حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ مِنْ نَوْمِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ "، وَعَقَدَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ عَشَرَةً، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ "،
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے جاگے اور فرمایا: ”لا الہ الا اللہ خرابی ہے عرب کی اس آفت سے جو نزدیک ہے، آج یاجوج و ماجوج کی آڑ اتنی کھل گئی۔“ اور سفیان نے (جو راوی ہے اس حدیث کا) دس کا ہندسہ بنایا (یعنی انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی سے حلقہ بنایا) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم تباہ ہو جائیں گے ایسی حالت میں جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں! جب برائی زیادہ ہو گی۔“ (یعنی فسق و فجور یا زنا یا اولاد زنا یا معاصی)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادُوا فِي الْإِسْنَادِ، عَنْ سُفْيَانَ، فَقَالُوا عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ حَبِيبَةَ ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ .
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ ، أَخْبَرَتْهَا أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَزِعًا مُحْمَرًّا وَجْهُهُ، يَقُولُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ، قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ، وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الْإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: " نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ "،
ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے ڈرے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ تھا۔ فرماتے تھے: ”لا الہ الا اللہ اخیر تک جیسے اوپر گزرا۔“
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِهِ.
ان اسناد سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَعَقَدَ وُهَيْبٌ بِيَدِهِ تِسْعِينَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج یاجوج و ماجوج کی آڑ کی دیوار میں سے اتنا کھل گیا۔“ (یعنی اتنا سوراخ اس میں ہو گیا) اور بیان کیا وہیب راوی نے اس کو نوے کا ہندسہ بنا کر انگلیوں سے۔ (یہ دس کے ہندسہ سے چھوٹا ہوا۔ شاید یہ حدیث پہلے کی ہو اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی بعد میں اور شاید مقصود تمثیل ہو نہ کہ تحدید۔ نووی رحمہ اللہ)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ ، قَالَ: دَخَلَ الْحَارِثُ بْنُ أَبِي رَبِيعَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ، وَأَنَا مَعَهُمَا عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، فَسَأَلَاهَا عَنِ الْجَيْشِ الَّذِي يُخْسَفُ بِهِ، وَكَانَ ذَلِكَ فِي أَيَّامِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَعُوذُ عَائِذٌ بِالْبَيْتِ فَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ، فَإِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ كَارِهًا؟، قَالَ: يُخْسَفُ بِهِ مَعَهُمْ، وَلَكِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى نِيَّتِهِ "، وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: هِيَ بَيْدَاءُ الْمَدِينَةِ،
عبیداللہ بن قبطیہ سے روایت ہے، حارث بن ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان دونوں ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اس لشکر کو جو دھنس جائے گا اور یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پناہ لے گا ایک پناہ لینے والا خانہ کعبہ کی (مراد امام مہدی علیہ السلام ہیں) اس کی طرف لشکر بھیجا جائے گا۔ وہ جب ایک میدان میں پہنچیں گے تو دھنس جائیں گے۔“میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو شخص زبردستی سے اس لشکر کے ساتھ ہو (دل میں برا جان کر)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: وہ بھی ان کے ساتھ دھنس جائے گا لیکن قیامت کے دن اپنی نیت پر اٹھے گا۔“ ابوجعفر نے کہا: مراد مدینہ کا میدان ہے۔
حَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِهِ، قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا جَعْفَرٍ، فَقُلْتُ: إِنَّهَا إِنَّمَا، قَالَتْ: بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: كَلَّا وَاللَّهِ إِنَّهَا لَبَيْدَاءُ الْمَدِينَةِ.
عبدالعزیز بن رفیع سے اس سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ میں ابوجعفر سے ملا اور میں نے کہا: ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے تو زمیں کا ایک میدان کہا ہے۔ ابوجعفر نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! وہ مدینہ کا میدان ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ ، سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ يُخْسَفُ بِأَوْسَطِهِمْ، وَيُنَادِي أَوَّلُهُمْ آخِرَهُمْ ثُمَّ يُخْسَفُ بِهِمْ، فَلَا يَبْقَى إِلَّا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ "، فَقَالَ رَجُلٌ: أَشْهَدُ عَلَيْكَ أَنَّكَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَشْهَدُ عَلَى حَفْصَةَ أَنَّهَا لَمْ تَكْذِبْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”البتہ قصد کرے گا ایک لشکر اس خانہ کعبہ کا لڑائی کے لیے جب زمین کے صاف میدان میں پہنچیں گے تو لشکر کا قلب دھنس جائے گا اور مقدمہ یعنی آگے کا لشکر پیچھے والوں کو پکارے گا، پھر سب دھنس جائیں گے اور کوئی ان میں سے باقی نہ رہے گا، مگر ایک شخص ان سے چھٹا ہوا جو ان کا حال بیان کرے گا۔“ ایک شخص یہ حدیث عبداللہ بن صفوان سے سن کر بولا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ الْعَامِرِيِّ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَيَعُوذُ بِهَذَا الْبَيْتِ يَعْنِي الْكَعْبَةَ قَوْمٌ لَيْسَتْ لَهُمْ مَنَعَةٌ، وَلَا عَدَدٌ وَلَا عُدَّةٌ، يُبْعَثُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ "، قَالَ يُوسُفُ: وَأَهْلُ الشَّأْمِ يَوْمَئِذٍ يَسِيرُونَ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ: أَمَا وَاللَّهِ مَا هُوَ بِهَذَا الْجَيْشِ، قَالَ زَيْدٌ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ الْعَامِرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْجَيْشَ الَّذِي ذَكَرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ.
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، (راوی نے نام نہیں لیا اور مراد سیدہ حفصہ ہیں یا سیدہ عائشہ یا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن) رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گھر یعنی کعبہ کی پناہ ایسے لوگ لیں گے جن کے پاس روک نہ ہو گی (یعنی دشمن کے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں گے) نہ ان کا شمار بہت ہو گا، نہ سامان ہو گا۔ ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا۔ جب وہ زمین کے ایک صاف میدان میں پہنچیں گے تو دھنس جائیں گے۔“ یوسف نے کہا: ان دنوں شام والے مکہ والوں سے لڑنے کے لیے آ رہے تھے (یعنی حجاج کا لشکر جو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو آتا تھا) عبداللہ بن صفوان نے کہا: وہ یہ لشکر نہیں ہے اللہ کی قسم! جس کو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دھنس جائے گا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: عَبَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ شَيْئًا فِي مَنَامِكَ لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ؟، فَقَالَ: " الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ "، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الطَّرِيقَ قَدْ يَجْمَعُ النَّاسَ، قَالَ: " نَعَمْ، فِيهِمُ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ، وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَاحِدًا، وَيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتَّى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے میں اپنے ہاتھ پاؤں ہلائے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے سوتے میں وہ کام کیا جو نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تعجب ہے کچھ لوگ میری امت کے ایک شخص کے لیے کعبہ کا قصد کریں گے جو قریش میں سے ہو گا اور پناہ لے گا خانہ کعبہ کی۔ جب وہ بیداء میں پہنچیں گے (بیداء صاف میدان) تو دھنس جائیں گے۔“ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی راہ میں تو سب قسم کے لوگ چلتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ان میں ایسے لوگ ہوں گے جو قصداً آئے ہوں گے اور جو مجبوری سے آئے ہوں گے اور مسافر بھی ہوں گے لیکن یہ سب ایک بارگی ہلاک ہو جائیں گے پھر (قیامت کے دن) مختلف نیتوں پر اللہ ان کو اٹھائے گا .“ (اس حدیث سے یہ نکلا کہ ظالموں اور فاسقوں سے دور رہنے میں بچاؤ ہے ورنہ ان کے ساتھ ہلاکت کا ڈر ہے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ أُسَامَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْرَفَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ "،
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل پر چڑھے اور فرمایا: ”تم دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں؟ میں تمہارے گھروں میں فتنوں کی جگہیں اس طرح دیکھتا ہوں جیسے بارش گرنے کی جگہوں کو۔“ (یعنی بہت ہوں گے بوندوں کی طرح، مراد جمل اور صفین اور حرہ اور فتنہ عثمان اور شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہم ہے اور ان کے سوا بہت سے فساد جو مسلمانوں میں نمودار ہوئے)۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
زہری سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ َعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أن أبا هريرة ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَتَكُونُ فِتَنٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، مَنْ تَشَرَّفَ لَهَا تَسْتَشْرِفُهُ، وَمَنْ وَجَدَ فِيهَا مَلْجَأً فَلْيَعُذْ بِهِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ فتنے ہوں گے جن میں بیٹھنے والا بہتر ہو گا کھڑے ہونے سے اور کھڑا رہنے والا بہتر ہو گا چلنے والے سے اور چلنے والا بہتر ہو گا دوڑنے والے سے، جو اس کو جھانکے گا تو اس کو وہ کھنیچ لے گا اور جو کوئی پناہ کا مقام یا بچاؤ کی جگہ پائے تو چاہیے کہ اس پناہ میں آ جائے۔“
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أَخْبَرَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُطِيعِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا، إِلَّا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ يَزِيدُ مِنَ الصَّلَاةِ صَلَاةٌ مَنْ، فَاتَتْهُ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ.
نوفل بن معاویہ سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح روایت ہے، اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”ایک نماز ہے نمازوں میں سے (عصر کی نماز)جس کی وہ نماز قضا ہو جائے تو گویا اس کا گھر بار لٹ گیا۔“
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَكُونُ فِتْنَةٌ النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْيَقْظَانِ، وَالْيَقْظَانُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي، فَمَنْ وَجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا فَلْيَسْتَعِذْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فتنہ ہو گا جس میں سونے والا بہتر ہو گا جاگنے والے سے اور جاگنے والا بہتر ہو گا کھڑے سے اور کھڑا ہوا بہتر ہو گا دوڑنے والے سے، پھر جو کوئی پناہ یا حفاظت کی جگہ پائے تو پناہ لے۔“ (اس فتنہ سے)۔
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ، ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَفَرْقَدٌ السَّبَخِيُّ إِلَى مُسْلِمِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ وَهُوَ فِي أَرْضِهِ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: هَلْ سَمِعْتَ أَبَاكَ يُحَدِّثُ فِي الْفِتَنِ حَدِيثًا؟، قَالَ: نَعَمْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يُحَدِّثُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتَنٌ، أَلَا ثُمَّ تَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي فِيهَا، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي إِلَيْهَا، أَلَا فَإِذَا نَزَلَتْ أَوْ وَقَعَتْ، فَمَنْ كَانَ لَهُ إِبِلٌ فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بِغَنَمِهِ، وَمَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ "، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِبِلٌ وَلَا غَنَمٌ وَلَا أَرْضٌ؟، قَالَ: " يَعْمِدُ إِلَى سَيْفِهِ فَيَدُقُّ عَلَى حَدِّهِ بِحَجَرٍ، ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ " قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ أُكْرِهْتُ حَتَّى يُنْطَلَقَ بِي إِلَى أَحَدِ الصَّفَّيْنِ أَوْ إِحْدَى الْفِئَتَيْنِ، فَضَرَبَنِي رَجُلٌ بِسَيْفِهِ أَوْ يَجِيءُ سَهْمٌ، فَيَقْتُلُنِي، قَالَ: " يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ وَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ "،
عثمان شحام سے روایت ہے، میں اور فرقد سبخی دونوں مسلم بن ابی بکرہ کے پاس گئے وہ اپنی زمین میں تھے ہم ان کے پاس گئے اور ہم نے کہا: تم نے سنا ہے اپنے باپ سے فتنوں کے باب میں کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے؟ انہوں نے کہا: ہاں میں نے سنا ہے ابوبکرہ سے، وہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک کئی فتنے ہوں گے خبردار ہو، ہاں کئی فتنے ہوں گے، بیٹھنے والا ان میں بہتر ہو گا چلنے والے سے۔ اور چلنے والا ان میں بہتر ہو گا دوڑنے والے سے۔ خبردار رہو! جب فتنے اور فساد اتریں یا واقع ہو تو جس کے اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں جا ملے اور جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں جا ملے اور جس کی زمین ہو (کھیتی کی) وہ اپنی زمین میں جا رہے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! جس کے اونٹ نہ ہوں، نہ بکریاں، نہ زمین وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی تلوار اٹھائے اور پتھر سے اس کی باڑھ کو کوٹ ڈالے (یعنی لڑنے کی کوئی چیز باقی نہ رکھے جو حوصلہ ہو لڑائی کا)، پھر جلدی کرے اپنے بچاؤ میں جتنی ہو سکے۔ الہٰی میں نے تیرا حکم پہنچا دیا، الہیٰ میں نے تیرا حکم پہنچا دیا۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! بتلایئے اگر مجھ پر زبردستی کریں یہاں تک کہ دو صفوں میں سے یا دو گروہوں میں سے ایک میں لے جائیں، پھر وہاں کوئی مجھ کو تلوار مارے یا تیر آئے اور مجھ کو قتل کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنا اور تیرا گناہ سمیٹ لے گا اور دوزخ میں جائے گا۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ كِلَاهُمَا، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، حَدِيثُ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادٍ إِلَى آخرة، وَانْتَهَى حَدِيثُ وَكِيعٍ عِنْدَ قَوْلِهِ: إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
ان اسناد سے بھی یہ حدیث مروی ہے البتہ وکیع کی حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے ارشاد: ”اگر وہ نجات کی طاقت رکھتا ہو۔“ تک ہے آگے مذکور نہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَيُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ وَأَنَا أُرِيدُ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ ، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَحْنَفُ؟ قَالَ: قُلْتُ: أُرِيدُ نَصْرَ ابْنِ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي عَلِيًّا، قَالَ: فَقَالَ لِي: يَا أَحْنَفُ ارْجِعْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "، قَالَ: فَقُلْتُ: أَوْ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟، قَالَ: " إِنَّهُ قَدْ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ ".
احنف بن قیس سے روایت ہے، میں نکلا اس ارادہ سے کہ اس شخص کا شریک ہوں گا (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بمقابلہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے)راہ میں مجھ سے ابوبکرہ ملے، کہنے لگے: تم کہاں جاتے ہو اے احنف!؟ میں نے کہا: میں چاہتا ہوں مدد کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی کی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی۔ ابوبکرہ نے کہا: تم لوٹ جاؤ اے احنف! کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر بھڑیں تو مارنے والا اور جو مارا جائے دونوں جہنمی ہیں۔“ میں نے عرض کیا یا کسی اور نے کہا: یا رسول اللہ! قاتل تو جہنم میں جائے گا لیکن مقتول کیوں جہنم جائے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا۔“
وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَيُونُسَ ، وَالْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ كِتَابِهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي كَامِلٍ، عَنْ حَمَّادٍ إِلَى آخِرِهِ.
اس سند سے بھی یہ حدیث مبارکہ اسی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا الْمُسْلِمَانِ حَمَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى أَخِيهِ السِّلَاحَ، فَهُمَا عَلَى جُرْفِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ دَخَلَاهَا جَمِيعًا ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھائیں تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر پہنچے پھر اگر ایک نے دوسرے کو مار ڈالا تو دونوں جہنم میں جائیں گے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دو بڑے بڑے گروہ لڑیں گے (مسلمانوں کے) ان میں بڑی لڑائی ہو گی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہو گا۔“ (یعنی دونوں کا دین ایک ہو گا اور دونوں یہ دعویٰ کریں گے کہ ہم اللہ کے واسطے لڑتے ہیں)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ الْهَرْجُ "، قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " الْقَتْلُ الْقَتْلُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ ہرج بہت ہو گا۔“ لوگوں نے عرض کیا: ہرج کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: قتل قتل (یعنی خون بہت ہوں گے)۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيَّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً، فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ، وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا، أَوَ قَالَ: مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا "،
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے لپیٹ لیا میرے لیے زمین کو (یعنی سب زمین کو سمیٹ کر میرے سامنے کر دیا) تو میں نے اس کا پورب اور پچھم دیکھا اور میری حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھ کو دکھلائی گئی اور مجھ کو دو خزانے ملے سرخ اور سفید اور میں نے دعا کی اپنے پروردگار سے کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرے اور ان پر کوئی غیر دشمن ایسا غالب نہ کرے کہ ان کا جتھا ٹوٹ جائے اور ان کی جڑ کٹ جائے (یعنی نیست اور نابود ہو جائیں)۔ میرے پروردگار نے فرمایا: ”اے محمد! میں جب کوئی حکم دیتا ہوں پھر وہ نہیں پلٹتا اور میں نے تیری یہ دعائیں قبول کیں۔ میں تیری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کروں گا، نہ ان پر کوئی غیر دشمن جو ان میں سے نہ ہو ایسا غالب کروں گا جو ان کی جڑ کاٹ دے اگرچہ زمین کے تمام لوگ اکٹھے ہو جائیں (مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے مگر ان کو بالکل تباہ نہ کر سکیں گے) یہاں تک کہ خود مسلمان ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قید کریں گے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ،وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ ، عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى زَوَى لِي الْأَرْضَ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَأَعْطَانِي الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ الْعَالِيَةِ، حَتَّى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا، فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا "،
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن عالیہ سے آئے (عالیہ وہ گاؤں جو مدینہ کے باہر ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی معاویہ کی مسجد پر سے گزرے، اس میں گئے اور دو رکعتیں پڑھیں۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی دیر تک اپنے پروردگار سے دعا کی پھر ہمارے پاس آئے اور فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے تین دعائیں مانگیں لیکن اس نے دو دعائیں قبول کیں اور ایک قبول نہ کی۔ میں نے اپنے رب سے یہ دعا کی کہ میری امت کو ہلاک نہ کرے قحط سے (یعنی ساری امت کو عام قحط سے)، تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ میری امت کو (یعنی ساری امت کو) ہلاک نہ کرے پانی میں ڈبو کر، تو قبول کی اور میں نے یہ دعا کی کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے نہ لڑیں، اس کو قبول نہیں کیا۔“
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَقْبَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَمَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے اور چند اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمگزرے بنی معاویہ کی مسجد پر پھر بیان کیا حدیث کو جیسے اوپر گزری۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ كَانَ، يَقُولُ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِكُلِّ فِتْنَةٍ هِيَ كَائِنَةٌ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ السَّاعَةِ، وَمَا بِي إِلَّا أَنْ يَكُونَ، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسَرَّ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ شَيْئًا لَمْ يُحَدِّثْهُ غَيْرِي، وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ مَجْلِسًا أَنَا فِيهِ عَنِ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَعُدُّ الْفِتَنَ: " مِنْهُنَّ ثَلَاثٌ لَا يَكَدْنَ يَذَرْنَ شَيْئًا، وَمِنْهُنَّ فِتَنٌ كَرِيَاحِ الصَّيْفِ مِنْهَا صِغَارٌ، وَمِنْهَا كِبَارٌ "، قَالَ حُذَيْفَةُ: فَذَهَبَ أُولَئِكَ الرَّهْطُ كُلُّهُمْ غَيْرِي.
ابوادریس خولانی سے روایت ہے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اللہ کی قسم! میں سب لوگوں سے زیادہ ہر فتنہ کو جانتا ہوں جو ہونے والا ہے درمیان میرے اور قیامت کے اور یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا کر کوئی بات خاص مجھ سے بیان کی ہو جو اوروں سے نہ کی ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں میں بھی تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ شمار کرتے تھے فتنوں کا:”تین ان سے ایسے ہیں جو قریب قریب کچھ نہ چھوڑیں گے اور بعض ان میں سے گرمی کی آندھیوں کی طرح ہیں بعضے ان میں چھوٹے ہیں بعضے بڑے ہیں۔“ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو اس مجلس میں جتنے لوگ تھے وہ سب گزر گئے ایک میں باقی ہوں (اس وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کوئی فتنوں کا جاننے والا باقی نہ رہا)۔
وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا، وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ " قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا مَا تَرَكَ شَيْئًا يَكُونُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ، إِلَّا حَدَّثَ بِهِ حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، قَدْ عَلِمَهُ أَصْحَابِي هَؤُلَاءِ، وَإِنَّهُ لَيَكُونُ مِنْهُ الشَّيْءُ قَدْ نَسِيتُهُ، فَأَرَاهُ فَأَذْكُرُهُ كَمَا يَذْكُرُ الرَّجُلُ وَجْهَ الرَّجُلِ إِذَا غَابَ عَنْهُ، ثُمَّ إِذَا رَآهُ عَرَفَهُ "،
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے (وعظ سنانے کو) تو کوئی بات نہ چھوڑی، اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی، مگر اس کو بیان کر دیا، پھر یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا، میرے ساتھی اس کو جانتے ہیں اور بعض بات ہوتی ہے جس کو میں بھول گیا تھا، پھر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہے جیسے آدمی دوسرے آدمی کا منہ یاد رکھتا ہے جب وہ غائب ہو جائے، پھر جب اس کو دیکھے تو پہچان لیتا ہے۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ جو بھول گیا تک اس کے بعد ذکر نہیں کیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ، قَالَ: " أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، فَمَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُهُ، إِلَّا أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ مَا يُخْرِجُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ مِنْ الْمَدِينَةِ "،
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ہر ایک بات بتا دی جو ہونے والی تھی قیامت تک اور کوئی بات ایسی نہ رہی جس کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھا ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مدینہ والوں کو کون سی چیز نکالے گی مدینہ سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ ، قَالَ حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ ، أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ ، حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ يَعْنِي عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ ، قَالَ: " صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ، فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا ".
سیدنا ابوزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھی اور منبر پر چڑھے، پھر وعظ سنایا ہم کو یہاں تک کہ ظہر کا وقت آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور نماز پڑھی، پھر منبر پر چڑھے اور وعظ سنایا ہم کو یہاں تک کہ عصر کا وقت آ گیا، پھر اترے اور نماز پڑھی، پھر منبر پر چڑھے اور وعظ سنایا ہم کو یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا، تو خبر دی ہم کو ان باتوں سے جو ہو چکی تھیں اور جو ہونے والی ہیں اور سب سے زیادہ ہم میں عالم وہ ہے جس نے سب سے زیادہ ان باتوں کو یاد رکھا ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كريب جميعا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ كَمَا قَالَ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، وَكَيْفَ قَالَ؟، قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَنَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، يُكَفِّرُهَا الصِّيَامُ وَالصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ "، فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: أَفَيُكْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَلِكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ أَبَدًا، قَالَ: فَقُلْنَا: لِحُذَيْفَةَ هَلْ كَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟، قَالَ: نَعَمْ، كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ، قَالَ: فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ مَنِ الْبَابُ، فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ "،
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے، انہوں نے کہا: تم میں سے کس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے فتنے کے باب میں؟ میں نے کہا: مجھ کو یاد ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے بہادر ہو بھلا کہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ میں نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”آدمی کو جو فتنہ ہوتا ہے اس کے گھر والوں، مال، جان، اولاد اور ہمسایہ سے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے روزہ، نماز، صدقہ، اچھی بات کا حکم کرنا اور بری بات سے منع کرنا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس فتنہ کو نہیں پوچھتا میں تو اس فتنہ کو پوچھتا ہوں جو موج مارے گا دریا کی موج کی طرح (یعنی اس کا اثر سب مسلمانوں کو پہنچے گا) میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین! آپ کو اس فتنہ سے کیا غرض ہے آپ کے اور اس کے درمیان تو ایک بند دروازہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ دروازہ ٹوٹ جائے گا یا کھل جائے گا؟ میں نے کہا: نہیں وہ ٹوٹ جائے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا ہے تو پھر کبھی بند نہ ہو گا (کیونکہ جب دروازہ ٹوٹ گیا تو بند کیسے ہو سکتا ہے)۔ شقیق نے کہا: ہم لوگوں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا۔ فرمایا ہاں، جیسے یہ معلوم تھا کہ کل کہ دن کے بعد رات ہے۔ اور میں نے ان سے ایک حدیث بیان کی تھی جو لغو نہ تھی۔ شقیق نے کہا: ہم لوگ ڈرے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھنے میں کہ وہ دروازہ کون ہے؟ ہم نے مسروق سے کہا: تم پوچھو۔ انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ دروازہ عمر رضی اللہ عنہ کی ذات تھی۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، وَفِي حَدِيثِ عِيسَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ يَقُولُ:
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: مَنْ يُحَدِّثُنَا، عَنِ الْفِتْنَةِ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بنحو حديثهم.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ جُنْدُبٌ : جِئْتُ يَوْمَ الْجَرَعَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، فَقُلْتُ: لَيُهْرَاقَنَّ الْيَوْمَ هَاهُنَا دِمَاءٌ؟، فَقَالَ ذَاكَ الرَّجُلُ: كَلَّا وَاللَّهِ، قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ، قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ، إنه لحديث رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنِيهِ، قُلْتُ: " بِئْسَ الْجَلِيسُ لِي أَنْتَ مُنْذُ الْيَوْمِ تَسْمَعُنِي أُخَالِفُكَ وَقَدْ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَنْهَانِي، ثُمَّ قُلْتُ: مَا هَذَا الْغَضَبُ؟، فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ وَأَسْأَلُهُ، فَإِذَا الرَّجُلُ حُذَيْفَةُ .
محمد سے روایت ہے، جندب نے کہا: میں یوم الجرعہ (یعنی جس دن جرعہ میں فساد ہونے کو تھا، جرعہ ایک مقام ہے کوفہ میں جہاں کوفہ والے سعید بن عاص سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے تھے جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو کوفہ کا حاکم کر کے بھیجا تھا) کوآیا ایک شخص کو دیکھا بیٹھے ہوئے، میں نے کہا: آج تو یہاں کئی خون ہوں گے۔ وہ شخص بولا: ہرگز نہیں اللہ کی قسم! خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! ضرور خون ہوں گے۔ وہ بولا: اللہ کی قسم! ہرگز خون نہ ہوں گے اور میں نے اس باب میں ایک حدیث سنی ہے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمائی تھی۔ میں نے کہا: تو برا ساتھی ہے آج سے اس لیے کہ تو سنتا ہے میں تیرا خلاف کر رہا ہوں اور تو نے ایک حدیث سنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مجھے منع نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا: اس غصے سے کیا فائدہ؟ اور میں اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ يَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ، وَيَقُولُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ: لَعَلِّي أَكُونُ أَنَا الَّذِي أَنْجُو "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ ہو گی یہاں تک کہ فرات میں ایک پہاڑ نکلے گا سونے کا، لوگ اس کے لیے لڑیں گے تو ہر سینکڑے میں سے (یعنی فیصدی) ننانئے مارے جائیں گے اور ہر شخص یہ کہے گا (اپنے دل میں) شاید بچ جاؤں۔“ (اور اس سونے کو حاصل کروں۔ معاذ اللہ دنیا ایسی ہی خراب شے ہے لوگ اس کے پیچھے اپنی جان آبرو عزت گنواتے ہیں پھر بھی وہ حاصل نہیں ہوتی۔ عاقل وہی ہے جو پہلے سے اس نابکار کو طلاق دے دے)۔
وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ، فَقَالَ أَبِي: إِنْ رَأَيْتَهُ فَلَا تَقْرَبَنَّهُ.
اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے، البتہ سہیل کی اس سند میں یہ اضافہ ہے کہ میرے والد نے کہا: اگر تو اسے دیکھ لے تو اس کے قریب بھی نہ جانا۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَسْعُودٍ سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ السَّكُونِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ كَنْزٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَمَنْ حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہے کہ فرات میں ایک خزانہ سونے کا نکلے گا جو کوئی وہاں موجود ہو تو اس میں سے کچھ نہ لے۔“
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خالِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَمَنْ حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا، پس جو بھی اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي مَعْنٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، قَالَ: كُنْتُ وَاقِفًا مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، فَقَالَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ مُخْتَلِفَةً أَعْنَاقُهُمْ فِي طَلَبِ الدُّنْيَا، قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُوشِكُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَإِذَا سَمِعَ بِهِ النَّاسُ سَارُوا إِلَيْهِ، فَيَقُولُ مَنْ عِنْدَهُ: لَئِنْ تَرَكْنَا النَّاسَ يَأْخُذُونَ مِنْهُ لَيُذْهَبَنَّ بِهِ كُلِّهِ، قَالَ: فَيَقْتَتِلُونَ عَلَيْهِ، فَيُقْتَلُ مِنْ كُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ "، قَالَ أَبُو كَامِلٍ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: وَقَفْتُ أَنَا وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فِي ظِلِّ أُجُمِ حَسَّانَ.
عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے، میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا تھا، انہوں نے کہا: ہمیشہ لوگ دنیا کمانے کی فکر میں رہیں گے۔ میں نے کہا: ہاں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قریب ہے کہ فرات میں ایک سونے کا پہاڑ نمودار ہو۔ لوگ جب یہ سنیں گے تو اس طرف چلیں گے اور جو لوگ وہاں ہوں گے وہ کہیں گے: اگر ہم لوگوں کو اس پہاڑ میں سے لینے دیں تو وہ سارا پہاڑ لے جائیں گے۔ آخر لڑیں گے تو فیصدی ننانوے آدمی مارے جائیں گے۔“ ابوکامل نے کہا: اپنی روایت میں، میں اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں حسان کے قلعہ کے سایہ میں کھڑے تھے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِعُبَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ مَوْلَى خَالِدِ بْنِ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنَعَتْ الْعِرَاقُ دِرْهَمَهَا وَقَفِيزَهَا، وَمَنَعَتْ الشَّأْمُ مُدْيَهَا وَدِينَارَهَا، وَمَنَعَتْ مِصْرُ إِرْدَبَّهَا وَدِينَارَهَا وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ، وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ، وَعُدْتُمْ مِنْ حَيْثُ بَدَأْتُمْ "، شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ لَحْمُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَدَمُهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عراق کا ملک اپنے درہم اور قفیز کو روکے گا اور شام کا ملک اپنے مدی اور دینار کو روکے گا اور مصر کا ملک اپنے اردب و دینار کو روکے گا اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے، اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے، اور ہو جاؤ گے تم جیسے آگے تھے۔“ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر گواہی دیتا ہے ابوہریرہ کا گوشت اور خون (یعنی اس میں کچھ شک نہیں)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، فَإِذَا تَصَافُّوا، قَالَتْ الرُّومُ: خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ، فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ: لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا، فَيُقَاتِلُونَهُمْ، فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا، وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ، وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا، فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ، إِذْ صَاحَ فِيهِمُ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَكُمْ فِي أَهْلِيكُمْ، فَيَخْرُجُونَ وَذَلِكَ بَاطِلٌ، فَإِذَا جَاءُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّهُمْ، فَإِذَا رَآهُ عَدُوُّ اللَّهِ ذَابَ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ، فَلَوْ تَرَكَهُ لَانْذَابَ حَتَّى يَهْلِكَ، وَلَكِنْ يَقْتُلُهُ اللَّهُ بِيَدِهِ فَيُرِيهِمْ دَمَهُ فِي حَرْبَتِهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ روم کے نصاریٰ کا لشکر اعماق میں یا دابق میں اترے گا (یہ دونوں مقام شام میں ہیں حلب کے قریب) پھر مدینہ میں ایک لشکر نکلے گا ان کی طرف جو ان دنوں تمام زمین والوں میں بہتر ہو گا۔ جب صف باندھیں گے دونوں لشکر تو نصاریٰ کہیں گے: تم لوگ الگ ہو جاؤ ان لوگوں سے (یعنی ان مسلمانوں سے) جنہوں نے ہماری جورو لڑکے پکڑے اور لونڈی غلام بنائے ہم ان سے لڑیں گے۔ مسلمان کہیں گے: نہیں اللہ کی قسم! ہم کبھی اپنے بھائیوں سے الگ نہ ہوں گے۔ پھر لڑائی ہو گی تو مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر بھاگ نکلے گا ان کی توبہ کبھی اللہ تعالیٰ قبول نہ کرے گا اور تہائی لشکر مارا جائے گا وہ سب شہیدوں میں افضل ہوں گے۔ اللہ کے پاس اور تہائی لشکر کی فتح ہو گی۔ وہ عمر بھر کبھی فتنے اور بلا میں نہ پڑیں گے۔ پھر قسطنطینیہ کو فتح کریں گے (جو نصاریٰ کے قبضہ میں آ گیا ہو گا۔ اب تک یہ شہر مسلمانوں کے قبضہ میں ہے) تو وہ لوٹ کے مالوں کو بانٹ رہے ہوں گے اور اپنی تلواروں کو زیتون کے درختوں میں لٹکا دیا ہو گا، اتنے میں شیطان آواز کر دے گا کہ دجال تمہارے پیچھے تمہارے بال بچوں میں آ پڑا تو مسلمان وہاں سے نکلیں گے حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہو گی۔ جب شام کے ملک میں پہنچیں گے تب دجال نکلے گا سو جس وقت مسلمان لڑائی کے لیے مستعد ہو کر صفیں باندھتے ہوں گے نماز کی تیاری ہو گی۔ اسی وقت عیسٰی بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور امام بن کر نماز پڑھائیں گے پھر جب اللہ کا دشمن دجال عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھے گا تو اس طرح (ڈر سے) گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے اور جو عیسیٰ علیہ السلام اس کو یونہی چھوڑ دیں تب بھی وہ خود بخود گل کر ہلاک ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو قتل کرے گا۔ عیسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں پر اور اس کا خون لوگوں کو دکھلائے گا عیسیٰ علیہ السلام کی برچھی میں۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ الْمُسْتَوْرِدُ الْقُرَشِيُّ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَكْثَرُ النَّاسِ "، فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو: أَبْصِرْ مَا تَقُولُ، قَالَ: أَقُولُ: مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَئِنْ، قُلْتَ: " ذَلِكَ إِنَّ فِيهِمْ لَخِصَالًا أَرْبَعًا إِنَّهُمْ لَأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةٍ، وَأَسْرَعُهُمْ إِفَاقَةً بَعْدَ مُصِيبَةٍ، وَأَوْشَكُهُمْ كَرَّةً بَعْدَ فَرَّةٍ وَخَيْرُهُمْ لِمِسْكِينٍ وَيَتِيمٍ وَضَعِيفٍ، وَخَامِسَةٌ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ، وَأَمْنَعُهُمْ مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوكِ ".
مستورد قرشی نے کہا: سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے روبرو کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”قیامت اس وقت قائم ہو گی جب نصاریٰ سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔“ (یعنی ہندو اور مسلمانوں سے) عمرو نے کہا: دیکھ تو کیا کہتا ہے۔ مستورد نے کہا: میں تو وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ عمرو نے کہا: اگر تو کہتا ہے (تو سچ ہے) کیوں کہ نصاریٰ میں چار خصلتیں ہیں وہ مصیبت کے وقت نہایت بردباد ہیں اور مصیبت کے بعد سب سے جلدی ہوشیار ہوتے ہیں اور بھاگنے کے بعد سب سے پہلے حملہ کرتے ہیں اور بہتر ہیں سب لوگوں میں مسکین یتیم اور ضعیف کے لیے اور ایک پانچویں خصلت ہے جو نہایت عمدہ ہے سب لوگوں سے وہ بادشاہوں کے ظلم کو روکتے ہیں۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو شُرَيْحٍ ، أَنَّ عَبْدَ الْكَرِيمِ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْمُسْتَوْرِدَ الْقُرَشِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَكْثَرُ النَّاسِ "، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تُذْكَرُ عَنْكَ أَنَّكَ تَقُولُهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ لَهُ الْمُسْتَوْرِدُ: قُلْتُ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، فَقَالَ عَمْرٌو: لَئِنْ، قُلْتَ: " ذَلِكَ إِنَّهُمْ لَأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةٍ، وَأَجْبَرُ النَّاسِ عِنْدَ مُصِيبَةٍ، وَخَيْرُ النَّاسِ لِمَسَاكِينِهِمْ وَضُعَفَائِهِمْ ".
مستورد قریشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قیامت اس وقت قائم ہو گی جب نصاریٰ سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔“ یہ خبر سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو پہنچی۔ اس نے مستورد سے کہا: یہ کیسی حدیثیں ہیں جن کو لوگ کہتے ہیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہو۔ مستورد نے کہا: میں تو وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے۔ عمرو نے کہا: اگر تو یہ کہتا ہے (تو ٹھیک ہے) بے شک نصاریٰ سب لوگوں سے زیادہ بردباد ہیں مصیبت کے وقت اور سب لوگوں سے زیادہ مصیبت کے بعد جلد درست ہوتے ہیں اور بہتر ہیں لوگوں میں اپنے ضعیفوں اور مسکینوں کے لیے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: هَاجَتْ رِيحٌ حَمْرَاءُ بِالْكُوفَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ لَيْسَ لَهُ هِجِّيرَى إِلَّا يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، جَاءَتِ السَّاعَةُ، قَالَ: فَقَعَدَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَقَالَ: إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى لَا يُقْسَمَ مِيرَاثٌ، وَلَا يُفْرَحَ بِغَنِيمَةٍ، قَالَ بِيَدِهِ: هَكَذَا وَنَحَّاهَا نَحْوَ الشَّأْمِ، فَقَالَ عَدُوٌّ: يَجْمَعُونَ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، وَيَجْمَعُ لَهُمْ أَهْلُ الْإِسْلَامِ، قُلْتُ: الرُّومَ تَعْنِي، قَالَ: نَعَمْ، وَتَكُونُ عِنْدَ ذَاكُمُ الْقِتَالِ رَدَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَيَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجُزَ بَيْنَهُمُ اللَّيْلُ فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ ثُمَّ يَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجُزَ بَيْنَهُمُ اللَّيْلُ فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ ثُمَّ يَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يُمْسُوا فَيَفِيءُ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الرَّابِعِ نَهَدَ إِلَيْهِمْ بَقِيَّةُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَيَجْعَلُ اللَّهُ الدَّبْرَةَ عَلَيْهِمْ، فَيَقْتُلُونَ مَقْتَلَةً إِمَّا، قَالَ: لَا يُرَى مِثْلُهَا، وَإِمَّا قَالَ: لَمْ يُرَ مِثْلُهَا حَتَّى إِنَّ الطَّائِرَ لَيَمُرُّ بِجَنَبَاتِهِمْ، فَمَا يُخَلِّفُهُمْ حَتَّى يَخِرَّ مَيْتًا، فَيَتَعَادُّ بَنُو الْأَبِ كَانُوا مِائَةً، فَلَا يَجِدُونَهُ بَقِيَ مِنْهُمْ إِلَّا الرَّجُلُ الْوَاحِدُ، فَبِأَيِّ غَنِيمَةٍ يُفْرَحُ أَوْ أَيُّ مِيرَاثٍ يُقَاسَمُ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعُوا بِبَأْسٍ هُوَ أَكْبَرُ مِنْ ذَلِكَ، فَجَاءَهُمُ الصَّرِيخُ إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَلَفَهُمْ فِي ذَرَارِيِّهِمْ، فَيَرْفُضُونَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَيُقْبِلُونَ، فَيَبْعَثُونَ عَشَرَةَ فَوَارِسَ طَلِيعَةً، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْرِفُ أَسْمَاءَهُمْ وَأَسْمَاءَ آبَائِهِمْ، وَأَلْوَانَ خُيُولِهِمْ هُمْ خَيْرُ فَوَارِسَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ، أَوْ مِنْ خَيْرِ فَوَارِسَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ "، قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ،
یسیر بن جابر سے روایت ہے، ایک بار کوفہ میں لال آندھی آئی، ایک شخص آیا جس کا تکیہ کلام یہی تھا اے عبداللہ بن مسعود! قیامت آئی۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے اور پہلے تکیہ لگائے تھے، انہوں نے کہا: قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ ترکہ نہ بٹے گا اور لوٹ سے خوشی نہ ہو گی (کیونکہ جب کوئی وارث ہی نہ رہے گا تو ترکہ کون بانٹے گا اور جب کوئی لڑائی سے زندہ نہ بچے گا تو لوٹ کی کیا خوشی ہو گی) پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا شام کے ملک کی طرف اور کہا: دشمن (نصاریٰ) جمع ہوں گے مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اور مسلمان بھی ان سے لڑنے کے لیے جمع ہوں گے۔ میں نے کہا: دشمن سے تمہاری مراد نصاریٰ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں اور اس وقت سخت لڑائی شروع ہو گی۔ مسلمان ایک لشکر کو آگے بھیجیں گے جو مرنے کے لیے آگے بڑھے گا اور نہ لوٹے گا بغیر غلبہ کے (یعنی اس قصد سے جائے گا کہ یا لڑ کر مر جائیں گے یا فتح کر کے آئیں گے)۔ پھر دونوں فرقے لڑیں گے یہاں تک کہ رات ہو جائے گی اور دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور جو لشکر لڑائی کے لیے بڑھا تھا وہ بالکل فنا ہو جائے گا (یعنی سب لوگ اس کے قتل ہو جائیں گے)۔ دوسرے دن پھر مسلمان ایک لشکر آگے بڑھائیں گے جو مرنے کے لیے یا غالب ہونے کے لیے جائے گا اور لڑائی رہے گی یہاں تک کہ رات ہو جائے گی۔ پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی اور کسی کو غلبہ نہ ہو گا، جو لشکر آگے بڑھا تھا وہ فنا ہو جائے گا۔ پھر تیسرے دن مسلمان ایک لشکر آگے بڑھائیں گے مرنے یا غالب ہونے کی نیت سے اور شام تک لڑائی رہے گی،پھر دونوں طرف کی فوجیں لوٹ جائیں گی۔ کسی کو غلبہ نہ ہو گا اور وہ لشکر فنا ہو جائے گا۔ جب چوتھا دن ہو گا تو جتنے مسلمان باقی رہ گئے ہوں گے وہ سب آگے بڑھیں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو شکست دے گا اور ایسی لڑائی ہو گی کہ ویسی کوئی نہ دیکھے گا یا ویسی لڑائی کسی نے نہیں دیکھی یہاں تک کہ پرندہ ان کے اوپر یا ان کے بدن پر اڑے گا پھر آگے نہیں بڑھے گا کہ وہ مردہ ہو کر گریں گے۔ ایک جدی لوگ جو گنتی میں سو ہوں گے، ان میں سے ایک شخص بچے گا (یعنی فی صد ننانوے (۹۹) آدمی مارے جائیں گے اور ایک رہ جائے گا) ایسی حالت میں کون سی لوٹ سے خوشی حاصل ہو گی اور کون سا ترکہ بانٹا جائے گا۔ پھر مسلمان اسی حالت میں ہوں گے کہ ایک اور بڑی آفت کی خبر سنیں گے۔ ایک پکار ان کو آئے گی کہ دجال ان کے پیچھے ان کے بال بچوں میں آ گیا۔ یہ سنتے ہی جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہو گا اس کو چھوڑ کر روانہ ہوں گے اور دس سواروں کو طلائے کے طور پر روانہ کریں گے (دجال کی خبر لانے کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان سواروں کے اور ان کے باپوں کے نام جانتا ہوں اور ان کے گھوڑوں کے رنگ جانتا ہوں وہ ساری زمین کے بہتر سوار ہوں گے اس دن یا بہتر سواروں میں سے ہوں گے اس دن۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَهَبَّتْ رِيحٌ حَمْرَاءُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ وَحَدِيثُ ابْنِ عُلَيَّةَ أَتَمُّ وَأَشْبَعُ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، وَالْبَيْتُ مَلْآنُ، قَالَ: فَهَاجَتْ رِيحٌ حَمْرَاءُ بِالْكُوفَةِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ.
اسیر بن جابر سے روایت ہے، ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھے اور گھر بھرا ہوا تھا، اتنے میں لال ہوا چلی کوفہ میں، پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، قَالَ: فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ عَلَيْهِمْ ثِيَابُ الصُّوفِ، فَوَافَقُوهُ عِنْدَ أَكَمَةٍ، فَإِنَّهُمْ لَقِيَامٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، قَالَ: فَقَالَتْ لِي نَفْسِي: ائْتِهِمْ فَقُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ لَا يَغْتَالُونَهُ، قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ: لَعَلَّهُ نَجِيٌّ مَعَهُمْ فَأَتَيْتُهُمْ، فَقُمْتُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ، قَالَ: فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ أَعُدُّهُنَّ فِي يَدِي، قَالَ: " تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ، فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ ثُمَّ فَارِسَ، فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ، ثُمَّ تَغْزُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ "، قَالَ: فَقَالَ نَافِعٌ: يَا جَابِرُ لَا نَرَى الدَّجَّالَ يَخْرُجُ حَتَّى تُفْتَحَ الرُّومُ.
سیدنا نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے ایک جہاد میں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ مغرب کی طرف سے آئے جو بالوں کے کپڑے پہنے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے ایک ٹیلے کے پاس، وہ لوگ کھڑے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے میرے دل نے کہا: تو چلا جا اور ان لوگوں کے اوپر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں کھڑا رہ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فریب سے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو مار ڈالیں۔ پھر میرے دل نے کہا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے کچھ باتیں ان سے کرتے ہوں (اور میرا جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرے). پھر میں گیا اور ان لوگوں کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں کھڑا ہو گیا، میں نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں یاد کیں، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ پر گنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: پہلے تم عرب کے جزیرہ میں (کافروں سے) جہاد کرو گے، اللہ اس کو فتح کر دے گا، پھر فارس سے جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر نصاریٰ سے لڑو گے روم والوں سے، اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر دجال سے لڑو گے اللہ تعالیٰ اس کو بھی فتح کر دے گا۔“(یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ ہے) نافع نے کہا: اے جابر بن عمرو! ہم سمجھتے ہیں دجال اس کے بعد نکلے گا جب روم کا ملک فتح ہو جائے گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ، فَقَالَ: " مَا تَذَاكَرُونَ؟ "، قَالُوا: نَذْكُرُ السَّاعَةَ، قَالَ: " إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ، فَذَكَرَ الدُّخَانَ، وَالدَّجَّالَ، وَالدَّابَّةَ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ ".
سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برآمد ہوئے ہم پر اور ہم باتیں کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کیا باتیں کرتے تھے؟“ ہم نے کہا: ہم قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہیں قائم ہو گی جب تک دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔“ پھر ذکر کیا دھوئیں کا اور دجال کا اور زمین کے جانور کا اور آفتاب کے نکلنے کا پچھم سے اور سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے اترنے کا اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا اور تین جگہ خسف ہونا یعنی زمین میں دھنسنا، ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرہ عرب میں اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو لوگوں کو یمن سے نکالے گی اور ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی .“ (محشر شام کی زمین ہے)۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غُرْفَةٍ، وَنَحْنُ أَسْفَلَ مِنْهُ، فَاطَّلَعَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: " مَا تَذْكُرُونَ؟ "، قُلْنَا: السَّاعَةَ، قَالَ: " إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَكُونُ حَتَّى تَكُونَ عَشْرُ آيَاتٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ، وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ، وَخَسْفٌ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَالدُّخَانُ، وَالدَّجَّالُ، وَدَابَّةُ الْأَرْضِ، وَيَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَنَارٌ تَخْرُجُ مِنْ قُعْرَةِ عَدَنٍ تَرْحَلُ النَّاسَ "، قَالَشُعْبَةُ : وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ ، مِثْلَ ذَلِكَ لَا يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ أَحَدُهُمَا فِي الْعَاشِرَةِ نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ الْآخَرُ: وَرِيحٌ تُلْقِي النَّاسَ فِي الْبَحْرِ،
ابوسریحہ حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالا خانہ میں تھے اور ہم نیچے بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو جھانکا اور فرمایا: ”تم کیا ذکر کر رہے ہو؟“ ہم نے عرض کیا: قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”: قیامت نہ ہو گی جب تک دس نشانیاں نہ ہوں گی ایک «خسف» (زمین کا دھنسنا) مشرق میں، دوسری«خسف» مغرب میں، تیسری «خسف» جزیرہ عرب میں، چوتھے دھواں، پانچویں دجال، چھٹے زمین کا جانور، ساتویں یاجوج و ماجوج، آٹھویں آفتاب کا نکلنا پچھم سے، نویں ایک آگ جو عدن کے کنارے سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی۔“ اس روایت میں دسویں نشانی کا ذکر نہیں ہے۔ دوسری روایت میں دسویں نشانی عیسٰی علیہ السلام کا اترنا ہے اور ایک روایت میں ایک آندھی ہے جو لوگوں کو سمندر میں ڈال دے گی۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فُرَاتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غُرْفَةٍ، وَنَحْنُ تَحْتَهَا نَتَحَدَّثُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: تَنْزِلُ مَعَهُمْ إِذَا نَزَلُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ، قَالُوا: قَالَ شُعْبَةُ : وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، قَالَ أَحَدُ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ: نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وقَالَ الْآخَرُ: رِيحٌ تُلْقِيهِمْ فِي الْبَحْرِ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”وہ آگ لوگوں کے ساتھ رہے گی جہاں وہ اتر پڑیں گے آگ بھی اتر پڑے گی اور جب وہ دوپہر کو سو رہیں گے تو آگ بھی ٹھہر جائے گی۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فُرَاتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ ، قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ فَأَشْرَفَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مُعَاذٍ وَابْنِ جَعْفَرٍ، وقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى : حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ بِنَحْوِهِ، قَالَ: وَالْعَاشِرَةُ نُزُولُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، قَالَ شُعْبَةُ: وَلَمْ يَرْفَعْهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ. ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ : أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ تُضِيءُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرَى ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ نکلے گی ایک آگ حجاز کے ملک سے، روشن کر دے گی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو۔“ (یعنی اس کی روشنی ایسی تیز ہو گی کہ عرب سے شام تک پہنچے گی، حجاز مکہ اور مدینہ کا ملک اور بصریٰ ایک شہر کا نام ہے)۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَبْلُغُ الْمَسَاكِنُ إِهَابَ أَوْ يَهَابَ "، قَالَ زُهَيْرٌ: قُلْتُ لِسُهَيْلٍ: فَكَمْ ذَلِكَ مِنْ الْمَدِينَةِ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا مِيلًا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے قریب) مدینہ کے گھر «اهاب» یا «يهاب» تک پہنچ جائیں گے۔“ زہیر نے کہا: میں نے سہیل سے کہا: «اهاب» مدینہ سے کتنے فاصلہ پر ہے؟ انہوں نے کہا: اتنے میل پر۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَتِ السَّنَةُ بِأَنْ لَا تُمْطَرُوا، وَلَكِنْ السَّنَةُ أَنْ تُمْطَرُوا، وَتُمْطَرُوا وَلَا تُنْبِتُ الْأَرْضُ شَيْئًا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قحط یہ نہیں ہے کہ پانی نہ برسے، قحط یہ ہے کہ پانی برسے اور برسے اور زمین سے کچھ نہ اُگے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ، يَقُولُ: " أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، أَلَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا، مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک پورب کی طرف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”آگاہ رہو فتنہ یہاں ہے، جہاں سے شیطان کا قرن نکلتا ہے۔“ (پورب کی طرف ربیعہ اور مضر کی قومیں بستی تھیں۔ یہ لوگ اسلام کے بہت خلاف تھے۔ شیطان کے قرن سے مراد اس کی دونوں زلفیں یا دونوں سینگ ہیں، اس واسطے کہ جب آفتاب نکلتا ہے تو شیطان اپنا سر اس پر رکھ دیتا ہے تاکہ سجدہ کرنے والوں کا سجدہ اس کو واقع ہو)۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ ، قَالَ الْقَوَارِيرِيُّ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عِنْدَ بَابِ حَفْصَةَ، فَقَالَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ: " الْفِتْنَةُ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ، قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا "، وقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ فِي رِوَايَتِهِ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ بَابِ عَائِشَةَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور مشرق کی طرف اشارہ کیا، فرمایا: ”فساد اسی طرف ہے جہاں سے شیطان کا قرن نکلتا ہے۔“ دو بار فرمایا یا تین بار۔ اور سیدنا عبداللہ بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر کھڑے تھے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ: " هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ: " رَأْسُ الْكُفْرِ مِنْ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ يَعْنِي الْمَشْرِقَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے اور فرمایا: ”کفر کی چوٹی ادھر ہے جہاں سے شیطان کا سر نکلتا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرق مراد لیتے تھے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، وَيَقُولُ: " هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا هَا، إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا ثَلَاثًا حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ ".
ترجمہ وہی ہےجو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ مَا أَسْأَلَكُمْ عَنِ الصَّغِيرَةِ، وَأَرْكَبَكُمْ لِلْكَبِيرَةِ، سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْفِتْنَةَ تَجِيءُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ، وَأَنْتُمْ يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، وَإِنَّمَا قَتَلَ مُوسَى الَّذِي قَتَلَ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ خَطَأً، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا سورة طه آية 40 "، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ فِي رِوَايَتِهِ: عَنْ سَالِمٍ، لَمْ يَقُلْ سَمِعْتُ.
سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے تھے: اے عراق والو! میں تم سے چھوٹے گناہ نہیں پوچھتا نہ اس کو پوچھتا ہوں جو کبیرہ گناہ کرتا ہو۔ میں نے سنا اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ کہتے تھے: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے: ”فتنہ ادھر سے آئے گا۔“ اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے پورب کی طرف، ”جہاں شیطان کے دونوں قرن نکلتے ہیں“ اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو (حالانکہ مؤمن کا قتل کرنا کتنا بڑا گناہ ہے)اور سیدنا موسٰی علیہ السلام نے جو فرعون کی قوم کا ایک شخص مارا تھا وہ خطا سے مارا تھا (نہ بہ نیت قتل کیونکہ گھونسے سے آدمی نہیں مرتا) اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو نے ایک خون کیا پھر ہم نے تجھ کو نجات دی غم سے اور تجھ کو آزمایا جیسا آزمایا تھا۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبْدُ بْنُ حميد: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِي الْخَلَصَةِ، وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دوس کی عورتوں کے سرین ہلیں گے ذی الخلصہ کے گرد .“ (یعنی وہ طواف کریں گی اس کا)۔ ذوالخصلہ ایک بت تھا جس کو جاہلیت کے زمانہ میں تبادلہ میں پوجا کرتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، وَأَبُو مَعْنٍ زَيْدُ بْنُ يَزِيدَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي مَعْنٍ قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللَّاتُ وَالْعُزَّى "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ سورة التوبة آية 33، أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا، قَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَيَبْقَى مَنْ لَا خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فرمایا: ”رات اور دن ختم نہ ہوں گے جب تک لات اور عزیٰ (یہ دونوں بت تھے جاہلیت کے) پھر نہ پوجے جائیں گے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو سمجھتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ» (۹-التوبة: ٣٣) ”اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو غالب کرے سب دینوں پر اگرچہ برا مانیں مشرک لوگ کہ یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے (اور سوائے اسلام کے) اور کوئی دین دنیا میں غالب نہ رہے گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہے، پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جس کی وجہ سے ہر مؤمن مر جائے گا یہاں تک کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں دانے برابر بھی ایمان ہو گا مر جائے گا اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں بھلائی نہیں ہے، پھر وہ لوگ اپنے (مشرک) باپ دادا کے دین پر لوٹ جائیں گے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
عبدالحمید بن جعفر سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر پر سے گزرے گا اور کہے گا: کاش! میں اس کی جگہ قبر میں ہوتا۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبَانَ قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَى الْقَبْرِ، فَيَتَمَرَّغُ عَلَيْهِ، وَيَقُولُ: يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَكَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ، وَلَيْسَ بِهِ الدِّينُ إِلَّا الْبَلَاءُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے مجھ کو اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا فنا نہ ہو گی یہاں تک کہ آدمی قبر پر گزرے گا پھر اس پر لیٹے گا: اور کہے گا کاش! میں اس قبر والا ہوتا اور نہ ہو گا ساتھ اس کے دین مگر بلا۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَتَلَ، وَلَا يَدْرِي الْمَقْتُولُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ قُتِلَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والا نہ جانے گا اس نے قتل کیوں کیا اور مقتول نہ جانے گا کہ وہ کیوں قتل ہوتا ہے۔“ (ایسا اندھا دھند فساد ہو گا لوگ ناحق مارے جائیں گے)۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ، وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ "، فَقِيلَ: كَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ؟، قَالَ: " الْهَرْجُ الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبَانَ، قَالَ هُوَ يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ: عَنْ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، لَمْ يَذْكُرْ الْأَسْلَمِيَّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میری جان ہے دنیا ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ لوگوں پر ایک دن آئے گا کہ مارنے والا نہ جانے گا اس نے کیوں مارا اور جو مارا گیا وہ نہ جانے گا کیوں مارا گیا۔“ لوگوں نے کہا: یہ کیوں کر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کشت وخون ہو گا، قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کعبہ کو خراب کرے گا ایک شخص حبش کا چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا۔“ (مراد ابی سینا کے کافر ہیں جو نصارٰی ہیں یا وسط حبش کے بت پرست۔ آخر زمانہ میں ان کا غلبہ ہو گا اور مسلمان دنیا سے اٹھ جائیں گے تب یہ مردود حبشی ایسا کام کرے گا)۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُخَرِّبُ الْكَعْبَةَ ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ مِنْ الْحَبَشَةِ يُخَرِّبُ بَيْتَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ ایک شخص قحطان (ایک قبیلہ ہے) کا نکلے گا جو لوگوں کو اپنی لکڑی سے ہانکے گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْحَكَمِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَذْهَبُ الْأَيَّامُ وَاللَّيَالِي حَتَّى يَمْلِكَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْجَهْجَاهُ "، قَالَ مُسْلِم: هُمْ أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ شَرِيكٌ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ، وَعُمَيْرٌ، وَعَبْدُ الْكَبِيرِ بَنُو عَبْدِ الْمَجِيدِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دن رات ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ ایک شخص بادشاہ ہو گا جس کو جہجاہ کہیں گے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جن کے منہ ڈھالوں جیسے ہوں گے اور قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلَكُمْ أُمَّةٌ يَنْتَعِلُونَ الشَّعَرَ، وُجُوهُهُمْ مِثْلُ الْمَجَانِّ الْمُطْرَقَةِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جب کے منہ ایسے ہوں گے جیسے ڈھالیں تہہ بتہ جمی ہوئیں۔“ (یعنی موٹے منہ گول گول مراد ترک لوگ ہیں جو چین کے قریب تاتار کے رہنے والے ہیں۔ یہ پیشین گوئی پوری ہوئی مسلمان ان سے لڑے ساتویں صدی ہجری میں)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا صِغَارَ الْأَعْيُنِ ذُلْفَ الْآنُفِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جن کی آنکھیں چھوٹی ناک موٹی اور چپٹی ہو گی۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ التُّرْكَ قَوْمًا، وُجُوهُهُمْ كَالْمَجَانِّ الْمُطْرَقَةِ يَلْبَسُونَ الشَّعَرَ وَيَمْشُونَ فِي الشَّعَرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمان ترکوں لڑیں گے جن کے وجوہ سپر کی طرح تہہ بتہہ ہوں گے، ان کا لباس بالوں کا ہو گا اور وہ چلیں گے بالوں میں۔“ (یعنی جوتے بھی بالوں کے ہوں گے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُقَاتِلُونَ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ حُمْرُ الْوُجُوهِ صِغَارُ الْأَعْيُنِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قیامت کے قریب ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے۔ ان کے منہ گویا ڈھالیں ہیں تہہ بتہہ، چہرے ان کے سرخ ہیں، آنکھیں چھوٹی ہیں۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: يُوشِكُ أَهْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لَا يُجْبَى إِلَيْهِمْ قَفِيزٌ وَلَا دِرْهَمٌ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ يَمْنَعُونَ ذَاكَ، ثُمَّ قَالَ: يُوشِكُ أَهْلُ الشَّأْمِ أَنْ لَا يُجْبَى إِلَيْهِمْ دِينَارٌ وَلَا مُدْيٌ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الرُّومِ ثُمَّ سَكَتَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي خَلِيفَةٌ يَحْثِي الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا "، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي نَضْرَةَ، وَأَبِي الْعَلَاءِ: أَتَرَيَانِ أَنَّهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟، فَقَالَا: لَا،
ابونضرہ سے روایت ہے، ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے کہا: قریب ہے عراق والوں کے قفیز اور درہم نہ آئیں۔ ہم نے کہا: کس سبب سے؟ انہوں نے کہا: عجم کے لوگ اس کو روک لیں گے۔ پھر کہا: قریب ہے کہ شام والوں کے پاس دینار اور مدی نہ آئے (مدی ایک پیمانہ ہے اسی طرح قفیز) ہم نے کہا: کس سبب سے؟ انہوں نے کہا: روم والے لوگ روک لیں گے۔ پھر تھوڑی دیر چپ ہو رہے، بعد اس کے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اخیر امت میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپ بھر بھر کر مال دے گا(یعنی روپیہ اور اشرفیاں لوگوں کو) اور اس کو شمار نہ کرے گا۔“ جریر نے کہا: میں نے ابونضرہ اور ابوالعلاء سے پوچھا: کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں (یہ امام مہدی ہیں جو امت کے اخیر زمانے میں پیدا ہوں گے۔ عمر بن عبدالعزیز تو اوائل میں تھے)۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي الْجُرَيْرِيَّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
جریری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ كِلَاهُمَا، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ خُلَفَائِكُمْ خَلِيفَةٌ يَحْثُو الْمَالَ حَثْيًا لَا يَعُدُّهُ عَدَدًا "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ يَحْثِي الْمَالَ.
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے خلیفوں میں سے ایک خلیفہ ایسا ہو گا جو مال کو لپ بھر بھر کر دے گا اس کو گنے گا نہیں۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ خَلِيفَةٌ يَقْسِمُ الْمَالَ وَلَا يَعُدُّهُ "،
سیدنا ابوسعید اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اخیر زمانہ میں ایک خلیفہ ہو گا جو مال کو بانٹے گا اور شمار نہ کرے گا۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَمَّارٍ حِينَ جَعَلَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ، وَجَعَلَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ، وَيَقُولُ: " بُؤْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ تَقْتُلُكَ فِئَةٌ بَاغِيَةٌ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مجھ سے بیان کیا اس شخص نے جو مجھ سے بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے جب وہ خندق کھود رہے تھے ان کا سر پونچھنے لگے اور فرماتے تھے: ”اے سمیہ کے بیٹے! تجھ پر بڑی مصیبت ہو گی، تجھ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُعَاذِ بْنِ عَبَّادٍ الْعَنْبَرِيُّ ، وَهُرَيْمُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ،وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ النَّضْرِ، أَخْبَرَنِي مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو قَتَادَةَ ، وَفِي حَدِيثِ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أُرَاهُ يَعْنِي أَبَا قَتَادَةَ، وَفِي حَدِيثِ خَالِدٍ، وَيَقُولُ: يَا وَيْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ وہ شخص سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھے اور «بوس» کے بدلے «ويس» ہے «ويس» کے معنی خرابی اور مصیبت۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ عُقْبَةُ: حَدَّثَنَا، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْبَرَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ ، عَنْأُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَمَّارٍ: " تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ "،
ام المؤمنین سیدہ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے: ”تجھ کو قتل کرے گا ایک باغی گروہ۔“ (باغی جو امام سے پھر جائے)۔
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ وَالْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِمَا ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کی مثل روایت کرتی ہیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کرے گا عمار کو باغی گروہ۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُهْلِكُ أُمَّتِي هَذَا الْحَيُّ مِنْ قُرَيْشٍ "، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟، قَالَ: " لَوْ أَنَّ النَّاسَ اعْتَزَلُوهُمْ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہلاک کرے گا لوگوں کو یہ خاندان قریش میں سے (مراد بنی امیہ کا خاندان ہے)۔“ اصحاب رضی اللہ عنہم نے کہا: پھر ہم کو کیا حکم ہوتا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ ان سے الگ رہیں تو بہتر ہے۔“
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ فِي مَعْنَاهُ.
شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اس کے ہم معنی روایت ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ مَاتَ كِسْرَى، فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسریٰ (ایران کا بادشاہ) مر گیا اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا اور جب قیصر (روم کا بادشاہ) مر جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہو گا اور یہ دونوں ملک مسلمان فتح کر لیں گے۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ان دونوں کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ . ح وحَدَّثَنِي ابْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِإِسْنَادِ سُفْيَانَ وَمَعْنَى حَدِيثِهِ.
زہری نے سفیان کی سند کے مطابق اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلَكَ كِسْرَى، ثُمَّ لَا يَكُونُ كِسْرَى بَعْدَهُ، وَقَيْصَرُ لَيَهْلِكَنَّ، ثُمَّ لَا يَكُونُ قَيْصَرُ بَعْدَهُ، وَلَتُقْسَمَنَّ كُنُوزُهُمَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ سَوَاءً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَتَفْتَحَنَّ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَوْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ كَنْزَ آلِ كِسْرَى الَّذِي فِي الْأَبْيَضِ "، قَالَ قُتَيْبَةُ: مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَلَمْ يَشُكَّ،
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”البتہ مسلمانوں کی یا مؤمنوں کی (راوی کو شک ہے) ایک جماعت کسریٰ کے خزانے کو کھولے گی جو سفید محل میں ہے۔“ قتیبہ کی روایت میں مسلمانوں کی ہے بلا شک و شبہ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ثَوْرٍ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَمِعْتُمْ بِمَدِينَةٍ جَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَرِّ، وَجَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَحْرِ؟ "، قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَغْزُوَهَا سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ بَنِي إِسْحَاقَ، فَإِذَا جَاءُوهَا نَزَلُوا، فَلَمْ يُقَاتِلُوا بِسِلَاحٍ وَلَمْ يَرْمُوا بِسَهْمٍ، قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَيَسْقُطُ أَحَدُ جَانِبَيْهَا، قَالَ: ثَوْرٌ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا، قَالَ: الَّذِي فِي الْبَحْرِ، ثُمَّ يَقُولُوا الثَّانِيَةَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَيَسْقُطُ جَانِبُهَا الْآخَرُ، ثُمَّ يَقُولُوا الثَّالِثَةَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَيُفَرَّجُ لَهُمْ فَيَدْخُلُوهَا، فَيَغْنَمُوا فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْمَغَانِمَ إِذْ جَاءَهُمُ الصَّرِيخُ، فَقَالَ: إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَرَجَ فَيَتْرُكُونَ كُلَّ شَيْءٍ وَيَرْجِعُونَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سنا ہے ایسا شہر جس کے ایک جانب خشکی ہے اور ایک جانب سمندر ہے؟“ اصحاب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! ہم نے سنا ہے (یعنی قسطنطینیہ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لڑیں گے اس شہر سے ستر ہزار سیدنا اسحاق کی اولاد سے، سو جب اس شہر کے پاس آئیں گے تو اتر پڑیں گے، سو ہتھیار سے نہ لڑیں گے اور نہ تیر ماریں گے«لا اله الا الله والله اكبر» کہیں گے، تو اس کی ایک طرف جو دریا میں ہے گر پڑے گی، پھر دوسری بار «لا اله الا الله والله اكبر» کہیں گے تو اس کی دوسری طرف گر پڑے گی۔ پھر تیسری بار «لا اله الا الله والله اكبر» کہیں گے تو ہر طرف سے کھل جائے گا۔ سو اس شہر میں گھس پڑیں گے اور لوٹیں گے جب لوٹ کے مال بانٹ رہے ہوں گے کہ اچانک ایک چیخنے والا آئے گا اور کہے گا: دجال نکلا، تو وہ ہر چیز کو چھوڑ دیں گے اور دجال کی طرف پلٹیں گے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ.
ثور بن یزید دیلمی سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَتُقَاتِلُنَّ الْيَهُودَ، فَلَتَقْتُلُنَّهُمْ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ: يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لڑو گے یہود سے اور مارو گے ان کو یہاں تک کہ پتھر بولے گا: اے مسلمان! یہ یہودی ہے آ اور اس کو مار ڈال۔“ (یہ قیامت کے قریب ہو گا)۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي.
عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ ”پتھر کہے گا: یہ میری آڑ میں ایک یہودی ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا ، يَقُولُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَقْتَتِلُونَ أَنْتُمْ وَيَهُودُ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ: يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي تَعَالَ فَاقْتُلْهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُقَاتِلُكُمْ الْيَهُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ: يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ”یہودی تم سے لڑیں گے پھر تم ان پر غالب ہو گے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ: يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے۔ پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا، تو وہ پتھر یا درخت بولے گا: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ میرے پیچھے ہے ایک یہودی ہے ادھر آ اور اس کو مار ڈال مگر غرقد کا درخت نہ بولے: گا (وہ ایک کانٹے دار درخت ہے جو بیت المقدس کی طرف بہت ہوتا ہے) وہ یہود کا درخت ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ "، وَزَادَ فِي حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ،
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قیامت کے سامنے جھوٹے پیدا ہوں گے۔“ ابوالاحوص کی روایت میں اتنا زیادہ ہے میں نے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟ وہ بولے: ہاں۔
وحَدَّثَنِي ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، قَالَ سِمَاكٌ: وَسَمِعْتُ أَخِي ، يَقُولُ: قَالَ جَابِرٌ : فَاحْذَرُوهُمْ.
سماک سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے، سماک نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ جابر نے کہا: ان سے بچو (ایسا نہ ہو کہ ان جھوٹوں کے فریب میں آ جاؤ)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَهُوَ ابْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ قریب تیس کے دجال جھوٹے پیدا ہوں گے (دجال کے معنی مکار فریبی)َ ہر ایک یہ کہے گا: میں اللہ کا رسول ہوں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: يَنْبَعِثَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کرتے ہیں اور اس میں «يُبْعَثَ» کی جگہ «يَنْبَعِثَ» کا لفظ ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَرْنَا بِصِبْيَانٍ فِيهِمْ ابْنُ صَيَّادٍ، فَفَرَّ الصِّبْيَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَكَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرِبَتْ يَدَاكَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ "، فَقَالَ: لَا بَلْ تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى أَقْتُلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُنِ الَّذِي تَرَى فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو بچوں پر سے گزرے۔ ان میں ابن صیاد تھا۔ سب لڑکے(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر) بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان تھا گو یقین نہ تھا کہ یہ دجال ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے، تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“ وہ بولا: نہیں۔ بلکہ تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑئیے میں اس کو قتل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ وہ ہے جو تو خیال کرتا ہے (یعنی دجال ہے) تو تو اس کو نہ مار سکے گا۔“ (اور جو دجال نہیں ہے تو اس کے مارنے سے کیا فائدہ)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا "، فَقَالَ: دُخٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ، فَإِنْ يَكُنِ الَّذِي تَخَافُ لَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم چل رہے تھے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنے میں ابن صیاد ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دل میں تیرے لیے ایک بات چھپائی ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا تصور کیا «فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ»۴۴-الدخان: ١٠)۔ ابن صیاد بولا: «دخ» ہے تمہارے دل میں (یعنی دھواں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چل مردود تو اپنے اندازے سے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔“ (یعنی شیطان اور جن کاہنوں کو اتنا ہی بتا سکتے ہیں کہ سارے جملے میں سے ایک آدھ لفظ وہ بھی الٹ پلٹ کر بنا دیتے ہیں جیسے تو نے پوری آیت میں سے صرف ایک «دخان» کا لفظ بتا دیا۔ بس تیرا اتنا ہی مقدور ہے برخلاف پیغمبروں کے کہ ان کو اللہ تعالیٰ پوری اور صاف بات بتلا دیتا ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑیئے میں اس کی گردن ماروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانے دے، اگر یہ وہ ہے جس سے تو ڈرتا ہے (یعنی دجال) تو تو اس کو مار نہ سکے گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: لَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟، فَقَالَ هُوَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، مَا تَرَى؟ "، قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ، وَمَا تَرَى؟ "، قَالَ: أَرَى صَادِقَيْنِ وَكَاذِبًا أَوْ كَاذِبَيْنِ، وَصَادِقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لُبِسَ عَلَيْهِ دَعُوهُ "،
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابن صیاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ملے مدینہ کی بعض راہوں میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تو گواہی دیتا ہے اس بات کی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟“ ابن صیاد نے کہا: تم گواہی دیتے ہو اس بات کی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر، بھلا تجھ کو کیا دکھائی دیتا ہے؟“ وہ بولا: میں ایک تخت دیکھتا ہوں پانی پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو ابلیس کا تخت ہے سمندر پر اور کیا دیکھتا ہے؟“ وہ بولا: دو سچے میرے پاس آتے ہیں اور ایک جھوٹا یا دو جھوٹے اور ایک سچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوڑو اس کو، اس کو شک ہے اپنے باب میں۔“ (کہ وہ سچا ہے یا نہیں)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَقِيَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَائِدٍ، وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَابْنُ صَائِدٍ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ الْجُرَيْرِيِّ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لِي: " أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ؟ أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدَ لِي، أَوَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ، وَلَا مَكَّةَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدْتُ بِالْمَدِينَةِ، وَهَذَا أَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ، وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ، قَالَ: فَلَبَسَنِي ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں ابن صیاد کے ساتھ گیا مکہ تک۔ وہ مجھ سے کہنے لگا: لوگ مجھے کیا کیا کہتے ہیں، میں دجال ہوں۔ کیا تم نے رسول اللہ سے نہیں سنا، آپ فرماتے تھے: ”دجال کی اولاد نہ ہو گی۔“اور میری تو اولاد ہے۔ کیا تم نے رسول اللہ سے نہیں سنا، آپ فرماتے تھے: ”وہ مکہ اور مدینہ میں نہ آئے گا۔“ میں نے کہا: ہاں سنا ہے۔ ابن صیاد بولا: میں تو مدینہ میں پیدا ہوا اور اب مکہ جاتا ہوں۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آخر میں ابن صیاد کہنے لگا: البتہ اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں دجال کہاں پیدا ہوا اور اب وہ کہاں ہے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: تو مجھ کو اس نے شبہ میں ڈال دیا (اخیر کی بات کہہ کر کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو دجال سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے ورنہ اس کا مقام کیونکر اس کو معلوم ہوا۔ نووی رحمہ اللہ نے کہا: ابن صیاد کی یہ دلیلیں کہ اس کی اولاد ہے اور وہ مدینہ میں پیدا ہوا مکہ میں جاتا ہے کچھ کافی نہیں کیونکہ یہ صفات دجال کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بتلائی ہیں جب وہ فساد کرنے دنیا میں نکلے گا نہ کہ پیشتر کی)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ " وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ مَا لِي، وَلَكُمْ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ يَهُودِيٌّ، وَقَدْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: وَلَا يُولَدُ لَهُ، وَقَدْ وُلِدَ لِي، وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَكَّةَ، وَقَدْ حَجَجْتُ، قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ حَيْثُ هُوَ وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابن صیاد نے مجھ سے گفتگو کی تو مجھ کو شرم آ گئی (اس کے برا کہنے میں) وہ کہنے لگا: میں نے لوگوں کے سامنے عذر کیا اور کہنے لگا: کیا ہوا تم کو میرے ساتھ اصحاب محمد کے! کیا رسول اللہ نے نہیں فرمایا: ”دجال یہودی ہو گا۔“ اور میں تو مسلمان ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ دجال کے اولاد نہ ہو گی۔“ میری تو اولاد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرام کیا ہے دجال پر۔“ اور میں نے تو حج کیا۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ برابر ایسی گفتگو کرتا رہا کہ قریب ہوا کہ میں اس کو سچا سمجھوں اور اس کی بات میرے دل میں کھب جائے۔ پھر کہنے لگا: البتہ اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اب دجال کہاں ہے اور اس کے باپ اور ماں کو بھی پہچانتا ہوں۔ لوگوں نے ابن صیاد سے کہا: بھلا تجھ کو یہ اچھا لگتا ہے کہ تو دجال ہو؟ وہ بولا: اگر مجھ کو دجال بنایا جائے تو میں ناپسند نہ کروں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا، وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ، فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ، قَالَ: وَجَاءَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ، فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَاءَ بِعُسٍّ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ، مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ، أَوَ قَالَ: آخُذَ عَنْ يَدِهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا، فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ، ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ كَافِرٌ، وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ، وَقَدْ تَرَكْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ، وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: حَتَّى كِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم حج کو یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے، مجھے اس سے سخت وحشت ہوئی اس وجہ سے کہ لوگ اس کے باب میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے)۔ ابن صیاد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی)۔ میں نے کہا: گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا، پھر بکریاں ہم کو دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا: ابوسعید دودھ پی۔ میں نے کہا: گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور کوئی وجہ نہ تھی کہ میں دودھ نہ پیوں۔ صرف یہی کہ برا معلوم ہوا اس کے ہاتھ سے پینا۔ ابن صائد نے کہا: اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے تئیں پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے؟کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ”دجال کافر ہو گا۔“میں تو مسلمان ہوں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ”کہ دجال لاولد ہو گا۔“ اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ”دجال مدینہ اور مکہ میں نہ جائے گا۔“ اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں۔ ابوسعید نے کہا: (اس نے ایسی باتیں کیں کہ) میں قریب تھا کہ اس کا طرف دار بن جاؤں (اور لوگوں کا کہنا اس کے باب میں غلط سمجھوں)، پھر کہنے لگا: البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا: خرابی ہو تیرے سارے دن پر۔ (یعنی یہ تو نے کیا کہا پھر مجھے تیری نسبت شبہ ہو گیا)۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَائِدٍ: " مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ، قَالَ: دَرْمَكَةٌ بَيْضَاءُ مِسْكٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، قَالَ: صَدَقْتَ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ابن صیاد سے پوچھا: ”جنت کی مٹی کیسی ہے؟“ وہ بولا: باریک ہے سفید، مشک کی طرح خوشبو دار، اے ابو القاسم!۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سچ کہا تو نے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّ ابْنَ صَيَّادٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ؟، فَقَالَ: " دَرْمَكَةٌ بَيْضَاءُ مِسْكٌ خَالِصٌ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: جنت کی مٹی کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باریک سفید، خالص مشک کی طرح خوشبودار۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، قَالَ: " رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ الدَّجَّالُ، فَقُلْتُ: أَتَحْلِفُ بِاللَّهِ؟، قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يُنْكِرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
محمد بن منکدر سے روایت ہے، میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا قسم کھاتے ہوئے کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا: تم اللہ کی قسم کھاتے ہو، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ قسم کھاتے تھے اس امر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہ کیا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ "، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَاذَا تَرَى؟ "، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے پھر اس کو دیکھا لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بنی مغالہ کے پاس۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تو گواہی دیتا ہے اس بات کی کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“، ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم رسول ہو امی لوگوں کے (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو) پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: تم گواہی دیتے ہو اس بات کی کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا یا اس سے درخواست نہ کی مسلمان ہونے کی (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلممایوس ہو گئے اس کے اسلام سے اور ایک روایت میں «فَرَفَصَه ٗ» صاد مہملہ سے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا: ”میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟“ وہ بولا: میرے پاس کبھی سچا آتا ہے کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا کام گڑبڑ ہو گیا۔“(یعنی مخلوط حق وباطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تجھ سے پوچھنے کے لیے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔“ ابن صیاد نے کہا: وہ «دخ» ہے ( «دخ» بمعنی «دخان» یعنی دھواں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے چھوڑئیے یا رسول اللہ! میں سے اس کی گردن مارتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ وہی ہے (یعنی دجال) تو تو اس کو مارنہ سکے گا اور جو وہ نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں۔“
وَقَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ "،
سالم بن عبداللہ نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تھا کہ ابن صیاد کو دھوکا دیں اور اس کی کچھ باتیں سنیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا وہ لیٹا ہوا تھا ایک بچھونے پر ایک کمبل اوڑھے ہوئے کچھ گنگنا رہا تھا۔ اس کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ رہے تھے کھجور کے درختوں کی آڑ میں، اس نے ابن صیاد کو پکارا: اے صاف! اے صاف! (یہ صاف نام تھا ابن صیاد کا) یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش تو اس کو ایسا ہی رہنے دیتی۔“ (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔
قَالَ سَالِمٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: " إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنْ أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَوْمَ حَذَّرَ النَّاسَ الدَّجَّالَ إِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ مَنْ كَرِهَ عَمَلَهُ أَوْ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ "، وَقَالَ: " تَعَلَّمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى يَمُوتَ "،
سالم نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسی اس کو لائق ہے، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تم کو اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو یہاں تک کہ نوح علیہ السلام نے بھی (جن کا زمانہ بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو ڈرایا اس سے۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائیں۔ تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا کانا نہیں ہے۔“ (معاذ اللہ کانا پن ایک عیب ہے اور وہ ہر ایک عیب سے پاک ہے)۔ ابن شہاب نے کہا: مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا اور یہ بھی فرمایا: ”کہ اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً ک، ف اور رے۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو پڑھ لے گا وہ شخص جو اس کے کاموں کو برا جانے گا یا اس کو ہر ایک مؤمن پڑھ لے گا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ جان رکھو کہ کوئی تم میں سے اپنے رب کو نہیں دیکھے گا جب تک مر نہ لے گا۔“
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، حَتَّى وَجَدَ ابْنَ صَيَّادٍ غُلَامًا قَدْ نَاهَزَ الْحُلُمَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مُعَاوِيَةَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ إِلَى مُنْتَهَى حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، وَفِي الْحَدِيثِ عَنْ يَعْقُوبَ، قَالَ: قَالَ أُبَيٌّ يَعْنِي فِي قَوْلِهِ: لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ، قَالَ: لَوْ تَرَكَتْهُ أُمُّهُ بَيَّنَ أَمْرَهُ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں بنی مغالہ کی بجائے بنی معاویہ ہے اور یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش اس کی ماں اس کو اپنے کام میں چھوڑ دیتی۔“
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ وَصَالِحٍ، غَيْرَ أَنَّ عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ لَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ، فِي انْطِلَاقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ قَوْلًا أَغْضَبَهُ، فَانْتَفَخَ حَتَّى مَلَأَ السِّكَّةَ، فَدَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى حَفْصَةَ وَقَدْ بَلَغَهَا، فَقَالَتْ لَهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا ".
نافع سے روایت ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ابن صیاد سے ملے مدینہ کی کسی راہ میں تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کوئی بات ایسی کہی جس سے ابن صیاد کو غصہ آ گیا۔ وہ اتنا پھولا کہ راہ بند ہو گئی۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گے ان کو یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم کرے تو نے ابن صیاد کو کیوں چھیڑا۔ تجھ کو نہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال جب نکلے گا تو اسی وجہ سے کہ غصے ہو گا .“ (تو شاید ابن صیاد دجال ہو اور تیرے غصہ دلانے کی وجہ سے نکل پڑے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَنِ بْنِ يَسَارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ نَافِعٌ، يَقُولُ: ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ: لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: كَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُكُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا، فَكَذَلِكَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ، قَالَ: فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَى، وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟، قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ: قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ، قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ، قَالَ: فَنَخَرَ كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ، سَمِعْتُ، قَالَ: فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِيَ حَتَّى تَكَسَّرَتْ، وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ، قَالَ: وَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ: مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ، قَالَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَى النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ ".
نافع سے روایت ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے میں ابن صیاد سے دو بار ملا۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا: تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں اللہ کی قسم! میں نے کہا: اللہ کی قسم تم نے مجھ کو جھوٹا کیا تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا تو وہ ایسا ہی ہے آج کے دن۔ وہ کہتے ہیں: پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں، پھر میں جدا ہوا ابن صیاد سے اور دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا: یہ تیری آنکھ کاکیا حال ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا: مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کہا: تیرے سر میں آنکھ ہے اور تجھے نہیں معلوم۔ وہ بولا: اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے آواز کرتا ہے۔ نافع نے کہا: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ان سے یہ حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا: تیرا کیا کام تھا ابن صیاد سے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اول جو چیز دجال کو بھیجے گی لوگوں پر وہ اس کا غصہ ہے۔“ (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ الدَّجَّالَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا وَإِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُمْنَى كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِئَةٌ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا لوگوں میں اور فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور خبردار رہو دجال مسیح کی داہنی آنکھ کانی ہے گویا اس کی آنکھ انگور ہے پھولا ہوا۔“
حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی روایت بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ أَلَا إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ وَمَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو کانے جھوٹے سے نہ ڈرایا ہو۔ خبردار رہو! وہ کانا ہے اور تمہارا پروردگار کانا نہیں ہے اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ک ف ر لکھا ہے۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الدَّجَّالُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر أَيْ كَافِرٌ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہو گا ک ف ر یعنی کافر۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدَّجَّالُ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، ثُمَّ تَهَجَّاهَا ك ف ر يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُسْلِمٍ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”دجال کی ایک آنکھ اندھی ہے (اسی واسطے اس کو مسیح کہتے ہیں)اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہے پھر اس کے ہجے کئے یعنی ک، ف اور ر ہر مسلمان اس کو پڑھ لے گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، جُفَالُ الشَّعَرِ مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ، فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا (اوپر ابن عمر کی حدیث میں گزرا کہ داہنی آنکھ کا کانا ہو گا اور دونوں میں سے ایک روایت میں سہو ہے۔ غرض ایک آنکھ اس کی کانی ہو گی) گھنے بالوں والا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ سو اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔“ (علماء نے کہا: یہ بھی ایک آزمائش ہے اللہ پاک کی اپنے بندوں کے لیے تاکہ حق کو حق کرے اور جھوٹ کو جھوٹ، پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ مَعَهُ نَهْرَانِ يَجْرِيَانِ، أَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَاءٌ أَبْيَضُ، وَالْآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ، فَإِمَّا أَدْرَكَنَّ أَحَدٌ فَلْيَأْتِ النَّهْرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا وَلْيُغَمِّضْ، ثُمَّ لَيُطَأْطِئْ رَأْسَهُ، فَيَشْرَبَ مِنْهُ، فَإِنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ، وَإِنَّ الدَّجَّالَ مَمْسُوحُ الْعَيْنِ عَلَيْهَا ظَفَرَةٌ غَلِيظَةٌ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ كَاتِبٍ وَغَيْرِ كَاتِبٍ ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خوب جانتا ہوں دجال کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی بہتی ہوئیں ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی، پھر جو کوئی یہ موقع پائے وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہو اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئیے وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی۔ اس پر ایک پھلی ہو گی موٹی اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مؤمن پڑھ لے گا خواہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي الدَّجَّالِ: " إِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا، فَنَارُهُ مَاءٌ بَارِدٌ، وَمَاؤُهُ نَارٌ فَلَا تَهْلِكُوا "،
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:”دجال کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی۔ لیکن آگ کیا ہے ٹھنڈا پانی اور پانی آگ ہے، تو مت ہلاک کرنا اپنے تیئں۔“ (اس کے پانی میں گھس کر)۔
قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ : وَأَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ، فَقَالَ لَهُ عُقْبَةُ حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الدَّجَّالِ، قَالَ: " إِنَّ الدَّجَّالَ يَخْرُجُ وَإِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا، فَأَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسُ مَاءً، فَنَارٌ تُحْرِقُ، وَأَمَّا الَّذِي يَرَاهُ النَّاسُ نَارًا، فَمَاءٌ بَارِدٌ عَذْبٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ، فَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَاهُ نَارًا، فَإِنَّهُ مَاءٌ عَذْبٌ طَيِّبٌ "، فَقَالَ عُقْبَةُ : وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ تَصْدِيقًا لِحُذَيْفَةَ.
ربعی بن حراش نے کہا: میں عقبہ بن عمرو ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ عقبہ نے کہا: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے: تم مجھ سے بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے دجال کے بارے میں سنا ہو، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال نکلے گا اس کے ساتھ پانی ہو گا اور آگ ہو گی۔ تو جس کو لوگ پانی دیکھیں گے وہ آگ ہو گی جلانے والی اور جس کو لوگ آگ دیکھیں گے وہ پانی ہو گا سرد اور شیریں۔ پھر جو کوئی تم میں سے یہ موقع پائے اس کو چاہیے کہ جو آگ معلوم ہو اس میں گر پڑے۔ اس لیے کہ وہ شیریں پاکیزہ پانی ہے۔“ عقبہ نے کہا: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سچ کرنے کے لیے کہ میں نے بھی یہ حدیث سنی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ حُجْرٍ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، قَالَ: اجْتَمَعَ حُذَيْفَةُ وَأَبُو مَسْعُودٍ، فقال حذيفة " لَأَنَا بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ أَعْلَمُ مِنْهُ إِنَّ مَعَهُ نَهْرًا مِنْ مَاءٍ وَنَهْرًا مِنْ نَارٍ، فَأَمَّا الَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ نَارٌ مَاءٌ، وَأَمَّا الَّذِي تَرَوْنَ أَنَّهُ مَاءٌ نَارٌ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَأَرَادَ الْمَاءَ، فَلْيَشْرَبْ مِنَ الَّذِي يَرَاهُ أَنَّهُ نَارٌ، فَإِنَّهُ سَيَجِدُهُ مَاءً "، قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ : هَكَذَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ.
ربعی بن حراش سے روایت ہے، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ دونوں جمع ہوئے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان سے زیادہ جانتا ہوں جو دجال کے ساتھ ہو گا۔ اس کے ساتھ ایک نہر ہو گی پانی کی اور ایک نہر آگ کی، پھر جس کو تم آگ دیکھو گے وہ پانی ہو گا اور جس کو تم پانی دیکھو گے وہ آگ ہے۔ سو جو کوئی تم میں سے یہ وقت پائے اور پانی پینا چاہے وہ اس نہر میں سے پئے جو آگ معلوم ہوتی ہے اس کو پانی پائے گا۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنِ الدَّجَّالِ حَدِيثًا مَا حَدَّثَهُ نَبِيٌّ قَوْمَهُ، إِنَّهُ أَعْوَرُ، وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ مِثْلُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَالَّتِي يَقُولُ إِنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ، وَإِنِّي أَنْذَرْتُكُمْ بِهِ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم سے دجال کی ایک بات ایسی نہ کہوں جو کسی نبی نے اپنی امت سے نہ کہی؟ وہ کانا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت اور دوزخ کی طرح دو چیزیں ہوں گی، پر جس کو وہ جنت کہے گا حقیقت میں وہ آگ ہو گی اور میں نے تم کو دجال سے ڈرایا جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكُمْ؟ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً، فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ، وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟، قَالَ: " أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟، قَالَ: لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟، قَالَ: " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ، فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ، فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ: لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ، فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ، فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ مِنْهُ، فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ، وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ، فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ، فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى، وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّه عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ، فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً، فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ " ،
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا(یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آ گیا۔ جب ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا حال ہے؟“ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہو گیا کہ دجال ان درختوں میں کھجور کے جھنڈ میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھ کو دجال کے سوا اور باتوں کا خوف تم پر زیادہ ہے (فتنوں کا، آپس میں لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کو الزام دوں گا اور تم کو اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد مسلمان اپنی طرف سے اس کو الزام دے گا اور حق تعالیٰ میرا خلیفہ اور نگہبان ہے ہر مسلمان پر۔ البتہ دجال تو جوان گھونگریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ میں ٹینٹ ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت دیتا ہوں عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ (عبدالعزیٰ ایک کافر تھا)۔ سو جو شخص تم میں سے دجال کو پائے اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کے شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ مقرر وہ نکلے گا شام اور عراق کی راہ سے تو خرابی ڈالے گا داہنے اور فساد اٹھائے گا بائیں۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔“ اصحاب بولے: یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔“(تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا)۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا .“ (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمہ اللہ کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا ہی کافی ہوتیں کیونکہ ہر دن رات میں خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں جو خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے پس اگر بالفرض انسان وہاں پہنچ جائے اور جئیے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی) اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیونکر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جیسے وہ مینہ جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے سو وہ ایک قوم کے پاس آئے گا تو ان کو کفر کی طرف بلائے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے تو آسمان کو حکم کرے گا وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا وہ ان کی گھاس اور اناج اگائے گی۔ تو شام کو گورو (جانور) آئیں گے پہلے سے زیادہ ان کے کوہان لمبے ہوں گے تھن کشادہ ہوں گے کوکھیں تنی ہوئیں (یعنی خوب موٹی ہو کر) پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی کفر کی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا: اے زمین! اپنے خزانے نکال۔ تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مارے گا اور دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا: سو وہ جوان سامنے آئے گا۔ چہرہ دمکتا ہوا اور ہنستا ہوا دجال اسی حال میں ہو گا کہ ناگاہ حق تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر (لد شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے) سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچایا۔ سو شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو خبر کریں گے ان درجوں کی جو بہشت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے۔ ان میں کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی لیں گے۔ پھر ان میں کے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے البتہ ہم زمین والوں کو قتل کر چکے۔ آؤ اب آسمان والوں کو بھی قتل کریں۔ تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ (یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے، اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے۔) اور اللہ کے پیغمبر عیسٰی علیہ السلام اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہو گا سو اشرفی سے آج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی) پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے توزمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ تعالیٰ کے رسول عیسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور ان کو پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ کوئی گھر مٹی کا اور بالوں کا اس پانی سے باقی نہ رہے گا سو اللہ تعالیٰ زمین کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین کو مثل حوض یا باغ یا صاف عورت کے کر دے گا پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بناکر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی یہاں تک کہ دو دھار اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دو دھار گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دو دھار بکری ایک جدی لوگوں کو کفایت کرے گی۔ سو اسی حالت میں لوگ ہوں گے کہ یکایک حق تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا کہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی۔ تو ہر مؤمن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے۔ آپس میں بھڑیں گے گدھوں کی طرح ان پر قیامت قائم ہو گی۔“
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، وَالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ: دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِهِمَا فِي حَدِيثِ الْآخَرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ مَا ذَكَرْنَا وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِهِ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ، وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَيَقُولُونَ: لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ، فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ، فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادً إلي لَا يَدَيْ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث اسی سند سے مروی ہے، اس میں اس جملہ کے بعد کہ ”اس جگہ کسی موقعہ پر پانی تھا۔“ یہ اضافہ ہے کہ پھر وہ خمر کے پہاڑ کے پاس پہنچیں گے اور وہ بیت المقدس کا پہاڑ ہے تو وہ کہیں گے: تحقیق! ہم نے زمین والے سب کو قتل کر دیا۔ آؤ ہم آسمان والوں کو قتل کریں پھر وہ اپنے تیروں کو پھینکیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان پر ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹائے گا۔“ اور ابن حجر رحمہ اللہ کی روایت میں ہے کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو نازل کیا ہے، جنہیں قتل کرنے پر کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا، قَالَ: " يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ، فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ، أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ؟، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟، فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ: حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ، قَالَ: فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حدیث بیان کی ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمبی حدیث دجال کے ذکر میں تو یہ بھی بیان کیا کہ اس پر حرام ہو گا مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا اور آئے گا وہ ایک پتھریلی زمین پر مدینہ کے قریب۔ پھر جائے گا اس کے پاس ایک شخص جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو دجال ہے جس کا ذکر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا: بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں بھر جلا دوں تو تم کو کچھ شک رہے گا اس باب میں؟ وہ کہیں گے نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گا پھر اس کو جلائے گا وہ کہے گا: اللہ کی قسم! مجھے پہلے اتنا یقین نہ تھا تیرے باب میں جتنا اب ہے (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔“
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ.
زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ مِنْ أَهْلِ مَرْوَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَخْرُجُ الدَّجَّالُ، فَيَتَوَجَّهُ قِبَلَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، فَتَلْقَاهُ الْمَسَالِحُ مَسَالِحُ الدَّجَّالِ، فَيَقُولُونَ لَهُ: أَيْنَ تَعْمِدُ، فَيَقُولُ: أَعْمِدُ إِلَى هَذَا الَّذِي خَرَجَ، قَالَ: فَيَقُولُونَ لَهُ: أَوَ مَا تُؤْمِنُ بِرَبِّنَا؟، فَيَقُولُ: مَا بِرَبِّنَا خَفَاءٌ، فَيَقُولُونَ: اقْتُلُوهُ، فَيَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلَيْسَ قَدْ نَهَاكُمْ رَبُّكُمْ أَنْ تَقْتُلُوا أَحَدًا دُونَهُ؟، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ بِهِ إِلَى الدَّجَّالِ، فَإِذَا رَآهُ الْمُؤْمِنُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَذَا الدَّجَّالُ الَّذِي ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَيَأْمُرُ الدَّجَّالُ بِهِ فَيُشَبَّحُ، فَيَقُولُ: خُذُوهُ وَشُجُّوهُ فَيُوسَعُ ظَهْرُهُ وَبَطْنُهُ ضَرْبًا، قَالَ: فَيَقُولُ: أَوَ مَا تُؤْمِنُ بِي، قَالَ: فَيَقُولُ: أَنْتَ الْمَسِيحُ الْكَذَّابُ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ فَيُؤْشَرُ بِالْمِئْشَارِ مِنْ مَفْرِقِهِ حَتَّى يُفَرَّقَ بَيْنَ رِجْلَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ يَمْشِي الدَّجَّالُ بَيْنَ الْقِطْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولُ لَهُ: قُمْ فَيَسْتَوِي قَائِمًا، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ لَهُ أَتُؤْمِنُ بِي؟، فَيَقُولُ: مَا ازْدَدْتُ فِيكَ إِلَّا بَصِيرَةً، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَا يَفْعَلُ بَعْدِي بِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَيَأْخُذُهُ الدَّجَّالُ لِيَذْبَحَهُ، فَيُجْعَلَ مَا بَيْنَ رَقَبَتِهِ إِلَى تَرْقُوَتِهِ نُحَاسًا، فَلَا يَسْتَطِيعُ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: فَيَأْخُذُ بِيَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ، فَيَقْذِفُ بِهِ فَيَحْسِبُ النَّاسُ أَنَّمَا قَذَفَهُ إِلَى النَّارِ، وَإِنَّمَا أُلْقِيَ فِي الْجَنَّةِ "، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَهَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِينَ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”دجال نکلے گا۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا۔ راہ میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے وہ اس سے پوچھیں گے: تو کہاں جاتا ہے؟ وہ بولے گا: میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے: تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا: ہمارا مالک چھپا ہوا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے: اس کو مارڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے: ہمارے مالک نے تو منع کیا ہے کسی کو مارنے سے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو لے جائیں گے دجال کے پاس۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گا: اے لوگو! یہ دجال ہے جس کی خبر دی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ دجال حکم دے گا اپنے لوگوں کو اس کو پکڑو اس کا سر پھوڑو اس کے پیٹ اور پیٹھ پر بھی مار پڑے گی، پھر دجال اس سے پوچھے گا: تو میرے اوپر یقین نہیں کرتا (یعنی میری ربوبیت پر) وہ کہے گا: تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا وہ چیرا جائے گا آرے سے، سر سے لے کر دونوں پاؤں تک یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص(زندہ ہو کر) سیدھا اٹھ کھڑا ہو گا، پھر اس سے پوچھے گا: اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا: اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کرے گا (یعنی اب کسی کو نہیں جلا سکتا)، پھر دجال اس کو پکڑے گا ذبح کرنے کے لیے وہ اس کے گلے سے لے کہ ہنسلی تک تانبے کا بن جائے گا۔ وہ ذبح نہ کر سکے گا۔ پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ آگ میں اس کو پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص سب لوگوں سے بڑا شہید ہے رب العٰلمین میں کے نزدیک۔“
حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيُّ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُ، قَالَ: " وَمَا يُنْصِبُكَ مِنْهُ إِنَّهُ لَا يَضُرُّكَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّ مَعَهُ الطَّعَامَ وَالْأَنْهَارَ، قَالَ: " هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ ".
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کسی نے دجال کا حال اتنا نہیں پوچھا، جتنا میں نے پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیوں فکر کرتا ہے، دجال تجھ کو نقصان نہ پہنچائے گا۔“میں نے کہا: یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں اس کے ساتھ کھانا ہو گا، نہریں ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو گا پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ذلیل ہے یعنی جو اس کے پاس ہو گا اس سے وہ مؤمنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا۔“ (یہ حدیث کا حاصل ہے اور یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے)۔
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: مَا سَأَلَ أَحَدٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدَّجَّالِ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ، قَالَ: " وَمَا سُؤَالُكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَقُولُونَ مَعَهُ جِبَالٌ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ وَنَهَرٌ مِنْ مَاءٍ، قَالَ: " هُوَ أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ اس کے ساتھ پہاڑ ہوں گے روٹیوں کے اور گوشت کے پانی کی نہر ہو گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ . ح وحَدَّثَنِيمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ، فَقَالَ لِي: أَيْ بُنَيَّ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا هَذَا الْحَدِيثُ تُحَدِّثُ بِهِ؟، تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا إِنَّمَا، قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا يُحَرَّقُ الْبَيْتُ وَيَكُونُ وَيَكُونُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ لَا أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا، فَيَبْعَثُ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ، فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ، إِلَّا قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ "، قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا، فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِيبُونَ، فَيَقُولُونَ: فَمَا تَأْمُرُنَا فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَهُمْ فِي ذَلِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ حَسَنٌ عَيْشُهُمْ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا، قَالَ وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ: رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ، قَالَ: فَيَصْعَقُ وَيَصْعَقُ النَّاسُ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ، أَوَ قَالَ يُنْزِلُ اللَّهُ مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ، فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، فَيُقَالُ: مِنْ كَمْ، فَيُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، قَالَ: فَذَاكَ يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا وَذَلِكَ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ "،
یعقوب بن عاصم بن عروہ مسعود ثقفی سے روایت ہے، میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے یہ لگا: یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی؟ انہوں نے کہا:(تعجب سے) سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ یا اور کوئی کلمہ مانند ان کے پھر کہا: میرا قصد ہے کہ اب کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھ کو بدنام کرتے ہیں) میں نے تو یہ کہا تھا: تم تھوڑے دنوں بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر جلائے گا، اور وہ ہو گا ضرور ہو گا۔ پھر کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس دن تک رہے گا۔“ میں نہیں جانتا چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ ”پھر اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا ان کی شکل عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈیں گے اور اس کو ماریں گے۔ پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو شخصوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا شام کی طرف سے تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”پھر برے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جلد باز چڑیوں کی طرح یا بے عقل اور درندرں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے نہ بری بات کو برا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: تم شرم نہیں کرتے۔ وہ کہیں گے: پھر تو کیا حکم دیتا ہے ہم کو؟ شیطان کہے گا بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور باوجود اس کے ان کی روزی کشادہ ہو گی، مزے سے زندگی بسر کریں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا۔ اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھ لے گا (یعنی بے ہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض پر کلاوہ کرتا ہو گا۔ وہ بے ہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بے ہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا۔ اس سے لوگوں کے بدن اگ آئیں گے۔ پھر صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر پکارا جائے گا: اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ کھڑا کرو ان کو، ان سے سوال ہو گا، پھر کہا جائے گا: ایک لشکر نکالو دوزخ کے لیے پوچھا جائے گا: کتنے لوگ؟ حکم ہو گا: ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے نکالو دوزخ کے لیے۔“ (اور ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ دن ہے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا (ہیبت اور مصیبت سے یا درازی سے) اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی۔“ (یعنی سختی ہو گی)۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا ، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو : إِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمْ بِشَيْءٍ إِنَّمَا، قُلْتُ: إِنَّكُمْ تَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، فَكَانَ حَرِيقَ الْبَيْتِ، قَالَ شُعْبَةُ هَذَا: أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍوَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُعَاذٍ، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مَرَّاتٍ وَعَرَضْتُهُ عَلَيْهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث یاد رکھی جس کو میں کبھی نہ بھولا، میں نے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”سب نشانیوں میں پہلے قیامت کے آفتاب کا پچھّم کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت زمین کے جانور کا نکلنا لوگوں پر اور جو نشانی ان دونوں میں سے پہلے ہو تو دوسری بھی اس کے بعد جلد ظاہر ہو گی۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: جَلَسَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ بِالْمَدِينَةِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَمِعُوهُ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنِ الْآيَاتِ أَنَّ أَوَّلَهَا خُرُوجًا الدَّجَّالُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : لَمْ يَقُلْ مَرْوَانُ شَيْئًا قَدْ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ،
سیدنا ابوزرعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مدینہ میں مروان کے پاس تین مسلمان بیٹھے وہ قیامت کی نشانیاں بیان کر رہا تھا اور کہتا تھا: سب نشانیوں سے پہلے نشانی دجال کا نکلنا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا: مروان کی بات کچھ نہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اور میں یہ حدیث نہیں بھولا پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: تَذَاكَرُوا السَّاعَةَ عِنْدَ مَرْوَانَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا وَلَمْ يَذْكُرْ ضُحًى.
سیدنا ابوزرعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مروان کے سامنے قیامت کا ذکر ہوا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے پھر ذکر کیا ویسا ہی جیسے اوپر گزرا۔ اس میں چاشت کے وقت کا بیان نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ جَدِّي ، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّشَعْبُ هَمْدَانَ، أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ، وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ، فَقَالَ: حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ، فَقَالَتْ: لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ؟، فَقَالَ لَهَا: أَجَلْ حَدِّثِينِي، فَقَالَتْ: نَكَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ، فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ "، فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أَمْرِي بِيَدِكَ فَأَنْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ، فَقَالَ: " انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ، وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ "، فَقُلْتُ: سَأَفْعَلُ، فَقَالَ: " لَا تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ، فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ، فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ، وَلَكِنْ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ، وَهُوَ مِنَ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ "، فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: " لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ "، ثُمَّ قَالَ: " أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ؟ "، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ، وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا، فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ، وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ، حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ، فَلَعِبَ بِهِمُ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ، ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ، فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ، فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ، فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ، فَقَالُوا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟، فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟، قَالَتْ: أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ، فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، قَالَ: لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا، فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ، فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا، وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ، قُلْنَا: وَيْلَكَ مَا أَنْتَ؟، قَالَ: قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي، فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ؟، قَالُوا: نَحْنُ أُنَاسٌ مِنَ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ، فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ، فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا، ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ، فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ، فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ، فَقُلْنَا: وَيْلَكِ مَا أَنْتِ؟، فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قُلْنَا: وَمَا الْجَسَّاسَةُ؟، قَالَتْ: اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ، فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ، فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا، وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ؟، قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟، قَالَ: أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ؟، قُلْنَا لَهُ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ؟، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ؟، قُلْنَا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟، قَالَ: هَلْ فِيهَا مَاءٌ؟، قَالُوا: هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ، قَالَ: أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ؟، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ؟، قَالُوا: عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ؟، قَالَ: هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ؟، قُلْنَا لَهُ: نَعَمْ، هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ؟، قَالُوا: قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ، قَالَ: أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ، فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنَ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ، قَالَ لَهُمْ: قَدْ كَانَ ذَلِكَ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ، وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ، فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ، وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا، كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا، وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ، هَذِهِ طَيْبَةُ، هَذِهِ طَيْبَةُ، هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ، أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ؟، فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ، أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ، لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ "، قَالَتْ: فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
سیدنا عامر بن شراحیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے، جو بہن تھیں ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کی اور ان عورتوں میں سے تھیں جنہوں نے پہلے ہجرت کی تھی کہ بیان کرو مجھ سے ایک حدیث جو تم نے سنی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مت واسطہ کرنا اس میں اور کسی کا، وہ بولیں: اچھا اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا: ہاں بیان کرو۔ فاطمہ نے کہا: میں نے نکاح کیا ابن مغیرہ سے اور وہ قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے ان دنوں، پھر وہ شہید ہوئے پہلے ہی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھ کو پیام بھیجا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اور کئی اصحاب نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیام بھیجا اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لیے اور میں یہ حدیث سن چکی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھے اس کو چاہیے کہ اسامہ سے بھی محبت رکھے۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے مجھ سے اس باب میں گفتگو کی تو میں نے کہا: میرے کام کا اختیار آپ کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام شریک کے گھر اٹھ جاؤ۔“ اور ام شریک ایک عورت تھی مالدار انصار میں بہت خرچنے والی اللہ کی راہ میں۔ اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا: بہت اچھا۔ میں ام شریک کے پاس اٹھ جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھ کو برا لگے لیکن چلی جا اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے پاس۔“ اور وہ ایک شخص تھا بنی فہر میں سے اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے فاطمہ بھی تھی۔ پھر فاطمہ نے کہا: میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی وہ پکارنے والا منادی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، پکارتا تھا نماز کے لیے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں تھیں لوگوں کے پیچھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔“ پھر فرمایا: ”تم جانتے ہو میں نے تم کو کیوں اکھٹا کیا؟“ وہ بولے: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! تم کو رغبت دلانے یا ڈرانے کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ اس لیے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو موافق پڑی اس حدیث کے جو میں تم سے بیان کیا کرتا تھا دجال کے باب میں۔ اس نے بیان کیا کہ وہ شخص یعنی تمیم سوار ہوا سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ جو لخم اور جذام کی قوم سے تھے، سو ان سے ایک مہینہ بھر لہر کھیلی سمندر میں (یعنی شدت موج سے جہاز تباہ رہا) پھر وہ لوگ جا لگے سمندر میں ایک ٹاپو کی طرف سورج ڈوبتے۔ پھر وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور ٹاپوں میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کو ایک جانور بھاری دم بہت بالوں والا ملا کہ اس کا آگا پیچھا دریافت نہ ہوتا تھا بالوں کے ہجوم سے تو لوگوں نے اس سے کہا: اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا: جاسوس کیا؟ اس نے کہا: اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اس واسطے کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم نے کہا: جب اس نے مرد نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں یہ شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا: پھر ہم چلے دوڑتے یہاں تک کہ دیر میں داخل ہوئے، دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ جکڑے ہوئے ہیں اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ درمیان دونوں زانو کے درمیان ٹخنوں تک لوہے سے۔ ہم نے کہا: اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: تم قابو پا گئے میری خبر پر (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا) تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا: ہم عرب لوگ ہیں جو سمندر میں سوار ہوئے تھے جہاز میں لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی بعد اس کے آ لگے اس ٹاپو میں، پھر ہم بیٹھے چھوٹی کشتی میں اور داخل ہوئے ٹاپو میں سو ملا ہم کو ایک بھاری دم کا جانور بہت بالوں والا۔ ہم نہ جانتے تھے اس کا آگا پیچھا بالوں کی کثرت سے، ہم نے اس سے کہا: اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ سو اس نے کہا: میں جاسوس ہوں، ہم نے کہا: جاسوس کیا؟ اس نے کہا: چلو اس مرد کے پاس جو دیر میں ہے کہ البتہ وہ تمہاری خبر کا مشتاق ہے، سو ہم تیری طرف دوڑتے آئے اور ہم اس ڈرے کہ کہیں یہ بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھ کو خبر دو بیسان کے نخلستان سے؟ ہم نے کہا: کون سا حال اس کا تو پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: کہ میں نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھل دیتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا: ہاں پھل دیتا ہے۔ اس نے کہا: خبردار ہو کہ مقرر عنقریب ہے کہ وہ نہ پھل دے گا۔ اس نے کہا: کہ بتلاؤ مجھ کو طبرستان کا دریا؟ ہم نے کہا: کون سا حال اس دریا کا تو پوچھتا ہے؟ وہ بولا: اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا: اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا: البتہ اس کا پانی عنقریب جاتا رہے گا۔ پھر اس نے کہا: خبر دو مجھ کو زغر کے چشمے سے۔ لوگوں نے کہا: کیا حال اس کا پوچھتا ہے؟ اس نے کہا: اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا: ہاں اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ کھیتی کرتے ہیں اس کے پانی سے۔ اس نے کہا: مجھ کو خبر دو عرب کے پیغمبر سے؟ انہوں نے کہا: وہ مکہ سے نکلے اور مدینہ میں گئے۔ اس نے کہا: کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: کیونکر انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا؟ ہم نے کہا: وہ غالب ہوئے اپنے گردوپیش کے عربوں پر اور انہوں نے اطاعت کی ان کی۔ اس نے کہا: یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: خبردار رہو، یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ مسیح ہوں یعنی دجال تمام زمین کا پھرنے والا اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے جب مجھ کو اجازت ہو گی نکلنے کی۔ سو میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں نہ جاؤں چالیس رات کے اندر سوائے مکہ اور طیبہ کے۔ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں چاہوں گا ان دو بستیوں میں سے کسی ایک کے اندر جانا تو میرے آگے بڑھ آئے گا ایک فرشتہ اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی وہ مجھ کو وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔“ پھر نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پشت خار سے منبر پر ٹکوار دیا اور فرمایا: ”طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔“ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔”خبردار رہو! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے چکا ہوں؟“ تو اصحاب نے کہا: ہاں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ کو اچھی لگی تمیم کی بات جو موافق پڑی اس چیز کے جو میں تم کو دجال، مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا کرتا تھا۔ خبردار رہو کہ البتہ وہ دریائے شام یا دریائے یمن میں نہیں ہے بلکہ وہ پورب کی طرف ہے وہ پورب کی طرف ہے وہ پورب کی طرف ہے۔“ (وہ پورب کی طرف بحرہند ہے شاید دجال بحرہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا پورب کی طرف۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا: تو یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ الْهُجَيْمِيُّ أَبُو عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، فَأَتْحَفَتْنَا بِرُطَبٍ، يُقَالُ لَهُ: رُطَبُ ابْنِ طَابٍ وَأَسْقَتْنَا سَوِيقَ سُلْتٍ، فَسَأَلْتُهَا عَنِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا أَيْنَ تَعْتَدُّ، قَالَتْ: طَلَّقَنِي بَعْلِي ثَلَاثًا، فَأَذِنَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَعْتَدَّ فِي أَهْلِي، قَالَتْ: فَنُودِيَ فِي النَّاسِ إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ فِيمَنِ انْطَلَقَ مِنَ النَّاسِ، قَالَتْ: فَكُنْتُ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ مِنَ النِّسَاءِ وَهُوَ يَلِي الْمُؤَخَّرَ مِنَ الرِّجَالِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَقَالَ: إِنَّ بَنِي عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ رَكِبُوا فِي الْبَحْرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ، قَالَتْ: فَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْوَى بِمِخْصَرَتِهِ إِلَى الْأَرْضِ، وَقَالَ: هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ،
شعبی سے روایت ہے، ہم فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے ہم کو تحفہ دیا رطب جس کو رطب بن طاب کہتے ہیں(وہ ایک عمدہ قسم ہیں تر کھجور کی) اور جو کے ستو ہم کو پلائے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں وہ کہاں عدت کرے؟ انہوں نے کہا: میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اجازت دی اپنے میکے میں عدت کرنے کی۔ پھر لوگوں میں منادی کی گئی نماز کے لیے جمع ہوں، میں بھی چلی ان کے ساتھ جو چلے اور عورتوں کی پہلی صف میں تھی جو مردوں کی آخری صف کے بعد تھی۔ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھتے تھے تو فرمایا: ”تمیم داری کے چچازاد بھائی سمندر میں سوار ہوئے۔“ پھر بیان کیا وہی قصہ جو گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پشت خار زمین پر مارا اور فرمایا: ”طیبہ یہی ہے۔“ یعنی مدینہ۔
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ غَيْلَانَ بْنَ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، قَالَتْ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ، فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَكِبَ الْبَحْرَ، فَتَاهَتْ بِهِ سَفِينَتُهُ، فَسَقَطَ إِلَى جَزِيرَةٍ، فَخَرَجَ إِلَيْهَا يَلْتَمِسُ الْمَاءَ، فَلَقِيَ إِنْسَانًا يَجُرُّ شَعَرَهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَوْ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، قَدْ وَطِئْتُ الْبِلَادَ كُلَّهَا غَيْرَ طَيْبَةَ، أَخْرَجَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّاسِ، فَحَدَّثَهُمْ، قَالَ: هَذِهِ طَيْبَةُ وَذَاكَ الدَّجَّالُ،
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس تمیم داری آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ جو سمندر میں سوار ہوئے تھے ان کا جہاز راہ سے ہٹ گیا اور ایک جزیرہ سے جا لگا۔ وہ اس کے اندر گئے پانی کی تلاش میں۔ وہاں ایک آدمی دیکھا جو اپنے بال کھینچ رہا تھا اور بیان کیا سارا قصہ حدیث کا۔ پھر کہا کہ دجال نے کہا: اگر مجھ کو اجازت ملتی نکلنے کی تو میں سب شہروں میں ہو آتا سوائے طیبہ کے۔ پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم کو لوگوں کے سامنے نکالا۔ اس نے سارا قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طیبہ یہی ہے اور دجال وہی شخص ہے۔“
حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ حَدَّثَنِي تَمِيمٌ الدَّارِيُّ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ قَوْمِهِ كَانُوا فِي الْبَحْرِ فِي سَفِينَةٍ لَهُمْ، فَانْكَسَرَتْ بِهِمْ فَرَكِبَ بَعْضُهُمْ عَلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ، فَخَرَجُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممنبر پر بیٹھے اور فرمایا: ”اے لوگو! مجھ سے بیان کیا تمیم داری نے کہ ان کی قوم کے لوگ سمندر میں تھے ایک کشتی میں، وہ کشتی ٹوٹ گئی۔ بعض لوگ ان میں سے ایک تختہ پر سوار ہو رہے اور ایک جزیرہ میں گئے۔“ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو عَمْرٍو يَعْنِي الْأَوْزَاعِيَّ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ، وَلَيْسَ نَقْبٌ مِنْ أَنْقَابِهَا إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ تَحْرُسُهَا، فَيَنْزِلُ بِالسِّبْخَةِ، فَتَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ يَخْرُجُ إِلَيْهِ مِنْهَا كُلُّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کوئی شہر ایسا نہیں جس میں دجال نہ جائے سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ مکہ اور مدینہ کے ہر راستہ پر فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اور چوکیداری کریں گے۔ پھر دجال اس سرزمین میں اترے گا (مدینہ کے قریب) اور مدینہ تین بار کانپے گا (یعنی تین بار اس میں زلزلہ ہو گا) اور جو اس میں کافر یا منافق ہو گا وہ دجال کے پاس چلا جائے گا۔“
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْأَنَسٍ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَيَأْتِي سِبْخَةَ الْجُرُفِ فَيَضْرِبُ رِوَاقَهُ، وَقَالَ: فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ كُلُّ مُنَافِقٍ وَمُنَافِقَةٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ دجال اپنا خیمہ جرف کی شور زمین میں لگائے گا اور ہر منافق مرد اور عورت اس کے پاس چلے جائیں گے۔
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمِّهِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ يَهُودِ أَصْبَهَانَ سَبْعُونَ أَلْفًا عَلَيْهِمُ الطَّيَالِسَةُ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”دجال کے ساتھ ہو جائیں گے اصفہان کے ستر ہزار یہودی سیاہ چادریں اوڑھے ہوئے۔“
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ شَرِيكٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنَ الدَّجَّالِ فِي الْجِبَالِ "، قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: " هُمْ قَلِيلٌ "،
سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ دجال سے بھاگیں گے پہاڑوں میں۔“ ام شریک نے کہا: یا رسول اللہ! عرب کے لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ (یعنی وہ دجال سے مقابلہ کیوں نہ کریں گے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرب ان دنوں تھوڑے ہوں گے۔“ (اور دجال کے ساتھی کروڑوں ہوں گے)۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ابن جریج سے اس سند کے ساتھ روایت ہے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ رَهْطٍ مِنْهُمْ أَبُو الدَّهْمَاءِ ، وَأَبُو قَتَادَةَ ، قَالُوا: كُنَّا نَمُرُّ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ نَأْتِي عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، فَقَالَ: ذَاتَ يَوْمٍ إِنَّكُمْ لَتُجَاوِزُونِي إِلَى رِجَالٍ مَا كَانُوا بِأَحْضَرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي، وَلَا أَعْلَمَ بِحَدِيثِهِ مِنِّي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ خَلْقٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ "،
ابوالدہماء اور ابوقتادہ وغیرہ چند لوگوں سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ہشام بن عامر کے سامنے سے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس جایا کرتے۔ ایک دن ہشام نے کہا: تم آگے بڑھ کر ایسے لوگوں کے پاس جایا کرتے ہو جو مجھ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر نہیں رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو مجھ سے زیادہ نہیں جانتے ہیں۔ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک کوئی مخلوق (شر و فساد میں) دجال سے بڑی نہیں۔“ (سب سے زیادہ مفسد اور شریر دجال ہے)۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ ثَلَاثَةِ رَهْطٍ مِنْ قَوْمِهِ فِيهِمْ أَبُو قَتَادَةَ ، قَالُوا: كُنَّا نَمُرُّ عَلَى هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ إِلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُخْتَارٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَمْرٌ أَكْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ.
تین آدمیوں جن میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں سے روایت ہے کہ ہم ہشام بن عامر کے پاس سے گزر کر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس جاتے تھے۔ باقی حدیث عبدالعزیز بن مختار کی حدیث کی طرح ہے۔ اس میں ہے کہ ”دجال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، أَوِ الدُّخَانَ، أَوِ الدَّجَّالَ، أَوِ الدَّابَّةَ، أَوْ خَاصَّةَ أَحَدِكُمْ، أَوْ أَمْرَ الْعَامَّةِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلدی کرو نیک اعمال کرنے کی چھ چیزوں سے پہلے، ایک دجال کے نکلنے سے، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے آفتاب کا پچھم سے نکلنا، پانچویں قیامت، چھٹے موت۔“ (یعنی جب یہ باتیں آ جائیں گی تو نیک اعمال کا قابو جاتا رہے گا)۔
حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ الْعَيْشِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سِتًّا الدَّجَّالَ، وَالدُّخَانَ، وَدَابَّةَ الْأَرْضِ، وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَأَمْرَ الْعَامَّةِ وَخُوَيْصَّةَ أَحَدِكُمْ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ الْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ ، رَدَّهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، رَدَّهُ إِلَى مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ ، رَدَّهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ "،
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”فساد اور فتنے کے وقت عبادت کرنے کا اتنا ثواب ہے جیسے میرے پاس ہجرت کرنے کا۔“
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
حماد سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”قیامت نہیں قائم ہو گی مگر ان پر جو بدتر ہوں گے۔“
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلًا ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَهُوَ يَقُولُ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا ".
سیدنا سہیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارہ کرتے تھے اس انگلی سے جو نزدیک ہے انگوٹھے کے اور بیچ کی انگلی سے اور فرماتے تھے: ”میں قیامت کے ساتھ اس طرح بھیجا گیا ہوں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ "، قَالَ شُعْبَةُ: وَسَمِعْتُ قَتَادَةَ، يَقُولُ: فِي قَصَصِهِ كَفَضْلِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَهُ عَنْ أَنَسٍ أَوْ قَالَهُ قَتَادَةُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے جیسے یہ دونوں انگلیاں۔“شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا وہ اپنے قصوں میں کہتے تھے۔ جتنی ایک انگلی دوسری انگلی سے بڑی ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ قتادہ نے یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا، یا اپنے دل سے کہا:۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ وَأَبَا التَّيَّاحِ يُحَدِّثَانِ أَنَّهُمَا سَمِعَا أَنَسًا يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا "، وَقَرَنَ شُعْبَةُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ الْمُسَبِّحَةِ وَالْوُسْطَى يَحْكِيهِ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی بیان کرتے ہیں۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ حَمْزَةَ يَعْنِي الضَّبِّيَّ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَعْبَدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، قَالَ: وَضَمَّ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اور قیامت ایسے بھیجے گئے جیسے یہ دونوں انگلیاں۔“ راوی نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے شہادت والی انگلی اور درمیان والی انگلی ملائی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ الْأَعْرَابُ إِذَا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلُوهُ عَنِ السَّاعَةِ مَتَى السَّاعَةُ؟ فَنَظَرَ إِلَى أَحْدَثِ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ: " إِنْ يَعِشْ هَذَا لَمْ يُدْرِكْهُ الْهَرَمُ قَامَتْ عَلَيْكُمْ سَاعَتُكُمْ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، دیہاتی جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تو قیامت کو پوچھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کم عمر کو دیکھتے اور فرماتے: ”اگر یہ جئیے گا تو بوڑھا نہ ہو گا یہاں تک کہ تمہاری قیامت ہو جائے گی۔“ (کیونکہ تمہاری قیامت یہی ہے کہ تم مر جاؤ۔ مراد قیامت صغریٰ ہے اور وہ موت ہے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟ وَعِنْدَهُ غُلَامٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ مُحَمَّدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَعِشْ هَذَا الْغُلَامُ فَعَسَى أَنْ لَا يُدْرِكَهُ الْهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک انصاری لڑکا موجود تھا جس کو محمد کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اگر یہ جئیے گا تو شاید بوڑھا نہ ہونے پائے کہ قیامت آ جائے۔“
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَل النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ؟، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُنَيْهَةً ثُمَّ نَظَرَ إِلَى غُلَامٍ بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، فَقَالَ: " إِنْ عُمِّرَ هَذَا لَمْ يُدْرِكْهُ الْهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ "، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: ذَاكَ الْغُلَامُ مِنْ أَتْرَابِي يَوْمَئِذٍ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر تک خاموش ہو رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بچہ بیٹھا تھا قبیلہ ازد کا جو شنوۂ میں سے ہے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اگر اس بچہ کو عمر ہوئی تو بوڑھا نہ ہو گا یہاں تک کہ تیری قیامت ہو جائے گی۔“ انس نے کہا: یہ لڑکا میرے ہم سنوں میں سے تھا اس دن۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: مَرَّ غُلَامٌ لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَكَانَ مِنْ أَقْرَانِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يُؤَخَّرْ هَذَا، فَلَنْ يُدْرِكَهُ الْهَرَمُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک لڑکا نکلا سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا وہ میرے ہمجولیوں میں سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اگر یہ جیا تو بوڑھا نہ ہو گا کہ قیامت آ جائے گی۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرَّجُلُ يَحْلُبُ اللِّقْحَةَ، فَمَا يَصِلُ الْإِنَاءُ إِلَى فِيهِ حَتَّى تَقُومَ وَالرَّجُلَانِ يَتَبَايَعَانِ الثَّوْبَ، فَمَا يَتَبَايَعَانِهِ حَتَّى تَقُومَ وَالرَّجُلُ يَلِطُ فِي حَوْضِهِ، فَمَا يَصْدُرُ حَتَّى تَقُومَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم ہو جائے گی اور حالانکہ مرد اونٹنی دوہتا ہو گا سو نہ پہنچا ہو گا برتن اس کے منہ تک کہ قیامت آ جائے گی اور دو مرد خرید و فروخت کرتے ہوں گے کپڑے کی خرید و فروخت نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی اور کوئی مرد اپنا حوض درست کر رہا ہو گا سو اس کو درست کر کے واپس نہ آئے گا کہ قیامت آ جائے گی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ "، قَالُوا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: أَرْبَعُونَ يَوْمًا، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالُوا: أَرْبَعُونَ شَهْرًا، قَالَ: أَبَيْتُ، قَالُوا: أَرْبَعُونَ سَنَةً، قَالَ: أَبَيْتُ، ثُمَّ يُنْزِلُ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً، فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ، قَالَ: وَلَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانِ شَيْءٌ إِلَّا يَبْلَى إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا، وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ، وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صور کے دونوں پھونکوں کے بیچ میں چالیس کا فرق ہو گا۔“ لوگوں نے کہا: اے ابوہریرہ! چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا: میں نہیں کہتا، پھر لوگوں نے کہا: چالیس مہینے کا؟ انہوں نے کہا: میں نہیں کہتا، پھر لوگوں نے کہا: چالیس برس کا؟ انہوں نے کہا: میں نہیں کہتا، (یعنی مجھے اس کا تعین معلوم نہیں)۔ ”پھر آسمان سے ایک پانی برسے گا اس سے لوگ ایسے پیدا ہوں گے جیسے سبزہ اگ آتا ہے۔“ انہوں نے کہا: ”آدمی کے بدن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو گل نہ جائے مگر ایک ہڈی وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اسی ہڈی سے قیامت کے دن لوگ پیدا ہوں گے۔“ (نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس میں سے پیغمبر مستثنیٰ ہیں ان کے اجسام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے)۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يُرَكَّبُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام آدمی کے بدن کو زمین کھا جاتی ہے سوائے ڈھڈی کی ہڈی کے۔ اس سے آدمی پہلے بنایا گیا اور اسی سے پھر جوڑا جائے گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِي الْإِنْسَانِ عَظْمًا لَا تَأْكُلُهُ الْأَرْضُ أَبَدًا، فِيهِ يُرَكَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالُوا: أَيُّ عَظْمٍ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " عَجْبُ الذَّنَبِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے بدن میں ایک ہڈی ہے جس کو زمین نہیں کھاتی۔ اسی سے جوڑا جائے گا قیامت کے دن۔“ لوگوں نے عرض کیا: وہ کون سی ہڈی ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھڈی کی۔“