شرعی نقطہ نظر سے آزادی دراصل ایک ایسی قوت حکمیہ کا نام ہے جو انسان کو اس کا یہ فطری اور پیدائشی حق دیتی ہے کہ وہ مالک ہونے، سر پرست بننے اور شہادت (گواہی) دینے کا اہل بن جائے، چنانچہ جس انسان کا یہ فطری اور پیدائشی حق مسلوب ہوتا ہے بایں طور کہ وہ کسی غلامی میں ہوتا ہے اور پھر اسے آزادی کی صورت میں یہ قوت حکمیہ حاصل ہو جاتی ہے تو اس میں نہ صرف مالک ہونے کی لیاقت، سر پرست بننے کی قابلیت اور شہادت دینے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے بلکہ وہ اس قوت حکمیہ یا یہ کہیے کہ اس آزادی کی وجہ سے دوسروں پر تصرف کرنے اور دوسروں کے تصرف کو اپنے سے روکنے پر قادر ہو جاتا ہے اور وہ آزاد و خود مختار انسانوں کی صف میں آ کھڑا ہوتا ہے۔
کسی بردہ (غلام باندی) کو آزاد کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ آزاد کرنے والا خود مختار ہو بالغ ہو، عقلمند ہو اور جس بردہ کو آزاد کر رہا ہے اس کا مالک ہو
غلام کو آزاد کرنا بعض صورتوں میں واجب ہے جیسے کفارہ، بعض صورتوں میں مستحب ہے اور بعض صورتوں میں گناہ بھی ہے، جیسے اگر یہ ظن غالب ہو کہ اگر اس غلام کو آزاد کر دیا جائے گا تو یہ دارالحرب بھاگ جائے گا یا مرتد ہو جائے گا یا یہ خوف ہو کہ چوری قزاقی کرنے لگے گا ! بعض صورتوں میں مباح ہے۔ جیسے کسی شخص کی خاطر یا کسی شخص کو ثواب پہنچانے کے لئے بردہ کو آزاد کر دیا جائے اور بعض صورتوں میں عبادت ہے جیسے کسی بردہ کو محض اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لئے آزاد کیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان بردہ کو غلامی سے نجات دے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کو اس بردہ کے ہر عضو کے بدلے دوزخ کی آگ سے نجات دے گا یہاں تک کہ اس کی شرم گاہ کو اس بردہ کی شرم گاہ کے بدلے (نجات دے گا)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مسلمان بردہ میں اسلام کی قید اس لئے لگائی گئی ہے تاکہ اس فعل (آزاد کرنے) کا ثواب زیادہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ یوں تو کسی بھی بردہ کو آزاد کرنا اجر کا باعث ہے لیکن اگر کسی مسلمان کو آزاد کیا جائے تو اس کے اجر کی حیثیت اور ثواب کی مقدار کہیں زیادہ ہو گی۔
ہر عضو کے ذکر کے بعد پھر شرم گاہ کو بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ زنا کی جگہ ہے اور زنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے لہٰذا وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ جسم کے اس حصہ کو بھی نجات دے گا۔ اس کے پیش نظر بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ آزاد کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس غلام کو آزاد کرے جو خصی یا ستر بریدہ نہ ہو نیز یہ اولی ہے کہ اگر آزاد کر نے والا مرد ہو تو وہ مرد (یعنی غلام) کو آزاد کرے اور اگر آزاد کرنے والی عورت ہو تو وہ عورت (یعنی باندی) کو آزاد کرے۔
اور حضرت ابو ذر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ کونسا عمل بہتر ہے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ابو ذر کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا کونسا بردہ آزاد کرنا بہتر ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو گراں قیمت ہو اور اپنے مالک کو بہت پیارا ہو میں نے عرض کیا کہ اگر ایسا نہ کر سکوں ؟( یعنی از راہ کسل نہیں بلکہ از راہ عجز و عدم استطاعت ایسا غلام آزاد نہ کر سکوں ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کام کرنے والے کی مدد کرو یا جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو اس کی وہ چیز بنا دو میں نے عرض کیا اگر میں یہ (بھی) نہ کر سکوں (تو کیا کروں ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو یاد رکھو یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ایمان کا بہتر ہونا تو بالکل بدیہی بات ہے کہ خیر و بھلائی کی بنیاد ہی ایمان ہے، اگر ایمان کی روشنی موجود نہ ہو تو پھر کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہوتا خواہ وہ کتنا ہی اہم ہو اور کتنا ہی افضل کیوں نہ ہو ! اور جہاد اس اعتبار سے بہتر عمل ہے کہ وہ دین کی تقویت اور مسلمانوں کی برتری و عظمت اور غلبہ کا باعث ہوتا ہے۔
جہاں تک نماز روزہ کا تعلق ہے وہ تو دوسری حیثیات اور دوسری وجوہ کی بناء پر (ایک دوسرے) عمل سے برتر اور بہتر ہیں لہٰذا یہاں جہاد کو نماز و روزہ پر فوقیت دینا مراد نہیں ہے۔ یا پھر یہ کہ اس موقع پر جہاد سے مراد مطلق مشقت برداشت کرنا ہے جس کا تعلق جہاد سے بھی ہے اور دوسری طاعات و عبادات سے بھی، چنانچہ مامورات پر عمل کرنے اور منہیات سے بچنے کی نفسانی مشقت اور ریاضت کو جہاد اکبر فرمایا گیا ہے اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ بالا جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ سب سے بہتر عمل، ایمان لانا اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے حدیث (قل اٰمنت باللہ ثم استقم) کام کرنے والے کی مدد کرو میں کام سے مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کے معاش کا ذریعہ ہو خواہ وہ صنعت و کاریگری ہو یا تجارت ہو۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی پیشہ و کسب میں لگا ہوا ہو اور اس کا وہ پیشہ و کسب اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا نہ کرتا ہو وہ شخص اپنے ضعف و مجبوری کی وجہ سے اس کسب و پیشہ کو پوری طرح انجام نہ دے سکتا ہو تو تم اس شخص کی مدد کرو ! اسی طرح جو شخص کسی چیز کو بنانا نہ جانتا ہو الخ کا مطلب بھی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے پیشے کے کام کو نہ کر سکتا ہو تو تم اس کا کام کر دو تاکہ وہ تمہارے سہارے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے۔
لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرو کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو برے کام میں مبتلا نہ کرو کسی کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے ایذاء نہ پہنچاؤ اور نہ کسی کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچاؤ کیونکہ لوگوں کو برائی پہنچانے سے اجتناب کرنا بھی خیر و بھلائی ہے خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ برائی (یعنی کسی کو ایذاء و نقصان) پہنچانے پر قدرت بھی حاصل ہو۔
مراز خیر تو امید نیست شرمرساں
اس موقع پر عبارت کے ظاہری اسلوب کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یوں فرماتے کہ یہ ایک اچھی خصلت ہے جس کے ذریعہ تم لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہو لیکن چونکہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا درحقیقت اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا ہے بایں طور کے اس بھلائی کے مختلف فوائد اسے حاصل ہوتے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ جس کے ذریعہ تم اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرتے ہو۔
حضرت براء ابن عازب کہتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جس کے ذریعہ میں (ابتدائی مرحلہ میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ) جنت میں داخل ہو جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگرچہ تم نے سوال کرنے میں بہت اختصار سے کام لیا ہے لیکن بڑی اہم بات دریافت کی ہے (پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو یہ عمل بتایا کہ) تم جان کو آزاد کرو اور بردہ کو نجات دو دیہاتی نے عرض کیا کہ کیا یہ دونوں باتیں (یعنی جان کو آزاد کرنے اور غلام کو نجات دینا) ایک ہی نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ! جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم اس کو آزاد کرنے میں تنہا اور مستقل ہو اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم اس کی قیمت کی ادائے گی) میں اس کی مدد کرو (نیز جنت میں داخل کرنے والا یہ بھی عمل ہے کہ) تم کسی محتاج کو) شیر دار منحہ دو اور اس ظالم رشتہ دار پر مہربانی اور احسان کرو جو تم پر ظلم کرتا ہے ! اگر تم سے یہ نہ ہو سکے تو بھوکے کو کچھ کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ۔ نیز (لوگوں کو) بھلائی کی تلقین و تبلیغ کرو اور برائی سے روکو۔ اور اگر تم یہ (بھی) نہ کر سکو تو پھر (کم سے کم اتنا ہی کرو کہ) بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو۔ (بیہقی)
تشریح
جان یعنی بردہ کو آزاد کرنا، اور بردہ کو نجات دینا، ان دونوں باتوں میں جو فرق واضح کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جان کو آزاد کرنا تو یہ ہے کہ تم خود اپنے بردہ کو آزاد کرو، اور بردہ کو نجات دینا یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرو، بایں طور کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں اس بردہ کی مدد کرو ! مثال کے طور پر زید نے اپنے غلام کو لکھ کر دے دیا کہ جب تم مجھے اتنے روپے ادا کر دو گے تو تم آزاد ہو جاؤ گے، اب اس غلام کی روپے پیسے سے امداد کرنا تا کہ وہ متعینہ رقم اپنے مالک زید کو ادا کر کے آزاد ہو جائے، دوسرے شخص کے بردہ کی آزادی کے لئے سعی و کوشش کرنا ہے، یاد رہے کہ ایسے غلام کو مکاتب کہا جاتا ہے۔
منحہ سے مراد وہ بکری یا اونٹنی ہے جو کسی محتاج کو اس مقصد سے عارضی طور پر دے دی جائے کہ وہ اس بکری یا او نٹنی کے دودھ یا ان کے بالوں سے نفع حاصل کرے اور وکوف بہت دودھ دینے والے جانور کو کہتے ہیں۔
بھلی بات کے علاوہ اپنی زبان کو بند رکھو اس مضمون کو ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے۔
(من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیقل خیرااو لیصمت)
جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی زبان سے بھلائی (کی بات) نکالے یا خاموشی اختیار کرے۔
ان دونوں فرمودات کا حاصل یہ ہے کہ اپنی زبان پر پوری طرح قابو رکھنا چاہئے۔ یا وہ گوئی، اور بدکلامی اور بری باتوں کا زبان سے صدور نہ ہونا چاہئے، زبان جب بھی حرکت میں آئے، اس سے بھلائی ہی کی بات نکلنی چاہئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر عمل کر کے بہت سی خرابیوں اور دینی و دنیاوی نقصانات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں بھلائی سے مراد وہ چیز ہے جس میں ثواب ہو اس صورت میں وہ کلام جس پر مباح کا اطلاق ہوتا ہو، بھلائی کے زمرہ میں نہیں آئے گا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بھلائی سے مراد وہ چیز ہے جو برائی کے مقابل ہو لہٰذا اس صورت میں مباح کلام بھلائی کے زمرہ میں آئے گا ورنہ حصر غیر موزوں رہے گا۔
اور حضرت عمرو ابن عبسہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کوئی (چھوٹی یا بڑی) مسجد (نام و نمود کے لئے نہیں بلکہ اس نیت سے) بنائے کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے لئے جنت میں ایک بڑا مکان بنایا جائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بردہ کو آزاد کرے گا تو وہ بردہ اس شخص کے لئے دوزخ کی آگ سے نجات کا سبب ہو گا اور جو شخص خدا کی راہ میں (یعنی جہاد میں یا حج میں، یا طلب علم میں اور یا اسلام میں جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے) بوڑھا ہوا تو اس کا بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لئے نور ہو گا (جس کے سبب وہ اس دن کی تاریکیوں سے نجات پائے گا۔) اس روایت کو صاحب مصابیح نے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنتہ میں نقل کیا ہے۔
تشریح
ان الفاظ رواہ فی شرح السنتہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مشکوٰۃ کے مصنف کو یہ حدیث شرح السنتہ کے علاوہ حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملی ہے۔
اور حضرت غریف ابن دیلمی (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم حضرت واثلہ ابن اسقع (صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جس میں کمی بیشی نہ ہو۔ حضرت واثلہ (یہ بات سن کر) غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ تم لوگ (شب و روز) قرآن کریم پڑھتے ہو اور تمہارا قرآن کریم تمہارے گھر میں لٹکا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود (از راہ سہو و خطا) کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے (یعنی جب کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا قرآن کریم اس کے گھر میں یا اس کے پاس موجود ہوتا ہے اور اس صورت میں اگر اسے کہیں کوئی شبہ ہو تو وہ قرآن دیکھ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود تلاوت میں غلطی سے کوئی لفظ چھوڑ دیتا ہے یا کوئی لفظ بڑھا دیتا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ ضبط و تکرار اور پوری احتیاط کے باوجود نقل روایت میں الفاظ کی کمی بیشی کا ہو جانا ضروری ہے) ہم نے عرض کیا کہ ہمارا مطلب تو صرف یہ ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو حدیث سنی ہو ہمیں سنائیے، چنانچہ حضرت واثلہ نے یہ حدیث بیان کی کہ (ایک دن) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنے ایک دوست کا معاملہ لے کر آئے جس نے (خود کشی کر کے یا کسی دوسرے کو ناحق) قتل کر کے اپنے لئے دوزخ کی آگ کو واجب کر لیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (واقعہ سن کر) فرمایا کہ اس شخص کی طرف سے (غلام آزاد کر دو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے قاتل کے ہر عضو کے (دوزخ) کی آگ سے نجات دے گا۔ (ابوداؤد)
تشریح
حضرت واثلہ سمجھے کہ غریف کی مراد یہ ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ بعینہٖ روایت کیئے جائیں۔ چنانچہ ان کو اس بات پر غصہ آیا اور مذکورہ بالا جواب دیا۔ لیکن حضرت غریف نے اپنی بات کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مطلب یہ نہیں تھا جو آپ سمجھے ہیں بلکہ ہماری مراد تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث اس طرح بیان فرمائیں کہ اس کے مضمون و مفہوم میں کوئی تغیر نہ ہو اگرچہ الفاظ میں کمی بیشی ہو جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کو اس طرح بیان کرنا کہ اس کا مضمون و مفہوم بعینہ نقل ہو جائے گو الفاظ میں کچھ تضاد ہو تو جائز ہے۔
اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہترین صدقہ وہ سفارش ہے جس کے نتیجہ میں (بردہ کی) گردن کو نجات حاصل ہو جائے۔ (بیہقی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سفارش کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا یا کوئی شخص اپنے غلام کو قتل کر دینا چاہتا ہو یا اس کو مارتا دھاڑتا ہو تو سفارش کر کے اس غلام کے بچا دینا بہترین صدقہ ہے۔