فئی اس مال کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ کے بغیر حاصل ہوا ہو، اس مال کا حکم یہ ہے کہ وہ سب کا سب مسلمانوں کا حق ہے، اس میں سے نہ تو خمس نکالا جاتا ہے اور نہ اس کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جب کوئی لشکر کسی جگہ سے مال فئی لے کر آتا تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پورا اختیار حاصل ہوتا تھا کہ اس میں سے جس کو چاہتے دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے اسی طرح جس کو چاہتے زیادہ دیتے اور جس کو چاہتے کم دیتے۔
اور جو مال جنگ کے ذریعہ کفار پر غالب آنے کے بعد مسلمانوں کو حاصل ہوتا ہے اس کو مال غنیمت کہتے ہیں اس مال کا یہ حکم ہے کہ پہلے اس میں سے خمس نکالا جائے اور پھر بقیہ کو مجاہدین کے درمیان اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ پیادے کو ایک اور سوار کو دو حصے ملیں۔
حضرت مالک ابن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے سلسلے میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک خاص خصوصیت عطاء کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی اور کو وہ خصوصیت عطاء نہیں کی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت (وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59۔ الحشر:6) پڑھی اور فرمایا کہ چنانچہ یہ مال صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مخصوص ہو گیا تھا، جس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر والوں کو سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اس کے بعد اس میں سے جو کچھ بچ رہتا تھا اس کو ان جگہوں میں خرچ کرتے جو اللہ کا مال خرچ کیے جانے کی جگہیں ہیں (یعنی اس باقی مال کو مسلمانوں کے مفاد و مصالح جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری پر خرچ کر دیا کرتے تھے، نیز محتاج و مساکین میں سے جس کو چاہتے اس کی مدد کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مذکورہ آیت کریمہ سورہ حشر کی ہے جو پوری اس طرح ہے۔
آیت (وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 59۔ الحشر:6) اور جو کچھ (مال) اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان سے دلوایا ہے وہ رسول کے لئے مخصوص ہو گیا ہے) تم نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ (یعنی تم نے اس کے حصول کے لئے کسی جنگ و جدال کی مشقّت برداشت نہیں کی ہے نہ سفر کی پریشانیاں جھیلی ہیں، بلکہ پیدل ہی چلے گئے تھے) لیکن اللہ تعالیٰ (کی عادت ہے کہ) اپنے رسولوں کو جس پر چا ہے (خاص طور پر) مسلّط فرما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت حاصل ہے۔
اس آیت کریمہ کے ذریعہ گویا مسلمانوں پر یہ واضح کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے مال و جائداد کا جو مالک و متصرف بنایا ہے تو وہ مال اس طرح کا ہے جس کو تم نے جنگ و جدال کے ذریعہ ان (بنو نضیر) پر غلبہ پاکر اور دور دراز کے سفر کی مشقّت برداشت کر کے حاصل نہیں کیا ہے بلکہ بلا کسی جدوجہد کے ہاتھ لگا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنو نضیر کو مدینہ سے جلا وطن کر دینے کا حکم دیا گیا اور بنو نضیر نے اس حکم کی تعمیل کر نے میں چوں و چرا کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو لے کر اس جگہ کے لئے روانہ ہوئے جہاں بنو نضیر کے محلات، قلعے اور جائدادیں تھیں۔ وہ جگہ چونکہ مدینہ سے صرف دو میل کے فاصلے پر تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ اور سب ہی لوگ پیدل تھے، وہاں پہنچنے پر جنگ و جدال کی نو بت نہیں آئی، کچھ عرصہ کے محاصرہ کے بعد بنو نضیر نے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ جو کچھ سامان اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے اونٹوں پر لاد کر خیبر کو روانہ ہو گئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پر غلبہ و تسلّط عطاء فرمایا جیسا کہ حق تعالیٰ کی عادت یہی ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور دین کے علمبرداروں کو دشمنان دین پر غلبہ و تسلّط عطاء فرماتا ہے۔ چنانچہ ان کی جائداد و زمین وغیرہ بحق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ضبط کر لی گئیں اور وہاں کا سارا مال (فئی) کے حکم میں ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تصرف و اختیار میں آگیا۔ اسی لئے جب مسلمانوں نے اس مال کو تقسیم کر نے کا مطالبہ کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی اور اس مال کا یہ حکم بتایا گیا کہ اس طرح کا مال مال غنیمت کی طرح تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے تصرف و خرچ کا سارا اختیار صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح چاہیں خرچ کریں اور جس کو چاہیں اس میں سے دیں۔ چنانچہ احادیث میں اس مال کے مصرف بھی بیان کیئے گئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس مال میں سے اپنی بیویوں کو انکا سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے اور پھر جو باقی بچتا اس کو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کرتے اور جن فقراء و مساکین وغیرہ کو چاہتے ان کو دیتے۔
مال فئی کے مسئلہ میں حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے جو اوپر بیان ہوا لیکن طیبی نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس طرح بیان کیا کہ مال فئی میں چار خمس اور ایک خمس کے پانچویں حصے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حق ہوتا تھا، یعنی وہ مال پچیّس حصّوں میں تقسیم ہو کر اکیّس حصے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذاتی تصرف و اختیار میں آتا اور باقی چار حصے آپ اپنے ذوی القر بیٰ یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کر تے تھے
تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مال فئی کے مصرف کے بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔چنانچہ ایک جماعت کا قول تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مال فئی اسلامی مملکت و خلافت کے سربراہ کا حق ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ وہ مجاہدین و مقاتلین کا حق ہے کہ اس کے ان کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ اور دوسرا قول ہے کہ اس مال کے عام مسلمانوں کے اجتماعی مفادو مصالح میں خرچ کیا جائے۔
سال بھر کا خرچ دیا کر تے تھے اس موقع پر ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ احادیث میں تو یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو پھر سال بھر کا خرچ کس طرح جمع کر کے رکھتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جن احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل تک کے لئے کوئی بھی چیز بچا کر نہیں رکھتے تھے تو اس کا تعلّق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذات کے لئے کسی چیز کو بچا کر یا جمع کر کے رکھنا گوارا نہیں کر تے تھے اور یہاں جس بات کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلّق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل و عیال سے ہے۔
لیکن واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر خرچ کبھی کبھی دیتے تھے مستقل طور پر یہ معمول نہیں تھا، تاہم امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ سال بھر کی ضروریات زندگی کی چیزیں مہیّا کر کے رکھ لینا جائز ہے اور یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (یہود کے قبیلہ) بنو نضیر کا مال اس قسم کے مال میں سے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے (کسی جدوجہد کے بغیر) عطا فرمایا تھا اس کے لئے نہ تو مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، اس لئے وہ مال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مخصوص ہو گیا تھا کہ جس میں سے آپ اپنے گھر والوں کی سال بھر کی ضروریت میں خرچ کرتے تھے اور پھر اس میں سے جو بچا کچھا بچ رہتا تھا اس کو ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری پر خرچ کر دیا کرتے تھے تاکہ وہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں کام آئیں۔ (بخاری و مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مال فئی کی تقسیم
حضرت عوف ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مال فئی آتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اسی دن(ضرورتمندوں کے درمیان) تقسیم فرمادیتے تھے، جو بیوی والا ہوتا اس کو تو دو حصے دیتے اور مجرد کو ایک حصہ عطا فرماتے، چنانچہ (ایک مرتبہ) مجھ کو بھی بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دو حصے عطا فرمائے کیونکہ میری بیوی تھی اور پھر میرے بعد عمار بن یاسر کو بلا یا گیا (جن کی بیوی نہیں تھی) ان کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حصہ دیا۔ (ابو داؤد)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مال فئی کی تقسیم
اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مال فئی کے آنے کے بعد اس میں سے سب سے پہلے ان لوگوں کو مرحمت فرماتے جن کو (حال ہی میں غلامی سے آزاد کیا گیا ہوتا۔ (ابو داؤد)
تشریح
مال فئی میں سے سب سے پہلے حال ہی میں غلامی سے نجات پائے ہوئے لوگوں کو اس لئے عطا کیا جاتا کہ وہ بے ٹھکانہ اور بے سہارا ہوتے تھے، اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آزاد کئے گئے لوگوں سے مراد مکاتب ہیں۔ نیز بعض حضرات کے نزدیک منفردین لطاعۃاللہ مراد ہیں۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک تھیلا آیا جس میں نگینے بھرے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان نگینوں کو بیبیوں (یعنی آزاد عورتوں) اور باندیوں کو بانٹ دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میرے والد یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے پاس نگینے آتے تو وہ ان نگینوں کو) آزاد اور غلام مردوں کو (بھی) بانٹتے۔ (ابو داؤد)
تشریح
اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نگینوں کی تقسیم کو صرف عورتوں تک محدود رکھتے تھے لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے معلوم ہوا کہ نگینوں کی تقسیم صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتی تھی بلکہ مردوں کو بھی بانٹا کر تے تھے۔
اور حضرت مالک ابن اوس ابن حدثان کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مال فئی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس مال فئی کا میں تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں اور نہ ہم میں سے کوئی شخص اس مال فئی کا کسی دوسرے شخص سے زیادہ مستحق ہے البتہ ہم عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم کے مطابق اپنے اپنے مرتبہ پر ہیں چنانچہ ایک وہ شخص ہے جو (قبولیت اسلام) قدامت رکھتا ہے، ایک وہ شخص ہے جو (دین کی راہ میں) شجاعت و بہادری کے (کارہائے نمایاں) اور سعی و مشقّت (کے اوصاف) رکھتا ہے، ایک وہ شخص ہے جو اہل و عیال رکھتا ہے اور وہ شخص ہے جو ضرورت و حاجت رکھتا ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
میں تم سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اس وہم وگمان کو دور کر نے کے لئے فرمائی کہ وہ چونکہ خلیفہ رسول ہیں اس لئے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس مال کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتے تھے ہو سکتا ہے کہ آپ کے بعد اب وہ (حضرت عمر) اس کے سب سے زیادہ مستحق ہوں ! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی نفی کی کہ دوسرے مسلمان کی طرح میں بھی اس مال کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں، پھر انہوں نے اس مال کا سب سے زیادہ استحقاق رکھنے کی نفی عمومیت کے طور پر فرمائی کہ ہم میں سے کوئی بھی شخص دوسرے شخص سے زیادہ حق دار نہیں ہے بلکہ اس مال کے استحقاق کی اصل بنیاد وہی فرق مراتب ہے جو کتاب اللہ کے اس ارشاد للفقراء والمہاجرین تین آیتوں تک اور والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار آخر آیت تک، یا ان آیتوں سے ظاہر ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے مراتب میں تفاوت ہے کہ ہر شخص کو اس کے مرتبے کے مطابق کم یا زیادہ دیا جائے گا۔
اللہ عز و جل کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم کا عطف کتاب اللہ پر کیا گیا ہے، یعنی جس طرح کتاب اللہ کی مذکورہ آیتوں سے مسلمانوں کے فرق مراتب کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ تقسیم سے بھی مراتب میں تفاوت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ اس مال کی تقسیم کے وقت دوسرے مسلمانوں کے بنسبت جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کو زیادہ حصہ دیا کر تے تھے، اسی طرح جو صحابہ کرام (صلح حدیبیہ کے موقع پر) بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کا لحاظ عام مسلمانوں سے زیادہ رکھتے تھے، یا جو شخص اہل و عیال والا ہوتا تھا اس کو مجرد شخص سے زیادہ دیتے تھے۔
ایک وہ شخص ہے الخ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اوپر کی بات کو اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ مال فئی کی تقسیم کے وقت ہر شخص کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص قدیم الاسلام ہے تو اس کی اس خصوصیت کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص خدا کی راہ میں شجاعت و بہادری کے کارنامے انجام دینے والا، اور دین کو پھیلانے میں سخت جدوجہد کر نے اور مشقّت برداشت کر نے والا ہے تو اس کے اس وصف کو سامنے رکھنا چاہیے، اسی طرح اگر کوئی اہل و عیال والا زیادہ حاجت مند ہے تو اس کی اس حیثیت و حالت کا خیال کیا جانا چاہیے غرضیکہ جس شخص کو جس طرح کی احتیاج و ضرورت ہو اس کو اسی کے مطابق دینا چاہیے۔
اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ (ایک موقع پر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی (جس میں زکوٰۃ کے مصارف کا بیان ہے) آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ) 9۔ التوبہ:60) اور اس آیت کو انہوں نے علیم حکیم تک پڑھا اور فرمایا کہ اس (زکوٰ ۃ کے مال) کو پانے کے مستحق یہی لوگ ہیں (جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی فقراء مساکین وغیرہ) پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی آیت (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ) 8۔ الانفال:41) اور اس آیت کو وابن السبیل تک پڑھا اور فرمایا کہ (خمس کا مال) انہی لوگوں کا حق ہے (جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی ذوی القربیٰ وغیرہ) اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی (جس میں مال فئی کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس کس کو دیا جائے) آیت (مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر:7) اس آیت کو للفقراء والذین جاءوا من بعدہم تک پڑھا (ایک نسخہ میں یہ عبارت ہے کہ حتی بلغ للفقراء ثم قراء والذین جاءوا اس کے مطابق مفہوم یہ ہو گا کہ انہوں نے اس آیت ماافاء اللہ کو پڑھنا شروع کیا اور للفقراء تک دو آیتوں کو پڑھا اور پھر یہ آیت والذین جاء وا من بعد ہم پڑھی) اور پھر فرمایا کہ اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے۔ لہٰذا اگر میری زندگی رہی تو (میری حدود خلافت میں کوئی ایسا مسلمان نہیں بچے گا جس کو اس کے حصہ کا مال نہ پہنچے یہاں تک کہ) اس چروا ہے کو بھی مال فئی میں سے اس کا حصہ پہنچے گا جو مقام بسر اور حمیر میں ہو گا درآنحالیکہ اس (مال کے حاصل کرنے) میں اس کی پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوئی ہو گی۔ (شرح السنّہ)
تشریح
اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جن لوگوں کو دینے کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سارے ہی مسلمان آ جاتے ہیں بخلاف پہلی دونوں آیتوں کے کہ ایک میں تو صرف مستحقین زکوٰۃ کا ذکر ہے اور دوسری میں مستحقین خمس کا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مال فئی میں سے خمس نکالنے کے قائل نہیں تھے جیسا کہ مال غنیمت میں سے نکالا جاتا ہے، ان کے نزدیک پورا مال فئی مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح اور ان کی فلاح و اعانت میں خرچ کیا جانا چاہیے جو قرآن و حدیث میں مذکور فرق مراتب کے ساتھ ان کا حق ہے، چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سوا اکثر ائمہ فقہ کا مسلک بھی یہی ہے، نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بھی قائل تھے کہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درجات و مراتب کے تفاوت کا لحاظ ضروری ہے جب کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر مسلمان کا برابر، برابر حصہ لگاتے تھے وہ قدامت اسلام اور نسب کی برتری وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرمایا کر تے تھے کہ اس چیز کا تعلّق آخرت سے ہے اگر کوئی شخص پہلے مسلمان ہوا ہے اور کسی شخص نے دین کی راہ میں زیادہ شجاعت و بہادری اور زیادہ سعی و مشقّت اختیار کی ہے تو ان کا یہ عمل اللہ کے لئے ہے اور ان کا اجر بھی اللہ ہی پر موقوف ہے ان چیزوں کو زیادہ مال کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ فرق مراتب اور تفاوت درجات کو ملحوظ رکھتے تھے اس لئے وہ جب مال تقسیم کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو زیادہ دیتے اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کم، اور ان (حضرت حفصہ) سے فرماتے کہ (بیٹی ! تمہاری بنسبت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس خصوصیت کی بناء پر زیادہ دیتا ہوں کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک وہ (عائشہ) تم سے زیادہ چہیتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تمہارے باپ (یعنی میری) بہ نسبت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ (یعنی حضرت ابوبکر) سے زیادہ تعلّق خاطر تھا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اپنے بیٹے) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہ نسبت حضرت اسامہ ابن زید کا حصہ زیادہ لگایا کر تے تھے اور ان (ابن عمر) سے بھی یہی فرماتے تھے کہ اسامہ کو تمہارے اوپر یہ فضیلت حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تمہاری بہ نسبت اسامہ سے زیادہ تعلّق خاطر تھا اور تمہارے باپ سے زیادہ ان کا باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں پسندیدہ تھا۔
حمیر یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے جہاں یمن کا مشہور قبیلہ حمیر کے لوگ آباد تھے۔ اس طرح سرو ایک جگہ کا نام تھا، جو حمیر کے علاقہ میں تھا۔
روایت کے آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا اور میری خلافت کے زمانے میں اسلام کو زیادہ سے زیادہ شہروں اور ملکوں پر تسلّط و غلبہ حاصل ہوا اور اس کے نتیجہ میں مال فئی بھی بہت ہاتھ لگا تو ان میں سے تمام مسلمانوں کو ان کا حصہ پہنچے گا خواہ وہ کتنے ہی دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں کیوں نہ رہتے ہوں اور اس کے باوجود کہ اس مال کو حاصل کر نے میں انہیں ذراسی بھی مشقّت برداشت نہیں کرنا پڑی ہو گی۔
اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات سے استدلال کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تین صفایا تھیں۔ ١ بنو نضیر۔ ٢خیبر۔ ٣ فدک۔ چنانچہ بنو نضیر (کے جلا وطن ہو جانے کے بعد ان کی جو زمین جائداد قبضے میں آئی تھی اس سے حاصل ہونے والا مال) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخراجات (جیسے مہمانوں کی ضیافت و تواضع اور مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری وغیرہ) کے لئے مخصوص تھا۔ فدک کے محاصل (ان) مسافروں (کی امداد و اعانت کر نے کے لئے) مخصوص تھے (جو اگرچہ اپنے وطن میں تو مال رکھتے ہوں مگر سفر کے دوران ان کے پاس مال و اسباب ختم ہو گیا ہو)۔ اور خیبر (کے محاصل) کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین حصے کر رکھے تھے، ان میں سے دو حصے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے رکھتے تھے اور اس میں سے بھی اہل و عیال کے خرچ سے جو کچھ بچ جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نادار مہاجرین پر خرچ کر دیتے تھے۔ (ابوداؤد)
تشریح
جس بات سے استدلال کیا الخ یعنی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما فدک کے مال کے بارہ میں اپنا مطالبہ لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا، اور جن جائداد و زمینوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذاتی حق تھا (جیسے بنو نضیر، خیبر اور فدک کی زمین، جائدادیں) ان کے بارہ میں مذکورہ بالا تفصیل بیان کی اور چونکہ اس تفصیل کے بیان کے وقت دوسرے صحابہ بھی موجود تھے جن میں سے کسی نے بھی حضرت عمر کی بیان کردہ تفصیل کی تردید نہیں کی اس لئے گویا یہ بات ان کے فیصلے کی دلیل قرار پائی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا ضرور کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو فدک کے محاصل کا متولّی بنادیا کہ وہ دونوں اس محا صل کو اسی طرح صرف کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم صرف کیا کرتے تھے۔
صفایا صفیہ کی جمع ہے صفیہ اس کو کہتے ہیں کہ امام وقت (اسلامی مملکت کا سربراہ) مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی چیز چھانٹ کر اپنے لئے مخصوص کرے۔ یہ بات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مخصوص تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ اور بھی جو چیز جیسے لونڈی، غلام، تلوار اور گھوڑا وغیرہ چاہتے اس کو لے لینے کا حق رکھتے تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی دوسرے امام وقت کے لئے یہ بات جائز نہیں۔
فدک ایک بستی کا نام تھا جو خیبر کے مواضعات میں سے تھی اور مدینہ سے دو روز کے فاصلہ پر واقع تھی یہ ایک شاداب اور سرسبز جگہ تھی جہاں زیادہ تر کھجور کے اور تھوڑے بہت دوسرے پھلوں کے باغات تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فدک پر صلح کے ذریعہ تسلّط حاصل ہوا تھا اور صلح کی بنیاد یہ معاہدہ تھا کہ وہاں کی آدھی زمین تو فدک والوں کی رہے گی آدھی زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حق ہو گا، چنانچہ فدک کی وہ آدھی زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی ملکیت میں رہی جس کی آمدنی اور پیداوار سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حدیث کے مطابق محتاج مسافروں کی امداد و اعانت فرماتے تھے۔
خیبر کے محاصل کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین حصوں میں اس لئے تقسیم کرتے تھے کہ خیبر کا علاقہ اصل میں بہت سارے مواضعات اور بستیوں پر مشتمل تھا ان میں سے بعض گاؤں تو بزور طاقت فتح کئے گئے تھے اور بعض گاؤں بغیر جنگ و جدال کے صلح کے ذریعہ قبضہ و اختیار میں آئے تھے، چنانچہ جو گاؤں بزور طاقت فتح کئے گئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال غنیمت تھا اس لئے اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خمس لیتے تھے اور جو گاؤں بذریعہ صلح قبضہ و اختیار میں آئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ مال فئی تھا اس لئے وہ تمام تر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی ملکیت تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ضروریات، اپنے اہل و عیال کے اخراجات اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں جہاں مناسب سمجھتے خرچ کرتے تھے۔ لہٰذا اس بنا پر تقسیم و مساوات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر کے سارے مال کو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر نے کے لئے تین حصوں میں کر کے دو حصے مسلمانوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے پاس رکھیں۔
اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیز ابن مروان ابن حکم رحمۃاللہ علیہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے مروان کے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فدک (کی زمین و جائداد) پر اپنا ذاتی حق رکھتے تھے جس کے محاصل (آمدنی۔ و پیداوار) کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اپنے اہل و عیال و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اسی میں سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں (کی امداد و اعانت پر خرچ کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے اور بے شوہر عورتوں اور بغیر زن مردوں کی شادی کرتے تھے ! (ایک مرتبہ) حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ درخواست کی تھی کہ فدک (کی زمین و جائداد دیجئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی درخواست کو رد کر دیا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو ان کا معمول بھی وہی رہا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی حیات مبارکہ میں رہا تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ معمول کی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی فدک کے محاصل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل و عیال اور بنو ہاشم کے بچوں پر اور نادار مردوں و عورتوں کی شادی میں خرچ کیا کرتے تھے) یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور (ان کے بعد) جب حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو اس سلسلہ میں ان کا بھی عمل وہی رہا جو ان دونوں (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکر) کا رہا تھا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور پھر مروان نے (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں یا اپنی حکمرانی کے دور میں) اس (فدک) کو اپنی (اور اپنے وارثین کی) جاگیر قرار دیا چنانچہ (اب) وہ جاگیر عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان کی ہو گئی ہے، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جس چیز کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنی بیٹی) فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہیں دیا اس کا مستحق میں بھی نہیں ہو سکتا، لہٰذا میں تمہیں (اپنے اس فیصلہ کا) گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فدک کو اس کی اسی حیثیت پر واپس کر دیا ہے۔ جس پر وہ تھا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں (جس طریقہ پر اس کے محاصل کو خرچ کیا جاتا تھا اب پھر اسی طریقہ پر خرچ کیا جائے گا اور فدک کسی شخص کی ذاتی جاگیر نہیں بنے گا۔ (ابوداؤد)
تشریح
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے بنو نضیر، فدک اور خیبر کی زمین، جائدادیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتی ملکیت تھیں چونکہ وہ زمین جائدادیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی باقی رہیں تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت اور خاندان کے کچھ افراد نے ان پر اپنی میراث کا دعویٰ کیا اور خلقت سے اس کا مطالبہ کیا، پھر ان میں آپس میں بھی کچھ اختلافات پیدا ہوئے اس طرح ان زمین جائدادوں کا قصہ بڑا عجیب و غریب ہو گیا اگرچہ وہ ایک وقتی قضیہ تھا جس کی بنیاد کسی غلط جذبہ پر نہیں تھی لیکن پھر بھی بعد کے زمانوں میں کم فہم اور کج رو لوگوں نے اس سے غلط نتائج اخذ کرنے شروع کر دیئے اور ایسے ایسے افسانے تراشے جن سے دوسرے لوگوں کے ذہن بھی فاسد ہوئے اس سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتب صحاح سے منتخب کر کے اس قضیہ کی کچھ تفصیل اور اس کے بارے میں کچھ باتیں نقل کر دی جائیں۔
صحیح بخاری میں حضرت مالک ابن عوس ابن حدثان سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المؤ منین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ کو اپنے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا غلام یرفاء آیا اور کہا کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان ابن عفان حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم دروازہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور حاضری کی اجازت چاہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آ جا نے دو وہ سب حضرات آ گئے، تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آیا اور کہا کہ (حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما (حاضری کی) اجازت چاہتے ہیں، اگر حکم ہو تو آنے دیا جائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آنے دو جب وہ بھی آ گئے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ امیر المؤمنین ! ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجئے (یعنی میرے اور علی کے قضیہ کو نمٹائیے) یہ بنو نضیر کے اس مال و جائداد کے بارے میں جھگڑے کی صورت اختیار کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں فئی قرار دیا تھا۔ پھر حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے، وہاں موجود دوسرے لوگوں (یعنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ) نے بھی کہا کہ ہاں امیر المؤمنین ! ان دونوں کے معاملہ کا تصفیہ کر دیجئے اور ان کو ایک دوسرے (کے جھگڑے) سے نجات دلائے (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ذرا صبر و سکون سے کام لو، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ ہم یعنی انبیاء میراث نہیں چھوڑتے (یعنی ہمارا چھوڑا ہوا مال کسی کا ورثہ نہیں ہوتا) ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔ حاضرین نے کہا کہ ہاں ! (ہم کو یاد ہے) بیشک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ میں تم دونوں کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا تھا ؟ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ہاں ! (ہم کو بھی یاد ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تو میں تم کو اس بات سے (بھی آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مال فئی کے بارے میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ خاص خصوصیت عطا کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ اور کسی کو عطا نہیں کی پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت (مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر:7) آخر تک پڑھی اور فرمایا کہ۔ پس یہ سارا مال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مخصوص تھا، لیکن خدا کی قسم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مال کو تمہارے پاس جمع نہیں کیا اور نہ اس کے ذریعہ تم پر کوئی ایثار کیا، (بلکہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہ مال تمہیں (ہی) دیا کرتے تھے اور تمہارے درمیان تقسیم کرتے تھے، پھر جو کچھ بچتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں سے اپنے اہل و عیال کا خرچ چلاتے اس کے بعد بھی جو بچ جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نیک کاموں (جیسے فقراء و مساکین کی امداد و اعانت) اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح (جیسے ہتھیاروں اور گھوڑوں وغیرہ کی خریداری) میں صرف کرتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنی زندگی کے آخر تک یہی معمول رہا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کر کے میں رسول خدا کا خلیفہ ہوں۔ اس مال کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے خرچ و تصرف کا وہی نظام باقی رکھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری کیا۔
( اس موقع پر) حضرت علی و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کیا کرتے تھے اور کہا کر تے تھے کہ اس بارے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحیح راستے پر نہیں ہیں، حالانکہ تم جو کہتے تھے ویسا نہیں تھا اور خدا خوب جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے، پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کو پیارے ہو گئے (اور میں خلیفہ بنا) تو میں نے کہا کہ میں رسول خدا کا خلیفہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ولی (جانشین) ہوں، اس لئے میں نے اس مال و جائداد کو دو سال تک اپنے اختیار و قبضے میں رکھا اور اس کے خرچ وتصرف کا وہی نظم و طریقہ اختیار کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا اور خدا خوب جانتا ہے کہ میں اپنی اس بات اور اپنے اس عمل میں صادق، نیکو کار، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع ہوں، ڈیڑھ دو سال کے بعد تم دونوں (علی و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) میرے پاس آئے اور تم دونوں نے ایک ہی بات کہی (کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مال ہم کو دے دو) میں نے (تمہارے مطالبہ کے جواب میں) تم سے کہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ ہم (انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ (ہوتا) ہے۔ لیکن جب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مجھے اس مال و جائداد کو تمہارے سپرد کر دینا چاہئے تو میں نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو تو میں یہ مال و جائداد اس شرط پر تمہارے سپرد کر سکتا ہوں کہ تم (اس بات کا عہد کرو کہ) اس مال کو خرچ کرنے کا وہی نظم و طریقہ باقی رکھو گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری کیا تھا اور جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور خلیفہ ہونے کے بعد میں نے عمل کیا تھا اور اگر تم لوگوں کو یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر آئندہ اس بارے میں مجھ سے کوئی بات کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم نے (اس شرط کو منظور کر لیا اور) کہا کہ آپ اس مال و جائداد کو اس شرط پر ہمارے حوالے کر دیجئے۔ چنانچہ میں نے تمہارے سپرد کر دیا۔ (تم لوگوں کو یہ ساری بات اچھی طرح یاد ہو گی) تو کیا تم لوگ اب مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ (اس سلسلے میں جو بات میرے اور تمہارے درمیان طے ہو چکی ہے) میں اس کے خلاف فیصلہ کروں ؟ نہیں ! اس خدا کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، میں قیامت تک بھی اس کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا، ہاں اگر تم اس مال و جائداد کے انتظام سے عاجز آ گئے ہو تو اس کو دوبارہ میرے حوالے کر دو میں تمہیں اس کے انتظامی جھمیلوں سے بے پرواہ کر دوں گا اور خود مشقّت اٹھا کر (بھی) اس کا انتظام کروں گا۔
اس روایت کے راوی حضرت امام زہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے بارے میں حضرت عروہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ مالک ابن اوس نے بالکل صحیح بیان کیا ہے۔ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد (کچھ) ازواج مطہرات نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کر اس مال و جائداد کی اپنی میراث کا مطالبہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مال فئی کے طور پر عطا کیا تھا (جب مجھے یہ معلوم ہوا تو) میں نے ان کی مخالفت کی اور ان سے کہا کہ تمہیں خدا کا خوف محسوس نہیں ہوتا ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد تمہارے علم میں نہیں ہے کہ ہم میراث نہیں چھوڑتے بلکہ ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ (ہوتا) ہے اور آل محمد اس میں سے کھائے گی۔ تب ازواج مطہرات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی میراث کے مطالبہ سے باز آئیں اور میری بیان کی ہوئی حدیث کی بناء پر انہوں نے رجوع کر لیا۔
حضرت عروہ کہتے تھے (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ صدقہ یعنی بنو نضیر کا وہ مال جو مدینہ میں تھا اور جس کے بارے میں مذکورہ بالا قضیہ تھا حضرت علی و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تولیت میں دے دیا تھا تو کچھ دنوں کے بعد) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غلبہ حاصل کر کے ان کو تنہا اپنے قبضہ تولیت میں لے لیا تھا، ان کے بعد حضرت حسن ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضے میں آیا، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد حضرت علی ابن حسین اور حسن ابن حسین کے قبضے میں رہا کہ یہ دونوں باری باری اس کو اپنے قبضے میں رکھتے تھے، ان کے بعد زید ابن حسن کے پاس آگیا۔ اور ایمانداری وسچائی کے ساتھ یہ (مال و جائداد) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا صدقہ ہے کسی شخص کی میراث و ملکیت نہیں ہے۔
یہ بخاری کی حدیث کا اختصار ہے جس کو انہوں نے کتاب المغازی میں بنو نضیر کے واقعہ کے تحت نقل کیا ہے۔ کتاب الخمس میں بھی بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔
یہ روایت بھی بخاری کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور عباس، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس فدک کی زمین و جائداد و خیبر کے حصے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں چھوڑتے، ہم جو کچھ چھوڑیں صدقہ ہے۔ اس مال میں سے آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کھائے گی۔ خدا کی قسم میرے نزدیک رسول خدا کی قرابت (والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا) اور ان کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کا معاملہ کرنا اپنے قرابت والوں کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے۔
پیچھے جو طویل حدیث نقل کی گئی ہے اور جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اپنا قضیہ لے کر آنے کا ذکر ہے اس کو صاحب جامع الاصول نے بھی اپنی کتاب میں بخاری، مسلم)، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ (اس حدیث کے سلسلے میں) ابوداؤد نے یہ وضاحت کی ہے کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو مطالبہ کیا تھا اس کا مقصد صرف یہ درخواست کرنا تھا کہ آپ نے جس مال و جائداد کو مشترکہ طور پر ہم دونوں کی تولیت میں دیا تھا اب اس کے آدھوں آدھ بانٹ کر ہم دونوں کی تولیت اور سپردگی میں الگ الگ حصہ دے دیجئے، نہ کہ وہ دونوں حضرات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد ہم (انبیاء) میراث نہیں چھوڑتے۔ سے غافل و لا علم تھے اور واقعۃً ان کا مقصد اس مال و جائداد کو اپنی میراث قرار دینا تھا، چنانچہ ان دونوں کی نیت بھی صادق تھی اور ان کا مطالبہ بھی ایک درست عمل (یعنی اس مال و جائداد کے انتظام میں زیادہ بہتری پیدا کر نے کے تقاضے کے پیش نظر تھا تاہم اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے یہ واضح کر دیا کہ میں اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ کسی بھی صورت میں اس مال و جائداد پر تقسیم کا نام آئے بلکہ اس کو جوں کا توں رکھنا ہی میرے نزدیک زیادہ ضروری ہے۔
بخاری نے کتاب الخمس میں حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ان (عروہ) سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ ان کو میراث دی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس مال و جائداد میں سے چھوڑ گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مال فئی کے طور پر عطا فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جواب دیا کہ (تمہارا یہ مطالبہ قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ :
لانورث ماترکناہ صدقۃ
یعنی ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ انہوں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ مال میرے قبضہ و اختیار میں ہے اور جب میں مر جاؤں گا تو اس شخص کے قبضہ و اختیار میں ہو گا جو میرے بعد خلافت و امارت کی ذمہ داریاں سنبھالے گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بات سے سخت ناگواری ہوئی یہاں کہ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہجران (یعنی ترک سلام و کلام) کر لیا اور اپنی وفات تک اسی ترک سلام و کلام پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک بقید حیات رہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا۔
حضرت فاطمہ، حضرت ابوبکر صدیق سے اس مال و جائداد میں سے اپنے مال و حصے کا مطالبہ کیا کرتی تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر و فدک کی زمین و باغات اور مدینہ میں اپنے صدقہ (یعنی بنو نضیر کے مال و جائداد) کی صورت میں چھوڑا تھا، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کرتے تھے میں کسی ایسی چیز کو ترک نہیں کروں گا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول رہا ہو، اس مال و جائداد کے بارے میں میرا وہی عمل رہے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا رہا ہے، مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں کسی ایسی چیز پر عمل کرنے سے باز رہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم و منشاء کے مطابق ہے تو یقیناً میرا یہ فعل راہ حق سے اعراض و گریز کے مترادف ہو گا۔ چنانچہ (حضرت ابوبکر صدیق آخر تک اپنے اسی فیصلے پر قائم رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ صورت اختیار کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں جو صدقہ چھوڑا تھا (یعنی بنو نضیر کی زمین و جائداد) اس کو تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سپرد کر دیا (کہ وہ دونوں حضرات مشترکہ طور پر اس کی تولیت کے فرائض انجام دیں) اور خیبر و فدک کی زمین، جائداد کو اپنی تولیت میں رکھا اور فرمایا کہ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا (چھوڑا ہوا) صدقہ ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق متعلق تھے۔ نیز انہوں نے (کسی فرمان یا وصیت کے ذریعہ) ان زمین و جائدادوں کا متولی و نگران اسی شخص کو قرار دیا جو خلافت و امارت کی ذمہ داریاں سنبھالے۔ چنانچہ وہ اب تک اسی صورت حال کے مطابق ہیں۔
بہرحال، اس بارے میں اوپر جو احادیث نقل کی گئیں یا وہ احادیث جو اسی مفہوم و مضمون سے متعلق صحاح ستہ میں متعدد طرق و اسانید سے منقول ہیں ان سب سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد گرامی لا نورث ماترکناہ صدقۃکا صحیح تر ثابت اور معمول بہ ہونا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مال و جائداد کی قسم سے جو کچھ چھوڑا اس کا عام مسلمانوں کے درمیان مشترک ہونا اور ان کے اجتماعی مفاد و مصالح میں خرچ کیا جانا اور اس کا اس شخص کے قبضہ اختیار میں ہونا جو خلافت و امارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حتی کے حضرت عباس کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک بھی ایک متفقہ علیہ مسئلہ تھا۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس مال و جائداد کو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دیا جانا ایک درست عمل اور بہتر طریقہ تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع ہی میں یہ صورت اختیار کیوں نہ کر لی اور اگر وہ کوئی درست عمل اور بہتر طریقہ نہیں تھا تو پھر انہوں نے بعد میں اس مال و جائداد کو ان لوگوں کی تولیت میں کیوں دیا ؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ شروع میں ان دونوں کا مطالبہ چونکہ یہ تھا اس مال و جائداد کو ان کی ملکیت میں دے دیا جائے اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو منظور نہیں کیا اور پھر بعد میں جو ان لوگوں کو دیا تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ ان لوگوں کو اس مال و جائداد کا مالک نہیں بنایا گیا بلکہ صرف متولی و منتظم بنایا گیا تھا اور یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اس کو انہیں مصارف میں خرچ کیا جائے گا جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خرچ کیا کرتے تھے۔ مگر بات یہیں صاف نہیں ہو جاتی بلکہ جیسا کہ خطابی نے کہا ہے، مسئلہ میں ایک دوسری طرف سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس سوال کی صورت میں کہ جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس مال و جائداد کو مذکورہ شرط پر قبضہ میں لیا تھا اور ان لوگوں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ یہ مال و جائداد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ورثہ نہیں ہے اور جلیل القدر مہاجر صحابہ کرام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی تو پھر آخر ان لوگ کے درمیان یہ اختلاف و خصومت کی شکل کیوں پیدا ہوئی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس تولیت میں شرکت دونوں ہی پر شاق گزر رہی تھی لہٰذا انہوں نے یہ درخواست کی کہ اس مال و جائداد کو تقسیم کر کے ہر ایک کو ایک ایک حصے کا منتظم ومتولی بنادیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی واسطہ رکھے بغیر اپنے اپنے حصے کی دیکھ بھال اور اس کے اور خرچ و تصرف کا انتظام آزادی ویکسوئی کے ساتھ کرتے رہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ مبادا یہ تقسیم ملکیت کی صورت کے مشابہ ہو جائے کیونکہ تقسیم املاک میں ہوا کرتی ہے دوسرے یہ کہ فی الوقت نہ صحیح لیکن طویل زمانہ گزر جانے پر اس میں خود با خود ملکیت کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔
حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ الجھا ہوا مسئلہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے کیونکہ اگر ان کے مطالبہ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل سے قطعاً لاعلم تھیں تو یہ بات بعید از حقیقت ہو گی اور اگر یہ کہا جائے کہ بہرحال ممکن ہے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ارشاد سننے کا اتفاق نہ ہوا ہو تو پھر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان فرمایا اور دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی تو پھر انہوں نے اس بات کو قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اس قدر ناراضگی کی صورت کیوں اختیار کی یا اگر ناراضگی کی صورت اس حدیث کو سننے سے پہلے پیدا ہوچکی تھی تو سننے کے بعد انہوں نے اس کو ختم کیوں نہیں کیا جس نے اتنا طول کھینچا کہ وہ زندگی کے آخری لمحہ تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ترک سلام و کلام پر قائم رہیں۔؟
کرمانی نے بخاری کی شرح میں اس کا جواب یہ لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ناراضگی اصل میں ایک ایسی صورت تھی جو ان میں بتقاضائے بشریت پیدا ہو گی اور ہجران سے ہجران محرم یعنی ترک و سلام و کلام اور انقطاع تعلق مراد نہیں ہے بلکہ ملنے جلنے سے طبیعت میں انقباض و کوفت کا پیدا ہو جانا مراد ہے۔
علاوہ ازیں بعض روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان مذکورہ صورت حال پیدا ہو گئی (کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ ان سے ناراض ہو گئیں) تو (ایک دن) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اور آفتاب کی سخت گرمی اور دھوپ کی شدید تمازت کے باوجود ان کے دروازے پر کھڑے رہے اور ان سے عذر خواہی کرتے رہے اور یہ فرمایا کہ خدا کی قسم !رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی قرابت (کے حقوق کی رعایت و حفاظت) مجھے اپنی قرابت سے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہے لیکن میں کیا کروں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس حدیث کو سنا ہے اور دوسرے صحابہ کرام اس پر گواہ ہیں۔
تب حضرت فاطمہ (کا دل صاف ہو گیا اور ان) کی ناراضگی ختم ہو گئی۔