حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يَعْدِلُ الْجِهَادَ ؟ قَالَ: " إِنَّكُمْ لَا تَسْتَطِيعُونَهُ "، فَرَدُّوا عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ، يَقُولُ: " لَا تَسْتَطِيعُونَهُ "، فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ: " مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَثَلُ الْقَائِمِ الصَّائِمِ الَّذِي لَا يَفْتُرُ مِنْ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ الشِّفَاءِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ مَالِكٍ الْبَهْزِيَّةِ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کہا گیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل (اجر و ثواب میں) جہاد کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے"، صحابہ نے دو یا تین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا، آپ ہر مرتبہ کہتے: "تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے"، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: "اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اور روزہ دار کی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتا ہی چلا جاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آ جائے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے، ۳- اس باب میں شفاء، عبداللہ بن حبشی، ابوموسیٰ، ابوسعید، ام مالک بہز یہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۹ (۱۸۷۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۹۱) ، و مسند احمد (۲/۴۲۴، ۴۳۸، ۴۶۵) (صحیح) (وانظر أیضا: صحیح البخاری/الجہاد ۲ ۲۷۸۷) ، و سنن النسائی/الجہاد ۱۴ (۳۱۲۶)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جس طرح اللہ کی عبادت میں ہر آن اور ہر گھڑی مشغول رہنے والے روزہ دار اور نمازی کا ثواب برابر جاری رہتا ہے ، اسی طرح اللہ کی راہ کے مجاہد کا کوئی وقت ثواب سے خالی نہیں جاتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي مَرْزُوقٌ أَبُو بَكْرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ هُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ، إِنْ قَبَضْتُهُ، أَوْرَثْتُهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ رَجَعْتُهُ، رَجَعْتُهُ بِأَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ "، قَالَ: هُوَ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کا ضامن میں ہوں، اگر میں اس کی روح قبض کروں تو اس کو جنت کا وارث بناؤں گا، اور اگر میں اسے (اس کے گھر) واپس بھیجوں تو اجر یا غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۳۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّعَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ "، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَجَابِرٍ، وَحَدِيثُ فَضَالَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر میت کے عمل کا سلسلہ بند کر دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوئے مرے، تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنہ سے مامون رہے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا: مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضالہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عقبہ بن عامر اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۱۶ (۲۵۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۰۳۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے ، وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے ، خواہشات نفس کا تابع نہیں ہوتا اور اطاعت الٰہی میں جو مشکلات اور رکاوٹیں آتی ہیں ، ان پر صبر کرتا ہے ، یہی جہاد اکبر ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أنهما حدثاه، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، زَحْزَحَهُ اللَّهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا "، أَحَدُهُمَا يَقُولُ: " سَبْعِينَ "، وَالْآخَرُ يَقُولُ: " أَرْبَعِينَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْأَسْوَدِ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَسَدِيُّ الْمَدَنِيُّ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَنَسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي أُمَامَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت تک جہنم سے دور کرے گا" ۱؎۔ عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار میں سے ایک نے "ستر برس" کہا ہے اور دوسرے نے "چالیس برس"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- راوی ابوالاسود کا نام محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل اسدی مدنی ہے، ۳- اس باب میں ابوسعید، انس، عقبہ بن عامر اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الصیام ۴۴ (۲۲۴۶، ۲۲۴۸) ، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۴ (۱۷۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۴۸۶) ، و مسند احمد (۲/۳۰۰، ۳۵۷) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’ ابن لہیعہ ‘‘ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : جہاد کرتے وقت روزہ رکھنے کی فضیلت کے حامل وہ مجاہدین ہیں جنہیں روزہ رکھ کر کمزوری کا احساس نہ ہو ، اور جنہیں کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ہو وہ اس فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، قَالَ: وحَدَّثَنَامَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَصُومُ عَبْدٌ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا بَاعَدَ ذَلِكَ الْيَوْمُ النَّارَ عَنْ وَجْهِهِ سَبْعِينَ خَرِيفًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راہ جہاد میں کوئی بندہ ایک دن بھی روزہ رکھتا ہے تو وہ دن اس کے چہرے سے ستر سال کی مسافت تک جہنم کی آگ کو دور کر دے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۳۶ (۲۸۴۰) ، صحیح مسلم/الصوم ۳۱ (۱۱۵۳) ، سنن النسائی/الصیام ۴۴ (۲۲۴۷) ، ۲۲۴۹-۲۲۵۲) ، و ۴۵ ۲۲۵۳-۲۲۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الصوم ۳۴ (۱۷۱۷) ، (تحفة الأشراف : ۴۳۸۸) ، و مسند احمد (۳/۲۶، ۴۵، ۵۹، ۸۳) ، سنن الدارمی/الجہاد ۱۰ (۲۴۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ "، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ.
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاد میں جو شخص ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان اسی طرح کی ایک خندق بنا دے گا جیسی زمین و آسمان کے درمیان ہے"۔ یہ حدیث ابوامامہ کی روایت سے غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۴۹۰۴) (حسن صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے، ورنہ ’’ ولید ‘‘ اور ان کے شیخ میں قدرے کلام ہے، دیکھیے الصحیحة رقم ۵۶۳)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمِيلَةَ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كُتِبَتْ لَهُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ.
خریم بن فاتک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سو گنا(ثواب) لکھ لیا گیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، اس حدیث کو ہم رکین بن ربیع ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد ۴۵ (۳۱۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۲۶) ، و مسند احمد (۴/۳۵۲۲، ۳۴۵، ۳۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الطَّائِيِّ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: " خِدْمَةُ عَبْدٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ ظِلُّ فُسْطَاطٍ، أَوْ طَرُوقَةُ فَحْلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا، وَخُولِفَ زَيْدٌ فِي بَعْضِ إِسْنَادِهِ.
عدی بن حاتم طائی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "اللہ کے راستے میں (کسی مجاہد کو) غلام کا عطیہ دینا یا (مجاہدین کے لیے) خیمہ کا سایہ کرنا، یا اللہ کے راستے میں جوان اونٹنی دینا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاویہ بن صالح سے یہ حدیث مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے، ۲- بعض اسناد (طرق) میں زید (بن حباب) کی مخالفت کی گئی ہے، اس حدیث کو ولید بن جمیل نے قاسم ابوعبدالرحمٰن سے، قاسم نے ابوامامہ سے، اور ابوامامہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ہم سے اس حدیث کو زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۹۸۷۳) (حسن)
قَالَ: وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصَّدَقَاتِ: ظِلُّ فُسْطَاطٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنِيحَةُ خَادِمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ طَرُوقَةُ فَحْلٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاد میں (مجاہدین کے لیے) خیمہ کا سایہ کرنا، خادم کا عطیہ دینا اور جوان اونٹنی دینا سب سے افضل و بہتر صدقہ ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- میرے نزدیک یہ معاویہ بن صالح کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۹۰۵) (حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ فَقَدْ غَزَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے اہل و عیال میں اس کی جانشینی کی (اس کے اہل و عیال کی خبرگیری کی) حقیقت میں اس نے جہاد کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ دوسری سند سے بھی آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۳۸ (۲۸۴۳) ، صحیح مسلم/الإمارة ۳۸ (۱۸۹۳) ، سنن ابی داود/ الجہاد (۲۵۰۹) ، سنن النسائی/الجہاد ۴۴ (۳۱۸۲) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۳ (۲۷۵۹) (تحفة الأشراف : ۳۷۴۷) ، و مسند احمد (۴/۱۱۵، ۱۱۶، ۱۱۷) ، و (۱۹۲۵، ۱۹۳) ، سنن الدارمی/الجہاد ۲۷ (۲۴۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، فَقَدْ غَزَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا، یا اس کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۳۷۶۱) (صحیح بما قبلہ) (سند میں ’’ محمد بن ابی لیلیٰ ‘‘ ضعیف ہیں، مگر پچھلی سند صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی زید بن خالد جہنی سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ فَقَدْ غَزَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مجاہد کا سامان سفر تیار کیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر والے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ وَأَنَا مَاشٍ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَبْشِرْ، فَإِنَّ خُطَاكَ هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُمَا حَرَامٌ عَلَى النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَبْسٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَبْرٍ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ رَجُلٌ شَامِيٌّ، رَوَى عَنْهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَيَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ كُوفِيٌّ أَبُوهُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْمُهُ: مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَرَوَى عَنْ يَزِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، وَيُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، وَشُعْبَةُ، أَحَادِيثَ.
یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے عبایہ بن رفاعہ بن رافع ملے، انہوں نے کہا: خوش ہو جاؤ، تمہارے یہ قدم اللہ کے راستے میں ہیں، میں نے ابوعبس رضی الله عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوں، انہیں جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- ابوعبس کا نام عبدالرحمٰن بن جبر ہے، ۳- اس باب میں ابوبکر اور ایک دوسرے صحابی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۸ (۹۰۷) ، والجہاد ۱۶ (۲۸۱۱) ، سنن النسائی/الجہاد ۹ (۳۱۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۹۶۹۲) ، و مسند احمد (۳/۴۷۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْعِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ مَوْلَى أَبِي طَلْحَةَ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے ڈر سے رونے والا جہنم میں داخل نہیں ہو گا یہاں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے، (اور یہ محال ہے) اور جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد (۳۱۰۹) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۹ (۲۷۷۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۲۸۳) ، و مسند احمد (۲/۵۰۵) ، ویأتي في الزہد برقم ۲۳۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جس طرح دنیا و آخرت ایک دوسرے کی ضد ہیں کہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ، اسی طرح راہ جہاد کا غبار اور جہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، أَنَّ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ قَالَ: يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ، حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحْذَرْ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَحَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، هَكَذَا رَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، وَأَدْخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ فِي الْإِسْنَادِ رَجُلًا، وَيُقَالُ: كَعْبُ بْنُ مُرَّةَ، وَيُقَالُ: مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَهْزِيُّ، وَالْمَعْرُوفُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَهْزِيُّ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ.
سالم بن ابی جعد سے روایت ہے، شرحبیل بن سمط نے کہا: کعب بن مرہ رضی الله عنہ! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کیجئے اور کمی زیادتی سے محتاط رہئیے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جو اسلام میں بوڑھا ہو جائے، تو قیامت کے دن یہ اس کے لیے نور بن کر آئے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں فضالہ بن عبید اور عبداللہ بن عمرو سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- کعب بن مرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو اعمش نے اسی طرح عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث منصور سے بھی آئی ہے، انہوں نے سالم بن ابی جعد سے روایت کی ہے، انہوں نے سالم اور کعب بن مرہ کے درمیان سند میں ایک آدمی کو داخل کیا ہے، ۳- کعب بن مرہ کو کبھی کعب بن بن مرہ اور مرہ بن کعب بہزی بھی کہا گیا ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد ۲۶ (۳۱۴۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۶۴) ، و مسند احمد (۴/۲۳۵-۲۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ، عَنْ بَقِيَّةَ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ابْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ.
عمرو بن عبسہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہو جائے قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۷۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ: هِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ عَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ، فَالَّذِي يَتَّخِذُهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُعِدُّهَا لَهُ هِيَ لَهُ أَجْرٌ، لَا يَغِيبُ فِي بُطُونِهَا شَيْءٌ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرًا "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَىمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث اجر ہے، ایک وہ گھوڑا ہے جو آدمی کی (عزت و وقار) کے لیے پردہ پوشی کا باعث ہے، اور ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعث گناہ ہے، وہ آدمی جس کے لیے گھوڑا باعث اجر ہے وہ ایسا شخص ہے جو اس کو جہاد کے لیے رکھتا ہے، اور اسی کے لیے تیار کرتا ہے، یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعث اجر ہے، اس کے پیٹ میں جو چیز (خوراک) بھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتا ہے"، اس حدیث میں ایک قصہ کا ذکر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس نے بطریق: «زيد بن أسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ۱۲ (۲۳۷۱) ، والجہاد ۴۸ (۲۸۶۰) ، والمناقب ۲۸ (۳۶۴۶) ، وتفسیر الزلزلة ۱ (۴۹۶۳) ، والاعتصام ۲۴ (۷۳۵۶) ، صحیح مسلم/الزکاة ۶ (۹۸۷) ، سنن النسائی/الخیل ۱ (۳۵۹۲، ۳۵۹۳) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۴ (۲۷۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۲۷۲۱) ، و مسند احمد (۲/۲۶۲، ۲۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةً الْجَنَّةَ، صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ، وَقَالَ: ارْمُوا وَارْكَبُوا، وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ أَهْلَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا: تیر بنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتا ہو، تیر انداز کو اور تیر دینے والے کو"، آپ نے فرمایا: "تیر اندازی کرو اور سواری سیکھو، تمہارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتا ہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا، گھوڑے کو تربیت دینا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۹۱۴) (ضعیف) (اس کی سند میں دو راوی تبع تابعی اورتابعی ساقط ہیں، لیکن ’’ كُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلاَّ رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ وَمُلاَعَبَتَهُ أَهْلَهُ ‘‘ والا ٹکڑا اگلی سند سے تقویت پا کر صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ، وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں کعب بن مرہ، عمرو بن عبسہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۲۴ (۲۵۱۳) ، سنن النسائی/الجہاد ۲۷ (۳۱۴۸) ، والخیل ۸ (۳۶۰۸) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۹ (۲۸۱۱) ، (تحفة الأشراف : ۹۹۲۲) ، و مسند احمد (۴/۱۴۶) ، سنن الدارمی/الجہاد ۱۴ (۲۴۴۹) (حسن) (اس کے راوی عبد اللہ بن زید الازرق لین الحدیث (مقبول) ہیں، مگر ان کی متابعت خالد بن زید یا یزید نے کی ہے (عند النسائی وابی داود) اس لیے یہ حدیث ’’ حسن لغیرہ ‘‘ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، (نیز اس ٹکڑے کے مزید شواہد کے لیے ملاحظہ ہو: الصحیحة: ۳۱۵)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي نَجِيحٍ السُّلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ لَهُ عَدْلُ مُحَرَّرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو نَجِيحٍ هُوَ عَمْرُو بْنُ عَبْسَةَ السُّلَمِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَزْرَقِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ.
ابونجیح عمرو بن عبسہ سلمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیر مارا، وہ (ثواب میں)ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- ابونجیح کا نام عمرو بن عبسہ سلمی ہے، ۳- عبداللہ بن ازرق سے مراد عبداللہ بن زید ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العتق ۱۴ (۳۹۶۵) ، سنن النسائی/الجہاد ۲۶ (۳۱۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۷۶۸) ، و مسند احمد (۴/۱۳، ۳۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ رُزَيْقٍ أَبُو شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ: عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُثْمَانَ، وَأَبِي رَيْحَانَةَ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شُعَيْبِ بْنِ رُزَيْقٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شعیب بن رزیق ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عثمان اور ابوریحانہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۹۳۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ طَلْحَةَ الْيَرْبُوعِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ "، فَقَالَ جِبْرِيلُ: إِلَّا الدَّيْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الدَّيْنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ، وقَالَ: أَرَى أَنَّهُ أَرَادَ حَدِيثَ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا إِلَّا الشَّهِيدُ ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: "سوائے قرض کے"، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: "سوائے قرض کے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کو ابی بکر کی روایت سے صرف اسی شیخ (یعنی یحییٰ بن طلحہ) کے واسطے سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: میرا خیال ہے یحییٰ بن طلحہ نے حمید کی حدیث بیان کرنا چاہی جس کو انہوں نے انس سے، انس رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: "شہید کے علاوہ کوئی ایسا جنتی نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہے"، ۳- اس باب میں کعب بن عجرہ، جابر، ابوہریرہ اور ابوقتادہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۱۸) (صحیح) (عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث (عند مسلم) سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے جس کی صراحت مؤلف نے کر سنن الدارمی/ ہے)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْأَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ أَوْ شَجَرِ الْجَنَّةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہداء کی روحیں (جنت میں) سبز پرندوں کی شکل میں ہیں، جو جنت کے پھلوں یا درختوں سے کھاتی چرتی ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۷۵) ، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴ ((۱۴۴۹) ، والزہد ۳۲ (۴۲۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۴۸) ، وط/الجنائز ۱۶ (۴۹) ، و مسند احمد (۳/۴۵۵، ۴۵۶، ۴۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَامِرٍ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عُرِضَ عَلَيَّ أَوَّلُ ثَلَاثَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: شَهِيدٌ، وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ، وَعَبْدٌ أَحْسَنَ عِبَادَةَ اللَّهِ وَنَصَحَ لِمَوَالِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے اوپر ان تین اشخاص کو پیش کیا گیا جو جنت میں سب سے پہلے جائیں گے: ایک شہید، دوسرا حرام سے دور رہنے والا اور نامناسب امور سے بچنے والا، تیسرا وہ غلام جو اچھی طرح اللہ کی عبادت بجا لائے اور اپنے مالکان کے لیے خیر چاہے یا ان کے حقوق بجا لائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي) وانظر: مسند احمد (۲/۴۲۵) (ضعیف) (سند میں عامر العقیلی مجہول ہیں اور ان کے والد عقبہ العقیلی مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کے وقت، اور یہاں کوئی متابع نہیں ہے، نیز یحیی بن ابی کثیر مدلس اور ارسال کرنے والے راوی ہیں، اور یہاں پر ان کی روایت عنعنہ سے ہے، اور ان سے روایت کرنے والے علی بن المبارک الہنائی کی یحیی بن ابی کثیر سے دو کتابیں تھیں ایک کتاب کا انہیں سماع حاصل تھا، اور دوسری روایت مرسل اور کوفی رواة جب علی بن المبارک سے روایت کرتے ہیں تو ان میں بعض ضعف ہوتا ہے، اور یہاں پر علی بن المبارک کے شاگرد عثمان بن عمر بصری راوی ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَمُوتُ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَأَنَّ لَهُ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا إِلَّا الشَّهِيدُ، لِمَا يَرَى مِنْ فَضْلِ الشَّهَادَةِ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَسَنَّ مِنْ الزُّهْرِيِّ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مرنے والا کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے پاس ثواب ہو اور وہ دنیا کی طرف دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس کی خاطر لوٹنا چاہتا ہو۔ سوائے شہید کے، اس لیے کہ وہ شہادت کا مقام و مرتبہ دیکھ چکا ہے، چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور دوبارہ شہید ہو (کر آئے)"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۶ (۲۷۹۵) ، و ۲۱ (۲۸۱۷) ، صحیح مسلم/الإمارة ۲۹ (۱۸۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۸) ، و مسند احمد (۳/۱۰۳، ۱۳۶، ۱۵۳، ۱۷۳، ۲۵۱، ۲۷۶، ۲۷۸، ۲۸۴، ۲۸۹) ویأتي برقم ۱۶۶۱ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ أَعْيُنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَكَذَا "، وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ، قَالَ: فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا ضُرِبَ جِلْدُهُ بِشَوْكِ طَلْحٍ مِنَ الْجُبْنِ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ، فَهُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ، وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ، فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: قَدْ رَوَى سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ، وَقَالَ: عَنْ أَشْيَاخٍ مِنْ خَوْلَانَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي يَزِيدَ، وقَالَ عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "شہید چار طرح کے ہیں: پہلا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن سے مقابلہ اور اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہی وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح آنکھیں اٹھا کر دیکھیں گے اور (راوی فضالہ بن عبید نے اس کی کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا) اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ٹوپی (سر سے) گر گئی"، راوی ابویزید خولانی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم فضالہ نے عمر رضی الله عنہ کی ٹوپی مراد لی یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی، آپ نے فرمایا: "دوسرا وہ اچھے ایمان والا مومن جو دشمن کا مقابلہ اس طرح کرے تو ان بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد (کھال) «طلح» (ایک بڑا خاردار درخت) کے کاٹے سے زخمی ہو گئی ہو، پیچھے سے (ایک انجان) تیر آ کر اسے لگے اور مار ڈالے، یہ دوسرے درجہ میں ہے، تیسرا وہ مومن جو نیک عمل کے ساتھ برا عمل بھی کرے، جب دشمن سے مقابلہ کرے تو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کر دکھائے (یعنی بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ تیسرے درجہ میں ہے، چوتھا وہ مومن شخص جو اپنے نفس پر ظلم کرے (یعنی کثرت گناہ کی وجہ سے، اور بہادری سے لڑتا رہے) یہاں تک کہ شہید ہو جائے، یہ چوتھے درجہ میں ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عطاء بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: یہ حدیث سعید بن ابی ایوب نے عطاء بن دینار سے روایت کی ہے اور انہوں نے خولان کے مشائخ سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابویزید کا ذکر نہیں کیا، اور عطاء بن دینار نے کہا:(کہ اس حدیث میں) کچھ حرج نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۶۲۳) (ضعیف) (سند میں ’’ ابویزید الخولانی ‘‘ مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكٌ عَلَى الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، نَحْوَ مَا قَالَ فِي الْأَوَّلِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: " أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ "، قَالَ: فَرَكِبَتْ أُمُّ حَرَامٍ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ هِيَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ وَهِيَ خَالَةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان کے گھر جب بھی جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتیں، ام حرام رضی الله عنہا عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کے عقد میں تھیں، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں، آپ سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ آپ نے (جواب میں) فرمایا: "میرے سامنے میری امت کے کچھ مجاہدین پیش کئے گئے، وہ اس سمندر کے سینہ پر سوار تھے، تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے"۔ راوی کو شک ہے کہ آپ نے «ملوك على الأسرة» کہا، یا «مثل الملوك على الأسرة» میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں کر دے، چنانچہ آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی، آپ پھر اپنا سر رکھ کر سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسا رہی ہے؟ فرمایا: "میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے پیش کئے گئے"، آپ نے اسی طرح فرمایا جیسے اس سے پہلے فرمایا تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ مجھے ان لوگوں میں کر دے، آپ نے فرمایا: "تم (سمندر میں) پہلے (جہاد کرنے) والے لوگوں میں سے ہو"۔ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کے زمانہ میں ام حرام رضی الله عنہا سمندری سفر پر (ایک جہاد میں) نکلیں تو وہ سمندر سے نکلتے وقت اپنی سواری سے گر گئیں اور ہلاک ہو گئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ام حرام بنت ملحان، ام سلیم کی بہن اور انس بن مالک کی خالہ ہیں، (اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہال میں سے قریبی رشتہ دار تھیں)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۳ (۲۷۸۸) ، و ۸ (۲۷۹۹) ، و ۶۳ (۲۸۷۷) ، و ۷۵ (۲۸۹۴) ، والاستئذان ۴۱ (۶۶۲۸۲) ، والتعبیر۱۲ (۷۰۰۱) ، صحیح مسلم/الإمارة ۴۹ (۲۹۱۲) ، سنن ابی داود/ الجہاد ۱۰ (۲۴۹۰) ، سنن النسائی/الجہاد ۴۰ (۳۱۷۳) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۰ (۲۷۷۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۹۹) و موطا امام مالک/الجہاد ۱۸ (۳۹) ، و مسند احمد (۳/۲۶۴) ، و انظر أیضا: ۶/۳۶۱، ۴۲۳، ۴۳۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ قَالَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ایک آدمی اظہار شجاعت (بہادری) کے لیے لڑتا ہے، دوسرا حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے، تیسرا ریاکاری کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "جو شخص اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جہاد کرے، وہ اللہ کے راستے میں ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۴۵ (۱۲۳) ، والجہاد ۱۵ (۲۸۱۰) ، والخمس ۱۰ (۳۱۲۶) ، والتوحید ۲۸ (۴۷۲۸) ، صحیح مسلم/الإمارة ۴۲ (۱۹۰۴) ، سنن ابی داود/ الجہاد ۲۶ (۲۵۱۷) ، سنن النسائی/الجہاد ۳۱ (۳۱۳۸) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۳ (۲۷۸۳) ، (تحفة الأشراف : ۸۹۹۹) ، و مسند احمد (۴/۳۹۲، ۳۹۷، ۴۰۲، ۴۰۵، ۴۱۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ هَذَا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: يَنْبَغِي أَنْ نَضَعَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كُلِّ بَابٍ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی اسی کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے مانی جائے گی اور جس نے حصول دنیا یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کی ہو گی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس، سفیان ثوری اور کئی ائمہ حدیث نے اسے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن سعید انصاری ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: ہمیں اس حدیث کو ہر باب میں رکھنا چاہیئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الوحي ۱ (۱) ، والإیمان ۴۱ (۴۵) ، والعتق ۶ (۲۵۲۹) ، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۸۹۸) ، والنکاح ۵ (۵۰۷۰) ، والنذور ۲۳ (۶۶۸۹) ، والحیل ۱ (۶۹۵۳) ، صحیح مسلم/الإمارة ۴۵ (۹۰۷) ، سنن ابی داود/ الطلاق ۱۱ (۲۲۰۱) ، سنن النسائی/الطہارة ۶۰ (۷۵) ، والطلاق ۲۴ (۳۴۶۷) ، والأیمان والنذور ۱۸ (۳۸۲۵) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۱ (۴۲۲۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۶۱۲) ، و مسند احمد (۱/۲۵، ۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راہ جہاد کی ایک صبح دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے اور جنت کی ایک کوڑے ۱؎ کی جگہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، ابوایوب اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۵ (۲۷۹۴) ، و ۷۳ (۲۸۹۲) ، وبدء الخلق ۸ (۳۲۵) ، والرقاق ۲ (۶۴۱۵) ، صحیح مسلم/الإمارة ۳۰ (۱۸۸۱) ، سنن النسائی/الجہاد ۱۱ (۳۱۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۲ (۲۷۵۶) ، والزہد ۳۹ (۴۳۳۰) ، (تحفة الأشراف : ۴۷۳۴) ، و مسند احمد (۳/۴۳۳) ، و (۵/۳۳۰، ۳۳۷، ۳۳۹) ، سنن الدارمی/الجہاد ۹ (۲۴۴۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کوڑے کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ، کیونکہ شہسوار کی عادت میں سے ہے کہ سواری سے اتر نے سے پہلے زمین پر کوڑا پھینک کر اپنے لیے جگہ خاص کر لیتا ہے ، گویا اس سے وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ جگہ اب میرے لیے خاص ہو گئی ہے ، کوئی دوسرا اس کی جانب سبقت نہ لے جائے۔ اور دوسرے یہاں کوڑے جتنی مقدار ومسافت بتلا کر جنت کی فضیلت اور اس کی قیمت بتلانا مقصود ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْحَجَّاجُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَى عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاهِدُ وَهُوَ مَدَنِيٌّ وَاسْمُهُ: سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ، وَأَبُو حَازِمٍ هَذَا الَّذِي رَوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ هُوَ أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُهُ: سَلْمَانُ وَهُوَ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاد کی ایک صبح یا ایک شام دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- جس ابوحازم نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے وہ ابوحازم زاہد ہیں، مدینہ کے رہنے والے ہیں اور ان کا نام سلمہ بن دینار ہے، اور یہ ابوحازم جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہ ابوحازم اشجعی ہیں، کوفہ کے رہنے والے ان کا نام سلمان ہے اور یہ عزۃ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۶۴۷۴) ، وانظر: مسند احمد (۱/۲۵۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْابْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِعْبٍ فِيهِ عُيَيْنَةٌ مِنْ مَاءٍ عَذْبَةٌ، فَأَعْجَبَتْهُ لِطِيبِهَا، فَقَالَ: لَوِ اعْتَزَلْتُ النَّاسَ فَأَقَمْتُ فِي هَذَا الشِّعْبِ، وَلَنْ أَفْعَلَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " لَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ مُقَامَ أَحَدِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ سَبْعِينَ عَامًا، أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَيُدْخِلَكُمُ الْجَنَّةَ ؟ اغْزُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَوَاقَ نَاقَةٍ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے ایک آدمی کسی پہاڑی کی گھاٹی سے گزرا جس میں میٹھے پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ تھا، وہ جگہ اور چشمہ اپنی لطافت کی وجہ سے اسے بہت پسند آیا، اس نے کہا (سوچا) : کاش میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اس گھاٹی میں قیام پذیر ہو جاتا، لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کر لوں اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا: "ایسا نہ کرو، اس لیے کہ تم میں سے کسی کا اللہ کے راستے میں کھڑا رہنا اپنے گھر میں ستر سال نماز پڑھتے رہنے سے بہتر ہے، کیا تم لوگ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تم کو جنت میں داخل کر دے؟ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جس نے اللہ کی راہ میں دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کے وقفہ کے برابر جہاد کیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۱۳۵۷۹) ، وانظر: مسند احمد (۲/۴۴۲، ۵۲۴) (حسن)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ أَوْ مَوْضِعُ يَدِهِ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الْأَرْضِ، لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا وَلَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا، وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راہ جہاد کی ایک صبح یا ایک شام ساری دنیا سے بہتر ہے، اور تم میں سے کسی کی کمان یا ہاتھ کے برابر جنت کی جگہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ۱؎، اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف نکل آئے تو زمین و آسمان کے درمیان کی ساری چیزیں روشن ہو جائیں اور خوشبو سے بھر جائیں اور اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۵ (۲۷۹۲) ، و ۶ (۲۷۹۶) ، والرقاق ۵۱ (۶۵۵۸) ، صحیح مسلم/الإمارة ۳۰ (۱۷۷۰) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۲ (۲۷۵۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۷) ، و مسند احمد (۳/۱۲۲، ۱۴۱، ۱۵۳، ۱۵۷، ۲۰۷، ۲۶۳، ۲۶۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اگر کسی کو دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں حاصل ہو جائیں ، پھر وہ انہیں اطاعت الٰہی میں رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کر دے ، اس خرچ کے نتیجہ میں اسے جو ثواب حاصل ہو گا اس سے مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب کہیں زیادہ بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ ؟ رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِعِنَانِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالَّذِي يَتْلُوهُ ؟ رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ يُؤَدِّي حَقَّ اللَّهِ فِيهَا، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ ؟ رَجُلٌ يُسْأَلُ بِاللَّهِ وَلَا يُعْطِي بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم لوگوں کو سب سے بہتر آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں؟ یہ وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رہے، کیا میں تم لوگوں کو اس آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں جو مرتبہ میں اس کے بعد ہے؟ یہ وہ آدمی ہے جو لوگوں سے الگ ہو کر اپنی بکریوں کے درمیان رہ کر اللہ کا حق ادا کرتا رہے، کیا میں تم کو بدترین آدمی کے بارے میں نہ بتا دوں؟ یہ وہ آدمی ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا جائے اور وہ نہ دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزکاة ۷۴ (۲۵۷۰) ، (تحفة الأشراف : ۵۹۸۰) ، و مسند احمد (۱/۲۳۷، ۳۱۹، ۳۲۲) ، سنن الدارمی/الجہاد ۶ (۲۴۰۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ مِنْ قَلْبِهِ صَادِقًا، بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُرَيْحٍ، وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُرَيْحٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ يكنى أبا شريح وهو إسكندراني، وفي الباب، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.
سہل بن حنیف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص سچے دل سے شہادت کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مرتبے تک پہنچا دے گا اگرچہ وہ اپنے بستر ہی پر کیوں نہ مرے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سہل بن حنیف کی حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن شریح کی ہی روایت سے جانتے ہیں، اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن شریح سے عبداللہ بن صالح نے بھی روایت کیا ہے، عبدالرحمٰن بن شریح کی کنیت ابوشریح ہے اور وہ اسکندرانی (اسکندریہ کے رہنے والے) ہیں، ۲- اس باب میں معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۴۶ (۱۹۰۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۳۶۱ (۱۵۲۰) ، سنن النسائی/الجہاد ۳۶ (۳۱۶۴) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۵ (۲۷۹۷) ، (تحفة الأشراف : ۴۶۵۵) ، سنن الدارمی/الجہاد ۱۶ (۲۴۵۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اگر وہ شہید ہو کر نہ مرے تو بھی وہ شہداء کے حکم میں ہو گا اور شہیدوں کا ثواب اسے حاصل ہو گا گویا شہادت کے لیے صدق دلی سے دعا کرنے کی وجہ سے اسے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ اللہ کی راہ میں شہادت کی دعا اہل ایمان کو کرتے ہی رہنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِهِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ، أَعْطَاهُ اللَّهُ أَجْرَ الشَّهِيدِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص سچے دل سے اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا ثواب دے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۴۲ (۲۵۴۱) ، سنن النسائی/الجہاد ۲۵ (۲۱۴۳) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۵ (۳۷۹۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۳۵۹) ، و مسند احمد (۵/۲۳۰، ۲۷۵، ۲۴۴) ، سنن الدارمی/الجہاد ۵ (۲۴۳۹) ، ویأتي برقم ۱۶۵۷ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ: الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین آدمیوں کی مدد اللہ کے نزدیک ثابت ہے ۱؎ ایک اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، دوسرا وہ مکاتب غلام جو زر کتابت ادا کرنا چاہتا ہو، اور تیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتا ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد ۱۲ (۳۱۲۲) ، والنکاح ۵ (۳۲۲۰) ، سنن ابن ماجہ/العتق ۳ (۲۵۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۰۳۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ تعالیٰ نے ان تینوں مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُكْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِهِ، إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہو گا - اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ۱؎- قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰ (۲۸۰۳) ، صحیح مسلم/الإمارة ۲۸ (۱۸۷۶) ، سنن النسائی/الجہاد ۲۷ (۳۱۴۹) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۵ (۲۷۹۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۲۰) ، و مسند احمد (۲/۲۴۲، ۳۹۸، ۴۰۰، ۵۱۲، ۵۳۱، ۵۳۷) ، سنن الدارمی/الجہاد ۱۵ (۲۴۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی راہ جہاد میں زخمی ہونے والا کس نیت سے جہاد میں شریک ہوا تھا ، اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے کیونکہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے سوا اگر وہ کسی اور نیت سے شریک جہاد ہوا ہے تو وہ اس حدیث میں مذکور ثواب سے محروم رہے گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فُوَاقَ نَاقَةٍ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً، فَإِنَّهَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغْزَرِ مَا كَانَتْ، لَوْنُهَا الزَّعْفَرَانُ، وَرِيحُهَا كَالْمِسْكِ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان اللہ کی راہ میں اونٹنی کے دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے برابر جہاد کرے اس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اور جس شخص کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگے یا چوٹ آئے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا زخم دنیا کے زخم سے کہیں بڑا ہو گا، رنگ اس کا زعفران کا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۵۴ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ، أَوْ أَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ ؟ قَالَ: " إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ "، قِيلَ: ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ ؟ قَالَ: " الْجِهَادُ سَنَامُ الْعَمَلِ "، قِيلَ: ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے، یا کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا"، پوچھا گیا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: "جہاد، وہ نیکی کا کوہان ہے"۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! پھر کون؟ آپ نے فرمایا: "حج مبرور(مقبول)"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۰۶۰) (حسن صحیح) (وراجع: صحیح البخاری/الإیمان ۱۸ (۲۶) ، والحج ۴ (۱۵۱۹) ، صحیح مسلم/الإیمان ۳۶ (۸۳) ، سنن النسائی/الحج ۴ (۲۶۲۵) ، والجھاد ۱۷ (۳۱۳۲) ، و مسند احمد (۲/۲۸۷)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ رَثُّ الْهَيْئَةِ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُهُ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلَامَ، وَكَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي مُوسَى، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ اسْمُهُ.
ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں" ۱؎، قوم میں سے ایک پراگندہ ہیئت والے شخص نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ وہ آدمی لوٹ کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور بولا: میں تم سب کو سلام کرتا ہوں، پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑ دیا اور اس سے لڑائی کرتا رہا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان ضبعی کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۴۱ (۱۹۰۲) ، (تحفة الأشراف : ۹۱۳۹) ، و مسند احمد (۴/۳۹۶، ۴۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد اور اس میں شریک ہونا جنت کی راہ پر چلنے اور اس میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: " رَجُلٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالُوا: ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ: " ثُمَّ مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَتَّقِي رَبَّهُ، وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون آدمی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے"، صحابہ نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: "پھر وہ مومن جو کسی گھاٹی میں اکیلا ہو اور اپنے رب سے ڈرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۲ (۲۷۸۶) ، والرقاق ۳۴ (۶۴۹۴) ، صحیح مسلم/الإمارة ۳۴ (۱۸۸۸) ، سنن ابی داود/ الجہاد ۵ (۲۴۸۵) ، سنن النسائی/الجہاد ۷ (۳۱۰۷) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۳ (۳۹۷۸) ، (تحفة الأشراف : ۴۱۵۱) ، و مسند احمد (۳/۱۶، ۳۷، ۵۶، ۸۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے قطعاً یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ اس حدیث میں رہبانیت کی دلیل ہے ، کیونکہ بعض احادیث میں «ويؤتى الزكاة» کی بھی صراحت ہے ، اور رہبانیت کی زندگی گزارنے والا جب مال کمائے گا ہی نہیں تو زکاۃ کہاں سے ادا کرے گا ، علما کا کہنا ہے کہ گھاٹیوں میں جانے کا وقت وہ ہو گا جب دنیا فتنوں سے بھر جائے گی اور وہ دور شاید بہت قریب ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا غَيْرُ الشَّهِيدِ، فَإِنَّهُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا، يَقُولُ: حَتَّى أُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، مِمَّا يَرَى مِمَّا أَعْطَاهُ مِنَ الْكَرَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہید کے علاوہ کوئی جنتی ایسا نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہتا ہو وہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہتا ہے، کہتا ہے: (دل چاہتا ہے کہ) اللہ کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا جاؤں، یہ اس وجہ سے کہ وہ اس مقام کو دیکھ چکا ہے جس سے اللہ نے اس کو نوازا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۴۳ (تحفة الأشراف : ۱۳۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۴۳ (تحفة الأشراف : ۱۲۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ، وَيَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک شہید کے لیے چھ انعامات ہیں، (۱) خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، (۲) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے، (۳) عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے، (۴) «فزع الأكبر» (عظیم گھبراہٹ والے دن) سے مامون رہے گا، (۵) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، (۶) بہتر (۷۲) جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی، اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۶ (۲۷۹۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۵۵۶) ، و مسند احمد (۴/۱۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ چھ خصلتیں ایسی ہیں کہ شہید کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں ہوں گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَرَوْحَةٌ يَرُوحُهَا الْعَبْدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ لَغَدْوَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی راہ میں سرحد کی ایک دن کی پاسبانی کرنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، تم میں سے کسی کے کوڑے کے برابر جنت کی جگہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے اور بندے کا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کے وقت چلنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۶۴۸ (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: مَرَّ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ بِشُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ وَهُوَ فِي مُرَابَطٍ لَهُ، وَقَدْ شَقَّ عَلَيْهِ وَعَلَى أَصْحَابِهِ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكَ يَا ابْنَ السِّمْطِ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ، وَرُبَّمَا قَالَ: خَيْرٌ، مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، وَمَنْ مَاتَ فِيهِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، وَنُمِّيَ لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ سلمان فارسی رضی الله عنہ شرحبیل بن سمط کے پاس سے گزرے، وہ اپنے «مرابط» (سرحد پر پاسبانی کی جگہ) میں تھے، ان پر اور ان کے ساتھیوں پر وہاں رہنا گراں گزر رہا تھا، سلمان فارسی رضی الله عنہ نے کہا: ابن سمط؟ کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، سلمان رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی ایک ماہ روزہ رکھنے اور تہجد پڑھنے سے افضل ہے، آپ نے «أفضل» کی بجائے کبھی «خير» (بہتر ہے) کا لفظ کہا: اور جو شخص اس حالت میں وفات پا گیا، وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اور قیامت تک اس کا عمل بڑھایا جائے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۵۰ (۱۹۱۳) ، سنن النسائی/الجہاد ۳۹ (۳۱۶۹) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۱۰) ، و مسند احمد (۵/۴۴۰، ۴۴۱) (صحیح) (مؤلف کی سند میں محمد بن المنکدر اور سلمان فارسی رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، مگر مسلم اور نسائی کی سند جو بطریق شرحبیل بن سمط ہے متصل ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مرنے سے اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہو گا ، بلکہ تاقیامت جاری رہے گا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ بِغَيْرِ أَثَرٍ مِنْ جِهَادٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَفِيهِ ثُلْمَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَافِعٍ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ رَافِعٍ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ " وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: هُوَ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثُ سَلْمَانَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، عَنْ سَلْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جہاد کے کسی اثر کے بغیر اللہ تعالیٰ سے ملے ۱؎ تو وہ اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ اس کے اندر خلل (نقص و عیب) ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ولید بن مسلم کے واسطے سے اسماعیل بن رافع کی روایت سے ضعیف ہے، بعض محدثین نے اسماعیل بن رافع کی تضعیف کی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: اسماعیل ثقہ ہیں، مقارب الحدیث ہیں، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے،۳- سلمان کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن منکدر نے سلمان کو نہیں پایا ہے، یہ حدیث «عن أيوب بن موسى عن مكحول عن شرحبيل بن السمط عن سلمان عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجہاد ۵ (۲۷۶۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۵۵۴) (ضعیف) (اس کے راوی اسماعیل بن رافع کا حافظہ کمزور تھا)
وضاحت: ۱؎ : جہاد کی نشانیاں مثلاً زخم ، اس کی راہ کا گرد و غبار ، تھکان ، جہاد کے لیے مال و اسباب کی فراہمی اور مجاہدین کے ساتھ تعاون کرنا ، ان میں سے اس شخص کے ساتھ اگر کوئی چیز نہیں ہے تو رب العالمین سے اس کی ملاقات کامل نہیں سمجھی جائے گی ، بلکہ اس میں نقص و عیب ہو گا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عُثْمَانَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرَاهِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِهِ مَا بَدَا لَهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَنَازِلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: أَبُو صَالِحٍ مَوْلَى عُثْمَانَ اسْمُهُ: تُرْكَانُ.
ابوصالح مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ میں نے منبر پر عثمان رضی الله عنہ کو کہتے سنا: میں نے تم لوگوں سے ایک حدیث چھپا لی تھی جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس ڈر کی وجہ سے کہ تم مجھ سے جدا ہو جاؤ گے ۱؎ پھر میری سمجھ میں آیا کہ میں تم لوگوں سے اسے بیان کر دوں تاکہ ہر آدمی اپنے لیے وہی چیز اختیار کرے جو اس کی سمجھ میں آئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی پاسبانی کرنا دوسری جگہوں کے ایک ہزار دن کی پاسبانی سے بہتر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد ۳۹ (۳۱۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۹۸۴۴) ، و مسند احمد (۱/۶۲، ۶۵، ۶۶، ۷۵) ، سنن الدارمی/الجہاد ۳۲ (۲۴۶۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس حدیث میں جہاد سے متعلق جو فضیلت آئی ہے اسے سن کر تم لوگ سرحدوں کی پاسبانی اور اس کی حفاظت کی خاطر ہم سے جدا ہو جاؤ گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، وغير واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَجِدُ الشَّهِيدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ، إِلَّا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مِنْ مَسِّ الْقَرْصَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہید کو قتل سے صرف اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تکلیف تم میں سے کسی کو چٹکی لینے سے ہوتی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجہاد ۳۵ (۳۱۶۳) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۶ (۲۸۰۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۸۶۱) ، و مسند احمد (۲/۲۹۷) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ الْفِلَسْطِينِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ قَطْرَتَيْنِ، وَأَثَرَيْنِ: قَطْرَةٌ مِنْ دُمُوعٍ فِي خَشْيَةِ اللهِ، وَقَطْرَةُ دَمٍ تُهَرَاقُ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَأَمَّا الْأَثَرَانِ: فَأَثَرٌ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَأَثَرٌ فِي فَرِيضَةٍ مِنْ فَرَائِضِ اللهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانیوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے: آنسو کا ایک قطرہ جو اللہ کے خوف کی وجہ سے نکلے اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہے، دو نشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں لگے اور دوسری نشانی وہ ہے جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کی حالت میں لگے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۹۰۶) (حسن)