نہایہ میں لکھا ہے کہ موات اس زمین کو کہتے ہیں جس میں نہ کوئی کھیتی ہو نہ مکان ہو اور نہ اس کا کوئی مالک ہو اور ہدایہ میں لکھا ہے کہ موات اس زمین کو کہتے ہیں جو پانی کے منقطع ہونے یا اکثر زیر آب رہنے کی وجہ سے ناقابل انتفاع ہو یا اس میں ایسی کوئی چیز ہو جو زراعت سے مانع ہو لہذا ایسی زمین جو عادی یعنی قدیم ہو کہ اس کا کوئی مالک نہ ہو یا اسلامی سلطنت کی مملوک ہو اور اس کے مالک کا پتہ نامعلوم ہو اور وہ زمین بستی سے اس قدر دوری پر ہو کہ اگر کوئی شخص بستی کے کنارے پر کھڑا ہو کر آواز بلند کرے تو اس کی آواز اس زمین تک نہ پہنچے تو وہ زمین موات ہے۔
احیا موات سے مراد ہے اس زمین کو آباد کرنا ہے اور اس زمین کو آباد کرنے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس زمین میں مکان بنایا جائے یا اس میں درخت لگایا جائے یا اس میں زراعت کی جائے یا اسے سیراب کیا جائے اور یا اس میں ہل چلا دیا جائے۔
اس قسم کی زمین یعنی موات کا شرعی حکم یہ ہے کہ جو شخص اس زمین کو آباد کرتا ہے وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے لیکن اس بارے میں علماء کا تھوڑا سا اختلاف ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ اس زمین کو آباد کرنے کے لئے امام (یعنی حکومت وقت) سے اجازت لینا شرط ہے جب کہ حضرت امام شافعی اور صاحبین یعنی حنفیہ کے حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک اجازت شرط نہیں ہے۔
شرب کے لغوی معنی ہیں پینے کا پانی پانی کا حصہ گھاٹ اور پینے کا وقت اصطلاح شریعت میں اس لفظ کا مفہوم ہے پانی سے فائدہ اٹھانے کا وہ حق جو پینے برتنے اپنی کھیتی اور باغ کو سیراب کرنے اور جانوروں کو پلانے کے لے ہر انسان کو حاصل ہوتا ہے چنانچہ پانی جب تک اپنے معدن(یعنی دریا اور تالاب وغیرہ) میں ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا اس سے بلا تخصیص ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے جس سے منع کرنا اور روکنا کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔
لیکن اس سلسلے میں دریا نہروں نالوں کے پانی اور اس پانی میں کہ جو برتنوں میں بھر لیا گیا ہو فرق ہے۔ جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔ اس موقع پر تو صرف اس قدر جان لیجئے کہ حنفی مسلک کے مطابق دریا کے پانی پر تمام انسانوں کا یکساں حق ہے چاہے کوئی اس کا پانی پینے پلانے کے استعمال میں لائے چاہے کوئی اس سے اپنی زمین سیراب کرے اور چاہے کوئی نہروں اور نالیوں کے ذریعے اس کا پانی اپنے کھیت و باغات میں لے جائے کسی کو بھی اور کسی صورت میں بھی دریا کے پانی کے استعمال سے نہیں روکا جا سکتا اور نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو روکے یا منع کرے چنانچہ دریا کے پانی سے فائدہ اٹھانا چاند سورج اور ہوا سے فائدہ اٹھانے کی طرح ہے کہ خدا نے ان نعمتوں کو بلا تخصیص کائنات کے ہر فرد کے لئے عام کیا ہے ان کا نفع و فائدہ کسی خاص شخص یا کسی خاص طبقے کے لے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانے میں سب یکساں شریک ہیں اسی طرح کنویں اور نہروں کے پانی پر بھی سب کا حق ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ کسی کنویں یا کسی نہر کے پانی سے موات کا احیاء کرے یعنی افتادہ زمین میں زراعت کرے تو اس صورت میں ان لوگوں کو کہ جن کے علاقے میں وہ کنواں اور نہر ہے منع کر دینے کا حق حاصل ہے خواہ اس شخص کے افتادہ زمین میں پانی لے جانے سے اس کنویں اور نہر کے پانی میں کمی اور نقصان واقع ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو کیونکہ ان کے علاقے میں اس کنویں یا اس نہ رکے ہونے کی وجہ سے ان کے پانی پر انہیں بہر حال ایک خاص حق حاصل ہے اور جو پانی کسی برتن یا ٹینکی وغیرہ میں بھر لیاجاتا ہے وہ اس برتن وٹینکی والے کی ملکیت ہو جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پانی پر ہر شخص کا حق ہوتا ہے کہ جو چاہے مار لے لیکن جب اسے کوئی شکاری پکڑ لیتا ہے تو اس کے قبضہ میں اتر آتے ہی وہ اس شکاری کی ملکیت ہو جاتا ہے اور اس پر بقیہ سب کا حق ساقط ہو جاتا ہے۔ اور کوئی کنواں یا نہر اور چشمہ کسی ایسی زمین میں ہو جو کسی خاص شخص کی ملکیت ہو تو اس شخص کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اگر وہ چاہے تو اپنی حدود ملکیت میں پانی کے طلب گار کسی غیر شخص کے داخلے پر پابندی عائد کر دے بشرطیکہ وہ پانی کا طلبگار شخص وہاں کسی ایسے قریبی مقام سے پانی حاصل کر سکتا ہو جو کسی غیر کی ملکیت میں نہ ہو اور اگر وہاں کسی اور قریب جگہ سے پانی کا حصول اس کے لئے ممکن نہ ہو تو پھر اسی مالک سے کہا جائے گا کہ یا تو وہ خود اس نہر یا کنویں سے پانی لا کر دے دے یا اسے اجازت دے دے کہ وہ وہاں آ کر پانی لے سکے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ کنویں یا نہر کے کنارے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔
اگر موات زمین میں کوئی کنواں کھدوایا گیا ہو تو اس زمین کو آباد کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچے گا کہ وہ اس کنویں سے پانی لینے سے لوگوں کو منع کرے کیونکہ آباد کرنے کی وجہ سے جس طرح وہ زمین اس ملکیت میں آ گئی ہے اس طرح اس کنویں کا پانی اس کی ملکیت نہیں آیا ہے اگر وہ کسی ایسے شخص کو منع کرے گا جو اس کنویں سے خود پانی پینا چاہتا ہے یا اپنے جانور کو پلانا چاہتا ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں خود اس کی یا اس کے جانور کی ہلاکت کا خدشہ ہے تو اسے اس بات کی اجازت ہو گی کہ وہ زبردستی اس کنویں سے پانی حاصل کرے چاہے اس مقصد کے لئے اس کو لڑنا ہی کیوں نہ پڑے اور اس لڑائی میں ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت کیوں نہ آ جائے۔ کنواں بے شک کسی کی ذاتی ملکیت ہو سکتا ہے مگر اس کنویں کا پانی کنویں والے کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر شخص کے لئے مباح ہوتا ہے بخلاف اس پانی کے جو کسی نے اپنے برتن باسن میں بھر لیا ہو کہ وہ ذاتی ملکیت ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص پیاس کی شدت سے بے حال ہوا جا رہا ہو اور اس شخص سے وہ پانی مانگے جو اس نے اپنے برتن باسن میں بھر رکھا ہو اور وہ پانی دینے سے انکار کر دے تو اس پیاسے کو یہ حق ہو گا کہ لڑ جھگڑ کر اس سے پانی حاصل کر لے بشرطیکہ پانی نہ ملنے کی صورت میں جان چلی جانے کا خدشہ ہو اور وہ لڑائی میں کسی ہتھیار وغیرہ کا استعمال نہ کرے یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص بھوک کی وجہ سے مرا جا رہا ہو اور کسی کھانے والے سے کھانا مانگے اور وہ کھانا نہ دے تو اسے حق ہوتا ہے کہ اپنی جان بچانے کے لئے اس سے لڑ جھگڑ کر کھانا حاصل کرے مگر اسکو لڑائی میں ہتھیار وغیرہ استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی۔
بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے کنویں سے پانی نہ لینے دے تو اس بارے میں زبردستی پانی حاصل کرنے کا ادنی درجہ یہ ہے کہ وہ کنویں والے سے بغیر ہتھیار استعمال کئے لڑے جھگڑے اور اس کی اجازت بھی اس لئے ہے کہ کسی کو پانی جیسی خدا کی عام نعمت سے روکنا گناہ کا ارتکاب کرنا ہے اور یہ لڑ جھگڑ کر پانی حاصل کرنا اس کے حق میں تعزیر سزا کے قائم مقام ہو گا۔
حضرت عائشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسی افتادہ و بنجر زمین کو آباد کرے جس کا کوئی مالک نہ ہو تو وہ آباد کرنے والا شخص ہی اس زمین کا سب سے زیادہ حق دار ہے حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے اپنی خلافت کے دور میں اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا (بخاری)
تشریح
حضرت عروۃ کے یہ الفاظ کہ حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا تھا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث منسوخ نہیں ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت صعب بن جثامہ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی چراگاہ کو مخصوص کر لینے کا حق اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے (بخاری)
تشریح
حمی (حا کے زیر کے ساتھ) اس زمین چراگاہ کو کہتے ہیں جس میں جانوروں کے لئے گھاس روکی جاتی ہے اور اس میں کسی دوسرے کے جانوروں کو چرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی چراگاہ کو صرف اپنے جانوروں کے لئے مخصوص کر لیا جائے اور اس میں دوسرے کے جانوروں کے چرنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔
اس حکم کی ضرورت یوں پیش آئی کہ زمانہ جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ جس زمین میں گھاس اور پانی ہوتا اسے عرب کے سردار اپنے جانوروں کے لیے اپنی مخصوص چراگاہ بنا لیتے تھے جس میں ان کے علاوہ دوسروں کے جانوروں کو چرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد میں کام آنے والے گھوڑوں اور اونٹوں نیز زکوٰۃ میں آئے ہوئے جانوروں کے لئے ایسی مخصوص چراگاہیں قائم کرنے کی اجازت عطاء فرما دی تھی۔ لیکن اب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بھی حاکم و سردار کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی چراگاہ کو اپنے لئے یا کسی اور کے لیے مخصوص کر دے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کسی فرد کے لئے نہیں بلکہ اکثر مسلمانوں کے لئے کسی چراگاہ کو مخصوص کرنا بھی ناجائز ہے یا یہ جائز ہے؟ چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد کے گھوڑوں اور اونٹوں نیز زکوٰۃ میں آنے والے جانوروں کے لئے چراگاہ کو مخصوص کرنے کی اجازت دے دی تھی لیکن بعض دوسرے حضرات اس کو بھی ناجائز کہتے ہیں بشرطیکہ اکثر مسلمانوں کے لئے کسی چراگاہ کو مخصوص کر دینا اہل شہر کی تکلیف و پریشانی کا باعث ہو۔
اور حضرت عروۃ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پہاڑی زمین سے کھیتوں میں پانی لے جانے والی نالیوں کے سلسلے میں میرے والد حضرت زبیر اور ایک انصاری کے درمیان ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا (جب وہ معاملہ بارگاہ رسالت میں پہنچا تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ زبیر! (پہلے تم اپنے کھیتوں میں پانی لے جاؤ پھر اپنے ہمسایہ (یعنی اس انصاری) کے کھیتوں میں پانی چھوڑ دو (یہ فیصلہ سن کر) اس انصاری نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ زبیر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی پھوپھی کے بیٹے ہیں یہ سنتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ غصہ کی وجہ سے متغیر ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زبیر! اپنے کھیت میں پانی لے جاؤ اور پھر پانی کو روکے رکھو یعنی پانی کو اس انصاری کے کھیت میں نہ جانے دو تاکہ تمہارا پورا کھیت اچھی طرح سیراب ہو جائے اور پانی کھیت کی منڈیر تک پہنچ جائے۔ اس کے بعد نالی کا رخ اپنے ہمسایہ یعنی انصاری کے کھیت کی طرف کر دو گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صریح حکم کے ذریعے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلوایا اس لیے کہ اس انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو غضب آمیز کر دیا تھا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتداء میں ان دونوں کے بارے میں جو فیصلہ صادر فرمایا تھا اس میں دونوں ہی کے لئے آسانی تھی (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عروہ بن زبیر بن العوام جلیل القدر اور بڑے اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں، اس وقت مدینہ میں جو سات فقیہ تھے جن کا علم وفضل سب پر حاوی تھا ان میں سے ایک حضرت عروۃ بھی ہیں ان کی والدہ محترمہ مشہور صحابیہ حضرت اسماء ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی ہیں اور ان کے والد حضرت زبیر مشہور صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کے صاحبزادے تھے۔ حضرت زبیر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ قدیم الاسلام ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے بالکل ابتدائی دور ہی میں مشرف باسلام ہو گئے تھے جب کہ ان کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ایک طرف تو یہ انکی سعادت تھی کہ انہوں نے اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا دوسری طرف ان کے ظالم چچا کی شقاوت تھی کہ اس نے ان کو اسلام لانے کے جرم میں طرح طرح کی سزا ور اذیتوں میں مبتلا کیا یہاں تک کہ وہ بدبخت ان کو راہ مستقیم سے ہٹانے کے لئے دھوئیں میں ڈال دیا کرتا تھا مگر یہ نوخیز جان ساری اذیتیں برداشت کرتی تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتی مگر اسلام کی راہ میں جو قدم اٹھ چکا تھا وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتا رہا۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تمام غزوات جنگوں میں شرکت کی اور اسلام کا پرچم بلند کرنے کے لئے شجاعت و بہاردی کے جوہر دکھائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن دس خوش نصیب صحابہ کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی اور جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ان میں سے ایک حضرت زبیر بھی ہیں۔
انہی حضرت زبیر کا واقعہ ہے کہ یہ اور ایک انصاری ایک ہی نالے کے ذریعے اپنے اپنے کھیتوں میں پانی لے جاتے تھے سوء اتفاق کہ ایک مرتبہ اسی نالی سے پانی لے جانے کے بارے میں ان دونوں میں یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ وہ انصاری تو کہتا تھا کہ پہلے میں اپنے کھیت میں پانی لے جاؤں گا اور حضرت زبیر یہ کہتے تھے کہ پہلے میں اپنے ک کھیت کو سیراب کروں گا جب یہ بات زیادہ الجھ گئی اور وہ آپس میں کوئی تصفیہ نہ کر سکے تو اپنا معاملہ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فیصلہ حاصل کریں۔
موقع کی نوعیت یہ تھی کہ حضرت زبیر کی زمین بلندی پر بھی تھی اور نالی کے قریب بھی تھی جبکہ اس انصاری کی زمین نیچے تھی اور نالی سے دور تھی۔ قاعدہ کے مطابق پانی پہلے حضرت زبیر ہی کے کھیت میں جانا چاہئے تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت حال کے پیش نظر یہ منصفانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ پہلے زبیر اپنے کھیت میں پانی لے جائیں بعد میں ان کا ہمسایہ یعنی وہ انصاری اپنے کھیت میں پانی لے جائے۔ حق و صداقت کا صحیح شعور کھو دینے والے انسان کی جبلت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں حق پر نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے فیصلہ اس کی خواہش کے برخلاف ہوتا ہے تو وہ بجائے اس کے کہ قبول کر کے انصاف کی برتری کو تسلیم کر لے کرتا یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے پر فیصلہ میں جانب داری کا الزام عائد کر دیتا ہے چنانچہ اس موقع پر بھی یہی ہوا کہ وہ انصاری چونکہ حق پر نہیں تھا اس لئے جب بارگاہ رسالت سے اس کی خواہش کے برخلاف فیصلہ صادر ہوا تو اس فیصلے کو برضا و تسلیم قبول کرنے کی بجائے اس نے یہ کہا کہ زبیر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے اسی طرح گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر جانب داری کا الزام عائد کیا ظاہر ہے کہ کسی منصف و عادل کے لئے ذہنی اذیت و کوفت کا اس سے بڑا اور کوئی سبب نہیں ہو سکتا کہ اس کے کسی منصفانہ فیصلے پر جانبداری اور عصبیت کا الزام عائد کر دیا جائے۔ اسی لئے جب اس انصاری نے یہ بات کہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جبیں پر بل پڑ گئے اور غصے کے شدید ترین جذبات نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فیصلے نے جس میں تھوڑی بہت رعایت اس انصاری کی بھی تھی) اس صریح حکم کی صورت اختیار کر لی کہ زبیر! اب تم اپنا حق پورا پورا لو اور وہ یہ کہ نہ صرف پہلے تم اپنے کھیت میں پانی لے جاؤ بلکہ کھیت کو پوری طرح سیراب کرو اس میں اچھی طرح پانی دو جب تمہارا کھیت منڈیروں تک بھر جائے تب نالی کا رخ اس انصاری کے کھیت کی طرف کرو۔
چنانچہ رایت کے آخری جملوں کا مطلب یہی ہے کہ ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فیصلہ صادر فرمایا تھا اس میں حضرت زبیر کو یہ اشارہ بھی تھا کہ اپنا کچھ حق از راہ احسان اپنے ہمسایہ کے لئے چھوڑ دو تا کہ تمہارا کام ہو جائے جو انصاف کا تقاضہ ہے اور اس انصاری کے ساتھ بھی کچھ رعایت ہو جائے جو اگرچہ تم پر واجب نہیں ہے مگر آپس کے معاملات میں بہتری و بھلائی پیدا کرنے کے نقطہ نظر سے مناسب ہے مگر جب اس انصاری نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زبیر کو اپنا حق پورا پورا حاصل کرنے کا حکم دیا۔ اب رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اس انصاری کی اس گستاخی کا کیا سبب تھا؟ تو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ انصاری دراصل منافق تھا اور منافقوں کا یہ رویہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ذہنی اذیت وکوفت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ منافق تھا تو اسے انصاری کیوں کہا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو انصاری اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ وہ انصار کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ انصار کے قبیلوں میں بعض منافق بھی تھے مثلاً عبداللہ ابن ابی وغیرہ۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی یہاں پہنچ کر ایک یہ نیا سوال سر ابھارتا ہے کہ جب وہ منافق تھا اور اس نے دشمن رسالت میں اتنی بڑی گستاخی کی تھی تو اسے سزا کیوں نہیں دی گئی اسے فوراً قتل کر دینا چاہئے تھا؟ اس سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسے سزاء قتل نہ کرنے کا سبب یا تو اس کی تالیف یعنی از راہ الفت و رعایت اس کو راہ حق لگانا تھا یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس صبر و تحمل نے اسکو قتل کرنا گوارا نہ کیا جو ہمیشہ ہی منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر ظاہر ہوتا تھا پھر اگر اسے قتل کر دیا جاتا تو مخالفین اسلام طعنہ کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں کیونکہ منافق بہرحال ظاہر طور پر اپنے کو مسلمان کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھی ہونے کا اظہار کرتے تھے۔ بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ وہ انصاری مؤمن ہی تھا مگر غصہ اور جھنجھلاہٹ نے اس کے دل و دماغ کو اس طرح ماؤف کر دیا تھا کہ وہ اضطرار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں یہ گستاخی کر بیٹھا۔ واللہ اعلم
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو پانی تمہاری ضرورت سے زائد ہو اسے جانوروں کو پلانے سے منع نہ کرو تا کہ اس کی وجہ سے ضرورت سے زائد گھاس سے منع کرنا لازم نہ آئے (بخاری و مسلم)
تشریح
عام طور پر جانوروں کو گھاس وہاں چرائی جاتی ہے جہاں پانی ہوتا ہے اس لئے اگر جانوروں کو پانی پلانے سے روکو گے تو کوئی وہاں اپنے جانور کا ہے کو چرائے گا؟ اسطرح پانی پلانے سے روکنے کا مطلب یہ ہو گا کہ تم بالواسطہ طور پر گھاس چرانے سے روک رہے ہو اور گھاس چونکہ جانوروں کی عام غذا ہونے کی وجہ سے جانوروں کے لئے بہت زیادہ ضرورت کی چیز ہے اس لئے اس سے منع کرنا درست نہیں ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ جانوروں کو پانی پلانے سے کسی کو نہ روکو تا کہ اس کی وجہ سے گھاس چرانے سے باز رکھنا لازم نہ آئے۔ ضرورت سے زائد کی قید اس لئے ہے کہ اگر پانی اور گھاس اپنی اور اپنے جانوروں کی ضرورت کے بقدر ہی ہو تو اس صورت میں اپنی ضرورت کو مقدم رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں اگر ضرورت سے زائد ہو تو پھر دوسرے کو منع کرنا انتہائی نامناسب بات ہے۔
٭٭ اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رحم و کرم کی بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف بنظر عنایت دیکھے گا ایک تو وہ تاجر شخص ہے جو قسم کھا کر خریدار سے کہتا ہے کہ اس چیز کے جو دام تم نے دئیے ہیں اس سے زیادہ دام اسے مل رہے تھے (یعنی جب وہ کسی کو اپنی کوئی چیز بیچتا ہے اور خریدار اس کی قیمت دیتا ہے تو وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ مجھے اس چیز کی اس سے زیادہ قیمت مل رہی تھی) حالانکہ وہ شخص اپنی قسم میں جھوٹا ہے کیونکہ درحقیقت اس سے زیادہ قیمت اسے نہیں مل رہی تھی دوسرا شخص وہ ہے جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے اور اس جھوٹی قسم کھانے کا مقصد کسی مسلمان شخص یا ذمی کا کوئی مال لینا ہو اور تیسرا وہ شخص جو فاضل پانی پینے پلانے سے لوگوں کو منع کرتا ہو ایسے شخص سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس طرح تو نے دنیا میں اپنے فاضل پانی سے لوگوں کو باز رکھا تھا باوجودیکہ وہ پانی تو نے اپنے ہاتھ سے نہیں نکالا تھا اسی طرح میں بھی آج تجھے اپنے فضل سے باز رکھوں گا (بخاری)
تشریح
عصر کے بعد کی تخصیص یا تو اس لئے ہے کہ مغلظہ قسمیں اسی وقت کھائی جاتی ہیں یا یہ تخصیص اس لئے ہے کہ عصر کے بعد کا وقت چونکہ بہت ہی با فضلیت اور بابرکت ہے اس لئے اس وقت جھوٹی قسم کھانا بہت ہی زیادہ گناہ کی بات ہے۔ باوجودیکہ وہ پانی تو نے اپنے ہاتھ سے نہیں نکالا تھا یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر طعن کرے گا کہ اگر وہ پانی تیری قدرت کا رہین منت ہوتا اور تو اسے پیدا کرتا تو ایک طرح سے تیرا یہ عمل موزوں بھی ہوتا مگر اس صورت میں جب کہ وہ پانی محض میری قدرت سے پیدا ہوا تھا اور اسے میں نے ایک عام نعمت کے طور پر تمام مخلوق کے لئے مباح کر دیا تھا تو پھر تیری یہ مجال کیسے ہوئی کہ تو نے مخلوق خدا کو میری اس نعمت سے باز رکھا۔ اگرچہ کنواں اور نہر وغیرہ انسان کی مشقت ومحنت سے وجود میں آتے ہیں مگر اس کی اصل چیز یعنی پانی صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوتا ہے اگر کوئی شخص کنواں بنوائے نہر کھدوائے یا ہینڈ پمپ وغیرہ لگوائے اور اس میں پانی نہ آئے تو اس کنویں یا نہر وغیرہ کی کیا حقیقت رہ جائے گی۔ اس لئے محض کنواں بنوا دینا یا ہینڈ پمپ وغیرہ لگوا دینا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ اس شخص کو دوسروں پر پانی استعمال کرنے کی پابندی عائد کر دینے کا حق مل گیا ہے
وذکر حدیث جابر فی باب المنہی عنہا من البیوع
اور حضرت جابر کی روایت باب المنہی عنہا من البیوع میں ذکر کی جا چکی ہے
یعنی حضرت جابر کی یہ روایت کہ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن بیع فضل الماء (رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ضروریات سے زائد پانی کو بیچنے سے منع فرمایا ہے) صاحب مصابیح نے یہاں نقل کی تھی لیکن صاحب مشکوٰۃ نے اسے باب المنہی عنہا من البیوع میں نقل کیا جو پیچھے گزر چکا ہے۔
حضرت حسن بصری حضرت سمرہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص افتادہ زمین پر دیوار گھیر دے تو وہ اسی کی ہو جاتی ہے (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہوا کہ جو شخص موات (یعنی افتادہ و غیر آباد) زمین پر دیوار گھیر دے گا وہ زمین اسی کی ملکیت ہو جائے گی۔ گویا یہ حدیث اپنے ظاہری مفہوم کے مطابق اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موات زمین کی ملکیت کے ثبوت کے لئے اس پر دیوار کھینچ دینا کافی ہے جیسا کہ مشہور ترین روایت کے مطابق حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے جب کہ بقیہ ائمہ کے نزدیک ایسی زمین کی ملکیت کے ثبوت کے لیے احیاء یعنی اس کو آباد کرنا شرط ہے جس کی وضاحت باب کے شروع میں کی جا چکی ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ دیوار کھینچنا احیاء یعنی آباد کرنے کے مفہوم میں داخل ہی نہیں ہے لہذا تینوں ائمہ کے مسلک کے مطابق اس حدیث کی تاویل یہ ہو گی کہ اس سے سکونت کے لئے دیوار کھینچنا مراد ہے
اور حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زبیر کے لئے کھجوروں کے درخت جاگیر کر دئیے تھے (ابو داؤد)
تشریح
اس بارے میں ایک احتمال یہ ہے کہ کھجور کے جو درخت حضرت زبیر کو بطور جاگیر عطاء کئے گئے تھے وہ دراصل خمس میں سے تھے جو ان کا حق تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ درخت اس موات افتادہ و غیرآباد) زمین میں تھے جسے حضرت زبیر نے آباد کیا ہو گا۔
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زبیر کو ان کے گھوڑے کی دوڑ کے بقدر زمین بطور جاگیر (یعنی ایک دوڑ میں گھوڑا جہاں تک پہنچ کر ٹھر جائے وہاں تک کی زمین عطا کر دی چنانچہ اس مقصد کے لیے حضرت زبیر نے اپنا گھوڑا دوڑایا اور وہ گھوڑا ایک جگہ پہنچ کر ٹھر گیا پھر حضرت زبیر نے اپنا کوڑا پھینکا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ زبیر کا کوڑا جہاں جا کر گرا وہاں تک کی زمین زبیر کو دے دی جائے (ابو داؤد)
اور حضرت علقمہ بن وائل اپنے والد حضرت وائل بن حجر) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان وائل بن حجر کو حضرت موت میں کچھ زمین بطور جاگیر عطاء فرمائی چنانچہ حضرت وائل کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاویہ کو میرے ہمراہ بھیجا تاکہ وہ اس زمین کی پیمائش کر دیں اور معاویہ نے فرمایا کہ وہ زمین ناپ کر وائل کو دے دو (ترمذی والدارمی)
تشریح
موجودہ جغرافیائی نقشے کے مطابق جبل السراۃ کا ایک سلسلہ یمن سے گزر کر جزیرۃ العرب کے جنوب مغربی گوشے سے مشرق کی طرف مڑ گیا ہے پھر جنوبی ساحل کے قریب قریب دور تک چلا گیا ہے جبل السراۃ کا یہی سلسلہ جن علاقوں پر مشتمل ہے انہیں حضرموت کہا جاتا ہے یوں تو حضرموت کا پورا علاقہ عموماً بنجر اور غیر شاداب پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جو نہ زیادہ بلند ہیں اور بارش کم ہونے کی وجہ سے ناقابل زراعت ہیں لیکن ان سلسلوں میں کچھ وادیاں ہیں جو نسبۃ شاداب ہیں ان میں سے ایک وادی کا نام وادی حضرموت ہے۔
حضرت وائل بن حجر اسی علاقے کے قدیم شاہی خاندان کے ایک فرد تھے ان کے والد وہاں کے بادشاہ تھے۔ یہ جب پیغمبر اسلام کی دعوت سن کر اپنے ملک کے ایک وفد کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے حضرموت سے روانہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں ان کی آمد سے پیشتر صحابہ کو مطلع کر دیا تھا اور (وھو بقیۃ ابناء الملوک) (اور وہ شاہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں) کے ذریعے انکا تعارف کرایا تھا پھر جب وہ مدینہ پہنچے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی حیثیت کے مطابق ان کا استقبال کیا انہیں اپنے قریب بٹھایا اور ان کے لئے اپنی مبارک چادر بچھا دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حضرموت کے علاقہ کا حاکم مقرر فرمایا اور وہاں کی کچھ زمین انہیں بطور جاگیر عطاء فرمائی۔
اور حضرت ابیض ابن حمال ماربی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست پیش کی کہ مارب میں نمک کی جو کان ہے وہ ان کے لئے جاگیر کر دی جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں نمک کی وہ کان بطور جاگیر عطا فرما دی جب ابیض واپس ہوئے تو ایک شخص (یعنی اقرع بن حابس تمیمی) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ابیض کو تیار پانی یعنی کان میں بالکل تیار نمک دے دیا ہے راوی کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت اقرع سے یہ معلوم ہوا کہ ابیض کو ایک ایسی کان دے دی گئی ہے جس میں نمک بالکل تیار ہے تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کان ابیض سے واپس لے لی۔ راوی سمجھتے ہیں کہ اس شخص یعنی حضرت اقرع نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی دریافت کیا کہ پیلو کے درختوں کی کون سی زمین گھیری جائے؟ یعنی کون سے افتادہ و غیر افتادہ زمین کو آباد کر کے اپنی ملکیت بنایا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ زمین جہاں اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچیں (ترمذی ابن ماجہ دارمی)
تشریح
مارب یمن کے ایک شہر کا نام ہے جو صنعاء سے ٦٠ میل مشرق میں تقریباً چار ہزار فٹ بلند سطح زمین پر واقع ہے یمن میں پہلی صدی عیسوی تک سبا نامی نسل کے اقتدار کے زمانے میں مارب یمن کا دار السلطنت ہونے کی وجہ سے نہ صرف ایک بڑا شہر تھا بلکہ ایک عظیم تجارتی مرکز بھی تھا حضرت ابیض اسی شہر کے رہنے والے تھے اسی لئے انہیں ماربی کہا جاتا ہے۔
الماء العد یعنی تیار پانی کا مطلب یہ ہے کہ بالکل تیار ہمیشہ رہنے والا کہ اس کا مادہ منقطع نہ ہو اس سے کان میں نمک کی بالکل تیار حالت کی حالت میں ہے جس سے محنت و شفقت اور سخت جدوجہد کے بعد نمک نکلے گا۔ مگر جب حضرت اقرع کی توجہ دلانے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ وہ کان ابتدائی حالت میں نہیں ہے بلکہ اس میں نمک تیار ہو چکا ہے جو بغیر کسی محنت و شفقت کے تیار پانی اور گھاس کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کان واپس لے لی کیونکہ اس صورت میں اس کان اور اس میں تیار شدہ نمک پر سب لوگوں کا حق تھا اسے کسی فرد واحد کی ملکیت بنا دینا مناسب نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام لوگوں کے حقوق کی رعایت کے پیش نظر اس کان کو واپس لے لینا ہی بہتر سمجھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ امام یعنی حکومت وقت کی طرف سے کوئی کان کسی شخص کو بطور جاگیر عطاء ہو سکتی ہے بشرطیکہ وہ کان زیر زمین پوشیدہ ہو اور اس سے محنت و شفقت اور جدوجہد کے بغیر کچھ حاصل نہ ہو سکتا ہو۔ ہاں جو کانیں برآمد ہو چکی ہوں اور ان سے نکلنے والا مال کسی محنت و شفقت اور جدوجہد کے بغیر حاصل ہو سکتا ہو تو انہیں کسی فرد واحد کی جاگیر بنا دینا جائز نہیں ہے بلکہ گھاس اور پانی کی طرح ان کی منفعت میں بھی تمام لوگ شریک ہوں گے اور ان پر سب کا استحقاق ہو گا۔ اس حدیث سے یہ نکتہ بھی معلوم ہوا کہ اگر حاکم کسی معاملے میں کوئی حکم و فیصلہ صادر کرے اور پھر اسپر یہ ظاہر ہو کہ یہ حکم وفیصلہ حقیقت کے منافی ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس فیصلے و حکم کو منسوخ کر دے اور اس سے رجوع کر لے۔
وہ زمین جہاں اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچیں سے مراد وہ زمین ہے جو چراگاہ اور عمارات سے الگ ہو اس سے معلوم ہوا کہ اس موات افتادہ زمین کا احیاء یعنی اسے آباد کرنا جائز نہیں ہے جو عمارات کے قریب ہو کیونکہ وہ جانوروں کو چرانے اور اہل بستی کی دیگر ضرورت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں یعنی پانی گھاس اور آگ ایسی ہیں جن میں تمام مسلمان شریک ہیں (أبو داؤد ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث میں خدا کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو کائنات کے ہر فرد کے لئے ہے ان میں کسی کی ذاتی ملکیت و خصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔
پانی سے مراد دریا تالاب اور کنویں وغیرہ کا پانی وہ پانی مراد نہیں ہے جو کسی شخص کے برتن باسن میں بھرا ہوا ہو چنانچہ اس کی وضاحت باب کی ابتداء میں کی جا چکی ہے اسی طرح گھاس سے وہ گھاس مراد ہے جو جنگل میں اگی ہوئی ہو۔
آگ سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس آگ ہو تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کو آگ لینے سے منع کرے یا چراغ جلانے سے روکے اور یا اس کی روشنی میں بیٹھنے سے منع کر دے وغیرہ ذلک ہاں اگر کوئی شخص اس آگ میں سے وہ لکڑی لینا چاہے جو اس میں جل رہی ہو تو اس صورت میں اسکو روکنا جائز ہے کیونکہ اس کی وجہ سے آگ میں کمی آ جائے گی اور بجھ جائے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے سنگ چقماق(یعنی وہ پتھر جس کے مارنے سے آگ نکلتی ہے) مراد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اس پتھر کے لینے سے نہ روکا جائے بشرطیکہ وہ پتھر موات یعنی افتادہ زمین میں ہو۔
اور حضرت اسمر بن مضرس کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت ہوا یعنی اسلام قبول کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے پانی کی طرف سبقت کرے یعنی اس پانی کو حاصل کرے) جسے کسی مسلمان نے حاصل نہ کیا ہو تو وہ اسی کا ہے (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص مباح پانی یعنی دریا یا تالاب وغیرہ میں سے کوئی مقدار لے لیتا ہے پانی کی وہ لی ہوئی مقدار اس شخص کی ملکیت ہو جاتی ہے اور جو پانی اس جگہ یعنی دریا و تالاب وغیرہ میں باقی رہ جاتا ہے وہ اس کی ملکیت میں نہیں آتا بلکہ وہ جوں کا توں مباح رہتا ہے اسی طرح دوسری مباح چیزیں مثلاً گھاس اور لکڑی وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔
اور حضرت طاؤس بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا افتادہ و بنجر زمین کو جو شخص آباد کرے گا وہ اسی کی ملکیت ہو جائے گی اور قدیم زمین اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے اور پھر وہ میری طرف سے تمہارے لئے ہے (شافعی اور شرح السنۃ میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو مدینہ میں جو مکانات دئیے وہ انصار کی آبادی یعنی ان کے مکان اور ان کے کھجور کے درختوں کے درمیان واقع تھے چنانچہ عبد بن زہرہ کے بیٹوں نے کہا کہ آپ ام عبد کے بیٹے (یعنی عبداللہ بن مسعود) کو ہم سے دور رکھیئے) اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں بھیجا ہے یاد رکھو اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطاء نہیں کرتا جس میں کمزور کے حق کو تحفظ حاصل نہ ہو۔
تشریح
عاری الارض قدیم زمین سے مراد وہ افتادہ و بنجر زمین ہے جس کے مالک کا کوئی علم نہ ہو اس میں زمین کی لفظی نسبت عاد یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کی طرف محض ایسی زمین کی قدامت کے اظہار میں مبالغہ کے لئے ہے کیونکہ حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کی مدت قدامت بہت زیادہ ہے اور اس کے رسول کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی تمام افتادہ و بنجر زمینیں جن کا کوئی مالک نہیں ہے میرے تسلط میں ہیں اپنی مرضی و مصلحت کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہوں کہ جسے چاہتا ہوں عطاء کرتا ہوں اور اس کو آباد کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ قاضی لکھتے ہیں کہ ثم ہی لکم منی اور پھر میری طرف سے تمہارے لئے ہے سے معلوم ہوا کہ اس جمعے اور قدیم زمین اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں میں اللہ کی عظمت شان کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر کی تمہید کے طور پر ہے ورنہ بظاہر اللہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ کا حکم و فیصلہ گویا اللہ کا حکم و فیصلہ ہے۔
عبد ابن زہرہ کے بیٹوں نے اپنے مکانات اور کھجوروں کے درختوں کے درمیان حضرت عبداللہ بن مسعود کو مکان دئیے جانے کی جو مخالفت کی اس کا ایک جذباتی پس منظر تھا اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے والد یعنی مسعود زمانہ جاہلیت میں عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کے حریف مقابل تھے نیز حضرت عبداللہ کی والد یعنی ام عبد ان کے خدمت گاروں میں سے تھیں چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود کو ایسی جگہ مکانات دئیے جو عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کے مکانات اور ان کے کھجوروں کے باغات کے درمیان واقع تھی تو یہ ان کو گوارا نہیں ہوا کہ عبداللہ ابن مسعود کا مکان ان کے مکانات کے درمیان واقع ہو گویا اس طرح انہوں نے اپنے ان جذبات حقارت کا اظہار کیا جو وہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کے تئیں رکھتے تھے۔
لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے غلط جذبات پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگر حقوق العباد اس قسم کے احساسات سے متعلق ہوتے ہیں اور کمزور انسانوں کے تئیں یہ جذبات و حقارت جائز ہوتے تو میں اللہ کا رسول بن کر اس دنیا میں کیوں آتا؟ اگر میں کمزور و ناتوانوں اور مسکینوں کی تقویت کا باعث اور ان کا مدد گار نہ بنوں تو میری بعثت کا ایک بڑا مقصد کیسے پورا ہو گا اور میری بعثت میں اللہ کی کیا حکمت رہ جائے گی؟ تمہیں نہ بھولنا چاہئے کہ میرے بنیادی مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ میں انسانوں کے درمیان اونچ نیچ اور معاشرتی فرق و امتیاز کی خود ساختہ دیواروں کو ڈھا دوں جو لوگ اپنے آپ کو طاقتور و بڑا سمجھتے ہوں انہیں راہ اعتدال پر لاؤں اور جو کمزور و ناتواں ہوں انہیں اپنی مدد و نصرت سے طاقت بخشوں پھر آپ نے قوموں کے کیرکٹر و کردار کے ایک بڑے ناز ک گوشے کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو قوم اپنے کمزور افراد کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اور جس قوم میں کمزور انسانوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہوتی وہ قوم نہ صرف یہ کہ کائنات انسانی کا ایک بدترین حصہ ہوتی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو گناہوں اور برائیوں سے پاکیزگی عطاء نہیں کرتا جس قوم کے طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں ان کی سماجی و معاشرتی زندگی پر بدعنوانیوں اور گناہ و معصیت کی دبیز تہیں جم جاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم نہ تو معاشرہ میں کوئی با وقار اور صالح کردار انجام دیتی ہے اور نہ خدا کی طرف سے ان پر رحمت و برکت نازل ہوتی ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد ابن زہرہ کے بیٹوں کو آگاہ فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ عبداللہ ابن مسعد چونکہ دنیاوی طور پر تم سے کمتر ہیں اور وہ ایک کمزور انسان ہیں اس لئے تم ان کا یہ جائز حق کہ وہ جس موزوں جگہ پر چاہیں اپنی سکونت اختیار کریں غضب کرلو گے میں ان کا مدد گارو معین ہوں اور مجھ پریہ لازم ہے کہ میں ان کی حمایت کروں۔
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور وہ اپنے دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مہزور کے پانی کے بارے میں یہ حکم دیا کہ جب اس کا پانی کھیت وغیرہ میں ٹخنوں تک بھر جائے تو اسے بند کر دیا جائے اور پھر اوپر والا نیچے والے کے لئے اس کا پانی چھوڑ دے (ابو داؤد ابن ماجہ)
تشریح
م
ہزور مدینہ کی ایک وادی کا نام ہے جو بنی قریضہ کے علاقے میں واقع تھی بنی قریظہ کے کھیتوں اور باغوں میں اسی وادی سے پانی آتا تھا اسی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم صادر فرمایا کہ اس وادی سے پانی لانے والی نالی کے قریب جس شخص کی زمین ہو اس کا حق مقدم ہے کہ پہلے وہ اپنی زمین کو پانی لے جائے جب اس کی زمین میں ٹخنوں تک پانی پہنچ جائے یعنی پوری طرح سیراب ہو جائے تب وہ اس پانی کو چھوڑ دے تاکہ اس کے بعد وہ اس زمین میں جائے جو اس کی زمین سے نیچے ہے۔ چنانچہ ہر اس نہر کے بارے میں یہی ضابطہ ہے جو کسی شخص کی ذاتی محنت و شفقت کے بغیر از خود جاری ہو کہ جس شخص کی زمین اس نہر کے قریب اور بلندی پر ہو پہلے وہ اپنی زمین میں پانی لا کر روکے رکھے یہاں تک کہ اس کی زمین میں ٹخنوں تک پانی بھر جائے پھر وہ پانی کا رخ اپنی زمین سے موڑ دے تاکہ وہ اس زمین میں چلا جائے جو اس کی زمین سے متصل اور اس سے نیچے ہو۔
اور حضرت سمرہ بن جندب کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے کھجوروں کے چند درخت ایک انصاری (جن کا نام بعض علماء نے ملک بن قیس لکھا ہے) کے باغ میں تھے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسی باغ میں رہتے تھے چنانچہ جب سمرہ اپنے ان درختوں کی وجہ سے باغ میں آتے تو ان انصاری کو اس سے تکلیف ہوتی ایک دن وہ انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سمرہ کو اپنی مجلس میں طلب کیا تا کہ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ اپنے کھجور کے ان درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کر دیں تا کہ ان درختوں کی وجہ سے انصاری کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس سے نجات پا جائیں لیکن سمرہ نے اپنے درختوں کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سمرہ اپنے ان درختوں کو انصاری کے ان درختوں سے بدل لیں جو کسی دوسری جگہ واقع تھے مگر سمرہ اس پر بھی تیار نہیں ہوئے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سمرہ سے یہ فرمایا کہ اچھا اپنے درخت انصاری کو بطور ہدیہ دے دو تمہیں اس کا اجر بہشت کی نعمتوں کی صورت میں مل جائے گا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور سفارش اور رغبت دلانے کے لئے یہ حکم دیا (یاامرارغبہ کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سمرہ سے ترغیب کی ایک بات فرمائی یعنی اپنے درخت کو بطور ہدیہ دے دینے کا ثواب ذکر فرمایا) لیکن سمرہ نے اس سے بھی انکار کر دیا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سمرہ سے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ تم واقعی اس انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہو؟ اور جو شخص کسی کو ضرور تکلیف پہنچائے اس کا دفعیہ چونکہ ضروری ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصاری سے فرمایا کہ تم جاؤ اور سمرہ کے درختوں کو کاٹ پھینکو (ابوداؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سمرہ کو اپنے درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کر دینے یا تبادلہ کر لینے اور ہبہ کرنے کا جو حکم دیا اور انہوں نے وہ حکم نہیں مانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا کہ اس کا ماننا ضروری ہوتا بلکہ بطور سفارش تھا یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو آخری صورت حضرت سمرہ کے سامنے رکھی اسی میں ثواب کی ترغیب دلائی تھی۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کا تعلق وجوب سے ہوتا ہے کہ جس کو ماننا حضرت سمرہ کے لئے ضروری ہوتا تو یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت سمرہ اتنی صفائی کے ساتھ انکار کر دیتے بلکہ وہ ایک فرمانبردار و مطیع صحابی ہونے کے ناطے فوراً مان لیتے۔ اب رہی یہ بات کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا بلکہ اس کا تعلق سفارش سے تھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصاری کو حضرت سمرہ کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جاب بالکل صاف ہے کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سفارش کے ذریعے اخلاقی طور پر حضرت سمرہ کو اس بات پر تیار کرنا چاہا کہ وہ اپنے درختوں ٍسے دست کش ہو جائیں مگر جب سمرہ نے دست کشی سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ سمرہ نے انصاری کے باغ میں عاریۃً درخت لگائے تھے مگر اب نہ وہ ان درختوں کو بیچتے ہیں نہ تبادلہ کرتے ہیں اور نہ ہبہ کرتے ہیں تو گویا وہ واقعۃً انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ انصاری کو اس ضرر و تکلیف سے نجات دلائی جائے اس لئے اس کی آخری صورت یہی رہ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیں۔
اور حضرت جابر کی حدیث (من احی ارضا) الخ بروایت حضرت سعید بن زید باب الغصب میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت ابی صرمہ کی حدیث من ضار اضر اللہ بہ الخ باب ما ینہی من التہاجر میں نقل کی جائے گی (یہ دونوں حدیثیں صاحب مصابیح نے یہاں نقل کر رکھی تھی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! وہ کونسی چیز ہے جس کو دینے سے انکار کرنا درست نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانی نمک اور آگ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! پانی کا معاملہ تو مجھے معلوم ہے کہ یہ خدا کی ایک ایسی عام نعمت ہے جو کسی شخص کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اور چونکہ کیا انسان اور کیا حیوان ساری ہی مخلوق کی ضرورتیں اس سے وابستہ ہیں اس لئے اس سے منع کرنا بہت زیادہ تکلیف و ضرر کا باعث بن سکتا ہے لیکن نمک اور آگ کی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ دونوں چیزیں پانی کے مثل نہیں ہیں اور بظاہر بالکل حقیر و کمتر چیزیں ہیں جن کا دیا جانا اور نہ دیا جانا کیا حیثیت رکھ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حمیراء!(یہ مت سمجھو کہ ان دونوں چیزوں کے دینے یا نہ دینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ) جس شخص نے کسی کو آگ دی تو گویا اس نے وہ تمام چیزیں بطور صدقہ دیں جو اس آگ پر پکائی گئیں اسی طرح جس نے کسی کو نمک دیا گویا اس نے وہ تمام چیزیں بطور صدقہ دیں جنہیں اس نمک نے ذائقہ دار بنایا اور پانی کی اہمیت تو تم جانتی ہو لیکن تمہیں یہ معلوم نہیں کہ جس شخص نے کسی کو اس جگہ کہ جہاں پانی ملتا ہو ایک بار پانی پلایا تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا اور جس شخص نے کسی کو اس جگہ کہ جہاں پانی دستیاب نہ ہوتا ہو ایک بار پانی پلایا تو گویا اس نے اس کو یعنی ایک مسلمان کو زندہ کر دیا (ابن ماجہ)
تشریح
حضرت عائشہ نے چونکہ پانی اہمیت اور اس کی کیفیت حال کو جاننے کا دعوی کیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے دعوی کو روکنے کے لئے آخر میں پانی دینے اور پلانے کا ثواب اور اس کی فضیلت کو ذکر کرتے ہوئے گویا یہ ظاہر فرمایا کہ تمہیں صرف یہ تو معلوم تھا کہ پانی ایک عام ضرورت کی چیز ہونے کی وجہ سے ایک بڑی اہم نعمت ہے لیکن اس کے بارے میں یہ تفصیل کہ پانی دینے والے کا کیا درجہ ہوتا ہے اور اسے کتنا زیادہ ثواب ملتا ہے تم نہیں جانتی تھیں۔