أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فرع اور عتیرہ واجب نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العقیقة ۴ (۵۴۷۳)، الأضاحي ۶ (۱۹۷۶)، سنن ابی داود/الأضاحي ۲۰ (۲۸۳۱)، سنن الترمذی/الضحایا ۱۵ (۱۵۱۲)، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۲(۳۱۶۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۷، ۱۳۲۶۹)، مسند احمد (۲/۲۲۹، ۲۳۹، ۲۷۹، ۴۹۰)، سنن الدارمی/الأضاحي ۸ (۲۰۰۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: فرع: زمانہ جاہلیت میں جانور کے پہلوٹے کو بتوں کے واسطے ذبح کرنے کو فرع کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ تعالیٰ کے واسطے کرتے تھے پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس سے منع کر دیا گیا۔ اور عتیرہ: زمانہ جاہلیت میں رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے تھے، اور اسلام کی ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے۔ کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لیے اور مسلمان اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لیے ذبح کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے اب نہ فرع ہے اور نہ عتیرہ بلکہ مسلمانوں کے لیے عید الاضحی کے روز قربانی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثْتُ أَبَا إِسْحَاق، عَنْ مَعْمَرٍ، وَسُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَحَدُهُمَا: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ". وَقَالَ الْآخَرُ: "لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرمایا (دوسری روایت میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: "فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۷، ۱۳۲۶۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ دونوں اب واجب نہیں رہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ وَهُوَ ابْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَامِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أَضْحَاةً وَعَتِيرَةً". قَالَ مُعَاذٌ: كَانَ ابْنُ عَوْنٍ يَعْتِرُ أَبْصَرَتْهُ عَيْنِي فِي رَجَبٍ.
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عرفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: "لوگو! ہر گھر والے پر ہر سال قربانی اور عتیرہ ہے" ۱؎۔ معاذ کہتے ہیں: ابن عون رجب میں عتیرہ کرتے تھے، ایسا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۱(۲۷۸۸)، سنن الترمذی/الضحایا ۱۹ (۱۵۱۸)، سنن ابن ماجہ/الضحایا ۲ (۳۱۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۴۴)، مسند احمد (۴/۲۱۵، ۵/۷۶) (حسن)
وضاحت: ۱؎: فرع اور عتیرہ کے سلسلے میں مروی تمام احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوں ایام جاہلیت میں جاہلی انداز میں انجام دیئے جاتے تھے جس میں شرک کی ملاوٹ ہوتی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام میں ان کو جائز قرار تو دیا، مگر وہ شرک و کفر سے خالی اور جاہلی عادات کی مشابہت سے دور ہو، اور اگر نہ انجام دیئے جائیں تو بہتر ہے، خاص طور پر فرع کو اگر چھوڑ رکھا جائے تو یہ جانور بڑا ہو کر زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے، واللہ اعلم :(دیکھئیے اگلی روایات )۔
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِيهِ، وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْفَرَعَ، قَالَ: "حَقٌّ، فَإِنْ تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكُونَ بَكْرًا فَتَحْمِلَ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ تُعْطِيَهُ أَرْمَلَةً خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذْبَحَهُ فَيَلْصَقَ لَحْمُهُ بِوَبَرِهِ فَتُكْفِئَ إِنَاءَكَ، وَتُولِهُ نَاقَتَكَ". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالْعَتِيرَةُ. قَالَ: "الْعَتِيرَةُ حَقٌّ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ: هُمْ أَرْبَعَةُ إِخْوَةٍ أَحَدُهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَبِشْرٌ، وَشَرِيكٌ، وَآخَرُ.
محمد بن عبداللہ بن عمرو اور زید بن اسلم سے روایت ہے لوگوں (صحابہ) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "حق ہے، البتہ اگر تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائے اور تم اسے اللہ کی راہ میں دو، یا اسے کسی مسکین، بیوہ کو دے دو تو یہ بہتر ہے اس بات سے کہ تم اسے (بچہ کی شکل میں) ذبح کرو اور (اس کے کاٹے جانے کی وجہ سے) اس کا گوشت چمڑے سے لگ جائے"۔ (یعنی دبلی ہو جائے گی) پھر تم اپنا برتن اوندھا کر کے رکھو گے (کہ وہ دودھ دینے کے لائق ہی نہ ہو گی) اور تمہاری اونٹنی تکلیف میں رہے گی"۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور عتیرہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "عتیرہ بھی حق ہے" ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابوعلی حنفی چار بھائی ہیں: ابوبکر، بشر، شریک اور ایک اور ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۷۰۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأضحایا۲۱(۲۸۴۲)، مسند احمد ۲/۱۸۲ -۱۸۳ (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی باطل اور حرام نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ زُرَارَةَ بْنِ كُرَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو الْبَاهِلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ الْحَارِثَ بْنَ عَمْرٍو يُحَدِّثُ، أَنَّهُ لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ، فَأَتَيْتُهُ مِنْ أَحَدِ شِقَّيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، اسْتَغْفِرْ لِي ؟، فَقَالَ: "غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ"، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ، أَرْجُو أَنْ يَخُصَّنِي دُونَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ: "بِيَدِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْعَتَائِرُ وَالْفَرَائِعُ، قَالَ: "مَنْ شَاءَ عَتَرَ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يَعْتِرْ، وَمَنْ شَاءَ فَرَّعَ، وَمَنْ شَاءَ لَمْ يُفَرِّعْ فِي الْغَنَمِ أُضْحِيَّتُهَا"وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ إِلَّا وَاحِدَةً.
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، آپ اپنی اونٹنی عضباء، پر سوار تھے۔ میں آپ کی ایک جانب گیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے، آپ نے فرمایا: "اللہ تم لوگوں کی مغفرت فرمائے"۔ پھر میں آپ کی دوسری جانب گیا، مجھے امید تھی کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں (کو اٹھا کر) فرمایا: "اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف کرے"۔ پھر لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! عتیرہ اور فرع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "جو چاہے عتیرہ ذبح کرے اور جو چاہے نہ کرے اور جو چاہے فرع کرے اور جو چاہے نہ کرے، بکریوں میں صرف قربانی ہے"، اور آپ نے اپنی سب انگلیاں بند کر لیں سوائے ایک کے (یعنی: سالانہ صرف ایک قربانی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۲۷۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المناسک ۹ (۱۷۴۲)، مسند احمد (۳/۴۸۵) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ یحیی بن زرارہ ‘‘ لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کے مضامین دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہیں)
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زُرَارَةَ السَّهْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِالْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو. ح وَأَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ زُرَارَةَ السَّهْمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّهِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأُمِّي اسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ: "غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ"، وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہیں کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف فرمائے"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے، پھر میں مڑا اور دوسری جانب گیا۔ اور پھر آگے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ما قبلہ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَمِيلٌ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ نُبَيْشَةَ، قَالَ: ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنَّا نَعْتِرُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: "اذْبَحُوا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَطْعِمُوا".
نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بتایا گیا کہ ہم لوگ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے ذبح کرو چاہے کوئی سا مہینہ ہو، اور اللہ کے لیے نیک کام کرو اور لوگوں کو کھلاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۲ (۲۸۳۰)، سنن ابن ماجہ/الضحایا ۱۶ (۳۱۶۰)، الذبائح ۲ (۳۱۶۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۸۶)، مسند احمد (۵/۷۵، ۷۶)، ویأتي فیما یلي: ۴۲۳۴، ۲۲۳۶، ۴۲۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ خَالِدٍ، وَرُبَّمَا قَالَ: عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، وَرُبَّمَا ذَكَرَ أَبَا قِلَابَةَ، عَنْ نُبَيْشَةَ، قَالَ: نَادَى رَجُلٌ وَهُوَ بِمِنًى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ، فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "اذْبَحُوا فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَطْعِمُوا"، قَالَ: إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فَمَا تَأْمُرُنَا ؟، قَالَ: "فِي كُلِّ سَائِمَةٍ فَرَعٌ تَغْذُوهُ مَاشِيَتُكَ حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ ذَبَحْتَهُ وَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ".
نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے منیٰ میں پکار کر کہا: اللہ کے رسول! ہم لوگ جاہلیت میں رجب میں عتیرہ کرتے تھے۔ تو اللہ کے رسول! ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "ذبح کرو جس مہینے میں چاہو اور اللہ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ"، اس نے کہا: ہم فرع ذبح کرتے تھے، تو آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہر چرنے والے جانور میں ایک فرع ہے، جسے تم چراتے ہو، جب وہ مکمل اونٹ ہو جائے تو اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ. وَأَحْسَبُنِي قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ نُبَيْشَةَ رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ كَيْمَا تَسَعَكُمْ فَقَدْ جَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْخَيْرِ فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَادَّخِرُوا، وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟، قَالَ: "اذْبَحُوا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطْعِمُوا"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي كُلِّ سَائِمَةٍ مِنَ الْغَنَمِ فَرَعٌ، تَغْذُوهُ غَنَمُكَ حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ ذَبَحْتَهُ وَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ عَلَى ابْنِ السَّبِيلِ، فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ".
بنی ہذیل کے ایک شخص نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے روکا تھا تاکہ وہ تم سب تک پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے گنجائش دے دی ہے تو کھاؤ اور اٹھا (بھی) رکھو اور (صدقہ دے کر) ثواب (بھی) کماؤ۔ سن لو، یہ دن کھانے، پینے اور اللہ تعالیٰ کی یاد (شکر ادا کرنے) کے ہیں۔ ایک شخص نے کہا: ہم لوگ رجب کے مہینہ میں زمانہ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے ذبح کرو چاہے کوئی سا مہینہ ہو، اور اللہ کے لیے نیک کام کرو اور لوگوں کو کھلاؤ"۔ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں فرع ذبح کرتے تھے، تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "ہر چرنے والی بکری میں ایک فرع ہے، جسے تم چراتے ہو، جب وہ مکمل اونٹ ہو جائے تو اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو، یہی چیز بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۱۰(۲۸۱۳)، سنن ابن ماجہ/الضحایا ۱۶ (۳۱۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۸۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْنُبَيْشَةَ، قَالَ: نَادَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً يَعْنِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: "اذْبَحُوهَا فِي أَيِّ شَهْرٍ كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطْعِمُوا". قَالَ: إِنَّا كُنَّا نُفْرِعُ فَرَعًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: "فِي كُلِّ سَائِمَةٍ فَرَعٌ حَتَّى إِذَا اسْتَحْمَلَ ذَبَحْتَهُ وَتَصَدَّقْتَ بِلَحْمِهِ، فَإِنَّ ذَلِكَ هُوَ خَيْرٌ".
نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا: ہم لوگ عتیرہ ذبح کرتے تھے۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جس مہینہ میں چاہو اسے ذبح کرو، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ"، اس نے کہا: ہم لوگ عہد جاہلیت میں فرع ذبح کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: "ہر چرنے والے جانور میں فرع ہے یہاں تک کہ جب وہ مکمل (جانور) ہو جائے تو تم اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کرو، یہی چیز بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۳۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، فَلَقِيتُ: أَبَا الْمَلِيحِ، فَسَأَلْتُهُ ؟ فَحَدَّثَنِي عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ: "اذْبَحُوا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطْعِمُوا".
نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عتیرہ ذبح کرتے تھے، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جس مہینے میں چاہو ذبح کرو، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور لوگوں کو کھلاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۳۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ لَقِيطِ بْنِ عَامِرٍ الْعُقَيْلِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَذْبَحُ ذَبَائِحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ فَنَأْكُلُ وَنُطْعِمُ مَنْ جَاءَنَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا بَأْسَ بِهِ". قَالَ وَكِيعُ بْنُ عُدُسٍ: فَلَا أَدَعُهُ.
ابورزین لقیط بن عامر عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں کچھ جانور ذبح کیا کرتے تھے، ہم خود کھاتے تھے اور جو ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس میں کوئی حرج نہیں"۔ وکیع بن عدس کہتے ہیں: چنانچہ میں اسے نہیں چھوڑتا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۱۷۸)، مسند احمد (۴/۱۳)، سنن الدارمی/الأضاحي ۸ (۲۰۰۸) (صحیح لغیرہ)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى شَاةٍ مَيِّتَةٍ مُلْقَاةٍ، فَقَالَ: "لِمَنْ هَذِهِ ؟"، فَقَالُوا لِمَيْمُونَةَ: فَقَالَ: "مَا عَلَيْهَا لَوِ انْتَفَعَتْ بِإِهَابِهَا"، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ: "إِنَّمَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَكْلَهَا".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک پڑی ہوئی مردار بکری کے پاس سے ہوا، آپ نے فرمایا: "یہ کس کی ہے؟"لوگوں نے کہا: میمونہ کی۔ آپ نے فرمایا: "ان پر کوئی گناہ نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتیں"، لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے (صرف) اس کا کھانا حرام کیا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۲۷ (۳۶۴)، سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۰)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۵ (۳۶۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۶۶)، مسند احمد (۶/۳۲۹، ۳۳۶)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۲۴۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے جسم کے دیگر اعضاء مثلاً بال، دانت، سینگ وغیرہ سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَيِّتَةٍ كَانَ أَعْطَاهَا مَوْلَاةً لِمَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "هَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِهَا"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا مَيْتَةٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا حُرِّمَ أَكْلُهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردار بکری کے پاس سے ہوا جو آپ نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کو دی تھی، آپ نے فرمایا: "تم نے اس کی کھال سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟" لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ مردار ہے۔ تو آپ نے فرمایا: "اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۱ (۱۴۹۲)، البیوع ۱۰۱ (۲۲۲۱)، الذبائح ۳۰ (۵۵۳۱)، صحیح مسلم/الحیض۲۷(۳۶۴)، سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۰)، (تحفة الأشراف: ۵۸۳۹)، موطا امام مالک/الصید ۶ (۱۱۶)، مسند احمد ۱/۳۶۵)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۰ (۲۰۳۱، ۲۰۳۲)، ویأتي بأرقام: ۴۲۴۳، ۴۲۴۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ يَعْنِي يَزِيدَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَبْصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً مَيِّتَةً لِمَوْلَاةٍ لِمَيْمُونَةَ وَكَانَتْ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ: "لَوْ نَزَعُوا جِلْدَهَا فَانْتَفَعُوا بِهِ"، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، قَالَ: "إِنَّمَا حُرِّمَ أَكْلُهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مردار بکری کو دیکھا جو ام المؤمنین میمونہ کی لونڈی کی تھی اور وہ بکری صدقے کی تھی، آپ نے فرمایا: "اگر لوگوں نے اس کی کھال اتار لی ہوتی اور اس سے فائدہ اٹھایا ہوتا" (تو اچھا ہوتا)۔ لوگوں نے عرض کیا: وہ مردار ہے، آپ نے فرمایا:"صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ الْقَطَّانُ الرَّقِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ مُنْذُ حِينٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَتْنِي مَيْمُونَةُ، أَنَّ شَاةً مَاتَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَّا دَفَعْتُمْ إِهَابَهَا، فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک بکری مر گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اس سے فائدہ اٹھاتے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۳۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ لِمَيْمُونَةَ مَيِّتَةٍ، فَقَالَ: "أَلَّا أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا فَدَبَغْتُمْ فَانْتَفَعْتُمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے، تو آپ نے فرمایا:"کیا تم لوگوں نے اس کی کھال نہیں اتاری کہ اسے دباغت دے کر فائدہ اٹھا لیتے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۲۷ (۳۶۳۱)، (تحفة الأشراف: ۵۹۴۷)، مسند احمد (۱/۲۷۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَاةٍ مَيِّتَةٍ، فَقَالَ: "أَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِإِهَابِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے اور فرمایا: "کیا تم لوگوں نے اس کی کھال سے فائدہ نہیں اٹھایا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۷۷۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَوْدَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "مَاتَتْ شَاةٌ لَنَا، فَدَبَغْنَا مَسْكَهَا فَمَا زِلْنَا نَنْبِذُ فِيهَا حَتَّى صَارَتْ شَنًّا".
ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہماری ایک بکری مر گئی تو ہم نے اس کی کھال کو دباغت دی، پھر ہم اس میں ہمیشہ نبیذ بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی ہو گئی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأیمان والنذور ۲۱ (۶۶۸۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۹۶)، مسند احمد (۶/۴۲۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ وَعْلَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کھال کو دباغت دے دی جائے وہ پاک ہو گئی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۲۷ (۳۶۶)، سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۳)، سنن الترمذی/اللباس ۷ (۱۷۲۸)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۵ (۳۶۰۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۹۶)، موطا امام مالک/الصید ۶ (۱۷)، مسند احمد ۱/۲۱۹، ۲۳۷، ۲۷۰، ۲۷۹، ۲۸۰، ۳۴۳، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۰ (۲۰۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: حلال جانور کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو گی، اور اس کا استعمال جائز ہو گا۔
أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الْخَيْرِ، عَنِ ابْنِ وَعْلَةَ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنَّا نَغْزُو هَذَا الْمَغْرِبَ، وَإِنَّهُمْ أَهْلُ وَثَنٍ وَلَهُمْ قِرَبٌ يَكُونُ فِيهَا اللَّبَنُ وَالْمَاءُ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "الدِّبَاغُ طَهُورٌ"، قَالَ ابْنُ وَعْلَةَ: عَنْ رَأْيِكَ أَوْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَلْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ.
عبدالرحمٰن بن وعلہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: ہم لوگ مغرب کے علاقہ میں جہاد کو جا رہے ہیں، وہاں کے لوگ بت پرست ہیں، ان کے پاس مشکیں ہیں جن میں دودھ اور پانی ہوتا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دباغت کی ہوئی کھالیں پاک ہوتی ہیں۔ عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: یہ آپ کا خیال ہے یا کوئی بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا: بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سنی) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جَوْنِ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبِّقِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ دَعَا بِمَاءٍ مِنْ عِنْدِ امْرَأَةٍ، قَالَتْ: مَا عِنْدِي إِلَّا فِي قِرْبَةٍ لِي مَيْتَةٍ، قَالَ: "أَلَيْسَ قَدْ دَبَغْتِهَا"، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: "فَإِنَّ دِبَاغَهَا ذَكَاتُهَا".
سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ایک عورت کے پاس سے پانی منگوایا۔ اس نے کہا: میرے پاس تو ایک ایسی مشک کا پانی ہے جو مردار کی کھال کی ہے، آپ نے فرمایا: "تم نے اسے دباغت نہیں دی تھی؟" وہ بولی: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۵)، (تحفة الأشراف: ۴۵۶۰)، مسند احمد (۳/۴۷۶ و۵/۶، ۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ جَعْفَرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِالْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جُلُودِ الْمَيْتَةِ ؟، فَقَالَ: "دِبَاغُهَا طَهُورُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مردار کی کھال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۶۰۵۱)، مسند احمد (۶/۱۵۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْإِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ جُلُودِ الْمَيْتَةِ ؟، فَقَالَ: "دِبَاغُهَا ذَكَاتُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مردے کی کھالوں کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: "اس کی دباغت ہی اس کی پاکی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۵۹۶۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۲۵۱، ۴۲۵۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَزَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ذَكَاةُ الْمَيْتَةِ دِبَاغُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ذَكَاةُ الْمَيْتَةِ دِبَاغُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردار کی کھال کی پاکی ہی اس کی دباغت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ فَرْقَدٍ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَالِكِ بْنِ حُذَافَةَ حَدَّثَهُ، عَنِ الْعَالِيَةِ بِنْتِ سُبَيْعٍ، أَنَّ مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهَا، أَنَّهُ مَرَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَجُرُّونَ شَاةً لَهُمْ مِثْلَ الْحِصَانِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا"، قَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُطَهِّرُهَا الْمَاءُ وَالْقَرَظُ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قریش کے کچھ لوگ گزرے، وہ اپنی ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹ رہے تھے، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم لوگ اس کی کھال رکھ لیتے" (تو بہتر ہوتا)، انہوں نے کہا: وہ مردار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے پانی اور سلم درخت کا پتا (جس سے دباغت دی جاتی ہے) پاک کر دیتے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۸۴)، مسند احمد (۶/۳۳۳، ۳۳۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ ضروری نہیں کہ ہمارے زمانہ میں بھی دباغت کے لیے پانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے کانٹے دار درخت ہی کا استعمال کیا جائے، موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں جس پاک چیز سے بھی دباغت دی جائے مقصد حاصل ہو گا لیکن اس کے ساتھ پانی کا استعمال ضروری ہے :(«قرظ»: ایک سلم نامی کانٹے دار درخت کے پتے )۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: قُرِئَ عَلَيْنَا كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ: "أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ وَلَا عَصَبٍ".
عبداللہ بن عکیم جہنی کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا گیا (اس وقت میں ایک نوخیز لڑکا تھا) کہ تم لوگ مردے کی بغیر دباغت کی ہوئی کھال یا پٹھے سے فائدہ مت اٹھاؤ" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۲ (۴۱۲۷)، سنن الترمذی/اللباس ۷ (۱۷۲۷)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۶ (۳۶۱۳)، (تحفة الأشراف: ۶۶۴۲)، مسند احمد (۴/۳۱۰، ۳۱۱)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۲۵۵، ۴۲۵۶) (صحیح) (الإرواء ۳۸، وتراجع الالبانی ۴۷۰)
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے اس حدیث کو ناسخ، اور ابن عباس اور میمونہ رضی اللہ عنہم کی حدیثوں کو منسوخ قرار دیا ہے کیونکہ یہ مکتوب آپ کی وفات سے چھ ماہ پہلے کا ہے، لیکن جمہور محدثین نے اس کے برخلاف پچھلی حدیثوں کو ہی سند کے لحاظ سے زیادہ صحیح ہونے کی بنیاد پر راجح قرار دیا ہے، صحیح بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں، پچھلی حدیثوں میں جو مردار کے چمڑے سے نفع اٹھانے کی اجازت ہے وہ دباغت کے بعد ہے، اور :(مخضرم راوی ) عبداللہ بن عکیم کی حدیث میں جو ممانعت ہے وہ دباغت سے پہلے کی ہے :(دیکھئیے اگلی حدیث ) امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد نضر بن سہیل سے نقل کیا ہے کہ «إہاب»دباغت سے پہلے والے چمڑے کو کہتے ہیں، اور دباغت کے بعد چمڑے کو «شف» یا «قربۃ» کہتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ لَا تَسْتَمْتِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ، وَلَا عَصَبٍ".
عبداللہ بن عُکیم جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں لکھ بھیجا: "تم لوگ مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ هِلَالٍ الْوَزَّانِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جُهَيْنَةَ: "أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ وَلَا عَصَبٍ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَصَحُّ مَا فِي هَذَا الْبَابِ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبداللہ بن عُکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کے لوگوں کو لکھا: "مردار کی غیر مدبوغ کھال اور پٹھے سے فائدہ نہ اٹھاؤ"۔ ابوعبدالرحمٰن(امام نسائی) کہتے ہیں: اس باب میں "مردار کی کھال جبکہ اسے دباغت دی گئی ہو" سب سے صحیح حدیث زہری کی حدیث ہے جسے عبیداللہ بن عبداللہ، ابن عباس سے اور وہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں (نمبر ۴۲۳۹)، واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۲۵۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ أَنْ يُسْتَمْتَعَ بِجُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مردار جانور کی کھال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب کہ وہ دباغت دی گئی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۴)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۵ (۳۶۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۹۱)، مسند احمد ۷۳۶، ۱۰۴، ۱۴۸، ۱۵۳ (ضعیف) (اس کی راویہ ’’ام محمد‘‘ لین الحدیث ہیں لیکن اس کا مضمون دیگر احادیث سے ثابت ہے)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ جُلُودِ السِّبَاعِ".
ابوالملیح کے والد اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالوں سے (فائدہ اٹھانے سے) منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۳ (۴۱۳۲)، سنن الترمذی/اللباس ۳۲ (۱۷۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱)، مسند احمد (۵/۷۴، ۷۵)، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۹ (۲۰۲۶، ۲۰۲۷) (صحیح)
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ، وَمَيَاثِرِ النُّمُورِ".
مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم، سونے اور چیتوں کی کھال کے بستر یا کجاوے وغیرہ سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللباس ۴۳ (۴۱۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۵۵)، مسند احمد (۴/۱۳۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبُوسِ جُلُودِ السِّبَاعِ، وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا ؟، قَالَ: نَعَمْ".
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالوں کے لباس پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ: بَيْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَيْتَةِ، وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ، فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدَّهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ ؟، فَقَالَ: "لَا، هُوَ حَرَامٌ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: "قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمَّا حَرَّمَ عَلَيْهِم الشُّحُومَ جَمَّلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام کر دی ہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اسے کشتیوں پر لگایا جاتا اور کھالوں پر ملا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ نے فرمایا: "نہیں، وہ حرام ہے"، پھر آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ یہودیوں کو تباہ کرے، اللہ تعالیٰ نے جب ان پر چربی حرام کر دی تو انہوں نے اسے گلایا، پھر بیچا، پھر اس کی قیمت کھائی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۱۲ (۲۲۳۶)، المغازي ۵۱ (۴۲۹۶)، تفسیرسورة الأنعام ۶ (۴۶۳۳)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۳ (البیوع۳۴) (۱۵۸۱)، سنن ابی داود/البیوع ۶۶ (۳۴۸۶)، سنن الترمذی/البیوع ۶۱ (۱۲۹۷)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۱ (۲۱۶۷)، (تحفة الأشراف: ۲۴۹۴)، مسند احمد (۳/۳۲۴، ۳۲۶، ۳۷۰)، ویأتي عند المؤلف في البیوع ۹۳ (برقم: ۴۶۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے حیلہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، یہ ایسی ہی ہے جیسے یہودیوں نے سنیچر کے دن شکار کی ممانعت پر حیلہ کیا تھا کہ جمعہ کے دن پانی میں جال پھیلا دیتے تاکہ مچھلیاں پھنس جائیں اور سنیچر کی مدت ختم ہونے کے بعد آسانی سے شکار ہاتھ میں آ جائے، کسی بھی حرام چیز سے کسی طرح بھی فائدہ اٹھانا حرام ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أُبْلِغَ عُمَرُ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمُ الشُّحُومُ فَجَمَّلُوهَا". قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي أَذَابُوهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی ہے تو انہوں نے کہا: اللہ سمرہ کو ہلاک و برباد کرے، کیا اسے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک و برباد کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے گلایا۔ سفیان کہتے ہیں: یعنی اسے پگھلایا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۰۳(۲۲۲۳)، الأنبیاء ۵۰ (۳۴۶۰)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۳ (۱۵۸۲)، سنن ابن ماجہ/الأشربة ۷ (۳۳۸۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۰۱)، مسند احمد (۱/۲۵)، سنن الدارمی/الأشربة ۹ (۲۱۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: پھر اس کا تیل بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ فَأْرَةً وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ، فَمَاتَتْ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا وَكُلُوهُ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا؟ آپ نے فرمایا: "اسے اور اس کے اردگرد گھی کو نکال کر پھینک دو اور پھر اسے کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۷ (۲۳۵، ۲۳۶)، الذبائح ۳۴ (۵۵۳۸، ۵۵۳۹، ۵۵۴۰)، سنن ابی داود/الأطعمة ۴۸ (۳۸۴۱، ۳۸۴۲، ۳۸۴۳)، سنن الترمذی/الأطعمة ۸ (۱۷۹۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۶۵)، موطا امام مالک/الاستئذان ۷ (۲۰)، مسند احمد (۶/۳۲۹، ۳۳۰، سنن الدارمی/الطھارة ۵۹ (۷۶۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ النَّيْسَابُورِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِالزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ جَامِدٍ ؟، فَقَالَ: "خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا فَأَلْقُوهُ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی جمے ہوئے گھی میں گر جائے تو آپ نے فرمایا: "اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو لے کر پھینک دو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بُوذُوَيْهِ، أَنَّ مَعْمَرًا ذَكَرَهُ، عَنِالزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ، عَنِ الْفَأْرَةِ تَقَعُ فِي السَّمْنِ، فَقَالَ: "إِنْ كَانَ جَامِدًا فَأَلْقُوهَا، وَمَا حَوْلَهَا، وَإِنْ كَانَ مَائِعًا فَلَا تَقْرَبُوهُ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چوہیا کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر جائے؟ تو آپ نے فرمایا: "اگر گھی جما ہوا ہو تو اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال پھینکو اور اگر جما ہوا نہ ہو تو تم اس کے قریب نہ جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (شاذ) (معمر کے سوا زہری کے اکثر تلامذہ اس کو بغیر تفصیل کے روایت کرتے ہیں جیسے پچھلی دونوں روایتوں میں ہے)
وضاحت: ۱؎: سند اور علم حدیث کے قواعد کے لحاظ سے یہ حدیث درجہ میں پہلی حدیث سے کم تر ہے، اور اس کے مخالف ہونے کی وجہ سے " شاذ " ہے، لیکن پہلی حدیث کے مضمون ہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسی قسم کے گھی کا " اردگرد " ہو سکتا ہے جو جامد ہو، اور اگر سیال :(بہنے والا ) ہو تو اس کا " اردگرد " کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی لیے بہت سے علماء اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُلَيْمِ بْنِ عُثْمَانَ الْفَوْزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَدِّي الْخَطَّابُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِثُ بْنُ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِعَنْزٍ مَيِّتَةٍ، فَقَالَ: "مَا كَانَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الشَّاةِ لَوِ انْتَفَعُوا بِإِهَابِهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردہ بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: "اس بکری والوں پر کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ اس کی کھال (دباغت دے کر) سے فائدہ اٹھا لیتے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الذبائح ۳۰ (۵۵۳۲)، (تحفة الأشراف: ۵۴۴۶) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَمْقُلْهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کے برتن میں مکھی گر جائے تو اسے اچھی طرح ڈبو دو(پھر اسے نکال کر پھینک دو)"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطب ۳۱ (۳۵۰۴)، (تحفة الأشراف: ۴۴۲۶) مسند احمد (۳/۲۴، ۶۷) (صحیح)