس کی پیروی کی جائے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح کا تابع کر دینا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری کرنے لگے وہ جو کچھ کہے اور جس طرف لے جائے ادھر چل پڑے ایک ایسی خصلت ہے جو ہلاکت و تباہی میں ڈال دیتی ہے اس کے برخلاف ایمان کا کامل ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ اپنے نفس کو فرمان اور شریعت مصطفوی کا تابع بنایا جائے۔

بخل و حرص کا غلام بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بخل و حرص انسان کی طبیعت میں داخل ہے اور اس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان بخل و حرص کے مادہ سے بالکل خالی ہو، لیکن اپنے آپ کو بخل و حرص کا اس طرح غلام بنا دینا کہ کسی بھی صورت میں ان چیزوں سے خود کو محفوظ رکھنا ممکن نہ ہو، ایک ایسی خصلت ہے جو انسان کو اخروی تباہی و ہلاکت میں ڈال دیتی ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ہلاکت میں ڈالنے والی جن تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں از روئے گناہ اور نقصان سب سے بدتر خصلت عجب یعنی خود بینی و خود ستائی ہے جس کی وجہ سے انسان تکبر و غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ خواہش نفس کی اتباع اور بخل و حرص کی غلامی یہ دونوں برائیاں اس طرح کی ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں گرفتار ہو تو ان کے پھندے سے اپنے آپ کو نکال لینا اور توبہ و انابت کی راہ اختیار کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا مگر خود بینی و خود ستائی ایک ایسا مرض ہے جو اگر لاحق ہو جاتا ہے تو کم ہی پیچھا چھوڑتا ہے اور انسان کو کبر و نحوست میں اس طرح مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل کی اچھائی و برائی کے احساس تک سے خالی ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی برے فعل پر نادم نہیں ہوتا اور توبہ و انابت کی راہ اس سے دور ہوتی چلی جاتی ہے جیسا کہ بدعتی، بدعت کے پھندے میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اس سے نکلنا آسان نہیں ہوتا چنانچہ بدعتی سے کم ہی توبہ کی توفیق ہوتی ہے۔