مشکوٰة شر یف

فتنوں کا بیان

فتنوں کا بیان

فتن اصل میں فتنۃ کی جمع ہے جیسا کہ محن محنۃ کی جمع آتی ہے فتنہ کے مختلف معنی ہیں مثلاً آزمائش وامتحان، ابتلا، گناہ، فضیحت، عذاب، مال و دولت، اولاد، بیماری، جنون، محنت، عبرت، گمراہ کرنا وگمراہ ہونا، اور کسی چیز کو پسند کرنا اور اس پر فریفتہ ہونا نیز لوگوں کی رائے میں اختلاف پر بھی فتنہ کا اطلاق ہوتا ہے۔

 واضح رہے کہ مشکوٰۃ کا وہ حصہ جو یہاں شروع ہو کر آخرت کا ہے اس کو مؤلف نے کتاب الفتن کا نام دیا ہے اور اس کے ضمن میں مختلف ابو اب قائم کئے ہیں بظاہر اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، خصوصاً فضائل مناقب کے ابو اب کو کتاب الفتن میں شامل کرنے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی، اگر یہ کہا جائے کہ ان ابو اب میں جن مقدس ہستیوں یعنی ذات رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خلفائے راشدین و اکابر صحابہ کرام کے فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں ہم ان کی عظمت و برتری اور بزرگی کا اعتقاد رکھنے کے مکلف اور اس اعتقاد کو اپنے عمل سے ثابت کرنے کے امتحان و آزمائش میں مبتلا ہیں نیز ان کی ذات کے گرویدہ اور ان پر فریفتہ ہیں اور اس اعتبار کو ملحوظ رکھا جائے تو پوری کتاب میں جو کچھ منقول و مذکور ہے وہ سب اسی قبیل سے ہے اور اس صورت میں محض کتاب الفتن کی تخصیص لاحاصل ہو گی۔ بہرحال اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس موقع پر مؤلف مشکوٰۃ کے ذہن میں کیا بات تھی اور انہوں نے کن وجوہ کی بنا پر یہاں سے کتاب کے آخر تک کے حصہ کو کتاب الفتن کا نام دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیامت تک ظاہر ہونے والے تمام فتنوں کے بارے میں پیشگوئی فرما دی تھی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے جیسا کہ وعظ وخطبہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور وعظ کہا جس کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان فتنوں سے آگاہ فرمایا جو ظاہر ہونے والے تھے پس از قسم فتنہ جو چیزیں اس وقت یعنی زمانہ نبوی سے لے کر قیامت تک وقوع پذیر ہونے والی تھیں ان سب کو ذکر فرمایا اور ان میں سے کوئی چیز بیان کرنے سے نہیں چھوڑی ان باتوں کو یاد رکھنے والوں نے یاد رکھا اور جو بھولنے والے تھے وہ بھول گئے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن فتنوں کا ذکر فرمایا ان کو بعض لوگوں نے تو یاد رکھا اور بعض لوگوں نے فراموش کر دیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے یہ دوست (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم جو اس وقت بقید حیات ہیں) اس واقعہ سے (کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن اپنے خطبہ میں قیامت تک ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر فرمایا تھا) واقف ہیں (لیکن ان میں سے بعض حضرات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیان فرمودہ ان باتوں کو جانتے ہیں اور بعض حضرات کو وہ باتیں تفصیل کے ساتھ یاد نہیں رہی ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نسیان کا طاری ہو جانا انسانی خواص میں سے ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا میں بھی انہی لوگوں میں سے ہوں جو ان باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن باتوں کی خبر دی تھی اور جن باتوں کو میں بھول گیا ہوں اگر ان میں سے کوئی بات پیش آ جاتی ہے تو میں اس کو دیکھ کر اپنا حافظہ تازہ کر لیتا ہوں جس طرح کہ جب کسی غائب شخص کا چہرہ نظر آ جاتا ہے تو وہ چہرہ دیکھ کر اس شخص کو پہچان لیا جاتا ہے (یعنی عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص بہت عرصہ تک غائب رہتا ہے تو اس کی شخصیت ذہن سے اوجھل ہو جاتی ہے اور لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن جب کبھی وہ ظاہر ہو جاتا ہے اور اس کا چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے تو اس کی بھولی ہوئی شخصیت فوراً یاد آ جاتی ہے اور وہ تشخص کے ساتھ پہچان لیا جاتا ہے، اسی طرح میرا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس دن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو باتیں پیش گوئی فرمائی تھیں وہ تفصیلی طور پر میرے ذہن میں نہیں رہی ہیں لیکن جب ان باتوں میں سے کوئی بات پیش آ جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن چیزوں کی خبر دی تھی ان میں سے کوئی چیز وقوع پذیر ہوتی ہے تو اس کو دیکھ کر میں فوراً پہچان لیتا ہوں کہ یہ وہی بات ہے جس کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دی تھی۔ (بخاری و مسلم)

قلب انسانی پر فتنوں کی یلغار

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  لوگوں کے دلوں پر فتنے اس طرح ڈالے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے ہوتے ہیں یعنی جس طرح چٹائی میں تنکے ایک کے پیچھے ایک لگائے جاتے ہیں اسی طرح سے دلوں پر ایک کے بعد ایک فتنے ڈالے جائیں گے پس جو دل ان فتنوں کو قبول کرے گا اس میں سیاہ نکتہ ڈال دیا جائے گا اور جو دل ان فتنوں کو قبول کرنے سے انکار کرے گا اس میں سفید نکتہ پیدا کر دیا جائے گا پس انسان ان فتنوں کے پیش آنے اور ان کے دلوں پر ان فتنوں کی تاثیر و عدم تاثیر کے اعتبار سے دو قسموں میں بٹ جائیں گے (یا یہ کہ انسان کے دل مذکورہ اعتبار کے مطابق دو قسم کے ہو جائیں گے) ایک تو سفید مثل سنگ مرمر کے کہ جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی واضح رہے کہ اس تشبیہ میں محض سفیدی مراد نہیں ہے بلکہ سختی اور قوت کا اعتبار بھی ملحوظ رکھا گیا ہے چنانچہ اس طرح کے دل پر کوئی بھی فتنہ اثر انداز اور مسرت رساں نہیں ہو گا جب تک کہ زمین و آسمان قائم وباقی ہیں (یعنی اس دل کی یہ کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی) اور دوسرا راکھ کے رنگ جیسا سیال دل، اوندھے برتن کی مانند (کہ اس میں جو کچھ بھی ہو گر پڑے، مطلب یہ کہ اس طرح کا دل راکھ کی مانند سیاہ اور اوندھے برتن کی طرح ایمان و معرفت کے نور سے خالی ہو گا چنانچہ اس طرح کا دل نہ تو نیک و اچھے اور مشروع کاموں کو پہچانے گا اور نہ برے کاموں کو برا جانے گا، وہ تو بس اس چیز سے مطلب رکھے گا جو از قسم خواہشات اس میں رچ بس گئی ہے اور جس کی محبت کا وہ اسیر بن چکا ہے۔ (یعنی وہ طبعی طور پر نفسانی خواہشات کا غلام ہو گا اور اچھی و بری کا امتیاز کئے بغیر ہر اس چیز کے پیچھے بھاگے گا جو اس کے نفس کو مرغوب ہو گی۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  فتنوں  سے مراد بلا و آفات اور وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ذہن و فکر اور قلب و جسم کو تعب و تکلیف اور رنج و نقصان میں مبتلا کر لیتی ہیں لیکن بعض حضرات نے  فتنوں کی مراد، فاسد و گمراہ نظریات، باطل افکار اور نفسانی شہوت و خواہشات کو قرار دیا ہے۔

 لفظ  عودا  تین طرح سے نقل کیا گیا ہے، ایک روایت میں عین کے پیش اور دال مہملہ کے ساتھ ہے اور جیسا کہ دوسری روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے، یہی زیادہ مشہور ہے۔ اس صورت میں حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ دلوں میں فتنے اس طرح ایک کے بعد ایک دو آئیں گے جیسا کہ چٹائی بنتے وقت تنکے ایک کے بعد ایک داخل کئے جاتے ہیں، اس تشبیہ سے مراد دلوں پر فتنوں کا اس طرح پیش آنا ہے جس طرح چٹائی بننے والے کے سامنے تنکے یکے بعد دیگرے پیش ہوتے رہتے ہیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنے دل پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری روایات میں یہ لفظ عین کے زیر اور ذال کے ساتھ یعنی عوذا ہے اس صورت میں یہ لفظ ان فتنوں سے خدا کی پناہ طلب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ گفتگو و کلام کے دوران کفر و معصیت کے ذکر کے بعد نعوذ باللہ یا معاذ اللہ کہا جاتا ہے۔ تیسری روایت میں یہ لفظ عین کے زیر اور دال کے مہملہ کے ساتھ (یعنی عودا) ہے اور اس سے مراد عود و تکرار ہے اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ فتنے دل پر بار بار واقع ہوں گے۔ واضح رہے کہ پہلی روایت میں تو یہ لفظ منصوب اور مرفوع دونوں طرح نقل کیا گیا ہے اور دوسری و تیسری روایت میں صرف منصوب منقول ہے۔

  اشربہا  میں لفظ مشرب صیغہ مجہول کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے اشرب فلاں حب فلاں یعنی فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت رچ گئی ہے۔ یا فلاں شخص کے دل میں فلاں شخص کی محبت کا فتنہ بیٹھ گیا ہے، یا فلاں شخص کے دل پر فلاں شخص کی محبت کا رنگ چڑھ گیا ہے جیسا کہ کسی کپڑے پر کوئی رنگ چڑھ جاتا ہے۔ چونکہ شرب کے اصل معنی پینے کے ہیں اس لئے کڑے پر رنگ چڑھنے کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ کپڑا اس رنگ کو پیتا ہے اور اس میں رنگ جاتا ہے پس  جو دل ان فتنوں کو قبول کر لے گا  کا مطلب یہ ہے کہ جس میں کجی ہو گی اور جس کا میلان و رجحان برائی کی طرف ہو گا اس میں وہ فتنے رچ بس جائیں گے اور گویا وہ دل ان فتنوں کو اس طرح قبول کر لے گا جس طرح کوئی سفید کپڑا کسی بھی رنگ کو فوراً قبول کر لیتا ہے۔

  نکتہ اصل میں داغ کو کہتے ہیں اور اس نشان کے معنی میں آتا ہے جو لکڑی وغیرہ کے کریدنے اور چھونے سے زمین پر پیدا ہو جاتا ہے۔ نیز  نکتہ کا لفظ  نقطہ کے معنی میں بھی آ جاتا ہے اور خاص طور پر اس نقطہ (دھبہ) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو مخالف رنگ کی چیز میں ہو جیسے سفید چیز میں سیاہ نقطہ اور سیاہ چیز میں سفید نقطہ۔

 حتی تصیر علی قلبین میں لفظ تصیر حرف ت کے ساتھ بھی ہے اور حرفی کے ساتھ بھی۔ اگر یہ لفظی کے ساتھ یعنی یصیر پڑھا جائے تو اس صورت میں اس کی ضمیر انسان کی طرف راجع ہو گی جیسا کہ سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے اور اگر اس لفظ کو ت کے ساتھ تصیر پڑھا جائے تو اس کی ضمیر قلوب کی طرف راجع ہو گی جو صریحاً مذکورہ بھی ہے۔

  مرباد م کے پیش اور ر کے جزم اور دال کی تشدید کے ساتھ، کے معنی خاکستر اور سیاہ رنگ کے ہیں۔  رمد  کا لفظ بھی خاکستر رنگ کے معنی میں آتا ہے اور  ارمداد کے معنی ہیں خاکستری رنگ کا ہونا۔

جب امانت دلوں سے نکل جائے گی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے امانت کے بارے میں اور فتنے کے زمانہ کے حوادث کے سلسلہ میں دو حدیثیں یعنی دو باتیں بیان فرمائیں ان میں سے ایک کو تو دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں (یعنی حضور نے پہلی بات جو یہ فرمائی کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی ہے اس کو تو میں نے دیکھ لیا اور دوسری بات یعنی امانت کے اٹھ جانے کا منتظر ہوں) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے بیان فرمایا کہ۔ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائی میں اتاری گئی پھر انہوں نے اس امانت کو نور سے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے بعد آپ نے امانت کے اٹھ جانے (یعنی ایمان کے اثرات و برکات کے اٹھ جانے اور اس میں نقص آ جانے کی حدیث بیان کی چنانچہ فرمایا آدمی حسب معمول سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی (یعنی اس کے ایمان کے بعض ثمرات و انوار ناقص و کم ہو جائیں گے) پس امانت کا اثر یعنی نشان جو ایمان کا ثمرہ ہے وکت کے نشان کی طرح ہو جائے گا (حاصل یہ کہ ایمان کا نور دھندلا اور اس کا اثر و ثمرہ ناقص ہو جائے گا) پھر جب وہ دوبارہ سوئے گا اور زیادہ غفلت طاری ہو گی تو اس کی امانت کا وہ حصہ بھی ناقص کر دیا جائے گا اور نکال لیا جائے گا جو باقی رہ گیا تھا پس اس کے دل میں ایک مجل یعنی آبلہ جیسا نشان رہ جائے گا جیسا کہ تم آگ کی چنگاری کو اپنے پاؤں پر ڈال دو اور اس سے آبلہ پڑ جائے جو بظاہر پھولا اور اٹھا ہوا ہو گا لیکن اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ پھر اس صورت حال کے بعد لوگ صبح کو اٹھیں گے تو حسب معمول آپس میں خرید و فروخت کریں گے اور ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو امانت کو ادا کرے (یعنی شریعت کے حقوق ادا کرنے والا فرائض و واجبات کی تکمیل کرنے والا اور لوگوں کے حق میں کوئی خیانت و بد دیانتی نہ کرنے والا کہیں دور دور بھی نظر نہیں آئے گا) یہاں تک کہ امانت و دیانت میں کمی آ جانے کے سبب یہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ یا فلاں شہر و آبادی میں لوگوں کی کثرت کے باوجود بس ایک شخص ہے جو امانت دار یعنی کامل الایمان ہے۔ اور زبردست سیاسی مہارت و چالاکی اور دنیاوی شان و شوکت کا حامل ہو گا یا کہا جائے گا کہ اپنے دنیاوی کاروبار اور معاملات میں کس قدر عقلمند و ہوشیار، کس قدر خوبصورت و دانا، خوشگوار اور زبان آور ہے اور کس قدر چست و چالاک ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 امانت سے مراد یا تو اس کے مشہور معنی ہیں یعنی کسی کے حق میں یا کسی کی ملکیت میں خیانت نہ کرنا یا وہ تمام شرعی ذمہ داریاں مراد ہیں جو ہر شخص پر عائد کی گئی ہیں یعنی تمام اسلامی احکام و تعلیمات کو ماننا اور ان پر عمل کرنا اور امانت کے یہ وہ معنی ہیں جو قرآن کریم کی اس آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ) 33۔ الاحزاب:72) میں مذکور ہیںَ تاہم ان دونوں معنی کی اصل اور بنیاد ایمان ہے اس لئے زیادہ وضاحت کے لئے یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہاں امانت سے مراد ایمان ہے جیسا کہ خود حدیث کے آخری الفاظ وما فی قلبہ مثقال حبۃ من خر دل من ایمان سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے۔ اسی طرح حدیث کے اس جملہ ولا یکاد احد یودی الامانۃ میں امانت کا جو لفظ ہے وہ بھی مذکورہ وضاحت پر مبنی ہے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو دو حدیثیں بیان فرمائیں ان میں سے پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت و فلاح کے لئے ایمان و امانت کو نازل فرمایا اور اس کا مورو د کل قلب انسانی کو قرار دیا کہ پہلے ایمان کا نور اور جوہر انسان کے دل میں اترا اور راسخ و مستحکم ہوا جس نے کتاب ہدایت قرآن مجید اور سنت نبوی پر عمل آوری کے راستہ کو منور کیا، چنانچہ انسان نے اسی طور ایمان کے سبب ان لافانی تعلیمات اور احکام و مسائل کو جانا اور سمجھا جو کتاب اللہ سے اخذ کئے گئے ہیں اور وہ احکام و مسائل خواہ فرض و واجب اور مسنون و مباح ہوں یا حرام و مکروہ، اور پھر اسی نور نے سنت نبی کی حقیقت و صداقت کو واشگاف کیا کہ زبان رسالت اور معمولات نبوی نے کتاب اللہ کی تعلیمات منشا حق کی جو وضاحت و تفسیر بیان فرمائی اس کو بلا چون و چرا قبول کر کے عمل کی راہ کو استوار کیا گیا۔ یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ حق تعالیٰ کی طرف سے نور ہدایت کا پیدا کیا جانا اور اس کے ذریعہ انسانیت عامہ کو نوازنے اور فلاح پہنچانے کا ارادہ فرمانا کتاب اللہ کو نازل کرنے اور رسولوں کو مبعوث کرنے سے پہلے تھا، یعنی پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو پیدا کیا اور یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے بندوں کو اس نور ہدایت کے ذریعہ سعادت و بھلائی کے بلند مقام پر پہنچانا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنی کتاب کو دنیا میں نازل فرمایا اور اپنے پیغمبر اور رسول مبعوث فرمائے پس نسل انسانی سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عنایت و ہدایت کا مورد و محل بننا نصیب ہوا اور جن میں اس نور ہدایت کو قبول کرنے کی توفیق و استعداد ودیعت ہوئی وہی خوش بخت کتاب و سنت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ایک نکتہ اور بھی بیان کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ۔ پھر انہوں نے قرآن کو جانا اور پھر انہوں نے سنت کو جانا۔ اس کے ذریعہ ایمان و امانت کے مرتبہ کی شان و حیثیت اور اس کی عظمت کو بیان کرنا بھی مقصود ہے کہ باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت یعنی ایمان کو نازل فرمایا اور قلوب انسانی میں اس کو ودیعت و راسخ فرما دیا تھا مگر پھر کتاب اللہ کے نازل کرنے اور اپنے پیغمبر و رسول کے مبعوث کرنے کے ذریعہ بھی اس کو مؤکد و مؤید کیا۔ بہرحال یہ وہ پہلی حدیث جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمائی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا ہے بایں طور کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ اور رفاقت حضوری میں صحابہ کرام اس ارشاد گرامی کے عین مصداق تھے اور دوسری حدیث کہ جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امانت کے کم ہو جانے اور اٹھ جانے کا ذکر فرمایا وہ حضور کے مبارک زمانہ کے بعد کے لوگوں پر صادق آئی۔

  آدمی حسب معمول سوئے گا الخ سے مراد یا تو حقیقۃً سونا ہے یا یہ جملہ اس کی غفلت ٍو کوتاہی میں پڑ جانے سے کنایہ ہے یعنی یاد الٰہی سے غافل آیت الٰہی سے بے خبر، قرآن مجید میں تدبر و تفکر سے بے پرواہ اور تباع سنت میں کوتاہ ہو جانا۔ یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے کیونکہ ما قبل جملہ ثم السنۃ (اور پھر انہوں نے سنت کو جانا) کا مخالف مفہوم اسی مراد کا متقاضی ہے۔

  فیظل اثرہ مثل اثرالوکت امانت کا اثر یعنی نشان و کت کے نشان کی طرح ہو جائے گا۔ پہلے یہ جاننا چاہئے کہ کسی چیز کا اثر وہ نشان کہلاتا ہے جو اس چیز کی علامت کے طور پر نمودار ہے اور اس چیز کا کچھ نہ کچھ حصہ اس کی صورت میں باقی رہے اور  وکت عکسی چیز کے اس دھبہ کو کہتے ہیں جو اس چیز کے مخالف رنگ کی صورت میں نمودار ہو جائے جیسے کسی سفید چیز میں سیاہ نقطہ کا نمودار ہونا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وکت اصل میں اس سفید نقطہ نما نشان کو کہتے ہیں جو آنکھ کی سیاہی میں پیدا ہو جائے۔ حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ دین و شریعت کی طرف سے غافل ہو جانے اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دل میں ایمان کا نور کم ہو جائے گا اور وہ غافل ہونے والا جب اس صورت حال سے آگاہ ہو گا اور اپنے دل کی حالت و  کیفیت میں غور و فکر کرے گا تو یہ محسوس کرے گا کہ اس میں ایک نقطہ کی مقدار کے علاوہ نور امانت میں سے اور کچھ باقی نہیں رہا ہے۔  جب وہ دوبارہ سو جائے گا  کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب دین و شریعت سے غفلت کی نیند اور زیادہ طاری ہو جائے گی اور گناہوں کا ارتکاب زیادہ بڑھ جائے گا دل میں سے نور ایمان کا بقیہ حصہ بھی نکل جائے گا اور وہاں صرف مجل کے نشان کی طرح کی صورت میں رہ جائے گا واضح رہے کہ مجل کے معنی ہیں آبلہ پڑ جانا اور کام کرتے کرتے ہاتھ کی جو کھال سخت ہو جاتی ہے اور جس کو گھٹا بھی کہتے ہیں اس پر بھی مجل کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہٰذا جس طرح انسان کے جسم کے کسی حصہ پر جو آبلہ پڑ جاتا ہے وہ اگرچہ اوپر سے ابھرا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے اندر خراب اور گندے پانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح جس شخص کے دل میں امانت کا وہ باقی اثر و نشان بھی نکال لیا جائے گا تو اگرچہ وہ بظاہر بالکل صالح و کار آمد نظر آئے گا لیکن حقیقت میں اس کے اندر سعادت و بھلائی اور اخروی زندگی کو فائدہ پہنچانے والی کوئی چیز نہیں ہو گی۔ مذکورہ وضاحت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وکت اور مجل نور امانت کے اس حصہ کی تمثیل ہے جو دل میں باقی رہ جاتا ہے گویا ان دونوں چیزوں کی مثال کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس دور میں اسلام کے نام لیواؤں میں ایمان و دین کی اس کمزوری کے باوجود ان کے دل میں ایمان و امانت کا نور کسی نہ کسی حد تک ضرور باقی رہے گا خواہ وہ وکت اور مجل کے نشان ہی کی طرح کیوں نہ ہو لیکن اس وضاحت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ مجل کا نشان وکت کے نشان سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لہٰذا کلام کے اسلوب کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے مجل کے نشان کا ذکر کیا جاتا اور اس کے بعد وکت کے نشان کا ذکر ہوتا کیونکہ بعد کے درجہ کا نشان پہلے درجہ کے نشان سے کمتر اور ہلکا ہونا چاہئے

 اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ وکت اگرچہ بہت قلیل نشان ہوتا ہے مگر وہ مجل سے کمتر حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ مجل ایک خالی اور بالکل بیکار ہونے کی وجہ سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن یہ جواب زیادہ مضبوط نہیں ہے۔

 ایک شارح نے اس بحث پر ایک دوسرے انداز سے روشنی ڈالی ہے ان کے منقولات کے مطابق اس دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جن اہل ایمان کے قوائے فکر و عمل پر غفلت و بے حسی طاری ہو جائے گی اور گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں دین شریعت کے ساتھ ان کا تعلق نہایت کمزور پڑ جائے گا ان کے دلوں سے  امانت جاتی رہے گی چنانچہ جب اس کا ایک حصہ زائل ہو جائے گا تو ان کے دلوں میں سے اس کا نور بھی زائل ہو جائے گا اور اس کی جگہ وکت کی طرح ظلمت و تاریکی پیدا ہو جائے گی اور اس کی مثال ایسی جیسے کسی چیز میں اس کا مخالف رنگ نمودار ہو جائے مثلاً سفید چیز میں سیاہ رنگ کا نمودار ہو جانا اور جب دین و شریعت کے تئیں غفلت ٍو کوتاہی اور بڑھ جائے گی اور گناہوں کا ارتکاب پہلے سے بھی زیادہ ہو جائے تو نور امانت کا جو حصہ باقی رہ گیا تھا اس میں سے کچھ اور زائل ہو جائے گا اور اس کی مثال  ایسی ہے جیسے جسم کے کسی حصہ پر مجل (یعنی آبلہ یا گٹھے کا نشان) اتنا گہرا اور اس قدر سخت ہوتا ہے کہ جلد زائل نہیں ہوتا، پس دوسری مرتبہ دل میں جو تاریکی پیدا ہو گی وہ پہلی مرتبہ پیدا ہونے والی تاریکی سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری ہو گی۔ مذکورہ صورت حال کو اس مثال کے ذریعہ بیان فرمانے کے بعد پھر یہ فرمایا کہ قلب انسانی میں ایمان و امانت کے نور کا پیدا ہونا اور پھر نکل جانا یا دلوں میں اس نور کا جگہ پکڑنا اور پھر اس کے زائل ہو جانے کے بعد تاریکی کا آ جانا ایسی تشبیہ رکھتا ہے جیسا کہ کوئی آگ کا انگارہ لے کر اس کو اپنے پیر پر ڈال لے اور انگارہ پیر کو جلا کر زائل ہو جائے اور پھر جلی ہوئی جگہ پر آبلہ پڑ جائے۔

 ایک اور شارح نے یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں امانت کا نور پیدا کیا تاکہ وہ اس کی روشنی میں فلاح کے راستہ پر چلیں اور دین و شریعت کے پیروکار بنیں لیکن جب وہ لوگ اس نعمت سے بے پرواہ ہو جائیں گے، دین و شریعت کے تئیں غفلت ٍو کوتاہی میں پڑ جائیں گے اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر ان لوگوں سے یہ نعمت واپس لے لے گا۔ بایں طور کہ ان کے دل سے امانت نکل جائے گی، یہاں تک کہ جب وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے قلب کی وہ حالت نہیں ہے جو امانت کی موجودگی میں پہلے تھی۔ البتہ ان کے دلوں میں اس امانت کا نشان باقی رہے جو کبھی وکت کی طرح ہو گا اور کبھی مجل کی طرح ہو گا۔، پس مجل اگرچہ مصدر ہے لیکن یہاں اس سے مراد نفس آبلہ ہے اور یہ یعنی مجل پہلے مرتبہ یعنی وکت سے کمتر درجہ ہے۔ کیونکہ وکت کے ذریعہ اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگرچہ امانت دل سے نکل جائے گی مگر نشان کی صورت میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ باقی رہے گا۔

 حدیث کے آخری الفاظ  حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہو گا  دونوں احتمال رکھتے ہیں یا تو اصل ایمان کی نفی مراد ہے، یعنی اس شخص کے سرے سے ایمان کا وجود ہی نہیں ہو گا، یا کمال ایمان کی نفی مراد ہے کہ ارشاد گرامی کے اس جزو کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اس شخص کی عقل و دانائی کی زیادتی اور چالاکی اور مہارت وغیرہ کی تعریف کریں گے اور اس کے تئیں تعجب تحسین کا اظہار کریں گے لیکن کسی ایسے شخص کی تعریف ٍو توصیف نہیں کریں گے جس میں بہت زیادہ علم وفضل ہو گا اور جو عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز ایمان اور پاکیزگی فکر و عمل ہے۔ اگر کسی شخص میں ایمان و پاکیزگی کی دولت نہ ہو تو خواہ وہ دنیا بھر کی تمام نعمتوں، کامرانیوں اور خوبیوں کا حامل ہو اس کی کوئی حقیقت نہ ہو گی اگرچہ دنیا والے اس کی کتنی ہی تعریف و تحسین کریں اور اس کی ان خوبیوں و کامرانیوں کی وجہ سے اس کو کتنا ہی بہتر وبرتر جانیں لہٰذا تعریف و تحسین اس شخص کے حق میں معتبر ہو گی جو ایمان و تقویٰ کا حامل ہو۔

جب فتنوں کا ظہور ہو تو گوشہ عافیت تلاش کرو

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ تو اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خیر ونیکی اور بھلائی کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شر و برائی کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں میں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جاؤ (یعنی دوسرے صحابہ تو عبادت و طاعت کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نیک عمل اور اچھے کام کر سکیں یا یہ کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے رزق میں وسعت و خوشحالی کی دعا کرتے تھے تاکہ انہیں اطمینان و فراغت حاصل ہو اور اپنی دنیا کو آخرت کی فلاح و کامیابی کا ذریعہ بنا سکیں لیکن ان کے برخلاف میرا معمول دوسرا تھا، میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گناہ اور برائیوں کے بارے میں پوچھا کرتا تھا کہ ان سے اجتناب کر سکوں یا یہ کہ ان فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا جو اس دنیا میں ظہور پذیر ہو سکتے ہیں اور جو نہ صرف اخروی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ ان کے برے اثرات دنیاوی خوشحالی اور رزق کی وسعت پر بھی پڑتے ہیں اور پوچھنے کی بنا یہ خوف ہوتا تھا کہ کہیں میں ان فتنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤں یا ان کے برے اثرات و اسباب مجھ تک نہ پہنچ جائیں چنانچہ اہل علم سے برائیوں کی واقفیت حاصل کر کے ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ایک بہترین طریق ہے۔ اسی لیے حکما اور اطبا بلکہ بعض فضلا نے اس طریق کو بطور اصل اختیار کیا ہے کہ ازالہ مرض سلسلہ میں پرہیز کو ملحوظ رکھنا دوا استعمال کرنے سے زیادہ بہتر ہے نیز کلمہ توحید بھی اسی اصول کی طرف اشارہ ہے کہ پہلے ما سوا اللہ کی نفی کی گئی ہے اس کے بعد الوہیت کو ثابت کیا گیا) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اپنی مذکورہ عادت کے مطابق ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ اسلام سے قبل جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے صدقہ میں ہمیں یہ ہدایت بخشی یعنی اسلام کی روشنی عطا فرمائی جس کی وجہ سے کفر ضلالت کے اندھیرے دور ہو گئے اور ہم گمراہیوں اور برائیوں کے جال سے باہر آ گئے تو کیا اس ہدایت و بھلائی کے بعد کوئی اور برائی و بدی پیش آنے والی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں! (اس بھلائی کے بعد بھی برائی پیش آنے والی ہے)۔ میں نے عرض کیا تو کیا اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہو گا کہ جس کی وجہ سے دین و شریعت کا پھر بول بالا ہو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں! اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہو گا لیکن اس برائی کے بعد پھر بھلائی کا ظہور ہو گا لیکن اس برائی کے بعد جو بھلائی آئے گی اس میں کدورت ہو گی۔ میں نے عرض کیا کہ اس بھلائی کی کدورت کیا ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے کدورت کی جو بات کہی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میرے طریقہ اور میری روش کے خلاف طریقہ و روش اختیار کریں گے۔ لوگوں کو میرے بتائے ہوئے راستہ کے خلاف راستہ پر چلائیں گے۔ اور میری سیرت اور میرے کردار کے خلاف سیرت و کردار اپنائیں گے تم ان میں دین دار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی۔ میں نے عرض کیا، کیا اس بھلائی کے بعد پھر کوئی برائی پیش آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اپنی طرف بلائی گے جو شخص ان کے بلاوے کو قبول کر کے دوزخ کی طرف جانا چاہے گا اس کو وہ دوزخ میں دھکیل دیں گے یعنی جو شخص ان کے بہکاوے میں آ کر ان گمراہیوں میں مبتلا ہو گا جو دوزخ کے عذاب کا مستوجب بناتی ہیں تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ان کے بارے میں وضاحت فرمائیے کہ وہ کون لوگ ہوں گے آیا وہ مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے یا غیر مسلم ہوں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ وہ ہماری قوم، ہمارے ابنا جنس اور ہماری ملت کے لوگوں میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے (یعنی وہ لوگ عربی زبان رکھنے والے ہوں گے یا یہ مراد ہے کہ ان کی گفتگو قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین اور پند و نصائح سے آراستہ ہو گی اور بظاہر ان کی زبان پر دین و مذہب کی باتیں ہوں گی مگر ان کے دل نیکی و بھلائی سے خالی ہوں گے) میں نے عرض کیا کہ تو پھر میرے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے (یعنی اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ کتاب و سنت پر عمل کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کو لازم جاننا اور ان کے امیر کی اطاعت کرنا یعنی اہل سنت کے راستہ کو اختیار کرنا اور اہل سنت کا جو امام و مقتدا ہو اس کی اطاعت و رعایت کو ملحوظ رکھنا میں نے عرض کیا کہ اور اگر مسلمانوں کی کوئی مسلمہ جماعت ہی نہ ہو؟ اور نہ ان کا کوئی متفقہ امیر و مقتدا ہو بلکہ مسلمان مختلف جماعتوں میں منقسم ہوں اور الگ الگ مقتداؤں کے پیچھے چلتے ہوں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی صورت میں تمہیں ان سب فرقوں اور جماعتوں سے صرف نظر کر کے یکسوئی اختیار کر لینی چاہئے اگرچہ اس یکسوئی کے لئے تمہیں کسی درخت کی جڑ میں پناہ کیوں نہ لینی پڑے جنگلوں میں چھپنا کیوں نہ پڑے اور اس کی وجہ سے سخت سے سخت مصائب و شدائد برداشت کیوں نہ کرنا پڑے اور ان جنگلوں میں گھاس پھوس کھانے پر قناعت تک کی نوبت کیوں نہ آ جائے یہاں تک اسی یکسوئی کی حالت میں موت تمہیں اپنی آغوش میں لے لے۔ (بخاری و مسلم)

 اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد ایسے امام یعنی امیر بادشاہ اور قائد رہنما ہوں گے جو عقیدہ و فکر اور علم کے اعتبار سے میری سیدھی راہ پر نہیں چلیں گے اور کردار و عمل کے اعتبار سے میری روش اور میرا طریقہ نہیں اپنائیں گے یا یہ معنی ہیں کہ وہ کتاب و سنت پر عمل نہیں کریں گے اور اس زمانہ میں ایسے بھی پیدا ہوں گے جو روپ اور بدن تو آدمیوں جیسا رکھیں گے لیکن ان کے دل شیطانوں کے سے ہوں گے یعنی وہ لوگ فسق و گمراہی شقاوت سخت دلی، شکوک و شبہات پیدا کرنے، فریب دینے عقل کے نکمے ہونے اور فاسد خواہشات رکھنے میں انسانیت کی ساری حدوں کو پار کر جائیں گے اور اس اعتبار سے ان کی شکل کو صورت آدمیوں جیسی ہونے کے باوجود ان کی سیرت اور ان کی باطنیت شیطان کی سی ہو گی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا کرو؟ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کا امیر و مقتدا جو کچھ کہے اس کو سننا اور امیر کی اطاعت کرنا (بشرطیکہ اس اطاعت کا تعلق کسی معصیت سے نہ ہو) اگرچہ تمہاری پشت پر مارا جائے اور تمہارا مال چھین لیا جائے تب بھی سننا اور طاعت کرنا۔

 

تشریح

 

 لفظ  شر سے مراد فتنہ، ارکان اسلام میں سستی ٍو کوتاہی واقع ہو جانا، برائی کا غلبہ پا لینا اور بدعت کا پھیلنا ہے اور خیر سے مراد اس کے برعکس معنی ہیں۔

  ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں مبتلا تھے  کے ذریعہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بعثت نبوی سے قبل کے زمانہ کی طرف اشارہ کیا جب توحید کا آفتاب جہالت کے بادلوں میں چھپا ہوا تھا، نبوت و رسالت کی روشنی نمودار نہیں ہوتی تھی۔ اور احکام خداوندی پر عمل آوری کا راستہ نظروں سے اوجھل تھا۔ فی جاہلیۃ و شر میں وشر کا لفظ عطف تفسیری ہے کہ اس لفظ کے ذریعہ جاہلیت کی وضاحت بیان کرنا مقصود ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جملہ میں وشر کے بعد تخصیص کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

  دخن جس کا ترجمہ کدورت کیا گیا ہے۔ دخان (دھواں) کے معنی میں ہے مطلب یہ ہے کہ جس طرح فضا میں پھیلا ہوا دھواں صاف و شفاف چیزوں کو مکدر اور دھندلا بنا دیتا ہے اسی طرح اس وقت جو بھلائی بھی سامنے آئے گی وہ بدی اور برائی کے گرد و غبار سے آلودہ ہو گی، بایں طور کہ لوگوں کے دلوں میں صفائی اور خلوص نہیں ہو گا جو اس اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھا۔ اور عقیدے صحیح اور اعمال صالح نہیں ہوں گے، امرا و سلاطین کا نظم مملکت اس عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہو گا جو پہلے زمانہ میں پایا جاتا تھا مسلمانوں کے قائد و رہنما مخلص (بے غرض اور دین و ملت کے سچے خادم نہیں ہوں گے، برائیوں کا ظہور ہو گا، بدعتیں پیدا ہوں گی بدکار لوگ نیکو کاروں کے ساتھ اہل بدعت، اہل سنت کے ساتھ خلط ملط رہیں گے۔

  تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بھلائی اور برائی دونوں کے ساتھ خلط ملط رکھنے کی وجہ سے متضاد اور مختلف اعمال و کردار اور طور طریقوں کے حامل ہوں گے؟ ان کی زندگی میں منکر یعنی بری باتوں کا چلن بھی ہو گا اور معروف یعنی اچھے کاموں کا عمل دخل بھی ہو گا۔ پس یہ جملہ بھی اسی مفہوم کو واضح کرتا ہے جو ما قبل کے جملوں نعم وفیہ دخن ویستنون بغیر سنتی سے مراد لیا گیا ہے۔

 بعض حضرات نے وضاحت کی ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اسلام و ہدایت کی روشنی کے بعد پیش آنے والی جس پہلی برائی یا فتنہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے وہ فتنہ و فساد مراد ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سانحہ شہادت کے وقت رونما ہو اور پھر پیش آنے والی دوسری بھلائی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ خلافت ہے، نیز منہم وتنکر یعنی تم ان میں دیندار بھی دیکھو گے اور بے دین بھی۔ میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے وہ امرا و سلاطین مراد ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد حکمراں ہوئے چنانچہ ان میں سے بعض ایسے حکمران گزرے جو اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اپنے نظام سلطنت میں بھی کتاب و سنت کی ہدایت کو رہنما بناتے تھے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے تھے۔ یا یہ کہ بعض ان میں سے ایسے تھے جو کبھی تو اچھے کام کرتے تھے اور کبھی خواہشات نفسانی میں پڑ کر برے کام کرتے تھے، اس وقت ان کے سامنے آخرت کا مفاد اور دار آخرت کے لئے تیاری کا جذبہ نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کا اصل مفاد اپنی ذاتی اغراض کو پورا کرنا اور ہر صورت اپنے اقتدار اور اپنی حکمرانی کو باقی رکھنا ہوتا تھا۔ اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پہلی برائی سے مراد وہ فتنہ و فساد ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کی صورت میں اور ان کے بعد رونما ہوا، اور دوسری بھلائی سے وہ صلح صفائی ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کے درمیان ہوئی اور  دخن یعنی کدورت سے مراد وہ افسوسناک واقعات، حادثات ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض امرا کے ذریعہ رونما ہوئے جیسے عراق میں زیاد کا فتنہ و فساد۔

  جو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلائیں گے یعنی ان مفاد پرست خود غرض اور گمراہ افراد کا ایک گروہ ہو گا جو لوگوں کو طرح طرح کے فریب اور مختلف لالچ اور بہلاووں کے ذریعہ گمراہی کی طرف بلائیں گے اور ان کو ہدایت و راستی سے دور رکھے گا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گمراہی کی دعوت دینے والوں کی دعوت کو اور جن کو دعوت دی جائے گی ان کی طرف سے اس دعوت کو قبول کئے جانے کو ایک ایسا سبب قرار دیا ہے جس کے ذریعہ دعوت دینے والے، دعوت قبول کرنے والوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے اس طرح وہ لوگ ان کی مکر و فریب دعوت کا شکار ہو کر جہنم میں پہلے جائیں گے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا مکر و فریب کی تمام اقسام اور تمام صورتوں کو جہنم کے دروازوں کا قائم مقام قرار دیا ہے۔

 بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ یہاں جن افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلائیں گے ان سے وہ جاہ پسند اور حکومت و اقتدار کے طلبگار مراد ہیں جو ملک و قوم پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے گروہ بنائیں گے اور عام لوگوں کو طرح طرح کے فریب دے کر اپنے گرد جمع کریں گے تاکہ ان کی اجتماعی طاقت کے ذریعہ ملی سیادت اور ملک و حکومت پر قبضہ کر سکیں، جیسا کہ خوارج اور روافض جیسے گمراہ فرقے اس ناپاک مقصد کے لئے پیدا ہوئے حالانکہ امارت و سیادت اور امانت و ولایت کی کوئی بھی شرط و خصوصیت ان میں موجود نہیں پائی جائے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل وضاحت ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے۔ تو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہونا، مآل کار کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے یعنی گمراہی کی طرف ان لوگوں کے بلانے کا مآل کار چونکہ یہ ہو گا کہ جو لوگ ان کے بلانے پر ان کی طرف چلے جائیں گے وہ دوزخ کے عذاب کے مستوجب بنیں گے۔ اس لئے گمراہی کی طرف ان کے بلانے کو دوزخ کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس یہ ارشاد گرامی اسلوب کے اعتبار سے قرآن کریم اس آیت کی طرح ہے کہ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْماً اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَاراً)4۔ النسا:10

 مسلم کی روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں مسلمانوں کا باقاعدہ نظم سلطنت قائم ہے اور مسلمانوں کا امیر و امام موجود ہے تو وہاں کے سیاسی حالات میں تمہارے لئے کتنی ہی تنگی و سختی کیوں نہ ہو اور اس امیر و امام کی طرف سے تمہارے مال اور تمہاری جان کے تئیں ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو یا تمہیں مارا پیٹا اور تمہارا مال و اسباب چھینا کیوں نہ جاتا ہو، تم اس امیر و امام کے خلاف علم بغاوت ہرگز بلند نہ کرنا اور فتنہ و فساد کے دروازے نہ کھولنا بلکہ صبر و تحمل کی راہ اختیار کئے رہنا، اور سخت سے سخت حالات میں بھی امام وقت سے بغاوت کر کے دین و ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنے کا سبب نہ بننا رہی بات یہ کہ اگر وہ امیر و امام مشروع امور کے ارتکاب کا حکم دے ؟ تو اس صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ہاں اگر ان مشروع امور کے ارتکاب کے لئے کہا جائے کہ حکم عدولی کی صورت میں بھی اولیٰ کو اختیار کرنے کا جواز باقی رہتا ہے یعنی حکم عدولی کی صورت میں جان جانے کا خوف ہو تو غیر مشروع امر کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص جان کی بازی لگا کر بھی غیر مشروع امر کے ارتکاب سے انکار کرے تو یہ سب سے اچھی بات ہو گی۔ اور اس سب سے اعلیٰ درجہ کو اختیار کرنے کا جواز ہے۔

 آخر میں فاسمع واطع کے الفاظ جو دوبارہ ارشاد فرمائے گئے ہیں ان سے اس حکم کو مؤکد کرنا مقصود ہے کہ اپنے کو امام وقت کی اطاعت سے علیحدہ نہ کیا جائے اور سرکشی و بغاوت کے ذریعہ ملک و ملت میں انتشار و تفریق کا فتنہ نہ اٹھایا جائے۔

اس سے قبل کہ فتنوں کا ظہور ہو، اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنی زندگی مستحکم کر لو

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہو گا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا، نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ ڈالے گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  اعمال صالحہ میں جلدی کرو کی ہدایت کا حاصل یہ ہے کہ اس تغیر پذیر دنیا کو کسی ایک رخ پر قرار نہیں اور وقت حالت کا بہاؤ ایک ہی سمت نہیں رہتا، اگر اب ایسے حالات ہیں جو عقیدہ و عمل کا رخ صحیح سمت رکھنے میں معاون بنتے ہیں تو بعد میں ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو فکر و نظریات اور عقیدہ و عمل کا سفر ٹھیک رخ پر جاری رکھنے میں زبر دست رکاوٹ پیدا کر دیں، اور ایسے میں کم ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے ذہن و فکر اور دل و دماغ ان حالات کی تاثیر سے محفوظ رہ پائیں اور جن کے اعمال صالحہ میں رکاوٹ نہ پیدا ہوتی ہو، پس جس شخص کو جو بھی موقع ملے اس میں اچھے کام اور نیک عمل کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور جس قدر بھی اعمال کئے جا سکتے ہوں کر لئے جائیں کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا وقت کیا فتنے لے کر آئے اور پھر اعمال صالحہ اختیار کرنے کا موقع بھی مل سکے یا نہیں۔

  فتنوں کو اندھیری رات کے ٹکڑوں سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے فتنوں کے بارے میں کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کب اور کیوں نمودار ہوں گے اور ان سے چھٹکارے کی راہ کیا ہو گی، لہٰذا ان آنے والے فتنوں سے پہلے ہی اعمال صالحہ کے ذریعے اپنی دینی زندگی کو مضبوط و مستحکم بنا لو، آنے والے وقت کا انتظار نہ کرو کیونکہ اس وقت دین و شریعت کے تعلق سے سخت ترین آفات و مصائب میں اس طرح گم ہو کر رہ جاؤ گے کہ نیک کام کرنے کا موقع ہی نہ پا سکو گے۔ وہ وقت لوگوں کے ذہن و فکر اور اعمال و کردار پر کتنا برا اثر ڈالے گا اور وہ فتنے کس قدر سریع الاثر ہوں گے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ مثلاً آدمی جب صبح کو اٹھے گا تو ایمان یعنی اصل ایمان یا کمال ایمان کے ساتھ متصف ہو گا لیکن شام ہوتے ہوتے کفر کے اندھیروں میں پہنچ جائے گا۔ رہی یہ بات کہ کفر سے کیا مراد ہے ؟ تو ہو سکتا ہے کہ اصل کفر مراد ہو، یعنی وہ شخص واقعۃً کفر کے دائرہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ مراد ہے کہ وہ کفران نعمت کرنے والا ہو جائے گا، یا وہ کافروں کی مشابہت اختیار کر لے گا اور یا یہ کہ وہ ایسے کام کرنے لگے گا جو صرف کافر ہی کرتے ہیں۔

 اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ جملہ کے معنی یہ ہیں کہ مثلاً ایک شخص جب صبح کو اٹھے گا تو اس چیز کو حلال جانتا ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حرام جانتا ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، لیکن شام ہوتے ہوتے اس کے ذہن و فکر اور اس کے عقیدے میں اس طرح انقلاب آ جائے گا کہ وہ اس چیز کو حرام سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اور اس چیز کو حلال سمجھنے لگے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر جملہ کے دوسرے جزء یعنی شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ عام لوگ ان فتنوں کی وجہ سے دین و شریعت کے معاملات میں تذبذب و تردد کا شکار ہو جائیں اور نام نہاد دانشور و عالم اور دنیا دار  مقتداؤں کے پیچھے چلنے لگیں گے۔ مظہر نے کہا ہے کہ مذکورہ صورت حال کے کئی وجوہ و اسباب اور مختلف مظاہر ہوں گے ایک تو یہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ مخالف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ پس ان کے درمیان محض عصبیت اور بغض و عناد کی وجہ سے خونریزی ہو گی اور دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مخالفین کے جان و مال کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی آبرو ریزی کرنے کو حلال و جائز جانیں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے حاکم و امرا ظلم و جور کا شیوہ اپنا لیں گے۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا ناحق خون بہائیں گے، زور زبردستی ان کا مال لیں گے زنا کاری کریں گے، شراب پئیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی صریح زیادتیوں اور بدکاریوں کے باوجود بعض لوگ یہ عقیدہ رکھیں گے اور دوسرے حرام امور کا ارتکاب کریں گے، لیکن ان کی بد عقیدگی کے اس فتنہ میں مبتلا کرنے والے وہ نام نہاد علما ہوں گے جن کو علما سو کہا جاتا ہے۔ ان کی طرف سے بے محابا ان امرا و حکام کے ان کاموں کے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا جو وہ مسلمانوں کی خونریزی اور حرام امور کے ارتکاب کی صورت میں کریں گے، اور تیسرے یہ کہ عام مسلمانوں میں جہالت اور دین کی ناواقفیت کی وجہ سے جو برائیاں پھیل جائیں گی اور ان سے جن غیر شرعی امور کا صدور ہو گا جیسے خرید و فروخت کے معاملات اور دوسرے سماجی امور و تعلقات میں دین و شریعت کے احکام کی خلاف ورزی، ان کو حلال و جائز مانیں گے۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے یہ لکھا ہے کہ مذکورہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہو گی کہ لوگ اپنے اغراض و منافع کی خاطر، دنیا دار امرا و حکام اور اہل دولت و ثروت سے میل جول رکھیں گے ان سے حاجت روائی کی امید میں ان کے ہاں گھستے پھریں گے ان کی حاشیہ نشینی اور مصاحبت کو بڑا اعزاز سمجھیں گے، پس اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ ان کے تابع محض اور جی حضوری بن جائیں گے اور ان کے خلاف شریعت امور و معاملات میں ان کی موافقت تائید کرنے پر مجبور ہوں گے۔

  آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کے ایک معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ آدمی صبح کو اٹھے گا تو اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال و عزت کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھنے کے سبب ایمان کی حالت میں ہو گا مگر شام ہوتے ہوئے اس کے عقیدے میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون اور مال کو حلال سمجھنے لگے گا اور اس کے سبب وہ کافر قرار دیا جائے گا یہ معنی اختیار کرنے کی صورت میں فتنوں سے مراد جنگ وقتال ہو گا۔ لیکن اس جملہ کے جو معنی پہلے بیان کئے گئے ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کے زیادہ مناسب ہیں۔

فتنوں کے ظہور کے وقت گوشہ عافیت میں چھپ جاؤ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عنقریب فتنے پیدا ہوں گے یعنی جلد ہی ایک بڑا فتنہ سامنے آنے والا ہے یا یہ کہ پے بہ پے یا تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بہت زیادہ فتنوں کا ظہور ہونے والا ہے ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا، اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا سعی کرنے والے (یعنی کسی سواری کے ذریعہ یا پاپیادہ دوڑنے والے اور جلدی چلنے والے) بہتر ہو گا اور جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا فتنہ اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا پس جو شخص ان فتنوں سے نجات کی کوئی جگہ یا اس سے بھاگنے کا کوئی راستہ یا پناہ گاہ پائے اور یا کوئی ایسا آدمی اس کو مل جائے جس کے دامن میں وہ ان ان فتنوں سے پناہ لے سکتا ہو تو اس شخص کو چاہئے کہ اس کے ذریعہ پناہ حاصل کر لے یعنی اگر ان فتنوں سے بھاگنے کا کوئی راستہ مل سکتا ہو تو فتنوں کی جگہ سے نکل بھاگے یا کوئی ایسی جگہ اس کو معلوم ہو کہ جہاں چھپ جانے کی وجہ سے ان فتنوں سے پناہ مل سکتی ہو تو وہاں جا کر چھپ جائے اور یا اگر کوئی آدمی اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دینے والا مل سکتا ہو تو پاس جا کر پناہ گزین ہو جائے۔ (بخاری و مسلم)

 اور مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب کوئی فتنہ ظاہر ہو گا تو اس فتنہ میں سونے والا شخص(جو اس فتنہ سے غافل اور بے خبر ہو اور اس کے بارے میں اطلاعات نہ سنتا ہو) جاگنے والے (یعنی اس فتنہ کو جاننے اور اس کی خبر رکھنے والے سے بہتر ہو گا، جاگنے والا شخص کہ خواہ وہ لیٹا ہوا ہو یا بیٹھا ہوا) کھڑا رہنے والے سے بہتر ہو گا اور اس فتنہ میں کھڑا ہونے والا شخص اس فتنہ میں سعی کوشش کرنے والے سے بہتر ہو گا (یہاں سعی کا لفظ مشی یعنی چلنے والے کے معنی میں ہے، اور کسی چیز کی طرف چلنا گویا اس چیز کے حق میں سعی و کوشش کرنے کے مترادف ہوتا ہے، صراح میں لکھا ہے کہ سعی کے معنی ہیں دوڑنا، جلدی کرنا، اور کسی چیز کے حق میں محنت و عمل کرنا پس اس فتنہ میں سعی کرنے والے سے مراد اس فتنہ میں مدد و تعاون دینا اور اس کے حق میں سعی و کوشش کرنا ہے، لہٰذا جو شخص اس فتنہ سے بھاگنے کا راستہ یا اس سے پناہ کی جگہ پائے تو اس کو چاہئے کہ وہاں جا کر پناہ حاصل کر لے۔

 

تشریح

 

 فتنہ میں بیٹھنے والا، کھڑے ہونے والے سے اس لئے بہتر ہو گا کہ کسی چیز کے پاس کھڑے رہنے والا شخص اس چیز سے زیادہ قربت اور مناسبت رکھتا ہے کہ وہ اس چیز کو دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے جب کہ ادھر ادھر بیٹھا رہنے والا شخص اس چیز کو نہ دیکھتا ہے نہ سنتا ہے لہٰذا فتنوں میں کھڑا رہنے والا شخص ان کو دیکھنے اور سننے کی وجہ سے کہ جن کو بیٹھا ہوا شخص نہیں دیکھے، سنے گا عذاب سے زیادہ قریب ہو گا، ہو سکتا ہے کہ اس جملہ میں بیٹھنے والے شخص سے مراد وہ شخص ہو جو اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنہ کا محرک نہ ہو بلکہ اس سے دور رہ کر اپنے مکان میں بیٹھا رہے اور باہر نہ نکلے اور کھڑے ہونے والے سے مراد وہ شخص ہو جس کے اندر اس فتنہ کے تعلق سے کوئی داعیہ اور تحریک تو ہو مگر فتنہ انگیزی میں متردد ہو۔

  جو شخص فتنوں کی طرف جھانکے گا الخ  کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان فتنوں کی طرف متوجہ ہو گا اور ان کے نزدیک جائے گا تو اس کی وہ توجہ اور نزدیکی اس کے ان فتنوں میں مبتلا ہو جانے ا باعث ہو گی، لہٰذا ان فتنوں کی برائیوں سے بچنے اور ان کے جال سے خلاصی پانے کی صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گی کہ ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور رہنا ممکن ہو اتنا ہی زیادہ دور رہا جائے۔

 

 

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عنقریب فتنوں کا ظہور ہو گا، یاد رکھو پھر فتنے پیدا ہوں گے اور یاد رکھو ان فتنوں میں سے ایک بہت بڑا فتنہ (یعنی مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی اور خونریزی کا حادثہ پیش آئے گا، اس فتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے شخص سے بہتر ہو گا اور چلنے والا شخص اس فتنہ کی طرف دوڑنے والے شخص سے بہتر ہو گا۔ پس آگاہ رہو! جب وہ فتنہ پیش آئے تو جس شخص کے پاس جنگل میں اونٹ ہوں اوہ اپنے اونٹوں کے پاس جنگل میں چلا جائے جس شخص کے بکریاں ہوں وہ بکریوں کے پاس چلا جائے اور جس شخص کے پاس اس فتنہ کی جگہ کہیں دور کوئی زمین و مکان وغیرہ ہو وہ اپنی اس زمین پر یا اس مکان میں چلا جائے۔ (حاصل یہ کہ جس جگہ وہ فتنہ ظاہر ہو وہاں نہ ٹھہرے بلکہ اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے اور گوشہ عافیت پکڑ لے یا اس فتنہ سے غیر متوجہ ہو کر اپنے کاروبار میں مشغول و منہمک ہو جائے ایک شخص نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ بتائیے کہ اگر کسی شخص کے پاس نہ اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ کسی دوسری جگہ کوئی زمین و مکان وغیرہ ہو جہاں وہ جا کر گوشہ عافیت اختیار کرے اور اس فتنہ کی جگہ سے دور رہ سکے تو اس کو کیا کرنا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی تلوار کی طرف متوجہ ہو اور اس کو پتھر پر مار کر توڑ ڈالے۔ (یعنی اس کے پاس جو بھی آلات حرب اور ہتھیار ہوں ان کو بے کار اور ناقابل استعمال بنا دے تاکہ اس کے دل میں جنگ وپیکار کا خیال ہی پیدا نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدل کے اس فتنہ میں شریک ہی نہ ہو سکے۔ یہ حکم اس لئے ہے کہ جس لڑائی میں دونوں طرف سے مسلمان برسرپیکار ہوں اور ایک دوسرے کی خونریزی کر رہے ہوں، اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔ اور پھر اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ فتنہ کی جگہ سے بھاگ سکے تو جلد نکل بھاگے۔ تاکہ وہ اس فتنہ کے اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے اللہ میں نے تیرے احکام تیرے بندوں کو پہنچا دیئے۔ یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار فرمائے ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! مجھ یہ بتائیے کہ اگر مجھے مجبور کر کے یعنی زور و زبردستی سے لڑنے والے دونوں فریق میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے جایا جائے اور وہاں سے کسی شخص کی تلوار سے مارا جاؤں یا کسی کا تیر آ کر مجھ کو لگے جو مجھے موت کی آغوش میں پہنچا دے تو اس صورت میں قاتل اور مقتول کا کیا حکم ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارا وہ قاتل اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا اور دوزخیوں میں شمار ہو گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 علما اسلام کے ہاں یہ ایک طویل بحث ہے کہ اگر افتراق و انتشار کا کوئی فتنہ ابھر آئے اور کچھ مسلمان دو فریق میں تقسیم ہو کر آپس میں جنگ و جدال کرنے لگیں تو اس وقت باقی مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟ اہل علم کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ افتراق و انتشار اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی کی صورت میں کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ قتل و قتال میں شریک ہو، بلکہ جب مسلمانوں کے دو فریق آپس میں جنگ و جدال کریں تو اس میں شامل ہونے سے احتراز کرنا اور دونوں فریق سے یکسوئی وغیرہ جانب داری اختیار کر کے گوشہ عافیت پکڑنا واجب ہے۔ ان حضرات کی دلیل مذکورہ بالا ارشاد گرامی اور اس طرح کی دوسری احادیث ہیں۔ مشہور صحابی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی یہی تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ خونریزی کی ابتدا خود نہیں کرنی چاہئے لیکن اگر کوئی خونریزی کرے تو اس کا دفعیہ کرنا لازم ہے جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا مسلک یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں باہمی پھوٹ پڑ جائے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو کر قتل و قتال کرنے لگیں تو اس فریق کی حمایت کرنی چاہئے جو حق و انصاف پر ہو اور جو فریق ظلم و ناانصافی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہو یا مسلمانوں کے امام و سردار سے بغاوت کر کے ملی افتراق و انتشار کا سبب بن رہا ہو اس کے خلاف قتال کرنا چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو جائے گا اور بغاوت و سرکشی کرنے والوں کی ہمت افزائی ہو گی۔ اس مسلک کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔ آیت(وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا)  49۔ الحجرات:9) چنانچہ آیت کریمہ اس امر کو واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ جب مسلمانوں کے دو دو فریق باہمی قتل و قتال اور خونریزی میں مبتلا ہوں تو ان کے درمیان صلح و صفائی کرانی چاہئے اور دونوں فریق کو اس فتنہ و انتشار سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہے۔ لیکن اگر ان دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے فریق کے تئیں حد سے تجاوز کرے اور اس فتنہ کو جاری رکھنے اور بھڑکانے میں مصروف رہے تو پھر اس فریق کے خلاف کہ جو حد سے متجاوز اور فتنہ کو بھڑکانے کا باعث بن رہا ہو تلوار اٹھا لینی چاہئے اور اس کے ساتھ قتال کرنا چاہئے تاکہ وہ راہ حق پر آ جائے۔

  اپنے اور تمہارے گناہ کے ساتھ لوٹے گا  کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے ایک گناہ تو اس کے اس عمل کا کہ اس نے حقیقت میں تمہیں مارا اور دوسرا تمہارا گناہ بایں اعتبار کہ اگر بالفرض تم اس کو مارتے اور اس کا گناہ تمہیں ہوتا تو گویا وہ گناہ بھی اس کے سر ڈال دیا جائے گا۔ پس از راہ زجر و توبیخ اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ اس فتنہ میں کسی ایسے مسلمان کو قتل کرنے کا گناہ کہ جو اس جنگ سے بیزار ہو مگر مجبوراً اس میں شریک ہو گیا ہو الضاعف یعنی دو گناہ ہو کر سر پڑے گا۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس شخص پر دو گناہ ہوں گے، ایک گناہ تو اس بغض و عداوت کا جو وہ مسلمانوں سے رکھتا تھا اور جس کے سبب تمہارا قتل ہوا، اور دوسرا گناہ تمہارے قتل کا جو اس سے سرزد ہوا۔

  اور دوزخیوں میں شمار ہو گا  اس کے بعد دوسرا جملہ یہ ہونا چاہئے تھا۔ کہ اور تم جنتیوں میں سے ہو گے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسرا جملہ ارشاد نہیں فرمایا کیونکہ مذکورہ پہلے جملہ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔

 

 

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ ایک مسلمان کے لئے اس کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی پر بارش برسنے کی جگہ چلا جائے  اور فتنوں سے بھاگ کر اپنا دامن بچا لے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا مطلب بھی یہ تلقین کرنا ہے کہ جب ایسے فتنے رونما ہوں جن سے مسلمانوں میں باہمی افتراق و انتشار اور جنگ و جدل کی وبا پھیل جائے اور ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس میں دین کو بچانا مشکل ہو تو اس وقت نجات کی راہ یہی ہو گی کہ گوشہ تنہائی اختیار کر لیا جائے اور جس قدر ممکن ہو سکے اپنے آپ کو دنیا والوں سے الگ تھلگ کر لے، چنانچہ فرمایا کہ ایسے میں سب سے بہتر صورت یہ ہو گی کہ ایک مسلمان بس چند بکریوں کا مالک ہو اور وہ ان بکریوں کو لے کر کہیں دور جنگل میں یا پہاڑ پر کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں کوئی چراگاہ اور پانی ملنے کا ذریعہ ہو، اور وہاں ان بکریوں کو چرا کر ان کے دودھ کی صورت میں بقدر حیات غذائی ضروریات پر قناعت کر کے اپنی زندگی کے دن گزارتا رہے، تاکہ نہ دنیا والوں کے ساتھ رہے اور نہ دین کو نقصان پہنچانے والے فتنہ میں مبتلا ہو۔

فتنوں کی پیش گوئی

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ کے ایک بلند مکان کی چھت پر چڑھے اور پھر صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ۔ کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ! آپ نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  اطم پہاڑ کی چوٹی قلعہ اور بلند مکان کو کہتے ہیں اور اٰطام اس کی جمع ہے یہاں اطام سے مراد مدینہ کے گرد واقع وہ فلک بوس مکانات اور قلعے ہیں جن میں وہاں کے یہودی رہا کرتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن انہی قلعوں میں سے ایک قعلہ کی چھت پر تشریف لے گئے اور پھر مذکورہ بالا حدیث ارشاد فرمائی۔

  میں ان فتنوں کو دیکھ رہا ہوں الخ  کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گویا اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس وقت جب کہ وہ قلعہ کی چھت پر چڑھے، فتنوں کا قریب ہونا دکھایا تاکہ وہ ان فتنوں کے بارے میں آگاہ کر دیں اور لوگ یہ جان کر کہ ان فتنوں کا نازل ہونا مقدر ہو چکا ہے ان سے بچنے کے طریقے اختیار کر لیں۔ اور اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے معجزات میں سے شمار کریں کہ آپ نے جو پیش گوئی فرمائی تھی وہ بالکل صحیح ثابت ہوئی۔

ایک خاص پیش گوئی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں امت سے مراد صحابہ کرام اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں جو امت کے سب سے بہتر و افضل افراد تھے۔ اور لفظ غلمۃ غلام کی جمع ہیں جس کے معنی نوجوان کے ہیں اور صراح میں لکھا ہے کہ غلام کے معنی لڑکے کے ہیں نیز واضح رہے کہ غلام کا لفظ اصل میں غلم اور اغتلام سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں شہوت کا جوش و غلبہ بہرحال یہاں غلمۃ (نوجوانوں) سے مراد وہ چھوٹی عمر کے نوجوان ہیں جو غیر سنجیدہ اور بیباک ہوتے ہیں بڑوں، بزرگوں کا ادب و احترام نہیں کرے اور ہل علم و دانش اور با وقار لوگوں کی عظمت کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد گرامی میں قریش کے جن نوجوانوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ان سے قریش سے نسلی تعلق رکھنے والے دین و ملت کے وہ بدخواہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے جاہ و سلطنت اور ذاتی اغراض حاصل کرنے کے لئے حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو شہید کیا اور ان کی ہلاکت کا باعث بنے یا جنہوں نے اس وقت ملت میں افتراق و انتشار اور ظلم و بغاوت کا فتنہ پیدا کیا نیز مجمع البحار میں لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں لوگوں کو تعین و تشخص کے ساتھ جانتے تھے لیکن اس حدیث کو بیان کرتے وقت، فتنہ و شر انگیز کے خوف سے ان لوگوں کے نام ظاہر نہیں فرماتے تھے اور وہ لوگ بنو امیہ کے عبداللہ بن زیاد اور ان جیسے دوسرے نوجوان، حجاج بن یوسف جو عبدالملک بن مراوان کا میرالامرا بنا سلیمان بن عبدالملک جیسے نوخیز اور ان کی اولاد میں سے دوسرے افراد تھے جنہوں نے اس حد تک فتنہ و فساد کا بازار گرم کیا کہ اہل بیت نبوی کو بے پناہ مظالم کا شکار بننا اور جام شہادت نوش کرنا پڑا بڑے اونچے درجہ کے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کو بڑی مظلومیت کے ساتھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسی ایسی خونریزیاں ہوئیں اور جان و مال کا اس قدر نقصان ہوا کہ زمین و آسمان کانپ گئے چنانچہ ان لوگوں کے وہ سیاہ کارنامے تاریخ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔

 

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے علم اٹھا لیا جائے گا، فتنے پھوٹ پڑیں گے بخل ڈالا جائے گا اور ہرج زیادہ ہو گا۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ ہرج کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قتل۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  زمانے ایک دوسرے کے قریب ہوں گے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ کہ اس وقت دنیا کا زمانہ اور آخرت کا زمانہ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں گے، اس صورت میں قیامت کا قریب ہونا مراد ہو گا یا اس جملہ سے مراد زمانہ والوں میں سے بعض کا بعض کے ساتھ برائی اور بدی کے تعلق سے قریب ہونا ہے۔ یعنی اس زمانہ میں جو برے اور بدکار لوگ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے قریب و نزدیک آ جائیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ خود زمانہ کے اجزا بدی و برائی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے قریب اور مشابہ ہوں گے یعنی ایک زمانہ برائی اور بدی کا ماحول لئے ہوئے آئے گا اور اس کے بعد پھر دوسرا زمانہ بھی اسی طرح آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں حکومتیں دیر پا نہیں ہوں گی اور مختلف انقلابات اور عوامل بہت مختصر مختصر عرصہ میں حکومتوں کو بدلتے رہیں گے۔ اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا کہ آخر میں جو زمانہ آئے گا اس میں لوگوں کی عمریں بہت چھوٹی چھوٹی ہوں گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جملہ دراصل گناہوں کے سبب زمانہ سے برکت کے ختم ہو جانے سے کنایہ ہو، یعنی آخر زمانہ میں جب کہ گناہوں کی کثرت ہو جائے اور لوگ دین شریعت کے تقاضوں اور خدا و آخرت کے خوف سے بے پرواہ ہو کر عیش و عشرت اور راحت و غفلت میں پڑ جائیں گے تو زمانہ سے برکت نکل جائے گی اور اس کے شب و روز کی گردش اتنی تیز اور دن رات کی مدت اتنی مختصر محسوس ہونے لگے گی کہ سالوں پہلے گزرا ہوا کوئی واقعہ کل کی بات معلوم ہو گا اور ہر وقت کی کمی کا شکوہ رنج نظر آئے گا۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں وقت اس طرح جلدی گزرے گا کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر اور ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر معلوم ہو گا۔

  علم اٹھا لیا جائے گا  کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں مخلص، با عمل اور حقیقی علم کے حامل اٹھا لئے جائیں گے اور اس طرح حقیقی علم مفقود ہو جائے گا نیز مختلف علمی فتنوں کا اندھیرا اس طرح پھیل جائے گا کہ علما سو کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہو گا اور ہر طرف ایسا محسوس ہو گا جیسے علم کا چراغ گل ہو گیا ہے اور جہالت و نادانی کی تاریکی طاری ہو گئی ہے۔

  بخل ڈالا جائے گا  مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگوں میں بخل کی خصلت نہایت پختہ ہو جائے گی اور یہ چیز یعنی بخل کی برائی ایک عام وبا کی طرح پھیل جائے گی، نیز لوگ اس بخل کے یہاں تک تابع ہو جائیں گے کہ صنعت و حرفت والے اپنی صنعتی اشیا کو بنانے اور پیدا کرنے میں بخل و تنگی کرنے لگیں گے اور مال کی تجارت و لین دین کرنے والے لوگ اپنے مال کو چھپا کر بیٹھ جائیں گے یہاں تک کہ ضروری اشیا کو بھی فراہم کرنے اور دینے سے انکار کرنے لگیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخل ڈالا جائے گا سے لوگوں میں اصل بخل کا پایا جانا مراد نہیں ہے کیونکہ اصل بخل تو انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اور اس اعتبار سے یہ بات پہلے زمانہ کے لوگوں کے بارے میں بھی نہیں کی جا سکتی کہ ان میں سرے سے بخل کا وجود نہیں تھا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا چونکہ اصل بخل انسان کی جبلت میں پڑا ہوا ہے اس لئے کوئی بھی شخص نہ پہلے زمانوں میں اس خصلت سے کلیۃ محفوظ رکھ سکتا ہے اور جیسا کہ اس آیت (وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) 64۔ التغابن:16) سے واضح ہوتا ہے ایسے پاک نفس انسان سے پہلے بھی گزرے ہیں اب بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے یہ اور بات ہے کہ زمانہ کے اثرات کی وجہ سے ایسے پاک نفسوں کی تعداد ہر آنے والے زمانہ میں پہلے سے کم ہوتی جائے۔

  ہرج کے معنی ہیں فتنہ اور خرابی میں پڑنا، اور جیسا کہ قاموس میں لکھا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہرج اناس تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں لوگ فتنے میں پڑ گئے اور قتل و اختلاط یعنی خونریزی اور کاموں کے خلط ملط ہو جانے کی وجہ سے اچھے برے کی تمیز نہ کر سکنے کی آفت میں مبتلا ہو گئے پس اس ارشاد گرامی  ہرج سے مراد خاص طور پر وہ قتل و خونریزی ہے جو مسلمانوں کے باہمی افتراق و انتشار کے فتنہ کی صورت میں اور اچھے برے کاموں کی تمیز مفقود ہونے کی وجہ سے پھیل جائے۔

فتنوں کی شدت کی انتہا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے پوری دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہو گی جب تک لوگوں پر ایسا دن یعنی بدامنی و انتشار فتنہ و فساد کی شدت انتہا سے بھرا ہوا وہ دور نہ آ جائے جس میں نہ قاتل کو یہ معلوم ہو گا کہ اس نے مقتول کو کیوں قتل کیا اور نہ مقتول یا اس کے ورثا متعلقین کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔ پوچھا گیا کہ یہ کیونکر ہو گا یعنی اس کی وجہ کیا ہو گی کہ قتل کا سبب نہ قاتل کو معلوم ہو گا نہ مقتول کو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  ہرج کے سبب، نیز قاتل و مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے۔ (مسلم)

 

تشریح

 مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کے دل و دماغ سے فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری کی برائی کا احساس اس طرح ختم ہو جائے گا کہ نہ تو قاتل بتا سکے گا کہ اس نے مقتول کا خون کس مقصد سے بہایا ہے اور نہ مقتول اور اس کے ورثا و متعلقین کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کی جان کس دنیاوی غرض و مقصد کے تحت یا کس شرعی وجہ کی بنا پر ماری گئی ہے ایسا اندھیرا پھیل جائے گا کہ بس شکوک و شبہات اور ذرا ذرا سے واہموں پر انسان کا قیمتی خون بے دریغ بہایا جانے لگے گا اس بات سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ کون شخص حق پر ہے اور کون باطل پر، بلا تشخیص وتمیز جو جس کو چاہے گا موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ موجودہ زمانے کے حالات دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ صورت حال کا ظہور نہیں ہو گیا ہے۔

  ہرج کے سبب سے  کا مطلب یہ ہے کہ اس اندھے قتل و غارت گری کا باعث جہالت و نادانی کی وہ تاریکی ہو گی جو پورے ماحول کو فتنہ و فساد اور بدامنی سے بھر دے گی، شرارت پسندوں اور بلوائیوں کا عروج ہو گا، اخلاقی سرکاری قوانین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی۔ اچھے برے کاموں کی تمیز مٹ جائے گی، حق و باطل باہم خلط ملط ہو جائیں گے او دل و دماغ سے انسانی خون کی حرمت کا احساس مٹ جائے گا۔

  دونوں دوزخ میں جائیں گے سے یہ واضح ہوا کہ نیت کا فتور اس قدر عام ہو جائے گا کہ بظاہر مقتول اور مظلوم نظر آنے والا شخص بھی اپنے اندر ظلم و طغیان کا فتنہ چھپائے رہا ہو گا۔ اس کا مقتول و مظلوم ہونا اس وجہ سے نہیں ہو گا کہ وہ واقعۃً کسی ظالمانہ قتل کا شکار ہوا ہے بلکہ اس اعتبار سے ہو گا کہ وہ موقع پر چوک گیا اور خود وار کرنے سے پہلے دوسرے کے وار کرنے کا شکار ہو گیا۔ چنانچہ مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل تو دوزخ میں اس لئے جائے گا کہ وہ واقعۃً قتل عمد کا گناہ گار ہوا ہے اور مقتول اس وجہ سے دوزخ میں جائے گا کہ وہ خود بھی اس قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اس کو تباہ  و ہلاک کرنے کی خواہش و ارادہ رکھتا تھا، اور چونکہ آدمی کسی گناہ کا عزم رکھنے کی وجہ سے بھی ماخوذ ہوتا ہے اس لئے اس کو بھی دوزخ کا مستوجب قرار دیا جائے گا لیکن واضح رہے کہ یہ حکم جہالت کے طاری ہونے اور حق و باطل کے درمیان تمیز مفقود ہونے کی صورت کا ہے۔ ہاں اگر اس مقتول کی مذکورہ نیت و ارادہ کا تعلق جہالت و نادانی اور عدم تمیز سے نہ ہو بلکہ اس بات سے ہو کہ وہ بسبب اشتباہ، خطا اجتہادی میں پڑ گیا ہو تو اس پر مذکورہ حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ وہ مقتول اپنے قاتل کے تئیں جو عداوت و نفرت رکھے ہوئے تھا اور اس کو قتل کے ساتھ مقتول بھی مستوجب عذاب ہو گا لیکن اگر وہ مقتول اس جہالت و نادانی کی بنا پر نہیں بلکہ وہ از روئے دین و دیانت اس شخص یعنی قاتل کو قتل کرنے کا عزم رکھتا تھا نیز اس عزم تک وہ دین و شریعت کے اپنے علم کی روشنی میں غور فکر کرنے کے بعد اور نیت کے اخلاص کے ساتھ پہنچا تھا اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے اس عزم تک اس کا پہنچنا غیر صحیح کیوں نہ ہو۔ اس کو محض اس عزم کی وجہ سے مستوجب عذاب قرار نہیں دیا جائے گا کیونکہ اجتہاد اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کی کوشش میں خطا کر جانے والا شخص عند اللہ ماخوذ قرار نہیں دیا جاتا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی اس مشہور اور صحیح مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی گناہ کی نیت کرے اور اس نیت پر قائم رہے تو وہ گنہگار ہی کے حکم میں ہو گا، اگرچہ وہ اپنے اعضا اور زبان سے عملی طور پر اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔

پر فتن ماحول میں دین پر قائم رہنے کی فضیلت

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ فتنے کے زمانہ میں اور مسلمانوں کے باہمی محاذ آرائی اور قتل و قتال کے وقت پوری استقامت اور مداومت کے ساتھ دین پر قائم رہنے اور عبادت و نیکی کرنے کا ثواب، میری طرف ہجرت کرنے کے ثواب کی مانند ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ زمانہ نبوی میں فتح مکہ سے پہلے دارالحرب سے ہجرت کر کے مدینہ آ جانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رفاقت و صحبت کا شرف رکھنے والے کو جو عظیم ثواب ملتا تھا اسی طرح کا عظیم ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جو فتنہ و فساد کی جہالت و تاریکی سے اپنے کو محفوظ رکھ کر اور مسلمانوں کی باہمی محاذ آرائی سے اپنا دامن بچا کر مولیٰ کی عبادت میں مشغول اور اپنے دین پر قائم رہے۔

مظالم پر صبر کرو اور یہ جانو کہ آنے والا زمانہ موجودہ دور سے بھی بدتر ہو گا

حضرت زبیر بن عدی تابعی کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حجاج بن یوسف کے مظالم اور ایذا رسانیوں کی شکایت کی انہوں نے فرمایا کہ صبر کرو اور ضبط و تحمل سے کام لو، کیوں کہ آئندہ جو بھی زمانہ آئے گا وہ گزشتہ زمانے سے بدتر ہو گا پس تمہیں کیا معلوم کہ آنے والے زمانے میں کیسے کیسے حکمران و اعمال ہوں گے جو شاید حجاج سے بھی زیادہ ظالم و جابر ثابت ہوں۔ اس لئے تم حجاج کے مظالم اور ایذا رسانیوں پر صبر کرو، یہاں تک تم روز آخرت اپنے پروردگار سے ملاقات کرو اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارا پروردگار تمہارے ظالموں کو کس طرح عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ بات میں نے تمہارے پیغمبر سے سنی ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر آنے والا زمانہ گزشتہ زمانہ سے بدتر ہو گا، تو اس پر اس صورت میں اشکال واقع ہو گا جب کہ آنے والا زمانہ سے مراد بلا استثنا ہر آنے والا زمانہ ہو، اور اشکال یہ واقع ہو گا کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ آیا، یا بعد میں حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی علیہما السلام کا زمانہ آئے گا تو کیا ان زمانوں پر بھی مذکورہ بات کا اطلاق ہو گا اور بلا استثنا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہر آنے والا زمانہ حجاج کے زمانہ سے بھی بدتر ہو گا، ہاں اگر یہ بات استثنا کے ساتھ فرمائی گئی ہے تو پھر اشکال پیدا ہو گا، چنانچہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ آنے والے زمانوں کے بدتر ہونے کی خبر دینا اکثر و اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی آنے والے زمانوں میں اکثر و غالب زمانے ایسے ہی ہوں گے جو پچھلے زمانہ سے بدتر ماحول سے بھرے ہوئے ہوں گے، نیز آنے والے زمانہ سے مراد حجاج کے زمانہ سے زمانہ دجال تک کے زمانے ہیں، جن میں سے حضرت عیسیٰ اور حضرت مہدی کے زمانے مستثنیٰ ہیں، علاوہ ازیں اس حدیث کا اصل مقصود امت کے لوگوں کو تسلی دینا، ظلم و جور پر صبر کرنے کی تلقین کرنا، آنے والے زمانوں کے بارے میں باخبر کرنا، اور اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ اپنے زمانہ کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ اخروی فائدے حاصل کرنے میں مشغول رہو، کیا خبر کہ آنے والے زمانوں میں کسی کو اتنا بھی موقع مل سکے یا نہیں۔

 بعض حضرات نے اس وضاحت کو زیادہ مناسب کہا ہے کہ آنے والے زمانوں کے بارے میں جہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تو مستثنیٰ ہے باقی تمام زمانے، کسی نہ کسی اعتبار سے، کسی نہ کسی جگہ کے حالات کے مطابق اور کسی نہ کسی معاملہ میں از روئے علم و عمل اور استقامت و اخلاص دین پہلے زمانے سے بتر ہی حالت کے حامل رہے ہیں یا حامل رہیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک سے بعد و دوری کا تقاضا بھی ہے کہ زمانہ جوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک سے دور ہوتا جاتا ہے اسی اعتبار سے بدی اور خرابی بڑھتی جاتی ہے، اور اس کا سلسلہ ذات رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا چنانچہ صحابہ تک نے اپنی صفائی باطن اور پاکیزگی نفس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تدفین کے بعد اپنے قلوب کی حالت و کیفیت میں تبدیلی محسوس کی تھی، پہلے کے بعض بزرگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ پہلے کسی وقت دل میں گناہ کا خیال پیدا ہو گیا اور پھر وہ خیال جاتا رہا تو کہیں کافی مدت کے بعد جب وہی خیال پھر دوبارہ آیا تو اب آسانی کے ساتھ دفعہ ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ بہت غور کرنے بعد اس فرق کی وجہ اس کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ ظلمت، زمانہ نبوت کے نور سے اور زیادہ بعد زمانہ ہو جانے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کیونکہ زمانہ نبوت کو گزرے جتنا زیادہ عرصہ ہوتا جاتا ہے برائی کی ظلمت اسی اعتبار سے زیادہ ہوتی جاتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیامت تک پیدا ہونے والے اس امت کے فتنہ پردازوں کے بارے میں خبر دے دی تھی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میرے یہ رفقا یعنی صحابہ کرام بھول گئے ہیں یا وہ بھولے تو نہیں ہیں مگر اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بھول گئے ہیں، خدا کی قسم، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی بھی ایسے فتنہ پردازوں کو ذکر کرنے سے نہیں چھوڑا تھا جو دنیا کے ختم ہونے تک پیدا ہونے والا اور جس کے تابعداروں کی تعداد تین سو تک یا تین سو سے زائد تک کی ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر فتنہ پرداز کا ذکر کرتے وقت ہمیں اس کا اور اس کے باپ کا اور اس کے قبیلے تک کا نام بتایا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  فتنہ پرداز سے وہ شخص مراد ہے جو فتنہ و فساد اور تباہی و خرابی کا باعث ہو، جیسے وہ عالم جو دین میں بدعت پیدا کرے دین کے نام پر مسلمانوں کو آپس میں لڑائے، امت میں افتراق و انتشار پیدا کر کے اسلام کی شوکت کو مجروح کرے اور جیسے وہ ظالم بادشاہ و امیر جو مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال کا باعث ہو۔

  تین سو کے عدد کی قید بظاہر اس لئے لگائی گئی ہے کہ کم سے کم اتنی تعداد میں آدمیوں کا کسی فتنہ پرداز کے گرد جمع ہو جانا اس فتنہ پرداز کی فتنہ پردازیوں کو پھیلانے، فتنہ و فساد کی کاروائیوں کو اثر انداز ہو جانے اور دین و ملت کو نقصان پہنچ جانے کے لئے عام طور پر کافی ہو جاتا ہے، اگر کسی فتنہ پرداز کے تابعداروں کی تعداد اس سے کم ہوتی ہے تو گوہ انفرادی اور جزوی طور پر فتنہ پردازی میں کامیاب ہو جائے مگر اجتماعی طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔

گمراہ کرنے والے قائد

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی امت کے حق میں جن لوگوں سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام ہیں۔ یاد رکھو جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو پھر قیامت تک نہیں رکے گی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  ائمہ  اصل میں امام کی جمع ہے اور امام قوم و جماعت کے سردار، پیشوا اور اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو اپنے قول یا فعل یا عقیدے کی اتباع کی طرف بلائے، پس اس ارشاد کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی حیثیت نیز ان کے دین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اور تباہی کی طرف لے جانے والی جو چیز ہے وہ مسلمانوں کی قیادت و رہبری اور پیشوائی کرنے والے لوگوں کا گمراہ ہونا ہے کیونکہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی شخص کے گمراہ ہونے کا نقصان اسی کی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن قائد و پیشوا کی گمراہی کا نقصان و ضرر پوری قوم و جماعت کو متاثر کرتا ہے۔

  جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک دوسرے کے خلاف تلوار و طاقت آزمائی کی سیاست کی ابتدا ہو جائے گی اور باہمی مسائل و معاملات کو افہام تفہیم اور دین و دیانت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے تشدد و خونریزی کے راستے کو اختیار کر لیا جائے گا تو پھر طاقت آزمائی اور تشدد و خونریزی کا وہ فتنہ قیامت تک ٹھنڈا نہیں ہو گا اور مسلمان کہیں نہ کہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے امت میں خونریزی کی اتبدا ہو جانے کے جس خوف کی طرف اشارہ فرمایا تھا اس کا مصداق امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔چنانچہ اسلام میں سے پہلے مسلمان نے مسلمان کے خلاف جو تلوار اٹھائی اور خون بہایا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے۔ اور پھر ان کے سانحہ شہادت کے بعد مسلمانوں میں باہمی خونریزی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج تک باقی ہے جیسا کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

خلافت راشدہ کی مدت کے بارے میں پیش گوئی

حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ خلافت کا زمانہ تیس سال کا ہو گا۔ اس کے بعد وہ خلافت بادشاہت میں بدل جائے گی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد راوی سے یا عام لوگوں کو خطاب کر کے کہا کہ حساب کر کے دیکھو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو تیس سال کی مدت بیان فرمائی ہے وہ اس طرح ہوتی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال۔، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال، حضرت عثمان کی خلافت کا زمانہ بارہ سال اور حضرت علی کی خلافت کا زمانہ چھ سال(رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ)۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد)

 

تشریح

 

  خلافت سے مراد خلافت حق ہے یا وہ خلافت مراد ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ اور جس کی بنیاد قرآن و سنت کی ہدایت اور رہنمائی اور دین و شریعت کے آئین حکمرانی کی اتباع پر ہو، چنانہ اس خلافت کا صحیح مصداق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اول کی خلافت ہے جس کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے اور جس کی مدت تیس سال ہوئی ہے۔

 حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے اپنی شرح مشکوٰۃ میں اس روایت کو نقل کرتے ہوئے ملکا کے بعد عضوضا کا لفظ بھی نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ خلافت کٹ کھنی بادشاہت میں بدل جائے گی، یعنی خلافت کا دور ختم ہو جانے کے بعد بادشاہت کا دور شروع ہو جائے گا اور بادشاہت بھی ایسی کہ لوگ اس کی سختیوں اور ظالمانہ کارروائیوں سے امن نہیں پائیں گے اور عدل و انصاف کا نظام اور دین پروری کا ماحول جیسا کہ ہونا چاہئے، جاری نہیں ہو گا، یہ اور بات ہے کہ اس دور کے حکمران گزرے ہوئے خلفا کی جانشینی کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اور مجازاً اس بادشاہت پر خلافت ہی کا اطلاق کریں اور اپنے کو خلیفہ کہلائیں اور گو ان کو امیرالمومنین کہنا کوئی خلاف حقیقت بات بھی نہ ہو کیونکہ نظم مملکت اور ظاہری قانون کے مطابق وہ مسلمانوں کے امیر و حاکم بہرحال ہوں گے لیکن حقیقی خلافت کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بس تیس سال تک رہے گی، چنانہ خلفا راشدین کہ جن کا دور خلافت حقیقی خلافت کا واقعی مصداق تھا، تیس ہی سال پر مشتمل ہے۔

 شرح عقائد میں اس حدیث کے تعلق سے ایک اشکال وارد کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خلافت کا دور صرف تیس سال فرمایا ہے جب کہ خلفا راشدین کے بعد کے زمانے میں خلفا عباسیہ بلکہ بنو امیہ میں سے بعض خلفا جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خلافت پر مسلمانوں کے تقریباً تمام ہی علما اور اہل عمل و عقد کا اتفاق رہا ہے تو کیا ان کے دور خلافت کو خلافت نہیں کہا جا سکتا اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس خلافت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ خلافت کاملہ کہ جس میں دین و شریعت اور عدل و انصاف کی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو، تیس سال رہے گی، اس کے بعد کی خلافت کی شکل و صورت میں تبدیلی آئے گی، ہاں کچھ دور ایسے بھی آئیں گے جس میں اس خلافت کے طرز کو اختیار کیا جائے گا ورنہ عام طور پر جو بھی خلافت قائم ہو گی وہ بس نام ہی کی خلافت ہو گی، اصل کے اعتبار سے بادشاہت ہو گی، واضح رہے کہ خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کا دور حکمرانی شروع ہوا جس کو انہوں نے اگرچہ خلافت ہی کا نام دیا مگر حقیقت میں وہ بادشاہت تھی، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس دور کے سب سے پہلے حکمران ہیں ان کا دور حکمرانی اگرچہ خلافت راشدہ کی طرح دین و ملت کے حق میں حقیقی خلافت کا نمونہ نہیں رہا مگر ان کی خلافت و حکومت میں بادشاہت کی وہ تمام خرابیاں بھی نہیں تھیں جو ان کے جانشینوں کے دور حکومت میں پیدا ہوئی نیز انہوں نے اپنے دور حکمرانی کو کسی نہ کسی حد تک خلافت راشدہ کے نہج پر رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے بعد بنو امیہ کا اکثر دور حکمرانی مسلمانوں کی باہمی آویزش و خلفشار قتل و غارت گری، دین و شریعت کی صریح خلاف ورزی اور ظلم و ناانصافی کی بہت زیادہ مثالوں سے بھرا ہوا تھا، اس دور کی ابتدا یزید بن معاویہ کے دور سے ہوتی ہے، یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ بن یزید حکمران ہوا، اس کے بعد ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، حضرت عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید بن عبدالملک، ابراہیم بن ولید بن عبدالملک، اور مروان بن محمد بن مروان بالترتیب یکے بعد دیگرے خلیفہ و حکمران ہوتے رہے مروان بن محمد بن مروان، بنو امیہ میں سے آخری حکمران تھا، اس کے بعد خلافت بنو امیہ سے نکل کر بنو عباس میں پہنچ گئی۔

 حدیث کے راوی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے تیس سال کا جو حساب بیان کیا ہے وہ تخمینا ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ انہوں نے کسور کو بیان نہیں کیا، چنانچہ صحیح روایات اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال چار ماہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال چھ ماہ، حضرت عثمان غنی کی خلافت کا زمانہ چند روز کم بارہ سال اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ چار سال نو ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفا کی مجموع مدت خلافت انتیس سال سات ماہ ہوتی ہے اور پانچ مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے، پس حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بھی خلفا راشدین میں سے ہوئے (رضی اللہ عنہم)

آنے والے زمانوں کے بارے میں پیشگوئی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا اس خیر کے بعد شر پیدا ہو گا جیسا کہ اب سے پہلے شر کا دور دورہ تھا (یعنی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پہلے کفر و شرک اور برائیوں کا اندھیرا پھیلا ہوا تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور نبوت نے بدی و برائی کی تاریکی کو ختم کر کے نیکی اور بھلائی کا اجالا پھیلایا، اسی طرح کیا خیر و بھلائی کے اس زمانے کے بعد شر و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں (اس کے بعد پھر بدی و برائی کا زمانہ بھی آئے گا) میں نے عرض کیا کہ پھر اس وقت بچنے کی کیا سبیل ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔تلوار (یعنی اس فتنہ سے حفاظت، تلوار آزمائی کے ذریعے حاصل ہو گی یا یہ مراد ہے کہ اس فتنہ سے بچنے کا راستہ یہی ہو گا کہ تم اس فتنہ کو پیدا کرنے والے لوگوں کو سر تلوار سے اڑا دو) میں نے عرض کیا کہ پھر اس تلوار کے بعد اہل اسلام باقی رہیں (یعنی جب مسلمان بدی اور برائی کی طاقتوں کو ختم کرنے کے لئے تلوار اٹھائیں گے اور قتل و قتال کریں گے تو کیا اس کے بعد اس زمانے کے مسلمانوں میں اتنی طاقت و اجتماعیت باقی رہ جائے گی کہ وہ امانت و دیانت کے ساتھ اپنی سرداری و حاکمیت قائم کر لیں اور لوگ اس کی قیادت و امارت پر اتفاق کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں! امارت یعنی حکومت و سلطنت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہو گی اور صلح کی بنیاد کدورت پر ہو گی۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے۔ اگر اس وقت زمین پر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ ہو تو خواہ وہ تیری پیٹھ پر مارے ہی کیوں نہ اور تیرا مال کیوں نہ لے لے (یعنی وہ امیر بادشاہ اگرچہ تمہیں ناحق ستائے تم پر ظلم و ستم ڈھائے اور تمہارا مال و اسباب چھین لے لیکن تم اس کی اطاعت سے منہ نہ پھیرنا تاوقتیکہ وہ تمہیں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف کوئی کام کرنے کو نہ کہے اور حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دین و ملت میں افتراق و انتشار اور مملکت میں بدامنی و فساد پیدا نہ ہو۔ اور اگر کوئی خلیفہ یعنی امیر و بادشاہ نہ ہو تو تمہاری موت ایسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کے بعد دنیا اور زیادہ فتنہ و انتشار اور برائیوں کی طرف بڑھتی رہے گی اور مسلمان بتدریج دینی و ملی طور پر اور دنیاوی اعتبار سے بھی زوال پذیر ہوتے رہیں گے، یہاں تک کہ حضرت مہدی کے زمانہ میں دجال کا ظہور ہو گا جس کے ساتھ پانی کی نہر ہو گی اور آگ کی خندق پس جو شخص اس کی نہر میں پڑے گا اس کا گناہ اس کے لئے بار دوش بنے گا اور اس کا اجر جو اس نے اچھے عمل کر کے حاصل کئے ہوں گے جاتا رہے گا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ پھر اس کے بعد کیا ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ گھوڑے کا بچہ جنوایا جائے گا اور وہ سواری نہیں دینے پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔

 اور ایک روایت میں (امارت تو قائم ہو جائے گی لیکن اس کی بنیاد فساد پر ہو گی الخ) کے بجائے یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کدورت پر صلح ہو گی یعنی اس وقت لوگ ظاہر میں تو صلح صفائی کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ان کے باطن میں کدورت ہو گی۔ اور وہ کسی معاہدہ و فیصلہ پر دلوں کی ناخوشی اور بخشش کے ساتھ متفق و مجتمع ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دل اس حالت پر نہیں ہوں گے جس پر پہلے تھے (یعنی جس طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں لوگوں کے دل بغض وکینہ سے صاف رہا کرتے تھے، وہ جو بات کہا کرتے یا جو معاملہ کرتے تھے اس میں صدق دلی شامل ہوتی تھی۔ اس طرح کے پاک وصاف دل اس وقت لوگوں کے نہیں ہوں گے کہ زبان سے کچھ کہیں گے معاملہ کچھ کریں گے اور دل میں کچھ اور رکھیں گے۔ یا یہ مراد ہے کہ لوگوں میں باہمی صلح و صفائی ہو جانے کے باوجود، ان کے دل اس طرح پاک وصاف نہیں ہوں گے جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد میں مبتلا ہونے اور کدورت پیدا ہونے سے پہلے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا اس بھلائی کے بعد کہ جو آپس کے نفاق کدورت کے بعد مذکورہ باہمی مصالحت و مفاہمت کی صورت میں ظاہر ہو گی اور جو اگرچہ برائی کی آمیزش سے پوری طرح صاف نہیں ہو گی کسی اور برائی کا ظہور ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں، اس کے بعد پھر برائی کا ظہور ہو گا اور وہ ایک ایسے بڑے فتنہ کی صورت میں ہو گا جو اندھا اور بہرا ہو گا (یعنی وہ فتنہ لوگوں کی عقل و خرد اور نیکی و بد کی قوت تمیز پر اس طرح اثر انداز ہو جائے کہ وہ حق اور سچائی کو نہ دیکھیں گے اور نہ سنیں گے۔ گویا فتنہ کی طرف اندھے پن اور بہرے پن کی نسبت مجازاً ہے اصل مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ لوگ اس فتنہ میں مبتلا ہو کر بدی اور برائی کی انتہائی حدوں تک پہنچ جائیں گے، اور اس کا نتیجہ، جیسا کہ آگے فرمایا جا رہا ہے، یہ ہو گا کہ اس فتنہ کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے یعنی لوگ محض اس فتنہ میں مبتلا ہی نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسی جماعت بھی پیدا ہو جائے گی جو اس فتنہ کو ہوا دے گی اور دوسروں کے اس فتنہ میں مبتلا ہونے کا باعث بنے گی اور اس جماعت کے لوگوں کا یہ عمل ایسا ظاہر کرے گا جیسے کہ وہ دوزخ پر کھڑے ہو کر مخلوق کو اس دوزخ کی طرف بلا رہے ہیں چنانچہ بلانے والے اور ان کے بلاوے کو قبول کرنے والے سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ پس اے حذیفہ اس وقت تمہاری موت اگر اس حالت میں آئے کہ تم کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ تم اہل فتنہ میں سے کسی کی اتباع و پیروی کرو۔

 

تشریح

 

 قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس فتنہ سے بچاؤ کا ذریعہ تلوار کو قرار دیا تھا اس کا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلاف میں اسلام سے پھر گئے تھے اور اپنے ارتداد و بغاوت کے ذریعہ ایک بڑے فتنہ کا باعث بننے والے تھے لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت تدبر و ہوشیاری کے ساتھ ان کی سرکوبی کی اور طاقت کے ذریعے ان کو دبایا۔

  اقذا اصل میں قذی کی جمع ہے اور قذاۃ کا معنی اس کیچڑ اور تنکے کے ہیں جو آنکھ میں یا پانی و شربت وغیرہ میں پڑ جائے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس وقت امارت و حکومت تو قائم ہو جائے گی اور مسلمانوں کا امیر و خلیفہ بھی ہو گا لیکن لوگ اخلاص و حسن نیت کے ساتھ اپنی اس امارت و حکومت کے تئیں وفاداری نہ رکھیں گے بلکہ ان کے دلوں میں بغض و عداوت، عدم وفاداری اور مخالفت و مخاصمت کے جذبات ہوں گے، جیسا کہ اگر کسی کی آنکھ میں کوئی ریزہ یا تنکا پڑ جائے تو گو وہ باہر سے اچھی بچھی معلوم ہوتی ہو مگر اس کے اندر سخت سوزش اور دکھن ہوتی ہے اسی طرح وہ لوگ گو ظاہر میں اپنی امارت و حکومت کے وفادار و بہی خواہ نظر آئیں گے مگر ان کے اندر غیر وفاداری اور مخالفت و عداوت بھری ہو گی، اور قاضی نے اس کے دوسرے معنی بیان کئے ہیں اور وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی حکومت و امارت تو قائم ہو گی لیکن وہ امارت و حکومت، بعض بدعتوں اور دین مخالف کاروائیوں کے ذریعے اپنی حیثیت کو بگاڑے رکھے گی۔

  ہدنۃ مصالحت کے مفہوم میں ہے اور اصل میں اس کے معنی سکون و آرام اور فراغت کے ہیں اور دخن دخان کے مفہوم میں ہے جس کے معنی ہیں  دھواں اس جملے  ہدنۃ علی دخن (صلح کی بنیاد کدور پر ہو گی) کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اس وقت باہم مخاصمت و مخالفت رکھنے والے فریقوں کے درمیان جو مصالحت ہو گی وہ فریب و نفاق اور بد نیتی کے ساتھ ہو گی کہ اس اعتبار سے یہ جملہ ما قبل کے جملہ کو مؤکدہ کرنے کے لئے ہے۔ اور شارحین حدیث نے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کا مصداق وہ مصالحت و مفاہمت ہے جو حضرت امام حسن اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے سپرد کر دی تھی اور انہوں نے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی امرت و سیادت کو مستحکم کر لیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض حضرات خصوصاً مورخین نے جو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امیر معاویہ، حضرت امام حسن سے صلح و صفائی کر لینے کے بعد خلیفہ ہوئے تھے۔ اس معنی میں صحیح نہیں ہے کہ امام حسن واقعۃً حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اپنے سے زیادہ مستحق و اہل جانتے تھے اس لئے انہوں نے صلح کر کے ان کے حق میں خلاف سے دستبرداری دے دی تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی عناصر نے حضرت امام حسن کے خلاف جس طرح کا ماحول بنا دیا تھا اور ان دونوں عظیم المرتبت شخصیتوں کی باہمی آویزش کی وجہ سے دین و ملت کو جو نقصان پہنچنے والا تھا، حضرت امام موصوف نے اس سے بچنے کے لئے بادل نخواستہ مصالحت کی اور اپنی خلافت و حکومت کو دین و ملت کے وسیع تر مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے اس سے دستبرداری ہی کو بہتر سمجھا۔

  گمراہی کی طرف بلانے والے لوگ پیدا ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے امرا اور ارباب حکومت میں سے ایسے لوگوں کی جماعت پیدا ہو گی جو لوگوں کو بدعت و گناہ کی طرف مائل کرے گی اور برائی کے راستے پر لگائے گی۔

  کسی درخت کی جڑ میں پناہ پکڑے ہوئے ہو  کے ذریعے اس امر کی تلقین کرنا مقصود ہے کہ اپنے نازک حالات اور اس طرح کے سخت دین مخالف ماحول میں تمہیں چاہئے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے کہیں گوشہ نشین ہو جاؤ اور اپنے آپ کو فتنہ و فساد سے بچا کر اپنی باقی زندگی کو کسی ایسی جگہ گزار دو جہاں تک اس فتنہ کے برے اثرات تم تک نہ پہنچ سکیں یہاں تک کہ اگر تمہیں ان نازک حالات اور اس پر فتن ماحول سے دور رہنے کے لئے کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے اور وہاں اتنی سخت اور صبر آزما زندگی گزارنی پڑے کہ گھاس پھوس اور لکڑی چبانے تک کی نوبت آ جائے تو اس سے بھی دریغ نہ کرو۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ والا فمت کا تعلق واطعہ سے ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس امیر و بادشاہ کی طرف سے تمہارے حق میں کتنے ہی سخت حالات پیدا کر دئیے جائیں تم اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے منہ نہ پھیرنا، کیونکہ اگر تم اس امیر و بادشاہ کی اطاعت نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اور زیادہ شدید حالات میں اور کہیں زیادہ سخت اذیت کے ساتھ مرنا پڑے گا۔ نیز بعض نسخوں میں فمت کی بجائے قمت کا لفظ ہے جو لفظ قیام سے ماضی کا صیغہ ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اگر ایسا نہ ہو یعنی تم اس امیر و بادشاہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے معذور ہو تو پھر نکل کھڑے ہو اور کہیں دور جنگل میں جا کر کسی درخت کی جڑ میں پناہ لے لو۔ (یعنی اس امیر و بادشاہ کے زیر حکومت علاقہ سے نکل جاؤ اور کہیں دوسری جگہ جا کر پناہ گزیں ہو جاؤ۔

  جس کے ساتھ پانی کی نہر ہو گی اور آگ کی خندق  کے بارے میں بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حقیقی نہیں بلکہ محض خیالی ہوں گی اور ان کا تعلق سحر و طلسم سے ہو گا یعنی بظاہر نظر تو ایسا آئے گا کہ وہ دجال اپنے ساتھ پانی کی نہر اور آگ کی خندق لئے پھر رہا ہے لیکن حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہو گی، جیسا کہ شعبدہ باز نظر بندی کر کے کچھ کا کچھ دکھا دیتے ہیں، چنانچہ آگے کی عبارت فمن وقع فی فارۃ میں دجال کی طرف آگ کی نسبت سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں محض جادوئی اور طلسماتی ہوں گی۔ اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس کے ساتھ پانی کی جو نہر ہو گی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے آگ ہو گی اور آگ کی خندق ہو گی وہ نتیجہ و حقیقت کے اعتبار سے پانی ثابت ہو گا۔ اور حضرت شیخ عبدالحق نے اس جملے کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات تو یہی ہے کہ یہ عبارت حقیقی معنی پر محمول ہے، یعنی اس کے ساتھ واقعۃً پانی کی نہر اور آگ کی خندق ہو گی، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ ان چیزوں سے مراد لطف وقہر اور وعدہ وعید ہو، یعنی پانی کی نہر سے مراد تو یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے متعلقین کے لئے زبردست ترغیبات و لالچ اور آسائش و راحت کے سامان ہوں گے اور آگ کی خندق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین و منکرین کے لئے ڈرانے، دھمکانے اور مصیبت و اذیت میں مبتلا کرنے کے ذرائع رکھے گا، پس جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ دجال کی موافقت و تابعداری نہیں کرے گا وہ اس کو آگ میں ڈالے گا اور طرح طرح کی سختیوں اور آلام میں مبتلا کرے گا) اور جو شخص اس کی آگ میں پڑے گا وہ خدا کے دین پر ثابت قدم رہنے اور خدا کی رضا کی خاطر ہر مصیبت پر صبر کرنے کی وجہ سے بڑے بڑے اجر پائے گا اور اس نے پہلے جو گناہ کئے ہوں گے وہ دھل جائیں گے، اسی طرح جو شخص دجال کی موافقت و تابعداری کرے گا اس کو وہ اپنی میں ڈالے گا (یعنی اس کو طرح طرح کی آسائش اور راحت زیادہ سے زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گا، چنانچہ جو شخص اس کے پانی میں جائے گاوہ دنیاوی آسائش وراحت اور یہاں کی زندگانی کی محبت کے سبب اس پر ایمان لانے، اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی وجہ سخت وبال مول لے لے گا اور اس نے پہلے جو اچھے کام کئے ہوں گے ان سب کا اجر ضائع ہو جائے گا۔

  ثم ینتج المہر الخ میں لفظ ینتج انتج کا صیغہ مجہول ہے نہ کہ یہ انتاج سے ہے اور نتج کے معنی ہیں حاملہ کی خبر گیری کرنا یہاں تک کہ وہ جنے۔ جب کہ انتاج کے معنی ہیں ولادت کا وقت آ جانا۔ پس علما نے لکھا ہے کہ یہاں نتج اصل میں تولید کے معنی استعمال ہوا ہے یعنی لوگ اپنی گھوڑیوں کے ہاں بچہ ہونے کی تدابیر اختیار کریں گے اور بچہ جننے کے وقت گھوڑیوں کی دیکھ بھال اور خدمت کریں گے جیسا کہ دایہ کسی عورت کے ہاں ولادت کے وقت خدمت انجام دیتی ہے اور  مہر کے معنی بچھڑنے کے ہیں اور اگر یہ لفظ  ۃ کے ساتھ یعنی  مہرۃ ہو تو اس کے معنی بچھڑی کے ہوتے ہیں۔ نیز  یرکب کے معنی ہیں سواری دینے کی عمر کو پہنچ جانا یا سواری کے قابل ہو جانا۔ بہرحال جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی گھوڑیوں سے بچے جنوانے کی تدابیر کریں گے تاکہ ان کو سواری کے کام میں لا سکیں لیکن جب ان کی گھوڑیاں بچے جنیں گی تو وہ بچے ابھی سواری کے قابل بھی نہیں ہونے پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی، تو اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کی طرف اشارہ کرنا ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے قیامت کے دن تک گھوڑوں کی سواری کا موقع ہی نہیں آئے گا اور یہ اس وجہ سے ہو گا کہ اس زمانے میں کفار کا وجود ہی نہیں ہو گا کہ جن سے جنگ کرنے کے لئے گھوڑوں کی سواری کی ضرورت پیش آئے لیکن یہ مراد لینا اور مذکورہ تاویل کرنا اس زمانے تو صحیح تھا جب کہ گھوڑوں کی سوار صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تھی اور گھوڑے کا اصل مصرف کفار کے مقابلے پر لڑنے کے لئے ان کو استعمال کرنا سمجھا جاتا تھا، ظاہر ہے کہ موجودہ حالت میں یہ بات کچھ زیادہ وزن دار معلوم نہیں ہوتی۔ یا اس جملے کے ذریعے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ دجال کے ظاہر ہو جانے کے بعد سے قیامت آنے تک کا زمانہ طویل نہیں ہو گا، بہت مختصر ہو گا، گویا اس وقت سے قیامت آنے تک میں بس اتنا عرصہ رہ جائے گا ایک بچھڑے کے پیدا ہونے کے وقت سے اس سواری کے قابل ہونے تک کے درمیان لگتا ہے۔ یہ وضاحت نہ صرف یہ کہ زیادہ صاف اور قرین قیاس ہے بلکہ ان احادیث کے مفہوم کے مطابق بھی ہے جو اس سلسلے میں منقول ہیں۔

خلافت راشدہ کے بعد پیش آنے والے روح فرسا واقعات کے بارے میں پیشگوئی

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن کسی سفر کے موقع پر میں گدھے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے سوار تھا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا، گویا یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اور رفقا کے ساتھ کس قدر تواضع و محبت اور حسن و سلوک کا رویہ اختیار فرماتے تھے، نیز اس سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی اس خصوصیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کس قدر قریب کا مقام حاصل تھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمودات کو نہایت توجہ و ہوشیاری کے ساتھ سنتے اور اچھی طرح یاد رکھتے تھے، بہرحال، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ) جب ہم مدینہ کے گھروں سے یعنی آبادی سے باہر نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابو ذر رضی اللہ عنہ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب مدینہ میں بھوک کا دور دورہ ہو گا (یعنی خاص طور پر تمہیں اس قدر اسباب معیشت حاصل نہیں ہو سکیں گے کہ تم اپنا پیٹ بھی بھر سکو، یا یہ کہ اس وقت مدینہ میں قحط پھیل جائے گا اور تم لوگوں کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملے گا یہاں تک کہ تم اپنے بستر سے اٹھ کر اپنی مسجد تک پہنچنے میں بھی مشکل محسوس کرو گے اور بھوک کی شدت تمہیں سخت پریشانی اور اذیت میں مبتلا کر دے گی (یعنی بھوک کی وجہ سے تم پر اس قدر ضعف غالب ہو جائے گا کہ تم اپنے گھر سے نکل کر نماز پڑھنے کے لئے مسجد تک جانے میں بھی سخت مشکل اور دقت محسوس کرو گے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہتر جانتے ہیں (یعنی میں نہیں بتا سکتا کہ اس وقت کیا کروں گا، ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابو ذر! پارسائی اختیار کرنا، یعنی اس بھوک پر صبر کرنا ضبط و تحمل کے ساتھ اس سخت حالت کا مقابلہ کرنا، اپنے آپ کو حرام و مشتبہ مال سے محفوظ رکھنا، طمع و لالچ رکھنے اور کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور مخلوق کے سامنے ذلت و رسوائی اختیار کرنے سے اجتناب کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابو ذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب قحط یا کسی وبا کے پھیل جانے کی وجہ سے مدینہ میں موت کی گرم بازاری ہو گی اور مکان (یعنی قبر) کی قیمت غلام تک پہنچ جائے گی (یعنی کثرت اموات سے یہ حال ہو گا کہ لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے کے لئے قبر کی جگہ ملنی مشکل ہو جائے گی اور ایک قبر کی جگہ، غلام کی قیمت کے برابر پہنچ جائے گی۔ چنانچہ اگلے جملے کے ذریعے اسی بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں فرمایا کہ یہاں تک کہ قبر کی جگہ، غلام کی قیمت کے برابر فروخت ہو گی۔) حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ ہی ہدایت فرمائیے کہ اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابو ذر ! صبر کا دامن ہرگز نہ چھوڑنا، اور پھر فرمایا ابو ذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب مدینہ میں قتل عام ہو گا اور اس کا خون احجار الزیت کو ڈھانک لے گا؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی فرمائیے کہ مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کے پاس چلے جانا، جس سے تم تعلق رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ، تو کیا میں اس وقت ہتھیار باندھ لوں اور فتنہ پھیلانے والی جماعت کے خلاف برسر پیکار ہو جاؤں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس طرح تو تم بھی جماعت کے شریک کار ہو جاؤ گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! پھر مجھے اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ تلوار کی چمک تم پر غالب آ جائے گی (یعنی تم یہ دیکھو کہ کوئی شخص تمہیں مار ڈالنے کے لئے اپنی تلوار سے تم پر وار کرنا چاہتا ہے) تو اس وقت تم اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا۔ تاکہ وہ تمہارا گناہ (یعنی تمہارے قتل کا گناہ) اور اپنا گناہ لے کر واپس ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  تصبر بات تفعل سے امر کا صیغہ ہے اور ایک نسخہ میں یہ لفظ مضارع کا صیغہ منقول ہے جو امر کے معنی ہیں اس جملے کا حاصل یہ ہے کہ تم اس آفت و بلا پر صبر کرنا جزع و فزع سے اجتناب کرنا، تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہنا۔ اور مدینہ سے بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔

  احجار الزیت نواح مدینہ میں بجانب غرب ایک جگہ کا نام تھا، وہاں کی زمین نہایت پتھریلی تھی اور وہ پتھر بھی اس قدر سیاہ اور چمکدار تھے کہ جیسے کسی نے ان پر زیتون کا تیل مل دیا ہو، اسی مناسبت سے اس جگہ کو احجار الزیت کہا جاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد گرامی  ابو ذر! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب مدینہ میں قتل عام ہو گا الخ کے ذریعے بطور پیشگوئی اس خونچکاں واقعہ کی طرف اشارہ کیا جو مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں مدینہ منورہ پیش آیا اور واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہوا، مستند کتابوں میں اس واقعہ کی جو تفصیل مذکور ہے وہ اتنی لرزہ خیز، اتنی دردناک اور اتنی بھیانک ہے کہ نہ تو اس کو بیان کرنے کا زبان و قلم کو یارا ہے اور نہ کوئی آسانی کے ساتھ اس کو پڑھنے اور سننے کی تاب لا سکتا ہے۔ تاہم اجمالی طور پر اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ جب بدبخت یزید ابن معاویہ کی فوج نے میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تو پورے عالم اسلام میں زبردست تہلکہ مچ گیا اور یزید کے خلاف عام مسلمانوں میں ناہیت نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے ادھر اس کی بدکاریوں، بے اعتدالیوں اور بدمست زندگی کے واقعات نے اس کی طرف لوگوں کو پہلے ہی بد ظن کر رکھا تھا چنانچہ اہل مدینہ نے متفقہ طور پر اس کی خلافت و حکومت سے بیزاری کا اظہار اور اس کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا، جب یزید کو یہ معلوم ہوا تو اس نے مسلم بن عقبہ کی کمان میں ایک بہت بڑا لشکر اہل مدینہ نے بڑی بہادری اور بے جگری کے ساتھ یزید کی فوج کا مقابلہ کیا لیکن اول تو تربیت یافتہ فوج اور دیگر وسائل و ذرائع کی کمی کی وجہ سے اور دوسرے مسلم بن عقبہ جیسے ہوشیار و تجربہ کار کمانڈر کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے شکست کھا گئے پھر تو مسلم بن عقبہ اور اس کی فوج نے شہر میں گھس کر قتل عام اور خونریزی کا بازار گرم کر دیا اور قتل عام لوٹ مار کا یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا، ہزاروں مسلمان نہایت سفاکی اور بے دردی کے ساتھ قتل کر دئیے گئے جن میں صحابہ کرام اور تابعین کی بھی بہت بڑی تعداد تھی، شہر مقدس اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت کو پامال کیا گیا اور دیگر ناقابل بیان تباہیوں اور بربادیوں کا بازار گرم کیا گیا۔ صرف مدینہ ہی کی پامالی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بعد یزید کی وہ فوج مکہ کی طرف روانہ ہوئی جہاں کے لوگوں نے بہت پہلے سے حضرت عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ تسلیم کر رکھا تھا، یزیدی لشکر نے مکہ مکرمہ میں بھی بے پناہ تباہی مچائی اور خانہ کعبہ تک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسی سال یزید کی موت ہوئی۔

  تم اس کے پاس چلے جانا جس سے تعلق رکھتے ہو کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت جو لوگ تمہارے دین و مسلک کے ہوں اور تمہارے خیالات و اعمال کے موافق ہوں ان کے پاس چلے جانا۔ اور قاضی رحمۃ اللہ نے اس جملے کی یہ مراد بیان کی ہے کہ تم اپنے اہل و اقارب کے پاس چلے جانا اور یہ کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔ اور طیبی رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تم اپنے اس امام و امیر کی طرف رجوع کرنا جس کی تم اتباع فرمانبرداری کرتے ہو۔ یہ مطلب زیادہ صحیح اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے اس جملے  تو کیا میں ہتھیار باندھ لوں کے زیادہ مناسب ہے۔

  اس طرح تم بھی جماعت کے شریک کار ہو جاؤ گے کا مطلب، جو طیبی کے منقولات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑا ہو اور قتل و خونریزی کا بازار گرم ہو مسلح اور ہتھیار بند ہونا گویا اس خونریزی میں شرکت کرنا اور فتنہ پردازی کے گناہ گاروں کی صف میں شامل ہونا ہے لہٰذا تم نہ ہتھیار باندھنا اور نہ کسی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا بلکہ اپنے امام و مقتدا اور صلح جو امن پسند لوگوں کے ساتھ رہنا یہاں تک کہ تم صلح جوئی اور امن پسندی کی راہ میں فلاح یاب۔ لیکن اس وضاحت پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ ایک طرف تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے امام و امیر کے ساتھ رہیں جو یقیناً اس وقت قتل و قتال اور خونریزی میں ایک فریق کی حیثیت رکھے گا دوسری طرف یہ حکم دیا گیا کہ وہ قتل و قتال سے دور رہیں۔ تو یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کس طرح ممکن ہوں گی؟ اس کا جواب ابن ملک نے اس طرح دینے کی کوشش کی ہے کہ شریعت کا حکم تو یہی ہے کہ اگر کوئی شخص ناحق اور از راہ ظلم، خونریزی کا ارتکاب کرنا چاہے تو اس کا دفاع کرنا اور اس کی فساد انگیزی کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی سعی کرنا واجب ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو یہ فرمایا کہ اس وقت ہتھیار بند ہونا، گویا فتنہ پردازوں کی جماعت کا شریک کار ہونا ہے، تو اس کا اصل مقصد خونریزی کی بڑائی کو واضح کرنا اور اس کے تباہ کن اثرات کے خلاف آگاہ و متنبہ کرنا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر خونریزی و غارت گری کے لئے آنے والا دشمن اگر مسلمان ہو تو طاقت کے ذریعے اس کا دفاع کرنا اور اس سے لڑنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے مقابلہ آرائی کی صورت میں فتنہ و فساد کے زیادہ بڑھ جانے کا خوف نہ ہو اور اگر وہ دشمن، کوئی غیر مسلم ہو تو پھر اس کا ہر ممکن ذریعے سے مقابلہ کرنا اور اس کے ساتھ ہر صورت میں لڑنا واجب ہے۔

  اپنے کپڑے کا کونہ اپنے منہ میں ڈال لینا  کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل وقتال کرنے والے لوگ تم پر حملہ بھی کریں تو تم ان سے نہ لڑو۔ بلکہ ان کے حملے کے وقت کسی بھی ذریعے سے اپنے آپ کو غافل اور غیر متعلق بنا لو تاکہ تمہیں اس حملے سے خوف محسوس نہ ہو۔ اس سے گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ تم ان لوگوں سے اس حالت میں بھی نہ لڑنا اور ان کے خلاف تلوار نہ اٹھانا جب کہ وہ تم سے لڑنا اور تمہیں قتل کرنا چاہیں بلکہ تمہارے لئے فلاح کا راستہ یہی ہو گا کہ اس وقت تم مظلوم بن جانا اور اور اپنے آپ کو ان کے ہاتھوں شہید ہو جانے پر تیار کر لینا کیونکہ وہ لوگ بہرحال مسلمان ہوں گے اور مسلمان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ تمہیں قتل کریں گے تو وہ ان کا عمل ہو گا اور خدا خود ان سے نپٹ لے گا۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کا اصل مقصد مسلمانوں کی باہمی خونریزی کی برائی اور اس سے بچنے کی فضیلت کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ چاہے اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑے مگر کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانا گوارہ نہ کرنا چاہئے ورنہ جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے، یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ فتنہ کا سر کچلنے کے لئے اور ناحق خونریزی پر آمادہ شخص کا دفاع کرنے کے لئے لڑنا جائز ہے اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔

 یہ بات واضح کر دینی ضروری ہے کہ واقعہ حرہ٦٣ھ میں پیش آیا جب کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری زمانے میں ٣٢ھ میں ہو چکی تھی، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر یہ تو منکشف ہو گیا تھا کہ مدینے میں ایسا المناک واقعہ پیش آئے گا لیکن یہ منکشف نہیں ہوا تھا کہ یہ واقعہ کب پیش آئے گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو اس کے متعلق باخبر کیا اور گویا یہ وصیت فرمائی کہ اگر وہ خونریزی تمہارے سامنے پیش آئے اور تمہاری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو صبر و ثبات کی راہ اختیار کرنا اور اس خونریزی میں ہرگز شامل نہ ہونا جہاں تک بھوک کی حالت اور کثرت اموات کے واقعہ کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ مدینہ والوں کو ان دونوں باتوں کا سامنا کرنا پڑا ہو اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی زندگی ہی میں یہ دونوں پیشگوئیاں بھی پوری ہو گئی ہوں جیسا کہ عام الرماد میں پیش آنے والی صورت حال سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ قتل عام اور خونریزی کے فتنہ کی طرح یہ دونوں باتیں بھی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوئی ہیں۔

پر فتن ماحول میں نجات کی راہ

حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب تم اپنے آپ کو ناکارہ لوگوں کے زمانے میں پاؤ گے جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی اور جو آپ میں اختلاف رکھیں گے، گویا وہ لوگ اس طرح کے ہو جائیں گے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے ہدایت فرمائیے کہ اس وقت میں کیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس وقت تم پر لازم ہو گا کہ اس چیز کو اختیار کرو اور اس پر عمل کرو جس کو تم دین و دیانت کی روشنی میں حق جانو اور اس چیز سے اجتناب و نفرت کرو جس کو تم ناحق اور برا جانو، نیز صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کر لو۔ اور ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ اپنے گھر میں پڑے رہو بلا ضرورت باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جاؤ اپنی زبان کو قابو میں رکھو، جس چیز کو حق جانو اس کو اختیار کرو اور جس چیز کو برا جانو اس کو چھوڑ دو، صرف اپنے کام اور اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور عوام الناس سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

  حثالۃ کے معنی ہیں چاول اور جو وغیرہ کا چھلکا، جس کو بھوسی کہتے ہیں اسی طرح کسی بھی چیز کے ناکارہ اور بے فائدہ حصے کو بھی حثالہ کہا جاتا ہے، پس  حثالۃ من الناس سے مراد وہ لوگ ہیں جو انسانی و اخلاقی قدروں کے اعتبار سے ادنیٰ درجے کے ہوں، جو انسانیت کا جوہر نہ رکھنے کے سبب نہایت پست ہوں اور جو دین و آخرت کے اعتبار سے بالکل ناکارہ اور بے فائدہ ہوں۔

  جن کے عہد و پیمان اور جن کی امانتیں خلط ملط ہوں گی کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل بے اعتبار اور ناقابل استعمال دولت ہوں گے ان کے کسی عمل اور کسی قول کا کوئی بھروسہ نہیں ہو گا، ان کے کسی اقدام اور کسی معاملہ میں پختگی و استقلال نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی، ان کے عہد و پیمان اور فیصلے لمحہ بہ لمحہ مختلف شکل و صورت میں بدلتے رہیں گے، دین و دیانت کے تقاضوں سے بے پرواہ ہوں گے اور امانتوں میں خیانت کریں گے۔

  اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کیا  یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ وہ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کی ہلاکت کے درپے ہوں گے، اور ان کے باہمی اختلاف و نزاعات کی کیا صورت ہو گی، اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کر کے دکھایا اور بطور مثال واضح فرمایا کہ جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں اسی طرح ان کی اخلاقی و سماجی حیثیت اس درجے الجھی ہوئی اور ان کے دینی معاملات و اعمال اس قدر خلط ملط ہوں گے کہ امین و خائن اور نیک وبد کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

 واضح رہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے اندر داخل کرنا جس طرح باہمی اختلاف و نزاع کو بطور تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے اسی طرح کبھی دو چیزوں کے باہمی رطب و اتصال اور اتفاق و یگانگت کو ظاہر کرنے کے لئے بھی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا جاتا ہے جیسا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے بیان میں وہ حدیث گزری ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مال غنیمت کے خمس کی تقسیم کے تعلق سے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کے باہمی ربط و اتصال اور ان کی ایک دوسرے کے ساتھ قربت و یکجائی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور تمثیل اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھایا تھا۔ دونوں صورتوں پر اس تمثیلی عمل کا اطلاق معنوی طور پر بھی کوئی تضاد نہیں رکھتا بلکہ تشبیک کے جو اصل معنی ہیں، یعنی باہم مختلط ہونا، دو چیزوں کا ایک دوسرے میں داخل ہونا، وہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔

  اپنی بھلائی سے مطلب رکھو اور خود کو عوام الناس سے دور کر لو  کا مطلب یہ ہے کہ پر فتن دور میں سب سے زیادہ ضرورت خود اپنے نفس کی اصلاح اور اپنے دین و کردار کی حفاظت کی ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت تم بھی بس اپنے دین اور اپنی اخروی بھلائی کے کاموں کی تکمیل و حفاظت میں مشغول رہنا اور دوسرے لوگوں کی طرف سے کسی فکر و خیال میں نہ پڑنا۔ یہ حکم ایسے ماحول میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ پر عمل نہ کرنے کی ایک درجہ میں اجازت کے طور پر ہے جب کہ شریر و بدکار لوگوں کی کثرت اور ان کا غلبہ ہو اور صالح و نیک لوگوں کی طاقت بہت کم ہو۔

  اپنی زبان کو قابو میں رکھو کا مطلب یہ ہے کہ جب پورے ماحول میں برائیوں کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور شریر و بدکار لوگوں کے اثرات غالب ہوتے ہیں تو زبان سے اچھی بات نکالنا بھی ایک جرم بن جاتا ہے، لہٰذا تم اس وقت لوگوں کے احوال و معاملات کے بارے میں بالکل خاموشی اختیار کئے رکھنا، کسی کی برائی یا بھلائی میں اپنی زبان نہ کھولنا تاکہ تمہاری بات کا برا ماننے والے لوگ تمہیں تکلیف و ایذا نہ پہنچائیں۔

 اس موقع پر ایک خاص بات یہ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ پر فتن دور کے سلسلے میں ایک حدیث تو یہ ہے اور ایک حدیث پیچھے گزری ہے جس کو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے، ان دونوں میں ایک طرح سے تضاد نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا حضرت عبداللہ بن عمرو کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ اس پر فتن ماحول میں بھی لوگوں کے درمیان بود و باش رکھنے سے پرہیز نہ کریں اور دنیا والوں سے مکمل یکسوئی علیحدگی اختیار نہ کریں، نیز ان کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیہ و اصلاح اور اپنی دینی زندگی کو سدھارنے سنوارنے لگیں رہیں، عوام الناس کے معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور ان کے حالات و اعمال کے تئیں کوئی فکر نہ کریں۔ اس کے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ وہ ایسے ماحول میں بود و باش نہ رکھیں اور لوگوں سے مکمل علیحدگی و یکسوئی اختیار کر کے کسی ویرانہ و جنگل میں چلے جائیں دونوں حدیثوں کے اسی ظاہری تضاد کو دور کرنے کے لئے علما نے لکھا ہے کہ ایک صورت حال کے لئے اس دو طرح کے حکم کا تعلق دراصل شخصی حالت کی رعایت و مصلحت کے اعتبار سے ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں میں سے ہر ایک کو وہ حکم دیا جو اس کی حالت و حیثیت کے مطابق تھا، جس میں اس کی اصلاح پوشیدہ تھی اور جس پر عمل کر کے وہ نجات و فلاح کی راہ پا سکتا تھا جیسا کہ مرشد و مصلح کا طرز اصلاح ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیر اور مرید کے ذہن و مزاج اور اس کے طبعی و شخصی حیثیت و حالت کے مطابق ہی اس کو تلقین و ہدایت کرتا ہے۔

 حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جیسا کہ معلوم ہے نہایت اونچے درجے کے صحابی ہیں، ان کی زندگی پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عظمت و فضیلت کے حامل تھے، منقول ہے کہ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اتنے عابد و زاہد تھے کہ افطار کئے بغیر مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، رات بھر سوتے نہیں تھے بلکہ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے، دنیاوی لذات و خواہشات سے اس قدر متنفر تھے کہ بیوی تک کی طرف کوئی رجحان نہ رکھتے تھے، ایک دن ان کے والد محترم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے کر آئے اور ان کی اس عبادت و ریاضت کا حال بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اتنی سخت ریاضت اور اتنی زیادہ عبادت سے منع کیا اور حکم فرمایا کہ بلا افطار تین دن سے زیادہ روزے نہ رکھا کرو اور پوری رات کے بس تہائی یا چھٹے حصے میں شب بیداری کیا کرو، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے یہ بھی نصیحت کی کہ اپنے بزرگوار باپ کی مرضی و منشا کا ہمیشہ لحاظ رکھنا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس وصیت و نصیحت کی بنا پر انہوں نے ملت میں تفرقہ و انتشار کے سخت ترین فتنے کے دور میں بھی اپنے والد بزرگوار سے علیحدگی و جدائی اختیار نہیں کی، جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر اعلیٰ اور وزیر تھے، اور جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو فرمایا تھا، وہ لوگوں کے معاملات و حالات سے بے پرواہ ہو کر اپنی ذات کی اصلاح اور اپنی استقامت کی طرف متوجہ رہتے، جب ان کے والد حضرت عمرو ان سے کہا کرتے کہ تم ہم میں سے ہونے کے باوجود ہم سے الگ الگ کیوں رہتے ہو، اور ہماری کاروائیوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ تو وہ جواب دیتے کہ  آپ لوگوں کے اچھے کاموں میں تو شریک ہوں لیکن ان کاموں میں خود کو شریک نہیں کر سکتا جو میرے نزدیک خدا اور اس کے رسول کی مرضی و منشا کے منافی و ملی مفاد کے خلاف ہیں۔ نیز ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بڑے سے بڑے فتنے کے وقت بھی ان کے دل سے اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و احترام کا جذبہ کسی بھی طرح سے کم ہوا ہو، ان کا باطن ہمیشہ اہل بیت کی محبت و عظمت سے منور رہا۔

قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے فتنوں کی پیشگوئی

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت آنے سے پہلے فتنے ظاہر ہوں گے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے۔ ان فتنوں کے زمانے میں آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔ ان فتنوں کے وقت بیٹھ ہوا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہو گا بس جب تم ان فتنوں کا زمانہ پاؤ تو اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا، کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا اور اپنی تلواروں کو پتھر پر دے مارنا (یعنی ان کے دھار کو کند و بیکار کر دینا اور جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو مارنے کے لئے آئے تو اس کو چاہئے کہ وہ حملہ آور کا مقابلہ کرنے اور اس سے لڑنے کی بجائے آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہو جائے۔ (ابوداؤد) اور ابو داؤد کی ایک اور روایت میں خیر من الساعی یعنی چلنے والا شخص دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر یوں نقل کیا گیا ہے کہ صحابہ نے یہ ارشاد گرامی سن کر عرض کیا کہ تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ یعنی ہمیں ہدایت دیجئے کہ اس وقت ہم کیا کریں اور ان فتنوں میں کس طرح زندگی گزاریں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا۔ ترمذی کی روایت اس طرح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتنہ کے بارے میں یہ ہدایت فرمائی کہ  تم فتنوں کے زمانہ میں اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے چلے کاٹ ڈالنا، نیز گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کر لینا (یعنی اشد ضرورت کے علاوہ باہر نہ نکلنا اور اپنا سارا وقت گھروں میں گزارنے کے ذریعے لوگوں سے یکسوئی اختیار کئے رہنا تاکہ ان فتنوں کے برے اثرات سے محفوظ رہو) اور تم آدم کے بیٹے ہابیل کی طرح مظلوم بننا گوارہ کر لینا لیکن دفاع کی خاطر بھی کسی پر تلوار نہ اٹھانا، اس روایت کو ترمذی نے نقل کر کے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

 

تشریح

 

  جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند ہوں گے  کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال اور خونریزی کی صورت میں وہ فتنے اتنے زیادہ ہیبت ناک اور اس قدر شدید ہوں گے کہ دین و ملت کا مستقبل تاریک تر نظر آنے لگے گا۔ اور اس وقت نیک وبد کے درمیان امتیاز کرنا اس طرح ناممکن ہو جائے جس طرح کہ اندھیری رات میں کسی کو شناخت کرنا ممکن نہیں ہوتا

  آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد و نظریات اقوال و احوال اور طور طریقوں میں ساعت بساعت تبدیلی ہوتی رہے گی، کبھی کسی نظریہ و عقیدہ کے حامل ہوں گے، کبھی کسی کے ایک وقت میں کوئی عہد و پیمان کریں گے اور دوسرے وقت میں اس سے منحرف ہو جائیں گے، کبھی دیانت و امانت پر چلنے لگیں گے اور کبھی بد دیانتی و خیانت پر اتر آئیں گے کبھی سنت پر عمل کرتے نظر آئیں گے اور کبھی بدعت کی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے، کسی وقت ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے اور کسی وقت تشکیک و اوہام اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگیں گے، غرض یہ کہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تبدیلی پیدا ہوتی نظر آئے گی اور اس امر کا یقین کرنا دشوار ہو گا کہ کسی شخص کی اصل کیفیت و حالت کیا ہے۔

  بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا الخ کا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جو شخص ان فتنوں سے جتنا زیادہ دور ہو گا وہ اس شخص سے اتنا ہی زیادہ بہتر ہو گا جو ان فتنوں کے قریب ہو گا اس جملے کی تفصیلی وضاحت پہلی فصل میں کی جا چکی ہے۔

  کمانوں کے چلوں کو کاٹ ڈالنا  یہ حکم گویا پہلے حکم یعنی اپنی کمانوں کو توڑ ڈالنا  کو مؤکد کرنے اور مقصد کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ اور پر زور انداز میں بیان کرنے کے لئے ہے، کیونکہ کمانوں کے ٹوٹ جانے کے بعد ان کے چلے اگر باقی بھی رہیں تو وہ کمانیں قطعی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا کمانوں کے توڑ دینے کے حکم کے بعد ان کے چلوں کو کاٹ دینے کا حکم محض زور بیان اور تاکید حکم کے لئے ہے۔

  آدم کے بیٹوں میں سے بہترین بیٹے کی مانند ہو جائے  کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح آدم کے ایک بیٹے ہابیل نے مظلومیت کی موت کو گوارا کر لیا تھا لیکن اس نے آدم کے دوسرے بیٹے یعنی اپنے بھائی قابیل کے حملے کا جواب نہیں دیا اور سارا ظلم اور تمام زیادتی اسی کے سر ڈال دی تھی، اسی طرح فتنوں کے وقت کوئی شخص تم پر حملہ بھی کرے اور تمہیں قتل بھی کر دینا چاہے تو تم اس کا مقابلہ ہرگز نہ کرنا اور اس کے ہاتھوں مر جانے کو صبر و ضبط کے ساتھ گوارا کر لینا، کیونکہ اگر تم اس کا مقابلہ کرو گے تو اس کی وجہ سے فتنہ میں اور زیادہ شدت پیدا ہو جائے گی اور خونریزی بڑھ جائے گی، پس اس وقت اپنے حملہ آور کا مقابلہ کئے بغیر شہید ہو جانا، مقابلہ کرنے اور خونریزی میں کسی بھی طرح سے شرکت کر کے اپنی جان کو بچا لینے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔

  تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جانا  کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش، جیسے قالین وغیرہ کے نیچے جو ٹاٹ بچھا ہوتا ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت اپنی جگہ پڑا رہتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے گھروں میں پڑے رہا کرنا اور مکان کی چار دیواری سے باہر نکل کر ادھر ادھر نہ جانا تاکہ تم اس فتنے میں مبتلا نہ ہو جاؤ اور اس کے اثرات تمہارے دین کو تباہ نہ کر دیں۔ حاصل یہ کہ فتنہ انگیزی کی جگہ سے دور رہنا، لوگوں کے معاملات و کاروبار سے بے تعلقی و یکسوئی اختیار کر لینا، اور گوشہ عافیت میں پڑے رہ کر اپنے دین کی حفاظت کرنا، اس وقت نجات کی بہترین راہ ہو گی جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل و قتال، افتراق و انتشار اور مناقشت و منافقت کا فتنہ پھیل جائے۔

فتنوں کے وقت سب سے بہتر شخص کون ہو گا؟

حضرت ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ایک دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کو قریب تر کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس فتنے کے زمانے میں سب سے بہتر کون شخص ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس زمانے میں سب سے بہتر شخص وہ ہو گا جو اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کے گھاس چارے کے انتظام میں مصروف رہے ان کا حق ادا کرے یعنی ان پر جو زکوٰۃ اور شرعی ٹیکس وغیرہ واجب ہو، اس کو ادا کرے اور اپنے رب کی بندگی میں مشغول رہے اور وہ شخص بھی سب سے بہتر ہو گا جو اپنے گھوڑے کا سر یعنی اپنے گھوڑے کی پشت پر سوار اس کی باگ پکڑے کھڑا ہو اور دشمنان دین کو خوف زدہ کرتا ہو اور دشمن اس کو ڈراتے ہوں۔ (ترمذی

 

تشریح

 

 بہزیہ (ب کے زبر اور ہ کے جزم کے ساتھ) ابن امرء القیس کی طرف منسوب ہے، حضرت ام مالک ایک صحابیہ ہیں اور حجازیہ کہلائی جاتی ہیں۔

  اور اس کو قریب تر کیا  کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اس فتنہ کا ذکر فرمایا تو اس بات سے باخبر کیا کہ وہ فتنہ بالکل قریب ہے اور سامنے آنے والا ہے۔ اور طیبی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس فتنہ کو بہت تفصیل و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا اور چونکہ یہ ایک عام اسلوب ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے سامنے کسی چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے اور اس کی خصوصیات و علامات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ واضح کرتا ہے تو گویا وہ اس چیز کو مخاطب کے ذہن یا مشاہدہ کے قریب تر کر دیتا ہے، چنانچہ وہ مخاطب اس چیز کو نہ صرف اپنے ذہن و خیال میں جاگزیں پاتا ہے بلکہ وہ خارج میں بھی ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ چیز اپنی شکل و صورت کے ساتھ اس کے بالکل قریب موجود ہے۔

  جو شخص اپنے مویشیوں میں رہے کا مطلب یہ ہے کہ اس فتنہ کے زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے باہمی قتل وقتال اور محاذ آرائی کا بازار گرم ہو جائے گا، فلاح یاب شخص وہی ہو گا جو فتنوں کی باتوں سے لاتعلق، اور دنیا والوں سے بیگانہ رہ کر اور گوشہ عافیت اختیار کر کے بس اپنے جائز کاروبار میں مشغول اور اپنے معاملات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو گا، اس پر اس کے کاروبار اور معاملات کے تئیں شریعت کے جو حقوق عائد ہوتے ہوں ان کو ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے گا اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ اور اس کی عبادت میں منہمک رہے گا۔ یہ ارشاد گرامی گویا قرآن کریم کی ان آیات (ففروا الی اللہ، وتبتل الیہ تبتیلا۔ اور والیہ یرجع الامر کلہ فاعبدہ وتوکل علیہ وما ربک بغافل عما تعملون) کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔

  جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہو الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس فتنہ و فساد میں الجھنے اور آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے کے بجائے، اپنی طاقت و توانائی ان لوگوں کے خلاف استعمال کرنے کی طرف متوجہ ہو جو دین اسلام کے اصل دشمن و مخالف ہیں اور ان سے نبرد آزمائی میں لگ جائے یہ چیز نہ صرف یہ کہ دین و ملت کی اصل خدمت ہونے کی وجہ سے اجر و ثواب کا مستحق بنائے گی بلکہ اس فتنہ سے بچانے کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہو گی۔

فتنہ کا ذکر

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عنقریب ایک بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے جو پورے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کے بڑے اثرات ہر ایک تک پہنچیں گے اس فتنہ میں قتل ہو جانے والے لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے نیز اس فتنہ کے وقت زبان کھولنا یعنی کسی کو برا بھلا کہنا اور عیب جوئی و نکتہ چینی کرنا تلوار مارنے سے بھی زیادہ سکت مضر ہو گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس فتنہ سے مراد باہمی قتل و قتال اور لوٹ مار کا وہ فتنہ ہے جو مختلف گروہ، حق و سچائی کو ثابت کرنے اور دین کا جھنڈا بلند کرنے اور حق و انصاف کی مدد کے لئے نہیں بلکہ محض جاہ اقتدار اور دولت و سلطنت حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہانے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔

 اس وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اس فتنہ کے مقتولین بھی دوزخ میں کیوں ہو جائیں گے، چنانچہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جو شخص خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر لوٹ مار کی خاطر کسی سے لڑے اور اس لڑائی کے دوران مارا جائے تو وہ نہ شہید کہلاتا ہے اور نہ اس کی موت کوئی با مقصد موت کہلاتی ہے بلکہ وہ ایک ایسی موت کے ہاتھوں مرتا ہے جو دین و شریعت کے تقاضوں اور اسلامی احکام کے خلاف جنگ و جدل کی صورت میں آتی ہے لہٰذا جس طرح ناحق خون بہانے والا قاتل دوزخ میں جائے گا اسی طرح وہ مقتول بھی دوزخ کی آگ کا مستوجب ہو گا۔

 

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عنقریب گونگے، بہرے اور اندھے فتنے کا ظہور ہو گا، جو شخص اس فتنہ کو دیکھے گا اور اس کے قریب جائے گا وہ فتنہ اس کو دیکھے گا اور اس کے قریب آ جائے گا نیز اس فتنہ کے وقت زبان درازی، تلوار مارنے کی مانند ہو گی۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 فتنہ کو گونگا اور بہرہ کہنا، لوگوں کے اعتبار سے ہے، یعنی وہ فتنہ اتنا سخت اور اس قدر ہیبت ناک ہو گا کہ عام لوگ اس وقت حیران و سراسیمہ ہو کر رہ جائیں گے، نہ کوئی فریاد رس نظر آئے گا کہ جس سے کوئی شخص گلو خلاصی کی درخواست کر سکے اور نہ کسی کو نجات دلا سکے اور نہ کوئی ایسی راہ دکھائی دے گی جس کے ذریعے اس فتنہ سے نجات اور خلاصی پائی جا سکے۔ یا مطلب یہ ہے کہ اس فتنے کے وقت لوگ حق و باطل اور نیک و بد کے درمیان تمیز نہیں کریں گے۔ وعظ و نصیحت کو سننا اور اس پر عمل کرنا گوارہ نہیں کریں گے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی باتوں پر دھیان نہیں دیں گے، جو شخص ان کو نیک باتوں کی طرف بلائے گا اور زبان سے حق بات نکالے گا اس کو روحانی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کریں گے اور اس کے ساتھ نہایت تکلیف دہ اور پریشان کن سلوک کریں گے۔

  جو شخص اس فتنہ کو دیکھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس فتنہ کی باتوں کی طرف متوجہ رہے گا اور ان لوگوں کی قربت و ہمنشینی اختیار کرے گا جو اس فتنہ کا باعث ہوں گے، تو اس شخص کا اس فتنہ سے محفوظ رہنا اور اس کے برے اثرات کے چنگل سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہو گا، اس کے برخلاف جو شخص اس فتنہ سے دور اور فتنہ پردازوں سے بے تعلق رہے گا وہ فلاح یاب ہو گا۔

  زبان درازی تلوار مارنے کی مانند ہو گی کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت چونکہ لوگوں میں تعصب و عداوت، ضد و ہٹ دھرمی اور حق کو قبول نہ کرنے پر اصرار بہت زیادہ ہو گا اس لئے وہ کسی کی زبان سے کوئی ایسی بات سننا بھی گوارا نہیں کریں گے جو ان کی مرضی ومنشا کے خلاف ہو گی۔ لہٰذا اس فتنہ میں زبان کھولنے والا گویا خون ریزی کو دعوت دے گا۔ اور یہ بات تو بالکل ظاہر ہے کہ بعض وقت زبان سے نکلا ہوا لفظ اپنی تاثیر کے اعتبار سے تلوار کی دھار سے بھی زیادہ سخت وار کر جاتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

جراحات السنان لہا التیام

ولا یلتام ماجرح اللسان

نیزے کے پھل کا زخم مندمل ہو جاتا ہے لیکن زبان کے گھاؤ کو کوئی چیز نہیں بھر سکتی

چند فتنوں کے بارے میں پیشین گوئی

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخر زمانہ میں ظاہر ہونے والے فتنوں کا ذکر شروع فرمایا اور بہت سارے فتنوں کو بیان کیا، یہاں تک کہ فتہ احلاس کا ذکر فرمایا۔ ایک شخص نے پوچھا کہ احلاس کا فتنہ کیا ہے (یعنی اس فتنہ کی نوعیت کیا ہو گی اور وہ کس صورتحال میں ظاہر ہو گا؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ وہ بھاگنا، اور مال کا ناحق لینا ہے (یعنی اس فتنہ کی صورت یہ ہو گی کہ لوگ آپس میں سخت بغض و عداوت رکھنے اور باہمی نفرت و دشمنی کی وجہ سے ایک دوسرے سے بھاگیں گے، کوئی کسی کی صورت دیکھنے اور کسی کے ساتھ نباہ کرنے کا روادار نہیں ہو گا، ایک دوسرے کے مال کو زبردستی چھین لینے اور ایک دوسرے کو ہڑپ کر لینے کا بازار گرم ہو گا اور پھر سرا کا فتنہ ہے، اس فتنہ کی تاریکی اور تباہی اس شخص کے قدموں کے نیچے سے نکلے گی (یعنی اس فتنہ کا بانی وہ شخص ہو گا) جو میرے اہل بیت میں سے ہو گا، اس شخص کا گمان تو یہ ہو گا کہ وہ فعل و کردار کے اعتبار سے بھی میرے اہل بیت میں سے ہے لیکن حقیقت یہ ہو گی کہ وہ خواہ نسب کے اعتبار سے بھلے ہی میرے اہل بیت میں سے ہو مگر فعل و کردار کے اعتبار سے میرے اپنوں میں سے ہرگز نہیں ہو گا، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میرے دوست اور میرے اپنے تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پرہیز گار ہوں۔پھر اس فتنہ کے بعد لوگ ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کریں گے جو پسلی کے اوپر کولہے کی مانند ہو گا،پھر دہیما کا فتنہ ظاہر ہو گا۔ اور وہ فتنہ اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑے گا جس پر اس کا طمانچہ،طمانچہ کے طور پر نہ لگے(یعنی وہ فتنہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہو گا کہ امت کے شخص تک اس کے برے اثرات پہنچیں گے اور ہر مسلمان اس کے ضرر و نقصان میں مبتلا ہو گا) اور جب کہا جائے گا کہ یہ فتنہ ختم ہو گیا ہے تو اس کی مدت کچھ اور بڑھ جائے گی یعنی لوگ یہ گمان کریں گے کہ فتنہ ختم ہو گیا ہے مگر حقیقت میں وہ ختم کی حد تک پہنچا ہوا نہیں ہو گا بلکہ کچھ اور طویل ہو گیا ہو گا، یہ اور بات ہے کہ کسی وقت اس کا اثر کچھ خم ہو جائے، جس سے لوگ اس کے ختم ہو جانے کا گمان کرنے لگیں لیکن بعد میں پھر بڑھ جائے گا اس وقت آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا (یعنی اس فتنہ کے اثرات سے لوگوں کے دل و دماغ کی حالت کیفیت میں اس قدر تیزی کے ساتھ تبدیلی پیدا ہوتی رہے گی کہ مثلاً ایک شخص صبح کو اٹھے گا تو اس کا ایمان و عقیدہ صحیح ہو گا اور اس پختہ اعتقاد کا حامل ہو گا کہ کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا یا اس کی آبروریزی کرنا اور یا اس کے مال و اسباب کو ہڑپ کرنا و نقصان پہنچانا مطلقاً حلال نہیں ہے مگر شام ہوتے ہوتے اس کے ایمان و عقیدہ میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرنے لگے گا یہ گویا اس کے نزدیک کسی مسلمان بھائی کا خون بہانا، اس کی آبروریزی کرنا، اور اس کے مال و جائیداد کو ہڑپ کرنا نقصان پہنچانا جائز و حلال ہے، اس طرح جو صبح کے وقت مومن تھا شام کو اس عقیدے کی تبدیلی کی وجہ سے کافر ہو جائے گا، اور یہ صورت حال جاری رہے گی تاکہ لوگ خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک خیمہ ایمان کا ہو گا کہ اس میں نفاق ہو گا اور ایک خیمہ نفاق کا ہو گا کہ اس میں ایمان نہیں ہو گا۔ جب یہ بات ظہور میں آ جائے تو پھر اس دن یا اس کے اگلے دن، دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  فتنہ احلاس سے مراد یہ ہے کہ وہ فتنہ عرصہ دراز تک قائم رہے گا اور اس کے اثرات امت کے لوگوں کو بہت طویل عرصے تک مختلف آفات اور پریشانیوں میں مبتلا رکھیں گے۔ واضح رہے کہ احلاس اصل میں حلس کی جمع ہے اور حلس اس ٹاٹ کو کہتے ہیں جو کسی عمدہ فرش جیسے قالین وغیرہ کے نیچے زمین پر بچھا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اپنی جگہ پر پڑا رہتا ہے۔ یا حلس اس کملی کو کہتے ہیں جو پالان کے نیچے اونٹ کی پیٹھ پر ڈالی جاتی ہے۔ پس اس فتنہ کو فتنہ احلاس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کسی اچھے فرش کے نیچے کا ٹاٹ مستقل طور پر اپنی جگہ پڑا رہتا ہے وہاں سے اٹھایا نہیں جاتا اسی طرح وہ فتنہ بھی لوگوں کو چھوڑنے والا نہیں۔ بلکہ برابر قائم رہے گا اور اس کے برے اثرات بہت دنوں تک لوگوں کو مبتلا رکھیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کو ظلمت و تاریکی اور برائی کے طور پر حلس سے تشبیہ دی گئی ہے اور یا یہ کہ اس فتنہ کو فتنہ احلاس فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح ٹاٹ ہمیشہ بچھا رہتا ہے اور اس کو اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جاتا اسی طرح لوگوں کو بھی چاہئے کہ اس فتنہ کے دوران اپنے گھروں میں پڑے رہنے کو لازم کر لیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لیں۔

 لفظ فتنۃ السرا رفع کے ساتھ ہے اور اس اعتبار سے یہ لفظ  ہرب پر عطف ہے، یعنی جب کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ پوچھا کہ فتنہ احلاس کی نوعیت و صورت کیا ہو گی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا یہ فرمایا کہ وہ فتنہ ہرب و حرب اور سرا کی صورت میں ہو گا ہرب اور حرب کے معنی تو اوپر ترجمے میں واضح کئے جا چکے ہیں، یعنی باہمی عداوت و دشمنی اور بغض و نفرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور بھاگنا اور کسی کا مال لوٹ لینا۔ اور سرا کے معنی یہ ہیں کہ وہ فتنہ اندر ہی اندر اسلام کی بیخ کنی کرے گا، یعنی کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جائیں گے جو ظاہر میں اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی کا دعویٰ کریں گے مگر باطن میں اسلام اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی چاہیں گے اور اپنی اس ناپاک خواہش کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی سازشوں کے جال پھیلا کر مسلمانوں کو فتنہ و فساد میں مبتلا کریں گے۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ سرا سے کنکریلا پتھریلا میدان مراد ہے، اس صورت میں فتنہ سرا سے واقعہ حرا کی طرف اشارہ مراد ہو گا جو یزید کی حکومت میں ہوا اور اس کی وجہ سے اہل مدینہ کا قتل عام ہوا، سینکڑوں صحابہ اور تابعین کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اور حرم محترم کی سخت بربادی ہوئی یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب کہ سرا کو پوشیدہ کے مفہوم میں لیا جائے اگر یہ لفظ سرور و شادمانی کے مفہوم میں ہو تو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ وہ فتنہ ایسے حالات پیدا کر دے گا جس میں عیش و عشرت کی چیزوں کی فراوانی ہو جائے گی، اور لوگ اسراف و تنعم کے ذریعے راحت و آرام اور سرور و شادمانی کی زندگی میں پڑ کر خدا اور آخرت کے خوف سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ یا یہ کہ اس فتنہ کی وجہ سے چونکہ اسلام اور مسلمانوں کی شوکت کو دھچکا لگے گا اور ملت اسلامیہ بہت زیادہ نقصان و تباہی میں مبتلا ہو جائے گی لہٰذا یہ صورت حال اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے لئے خوشی و شادمانی کا باعث بنے گی۔ اور ایک نسخے میں  فتنۃ السرا کا لفظ نصب کے ساتھ ہے، اس صورت میں اس کا عطف فتنہ الاحلاس پر ہو گا اور معنی یہ ہوں گے کہ آپ نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد فتنہ اسرا کا ذکر کیا۔

  مگر وہ میرے اپنوں میں سے نہیں ہو گا  کا مطلب یہ ہے کہ خواہ وہ میرے اہل بیت میں سے ہونے کا کتنا ہی گمان رکھے اور اگرچہ نسب اور خاندان کے اعتبار سے وہ واقعۃً میرے اہل بیت میں سے کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے طور طریقوں اور اپنے فعل و کردار کے لحاظ سے میرے اپنوں میں سے یقیناً نہیں ہو گا کیونکہ وہ میرے اپنوں میں سے ہوتا تو روئے زمین پر فتنہ و فساد کے ذریعے میری امت کو نقصان و ضرر میں مبتلا نہیں کرتا۔ اس ارشاد گرامی کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے آیت(انہ لیس من اہلک)۔ یقیناً وہ تمہارے اپنوں میں سے نہیں ہے۔ یا یہ کہ اس جملے کا یہ مطلب ہے کہ وہ شخص خواہ نسب کے اعتبار سے میرے خاندان سے کوئی تعلق کیوں نہ رکھے لییکن حقیقت کے اعتبار سے وہ میرے محبوب اور دوستوں میں سے ہو گا کیونکہ میرا محبوب اور دوست صرف وہی مسلمان ہو سکتا ہے جو تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرے اور کبھی بھی ایسے قول و فعل کا ارتکاب نہ کرے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اس کی تائید حدیث کے اگلے جملے سے بھی ہوتی ہے۔

  جو پسلی کے اوپر کولہے کی مانند ہو گا  اس جملے کے ذریعے گویا اس شخص کو ذہنی و عملی کج روی اور غیر پائیداری کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح اگر کولہے کی ہڈی کو پسلی کی ہڈی پر چڑھا دیا جائے تو وہ کولہا اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکتا اور پسلی کی ہڈی کے ساتھ اس کا جوڑ نہیں بیٹھ سکتا اسی طرح اگرچہ لوگ اس شخص کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کو اپنا امیر و حکمران تسلیم کر لیں گے لیکن حقیقت میں وہ امارت و سرداری کے لائق نہیں ہو گا کیونکہ وہ علم و دانائی سے محروم ہو گا، آئین حکمرانی سے بے بہرہ نہ ہو گا، قوت فیصلہ کی کمی اور رائے کی کمزوری میں مبتلا ہو گا، پس اس کا کوئی حکم اور کوئی فیصلہ، محل موقع کے مطابق نہیں ہو گا اور جب یہ صورت حال ہو گی تو سلطنت و مملکت کا سارا نظام انتشار و بد امنی اور سستی و کمزوری کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔

  پھر دہیما کا فتنہ ظاہر ہو گا  کے سلسلے میں پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ جس طرح فتنہ الاحلاس کے دونوں اعراب، یعنی رفع اور نصب ذکر کئے گئے تھے اور ان میں سے ہر ایک کے مطابق معنی بیان کئے گئے تھے، اسی طرح فتنۃ الدہیما میں بھی فتنہ کے لفظ کے دونوں اعراب یعنی رفع اور نصب میں دہیما (دال کے پیش اور ہا کے زبر کے ساتھ) اصل میں لفظ دہما کی تصغیر ہے جس کے معنی سیاہی اور تاریکی کے ہیں اور یہاں تصغیر کا اظہار مذمت وبرائی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حاصل یہ کہ فتنہ احلاس کے بعد جو فتنہ ظاہر ہو گا وہ اپنے اثرات کی ظلمت اور قتل وغارت گری کی شدت کے اعتبار سے ایک سیاہ اور تاریک شب کی مانند ہو گا اور جس کی سیاہ رات کی تاریکی ہر شخص کو اندھیرے میں مبتلا کر دیتی ہے اس طرح اس فتنہ کی ظلمت ہر شخص کے دل و دماغ پر اثر انداز ہو گی اور ہر ایک کے قوائے فکر و عمل پر تاریک سایہ بن کر چھا جائے گی۔

  تآنکہ لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ کے لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک گروہ تو خالص ایمان والوں کا ہو گا کہ جن میں کفر اور نفاق کا نام نہ ہو گا اور ایک گروہ خالص کفر والوں کا ہو گا اور ان میں ایمان و اخلاص کا نام نہ ہو گا۔ اور بعض حضرات نے یہاں فسطاط کا ترجمہ خیمہ کے بجائے شہر کیا ہے یعنی اس زمانے کے لوگ دو شہر یا دو ملکوں میں تقسیم ہو جائیں گے کہ ایک شہر یا ایک ملک میں صرف خالص مسلمانوں اہل ایمان ہوں گے اور ایک شہر یا ملک میں خالص کافر ہوں گے۔ واضح رہے کہ فسطاط اصل میں تو خیمے کو کہتے ہیں لیکن شہر پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور حدیث میں اس لفظ کا استعمال گویا اس اسلوب کے طور پر ہے کہ ذکر تو محل رہنے کی جگہ کا ہوا، لیکن مراد حال یعنی رہنے والوں کی حالت وکیفیت ہو۔ پس  لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے  کا حاصل یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے لوگ واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک طبقہ اہل ایمان کا ہو گا اور ایک طبقہ اہل کفر کا ہو گا، اور ان دونوں طبقوں کے لوگ خواہ دنیا کے کسی حصے میں اور شہر میں سکونت پذیر ہوں اس موقع پر ایک بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ایک خیمہ نفاق کا ہو گا کہ اس میں ایمان نہیں ہو گا۔ تو اس خیمہ یا اس طبقہ کے لوگوں میں سے ایمان کی نفی یا تو اصل کے اعتبار سے ہے یعنی اس خیمہ کے لوگوں میں سرے سے ایمان نہیں ہو گا یا کمال ایمان کی نفی بھی مراد ہے یعنی اس خیمہ یا اس طبقہ میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو ظاہر کے اعتبار سے ایمان رکھتے ہوں، مگر اہل نفاق کے سے اعمال اختیار کرنے، یعنی جھوٹ بولنے، خیانت کرنے اور عہد شکنی وغیرہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے مخلص اہل ایمان کے زمرے سے خارج ہوں گے۔

  دجال کے ظاہر ہونے کے منتظر رہنا  کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ دہیما ظاہر ہو جائے تو سمجھنا کہ دجال کا ظہور ہوا ہی چاہتا ہے، چنانچہ اس فتنہ کے فوراً بعد دجال ظاہر ہو گا، اس وقت حضرت مہدی دمشق میں ہو گا، دجال دمشق کے شہر کو گھیر لے گا، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال ان کے مقابلے میں پر اس طرح گھل جائے گا، جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کو اپنے نیزے سے موت کے گھاٹ اتار دیں گے اور اس کی موت سے ان کو بہت زیادہ خوشی ہو گی۔

 طیبی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ  فسطاط شہر یا خیمے کو کہتے ہیں جس میں لوگ جمع ہوتے اور رہتے ہیں، نیز حدیث کے اس آخری جزو سے کہ جس میں فسطاط کا ذکر ہے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ فتنہ آخر زمانہ میں ظاہر ہو گا لیکن علما نے پہلے ذکر کئے گئے فتنوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور کہا ہے کہ یہ فتنے کب ظاہر ہوں گے اور کون سے واقعات ان کا مصداق ہیں خصوصاً فتنہ سرا کے بارے میں تو مکمل سکوت اختیار کیا ہے اور اس طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے کہ اہل بیت نبوی میں سے وہ کون شخص ہے جس کو اس فتنہ کا بانی کہا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ اور اس کی تفصیل

یہ بات تو طیبی نے لکھی ہے لیکن بعد کے علما میں سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ نے اس حدیث میں مذکورہ فتنوں کے مصداق کا تعین کیا ہے چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتنہ احلاس کے ذریعے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جب کہ وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کے اعلان کے بعد اس کی بیعت سے گریز کر کے مع اہل و عیال مدینہ سے نکل گئے اور مکہ آ گئے تھے پھر جب ٦٢ھ میں یزید بن معاویہ نے اپنے خلاف اہل مدینہ کی تحریک کو کچلنے کے لئے مسلم بن عقبہ کی کمان میں شامیوں کی ایک بڑی فوج مدینہ کی طرف روانہ کی تو مسلم نے اس شہر مقدس میں پہنچ کر بڑی تباہی پھیلائی اور اہل مدینہ کا قتل عام کرایا۔ یہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے، مسلم) نے شامیوں کی یہ فتح یاب فوج لے کر پھر مکہ کا رخ کیا۔ مسلم اگرچہ خود مکہ تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ راستے ہی میں مر گیا تھا، البتہ اس کی فوج حصین بن نمیر کی سر کردگی میں مکہ پہنچ گئی اور اس نے ایک دن کی جنگ کے بعد مکہ کا محاصرہ کر لیا، حصین بن نمیر نے کوہ ابن قیس پر منجیق نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا اس محاصرے اور سنگ باری کے دوران کہ جس کا سلسلہ ایک ماہ سے بھی زائد عرصے تک جاری رہا، اہل مکہ کو بڑی سخت تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، اتفاق کی بات کہ اسی اثنا میں دمشق میں یزید کا انتقال ہو گیا اور ابن نمیر نے اس خبر کو سن کر محاصرہ اٹھا لیا اور اپنی فوج کو لے کر دمشق کی طرف واپس روانہ ہو گیا، اس کے بعد حضرت عبدا للہ بن زبیر کی خلافت نہ صرف پورے حجاز میں قائم ہو گئی، بلکہ عراق اور مصر تک کے لوگوں نے ان کی خلافت کو تسلیم کر لیا یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے جانشین معاویہ بن یزید کی تقریباً دو ماہ کی مختصر خلافت کے بعد جب کہ اس کا انتقال ہو گیا تھا تو حضرت عبداللہ بن زبیر پورے عالم اسلام کے خلیفہ تسلیم کر لئے گئے لیکن پھر چھ سات ماہ کے بعد مروان بن حکم نے اپنی سازشوں اور کوششوں میں کامیاب ہو کر شام پر قبضہ جما لیا اور دمشق میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا، شام کے بعد مصر اور عراق بھی حضرت زبیر کی خلافت سے نکل گئے اسی دوران مروان بن حکم مر گیا اور اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان اس کا جانشین ہوا، عبدالملک نے زبردست جنگی طاقت کے ذریعے تقریباً تمام ہی علاقوں سے حضرت زبیر کی خلافت کو ختم کر دیا اور آخر میں حجاج بن یوسف کی کمان میں ایک لشکر جرار مکہ مکرمہ کی طرف روانہ کیا اور ٧٢ھ کے ماہ رمضان میں حجاج نے شہر مکہ کا محاصرہ کر لیا اور کوہ ابو قبیس پر منجیق لگا کر سنگ باری شروع کر دی، اور محاصرہ سنگ باری کا یہ سلسلہ ذی الحجہ تک جاری رہا، اس عرصے میں اہل مکہ کو بڑی زبردست مصیبت و پریشانی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا حج کے دنوں میں کچھ عرصے کے لئے سنگ باری بند ہو گئی اور حج ختم ہوتے ہی یہ سلسلہ پھر شروع ہو گیا جس کا نشانہ براہ راست خانہ کعبہ تھا جہاں حضرت عبداللہ محصور تھے اور آخری مرحلے پر حضرت عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ سے نکل کر محض چند ساتھیوں کے ہمراہ شامیوں کے اس عظیم لشکر پر حملہ کیا اور بڑی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے جب وہ چند ساتھی بھی ایک ایک کر کے کام آ گئے اور خود ان پر دشمنوں نے چاروں طرف سے پتھروں اور تیروں کی بارش شروع کر دی تو دنیا کا یہ عظیم الشان بہادر ومتقی انسان داد شجاعت دیتا ہوا بڑی مظلومیت کے ساتھ جمادی الثانی ٧٣ھ کی ایک خوں آشام تاریخ میں اس طرح شہید ہوا کہ اس وقت میدان جنگ میں بہادری و  شجاعت، زہد و عبادت اور ہست و شرافت کے علاوہ کوئی انسان ان کی مبارک لاش پر کف افسوس ملنے والا بھی موجود نہیں تھا۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کا وہ واقعہ ہے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ نے فتنہ احلاس کا مصداق قرار دیا ہے۔

فتنہ مختار کی تفصیل

فتنہ سرا کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ فتنہ بھی مختار کے فتنہ و فساد کی صورت میں ظہور پذیر ہو چکا ہے۔ مختار وہ شخص تھا جس نے پہلے تو مکر و فریب کے ذریعے پھر باقاعدہ جنگ کر کے اہل عراق پر تسلط حاصل کر لیا تھا اور اپنی اس کاروائی کے لئے حضرت محمد بن الحنفیہ کی اجازت اور اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تائید و نصرت کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کا واقعہ بھی تھوڑی سی تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس شخص کا اصل نام مختار بن عبیدہ ابن مسعود ثقفی تھا۔ کوفہ (عراق) میں رہتا تھا اور شیعان علی میں سے تھا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کی دعوت پر جب کوفہ جانا طے کر لیا اور پہلے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا تاکہ وہ پوشیدہ طور پر کوفہ میں کام کر کے لوگوں سے ان کے نام پر بیعت لیں تو مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر اسی مختار بن عبیدہ کے مکان پر فروکش ہوئے تھے پھر اس سلسلے میں جو کچھ پیش آیا اور حادثہ کربلا واقع ہوا وہ سب بہت مشہور واقعات ہیں۔ کربلا میں شہادت حسین کے سانحہ کے بعد کوفہ میں ایک جماعت  توابین کے نام سے معرض وجود میں آئی جس کا سردار سلیمان بن صرد تھا یہ جماعت کوفہ کے ان لوگوں پر مشتمل تھی جو یہ کہا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کی بے وفائی کی وجہ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا میں جام شہادت نوش کرنا پڑا اور ہم اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تائب ہوتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ اس جرم کی تلافی کے طور پر خون حسین کا انتقام لیں گے اور ہر اس شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے، جس نے قتل حسین میں ذرا بھی حصہ لیا ہے۔ مختار بن عبیدہ چونکہ پہلے ہی سے اپنی مختلف سازشوں کے ذریعے عراق پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا تھا اور اس مقصد کے لئے قاتلان حسین کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں اپنے گرد جمع کر رہا تھا، اس لئے اس نے توابین کی جماعت سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ کر لیا اور جماعت کے لوگوں اور ان کے ہمنواؤں کو جمع کر کے کہا کہ تمہارا سردار سلمان تو ایک پست ہمت آدمی ہے، لڑنے سے جان چراتا ہے، لہٰذا امام مہدی محمد بن الحنفیہ نے جو حضرت امام حسین کے بھائی ہیں مجھے کوفہ میں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، تم لوگ میرے ہاتھ پر بیعت کر لو اور خون حسین کا بدلہ لینے کے لئے میرے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ، چنانچہ کوفہ کے وہ تمام لوگ جو شیعان حسین کہلاتے تھے، مختار کے ہاتھ پر بیعت ہونے لگے اس وقت عراق پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کا قبضہ تھا اور کوفہ میں ان کی طرف سے عبداللہ بن یزید گورنر تھے انہیں جب مختار کی سرگرمیوں اور اس کے حقیقی ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے مختار کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا، لیکن توابین کی جماعت کا سردار سلیمان ابن صرد بہرحال اپنی جنگی تیاریوں میں پہلے ہی سے مصروف تھا، وہ ستر ہزار مسلح افراد کا لشکر لے کر عبداللہ بن زیاد کے خلاف جنگ کرنے چلا جو کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والی کارروائیوں کا تمام تر ذمہ دار تھا اور مروان بن حکم کی طرف سے موصل میں بحیثیت گورنر تعینات تھا، پھر عین الوردہ کے مقام پر عبداللہ بن زیاد کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا اور کئی دن کی جنگ کے بعد خود سلیمان بن صرد اور جماعت توابین کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے فوج میں سے جو لوگ باقی بچے وہ وہاں سے بھاگ کر کوفہ واپس آ گئے، کوفہ میں مختار نے جیل سے جہاں وہ قید تھا ان لوگوں کو ہمدردی کا پیغام بھیجا اور تسلی دلائی کہ تم لوگ غم نہ کرو، اگر میں زندہ رہا تو خون حسین کے ساتھ تمہارے مقتولین کے خون کا بدلہ بھی ضرور لوں گا، اس کے بعد اس نے کسی کے ذریعے سے جیل کے اندر ہی سے ایک خط حضرت عبداللہ بن عمر کے نام مدینہ بھیجا جس میں یہ درخواست کی کہ عبداللہ بن یزید گورنر کوفہ سے سفارش کر کے مجھے رہائی نصیب فرمائیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے گورنر کوفہ کو سفارشی خط لکھ دیا اور گورنر نے ان کی سفارش کی تکریم میں مختار کو اس شرط پر جیل سے رہا کر دیا کہ وہ کوفہ میں کوئی شورش نہیں پھیلائے گا اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے گا۔ اس مکار نے جیل سے آنے کے بعد کوفہ والوں اور بالخصوص شیعان حسین پر یہ ظاہر کیا کہ یہ میری روحانی طاقت اور کرامت تھی جس نے جیل کے دروازے وا کرا دئیے اور میں باہر آ گیا۔ ادھر کسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن زبیر نے عبداللہ بن یزید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن مطیع کو مقرر کر دیا، مختار نے اس عزل و نصب کو بھی اپنی کرامت ظاہر کیا اور پرانے حاکم کے کوفہ سے چلے جانے کے بعد تمام پابندیوں کو توڑ کر آزادانہ طور پر اپنی سازشی کارروائیوں میں مصروف ہو گیا، اس نے مکر و فریب اور عیاریوں کے ذریعے کوفہ والوں پر اپنی روحانی بزرگی و کرامت کا کچھ ایسا سکہ جمایا کہ لوگ دھڑا دھڑ اس کے مرید ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جماعت حیرت انگیز طور پر ترقی کر گئی، کوتوال شہر نے اس کی جماعت کی ترقی اور اس کی سازشی تحریک سے گورنر کو مطلع کیا اور دارالامارۃ (گورنر ہاؤس) سے اس کے خلاف کارروائی کرنے تیاری بھی ہوئی مگر وقت گزر چکا تھا اور مختار نہایت عیاری کے ساتھ حکام کے ہاتھ لگنے سے بچ گیا اور روپوش ہو کر اپنی جماعت کو ایک باضابطہ فوج میں تبدیل کر دیا اور کوفہ پر قبضہ کرنے کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہو گیا ادھر اس نے محمد بن الحنفیہ کو پوری طرح شیشے میں اتار ہی رکھا تھا چنانچہ جب مختار نے کوفہ کے بعض دوسرے با اثر حضرات کو قاتلان حسین کے خلاف بھڑکا کر اپنے ساتھ ملانا چاہا اور محمد بن الحنفیہ کی نیابت کا دعویٰ کیا اور ان لوگوں نے کچھ آدمیوں کو اس کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے محمد بن الحنفیہ کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا کہ ہاں مختار کا خون حسین کا بدلہ لینے کی ہم نے اجازت دی ہے۔ اس تصدیق نے مختار کو بہت تقویت پہنچائی آخر کار ایک دن رات کے اندھیرے میں مختار نے اپنی جماعت کے مسلح افراد کے ساتھ خروج اختیار کیا اور کوفہ کے گلی کوچوں میں لڑائی چھڑ گئی، کافی سخت مقابلہ آرائی کے بعد سرکاری فوج کو شکست ہو گئی اور عبداللہ بن مطیع گورنر کوفہ کو دارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا اور پھر تین دن کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح دارالامارۃ سے چھپ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے مختار نے سرکاری دفاتر اور بیت المال پر قبضہ کر لیا اور کوفہ کے لوگوں سے محمد بن الحنفیہ کے نام پر بیعت لینے لگا اور پورے شہر پر اس کا تسلط قائم ہو گیا، کچھ ہی دنوں کے بعد کوفہ کے لوگ مختار کے خلاف ہو گئے مگر مختار نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان پر بھی قابو پا لیا اور پورے شہر میں اس طرح قتل عام کرایا کہ کوفہ کا کوئی بھی گھر ایسا نہیں بچا جس میں سے ایک یا دو یا اس سے زائد آدمی قتل نہ کئے گئے ہوں اس نے قاتلان حسین سے بھی انتقام لیا اور جس جس نے میدان کربلا میں کوئی حصہ لیا تھا ان میں سے ہر ایک کا سر تن سے جدا کرا دیا ایک طرف تو وہ کوفہ پر تسلط پانے کے بعد دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کاروائیوں میں مصروف رہا اور دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کرسی کھٹراگ کھڑا کر کے لوگوں کو اپنی غیر معمولی روحانی طاقتوں کا معتقد بنانے میں لگا رہا اور رفتہ رفتہ نبوت کے دعووں تک پہنچ گیا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر کو معلوم ہوا کہ مختار نہ صرف یہ کہ کوفہ میں لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے اور اہل کوفہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسرے علاقوں کو بھی ہتھیانے کے منصوبے بنا رہا ہے بلکہ یہ مشہور کرنے لگا ہے کہ میرے پاس جبرائیل امین آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں اور میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں تو انہوں نے اس کے استیصال میں مزید تاخیر کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور اپنے بھائی مصعب بن زبیر کو بصرہ کا گورنر مقرر کر کے مختار کے فتنہ کی سرکوبی کی مہم ان کے سپرد کی، چنانچہ حضرت مصعب اپنی فوج کو لے کر کوفہ کی طرف چلے، ادھر جب مختار کو اس فوج کشی کا علم ہوا تو وہ بھی اپنا لشکر لے کر کوفہ سے نکلا، دونوں فوجوں کا مدارا نامی گاؤں کے قریب مقابلہ ہوا اور خوب زور و شور کی لڑائی ہوئی آخر کار مختار شکست کھا کر کوفہ بھاگا اور دارالامارۃ میں قلعہ بند ہو گیا۔ حضرت مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کوفہ پہنچ کر دارالامارۃ کا محاصرہ کر لیا، مختار سامان رسد کی کمی سے مجبور ہو کر قلعہ کا دروازہ کھول کر باہر آیا اور آخری مرتبہ مقابلہ کیا لیکن جلد ہی موت کے گھاٹ اتر گیا اور اس طرح کوفہ کا یہ فتنہ ختم ہو گیا۔

مروان کا قصہ

حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کے بعد لوگ ایک ایسے شخص کی بیعت پر اتفاق کر لیں گے جو پسلی کی ہڈی کے اوپر کولہے کی مانند ہو گا۔ تو حضرت شاہ صاحب نے اس کا مصداق مروان بن حکم کو قرار دیا ہے۔ مروان بن حکم کی خلافت کا قصہ اگرچہ مختار کے فتنہ سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور جس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر کی فوج نے اس کو کوفہ میں قتل کر کے اس فتنہ کی سرکوبی کی اس وقت مروان بن حکم کا انتقال ہو چکا تھا اور بنو امیہ کی خلافت کا جانشین عبدالملک بن مروان مقرر ہو چکا تھا لیکن اگر اس لفظی تقدیم وتاخیر سے صرف نظر کر کے دیکھا جائے تو حضرت شاہ صاحب کے بیان کردہ اس مصداق کو صحیح ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ مروان بن حکم وہی تھا جس نے معاویہ بن یزید بن معاویہ کے انتقال کے بعد پورے عالم اسلام پر حضرت عبداللہ بن زبیر کی قائم ہو جانے والی خلافت کو چیلنج کیا اور مختلف سازشوں کے ذریعے دمشق میں اپنی خلافت پر بیعت کرنے کے لئے لوگوں کو مجبور کر دیا، چنانچہ بنو امیہ کے علاوہ شام کے دیگر قبائل بنو کلب اور عنان و طے وغیرہ نے اس کی خلافت پر اتفاق کر لیا، اور پھر اسی وقت سے افتراق و انتشار اور فتنہ و فساد کا سلسلہ شروع ہو گیا جس نے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا اور ملی طاقت کو اس طرح منتشر کر دیا کہ کافی عرصے تک مسلمان آپس میں برسر پیکار رہے اور جس قوت کو دشمنان دین کے خلاف استعمال ہونا چاہئے تھا وہ مختلف علاقوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ مروان بن حکم عیار و چالاک ہونے کے باوجود قوت فیصلہ، بصیرت و تدبر اور رائے و مزاج کے استقلال و استحکام جیسے وہ اوصاف نہیں رکھتا تھا جو ملی نظم و نسق اور مملکت کے سیاسی استحکام کے لئے اشد ضروری تھے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جس زمانے میں معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد دمشق میں انتخاب خلیفہ کے متعلق اختلاف ہوا اور شام میں بنو امیہ کے حامی مددگار و طاقتور اور مقتدر قبائل بنو کلب اور بنو قیس کے درمیان رقابتیں آشکارا ہونے لگیں تو مروان نے یہ دیکھ کر کہ نہ صرف عراق بلکہ شام کا بھی ایک بڑا حصہ حضرت عبداللہ بن زبیر کی خلافت کو تسلیم کر چکا ہے، ارادہ کیا تھا کہ دمشق سے روانہ ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہو اور اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خلافت کا وفادار ہو جائے بلکہ اس نے سفر کا سامان بھی درست کر لیا تھا لیکن اس دوران عبداللہ بن زیاد دمشق آ گیا جب اس کو مروان کے اس ارادے کا علم ہوا تو اس نے مروان کو باصرار اس ارادے سے باز رکھا اور اس بات پر ہموار کر لیا کہ وہ خلافت کے امیدوار کی حیثیت سے بیعت لینا شروع کر دے، چنانچہ مروان کی خلافت دراصل عبداللہ بن زیاد کی کوششوں کا نتیجہ تھی، اگر مروان میں مستقل مزاجی، رائے کی پختگی اور تدبر و دور اندیشی کا جوہر ہوتا تو وہ کسی قیمت پر ابن زیاد کی رائے نہ مانتا اور اپنے ارادے میں اٹل رہ کر حضرت عبداللہ بن زبیر کی خدمت میں چلا جاتا اور اس کی وجہ سے جو فتنے پیدا ہوئے اور پوری ملت کو جس نقصان و ضرر میں، مبتلا ہونا پڑا شاید اس کی نوبت نہ آتی۔

 

فتنہ دہیما کا مصداق

 فتنہ دہیما کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ترکوں (تاتاریوں) کے اس قبضہ و تسلط کی پیشین گوئی فرمائی جس نے اسلامی شہروں کو تاراج کیا اور مسلمانوں کو سخت ترین تباہی و بربادی سے دوچار کیا، چنانچہ اس وقت جس جس نے ترکوں کی حمایت کی اور ان کے معاون بنے وہ منافقین کے زمرے میں شمار کئے گئے یہ ساتویں صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے جب کہ خلافت عباسیہ کا آخری فرمانروا مستعصم باللہ بن مستنصر باللہ بغداد کے تخت خلافت پر متمکن تھا، یہ انتہائی کم ہمت، بے حوصلہ اور غیر مدبر خلیفہ تھا اس نے اپنا وزیر موئد الدین علقمی کو بنا رکھا تھا جو نہایت متعصب اور بد باطن شیعہ تھا علقمی نے عہد وزارت پر فائز ہوتے ہی اپنی عیاریوں اور چالاکیوں سے خلیفہ کو عضو معطل بنا کر خود سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا، اس کی شروع سے یہ خواہش تھی کہ کسی طرح عباسیوں کا نام و نشان ختم کر کے بغداد میں علویوں کی خلافت قائم ہو جائے اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس نے ایک غیر ملکی طاقت یعنی تاتاریوں سے ساز باز کر لی اور چنگیز خاں کے پوتے ہلاکو خان کو دعوت دی کہ تم اپنی فوج لے کر بغداد پر حملہ کر دو، میں نہایت آسانی کے ساتھ تمہیں بغداد کی خلافت اور اس کے زیر تسلط دوسرے علاقوں اور ممالک پر قبضہ کرا دوں گا، ہلاکو خاں کو شروع میں تو اس کی دعوت قبول کرنے میں تامل ہوا کیونکہ اہل بغداد کی شجاعت و بہادری اور خلافت کی ہیبت سے مرعوب تھا لیکن جب علقمی نے مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعے بغداد کی فوج کا بہت بڑا حصہ دور دراز کے علاقوں اور شہروں میں منتشر کرا دیا اور باقی ماندہ فوجیوں کے ذریعے شہر میں بعض اقدامات کرا کے لوٹ مار کا بازار گرم کرا دیا جس سے سخت ابتری اور انتشار پھیل گیا اور ہلاکو خان کو معلوم ہو گیا کہ خلافت کی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے اور خلیفہ کی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے اور خلیفہ کی فوج کسی بڑے عملے کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہے تو ہلاکو خان نے اس دعوت کو قبول کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کی، علقمی نے ایک چال اور اختیار کی اس نے بغداد کے شیعوں کی طرف سے ہلاکو خان کو کثیر تعداد میں بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت پر مشتمل خطوط روانہ کر ا دئیے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بطور پیشین گوئی ہمیں خبر دی تھی کہ فلاں سن میں فلاں تاتاری سردار بغداد و عراق پر قبضہ کر لے گا اور ہمارا یقین ہے کہ وہ فاتح سردار آپ ہی ہیں اس بات سے ہلاکو خان کے ارادے کو اور تحریک ملی، ادھر خود ہلاکو خان کے دربار میں ایک شیعہ نصیرالدین طوسی پہلے سے موجود تھا اور علقمی کی طرح وہ بھی عباسیوں کی خلافت ختم کرانے کے درپے تھا، اس نے بھی مختلف ترغیبات اور لالچ کے ذریعے ہلاکو خان کے ارادے کو بہت تقویت پہنچائی۔

 چنانچہ ہلاکو خان نے پہلے تو ایک زبردست فوج ہر اول دستے کے طور پر بغداد کی طرف روانہ کی جس کا مقابلہ خلیفہ کی کمزور فوج سے ہوا اور شروع میں اس فوج نے کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر انجام کار شکست سے دوچار ہوئی اور تاتاریوں کا ہر اول دستہ کامیاب رہا، پھر ہلاکو خان ایک بہت بڑی فوج لے کر بغداد کے اوپر چڑھ آیا اور شہر کا محاصرہ کر لیا، اہل شہر نے اس کا مقابلہ کیا اور پچاس روز تک تاتاریوں کو شہر میں گھسنے نہیں دیا۔ لیکن بغداد کے شیعوں نے نہ صرف یہ کہ خفیہ طور پر ہلاکو خان سے اپنے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کر لی تھی بلکہ شہر کے حالات اور فوجی اطلاعات بھی ہلاکو خان کو پہنچاتے رہے پھر علقمی نے ایک اور سازش کی، اس نے خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لئے امن و تحفظ کی ضمانت حاصل کر لی ہے، آپ ہلاکو خان کے پاس چلیں وہ آپ کے ساتھ اعزاز و تکریم سے پیش آئے گا اور مفاہمت کر کے آپ کو بغداد و عراق کا حکمراں باقی رکھے گا۔ خلیفہ علقمی کے بہکاوے میں آ کر اپنے بیٹے کے ساتھ شہر سے نکل کر ہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا، ہلاکو خان نے خلیفہ کو دیکھ کر کہا کہ آپ اپنے اراکین سلطنت اور شہر کے علما و فقہا کو بھی یہیں بلوا لیجئے چنانچہ خلیفہ نے ان سب کو حکم بھیج کر وہاں بلوا لیا، جب سب لوگ آ گئے تو ہلاکو خان نے خلیفہ کے سامنے ہی ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کروا دیا اس کے بعد ہلاکو خان نے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دو کہ اہل شہر ہتھیار رکھ کر شہر سے باہر آ جائیں، خلیفہ نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا، اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کو قتل کرنا شروع کیا شہر کے تمام سوار پیادے اور شرفا کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں کاٹ ڈالے گئے، شہر کی خندق ان کی لاشوں سے بھر گئی اور اس قدر خون بہا کہ اس کی کثرت سے دریائے دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا، تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے عورتیں اور بچے اپنے سروں پر قرآن شریف رکھ کر نکلے مگر تاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا اور ان ظالموں نے بغداد اور اس کے مضافات میں چن چن کر لوگوں کو قتل کیا، شہر بغداد میں صرف چند شخص جو کنویں اور دوسری پوشیدہ جگہوں میں چھپے ہوئے رہ گئے، زندہ بچے، باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ اگلے دن یعنی ٩صفر ٦٥ھ کو ہلاکو خان، خلیفہ مستعصم باللہ کو ہمراہ لے کر بغداد میں داخل ہوا اور قصر خلافت میں پہنچ کر دربار کیا، خلیفہ سے تمام خزانوں کی کنجیاں لے لیں، جتنے دفینے تھے سب حاصل کئے، پھر خلیفہ کو نظر بند کر دیا گیا اور بھوکا پیاسا رکھا گیا، اس کے بعد جب ہلاکو خاں نے خلیفہ مستعصم کے مستقبل کے بارے میں اپنے اراکین سے مشورہ کیا تو سب نے رائے دی کہ اس کو قتل کر دینا چاہئے لیکن بدبخت علقمی اور طوسی نے کہا کہ نہیں تلوار کو اس کے خون سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کو نمدے میں لپیٹ کر لاتوں سے کچلوانا چاہئے، چنانچہ یہ کام علقمی ہی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کو نمدے میں لپیٹ کر اور ایک ستون سے باندھ کر اس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا۔ پھر اس کی لاش کو زمین پر ڈال کر تاتاری سپاہیوں کے پیروں سے روندوا کر پارہ پارہ اور ریزہ کروا دیا اور خود دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کا انتقام لے رہا ہوں غرض یہ کہ بدنصیب خلیفہ کی لاش کو گور و کفن بھی نصیب نہیں ہوا اور اس طرح خاندان عباسیہ کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا اس کے بعد ہلاکو خان نے شاہی کتب خانہ کو بھی نہیں بخشا، جس میں بے شمار کتابوں کا ذخیرہ تھا، یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں جس سے دریا میں ایک بند سا بندھ گیا اور بتدریج پانی ان سب کو بہا لے گیا، دجلہ کا پانی جو بغداد و مضافات کے مقتولین کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب ان کتابوں کی روشنائی سے سیاہ ہو گیا اور عرصہ تک سیاہ رہا۔ تمام شاہی محلات کو لوٹ کر مسمار کر دیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھوں بغداد اور مضافات بغداد میں جو قتل عام ہوا اس کے نتیجے میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے۔ غرض یہ کہ وہ ایسی عظیم الشان اور ہیبت ناک خونریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی اور اسلام پر ایک ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کو قیامت صغریٰ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس سانحہ عظمی کا سب سے زیادہ عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ علقمی نے جس علوی خلافت کے قیام اور اپنی حکمرانی کی خواہش کے تحت اتنی عظیم الشان تباہی وبربادی کے اسباب پیدا کئے اور پورے عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچنے کا باعث بنا، اس کے ہاتھ کچھ نہ لگا، ہلاکو خان نے کسی ہاشمی یا علوی کو خلیفہ و حکمران بنانے کے بجائے اپنے آدمیوں کو عراق میں حاکم بنا دیا، علقمی نے بہت چالیں چلیں ہلاکو خان کے آگے رویا گڑگڑایا اور لاکھ منت سماجت کی لیکن ہلاکو خان نے اس کو اس طرح دھتکار دیا جس طرح کتے کو دھتکار دیتے ہیں کچھ دنوں تک علقمی غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا پھرا، آخر اپنی منافقت و غداری کا عبرتناک حشر دیکھ کر ناکامی و مایوسی کے غم سے بہت جلد مر گیا اس سانحہ کے بعد بغداد دار الخلافہ بھی نہیں رہا اور خلیفہ مستعصم باللہ کے بعد تین سال کا ایسا عرصہ گزرا جس میں دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں تھا۔

زمانہ نبوی کے بعد عرب میں ظہور پذیر ہونے والے فتنہ کی پیشین گوئی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ افسوس اور بدنصیبی عرب کی کہ برائی کے فتنے کا ظاہر ہونا قریب آ گیا، اس فتنہ میں وہی شخص نجات یافتہ اور فلاح یاب رہے گا جس نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ (ابو داؤد

 

تشریح

 

 طیبی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعے عرب کے اس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں پیش آیا اور جس نے مسلمانوں کے باہمی افتراق و انتشار، خروج و بغاوت اور بدامنی وخانہ جنگی کی صورت میں نہ صرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جام شہادت نوش کرنے پر مجبور کیا بلکہ اس کا سلسلہ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی آویزش کی صورت میں بہت دنوں تک جاری رہا اور اسلام اور مسلمانوں کو کافی نقصانات برداشت کرنا پڑے۔ لیکن ملا علی قاری کا کہنا یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کا مصداق حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف یزید بن معاویہ کی وہ کارروائی ہے جس کے نتیجے میں امام عالی مقام کربلا کے میدان میں شہید ہوئے۔ معنی کے اعتبار سے یہ قول زیادہ صحیح اور حدیث کے قریب تر ہے کیونکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ ایک ایسا فتنہ تھا جس کی برائی میں عرب وعجم میں سے کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں۔

فتنہ و فساد سے دور رہنے والا شخص نیک بخت ہے

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یقیناً نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو، یقیناً نیک بخت وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو (گویا آپ نے بات کی اہمیت کو زیادہ موثر اور تاکیدی انداز میں بیان کرنے کے لئے یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا) اور یقیناً نیک بخت وہ شخص بھی ہے جو فتنہ میں مبتلا کیا گیا لیکن اس نے صبر و ضبط کا دامن پکڑے رکھا اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو نہ فتنوں سے محفوظ رکھا گیا اور نہ اس نے صبر و بط اختیار کیا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  واھا  کے معنی ہیں افسوس، حسرت اور کبھی یہ لفظ عجب، یعنی خوشی ظاہر کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، پس اگر یہاں یہ لفظ اظہار افسوس و حسرت کے معنی میں لیا جائے تو کہا جائے گا کہ  فواھا  کا لفظ ما قبل جملہ یعنی لمن ابتلی فصبر سے الگ ہے اور ایک ایسے جملے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جو اگرچہ لفظوں میں مذکور نہیں ہے لیکن اس کا مفہوم مراد لیا گیا ہے، اس صورت میں پوری عبارت گویا یوں ہو گی کہ یہ اور قابل افسوس وہ شخص ہے جو فتنوں سے محفوظ نہ رکھا گیا ہو اور فتنوں میں مبتلا ہونے کی صورت میں اس نے صبر و ضبط اختیار نہ کیا ہے۔ اس طرح ما قبل جملہ لمن ابتلی فصبر میں لفظ لمن کے لام کو مفتوح قرر دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں  واھا  کے معنی عجب یعنی خوشی کو ظاہر کرنا، مراد ہوں تو اس صورت میں فواھا کسی علیحدہ جملے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے نہیں ہو گا یا یہ کہ ما قبل جملہ لمن ابتلی فصبر سے جڑا ہوا سمجھا جائے گا اور اس جملے کا ترجمہ یوں ہو گا کہ فتنوں سے محفوظ رہنا اور اگر فتنے میں مبتلا ہو جائے تو صبر و ضبط اختیار کرنا کتنی اچھی اور خوش کرنے والی بات ہے؟ چنانچہ بعض محدثین نے جو یہاں لمن ابتلی فصبر میں لمن کے لام کو زیر کے ساتھ پڑھا اور لکھا ہے اور اس کو فواھا کے متعلق کہا ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں واھا کا لفظ عجب، یعنی اظہار خوشی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

چند پیشین گوئیاں

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب میری امت میں آپس میں تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک امت کے لوگوں کے قتل و قتال سے باز نہیں رہے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میری امت میں سے تیس جھوٹے (یعنی نبوت کا دعویٰ کرنے والے) ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ خدا کا نبی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق پر ثابت قدم رہے گی (یعنی عملی طور پر بھی اور علمی طور پر بھی دین کے صحیح راستے پر چلنے والی ہو گی اور دشمنان دین پر غالب رہے گی) اس جماعت کا کوئی بھی مخالف وبدخواہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا (کیونکہ اس جماعت کے لوگ دین پر ثابت قدم اور برحق ہونے کی وجہ سے خدا کی مدد و نصرت کے سایہ میں ہوں گے) تا آنکہ خدا کا حکم آئے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ کو بعض مسلمانوں کی وجہ سے میری امت میں باہمی محاذ آرائی آپس میں قتل و قتال کی سیاست کو عمل و دخل کا موقع مل گیا تو پھر مسلمانوں کی باہمی خونریزی اور ایک دوسرے کے خلاف تشدد و طاقت کے استعمال کا ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو قیامت تک ختم نہیں ہو گا اور ہمیشہ میری امت کے لوگ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں اپنی ہی صفوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمانا بالکل صحیح ثابت ہوا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے سے مسلمانوں کی جو باہمی محاذ آرائی شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

  جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پیشین گوئی کا کچھ حصہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد ہی سامنے آ گیا تھا جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں عرب کے چند قبائل کچھ شرپسندوں اور منافقین کے فریب میں آ کر ارتداد میں مبتلا ہو گئے اور کفر و شرک کی طاقتوں کے ساتھ مل گئے تھے، لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فراست و دانش مندی اور قوت فیصلہ کی مضبوطی و اولوالعزمی نے ان مرتدین کا استیصال کر دیا تھا۔

  جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے میں بتوں کا پوجنا اگر حقیقی معنی میں مراد ہے تو کہا جائے گا کہ شاید آئندہ زمانے میں کوئی وقت ایسا بھی آئے جب مسلمانوں کے کچھ طبقے ایمان واسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود، واقعۃً بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ویسے موجودہ زمانے میں بھی ایسے مسلمانوں کا وجود بہرحال پایا جاتا ہے جو قبر پرستی اور تعزیہ کی پرستش وغیرہ کی صورت میں اپنی پیشانیاں غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس جملے میں بتوں کو پوجنے والی بات اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اسے مجازی اور معنوی صورت مراد ہے تو پھر اس کے محمول کی بہت صورتیں ہو سکتیں ہیں جو ہر زمانے میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک صورت مال و دولت اور جاہ و اقتدار وغیرہ کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی واحد آماجگاہ بنا لیتا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا ایک محمول وہ لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔ تعس عبدالدیناوعبدالدرہم۔ درہم و دینار یعنی مال و دولت کے غلام ہلاک ہوں۔ لفظ  خاتم ت کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اور وانا خاتم النبیین کے جملہ نحوی قاعدہ کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے نیز لانبی بعدی کا جملہ اپنے پہلے جملہ یعنی وانا خاتم النبیین کی تفسیر و وضاحت کے طور پر ہے۔

  تآنکہ خدا کا حکم آئے میں خدا کے حکم سے مراد قیامت ہے یا دین کا اس طرح تسلط و غلبہ پا لینا مراد ہے کہ روئے زمین پر کفر کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے۔ نیز حتی یاتی الخ کا جملہ، لفظ لاتزال سے متعلق ہے۔

ایک پیشین گوئی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اسلام کی چکی پینتیس برس یا چھتیس برس یا سینتیس برس تک گھومتی رہے گی پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے تو اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر چل کر پہلے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اگر ان کے دین کا نظام کامل وبرقرار رہا تو ان کے دینی نظام کی تکمیل وبرقرار کا وہ سلسلہ ستر برس تک رہے گا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر پوچھا کہ یہ سترہ برس بقیہ میں سے ہوں گے یا اس عرصے سمیت ہوں گے جو گزرا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دین کے نظام کی تکمیل وبرقرار کے لئے جس ستر سال کے عرصے کا ذکر فرمایا ہے آیا اس سے ستر سال کا وہ عرصہ مراد ہے جس کی اتبدا ٣٥یا ٣٦سال کا مذکورہ زمانہ گزرنے کے بعد ہو گی، یا وہ مذکورہ سال بھی اس ستر سال کے عرصے میں شامل ہیں اور اس کی ابتدا اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے مراد لی گئی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ مذکورہ سال بھی ان ستر سالوں میں شامل ہیں اور ستر سال کا عرصہ اس عرصہ سمیت ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانہ یا ہجرت کے وقت سے اب تک گزر چکا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

  اسلام کی چکی گھومتی رہے گی سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطلب یہ ہے تاکہ وہ زمانہ کہ جس میں دین کا نظام مستحکم و استوار رہے گا، احکام شریعت کی بھر پور حکمرانی ہو گی، مسلمانوں کے تمام دینی و دنیاوی معاملات قرآن و سنت کے مطابق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہیں گے اور دین و آخرت کی فتنہ و فساد سے محفوظ و مامون رہے گی، ٣٥ یا ٣٦ سال پر مشتمل ہو گا اور اس زمانے کی ابتدا ہجرت کے سال سے ہے کہ اسلام کے ملی سیاسی ظہور اور ملکی فتوحات کا سلسلہ ہجرت ہی سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ اسلام کی تاریخ کا وہ پہلا فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کی دینی وملی زندگی کو سخت دھچکا لگایا اور اسلام کی سیاسی طاقت باہمی افتراق و انتشار کی وجہ سے بہت مضمحل ہو گئی۔ یہ فتنہ ٣٥ھ میں ظاہر ہوا، اس کے بعد ٣٦ھ میں جنگ جمل ٣٧ھ میں جنگ صفین کے فتنے پیش آئے،جن سے مسلمانوں کے دین وملی نظام اور سیاسی استحکام کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے نہایت روح فرسا نتائج نکلے۔

 واضح رہے کہ لخمس وثلثین او ست وثلثین او سبع وثلثین (٣٥ برس یا ٣٦ برس یا ٣٧ برس) میں حرف او (بمعنی یا) تنویع کے لئے یا بل (بلکہ) کے معنی میں ہے۔

 ٣٥یا ٣٦ برس کے تعین کے سلسلے میں ایک وضاحت تو وہ ہے جو اوپر بیان کی گئی یعنی ابتدا تو سال ہجرت سے شمار کی جائے اور انتہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور پھر جنگ جمل و جنگ صفین کو قرار دیا جائے تو بالترتیب ٣٥ھ، ٣٦ھ، ٣٧ھ کے واقعات ہیں لیکن اس بارے میں ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کلام اس سال ارشاد فرمایا تھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے چند ہی سال باقی رہ گئے تھے اور اگر ان چند سالوں کو خلفا اربعہ کی مدت خلافت کے ساتھ جوڑا جائے تو ان سب کی مجموعی مدت اتنے ہی سالوں پر مشتمل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد گرامی میں ظاہر فرمائی۔ گویا اس قول کے مطابق ٥٣ یا ٦٣ یا ٧٣ سال کا ابتدائی تو اس کو قرار دیا جائے گا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی اور ان سالوں کا آخری سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سال آخر کو قرار دیا جائے گا، لہٰذا دین کے نظام کے استقرار و تکمیل سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ان مذکورہ سالوں میں دین کی پوری طرح محفوظ و مامون رہے گا کہ بدعت اور فکر و جمال کی لغزش تک کو دین میں راہ پانے کا موقع نہیں ملے گا اور ملک و ملت کا کوئی بھی کام شارع کے حکم کے خلاف نہیں ہو گا تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین کے سلسلے میں یہی وضاحت مناسب تر اور اولیٰ ہو گی اور اگر  دین کے استقرار اور تکمیل  سے مراد لیا جائے کہ ملک و ملت کے تمام کا انتظام و فتنہ و فساد سے پاک ہوں گے خلافت کا مسئلہ خوش اسلوبی اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ طے پاتا رہے گا اور مسلمانوں کے درمیان کوئی محاذ آرائی اور مخالفت و عناد کی صورت پیدا نہیں ہو گی تو پھر مذکورہ سالوں کے تعین میں وہ وضاحت مناسب تر ہو گی جو پہلے نقل کی گئی۔ ایک اور احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مذکورہ سالوں کی ابتدا اس وقت سے لگائی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا یعنی نبوت کا پہلا سال اس صورت میں ٣٥ برس کی مدت کا اختتام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام پر ہو گا یہ احتمال اس اعتبار سے قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد دین و ایمان کی سلامتی، سنت کی اتباع، جماعتی اتحاد و اتفاق، مسلمانوں کی باہمی قلبی محبت و رواداری اور دین و ملت کا اخلاق و سیاسی استحکام جس زمانے میں بت عمدہ اور نہایت خوبی کے ساتھ تھا، وہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ہی خلافت کا زمانہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک دو سال کے بعد ہی جو صورت پیدا ہو گئی اور دین و ملت کے نظم و استحکام کے منافی جو حادثات و واقعات ظاہر ہونے شروع ہوئے وہی ان فتنوں کا باعث جنگی حشر سامانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو نہایت مکدر کر رکھ دیا۔

  پھر اگر لوگ ہلاک ہوں گے الخ کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ سالوں میں دین و ملت کے اخلاق و سیاسی نظام میں استحکام و استقرار کے بعد اگر لوگ اپنے دین و ملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہو جائیں دین و آخرت کے امور میں سستی ٍو کوتاہی کا شکار اور گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں تو سمجھو کہ خطرناک راستے پر پڑ گئے ہیں جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے تباہی و بربادی اور ہلاکت مول لی تھی، چنانچہ پچھلی امتوں کے لوگ اسی لئے تباہ و برباد اور ہلاک کر دئیے گئے تھے کہ انہوں نے کجروی اختیار کر لی تھی، حق سے دور ہٹ گئے تھے، شرع احکام اور اپنے ملی معاملات میں اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے تھے، اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات کو ماننے میں سستی ٍو کوتاہی اور لاپرواہی برتنے لگے تھے اور گناہ و معصیت سے اجتناب نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ جو چیزیں انسان کی ہلاکت و تباہی کا سبب بنتی ہیں اور جن کو اختیار کر کے کوئی شخص ہلاکت میں مبتلا ہوتا ہے یہاں ان ہی اسباب کو ہلاکت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

  اگر ان کے دین کا نظام کامل و برقرار رہا الخ  کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان پہلے کی طرح اپنے امیر و خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہے، احکام شریعت اور دینی نظام کو برقرار رکھنے اور ان کی اتباع کرنے پر عامل رہے اور ملی اتحاد و اتفاق کے ذریعے اسلام کی شوکت کو بحال رکھنے میں مصروف رہے تو ان کے دو ملی اور سیاسی استحکام و برقرار کا سلسلہ ستر برس تک جاری رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ستر برس کی تحدید سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا حقیقی مفہوم پوری وضاحت کے ساتھ سامنے ہے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دینی و ملی نظام کے اخلاقی و سیاسی استحکام کے سلسلے میں جو بات پہلے ذکر کی جا چکی ہے کہ وہ یعنی دین و ملی استحکام ٣٥ یا  ٣٦ یا ٣٧ سال تک قائم رہے گا تو اسی کے اعتبار سے یہ بات کہی گئی ہے کہ مسلمانوں کے ملی و ملکی امور اور سیاسی و انتظامی معاملات آنے والے زمانہ کی بہ نسبت ان ستر سالوں میں زیادہ عمدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پاتے رہیں گے۔

 بہرحال اس حدیث کی تشریح میں یوں تو شارحین نے بہت زیادہ بحث کی ہے اور لمبی چوڑی باتیں لکھی ہیں لیکن قابل اعتماد و اعتبار مسلک و عقیدہ کے مطابق نیز حدیث کے الفاظ کی رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مختصر طور پر جو تشریح بیان کی جا سکتی تھی وہ یہاں نقل کر دی گئی ہے جو انشا اللہ کافی ہو گی۔ لیکن اگر اسی اختصار کے ساتھ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کے ان منقولات و فرمودات کو بھی بیان کر دیا جائے جو اس حدیث کی تشریح سے تعلق رکھتے ہیں تو حدیث کے فرمودات اور اس کے مصداق کی کچھ اور وضاحت ہو جائے گی۔ چنانچہ شاہ صاحب کے مطابق جو حدیث کا حاصل اور مصداق یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ زمانہ ہجرت کے بعد اسلام کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی حالات میں جو مضبوطی و استحکام پیدا ہوا ہے، وہ ٣٥،٣٦، سالوں تک یوں ہی چلتا رہے گا اور تمام دینی و ملی معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے پاتے رہیں گے، پھر اسلام کے دائرہ میں کچھ اضطراب واقع ہو جائے گا اور باہمی افتراق و انتشار جب کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔ پھر ٣٦ھ میں مزید بگاڑ واقع ہوا جب کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان محاذ آرائی ہوئی اور جس کو جنگ جمل کہا جاتا ہے اور اس کے بعد ٣٧ھ میں حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہو گئے اور اسلام و مسلمانوں کو سخت نقصان و تباہی سے دوچار ہونا پڑا۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان بڑی خوفناک جنگ جنگ صفین کے نام سے ہوئی اس کے بعد گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کے دینی اور ملی نظام میں اس خرابی کے واقع ہونے کے بعد اور باغیوں کے غالب آ جانے اور خلیفہ برحق مغلوبیت کی وجہ سے اگر لوگ دین و ملی نظام کو تباہ کرنے والے ان اعمال و اطوار کو اختیار کر کے ہلاک ہوں گے تو وہ اس راستے پر چلنے کی وجہ سے ہلاک ہوں گے جس پر پچھلی امتوں کے لوگوں نے چل کر ساتھ اپنی خلافت سے دست کش ہونا پڑا اور جس طرح ان کو گویا مغلوب ہونا پڑا جس کے نتائج آگے چل کر باہمی افتراق و انتشار اور جاہ اقتدا کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف قتل و قتال کی صورت میں رونما ہوئے اور اگر خلیفہ برحق کا اقتدار و تسلط قائم رہا اور باغیوں کو غالب آنے کا موقع نہ مل سکا تو مسلمانوں کا دین و ملی نظام آنے والے زمانوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ عمدگی کے ساتھ چلتا رہے گا اور یہ نظام ستر برس تک یوں ہی قائم رہے گا۔

 

شہادت عثمان رضی اللہ عنہ

حدیث کی تشریح میں تین ایسے واقعات کا ذکر آیا ہے جو اسلامی تاریخ میں نہایت روح فرسا نتائج کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں اور جن کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا پہلے ہی اشارہ فرما دیا تھا، یہ تینوں واقعات ہیں شہادت عثمان، جنگ جمل، اور جنگ صفین، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں واقعات پر مختصر انداز میں روشنی ڈالی جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ اور اس کے پس منظر کو بیان کیا جاتا ہے۔

 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے امیر و حکمران بنے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک مسلمانوں کے عام دینی و سیاسی اور ملکی و ملی معاملات ایک مستحکم خلافت کے تحت عمدگی و خوبی کے ساتھ چلتے رہے اور ان عوامل و اسباب کو سر اٹھانے کا موقع نہیں ملا جو خلافت کے استحکام اور ملی نظم و اتحاد کے خلاف کسی محاذ آرائی کا باعث بنتے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ابتدائی نصف حصہ بھی اسی نہج پر استوار رہا لیکن اس کے بعد کچھ ایسے اندرونی عوامل و اسباب پیدا ہو گئے اور اس کے ساتھ بعض ایسی بیرونی سازشیں حرکت میں آ گئیں جن سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا استحکام ڈانواں ڈول ہو گیا اور ملک و ملت کے دینی وسیاسی معاملات پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جہاں بے شمار اوصاف ان زندگی میں مابہ  الامتیاز حیثیت رکھتے وہاں ان میں ایک بڑا وصف علم و مروت، چشم پوشی و درگزر اور خاص طور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ بھی تھا، انہوں نے اخلاص نیت کے ساتھ اپنے ان عزیز و اقارب کو اونچے عہدوں اور مناصب پر فائز کیا جس کو وہ ان عہدوں کے لئے واقعۃً اور دیانۃً اہل اور مناسب جانتے تھے، نیز وہ چونکہ ذاتی طور پر بہت مالدار تھے اس لئے اپنے مال و دولت کے ذریعے اپنے عزیزوں کی خبر گیری رکھتے تھے اور ان کی مالی معاونت فرمایا کرتے تھے ادھر مسلمانوں کے ذہنی و فکری حالات میں بھی زمانہ کے تغیرات اور وسیع تر ماحول میں عالم خلط ملط کے اثرات سے کافی حد تک تبدیلی آ گئی تھی، چنانچہ کچھ مسلمانوں میں اور خاص طور پر ان مسلمانوں میں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے، اور جو قدیم قبائلی و علاقائی عصبیت کی گرفت سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، یہ شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ امیر المومنین اپنی خلافت کے ذریعے اپنے قبیلے اور اپنے خاندان کے لوگوں ہی کو منفعت پہنچا رہے ہیں۔ اگرچہ اس طرح کے لوگ ابھی بہت کم تھے اور عام لوگوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی بدگمانی اور شکایت پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن عین اسی وقت عبداللہ بن سبا نے اپنی مکر و سازش کا جال پھیلانے کا کام شروع کر دیا، عبداللہ بن سبا شہر صنعا کا رہنے والا ایک یہودی تھا اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمان ہی دنیا کی سب سے فاتح قوم بن گئی ہے اور اس قوم کو بہت زیادہ مال و حشمت حاصل ہے، مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمان بن کر رہنے لگا، اس کا اصل مقصد محض دولت و حشمت کا حصول ہی نہیں تھا بلکہ وہ اپنے ذہن میں مسلمانوں کی طاقت کمزور کرنے اور اسلام کی شوکت و حشمت کو ختم کرنے کی سازش بھی پنہاں رکھتا تھا، چنانچہ وہ مدینہ میں اپنی سازش کی تکمیل میں مصروف ہو گیا، وہاں جب کچھ کامیابی نہیں ہوئی تو بصرہ پہنچا۔

 بصرہ میں اس نے مختلف مکر و فریب اور ترغیبات و لالچ کے ذریعے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور طرح طرح بد عقیدگیوں کا پرچار شروع کیا، جب بصرہ کے گورنر کو اس کے حالات اور اس کی اصل حقیقت کا علم ہوا اور انہوں نے باز پرس کی وہاں اپنے حامیوں کی ایک جماعت کا چھوڑ کر کوفہ آ گیا جہاں پہلے ہی سے ایک جماعت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے عامل کے خلاف تھی یہاں عبد اللہ بن سبا کو اپنی سازش پھیلانے کا زیادہ موقع ملا اس کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی دوسری طرف وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کوئی ذاتی عداوت و عناد بھی رکھتا تھا اور ان سے انتقام لینے کی خواہش رکھتا تھا کچھ دنوں کے بعد اس کو کوفہ بھی چھوڑنا پڑا اور پھر دمشق پہنچ گیا دمشق میں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلد ہی اسے یہاں سے باہر شہر بدر ہونا چپڑا، یہاں سے نکل کر وہ مصر پہنچا اور وہاں اس نے زیادہ ہوشیاری اور اطاعت کے ساتھ کام شروع کیا، اور ایک باقاعدہ خفیہ جماعت کی تنظیم کی چونکہ اہل بیت کی محبت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلق کا دعویٰ بھی کرتا تھا لہٰذا اس فریب آویز دعویٰ کے ذریعے مصر میں اسے کامیابی حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے گرد جمع ہونا شروع کر دیا یہاں بیٹھ کر اس نے اسلامی سلطنت کے ان تمام علاقوں سے رابطہ قائم کیا، جہاں جہاں وہ گیا تھا اور اپنے کچھ حامیوں کی جماعت چھوڑ کر آیا تھا، اپنے ان حامیوں کے ذریعے ایک طرف تو اس نے مختلف علاقوں سے اہل مدینہ کے پاس یہ شکایتیں پہنچوائیں کہ عثمان کے عامل ماموں اور گورنر اپنے اپنے علاقوں کے لوگوں پر سخت ظلم و ستم کر رہے ہیں دوسری طرف اس نے عام مسلمانوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خویش پروری اور ان کے عاملوں اور گورنروں کے ظلم و ستم کے فرضی واقعات کا پروپیگنڈہ کر کے خلافت عثمان کے خلاف ناراضگی اور شورش پیدا کر دی، جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس شورش کا علم ہوا تو انہوں نے صورت حال کی طرف توجہ دی اور اپنے عاملین اور مشیروں کو جمع کر کے مشورہ کیا، کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ جو افراد یہ شورش پھیلانے کے ذمہ دار ہیں ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا جائے اور مجرمین کے ساتھ کوئی رعایت روا نہ رکھی جائے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی مروت و بردباری کی وجہ سے اس مشورے کو قبول نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں قرآن و حدیث کے حکم کے مطابق کسی شخص کو اس وقت تک قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ علانیہ مرتد ہوتے نہ دیکھ لوں اور اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے غرض معمولی تدابیر کے علاوہ سازشیوں کے مخالف کوئی سخت کارروائی نہیں ہوئی جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہو گئے اور وہ نہایت زور و شور کے ساتھ اپنی تخریبی کارروائیوں میں مصروف رہے اور اکثر علاقوں خاص طور پر مصر میں شورش پسندوں کے گروہ کے گروہ تیار ہو گئے جن کو مدینہ دھاوا بولنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے کی تربیت دی جانے لگی۔

 ادھر عبداللہ بن سبا کے لوگ مختلف علاقوں کے گورنروں و عاملوں کے خلاف جو فرضی شکایتیں اہل مدینہ کے پاس بھتیجے تھے ان کو اہل مدینہ صحیح سمجھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان گورنروں اور عاملوں کی معزولی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تفتیش و تحقیق سے چونکہ معلوم ہو جاتا تھا کہ تمام شکایتیں فرضی ہیں اس لئے وہ ان گورنروں اور عاملوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی حکومت کے خلاف بد گمانیوں اور شکایتوں کی ایک فضا بن گئی اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سرگوشیاں ہونا شروع ہو گئیں بلکہ لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں، یہ وہ زمانہ تھا جب عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے اور ان کے حامیوں کے گروہ ہر جگہ پیدا ہو چکے تھے جب اس نے دیکھ لیا کہ اس کی سازش آخری مرحلوں میں پہنچ گئی ہے، تمام علاقوں میں خلافت عثمان کے خلاف بد گمانیوں اور شکایتوں کا جال پھیلا دیا گیا ہے اور ہر جگہ میرے حامیوں کی خاصی تعداد جمع ہو گئی ہے تو اس نے ہر ہر علاقے سے اپنے مسلح آدمیوں کی بڑی تعداد، چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اور خفیہ طور پر مدینہ روانہ کی، اور پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ والوں نے دیکھا کہ باغیوں اور بلوائیوں کی ایک بڑی جماعت نعرہ تکبیر بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہو گئی ہے۔ عبداللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کی خلیفہ بنانے کا دعویٰ کر کے جن لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا ان تک اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک جعلی خط بھی گشت کرایا تھا جس میں گویا انہوں نے باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا، چنانچہ بلوائیوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے اس کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا، انہوں نے ان سے اس بات کا انکار کیا کہ میں نے تم لوگوں کی حمایت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے کبھی بھی تم لوگوں کو خط نہیں لکھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بلوائیوں کو ان کی سازش سے دور رکھنے کی بہت کوشش کی، دوسرے صحابہ نے اس معاملے کو سلجھانے کی سعی کی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بلوائیوں کے مطالبے پر مصر کے گورنر کو معزول بھی کر دیا لیکن اصل تحریک کا مقصد ہی محض شورش و بغاوت پھیلانا تھا اس لئے بلوائیوں کے لیڈروں نے صورت حال کو معمول پر لانے اور شورش کو دبانے کی تمام تدابیر کو ناکام بنا دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ رنگ اور مدینہ کے گلی کوچوں کو بلوائیوں سے دیکھ کر مختلف بلاد اسلامیہ کے گورنروں کو خط لکھ کر امداد طلب کی، اور ان بلاد سے سرکاری فوجیں بلوائیوں کی سرکوبی کے لئے مدینہ کی طرف روانہ بھی ہو گئیں لیکن بلوائیوں نے ان فوجوں کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کو گھیر کر ان کا محاصرہ کر لیا، اس موقع پر یہ ظاہر کر دینا نہایت ضروری ہے کہ اس صورت حال کو بگاڑنے میں بڑا دخل مروان بن حکم کا تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چچا زاد بھائی اور ان کا میر منشی و وزیر تھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مروت و چشم پوشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی بد اطواریوں، جعل سازیوں اور عوام مخالف اقدامات کے ذریعے عام مسلمانوں اور خصوصاً اہل مدینہ کو بہت زیادہ برہم کر رکھا تھا، اہل مدینہ نے اس موقع پر فائدہ ضرور اٹھانا چاہا کہ مروان کے خلاف وہ بھی بلوائیوں کے شریک حال ہو گئے لیکن ان کا مطالبہ صرف مروان کو اس کے عہدے سے معزول کر کے اہل مدینہ کے سپرد کر دینے کا تھا اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اہل مدینہ کا مطالبہ مان لیتے تو شاید بلوائیوں کو اپنے اصل مقصد میں زیادہ کامیابی نہ ہوتی کیونکہ پھر مدینہ کے لوگ بلوائیوں کی حمایت ترک کر کے پوری طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مروت کو گوارہ نہ کیا کہ وہ مروان کو اہل مدینہ کے حوالے کر کے ان کے ہاتھوں اس کے قتل ہو جانے کا منظر دیکھیں بہرحال جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی یہاں تک کہ ان کے مکان میں پانی جانے تک پر پابندی عائد کر دی اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ و دیگر جلیل القدر صحابہ کو یہ معلوم ہوا کہ اب بلوائی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کا دروازہ توڑ کر ان کو قتل کر دینا چاہتے ہیں تو ان سب سے اپنے صاحبزادوں اور دوسرے متعدد آدمیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر معمور کیا، اور ان لوگوں نے بڑی جوان مردی سے بلوائیوں کا مقابلہ کر کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا اور دروازے پر جم کر کھڑے ہو گئے، کچھ حضرات نے ان کے مکانوں کی چھتوں پر پہرہ دینا شروع کیا بلوائیوں نے یہ سوچ کر کہ باہر سے سرکاری فوجوں کی آمد سے پہلے بہت جلد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کام کسی نہ کسی طرح تمام کر دینا چاہئے یہ چال چلی کہ خفیہ طور پر ایک پڑوسی کے مکان میں گھس گئے اور دیوار پھاند کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں داخل ہو گئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جو محافظین تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے باغیوں کی کوشش اور نقل حرکت کی نگرانی کر رہے تھے، اور کچھ دروازے پر جمے ہوئے بلوائیوں کو اندر گھسنے سے روک رہے تھے، مکان کے اندر صرف عثمان رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا، بلوائیوں نے گھستے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی جو قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے، ان کی بیوی نے فوراً آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں، پھر تمام بلوائیوں نے زبردست ریلے کے ذریعے مکان کے اندر دھاوا بول دیا، گھر کا سارا سامان لوٹ لیا اور بڑی و ابتری مچائی، یہ المناک حادثہ ١٨ذی الحجہ ھ جمعہ کے روز ہوا تین روز تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی، پورے شہر پر بلوائیوں کا تسلط تھا، آخر بعض حضرات نے کوشش کرے کے تین دن کے بعد رات کے وقت ان کی نعش مبارک کو بغیر غسل دئیے ہوئے کپڑوں میں دفن کر دیا، نماز جنازہ حضرت جبیر ابن مطعم نے پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس ہولناک اور مظلومانہ شہادت کے ذریعے ان کا دور خلافت ختم ہو گیا اور بد بخت یہودیوں کی ایک تباہ کن سازش کو کامیاب ہونے کا موقع مل گیا۔

 

جنگ جمل

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ میں قاتلین عثمان اور بلوائیوں ہی کا دور دورہ تھا اس لئے سب سے پہلے انہوں نے اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا، عبداللہ بن سبا نے چونکہ اپنی پوری سازش اور تحریک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام اچھالا تھا اور ان ہی کو خلافت قائم کرنے کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا اس لئے قدرتی طور پر بلوائیوں کی کثرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرنے کی حامی تھی۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے ہی خلافت کے باغیوں سے اپنے تعلق کا انکار کیا تھا اور ان کی مدد کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا لیکن جب بلوائیوں نے ان سے اصرار کیا ادھر انہوں نے اہل مدینہ کی بھی کثرت آرا اپنے بارے میں دیکھی تو وہ خلافت کا بار سنبھالنے کے لئے تیار ہو گئے، تاہم جب لوگ بیعت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے صفائی سے کہہ دیا کہ جب تک اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ نہ تسلیم کر لیں میں بیعت نہیں لوں گا، یہ سن کر ان لوگوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا اصحاب بدر کو جمع کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے اور اس طرح ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے جس مطالبے کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے صرف دو اشخاص کا حلیہ بتایا لیکن ان کا نام نہ بتا سکیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا تشخص وتعین اور ثبوت فراہم ہوئے بغیر قاتلین عثمان کو سزا کیسے دے سکتے تھے۔ اس لئے قصاص کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی جب لوگوں نے بالخصوص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس مطالبہ پر اصرار کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں قاتلین عثمان سے قصاص ضرور لوں گا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملے میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر خلافت کا زور پوری طرح مستحکم نہیں ہوا ہے اس لئے فی الحال میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا، اطمینان اور استحکام حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی معاملے کی طرف توجہ کروں گا۔ بس اسی جگہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بدگمانی کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی، مسلمانوں بالخصوص بنو امیہ کے لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور قاتلان عثمان مزے اڑاتے پھریں گے، ادھر سبائیوں نے اس خوف سے کہ کہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل عثمان کے بدلے میں ہمیں یہ سزا نہ دینے لگیں، اپنی سازش میں لگ گئے اور کوشش کرنے لگے کہ خلافت کو استحکام نصیب نہ ہو اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور عداوت میں مبتلا ہو جائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حج کے لئے مکہ تشریف لے گئی تھیں وہاں سے مدینہ واپس آ رہی تھیں کہ راستے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ سن کر پھر مکہ لوٹ آئیں ان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی خبر بھی ملی ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلان عثمان کو سزا دینے میں تامل کر رہے ہیں، چنانچہ وہ مکہ آئیں اور لوگوں کو ان کی اس طرح واپسی کا حال معلوم ہوا تو وہ آ کر ان کی سواری کے گرد جمع ہو گئے انہوں نے مجمع کے روبرو تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں خود خون عثمان کا بدلہ لونگی۔ بنو امیہ کے تمام لوگوں اور مکہ کے عثمانی گورنر نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے مکہ آئے تو وہ دونوں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہو گئے، کچھ عرصہ تیاریوں میں لگا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے تمام حامیوں کو لے کر بصرہ روانہ ہوئیں تاکہ وہاں سے فوجی امداد لے کر آگے کی کاروائی شروع کریں راستے میں کچھ لوگ ان سے جدا بھی ہو گئے۔خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مقام پر یہ ارادہ کر لیا کہ اپنے ارادہ سے باز آ کر واپس ہو جائیں مگر مسلمانوں کو باہم محاذ آرا کرنے پر سازشیوں کے جو لوگ متعین تھے انہوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کارواں کو پھر آگے بڑھنا پڑا، بصرہ کے قریب پہنچ کر ام المومنین خیمہ زن ہو گی، گو امیر بصرہ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا مگر عام لوگوں نے ان کی حمایت کی اور ان کے لشکر میں شامل ہو گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنا وہ لشکر لے کر مقام امربد تک آ پہنچیں، اس کے بعد امیر بصرہ بھی اپنا لشکر لے کر وہاں آ گیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے، دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور گورنر بصرہ کی فوج شکست کھا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ام المومنین وغیرہ کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ ایک بڑا لشکر لے کر بصرہ روانہ ہوئے ادھر بعض دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرات کی طرف سے ام المومنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش ہونے لگی چونکہ ام المومنین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے قلوب صاف تھے، اور دونوں ہی اس باہی محاذ آرائی پر سخت دل گرفتہ تھے، اس لئے جب مصالحین نے دونوں کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں دور کرا کے باہمی صلح وصفائی کا میدان ہموار کر لیا اور مصالحت یقین ہو گئی تو عین موقع پر عبداللہ بن سبا جو اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھا اپنی پرانی یہودی سازش کے تحت متحرک ہو گیا اور جس دن صلح نامہ پر دستخط ہونے والے تھے اس کی صبح سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے سپاہیوں نے اچانک ام المومنین کے لشکر پر حملہ کر دیا اور اس طرح دونوں طرف کی فوجیں اس بدگمانی میں پڑ کر کہ فریق مخالف نے مصالحت کی کوشش ٹھکرا کر جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، باہم برسر پیکار ہو گئیں، ام المومنین نے اس موقع پر بھی جنگ رکوانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدان جنگ میں آئیں لیکن چونکہ دونوں طرف کے جذبات بھڑک اٹھے تھے اس لئے میدان جنگ میں ان کی بہ نفس نفیس آمد دونوں طرف سے جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کا مزید سبب بن گئی جم کر لڑائی ہوئی اور جنگ کا سارا زور حضرت ام المومنین کے اونٹ کے ارد گرد رہا، اسی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ جمل یعنی اونٹ کی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سازشیوں کی سازش لوگوں کو بھڑکاتی رہی اور مسلمانوں کی تلوار اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مصروف رہی۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آخری طور پر جنگ بند کرانے کی ایک اور کوشش کی لیکن عبداللہ بن سبا کے لوگوں کی وجہ سے وہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ ام المومنین کا اونٹ لڑائی اور کشت و خون کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی، اہل بصرہ پوری جان نثاری کے ساتھ ان تیروں کو اپنے اوپر لے جا رہے تھے اور اونٹ کے چاروں طرف لاشوں کے انبار لگ گئے، آخرش حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے ایک زور کا دھاوا بولا اور ایک شخص نے موقع پا کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور چلا کر سینہ کے بل بیٹھ گیا اونٹ کے گرتے ہی اہل بصرہ منتشر ہو گئے اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اگلے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہوئے تمام اہل شہر نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ام المومنین کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بصرہ سے روانہ فرمایا اور طرفین کے درمیان ہر طرح صلح و صفائی ہو گئی۔ یہ واقعہ ٣٦ھ کے وسط پیش آیا اور یہ یہودیوں کی گھناؤنی سازش کا دوسرا حملہ تھا جس سے اہل اسلام کو زبردست دھچکا لگا اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔

 

جنگ صفین

 حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے ملک شام کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ ان کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے خاندانی اور قرابتی تعلق بھی تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے ملکوں اور شہروں میں خلافت عثمانی کے مقررہ گورنروں اور عاملوں کو سبکدوش کر کے اپنے معتمد لوگوں کو ان کی جگہوں پر بھیجا تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان بھی صادر ہوا اور ان کا عہدہ سنبھالنے کے لئے سہل بن حنیف کو روانہ فرمایا لیکن سہل بن حنیف کو راستے ہی سے واپس ہونا پڑا اور وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے شام کی گورنری کا عہدہ سنبھالنے میں ناکام رہے۔ اس طرح یہ بات سامنے آ گئی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ بنو امیہ کے معتمد ہونے کی حیثیت سے خون عثمان کے قصاص کے مسئلہ پر نہایت مضبوطی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالف ہیں، اس موقع پر پھر یہودیوں نے سبائیوں کی صورت میں سازش کا جال پھیلایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر نکلا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے چل پڑا پہلے دونوں لشکروں کے مقدمۃ الجیش کے درمیان مقابلہ ہوا اس کے بعد دونوں طرف کی پوری فوجیں میدان جنگ میں پہنچ کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے سپہ سالار تھے، پھر بعض حضرات نے مصالحت کی کوشش شروع کی لیکن سازشیوں کا جال چونکہ دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اس لئے یہ کوشش ناکام ہو گئی اس کے بعد مجبوراً لڑائی شروع ہو گئی، تقریباً ایک مہینے تک تو جنگ کا رخ بالکل انفرادی رہا اور باقاعدہ جنگ سے گریز کیا جاتا رہا۔ اس کے بعد مہینے تک کے لئے یہ انفرادی لڑائی بھی معطل کر دی گئی اور اس عرصے میں مصالحت کی کوششیں پھر شروع ہو گئیں لیکن مصالحت کی یہ دوسری کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی اور آخرکار یکم صفر٣٧ ھ سے جنگ کا آغاز ہو گیا، اور ایک ہفتے سے زائد تک بڑی خوفناک جنگ ہوتی رہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کا پلڑا بھاری تھا اور جنگ کے آخری دن وہ مرحلہ بھی آ گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پوری طرح شکست ہو جاتی لیکن عین موقع پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حکمت عملی نے فوری جنگ بند کر ادی۔ اس کے بعد فریقین نے یہ طے کر لیا کہ حکم کے ذریعے قرآن مجید کی روشنی میں صلح صفائی کر لی جائے۔

 امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسیٰ اشعری کو ثالث بنانے پر اتفاق ہو گیا۔ گو آگے چل کر بعض اسباب و عوامل کی بنا پر جس کی تفصیل بہت طویل ہے، یہ ثالثی کامیاب نہیں ہوئی اور حضرت علی و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اس آویزش و اختلاف کا سلسلہ ختم نہیں ہوا لیکن یہ بھیانک جنگ جو جنگ صفین کے نام سے مشہور ہوئی۔ مزید تباہی و بربادی اور خونریزی پھیلائے بغیر بند ہو گئی۔ اس جنگ نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور اسلام کی شوکت زبردست دھکا لگا بیان کیا جاتا ہے کہ اس باہمی محاذ آرائی کے دوران مجموعی طور پر ستر ہزار کے قریب مسلمان میدان جنگ میں کام آئے۔

ایک واقعہ ایک پیشین گوئی

حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے بعد جب غزوہ حنین کے لئے روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر مشرکوں کے ایک درخت پر ہوا جس پر وہ مشرک اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے اور پوجا کے طور پر اس درخت کے گرد طواف کرتے اور تعظیماً اس کی طرف منہ کر کے بیٹھا کرتے۔ اس درخت کا نام ذات انواط تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہیوں میں ایسے مسلمانوں کی تعداد بھی شامل تھی جو نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اسلامی احکام و شرائع اور دینی تعلیمات سے زیادہ واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے شریک بیزاری اور توحید میں کامل مرتبہ نہیں رکھتے تھے، انہی مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے اس درخت کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہمارے لئے بھی کوئی ایسا درخت مقرر کر دیجئے جس پر ہم اپنے ہتھیار لٹکایا کریں اور اس کو ذات انواط کہا کریں جیسا کہ مشرکوں نے اس درخت کو اپنے لئے ذات انواط بنا رکھا ہے وار اس پر ہتھیار لٹکاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کی یہ عجیب و غریب خواہش سن کر از راہ حیرت و تعجب فرمایا کہ سبحان اللہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ یہ بات تم ایسی کہہ رہے ہو جیسا کہ موسیٰ کی قوم یہودیوں نے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک ایسا معبود یعنی بت بنا دیجئے جیسا کہ کافروں کے معبود ہیں تاکہ جس طرح وہ کافر اپنے بتوں کو پوجتے ہیں اسی طرح ہم اپنے اس بت کو پوجا کریں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور تنبیہ یہ فرمایا ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان لوگوں کے راستے پر چلنا شروع کر دو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ (ترمذی

 

تشریح

 

  انواط دراصل نوط کی جمع ہے جو مصدر ہے اور جس کے معنی لٹکانے کے ہیں، چونکہ اس درخت پر ہتھیار لٹکائے جاتے تھے اس لئے اس کا نام ذات انواط ہو گیا اور یہ نام خاص اسی درخت کا تھا۔

  جو تم سے پہلے گزرے ہیں سے مراد گزشتہ امتوں کے لوگ یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ ہیں حدیث کے اس آخری جملے کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا ان لوگوں کے تئیں ناراضگی و بے اطمینانی کا اظہار فرمایا کہ اگر تم لوگ ایسی ہی بات کہتے اور کرتے رہے تو عجب نہیں کہ گمراہی اور حد سے بڑھ جانے کے اس راستہ پر جا پڑو جس کو پچھلی امتوں کے لوگوں نے اختیار کیا تھا اور خدا کے مبغوض بندے قرار پائے تھے۔

چند فتنوں کا ذکر

حضرت ابن مسیب سے جو جلیل القدر تابعین میں سے تھے اور جنہوں نے چاروں خلفائے راشدین کا زمانہ پایا تھا روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ جب پہلا فتنہ کہ (کہ جس سے پہلے اسلام میں کوئی فتنہ ظاہر نہیں ہوا) واقع ہوا یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو غزوہ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا، پھر جب دوسرا فتنہ واقع ہوا یعنی حرہ کا واقعہ پیش آیا تو ان صحابہ میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو صلح حدیبیہ یعنی بیعت الرضوان میں شریک ہوئے تھے پھر جب تیسرا فتنہ واقع ہوا تو اس کا خاتمہ اس حالت میں نہیں ہوا تھا کہ لوگوں میں قوت اور فربہی باقی رہی ہو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

  یعنی کا لفظ اس راوی کا ہے جس نے اس روایت کو حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے گویا اس راوی نے اس لفظ کے ذریعے وضاحت کی کہ حضرت ابن مسیب رضی اللہ عنہ نے جس فتنہ کو ذکر کیا اس سے ان کی مراد کس فتنہ سے تھی۔ فلم یبق الخ کے الفاظ ابن مسیب کے ہیں،جن سے مراد یہ ہے کہ اصحاب بدر اس سے خدا کو پیارے ہونے لگے تھے جب کہ پہلا فتنہ یعنی ٣٥ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا المناک سانحہ پیش آیا تھا اور پھر جب ٣٦ھ میں دوسرا فتنہ یعنی حرہ کی جنگ اواعہ پیش آیا تو اس تک کوئی بھی بدر صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ پس مذکورہ الفاظ کی مراد یہ نہیں ہے کہ اصحاب بدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے فتنہ میں مارے گئے تھے۔ اسی وضاحت کو بعد کے جملے میں بھی ان الفاظ پر منطبق کرنا چاہئے اور حاصل یہ کہ غزوہ بدر میں شرکت کی برکت کے سبب اللہ تعالیٰ نے بدری صحابہ کو فتنے سے محفوظ رکھا اور انہوں نے فتنے کا دوبارہ منہ نہیں دیکھا۔ اصحاب بدر میں سب سے آخر میں جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ہیں جو واقعہ حرہ سے چند سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔

  طباخ کے معنی ہیں مضبوطی، قوت، موٹاپا۔ اور کبھی یہ لفظ اپنے برعکس معنی کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے، مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو طباخ نہیں ہے یعنی اس کو عقل نہیں ہے، اس میں خیر و بھلائی نہیں ہے۔ حدیث کے اس آخری جملے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فتنہ ظاہر ہوا تو اس وقت لوگوں میں یعنی تابعین میں کوئی صحابی باقی نہیں رہا تھا۔ بعض حواشی میں لکھا ہے کہ ابن مسیب رضی اللہ عنہ نے جس تیسرے فتنہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے ابن حمزہ خارجی کا فتنہ خروج مراد ہے جو مروان بن محمد بن الحکم کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ اور کرمانی نے یہ لکھا ہے کہ اس تیسرے فتنہ سے مراد عبداللہ بن زبیر اور اہل مکہ کے خلاف حجاج بن یوسف کی وہ جنگ ہے جو عبدالملک بن مروان کے زمانے میں ٧٤ھ میں ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں کعبہ اقدس کی بھی تخریب ہوئی تھی۔ لیکن یہ مراد اس صوت میں صحیح نہیں قرار پا سکتی جب کہ حدیث کے آخری جملے کے مطابق یہ کہا جائے کہ اس فتنے کے وقت دنیا میں کوئی صحابی موجود نہیں تھا کیونکہ حجاج يبن یوسف کی جنگ کے وقت تو صحابہ کی اچھی خاصی تعداد بقید حیات تھی۔ لہٰذا پہلی مراد ہی صحیح ہے۔