سنن ابو داؤدؒ

فتنوں اور جنگوں کا بیان

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4240

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا فَمَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا حَدَّثَهُ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابُهُ هَؤُلَاءِ وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ".

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، پھر اس مقام پر آپ نے قیامت تک پیش آنے والی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے بیان نہ فرما دیا ہو، تو جو اسے یاد رکھ سکا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا، اور وہ آپ کے ان اصحاب کو معلوم ہے، اور جب ان میں سے کوئی چیز ظہور پذیر ہو جاتی ہے تو مجھے یاد آ جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی فرمایا تھا، جیسے کوئی کسی کے غائب ہو جانے پر اس کے چہرہ کو یاد رکھتا ہے اور دیکھتے ہی اسے پہچان لیتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ القدر ۴ (۶۶۰۴)، صحیح مسلم/ الفتن ۶ (۲۸۹۱) ، (تحفة الأشراف: ۳۳۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۳، ۳۸۵، ۳۸۹، ۴۰۱) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4241

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ أَرْبَعُ فِتَنٍ فِي آخِرِهَا الْفَنَاءُ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس امت میں چار (بڑے بڑے) فتنے ہوں گے ان کا آخری فناء (قیامت) ہو گا ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۶۳۹) (ضعیف)

وضاحت: ۱؎ : نعیم بن حماد کی فتن اور طبرانی کی معجم کبیر کی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ پہلے فتنہ میں خون حلال ہو گا، دوسرے میں خون اور مال، تیسرے میں خون (جان) مال اور شرمگاہ، اور چوتھے میں خروج دجال۔

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4242

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ:‏‏‏‏ انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ فَإِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ مِنْ غَدِهِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے آپ نے فتنوں کے تذکرہ میں بہت سے فتنوں کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ فتنہ احلاس کا بھی ذکر فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ ایسی نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری ہے کہ انسان ایک دوسرے سے بھاگے گا، اور باہم برسر پیکار رہے گا، پھر اس کے بعد فتنہ سراء ہے جس کا فساد میرے اہل بیت کے ایک شخص کے پیروں کے نیچے سے رونما ہو گا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھ سے نہ ہو گا، میرے اولیاء تو وہی ہیں جو متقی ہوں، پھر لوگ ایک شخص پر اتفاق کر لیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر (یعنی ایسے شخص پر اتفاق ہو گا جس میں استقامت نہ ہو گی جیسے سرین پہلو کی ہڈی پر سیدھی نہیں ہوتی)، پھر «دھیماء»(اندھیرے) کا فتنہ ہو گا جو اس امت کے ہر فرد کو پہنچ کر رہے گا، جب کہا جائے گا کہ فساد ختم ہو گیا تو وہ اور بھڑک اٹھے گا جس میں صبح کو آدمی مومن ہو گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا، یہاں تک کہ لوگ دو خیموں میں بٹ جائیں گے، ایک خیمہ اہل ایمان کا ہو گا جس میں کوئی منافق نہ ہو گا، اور ایک خیمہ اہل نفاق کا جس میں کوئی ایماندار نہ ہو گا، تو جب ایسا فتنہ رونما ہو تو اسی روز، یا اس کے دو سرے روز سے دجال کا انتظار کرنے لگ جاؤ"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۷۳۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۳۳) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4243

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ فَرُّوخَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي ابْنٌ لِقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ"وَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَسِيَ أَصْحَابِي أَمْ تَنَاسَوْا وَاللَّهِ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَائِدِ فِتْنَةٍ إِلَى أَنْ تَنْقَضِيَ الدُّنْيَا يَبْلُغُ مَنْ مَعَهُ ثَلَاثَ مِائَةٍ فَصَاعِدًا إِلَّا قَدْ سَمَّاهُ لَنَا بِاسْمِهِ وَاسْمِ أَبِيهِ وَاسْمِ قَبِيلَتِهِ".

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ میرے اصحاب بھول گئے ہیں؟ یا ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں، قسم اللہ کی ایسا نہیں ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک ہونے والے کسی ایسے فتنہ کے سردار کا ذکر چھوڑ دیا ہو جس کے ساتھ تین سویا اس سے زیادہ افراد ہوں، اور اس کا اور اس کے باپ اور اس کے قبیلہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا نہ دیا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۳۷۹) (ضعیف)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4244

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ الْكُوفَةَ فِي زَمَنِ فُتِحَتْ تُسْتَرُ أَجْلُبُ مِنْهَا بِغَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَدْعٌ مِنَ الرِّجَالِ وَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ تَعْرِفُ إِذَا رَأَيْتَهُ أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ أَهْلِ الْحِجَازِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ فَتَجَهَّمَنِي الْقَوْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ أَمَا تَعْرِفُ هَذَا ؟ هَذَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْدَقَهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَرَى الَّذِي تُنْكِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ هَذَا الْخَيْرَ الَّذِي أَعْطَانَا اللَّهُ أَيَكُونُ بَعْدَهُ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْ ذَلِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ السَّيْفُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ مَاذَا يَكُونُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِي الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَضَرَبَ ظَهْرَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ فَأَطِعْهُ وَإِلَّا فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وَحُطَّ أَجْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ هِيَ قِيَامُ السَّاعَةِ".

سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا: جس پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہو گا جیسے پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں" میں نے عرض کیا: پھر اس سے بچاؤ کی کیا صورت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تلوار" ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ ۲؎" میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پھر دجال ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ نہر بھی ہو گی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا، اور اس کے گناہ معاف ہو گئے، اور جو اس کی (اطاعت کر کے) نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا، اور اس کا اجر ختم ہو گیا" میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر قیامت قائم ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۳۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۶۰۶)، صحیح مسلم/الإمارة ۱۳ (۱۸۴۷)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۳ (۲۹۸۱)، مسند احمد (۵/۳۸۶، ۴۰۳، ۴۰۴، ۴۰۶) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کر دینا ہی اس کا علاج ہو گا۔ ۲؎ : یعنی ایسے بے دینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کر لو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4245

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ خَالِدٍ الْيَشْكُرِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ بَعْدَ السَّيْفِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَقِيَّةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ وَهُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ قَتَادَةُ يَضَعُهُ عَلَى الرِّدَّةِ الَّتِي فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ عَلَى أَقْذَاءٍ يَقُولُ قَذًى وَهُدْنَةٌ يَقُولُ:‏‏‏‏ صُلْحٌ عَلَى دَخَنٍ عَلَى ضَغَائِنَ.

خالد بن خالد یشکری سے یہی حدیث مروی ہے اس میں یہ ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: پھر تلوار کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "باقی لوگ رہیں گے مگر دلوں میں ان کے فساد ہو گا، اور ظاہر میں صلح ہو گی" پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ راوی کہتے ہیں: قتادہ اسے (تلوار کو) اس فتنہ ارتداد پر محمول کرتے تھے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا، اور «اقذاء» کی تفسیر «قذی» سے یعنی غبار اور گندگی سے جو آنکھ یا پینے کی چیز میں پڑ جاتی ہے، اور «ھدنہ» کی تفسیر صلح سے«دخن» کی تفسیر دلوں کے فساد اور کینوں سے کرتے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۳۰۷) (حسن)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4246

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ اللَّيْثِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْنَا الْيَشْكُرِيَّ فِي رَهْطٍ مِنْ بَنِي لَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِنَ الْقَوْمُ ؟ قُلْنَا:‏‏‏‏ بَنُو لَيْثٍ أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ حَدِيثِ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فِتْنَةٌ وَشَرٌّ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ هَذَا الشَّرِّ خَيْرٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَا حُذَيْفَةُ تَعَلَّمْ كِتَابَ اللَّهِ وَاتَّبِعْ مَا فِيهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ هَذَا الشَّرِّ خَيْرٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ فِيهَا أَوْ فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْهُدْنَةُ عَلَى الدَّخَنِ مَا هِيَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَرْجِعُ قُلُوبُ أَقْوَامٍ عَلَى الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ النَّارِ فَإِنْ تَمُتْ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَدًا مِنْهُمْ.

نصر بن عاصم لیثی کہتے ہیں کہ ہم بنی لیث کے کچھ لوگوں کے ساتھ یشکری کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا: ہم بنی لیث کے لوگ ہیں ہم آپ کے پاس حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پوچھنے آئے ہیں؟ تو انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فتنہ اور شر ہو گا" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس شر کے بعد پھر خیر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حذیفہ! اللہ کی کتاب کو پڑھو اور جو کچھ اس میں ہے اس کی پیروی کرو" آپ نے یہ تین بار فرمایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «هدنة على الدخن» ہو گا اور جماعت ہو گی جس کے دلوں میں کینہ و فساد ہو گا" میں نے عرض کیا:«هدنة على الدخن» کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں واپس آئیں گے جس پر پہلے تھے ۱؎" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک ایسا اندھا اور بہرا فتنہ ہو گا (اور اس کے قائد) جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہوں گے، تو اے حذیفہ! تمہارا جنگل میں درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جانا بہتر ہو گا اس بات سے کہ تم ان میں کسی کی پیروی کرو"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۲۴۵)، (تحفة الأشراف: ۳۳۰۷) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یعنی لوگوں کے دل پہلے کی طرح صاف نہیں ہوں گے ان کے دلوں میں بغض و کینہ باقی رہے گا۔

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4247

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَخْرِ بْنِ بَدْرِ الْعِجْلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ يَوْمَئِذٍ خَلِيفَةً فَاهْرُبْ حَتَّى تَمُوتَ فَإِنْ تَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ فِي آخِرِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا يَكُونُ بَعْدَ ذَلِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ رَجُلًا نَتَجَ فَرَسًا لَمْ تُنْتَجْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ.

اس سند سے بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے اس میں ہے کہ ان دنوں میں اگر مسلمانوں کا کوئی خلیفہ (حاکم)تمہیں نہ ملے تو بھاگ کر (جنگل میں) چلے جاؤ یہاں تک کہ وہیں مر جاؤ، اگر تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ (تو بہتر ہے ایسے بے دینوں میں رہنے سے) اس روایت کے آخر میں یہ ہے کہ میں نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کسی کی گھوڑی بچہ جننا چاہتی ہو تو وہ نہ جن سکے گی یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی ۱؎"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۴۲۴۴، (تحفة الأشراف: ۳۳۳۲) (حسن )

وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کے بعد قیامت بہت قریب ہو گی۔

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4248

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَفْعَلَ وَنَفْعَلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے کسی امام سے بیعت کی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، اور اس سے عہد و اقرار کیا تو اسے چاہیئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اس کی اطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا امام بن کر اس سے جھگڑنے آئے تو اس دوسرے کی گردن مار دے"۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں اسے میرے دونوں کانوں نے سنا ہے، اور میرے دل نے یاد رکھا ہے، میں نے کہا: یہ آپ کے چچا کے لڑکے معاویہ رضی اللہ عنہ ہم سے تاکیداً کہتے ہیں کہ ہم یہ یہ کریں تو انہوں نے کہا: ان کی اطاعت ان چیزوں میں کرو جس میں اللہ کی اطاعت ہو، اور جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اس میں ان کا کہنا نہ مانو۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الإمارہ ۱۰ (۱۸۴۴)، سنن النسائی/البیعة ۲۵ (۴۱۹۶)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۹ (۳۹۵۶)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۱، ۱۹۱، ۱۹۳) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4249

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ أَفْلَحَ مَنْ كَفَّ يَدَهُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خرابی اور بربادی ہے عربوں کے لیے اس شر سے جو قریب آ چکا ہے، اس میں وہی شخص فلاح یاب رہے گا جو اپنا ہاتھ روکے رکھے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۴۱۰)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ الفتن ۱ (۲۸۸۰)، سنن ابن ماجہ/ الفتن ۹ (۳۹۵۳)، مسند احمد (۲/۳۹۰، ۳۹۱، ۴۴۱، ۵۳۶، ۵۴۱) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4250

قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ حُدِّثْتُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُوشِكُ الْمُسْلِمُونَ أَنْ يُحَاصَرُوا إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى يَكُونَ أَبْعَدَ مَسَالِحِهِمْ سَلَاحِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب ہے کہ مسلمان مدینہ ہی میں محصور کر دئیے جائیں یہاں تک کہ ان کی عملداری صرف مقام سلاح تک رہ جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۸۱۸) وأعادہ المؤلف فی الملاحم (۴۲۹۹) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4251

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عنبسة، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَسَلَاحِ قَرِيبٌ مِنْ خَيْبَرَ.

ابن شہاب زہری کہتے ہیں اور سلاح خیبر کے قریب ایک جگہ ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4252

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ؟ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عِيسَى:‏‏‏‏ ظَاهِرِينَ ثُمَّ اتَّفَقَا لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ.

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی" یا فرمایا: "میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، انہیں قید کریں گے، اور میں اپنی امت پر گمراہ کر دینے والے ائمہ سے ڈرتا ہوں، اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو پھر وہ اس سے قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی، اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ میری امت کے کچھ لوگ مشرکین سے مل نہ جائیں اور کچھ بتوں کو نہ پوجنے لگ جائیں، اور عنقریب میری امت میں تیس (۳۰) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا (ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے) وہ غالب رہے گا، ان کا مخالف ان کو ضرر نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۵۳ (۱۹۲۰)، والفتن ۵ (۲۸۸۹)، سنن الترمذی/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۹ (۳۹۵۲)، (تحفة الأشراف: ۲۱۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۸، ۲۸۴) سنن الدارمی/المقدمة ۲۲ (۲۰۵) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4253

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَرَأْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَالِكٍ يَعْنِي الْأَشْعَرِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ أَجَارَكُمْ مِنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ:‏‏‏‏ أَنْ لَا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا يَظْهَرَ أَهْلُ الْبَاطِلِ عَلَى أَهْلِ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ لَا تَجْتَمِعُوا عَلَى ضَلَالَةٍ".

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ نے تمہیں تین آفتوں سے بچا لیا ہے: ایک یہ کہ تمہارا نبی تم پر ایسی بدعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، دوسری یہ کہ اہل باطل اہل حق پر غالب نہیں آئیں گے، تیسری یہ کہ تم سب گمراہی پر متفق نہیں ہو گے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۵۵) (ضعیف) حدیث کا آخری جملہ ( وأن لا تجتمعوا الخ) صحیح ہے

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4254

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِالْبَرَاءِ بْنِ نَاجِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "تَدُورُ رَحَى الْإِسْلَامِ لِخَمْسٍ وَثَلَاثِينَ أَوْ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ أَوْ سَبْعٍ وَثَلَاثِينَ فَإِنْ يَهْلَكُوا فَسَبِيلُ مَنْ هَلَكَ وَإِنْ يَقُمْ لَهُمْ دِينُهُمْ يَقُمْ لَهُمْ سَبْعِينَ عَامًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَمِمَّا بَقِيَ أَوْ مِمَّا مَضَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مِمَّا مَضَى"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ مَنْ قَالَ خِرَاشٍ فَقَدْ أَخْطَأَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام کی چکی پینتیس یا چھتیس یا سینتیس سال تک گردش میں رہے گی، پھر اگر وہ ہلاک ہوئے تو ان کی راہ وہی ہو گی جو ان لوگوں کی راہ رہی جو ہلاک ہوئے اور اگر ان کا دین قائم رہا تو ستر سال تک قائم رہے گا" میں نے عرض کیا: کیا اس زمانہ سے جو باقی ہے یا اس سے جو گزر گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس زمانہ سے جو گزر گیا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۱۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۹۰، ۳۹۳، ۳۹۵) (صحیح)

فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان

حد یث نمبر - 4255

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ الْعِلْمُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيُلْقَى الشُّحُّ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَّةُ هُوَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْقَتْلُ الْقَتْلُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ سمٹ جائے گا، علم کم ہو جائے گا، فتنے رونما ہوں گے، لوگوں پر بخیلی ڈال دی جائے گی، اور «هرج» کثرت سے ہو گا" آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل، قتل"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۲۴ (۸۵)، والفتنة ۲۵ (۷۰۶۱)، صحیح مسلم/الزکاة ۱۸ (۱۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۸۲)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۲۵ (۴۰۴۵)، ۲۶ (۴۰۵۱)، مسند احمد (۲/۲۳۳، ۴۱۷، ۵۲۵) (صحیح)

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4256

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ يَكُونُ الْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرًا مِنَ الْجَالِسِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجَالِسُ خَيْرًا مِنَ الْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَائِمُ خَيْرًا مِنَ الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي خَيْرًا مِنَ السَّاعِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تَأْمُرُنِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَلْيَعْمِدْ إِلَى سَيْفِهِ فَلْيَضْرِبْ بِحَدِّهِ عَلَى حَرَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيَنْجُ مَا اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ".

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب ایک ایسا فتنہ رونما ہو گا کہ اس میں لیٹا ہوا شخص بیٹھے ہوئے سے بہتر ہو گا، بیٹھا کھڑے سے بہتر ہو گا، کھڑا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے" عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت کے لیے آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس اونٹ ہو وہ اپنے اونٹ سے جا ملے، جس کے پاس بکری ہو وہ اپنی بکری سے جا ملے، اور جس کے پاس زمین ہو تو وہ اپنی زمین ہی میں جا بیٹھے" عرض کیا: جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس اس میں سے کچھ نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ اپنی تلوار لے کر اس کی دھار ایک پتھر سے مار کر کند کر دے (اسے لڑنے کے لائق نہ رہنے دے) پھر چاہیئے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے وہ (فتنوں سے) گلو خلاصی حاصل کرے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفتن ۳ (۲۸۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۹، ۴۸) (صحیح)

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4257

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُفَضِّلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَشْجَعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي وَبَسَطَ يَدَهُ لِيَقْتُلَنِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "كُنْ كَابْنَيْ آدَمَ وَتَلَا يَزِيدُ لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ سورة المائدة آية 28 الْآيَةَ.

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس حدیث میں کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! (اس فتنہ و فساد کے زمانہ میں) اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے، اور اپنا ہاتھ مجھے قتل کرنے کے لیے بڑھائے تو میں کیا کروں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم آدم کے نیک بیٹے (ہابیل) کی طرح ہو جاؤ"، پھر یزید نے یہ آیت پڑھی «لئن بسطت إلى يدك» ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۸۴۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الفتن ۲۹ (۲۱۹۴) (صحیح)(متابعات اور شواہد سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی حسین لین الحدیث ہیں)

وضاحت: ۱؎ : ’’ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھائے‘‘ ( سورۃ المائدۃ : ۲۸)

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4258

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ غَزْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاق بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ وَابِصَةَ الْأَسَدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ وَابِصَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ فَذَكَرَ بَعْضَ حَدِيثِ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَتْلَاهَا كُلُّهُمْ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَتَى ذَلِكَ يَا ابْنَ مَسْعُودٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تِلْكَ أَيَّامُ الْهَرْجِ حَيْثُ لَا يَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ الزَّمَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تَكُفُّ لِسَانَكَ وَيَدَكَ وَتَكُونُ حِلْسًا مِنْ أَحْلَاسِ بَيْتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ طَارَ قَلْبِي مَطَارَهُ فَرَكِبْتُ حَتَّى أَتَيْتُ دِمَشْقَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيتُ خُرَيْمَ بْنَ فَاتِكٍ فَحَدَّثْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَفَ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَسَمِعَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَدَّثَنِيهِ ابْنُ مَسْعُودٍ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا پھر انہوں نے ابی بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی بعض باتیں ذکر کیں اس میں یہ اضافہ ہے: "اس فتنہ میں جو لوگ قتل کئے جائیں گے وہ جہنم میں جائیں گے" اور اس میں مزید یہ ہے کہ میں نے پوچھا: ابن مسعود! یہ فتنہ کب ہو گا؟ کہا: یہ وہ زمانہ ہو گا جب قتل شروع ہو چکا ہو گا، اس طرح سے کہ آدمی اپنے ساتھی سے بھی مامون نہ رہے گا، میں نے عرض کیا: اگر میں یہ زمانہ پاؤں تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "تم اپنی زبان اور ہاتھ روکے رکھنا، اور اپنے گھر کے کمبلوں میں کا ایک کمبل بن جانا ۱؎، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے تو میرے دل میں یکایک خیال گزرا کہ شاید یہ وہی فتنہ ہو جس کا ذکر ابن مسعود نے کیا تھا، چنانچہ میں سواری پر بیٹھا اور دمشق آ گیا، وہاں خریم بن فاتک سے ملا اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے اس اللہ کی قسم کھا کر کہا جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہ اسے انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے جیسے ابن مسعود نے اسے مجھ سے بیان کیا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۳۵۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۴۸، ۴۴۹) (ضعف الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : اپنے گھر میں پڑے رہنا۔

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4259

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هُزَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، ‏‏‏‏‏‏الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، ‏‏‏‏‏‏فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ دُخِلَ يَعْنِي عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ".

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت سے پہلے کچھ فتنے ہیں جیسے تاریک رات کی گھڑیاں (کہ ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے) ان فتنوں میں صبح کو آدمی مومن رہے گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا، اور شام کو مومن رہے گا، اور صبح کو کافر ہو جائے گا، اس میں بیٹھا شخص کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، تو تم ایسے فتنے کے وقت میں اپنی کمانیں توڑ دینا، ان کے تانت کاٹ ڈالنا، اور اپنی تلواروں کی دھار کو پتھروں سے مار کر ختم کر دینا ۱؎، پھر اگر اس پر بھی کوئی تم میں سے کسی پر چڑھ آئے، تو اسے چاہیئے کہ وہ آدم کے نیک بیٹے (ہابیل) کے مانند ہو جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۳۳ (۲۲۰۴)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۰ (۳۹۶۱)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۸، ۴۱۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ان فتنوں سے بالکل کنارہ کش رہنا۔

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4260

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَقَبَةَ بْنِ مَصْقَلَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ آخِذًا بِيَدِ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ مِنْ طُرُقِ الْمَدِينَةِ إِذْ أَتَى عَلَى رَأْسٍ مَنْصُوبٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ شَقِيَ قَاتِلُ هَذَا فَلَمَّا مَضَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا أُرَى هَذَا إِلَّا قَدْ شَقِيَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ مَشَى إِلَى رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي لِيَقْتُلَهُ فَلْيَقُلْ هَكَذَا فَالْقَاتِلُ فِي النَّارِ وَالْمَقْتُولُ فِي الْجَنَّةِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُمَيْر أَو سُمَيْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُمَيْرَةَ |، قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ يَعْنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هُوَ فِي كِتَابِي ابْنُ سَبَرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا سُمَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا كَلَامُ أَبِي الْوَلِيدِ.

عبدالرحمٰن بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ کے راستوں میں سے ایک راستہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑے چل رہا تھا کہ وہ اچانک ایک لٹکے ہوئے سر کے پاس آئے اور کہنے لگے: بدبخت ہے جس نے اسے قتل کیا، پھر جب کچھ اور آگے بڑھے تو کہا: میں تو اسے بدبخت ہی سمجھ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو شخص میری امت میں سے کسی شخص کی طرف چلا تاکہ وہ اسے (ناحق) قتل کرے، پھر وہ اسے قتل کر دے تو قتل کرنے والا جہنم میں ہو گا، اور جسے قتل کیا گیا ہے وہ جنت میں ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۷۲۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۹۶، ۱۰۰) (ضعیف)

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4261

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا أَبَا ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فِيهِ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ يَعْنِي الْقَبْرَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ تَصْبِرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِي:‏‏‏‏ يَا أَبَا ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَنْتَ إِذَا رَأَيْتَ أَحْجَارَ الزَّيْتِ قَدْ غَرِقَتْ بِالدَّمِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا آخُذُ سَيْفِي وَأَضَعُهُ عَلَى عَاتِقِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذَنْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تَلْزَمُ بَيْتَكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ دُخِلَ عَلَيَّ بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ ثَوْبَكَ عَلَى وَجْهِكَ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ لَمْ يَذْكُرِ الْمُشَعَّثَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوذر!" میں نے عرض کیا: تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر انہوں نے حدیث ذکر کی اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوذر! اس دن تمہارا کیا حال ہو گا؟ جب مدینہ میں اتنی موتیں ہوں گی کہ گھر یعنی قبر ایک غلام کے بدلہ میں ملے گا؟" ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، یا کہا: اللہ اور اس کے رسول میرے لیے ایسے موقع پر کیا پسند فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "صبر کو لازم پکڑنا" یا فرمایا:"صبر کرنا"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اے ابوذر!" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ارشاد فرمائیں تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا کیا حال ہو گا جب تم احجار الزیت ۲؎ کو خون میں ڈوبا ہوا دیکھو گے" میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کے رسول میرے لیے پسند فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس جگہ کو لازم پکڑنا جہاں کے تم ہو ۳؎"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر اسے اپنے کندھے پر نہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تب تو تم ان کے شریک بن جاؤ گے" میں نے عرض کیا: پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھر کو لازم پکڑنا" میں نے عرض کیا: اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلواروں کی چمک تمہاری نگاہیں خیرہ کر دے گی تو تم اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لینا (اور قتل ہو جانا) وہ تمہارا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۰ (۳۹۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۹، ۱۶۳)، وأعادہ المؤلف فی الحدود (۴۴۰۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ایک قبر کی جگہ کے لئے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لئے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ۲؎ : مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ۳؎ : یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4262

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي كَبْشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، ‏‏‏‏‏‏الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ".

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے سامنے فتنے ہوں گے اندھیری رات کی گھڑیوں کی طرح ۱؎ ان میں صبح کو آدمی مومن رہے گا اور شام کو کافر، اور شام کو مومن رہے گا اور صبح کو کافر، اس میں بیٹھا ہوا کھڑے شخص سے بہتر ہو گا، اور کھڑا چلنے والے سے بہتر ہو گا، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا"، لوگوں نے عرض کیا: تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے گھر کا ٹاٹ بن جانا" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظرحدیث رقم : (۴۲۵۹)، (تحفة الأشراف: ۹۱۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ہر فتنہ پہلے فتنہ سے زیادہ بڑا ہو گا جیسے اندھیری رات کی ہر گھڑی پہلی سے زیادہ تاریک ہوتی ہے۔ ۲؎ : یعنی گھر میں پڑے رہنا۔

فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے

حد یث نمبر - 4263

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ الْمِصِّيصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ايْمُ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنَ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنْ جُنِّبَ الْفِتَنِ إِنَّ السَّعِيدَ لَمَنِ جُنِّبَ الْفِتَنَ وَلَمَنِ ابْتُلِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَبَرَ فَوَاهًا".

مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے دور رہا، اور جو اس میں پھنس گیا پھر اس نے صبر کیا تو پھر اس کا کیا کہنا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۴۲) (صحیح)

فتنے میں زبان کو قابو میں رکھنا

حد یث نمبر - 4264

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "سَتَكُونُ فِتْنَةٌ صَمَّاءُ بَكْمَاءُ عَمْيَاءُ مَنْ أَشْرَفَ لَهَا اسْتَشْرَفَتْ لَهُ وَإِشْرَافُ اللِّسَانِ فِيهَا كَوُقُوعِ السَّيْفِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب ایک بہرا گونگا اور اندھا فتنہ ہو گا ۱؎ جو اس میں جھانکے گا اسے وہ اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اور زبان چلانا اس میں ایسے ہو گا جیسے تلوار چلانا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۴۴) (ضعیف)

وضاحت: ۱؎ : فتنہ کے بہرے ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی حق بات سننے والا نہیں ہو گا، اور اس کے گونگے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں حق بات بولنے والا کوئی نہیں ہو گا۔

فتنے میں زبان کو قابو میں رکھنا

حد یث نمبر - 4265

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا لَيْثٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُل يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ زِيَادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ قَتْلَاهَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ لَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْجَمِ.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب ایک ایسا فتنہ ہو گا جو پورے عرب کو گھیر لے گا جو اس میں مارے جائیں گے جہنم میں جائیں گے، اس میں زبان کا چلانا تلوار چلانے سے بھی زیادہ سخت ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۱۶ (۲۱۷۸)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۲۱ (۳۹۶۷)، (تحفة الأشراف: ۸۶۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱۱، ۲۱۲) (ضعیف)

فتنے میں زبان کو قابو میں رکھنا

حد یث نمبر - 4266

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ زِيَادٌ:‏‏‏‏ سِيمِينُ كُوشَ.

عبداللہ بن عبدالقدوس نے «عن رجل يقال له زياد» کے بجائے «زیاد سیمین کوش» کہا ہے جس کے معنی سفید کان والا کے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۶۳۱)

فتنہ کے دنوں میں آبادی سے باہر دور چلے جانے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 4267

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَتَّبِعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۱۲ (۱۹)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۰)، المناقب ۲۵ (۳۶۰۰)، الرقاق ۳۴ (۶۴۹۵)، سنن النسائی/الإیمان ۳۰ (۵۰۳۹)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۳ (۳۹۸۰)، (تحفة الأشراف: ۴۱۰۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان ۶ (۱۶)، مسند احمد (۳/۶، ۳۰، ۴۳، ۵۷) (صحیح)

فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 4268

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ يَعْنِي فِي الْقِتَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ".

احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے(راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:"جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے" ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۲۲، (۳۱)، والدیات ۲ (۶۸۷۵)، والفتن ۱۰ (۷۰۸۲)، صحیح مسلم/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، سنن النسائی/المحاربة ۲۵ (۴۱۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۵۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۳، ۴۷، ۵۱) (صحیح)

فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 4269

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْحَسَنِ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ مُخْتَصَرًا.

اس سند سے بھی حسن سے اسی مفہوم کی حدیث مختصراً مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۵۵)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4270

حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدِ بْنِ دِهْقَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا فِي غَزْوَةِ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ بِذُلُقْيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ رَجُلُ مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ مِنْ أَشْرَافِهِمْ وَخِيَارِهِمْ يَعْرِفُونَ ذَلِكَ لَهُ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ هَانِئُ بْنُ كُلْثُومِ بْنِ شَرِيكٍ الْكِنَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زَكَرِيَّا وَكَانَ يَعْرِفُ لَهُ حَقَّهُ قَالَ لَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زَكَرِيَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلَّا مَنْ مَاتَ مُشْرِكًا أَوْ مُؤْمِنٌ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ هَانِئُ بْنُ كُلْثُومٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِيُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي زَكَرِيَّا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ"، ‏‏‏‏‏‏وَحَدَّثَ هَانِئُ بْنُ كُلْثُومٍ،‏‏‏‏ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ سَوَاءً.

خالد بن دہقان کہتے ہیں کہ جنگ قسطنطنیہ میں ہم ذلقیہ ۱؎ میں تھے، اتنے میں فلسطین کے اشراف و عمائدین میں سے ایک شخص آیا، اس کی اس حیثیت کو لوگ جانتے تھے، اسے ہانی بن کلثوم بن شریک کنانی کہا جاتا تھا، اس نے آ کر عبداللہ بن ابی زکریا کو سلام کیا، وہ ان کے مقام و مرتبہ سے واقف تھا، ہم سے خالد نے کہا: تو ہم سے عبداللہ بن زکریا نے حدیث بیان کی عبداللہ بن زکریا نے کہا میں نے ام الدرداء رضی اللہ عنہا سے سنا ہے وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے سنا ہے، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرما رہے تھے: "ہر گناہ کو اللہ بخش سکتا ہے سوائے اس کے جو مشرک ہو کر مرے یا مومن ہو کر کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے"، تو ہانی بن کلثوم نے کہا: میں نے محمود بن ربیع کو بیان کرتے سنا وہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے، اور عبادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا: "جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو، تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض"۔ خالد نے ہم سے کہا: پھر ابن ابی زکریا نے مجھ سے بیان کیا وہ ام الدرداء سے روایت کر رہے تھے، اور وہ ابوالدرداء سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "برابر مومن ہلکا پھلکا اور صالح رہتا ہے، جب تک وہ ناحق خون نہ کرے، اور جب وہ ناحق کسی کو قتل کر دیتا ہے تو تھک جاتا اور عاجز ہو جاتا ہے"۔ ہانی بن کلثوم نے بیان کیا، وہ محمود بن ربیع سے، محمود عبادہ بن صامت سے، عبادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اسی کے ہم مثل روایت کر رہے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۱۰۵، ۵۱۱۲، ۱۰۹۸۹، ۱۰۹۹۰ ) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ :  «ذُلُقْیَۃَ» : ذال اور لام کے ضمہ ، قاف کے سکون اور یاء کے فتحہ کے ساتھ روم کے ایک شہر کا نام ہے۔

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4271

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُبِارَكٍ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ أَوْ غَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ قَالَ خَالِدُ بْنُ دِهْقَانَ، ‏‏‏‏‏‏سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ يَحْيَى الْغَسَّانِيّ عَنْ، ‏‏‏‏‏‏قَوْلِهِ:‏‏‏‏ اعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي الْفِتْنَةِ فَيَقْتُلُ أَحَدُهُمْ فَيَرَى أَنَّهُ عَلَى هُدًى لَا يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ يَعْنِي مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ فَاعْتَبَطَ يَصُبُّ دَمَهُ صَبًّا.

خالد بن دہقان کہتے ہیں میں نے یحییٰ بن یحییٰ غسانی سے قول نبوی «اعتبط بقتلہ» کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے کہا: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو فتنے میں یہ سمجھ کر قتل کرتے ہیں کہ ہم ہدایت پر ہیں، پھر وہ اللہ سے توبہ و استغفار نہیں کرتے یعنی اس (قتل) سے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «اعتبط» اعتبط کے معنی (ناحق) خون بہانے کے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۴۴) (صحیح)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4272

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَالِدِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّخَارِجَةَ بْنَ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فِي هَذَا الْمَكَانِ يَقُولُ:‏‏‏‏ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:‏‏‏‏ "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا سورة النساء آية 93 بَعْدَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68 بِسِتَّةِ أَشْهُرٍ".

خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے اسی جگہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آیت کریمہ «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها» "اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا" (النساء: ۹۳) (سورۃ الفرقان کی آیت) «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» "اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے بجز حق کے قتل نہیں کرتے" (الفرقان: ۶۸) کے چھ مہینے کے بعد نازل ہوئی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/المحاربة ۲ (۴۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۳۷۰۶) (منکر)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4273

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَوْ حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا نَزَلَتِ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68 قَالَ مُشْرِكُو أَهْلِ مَكَّةَ:‏‏‏‏ قَدْ قَتَلْنَا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ وَدَعَوْنَا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَأَتَيْنَا الْفَوَاحِشَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ سورة الفرقان آية 70 فَهَذِهِ لِأُولَئِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَمَّا الَّتِي فِي النِّسَاءِ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93 الْآيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ إِذَا عَرَفَ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ ثُمَّ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ لَا تَوْبَةَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ هَذَا لِمُجَاهِدٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِلَّا مَنْ نَدِمَ".

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو آپ نے کہا: جب سورۃ الفرقان کی آیت «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق» نازل ہوئی تو اہل مکہ کے مشرک کہنے لگے: ہم نے بہت سی ایسی جانیں قتل کی ہیں جنہیں اللہ نے حرام کیا ہے اور ہم نے اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو پکارا ہے، اور برے کام کئے ہیں تو اللہ نے«إلا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا فأولئك يبدل الله سيئاتهم حسنات» "سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے" (الفرقان: ۷۰) نازل فرمائی تو یہ ان لوگوں کے لیے ہے۔ انہوں نے مزید کہا: اور سورۃ نساء کی آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» الآیۃ، ایسے وقت کے لیے ہے جب آدمی مسلمان ہو جائے اور شرعی احکام کو جان لے پھر جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کر دے تو ایسے شخص کی سزا جہنم ہو گی، اور اس کی توبہ بھی قبول نہ ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عباس کے اس قول کو مجاہد سے بیان کیا تو انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا سوائے اس شخص کے جو شرمندہ ہو (یعنی دل سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہو گی) ۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۲۹ (۳۸۵۵)، التفسیر ۱۶ (۴۵۹۰)، تفسیر سورة الفرقان ۲ (۴۷۶۴)، صحیح مسلم/التفسیر ح ۱۶ (۳۰۲۳)، سنن النسائی/المحاربة ۲ (۴۰۰۷)، (تحفة الأشراف: ۵۶۲۴) (صحیح)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4274

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ فِي وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سورة الفرقان آية 68 أَهْلِ الشِّرْكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَنَزَلَ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ سورة الزمر آية 53.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی قصہ میں مروی ہے کہ «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر» سے مراد اہل شرک ہیں اور آیت کریمہ «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله» "اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو جاؤ" (الزمر: ۵۳) نازل ہوئی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ التفسیر (زمر) ۱ (۴۸۸۰)، صحیح مسلم/ الإیمان ۵۴ (۱۲۲)، سنن النسائی/ المحاربة ۲ (۴۰۰۹)، (تحفة الأشراف: ۵۶۵۲) (صحیح)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4275

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا نَسَخَهَا شَيْءٌ".

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آیت کریمہ «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» (کا حکم باقی ہے) اسے کسی اور آیت نے منسوخ نہیں کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ التفسیر (سورة النساء) صحیح البخاری/ التفسیر ۱۶ (۴۵۹۰)، وتفسیر سورة الفرقان ۲ (۴۷۶۳)، صحیح مسلم/ التفسیر ۱۶ (۳۰۲۳)، سنن النسائی/ المحاربة ۲ (۴۰۰۵)، (تحفة الأشراف: ۵۶۲۱) (صحیح)

مومن کا قتل بڑا گناہ ہے

حد یث نمبر - 4276

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ "وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هِيَ جَزَاؤُهُ فَإِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنْهُ فَعَلَ".

ابومجلز سے اللہ تعالیٰ کے قول «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» کے متعلق مروی ہے کہ ایسے شخص کا بدلہ تو یہی ہے لیکن اگر اللہ اسے معاف کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۲۷) (حسن)

فتنہ میں قتل ہونے پر مغفرت کی امید رکھے جانے کا بیان

حد یث نمبر - 4277

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ فِتْنَةً فَعَظَّمَ أَمْرَهَا فَقُلْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَلَّا إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلُ"قَالَ:‏‏‏‏ سَعِيدٌ فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا.

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ نے ایک فتنہ اور اس کی ہولناکی کا ذکر کیا تو ہم نے یا لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس فتنہ نے ہم کو پا لیا تو ہم کو تو تباہ کر ڈالے گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہرگز نہیں، بس تمہارا قتل ہو جانا ہی کافی ہو گا"۔ سعید کہتے ہیں: میں نے اپنے بھائیوں کو (جمل و صفین میں) قتل ہوتے دیکھ لیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۴۶۹) (صحیح)

فتنہ میں قتل ہونے پر مغفرت کی امید رکھے جانے کا بیان

حد یث نمبر - 4278

حَدَثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ وَالزَّلَازِلُ وَالْقَتْلُ".

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب(دائمی) نہیں ہو گا اور دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۰۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۱۰، ۴۱۸) (صحیح)