سنن ابن ماجہ

فتنوں سے متعلق احکام و مسائل

کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا

حد یث نمبر - 3927

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ،‏‏‏‏ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا قَالُوهَا،‏‏‏‏ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا،‏‏‏‏ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ «لا إله إلا الله» نہ کہہ دیں، جب وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کر لیں (اور شرک سے تائب ہو جائیں) تو انہوں نے اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «حدیث حفص بن غیاث أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان ۸ (۲۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۳۶۷)، وحدیث أبي معاویة أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۰۴ (۲۶۴۰)، سنن الترمذی/الإیمان ۱ (۲۶۰۶)، سنن النسائی/المحاربة ۱ (۳۹۸۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۰۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱ (۱۳۹۹)، الجہاد ۱۰۲ (۲۹۴۶)، المرتدین ۳ (۶۹۲۴)، الاعتصام ۲ (۷۲۸۴)، مسند احمد (۲/۵۲۸)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: " ان کے حق کے بدلے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے اس کلمہ کے اقرار کے بعد کوئی ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر نافذ ہو گی مثلاً چوری کی تو ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو سو کوڑوں کی یا رجم کی سزا دی جائے گی، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ ۲؎: " اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے یا قابل حد جرم کا ارتکاب کریں گے، لیکن اسلامی عدالت اور حکام کے علم میں ان کا جرم نہیں آ سکا اور وہ سزا سے بچ گئے، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔

کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا

حد یث نمبر - 3928

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ،‏‏‏‏ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا قَالُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ،‏‏‏‏ إِلَّا بِحَقِّهَا،‏‏‏‏ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ".

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑتا رہوں جب تک وہ «لا إله إلا الله» کا اقرار نہ کر لیں، جب انہوں نے اس کا اقرار کر لیا، تو اپنے مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا، مگر ان کے حق کے بدلے، اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۸ (۲۱)، سنن النسائی/الجہاد ۱ (۳۰۹۲)، تحریم الدم ۱ (۳۹۸۲)،(تحفة الأشراف:۲۲۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۹۴)(صحیح)

کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا

حد یث نمبر - 3929

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ،‏‏‏‏ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّ أَبَاهُ أَوْسًا أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا لَقُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَقُصُّ عَلَيْنَا وَيُذَكِّرُنَا،‏‏‏‏ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَسَارَّهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اذْهَبُوا بِهِ فَاقْتُلُوهُ"،‏‏‏‏ فَلَمَّا وَلَّى الرَّجُلُ،‏‏‏‏ دَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "هَلْ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "اذْهَبُوا فَخَلُّوا سَبِيلَهُ،‏‏‏‏ فَإِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ،‏‏‏‏ حَرُمَ عَلَيَّ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ".

اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ حکایات و واقعات سنا کر ہمیں نصیحت فرما رہے تھے، کہ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے آپ کے کان میں کچھ باتیں کیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لے جا کر قتل کر دو"، جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر واپس بلایا، اور پوچھا: "کیا تم «لا إله إلا الله» کہتے ہو"؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ جاؤ اسے چھوڑ دو، کیونکہ مجھے لوگوں سے لڑائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کہیں، جب انہوں نے «لا إله إلا الله» کہہ دیا تو اب ان کا خون اور مال مجھ پر حرام ہو گیا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/تحریم ۱ (۳۹۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۷۳۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸)، سنن الدارمی/السیر ۱۰ (۲۴۹۰)(صحیح)

کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے سے ہاتھ روک لینا

حد یث نمبر - 3930

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ السُّمَيْطِ بْنِ السَّمِيرِ،‏‏‏‏ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَى نَافِعُ بْنُ الْأَزْرَقِ وَأَصْحَابُهُ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَلَكْتَ يَا عِمْرَانُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا هَلَكْتُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا الَّذِي أَهْلَكَنِي؟ قَالُوا:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ سورة الأنفال آية 39،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ قَاتَلْنَاهُمْ حَتَّى نَفَيْنَاهُمْ فَكَانَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ،‏‏‏‏ إِنْ شِئْتُمْ حَدَّثْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ بَعَثَ جَيْشًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ فَلَمَّا لَقُوهُمْ قَاتَلُوهُمْ قِتَالًا شَدِيدًا،‏‏‏‏ فَمَنَحُوهُمْ أَكْتَافَهُمْ،‏‏‏‏ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِي عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِالرُّمْحِ،‏‏‏‏ فَلَمَّا غَشِيَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِنِّي مُسْلِمٌ،‏‏‏‏ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ،‏‏‏‏ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ هَلَكْتُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا الَّذِي صَنَعْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ،‏‏‏‏ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي صَنَعَ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَهَلَّا شَقَقْتَ عَنْ بَطْنِهِ فَعَلِمْتَ مَا فِي قَلْبِهِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ لَوْ شَقَقْتُ بَطْنَهُ لَكُنْتُ أَعْلَمُ مَا فِي قَلْبِهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَلَا أَنْتَ قَبِلْتَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ،‏‏‏‏ وَلَا أَنْتَ تَعْلَمُ مَا فِي قَلْبِهِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى مَاتَ،‏‏‏‏ فَدَفَنَّاهُ فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَعَلَّ عَدُوًّا نَبَشَهُ،‏‏‏‏ فَدَفَنَّاهُ ثُمَّ أَمَرْنَا غِلْمَانَنَا يَحْرُسُونَهُ،‏‏‏‏ فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ لَعَلَّ الْغِلْمَانَ نَعَسُوا،‏‏‏‏ فَدَفَنَّاهُ ثُمَّ حَرَسْنَاهُ بِأَنْفُسِنَا،‏‏‏‏ فَأَصْبَحَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ فَأَلْقَيْنَاهُ فِي بَعْضِ تِلْكَ الشِّعَابِ.

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نافع بن ازرق اور ان کے اصحاب (و تلامیذ) آئے، اور کہنے لگے: عمران! آپ ہلاک و برباد ہو گئے! عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہلاک نہیں ہوا، انہوں نے کہا: کیوں نہیں، آپ ضرور ہلاک ہو گئے، تو انہوں نے کہا: آخر کس چیز نے مجھے ہلاک کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله» "کافروں و مشرکوں سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی شرک) باقی نہ رہے، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو جائے" (سورة الأنفال: 39)، عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے کفار سے اسی طرح لڑائی کی یہاں تک کہ ہم نے ان کو وطن سے باہر نکال دیا، اور دین پورا کا پورا اللہ کا ہو گیا، اگر تم چاہو تو میں تم سے ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ان لوگوں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ہاں، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، میں آپ کے ساتھ موجود تھا، اور آپ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کے مقابلے کے لیے بھیجا تھا، جب ان کی مڈبھیڑ مشرکوں سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی، آخر کار مشرکین نے اپنے کندھے ہماری جانب کر دئیے (یعنی ہار کر بھاگ نکلے)، میرے ایک رشتہ دار نے مشرکین کا تعاقب کر کے ایک مشرک پر نیزے سے حملہ کیا، جب اس کو پکڑ لیا، (اور کافر نے اپنے آپ کو خطرہ میں دیکھا) تو اس نے «أشهد أن لا إله إلا الله» کہہ کر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، لیکن اس نے اسے برچھی سے مار کر قتل کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ہلاک اور برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے کیا کیا"؟، ایک بار یا دو بار کہا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا وہ واقعہ بتایا جو اس نے کیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اس کا پیٹ کیوں نہیں پھاڑا کہ جان لیتے اس کے دل میں کیا ہے"؟، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر میں اس کا پیٹ پھاڑ دیتا تو کیا میں جان لیتا کہ اس کے دل میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے نہ تو اس کی بات قبول کی، اور نہ تمہیں اس کی دلی حالت معلوم تھی" ۱؎۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق خاموش رہے، پھر وہ کچھ ہی دن زندہ رہ کر مر گیا، ہم نے اسے دفن کیا، لیکن صبح کو اس کی لاش قبر کے باہر پڑی تھی، لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ کسی دشمن نے اس کی لاش نکال پھینکی ہے، خیر پھر ہم نے اس کو دفن کیا، اس کے بعد ہم نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفاظت کریں، لیکن پھر صبح اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی، ہم نے سمجھا کہ شاید غلام سو گئے (اور کسی دشمن نے آ کر پھر اس کی لاش نکال کر باہر پھینک دی)، آخر ہم نے اس کو دفن کیا، اور رات بھر خود پہرا دیا لیکن پھر اس کی لاش صبح کے وقت قبر کے باہر تھی، پھر ہم نے اس کی لاش ان گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ڈال دی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۸۲۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۸)(حسن) (سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، نیز علی بن مسہر کے یہاں نابینا ہونے کے بعد غرائب کی روایت ہے، لیکن اگلے طریق سے یہ حسن ہے بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)

وضاحت: ۱؎: اس لئے جب اس نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے آپ کو مسلمان کہا تو اسے چھوڑ دینا تھا۔ ۲؎: نافع بن ازرق وغیرہ نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں سے لڑنے کا مشورہ دیا، اور یہ سمجھے کہ آیت میں قتال کا حکم فتنہ کے دفع کرنے کے لئے ہے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو چھوڑ دیا ہے، جب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آیت میں فتنے سے شرک مراد ہے، اور مشرکین سے ہم ہی لوگوں نے لڑائی کی تھی، اور شرک کو مٹایا تھا، اب تم مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو جو کلمہ گو ہیں؟ تمہارا حال وہی ہو گا جو اس شخص کا ہوا کہ زمین نے اس کی لاش قبول نہیں کی، اس کو بار بار دفن کرتے تھے، اور زمین اس کو نکال کر قبرسے باہر پھینک دیتی تھی، مسلمان کو قتل کرنے کی یہی سزا ہے، دوسرے ایک صحابی سے منقول ہے کہ مسلمانوں کے آپسی فتنے میں ان کو بھی لڑنے کے لئے کہا گیا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اس واسطے کفار کے خلاف جنگ کی تھی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالی کا دین ایک ہو جائے اور تم اس لئے لڑتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو۔

 

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ حَفْصٍ الْأَيْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ السُّمَيْطِ،‏‏‏‏ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ،‏‏‏‏ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ:‏‏‏‏ فَنَبَذَتْهُ الْأَرْضُ،‏‏‏‏ فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الْأَرْضَ لَتَقْبَلُ مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَحَبَّ أَنْ يُرِيَكُمْ تَعْظِيمَ حُرْمَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".

اس سند سے بھی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ کے ساتھ روانہ کیا تو ایک مسلمان نے ایک مشرک پر حملہ کیا، پھر راوی نے وہی سابقہ قصہ بیان کیا، اور اتنا اضافہ کیا کہ زمین نے اس کو پھینک دیا، اس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمین تو اس سے بھی بدتر آدمی کو قبول کر لیتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تمہیں یہ دکھائے کہ «لا إله إلا الله» کی حرمت کس قدر بڑی ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۸۲۸)، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۵)(حسن) (آخری عمر میں حفص بن غیاث کے حافظہ میں معمولی تبدیلی آ گئی تھی، لیکن سابقہ طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، بوصیری نے اس کی تحسین کی ہے)

وضاحت: ۱؎: جب کافر نے «لا إله إلا الله» کہہ دیا تو اس کو چھوڑ دینا چاہئے اس شخص نے اس کلمے کا احترام نہیں کیا تو اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے تم کو دکھلا دی تاکہ آئندہ تم کو خیال رہے کہ کسی مسلمان کو مت قتل کرو۔

مومن کی جان و مال کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3931

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:‏‏‏‏ "أَلَا إِنَّ أَحْرَمَ الْأَيَّامِ يَوْمُكُمْ هَذَا،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ أَحْرَمَ الشُّهُورِ شَهْرُكُمْ هَذَا،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ أَحْرَمَ الْبَلَدِ بَلَدُكُمْ هَذَا،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ،‏‏‏‏ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا،‏‏‏‏ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا،‏‏‏‏ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ اشْهَدْ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پر فرمایا: "آگاہ رہو! تمام دنوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ دن ہے، آگاہ رہو! تمام مہینوں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ مہینہ ہے، آگاہ رہو! شہروں میں سب سے زیادہ حرمت والا تمہارا یہ شہر ہے، آگاہ رہو! تمہاری جان، تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں، آگاہ رہو! کیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام نہیں پہنچا دیا"؟، لوگوں نے عرض کیا: ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ تو گواہ رہ"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۲۲، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۸۰،۳۷۱)(صحیح)

مومن کی جان و مال کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3932

حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ أَبِي ضَمْرَةَ نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحِمْصِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَيْسٍ النَّصْرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ "مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ،‏‏‏‏ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ،‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ وَأَنْ،‏‏‏‏ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: "تو کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت (یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۲۸۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۷)(حسن) (سند میں نصر بن محمد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم:۸۹)

مومن کی جان و مال کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3933

حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ،‏‏‏‏ وَيُونُسُ بْنُ يَحْيَ،‏‏‏‏ جَمِيعًا،‏‏‏‏ عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البر والصلة ۱۰ (۲۵۶۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۷۷،۳۱۱،۳۶۰)(صحیح)

مومن کی جان و مال کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 3934

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هَانِئٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ الْجَنْبِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ حَدَّثَهُ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ،‏‏‏‏ وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ".

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان اور مال کا خوف اور ڈر نہ ہو، اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور گناہوں کو ترک کر دے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۰۳۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۰،۲۱،۲۲)(صحیح)

لوٹ مار سے ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3935

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً مَشْهُورَةً فَلَيْسَ مِنَّا".

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو علی الاعلان اور کھلم کھلا طور پر لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۲۵۹۱)،(تحفة الأشراف:۲۸۰۰)(ضعیف) لتدلیس ابن جریج وأبی الزبیر»

لوٹ مار سے ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3936

حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُقَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ،‏‏‏‏ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ،‏‏‏‏ وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ،‏‏‏‏ وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَبْصَارَهُمْ،‏‏‏‏ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب زانی زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب شرابی شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا، اور جب چور چوری کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا، جب لوٹ مار کرنے والا لوگوں کی نظروں کے سامنے لوٹ مار کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المظالم ۳۰ (۲۷۷۵)، الأشربة ۱ (۵۵۷۸)، الحدود ۱ (۶۷۷۲)، صحیح مسلم/الإیمان ۲۴ (۵۷)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۶۳)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة ۱۶ (۴۶۸۹)، سنن الترمذی/الإیمان ۱۱ (۲۶۲۵)، سنن النسائی/قطع السارق ۱ (۴۸۷۴)، الأشربة ۴۲ (۵۶۶۲،۵۶۶۳)، مسند احمد (۲/۲۴۳،۳۱۷،۳۷۶،۳۸۶،۳۸۹)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۳ (۲۰۳۷)، الأشربة ۱۱ (۲۱۵۲)(صحیح)

لوٹ مار سے ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3937

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ،‏‏‏‏ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنِ انْتَهَبَ نُهْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا".

عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجہاد ۷۰ (۲۵۸۱)، سنن الترمذی/النکاح ۲۹ (۱۱۲۳)، سنن النسائی/النکاح ۶۰ (۳۳۳۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۳۹،۴۴۱،۴۴۳،۴۴۵)(صحیح)

لوٹ مار سے ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 3938

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ،‏‏‏‏ عَنْ سِمَاكٍ،‏‏‏‏ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَصَبْنَا غَنَمًا لِلْعَدُوِّ،‏‏‏‏ فَانْتَهَبْنَاهَا،‏‏‏‏ فَنَصَبْنَا قُدُورَنَا،‏‏‏‏ فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُدُورِ،‏‏‏‏ فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ النُّهْبَةَ لَا تَحِلُّ".

ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں دشمن کی کچھ بکریاں ملیں تو ہم نے انہیں لوٹ لیا، اور انہیں ذبح کر کے ہانڈیوں میں چڑھا دیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان ہانڈیوں کے پاس ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ الٹ دی جائیں، چنانچہ وہ ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"لوٹ مار حلال نہیں ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۰۷۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۷۹)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ حکم عام ہے ہر ایک لوٹ کو شامل ہے معلوم ہوا دین اسلام میں کوئی لوٹ جائز نہیں، اور تہذیب کے بھی خلاف ہے، لوٹ میں کبھی کسی مسلمان کو ایذا و تکلیف پہنچتی ہے اس لئے بانٹ دینا بہتر ہے۔

مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے

حد یث نمبر - 3939

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ،‏‏‏‏ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۶۹)(تحفة الأشراف:۹۲۴۳،۹۲۵۱،۹۲۹۹)(صحیح)

مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے

حد یث نمبر - 3940

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَسْدِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو هِلَالٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ،‏‏‏‏ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۵۰۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۰)(حسن صحیح) (سند میں ابوہلال الراسبی اور محمد بن الحسن ہیں، اس لئے یہ حسن ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے

حد یث نمبر - 3941

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ شَرِيكٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعْدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ،‏‏‏‏ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ".

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کو گالی دینا فسق، اور اس سے لڑنا کفر ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۹۲۳، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۸)(صحیح)

(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو

حد یث نمبر - 3942

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ وَعْبَدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:‏‏‏‏ "اسْتَنْصِتِ النَّاسَ"،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: "لوگوں کو خاموش کرو" پھر فرمایا: "تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم ۴۳ (۱۲۱)، والمغازي ۷۷ (۴۴۰۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۹)، الفتن ۸ (۷۰۸۰)، صحیح مسلم/الإیمان ۲۹ (۶۵)، سنن النسائی/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۳۶)،(تحفة الأشراف:۳۲۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۸،۳۶۳،۳۶۶)، سنن الدارمی/ المناسک ۷۶ (۱۹۶۲)(صحیح)

(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو

حد یث نمبر - 3943

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "وَيْحَكُمْ أَوْ وَيْلَكُمْ،‏‏‏‏ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر افسوس ہے! یا (تمہارے لیے خرابی ہو!) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المغازي ۷۷ (۴۴۰۲،۴۴۰۳)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۶)، الحدود ۹ (۶۷۸۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۸)، الفتن ۸ (۷۰۷۷)، صحیح مسلم/الإیمان ۲۹ (۶۶)، سنن ابی داود/السنة ۱۶ (۴۶۸۶)، سنن النسائی/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۳۰)،(تحفة الأشراف:۷۴۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۸۵،۸۷،۱۰۴)(صحیح)

(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو

حد یث نمبر - 3944

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل،‏‏‏‏ عَنْ قَيْسٍ،‏‏‏‏ عَنْ الصُّنَابِحِ الْأَحْمَسِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَلَا إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ،‏‏‏‏ وَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ،‏‏‏‏ فَلَا تَقَتِّلُنَّ بَعْدِي".

صنابح احمسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا، اور تمہاری کثرت (تعداد) کی وجہ سے میں دوسری امتوں پر فخر کروں گا، تو تم میرے بعد آپس میں ایک دوسرے کو قتل مت کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۵۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۴۹)(صحیح)

مسلمان اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں ہیں

حد یث نمبر - 3945

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ حَابِسٍ الْيَمَانِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي عَهْدِهِ،‏‏‏‏ فَمَنْ قَتَلَهُ،‏‏‏‏ طَلَبَهُ اللَّهُ حَتَّى يَكُبَّهُ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ".

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان یعنی پناہ میں ہے، اب تمہیں چاہیئے کہ تم اللہ کے ذمہ و عہد کو نہ توڑو، پھر جو ایسے شخص کو قتل کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے بلا کر جہنم میں اوندھا منہ ڈالے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۵۹۱)، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰)(صحیح) (سند میں سعد بن ابراہیم اور حابس کے درمیان انقطاع ہے، لیکن طبرانی نے صحیح سند سے روایت کی ہے، اس لئے یہ صحیح ہے)

مسلمان اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں ہیں

حد یث نمبر - 3946

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نماز فجر پڑھی وہ اللہ تعالیٰ کی امان (پناہ) میں ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۵۷۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰)(ضعیف) (حسن بصری نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے صرف حدیث عقیقہ سنی ہے، اس لئے اس سند میں انقطاع ہے)

مسلمان اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں ہیں

حد یث نمبر - 3947

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُهَزِّمِ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمُؤْمِنُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بَعْضِ مَلَائِكَتِهِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن اللہ عزوجل کے نزدیک اس کے بعض فرشتوں سے زیادہ معزز و محترم ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۸۳۶)، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۵)(ضعیف) (سند میں ابوالمہزم یزید ین سفیان ضعیف ہے)

عصبیت کا بیان

حد یث نمبر - 3948

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ،‏‏‏‏ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ،‏‏‏‏ يَدْعُو إِلَى عَصَبِيَّةٍ،‏‏‏‏ أَوْ يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ،‏‏‏‏ فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص گمراہی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی دعوت دے، اور عصبیت کے سبب غضب ناک ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة ۱۳ (۱۸۴۸)، سنن النسائی/تحریم الدم ۲۴ (۴۱۱۹)،(تحفة الأشراف:۱۲۹۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۶،۳۰۶،۴۸۸)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: جاہلیت کے زمانے میں ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے نفسانیت اور تعصب کے جذبے سے لڑتا اور فخر و غرور اورتکبر اس کو قتل و قتال پر آمادہ کرتے، اور اپنے قبیلہ کی ناموری اور عزت کے لئے جان دیتا اور جان لیتا، پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے زمانہ میں جو شرعی سبب کے بغیر لڑائی کرے اس کا حکم بھی جاہلیت کا سا ہے، یعنی اس لڑائی میں کچھ ثواب نہیں بلکہ عذاب ہو گا، اور گمراہی کے جھنڈے کا یہی مطلب ہے کہ نہ شرع کے مطابق امام ہو، نہ شرع کے اصول و ضوابط کے لحاظ سے جہاد ہو، بلکہ یوں اپنی قوم کا فخر قائم رکھنے کے لئے کوئی لڑے اور مارا جائے تو ایسے لڑنے والے کو کچھ ثواب نہیں، سبحان اللہ، دین اسلام سے بڑھ کر اور کوئی دین کیسے اچھا ہو سکتا ہے، ہر آدمی کو اپنی قوم عزیز ہوتی ہے، لیکن اسلام میں یہ حکم ہے کہ اپنے قوم کی مدد بھی وہیں تک کر سکتا ہے، جب تک کہ وہ ظالم نہ ہو، اور انصاف اور شرع کے مطابق کاروائی کرے، لیکن جب قوم ظالم ہو اور انسانوں پر ظلم و زیادتی کرے، تو ایسی قوم سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کر لے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، اور جو لوگ عادل و منصف اور متبع شرع ہوں ان کا ساتھ دے، اور انہی کو اپنی قوم اور جماعت سمجھے۔

عصبیت کا بیان

حد یث نمبر - 3949

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ الْيُحْمِدِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَبَّادِ بْنِ كَثِيرٍ الشَّامِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ امْرَأَة مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ فُسَيْلَةُ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي،‏‏‏‏ يَقُولُ،‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُعِينَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ".

فسیلہ نامی ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا عصبیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ ظلم پر قوم کی مدد کرنا عصبیت ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۷۵۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ۱۲۱ (۵۱۱۹)مختصراً (ضعیف) (سند میں عباد بن کثیر اور فسیلہ ضعیف ہیں)

سواد اعظم (بڑی جماعت کے ساتھ رہنے) کا بیان

حد یث نمبر - 3950

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۱۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۷)(ضعیف جدا) (ابو خلف الاعمی حازم بن عطاء متروک اور کذاب ہے، اور معان ضعیف، لیکن حدیث کا پہلا جملہ صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: یہاں پر سواد اعظم کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی مناسب ہے کہ زیر نظر حدیث میں اختلاف کے وقت سواد اعظم سے جڑنے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ حدیث کا یہ ٹکڑا ابوخلف الاعمی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے، اگر اس کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد حق پر چلنے والی جماعت ہی ہو گی، نبی اکرم ﷺ کی جب بعثت ہوئی تو آپ کی دعوت کو قبول کرنے والے اقلیت ہی میں تھے، اور وہ حق پر تھے، اور حق ان کے ساتھ تھا، یہی حال تمام انبیاء و رسل اور ان کے متبعین کا رہا ہے کہ وہ وحی کی ہدایت پر چل کر کے اہل حق ہوئے اور ان کے مقابلے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی، خلاصہ یہ کہ صحابہ تابعین،تبع تابعین اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہی سواد اعظم ہیں، چاہے ان کی جماعت قلیل ہو یا کثیر، قلت اور کثرت سے ان کا حق متاثر نہیں ہو گا، اور اہل حق کا یہ گروہ قلت اور کثرت سے قطع نظر ہمیشہ تاقیامت موجود ہو گا، اور حق پر نہ چلنے والوں کی اقلیت یا اکثریت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، ان شاء اللہ العزیز۔ اس ضعیف ترین حدیث کے آخری فقرہ: «فعليكم بالسواد الأعظم» کو دلیل بنا کر ملت اسلامیہ کے جاہل لوگ اور دین سے کوسوں دور والی اکثریت پر فخرکرنے والوں کو صحیح احادیث کی پرکھ کا ذوق ہی نہیں، اسی لیے وہ بے چارے اس آیت کریمہ: «من الذين فرقوا دينهم وكانوا شيعا كل حزب بما لديهم فرحون» (سورة الروم:32) کے مصداق ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے پھوٹ ڈالی (قرآن و سنت والے اصلی اور فطری دین کو چھوڑ کر اپنے الگ الگ دین بنا لیے اور وہ خود کئی گروہ میں بٹ گئے، اور پھر ہر گروہ اپنے جھوٹے اعتقاد پر خوش ہے، پھولا نہیں سماتا، حقیقت میں یہ لوگ اسی آیت کریمہ کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ قرآن کہہ رہا ہے: «وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله إن يتبعون إلا الظن وإن هم إلا يخرصون» (سورة الأنعام: 116) " اے نبی! آپ اگر ان لوگوں کے کہنے پر چلیں جن کی دنیا میں اکثریت ہے (سواد اعظم والے) تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے، یہ لوگ صرف اپنے خیالات پر چلتے ہیں، اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں) پھر اس سواد اعظم والی منکر اور سخت ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیحین میں موجود معاویہ رضی اللہ عنہ والی حدیث قیامت تک کے لیے کس قدر عظیم سچ ہے کہ جس کا انکار کوئی بھی صاحب عقل و عدل مومن عالم نہیں کر سکتا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: «لايزال من أمتي أمة قائمة بأمر الله، لايضرهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم على ذلك» " میری امت کا ایک گروہ برابر اور ہمیشہ اللہ کے حکم (قرآن و حدیث) پرقائم رہے گا، کوئی ان کو جھٹلائے اور ان کی مدد سے دور رہے، اور ان کے خلاف کرے، ان کا کچھ نقصان نہ ہو گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آ پہنچے اور وہ اسی (قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے والی) حالت میں ہوں گے " (صحیح البخاری، کتاب التوحید حدیث نمبر ۷۴۶۰)، صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں: «لاتزال طائفة من أمتي قائمة بأمر الله، لايضرهم من خذلهم أو خالفهم، حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس» (کتاب الإمارۃ) یہاں اس روایت میں امت کی جگہ«طائفہ» کا کلمہ آیا ہے، اور طائفہ امت سے کم کی تعداد ظاہر کرتا ہے (بلکہ دوسری روایات میں «عصابہ» کا لفظ آیا ہے، جس سے مزید تعداد کی کمی کا پتہ چلتا ہے) یعنی کسی زمانہ میں ان اہل حق، کتاب و سنت پر عمل کرنے والوں کی تعداد ایک امت کے برابر ہو گی، کسی دور میں کسی جگہ «طائفہ» کے برابر اور کسی زمانہ میں«عصابہ» کے برابر۔ اور یہ کہ «وهم ظاهرون على الناس» " اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے " سبحان اللہ، نبی آخر الزماں ﷺ کا فرمان کس قدر حق اور سچ ہے، اور آپ کے نبی برحق ہونے کی دلیل کہ آج بھی صرف قرآن و سنت پر عمل کرنے والے لوگ جو سلف صالحین اور ائمہ کرام و علمائے امت کے اقرب إلی القرآن والسنہ ہر اجتہاد و رائے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں، معاملہ امت اسلامیہ کے اندر کا ہو یا باہر کا، دین حق پر ہونے کے اعتبار سے یہ اللہ کے صالح بندے ہمیشہ سب پر غالب نظر آتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: یہ گروہ اگر اہل حدیث کا نہیں ہے تو میں نہیں جانتا کہ اور کون ہیں؟ مندرجہ بالاصحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: اب اہل بدعت و ضلالت کا وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ، پر نبی اکرم ﷺ کا فرمانا خلاف نہیں ہو سکتا، اب بھی ایک فرقہ مسلمانوں کا باقی ہے جو محمدی کے لقب سے مشہور ہے، اور اہل توحید، اہل حدیث اور موحد یہ سب ان کے نام ہیں، یہ فرقہ قرآن اور حدیث پر قائم ہے،اور باوجود صدہا ہزارہا فتنوں کے یہ فرقہ (گروہ اور جماعت) بدعت و گمراہی سے اب بھی بچا ہوا ہے، اور اس زمانہ میں یہی لوگ اس حدیث کے مصداق ہیں۔

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3951

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةً فَأَطَالَ فِيهَا،‏‏‏‏ فَلَمَّا انْصَرَفَ،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ أَوْ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلَاةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ،‏‏‏‏ سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِأُمَّتِي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ،‏‏‏‏ وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً،‏‏‏‏ سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا،‏‏‏‏ وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِيهَا،‏‏‏‏ وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے)عرض کیا: اللہ کے رسول! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۴۰)(صحیح)(تراجع الألبانی: رقم:۴۰۶)

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3952

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْجَرْمِيِّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "زُوِيَتْ لِي الْأَرْضُ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا،‏‏‏‏ وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَصْفَرَ أَوِ الْأَحْمَرَ،‏‏‏‏ وَالْأَبْيَضَ يَعْنِي:‏‏‏‏ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ،‏‏‏‏ وَقِيلَ لِي:‏‏‏‏ إِنَّ مُلْكَكَ إِلَى حَيْثُ زُوِيَ لَكَ،‏‏‏‏ وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا:‏‏‏‏ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِي جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ بِهِ عَامَّةً،‏‏‏‏ وَأَنْ لَا يَلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ قِيلَ لِي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَلَا مَرَدَّ لَهُ،‏‏‏‏ وَإِنِّي لَنْ أُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِكَ جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ فِيهِ،‏‏‏‏ وَلَنْ أَجْمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يُفْنِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَيَقْتُلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا،‏‏‏‏ وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي فَلَنْ يُرْفَعَ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ،‏‏‏‏ وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ،‏‏‏‏ وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ،‏‏‏‏ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ،‏‏‏‏ وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ،‏‏‏‏ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ:‏‏‏‏ لَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَهْوَلَهُ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی)حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے ۲؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں: جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا: یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة ۵۳ (۱۹۲۰)، الفتن ۵ (۲۸۸۹)إلی قولہ: ''بعضھم بعضاً'' مع فقرة الطائفة المنصورة، سنن ابی داود/الفتن ۱ (۴۲۵۲)، سنن الترمذی/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)،(تحفة الأشراف:۲۱۰۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۸،۲۸۴)، سنن الدارمی/المقدمة ۲۲ (۲۰۵)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس سے روم و ایران کے خزانے مرادہیں۔ ۲؎: یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ ﷺ کا کھلا معجزہ ہے، آپ نے فرمایا: " مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے " اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اور بربر تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا۔

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3953

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْحَبِيبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ،‏‏‏‏ أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ،‏‏‏‏ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ،‏‏‏‏ وَمَأْجُوجَ"وَعَقَدَ بِيَدَيْهِ عَشَرَةً،‏‏‏‏ قَالَتْ زَيْنَبُ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".

ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا مبارک چہرہ سرخ تھا، اور آپ فرما رہے تھے: " «لا إله إلا الله» عرب کے لیے تباہی ہے اس فتنے سے جو قریب آ گیا ہے، آج یاجوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کی گرہ بنائی" ۱؎، زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ حالانکہ ہم میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، جب معصیت (برائی) عام ہو جائے گی" ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۶ (۳۳۴۶)، صحیح مسلم/الفتن ۱ (۲۸۸۰)، سنن الترمذی/الفتن ۲۳ (۲۱۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۲۸،۴۳۹)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: دس کی گرہ یہ ہے کہ شہادت کی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کے پہلے موڑپر رکھ کردائرہ بنایا جائے۔ ۲؎: تو نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب آئے گا، یاجوج اور ماجوج دو قومیں ہیں، جو قیامت کے قریب نکلیں گی۔

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3954

حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي السَّائِبِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ،‏‏‏‏ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سَتَكُونُ فِتَنٌ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا،‏‏‏‏ إِلَّا مَنْ أَحْيَاهُ اللَّهُ بِالْعِلْمِ".

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب کئی فتنے ظاہر ہوں گے، جن میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، اور شام کو کافر ہو جائے گا مگر جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعہ زندہ رکھے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۱۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۸۹)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۰)(ضعیف جداً) (سند میں علی بن یزید منکر الحدیث اور متروک ہے، علم کے جملہ کے بغیر اصل متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۳۶۹۶)

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3955

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ،‏‏‏‏ قَالَ حُذَيْفَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ "فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ،‏‏‏‏ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ،‏‏‏‏ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ"،‏‏‏‏ فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ،‏‏‏‏ إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ،‏‏‏‏ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا بَلْ يُكْسَرُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ أَجْدَرُ أَنْ لَا يُغْلَقَ،‏‏‏‏ قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ:‏‏‏‏ أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ،‏‏‏‏ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ،‏‏‏‏ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنِ الْبَابُ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ:‏‏‏‏ سَلْهُ فَسَأَلَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ.

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری یہ مراد نہیں ہے، بلکہ میری مراد وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موج کی طرح امنڈ آئے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ کو اس فتنے سے کیا سروکار، آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے، تو انہوں نے پوچھا: کیا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ؛ بلکہ وہ توڑ دیا جائے گا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر وہ کبھی بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ۱؎۔ ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ جواب دیا: ہاں، وہ ایسے ہی جانتے تھے جیسے یہ جانتے ہیں کہ کل سے پہلے رات ہے، میں نے ان سے ایک ایسی حدیث بیان کی تھی جس میں کوئی دھوکا جھوٹ اور مغالطہٰ نہ تھا، پھر ہمیں خوف محسوس ہوا کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کریں کہ اس دروازے سے کون شخص مراد ہے؟ پھر ہم نے مسروق سے کہا: تم ان سے پوچھو، انہوں نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ دروازہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہیں (جن کی ذات تمام بلاؤں اور فتنوں کی روک تھی)۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت ۴ (۵۲۵)، صحیح مسلم/الإیمان ۶۵ (۱۴۴)، سنن الترمذی/الفتن ۷۱ (۲۲۵۸)،(تحفة الأشراف:۳۳۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۰۱)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے جائیں گے اور آپ کی شہادت سے فتنوں کا دروازہ ایسا کھلے گا کہ قیامت تک بند نہیں ہو گا، بلاشبہ ایسا ہی ہوا آپ کی رحلت کے بعد طرح طرح کے فتنے رونما ہوئے۔

(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 3956

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ،‏‏‏‏ ووكيع،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ،‏‏‏‏ عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ،‏‏‏‏ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ،‏‏‏‏ إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ،‏‏‏‏ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ،‏‏‏‏ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ،‏‏‏‏ إِذْ نَادَى مُنَادِيهِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ فَاجْتَمَعْنَا،‏‏‏‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَخَطَبَنَا فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي،‏‏‏‏ إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ،‏‏‏‏ وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا،‏‏‏‏ وَإِنَّ آخِرَهُمْ يُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ تَجِيءُ فِتَنٌ يُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا،‏‏‏‏ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ:‏‏‏‏ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَجِيءُ فِتْنَةٌ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ:‏‏‏‏ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ،‏‏‏‏ فَمَنْ سَرَّهُ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ،‏‏‏‏ فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ،‏‏‏‏ وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ،‏‏‏‏ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَمِينِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ،‏‏‏‏ فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مِنْ بَيْنِ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ اللَّهَ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى أُذُنَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي.

عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے، اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، تو میں نے ان کو کہتے سنا: اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، آپ نے ایک جگہ قیام کیا، تو ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی تیر چلا رہا تھا، اور کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا، اتنے میں ایک منادی نے آواز لگائی کہ لوگو! نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو ہم نماز کے لیے جمع ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا، اور فرمایا: "مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں ان پر ضروری تھا کہ وہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں جن کو وہ ان کے لیے بہتر جانتے ہوں، اور انہیں ان چیزوں سے ڈرائیں جن کو وہ ان کے لیے بری جانتے ہوں، اور تمہاری اس امت کی سلامتی اس کے شروع حصے میں ہے، اور اس کے اخیر حصے کو بلا و مصیبت لاحق ہو گی، اور ایسے امور ہوں گے جن کو تم برا جانو گے، پھر ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک کے سامنے دوسرا ہلکا محسوس ہو گا، مومن کہے گا: اس فتنے میں میری تباہی ہے، پھر وہ فتنہ ختم ہو جائے گا، اور دوسرا فتنہ آئے گا، مومن کہے گا: اس میں میری تباہی ہے پھر وہ بھی ختم ہو جائے گا، تو جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے تو وہ کوشش کرے کہ اس کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں، اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے، اور اس کو اپنی قسم کا ہاتھ دے کر دل سے سچا عہد کرے تو اب جہاں تک ہو سکے اس کی اطاعت کرے، اگر کوئی دوسرا امام آ کر اس سے لڑنے جھگڑنے لگے (اور اپنے سے بیعت کرنے کو کہے) تو اس دوسرے امام کی گردن مار دے"۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے (یہ سن کر) اپنا سر لوگوں میں سے نکال کر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے کانوں کی جانب اشارہ کر کے کہا: میرے کانوں نے اسے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة ۱۰ (۱۸۴۴)، سنن ابی داود/الفتن ۱ (۴۲۴۸)، سنن النسائی/البیعة ۲۵ (۴۱۹۶)،(تحفة الأشراف:۸۸۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۱،۱۹۱،۱۹۳)(صحیح)

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3957

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ بِكُمْ وَبِزَمَانٍ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ،‏‏‏‏ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً،‏‏‏‏ وَتَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ،‏‏‏‏ فَاخْتَلَفُوا وَكَانُوا هَكَذَا"وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ كَيْفَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "تَأْخُذُونَ بِمَا تَعْرِفُونَ وَتَدَعُونَ مَا تُنْكِرُونَ،‏‏‏‏ وَتُقْبِلُونَ عَلَى خَاصَّتِكُمْ وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَوَامِّكُمْ".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا اس زمانہ میں کیا حال ہو گا جو عنقریب آنے والا ہے؟ جس میں لوگ چھانے جائیں گے (اچھے لوگ سب مر جائیں گے) اور خراب لوگ باقی رہ جائیں گے (جیسے چھلنی میں آٹا چھاننے سے بھوسی باقی رہ جاتی ہے)، ان کے عہد و پیمان اور امانتوں کا معاملہ بگڑ چکا ہو گا، اور لوگ آپس میں الجھ کر اور اختلاف کر کے اس طرح ہو جائیں گے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت ہم کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بات تمہیں معروف (اچھی) معلوم ہو اسے اپنا لینا، اور جو منکر (بری) معلوم ہو اسے چھوڑ دینا، اور تم اپنے خصوصی معاملات و مسائل کی فکر کرنا، اور عام لوگوں کے مائل کی فکر چھوڑ دینا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۲)،(تحفة الأشراف:۸۸۹۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۸ (۴۸۰)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: جب عوام سے ضرر اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو امر بالمعروف اور نہی المنکر کے ترک کی اجازت ہے۔ یعنی بھلی باتوں کا حکم نہ دینے اور بری باتوں سے نہ روکنے کی اجازت، ایسے حالات میں کہ آدمی کو دوسروں سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3958

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي ذَرٍّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ؟ وَمَوْتًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى يُقَوَّمَ الْبَيْتُ بِالْوَصِيفِ"يَعْنِي:‏‏‏‏ الْقَبْرَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "تَصَبَّرْ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ؟ أَنْتَ وَجُوعًا يُصِيبُ النَّاسَ،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْتِيَ مَسْجِدَكَ فَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى فِرَاشِكَ،‏‏‏‏ وَلَا تَسْتَطِيعَ أَنْ تَقُومَ مِنْ فِرَاشِكَ إِلَى مَسْجِدِكَ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،‏‏‏‏ أَوْ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "عَلَيْكَ بِالْعِفَّةِ"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ أَنْتَ وَقَتْلًا يُصِيبُ النَّاسَ حَتَّى تُغْرَقَ حِجَارَةُ الزَّيْتِ بِالدَّمِ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "الْحَقْ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَفَلَا آخُذُ بِسَيْفِي فَأَضْرِبَ بِهِ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا وَلَكِنْ ادْخُلْ بَيْتَكَ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ دُخِلَ بَيْتِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ،‏‏‏‏ فَأَلْقِ طَرَفَ رِدَائِكَ عَلَى وَجْهِكَ فَيَبُوءَ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ فَيَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ".

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوذر! اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس وقت تم صبر سے کام لینا"، پھر فرمایا: "اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت نہ ہو گی اور نہ ہی بستر سے اٹھ کر مسجد تک آنے کی قوت ہو گی، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، یا کہا (اللہ اور اس کا رسول جو میرے لیے پسند کرے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اس وقت) تم اپنے اوپر پاک دامنی کو لازم کر لینا"، پھر فرمایا: "تم اس وقت کیا کرو گے جب (مدینہ میں) لوگوں کا قتل عام ہو گا، حتیٰ کہ مدینہ میں ایک پتھریلا مقام «حجارة الزيت» ۲؎ خون میں ڈوب جائے گا"، میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول جو میرے لیے پسند فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان لوگوں سے مل جانا جن سے تم ہو"(یعنی اپنے اہل خاندان کے ساتھ ہو جانا) ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر ان لوگوں کو نہ ماروں جو ایسا کریں؟"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم ایسا کرو گے تب تو تم بھی انہیں لوگوں میں شریک ہو جاؤ گے، تمہیں چاہیئے کہ (چپ چاپ ہو کر) اپنے گھر ہی میں پڑے رہو" ۳؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر وہ میرے گھر میں گھس آئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہیں ڈر ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آ جائے گی، تو اپنی چادر کا کنارا منہ پر ڈال لینا، (قتل ہو جانا) وہ قتل کرنے والا اپنا اور تمہارا دونوں کا گناہ اپنے سر لے گا، اور وہ جہنمی ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ:(تحفة الأشراف:۱۱۹۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۰)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الفتن ۲ (۴۲۶۱)، بدون ذکر الجوع و العفة، مسند احمد (۵/۱۴۹،۱۶۳)(صحیح)(ملا حظہ ہو: الإرواء:۲۴۵۱)

وضاحت: ۱؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لیے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لیے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔ ۲؎: «حجارة الزيت» مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔ ۳؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3959

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَوْفٌ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَسِيدُ بْنُ الْمُتَشَمِّسِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لَهَرْجًا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْقَتْلُ"،‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّا نَقْتُلُ الْآنَ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ كَذَا وَكَذَا،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ بِقَتْلِ الْمُشْرِكِينَ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ يَقْتُلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا،‏‏‏‏ حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ،‏‏‏‏ وَابْنَ عَمِّهِ،‏‏‏‏ وَذَا قَرَابَتِهِ"،‏‏‏‏ فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَعَنَا عُقُولُنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ ذَلِكَ الزَّمَانِ،‏‏‏‏ وَيَخْلُفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ لَا عُقُولَ لَهُمْ"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ الْأَشْعَرِيُّ:‏‏‏‏ وَايْمُ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا مُدْرِكَتِي،‏‏‏‏ وَإِيَّاكُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجٌ،‏‏‏‏ إِنْ أَدْرَكَتْنَا فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ كَمَا دَخَلْنَا فِيهَا.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا: "قیامت سے پہلے «ہرج» ہو گا"، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!«ہرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل"، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا"، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! کیا اس وقت ہم لوگ عقل و ہوش میں ہوں گے کہ نہیں"؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں سلب کر لی جائیں گی، اور ان کی جگہ ایسے کم تر لوگ لے لیں گے جن کے پاس عقلیں نہیں ہوں گی"۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ زمانہ مجھے اور تم کو پا لے، اللہ کی قسم! اگر ایسا زمانہ مجھ پر اور تم پر آ گیا تو ہمارے اور تمہارے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وصیت کی ہے، سوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۹۸۰، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۱،۳۹۲،۴۰۶،۴۱۴)(صحیح)(سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۶۸۲)

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3960

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ حُرْدَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَتْنِيعُدَيْسَةُ بِنْتُ أُهْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمَّا جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ هَاهُنَا الْبَصْرَةَ دَخَلَ عَلَى أَبِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ أَلَا تُعِينُنِي عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا جَارِيَةً لَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا جَارِيَةُ،‏‏‏‏ أَخْرِجِي سَيْفِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخْرَجَتْهُ فَسَلَّ مِنْهُ قَدْرَ شِبْرٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ خَشَبٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ"إِذَا كَانَتِ الْفِتْنَةُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ فَأَتَّخِذُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ"،‏‏‏‏ فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ مَعَكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا حَاجَةَ لِي فِيكَ،‏‏‏‏ وَلَا فِي سَيْفِكَ.

عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ "جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہو جائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں"، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا: مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۳۳ (۲۲۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۷۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۶۹،۶/۳۹۳)(حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کر دیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3961

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ،‏‏‏‏ عَنْ هُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ،‏‏‏‏ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا،‏‏‏‏ وَيُمْسِي كَافِرًا،‏‏‏‏ وَيُمْسِي مُؤْمِنًا،‏‏‏‏ وَيُصْبِحُ كَافِرًا،‏‏‏‏ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ،‏‏‏‏ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي،‏‏‏‏ وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي،‏‏‏‏ فَكَسِّرُوا قِسِيَّكُمْ،‏‏‏‏ وَقَطِّعُوا أَوْتَارَكُمْ،‏‏‏‏ وَاضْرِبُوا بِسُيُوفِكُمُ الْحِجَارَةَ،‏‏‏‏ فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ".

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے قریب ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے حصے، ان میں آدمی صبح کو مومن ہو گا، تو شام کو کافر ہو گا اور شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو گا، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، اور ان فتنوں میں تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمان کے تانت کاٹ ڈالنا، اپنی تلواریں پتھر پر مار کر کند کر لینا، اور اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس جائے تو آدم کے دونوں بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح ہو جا نا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفتن ۲ (۴۲۵۹)، سنن الترمذی/الفتن ۳۳ (۲۲۰۴)،(تحفة الأشراف:۹۰۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۸،۴۱۶)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: جنہوں نے اپنے بھائی قابیل سے کہا: تو مجھے اگر مارے گا تب بھی تجھے نہیں ماروں گا، مطلب آپ کا یہ ہے کہ ان فتنوں میں لڑنا اور مسلمانوں کو مارنا گویا فتنہ کی تائید کرنا ہے، پس گھر میں خاموشی سے بیٹھے رہنا مناسب ہے، اور جس قدر کوئی زیادہ حرکت کرے گا اتنا ہی وہ برا ہے۔

فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3962

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ ثَابِتٍ،‏‏‏‏ أَوْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ،‏‏‏‏ شَكَّ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ وَفُرْقَةٌ وَاخْتِلَافٌ،‏‏‏‏ فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَأْتِ بِسَيْفِكَ أُحُدًا فَاضْرِبْهُ حَتَّى يَنْقَطِعَ،‏‏‏‏ ثُمَّ اجْلِسْ فِي بَيْتِكَ حَتَّى تَأْتِيَكَ يَدٌ خَاطِئَةٌ،‏‏‏‏ أَوْ مَنِيَّةٌ قَاضِيَةٌ"،‏‏‏‏ فَقَدْ وَقَعَتْ وَفَعَلْتُ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہت جلد ایک فتنہ ہو گا، فرقہ بندی ہو گی اور اختلاف ہو گا، جب یہ زمانہ آئے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر آنا، اور اس پر اسے مارنا کہ وہ ٹوٹ جائے، اور پھر اپنے گھر بیٹھ جانا یہاں تک کہ کوئی خطاکار ہاتھ تمہیں قتل کر دے، یا موت آ جائے جو تمہارا کام تمام کر دے"۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ فتنہ آ گیا ہے، اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماحہ،(تحفة الأشراف:۱۱۲۳۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۹۳،۴/۲۲۶)(صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۳۸۰)

جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 3963

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سُحَيْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ الْتَقَيَا بِأَسْيَافِهِمَا،‏‏‏‏ إِلَّا كَانَ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۶۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۳)(صحیح) (سند میں مبارک بن سحیم متروک راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر اصل حدیث صحیح ہے، کما سیاتی)

جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 3964

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ،‏‏‏‏ وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْالْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ".

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۲۳)،(تحفة الأشراف:۸۹۸۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۱،۴۰۳،۴۱۰،۴۱۸)(صحیح)

جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 3965

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ عَنْ مَنْصُورٍ،‏‏‏‏ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلَاحَ فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ،‏‏‏‏ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ دَخَلَاهَا جَمِيعًا".

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفتن (۷۰۸۳تعلیقاً)، صحیح مسلم/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، سنن النسائی/تحریم الدم ۲۵ (۴۱۲۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۷۲)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ صورت اس وقت ہے جب دونوں ایک ساتھ ہتھیار لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے اٹھیں گے لیکن اگر کوئی شخص ہتھیار لے کر قتل کرنے آئے تو اپنی حفاظت صحیح ہے اور اگر مدافعت میں حملہ کرنے والا مارا جائے تو وہی جہنم میں جائے گا مدافعت کرنے والے کا کوئی قصور نہیں۔

جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 3966

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْحَكَمِ السُّدُوسِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ،‏‏‏‏ عَنْأَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ عَبْدٌ أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ".

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برباد اور خراب مقام اس شخص کا ہو گا جس نے اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لیے برباد کی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۸۹۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۵)(ضعیف) (سند میں سوید اور شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہیں، اور عبدالحکم بن ذکوان مجہول، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۹۱۵)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3967

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ لَيْثٍ،‏‏‏‏ عَنْ طَاوُسٍ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ سَيْمِينْ كُوشْ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبَ قَتْلَاهَا فِي النَّارِ،‏‏‏‏ اللِّسَانُ فِيهَا أَشَدُّ مِنْ وَقْعِ السَّيْفِ".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک فتنہ ایسا ہو گا جو سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس میں قتل ہونے والے سب جہنمی ہوں گے، اس فتنہ میں زبان تلوار کی کاٹ سے زیادہ موثر ہو گی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الفتن والملاحم ۳ (۴۲۶۵)، سنن الترمذی/الفتن ۱۶ (۲۱۷۸)،(تحفة الأشراف:۸۶۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱۱،۲۱۲)(ضعیف) (سند میں لیث بن أبی سلیم اور زیاد ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: ایسا نہ ہو زبان سے ناحق بات نکلے اور مفت گنہگار ہو یا فتنے میں شریک سمجھا جائے یا اس کی بات سے فتنہ کو بڑھاوا ملے۔

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3968

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِيَّاكُمْ وَالْفِتَنَ،‏‏‏‏ فَإِنَّ اللِّسَانَ فِيهَا مِثْلُ وَقْعِ السَّيْفِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم فتنوں سے بچے رہنا کیونکہ اس میں زبان ہلانا تلوار چلانے کے برابر ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۶۷۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۷)(ضعیف جدا) (سند میں محمد بن الحارث متروک، اور محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، نیز عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ کا کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں ہے)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3969

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَرَّ بِهِ رَجُلٌ لَهُ شَرَفٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ:‏‏‏‏ إِنَّ لَكَ رَحِمًا وَإِنَّ لَكَ حَقًّا،‏‏‏‏ وَإِنِّي رَأَيْتُكَ تَدْخُلُ عَلَى هَؤُلَاءِ الْأُمَرَاءِ،‏‏‏‏ وَتَتَكَلَّمُ عِنْدَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَتَكَلَّمَ بِهِ،‏‏‏‏ وَإِنِّي سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ،‏‏‏‏ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ،‏‏‏‏ فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ بِهَا سُخْطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ"،‏‏‏‏ قَالَ عَلْقَمَةُ:‏‏‏‏ فَانْظُرْ وَيْحَكَ مَاذَا تَقُولُ،‏‏‏‏ وَمَاذَا تَكَلَّمُ بِهِ،‏‏‏‏ فَرُبَّ كَلَامٍ قَدْ مَنَعَنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ،‏‏‏‏ مَا سَمِعْتُ مِنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ.

علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سے ایک معزز شخص کا گزر ہوا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا: آپ کا مجھ سے (دہرا رشتہ ہے) ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلمان ہونے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امراء کے پاس آتے جاتے اور ان سے حسب منشا باتیں کرتے ہیں، میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہو گا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضگی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا"۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھو افسوس ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث نے بعض باتوں کے کہنے سے مجھے روک دیا ہے، خاموش ہو جاتا ہوں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۰۲۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۸)، وقد أخر جہ: سنن الترمذی/الزہد ۱۲ (۲۳۱۹)، موطا امام مالک/الکلام ۲ (۵)، مسند احمد (۳/۴۶۹)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: علقمہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہو جاتا ہے۔

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3970

حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ بْنُ الصَّيْدَلَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا،‏‏‏‏ فَيَهْوِي بِهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ سَبْعِينَ خَرِيفًا".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے، اور وہ اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا، حالانکہ اس بات کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جاتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ،(تحفة الأشراف:۱۴۹۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۸)، صحیح مسلم/الزہد والرقاق ۶ (۲۹۸۸)، سنن الترمذی/الزہد ۱۰ (۲۳۱۴)، موطا امام مالک/الکلام ۲ (۶)، مسند احمد (۲/۲۳۶،۵۳۳)(صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3971

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَصِينٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ،‏‏‏‏ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۸۴۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۸)،۸۵ (۶۱۳۸)، صحیح مسلم/الإیمان ۱۹ (۴۷)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۴)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۵۰ (۲۵۰۰)، مسند احمد (۲/۲۶۷،۲۶۹،۴۳۳،۴۶۳)(صحیح)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3972

حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ الْعَامِرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "قُلْ رَبِّيَ اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا أَكْثَرُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِسَانِ نَفْسِهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "هَذَا".

سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کہو: اللہ میرا رب (معبود برحق) ہے اور پھر اس پر قائم رہو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو ہم پر کس بات کا زیادہ ڈر ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: "اس کا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۱۳ (۳۸)، سنن الترمذی/الزہد ۶۰ (۲۴۱۰)،(تحفة الأشراف:۴۴۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۱۳،۴/۳۸۴)، سنن الدارمی/الرقاق ۴ (۲۷۵۳)(صحیح)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3973

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ،‏‏‏‏ عَنْ مَعْمَرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النُّجُودِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي وَائِلٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ،‏‏‏‏ فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ،‏‏‏‏ وَنَحْنُ نَسِيرُ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ سَأَلْتَ عَظِيمًا،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ،‏‏‏‏ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ،‏‏‏‏ وَتَصُومُ رَمَضَانَ،‏‏‏‏ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ؟ الصَّوْمُ جُنَّةٌ،‏‏‏‏ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ النَّارَ الْمَاءُ،‏‏‏‏ وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَرَأَ:‏‏‏‏ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 حَتَّى بَلَغَ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ وَعَمُودِهِ وَذُرْوَةِ سَنَامِهِ؟ الْجِهَادُ"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ؟"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى،‏‏‏‏ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "تَكُفُّ عَلَيْكَ هَذَا"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ،‏‏‏‏ وَهَلْ يُكِبُّ النَّاسَ عَلَى وُجُوهِهِمْ فِي النَّارِ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا، اور ہم چل رہے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اور جہنم سے دور رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات میں آدمی کا نماز (تہجد) ادا کرنا"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت:«تتجافى جنوبهم عن المضاجع» (سورة السجدة: 16) تلاوت فرمائی یہاں تک کہ «جزاء بما كانوا يعملون» تک پہنچے، پھر فرمایا: "کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتا دوں؟ وہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے"، پھر فرمایا: "کیا ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتا دوں"؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں ضرور بتائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا: "اسے اپنے قابو میں رکھو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! کیا ہم جو بولتے ہیں اس پر بھی ہماری پکڑ ہو گی؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معاذ! تیری ماں تجھ پر روئے! لوگ اپنی زبانوں کی کارستانیوں کی وجہ سے ہی اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الإیمان ۷ (۲۶۱۶)،(تحفة الأشراف:۱۱۳۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۳۱)(صحیح)(تراجع الألبانی: رقم:۲۴۶)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3974

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كَلَامُ ابْنِ آدَمَ عَلَيْهِ لَا لَهُ،‏‏‏‏ إِلَّا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ،‏‏‏‏ وَذِكْرَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انسان کی ہر بات کا اس پر وبال ہو گا، اور کسی بات سے فائدہ نہ ہو گا سوائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۶۲ (۲۴۱۲)،(تحفة الأشراف:۱۵۸۷۷)(ضعیف) (سند میں ام صالح مجہول الحال ہیں)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3975

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ لِابْنِ عُمَرَ:‏‏‏‏ إِنَّا نَدْخُلُ عَلَى أُمَرَائِنَا،‏‏‏‏ فَنَقُولُ الْقَوْلَ،‏‏‏‏ فَإِذَا خَرَجْنَا قُلْنَا غَيْرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا نَعُدُّ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّفَاقَ".

ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ ہم امراء (حکمرانوں) کے پاس جاتے ہیں، تو وہاں کچھ اور باتیں کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ اور باتیں کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کو نفاق سمجھتے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۰۹۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الأحکام ۲۷ (۷۱۷۸)، مسند احمد (۲/۱۵)(صحیح)

فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 3976

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَيْوَئِيلَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ جس بات کا تعلق اس سے نہ ہو اسے وہ چھوڑ دے"۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۱۱ (۲۳۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۵۲۳۴)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی ٹوہ اور جستجو میں نہ لگے، جو چیز حرام یا مکروہ ہو اس کا چھوڑنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، خواہ اس کا اسلام عمدہ ہو یا نہ ہو لیکن عمدہ اور اچھا مسلمان وہ ہے جو بیکار اور غیر مفید بات کو بھی چھوڑ دے، اگرچہ وہ حرام یا مکروہ نہ ہو یعنی مباح بات ہو لیکن اس کے کرنے میں آخرت کا فائدہ نہ ہو۔

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3977

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ بَعَجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ الْجُهَنِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "خَيْرُ مَعَايِشِ النَّاسِ لَهُمْ،‏‏‏‏ رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَيَطِيرُ عَلَى مَتْنِهِ،‏‏‏‏ كُلَّمَا سَمِعَ هَيْعَةً أَوْ فَزْعَةً طَارَ عَلَيْهِ إِلَيْهَا،‏‏‏‏ يَبْتَغِي الْمَوْتَ أَوِ الْقَتْلَ،‏‏‏‏ مَظَانَّهُ،‏‏‏‏ وَرَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ،‏‏‏‏ فِي رَأْسِ شَعَفَةٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَافِ،‏‏‏‏ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ هَذِهِ الْأَوْدِيَةِ،‏‏‏‏ يُقِيمُ الصَّلَاةَ،‏‏‏‏ وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ،‏‏‏‏ وَيَعْبُدُ رَبَّهُ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْيَقِينُ،‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِي خَيْرٍ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں میں سب سے اچھی زندگی والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اس کی پشت پر اڑ رہا ہو، اور جہاں دشمن کی آواز سنے یا مقابلے کا وقت آئے تو فوراً مقابلہ کے لیے اس جانب رخ کرتا ہو، اور موت یا قتل کی جگہیں تلاش کرتا پھرتا ہو اور وہ آدمی ہے جو اپنی بکریوں کو لے کر تنہا کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہو، یا کسی وادی میں جا بسے، نماز قائم کرتا ہو، زکاۃ دیتا ہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتا ہو حتیٰ کہ اس حالت میں اسے موت آ جائے کہ وہ لوگوں کا خیرخواہ ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإمارة ۳۴ (۱۸۸۹)،(تحفة الأشراف:۱۲۲۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۴۳)(صحیح)

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3978

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الزَّبِيدِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "رَجُلٌ مُجَاهِدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "ثُمَّ امْرُؤٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ،‏‏‏‏ يَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ،‏‏‏‏ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: لوگوں میں سب سے بہتر اور اچھا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ آدمی جو اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو"، اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں تنہا اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۲ (۲۷۸۶)، الرقاق ۳۴ (۶۴۹۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۳۴ (۱۸۸۸)، سنن ابی داود/الجہاد ۵ (۲۴۸۵)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ۲۴ (۱۶۶۰)، سنن النسائی/الجہاد ۷ (۳۱۰۷)،(تحفة الأشراف:۴۱۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶،۳۷،۵۶،۸۸)(صحیح)

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3979

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَكُونُ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ،‏‏‏‏ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ صِفْهُمْ لَنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "هُمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا،‏‏‏‏ يَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَالْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ،‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ،‏‏‏‏ فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا،‏‏‏‏ وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ،‏‏‏‏ وَأَنْتَ كَذَلِكَ".

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے"، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فرقوں سے علیحدگی اختیار کرو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے" ا؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۶۰۶)، صحیح مسلم/الإمارة ۱۳ (۱۸۲۷)،(تحفة الأشراف:۳۳۶۲)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے یعنی جنگل میں جا کر عزلت اور گوشہ نشینی اختیار کرنا اور مرنے تک ایک درخت کی جڑ چوسنے پر قناعت کرنا، اور ان سب فرقوں سے الگ رہنا ایسے فتنہ کے زمانے میں جب نہ تو کوئی مسلمانوں کا امام ہو نہ جماعت ہو بہتر اور باعث نجات ہے۔

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3980

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْأَبِيهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ،‏‏‏‏ أوَ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ،‏‏‏‏ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں یا بارش کے مقامات میں چلا جائے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھر رہا ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان ۱۲ (۱۹)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۰)، المناقب ۲۵ (۳۶۰۰)، الرقاق ۳۴ (۴۶۹۵)، سنن ابی داود/الفتن ۱۴ (۴۲۶۷)، سنن النسائی/الإیمان ۳۰ (۵۰۳۹)،(تحفة الأشراف:۴۱۰۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان ۶ (۱۶)مسند احمد (۳/۶،۳۰،۴۳،۵۷)(صحیح)

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3981

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدِّمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْخَزَّازُ،‏‏‏‏ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ،‏‏‏‏ عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ قُرْطٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تَكُونُ فِتَنٌ عَلَى أَبْوَابِهَا دُعَاةٌ إِلَى النَّارِ،‏‏‏‏ فَأَنْ تَمُوتَ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جِذْلِ شَجَرَةٍ،‏‏‏‏ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَتْبَعَ أَحَدًا مِنْهُمْ".

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، لہٰذا اس وقت تمہارے لیے کسی درخت کی جڑ چبا کر جان دے دینا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ تم ان بلانے والوں میں سے کسی کی پیروی کرو"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف:۳۳۷۲)(صحیح)

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3982

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۸۳ (۶۱۳۳)، صحیح مسلم/الزہد ۱۲ (۲۹۹۸)، سنن ابی داود/الأدب ۳۴ (۴۸۶۲)،(تحفة الأشراف:۱۳۲۰۵)، وقد أخرجہ: حم۲/ (۳۷۹)سنن الدارمی/الرقاق ۶۵ (۲۸۲۳)(صحیح)

(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3983

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَالِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۸۱۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۱۵)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: ابوعزہ حجمی نامی شاعرمسلمانوں کی ہجو کرتا تھا، بدر کے موقع پر قیدی ہواا ور آئندہ ہجو نہ کرنے کا عہدکر کے اس نے آزادی حاصل کر لی، مکہ مکرمہ جا کر اس نے دوبارہ مسلمانوں کے خلاف شاعری شروع کر دی پھر وہ غزوہ احد میں دوبارہ قید ہوا، اور اپنی تنگدستی کا بہانہ بنا کر دوبارہ آزادی طلب کی تو اس موقع پر آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔

شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3984

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الشَّعْبِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ:‏‏‏‏ وَأَهْوَى بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "الْحَلَالُ بَيِّنٌ،‏‏‏‏ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ،‏‏‏‏ وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ،‏‏‏‏ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ،‏‏‏‏ كَالرَّاعِي حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمَى،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ،‏‏‏‏ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً،‏‏‏‏ إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ،‏‏‏‏ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ،‏‏‏‏ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ".

شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار!، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، آگاہ رہو! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو!، وہ دل ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان ۳۹ (۵۲)، البیوع ۲ (۲۰۵۱)، صحیح مسلم/المساقاة ۲۰ (۱۵۹۹)، سنن ابی داود/البیوع ۳ (۳۳۲۹،۳۳۳۰)، سنن الترمذی/البیوع ۱ (۱۲۰۵)، سنن النسائی/البیوع ۲ (۴۴۵۸)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۷۵)، سنن الدارمی/البیوع ۱ (۲۵۷۳)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ بڑی اہم بات ہے جس پر اسلام کے اکثر احکام کا دارومدار ہے، مشتبہ کاموں سے ہمیشہ بچے رہنا ہی تقویٰ اور صلاح کا طریقہ ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے سود کا بیان کھول کر نہیں کیا تو سود سے بچو اور جس چیز میں سود کا شک ہو اس سے بچو اور دوسری حدیث میں ہے کہ جس کام میں تم کو شک ہو اس کو چھوڑ دو تاکہ تم شک میں نہ پڑو، اور آپ نے سودہ رضی اللہ عنہا کو عبد بن زمعہ سے پردہ کا حکم دیا حالانکہ اس کا نسب زمعہ سے ثابت کیا کیونکہ اس میں عتبہ کے نطفہ ہونے کا شبہ تھا اور عقبہ بن حارث نے ایک عورت سے نکاح کیا پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے دولہا اور دلہن دونوں کو دودھ پلایا ہے حالانکہ وہ دونوں اس کو نہیں جانتے تھے نہ ان کے گھر والے پھر اس کا ذکر آپ ﷺ سے کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: " اس کا کیا علاج ہے " کہ ایسا کہا گیا یعنی گو کامل شہادت سے دودھ پلانا ثابت نہیں ہوا مگر کہا تو گیا تو شبہ ہوا غرض عقبہ رضی اللہ عنہ کو عورت چھوڑ دینے کا اشارہ کیا۔

شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان

حد یث نمبر - 3985

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْ الْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ".

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فتنوں (کے ایام) میں عبادت کرنا ایسے ہی ہے جیسے میری طرف ہجرت کرنا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۲۶ (۲۹۴۸)، سنن الترمذی/الفتن ۳۱ (۲۲۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۴۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۵،۲۷،۳۷)(صحیح)

اسلام کی شروعات اجنبی حالت میں ہوئی

حد یث نمبر - 3986

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ،‏‏‏‏ وسويد بن سعيد،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا،‏‏‏‏ وَسَيَعُودُ غَرِيبًا،‏‏‏‏ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۶۵ (۱۴۵)،(تحفة الأشراف:۱۳۴۴۷)(صحیح)

اسلام کی شروعات اجنبی حالت میں ہوئی

حد یث نمبر - 3987

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ وَابْنُ لَهِيعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،‏‏‏‏ عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا،‏‏‏‏ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، اور عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۵۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۱)(حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

اسلام کی شروعات اجنبی حالت میں ہوئی

حد یث نمبر - 3988

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا،‏‏‏‏ وَسَيَعُودُ غَرِيبًا،‏‏‏‏ فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ النُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، آپ سے سوال کیا گیا: غرباء کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ لوگ ہیں جو اپنے قبیلے سے نکال دئیے گئے ہوں" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الإیمان ۱۳ (۲۶۲۹)،(تحفة الأشراف:۹۵۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۹۸)، سنن الدارمی/الرقاق ۴۲ (۲۷۹۷)(صحیح) «قال قيل ومن الغرباء قال النزاع من القبائل» کا ٹکڑا یعنی غرباء کی تعریف ضعیف ہے، تراجع الألبانی: رقم:۱۷۵)

وضاحت: ۱؎: یعنی مسافر، پردیسی جن کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہو، شروع میں اسلام ایسے ہی لوگوں نے اختیار کیا تھا جیسے بلال، صہیب، سلمان، مقداد، ابوذر رضی اللہ عنہم وغیرہ اور قریشی مہاجر بھی اجنبی ہو گئے تھے اس لئے کہ قریش نے ان کو مکہ سے نکال دیا تھا، تو وہ مدینہ میں اجنبی تھے۔

جن کے بارے میں امید ہے کہ وہ فتنوں سے محفوظ ہوں گے ان کا بیان

حد یث نمبر - 3989

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يُبْكِينِي شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مَنْ عَادَى لِلَّهِ وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ بِالْمُحَارَبَةِ،‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ،‏‏‏‏ الَّذِينَ إِذَا غَابُوا لَمْ يُفْتَقَدُوا،‏‏‏‏ وَإِنْ حَضَرُوا لَمْ يُدْعَوْا،‏‏‏‏ وَلَمْ يُعْرَفُوا قُلُوبُهُمْ مَصَابِيحُ الْهُدَى،‏‏‏‏ يَخْرُجُونَ مِنْ كُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ".

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مسجد نبوی کی جانب گئے، تو وہاں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھے رو رہے ہیں، انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ سے رونے کا سبب پوچھا، تو معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے ایک ایسی بات رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "معمولی ریاکاری بھی شرک ہے، بیشک جس نے اللہ کے کسی دوست سے دشمنی کی، تو اس نے اللہ سے اعلان جنگ کیا، اللہ تعالیٰ ان نیک، گم نام متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اگر غائب ہو جائیں تو کوئی انہیں تلاش نہیں کرتا، اور اگر وہ حاضر ہو جائیں تو لوگ انہیں کھانے کے لیے نہیں بلاتے، اور نہ انہیں پہچانتے ہیں، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، ایسے لوگ ہر گرد آلود تاریک فتنے سے نکل جائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۰۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۲)(ضعیف) (سند میں عیسیٰ بن عبد الرحمن ضعیف و متروک راوی ہیں)

جن کے بارے میں امید ہے کہ وہ فتنوں سے محفوظ ہوں گے ان کا بیان

حد یث نمبر - 3990

حدثنا هشام بن عمار حدثنا عبد العزيز بن محمد الدراوردي حدثنا زيد بن أسلم عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الناس كإبل مائة لا تكاد تجد فيها راحلة».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کے مانند ہے، جن میں سے ایک بھی سواری کے لائق نہیں پاؤ گے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۷۴۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق ۳۵ (۶۴۹۸)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۶۰ (۲۵۴۷)، سنن الترمذی/الأمثال ۷ (۲۸۷۲)، مسند احمد (۲/۷۰،۱۲۳،۱۳۹)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: سواری میں استعمال ہونے والا جانور نرم مزاج اور سیدھا ہوتا ہے، لیکن عملاً کمیاب، ایسے سیکڑوں آدمیوں میں سے کوئی کوئی ہوتا ہے، جو دوستی اور تعلقات کو استوار کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اکثر لوگوں میں مختلف انداز کی کمیاں پائی جاتی ہیں، کامل و مکمل اور بھر پور شخصیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں، امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الرقاق کے باب «رفع الامانہ» میں اسی لئے ذکر کیا ہے کہ اخیر امت میں لوگ اس باب میں بھی کمیاب ہوں گے۔

امتوں کا انتشار اور ان کا فرقوں میں بٹ جانا

حد یث نمبر - 3991

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحْمَّدُ بْنُ بِشْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تَفَرَّقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہود اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۰۹۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة ۱ (۴۵۹۶)، سنن الترمذی/الإیمان ۱۸ (۲۶۴۰)، مسند احمد (۲/۳۳۲)(حسن صحیح) (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے)

امتوں کا انتشار اور ان کا فرقوں میں بٹ جانا

حد یث نمبر - 3992

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ"،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَنْ هُمْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْجَمَاعَةُ".

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہود اکہتر (۷۱) فرقوں میں بٹ گئے جن میں سے ایک جنت میں جائے گا اور ستر(۷۰) جہنم میں، نصاریٰ کے بہتر فرقے ہوئے جن میں سے اکہتر (۷۱) جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا، اور بہتر (۷۲) فر قے جہنم میں"، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الجماعة»۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۹۰۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۳)(صحیح) (عباد بن یوسف کندی مقبول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی اہل سنت و الجماعت جنہوں نے حدیث اور قرآن کو نہیں چھوڑا اس وجہ سے اہل سنت ہوئے، اور جماعت المسلمین کے ساتھ رہے تھے۔

امتوں کا انتشار اور ان کا فرقوں میں بٹ جانا

حد یث نمبر - 3993

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقَتْ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ وَإِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً،‏‏‏‏ كُلُّهَا فِي النَّارِ،‏‏‏‏ إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، اور میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سوائے ایک کے سب جہنمی ہوں گے، اور وہ «الجماعة» ہے، (وہ جماعت جو میری اور میرے صحابہ کی روش اور طریقے پر ہو) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۱۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۰)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: جس نے مسلمانوں کی جماعت اور امام وقت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ہر زمانہ میں امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ رہے،یہ مضمون اہل سنت والجماعت کے علاوہ کسی اور فرقہ اور جماعت پر صادق نہیں آتا، اس لیے معلوم ہوا کہ اہل سنت والجماعت ہی ناجی جماعت ہے۔

امتوں کا انتشار اور ان کا فرقوں میں بٹ جانا

حد یث نمبر - 3994

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَتَتَّبِعُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بَاعًا بِبَاعٍ،‏‏‏‏ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ،‏‏‏‏ وَشِبْرًا بِشِبْرٍ،‏‏‏‏ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمْ فِيهِ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ الْيَهُودُ،‏‏‏‏ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَمَنْ إِذًا".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے اگر وہ ہاتھ پھیلانے کے مقدار چلے ہوں گے ۱؎، تو تم بھی وہی مقدار چلو گے، اور اگر وہ ایک ہاتھ چلے ہوں گے تو تم بھی ایک ہاتھ چلو گے، اور اگر وہ ایک بالشت چلے ہوں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب اور کون ہو سکتے ہیں"؟ ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۱۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاعتصام ۱۴ (۷۳۱۹)، مسند احمد (۲/۴۵۰،۵۲۷)(حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی قدم بہ قد م، «باع»: کہتے ہیں دونوں ہاتھ کی لمبائی کو، «ذراع»: ایک ہاتھ اور «شبر» ایک بالشت۔ ۲؎: یہود اور نصاریٰ نے یہ کیا تھا کہ تورات اور انجیل کو چھوڑ کر اپنے مولویوں اور درویشوں کی پیروی میں غرق ہو گئے تھے، اور اسی کو دین و ایمان جانتے تھے، مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ قرآن و حدیث کا پڑھنا پڑھانا اور ان پر عمل کرنا اور کرانا بالکل چھوڑ دیا، اور قرآن و حدیث کی جگہ دوسرے ملاؤں کی کتابیں ایسی رائج اور مشہور ہو گئیں کہ بکثرت مسلمان انہی کتابوں پر چلنے لگے الا ماشاء اللہ، ایک طائفہ قلیلہ اہل حدیث کا (شکر اللہ سعیم) کہ ہر زمانہ میں وہ قرآن و حدیث پر قائم رہا۔، فاسد آراء اور باطل قیاس کی طرف انہوں نے کبھی التفات نہیں کیا، جاہل و بے دین اور بدعت و شرک میں مبتلا سادہ لوح مسلمانوں نے اس گروہ سے دشمنی کی، اعداء اسلام نے بھی دشمنی میں کوئی کسر نہیں باقی رکھی، لیکن ان سب کی دشمنی اور عداوت سے ان اہل حق کو کبھی نقصان نہ ہو سکا، اور یہ فرقہ حقہ قیامت تک اپنے دلائل حقہ کے ساتھ غالب اور قائم رہے گا، اس کے دلائل و براہین کا کسی کے پاس جواب نہیں ہو گا۔

مال دولت کا فتنہ

حد یث نمبر - 3995

حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَّا مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا"،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ قُلْتَ؟"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ،‏‏‏‏ أَوَ خَيْرٌ هُوَ إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا،‏‏‏‏ أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتِ امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا،‏‏‏‏ اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ،‏‏‏‏ ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ،‏‏‏‏ فَمَنْ يَأْخُذُ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكُ لَهُ،‏‏‏‏ وَمَنْ يَأْخُذُ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا: "اللہ کی قسم، لوگو! مجھے تمہارے متعلق کسی بات کا خوف نہیں، ہاں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیاوی مال و دولت سے نوازے گا"، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا خیر (مال و دولت) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر قدرے سکوت کے بعد فرمایا: "تم نے کیسے کہا تھا"؟ میں نے عرض کیا: کیا خیر(یعنی مال و دولت کی زیادتی) سے شر پیدا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خیر سے تو خیر ہی پیدا ہوتا ہے، اور کیا وہ مال خیر ہے؟ ہر وہ سبزہ جسے موسم بہار اگاتا ہے، جانور کا پیٹ پھلا کر بدہضمی سے مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے، مگر اس جانور کو جو گھاس کھائے یہاں تک کہ جب پیٹ پھول کر اس کے دونوں پہلو تن جائیں تو دھوپ میں چل پھر کر، پاخانہ پیشاب کرے، اور جگالی کر کے ہضم کر لے، اور واپس آ کر پھر کھائے، تو اسی طرح جو شخص مال کو جائز طریقے سے حاصل کرے گا، تو اس کے مال میں برکت ہو گی، اور جو اسے ناجائز طور پر حاصل کرے گا، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کھاتا رہے اور آسودہ نہ ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزکاة ۴۱ (۱۰۵۲)،(تحفة الأشراف:۴۲۷۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۸ (۹۲۱)، الزکاة ۴۷ (۱۴۶۵)، الجہاد ۳۷ (۲۸۴۲)، الرقاق ۷ (۶۴۲۷)، سنن النسائی/الزکاة ۸۱ (۲۵۸۲)، مسند احمد (۳/۷،۹۱)(صحیح)

مال دولت کا فتنہ

حد یث نمبر - 3996

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ،‏‏‏‏ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ رَبَاحٍ حَدَّثَهُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا فُتِحَتْ عَلَيْكُمْ خَزَائِنُ فَارِسَ،‏‏‏‏ وَالرُّومِ أَيُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟"،‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ:‏‏‏‏ نَقُولُ:‏‏‏‏ كَمَا أَمَرَنَا اللَّهُ،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ تَتَنَافَسُونَ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَنْطَلِقُونَ فِي مَسَاكِينِ الْمُهَاجِرِينَ،‏‏‏‏ فَتَجْعَلُونَ بَعْضَهُمْ عَلَى رِقَابِ بَعْضٍ".

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم پر فارس اور روم کے خزانے کھول دئیے جائیں گے، تو اس وقت تم کون لوگ ہو گے" (تم کیا کہو گے)؟ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہم وہی کہیں گے (اور کریں گے) جو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہو گے؟ تم مال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش کرو گے، اور ایک دوسرے سے حسد کرو گے، پھر ایک دوسرے سے منہ موڑو گے، اور ایک دوسرے سے بغض و نفرت رکھو گے" یا ایسا ہی کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "اس کے بعد مسکین مہاجرین کے پاس جاؤ گے، پھر ان کا بوجھ ان ہی پر رکھو گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۲)،(تحفة الأشراف:۸۹۴۸)(صحیح)

مال دولت کا فتنہ

حد یث نمبر - 3997

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ،‏‏‏‏ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ،‏‏‏‏ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَع رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا،‏‏‏‏ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ،‏‏‏‏ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ،‏‏‏‏ فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ،‏‏‏‏ فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ،‏‏‏‏ فَتَعَرَّضُوا لَهُ،‏‏‏‏ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ،‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ،‏‏‏‏ وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ،‏‏‏‏ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ،‏‏‏‏ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا،‏‏‏‏ فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ".

عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کا جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی، اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، ابوعبیدہ (ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) بحرین سے مال لے کر آئے، اور جب انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نماز پڑھ کر لوٹے، تو راستے میں یہ لوگ آپ کے سامنے آ گئے، آپ انہیں دیکھ کر مسکرائے، پھر فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگوں نے یہ سنا کہ ابوعبیدہ بحرین سے کچھ مال لائے ہیں"، انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو تم لوگ خوش ہو جاؤ، اور امید رکھو اس چیز کی جو تم کو خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر اور مفلسی سے نہیں ڈرتا، لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا تم پر اسی طرح کشادہ نہ کر دی جائے جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر کر دی گئی تھی، تو تم بھی اسی طرح سبقت کرنے لگو جیسے ان لوگوں نے کی تھی، پھر تم بھی اسی طرح ہلاک ہو جاؤ جس طرح وہ ہلاک ہو گئے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجزیة ۱ (۳۱۵۸)، صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۱)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۸ (۲۴۶۲)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۷،۳۲۷)(صحیح)

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 3998

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا أَدَعُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ،‏‏‏‏ مِنَ النِّسَاءِ".

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ اور مضر کوئی فتنہ نہیں پاتا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۶ (۵۰۹۶)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۲۶ (۲۷۴۱)، سنن الترمذی/الأدب ۳۱ (۲۷۸۰)،(تحفة الأشراف:۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/ ۲۰۰،۲۱۰)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: عورتوں کی وجہ سے اکثر خرابی پیدا ہو گی یعنی لوگ ان کی وجہ سے بہت سارے کام خلاف شرع کریں گے۔

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 3999

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ مُصْعَبٍ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،‏‏‏‏ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ صَبَاحٍ إِلَّا وَمَلَكَانِ يُنَادِيَانِ،‏‏‏‏ وَيْلٌ لِلرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ،‏‏‏‏ وَوَيْلٌ لِلنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر صبح دو فرشتے یہ پکارتے ہیں: مردوں کے لیے عورتوں کی وجہ سے بربادی ہے، اور عورتوں کے لیے مردوں کی وجہ سے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۸۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۶)(ضعیف جدا) (سند میں خارجہ بن مصعب متروک و کذاب راوی ہے)

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 4000

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى اللَّيْثِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا،‏‏‏‏ فَكَانَ فِيمَا قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ،‏‏‏‏ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا،‏‏‏‏ فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ،‏‏‏‏ أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا،‏‏‏‏ وَاتَّقُوا النِّسَاءَ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے، تو اس خطبہ میں یہ بھی فرمایا: "دنیا ہری بھری اور میٹھی ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنانے والا ہے، تو وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ سنو! تم دنیا سے بھی بچاؤ کرو، اور عورتوں سے بھی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۲۶ (۲۱۹۱)،(تحفة الأشراف:۴۳۶۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۲۶ (۲۷۴۲)دون قیامہ خطیباً (صحیح) (سند میں علی بن زید ضعیف ہے لیکن شواہد و متابعات کی بناء پر یہ صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: ان دونوں چیزوں سے بقدر ضرورت ہی دلچسپی رکھو، نیز اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کے موافق مسلمانوں کو بہت دنیا دی اور مشرق اور مغرب کا ان کو حکمراں بنایا، اور مدت دراز تک ان کی حکومت قائم رہی، جب انہوں نے بھی اگلے لوگوں کی طرح بے اعتدالی، ظلم اور کجروی اختیار کی تو پھر ان سے چھین لی، آج کل نصاریٰ کی بہار ہے، ان کو تمام دنیا کی حکومت اور دولت مل رہی ہے اب دیکھنا ہے کہ ان کی میعاد کب تک ہے۔

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 4001

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ دَاوُدَ بْنِ مُدْرِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ إِذْ دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْ مُزَيْنَةَ،‏‏‏‏ تَرْفُلُ فِي زِينَةٍ لَهَا فِي الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا أَيُّهَا النَّاسُ،‏‏‏‏ انْهَوْا نِسَاءَكُمْ عَنْ لُبْسِ الزِّينَةِ،‏‏‏‏ وَالتَّبَخْتُرِ فِي الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ فَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمْ يُلْعَنُوا،‏‏‏‏ حَتَّى لَبِسَ نِسَاؤُهُمُ الزِّينَةَ،‏‏‏‏ وَتَبَخْتَرْنَ فِي الْمَسَاجِدِ".

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں قبیلہ مزینہ کی ایک عورت مسجد میں بنی ٹھنی اتراتی ہوئی داخل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگو! اپنی عورتوں کو زیب و زینت کا لباس پہن کر اور ناز و ادا کے ساتھ مسجد میں آنے سے منع کرو، کیونکہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اس وقت آئی تھی جبکہ ان کی عورتوں نے لباس فاخرہ پہننے شروع کئے، اور مسجدوں میں ناز و ادا کے ساتھ داخل ہونے لگیں"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۳۳۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۷)(ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف اور داود بن مدرک مجہول الحال راوی ہے)

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 4002

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ مَوْلَى أَبِي رُهْمٍ وَاسْمُهُ عُبَيْدٌ،‏‏‏‏ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ لَقِيَ امْرَأَةً مُتَطَيِّبَةً تُرِيدُ الْمَسْجِدَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَمَةَ الْجَبَّارِ أَيْنَ تُرِيدِينَ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ الْمَسْجِدَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَهُ تَطَيَّبْتِ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "وأَيُّمَا امْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ،‏‏‏‏ ثُمَّ خَرَجَتْ إِلَى الْمَسْجِدِ،‏‏‏‏ لَمْ تُقْبَلْ لَهَا صَلَاةٌ حَتَّى تَغْتَسِلَ".

ابورہم کے عبید نامی غلام کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سامنا ایک ایسی عورت سے ہوا جو خوشبو لگائے مسجد جا رہی تھی، تو انہوں نے کہا: اللہ کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے جواب دیا: مسجد، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم نے اسی کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو عورت خوشبو لگا کر مسجد جائے، تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ غسل کر لے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۷ (۴۱۷۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۱۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۶،۲۹۷،۳۶۵،۴۴۴،۴۶۱)(حسن صحیح)

عورتوں کا فتنہ

حد یث نمبر - 4003

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ الْهَادِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ،‏‏‏‏ وَأَكْثِرْنَ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ،‏‏‏‏ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ"،‏‏‏‏ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ جَزْلَةٌ:‏‏‏‏ وَمَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ،‏‏‏‏ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ،‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْكُنَّ"،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّينِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "أَمَّا نُقْصَانِ الْعَقْلِ:‏‏‏‏ فَشَهَادَةُ امْرَأَتَيْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ،‏‏‏‏ فَهَذَا مِنْ نُقْصَانِ الْعَقْلِ،‏‏‏‏ وَتَمْكُثُ اللَّيَالِيَ مَا تُصَلِّي،‏‏‏‏ وَتُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ،‏‏‏‏ فَهَذَا مِنْ نُقْصَانِ الدِّينِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں کی جماعت! تم صدقہ و خیرات کرو، کثرت سے استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں تم عورتوں کو زیادہ دیکھا ہے"، ان میں سے ایک سمجھ دار عورت نے سوال کیا: اللہ کے رسول ہمارے جہنم میں زیادہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لعنت و ملامت زیادہ کرتی ہو، اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے باوجود اس کے کہ تم ناقص العقل اور ناقص الدین ہو، تم سے زیادہ مرد کی عقل کو مغلوب اور پسپا کر دینے والا کسی کو نہیں دیکھا"، اس عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری عقل اور دین کا نقصان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری عقل کی کمی (و نقصان) تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے، اور دین کی کمی یہ ہے کہ تم کئی دن ایسے گزارتی ہو کہ اس میں نہ نماز پڑھ سکتی ہو، اور نہ رمضان کے روزے رکھ سکتی ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۳۴ (۷۹)، سنن ابی داود/السنة ۱۶ (۴۶۷۹)،(تحفة الأشراف:۷۲۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۶۶)(صحیح)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4004

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ،‏‏‏‏ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْعَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ،‏‏‏‏ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ،‏‏‏‏ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا يُسْتَجَابَ لَكُمْ".

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "تم بھلی بات کا حکم دو، اور بری بات سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۳۴۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۵۹)(حسن) (سند میں عمر بن عثمان مستور، اور عاصم بن عمر مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ابن حبان نے تصحیح کی ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم:۳۸۳)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4005

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو أُسَامَةَ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ،‏‏‏‏ وَأَثْنَى عَلَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ،‏‏‏‏ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ،‏‏‏‏ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ مَرَّةً أُخْرَى:‏‏‏‏ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ.

قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» "اے ایمان والو! اپنے آپ کی فکر کرو، اور تمہیں دوسرے شخص کی گمراہی ضرر نہ دے گی، جب تم ہدایت پر ہو" (سورة المائدة: 105)۔ اور بیشک ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جب لوگ کوئی بری بات دیکھیں اور اس کو دفع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عام عذاب نازل کر د ے"۔ ابواسامہ نے دوسری بار کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۷ (۴۳۳۸)، سنن الترمذی/الفتن ۸ (۲۱۶۸)، تفسیر القرآن سورة المائدة ۱۸ (۳۰۵۷)،(تحفة الأشراف:۶۶۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲،۵،۷،۹)(صحیح)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4006

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا وَقَعَ فِيهِمُ النَّقْصُ،‏‏‏‏ كَانَ الرَّجُلُ يَرَى أَخَاهُ عَلَى الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا كَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَى مِنْهُ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَخَلِيطَهُ،‏‏‏‏ فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَتَّى بَلَغَ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ سورة المائدة آية 78 ـ 81"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ،‏‏‏‏ فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا".

ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بنی اسرائیل میں جب خرابیاں پیدا ہوئیں، تو ان کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، لیکن دوسرے دن پھر اس کے ساتھ کھاتا پیتا اور مل جل کر رہتا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مردہ کر دیا، اور آپس کی محبت ختم کر دی، اور ان ہی لوگوں کے بارے میں قرآن اترا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم»کی تلاوت کی یہاں تک کہ آپ «ولو كانوا يؤمنون بالله والنبي وما أنزل إليه ما اتخذوهم أولياء ولكن كثيرا منهم فاسقون» (سورۃ المائدہ: ۷۸ -۸۱) تک پہنچے۔ (جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) کی زبانی لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے، بہت ہی برا کرتے تھے، تو ان میں سے اکثر کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں یہ وطیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیار کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان پر سخت ناراض ہے، اور آخرت میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیش کے عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ اللہ پر اور نبی پر اور جو اس کی طرف اترا ہے اس پر ایمان لاتے تو ان کافروں کو دوست نہ بناتے، لیکن بہت سے ان میں فاسق (بدکار اور بے راہ) ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: "تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۷ (۴۳۳۶،۴۳۳۷)، سنن الترمذی/التفسیر ۶ (۳۰۴۸)،(تحفة الأشراف:۹۶۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/ ۳۹۱)(ضعیف) (سند میں ابوعبیدہ کثیر الغلط راوی ہیں، اور حدیث کو مرسل روایت کیا ہے، یعنی اپنے اور رسول اکرم ﷺ کے مابین کا واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، اس لئے ارسال کی وجہ سے بھی یہ حدیث ضعیف ہے)

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بِمِثْلِهِ.

اس سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: «انطر ماقبلة، تحفة الأشراف:۹۶۱۴)(ضعیف)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4007

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا،‏‏‏‏ فَكَانَ فِيمَا قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا.

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی: "آگاہ رہو! کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جب وہ حق کو جانتا ہو"، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع) دیکھیں، لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہو گئے۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۲۶ (۲۱۹۱)،(تحفة الأشراف:۴۳۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۷،۱۹،۶۱،۷۰)(صحیح)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4008

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يَحْقِرْ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ كَيْفَ يَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "يَرَى أَمْرًا لِلَّهِ عَلَيْهِ فِيهِ مَقَالٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ لَا يَقُولُ فِيهِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَ فِي كَذَا كذا وَكَذَا،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ خَشْيَةُ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ فَإِيَّايَ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَى".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کیسے حقیر جانتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص کوئی بات ہوتے دیکھے اور اس کے بارے میں اسے اللہ کا حکم معلوم ہو لیکن نہ کہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے فرمائے گا: تجھے فلاں بات کہنے سے کس نے منع کیا تھا؟ وہ جواب دے گا: لوگوں کے خوف نے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے زیادہ درست بات یہ تھی کہ تو مجھ سے ڈرتا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۴۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۰،۴۷،۷۳)(ضعیف) (سند میں اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4009

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْرَائِيلَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِسْحَاق،‏‏‏‏ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي،‏‏‏‏ هُمْ أَعَزُّ مِنْهُمْ وَأَمْنَعُ،‏‏‏‏ لَا يُغَيِّرُونَ،‏‏‏‏ إِلَّا عَمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ".

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ان میں ایسے زور آور لوگ ہوں جو انہیں روک سکتے ہوں لیکن وہ نہ روکیں، تو اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کر لیتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۶۱،۳۶۳،۳۶۴،۳۶۶)(حسن)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4010

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا رَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرَةُ الْبَحْرِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَا تُحَدِّثُونِي بِأَعَاجِيبِ مَا رَأَيْتُمْ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ"،‏‏‏‏ قَالَ فِتْيَةٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَرَّتْ بِنَا عَجُوزٌ مِنْ عَجَائِزِ رَهَابِينِهِمْ،‏‏‏‏ تَحْمِلُ عَلَى رَأْسِهَا قُلَّةً مِنْ مَاءٍ،‏‏‏‏ فَمَرَّتْ بِفَتًى مِنْهُمْ،‏‏‏‏ فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ بَيْنَ كَتِفَيْهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ دَفَعَهَا،‏‏‏‏ فَخَرَّتْ عَلَى رُكْبَتَيْهَا،‏‏‏‏ فَانْكَسَرَتْ قُلَّتُهَا،‏‏‏‏ فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ،‏‏‏‏ الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سَوْفَ تَعْلَمُ،‏‏‏‏ يَا غُدَرُ إِذَا وَضَعَ اللَّهُ الْكُرْسِيَّ،‏‏‏‏ وَجَمَعَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ،‏‏‏‏ وَتَكَلَّمَتِ الْأَيْدِي وَالْأَرْجُلُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ،‏‏‏‏ فَسَوْفَ تَعْلَمُ كَيْفَ أَمْرِي وَأَمْرُكَ،‏‏‏‏ عِنْدَهُ غَدًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "صَدَقَتْ صَدَقَتْ،‏‏‏‏ كَيْفَ يُقَدِّسُ اللَّهُ أُمَّةً لَا يُؤْخَذُ لِضَعِيفِهِمْ مِنْ شَدِيدِهِمْ".

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہاجرین (یعنی مہاجرین حبشہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ مجھ سے وہ عجیب باتیں کیوں نہیں بیان کرتے جو تم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں؟"، ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہمارے سامنے سر پر پانی کا مٹکا لیے ہوئے ایک حبشی نوجوان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نوجوان نے اپنا ایک ہاتھ اس بڑھیا کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ کر اس کو دھکا دیا جس کے باعث وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی، اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا، جب وہ اٹھی تو اس حبشی نوجوان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی: غدار! (دھوکا باز) عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا جب اللہ تعالیٰ کرسی رکھے ہو گا، اور اگلے پچھلے سارے لوگوں کو جمع کرے گا، اور ہاتھ پاؤں ہر اس کام کی گواہی دیں گے جو انہوں نے کیے ہیں، تو کل اس کے پاس تجھے اپنا اور میرا فیصلہ معلوم ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے: "اس بڑھیا نے سچ کہا، اس بڑھیا نے سچ کہا، اللہ تعالیٰ اس امت کو گناہوں سے کیسے پاک فرمائے گا، جس میں کمزور کا بدلہ طاقتور سے نہ لیا جا سکے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۷۷۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۰)(حسن) (سند کو بوصیری نے حسن کہا ہے)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4011

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَايَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَفْضَلُ الْجِهَادِ،‏‏‏‏ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہتر جہاد، ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۴)، سنن الترمذی/الفتن ۱۳ (۲۱۷۴)،(تحفة الأشراف:۴۲۳۴)(صحیح)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4012

حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي غَالِبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ فَسَكَتَ عَنْهُ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَأَى الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ فَسَكَتَ عَنْهُ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْكَبَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَيْنَ السَّائِلُ؟"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ".

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمرہ اولیٰ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا جہاد سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے جمرہ کی رمی کی تو اس نے پھر آپ سے یہی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، تو سوار ہونے کے لیے آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور فرمایا: "سوال کرنے والا کہاں ہے"؟، اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(سب سے بہتر جہاد) ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۳۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۵۱،۲۵۶)(حسن صحیح) (یہ اسناد حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4013

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ وعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ . عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ،‏‏‏‏ فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا مَرْوَانُ،‏‏‏‏ خَالَفْتَ السُّنَّةَ،‏‏‏‏ أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ،‏‏‏‏ وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ:‏‏‏‏ أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا،‏‏‏‏ فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ،‏‏‏‏ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ایک شخص نے کہا: مروان! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان ۲۰ (۴۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۸ (۱۱۴۰)، الملاحم ۱۷ (۴۳۴۰)، سنن الترمذی/الفتن ۱۱ (۲۱۷۲)، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ ۱۷ (۵۰۱۱،۵۰۱۲)،(تحفة الأشراف:۱۲۱۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۹،۱۰،۴۹،۵۲،۵۴،۹۲)(صحیح)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ” مومنوں اپنی جانیں بچاؤ “

حد یث نمبر - 4014

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَنْ عَمِّهِ عَمْرِو بْنِ جَارِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ كَيْفَ تَصْنَعُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَيَّةُ آيَةٍ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا،‏‏‏‏ سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَهَوًى مُتَّبَعًا،‏‏‏‏ وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً،‏‏‏‏ وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ،‏‏‏‏ وَرَأَيْتَ أَمْرًا لَا يَدَانِ لَكَ بِهِ،‏‏‏‏ فَعَلَيْكَ خُوَيْصَةَ نَفْسِكَ،‏‏‏‏ وَدَعْ أَمْرَ الْعَوَامِّ،‏‏‏‏ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامَ الصَّبْرِ، ‏‏‏‏‏‏الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلِ قَبْضٍ عَلَى الْجَمْرِ،‏‏‏‏ لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ".

ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور میں نے ان سے پوچھا کہ اس آیت کریمہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے پوچھا: کون سی آیت؟ میں نے عرض کیا: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» "اے ایمان والو! اپنے آپ کی فکر کرو، جب تم ہدایت یاب ہو گے تو دوسروں کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی" (سورة المائدة: 105) انہوں نے کہا: تم نے ایک جان کار شخص سے اس کے متعلق سوال کیا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم دو، اور بری باتوں سے روکو یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخیل کی اطاعت کی جاتی ہے، خواہشات کے پیچھے چلا جاتا ہے، اور دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، ہر صاحب رائے اپنی رائے اور عقل پر نازاں ہے اور تمہیں ایسے کام ہوتے نظر آئیں جنہیں روکنے کی تم میں طاقت نہ ہو تو ایسے وقت میں تم خاص اپنے آپ سے کام رکھو۔ تمہارے پیچھے ایسے دن بھی آئیں گے کہ ان میں صبر کرنا مشکل ہو جائے گا، اور اس وقت دین پر صبر کرنا اتنا مشکل ہو جائے گا جتنا کہ انگارے کو ہاتھ میں پکڑنا، اس زمانہ میں عمل کرنے والے کو اتنا ثواب ملے گا، جتنا اس جیسا عمل کرنے والے پچاس لوگوں کو ملے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۷ (۴۳۴۱)، سنن الترمذی/التفسیر ۶ (۳۰۵۸)،(تحفة الأشراف:۱۱۸۸۱)(ضعیف) (سند میں عمرو بن جاریہ، اور ابو امیہ شعبانی دونوں ضعیف ہیں، لیکن «أيام الصبر» کا فقرہ ثابت ہے)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ” مومنوں اپنی جانیں بچاؤ “

حد یث نمبر - 4015

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ الْخُزَاعِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَيْدٍ حَفْصُ بْنُ غَيْلَانَ الرُّعَيْنِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ مَكْحُولٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَتَى نَتْرُكُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "إِذَا ظَهَرَ فِيكُمْ مَا ظَهَرَ فِي الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ"،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا ظَهَرَ فِي الْأُمَمِ قَبْلَنَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "الْمُلْكُ فِي صِغَارِكُمْ،‏‏‏‏ وَالْفَاحِشَةُ فِي كِبَارِكُمْ،‏‏‏‏ وَالْعِلْمُ فِي رُذَالَتِكُمْ"،‏‏‏‏ قَالَ زَيْدٌ:‏‏‏‏ تَفْسِيرُ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَالْعِلْمُ فِي رُذَالَتِكُمْ":‏‏‏‏ إِذَا كَانَ الْعِلْمُ فِي الْفُسَّاقِ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو کس وقت ترک کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس وقت جب تم میں وہ باتیں ظاہر ہو جائیں جو گذشتہ امتوں میں ظاہر ہوئی تھیں"، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے گذشتہ امتوں میں کون سی باتیں ظاہر ہوئی تھیں؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حکومت تمہارے کم عمروں میں چلی جائے گی، اور تمہارے بڑے آدمیوں میں فحش کاری آ جائے گی، اور علم تمہارے ذلیل لوگوں میں چلا جائے"۔ زید کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول: «والعلم في رذالتكم» کا مطلب یہ ہے کہ علم (دین) فاسقوں میں چلا جائے گا۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۰۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۸۷)(ضعیف) (سند ضعیف ہے اس لئے کہ مکحول مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ” مومنوں اپنی جانیں بچاؤ “

حد یث نمبر - 4016

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْجُنْدُبٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُهُ".

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو رسوا و ذلیل کرے"، لوگوں نے عرض کیا: اپنے آپ کو کیسے رسوا و ذلیل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسی مصیبت کا سامنا کرے گا، جس کی اس میں طاقت نہ ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۶۷ (۲۲۵۴)،(تحفة الأشراف:۳۳۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۰۵)(حسن) (سند میں علی بن زید جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن طبرانی میں ابن عمر رضی اللہ عنہا کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۶۱۳)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ” مومنوں اپنی جانیں بچاؤ “

حد یث نمبر - 4017

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو طُوَالَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا نَهَارٌ الْعَبْدِيُّ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَيَسْأَلُ الْعَبْدَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ حَتَّى يَقُولَ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَ الْمُنْكَرَ أَنْ تُنْكِرَهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا لَقَّنَ اللَّهُ عَبْدًا حُجَّتَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ،‏‏‏‏ رَجَوْتُكَ وَفَرِقْتُ مِنَ النَّاسِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے سوال کرے گا یہاں تک کہ وہ پو چھے گا کہ تم نے جب خلاف شرع کام ہوتے دیکھا تو اسے منع کیوں نہ کیا؟ تو جب اس سے کوئی جواب نہ بن سکے گا تو اللہ تعالیٰ خود اس کو جواب سکھائے گا اور وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں نے تیرے رحم کی امید رکھی، اور لوگوں کا خوف کیا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۳۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۷،۲۹،۷۷)(صحیح)

سزاؤں کا بیان

حد یث نمبر - 4018

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ يُمْلِي لِلظَّالِمِ،‏‏‏‏ فَإِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَرَأَ:‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ سورة هود آية 102".

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، لیکن اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة» "تمہارے رب کی پکڑ ایسی ہی ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے" (سورة الهود: 102)، کی تلاوت کی۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۱۲ (۴۶۸۶)، صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۸۳)، سنن الترمذی/التفسیر ۱۲ (۳۱۱۰)،(تحفة الأشراف:۹۰۳۷)(صحیح)

سزاؤں کا بیان

حد یث نمبر - 4019

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو أَيُّوبَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ أَبِي مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ،‏‏‏‏ خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِيتُمْ بِهِنَّ،‏‏‏‏ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ تُدْرِكُوهُنَّ،‏‏‏‏ لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ،‏‏‏‏ حَتَّى يُعْلِنُوا،‏‏‏‏ بِهَا إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ،‏‏‏‏ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا،‏‏‏‏ وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَعَهْدَ رَسُولِهِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ،‏‏‏‏ فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: "مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۳۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۴)(حسن) (سند میں خالد بن یزید ابن أبی مالک الفقیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، اور یہ کہ یہ قابل عمل ہے)

سزاؤں کا بیان

حد یث نمبر - 4020

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ حَاتِمِ بْنِ حُرَيْثٍ،‏‏‏‏ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ الْأَشْعَرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ،‏‏‏‏ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا،‏‏‏‏ يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ،‏‏‏‏ يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ،‏‏‏‏ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ".

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأشربة ۶ (۳۶۸۸)،(تحفة الأشراف:۱۲۱۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۴۲)(صحیح)

سزاؤں کا بیان

حد یث نمبر - 4021

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ لَيْثٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْمِنْهَالِ،‏‏‏‏ عَنْ زَاذَانَ،‏‏‏‏ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "دَوَابُّ الْأَرْضِ".

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ: «يلعنهم الله ويلعنهم اللاعنون» "یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں" (سورة البقرة: 159)، کی تفسیر میں فرمایا: «اللاعنون» سے زمین کے چوپائے مراد ہیں"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۶۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۵)(ضعیف) (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں)

سزاؤں کا بیان

حد یث نمبر - 4022

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ،‏‏‏‏ عَنْثَوْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ،‏‏‏‏ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ،‏‏‏‏ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ".

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۰۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۶)(حسن)(یہ حدیث حسن ہے، آخری فقرہ: «وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه» ضعیف ہے، ضعف کا سبب عبداللہ بن أبی الجعد کا تفرد ہے، وہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور متابعت نہ ہونے کی وجہ سے یہ فقرہ ضعیف ہے)

وضاحت: ۱؎: چاہے جتنا کوشش اور محنت کرے،لیکن اس کو فراغت اور مالداری حاصل نہیں ہوتی، کبھی اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی اولاد پر بھی کئی پشت تک اثر رہتا ہے، اللہ بچائے، بعضوں نے کہا: عمر بڑھنے سے یہی مراد ہے کہ اچھی شہرت ہو جاتی ہے گویا وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہے، یا روزی بڑھنا کیونکہ عمر پیدا ہوتے ہی معین ہو جاتی ہے، گھٹ بڑھ نہیں سکتی۔

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4023

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ،‏‏‏‏ وَيَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَنْبِيَاءُ،‏‏‏‏ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ،‏‏‏‏ يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ،‏‏‏‏ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ،‏‏‏‏ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ".

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت اور آزمائش کا شکار کون ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انبیاء، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت اور پختہ ہے تو آزمائش بھی سخت ہو گی، اور اگر دین میں نرم اور ڈھیلا ہے تو مصیبت بھی اسی انداز سے نرم ہو گی، مصیبتوں سے بندے کے گناہوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزہد ۵۶ (۲۳۹۸)،(تحفة الأشراف:۳۹۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۲،۱۷۳،۱۸۰،۱۸۵)، سنن الدارمی/الرقاق ۶۷ (۲۸۲۵)(حسن صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4024

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،‏‏‏‏ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ،‏‏‏‏ فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّا كَذَلِكَ يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَاءُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْأَنْبِيَاءُ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "ثُمَّ الصَّالِحُونَ،‏‏‏‏ إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يُحَوِّيهَا،‏‏‏‏ وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انبیاء پر"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کن پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم میں سے کوئی مال و دولت ملنے پر خوش ہوتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۱۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۷)(صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4025

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَهُوَ"يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۷)، صحیح مسلم/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۲)،(تحفة الأشراف:۹۲۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۵۶،۴۵۷،۳۸۰،۴۲۷،۴۳۲)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: خود آپ ﷺ نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا: " اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں "۔

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4026

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ،‏‏‏‏ عَنْابْنِ شِهَابٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ،‏‏‏‏ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ:‏‏‏‏ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260،‏‏‏‏ وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا،‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ،‏‏‏‏ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے)کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جائے، اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو لیتا ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۱۱ (۳۳۷۲)، صحیح مسلم/الإیمان ۶۹ (۱۵۱)،(تحفة الأشراف:۱۳۳۲۵،۱۵۳۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۲۶)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم کو شک نہیں ہوا تو بھلا ابراہیم علیہ السلام کو کیوں کر شک ہو سکتا ہے، انہوں نے تو عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنا انہیں دکھا دیا جائے۔ ۲؎: یہ تعریف ہے یوسف علیہ السلام کے صبر اور استقلال کی، اتنی لمبی قید پر بھی انہوں نے رہائی کے لئے جلدی نہیں کی۔

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4027

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ كُسِرَتْ رَبَاعِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشُجَّ،‏‏‏‏ فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ،‏‏‏‏ وَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ "كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ،‏‏‏‏ وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک دانت ٹوٹ گیا، اور سر زخمی ہو گیا، تو خون آپ کے چہرہ مبارک پر بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو اپنے چہرہ سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا ہو، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ليس لك من الأمر شيء» "اے نبی! آپ کو اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں ہے" (سورة آل عمران: 128)۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ:(تحفة الأشراف:۷۲۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجہاد ۳۶ (۱۷۹۱)، سنن الترمذی/التفسیر ۴ (۳۰۰۳)، مسند احمد (۳/۱۱۳)(صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4028

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام،‏‏‏‏ ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ؟ قَدْ خُضِّبَ بِالدِّمَاءِ قَدْ ضَرَبَهُ بَعْضُ أَهْلِ مَكَّةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَعَلَ بِي هَؤُلَاءِ وَفَعَلُوا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً؟ قَالَ:‏‏‏‏ "نَعَمْ أَرِنِي"،‏‏‏‏ فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَاءِ الْوَادِي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ادْعُ تِلْكَ الشَّجَرَةَ فَدَعَاهَا،‏‏‏‏ فَجَاءَتْ تَمْشِي حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْ لَهَا فَلْتَرْجِعْ،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهَا:‏‏‏‏ فَرَجَعَتْ حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "حَسْبِي".

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے، اور لہولہان تھے، اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کو خشت زنی کر کے لہولہان کر دیا تھا، انہوں نے کہا: آپ کو کیا ہو گیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے"، جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی نشانی دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں دکھائیے"، پھر جبرائیل علیہ السلام نے وادی کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا، اور کہا: آپ اس درخت کو بلائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی، وہ آ کر آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر انہوں نے کہا: آپ اس سے کہیے کہ وہ واپس جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس جانے کو کہا، تو وہ اپنی جگہ چلا گیا، (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے لیے یہ نشانی (معجزہ) ہی کافی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف (۹۲۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۳)، سنن الدارمی/المقدمة ۴ (۲۳)(صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4029

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْحُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَحْصُوا لِي كُلَّ مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ"،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَتَخَافُ عَلَيْنَا،‏‏‏‏ وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلُوا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَابْتُلِينَا حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا مَا يُصَلِّي إِلَّا سِرًّا.

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمام مسلمانوں کی تعداد شمار کر کے مجھے بتاؤ"، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہم پر(اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کرتے ہیں، جب کہ اب ہماری تعداد چھ اور سات سو کے درمیان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ نہیں جانتے شاید کہ تم آزمائے جاؤ"۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کوئی نماز بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۱۸۱ (۳۰۶۰،۳۰۶۱)، صحیح مسلم/الإیمان ۶۷ (۱۴۹)،(تحفة الأشراف:۳۳۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۴)(صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4030

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ مُجَاهِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَنَّهُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَا جِبْرِيلُ،‏‏‏‏ مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ رِيحُ قَبْرِ الْمَاشِطَةِ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ بَدْءُ ذَلِكَ،‏‏‏‏ أَنَّ الْخَضِرَ كَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِي إِسْرَائِيلَ،‏‏‏‏ وَكَانَ مَمَرُّهُ بِرَاهِبٍ فِي صَوْمَعَتِهِ فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرَّاهِبُ فَيُعَلِّمُهُ الْإِسْلَامَ،‏‏‏‏ فَلَمَّا بَلَغَ الْخَضِرُ زَوَّجَهُ أَبُوهُ امْرَأَةً،‏‏‏‏ فَعَلَّمَهَا الْخَضِرُ وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا،‏‏‏‏ وَكَانَ لَا يَقْرَبُ النِّسَاءَ فَطَلَّقَهَا ثُمَّ زَوَّجَهُ أَبُوهُ أُخْرَى،‏‏‏‏ فَعَلَّمَهَا وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا،‏‏‏‏ فَكَتَمَتْ إِحْدَاهُمَا،‏‏‏‏ وَأَفْشَتْ عَلَيْهِ الْأُخْرَى،‏‏‏‏ فَانْطَلَقَ هَارِبًا حَتَّى أَتَى جَزِيرَةً فِي الْبَحْرِ،‏‏‏‏ فَأَقْبَلَ رَجُلَانِ يَحْتَطِبَانِ فَرَأَيَاهُ،‏‏‏‏ فَكَتَمَ أَحَدُهُمَا وَأَفْشَى الْآخَرُ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ رَأَيْتُ الْخَضِرَ،‏‏‏‏ فَقِيلَ:‏‏‏‏ وَمَنْ رَآهُ مَعَكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فُلَانٌ:‏‏‏‏ فَسُئِلَ فَكَتَمَ،‏‏‏‏ وَكَانَ فِي دِينِهِمْ أَنَّ مَنْ كَذَبَ قُتِلَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْكَاتِمَةَ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشُطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ سَقَطَ الْمُشْطُ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ تَعِسَ فِرْعَوْنُ،‏‏‏‏ فَأَخْبَرَتْ أَبَاهَا،‏‏‏‏ وَكَانَ لِلْمَرْأَةِ ابْنَانِ وَزَوْجٌ،‏‏‏‏ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَرَاوَدَ الْمَرْأَةَ وَزَوْجَهَا أَنْ يَرْجِعَا عَنْ دِينِهِمَا فَأَبَيَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَاتِلُكُمَا،‏‏‏‏ فَقَالَا:‏‏‏‏ إِحْسَانًا مِنْكَ إِلَيْنَا إِنْ قَتَلْتَنَا أَنْ تَجْعَلَنَا فِي بَيْتٍ،‏‏‏‏ فَفَعَلَ،‏‏‏‏ فَلَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً فَسَأَلَ جِبْرِيلَ فَأَخْبَرَهُ.

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات ایک خوشبو محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جبرائیل! یہ کیسی خوشبو ہے"؟، انہوں نے کہا: یہ اس عورت کی قبر کی خوشبو ہے جو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتی تھی، اور اس کے دونوں بیٹوں اور شوہر کے قبر کی خوشبو ہے، (جنہیں ایمان لانے کی وجہ سے فرعون نے قتل کر دیا تھا) اور ان کے قصے کی ابتداء اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرائیل کے شریف لوگوں میں تھے، ان کا گزر ایک (راہب)درویش کے عبادت خانے سے ہوتا تو وہ عابد راہب اوپر سے ان کو جھانکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کار جب خضر جوان ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکاح کر دیا، خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس بات سے کسی کو باخبر مت کرنا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کر دیا، خضر نے اس سے بھی نہ بتانے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس راز کو چھپا لیا، اور دوسری نے ظاہر کر دیا (کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا یہ سنتے ہی) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لیے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میں سے بھی ایک نے تو ان کا حال پوشیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظاہر کر دیا اور کہا: میں نے خضر کو فلاں جزیرے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا تو اس نے چھپایا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے، اسے قتل کر دیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا، جس نے اپنا دین چھپایا تھا، (اور خضر کا نام نہیں بتایا تھا)، اسی دوران کہ یہ عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبان سے بے اختیار نکل گیا کہ فرعون تباہ و برباد ہو (اپنی بے دینی کی وجہ سے) بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتا دیا، اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فرعون نے ان سبھوں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھوڑ کر اپنے دین میں آنے کے لیے پھسلایا، ان دونوں نے انکار کیا، تو اس نے کہا: میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا، ان دونوں نے جواب دیا: اگر تم ہمیں قتل کرنا چاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسان کرنا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کر دینا، چنانچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کی رات میں خوشبو محسوس کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبر ہے (جس سے یہ خوشبو آ رہی ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۰)(ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4031

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ "عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ،‏‏‏‏ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا،‏‏‏‏ وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الزہد ۵۶ (۲۳۹۶)،(تحفة الأشراف:۸۴۹)(حسن)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4032

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ صَالِحٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْيَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ،‏‏‏‏ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة ۵۵ (۲۵۰۷)،(تحفة الأشراف:۸۵۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اور تقاضے کے مطابق زندگی گزارتا ہو، یعنی جمعہ، جماعت، عیدین اور جنازے میں حاضر ہو اور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4033

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ طَعْمَ الْإِيمَانِ"،‏‏‏‏ وَقَالَ بُنْدَارٌ:‏‏‏‏ "حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ،‏‏‏‏ مَنْ كَانَ يُحِبُّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ،‏‏‏‏ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، (بندار کی روایت میں ہے کہ وہ ایمان کی حلاوت (مٹھاس) پائے گا) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان ۹ (۱۶)،۱۴ (۲۱)، الأدب ۴۲ (۶۰۴۱)، الإکراہ ۱ (۶۹۴۱)، صحیح مسلم/الایمان ۱۵ (۴۳)، سنن النسائی/الایمان ۳ (۴۹۹۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الإیمان ۱۰ (۲۶۲۴)، مسند احمد (۳/۱۰۳،۱۱۴،۱۷۲،۱۷۴،۲۳۰،۲۴۸،۲۷۵،۲۸۸)(صحیح)

آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 4034

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ"لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ،‏‏‏‏ وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا،‏‏‏‏ فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ،‏‏‏‏ وَلَا تَشْرَبْ الْخَمْرَ،‏‏‏‏ فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ".

ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو وصیت کی ہے کہ "تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاؤ، اور جلا دئیے جاؤ، اور فرض نماز کو جان بوجھ کر مت چھوڑنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پناہ اٹھ گئی، اور تم شراب مت پینا، کیونکہ شراب تمام برائیوں کی کنجی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۹۸۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۱)(حسن) (آخری جملہ اس سند سے کتاب الأشربہ میں گزرا ہے)

زمانہ کی سختی کا بیان

حد یث نمبر - 4035

حَدَّثَنَا غِيَاثُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّحَبِيُّ،‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ جَابِرٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ رَبِّهِ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا بَلَاءٌ وَفِتْنَةٌ".

معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "دنیا میں فتنوں اور مصیبتوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۴۵۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۹۴)(صحیح)

زمانہ کی سختی کا بیان

حد یث نمبر - 4036

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ الْجُمَحِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ،‏‏‏‏ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ،‏‏‏‏ يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ،‏‏‏‏ وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ،‏‏‏‏ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ،‏‏‏‏ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ،‏‏‏‏ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں «رويبضة» بات کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: «رويبضة» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۹۵۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۱)(صحیح) (سند میں ابن قدامہ ضعیف، اور اسحاق بن أبی الفرات مجہول ہیں، لیکن مسند احمد ۲ / ۳۳۸ کے طریق سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث مسند احمد ۳/۲۲۰، سے تقویت پاکر صحیح ہے)

زمانہ کی سختی کا بیان

حد یث نمبر - 4037

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيل الْأَسْلَمِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَى الْقَبْرِ،‏‏‏‏ فَيَتَمَرَّغَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ وَيَقُولَ:‏‏‏‏ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَكَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ،‏‏‏‏ وَلَيْسَ بِهِ الدِّينُ إِلَّا الْبَلَاءُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک آدمی قبر پر جا کر نہ لوٹے، اور یہ تمنا نہ کرے کہ کاش! اس قبر والے کی جگہ میں دفن ہوتا، اس کا سبب دین و ایمان نہیں ہو گا، بلکہ وہ دنیا کی بلا اور فتنے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۱۸ (۱۵۷)،(تحفة الأشراف:۱۳۳۹۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الفتن ۲۲ (۷۱۱۵)، موطا امام مالک/الجنائز ۱۶ (۵۳)(صحیح)

زمانہ کی سختی کا بیان

حد یث نمبر - 4038

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ عَنْ يُونُسَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ يَعْنِي:‏‏‏‏ مَوْلَى مُسَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَتُنْتَقَوُنَّ كَمَا يُنْتَقَى التَّمْرُ مِنْ أَغْفَالِهِ،‏‏‏‏ فَلْيَذْهَبَنَّ خِيَارُكُمْ وَلَيَبْقَيَنَّ شِرَارُكُمْ،‏‏‏‏ فَمُوتُوا إِنِ اسْتَطَعْتُمْ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ایسے چن لیے جاؤ گے جیسے عمدہ کھجوریں ردی کھجوروں میں سے چنی جاتی ہیں، تمہارے نیک لوگ گزر جائیں گے، اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے، تو اگر تم سے ہو سکے تو تم بھی مر جانا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۸۷۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۴)(صحیح) (سند میں ابو حمید مجہول راوی ہیں، لیکن اصل حدیث رویفع بن ثابت کے شاہد سے تقویت پاکر صحیح ہے، جس کی تصحیح ابن حبان نے کی ہے، آخری جملہ «فموتوا إن استطعتم» ضعیف ہے، اس لئے کہ اس کا شاہد نہیں ہے)

زمانہ کی سختی کا بیان

حد یث نمبر - 4039

حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الْجَنَدِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً،‏‏‏‏ وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا،‏‏‏‏ وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُحًّا،‏‏‏‏ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ،‏‏‏‏ وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دن بہ دن معاملہ سخت ہوتا چلا جائے گا، اور دنیا تباہی کی طرف بڑھتی جائے گی، اور لوگ بخیل ہوتے جائیں گے، اور قیامت بدترین لوگوں پر ہی قائم ہو گی، اور مہدی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۴۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۵)(ضعیف جدا) (سند میں محمد بن خالد الجندی ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن «ولا تقوم الساعة إلا على شرار الناس» کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے)

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4040

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ،‏‏‏‏ وَأَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ"وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اور قیامت دونوں اس طرح بھیجے گئے ہیں"، آپ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر بتایا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۳۹ (۶۵۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۲۸۴۷)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی امت محمدیہ کے بعد قیامت تک اور کوئی امت حقہ نہ ہو گی اور اسلام ہی کے خاتمہ پر دنیا کا بھی خاتمہ ہے، اس حدیث سے یہ مقصد نہیں ہے کہ مجھ میں اور قیامت میں فاصلہ نہیں ہے جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا اور اپنے خیال کی بناء پر یہ اعتراض کیا کہ آپ ﷺ کو وفات کئے ہوئے چودہ سو برس سے زیادہ گزرے لیکن ابھی تک قیامت نہیں ہوئی اور نہ اس کی کوئی بڑی نشانی ظاہر ہوئی۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4041

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ سُفْيَانَ،‏‏‏‏ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ اطَّلَعَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غُرْفَةٍ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ السَّاعَةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ:‏‏‏‏ الدَّجَّالُ،‏‏‏‏ وَالدُّخَانُ،‏‏‏‏ وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا".

حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اپنے کمرے سے جھانکا، ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں گی قیامت قائم نہ ہو گی، جن میں سے دجال، دھواں اور سورج کا پچھم سے نکلنا بھی ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۱۳ (۲۹۰۱)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۱)، سنن الترمذی/الفتن ۲۱ (۲۱۸۳)،(تحفة الأشراف:۳۲۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۶،۷)(صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، اور بہ تمام وکمال:۴۰۵۵ نمبر پر آرہی ہے)

وضاحت: ۱؎: اس روایت میں صرف تین ہی نشانیاں بیان ہوئی ہیں، یہ حدیث مختصر ہے، پوری روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے جسے مولف دو باب کے بعد بیان کریں گے، اس میں دس نشانیاں مذکور ہیں۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4042

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي خِبَاءٍ مِنْ أَدَمٍ،‏‏‏‏ فَجَلَسْتُ بِفِنَاءِ الْخِبَاءِ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ادْخُلْ يَا عَوْفُ"،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ بِكُلِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "بِكُلِّكَ"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "يَا عَوْفُ،‏‏‏‏ احْفَظْ خِلَالًا سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ،‏‏‏‏ إِحْدَاهُنَّ مَوْتِي"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَوَجَمْتُ عِنْدَهَا وَجْمَةً شَدِيدَةً،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "قُلْ:‏‏‏‏ إِحْدَى،‏‏‏‏ ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ،‏‏‏‏ ثُمَّ دَاءٌ يَظْهَرُ فِيكُمْ يَسْتَشْهِدُ اللَّهُ بِهِ ذَرَارِيَّكُمْ وَأَنْفُسَكُمْ وَيُزَكِّي بِهِ أَموَالَكُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَكُونُ الْأَمْوَالُ فِيكُمْ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلَّ سَاخِطًا،‏‏‏‏ وَفِتْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ لَا يَبْقَى بَيْتُ مُسْلِمٍ إِلَّا دَخَلَتْهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ هُدْنَةٌ،‏‏‏‏ فَيَغْدِرُونَ بِكُمْ،‏‏‏‏ فَيَسِيرُونَ إِلَيْكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةٍ تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عوف! اندر آ جاؤ"، میں نے عرض کیا: پورے طور سے، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں پورے طور سے"، پھر آپ نے فرمایا: "عوف! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے"، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری ایک بیماری ہے جو تم میں ظاہر ہو گی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہارے اعمال کو پاک کرے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہو گی حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی راضی نہ ہو گا، پانچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ برپا ہو گا جس سے کوئی گھر باقی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو، چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہو گی، لیکن پھر وہ لوگ تم سے دغا کریں گے، اور تمہارے مقابلہ کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجزیة ۱۵ (۳۱۷۶)، سنن ابی داود/الأدب ۹۲ (۵۰۰۰،۵۰۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۰۹۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۲)(صحیح)

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4043

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمْرٌو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ،‏‏‏‏ حَتَّى تَقْتُلُوا إِمَامَكُمْ،‏‏‏‏ وَتَجْتَلِدُوا بِأَسْيَافِكُمْ،‏‏‏‏ وَيَرِثُ دُنْيَاكُمْ شِرَارُكُمْ".

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم اپنے امام کو قتل کرو گے، اور اپنی تلواریں لے کر باہم لڑو گے، اور تمہارے بدترین لوگ تمہاری دنیا کے مالک بن جائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۹ (۲۱۷۰)،(تحفة الأشراف:۳۳۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۹)(ضعیف) (سند میں عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری اور عبدالعزیز دراوردی میں کلام ہے)

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4044

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَيَّانَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ،‏‏‏‏ فَأَتَاهُ رَجُلٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَتَى السَّاعَةُ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ سَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا:‏‏‏‏ إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا،‏‏‏‏ وَإِذَا كَانَتِ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ،‏‏‏‏ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا،‏‏‏‏ وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ،‏‏‏‏ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا،‏‏‏‏ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ"،‏‏‏‏ فَتَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ سورة لقمان آية 34.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز لوگوں کے پاس باہر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تمہیں قیامت کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب لونڈی اپنی مالکہ کو جنے، تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب ننگے پاؤں، ننگے بدن لوگ لوگوں کے سردار بن جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریاں چرانے والے عالی شان عمارتوں پر فخر کرنے لگ جائیں، تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں ہے، اور قیامت کا علم ان پانچ باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام» "اللہ ہی کو معلوم ہے کہ قیامت کب ہو گی، وہی بارش نازل کرتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے" (سورة لقما ن: 34) ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان ۳۸ (۵۰)، صحیح مسلم/الإیمان ۱ (۹)، سنن النسائی/الإیمان ۶ (۴۹۹۴)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۲۶)(صحیح) (یہ حدیث نمبر (۶۵)کا ایک ٹکڑا ہے)

وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو قیامت کا وقت معلوم ہے، وہی پانی برساتا ہے، وہی جانتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ہے اور کسی آدمی کو معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا اور کہاں مرے گا، بس یہ باتیں غیب مطلق ہیں ان کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے، اور جو کوئی دعوے کرے کہ کسی نبی یا ولی کو علم غیب ہے وہ تو کافر ہے، قرآن کی بہت ساری آیتوں میں صاف صاف یہ مضمون ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہئے: میں غیب نہیں جانتا۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4045

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ،‏‏‏‏ عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ لَا يُحَدِّثُكُمْ بِهِ أَحَدٌ بَعْدِي،‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ مِنْهُ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ:‏‏‏‏ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيَفْشُوَ الزِّنَا،‏‏‏‏ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ،‏‏‏‏ وَيَذْهَبَ الرِّجَالُ،‏‏‏‏ وَيَبْقَى النِّسَاءُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً قَيِّمٌ وَاحِدٌ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث نہ بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اور میرے بعد تم سے وہ حدیث کوئی بیان کرنے والا نہیں ہو گا، میں نے اسے آپ ہی سے سنا ہے کہ "قیامت کی نشانیاں یہ ہیں کہ علم اٹھ جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہو جائے گا، شراب پی جانے لگے گی، مرد کم ہو جائیں گے، عورتیں زیادہ ہوں گی حتیٰ کہ پچاس عورتوں کا «قيم» (سر پرست و کفیل) ایک مرد ہو گا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم ۲۱ (۸۱)، صحیح مسلم/العلم ۵ (۲۶۷۱)، سنن الترمذی/الفتن ۳۴ (۲۲۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۲۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۹۸،۱۸۶،۲۰۲،۲۷۳،۲۷۷)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: اس کی وجہ یہ ہو گی کہ اس وقت لڑائیاں بہت ہوں گی ان لڑائیوں میں مرد مارے جائیں گے اور عورتیں بکثرت باقی رہ جائیں گی۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4046

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَحْسُرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ،‏‏‏‏ فَيَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ تِسْعَةٌ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ نہ ظاہر ہو جائیں، اور لوگ اس پر باہم جنگ کرنے لگیں، حتیٰ کہ دس آدمیوں میں سے نو قتل ہو جائیں گے، اور ایک باقی رہ جائے گا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۰۹۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الفتن ۲۴ (۷۱۱۹)، صحیح مسلم/الفتن ۸ (۲۸۹۴)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۳ (۴۳۱۳)، سنن الترمذی/صفة الجنة ۲۶ (۲۵۶۹)، مسند احمد (۲/۲۶۱،۳۳۲،۳۶۰)(حسن صحیح) («من کل عشرة تسعة» کا لفظ ضعیف اور شاذ ہے،«من کل مئة تسعة وتسعون» کا لفظ محفوظ ہے)۔

وضاحت: ۱ ؎: دوسری روایت میں ہے کہ ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے اور ہر شخص کہے گا کہ شاید میں بچ رہوں اور سونے کے اس پہاڑ کو لوں اور لڑے گا، صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے کہ جب یہ خزانہ نمودار ہو تو جو وہاں موجود ہو اس میں سے کچھ نہ لے، واضح رہے کہ اس خزانے کے حصول کے لیے بہت قتل و غارت ہو گی، ہر شخص یہی چاہے گا کہ یہ خزانہ اسی کو ملے۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان

حد یث نمبر - 4047

حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَفِيضَ الْمَالُ،‏‏‏‏ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَا الْهَرْجُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْقَتْلُ الْقَتْلُ الْقَتْلُ"ثَلَاثًا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی، جب تک مال کی خوب فراوانی نہ ہو جائے، اور فتنہ عام نہ ہو جائے «هرج» کثرت سے ہونے لگے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: "قتل، قتل، قتل"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم ۲۴ (۸۳)، الفتن ۲۵ (۷۱۲۱)، صحیح مسلم/الزکاة ۱۸ (۱۵۷)، مسند احمد (۲/۲۳۳،۴۱۷)(صحیح)

قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے

حد یث نمبر - 4048

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ؟ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ،‏‏‏‏ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا،‏‏‏‏ وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ،‏‏‏‏ إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ،‏‏‏‏ وَالْإِنْجِيلَ،‏‏‏‏ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا".

زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا ذکر کیا اور فرمایا: "یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جائے گا"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اسی طرح قیامت تک سلسلہ چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زیاد! تمہاری ماں تم پر روئے، میں تو تمہیں مدینہ کا سب سے سمجھدار آدمی سمجھتا تھا، کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن ان میں سے کسی بات پر بھی یہ لوگ عمل نہیں کرتے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۶۵۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۰،۲۱۹)(صحیح) (سند میں سالم بن أبی الجعد اور زیاد بن لبید کے مابین انقطاع ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو:(اقتضاء العلم العمل:۱۸۹/۸۹ و العلم لابی خیثمة:۱۲۱/۵۲، و المشکاة:۲۴۵ - ۲۷۷)

وضاحت: ۱ ؎: بلکہ اپنے پادریوں اور مولویوں کے تابع ہیں ان کی رائے پر چلتے ہیں، یا عقلی قانون بناتے ہیں، اس پر چلتے ہیں، کتاب الٰہی کوئی نہیں پوچھتا، مقلدین حضرات جو احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ائمہ کے اقوال سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اس حدیث پر غور فرمائیں۔

قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے

حد یث نمبر - 4049

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ كَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ،‏‏‏‏ حَتَّى لَا يُدْرَى مَا صِيَامٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَلَاةٌ،‏‏‏‏ وَلَا نُسُكٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَدَقَةٌ،‏‏‏‏ وَلَيُسْرَى عَلَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ،‏‏‏‏ فَلَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ،‏‏‏‏ وَتَبْقَى طَوَائِفُ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ الشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْعَجُوزُ،‏‏‏‏ يَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَدْرَكْنَا آبَاءَنَا عَلَى هَذِهِ الْكَلِمَةِ،‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَنَحْنُ نَقُولُهَا"،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ صِلَةُ:‏‏‏‏ مَا تُغْنِي عَنْهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ،‏‏‏‏ وَلَا صِيَامٌ،‏‏‏‏ وَلَا نُسُكٌ،‏‏‏‏ وَلَا صَدَقَةٌ؟ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا،‏‏‏‏ كُلَّ ذَلِكَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا صِلَةُ تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ،‏‏‏‏ ثَلاثًا.

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام ایسا ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑے کے نقش و نگار پرانے ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ جاننے والے بھی باقی نہ رہیں گے کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے؟ اور کتاب اللہ ایک رات میں ایسی غائب ہو جائے گی کہ اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہ جائے گی ۱؎، اور لوگوں کے چند گروہ ان میں سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں باقی رہ جائیں گے، کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کہتے ہوئے پایا، تو ہم بھی اسے کہا کرتے ہیں ۲؎۔ صلہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جب انہیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ نماز، روزہ، قربانی اور صدقہ و زکاۃ کیا چیز ہے تو انہیں فقط یہ کلمہ «لا إله إلا الله» کیا فائدہ پہنچائے گا؟ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ان سے منہ پھیر لیا، پھر انہوں نے تین بار یہ بات ان پر دہرائی لیکن وہ ہر بار ان سے منہ پھیر لیتے، پھر تیسری مرتبہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے صلہ! یہ کلمہ ان کو جہنم سے نجات دے گا، اس طرح تین بار کہا" ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۳۲۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۲۹)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے حروف غائب ہو جا ئیں گے اور حافظ تو پہلے ہی چلے جا ئیں گے۔ ۲؎: باقی دین کی اور کوئی بات انہیں معلوم نہ ہو گی۔ ۳؎: کیونکہ وہ لوگ دین کی اور باتوں کے منکر نہ ہوں گے صرف اسے ناواقف ہوں گے اور ناواقف آدمی کو نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے۔

قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے

حد یث نمبر - 4050

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ وَوَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَكُونُ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ أَيَّامٌ يُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ،‏‏‏‏ وَالْهَرْجُ الْقَتْلُ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے قریب کچھ دن ایسے ہوں گے جن میں علم اٹھ جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی، اور «هرج» زیادہ ہو گا"، «هرج»: قتل کو کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفتن ۵ (۷۰۶۲،۷۰۶۳)، صحیح مسلم/العلم ۱۴ (۲۶۷۲)، سنن الترمذی/الفتن ۱۳ (۲۲۰۰)،(تحفة الأشراف:۹۰۰۰،۹۲۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۹،۴۰۲،۴۰۵،۴۵۰،۴/۳۹۲،۴۰۵)(صحیح)

قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے

حد یث نمبر - 4051

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْقَتْلُ".

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے بعد ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت چھا جائے گی، علم اٹھ جائے گا، اور«هرج» زیادہ ہو گا"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل"۔

تخریج دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (صحیح)

قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے

حد یث نمبر - 4052

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ بْنُ أبِى شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ عَنْ مَعْمَرٍ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَرْفَعُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ،‏‏‏‏ وَيَنْقُصُ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيُلْقَى الشُّحُّ،‏‏‏‏ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْقَتْلُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمانہ ایک دوسرے سے قریب ہو جائے گا، ۱؎ علم گھٹ جائے گا، (لوگوں کے دلوں میں)بخیلی ڈال دی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، اور «هرج» زیادہ ہو گا"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفتن ۵ (۷۰۶۱)، صحیح مسلم/العلم ۷۲ (۱۵۷)،(تحفة الأشراف:۱۳۲۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۳)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی عیش و عشرت یا بے برکتی کی وجہ سے زمانہ جلدی گزر جائے گا، یا عمریں چھوٹی ہوں گی۔

امانت کے ختم ہو جانے کا بیان

حد یث نمبر - 4053

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ،‏‏‏‏ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا:‏‏‏‏ "أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ"،‏‏‏‏ قَالَ الطَّنَافِسِيُّ:‏‏‏‏ يَعْنِي:‏‏‏‏ وَسْطَ قُلُوبِ الرِّجَالِ،‏‏‏‏ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ،‏‏‏‏ فَعَلِمْنَا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمْنَا مِنَ السُّنَّةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ،‏‏‏‏ فَتُرْفَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ،‏‏‏‏ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الكوكب،‏‏‏‏ وَيَنَامُ النَّوْمَةَ،‏‏‏‏ فَتُنْزَعُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ،‏‏‏‏ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا كَأَثَرِ الْمَجْلِ،‏‏‏‏ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ،‏‏‏‏ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا،‏‏‏‏ وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ"،‏‏‏‏ ثُمَّ أَخَذَ حُذَيْفَةُ كَفًّا مِنْ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى سَاقِهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ،‏‏‏‏ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ،‏‏‏‏ حَتَّى يُقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا،‏‏‏‏ وَحَتَّى يُقَالَ:‏‏‏‏ لِلرَّجُلِ مَا أَعْقَلَهُ وَأَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ،‏‏‏‏ وَمَا فِي قَلْبِهِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ"،‏‏‏‏ وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ وَلَسْتُ أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ،‏‏‏‏ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ إِسْلَامُهُ،‏‏‏‏ وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا،‏‏‏‏ أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ،‏‏‏‏ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا.

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: "امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا تو) امانت کا اثر ایک نقطے کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو امانت اس کے دل سے چھین لی جائے گی، تو اس کا اثر (اس کے دل میں) کھال موٹا ۲؎ ہونے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تم انگارے کو پاؤں پر لڑھکا دو تو کھال پھول کر آبلے کی طرح دکھائی دے گی، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا"، پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں اپنی پنڈلی پر لڑھکا لیا، اور فرمانے لگے: "پھر لوگ صبح کو ایک دوسرے سے خرید و فروخت کریں گے، لیکن ان میں سے کوئی بھی امانت دار نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں فلاں امانت دار شخص ہے، اور یہاں تک آدمی کو کہا جائے گا کہ کتنا عقلمند، کتنا توانا اور کتنا ذہین و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا، اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے پروا نہ تھی کہ میں تم میں سے کس سے معاملہ کروں، یعنی مجھے کسی کی ضمانت کی حاجت نہ تھی، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے مجھ پر زیادتی کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا گماشتہ بھی انصاف سے کام لیتا (یعنی ان کے عامل اور عہدہ دار بھی ایماندار اور منصف ہوتے) اور اب آج کے دن مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں اس سے معاملہ کروں سوائے فلاں فلاں کے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق ۳۵ (۶۴۹۷)، صحیح مسلم/الإیمان ۶۴ (۱۴۳)، سنن الترمذی/الفتن ۱۷ (۲۱۷۹)،(تحفة الأشراف:۳۳۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۳،۳۸۴،۴۰۳)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا ظہور ہو گیا۔ ۲؎: جس سے ایمانداری اور بڑھ گئی، مطلب یہ ہے کہ ایمانداری کی صفت بعض دلوں میں فطری طور پر ہوتی ہے اور کتاب و سنت حاصل کرنے سے اور بڑھ جاتی ہے۔ ۳ ؎: جیسے پھوڑا اچھا ہو جاتا ہے، لیکن جلد کی سختی ذرا سی رہ جاتی ہے، اور یہ درجہ اول سے بھی کم ہے، اول میں تو ایک نقطہ کے برابر امانت رہ گئی تھی یہاں اتنی بھی نہ رہی صرف نشان رہ گیا۔

امانت کے ختم ہو جانے کا بیان

حد یث نمبر - 4054

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِنَانٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي شَجَرَةَ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ عَبْدًا،‏‏‏‏ نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ،‏‏‏‏ فَإِذَا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ الْأَمَانَةُ،‏‏‏‏ فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الْأَمَانَةُ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ،‏‏‏‏ فَإِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ،‏‏‏‏ لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا،‏‏‏‏ فَإِذَا لَمْ تَلْقَهُ إِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا،‏‏‏‏ نُزِعَتْ مِنْهُ رِبْقَةُ الْإِسْلَامِ".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم و حیاء کو نکال لیتا ہے، پھر جب حیاء اٹھ جاتی ہے تو اللہ کے قہر میں گرفتار ہو جاتا ہے، اور اس حالت میں اس کے دل سے امانت بھی چھین لی جاتی ہے، اور جب اس کے دل سے امانت چھین لی جاتی ہے تو وہ چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے، اور جب چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے تو اس کے دل سے رحمت چھین لی جاتی ہے، اور جب اس سے رحمت چھین لی جاتی ہے تو تم اسے ملعون و مردود پاؤ گے، اور جب تم ملعون و مردود دیکھو تو سمجھ لو کہ اسلام کا قلادہ اس کی گردن سے نکل چکا ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۸۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۰)(موضوع) (سند میں سعید بن سنان متروک راوی ہے، اور دارقطنی وغیرہ نے وضع حدیث کا اتہام لگایا ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۳۰۴۴)

قیامت کی نشانیوں کا بیان 2

حد یث نمبر - 4055

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ،‏‏‏‏ عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَبِي الطُّفَيْلِ الْكِنَانِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ أَبِي سَرِيحَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ اطَّلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غُرْفَةٍ وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ السَّاعَةَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ:‏‏‏‏ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا،‏‏‏‏ وَالدَّجَّالُ،‏‏‏‏ وَالدُّخَانُ،‏‏‏‏ وَالدَّابَّةُ،‏‏‏‏ وَيَأْجُوجُ،‏‏‏‏ وَمَأْجُوجُ،‏‏‏‏ وَخُرُوجُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام،‏‏‏‏ وَثَلَاثُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ،‏‏‏‏ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ،‏‏‏‏ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ،‏‏‏‏ وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قَعْرِ عَدَنِ أَبْيَنَ،‏‏‏‏ تَسُوقُ النَّاسَ إِلَى الْمَحْشَرِ،‏‏‏‏ تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا".

حذیفہ بن اسید ابو سریحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) اپنے کمرے سے جھانکا، اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں: سورج کا پچھم سے نکلنا، دجال، دھواں، دابۃ الارض(چوپایا)، یاجوج ماجوج، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول، تین بار زمین کا «خسف» (دھنسنا): ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں، ایک آگ عدن کے، ایک گاؤں «أبین» کے کنویں سے ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی جانب ہانک کر لے جائے گی، جہاں یہ لوگ رات گزاریں گے تو وہیں وہ آگ ان کے ساتھ رات گزارے گی، اور جب یہ قیلولہ کریں گے تو وہ آگ بھی ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «أنظرحدیث (رقم:۴۰۴۱)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یہ آگ ساری دنیا میں پھیل جائے گی اور اس سے کافروں کی سانس رک جائے گی، اور مسلمانوں کو زکام کی حالت پیدا ہو جائے گی، اور یہ نشانی ابھی ظاہر نہیں ہوئی، قیامت کے قریب ہو گی، ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ نشانی ظاہر ہو گئی اور آیت میں اسی کا ذکر ہے: «يوم تأتي السماء بدخان مبين» (سورة الدخان: 10) اور یہ دھواں قریش پر آیا تھا، ان پر قحط پڑا تھا اور آسمان میں دھواں سا معلوم ہوتا تھا۔

قیامت کی نشانیوں کا بیان 2

حد یث نمبر - 4056

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ وَابْنُ لَهِيعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،‏‏‏‏ عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا:‏‏‏‏ طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا،‏‏‏‏ وَالدُّخَانَ،‏‏‏‏ وَدَابَّةَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ وَالدَّجَّالَ،‏‏‏‏ وَخُوَيْصَّةَ أَحَدِكُمْ،‏‏‏‏ وَأَمْرَ الْعَامَّةِ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے تم نیک اعمال میں جلدی کرو: سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، دابۃ الارض (چوپایا)، دجال، ہر شخص کی خاص آفت (یعنی موت)، عام آفت (جیسے وبا وغیرہ)"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۵۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۱)(حسن صحیح) (سنان بن سعیدیہ سعد بن سنان کندی مصری ہیں صدوق ہیں، اس لئے یہ سند حسن ہے لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۷۵۹)

قیامت کی نشانیوں کا بیان 2

حد یث نمبر - 4057

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ عُمَارَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى بْنِ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ عَنْ جَدِّهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الْآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْنِ".

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(قیامت کی) نشانیاں دو سو سال کے بعد ظاہر ہوں گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۰۷۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۲)(موضوع) (سند میں عون بن عمارہ ضعیف، اور عبداللہ بن المثنیٰ صدوق اور کثیر الغلط ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو موضوعات میں داخل کیا ہے، ان کی سند میں محمد بن یونس کدیمی نے عون سے روایت کی ہے، جن پر اس حدیث کے وضع کا اتہام لگایا گیا ہے)

قیامت کی نشانیوں کا بیان 2

حد یث نمبر - 4058

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْقِلٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أُمَّتِي عَلَى خَمْسِ طَبَقَاتٍ،‏‏‏‏ فَأَرْبَعُونَ سَنَةٍ أَهْلُ بِرٍّ وَتَقْوَى،‏‏‏‏ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ أَهْلُ تَرَاحُمٍ وَتَوَاصُلٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ إِلَى سِتِّينَ وَمِائَةِ سَنَةٍ أَهْلُ تَدَابُرٍ وَتَقَاطُعٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ الْهَرْجُ الْهَرْجُ،‏‏‏‏ النَّجَا النَّجَا".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت پا نچ طبقات پر مشتمل ہو گی: چالیس سال نیکو کاروں اور متقیوں کے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سو سال تک صلہ رحمی کرنے والے اور رشتے ناطے کا خیال رکھنے والے ہوں گے، پھر ان کے بعد ایک سو ساٹھ سال تک وہ لوگ ہوں گے جو رشتہ ناطہٰ توڑیں گے، اور ایک دوسرے کی طرف سے منہ موڑیں گے، پھر اس کے بعد قتل ہی قتل ہو گا، لہٰذا تم ایسے زمانے سے نجات مانگو، نجات مانگو"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۳)(ضعیف) (سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف راوی ہیں)

 

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَازِمٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْعَنَزِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْمِسْوَرُ بْنُ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي مَعْنٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمَّتِي عَلَى خَمْسِ طَبَقَاتٍ،‏‏‏‏ كُلُّ طَبَقَةٍ أَرْبَعُونَ عَامًا،‏‏‏‏ فَأَمَّا طَبَقَتِي وَطَبَقَةُ أَصْحَابِي، فَأَهْلُ عِلْمٍ وَإِيمَانٍ،‏‏‏‏ وَأَمَّا الطَّبَقَةُ الثَّانِيَةُ مَا بَيْنَ الْأَرْبَعِينَ إِلَى الثَّمَانِينَ فَأَهْلُ بِرٍّ وَتَقْوَى"،‏‏‏‏ ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَهُ.

اس سند سے بھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے پانچ طبقے ہوں گے، اور ہر طبقہ چالیس برس کا ہو گا، میرا اور میرے صحابہ کا طبقہ تو اہل علم اور اہل ایمان کا ہے، اور دوسرا طبقہ چالیس سے لے کر اسی تک اہل بر اور اہل تقویٰ کا طبقہ ہے"، پھر راوی نے سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۴)(ضعیف) (سند میں ابومعن، مسور، اور خازم العنزی سب مجہول ہیں، ابو حاتم نے حدیث کو باطل قرار دیا ہے)

زمین کے دھنسنے کا بیان

حد یث نمبر - 4059

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ سَلْمَانُ،‏‏‏‏ عَنْ سَيَّارٍ،‏‏‏‏ عَنْ طَارِقٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ،‏‏‏‏ مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت سے پہلے مسخ، (صورتوں کی تبدیلی ہونا) زمین کا دھنسنا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۳۲۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۵)(صحیح) (سند میں سیار ابو الحکم اور طارق بن شہاب کے مابین انقطاع ہے لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۷۸۷)

زمین کے دھنسنے کا بیان

حد یث نمبر - 4060

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي،‏‏‏‏ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ".

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "میری امت کے اخیر میں زمین کا دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۷۰۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۶)(صحیح) (سند میں عبدالرحمن بن زید ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۴؍۳۹۴)

زمین کے دھنسنے کا بیان

حد یث نمبر - 4061

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرٍ،‏‏‏‏ عَنْنَافِعٍ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فُلَانًا يُقْرِأُ عَليْكَ السَّلَامَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ،‏‏‏‏ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ،‏‏‏‏ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي أُمَّتِي أَوْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ،‏‏‏‏ وَذَلِكَ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ".

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت نکالی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہو تو اسے میرا سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "میری امت میں (یا اس امت میں)مسخ (صورتوں کی تبدیلی)، اور زمین کا دھنسنا آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہو گا"، اور یہ قدریہ میں ہو گا جو تقدیر کے منکر ہیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ۷ (۴۶۱۳)، سنن الترمذی/القدر ۱۶ (۲۱۵۲)، تحفة الأشراف:۷۶۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۰۸،۱۳۶)(حسن) (سند میں ابو صخر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: جو تقدیر کے منکر ہیں، ان کا نام تقدیر کے انکار کی وجہ سے قدریہ پڑا۔

زمین کے دھنسنے کا بیان

حد یث نمبر - 4062

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ".

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں زمین کا دھنسنا، صورتوں کا مسخ ہونا، اور آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،،(تحفة الأشراف:۸۹۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۳)(صحیح) (سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ابن معین نے کہا کہ ابو الزبیر کا سماع ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۴؍۳۹۴)

بیداء کے لشکر کا بیان

حد یث نمبر - 4063

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ،‏‏‏‏ سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ،‏‏‏‏ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ خُسِفَ بِأَوْسَطِهِمْ،‏‏‏‏ وَيَتَنَادَى أَوَّلُهُمْ آخِرَهُمْ فَيُخْسَفُ بِهِمْ،‏‏‏‏ فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ إِلَّا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ"،‏‏‏‏ فَلَمَّا جَاءَ جَيْشُ الْحَجَّاجِ،‏‏‏‏ ظَنَنَّا أَنَّهُمْ هُمْ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ عَلَيْكَ أَنَّكَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى حَفْصَةَ،‏‏‏‏ وَأَنَّ حَفْصَةَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "ایک لشکر اس بیت اللہ کا قصد کرے گا تاکہ اہل مکہ سے لڑائی کرے، لیکن جب وہ لشکر مقام بیداء میں پہنچے گا تو اس کے درمیانی حصہ کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، اور دھنستے وقت جو لوگ آگے ہوں گے وہ پیچھے والوں کو آواز دیں گے لیکن آواز دیتے دیتے سب دھنس جائیں گے، ایک قاصد کے علاوہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا جو لوگوں کو جا کر خبر دے گا"۔ (عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) جب حجاج (حجاج بن یوسف ثقفی) کا لشکر آیا (اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھا) تو ہم سمجھے شاید وہ یہی لشکر ہو گا، ایک شخص نے (یہ سن کر) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا، اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/المناسک ۱۱۲ (۲۸۸۲)،(تحفة الأشراف:۱۵۷۹۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفتن ۲ (۲۸۸۳)، مسند احمد (۶/۲۸۶)(صحیح)

وضاحت: ۱ ؎: یعنی حجاج بن یوسف کا لشکر اگرچہ وہ لشکر نہیں ہے کہ جس کا حدیث میں ذکر ہوا مگر وہ قیامت سے پہلے پہلے مکہ پر حملہ آور ضرور ہو گا، پھر ان کا ایک حصہ زمین میں دھنسایا بھی ضرور جائے گا اور وہ دجال کا لشکر ہو گا۔

بیداء کے لشکر کا بیان

حد یث نمبر - 4064

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ،‏‏‏‏ عَنْ صَفِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى يَغْزُوَ جَيْشٌ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ كَانَ فِيهِمْ مَنْ يُكْرَهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ".

ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ اللہ کے اس گھر پر حملہ کرنے سے باز نہ آئیں گے حتیٰ کہ ایک لشکر لڑنے کے لیے آئے گا، جب وہ لوگ مقام بیداء یا بیداء کی سر زمین میں پہنچیں گے، تو اول سے لے کر اخیر تک تمام زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے، اور ان کے درمیان والے بھی نہیں بچیں گے"۔ میں نے عرض کیا: اگر ان میں سے کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی اس لشکر میں شامل کیا گیا ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اپنی اپنی نیت کے موافق اٹھائے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۳۱ (۲۱۸۴)،(تحفة الأشراف:۱۵۹۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۳۶،۳۳۷)(صحیح) (سند میں مسلم بن صفوان مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)

بیداء کے لشکر کا بیان

حد یث نمبر - 4065

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،‏‏‏‏ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْمُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ،‏‏‏‏ سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ،‏‏‏‏ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَيْشَ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِمْ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ لَعَلَّ فِيهِمُ الْمُكْرَهَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهُمْ يُبْعَثُونَ عَلَى نِيَّاتِهِمْ".

ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا ذکر فرمایا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا تو ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "اللہ کے رسول! شاید ان میں کوئی ایسا بھی ہو جسے زبردستی لایا گیا ہو"؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۱۰ (۲۱۷۱)،(تحفة الأشراف:۱۸۲۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۸۹)(صحیح)

(قرب قیامت) دابۃ الارض (چوپایہ کے نکلنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4066

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "تَخْرُجُ الدَّابَّةُ وَمَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ،‏‏‏‏ وَعَصَا مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ عَلَيْهِمَا السَّلَام،‏‏‏‏ فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ بِالْعَصَا،‏‏‏‏ وَتَخْطِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتِمِ،‏‏‏‏ حَتَّى أَنَّ أَهْلَ الْحِوَاءِ لَيَجْتَمِعُونَ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا يَا مُؤْمِنُ،‏‏‏‏ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا يَا كَافِرُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمین سے «دابة» ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ سلیمان بن داود علیہما السلام کی انگوٹھی اور موسیٰ بن عمران علیہ السلام کا عصا ہو گا، اس عصا (چھڑی) سے وہ مومن کا چہرہ روشن کر دے گا، اور انگوٹھی سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا، حتیٰ کہ جب ایک محلہ کے لوگ جمع ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن! اور وہ کہے گا: اے کافر!" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۲۸ (۳۱۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۲۲۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۹۴۵،۴۹۱،۴۹۶)(ضعیف) (سند میں علی بن زید ضعیف اور اوس بن خالد مجہول راوی ہیں)

وضاحت: ۱؎: یعنی مومن اور کافر نشان کی وجہ سے معلوم ہو جائیں گے تو ہر ایک شخص مومن کو ایمان کا نشان دیکھ کر مومن کے لقب سے پکارے گا اور کافر کو کفر کا نشان دیکھ کر کافر کہہ کر پکارے گا، غرض اس وقت ایمان اور کفر چھپا نہ رہے گا۔

(قرب قیامت) دابۃ الارض (چوپایہ کے نکلنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4066

قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الْقَطَّانُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَحْيى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ فَذَكَرَ نَحْوَهُ،‏‏‏‏ وَقَالَ فِيهِ مَرَّةً:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا يَا مُؤْمِنُ،‏‏‏‏ وَهَذَا يَا كَافِرُ.

(امام ابن ماجہ کے شاگرد) ابوالحسن قطان نے (اپنی عالی سند سے بھی) اس سے ملتی جلتی حدیث بیان کی ہے۔ اور اس میں ایک مرتبہ فرمایا: تو یہ کہے گا: اے مومن! اور یہ (کہے گا) اے کافر!

(قرب قیامت) دابۃ الارض (چوپایہ کے نکلنے) کا بیان

حد یث نمبر - 4067

حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو زُنَيْجٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عُبَيْدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَهَبَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَوْضِعٍ بِالْبَادِيَةِ قَرِيبٍ مِنْ مَكَّةَ،‏‏‏‏ فَإِذَا أَرْضٌ يَابِسَةٌ حَوْلَهَا رَمْلٌ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مِنْ هَذَا الْمَوْضِعِ،‏‏‏‏ فَإِذَا فِتْرٌ فِي شِبْرٍ"،‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ بُرَيْدَةَ:‏‏‏‏ فَحَجَجْتُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَأَرَانَا عَصًا لَهُ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُوَ بِعَصَايَ هَذِهِ كَذَا وَكَذَا.

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مکہ کے قریب ایک جگہ صحراء میں لے گئے، تو وہ ایک خشک زمین تھی جس کے اردگرد ریت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جانور («دابۃ الارض») یہاں سے نکلے گا، میں نے وہ جگہ دیکھی، وہ ایک بالشت میں سے انگشت شہادت اور انگوٹھے کے درمیان کی دوری کے برابر تھی"۔ ابن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کئی سال کے بعد حج کیا تو بریدہ رضی اللہ عنہ (یعنی میرے والد) نے ہمیں «دابۃ الارض» کا عصا دکھایا جو میرے عصا کے بقدر لمبا اور موٹا تھا۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۷۴، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۷)(ضعیف جدّاً) (سند میں خالد بن عبید متروک راوی ہیں)

پچھم سے سورج نکلنے کا بیان

حد یث نمبر - 4068

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا،‏‏‏‏ فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا،‏‏‏‏ فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی جب تک سورج پچھم سے نہ نکلے گا، جب سورج کو پچھم سے نکلتے دیکھیں گے تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے، لیکن یہ ایسا وقت ہو گا کہ اس وقت جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہ دے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۷ (۴۶۳۵)، الرقاق ۴۰ (۶۵۰۶)، الفتن ۲۵ (۷۱۲۱)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۲ (۱۵۷)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۲)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۹۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر ۷ (۳۰۷۲)، مسند احمد (۲/۲۳۱،۳۱۳،۳۵۰،۳۷۲،۵۳۰)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: کیونکہ اللہ کی قدرت کی کھلی کھلی نشانی ظاہر ہو جائے گی اور ایسی حالت میں تو سب مومن ہو جاتے ہیں، جیسے قیامت میں جنت، جہنم اور حشر کو دیکھ کر سب ایمان لائیں گے، ایمان جو قبول ہے وہ یہی ہے کہ غیب پر ایمان لائے، بہر حال پچھم سے جب تک سورج نہ نکلے اس وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے، پھر بند ہو جائے گا۔

پچھم سے سورج نکلنے کا بیان

حد یث نمبر - 4069

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ،‏‏‏‏ عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَوَّلُ الْآيَاتِ خُرُوجًا:‏‏‏‏ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا،‏‏‏‏ وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى"،‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَأَيَّتُهُمَا مَا خَرَجَتْ قَبْلَ الْأُخْرَى،‏‏‏‏ فَالْأُخْرَى مِنْهَا قَرِيبٌ،‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ وَلَا أَظُنُّهَا إِلَّا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا.

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کی پہلی نشانی سورج کا پچھم سے نکلنا، اور چاشت کے وقت لوگوں پر «دابہ» (چوپایہ) کا ظاہر ہونا ہے"۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے نکلے، تو دوسرا اس سے قریب ہو گا، میرا یہی خیال ہے کہ پہلے سورج پچھم سے نکلے گا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۲۳ (۲۹۴۱)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۲ (۴۳۱۰)،(تحفة الأشراف:۸۹۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۴،۲۰۱)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: یعنی ان نشانیوں میں جو قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ پہلی نشانی مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اتر کر زمین پر آنا، پھر دجال کا نکلنا، پھر یاجوج ماجوج کا نکلنا، اور دابۃ الارض میں اختلاف ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں نکلے گا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہی خیال تھا کہ وہ سورج نکلنے کے بعد نکلے گا، جب کہ اوروں نے کہا کہ اس سے پہلے نکلے گا، بہرحال آسمانی نشانیوں میں سورج کا نکلنا آخری نشانی ہے، اور ارضی نشانیوں میں دابۃ الارض کا نکلنا پہلی، اور بعض نے کہا کہ پہلی قیامت کی نشانی دجال کا نکلنا ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا، پھر یاجوج اور ماجوج کا نکلنا، پھر دابۃ الارض کا، پھر سورج کا پچھم سے نکلنا، کیونکہ سورج نکلنے پر ایمان کا دروازہ بند ہو جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بہت سے کافر دین اسلام کو قبول کریں گے یہاں تک کہ ساری دنیا میں ایک ہی دین ہو جائے گا۔ «والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات»۔

پچھم سے سورج نکلنے کا بیان

حد یث نمبر - 4070

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ إِسْرَائِيلَ،‏‏‏‏ عَنْ عَاصِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ زِرٍّ،‏‏‏‏ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ قِبَلِ مَغْرِبِ الشَّمْسِ بَابًا مَفْتُوحًا،‏‏‏‏ عَرْضُهُ سَبْعُونَ سَنَةً،‏‏‏‏ فَلَا يَزَالُ ذَلِكَ الْبَابُ مَفْتُوحًا لِلتَّوْبَةِ،‏‏‏‏ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهِ،‏‏‏‏ فَإِذَا طَلَعَتْ مِنْ نَحْوِهِ لَمْ يَنْفَعْ نَفْسًا إِيمَانُهَا،‏‏‏‏ لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا".

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مغرب (یعنی سورج کے ڈوبنے کی سمت) میں ایک کھلا دروازہ ہے، اس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، یہ دروازہ توبہ کے لیے ہمیشہ کھلا رہے گا، جب تک سورج ادھر سے نہ نکلے، اور جب سورج ادھر سے نکلے گا تو اس وقت کسی شخص کا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا ایمان لا کر کوئی نیکی نہ کما لی ہو، اس کا ایمان لانا کسی کام نہ آئے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۹۹ (۳۵۳۵،۳۵۳۶)،(تحفة الأشراف:۴۹۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۳۹،۲۴۰،۲۴۱)(حسن)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4071

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ،‏‏‏‏ عَنْ شَقِيقٍ،‏‏‏‏ عَنْحُذَيْفَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الدَّجَّالُ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُسْرَى،‏‏‏‏ جُفَالُ الشَّعَرِ،‏‏‏‏ مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ،‏‏‏‏ فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ".

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دجال بائیں آنکھ کا کانا، اور بہت بالوں والا ہو گا، اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی، لیکن اس کی جہنم جنت اور اس کی جنت جہنم ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۲۰ (۲۹۳۴)،(تحفة الأشراف:۳۳۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۳،۳۹۷)(صحیح)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4072

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ،‏‏‏‏ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ خُرَاسَانُ،‏‏‏‏ يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ،‏‏‏‏ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ".

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ حدیث بیان کی: "دجال مشرق (پورب) کے ایک ملک سے ظاہر ہو گا، جس کو«خراسان» کہا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے گویا تہ بہ تہ ڈھال ہیں" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۵۷ (۲۲۳۷)،(تحفة الأشراف:۶۶۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴،۷)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ان کے چہرے گول، چپٹے اور گوشت سے پر ہوں گے۔

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4073

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ،‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ:‏‏‏‏ أَشَدَّ سُؤَالًا مِنِّي،‏‏‏‏ فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ "مَا تَسْأَلُ عَنْهُ"،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ".

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں جتنے سوالات میں نے کئے ہیں، اتنے کسی اور نے نہیں کئے، (ابن نمیر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں «أشد سؤالا مني» یعنی "مجھ سے زیادہ سوال اور کسی نے نہیں کئے"، آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "تم اس کے بارے میں کیا پوچھتے ہو"؟ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ پر وہ اس سے بھی زیادہ آسان ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الفتن ۲۷ (۷۱۲۲)، صحیح مسلم/الفتن ۲۲ (۲۹۳۹)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۴۶،۲۴۸،۲۵۲)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ پر یہ بات دجال سے زیادہ آسان ہے، یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، صحیحین کی روایت میں ہے کہ میں نے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ اس کے پاس روٹی کا پہاڑ ہو گا اور پانی کی نہریں ہوں گی، تب آپ نے یہ فرمایا: اور ممکن ہے کہ حدیث کا ترجمہ یوں کیا جائے کہ اللہ تعالی پر یہ بات آسان ہے دجال سے زیادہ یعنی جب اس نے دجال کو پیدا کر دیا تو اس کو کھانا پانی دینا کیا مشکل ہے، اور بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ دجال ذلیل ہے، اللہ تعالی کے نزدیک اس سے کہ ان چیزوں کے ذریعے سے اس کی تصدیق کی جائے کیونکہ اس کی پیشانی اور آنکھ پر اس کے جھوٹے ہونے کی نشانی ظاہر ہوگی، واللہ اعلم۔

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4074

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُجَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ الشَّعْبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ،‏‏‏‏ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ،‏‏‏‏ وَكَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ قَبْلَ ذَلِكَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ،‏‏‏‏ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ،‏‏‏‏ فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ،‏‏‏‏ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنِ اقْعُدُوا:‏‏‏‏ "فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُكُمْ،‏‏‏‏ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ،‏‏‏‏ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ،‏‏‏‏ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ،‏‏‏‏ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ،‏‏‏‏ أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا،‏‏‏‏ فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ،‏‏‏‏ فَخَرَجُوا فِيهَا،‏‏‏‏ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ،‏‏‏‏ قَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ مَا أَنْتَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا الْجَسَّاسَةُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبِرِينَا،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَلَا سَائِلَتِكُمْ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ،‏‏‏‏ فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَى أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَكُمْ،‏‏‏‏ فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ،‏‏‏‏ فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ،‏‏‏‏ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَكِّي،‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ مِنْ الشَّامِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ،‏‏‏‏ عَمَّ تَسْأَلُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيكُمْ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ خَيْرًا،‏‏‏‏ نَاوَى قَوْمًا،‏‏‏‏ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ فَأَمْرُهُمُ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟قَالُوا:‏‏‏‏ خَيْرًا،‏‏‏‏ يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ يُطْعِمُ ثَمَرَهُ كُلَّ عَامٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا،‏‏‏‏ لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ،‏‏‏‏ إِلَّا طَيْبَةَ،‏‏‏‏ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ"،‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِلَى هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي،‏‏‏‏ هَذِهِ طَيْبَةُ،‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ،‏‏‏‏ وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ،‏‏‏‏ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز پڑھائی، اور منبر پر تشریف لے گئے، اور اس سے پہلے جمعہ کے علاوہ آپ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے، لوگوں کو اس سے پریشانی ہوئی، کچھ لوگ آپ کے سامنے کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا: "اللہ کی قسم! میں منبر پر اس لیے نہیں چڑھا ہوں کہ کوئی ایسی بات کہوں جو تمہیں کسی رغبت یا دہشت والے کام کا فائدہ دے، بلکہ بات یہ ہے کہ میرے پاس تمیم داری آئے، اور انہوں نے مجھے ایک خبر سنائی (جس سے مجھے اتنی مسرت ہوئی کہ خوشی کی وجہ سے میں قیلولہ نہ کر سکا، میں نے چاہا کہ تمہارے نبی کی خوشی کو تم پر بھی ظاہر کر دوں)، سنو! تمیم داری کے ایک چچا زاد بھائی نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا کہ (ایک سمندری سفر میں) ہوا ان کو ایک جزیرے کی طرف لے گئی جس کو وہ پہچانتے نہ تھے، یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے میں گئے، انہیں وہاں ایک کالے رنگ کی چیز نظر آئی، جس کے جسم پر کثرت سے بال تھے، انہوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ (دجال کی جاسوس) ہوں، ان لوگوں نے کہا: تو ہمیں کچھ بتا، اس نے کہا: (نہ میں تمہیں کچھ بتاؤں گی، نہ کچھ تم سے پوچھوں گی)، لیکن تم اس دیر (راہبوں کے مسکن) میں جسے تم دیکھ رہے ہو جاؤ، وہاں ایک شخص ہے جو اس بات کا خواہشمند ہے کہ تم اسے خبر بتاؤ اور وہ تمہیں بتائے، کہا: ٹھیک ہے، یہ سن کر وہ لوگ اس کے پاس آئے، اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک بوڑھا شخص زنجیروں میں سخت جکڑا ہوا(رنج و غم کا اظہار کر رہا ہے، اور اپنا دکھ درد سنانے کے لیے بے چین ہے) تو اس نے ان لوگوں سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: شام سے، اس نے پوچھا: عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں، تم کس کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا: اس شخص کا کیا حال ہے (یعنی محمد کا) جو تم لوگوں میں ظاہر ہوا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، اس نے قوم سے دشمنی کی، پھر اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا کیا، تو آج ان میں اجتماعیت ہے، ان کا معبود ایک ہے، ان کا دین ایک ہے، پھر اس نے پوچھا: زغر (شام میں ایک گاؤں) کے چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، لوگ اس سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں، اور پینے کے لیے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں، پھر اس نے پوچھا: (عمان اور بیسان (ملک شام کے دو شہر کے درمیان) کھجور کے درختوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: ہر سال وہ اپنا پھل کھلا رہے ہیں، اس نے پوچھا: طبریہ کے نالے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اس کے دونوں کناروں پر پانی خوب زور و شور سے بہ رہا ہے، یہ سن کر اس شخص نے تین آہیں بھریں) پھر کہا: اگر میں اس قید سے چھوٹا تو میں اپنے پاؤں سے چل کر زمین کے چپہ چپہ کا گشت لگاؤں گا، کوئی گوشہ مجھ سے باقی نہ رہے گا سوائے طیبہ (مدینہ) کے، وہاں میرے جانے کی کوئی سبیل نہ ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ سن کر مجھے بےحد خوشی ہوئی، طیبہ یہی شہر (مدینہ) ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کے ہر تنگ و کشادہ اور نیچے اونچے راستوں پر ننگی تلوار لیے ایک فرشتہ متعین ہے جو قیامت تک پہرہ دیتا رہے گا"۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۵ (۴۳۲۶،۴۳۲۷)، سنن الترمذی/الفتن ۶۶ (۲۲۵۳)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۷۳،۳۷۴،۴۱۱،۴۱۲،۴۱۵،۴۱۶،۴۱۸)(صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن متن حدیث صحیح ہے، صرف وہ جملے ضعیف ہیں، جو اس طرح گھیر دئے گئے ہیں، صحیح مسلم کتاب الفتن ۲۴؍۲۹۴۲ میں یہ حدیث ہلالین میں محصور جملوں کے علاوہ آئی ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔

وضاحت: ۱؎: اور دجال کو وہاں آنے سے روکے گا، دوسری روایت میں ہے کہ دجال احد پہاڑ تک آئے گا، پھر ملائکہ اس کا رخ پھیر دیں گے، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ زنجیر میں جکڑے اس شخص نے کہا: مجھ سے امیوں (یعنی ان پڑھوں) کے نبی کا حال بیان کرو، ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر مدینہ گئے ہیں، اس نے کہا:کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں، لڑے، اس نے کہا: پھر نبی نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے اسے بتلایا کہ وہ اپنے گرد و پیش عربوں پر غالب آ گئے ہیں اور انہوں نے اس رسول (ﷺ) کی اطاعت اختیار کر لی ہے، اس نے پوچھا کیا یہ بات ہو چکی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، یہ بات ہو چکی، اس نے کہا: سن لو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اس کے رسول کے تابعدار ہوں، البتہ میں تم سے اپنا حال بیان کرتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، اور وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے خروج کی اجازت (اللہ کی طرف سے) دے دی جائے گی، البتہ اس میں یہ ہے کہ مکہ اور طیبہ (مدینہ) کو چھوڑ کر میں کوئی ایسی بستی نہیں چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں، جب میں ان دونوں میں کہیں سے جانا چاہوں گا تو ایک فرشتہ ننگی تلوار لے کر مجھے اس سے روکے گا، اور وہاں ہر راستے پر چوکیدار فرشتے ہیں، یہ فرما کر آپ ﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر ماری، اور فرمایا: طیبہ یہی ہے، یعنی مدینہ اور میں نے تم سے دجال کا حال نہیں بیان کیا تھا کہ وہ مدینہ میں نہ آئے گا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ﷺ نے بیان کیا تھا پھر آپ نے فرمایا: شام کے سمندر میں ہے، یا یمن کے سمندر میں، نہیں، بلکہ مشرق کی طرف اور ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن: باب: قصۃ الجساسۃ)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4075

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ،‏‏‏‏ فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ،‏‏‏‏ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "مَا شَأْنُكُمْ؟"،‏‏‏‏ فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ،‏‏‏‏ فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ،‏‏‏‏ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ،‏‏‏‏ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ،‏‏‏‏ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ،‏‏‏‏ عَيْنُهُ قَائِمَةٌ،‏‏‏‏ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ،‏‏‏‏ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ،‏‏‏‏ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ،‏‏‏‏ وَالْعِرَاقِ،‏‏‏‏ فَعَاثَ يَمِينًا،‏‏‏‏ وَعَاثَ شِمَالًا،‏‏‏‏ يَا عِبَادَ اللَّهِ،‏‏‏‏ اثْبُتُوا"،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "أَرْبَعُونَ يَوْمًا،‏‏‏‏ يَوْمٌ كَسَنَةٍ،‏‏‏‏ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ،‏‏‏‏ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ،‏‏‏‏ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ"،‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرًا"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "كَالْغَيْثِ اشْتَدَّ بِهِ الرِّيحُ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ،‏‏‏‏ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ،‏‏‏‏ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ،‏‏‏‏ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ،‏‏‏‏ وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى،‏‏‏‏ وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا،‏‏‏‏ وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ،‏‏‏‏ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ،‏‏‏‏ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهَا:‏‏‏‏ أَخْرِجِي كُنُوزَكِ،‏‏‏‏ فَيَنْطَلِقُ،‏‏‏‏ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا،‏‏‏‏ فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ،‏‏‏‏ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ،‏‏‏‏ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ،‏‏‏‏ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ،‏‏‏‏ وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ،‏‏‏‏ وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ،‏‏‏‏ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ،‏‏‏‏ فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ،‏‏‏‏ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ،‏‏‏‏ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ،‏‏‏‏ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ:‏‏‏‏ يَا عِيسَى،‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ،‏‏‏‏ وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ،‏‏‏‏ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ،‏‏‏‏ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96،‏‏‏‏ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ،‏‏‏‏ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً،‏‏‏‏ وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ،‏‏‏‏ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ،‏‏‏‏ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ،‏‏‏‏ وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ،‏‏‏‏ فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ،‏‏‏‏ وَنَتْنُهُمْ،‏‏‏‏ وَدِمَاؤُهُمْ،‏‏‏‏ فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ،‏‏‏‏ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ،‏‏‏‏ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ،‏‏‏‏ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ،‏‏‏‏ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ،‏‏‏‏ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا،‏‏‏‏ وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ،‏‏‏‏ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ،‏‏‏‏ وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً،‏‏‏‏ فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ،‏‏‏‏،‏‏‏‏ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ".

نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: "تم لوگوں کا کیا حال ہے"؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ استعمال کیا تو اس سے ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ انہی کھجوروں کے درختوں میں چھپا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے تم لوگوں پر دجال کے علاوہ اوروں کا زیادہ ڈر ہے، اگر دجال میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں تم سب کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر انسان اس کا مقابلہ خود کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے (یعنی ہر مسلمان کا میرے بعد ذمہ دار ہے)دیکھو دجال جوان ہو گا، اس کے بال بہت گھنگریالے ہوں گے، اس کی ایک آنکھ اٹھی ہوئی اونچی ہو گی گویا کہ میں اسے عبدالعزی بن قطن کے مشابہ سمجھتا ہوں، لہٰذا تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اسے چاہیئے کہ اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے، دیکھو! دجال کا ظہور عراق اور شام کے درمیانی راستے سے ہو گا، وہ روئے زمین پر دائیں بائیں فساد پھیلاتا پھرے گا، اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا"۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کتنے دنوں تک زمین پر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چالیس دن تک، ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک مہینہ کے اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا، اور باقی دن تمہارے عام دنوں کی طرح ہوں گے"۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس دن میں جو ایک سال کا ہو گا ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(نہیں بلکہ) تم اسی ایک دن کا اندازہ کر کے نماز پڑھ لینا"۔ ہم نے عرض کیا: زمین میں اس کے چلنے کی رفتار آخر کتنی تیز ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو، وہ ایک قوم کے پاس آ کر انہیں اپنی الوہیت کی طرف بلائے گا، تو وہ قبول کر لیں گے، اور اس پر ایمان لے آئیں گے، پھر وہ آسمان کو بارش کا حکم دے گا، تو وہ برسے گا، پھر زمین کو سبزہ اگانے کا حکم دے گا تو زمین سبزہ اگائے گی، اور جب اس قوم کے جانور شام کو چر کر واپس آیا کریں گے تو ان کے کوہان پہلے سے اونچے، تھن زیادہ دودھ والے، اور کوکھیں بھری ہوں گی، پہلو بھرے بھرے ہوں گے، پھر وہ ایک دوسری قوم کے پاس جائے گا، اور ان کو اپنی طرف دعوت دے گا، تو وہ اس کی بات نہ مانیں گے، آخر یہ دجال وہاں سے واپس ہو گا، تو صبح کو وہ قوم قحط میں مبتلا ہو گی، اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا، پھر دجال ایک ویران جگہ سے گزرے گا، اور اس سے کہے گا: تو اپنے خزانے نکال، وہاں کے خزانے نکل کر اس طرح اس کے ساتھ ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں «یعسوب» (مکھیوں کے بادشاہ) کے پیچھے چلتی ہیں، پھر وہ ایک ہٹے کٹے نوجوان کو بلائے گا، اور تلوار کے ذریعہ اسے ایک ہی وار میں قتل کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا، ان دونوں ٹکڑوں میں اتنی دوری کر دے گا جتنی دوری پر تیر جاتا ہے، پھر اس کو بلائے گا تو وہ شخص زندہ ہو کر روشن چہرہ لیے ہنستا ہوا چلا آئے گا، الغرض دجال اور دنیا والے اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھیجے گا، وہ دمشق کے سفید مشرقی مینار کے پاس دو زرد ہلکے کپڑے پہنے ہوئے اتریں گے، جو زعفران اور ورس سے رنگے ہوئے ہوں گے، اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپکیں گے، اور جب سر اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرے موتی کی طرح گریں گے، ان کی سانس میں یہ اثر ہو گا کہ جس کافر کو لگ جائے گی وہ مر جائے گا، اور ان کی سانس وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر کام کرے گی۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام چلیں گے یہاں تک کہ اس (دجال) کو باب لد کے پاس پکڑ لیں گے، وہاں اسے قتل کریں گے، پھر دجال کے قتل کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچا رکھا ہو گا، ان کے چہرے پر ہاتھ پھیر کر انہیں تسلی دیں گے، اور ان سے جنت میں ان کے درجات بیان کریں گے، یہ لوگ ابھی اسی کیفیت میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرے گا: اے عیسیٰ! میں نے اپنے کچھ ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی طاقت کسی میں نہیں، تو میرے بندوں کو طور پہاڑ پر لے جا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو بھیجے گا، اور وہ لوگ ویسے ہی ہوں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «من كل حدب ينسلون» "یہ لوگ ہر ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے" (سورة الأنبياء: 96) ان میں کے آگے والے طبریہ کے چشمے پر گزریں گے، تو اس کا سارا پانی پی لیں گے، پھر جب ان کے پچھلے لوگ گزریں گے تو وہ کہیں گے: کسی زمانہ میں اس تالاب کے اندر پانی تھا، اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ پر حاضر رہیں گے ۱؎، ان مسلمانوں کے لیے اس وقت بیل کا سر تمہارے آج کے سو دینار سے بہتر ہو گا، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے، چنانچہ اللہ یاجوج و ماجوج کی گردن میں ایک ایسا پھوڑا نکالے گا، جس میں کیڑے ہوں گے، اس کی وجہ سے (دوسرے دن) صبح کو سب ایسے مرے ہوئے ہوں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے، اور اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی طور پہاڑ سے نیچے اتریں گے اور ایک بالشت کے برابر جگہ نہ پائیں گے، جو ان کی بدبو، خون اور پیپ سے خالی ہو، عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹ کی گردن کی مانند پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو گا وہاں پھینک دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (سخت) بارش نازل کرے گا جس سے کوئی پختہ یا غیر پختہ مکان چھوٹنے نہیں پائے گا، یہ بارش ان سب کو دھو ڈالے گی، اور زمین کو آئینہ کی طرح بالکل صاف کر دے گی، پھر زمین سے کہا جائے گا کہ تو اپنے پھل اگا، اور اپنی برکت ظاہر کر، تو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھا کر آسودہ ہو گی، اور اس انار کے چھلکوں سے سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اللہ تعالیٰ اتنی برکت دے گا کہ ایک اونٹنی کا دودھ کئی جماعتوں کو کافی ہو گا، اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلہ کے لوگوں کو کافی ہو گی، اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک چھوٹے قبیلے کو کافی ہو گی، لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے تلے اثر کرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرے گی، اور ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جو جھگڑالو ہوں گے، اور گدھوں کی طرح لڑتے جھگڑتے یا اعلانیہ جماع کرتے رہیں گے، تو انہی (شریر) لوگوں پر قیامت قائم ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۲۰ (۲۱۳۷)، سنن ابی داود/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۱)، سنن الترمذی/الفتن ۵۹ (۲۲۴۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۷۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۸۱،۱۸۲)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: اردن پہاڑ جہاں سے عیسیٰ علیہ السلام غائب ہو کر آسمان پر چڑھ گئے تھے، اور دوسرا شخص آپ کی صورت بن کر گیا تو یہودیوں نے اس کو سولی پر چڑھا دیا، یہ مضمون اگرچہ انجیل کے چار مشہور نسخوں میں ہے، لیکن نصاریٰ نے ان میں تحریف کی ہے اور برنباس کی انجیل میں مضمون اسی طرح موجود ہے جیسے قرآن شریف میں ہے، اور اس میں رسول اکرم ﷺ کے پیدا ہونے کی بشارت بھی صاف طور سے موجود ہے، اور آپ کا نام مبارک بھی ہے کہ جب اللہ کے رسول محمد ﷺ آئیں گے تو میرے اوپر سے یہ اتہام رفع ہو گا کہ میں سولی دیا گیا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایک سفید منارہ ۷۴۱ میں وہاں پایا گیا اور یہ آپ کی نبوت کی ایک بڑی نشانی ہے، اور رسول اکرم ﷺ نے ایسی بہت ساری باتوں کی پیش گوئی کی ہے جو آپ کے عہد میں نہ تھیں من جملہ ان میں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کیا کہ میرے ساتھ وہ لوگ بہت محبت کریں گے جو میرے بعد میرے اوپر ایمان لائیں گے، اور جو کچھ ورق (یعنی مصحف) میں ہو گا اس پر عمل کریں گے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پہلے میں نے ورق کو نہیں سمجھا تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف لکھوائے تو میں نے ورق کا معنی سمجھا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کے بیان کرنے پر دس ہزار درہم دیئے، اور بعض حدیثوں میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں اتریں گے اور بعض میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں لیکن بیت المقدس کی روایت بہت مشہور ہے، اور اردن اس سارے محلہ کا نام ہے جہاں پر بیت المقدس ہے، اور اگر وہاں اب سفید مینار نہیں ہے تو آئندہ بن جائے گا اور جس نے صحیح حدیث کا انکار کیا وہ جاہل اور گمراہ ہے۔

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4076

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "سَيُوقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ،‏‏‏‏ وَنُشَّابِهِمْ وَأَتْرِسَتِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ".

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب ہے کہ مسلمان یاجوج و ماجوج کے تیر، کمان، اور ڈھال کو سات سال تک جلائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «أنظر ماقبلہ (صحیح)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4077

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ أَبِي رَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ السَّيْبَانِيِّ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَكَانَ أَكْثَرُ خُطْبَتِهِ حَدِيثًا حَدَّثَنَاهُ عَنْ الدَّجَّالِ وَحَذَّرَنَاهُ،‏‏‏‏ فَكَانَ مِنْ قَوْلِهِ أَنْ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّهُ لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ،‏‏‏‏ وَأَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ،‏‏‏‏ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ،‏‏‏‏ وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ،‏‏‏‏ وَإِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْكُمْ،‏‏‏‏ فَأَنَا حَجِيجٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ وَإِنْ يَخْرُجْ مِنْ بَعْدِي،‏‏‏‏ فَكُلُّ امْرِئٍ حَجِيجُ نَفْسِهِ،‏‏‏‏ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ،‏‏‏‏ فَيَعِيثُ يَمِينًا،‏‏‏‏ وَيَعِيثُ شِمَالًا،‏‏‏‏ يَا عِبَادَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيُّها النَّاسُ فَاثْبُتُوا،‏‏‏‏ فَإِنِّي سَأَصِفُهُ لَكُمْ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا إِيَّاهُ نَبِيٌّ قَبْلِي،‏‏‏‏ إِنَّهُ يَبْدَأُ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا نَبِيٌّ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي،‏‏‏‏ ثُمَّ يُثَنِّي،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا رَبُّكُمْ،‏‏‏‏ وَلَا تَرَوْنَ رَبَّكُمْ حَتَّى تَمُوتُوا،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ أَعْوَرُ،‏‏‏‏ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ،‏‏‏‏ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ أَوْ غَيْرِ كَاتِبٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنَّ مَعَهُ جَنَّةً وَنَارًا،‏‏‏‏ فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ،‏‏‏‏ فَمَنِ ابْتُلِيَ بِنَارِهِ فَلْيَسْتَغِثْ بِاللَّهِ وَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ الْكَهْفِ،‏‏‏‏ فَتَكُونَ عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا،‏‏‏‏ كَمَا كَانَتِ النَّارُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ،‏‏‏‏ لِأَعْرَابِيٍّ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَكَ أَبَاكَ وَأُمَّكَ،‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ،‏‏‏‏ فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ،‏‏‏‏ فَيَقُولَانِ:‏‏‏‏ يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّكَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يُسَلَّطَ عَلَى نَفْسٍ وَاحِدَةٍ،‏‏‏‏ فَيَقْتُلَهَا وَيَنْشُرَهَا بِالْمِنْشَارِ،‏‏‏‏ حَتَّى يُلْقَى شِقَّتَيْنِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَقُولَ:‏‏‏‏ انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي هَذَا،‏‏‏‏ فَإِنِّي أَبْعَثُهُ الْآنَ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَزْعُمُ أَنَّ لَهُ رَبًّا غَيْرِي،‏‏‏‏ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ،‏‏‏‏ وَيَقُولُ لَهُ الْخَبِيثُ مَنْ رَبُّكَ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ رَبِّيَ اللَّهُ،‏‏‏‏ وَأَنْتَ عَدُوُّ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَنْتَ الدَّجَّالُ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ بَعْدُ أَشَدَّ بَصِيرَةً بِكَ مِنِّي الْيَوْمَ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيُّ:‏‏‏‏ فَحَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "ذَلِكَ الرَّجُلُ أَرْفَعُ أُمَّتِي دَرَجَةً فِي الْجَنَّةِ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا كُنَّا نُرَى ذَلِكَ الرَّجُلَ إِلَّا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ،‏‏‏‏ قَالَ الْمُحَارِبِيُّ:‏‏‏‏ ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ،‏‏‏‏ وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُكَذِّبُونَهُ،‏‏‏‏ فَلَا تَبْقَى لَهُمْ سَائِمَةٌ إِلَّا هَلَكَتْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَمُرَّ بِالْحَيِّ فَيُصَدِّقُونَهُ،‏‏‏‏ فَيَأْمُرَ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ،‏‏‏‏ وَيَأْمُرَ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ،‏‏‏‏ حَتَّى تَرُوحَ مَوَاشِيهِمْ مِنْ يَوْمِهِمْ ذَلِكَ أَسْمَنَ مَا كَانَتْ،‏‏‏‏ وَأَعْظَمَهُ وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ،‏‏‏‏ وَأَدَرَّهُ ضُرُوعًا،‏‏‏‏ وَإِنَّهُ لَا يَبْقَى شَيْءٌ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا وَطِئَهُ،‏‏‏‏ وَظَهَرَ عَلَيْهِ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ،‏‏‏‏ لَا يَأْتِيهِمَا مِنْ نَقْبٍ مِنْ نِقَابِهِمَا،‏‏‏‏ إِلَّا لَقِيَتْهُ الْمَلَائِكَةُ بِالسُّيُوفِ صَلْتَةً،‏‏‏‏ حَتَّى يَنْزِلَ عِنْدَ الظُّرَيْبِ الْأَحْمَرِ عِنْدَ مُنْقَطَعِ السَّبَخَةِ،‏‏‏‏ فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ،‏‏‏‏ فَلَا يَبْقَى مُنَافِقٌ وَلَا مُنَافِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ،‏‏‏‏ فَتَنْفِي الْخَبَثَ مِنْهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ،‏‏‏‏ وَيُدْعَى ذَلِكَ الْيَوْمُ يَوْمَ الْخَلَاصِ"،‏‏‏‏ فَقَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ بِنْتُ أَبِي الْعَكَرِ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "هُمْ يَوْمَئِذٍ قَلِيلٌ،‏‏‏‏ وَجُلُّهُمْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ،‏‏‏‏ وَإِمَامُهُمْ رَجُلٌ صَالِحٌ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا إِمَامُهُمْ قَدْ تَقَدَّمَ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ،‏‏‏‏ إِذْ نَزَلَ عَلَيْهِمْ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ الصُّبْحَ،‏‏‏‏ فَرَجَعَ ذَلِكَ الْإِمَامُ يَنْكُصُ،‏‏‏‏ يَمْشِي الْقَهْقَرَى لِيَتَقَدَّمَ عِيسَى يُصَلِّي بِالنَّاسِ،‏‏‏‏ فَيَضَعُ عِيسَى يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ تَقَدَّمْ فَصَلِّ،‏‏‏‏ فَإِنَّهَا لَكَ أُقِيمَتْ،‏‏‏‏ فَيُصَلِّي بِهِمْ إِمَامُهُمْ،‏‏‏‏ فَإِذَا انْصَرَفَ،‏‏‏‏ قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام:‏‏‏‏ افْتَحُوا الْبَابَ،‏‏‏‏ فَيُفْتَحُ وَوَرَاءَهُ الدَّجَّالُ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ يَهُودِيٍّ،‏‏‏‏ كُلُّهُمْ ذُو سَيْفٍ مُحَلًّى وَسَاجٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا نَظَرَ إِلَيْهِ الدَّجَّالُ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ،‏‏‏‏ وَيَنْطَلِقُ هَارِبًا،‏‏‏‏ وَيَقُولُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام:‏‏‏‏ إِنَّ لِي فِيكَ ضَرْبَةً لَنْ تَسْبِقَنِي بِهَا،‏‏‏‏ فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ اللُّدِّ الشَّرْقِيِّ فَيَقْتُلُهُ،‏‏‏‏ فَيَهْزِمُ اللَّهُ الْيَهُودَ،‏‏‏‏ فَلَا يَبْقَى شَيْءٌ مِمَّا خَلَقَ اللَّهُ يَتَوَارَى بِهِ يَهُودِيٌّ إِلَّا أَنْطَقَ اللَّهُ ذَلِكَ الشَّيْءَ،‏‏‏‏ لَا حَجَرَ،‏‏‏‏ وَلَا شَجَرَ،‏‏‏‏ وَلَا حَائِطَ،‏‏‏‏ وَلَا دَابَّةَ إِلَّا الْغَرْقَدَةَ،‏‏‏‏ فَإِنَّهَا مِنْ شَجَرِهِمْ لَا تَنْطِقُ،‏‏‏‏ إِلَّا قَالَ:‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ الْمُسْلِمَ،‏‏‏‏ هَذَا يَهُودِيٌّ،‏‏‏‏ فَتَعَالَ اقْتُلْهُ"،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَإِنَّ أَيَّامَهُ أَرْبَعُونَ سَنَةً،‏‏‏‏ السَّنَةُ كَنِصْفِ السَّنَةِ،‏‏‏‏ وَالسَّنَةُ كَالشَّهْرِ،‏‏‏‏ وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ،‏‏‏‏ وَآخِرُ أَيَّامِهِ كَالشَّرَرَةِ،‏‏‏‏ يُصْبِحُ أَحَدُكُمْ عَلَى بَابِ الْمَدِينَةِ فَلَا يَبْلُغُ بَابَهَا الْآخَرَ حَتَّى يُمْسِيَ"،‏‏‏‏ فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ كَيْفَ نُصَلِّي فِي تِلْكَ الْأَيَّامِ الْقِصَارِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "تَقْدُرُونَ فِيهَا الصَّلَاةَ كَمَا تَقْدُرُونَهَا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ الطِّوَالِ،‏‏‏‏ ثُمَّ صَلُّوا"،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَيَكُونُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي أُمَّتِي حَكَمًا عَدْلًا،‏‏‏‏ وَإِمَامًا مُقْسِطًا،‏‏‏‏ يَدُقُّ الصَّلِيبَ،‏‏‏‏ وَيَذْبَحُ الْخِنْزِيرَ،‏‏‏‏ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ،‏‏‏‏ وَيَتْرُكُ الصَّدَقَةَ،‏‏‏‏ فَلَا يُسْعَى عَلَى شَاةٍ وَلَا بَعِيرٍ،‏‏‏‏ وَتُرْفَعُ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ،‏‏‏‏ وَتُنْزَعُ حُمَةُ كُلِّ ذَاتِ حُمَةٍ،‏‏‏‏ حَتَّى يُدْخِلَ الْوَلِيدُ يَدَهُ فِي الْحَيَّةِ فَلَا تَضُرَّهُ،‏‏‏‏ وَتُفِرَّ الْوَلِيدَةُ الْأَسَدَ فَلَا يَضُرُّهَا،‏‏‏‏ وَيَكُونَ الذِّئْبُ فِي الْغَنَمِ كَأَنَّهُ كَلْبُهَا،‏‏‏‏ وَتُمْلَأُ الْأَرْضُ مِنَ السِّلْمِ كَمَا يُمْلَأُ الْإِنَاءُ مِنَ الْمَاءِ،‏‏‏‏ وَتَكُونُ الْكَلِمَةُ وَاحِدَةً فَلَا يُعْبَدُ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا،‏‏‏‏ وَتُسْلَبُ قُرَيْشٌ مُلْكَهَا،‏‏‏‏ وَتَكُونُ الْأَرْضُ كَفَاثُورِ الْفِضَّةِ،‏‏‏‏ تُنْبِتُ نَبَاتَهَا بِعَهْدِ آدَمَ،‏‏‏‏ حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الْقِطْفِ مِنَ الْعِنَبِ فَيُشْبِعَهُمْ،‏‏‏‏ وَيَجْتَمِعَ النَّفَرُ عَلَى الرُّمَّانَةِ فَتُشْبِعَهُمْ،‏‏‏‏ وَيَكُونَ الثَّوْرُ بِكَذَا وَكَذَا مِنَ الْمَالِ،‏‏‏‏ وَتَكُونَ الْفَرَسُ بِالدُّرَيْهِمَاتِ"،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَمَا يُرْخِصُ الْفَرَسَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تُرْكَبُ لِحَرْبٍ أَبَدًا"،‏‏‏‏ قِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ فَمَا يُغْلِي الثَّوْرَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "تُحْرَثُ الْأَرْضُ كُلُّهَا،‏‏‏‏ وَإِنَّ قَبْلَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ ثَلَاثَ سَنَوَاتٍ شِدَادٍ،‏‏‏‏ يُصِيبُ النَّاسَ فِيهَا جُوعٌ شَدِيدٌ،‏‏‏‏ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الْأُولَى أَنْ تَحْبِسَ ثُلُثَ مَطَرِهَا،‏‏‏‏ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْمُرُ السَّمَاءَ فِي الثَّانِيَةِ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ مَطَرِهَا،‏‏‏‏ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ يَأْمُرُ اللَّهُ السَّمَاءَ فِي السَّنَةِ الثَّالِثَةِ فَتَحْبِسُ مَطَرَهَا كُلَّهُ،‏‏‏‏ فَلَا تُقْطِرُ قَطْرَةً،‏‏‏‏ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ فَتَحْبِسُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ،‏‏‏‏ فَلَا تُنْبِتُ خَضْرَاءَ،‏‏‏‏ فَلَا تَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ إِلَّا هَلَكَتْ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ فَمَا يُعِيشُ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "التَّهْلِيلُ وَالتَّكْبِيرُ،‏‏‏‏ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّحْمِيدُ،‏‏‏‏ وَيُجْرَى ذَلِكَ عَلَيْهِمْ مُجْرَى الطَّعَامِ"،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ سَمِعْت أَبَا الْحَسَنِ الطَّنَافِسِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيَّ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ يَنْبَغِي أَنْ يُدْفَعَ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَى الْمُؤَدِّبِ،‏‏‏‏ حَتَّى يُعَلِّمَهُ الصِّبْيَانَ فِي الْكُتَّابِ.

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی جو آپ نے ہم سے بیان کی، اور ہم کو اس سے ڈرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بات بھی تھی کہ "جب سے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا کیا ہے اس وقت سے دجال کے فتنے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو (فتنہ) دجال سے نہ ڈرایا ہو، میں چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اخیر میں ہوں، اور تم بھی آخری امت ہو اس لیے دجال یقینی طور پر تم ہی لوگوں میں ظاہر ہو گا، اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہو گیا تو میں ہر مسلمان کی جانب سے اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوا تو ہر شخص خود اپنا بچاؤ کرے گا، اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ہے، (یعنی اللہ میرے بعد ہر مسلمان کا محافظ ہو گا)، سنو! دجال شام و عراق کے درمیانی راستے سے نکلے گا اور اپنے دائیں بائیں ہر طرف فساد پھیلائے گا، اے اللہ کے بندو! (اس وقت) ایمان پر ثابت قدم رہنا، میں تمہیں اس کی ایک ایسی صفت بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے نہیں بتائی، پہلے تو وہ نبوت کا دعویٰ کرے گا، اور کہے گا: "میں نبی ہوں"، حالانکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، پھر دوسری بار کہے گا کہ "میں تمہارا رب ہوں"، حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے، وہ کانا ہو گا، اور تمہارا رب کانا نہیں ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے، اور دجال کی پیشانی پر لفظ "کافر" لکھا ہو گا، جسے ہر مومن خواہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل پڑھ لے گا۔ اور اس کا ایک فتنہ یہ ہو گا کہ اس کے ساتھ جنت اور جہنم ہو گی، لیکن حقیقت میں اس کی جہنم جنت ہو گی، اور جنت جہنم ہو گی، تو جو اس کی جہنم میں ڈالا جائے، اسے چاہیئے کہ وہ اللہ سے فریاد کرے، اور سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے تو وہ جہنم اس پر ایسی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اور اس دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک گنوار دیہاتی سے کہے گا: اگر میں تیرے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے رب تسلیم کرے گا؟ وہ کہے گا: ہاں، پھر دو شیطان اس کے باپ اور اس کی ماں کی شکل میں آئیں گے اور اس سے کہیں گے: اے میرے بیٹے! تو اس کی اطاعت کر، یہ تیرا رب ہے۔ ایک فتنہ اس کا یہ ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے گا، پھر اسے قتل کر دے گا، اور اسے آرے سے چیر دے گا یہاں تک کہ اس کے دو ٹکڑے کر کے ڈال دے گا، پھر کہے گا: تم میرے اس بندے کو دیکھو، میں اس بندے کو اب زندہ کرتا ہوں، پھر وہ کہے گا: میرے علاوہ اس کا کوئی اور رب ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا، اور دجال خبیث اس سے پوچھے گا کہ تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہے گا: میرا رب تو اللہ ہے، اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے، اللہ کی قسم! اب تو مجھے تیرے دجال ہونے کا مزید یقین ہو گیا"۔ ابوالحسن طنافسی کہتے ہیں کہ ہم سے محاربی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبیداللہ بن ولید وصافی نے بیان کیا، انہوں نے عطیہ سے روایت کی، عطیہ نے ابو سعید خدری سے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں سے اس شخص کا درجہ جنت میں بہت اونچا ہو گا"۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص سوائے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے کوئی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ اپنی راہ گزر گئے۔ محاربی کہتے ہیں کہ اب ہم پھر ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو ابورافع نے روایت کی ہے بیان کرتے ہیں کہ "دجال کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے اور زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا، چنانچہ بارش نازل ہو گی، اور غلہ اگے گا، اور اس کا فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کو جھوٹا کہیں گے، تو ان کا کوئی چوپایہ باقی نہ رہے گا، بلکہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے کے پاس گزرے گا، وہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے، پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ برسے گا، اور زمین کو غلہ و اناج اگانے کا حکم دے گا تو وہ غلہ اگائے گی، یہاں تک کہ اس دن شام کو چرنے والے ان کے جانور پہلے سے خوب موٹے بھاری ہو کر لوٹیں گے، کوکھیں بھری ہوئی، اور تھن دودھ سے لبریز ہوں گے، مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر زمین کا کوئی خطہٰ ایسا نہ ہو گا جہاں دجال نہ جائے، اور اس پر غالب نہ آئے، مکہ اور مدینہ کا کوئی دروازہ ایسا نہ ہو گا جہاں فرشتے ننگی تلواروں کے ساتھ اس سے نہ ملیں، یہاں تک کہ دجال ایک چھوٹی سرخ پہاڑی کے پاس اترے گا، جہاں کھاری زمین ختم ہوئی ہے، اس وقت مدینہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا، جس کی وجہ سے مدینہ میں جتنے مرد اور عورتیں منافق ہوں گے وہ اس کے پاس چلے جائیں گے اور مدینہ میل کو ایسے نکال پھینکے گا جیسے بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے، اور اس دن کا نام یوم الخلاص (چھٹکارے کا دن، یوم نجات) ہو گا"۔ ام شریک بنت ابی العسکر نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! اس دن عرب کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس روز عرب بہت کم ہوں گے اور ان میں سے اکثر بیت المقدس میں ایک صالح امام کے ماتحت ہوں گے، ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا، جب وہ نماز سے فارغ ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام (قلعہ والوں سے) فرمائیں گے کہ دروازہ کھولو، تو دروازہ کھول دیا جائے گا، اس (دروازے) کے پیچھے دجال ہو گا، اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے، ہر یہودی کے پاس سونا چاندی سے مرصع و مزین تلوار اور سبز چادر ہو گی، جب یہ دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا، تو اس طرح گھلے گا جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اور وہ انہیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو گا، عیسیٰ علیہ السلام اس سے کہیں گے: تجھے میرے ہاتھ سے ایک ضرب کھانی ہے تو اس سے بچ نہ سکے گا، آخر کار وہ اسے لد کے مشرقی دروازے کے پاس پکڑ لیں گے، اور اسے قتل کر دیں گے، پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو شکست دے گا، اور یہودی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جس چیز کی بھی آڑ میں چھپے گا، خواہ وہ درخت ہو یا پتھر، دیوار ہو یا جانور، اس چیز کو اللہ تعالیٰ بولنے کی طاقت دے گا، اور ہر چیز کہے گی: اے اللہ کے مسلمان بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، اسے آ کر قتل کر دے، سوائے ایک درخت کے جس کو غرقد کہتے ہیں، یہ یہودیوں کے درختوں میں سے ایک درخت ہے یہ نہیں بولے گا"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دجال چالیس سال تک رہے گا، جن میں سے ایک سال چھ مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہو گا، اور ایک مہینہ جمعہ (ایک ہفتہ) کے برابر اور دجال کے باقی دن ایسے گزر جائیں گے جیسے چنگاری اڑ جاتی ہے، اگر تم میں سے کوئی مدینہ کے ایک دروازے پر صبح کے وقت ہو گا، تو اسے دوسرے دروازے پر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اتنے چھوٹے دنوں میں ہم نماز کس طرح پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس طرح تم ان بڑے دنوں میں اندازہ کر کے پڑھتے ہو اسی طرح ان (چھوٹے) دنوں میں بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عیسیٰ علیہ السلام میری امت میں ایک عادل حاکم اور منصف امام ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ اٹھا دیں گے، اور صدقہ و زکاۃ لینا چھوڑ دیں گے، تو یہ بکریوں اور گھوڑوں پر وصول نہیں کیا جائے گا، لوگوں کے دلوں سے کینہ اور بغض اٹھ جائے گا، اور ہر قسم کے زہریلے جانور کا زہر جاتا رہے گا، حتیٰ کہ اگر بچہ سانپ کے منہ میں ہاتھ ڈالے گا تو وہ اسے نقصان نہ پہنچائے گا، اور بچی شیر کو بھگائے گی تو وہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، بھیڑیا بکریوں میں اس طرح رہے گا جس طرح محافظ کتا بکریوں میں رہتا ہے، زمین صلح اور انصاف سے ایسے بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جاتا ہے، اور (سب لوگوں کا) کلمہ ایک ہو جائے گا، اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے گی، لڑائی اپنے سامان رکھ دے گی (یعنی دنیا سے لڑائی اٹھ جائے گی) قریش کی سلطنت جاتی رہے گی، اور زمین چاندی کی طشتری کی طرح ہو گی، اپنے پھل اور ہریالی ایسے اگائے گی جس طرح آدم کے عہد میں اگایا کرتی تھی، یہاں تک کہ انگور کے ایک خوشے پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور ایک انار پر ایک جماعت جمع ہو جائے گی تو سب آسودہ ہو جائیں گے، اور بیل اتنے اتنے داموں میں ہوں گے، اور گھوڑے چند درہموں میں ملیں گے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گھوڑے کیوں سستے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑائی کے لیے گھوڑوں پر سواری نہیں ہو گی"، پھر آپ سے عرض کیا گیا: بیل کیوں مہنگا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ساری زمین میں کھیتی ہو گی اور دجال کے ظہور سے پہلے تین سال تک سخت قحط ہو گا، ان تینوں سالوں میں لوگ بھوک سے سخت تکلیف اٹھائیں گے، پہلے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو تہائی بارش روکنے اور زمین کو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، پھر دوسرے سال آسمان کو دو تہائی بارش روکنے اور زمین کو دو تہائی پیداوار روکنے کا حکم دے گا، اور تیسرے سال اللہ تعالیٰ آسمان کو یہ حکم دے گا کہ بارش بالکل روک لے پس ایک قطرہ بھی بارش نہ ہو گی، اور زمین کو یہ حکم دے گا کہ وہ اپنے سارے پودے روک لے تو وہ اپنی تمام پیداوار روک لے گی، نہ کوئی گھاس اگے گی، نہ کوئی سبزی، بالآخر کھر والے جانور (گائے بکری وغیرہ چوپائے) سب ہلاک ہو جائیں گے، کوئی باقی نہ بچے گا مگر جسے اللہ بچا لے"، عرض کیا گیا: پھر اس وقت لوگ کس طرح زندہ رہیں گے؟ آپ نے فرمایا: تہلیل («لا إله إلا الله») تکبیر («الله أكبر») تسبیح («سبحان الله») اور تحمید («الحمد لله») کا کہنا، ان کے لیے غذا کا کام دے گا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے ابوالحسن طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبدالرحمٰن محاربی سے سنا وہ کہتے تھے: یہ حدیث تو اس لائق ہے کہ مکتب کے استادوں کو دے دی جائے تاکہ وہ مکتب میں بچوں کو یہ حدیث پڑھائیں ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۲)،(تحفة الأشراف:۴۸۹۶)(ضعیف) (سند میں اسماعیل بن رافع ضعیف راوی ہیں، اور عبد الرحمن محاربی مدلس، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)

وضاحت: ۱؎: یہ اس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ دجال چالیس دن رہے گا کیونکہ وہ لمبے چالیس دنوں کا ذکر ہے اور یہ چالیس برس اس کے سوا ہیں جن میں دن معمولی مقدار سے چھوٹے ہوں گے اور بعضوں نے کہا کہ دجال کے زمانہ میں کبھی دن چھوٹا ہوگا کبھی بڑا۔ ۲؎: کیونکہ اس میں دجال کا پورا حال مذکور ہے، اور بچوں کو اس کا یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ دجال کی اچھی طرح پہچان رکھیں اور اس کے فتنے میں گرفتار نہ ہوں، اللہ تعالی ہر مسلمان کو دجال کے فتنے سے بچائے، رسول اکرم ﷺ ہر نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے۔

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4078

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَنْزِلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا،‏‏‏‏ وَإِمَامًا عَدْلًا،‏‏‏‏ فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ،‏‏‏‏ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ،‏‏‏‏ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ،‏‏‏‏ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/البیوع ۱۰۲ (۲۲۲۲)، المظالم ۳۱ (۲۴۷۶)، أحادیث الأنبیاء ۴۹ (۳۴۴۸،۳۴۴۹)، صحیح مسلم/الإیمان ۷۱ (۱۵۵)،(تحفة الأشراف:۱۳۱۳۵)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۴)، سنن الترمذی/الفتن ۵۴ (۲۲۳۳)، مسند احمد (۲/۲۴۰،۲۷۲)(صحیح)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4079

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ "تُفْتَحُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ فَيَخْرُجُونَ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ سورة الأنبياء آية 96 فَيَعُمُّونَ الْأَرْضَ،‏‏‏‏ وَيَنْحَازُ مِنْهُمُ الْمُسْلِمُونَ،‏‏‏‏ حَتَّى تَصِيرَ بَقِيَّةُ الْمُسْلِمِينَ فِي مَدَائِنِهِمْ وَحُصُونِهِمْ،‏‏‏‏ وَيَضُمُّونَ إِلَيْهِمْ مَوَاشِيَهُمْ،‏‏‏‏ حَتَّى أَنَّهُمْ لَيَمُرُّونَ بِالنَّهَرِ فَيَشْرَبُونَهُ،‏‏‏‏ حَتَّى مَا يَذَرُونَ فِيهِ شَيْئًا،‏‏‏‏ فَيَمُرُّ آخِرُهُمْ عَلَى أَثَرِهِمْ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ:‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ بِهَذَا الْمَكَانِ مَرَّةً مَاءٌ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرُونَ عَلَى الْأَرْضِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ قَائِلُهُمْ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ أَهْلُ الْأَرْضِ قَدْ فَرَغْنَا مِنْهُمْ،‏‏‏‏ وَلَنُنَازِلَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ حَتَّى إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيَهُزُّ حَرْبَتَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدَّمِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ قَدْ قَتَلْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ،‏‏‏‏ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ دَوَابَّ كَنَغَفِ الْجَرَادِ،‏‏‏‏ فَتَأْخُذُ بِأَعْنَاقِهِمْ فَيَمُوتُونَ مَوْتَ الْجَرَادِ،‏‏‏‏ يَرْكَبُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا،‏‏‏‏ فَيُصْبِحُ الْمُسْلِمُونَ لَا يَسْمَعُونَ لَهُمْ حِسًّا،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ مَنْ رَجُلٌ يَشْرِي نَفْسَهُ وَيَنْظُرُ مَا فَعَلُوا،‏‏‏‏ فَيَنْزِلُ مِنْهُمْ رَجُلٌ قَدْ وَطَّنَ نَفْسَهُ عَلَى أَنْ يَقْتُلُوهُ،‏‏‏‏ فَيَجِدُهُمْ مَوْتَى فَيُنَادِيهِمْ أَلَا أَبْشِرُوا فَقَدْ هَلَكَ عَدُوُّكُمْ،‏‏‏‏ فَيَخْرُجُ النَّاسُ،‏‏‏‏ وَيَخْلُونَ سَبِيلَ مَوَاشِيهِمْ فَمَا يَكُونُ لَهُمْ رَعْيٌ إِلَّا لُحُومُهُمْ،‏‏‏‏ فَتَشْكَرُ عَلَيْهَا كَأَحْسَنِ مَا شَكِرَتْ مِنْ نَبَاتٍ أَصَابَتْهُ قَطُّ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، پھر وہ باہر آئیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:«وهم من كل حدب ينسلون» "یہ لوگ ہر اونچی زمین سے دوڑتے آئیں گے" (سورة الأنبياء: 96) پھر ساری زمین میں پھیل جائیں گے، اور مسلمان ان سے علاحدہ رہیں گے، یہاں تک کہ جو مسلمان باقی رہیں گے وہ اپنے شہروں اور قلعوں میں اپنے مویشیوں کو لے کر پناہ گزیں ہو جائیں گے، یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج نہر سے گزریں گے، اس کا سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اس میں کچھ بھی نہ چھوڑیں گے، جب ان کے پیچھے آنے والوں کا وہاں پر گزر ہو گا تو ان میں کا کوئی یہ کہے گا کہ کسی زمانہ میں یہاں پانی تھا، اور وہ زمین پر غالب آ جائیں گے، تو ان میں سے کوئی یہ کہے گا: ان اہل زمین سے تو ہم فارغ ہو گئے، اب ہم آسمان والوں سے لڑیں گے، یہاں تک کہ ان میں سے ایک اپنا نیزہ آسمان کی طرف پھینکے گا، وہ خون میں رنگا ہوا لوٹ کر گرے گا، پس وہ کہیں گے: ہم نے آسمان والوں کو بھی قتل کر دیا، خیر یہ لوگ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ چند جانور بھیجے گا، جو ٹڈی کے کیڑوں کی طرح ہوں گے، جو ان کی گردنوں میں گھس جائیں گے، یہ سب کے سب ٹڈیوں کی طرح مر جائیں گے، ان میں سے ایک پر ایک پڑا ہو گا، اور جب مسلمان اس دن صبح کو اٹھیں گے، اور ان کی آہٹ نہیں سنیں گے تو کہیں گے: کوئی ایسا ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کے انہیں دیکھ کر آئے کہ یاجوج ماجوج کیا ہوئے؟ چنانچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص (قلعہ سے) ان کا حال جاننے کے لیے نیچے اترے گا، اور دل میں خیال کرے گا کہ وہ مجھ کو ضرور مار ڈالیں گے، خیر وہ انہیں مردہ پائے گا، تو مسلمانوں کو پکار کر کہے گا: سنو! خوش ہو جاؤ! تمہارا دشمن ہلاک ہو گیا، یہ سن کر لوگ نکلیں گے اور اپنے جانور چرنے کے لیے آزاد چھوڑیں گے، اور ان کے گوشت کے سوا کوئی چیز انہیں کھانے کے لیے نہ ملے گی، اس وجہ سے ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہوں گے، جس طرح کبھی گھاس کھا کر موٹے ہوئے تھے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۹۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۷۷)(حسن صحیح)

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4080

حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ يَحْفِرُونَ كُلَّ يَوْمٍ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ،‏‏‏‏ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ:‏‏‏‏ ارْجِعُوا فَسَنَحْفِرُهُ غَدًا،‏‏‏‏ فَيُعِيدُهُ اللَّهُ أَشَدَّ مَا كَانَ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ مُدَّتُهُمْ،‏‏‏‏ وَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَهُمْ عَلَى النَّاسِ،‏‏‏‏ حَفَرُوا حَتَّى إِذَا كَادُوا يَرَوْنَ شُعَاعَ الشَّمْسِ،‏‏‏‏ قَالَ الَّذِي عَلَيْهِمْ:‏‏‏‏ ارْجِعُوا فَسَتَحْفِرُونَهُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى،‏‏‏‏ وَاسْتَثْنَوْا فَيَعُودُونَ إِلَيْهِ وَهُوَ كَهَيْئَتِهِ حِينَ تَرَكُوهُ،‏‏‏‏ فَيَحْفِرُونَهُ وَيَخْرُجُونَ عَلَى النَّاسِ،‏‏‏‏ فَيُنْشِفُونَ الْمَاءَ وَيَتَحَصَّنُ النَّاسُ مِنْهُمْ فِي حُصُونِهِمْ،‏‏‏‏ فَيَرْمُونَ بِسِهَامِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَتَرْجِعُ عَلَيْهَا الدَّمُ الَّذِي اجْفَظَّ،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ قَهَرْنَا أَهْلَ الْأَرْضِ،‏‏‏‏ وَعَلَوْنَا أَهْلَ السَّمَاءِ،‏‏‏‏ فَيَبْعَثُ اللَّهُ نَغَفًا فِي أَقْفَائِهِمْ فَيَقْتُلُهُمْ بِهَا"،‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،‏‏‏‏ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ لَتَسْمَنُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِهِمْ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یاجوج و ماجوج ہر روز (اپنی دیوار) کھودتے ہیں یہاں تک کہ جب قریب ہوتا ہے کہ سورج کی روشنی ان کو دکھائی دے تو جو شخص ان کا سردار ہوتا ہے وہ کہتا ہے: اب لوٹ چلو (باقی) کل کھودیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اسے ویسی ہی مضبوط کر دیتا ہے جیسی وہ پہلے تھی، یہاں تک کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی، اور اللہ تعالیٰ کو ان کا خروج منظور ہو گا، تو وہ (عادت کے مطابق) دیوار کھودیں گے جب کھودتے کھودتے قریب ہو گا کہ سورج کی روشنی دیکھیں تو اس وقت ان کا سردار کہے گا کہ اب لوٹ چلو، ان شاءاللہ کل کھودیں گے، اور ان شاءاللہ کا لفظ کہیں گے، چنانچہ (اس دن) وہ لوٹ جائیں گے، اور دیوار اسی حال پر رہے گی، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے، پھر وہ صبح آ کر اسے کھودیں گے اور اسے کھود کر باہر نکلیں گے، اور سارا پانی پی کر ختم کر دیں گے، اور لوگ (اس وقت) بھاگ کر اپنے قلعوں میں محصور ہو جائیں گے، یہ لوگ (زمین پر پھیل کر) آسمان کی جانب اپنے تیر ماریں گے، تو ان کے تیر خون میں لت پت ان کے پاس لوٹیں گے، وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو تو مغلوب کیا، اور آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں (گردنوں) میں کیڑے پیدا فرمائے گا جو انہیں مار ڈالیں گے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! زمین کے جانور ان کا گوشت اور چربی کھا کر خوب موٹے ہوں گے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/التفسیر ۱۹ (۳۱۵۳)،(تحفة الأشراف:۱۴۶۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۱۰،۵۱۱)(صحیح)

وضاحت: ۱؎: حالانکہ گائے بیل بکری اونٹ وغیرہ چوپائے گوشت نہیں کھاتے مگر چارہ نہ ہونے کی وجہ سے یاجوج کا گوشت کھائیں گے اور کھا کر خوب موٹے ہو جائیں گے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج قیامت تک اس سد (باندھ) سے رکے رہیں گے، جب ان کے چھوٹنے کا وقت آئے گا تو سد (باندھ) ٹوٹ جائے گا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یاجوج و ماجوج محض صحرائی اور وحشی ہوں گے جب تو تیر و کمان ان کا ہتھیار ہو گا، اور جہالت کی وجہ سے آسمان پر تیر ماریں گے وہ یہ نہیں جانیں گے کہ آسمان زمین سے اتنی دور ہے کہ برسوں تک بھی اگر تیر ان کا چلا جائے تو وہاں تک مشکل سے پہنچے گا۔

فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4081

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ،‏‏‏‏ عَنْ مُؤْثِرِ بْنِ عَفَازَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا كَانَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ لَقِيَ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ وَمُوسَى،‏‏‏‏ وَعِيسَى فَتَذَاكَرُوا السَّاعَةَ،‏‏‏‏ فَبَدَءُوا بِإِبْرَاهِيمَ فَسَأَلُوهُ عَنْهَا،‏‏‏‏ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ سَأَلُوا مُوسَى،‏‏‏‏ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مِنْهَا عِلْمٌ،‏‏‏‏ فَرُدَّ الْحَدِيثُ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ عُهِدَ إِلَيَّ فِيمَا دُونَ وَجْبَتِهَا،‏‏‏‏ فَأَمَّا وَجْبَتُهَا فَلَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَذَكَرَ خُرُوجَ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْزِلُ فَأَقْتُلُهُ،‏‏‏‏ فَيَرْجِعُ النَّاسُ إِلَى بِلَادِهِمْ فَيَسْتَقْبِلُهُمْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ،‏‏‏‏ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ،‏‏‏‏ فَلَا يَمُرُّونَ بِمَاءٍ إِلَّا شَرِبُوهُ،‏‏‏‏ وَلَا بِشَيْءٍ إِلَّا أَفْسَدُوهُ،‏‏‏‏ فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَدْعُو اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمْ فَتَنْتُنُ الْأَرْضُ مِنْ رِيحِهِمْ،‏‏‏‏ فَيَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَدْعُو اللَّهَ،‏‏‏‏ فَيُرْسِلُ السَّمَاءَ بِالْمَاءِ فَيَحْمِلُهُمْ فَيُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ،‏‏‏‏ ثُمَّ تُنْسَفُ الْجِبَالُ،‏‏‏‏ وَتُمَدُّ الْأَرْضُ مَدَّ الْأَدِيمِ،‏‏‏‏ فَعُهِدَ إِلَيَّ مَتَى كَانَ ذَلِكَ كَانَتِ السَّاعَةُ مِنَ النَّاسِ،‏‏‏‏ كَالْحَامِلِ الَّتِي لَا يَدْرِي أَهْلُهَا مَتَى تَفْجَؤُهُمْ بِوِلَادَتِهَا"،‏‏‏‏ قَالَ الْعَوَّامُ:‏‏‏‏ وَوُجِدَ تَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ سورة الأنبياء آية 96، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسراء (معراج) کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی، تو سب نے آپس میں قیامت کا ذکر کیا، پھر سب نے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے قیامت کے متعلق پوچھا، لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا، تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ تھا، پھر سب نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: قیامت کے آ دھمکنے سے کچھ پہلے (دنیا میں جانے کا) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے، لیکن قیامت کے آنے کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے (کہ وہ کب قائم ہو گی)، پھر عیسیٰ علیہ السلام نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا، اور فرمایا: میں (زمین پر) اتر کر اسے قتل کروں گا، پھر لوگ اپنے اپنے شہروں (ملکوں) کو لوٹ جائیں گے، اتنے میں یاجوج و ماجوج ان کے سامنے آئیں گے، اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے، وہ جس پانی سے گزریں گے اسے پی جائیں گے، اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے، اسے تباہ و برباد کر دیں گے، پھر لوگ اللہ سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے، میں اللہ سے دعا کروں گا کہ انہیں مار ڈالے (چنانچہ وہ سب مر جائیں گے) ان کی لاشوں کی بو سے تمام زمین بدبودار ہو جائے گی، لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر اللہ سے دعا کروں گا، تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی لاشیں اٹھا کر سمندر میں بہا لے جائے گی، اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے، اور زمین چمڑے کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی، پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ پورا ہو گیا ہو، اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب ولادت کا وقت آئے گا، اور اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام(عوام بن حوشب) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق اللہ کی کتاب میں موجود ہے: «حتى إذا فتحت يأجوج ومأجوج وهم من كل حدب ينسلون»"یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے، تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے" (سورة الأنبياء: 96)۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۵۹۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۵)(ضعیف) (مؤثر بن عفازہ مقبول عند المتابعہ ہیں، متابعت کی نہ ہونے وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن بعض ٹکڑے صحیح مسلم میں ہیں)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4082

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ،‏‏‏‏ عَنْ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ عَنْ عَلْقَمَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ إِذْ أَقْبَلَ فِتْيَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ،‏‏‏‏ فَلَمَّا رَآهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ وَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا نَزَالُ نَرَى فِي وَجْهِكَ شَيْئًا نَكْرَهُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ،‏‏‏‏ اخْتَارَ اللَّهُ لَنَا الْآخِرَةَ عَلَى الدُّنْيَا،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا،‏‏‏‏ حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ،‏‏‏‏ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ،‏‏‏‏ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ،‏‏‏‏ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا،‏‏‏‏ فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَيَمْلَؤُهَا قِسْطًا كَمَا مَلَئُوهَا جَوْرًا،‏‏‏‏ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَأْتِهِمْ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ".

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند نوجوان آئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھیں بھر آئیں، اور آپ کا رنگ بدل گیا، میں نے عرض کیا: ہم آپ کے چہرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور دیکھتے ہیں جسے ہم اچھا نہیں سمجھتے (یعنی آپ کے رنج سے ہمیشہ صدمہ ہوتا ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لیے اللہ نے دنیا کے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصیبت، سختی، اخراج اور جلا وطنی میں مبتلا ہوں گے، یہاں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے ساتھ سیاہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر (خزانہ) طلب کریں گے، لوگ انہیں نہ دیں گے تو وہ لوگوں سے جنگ کریں گے، اور (اللہ کی طرف سے)ان کی مدد ہو گی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جائے گا، (یعنی لوگ ان کی حکومت پر راضی ہو جائیں گے اور خزانہ سونپ دیں گے)، یہ لوگ اس وقت اپنے لیے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خزانہ اور حکومت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھر دے گا جس طرح لوگوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس زمانہ کو پائے وہ ان لوگوں کے ساتھ (لشکر میں) شریک ہو، اگرچہ اسے گھٹنوں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۴۶۲، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۱)(ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4083

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعُقَيْلِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ،‏‏‏‏ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صِدِّيقٍ النَّاجِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي أُمَّتِي الْمَهْدِيُّ،‏‏‏‏ إِنْ قُصِرَ فَسَبْعٌ وَإِلَّا فَتِسْعٌ،‏‏‏‏ فَتَنْعَمُ فِيهِ أُمَّتِي نِعْمَةً لَمْ يَنْعَمُوا مِثْلَهَا قَطُّ،‏‏‏‏ تُؤْتَى أُكُلَهَا وَلَا تَدَّخِرُ مِنْهُمْ شَيْئًا،‏‏‏‏ وَالْمَالُ يَوْمَئِذٍ كُدُوسٌ،‏‏‏‏ فَيَقُومُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا مَهْدِيُّ أَعْطِنِي،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ خُذْ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں مہدی ہوں گے، اگر وہ دنیا میں کم رہے تو بھی سات برس تک ضرور رہیں گے، ورنہ نو برس رہیں گے، ان کے زمانہ میں میری امت اس قدر خوش حال ہو گی کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہو گی، زمین کا یہ حال ہو گا کہ وہ اپنا سارا پھل اگا دے گی، اس میں سے کچھ بھی اٹھا نہ رکھے گی، اور ان کے زمانے میں مال کا ڈھیر لگا ہو گا، تو ایک شخص کھڑا ہو گا اور کہے گا: اے مہدی! مجھے کچھ دیں، وہ جواب دیں گے: لے لو (اس ڈھیر میں سے جتنا جی چاہے)" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الفتن ۵۳ (۲۲۳۲)،(تحفة الأشراف:۳۹۷۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المھدي ۱ (۴۲۸۵)، مسند احمد (۳/۲۱،۲۶)(حسن)(سند میں زید ا لعمی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: مہدی کے معنی لغت میں ہدایت پایا ہوا کے ہیں، اور اسی سے ہیں مہدی آخرالزمان، زرکشی کہتے ہیں کہ یہ وہ مہدی ہیں، جو عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ پائیں گے اور ان کے ساتھ نماز پڑھیں گے، اور قسطنطنیہ کو نصاریٰ سے چھین لیں گے اور عرب و عجم کے مالک ہو جائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور مسجد حرام میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت کی جائے گی۔

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4084

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،‏‏‏‏ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ،‏‏‏‏ عَنْأَبِي قِلَابَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ ثَوْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلَاثَةٌ،‏‏‏‏ كُلُّهُمُ ابْنُ خَلِيفَةٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ لَا يَصِيرُ إِلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ،‏‏‏‏ فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلًا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ،‏‏‏‏ ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ،‏‏‏‏ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ،‏‏‏‏ فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ".

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے ایک خزانے کے پاس تین آدمی باہم لڑائی کریں گے، ان میں سے ہر ایک خلیفہ کا بیٹا ہو گا، لیکن ان میں سے کسی کو بھی وہ خزانہ میسر نہ ہو گا، پھر مشرق کی طرف سے کالے جھنڈے نمودار ہوں گے، اور وہ تم کو ایسا قتل کریں گے کہ اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور بھی بیان فرمایا جسے میں یاد نہ رکھ سکا، اس کے بعد آپ نے فرمایا: "لہٰذا جب تم اسے ظاہر ہوتے دیکھو تو جا کر اس سے بیعت کرو اگرچہ گھٹنوں کے بل برف پر گھسٹ کر جانا پڑے کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۱۱۱، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۲)(ضعیف) (سند میں ابوقلابہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ا س لئے یہ ضعیف ہے لیکن حدیث کا معنی ابن ماجہ کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے، اس حدیث میں«فإنه خليفة الله المهدي» کا لفظ صحیح نہیں ہے، جس کی روایت میں ابن ماجہ یہاں منفرد ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۸۵)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4085

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَاسِينُ،‏‏‏‏ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "الْمَهْدِيُّ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ،‏‏‏‏ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ".

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہدی ہم اہل بیت میں سے ہو گا، اور اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں ان کو صالح بنا دے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۲۷۰، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۴)(حسن) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۳۷)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4086

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ عَنْ زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ نُفَيْلٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ فَتَذَاكَرْنَا الْمَهْدِيَّ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ".

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ہم ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، ہم نے مہدی کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ "مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/المھدي ۱ (۴۲۸۴)،(تحفة الأشراف:۱۸۱۵۳)(صحیح)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4087

حَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زِيَادٍ الْيَمَامِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "نَحْنُ وَلَدَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،‏‏‏‏ سَادَةُ أَهْلِ الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ أَنَا،‏‏‏‏ وَحَمْزَةُ،‏‏‏‏ وَعَلِيٌّ،‏‏‏‏ وَجَعْفَرٌ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ،‏‏‏‏ وَالْحُسَيْنُ،‏‏‏‏ وَالْمَهْدِيُّ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "ہم عبدالمطلب کی اولاد ہیں، اور اہل جنت کے سردار ہیں، یعنی: میں، حمزہ، علی، جعفر، حسن، حسین اور مہدی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۴)(موضوع) (علی بن زیاد ضعیف اور سعد بن عبد الحمید صدوق ہیں، لیکن ان کے یہاں غلط احادیث ہیں، اور عکرمہ بن عمار صدوق ہیں غلطی کرتے ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۴۶۸۸)

مہدی علیہ السلام کے ظہور کا بیان

حد یث نمبر - 4088

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ،‏‏‏‏ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ الْحَرَّانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنَ جَزْءٍ الزَّبِيدِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ،‏‏‏‏ فَيُوَطِّئُونَ لِلْمَهْدِيِّ"يَعْنِي:‏‏‏‏ سُلْطَانَهُ.

عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کچھ لوگ مشرق (پورب) کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۲۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۵)(ضعیف) (سند میں عمرو بن جابر الحضرمی اور ابن لہیعہ ضعیف ہیں)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4089

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَالَ مَكْحُولٌ،‏‏‏‏ وَابْنُ أَبِي زَكَرِيَّا:‏‏‏‏ إِلَى خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ،‏‏‏‏ وَمِلْتُ مَعَهُمَا فَحَدَّثَنَا،‏‏‏‏ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي جُبَيْرٌ:‏‏‏‏ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى، ‏‏‏‏‏‏ ذِي مِخْمَرٍ،‏‏‏‏ وَكَانَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا،‏‏‏‏ فَسَأَلَهُ عَنِ الْهُدْنَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "سَتُصَالِحُكُمْ الرُّومُ صُلْحًا آمِنًا،‏‏‏‏ ثُمَّ تَغْزُونَ أَنْتُمْ وَهُمْ عَدُوًّا،‏‏‏‏ فَتَنْتَصِرُونَ وَتَغْنَمُونَ وَتَسْلَمُونَ،‏‏‏‏ ثُمَّ تَنْصَرِفُونَ حَتَّى تَنْزِلُوا بِمَرْجٍ ذِي تُلُولٍ،‏‏‏‏ فَيَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصَّلِيبِ الصَّلِيبَ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ غَلَبَ الصَّلِيبُ،‏‏‏‏ فَيَغْضَبُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ فَيَقُومُ إِلَيْهِ فَيَدُقُّهُ،‏‏‏‏ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَغْدِرُ الرُّومُ وَيَجْتَمِعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ".

حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ مکحول اور ابن ابی زکریا، خالد بن معدان کی طرف مڑے، اور میں بھی ان کے ساتھ مڑا، خالد نے جبیر بن نفیر کے واسطہ سے بیان کیا کہ جبیر نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ ذی مخمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، چنانچہ میں ان دونوں کے ہمراہ چلا، ان سے صلح کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: عنقریب ہی روم والے تم سے ایک پر امن صلح کریں گے، اور تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں گے، پھر تم فتح حاصل کرو گے، اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آئے گا، اور تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنگ سے لوٹو گے یہاں تک کہ تم ایک تروتازہ اور سرسبز مقام پر جہاں ٹیلے وغیرہ ہوں گے، اترو گے، وہاں صلیب والوں یعنی رومیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کرے گا، اور کہے گا: صلیب غالب آ گئی، مسلمانوں میں سے ایک شخص غصے میں آئے گا، اور اس کے پاس جا کر صلیب توڑ دے گا، اس وقت رومی عہد توڑ دیں گے، اور سب جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۵۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۶۸ (۲۷۶۷)، والملاحم ۲ (۴۲۹۳)(صحیح)

 

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ،‏‏‏‏ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ،‏‏‏‏ وَزَادَ فِيهِ:‏‏‏‏ "فَيَجْتَمِعُونَ لِلْمَلْحَمَةِ،‏‏‏‏ فَيَأْتُونَ حِينَئِذٍ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةٍ تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".

اس سند سے بھی حسان بن عطیہ سے اسی طرح مروی ہے، اس میں اتنا زیادہ ہے: وہ (نصاریٰ مسلمانوں سے) لڑنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے، اس وقت اسی جھنڈوں کی سرکردگی میں آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۵۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۷)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نصاریٰ کی شان و شوکت اور سلطنت قیامت تک باقی رہے گی یعنی مہدی علیہ السلام کے وقت تک، دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ اکثر لوگ دنیا کے نصاریٰ ہوں گے، یہ حدیث بڑی دلیل ہے آپ کی نبوت کی کیونکہ یہ پیشین گوئی آپ کی بالکل سچی نکلی، کئی سو برس سے نصاریٰ کا برابر عروج ہو رہا ہے، اور ہر ایک ملک میں ان کا مذہب پھیلتا جاتا ہے، دنیا کے چاروں حصوں میں یا ان کی حکومت قائم ہو گئی ہے، یا ان کے زیر اثر سلطنتیں قائم ہیں، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے قریب مسلمانوں کا بادشاہ نصاریٰ کی ایک قوم کے ساتھ مل کر تیسری سلطنت سے لڑے گا اور فتح پائے گا، پھر صلیب پر تکرار ہو کر سب نصاریٰ مل جائیں گے اور متفق ہو کر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4090

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ الْمُحَارِبِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا وَقَعَتِ الْمَلَاحِمُ،‏‏‏‏ بَعَثَ اللَّهُ بَعْثًا مِنَ الْمَوَالِي هُمْ أَكْرَمُ الْعَرَبِ فَرَسًا،‏‏‏‏ وَأَجْوَدُهُ سِلَاحًا،‏‏‏‏ يُؤَيِّدُ اللَّهُ بِهِمُ الدِّينَ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بڑی بڑی جنگیں ہونے لگیں گی، تو اللہ تعالیٰ موالی (جن کو عربوں نے آزاد کیا ہے)میں سے ایک لشکر اٹھائے گا، جو عربوں سے زیادہ اچھے سوار ہوں گے اور ان سے بہتر ہتھیار رکھتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دین کی مدد فرمائے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۴۷۸، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۸)(حسن)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4091

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ عَنْ زَائِدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "سَتُقَاتِلُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ"،‏‏‏‏ قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ فَمَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى تُفْتَحَ الرُّومُ.

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم عنقریب جزیرہ عرب والوں سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، ان پر بھی اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، پھر تم دجال سے جنگ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس پر فتح دے گا"۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب تک روم فتح نہ ہو گا، دجال کا ظہور نہ ہو گا۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفتن ۱۲ (۲۹۰۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۷۸،۴/۳۴۷)(صحیح)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4092

حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ وَإِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُطَيْبٍ السَّكُونِيِّ،‏‏‏‏ وَقَالَ الْوَلِيدُ:‏‏‏‏ يَزِيدُ بْنُ قُطْبَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ،‏‏‏‏ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "الْمَلْحَمَةُ الْكُبْرَى،‏‏‏‏ وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ،‏‏‏‏ وَخُرُوجُ الدَّجَّالِ فِي سَبْعَةِ أَشْهُرٍ".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنگ عظیم، قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کا خروج تینوں چیزیں سات مہینے کے اندر ہوں گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۴ (۴۲۹۵)، سنن الترمذی/الفتن ۵۸ (۲۲۳۸)،(تحفة الأشراف:۱۱۳۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۳۴)(ضعیف)(سند میں ابو بکر ضعیف اور ولید بن سفیان ضعیف ہیں)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4093

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ،‏‏‏‏ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ خَالِدٍ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ أَبِي بِلَالٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "بَيْنَ الْمَلْحَمَةِ وَفَتْحِ الْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ سِتُّ سِنِينَ،‏‏‏‏ وَيَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي السَّابِعَةِ".

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنگ عظیم اور فتح مدینہ (قسطنطنیہ) کے درمیان چھ سال کا وقفہ ہے، اور دجال کا ظہور ساتویں سال میں ہو گا"۔

تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الملاحم ۴ (۴۲۹۶)،(تحفة الأشراف:۵۱۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۸۹)(ضعیف)(سند میں سوید بن سعیداوربقیہ میںضعف ہے)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4094

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ الْحُنَيْنِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ جَدِّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ،‏‏‏‏ حَتَّى تَكُونَ أَدْنَى مَسَالِحِ الْمُسْلِمِينَ بِبَوْلَاءَ"،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ"،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ بِأَبِي وَأُمِّي،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّكُمْ سَتُقَاتِلُونَ بَنِي الْأَصْفَرِ وَيُقَاتِلُهُمُ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِكُمْ،‏‏‏‏ حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ رُوقَةُ الْإِسْلَامِ أَهْلُ الْحِجَازِ،‏‏‏‏ الَّذِينَ لَا يَخَافُونَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ،‏‏‏‏ فَيَفْتَتِحُونَ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ بِالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ،‏‏‏‏ فَيُصِيبُونَ غَنَائِمَ لَمْ يُصِيبُوا مِثْلَهَا،‏‏‏‏ حَتَّى يَقْتَسِمُوا بِالْأَتْرِسَةِ،‏‏‏‏ وَيَأْتِي آتٍ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَرَجَ فِي بِلَادِكُمْ،‏‏‏‏ أَلَا وَهِيَ كِذْبَةٌ فَالْآخِذُ نَادِمٌ،‏‏‏‏ وَالتَّارِكُ نَادِمٌ".

عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک مسلمانوں کا نزدیک ترین مورچہ مقام بولاء میں نہ ہو"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے علی! اے علی! اے علی!" انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (فرمائیے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم بہت جلد بنی اصفر (اہل روم) سے جنگ کرو گے اور ان سے وہ مسلمان بھی لڑیں گے جو تمہارے بعد پیدا ہوں گے، یہاں تک کہ جو لوگ اسلام کی رونق ہوں گے (یعنی اہل حجاز) وہ بھی ان سے جنگ کے لیے نکلیں گے، اور اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کریں گے، بلکہ تسبیح و تکبیر کے ذریعہ قسطنطنیہ فتح کر لیں گے، اور انہیں (وہاں) اس قدر مال غنیمت حاصل ہو گا کہ اتنا کبھی حاصل نہ ہوا تھا، یہاں تک کہ وہ ڈھا لیں بھربھر کر تقسیم کریں گے، اور ایک آنے والا آ کر کہے گا: مسیح (دجال) تمہارے ملک میں ظاہر ہو گیا ہے، سن لو! یہ خبر جھوٹی ہو گی، تو مال لینے والا بھی شرمندہ ہو گا، اور نہ لینے والا بھی"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۷۷۹، ومصباح الزجاجة:۱۴۴۹)(موضوع) (سند میں کثیر بن عبد اللہ ہیں، جن کے بارے میں ابن حبان کہتے ہیں کہ اپنے والد کے حوالہ سے انہوں نے اپنے دادا سے ایک موضوع نسخہ روایت کیا ہے، جس کا تذکرہ کتابوں میں حلال نہیں ہے، اور نہ اس کی روایت جائز ہے، الا یہ کہ تعجب و استغراب کے نقطئہ نظر سے ہو)

اہم حادثات اور فتنوں کا بیان

حد یث نمبر - 4095

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ هُدْنَةٌ،‏‏‏‏ فَيَغْدِرُونَ بِكُمْ،‏‏‏‏ فَيَسِيرُونَ إِلَيْكُمْ فِي ثَمَانِينَ غَايَةً،‏‏‏‏ تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے اور بنی اصفر (رومیوں) کے درمیان صلح ہو گی، پھر وہ تم سے عہد شکنی کریں گے، اور تمہارے مقابلے کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجزیة ۱۵ (۳۱۷۶)، سنن ابی داود/الأدب ۹۲ (۵۰۰۰،۵۰۰۱)،(تحفة الأشراف:۱۰۹۱۸)(صحیح)

ترکوں کا بیان

حد یث نمبر - 4096

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ،‏‏‏‏ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الْأَعْيُنِ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے، قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۹۵ (۲۹۲۹)، صحیح مسلم/الفتن ۱۸ (۲۹۱۲)، سنن ابی داود/الملاحم ۹ (۴۳۰۴)، سنن الترمذی/الفتن ۴۰ (۲۲۱۵)،(تحفة الأشراف:۱۳۱۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۹،۲۷۱،۳۹۸)(صحیح)

ترکوں کا بیان

حد یث نمبر - 4097

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْرَجِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الْأَعْيُنِ،‏‏‏‏ ذُلْفَ الْأُنُوفِ،‏‏‏‏ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ،‏‏‏‏ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ".

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور ناکیں چپٹی ہوں گی اور ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے، اور قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ،(تحفة الأشراف:۱۳۶۷۷)(صحیح)

ترکوں کا بیان

حد یث نمبر - 4098

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ،‏‏‏‏ عَنْ عَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ:‏‏‏‏ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا عِرَاضَ الْوُجُوهِ،‏‏‏‏ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ،‏‏‏‏ وَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُقَاتِلُوا قَوْمًا يَنْتَعِلُونَ الشَّعَرَ".

عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے چہرے چوڑے ہوں گے، گویا وہ چپٹی ڈھال ہیں، اور قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جو بالوں کے جوتے پہنتے ہوں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۹۵ (۲۹۲۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۷۰)(صحیح)

ترکوں کا بیان

حد یث نمبر - 4099

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ عَنْ الْأَعْمَشِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الْأَعْيُنِ،‏‏‏‏ عِرَاضَ الْوُجُوهِ،‏‏‏‏ كَأَنَّ أَعْيُنَهُمْ حَدَقُ الْجَرَادِ،‏‏‏‏ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ،‏‏‏‏ يَنْتَعِلُونَ الشَّعَرَ،‏‏‏‏ وَيَتَّخِذُونَ الدَّرَقَ،‏‏‏‏ يَرْبُطُونَ خَيْلَهُمْ بِالنَّخْلِ".

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کرو گے جن کی آنکھیں چھوٹی اور چہرے چوڑے ہوں گے، گویا کہ ان کی آنکھیں ٹڈی کی آنکھیں ہیں، اور ان کے چہرے چپٹی ڈھالیں ہیں، وہ بالوں کے جوتے پہنتے ہوں گے اور چمڑے کی ڈھالیں بنائیں گے اور کھجور کے درختوں کی جڑوں سے اپنے گھوڑے باندھیں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۰۲۳، ومصباح الزجاجة:۱۴۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۱)(حسن صحیح)